مھدی منتظر اور اسلامی فکر

مھدی منتظر اور اسلامی فکر25%

مھدی منتظر اور اسلامی فکر مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

مھدی منتظر اور اسلامی فکر
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 14 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9794 / ڈاؤنلوڈ: 3181
سائز سائز سائز
مھدی منتظر اور اسلامی فکر

مھدی منتظر اور اسلامی فکر

مؤلف:
اردو

1

2

3

سوال اول:۔ پانچ سال کی عمرمیں آپ کیسے امام ہو سکتے ہیں؟

جواب:۔ بیشک امام مہدی مسلمانوں کی امامت میں اپنے والد بزرگوار کے جانشین تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نہایت کم سنی میں روحانی اورفکری طور پر ایک کامل امام تھے اوربچپن کی امامت آپ سے پہلے بھی کئی اماموں کوحاصل ہو چکی تھی امام محمد تقی آٹھ سال کی عمر میں امام بنے تھے امام علی نقی نو سال اورامام مہدی کے والد امام حسن عسکری بائیس سال کی عمر میں امام تھے۔

توآپ نے ملاحظہ فرمایا کہ بچپن میں امامت والاواضح اورصریخ منصب امام مہدی اورامام محمد تقی کو حاصل ہوا۔

ہم نے اس کو واضح منصب اس لیے کہا ہے کیونکہ یہ امام مہدی کے بعض آباؤ اجداد میں دیکھا گیا ہے مسلمانوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے اوراس کے مختلف علمی تجربات دیکھتے ہیں اورایک ظاہر اورواضح چیز کو ثابت کرنے کے لیے امت کے عملی تجربے سے زیادہ محکم اورواضح دلیل دوسری کوئی اورچیز نہیں ہوسکتی اس کی وضاحت مندرجہ ذیل نکات سے ہوجائے گی

۱۔ اماموں کی امامت کوئی ایسا حکومتی منصب نہیں ہے جو وراثت میں باپ سے بیٹے کی طرف منتقل ہوتا ہے اورحکومتی سسٹم اسے سہارا دیتا ہے جیسا کہ امویین ، فاطمیین،عباسیین،میں تھا بلکہ اسلام ومسلمین کی زعامت کا معیار امام کافکری وروحانی بنیادوں پر قیادت کے لائق ہونا ہے اور امام امت کے مختلف گروہوں کو فکری اورروحانی لحاظ سے قانع کرکے اپنی امامت کا لوہا منواتے تھے۔

۲۔ ان گروہوں کی صدر اسلام میں بنیاد رکھی گئی اورحضرت امام محمد باقر وحضرت امام صادق کے زمانے میں پھولے پھلے اوران دواماموں کے زیرنظر چلنے والے مدرسے نے عالم اسلام میں ایک وسیع اورولولہ انگیز فکرپیدا کی جس نے اس وقت کے مختلف اورمعروف انسانی اوراسلامی علمی میدانوں میں سینکڑوں فقہا ، متکلمین ، علمااورمفسرین پیدا کئے۔

حسن بن علی وشاکا کہنا ہے میں نے مسجد کوفہ میں نوسو شیوخ پائے ان میں سے ہر ایک کہتا تھا مجھ سے یہ حدیث امام جعفر بن محمد نے بیان کی ہے(رجال نجاشی ۴۰۔۸۰ حسن بن علی بن زیاد وشاکاکے حالات میں)

۳۔ جن شرائط کا یہ مدرسہ میں پرچار کرتا تھا اورجنہیں یہ امامت قراردیتا تھا وہ بہت سخت تھیں کیونکہ وہ یہ نظریہ پیش کررہا تھا کہ امام علیہ السلام فقط معصوم اوراپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم ہوسکتا ہے۔

۴۔ اس مکتب اوراس کے ہم فکر لوگ امامت میں اپنے عقیدے پر پختہ رہنے کے لیے بڑی بڑی قربانیاں دیتے رہے کیونکہ اس وقت کی کوئی حکومت یہ سمجھتی تھی کہ یہ ہمارے خلاف کوئی خط تشکیل دے رہے ہیں کم از کم فکری لحاظ سے۔

لہذا اس وقت کی حکومتیں مسلسل حملے کرتی رہیں کئی قتل ہوگئے کئی قید میں بند کردیئے گے اورسینکڑوں لوگ قیدخانوں کی تاریکیوں میں جام شہادت نوش کرگئے۔

یعنی ائمۃ علیھم السلام کی امامت کے عقیدے کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی تھی اورانہیں اس عقیدے پر اکسانے والی چیز سوائے اللہ کے قرب کے اورکوئی نہیں تھی

۵۔ ائمۃ علیھم السلام ان گروہوں سے الگ تھلک نہیں رہتے تھے اورنہ بادشاہوں کی طرح عالی شان محلوں میں زندگی گزارتے تھے اورنہ ہی مخفی رہتے تھے مگر یہ کہ خودحکومت انہیں قید یاجلاوطن کردے۔

چنانچہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے آباواجداد میں سے ہر ایک کے سینکڑوں راوی اورمحدث ان کے اپنے ہم عصرلوگوں کے ساتھ خطوکتابت ان کے طویل سفر پھر عالم اسلام کی مختلف جوانب میں اپنے وکلاء کو بھیجنا اورحج کوموقع پر شیعہ کا زیارت کاعادی ہونا

یہ سب امام اور عالم اسلام کے مختلف نقاط میں آپ کے ہم فکر اورپیروی کرنے والے مختلف لوگوں کے درمیان ایک واضح اورمسلسل رابطے کی دلیل ہیں ۔

۶۔ اس دور کی حکومتیں آئمہ علیھم السلام کی اس روحانی قیادت کواپنے اقتدار کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کرتی تھیں اسی وجہ سے اس قیادت کو ختم کرنے کی پوری کوشش تھی اوراسی لیے بڑے بڑے غلط کام سرانجام دیتیں اوراگر ضرورت محسوس کرتیں توسنگدلی اورسرکشی کے نمونے بن جاتیں اورآئمہ علیھم السلام کے خلاف قیدوبند اوردیگر محرمانہ حملے جاری رکھتیں جس کی وجہ سے مسلمان بالخصوص چاہنے والوں کو بہت دکھ ہوتا اورحکومت کے خلاف نفرت پیدا ہوتی تھی۔

ان چھ نکات کو جو تاریخی حقائق پر مشتمل ہیں اگرمدنظر رکھیں تومندرجہ ذیل نتیجے تک پہنچنا ممکن ہوجائے گا۔

بچپن میں امامت والی بات ایک کھلی حقیقت تھی کوئی وہم نہیں تھا کیونکہ بچپن میں جو بھی امام سامنے آیا اورانہوں نے مسلمانوں کے لیے اپنے آپ کو روحی اورفکری امام متعارف کرایا۔

اوروسیع وعریض دنیا میں پھیلے ہوئے آپ کے چاہنے والوں اورپیروکاروں کا آپ امام اوررہبر مان لینا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ:۔آپ علم ومعرفت کے اعلی درجے پر فائز تھے فقہ تفسیر وعقائد وغیرہ پر پورا تسلط رکھتے تھے۔اگرایسا نہ ہوتا توممکن نہیں تھا کہ اتنے بڑے بڑے گروہ آپ کی امامت کے سامنے سرتسلیم خم کردیتے۔با لخصوص اس تناظر میں کہ آپ اپنے پیروکاروں کو اپنے ساتھ رابطہ رکھنے اوراپنی شخصیت کو پرکھنے کا پورا موقع فراہم کرتے تھے کیا ممکن ہے کہ ایک بچہ اپنی امامت کا اعلان کرے اوروہ بھی علی الاعلان اوراتنے بڑے بڑے مختلف گروہوں کے سامنے۔

اوریہ سب اس کی حقیقت سے مطلع ہوئے بغیر اوراس بچے کی حیثیت کا اندازہ لگائے بغیر اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیں اوراس راہ میں اپنا امن اورزندگی جیسی قیمتی ترین چیز قربان کردیں ؟

اورکیا یہ ممکن ہے کہ واقعاوہ فکری اورعلمی لحاظ سے بچہ ہو لیکن اسقدر طویل رابطے کے باوجود ظاہر نہ ہو؟

فرض کریں کہ اہل بیت کی امامت کو ماننے والے حقیقت حال کو کشف کرنے پر قادر نہیں تھے توپھر حکومت کیوں خاموش رہی اوراس نے حقیقت حال کو ظاہر کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی حالانکہ یہ اس کے مفاد میں تھا

اوراگرامامت کا وہ دعویدار بچہ فکروعلم میں بھی بچہ تھا توحکومت کے لیے یہ کام کس قدر آسان تھاجیسا کہ دیگر بچوں میں ہے؟

اورکس قدر اس کے لیے مفید تھا یہ اسلوب کہ بچے کو شیعوں اورغیرشیعوں کے سامنے اس طرح پیش کردیتی جیسے وہ تھا اوراس کے روحانی اورفکری بنیادوں پرا مامت کے لائق نہ ہونے کو ثابت کردیتی۔

اگرچالیس یا پچاس سالہ شخص کے امامت کے لائق نہ ہونے کو ثابت کرنا مشکل ہو توبھی بچے کے لیے یہ کام مشکل نہیں ہے چاہے وہ کتنا ہی ذہین وفطین ہو اوریہ ان سب طریقوں سے آسان تھا جوان حکومتوں نے اپنا رکھے تھے۔

پس وقت کی حکومت کی اس سلسلے میں خاموشی کی صرف ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے اوروہ یہ کہ اس نے درک کرلیا تھا کہ بچپن کی یہ امامت ایک کھلی اورروشن حقیقت ہے کہ کوئی جعلی اوربناوٹی شی۔

حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے مختلف مواقع میں اس کی کوشش کرنے اوراس میں ناکام ہونے کی وجہ سے بہت نزدیک سے یہ چیز درک کرلی تھی۔

