مھدی منتظر اور اسلامی فکر

مھدی منتظر اور اسلامی فکر0%

مھدی منتظر اور اسلامی فکر مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

مھدی منتظر اور اسلامی فکر

مؤلف: سید محمد نقوی
زمرہ جات:

مشاہدے: 8573
ڈاؤنلوڈ: 2001

تبصرے:

مھدی منتظر اور اسلامی فکر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 14 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8573 / ڈاؤنلوڈ: 2001
سائز سائز سائز
مھدی منتظر اور اسلامی فکر

مھدی منتظر اور اسلامی فکر

مؤلف:
اردو

مہدی محمد ابن حسن عسکری ہیں

اب ہم ان چند نصوص واحادیث کا ذکر کرتے ہیں جو بغیر تاویل کے حضرت امام مہدی پر دلالت کرتی ہیں اوران کی غیبت سے پہلے ان کی خبر دیتی ہیں۔

۱۔ صدوق نے اپنی صحیح سند کے ساتھ محمد بن حسن بن ولید سے انہوں نے محمد بن حسن صفار سے انہوں نے یعقوب بن یزید سے انہوں نے ایوب بن نوح سے وہ کہتے ہیں میں امام رضا سے عرض کیا :۔ ہمیں امید ہے کہ آپ کے ہاتھ میں حکومت آجائے گی اوراللہ تعالی بغیر تلوار کے اسے آپ کے پاس لوٹا دے گا اورآپ کی بیعت کرلی گئی ہے اورآپ کے نام کے دراہم چھپ چکے ہیں ۔

توآپ نے فرمایا "ہم میں سے کوئی نہیں ہے جسے خطوط لکھے گئے ہوں ، اوراس سے مسائل پوچھے گئے ہوں ، انگلیوں نے اس کی طرف اشارہ کئے ہوں اوراس کی طرف اموال لائے گئے ہوں مگر یہ کہ اسے قتل کردیا گیایا اسے بستر سے موت آئی۔

یہاں تک کہ خداوند متعال اس حکومت کے لیے ایک ایسے شخص کو بھیجے گا جس کی پیدائش اورپرورش مخفی ہو گی لیکن نسب مخفی نہیں ہوگا"(کمال الدین ۲:۳۶۰۔ اباب ۳۵)

اس حدیث میں امام مہدی کی ولادت کے متعلق امورکی طرف اشارہ ہے اوریہ کہ اس کا علم صرف امام حسن عسکری کے خواص کو ہو گا اس لیے ایک صحیح حدیث میں آیا ہے ۔"مہدی وہ ہے جس کے بارے میں لوگ کہیں گے ابھی تک پیدا نہیں ہوئے"۔

صدوق نے صحیح سند کے ساتھ روادیت کی ہے وہ کہتے ہیں ہم سے بیان کیا میرے باپ نے انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا سعد بن عبداللہ نے وہ کہتے ہیں ہم سے بیان کیاموسی خشاب نے اور انہوں نے عباس بن عامر قصبانی سے وہ کہتے ہیں میں نے امام موسی کاظم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ۔

"اس حکومت کا مالک وہ ہے جس کے بارے میں لوگ کہیں گے وہ ابھی پیدا نہیں ہوا"(کمال الدین ۲:۳۶۰۔۲باب ۳۴۔اسی باب میں دیگر طرق سے بھی ذکر کیا ہے۔)

۲۔ مقدسی شافعی نے عقدالدرر میں امام محمد بن باقر سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا:"یہ حکومت سن کے لحاظ سے ہم میں سے سب سے چھوٹے کے پاس آئے گی"(عقدالدرر :۱۸۸باب ۶)

اس میں بھی امام مہدی بن حسن عسکری کی طرف اشارہ ہے۔

۳۔کلینی نے صحیح سند کے ساتھ علی بن ابراہیم سے انہوں سے نے محمد بن حسین سے انہوں نے ابن ابی نجران سے انہوں نے فضالہ بن ایوب سے انہوں نے سدیر صیرافی سے روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں میں امام صادق کو یہ فرماتے ہوئے سنا "اس حکومت کامالک یوسف سے کچھ مشابہت رکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔

مزید فرماتے ہیں "اس امت کو اس لیے بھی تیار رہنا چاہئے کہ اللہ اپنی حجت کے ساتھ وہی کرے جو اس نے یوسف کے ساتھ کیا تھا کہ وہ ان کے بازاروں میں گھومے اور ان کی بساط کو باندھے یہاں تک کہ اللہ تعالی اس طرح اذن دے دے جیسے یوسف کو دیا تھا کہ لوگ کہنے لگیں کیا تو ہی یوسف ہے ؟تواس نے کہا ہاں میں ہی یوسف ہوں (اصول کافی۱:۳۳۶،۴ باب ۸۰)

۴۔ ینا بیع المودة میں امام رضا سے روایت ہے "حضرت امام حسن عسکری کی اولاد سے صالح فرزند ہی صاحب الزمان ہے اوروہی حضرت امام مہدی ہیں"

قندوزی نے ینا بیع میں نقل کیا ہے کہ یہ حدیث ابو نعیم اصفہانی کی کتاب الاربیعن میں بھی موجود ہے"(ینا بیع المودت ۳:۱۶۶باب نمبر ۹۴)

۵۔ اسی کتاب میں امام رضا سے روایت منقول ہے کہ :۔

"میرے بعد میرا بیٹا محمد امام ہے محمد کہ اس کا بیٹا علی اس کے بعد اس جا بیٹا حسن ،حسن کے اس کا بیٹا حجت قائم اوریہ وہی ہے جس کا غیبت میں انتظار کیا جائے گا، ظہور میں اس کی اطاعت کی جائے گی اوروہ زمین کو اس طرح عدل وانصاف سے پر کردے گا جیسے وہ ظلم وجور سے پر ہو چکی ہو گی۔

رہا یہ کہ کب قیام کرے گا ؟ تو یہ وقت بتائے گا مجھ سے میرے باپ نے اورانہوں نے اپنے آباء واجداد سے اور انہوں نے پیغمبراسلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا وہ قیامت کی طرح اچانک تمہارے پاس آجائے گا(ینا بیع المودت ۳:۱۱۵۔ ۱۱۶باب ۸۰، اس وضاحت کے ساتھ کہ اسے حموینی شافعی کی فرائد السمطین سے نقل کیا ہے)

۶۔ اصول کافی میں صحیح سند کے ساتھ علی بن ابراہیم سے انہوں نے حسن بن موسی خشاب سے انہوں نے عبداللہ بن موسی سے انہوں نے عبداللہ بن بکیر سے انہوں نے زرارة سے روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں میں نے حضرت امام جعفر صادق کو یہ فرماتے ہوئے سنا :۔

بیشک قیام سے پہلے ہمار بیٹا غالب ہو گا راوی کہتا ہے میں نے کہا ایسا کیوں توفرمایا خوف کی وجہ سے وہ اپنے پیٹ کی طرف اشارہ کیا پھر فرمایا:۔

اے زرارة یہی وہ منتظر ہے کہ لوگ جس کی ولادت میں شک کریں گے بعض کہیں گے اس کا باپ بغیر بچے کے مر گیا بعض کہیں گے یہ حمل میں تھا(یعنی باپ کی شہادت کے وقت شکم مادر میں تھا)بعض کہیں گے اپنے باپ کی موت سے دوسال پہلے پیدا ہوا ۔

اے زرارة یہی منتظر ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی شیعوں کا امتحان لے گا اس وقت باطل پرست لوگ شک وشبہ میں مبتلا ہوجائیں گے(اصول کافی ۱:۳۳۷۔۵باب ۸۰، کمال الدین ۲:۳۴۲۔۲۴باب ۳۳۔۲،۳۲۳۳۶باب ۳۳، ایک اورسند کیساتھ لیکن پہلی سند زیادہ عمدہ ہے)

وہ کہتے ہیں حضرت امام جعفرصادق نے فرمایا قائم کو دوغیبتیں ہوں گی ایک چھوٹی دوسری لبی پہلی غیبت میں اس کی جگہ کو فقط اس کے خاص شیعہ جانتے ہوں گے اوردوسری میں فقط خالص چاہنے والے(اصول کافی ۱:۳۴۰۔ ۱۹باب ۸۰)

اس حدیث کے حضرت امام جعفر صادق سے صادر ہونے میں شک نہیں ہے کیونکہ اس کے راوی موثق ہیں اورحضرت امام مہدی بن حسن عسکری علیھما السلام پر اس کی دلالت آفتاب نصف النہار کی طرح روشن ہے۔

