سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)0%

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

مؤلف: تارى، جليل
زمرہ جات:

مشاہدے: 10393
ڈاؤنلوڈ: 2327

تبصرے:

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 20 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10393 / ڈاؤنلوڈ: 2327
سائز سائز سائز
سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

مؤلف:
اردو

روایت ابی مخنف کی تحقیق کا طریقۂ کار

ابو مخنف کی روایات کے متن کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں فیصلہ کرنا آسان کام نہیں ہے کیونکہ ابو مخنف کو تاریخی روایات نقل کرنے والوں میں ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے لھٰذا دوسری روایات کے پیش نظر ان کی روایت کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ تاریخ کے تمام راوی جیسے ھشام کلبی، واقدی، مدائنی، ابن سعد وغیرہ یہ سب ان کے دور کے بعد سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی کے مرہون منت ہیں۔

کافی غور و فکر اور جستجو کے بعد اس کتاب میں تحقیق کا جو طریقۂ کار اپنایا گیا ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ سب سے پھلے ابو مخنف کی اس روایت کے مضمون کو تاریخ کی اہم کتابوں سے، جو تاریخ طبری سے پہلے اور اس کے بعد لکھی گئی ہیں نیز خود تاریخ طبری کی متعدد روایات سے اس کا موازنہ کیا جائے اس کے بعد تمام قرائن و شواھد کی روشنی میں اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جائے، اس سلسلے میں جن کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے وہ تاریخ کی معتبر، معروف و مشھور کتابیں ہیں جن میں سے اکثر کتابیں اہل سنت کی ہیں۔ ہم آپ کی معلومات کے لئے ان کتابوں کے نام کے ساتھ ساتھ ان کا مختصر تعارف کرانا بھی ضروری سمجھتے ہیں(۴۰)

البتہ اس سے پہلے کہ تاریخ طبری سے پہلے لکھی جانے والی کتابوں کا تعارف کرایا جائے سب سے پہلے خود تاریخ طبری کا تعارف پیش کرتے ہیں کیونکہ یہ ہماری بحث کا محور ہے اور تاریخ کی ایک جامع کتاب ہے۔

تاریخ طبری:

اس کتاب کا نام "تاریخ الامم والملوک یا تاریخ الرسل والملوک" ہے جس کے مولف ابو جعفر محمد بن جریر طبری ہیں وہ ۲۲۴ ہجری میں آمل طبرستان (مازندران: ایران کا ایک شہر) میں پیدا ہوئے اور تحصیل علوم کے سلسلے میں مقامات کا سفر کیا پھر بغداد میں سکونت اختیار کرلی اور ۳۱۰ ہجری میں وھیں انتقال کر گئے(۴۱) ۔

آپ کا شمار فقہ، تفسیر اور تاریخ کے عظیم علماء میں ہوتا تھا خاص طور پر آپ کی تاریخ اور تفسیر کی کتابیں تو علماء اہل فن کی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔

طبری نے اپنی کتاب میں اکثر روایات اپنے سے پہلے والے راویوں سے نقل کی ہیں اور طبری کے پاس ان کے ما قبل لکھی جانے والی کتابوں کا کافی ذخیرہ موجود تھا جن سے انھوں نے خوب استفادہ کیا اور چونکہ ان میں سے بعض کتابیں زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ناپید ہوگئیں تو ان کتابوں کے مطالب کو نقل کرنے کا واحد مآخذ فقط تاریخ طبری ہی ہے اسی لئے یہ کتاب ایک خاص اہمیت کی حامل ہے اور ابو مخنف کی کتاب "مقتل حسینعليه‌السلام " جو اپنی نوعیت کی واحد کتاب تھی اور اس بات کا زندہ ثبوت ہے کیونکہ اس کتاب کی روایتیں تاریخ طبری میں متعدد مقامات پر کثرت سے ذکر کی گئی ہیں(۴۲)

تاریخ طبری نے خلقت کی ابتداء، اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر خاتم الانبیاء تک اور پھر ان کی ہجرت سے لیکر ۳۰۲ ہجری تک کے ہر سال کے حالات و واقعات کو الگ الگ بیان کیا ہے۔

طبری کا کسی بھی واقعہ یا حادثہ کو نقل کرنے کا طریقہ جس کا تذکرہ انہوں نے اپنے مقدمہ میں کیا ہے(۴۳) یہ ہے کہ کسی واقعہ کے بارے میں راویوں سے روایتوں کو سند کے ساتھ نقل کرنے کے بعد اس کے بارے میں اپنی رائے دئے بغیر اسے قارئین کی نظر پر چھوڑ دیتے ہیں، البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ طبری کے پاس جو روایتیں موجود تھیں ان میں سے انہوں نے صرف چند روایتوں کا انتخاب کر کے انہیں اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے لیکن واقعہ غدیر کے بارے میں انہوں نے ایک روایت بھی ذکر نہیں کی ہے۔