کیونکہ تاریخ ہمیں اس قسم کے کئی واقعات بتاتی ہے جن میں حکومت کی ناکامی واضح ہوتی ہے اس کے برعکس ایسا ایک بھی واقعہ نہیں ملتا جس میں بچپن کی یہ امامت لڑکھڑائی ہویا اس چبے نے اپنے سے بالاتر کا سامنا کیا ہواورلوگوں کا اس پراعتماد متزلزل ہو گیا ہو۔

اورہم نے جو کہا تھا کہ بچپن میں امامت ایک کھلی اورروشن حقیقت تھی اس سے ہماری مرادیہی تھی اوراس کی مثال خداکے رسولوں میں بھی ملتی ہے جیسے کہ یحییٰ نبی کے بارے میں خدا فرماتا ہے:۔

( یا یحییٰ خذ الکتاب بقوة واتینا الحکم صبیا)

اے یحییٰ کتاب کو قوت کے ساتھ پکڑلو اور ہم نے اسے بچپن ہی میں نبوت عطا کی(سورہ مریم ۱۹۔۱۲اورفصل دوم کے نمبر۵، اور۸ میں ابن حجر ہیثمی شافعی اوراحمد بن یوسف قرمانی حنفی کااعتراف گزرچکا ہے کہ مہدی کو بچپن میں حکمت عطاہوئی)

اورجب یہ ثابت ہوگیا کہ بچپن کی امامت ایل بیت کہ ہاں اوریہ ایک کھلی حقیقت ہے موجود تھی توخاص طور سے امام مہدی کے بچپن میں امام بننے پر اعتراض کونا کوئی معقول بات نہیں ہے۔

دوسراسوال :۔ طول عمر

شاید سب سے اہم اعتراض کہ جس کا ہمیشہ سے پھر پور پروپیگنڈا کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ جب مہدی ایک ایسے انسان ہیں جو مسلسل گیارہوں صدی سے زندہ ہیں توانہیں اتنی طویل عمر کہاں سے ملی اوران طبیعی قوانیں سے کیسے محفوظ رہے جس میں بڑھاپے کا مرحلہ ضروری ہے(یہ شبہہ کتب عقائد میں بہت قدیم زمانے سے زیر بحث لایا جاتا ہے اورشیعوں کے بڑے بڑے علماء نے اس کا مختلف طریقوں سے جواب دیا ہے ہم ان میں سے فقط بعض کو ذکر کریں گے)

اس شبہے کو سوال کی صورت میں بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے ایک انسان کئی صدیوں تک زندہ رہے ؟اس سوال کے جواب کے لیے مسئلہ امکان کی بطور رتمہید وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔

امکان کی تین قسمیں ہیں ۔

اول :۔امکان عملی

یعنی وہ امکان جو فعلا اورواقعا ممکن ہے اورواضح طور پر وجود رکھتا ہے ۔

دوم :۔امکان علمی!

یعنی وہ امکان جو صرف علمی پہلو سے محال نہیں ہے اورعلم اس کے وجود کو محال قرارنہیں دیتا

سوم :۔امکان منطقی!

یعنی وہ امکان جو عقلاء کی نظر میں محال نہیں ہے اورعقل اس کے وجود کو نا ممکن قرارنہیں دیتی ۔اب ہم اس مسئلہ کوامکان منطقی سے شروع کرتے ہوئے مندرجہ ذیل صورت میں پیش کرتے ہیں ۔

کیا انسان کا صدیوں تک زندہ رہنا عقلی لحاظ سے ممکن ہے ؟اس کا جواب مثبت ہے پس عمر کا طبیعی حدسے کئی گناہ زیادہ ہونا محال نہیں ہے اوریہ بات تھوڑے سے غوروفکر سے واضح ہوجاتی ہے البتہ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا لیکن ایسے حالات کو اہل تاریخ نے درج کیا ہے اورعلمی نشریات نے نقل کیاہے جن سے انسان کوتعجب نہیں ہوناچاہئے خاص طورپر مسلمانوں کوکہ جن کے کانوں میں وحی الہی کی یہ آوازٹکراتی ہے۔

( ولقد ارسلنا نوحا الی قومه فلبث فیهم الف سنة الا خمسین عاما)

اورہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا پس آپ ان میں پچاس کم ہزار سال رہے(العنکبوت:۲۹۔۱۴)

امکان کے اس معنی کومزید واضح کرنے کے لیے ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں اگرایک شخص ایک مجمع میں دعوی کرے کہ وہ دریا کو چل کرعبورکرسکتا ہے یا آگ پرسے گزرسکتا ہے بغیراس کے کوئی نقصان پہنچے توحتمی طور پرلوگ اس پرتعجب کریں گے اوراس کا انکارکریں گے۔

لیکن اگروہ اپنے دعوی کے ثابت کرتے ہوئے دریا کوعبور کرلے یا آ گ پرسے گزرکردکھادے تولوگوں کا انکاراورتعجب ختم ہوجائے گا پھر اگرایک دوسراشخص یہی دعوی کرے تواس کا تعجب درجہ کمترہوجائیگا اوراگرتیسراچوتھا پانچواں دعوی کرے تویہ تعجب مزید کم ہوتا جائیگا۔

کیونکہ پہلی مرتبہ لوگوں کو تعجب ہوا تھا وہ پانچویں مرتبہ میں اسی قوت اورحالت پر باقی نہیں رہے گا بلکہ یقینی طور پر کم ہوتا ہوتا ختم ہوجائے گا۔

ہمارا مسئلہ بھی اسی طرح کا ہے۔ قرآن نے خبردی کہ نوح نبوت سے پہلے کی عمر کے علاوہ اپنی قوم میں ساڑھے نوسو سال تک رہے اوریہ کہ حضرت عیسیٰ فوت نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالی نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا ہی۔

( وقولهم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول الله وما قتلوه وماصلبو ه ولکن شبه لهم وان الذین اختلوفیه لفی شک منه مالهم به من علم الا اتباع الظن وما قتلو یقینا ، بل رفعه الله الیه وکان الله عزیزاحکیما)

اوران کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے اللہ کے رسول عیسیٰ ابن مریم کو قتل کردیا حالانکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل ہی کیا اورنہ سولی ہی دی مگر ان کے لیے ایک دوسرا شخص عیسٰی کے مشابہ کردیا گیا جو لوگ اس بارے میں اختلاف کرتے ہیں یقینا وہ لوگ اس کے حالات کی طرف دھوکے میں پڑے ہیں ان کو اس واقعہ کی خبر بھی نہیں فقط اٹکلی کے پیچھے ہیں اورعیسی ٰ کو انہوں نے یقینا قتل کیا بلکہ خدا نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا ہے اورخدا بڑازبردست تدبیر والا ہے(النساء :۴۔۱۵۸۔۱۵۷۔۴)

اسی طرح بخاری ومسلم کی روایات میں ہے کہ عیسی ٰنازل ہوں گے نیز ان میں موجود ہے کہ دجال زندہ ہے(بخاری اورمسلم میں خروج دجال اورنزول عیسیٰ کی احادیث کو ہم مفصل بیان کر چکے ہیں نیز ذکر کرچکے ہیں کہ اہل سنت کے کن علماء نے اسے اپنا مسلم عقیدہ شمار کیا ہے اورواضح طور پر کہتے ہیں کہ دجال آخری زمانے تک زندہ رہے گا اورحضرت عیسیٰ حضرت امام مہدی کی مددکے لیے آخری زمانے میں نازل ہوں گے ملاحظہ ہو فصل سوم صحیحین کا احادیث مہدی سے خالی ہونے کا بہانہ)

اب جب صحیح روایات پکارپکار کرکہتی ہیں اورگواہی دیتی ہیں اورپے درپے اعترافات منظر عام پر آتے ہیں کہ پیغمبر کی عترت طاہرہ اوراولاد فاطمہ سے امام حسن عسکری کے فرزند حضرت امام مہدی۲۵۵ ء ہجری میں پیدا ہوئے اورابھی تک زندہ اورموجود ہیں توتعجب اورانکارکی کوئی وجہ نہیں اوراس سے انکار سوائے دشمنی اورہٹ دھرمی کے کچھ نہیں ہے۔

تفسیر رازی میں ہے "بعض اطباکہتے ہیں انسانی عمر۱۲۰سال سے زیادہ نہیں ہوسکتی لیکن آیت جھٹلاتی ہے اورعقل آیت کی موافقت کرتی ہے۔

کیونکہ انسان میں جوترکیب ہے اس کا باقی رہنا ذاتا ممکن ہے ورنہ باقی نہ رہتی اوراس میں موثر کی دائمی تاثیر بھی ممکن ہے کیونکہ موثر اگرخدا تعالی ہے تووہ واضح طورپردائمی ہے۔ اوراگرغیر ہے تواس کا بھی کوئی موثر ہوگاآخرکاراتناواجب الوجوب پرہوگی جوکہ دائم ہے پس اس کی تاثیر بھی دائمی ہوسکتی ہے پس بقا ذاتا ممکن ہے۔اوراگر ایسا نہ ہوتا توکسی ایسے عارضی سبب کی وجہ سے ہوگا جس کامعدوم ہوناممکن ہے ورنہ وہ اسقدر باقی نہ رہتا کیونکہ جو مانع عارض ہے وہ واجب الوجود ہے

پس ظاہر ہوگیا کہ ان کی یہ بات عقل ونقل کے خلاف ہے"(تفسیرکبیر رازی ۲۵:۲۴)

یوں رازی نے غیرمعمولی طور پر انسان کے طول عمر کے ممکن ہونے پراستدلال کیا ہے جب کہ جناب حضرت عیسیٰ کی طول عمر ثابت ہے لہذا یہی برہان حضرت مہدی کی طول عمر میں بھی جاری ہوسکتی ہے۔