۸۔ کمال الدین میں صحیح سند کیساتھ روایت نقل کی ہے کہتے ہیں "مجھے میرے باپ نے بیان کیا انہوں نے عبداللہ بن جعفر حمیری سے انہوں نے ایوب بن نوح سے انہوں نے محمد بن ابی عمیر سے انہوں نے جمیل بن دراج سے انہوں نے زرارة سے وہ کہتے ہیں حضرت جعفر صادق نے فرمایا:۔

لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں ان سے ان کا امام غائب ہو جائے گا ۔

میں نے عرض کیا لوگ اس زمانہ میں کیا کریں گے؟توفرمایا اسی شی کے ساتھ تمسک کریں جو ان کے پاس ہے حتی کہ ظاہر ہو جائے(کمال الدین ۲:۳۵۰۔۴۴باب ۳۳)

۹۔ اصول کافی میں علی بن ابراہیم سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے ابن عبی عمیر سے انہوں نے ابو ایوب خزاز سے انہوں نے محمد بن مسلم سے روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں میں نے حضرت امام جعفرصادق کو فرماتے ہوئے سنا"صاحب امر کی غیبت کے بارے میں اگرتمہیں خبر ملے تو اس کا انکار نہ کرنا"(اصول کافی ۱:۳۳۸۔ ۱۰باب ۸۰، اسی باب میں اس حدیث کو ا س کے ساتھ طریق صحیح ذکر کیا ہے ہمارے بعض علماء نے احمد بن محمد سے انہوں نے علی بن حکم سے اورانہوں نے محمد بن مسلم سے نقل کیا ہے۱:۳۴۰۔۱۵)

میں کہتا ہو ں بالاتفاق بارہ اماموں میں سے فقط حضرت امام مہدی غائب ہو ئے ہیں اورجب یہ حدیث صادر ہو ئی تھی اس وقت آپ پیدا نہیں ہوئے تھے اسی لئے اس حدیث میں ولادت کے بعد آپ کی غیبت پر تاکید کی گئی ہے کلینی بے اسے دوایسی سندوں کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ جن کے صحیح ہونے کے بارے میں علماء شیعہ کا اتفاق ہے

۱۰۔ کمال الدین میں ہے "مجھ سے بیا ن کیا میرے باپ دادااور محمد بن حسن (رضی اللہ تعالی عنہما)نے وہ کہتے ہیں میں ہم سے بیان کیا سعد بن عبداللہ اورعبداللہ بن جعفر حمیری اوراحمد بن ادریس اورانہوں نے کہا کہ ہم بیان کی احمد بن حسین بن ابوالخطاب اورمحمدبن عبدالجبار اورعبداللہ بن عامر بن سعد اشعری نے اورانہوں نے عبدالرحمن بن ابی نجران سے انہوں نے حضرت امام صادق سے کہ میں امام کو فرماتے ہوئے سنا:۔

خداکی قسم تمہارا مام کئی سال تک زندہ رہے گا اورتمہیں آزمایا جائے گا یہاں تک کہ اس کے متعلق کہاجائے گا وہ مر گیا یا جس وادی میں گیا تھا وہیں ہلاک ہوگیا اورمومنین کی آنکھیں اس پر آنسو بہائیں گی۔

اورتم اس طرح متزلزل ہو جاوگے جیسے کشتیاں سمندر کی لہروں میں ہچکولے کھاتی ہیں اورنہیں نجات پائے گا مگر وہ شخص کہ جس سے اللہ نے عہد وپیمان لیا ہوگا اوراس دل میں نور داخل کردیا ہو گا اورخود اس کی مدد کرے گا(کمال الدین ۲:۳۴۷۔۳۵باب ۳۳)

محمد بن مساور سے پہلے والے سب راوی بلا اختلاف جلیل القدر اورثقہ ہیں لیکن محمد بن مساور جو ۱۸۳ء ھ میں فوت ہوا مجہول ہے اورمفضل کی ثاقت میں بھی اختلاف ہے

لیکن خود یہ حدیث ان کے نقل حدیث کے سلسلے میں مانتداری کی بہترین دلیل ہے کیونکہ یہ ایسی اعجاز آمیزخبر ہے کہ جو ابن مساور کی وفات کے ستتر سال بعد وقوع پذیر ہوئی کیونکہ غیبت ۲۶۰ئھ میں ہوئی اورکلینی نے بھی اسے صحیح سند کے ساتھ محمد بن مساور سے اس نے مفضل سے نقل کیا ہے (اصول کافی ۱:۳۳۶۔۳ باب ۸۰)

لیکن اس مفہوم پر مشتمل دیگر کثیر روایات کو دیکھ کر اس کے صدور کا بھی یقین ہو جاتا ہے۔

مثلاابن سنان کی وہ صحیح حدیث کہ جسے صدوق نے اپنے باپ اورانہوں نے محمد بن حسن بن احمد بن ولید سے انہوں نے صفار سے انہوں نے عباس بن معروف سے انہوں نے علی بن مہزیار سے انہوں نے حسن بن محبوب سے انہوں نے اسحاق بن جریزسے انہوں نے عبداللہ بن سنان سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں میں اورمیرے والدحضرت جعفر صادق کے پاس حاضر ہوئے توآپ نے فرمایا:۔

اس وقت تمہارا کیا حال ہو گاجب تم ہدایت کرنے والے امام اورپرچم ہدایت کو نہیں دیکھ سکو گے()کمال الدین ۲:۳۴۸۔ ۴۰باب ۳۳

۱۱۔ اصول کافی میں ہے کہ ہمارے کئی علماء نے احمد بن محمد بن عیسیٰ سے انہوں نے اپنے باپ محمد عیسیٰ سے انہوں نے بکیر سے انہوں نے زراة سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں میں نے حضرت جعفر صادق کوفرماتے ہوئے سنا "بے شک قائم آل محمد قیام سے پہلے غائب ہو گاوہ ڈرے گااورحضرت نے اپنے پیٹ کی طرف اشارہ کی یعنی قتل سے "(اصول کافی ۱:۳۴۰۔۱۸باب ۸۰، کمال الدین ۲:۴۱۸۔۰ا باب ۴۴میں صدوق نے اسے صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے کیونکہ محمدبن ماجیلویہ ثقہ ہے)اوراس کی سند بالاتفاق صحیح ہے

۱۲۔ مقدسی شافعی کی عقدالدرر میں شہید کربلا حضرت امام حسین سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :اس حکومت کا مالک ، حضرت امام مہدی علیہ السلام دودفعہ غائب ہو گا ، ایک غیبت زیادہ طویل ہو گی حتی کہ بعض لوگ کہنے لگیں گے کہ فوت ہوگیا بعض کہیں گے قتل کردیا گیا اوربعض کہیں گے چلا گیا "(عقدالدرر ۱۷۸باب ۵)

اس طرح کی احادیث صحیح سند کے ساتھ پہلے بیان ہو چکی ہیں ملاحظہ ہو نمبر ۷۔۶

۱۳۔ کمال الدین میں ہے کہ "مجھ سے بیان کیا میرے باپ اور محمد بن حسن (رضی اللہ عنہما)نے انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا سعد بن عبداللہ اورعبدا للہ بن جعفر حمیری نے کہا ہم سے بیان کیا احمد بن حسین بن عمر بن یزید نے انہوں نے حسین بن ربیع مدائنی سے (کافی ۱:۳۴۱۔۳۳ باب ۸۰ ، میں اسے احمد بن حسن سے اس نے عمر بن یزید سے اس نے حسن بن ربیع ہمدانی سے ذکر کیا ہے۔اورظاہرہ یہ صحیح ہے کیونکہ سعد اورحمیری نے احمد بن حسین بن عمر بن یزید سے روایت نہیں کی بلکہ سعد نے بہت سارے مقامات پر احمد بن حسن سے روایت نقل کی ہے اوراس سے مراد ابن علی بن فضال فطعی ثقہ ہے رہا عمر بن یزید تو چاہے یہ صیقل ہو یا بیاع سابری اس کی وفات غیبت سے دسیوں سال پہلے ہوئی ہے)

انہوں نے محمد بن اسحاق سے انہوں نے اسید بن ثعلبہ سے انہوں نے ام ہانی سے کہ وہ کہتی ہیں جب میں جب میں نے امام محمد باقر سے ملاقات کی تومیں نے ان سے اس آیت"( فلا اقسم با لخنس الجوار الکنس ) "