اوراس استدلال کومزید تقویت صحاح وغیرصحاح کے حضرت عیسیٰ کے آخری زمانے میں دجال کے قتل اورامام مہدی کی مدد کرنے پر اتفاق سے مل سکتی ہے اس کی تفصیل مہدی کون ہے والے کے جواب میں گزر چکی ہے اب ہم امکان عملی کی بحث کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کیا عملی طور پریہ امکان ہے کہ انسان اسقدر طویل عمر پائے اورکیا تجربہ اس کا شاہد ہے؟

جواب:

موجودہ تجربات ، موجودہ امکانات اورحالات کی روشنی میں اس حد تک کامیاب نہیں ہوسکے کہ انسان کی طبیعی عمر کو ایک سال یادوگنا بڑھا دیں اوریہ چیز بظاہر دلیل کی محتاج نہیں ہے لیکن یہ انسانی عمر طویل نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ امکان عملی میں ایک انسان دوسرے انسان کی طبیعی عمر کو طویل کرنے کا فقط حیلہ کرسکتا ہے لیکن عمریں خدا کے ہاتھ میں ہیں۔

لہذا تقدیر کے خلاف عمر کو زیادہ کرنا انسان میں نہیں ہے ہاں اللہ تعالی معمر لوگوں کی زندگی کوطویل کرنے کے اسباب فراہم کرسکتا ہے اورسائنس زیادہ سے زیادہ ان اسباب کی کشف کرسکتی ہے لیکن ان اسباب کو خود فراہم نہیں کرسکتی کیونکہ بالاتفاق یہ اسباب خدا کے ہاتھ میں ہیں۔

دوسرا سوال کیاامکان علمی کی روشنی میں انسان کی عمر طبیعی حدسے زیادہ طویل ہو سکتی ہے؟

جواب اول:

جی ہاں !متعدد شواہداوراعدادوشمار امکان علمی کو ثابت کرتے ہیں ۔

۱۔ سائنسی تجربات انسانی عمر کومعمول سے زیادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اوریہ تجربات بڑھاپے والے قانون کو توڑرہے ہیں۔

چنانچہ مصر سے نکلنے والے رسالے "المقطف"کے شمارہ اگست ۱۹۲۱ ئمطابق۲۶ذیقعدہ ۱۳۳۹ ئہجری کی جز دوم جلد ۵۹صفحہ ۲۰۶پر اس عنوان ’انسان کا زمین پر ہمیشہ رہنا "کے تحت آتا ہے امریکاکی جونس ہبکنس یونیورسٹی کے پروفیسر ریمنڈبول کہتے ہیں ۔

بعض سائنسی تجربات سے ظاہرہوتا ہے کہ انسانی جسم کے اجزاکو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھا جاسکتا ہے لہذا انسانی زندگی کے سوسال کے ہونے کا احتمال ہے اوراسکے ہزارسال تک طویل ہونے میں بھی کوئی مانع نہیں ہے"

اسی رسالے کے ۵۹کے عدد سوم صفحہ ۲۳۹پر ہے "یہ ممکن ہے کہ انسان ہزاروں سال تک زندہ رہے اگراس کی زندگی کو ختم کرنے والی چیزیں اسے عارض نہ ہوں اوران کی یہ بات فقط ایک گمان ہی نہیں ہے بلکہ سائنسی تجربات کا نتیجہ ہے ہم اس امکان علمی کی تائید کے لیے انہیں شواہد پر اکتفاکرتے ہیں ج ماہرین نے اسے امکان علمی میں تبدیل کرنے کے لیے انجام دیئے ہیں۔

۲۔ حال ہی میں بیروت "الایمان پبلیشرز اوردارالرشید "دمشق سے شائع ہونے والی کتاب "حقائق اغرب من الخیال"جزء اول صفحہ ۲۴پر ہے۔

بیریر۱۹۵۵۱ ء میں اپنے آبائی وطن مونٹریا میں ۱۶۶ سال کی عمرمیں دنیا سے رخصت ہو اورا س کی عمرکی اس دوستوں کے گواہی دی اورمیونسپل کمیٹی کے رجسٹروں میں اس کا ریکارڈ محفوظ ہے اورخود بیر یرانے ۱۸۱۵ ء میں واقع ہونے والی جنگ کا راجنیا کے واقعات بڑی وضاحت سے بیان کئے تھے

زندگی کے آخری دنوں میں اسے نیویارک لایاگیا جہاں پر طبیعی ماہرین کی ایک ٹیم نے اس کا چیک اپ کیا توانہوں نے دیکھا کہ اس کا بلڈپریشر، نبض اوردل کی دھڑکن بالکل صحیح ہے اوردماغ ابھی تک جوان ہے۔

لیکن اس کے باوجود انہوں رپورٹ دی کہ اس کی عمر ۱۵۰سال سے زیادہ ہے اوراس کے صفحہ تیس پر ہے کہ توماس بار ۱۵۲سال تک زندہ رہا"۔

اورصاحب سنن سجستانی نے "المعمرون نامی ایک کتاب لکھی ہے اس میں اس نے بہت سارے سن رسیدہ افراد کا تذکرہ کیا ہے ان میں سے بعض کی عمر توپانچ سوسال تک زندہ رہا "۔

۳۔ فقط طبی ماہرین کا بڑھاپے کے مرض اورموت کے اسباب کو پہنچاننے کیلئے تجربات کرنا اورانسانی عمرکو طولانی کرنے کے لئے مسلسل کوشش کرنا اگرچہ محدود حدتک ہی کیوں نہ ہو یہ خود امکان کی ایک دلیل ہے ورنہ ان کا یہ کام فضول اورخلاف عقل ہوگا۔

اس کی روشنی میں حضرت امام مہدی کے مسئلے میں تعجب یا انکار کی کوئی منطقی وجہ نہیں ہے مگریہ کہاجائے کہ حضرت امام مہدی سائنس سے بھی سبقت کے گئے ہیں پس آپ کی شخصیت میں امکان علمی امکان عملی میں تبدیل ہواقبل اس کے کہ سائنس ترقی کرتے ہوئے

لیکن یہ بھی انکار یاتعجب کی کوئی عقلی وجہ نہیں بن سکتی کیونکہ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص سائنس سے پہلے کینسر کی دوا دریافت کرلے اوراسلامی نظریہ میں ایسی سبقت کے کئی واقعات ملتے ہیں۔

چنانچہ قرآن مجید میں وجود ، طبیعت اورانسان کے متعلق کئی حقائق کی طرف اشارے کئے ہیں اورسائنس نے بعدان سے پردہ اٹھایا ہے۔

ہمیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ہمارے سامنے یہ قرآن کریم ہے جو حضرت نوح کا واقعہ بیان کرکے امکان عملی کا واضح ثبوت فراہم کررہا ہے اسی طرح احادیث نبویہ نے متعدد اشخاص کے صدیوں سے زندہ ہونے کی وضاحت کی ہے جیسے حضرت خضر حضرت عیسیٰ اوردجال،

جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح میں جساسہ سے نقل کیا ہے ان پرہم کیوں ایمان رکھتے ہیں حالانکہ اسلام کے مستقبل کے لئے ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے سوائے حضرت عیسی کے جونازل ہو کرحضرت امام مہدی کے وزیر ، مددگار اورآپ کے لشکر کے قائد ہوں گے جیسا کہ کثیر روایات میں ہے(ملاحظہ ہو شہید محمد باقر کی "الجوث حول المھدی)

اورکیوں بعض لوگ حضرت امام مہدی کا انکار کرتے ہیں جب کہ مستقبل میں وہ اس قدراہم کام کرنے والے ہیں کہ زمین کوعدل وانصاف سے پرکریں گے اورحضرت عیسٰی آپ کے پیچھے نماز پڑھیں گے(اس چیز کا صحیح بخاری کے پانچ شارحین نے اعتراف کیا ہے جیسا کہ اس کی تفصیل فصل سوم کے اول میں گزر چکی ہے)

جواب دوم:۔

فرض کریں بڑھاپے والا قانون حتمی ہے اورانسانی عمر کو طبیعی حدسے زیادہ طویل کرنا ان طبیعی قوانین کے خلاف ہے جن کا ہم آج تک مشاہدی کررہے ہیں توامام مہدی کی نسبت یہ چیز معجزہ ہوگی اوریہ کوئی تاریخ میں انوکھا واقعہ نہیں ہے۔

پھر مسلمان جو اپنا عقیدہ قرآن کریم اورسنت شریفہ سے حاصل کرتا ہے کو اس پرتعجب یا انکار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس کے سامنے اس سے بھی زیادہ مضبوط طبیعی قانون ٹوٹ گیا ہے جیسا کہ جناب ابراہیم کو جب بھڑکتے ہوئے شعلوں میں ڈالا گیا تو اللہ تعالیٰ نے معجزہ کے ذریعے ان کو نجات دی اور آگ گلزار بن گئی۔قرآن اس کی یوں تصریح کرتا ہے

( قلنا یا نار کونی برداوسطاما علی ابراهیم)

ہم نے کہا اے آگ ! ابراہیم پر بالکل ٹھنڈی اور سلامتی کا باعث بن جا(سورة انبیاء۲۱۔۲۹)

اب یہ اوراس قسم کے دوسرے معجزات وکرامات جو خدا نے خاص طور پر اپنے اولیاء کو عطا کئے ہیں سائنسدانوں کی مادی وسائل سے تیارکردہ نئی نئی ایجادات اوربڑی بڑی اختراعات کی وجہ سے فہم کے زیادہ قریب ہوگئے ہیں۔

یہی ایجادات اگر سابقہ دور میں ذکر کی جاتیں توسختی سے ان کا انکار کیا جاتا لیکن ہم ان کا مشاہدہ کررہے ہیں مثلا یہی ٹیلیویژن جسے پہلے ہم روایات میں پڑھتے تھے کہ :۔آخری زمانے میں مشرق میں رہنے والے لوگ مغرب میں رہنے والوں کو سنیں گے اوردیکھیں گے"

اوربعض لوگ انہیں بالکل غیر معقول قراردیتے تھے لیکن آج کل ایسا ہورہا ہے لہذا کسی شئی کے وجود پر تعجب کرنا یا اس کے وجود کا انکار کرنا صرف اس بنا پر کہ اس کی نظیر نہیں ہے یا وہ عام نہیں ہے کوئی منطقی اورعلمی بات نہیں ہے جب کہ یہ چیزیں امکان علمی اورمنطقی کے دائرے میں ہے اوراس پر متعدد شواہد بھی موجود ہیں

ایسی ہی بڑی بڑی علمی دریافتوں کی خبر دینے والی احادیث مثل وروایات ہیں جو امام مہدی کے معجزانہ طور پر ظہور کی خبر دیتی ہیں کہ جو جدید ایجادات کے بالکل مطابق ہے۔حضرت امام صادق سے مروی ہے کہ :۔جب ہمارا قائم ظہور کرئے گاتواللہ تعالی ٰ ہمارے شیعوں کے لیے ان کے کانوں اورآنکھوں میں اسقدر کشش پیدا کردے گا کہ ان کے اورہمارے درمیان کوئی بڑافاصلہ نہیں رہے گاوہ ان سے بات کرے گا تووہ سن رہے ہوں گے اوراسے اس کی اپنی جگہ پر دیکھ رہے ہوں گے(روضة کافی ۸:۲۰۱۔۳۲۹)

اس قدر طولانی غیبت کا رازکیا ہے؟

تیسرا سوال:۔اس قدر طولانی غیبت کا رازکیا ہے؟

کہتے ہیں حضرت مہدی کی عمر کے اس حد تک طولانی ہونے پر اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے قوانین توڑنا پڑیں یا معجزہ کی ضرورت ہو ؟کیوں اس بات کو قبول نہیں کرلیتے کہ آخری زمانے میں امت بشریہ کی قیادت کے لیے اسی زمانے میں ایک شخص پیدا ہوگا اورطبیعی حالات میں زندہ رہ کر انقلاب کے لیے قیام کریگا؟

جواب:۔ہمارے سابقہ معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کا جواب بہت واضح ہے اللہ نے ایسی حکمتوں اوراسرار کی وجہ سے کہ جن تک ہماری رسائی نہیں ہے یا ان میں سے بعض کو ہم جانتے ہیں۔

اس جہان میں یا کسی اورجہان میں بعض اشخاص کو امام مہدی کی عمر سے بھی بہت زیادہ طویل عرصے سے زندہ رکھا ہوا ہے ہم ان پریقینی صورت میں ایمان رکھتے ہیں پس امام مہدی کے بارے میں بھی ایسا ہی کرنا چاہے کیونکہ جیسے کہ پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں ہم مسلمان ہونے کے ناطے ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی کوئی فضول کام انجام نہیں دیتا۔

نیز غیب کی بہت سی چیزوں پرایمان رکھتے ہیں کہ جن پر عقلی ومقلی محکم دلائل موجود ہیں پس کوئی حرج نہیں ہے کہ ہمیں اپنے کسی عقیدے کی حکمت اورفلسفہ معلوم نہ وہوجیسا کہ احکام شرعیہ قوانین الہیہ اوربندگی وعبادت کے ایسے کئی اعمال ہیں جن کے راز اورحکمتیں ہمیں معلوم نہیں ہیں لیکن ان کی پابندی کرتے ہیں اسی طرح دو سرے الہی وغیرہ الہی ادیان میں بھی ایسا ہے بلکہ انسانی اورملکی قوانین میں بھی ایسا ہوتا ہے

اب ہم کہتے ہیں کہ سابقہ فصول میں ہماری قائم کردہ دلیلیں جو یہ بتارہی ہیں کہ مہدی پرایمان لاناضروری ہے اس کی خصوصیات سمیت اور یہ کہ وہ حسن عسکری کا فرزند حجة ہے اوریہ کہ پانچویں سال میں امام تھا اوریہ کہ اب تک زندہ ہے اگرکافی ہے توحتمی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اس طولانی غیبت کا عقیدہ رکھیں چاہے اس کے کسی فلسفے کا ہمیں علم ہو یا نہ۔

اگرچہ ممکن ہے کہ ہم اپنی محدودعقل اورقاصر فہم کے ساتھ بعض اسرار کا پتہ لگالیں ۔لیکن جو مسلمان حضرت امام مہدی کی طولانی عمر کے معجزے اورغائب ہوتے ہوئے ان کے وجود کے فوائد کا قائل نہیں ہو سکتا اس کے لیے ضروری ہے کہ نئے سرے سے اپنے عقیدے کو عقلی ونقلی دلیلوں کی کسوٹی میں پرکھے۔

اس بنا پر اس دوسرے فرض کو قبول کرنا بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ دلیلیں ہماری اس طرف راہنمائی کرتی ہیں کہ زمین ایک لحظہ کے لیے بھی حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی اس پر ایمان لانے کے بعد چاہے اس کے اسرار کا ہمیں علم ہو یا نہ ہو اس عقیدے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ حضرت مہدی ولادت سے لے کر اب تک زندہ ہیں

سوال چہارم :۔ امام غائب کا فائدہ کیا ہے؟

بعض اذہان میں یہ سوال بھی گردش کرتا ہے کہ امام مہدی جب اس طرح غائب اورنظروں سے اوجھل ہیں توامت مسلمہ کو ان سے فائدہ کیا ہے؟

جواب:۔

جوشخص اس مسئلے میں دقت اورتحقیق کرتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ ان صحیح روایات کومدنظر رکھے جو کہتی ہیں امام مہدی بہت سریع یا اچانک ظہورفرمائیں گے یعنی کسی مخصوص زمانے یا وقت کی تعین کے بغیراس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہر نسل ان ظہور مبارک کی منتظر رہے لہذااس مسئلہ میں تامل کرنے سے مندرجہ ذیل فوائد کا کشف کرنا مشکل نہیں ہے۔

۱۔ یہ چیز ہرمومن کو شریعت پر کاربند رہنے اوراس کے اوامر ونواہی کی پابندی کرنے کی طرف دعوت دیتی ہے اوراسے دوسروں پر ظلم کرنے اوران کے حقوق کو غصب کرنے سے باز رکھتی ہے۔

کیونکہ امام مہدی کے اچانک ظہور کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی اس حکومت کی بنیادرکھیں گے جس میں ظالم سے انتقام لیا جائے گا،عدل کو رائج کیا جائے گا اورظلم کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائیگا۔اگرکہاجائے شریعت اسلام جس کا دستور قرآن کریم ہے نے ظلم وزیادتی سے منع کردیا ہے پس وہی کافی ہے توہم کہیں گے حکومت سلطنت اورطاقت کے وجود کا عقیدہ رکھنا بہت قوی مانع شمار کیا جاتا ہے۔

صحیح میں آیا ہے کہ اللہ تعالی ٰ بادشاہ کے ذریعے وہ کچھ روکتا ہے جوقرآن کے ذریعے نہیں روکتا۔

۲۔ یہ چیز ہر مومن کودعوت دیتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو امام مہدی کے لشکر میں شامل کرنے ان کی پوری طرح حفاظت کرنے اپنی قربانی دینے اورشریعت الہیہ کو قائم کرنے کے لیے ان کی حکومت کو پوری زمین پر پھیلانے کیلئے ہر وقت اپنے آپ کو تیار اورآمادہ رکھے۔

کیونکہ اس سے مومن نے اندر باہمی تعاون اوراپنی صفوں کو منظم ومضبوط رکھنے کا شعور پیدا ہوتا ہے اس لیے کہ مستقبل میں وہ حضرت امام مہدی کے لشکر میں شامل ہونے والے ہیں

۳۔ یہ غیبت مومن کو اپنے فرائض خاص طور پرامر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضے کو جلد از جلد انجام دینے پرآمادہ کرتی ہے کیونکہ حضرت امام مہدی کے مددگاروں کے لیے فقط انتظار میں بیٹھے رہنا کافی نہیں ہے بلکہ عظیم اسلامی حکومت قائم کرنے اورظہور سے پہلے اس کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے امربالمعروف اورنہی عن المنکرکا فرفریضہ انجام دینا ضروری ہے۔

۴۔ امت مسلمہ جو زندہ اورموجود حضرت امام مہدی کا عقیدہ رکھتی ہے ہر وقت عزت اورکرامت کے احساس کے ساتھ زندی گزارے گی

اللہ تعالی کے دشمنوں کے سامنے اپنا سر تسلیم خم نہ کرے گی ان کی ظلم وزیادتی اورسرکشی کے سامنے نہیں جھکے گی کیونکہ اسے ہر لمحے امام مہدی کے کامیاب ظہور کا انتظار ہے لہذا وہ ذلت وپستی سے محفوظ رہے گی استکباری قوتوں اوران کے تمام آلہ کاروں کو حقیر اورمعمولی سمجھے گی

اوریہی احساس مقابلہ کرنے قربانی دینے اورپایدار رہنے کاایک بہت بڑا عامل ہے اوریہی اللہ اوراسلام کے دشمنوں کوخوفزدہ کئے ہوئے ہے اوریہی ان کے مسلسل خوف اورڈرکا راز ہے۔ اس لئے انہوں نے ہمیشہ نظریہ مہدویت کو کمزورکرنے کی کوشش کی ہے اوراس میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کے لیے قلموں کو خریداہے کہ انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے انہیں گمراہ کرنے اوراپنے صحیح نظریات سے منحرف کرنے اپنے فاسد عقائد کی ترویج کرنے کے لیے ان کے اندر ربابیت بہائیت ، قادیانیت، اوروہابیت جیسے نئے نئے فرقے پیدا کیے ہیں ۔