مجھے ان ستاروں کی قسم جو چلتے چلتے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اورغائب ہو جاتے ہیں ۔ کے متعلق سوال کیا توآپ نے فرمایا :۔

یہ وہ امام ہے جو اپنے والد کی وفات کے بعد ۲۶۰ئھ میں غا ئب ہوگا پھر رات کی تاریکی میں چمکنے والے شہاب ستارے کی طرح ظاہر ہو گا اگرآپ اسے پائیں گی تو آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائے گی (کمال الدین ۱۔۳۲۴:۱باب ۳۲اسی باب میں ۱: ۳۳۰ ۱۵باب ۳۲اسے ام ہانی نے تھوڑسے سے اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے)

پہلے یہ لوگ فوت ہو چکے تھے پس یہ حدیث ان کے سچے ہونے کی دلیل ہے۔

۱۴۔ کمال الدین میں صحیح سند سے یہ روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں ہم سے بیان کیا محمد بن حسن (رضی اللہ عنہ )نے انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا سعد بن عبداللہ نے انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا ابو جعفر محمد بن احمد علوی نے اورانہوں نے ابو ہاشم داودبن قاسم جعفری سے وہ کہتے ہیں میں امام علی نقی کو فرماتے ہوئے سنا :۔

"میرے بعد میرا جانشین میرا بیٹا حسن ہو گاپس جانشین کے جانشین کے بارے میں تم کیا کرو گے۔

میں نے عرض کی میں قربان ہوجاوں ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ؟

توفرمایا:۔کیونکہ تم اسے دیکھ نہیں سکو گے اوراسے تمہارے لئے نام کے سات ذکر کرنا جائز نہیں ہوگا میں نے کہا پس ہم کیسے ذکر کریں گے توفرمایا:تم کہنا حجت آل محمد (کمال الدین ۲:۳۸۱۔۵باب ۳۷،کافی ۱:۳۲۸۔۳باب ۷۵)

یہ سند حجت ہے کیونکہ اس کے سب راوی موثق ہیں اوراس میں جو علوی ہیں یہ جلیل القدرشیعہ مشایخ میں سے ہیں جیسا کہ نجاشی نے اپنے رجال میں العمر کی البو فلی کے حالات میں تحریر کیا ہے(رجال نجاشی ۸۲۸۔۳۰۳)اس سلسلہ میں یہی احادیث کافی ہیں لیکن تین کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا ضروری ہے۔

اول :۔آخری حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کو بالکل نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ جس جملے میں نام لینے سے منع کیا گیا ہے اس کا سبب دیگر روایات میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی زندگی کے لیے جو خطر ہ بیان کیا گیا ہے(حضرت امام مہدی کی ولادت کی دلیلوں میں ہم ان احدیث کی طرف اشاری کریں گے۔)

اگر اس جملے کو (تم اسے نہیں دیکھ سکتے ) کونام لینے سے منع کرنے والے جملے کہ جس کی علامت دیگر احادیث میں آپ کی جان کو لاحق خطرہ بتایا گیا ہے کے ساتھ ملایا جائے تویہ غیبت سے کنایہ ہے یعنی تم اپنے امام مہدی کو جب چاہو نہیں دیکھ سکتے کیونکہ تم جس طرح میری زندگی میں مجھے دیکھنے پر قادر ہو اس طرح اسے دیکھنے پر قادر نہیں ہوگے کیونکہ وہ تم سے غائب ہوگا اوراس کا نام لیکر ذکر نہ کرنا کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن اسے پہچان کے اسے پانے پر قادر ہوجائے ۔خلاصہ یہ ہے کہ :۔دیکھنے کی نفی غیبت کی طرف کنایہ ہے اورنام لینے سے منع کرنا خطرے کی وجہ سے تھا اورپھر نفی اورنہی بھی زمانہ غیبت سے مخصوص تھی اور یہ صرف ان سب یا بعض مخاطبین کے لیے تھی ورنہ امام حسن عسکری کی زندگی میں میں آپ کو دیکھا تھا اوربہت سارے لوگوں نے آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کو دیکھ اتھا جیسا کہ اسی فصل میں بیان کریں گے۔

دوم :۔ جو نصوص وروایات ہم نے ذکر کی ہیں یہ اس سلسلے میں وارد ہونے والی روایات کا ایک مختصر سا نمونہ تھا اورہم نے ان کا انتخاب کسی علمی تحقیق کے لیے نہیں کیا یعنی ہم نے صحیح اسانید سے بحث عقیدے کو پختہ کرنے کے لیے نہیں کی کیونکہ ہمارا عقیدہ توپہلے ہی راسخ ہے بلکہ صرف اپنے دعوی کو ثابت کرنے کے لیے ایک وسیلے کے طور پر اسے بیان کیا ہے ورنہ ہمیں ان اسانید کی بالکل ضرورت نہیں ہے کیونکہ :۔

اولا:۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وجود کے آخری زمانے تک مستمررہنے پر وافر مقدار میں قطعی دلیلیں موجود ہیں جیسا کہ ان کو تفصیل سے پیش کرچکا ہوں اور ان کے ہوتے ہوئے ان اسانید کیضرورت نہیں ہے۔

ثانیہ اس بات پر وافر دلیلیں موجود ہیں کہ امام مہدی کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث بلاواسطہ طور پر ان کتابوں سے لی گئی ہیں جو آپ کی ولادت سے دسیوں سال پہلے لکھی گئی ہیں اورشیخ صدوق نے اس کی گواہی دی ہے

پس اگر کسی کی سند میں کوئی ضعف تھا بھی تووہ مضر نہیں ہے کیونکہ ان کا اس اعجاز نما خبر پر مشتمل ہونا جو بعد میں وقوع پذیر ہوئی خود ان کے سچے ہونے کی علامت ہے۔

سوم:۔احادیث حضرت امام مہدی علیہ السلام چاہے پیغمبر سے منقول ہوں یا اہل بیت علیھم السلام سے ایک ہی حقیقت پر مشتمل ہیں اوران میں کوئی فرق نہیں ہے اورجس طرح اس حقیقت کو صحیح حدیث ثابت کرتی ہے اسی طرح ضعیف بھی ثابت کرتی ہے کیونکہ اگرکوئی موثق شخص خبر دے کہ زید مرگیا ہے پھر ایک خیر موثق بھی یہی خبر دے توہم اسے نہیں کہ سکتے کہ توجھوٹ بول رہا ہے ۔

اسی طرح تیسرا ، چوتھا ، پانچواں ۔۔۔دسواں شخص یہی خبر لائے توہم نہیں کہہ سکتے تم جھوٹ بول رہے ہو چاہے ہمیں علم نہ بھی ہو کہ وہ سچا ہے یا نہیں بلکہ ان میں سے ہر خبر ایک احتمالی قرینہ ہو گی کہ جسے اس سچی خبر کے ساتھ ملایا جائے گا حتی کہ وہ سچی خبر درجہ یقین کو پہنچ جائے گی۔

کیونکہ جتنے قرائن زیادہ ہوتے ہین اتنا ہی ان کی نقیض کا احتمال کم ہوتا ہے ۔

اگریہی موضوع پر اخبار اتنی زیادہ ہوں جن کی وجہ سے انسان یقین کی حد تک پہنچ جائے تومحال ہے کہ وہ موضوع سچا اورواقع کے مطابق نہ ہو۔

یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام عملی قدروں کو ٹھوکر مار کر بالخصوص یہ ثابت ہونے کے بعد کہ ان سے مراد امام مہدی ہیں علم حدیث کی الف ، با سے ناواقف بعض لوگ جو احادیث مہدی کے متعلق شکوک وشہبات پیدا کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ :۔

یہ اس مہدی پر دلالت نہیں کرتیں تویہ درحقیقت ایک ناشناختہ شکست کا اظہار اوراس بات کا آئینہ دار ہے کہ کسی عقیدے سے بحث کرنے کیلے ان کے پاس فکری مواد بہت کم ہے اسی وجہ سے جھوٹ اورغلط بیانی کی کوئی پروا نہیں کرتے۔

البتہ اصلاح کرنے کے پس پردہ عقائد کو کتابی صنعت کی شکل میں بیان کرنے کی ان کی کوشش اس بات کا مظہر ہے کہ ان کاسر چشمہ مغربی تمدن ہے اسی سے وہ رہنمائی حاصل کرتے ہیں اوراس سلسلے میں انہیں کا پیسہ خرج ہوتا ہے ۔