ان کے علاوہ ظہور امام مہدی کا عقیدہ رکھنے والا شخص آخرت میں بھی اس کے بہت سارے فوائد اورثمرات حاصل کرسکتا ہے ان میں سرفہرست اللہ تعالی کے عدل اوراس امت پرمہربان ہونے کا عقیدہ رکھنا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے بغیرکسی سہارے کے نہیں چھوڑدیا کہ دین سے اانحراف کودیکھ کے وہ مایوسی کا شکار ہوجائے بلکہ ان کے لیے امام مہدی کی قیادت میں دین کے تمام روئے زمین پر غالب ہونے کی امید برقراررکھی ہے۔

دوسرا فائدہ انتظار پراجروثواب ہے امام صادق سے ایک صحیح حدیث سے مروی ہے "ہمارے مہدی کا انتظار کرنے والا اپنے آپ کو راہ خدامیں خون میں لت پت کرنے والے کی مثل ہے"

اسی طرح کاایک فائدہ اللہ تعالی کے اس فرمان کا پابندرہنا ہے جس میں وہ ابراہیم کی اپنے بیٹوں کو وصیت نقل کررہا ہے۔

( یا بنی ان الله اصطفی لکم الدین فلا تمومن الا وانتم مسلمون)

میرے بیٹو! اللہ نے تمہارے لئے دین کو منتخب کیا ہے پس نہ مرنا مگر اس حالت میں کہ مسلمان ہو(البقرہ :۲۔۱۳۲)

اورہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ جو بندہ اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کئے بغیر مرجائے وہ جاہلیت والی موت مرتا ہے اورہمارے زمانے کے امام یہی امام مہدی ہیں ان سب چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات بھی ظاہر ہوجاتی ہے کہ "زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی"

آخرمیں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ دشمنان اسلام کی مسلسل اورسر توڑ کوشش رہی ہے کہ خود مسلمانوں کی صفوں کے اندر ایجنٹ پیدا کریں شاید انہیں بعض ایسے لوگ مل جائیں جنہیں وہ اچک لیں اوراپنی چادردیواری میں محفوظ کرلیں اورانہیں جھوٹے القاب دے کر کہ جن کہ وہ عرصہ دراز سے بھوکے ہیں اپنے اہداف تک پہنچنے کے لیے ان سے سواری کا کام لیں اوراسلام اوراس کے اعلی اصولوں کو بدنام کرنے والے رسالوں اورتنظیموں کے لیے انہیں آلہ کار کے طور استعمال کریں ۔

لیکن انہیں وہی لوگ ملیں گے جو اپنے روشن راستے سے منحرف ہو کر اپنے آپ کو بچے کی طرح وہ شعور سے بے بہرہ ان دایوں کی گودوں میں ڈال دیئے ہیں جو ہر گندے کھیل کے لیے بچے کو تیار کرتی ہیں

جیسے آجکل سلیمان رشدی جیسے لوگ کمزورمسلمانوں کو اپنے زہریلی پروپیکنڈے سے ڈسنے میں مصروف ہیں

لہذا مسلمانوں کو گھٹیا ہتکنڈوں کے خطرات سے آگاہ کرنا ان کے ناپاک عزائم سے بچانا اورقرآن وسنت اورمکتب اہلبیت علیھم السلام کے حقیقی ایمان کے قلعے میں محفوظ کرنا ناشرعا واجب ہے

چنانچہ ندا سلام پر لبیک کہتے ہوئے ہم نے اس کتاب میں اسلام کے ایک بنیادی نظریے کے بارے میں بحث کی ہے اوروضاحت سے بیان ہوچکا ہے کہ ظہور حضرت امام مہدی کا نظریہ اسلام کے دائمی پیغام کا لازمہ ہے اوراسے جھٹلانا اسلام کے پیغام کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔

اوراس کتاب کا سلاست اسلوب اورقوت دلیل کے علاوہ امتیاز یہ ہے کہ اس میں نظریہ مہدویت کی حقیت کے متلاشی ہر شخص کے لیے جواب موجود ہے

والحمدللہ علی ھدایتہ ، الصلوة والسلام علی افضل انبیائہ ورسلہ محمد، علی آلہ الطاہرین ، وصحبہ المخلصین ومن سارعلی نھجھم الی یوم الدین(المحرم الحرام ۱۴۱۷ھجری)

علما انساب نے حضرت امام مہدی کی ولادت کا اعتراف کیا ہے

بیشک ہرفن میں اسی فن کے ماہر ین کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اورہمارے اس مسئلے کا تعلق علماء انساب سے ہے اوراس مسئلے میں وہی بہترین فیصلہ کرسکتے ہیں ان میں سے بعض کا نظریہ ملاحظہ فرمائیں۔

۱-علم انساب کا مشہور ماہر ابونصر سہل بن عبداللہ بن داودبن سلیمان بخاری

جوچوتھی صدی کے علماء میں سے ہیں اوروہ ۳۴۱ہجری کو زندہ تھے اورامام زمانہ کی غیبت صغری جو ۳۲۹ہجری میں ختم ہوئی کے معاصر علماء انساب میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔

وہ "سرالسلسلة العلویة"میں کہتے ہیں محمد تقی کے فرزند علی نقی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کانام تھا حسن عسکری آپ کی ماں ایک ام ولد نوبیہ تھی جسے ریحانہ کے نام سے پکاراجاتا تھا۱پ ۲۳۱ہجری کو پیدا ہوئے اورآپ نے ۲۶۰ئہجری میں سامرہ میں وفات پائی اس وقت آپکی عمر انتیس برس تھی ۔

حضرت امام علی نقی کے ہاں جعفر بھی پیدا ہوا جسے شیعہ جعفر کذاب کہتے ہیں کیونکہ اس نے اپنے بھائی حسن کی میراث کا دعوی ٰ کیا تھا اوراس نے ان کے فرزند قائم حجت کا انکار کیا جس کے نسب میں کوئی شک نہیں ہے۔(’سرالسلسلۃ العلویۃ‘ابو نصر بخاری۳۹)

۲۔ پانچویں صدی ہجری جے علماء میں سے مشہور نساب سید عمری:۔

کہتے ہیں جب امام حسن عسکری نے وفات پائی تواس وقت جناب نرجس سے آپ کے فرزند کا آپ کے رشتہ داروں اورخاص شیعوں کو علم تھا۔

اورہم عنقریب آپ کی ولادت کے حالات اوران روایات کو ذکر کریں گے جو اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں اورمومنین بلکہ سب لوگوں کی آپ کی غیبت کے زریعے آزمائش کی جارہی ہے

اورجعفر بن علی نے اپنے بھائی کے مال اورآپ کی تقسیم کے سلسلے میں ان سے زیادتی کی اوراس نے انکارکردیا کہ ان کا کوئی بیٹا ہے اوربعض فرعونوں نے آپ کے بھائی کی خادماوں پرقابض ہونے کے سلسلے پر قابج ہونے کے سلسلے میں اس کی مدد کی(المجدی فی انساب الطالبیین ۱۳۰)

۳۔فخر رازی شافعی

(متوفی ۶۰۶ہجری)اپنی کتاب الشجرہ المبارکة فی انساب الطالبیة میں "امام عسکری کی اولاد"کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں

"امام حسن عسکری کے دوبیٹے اوردو بیٹیاں تھیں بیٹوں میں سے ایک صاحب الزمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ہیں اوردوسرا موسی ہے جو اپنے پاب کی زندگی میں فوت ہو گیاتھا اوربیٹیوں میں ایک فاطمہ ہے جو باپ کی زندگی میں ہی فوت ہوگئی اوردوسری ام موسی یہ بھی فوت گئی تھی(الشجرة المبارکة فی انساب الطالبیة فخر رازی ۷۹۔۷۸)

۴۔مروزی ازوی قانی

(متوفی ۶۱۴ہجری کے بعد)نے اپنی کتاب "الفخری"میں امام علی نقی کے بیٹے جعفر کو کذاب کہا جاتا ہے اس لیے کہ اس نے اپنے بھائی کے بیٹے کا انکار کیا تھا (الفخری فی انساب الطالبیین:۷)اوریہ چیز بہترین دلیل ہے کہ مروزی امام مہدی کی ولادت کا عقیدہ رکھتے تھے۔

۵۔علم انساب کے ماہر سید جمال الدین احمد بن علی الحسینی :۔

المعروف ابن عنبہ (متوفی ۸۶۸)اپنی کتاب "عمدة الطالب فی انساب آل ابی طالب" میں لکھتے ہیں

"رہے علی یادی توسر من رای میں ٹھرنے کی وجہ سے ان کا لقب عسکری ہے اوراس کو عسکر بھی کہا جا تاتھا آپ کی والدہ گرامی ایک ام ولد ہیں جو نہایت فضلیت وشرافت کی مالکہتھیں متوکل نے آپ کو سرمن رای بھیج دیا تھا اوروفات تک وہیں ٹھہرایا تھا اورآپ کے دوبیٹے تھے امام حسن عسکری علم وزہد میں بے مثال تھے اورشیعوں کے بارہویں امام مہدی کے یہی والد ہیں اورمہدی ہی قائم منتظر ہیں کہ جن کی والدہ کا نام نرجس ہے

آپ کا بھائی عبداللہ جعفر ہے جس کا لقب کذاب ہے کیونکہ اس نے اپنے بھائی حسن کی وفات کے بعد امامت کا دعوی کیا تھا(عمدة الطالب فی انساب آل ابی طالب۱۹۹)

فصول فخریہ جو فارسی میں چھپی ہے میں کہتے ہیں ابو محمد حسن جنہیں عسکری کہا جا تا ہے اورعسکر سامراء کو کہا جا تا ہے متوکل نے آپ کو آپکے والد کو مدینہ سے سامراء بلا کرروک لیا تھا

۶۔ گیارہویں صدی کے علماء انساب میں سے زیدی ابو الحسن محمد حسینی یمانی صنعانی :۔

انہوں نے امام محمد باقر کی اولاد کا نسب بیان کرنے کے لیے ایک شجرہ نسب بنایا ہے اورامام علی نقی کے نام کے نیچے آپ کے پانچ بیٹوں کا ذکر کرتے ہیں

امام عسکری ، حسین ،موسی، محمد،علی اورپھر امام عسکری کے نام کے نیچے بلاوسطہ لکھتے ہیں "محمد "اوراس کے بالمقابل لکھتے ہیں "شیعوں کا منتظر "(روضة الباب لمعرفة الانساب سیدابوالحسن محمد حسینی یمانی صنعانی ۱۰۵)

۷۔محمد امین سویدی

:۔(متوفی ۱۲۴۶)اپنی کتاب "سبائک الذہب فی معرفة قبائل العرب "میں لکھتے ہیں محمد مہدی کی مران کے والد کی وفات کے وقت پانچ سال تھی آپ درمیانہ قد اونچی تیکھی ناک روشن خوبصورت بال اورچہرے کے مالک تھے۔(سبائک الذہب سویدی ۳۴۶)

۸۔ ہم عصر نساب محمد ویس حیدری شامی:۔

اپنی کتاب الدرر البہیہ فی الانساب الحیدریہ والا ویسیہ "میں امام علی نقی کی اولاد کے بارے میں لکھتے ہیں آپ کے پاس پانچ بچے تھے ،محمد ، جعفر،حسین، امام عسکری اورعائشہ پھر حضرت امام حسن عسکری کے فرزند مہدی ہیں جو غائب ہیں

پھر بلافاصلہ اس کے بعد عنوان "امام محمد مہدی اورامام حسن عسکری "کے ذیل میں کہتے ہیں امام حسن عسکری ۲۳۱ئھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے اور۲۶۰ئھ کو سامراء میں وفات پائی ۔امام محمد مہدی کے لیے بالکل کسی اولاد کا ذکر نہیں کیا گیا (الدرر البہیہ فی الانساب الحیدریہ والا یسة طبع حلب شام ۱۴۰۵ئہجری )

پھر وہ اپنی آخری عبارت کے حاشیے پر لکھتے ہیں امام مہدی پندرہ شعبان ۲۵۵ئہجری کو پیدا ہوئے آپ کی والدہ ماجد ہ نرجس خاتون ہیں

اورآپ کے حلیے کے بارے میں لکھتے ہیں "انتہائی سفید رنگ‘روشن پیشانی ، علیحدہ علیحدہ آبرو، چمکیلے رخسار ، اونچی تیکھی ناک ، تعجب آور حسن ، سرو کے درخت کی طرح سیدھی قدوقامت ، پیشانی چمکتے دمکتے ستارے کی طرح روشن ہے دائیں رخسار پر تل ہے جیسے چاندی کی سفیدی پر کستوری کے ذرے ہوں گھنے بال ہیں جو کانوں کو ڈھانپے ہوئے ہیں ، آنکھوں سے حسن ، شگفتگی اورحیا میں ان سے بڑھ کر کوئی نہیں دیکھا(حاشیہ الدرر البہیہ ۷۴۔۷۳)

یہ امام مہدی کی ولادت کے بارے میں علماء انساب کے اقوال تھے ان میں شیعوں کے ساتھ ساتھ سنی اورزیدی بھی تھے اورضرب المثل ہے کہ مکہ والے اپنے قبیلوں کو بہتر جانتے ہیں ۔

علماء اہل سنت کا اعتراف حضرت امام مہدی کی ولادت کے سلسلے میں

حضرت امام مہدی کی ولادت کااعتراف سنی علماء نے تحریری طور پر کیا ہے اوراس کا سلسلہ کسی زمانہ میں منقطع نہیں ہوا ہے بعض نے اس سلسلہ میں خاص بحث کی اوراس کا غیبت صغری (۲۶۰۔۳۲۹ہجری)سے لیکر آج تک جاری ہے

ہم ان میں فقط بعض کو ذکر کریں گے مزید تفصیل کے لیے ان اعترافات کے دیگر مجموعوں کی طرف رجوع کریں(ملاحظہ ہو سید قزویجنی کی کتاب "ایمان الصحیح "شیخ مہدی فقیہ ایمانی کی کتاب "الامام المہدی فی نہج البلاغہ "تبریزی کی "من ھو الامام المہدی "شیخ علی یزدی حائری کی "الزام الناصب "استاد علی محمد دخلیل کی "الامام المہدی "سید ثامر عمیدی کی "دفاع عن الکافی "اس میں اہل سنت کے ایک سو اٹھائیس علما ء کے نام ان کی صدیوں کی ترتیب سے مذکور ہیں کہ جہنوں نے امام مہدی کی ولادت کا اعتراف کیاہے)

ان میں سے پہلا ابو بکر محمد بن ہارون رویانی (وفات ۳۰۷ء)ہجری اپنی کتاب المسند (خطی نسخہ )میں اورآخری استاد معاصر یونس احمد سامرائی ہے اپنی کتاب "سامراء فی ادب القرن الثالث الہجری "میں یہ کتاب بغداد یونیورسٹی کی مدد سے ۱۹۶۸میلادی میں چھپی تھی ۔

ملاحظہ ہو دفاعن الکافی"۱:۵۹۲۔۵۶۸،الدلیل السادس اعترافات اہل السنة "کے عنوان کے ذیل میں)

۱۔ ابن اثیر جزری عزالدین :۔(متوفی ۶۳۰ہجری)نے انی کتاب الکامل فی التاریخ "میں ۲۶۰ء ہجری کے واقعات میں لکھا ہے

اسی سال حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام فوت ہوئے اورشیعوں کے بارہ اماموں میں سے ایک ہیں اورشیعوں کے جو مہدی منتظر کے والد یہی ہیں (الکامل فی التاریخ ۷:۲۷۴،۲۶۰ہجری کے آخری واقعات میں )

۲۔ ابن خلکان :۔(متوفی ۶۸۰ہجری)وفیات الاعیان میں لکھتے ہیں شیعوں کے عقیدے کے مطابق امام حسن عسکری کے فرز ند ابوالقاسم محمد جو حجت کینام سے مشہور ہیں بارہویں امام ہیں آپ پندرہ شعبان ۲۵۵ ئہجری روز جمعہ کو پیدا ہوئے

پھر مورخ ابن ازرق فارقی (متوفی ۵۷۷ہجری )سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے تاریخ "میا فارقین "میں لکجا ہے یہی حجة نو ربیع اول ۲۵۷ ء ہجری کو پیدا ہوئے اوربعض نے کہا ہے آٹھ شعبان ۲۵۶ ء ہجری کو اوریہی زیادہ صحیح ہے (دفیات الاعیان ۴:۱۷۶۔۵۶۲۔)

آپ کی ولادت کے بارے میں ابن خلکان کا قول ہی صحیح ہے کہ آپ پندرہ شعبان ۲۵۵ ء کو بروز جمعہ پیدا ہوئے۔

اسی پر سارے شیعہ علماء کا اتفاق ہے اوراس سلسلے میں علماء شیعہ نے صحیح روایات اورعلمائے متقدمین کے اقوال نقل بھی کئے ہیں اورشیخ کلینی "جنہوں نے غیبت صغری کا تقریبا پورا زمانہ پایا ہے "نے اس کو مسلمات میں شمار کیا ہے اوراس کے خلاف وارد ہونے والی احادیث پر اس کو مقدم کیا ہے۔

چنانچہ صاحب الزمان کے روز ولادت کے بارے میں لکھتے ہیں آپ پندرہ شعبان ۲۵۵ء ہجری کو پیدا ہوئے(اصول کافی ۱:۵۱۴باب ۱۲۵)

شیخ صدوق (متوفی ۳۸۱ئہجری )نے اپنے شیخ محمد بن محمد بن عصام کلینی سے انہوں نے محمد بن یعقوب کلینی سے انہوں نے علی بن محمد بن بندار سے روایت نقل کی ہے کہ امام زمانہ پندرہ شعبان ۲۵۵ہجری کو پیدا ہوئے"(کمال الدین ۲:۴۳۰۔۴باب ۴۲)

لیکن کلینی نے اپنے قول کو علی بن محمد کی طر ف نسبت نہیں دی کیونکہ یہ مشہور ہے اوراس پر اتفاق ہے۔

۳۔ذہبی:۔ (متوفی ۷۴۸ہجری )نے اپنی تین کتابوں میں امام مہدی کی ولادت کا اعتراف کیا ہے انہوں نے اپنی کتاب "العبر"میں لکھا ہے "اور۲۵۶ئہجری میں امام مہدی بن حسن عسکری بن علی نقی بن محمد تقی بن علی رضا بن موسی کاظم بن جعفر صادق شیعوں نے انہیں خلف حجة ، مہدی منتظر اورصاحب الزمان جیسے القاب دے رکھے ہیں اوریہ بارہ میں سے آخری امام ہیں (المعبر خبر من غبر ۳:۳۱)

اورتاریخ دول الاسلام میں امام حسن عسکری کے حالات میں لکھتے ہیں حسن بن علی نقی بن محمد تقی بن علی رضا بن موسی کاظم بن جعفر صادق ابو محمد ہاشمی حسینی شیعہ کے ان اماموں میں سے ایک ہیں جن کی عصمت کا دعوی کرتے ہیں اورانہیں حسن عسکری کہا جاتا ہے کیونکہ یہ سامراء میں رہے ہیں ۔

اورسامراء کو عسکو کہا جاتا تھا اوریہی شیعوں کے منتظر کے والد ہیں آپ نے سامراء میں آٹھ ربیع الاول ۲۶۰ہجری کو انتیس سال کی عمر میں وفات پائی اوراپنے والد کے پہلو میں دفن ہوئے اورآپ کے فرزند محمد بن مہدی بن حسن عسکری جنہیں شیعہ قائم اورخلف حجة کہتے ہیں ۲۵۸ ء ہجری کو پیدا ہوئے اوربعض نے ۲۵۶ہجری کہا ہے(تاریخ دول الاسلام ۲۶۰۔۲۵۱ہجری کے واقعات والا جز ۱۵۹۔۱۱۳)