لیکن وہ لوگ اس بات سے غافل ہیں کہ عقیدہ ہوا کی سمت کوئی کوڑا کرکٹ نہیں اوراس صحیح راہ روش کو انہوں نے ترک کردیا جس کو پیغمبر اکرم اوران کی اہل بیت نے امام مہدی کا پہنچاننے کے لیے معین کیا تھا اوراس کے ساتھ ہی ان کا نام ونسب بھی بتادیا تھا

امام مہدی کی ولادت

امام مہدی کے اہلبیت میں سے ہونے ، ان کے آخری زمانے میں ظہور کرنے اوراس پر مسلمانوں کا اتفاق جان لینے کے بعد ہمیں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کو ثابت کرنے والی دلیلوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

جب کہ امام مہدی کے نسب سے جو بحث ہم نے کی تھی اس کا نتیجہ بھی واضح ہے کہ بیشک امام مہدی اہل بیت کے بارہ اماموں میں سے بارہویں امام ہیں اورآپ کا سلسلہ نسب یوں ہے محمد بن حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابو طالب علیھم السلام ۔

آپ باپ کی طرف سے حسینی اورماں کی طرف سے حسنی ہیں کیونکہ امام باقر کی والدہ گرامی امام حسن کی دختر اختر جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا تھیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت امام مہدی کی ولادت اوراس کے شرعی ثبوت کے بارے میں بحث کرنا ایک غیر طبیعی بحث ہے مگر بعض تاریخی مغالطوں اورشکوک وشبہات کی وجہ سے جیسا کہ آپ کے چچا جعفر کذاب کا دعوی کرنا کہ میرے بھائی حسن کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔

اورحکومت وقت کا ان کے اس دعوی کو قبول کرتے ہوئے امام حسن عسکری کی وارثت ان کے حوالے کردینا جیسا کہ خود علماء شیعہ اثنی عشری نے لکھا ہے اور اگر غیر شیعہ نے لکھا ہے توانہیں کے طرق سے نقل کیا ہے۔

یہی چیز ایک منصف اورغور وفکر کرنے والے کیلیے کافی ہے کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ شیعہ ایک چیز کو نقل کریں اوراس کے بطلان کو ثابت کیے بغیر اس کے خلاف عقیدہ رکھیں یہ ایسا ہی ہے جیسے شیعہ ان روایات کو نقل کرتے ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ معاویہ ، حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں پیغمبر کے ہاں کسی بھی مقام ومرتبے کا قائل نہیں تھا۔

پس معاویہ کا انکار بھی ثابت ہے اورحضرت علی کا مقام ومرتبہ بھی ثابت ہے اوردونوں کا ثبوت یقین کی حدتک ہے۔

اسی طرح شیعوں کے یہاں جعفر کذاب کا انکار اورحکومت وقت کا ان کے انکار سے مطابق عمل درآمد کرنا ثابت ہے اوراس کے مقابلہ میں حضرت امام مہدی کی ولادت بھی ،اقرار ، مشاہدہ اوربرہان کے ساتھ ثابت ہے۔

لیکن مغرب کے دستر خوانوں پر پلنے والے انہیں شبہات سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اورانہیں (اصلاح )کے نئے اوررنگارنگ لباس سے سجاتے ہیں ۔

چنانچہ ہمارا دعوی ہے کہ کسی شخص کی ولادت صرف اس کے باپ اوردادا کی گواہی سے ثابت ہوجاتی ہے چاہے اسے کسی نے بھی نہ دیکھا ہومورخین نے اس کی ولادت کا اعتراف کیا ہو۔

علماء نساب نے اس کا نسب بیان کیا ہو اس کے قریبی لوگوں نے اس کے ہاتھ پر معجزات کا مشاہدہ کیا ہو اس سے وصیتیں اور تعلیمات ،نصیحتیں اورارشادات ، خطوط ، دعائیں ، درود ، منا جات منقول ہوں ، مشہور اقوال اورمنقول کلمات صادر ہوئے ہوں ، اس کے وکیل معروف ہوں ،ان کے سفیر معلوم ہوں اورہر عصر ونسل میں لاکھوں لوگ اس کے مدر گار اورپیروکار ہوں۔

مجھے اپنی عمر کی قسم!جو شخص ان شبہات کو ابھارتاہے اورحضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کا انکار کرتا ہے کیا اس سے زیادہ ثبوت چاہتا ہے یا اپنی زبان حال کے ساتھ مہدی کو وہی کہہ رہا ہے جو زبان متعال کے ساتھ مشرکین آپ کے جد امجد پیغمبر کے بارے میں کہتے تھے۔

"وقالو الن نومن لک حتی تفجرلنا من الارض ینبوعاً ، اوتکون لک جنة من نخیل وعنب فتفجر الانهارخلالها تفجیرا،اوتسقط السماء کمازعمت علینا کسفااو تاتی بالله والملائکة قبیلاً ، اویکون لک بیت من زخرف اوترقی فی السماء ولن نومن لرقیبک حتی تنزل علینا کتابا نقروه! قل سبحان ربی هل کنت الا بشرا رسولا

کفار مکہ نے کہا جب تک تم ہمارے واسطے زمین سے چشمہ جاری نہیں کروگے ہم تم پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یا کھجوروں اورانگوروں کا تمہارا کوئی باغ ہو اس میں تم بیچ بیچ میں نہریں جاری کرکے دکھاویا جیسے تم گمان رکھتے تھے ہم آسمان کو ٹکرے کرکے گراؤ یا خدا اور فرشتوں کو اپنے قول کی تصدیق میں ہمارے سامنے گواہی میں لا کھڑا کرو یا تمہارے رہنے کیلیے کوئی طلائی محل سرا ہو یا تم آسمان پر چڑھ جاو۔

اورجب تک ہم تم پر (خدا کے ہاں سے ایک )کتاب نازل نہ کرو گے ہم اسے خود پڑھ لیں اس وقت تک ہم تمہارے آسمان پر چڑھنے کے بھی قابل نہیں ہو گے (اے رسول )تم کہہ دو کہ میں ایک آدمی (خدا کے)رسول کے سوا اورکیا ہوں (جو یہ بیہودہ باتیں کرتے ہو(اسراء ۱۷:۹۴۔۹۰)

اے اللہ تعالی ! ہمیں اس کی ہدایت کی کوئی امید نہیں جو حق کو پہچان کر باطل سے تمسک کرتا ہے کیونکہ ج سورج کی روشنی میں نہیں دیکھ سکتا وہ چاند کی روشنی میں کیسے دیکھ سکتا ہے ہم توجاہل تک حق کو پہنچانا چاہتے ہیں اورکمزورایمان ک وقوی کرنا چاہتے ہیں ۔

حضرت امام حسن عسکری کا اپنے فرزند حضرت امام مہدی کی ولادت کی خبر دینا۔

اس کی دلیل وہ روایت ہے جو محمد بن یحییٰ عطار نے احمد بن اسحاق سے انہوں نے ابو ہاشم جعفری سے صحیح سند کے ساتھ نقل کی ہے

وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسن عسکری سے عرض کیا آپ کی عظمت مجھے آپ سے سوال کرنے سے روکتی ہے پس مجھے آپ سوال کرنے کی اجازت فرمائیں توآپ نے فرمایا:۔

پوچھو !میں نے عرض کیا اے میرے آقا کیا آپ کا کوئی فرزند ہے ؟

آپ نے فرمایا:۔ ہاں

میں نے کہا اگرآپ کو کوئی حادثہ پیش آگیا تواسے کہاں تلاش کریں ؟فرمایا مدینہ میں "(اصول کافی ۲۔۳۲۸:اباب ۷۶)

اورعلی بن محمد کی محمد بن علی بن بلال سے صحیح روایت ہے وہ کہتے ہیں مجھے امام حسن عسکری نے اپنی وفات سے دوسال قبل خط لکھ کر اپنے خلیفہ کی خبر دی پھر اپنی وفات سے تین دن پہلے خط لکھ کر مجھے یہی خبر دی(اصول کافی ۱: ۳۲۹۔۲باب ۷۶)

علی بن محمد سے مراد ثقہ اورفاضل ادیب ابن بندار ہیں اورمحمد بن علی بن بلال کی وثاقت اورعظمت زبان زد خاص وعام ہے اورعلماء رجال کے بقول ابوالقاسم حسین بن روح جیسے افراد آپ کے پاس آتے تھے۔