اور"سیر اعلام النبلاء "میں لکھا ہے منتظر شریف ابوالقاسم محمد بن حسن عسکری بن علی الہادی بن محمد بن علی رضا بن موسی کاظم بن جعفر صادق بن محمد باقر بن زین العابدین بن حسین الشھید بن امام علی بن ابی طالب علوی حسینی بارہ اماموں میں سے آخری امام ہیں (سیر اعلام النبلاء ۱۳:۱۱۹، حالات نمبر۶۰)

میں کہتا ہو ں :۔ہمارے لیے ذہبی کا امام مہدی کی ولادت کے بارے میں نظریہ مہم ہے لیکن امام مہدی کے بارے میں ان کا عقیدہ تویہ دیگر لوگوں کی طرح سیراب کے منتظر ہیں جیسا کہ ہم مہدی کے محمد بن عبداللہ ہونے کے قائل حضرات کی بحث میں وضاحت کرچکے ہیں

۴۔ ابن وردی :۔ (متوفی ۷۴۹ہجری)اپنی کتاب تتمہ المختصر المعروف تاریخ ابن وردی کے ذیل میں لکھتے ہیں "محمد بن حسن عسکری ۲۵۵ ء میں پیدا ہوئے"(اس سے مومن بن حسن شبلنجی شافعی نے اپنی کتاب نورالابصار میں نقل کیا ہے۱۸۶)

۵۔ احمد بن حجر ہیتمی شافعی (متوفی ۹۷۴اپنی کتاب "الصواعق المحرقہ "کے گیارہویں باب کی تیسری فصل کے آخر میں لکھتے ہیں :۔

ابو محمد الحسن الخالص جنہیں ابن فلکان نے عسکری کہا ہے ۲۳۲ ء ہجری کو پیدا ہوئے ۔۔۔۔۔سرمن رای میں وفات پائی اوراپنے باپ کو چچا کے پہلو میں دفن ہوئے آپ کی عمر ا ٹھائیس سال تھی اورکہا جاتا ہے کہ آپ کو بھی زہر دیا گیا تھا آپ کا فقط ایک بیٹا تھا ابوالقاسم محمد بن حجة اوروالد کی وفات کی وقت اس کی عمر پانچ برس تھی۔لیکن اسی عمر میں اللہ تعالی نے اسے حکمت عطا کر رکھی تھی اوراسے قائم منتظر کہا جاتا ہے اورکہا جا تا ہے کہ یہ مدینہ میں غائب ہوئے اورنہیں معلوم کہاں گئے (الاتحاف بحب الاشراف۶۸)

۷۔ مومن بن حسن شبلبخی :۔(متوفی ۱۳۰۸ ء ہجری)نے اپنی کتاب نورالابصار میں امام مہدی کے نام نسب شریف کنیت اورالقاب کا اعتراف کیا پھر لکھتے ہیں شیعوں کے عقیدے کے مطابق یہ بارہ میں سے آخری امام ہیں پھر تاریخ ابن وردی سے وہی نقل کیا ہے جو نمبر ۴، میں گزر چکا ہے(نورالابصار۱۸۶)

۸۔ خیر الدین زرکلی:۔(متوفی ۱۳۹۲ہجری)اپنی کتاب "الاعلام "میں حضرت امام مہدی کے حالات میں لکھتے ہیں محمد بن حسن عسکری شیعوں کے آخری امام ہیں سامراء میں پیدا ہوئے اورجب آپ کے والد کی وفات ہوئی توآپ کی عمر پانچ برس کی تھی اورکہاگیا ہے کہ آپ کی تاریخ پیدائش پندرہ شعبان ۲۵۵ ء ہجری اورتاریخ غیبت ۲۶۵ ء ہجری (الاعلام ۸۰:۶)

میں کہتا ہوں :۔غیبت صغری کا آغاز ۲۶۰ ء ہجری کو ہوا اورہماری معلومات کے مطابق اس پر اس سب شیعہ اورغیر شیعہ کہ جنہوں نے تاریخ غیبت لکھی ہے کا اتفاق ہے اوراعلام میں جو کچھ ہے شاید یہ کتابت میں غلطی ہوئی ہے کیونکہ زرکلی نے غیبت کا سن حروف کے بجائے عدد میں لکھا ہے اورکتابت میں عدر کی غلطی کا احتمال بہت زیادہ ہے اس کے علاوہ اوربھی کثیر اعترافات ہیں کہ جب کی اس بحث میں گنجائش نہیں ہے۔

اہل سنت کا اعتراف کہ امام مہدی امام حسن عسکری کے فرزند ہیں

اہل سنت کے بہت سارے علماء نے اعتراف کیا ہے کہ مہدی جو آخری زمانہ میں ظہور کریں گے وہ حسن عسکری کے فرزند محمد ہیں اورآپ ان اہل بیت کے بارہویں امام ہیں جو سارے مسلمانوں کے امام ہیں نہ فقط شیعوں کے

جیسا کہ بعض لوگ اس کا دعوی کرتے ہیں گویا پیغمبر نے فقط شیعوں کو ثقلین یعنی کتاب الہی اورعترت اہل بیت سے تمسک کرنے کا حکم دیا تھا

بہر حال ہم ان انصاف پسند علماء کے اقوال ذکر کرتے ہیں جنہوں نے حقیقت کی تصریخ کی ہے

محی الدین ابن عربی :۔(متوفی ۶۳۸ہجری)نے فتوحات مکیة میں حمزاوی نے "مشارق الانوار "میں اورصبان نے "اسعاف الراغبین "میں عبدالوہاب بن احمد شعرانی شافعی(متوفی ۹۷۳ہجری)کی کتاب "الیواقیت والجواہر"سے نقل کیا ہے کہ محی الدین ابن عربی نے اپنی کتاب فتوحات مکیة کے باب نمبر ۳۶۶بحث پنجم میں اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا ہے

لیکن بزرگوں کی میراث کی حفاظت کے دعویداروں نے کتاب سے اس اعتراف کو نکال دیا ہے کیونکہ میں نے خود جستجو کی لیکن مجھے نہیں ملا

شعرانی محی الدین سے نقل کرتے ہوئے کہتا ہے شیخ محی الدین کی فتوحات کے باب نمبر ۳۶۶پر عبارت یہ ہے :۔

معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کا ظہور حتمی اوریقینی ہے لیکن اس وقت تک ظہور نہیں کریں گے جب تک زمین ظلم وجور سے پر نہیں ہو جائے گی پس آپ اسے عدل وانصاف سے پر کریں گے اگردنیا کا فقط ایک دن باقی رہ جائے اسی کو اللہ تعالی اس قدر طویل کردے گا تاکہ آپ حاکم بن جائیں اورآپ پیغمبر اکرم کی عترت اورفاطمہ کی اولاد سے ہیں آپ کے جد حسین ابن علی ابی طالب ہیں اورآپ کے والد حسن عسکری بن امام علی نقی ہیں (الیواقیت والجواہر شعرانی ۲:۱۴۳، مطبع مصطفی البابی الحلبی مصر ۱۳۷۸ہجری ،۱۹۵۹ء)میلاد دی۔)

۲۔ کمال الدین محمد بن طلحہ شافعی :۔(متوفی ۶۵۲ ء ہجری)اپنی کتاب مطالب السئوول میں لکھتے ہیں آپ ابو القاسم محمد بن حسن خالص بن علی متوکل بن قانع بن علی رضا بن موسی کاظم بن جعفرصادق بن محمد باقر بن زین العابدین بن حسین ذکی بن علی مرتضی امیرالمومنین بن ابی طالب مہدی حجة ، خلف صالح اورمنتظرہیں رحمة اللہ وبرکاتہ

اس کے بعد ایک قصیدہ لکھا ہے جس کا مطلع یہ ہے :۔

فهذاالخلف الحجة ایده الله

هذامنهج الحق وآتاه سجایاه

یہ خلف حجة ہے اوراللہ نے اس کی تائید کی ہے یہ راہ حق ہے اوراللہ تعالی نے اسے خصوصیات عطا کی ہیں (مطالب السئوول ۲:۷۹باب۱۲)

۳۔ سبط ابن جوزی حنبلی :۔(متوفی ۶۵۴ ء ہجری)اپنی کتاب "تذکرة الخواص " میں حضرت امام مہدی کے بارے میں لکھتے ہیں آپ محمد بن ابن حسن ابن علی ابن محمد ابن علی ابن موسی رضا بن جعفرابن محمد بن علی ابن حسین ابن علی ابو طالب (علیھم السلام )ہیں آپ کی کنیت ابو عبداللہ اورابو القاسم ہے آپ ہی خلف حجة صاحب الزمان ، قائم ، منتظر تالی اورآخری امام ہیں (تذکرة الخواص ۳۶۳)

۴۔ محمد ابن یوسف ابو عبداللہ کنجی شافعی:۔(مقتول ۶۵۸ ء ہجری)اپنی کتاب "کفایة الطالب "کے آخری صحیفہ میں امام حسن عسکری کے متعلق لکھتے ہیں ۔

آپ کی پیدائش ربیع الثانی ۲۳۲ ء ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی اورربیع الاول سے آٹھ دن پہلے ۲۶۰ ء ہجری میں وفات پائی اس وقت آپ کی عمر ۲۸برس تھی اورآ پ سرمن رای والے گھر کے اسی کمرے میں دفن ہوئے جہان آپ کے والد دفن ہیں اوراپنے بعد اپنے بیٹے امام منتظر کو خلیفہ بنایا اورہم کتاب کو یہی پر ختم کرتے ہیں اوران کے بارے میں الگ الگ کتابیں لکھیں گے۔