دایہ کی امام مہدی کی ولادت کے بارے میں گواہی

یہ پاک وپاکیزہ علوی سیدہ امام جواد کی بیٹی ، امام ہادی کی بہن اورحضرت امام عسکری علیہ السلام کی پھوپھی حکیمہ ہیں امام زمانہ کی ولادت کے وقت آپ کی والدہ نرجس خاتون کی دایہ کا کام آپ نے سر انجام دیا تھا (کمال الدین ۲۔۴۲۴،۱ وباب ۴۲شیخ کی الغیبة ۲۰۴۔۲۳۴)

اورولادت کے بعد امام زمانہ کو دیکھنے کی گواہی دی تھی (اصول کافی ۱:۳۳۰، باب ۷۷، کمال الدین ۲:۴۳۳۔۱۴باب ۴۲)اورولادت کے کام میں بعض عورتوں نے آپ کی مدد کی تھی جیسے ابوعلی خیزرانی کی لونڈی جو اس نے امام عسکری کو ہدیة کے طور پر دی تھی جیسا کہ موثق راوی محمد بن یحییٰ کی روایت میں ہے (کمال الدین ۲:۴۲۱۔۷باب ۴۲)اورامام عسکری کی خادمہ ماریہ اورنسیم (کمال الدین ۲:۴۳۰۔۵باب۴۲۔شیخ کی کتاب الغیبة ۲۱۱۔۲۴۴)

مخفی نہ رہے کہ مسلمانوں کے بچوں کی پیدائش کے وقت ماں کا مشاہدہ فقط دایہ کرتی ہے جو اس کا انکارکرتا ہے وہ ثابت کرے کہ اس کی ماں کو دایہ کے علاوہ کے علاوہ بھی کسی نے دیکھا تھا ۔اور پھر امام مہدی کی ولادت کے بعد امام عسکری نے سنت شریفہ کو جاری کرتے ہوئے عقیقہ کیا تھا جیسا کہ سنت محمدیہ کے پابند لوگ بچے کی پیدائش کے وقت کرتے ہیں۔

آئمة کے اصحاب اورغیر اصحاب میں سے جن لوگوں نے امام مہدی کو دیکھنے کی گواہی دی ہے

امام عسکری کی زندگی میں اورآپ کی اجازت سے آپ کے اورآپ کے والد امام ہادی کے کئی اصحاب نے امام مہدی کو دیکھنے کی گواہی دی ہے۔

جیسا کہ امام عسکری کی وفات کے بعد اورغیبت صغری میں کہ جو۲۶۰ئھ سے ۳۲۹ئھ تک جاری رہی اس میں کئی لوگوں نے امام زمانہ کو دیکھنے کی گواہی دی ہے

ان گواہی دینے والوں کی کثرت کے پیش نظر انہیں دیکھنے کا ذکر کریں گے جنہیں کافی بزرگان متقد میں نے ذکر کیا ہے۔

اوروہ ہیں کلینی (وفات ۳۲۹ہجری)کہ جنہوں نے تقریباً غیبت صغری کا پورا زمانہ پایا ہے۔

صدوق (متوفی ۳۸۱ہجری )کہ جنہوں نے غیبت صغری کے بیس سال زیادہ سال پائے ہیں

شیخ مفید (متوفی ۴۱۳ہجری)اورشیخ طوسی(متوفی ۴۶۰ہجری)اوران روایات میں سے فقط چند ایک کو ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جن میں آپ کو دیکھنے والوں کے نام بھی ہیں۔

اس کے بعد ہم فقط آپ کو دیکھنے والوں کے نام ذکر کریں گے اوریہ بتائیں گے کہ کتب اربعة میں کہاں کہاں پر ان کی روایا ت موجود ہیں۔

۱۔ کلینی نے صحیح سند کے ساتھ محمد بن عبداللہ اورمحمد بن یحییٰ سے انہوں نے عبداللہ بن جعفرحمیری سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں :۔

"میں اورشیخ ابوعمرو ، احمد بن اسحاق کے پاس جمع ہوئے احمد بن اسحاق نے مجھے اشارہ کیا کہ جانشین کے متعلق سوال کروں میں نے کہا اے ابو عمرومیں تم سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں اورجس چیز کا میں سوال کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے کوئی شک نہیں ہے

یہاں تک کہ عمری کی تعریف اورآئمہ کی زبانی اس کی توثیق کرنے کے بعد کہتا ہے پس ابو عمرو سجدے میں گر گئے اورگر یہ کرنے لگے پھر مجھ سے پوچھ جو چاہتا ہے تومیں نے کہا کیا تم نے امام عسکری کے جانشین کو دیکھا ہے؟

انہوں نے جواب دیا ہاں خدا کی قسم اوران کی گردن ایسی ہے اورانہوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا میں نے کہا نام کیا ہے توکہا اس کے متعلق سوال کرنا حرام ہے اوریہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں میں کون ہوتا ہوں حلال اورحرام کرنے والا بلکہ امام نے خود فرمایا ہے۔

کیونکہ حکومت سمجھتی ہے کہ امام عسکری فوت ہوگئے اور ان کا کوئی بیٹا نہیں تھا اور ان کی میراث کو دے دی ہے جس کا کوئی حق نہیں تھا اوران کے عیال ہیں جو چکر کاٹتے پھرتے ہیں اورکوئی جرا ت نہیں کرتا کہ ان کی پہچان کرائے یا انہیں کوئی چیز دے اورجب نام آجائے گا توتلاش شروع ہوجائے گی پس اس سے باز رہو(اصول کافی ۱: ۳۳۰۔۳۲۹۔ ۱باب ۷۷، اورصدوق نے اسے کمال الدین ۱۴۔۴۴۱:۴باب ۴۳، میں صحیح سند کے ساتھ اپنے باپ سے انہوں نے محمد بن حسن سے انہوں نے عبداللہ بن جعفر حمیری سے روایت کیا ہے)

۲۔کافی میں صحیح سند کے ساتھ علی بن محمد جوابن بندار ثقہ انہوں نے مہران قلانسی ثقہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں :۔

میں نے عمری سے کہا حضرت امام حسن عسکری بھی چلے گئے تواس نے کہا چلے گئے لیکن اپنا جانشین تم میں چھوڑ گئے کہ جس کی گردن اس طرح ہے اوراپنے ہاتھ سے اشاری کیا (اصول کافی ۱:۳۲۹۔ ۴باب ۷۶، ۳۳۱۱۔۴باب ۷۷)

۳۔ صدوق نے صحیح سند کے ساتھ جلیل القدر مشایخ سے روایت نقل کی ہے کہتے ہیں ہم سے بیان کیا محمد بن حسن (رضی اللہ عنہ)نے وہ کہتے ہیں ہم سے بیان کیا عبداللہ بن جعفر حمیری نے وہ کہتے ہیں میں نے محمد بن عثمان عمری رضی اللہ عنہ سے کہا میں آپ سے وہی سوال کرناچاہتا ہوں جو ابراہیم نے اپنے پروردگار سے کیا تھا جب انہوں نے کہا تھا :۔

"رب ارنی کیف تحیی الموتی قال اول، تومن قال بلیٰ ولکن لیطمئن قلبی"

"اے میرے پروردگار مجھے دکھا دے کہ توکیسے مردوں کو زندہ کرتا ہے فرمایا :کی توایمان نہیں رکھتا کہا کیوں نہیں لیکن اس لئے کہ میرا دل مطمئن ہوجائے(البقرہ۲:۲۶۰)

پس تومجھے اس حکومت کے وارث کے بارے میں بتا کیا تونے اس کودیکھا ہے تواس نے کہا :ہاں اوراس کی اس طرح گردن ہے اوراپنے ہاتھ سے اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا(کمال الدین ۲:۴۳۵۔۳باب ۴۳)

۴۔ صدوق نے کمال الدین میں روایت نقل کی ہے کہتے ہیں ہم سے بیان کیا ابوجعفر محمد بن علی اسود نے وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے علی بن حسین بن موسی بن بابویہ نے محمدبن عثمان عمری کی وفات کے بعد کہا میں ابوالقاسم روحی سے کہوں گا کہ وہ امام زمانہ سے عرض کریں کہ وہ میرے لئے ایک بیٹے کی اللہ سے دعافرمائیں ۔

وہ کہتے ہیں میں نے ان سے کہا اورانہوں نے آگے بات پہنچائی پھر تین دن کے بعد مجھے خبر دی کہ امام نے علی بن حسین علیھم السلام کے لئے دعامانگی ہے اورعنقریب خداتعالی اسے ایک مبارک بیٹا عطا کرے گا جس کے ذریعے خداتعالی نفع پہنچائے گا اوراس کے بعد اوربچے ہوں گے۔

پھر صدوق اس کے بعد کہتے ہیں :ابو جعفر محمد بن علی اسود جب بھی مجھے اپنے استاد محمد بن حسن بن احمد بن ولید رضی عنہ کے پاس آتے جاتے علوم کو لکھتے اورحفظ کرتے ہوئے دیکھتے توکہتے کہ تعجب نہیں ہے کہ تجھے علم کا اس قدر شوق ہو کیونکہ تو امام زمانہ کی دعا سے پیدا ہواہے(کمال الدین ۲:۵۰۲۔۳۱باب ۲۵)

۵۔شیخ طوسی نے کتاب الغیبہ میں جلیل القدر علماء سے روادیت کی کہتے ہیں "مجھے خبر دی محمد بن محمد بن نعمان اورحسین بن عبیداللہ نے ابو عبداللہ محمد بن احمد بن صفوانی سے وہ کہتے ہیں شیخ ابوالقاسم (رضی اللہ عنہ )نے ابو الحسن علی بن سمری کو وصیت کی۔

چنانچہ آپ بھی ابوالقاسم تیسراسفیرہی کی طرح کام کرتے ہیں رہے جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا توشیعہ آپ کے پاس آئے اورسوال کیا کیا کہ آپ کے بعد وکیل اورآپ کا قائم مقام کون ہے توآپ نے صرف اتنا بتایا کہ مجھے اس سلسلے میں اپنے بعد کسی کو وصیت کرنے کا حکم نہیں دیا گیا(کتاب الغیبة شیخ طوسی ۲۶۳۔۳۹۴)

اورواضح ہے کہ سمری کا مقام امام علیہ السلام کی وکالت میں وہی ہے جو ابوالقاسم حسین بن روح کا ہے لہذا ضرورت کے وقت آپ امام کی طرف رجوع کرتے تھے اورآپ کی زیارت سے شرفیاب ہوتے تھے

اسی وجہ سے امام زمانہ کے ارشادات ، وصیتیں اورحکام ان کے چارسفیروں کی روایات میں متواتر ہیں(یہ سب تین جلدوں میں "المختارمن کلمات الامام المہدی"تالیف شیخ غروی کے نام سے چھپ چکی ہے)

اوردیگر کثیر روایات موجود ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ چار سفیر وں میں سے ہر ایک نے اپنی وکالت کے زمانے میں امام کو دیکھا تھا اوربہت سارے مواقو میں توشیعوں کے سامنے دیکھا۔

جیساکہ ہم امام زمانہ کو دیکھنے والوں کے ناموں میں اس کی طرف اشارہ کریں گے دیکھنے والے مندرجہ ذیل ہیں

ابراہیم بن ادریس ابواحمد (الکافی ۱:۳۳۱۔۸باب۷۷۔ارشادشیخ مفید ۲:۲۵۲شیخ طوسی کی کتاب الغیبة ۲۳۲۔۲۶۸اور۳۱۹،۳۵۷)

ابراہیم بن عبدہ نیشاپوری (الکافی ۱:۳۳۱۔۶باب ۷۷، ارشاد ۲:۳۵۲، الغیبة ۲۳۱۔۲۶۸)ابراہیم بن محمدتبریزی(الغیبة۲۲۶۔۲۵۹)

ابراہیم بن مہز یار ابو اسحاق اہوازی (کمال الدین ۲:۴۴۵۔۱۹باب ۲۳)احمد بن اسحاق بن سعد اشعری(کمال الدین ۲:۳۸۴۔۱باب ۳۸)

اوراس نے امام کو دوسری مرتبہ (شیخ صدوق کے والد اورکلینی کے مشایخ میں سے )سعد بن عبداللہ بن ابی خلف اشعری کے ہمراہ بھی دیکھا تھا(کمال الدین ۲:۴۵۶۔۲۱باب ۴۳)احمد بن حسین بن عبدالملک ابو جعفر ازدی بعض نے کہا ہے اودی (کمال الدین ۲:۴۴۴۔۱۸باب ۴۳۔الغیبة ۲۲۳۔۲۵۳)عباس کی اولاد میں سے احمد بن عبداللہ ہاشمی انتالیس مردوں کے ہمراہ(الغیبة ۲۲۶۔۲۵۸)احمد بن محمد بن مطہر ابو علی جو امام ہادی اورامام عسکری کے اصحاب میں سے ہیں(الکافی ۱: ۳۳۱۔۵ باب ۷۷ ۔ارشاد ۲:۲۳۵۲۔الغیبة ۲۳۳:۲۶۹)

ابو غالی ملعون احمد بن ہلال ابو جعفر العبر تائی ایک جماعت کے ہمراہکہ جس میں علی بن بلال ،محمد بن معاویہ بن حکیم ، حسن بن ایوب بن نوح ، عثمان بن سعید عمری (رضی اللہ عنہ )اوردیگر افراد ان کی پوری تعداد چالیس تھی(الغیبة ۳۱۹۔۳۵۷)اسماعیل بن علی النو بختی ابو سہل (الغیبة ۲۳۷۔۲۷۲)ابو عبداللہ بن صالح(الکافی ۱:۳۳۱۔۷باب ۷۷ ، ارشاد ۲:۳۵۲)ابو محمد الحسن بن وجناء النصیبی (کمال الدین ۲:۴۴۳۔۱۷باب ۴۳)ابو ہارون جو محمد بن حسن کرخی کے مشایخ میں سے ہیں (کمال الدین ۲:۴۳۲، ۹باب ۴۳،اور ۴۳۴۲۔۱باب ۴۳)امام زمانہ کا چچا جعفر کذاب اس نے آپ کو دومرتبہ دیکھا تھا (الکافی ۱:۳۳۱۔۹باب ۷۷، کمال الدین ۲:۴۴۲۔۱۵باب ۴۳الارشاد۲:۳۵۳الغیبة ۲۱۷۔۱۴۷)سیدہ علویة حکیمہ بنت امام جواد(الکافی ۱:۳۳۱۔۳باب ۷۷، کمال الدین ۲:۴۲۴، ۱باب ۴۲اور۲:۴۲۶۔۲باب ۴۲، الارشاد ۲:۳۵۱،الغیبة ۲۰۴،۲۳۴اور۲۰۵۔۲۳۷اور۲۰۷۔۲۳۹)

زہری اوربعض نے کہا ہے زہرانی اور اس کے ہمراہ عمری (رضی اللہ عنہ )تھے (الغیبة ۲۳۶۔۲۷۱)رشیق صاحب المادرای (الغیبة ۲۱۸۔۲۴۸)

اورابو القاسم روحی (رضی اللہ تعالی عنہ)(کمال الدین ۲:۵۰۲۔۶۱باب ۴۵، الغیبة ۲۶۶۔۳۲۰اور۲۶۹۔۳۲۲)

عبداللہ سوری(کمال الدین ۲:۴۴۱۔۱۳باب ۴۳)عمرواہوازی(الکافی ۱:۳۲۸۔۳باب ۷۶اور۱:۳۳۲۔۱۲باب ۷۷ ، ارشاد۲:۳۵۳، الغیبة ۲۰۳۔۲۳۴)

علی بن ابراہیم بن مہزیار اہوازی(الغیبة ۲۲۸۔۲۶۳)جعفر بن ابراہیم یمانی کا ایلیچی علی بن محمد شمشاطی (کمال الدین ۲:۴۰۱۔۱۴باب ۴۵)

غانم ابو سعید ہندی(الکافی ۱:۵۱۵۔۳ باب ۱۲۵، کمال الدین ۲:۴۳۷، حدنمبر ۶کے بعد باب ۴۳۔)کامل بن ابراہیم مدنی (الغیبة ۲۱۶۔۲۴۷)ابو عمروعثمان بن سعید عمری(الکافی ۱:۳۲۹۔۱باب ۷۶، اور۱۰:۳۲۹،۴باب ۷۶، اور۱:ا۳۳۔۴باب ۷۷، الارشاد۲:۳۵۱، الغیبة ۳۱۶۔۳۵۵)محمد بن احمد انصاری ابو نعیم زیدی ۔

اورامام کو دیکھنے میں ان کے ہمراہ تھے ابو علی محمودی ۔علان کلینی ۔ ابو ہثیم دیناری ابوجعفر احول ہمدانی اوریہ تقریبا تیس مرد تھے کہ جن میں سید محمد بن قاسم علوی عقیقی بھی شامل تھے (کمال الدین ۲:۴۷۰۔۲۴باب ۷۳، الغیبة ۲۲۷۔۲۵۹)