یوسف کنجی شافعی نے امام مہدی کے بارے میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے اوراس کا نام "البیان فی اخبار صاحب الزمان "رکھا ہے اوریہ ان کی کتاب کفایة الطالب کے ساتھ چھپی ہے اوردونوں ایک ہی جلد میں ہیں اس میں انہوں نے بہت ساری چیزیں ذکر کی ہیں اورآخر میں یہ ثابت کیا ہے کہ مہدی غیبت سے لیکر آخری زمانے تک زندہ اورباقی ہیں آپ ظہور فرما کر دنیا کو عدل وانصاف سے پر کردیں گے جیسا کہ وہ ظلم وجور سے پر ہو چکی ہو گی(البیان فی اخبار صاحب الزمان :۵۲۱باب ۲۵)

۵۔ نور الدین علی بن محمد صباغ مالکی:۔(متوفی ۸۵۵ہجری)نے اپنی کتاب "الفصول المہة"کی بارہویں فصل کا عنوان یوں قرار دیاہے "حسن عسکری کے فرزند ابو القاسم الحجة اورخلف صالح کے ذکر میں جو بارہویں امام ہیں "

اوراس فصل میں کنجی شافعی کے اس قول کو دلیل کے طور پر ذکر کیا ہے "مہدی کی غیبت سے لیکر اب تک ان کا زندہ اورباقی رہنا کوئی محال نہیں ہے جیسا کہ اللہ کے اولیاء میں سے عیسی بن مریم ،خضراورالیاس اب تک زندہ اورباقی ہیں اوراب کے دشمنوں میں دجال اورابلیس لعین ابھی تک زندہ ہیں ان کی دلیل کتاب سنت ہیں

پھر اس نے اس کتاب وسنت سے دلیلیں پیش کی ہیں اورامام مہدی کی ولادت آپ کی امامت کے دلائل آپ کی احادیث ، غیبت ، آپ کی حکومت کی مدت کنیت اورآپ کے نسب کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے جو امام حسن عسکری سے متصل ہوتا ہے(ابن صباغ کی الفصول مہمة ۲۰۰۔۲۸۷)

۶۔ فصل بن روز بہان :۔(متوفی ۹۰۹ ہجری کے بعد)نے اپنی کتاب البطال الباطل "میں اہل بیت کی شان میں اس نظم کو لکھنے کے بعد اس پر فخر کیا ہے۔

سلام علی المصطفی ٰالمجتبیٰ

سلام علیٰ السید المرتضی

سلام علیٰ ستنا فاطمة

من اختارها الله خیرالنسا

سلام من المسک انفاسه

علی ٰ الحسین الالمعی الرضا

سلام علی ٰ الاورعی الحسین

شهید یریٰ جمسه کربلا

سلام علیٰ سیدالعابدین

علی ابن الحسین المجتبیٰ

سلام علیٰ الباقرالمهتدیٰ

سلام علی ٰ الصادق المقتدی ٰ

سلام علیٰ الکاظم الممتحن

رضی السجایا امام التقیٰ

سلام علیٰ الثامن الموتمن

علی الرضا سید الاصفیا

محمد الطیب المرتجی

سلام علیٰ الاریعی النقی

علی المکرم هادی الوریٰ

سلام علی السید العسکری

امام یجهزجیش الصفا

سلام علی القائم المنتظر

ابی القاسم العرم نور الهدی

سیطع کالشمس فی غاسق

ینجیه من سیفه المنقیٰ

قوی یملاالارض من عدله

کما ملئت جوراهل الهویٰ

سلام علیه وآبائه

وانصاره،ماتدوم السما

سلام ہو اللہ کے برگزیدہ مصطفی پر ، سلام ہو سید مرتضی ٰ پر،سلام ہو فاطمہ زہراپر جسے اللہ نے سب عورتوں سے افصل بنایا ہے سلام ہو حسن مجتبی پر جو سرچشمہ ہدایت ہیں ، سلام ہو حسین شہید پر جس کا جسم کربلا میں دیکھا گیا ، سلام ہو سید العابدین پر جو حسین کے بیٹے علی اوربرگزیدہ ہیں سلام ہو باقر پر جو ہدایت یافتہ ہیں سلام ہو صادق پر جن کی اقتداکی جاتی ہے۔

سلام ہو کاظم پر جسے آزمایا گیا جو پسندیدہ اخلاق والے اورمتقوں کے امام ہیں سلام ہو آٹھویں امین علی رضا پر جو چنے ہووں کے سردارہیں ، سلام ہو محمد تقی پر جو پرہیز گارپاک وپاکیزہ اورلوگوں کی امیدوں کا مرکز ہیں ، سلام ہو وسیع الاخلاق علی نقی پر جو معظم ومکرم اورامت کے لیے ہادی ہیں ، سلام ہو سید عسکری پر۔

سلام ہو ابوالقاسم قائم منتظر پر جو نورہدایت ہیں وہ تاریک رات کے بعد سورج کی طرح طلوع کریں گے اوراپنی برگزیدہ تلوار کے ساتھ نجات دیں گے وہ زمین کو عدل سے پر کرد یں گے جس طرح وہ خواہشات کے شکارلوگوں کے ظلم سے پر ہو گی سلام ہو اس پر اس کے آباواجداد پر اوراس کے مدد گاروں پر جب تک آسمان باقی ہے(دلائل الصدق ۲:۵۷۴۔۵۷۵، بحث پنجم ، شیخ محمد حسن مظفر نے اپنی کتاب دلائل الصدق میں کتاب البطال الباطل پوری کی پوری نقل کی ہے)

۷۔شمس الدین محمدبن طولون حنفی:۔(متوفی ۹۸۳ ء ہجری)مورخ دمشق نے اپنی کتاب "الائمہ الاثناعشر"میں امام مہدی کے بارے میں لکھا ہے "آپ پندرہ شعبان ۲۵۵ ء ہجری بروز جمعہ پید اہوئے اورجب آپ کے والد نے وفات پائی توآپ کی عمر پانچ برس تھی (الائمہ الاثنا عشرابن طولون حنفی:۱۱۷)

پھر بارہ اماموں کا ذکر کر کے کہتے ہیں میں نے ان کے بارے میں یہ نظم کہی ہے:

علیک بالائمة الاثنی عشر

من آل بیت المصطفیٰ خیر البشر

ابو تراب ، حسن ، حسین

بخض زین العابدین شین

محمد باقر کم علم دریٰ ؟

والصادق ادع جعفراً بین الوری

موسی هو الکاظم ، ابنة علی

لقبة بالرضا وقدره علی

محمد التقی قلبه معمور

علی النقی دره منثور

والعسکری الحسن المطهر

محمد المهدی سوف یظهر

محمد مصطفی جو خیر البشر ہیں ان کی آل میں سے بارہ اماموں کے ساتھ تمسک کرنا ضروری ہے ،ابو تراب حسن ، حسین اورزین العابدین سے بغض رکھنا گنا ہے محمد باقر کتنا علم رکھتے تھے اورصادق کو لوگوں کے درمیان جعفر کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔

جو موسی جو کاظم ہیں اوران کے فرزند علی ہیں جن کا لقب رضاہے اورا ن کی شان عظیم ہے محمد تقی جن کا دل آباد ہے علی نقی کے موتی بکھرے ہوئے ہیں حسن عسکری جو پاک وپاکیزہ ہیں محمد مہدی جو عنقریب ظہور کریں گے(الائمہ الاثناعشر:۱۱۸)

۸۔ احمد بن یوسف ابو العباس قرمانی حنفی :۔(متوفی ۱۰۱۹ہجری)اپنی کتاب "اخبار الدول وآثار الاول " کی گیارہویں فصل"ابو القاسم محمد حجة خلف صالح کے بارے میں "کہتے ہیں والد "والد کی وفات کی وقت آپ کی عمر پانچ برس تھی اوراسی میں اللہ تعالی نے آپ کو حکمت عطا کی تھی جیسا کہ یحییٰ کو بھی بچپن میں ہی عطا فرمائی تھی اورآپ متوسط قد ، اونچی تیکھی ناک ، روشن پیشانی اورخوبصور چہرے اوربالوں والے تھے ۔۔۔اورعلماء کا اتفاق (ملاحظہ فرمائیے ان کا قول "علما کا اتفاق ہے "اورپھر اس کا موازنہ اصلاح طلب نعرے لگانے والوں کے باطل خیالات سے کیجئے)

اس بات پر کہ مہدی ہی آخری وقت میں قیام کریں گے آپ کے ظہور کی اخبار نے تائید کی ہے اورآپ کے نور سے عالم ک وروشنی ملے گی اس پر بہت سی روایات ہیں آپ کے ظہور سے دنوں راتوں کی تاریکی ختم ہو جائے گی جیسے اندھیری رات کے بعد صبح ہو آپ کا عدل پورے عالم پر چھا جائے گا جو چودہویں کے چاند سے بھی زیادہ ضو فشان ہو گا(اخبارالدول وآثارالاول قرمانی :۳۵۴۔۲۵۳، فصل ۱۱)

۹۔ سلیمان بن ابراہیم المعروف قدروزی حنفی:۔(متوفی ۱۲۷۰ہجری)قندروزی ان حنفی علماء میں سے ہیں جنہوں نے حضرت امام مہدی کی ولادت اوران کے قائم منتظر ہونے کاصراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے اورگذشتہ بحثوں میں ہم ان کی کئی دلیلیں اوراقوال نقل کرچکے ہیں ۔

اب ان کے اس قول کو نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یقینی اورثقہ راویوں کی روایت سے ثابت ہے کہ آپ پندرہ شعبان ۲۵۵ ء ہجری روز جمعہ سامراء میں پیدا ہوئے(ینا بیع المودة ۳:۱۱۴باب ۷۹کے آخری میں ۔)

اس بحث کو ہم یہاں پر ختم کرتے ہیں البتہ یہ بتاتے ہوئے کہ وہ علمای جو امام مہدی کی ولادت یا ان کے آخری زمانے میں قائم منتظر ہونے کے قائل ہیں ان کی تعداد ان علماء سے کئی گنازیادہ ہے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے


6

7

8