سید موسوی محمد بن اسماعیل بن امام موسی بن جعفر اوریہ اس زمانے میں پیغمبر کی اولاد میں سے سب سے زیادہ بوڑھے تھے (الکافی ۱:۳۳۰۔۲باب ۷۷، ارشاد۲:۳۵۱، الغیبة ۲۳۰۔۲۶۸)شہر قم کے شیعوں کے وفد کے قائد کے طور پر محمد بن جعفر ابو العباس حمیری (کمال الدین ۲:۴۷۷حدیث ۶کے بعد باب ۴۳)

محمد بن حسن بن عبداللہ تمیمی زیدی المعروف ابو سورة (الغیبة ۲۳۴۔۲۶۹، اور۲۳۵۔۲۷۰)اورمحمد بن صالح بن علی بن محمد بن قنبر الکبیر امام رضا کا غلام(کمال الدین ۲:۴۴۲۔۱۵باب ۴۳، اس نے جعفر کذاب کا امام کا زمانہ کو دیکھنا بیان کیا ہے اورظاہر ہے کہ اس نے خود بھی دیکھا ہیلیکن کافی میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ اس نے خود نہیں دیکھا لیکن اس کو دیکھا ہے جس نے امام کو دیکھا تھا اوروہ جعفر کذاب ہے کافی :۳۳۱۔۹باب ۷۷)

محمد عثمان عمری (رضی اللہ عنہ (کمال الدین ۲:۴۳۳۔۱۳باب ۴۲، اور۲۴۳۵۔۳باب ۴۳اور،۲:۴۴۰۔۹ باب ۴۳اور۲:۴۴۰۔۱۰باب ۴۳، اور۴۴۱۲۔۱۴باب ۴۳)

اورانہوں نے حضرت امام حسن عسکری کی اجازت سے چالیس مردوں کے ہمراہ آپ کی زیارت کی تھی کہ جن میں معاویہ بن حکیم اورمحمد بن ایوب بن نوح بھی تھے (کما ل الدین ۲:۴۳۵۔۲باب ۴۳)یعقوب بن منفوش (کما ل الدین ۲:۲۴۳۷۔۵باب ۴۳)یعقوب بن یوسف ضراب غسانی (الغیبة ۲۳۸۔۲۷۳)اوریوسف بن احمد جعفری (الغیبة ۲۲۵۔۲۵۷)

امام مہدی کے وکلاء اورآپ کے معجزات کا مشاہدہ کرنے والوں نے آپ کو دیکھنے کی گواہی دی ہے

صدوق نے پتوں سمیت ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے امام مہدی کے معجزات کا مشاہدہ کیا ہے اورآپ کی زیارت بھی کی ہے بعض آپ کے وکلاء ہیں بعض ان کے علاوہ ،ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کررہے ہیں اوران کی تعداد اسقدر زیادہ ہے کہ ان کا جھوٹ پر جمع ہونا محال ہے بالخصوص اس تناظر میں کہ یہ مختلف علاقوں سے ہیں ۔

بغداد سے :۔عمری کا بیٹا ، حاجز ، ہلالی ، عطار

کوفہ سے :۔ عاصمی

اہواز سے :۔ محمد بن ابراہیم بن مہزیار

قم سے :۔احمد بن اسحاق۔

ہمدان سے :۔محمد بن صالح

شہرری سے :۔بسامی اوراسدی (محمد بن ابی عبداللہ کوفی)

آذربایجان سے :۔قاسم سب علاء

نیشاپورسے :۔محمد بن شاذان

وکلاء کے علاوہ دوسرے حضرات۔

بغداد سے :۔ابو القاسم بن ابو حلیس ، ابوعبداللہ کندی ، ابو عبداللہ جنیدی ، ہارون قزار ، نیلی ، ابو القاسم بن دبیس ، ابو عبداللہ بن فروخ ابو الحسن کا غلام مسرور طباخ ، حسن کے دونوں بیٹے احمد اورمحمد اورنوبخت خاندان سے اسحاق کا تب وغیرہ ہیں ۔

ہمدان سے :۔محمدبن کشمرد ، جعفر بن حمدان اورمحمد بن ہارون بن عمران

دینورسے :۔حسن بن ہارون ، احمد بن سعید اخیہ ّاورابو الحسن۔

اصفہان سے :۔ابن باذالہ

صیمرہ سے :۔زیدان

قم سے :۔حسن بن نضر ، محمد بن محمد علی بن اسحاق اوراس کے والد اورحسن بن یقوب

ری سے:۔ قاسم بن موسی ، اس کا بیٹا،ابو محمد بن ہارون ، علی بن محمد ، محمد بن محمد کلینی اورابو جعفر رفاء۔

قزوین سے :۔مرداس اورعلی بن احمد

نیشابور سے:۔محمد بن شعیب بن صالح ۔

یمن سے :۔فضل بن یزید ، حسن بن فضل بن یزید ، جعفری ، ابن اعجمی اورعلی بن محمد شمشاطی ۔

مصر سے :۔ ابوراجء وغیرہ ۔

نصبین سے :۔ ابو محمد حسن بن وجنا ء نصیبی

نیز شہروز ،صیمرہ،فارس،اورمروکے شہروں سے بھی امام کو دیکھنے والوں کوذکر کیا ہے(کما ل الدین ۲:۴۴۳:۴۴۲۔۱۶باب ۴۳)

خدام ، خادماؤں اورکنیزوں کی حضرت امام مہدی کو دیکھنے کی گواہی

حضرت امام مہدی کا مشاہدہ ان لوگوں نے بھی کیا تھا جو آپ کے والد گرامی حضرت امام عسکری کے گھر میں خدمت گزار تھے۔

اسی طرح بعض نوکرانیوں اورلونڈیوں نے جیسا کہ طریف خادم ابو نصر (الکافی ۱:۳۳۲۔۱۳باب ۷۷، کمال الدین ۲:۴۴۱۔۱۲باب ۴۳ارشاد۲:۳۵۴، الغیبة ۲۱۵۔۲۴۲، اوراس میں طریف کی بجائے ظریف ہے)ابراہیم بن عبدة نیشا بوری کی خادمہ کہ جس نے اپنے آقا کے ہمراہ امام زمانہ کی زیارت کی تھی(الکافی ۱:۳۳۱۔۲باب ۷۷، ارشاد ۲:۳۵۲، الغیبة ۲۳۱۔۲۶۸)خادم ابو ادیان (الکافی ۲۔۴۷۵، حدیث۲۵، کے باب ۴۳)

خادم ابو غانم جو کہتا ہے "حضرت امام حسن عسکری کہ ہاں بیٹا پیدا ہوا آپ نے اس کا نام محمد رکھا اورتیسرے دن اپنے اصحاب کے سامنے اسے پیش کیا اورفرمایا:۔

"هذا صاحبکم من بعدی ، وخلیفتی علیکم ، وهو القائم الذی تمتدالیه الاعناق بالانتظار، فازا امتلات الارض جوراوظلما خرج فملاقسطاوعدلا "

"میرے بعد یہ تمہارا ساتھی اورمیرا خلیفہ ہے اور یہی وہ قائم ہے جس کا لوگ انتظار کریں گے اورجب زمین ظلم وجورسے پر ہو جائے گی تویہ ظاہر ہو کر اسے عدل وانصاف سے پر کردے گا"(کمال الدین ۲:۴۳۱۔۸باب ۴۲)

نیز اسی چیز کی گواہی دی ہے خادم عقیدنے(کمال الدین ۲:۴۷۴، حدیث۲۵، کے بعد باب ۴۳، الغیبة ۲۳۷)خادمہ عجوز(الغیة ۲:۲۷۳۔۲۷۶۔۲۳۸)

اورابو علی خیزرانی کی وہ کنیز جو اس نے حضرت امام حسن عسکری کو ہدیہ کے طور پر دی تھی (کمال الدین ۲:۴۳۱۔۷باب ۴۲)

اورجن خادماؤں نے امام مہدی کو دیکھنے کی گواہی دء ہے ان میں نسیم (کمال الدین :۴۴۱۔۱۱باب ۴۳)

اورماریہ بھی شامل ہیں(کمال الدین ۲:۴۳۰۔۵باب ۴۲، اوراس موقع پر نسیم نے ماریہ کے ہمراہ امام زمانہ کی زیارت کی)

ابو الحسن کے غلام مسرور طباخ نے بھی اسی طرح کی گواہی دی ہے (کمال الدین ۲:۴۴۲۔۱۶باب ۴۳)

ان سارے لوگوں نے ویسی ہی گواہی دی ہے جیسی کہ امام عسکری کے گھر میں رہنے والے خادم ابو غانم نے دی ہے۔

حکومتی اقدامات امام مہدی کی ولادت کی دلیل ہیں

حضرت امام حسن عسکری ربیع الثانی ۲۳۲ئھ ہجری میں پیدا ہوئے اورآپ بنی عباس کے تین بادشاہوں معتز (متوفی ۲۵۵ہجری)اورالمہتدی (متوفی ۲۵۶ہجری)اورمعتمد(متوفی ۲۷۹ہجری)کے ہم عصر رہے۔

معتمد ایل بیت کے خلاف سخت کینہ اورتعصب رکھتا تھا اس کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ کی مشہورکتابیں جیسے طبری وغیرہ اوراگر آپ ۲۵۷ء ھ ہجری،۲۵۹ ئھ ہجری اور۲۶۰ہجری وغیرہ اوراگر آپ مطالعہ کریں کہ جو اس کی حکومت کے پہلے سال ہیں توآپ کو آئمہ علیھم السلام کے خلاف اس کے کینہ اوردشمنی کا بخوبی اندازہ ہو جا ئے گا۔

اوراللہ تعالی نے اسے زندگی ہی میں سزا دی کیونکہ اس کے پاس بالکل کچھ نہیں رہا تھا حتی کہ اسے تین سو دینار کی ضرورت ہوئی جو اسے نہ مل سکے اوراس کی موت بھی بہت بریت طریقے سے ہوئی کہ ترک اس سے ناراض ہوگئے اورمورخین کا اتفاق ہے کہ انہوں نے پگھلے ہوئے سیسے میں پھینک کراسے ہلاک کردیا۔

اس کے انتہائی گھٹیا اورکمینگی پرمبنی اقدامات میں سے ایک یہ تھا کہ امام حسن عسکری کی وفات کے بعد اس نے فوری طور پر اپنے سپاہیوں کو آپ کے گھر کی دقیق تلاشی لینے اورامام مہدی کے متعلق جستجو کرنے کا حکم دیا ۔

نیز حکن دیا کہ آپ کی نوکرانیوں کو قید کردیا جائے اورآپ کی عورتوں کو رسن باندھ دئیے جائیں اورجعفرکذاب شیعوں کے پاس اپنے بھائی عسکری والا مقام ومرتبہ حاصل کرنے کے لالچ میں اس کی مدد کر رہا تھا اورجیسا کہ شیخ مفید نے لکھا ہے اسی وجہ سے امام عسکری کے پسماندہ گان پر قید وبند اورتذلیل توہین جیسی مصیبتیں ٹوٹ پڑیں (الارشاد۲:۳۳۶)

یہ سارے اقدامات اس وقت کئے جا رہے تھے جب حضرت امام مہدی کی عمر شریف صرف پا نچ برس تھی اوریہ جان لینے کے بعد کہ یہی بچہ وہ امام ہے جو طاغوت کے سر کو کچل دے گا معتمد عباسی کے لیے آپ کی عمر مہم نہیں تھی کیونکہ وہ متواتر روایات میں دیکھ چکا تھا کہ اہل بیت کا بارہواں امام دنیا کو ظلم وجورکے ساتھ پر ہونے کے بعد عدل وانصاف سے پر کردے گا۔

پس امام مہدی کے بارے میں اس کا وہی موقف تھ اجو فرعون کا موسی کہ بارے میں تھا چنانچہ خوف کی وجہ سے موسی کی ماں نے بچپن ہی میں آپ کو سمندر کی لہروں کے حوالے کردیا تھا

اوراس حقیقت کا فقط معتمد عباسی ہی کو علم نہیں ہوا تھا بلکہ اس سے پہلے معتز اورمہدی بھی اس کو جان چکے تھے اس لئے امام عسکری کی مسلسل یہ کوشش رہی کہ امام مہدی کی خبر آپ کے مخلص شیعہ اورچاہنے والوں سے باہر نہ نکلے۔

ساتھ ساتھ آپ نے اپنی وفات کے بعد شیعوں کوقیادت والے مسئلے میں اختلاف سے بچانے کے لیے مناسب اقدامات اوراحتیاطی تدابیر بھی اختیار کررکھی تھیں چنانچہ آپ نے کئی بارخود اپنے شیعوں امام مہدی کی ولادت کی خبردی

نیز اسے مخفی رکھنے کی بھی ہدایت کی تاکہ کہیں وقت کے طاغوتوں کو اس کا علم نہ ہو جائے کہ یہ وہی بارہواں امام ہے جس کے متعلق جابر بن سمرہ کی وہ حدیث ہے جسے کثیر لوگوں نے روایت کیا ہے اوراسے متواتر قرار دیا ہے ورنہ اس نوعمر بچے سے تخت معتمد کو اورکیا خطرہ ہو سکتا ہے کہ جس کی عمرابھی پانچ سال سے متجاوزنہیں ہوئی

اگراسے یہ علم نہ ہوتاکہ یہ وہی حضرت مہدی منتظر علیہ السلام ہے کہ جس کے درخشندہ دور کی خبر احادیث متواترہ نے دی ہے اورظالم وجابر حکمرانوں کے بارے میں اس کے موقف کی روایات نے وضاحت کی ہے۔

اگرایسا نہیں ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے توحکومت جعفر کذاب کی اس گواہی سے کیوں قانع نہ ہوئی کہ اس کا بھائی عسکری فوت ہوا ہے اوراس کا کوئی بیٹا نہیں ہے؟

کیا حکومت یہ نہیں کرسکتی تھی کہ جعفرکذاب کو اپنے بھائی کی وراثت دے دیتی بغیر ان احمقانہ اقدامات کے جو امام عسکری کے فرزند سے حکمرانوں کے خوف زدہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں؟

کہا جاتا ہے حکمرانوں کی کوشش کی تھی کہ حق حقدار ہی کو ملے اس لیے وہ امام عسکری کے جانشین کے بارے میں جستجو کررہے تھے تاکہ جعفرکذاب اپنے دعویٰ کی بنا پر ناحق میراث نہ لے جائے

ہم کہتے ہیں:۔اگریوں ہوتا توپھر حکومت کو ایسے شکوک وشبہات پیدا کرنے والے طریقے سے امام مہدی کے بارے میں جستجو نہیں کرنی چاہئے تھی بلکہ حکومت کے لیے ضروری تھا کہ جعفرکذاب کے دعوے کو کسی قاضی کے پاس بھیج دیتی بالخصوص جب یہ مسئلہ میراث کاتھا اور اس قسم کے مسائل ہردن پیش آتے رہتے تھے۔

اورپھر قاضی کا کام تھا تحقیقات کرنا اور امام عسکری کی ماں آپ کی بیویوں ، خادماوں اورخاندان اہل بیت میں سے آپ کے دیگر مقربین کو طلب کرکے گواہی مانگنا پھر ا ن کی گواہیوں کی روشنی میں فیصلہ صادر کرنا لیکن یوں حکومت کا خود اس مسئلے کے درپے ہونا۔

اورپھر حکومت کے شخص اول کا اتنی جلدی اس مسئلے میں دلچسپی لینا کہ ابھی امام عسکری دفن بھی نہیں ہوئے اورعدالت کے خصوصی مسائل میں سے ہونے کے باوجود اس کی دائرہ اختیار سے اسے خارج کرنا اورسپاہیوں کا امام عسکری کے گھت میں موجود افراد پر اچانک چھاپہ مارنا۔

یہ سب چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ حکام وقت کو امام مہدی کی ولادت کا یقین تھا اگرچہ انہوں نے انہیں دیکھا نہیں تھا کیونکہ انہیں پہلے سے ہی اہل بیت کے بارہویں امام کا علم ہوچکا تھا۔

جیسا کہ ہم اس کی طرف اشارہ کرچکے ہیں کہ حکومت امام مہدی کو راستے سے ہٹانے کی غرض سے تلاش کررہی تھی نہ اس لیے کہ حقدار تک ھق پہنچانے بلکہ اس پر قبضہ کرنا اوراسے غصب کرنے کے لیے یہ سب کچھ کررہی تھی کیونکہ امام عسکری کی زندگی میں اس کے لیے کوئی بہانا ہاتھ نہیں آیا تھا۔

لہذا آپ کی غیبت کے رازوں میں سے ایک راز آپ کی جان کو لاحق یہ خوف تھا جیسا کہ غیبت سے دسیوں سال پہلے آپ کے آباواجداد اس سلسلے میں فرماچکے تھے