وہ تمام راوی جن سے طبری نے روایتوں کو نقل کیا ہے وثاقت کے اعتبار سے برابر نہیں ہیں۔ جیسے ابن اسحاق، ابو مخنف، مدائنی، زُھری اور واقدی یہ تمام افراد وہ ہیں جنہوں نے تاریخی واقعات کو نقل کرنے میں ایک خاص طریقۂ کار اپنایا ہے اور اسی طبری کے راویوں میں سے ایک سیف بن عمر بھی ہے جو صرف روایتیں گڑھتا تھا اور نہایت ہی جھوٹا آدمی تھا(۴۴) ۔

اگر چہ طبری سنی مذھب تھے مگر زندگی کے آخری لمحات میں ان کے تشیع کی طرف مائل ہونے کا احتمال دیا جاسکتا ہے۔

طبری سے پھلے لکھی جانے والی وہ کتابیں جو اس گفتگو کے لئے منتخب کی گئی ہیں

۱۔ السیرة النبویہ لابن ھشام:

در اصل اس کتاب کے مولف ابن اسحاق ہیں، اور سیرت نبوی پر لکھی جانے والی اہم اور مصادر کی کتابوں میں اس کا شمار ہوتا ہے اس سے پہلے سیرت نبوی پر اتنی جامع کتاب نہیں لکھی گئی تھی۔ عبدالملک بن ھشام (وفات ۲۱۳ یا ۲۱۸ ہجری ) نے اس کتاب کی تلخیص کی اور اپنے خیال میں اس کی کچھ غیر ضروری عبارتوں کو حذف کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ مطالب کا اضافہ بھی کیا(۴۵) اس کے بعد یہ کتاب "السیرة النبویہ ابن ھشام" کے نام سے مشہور ہوگئی۔

۲۔ المغازی واقدی:

اس کتاب کے مولف محمد بن عمر واقدی (ولادت ۱۳۰ ہجری وفات ۲۰۷ ہجری ) ہیں ان کا تعلق عثمانی مذھب سے تھا وہ مدینہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۸۰ ہجری میں بغداد تشریف لائے اور مامون کی طرف سے بغداد کے قاضی مقرر ہوئے اور اسی شہر میں انتقال کرگئے، وہ غزوات اور فتوحات کے سلسلے میں اچھی خاصی معلومات رکھتے تھے انہوں نے ہجرت سے لیکر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت تک کی روایات کے بارےمیں عمدہ تحقیق کی ہے جس کی وجہ سے وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہے۔

۳۔ الطبقات الکبريٰ:

اس کتاب کے مولف محمد بن سعد (ولادت ۱۶۸ ہجری وفات ۲۳۰ ہجری ) ہیں وہ کاتب واقدی کے نام سے مشہور تھے اور ایک نہایت ہی متعصب قسم کے سنی تھے ان کا تعلق بصرہ سے تھا اور پھر بغداد جاکر واقدی کے پاس ان کے کاتب کی حیثیت سے تعلیم میں مشغول ہوگئے، انھوں نے اپنی کتاب کی پھلی دو جلدوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور اس کے بعد کی جلدوں میں صحابہ اور تابعین کے بارے میں بحث کی ہے جو اس سلسلے کی ایک اہم ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔

۴۔ تاریخ خلیفہ بن خیاط (وفات ۲۴۰ ہجری ):

خلیفہ بن خیاط تیسری صدی ہجری کے ایک اہم مورخ سمجھے جاتے ہیں جو سنی مذھب سے تعلق رکھتے ہیں، ابن کثیر نے انہیں امام تاریخ کہہ کر یاد کیا ہے(۴۶) یہ کتاب تاریخی کتابوں میں قدیم ترین کتاب ہے کہ جس نے تاریخی حالات و واقعات کو ہر سال کے اعتبار سے پیش کیا ہے۔

۵۔ الامامہ والسیاسة:

یہ کتاب ابن قتیبہ دینوری (ولادت ۲۱۳ ہجری وفات ۲۷۶ ہجری ) کی طرف منسوب ہے جن کا شمار تیسری صدی ہجری کے اہل سنت سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور مورخین میں ہوتا ہے، ان کی ولادت بغداد میں ہوئی مگر کچھ عرصہ دینور میں قاضی رہے اگر چہ اس کتاب کی نسبت دینوری کی طرف مشکوک ہے لیکن بہر حال یہ کتاب سن تین ہجری کے آثار میں سے ایک اہم کتاب ہے۔

۶۔ انساب الاشراف:

یہ کتاب احمد بن یحیيٰ بلاذُری (ولادت ۱۷۰ ہجری سے ۱۸۰ ہجری کے درمیان، وفات ۲۷۹ ہجری ) نے لکھی ہے جو تیسری صدی ہجری کے برجستہ مورخین اور نسب شناس افراد میں سے ایک تھے وہ سنی مذھب اور عباسیوں کے ہم خیال افراد میں سے تھے، اس کتاب میں تاریخ اسلام سے متعلق خاندانوں کا نام اور ان کا نسب وغیرہ بیان کیا گیا ہے۔

۷۔ تاریخ یعقوبی:

اس کتاب کے مولف احمد بن ابی یعقوب اسحاق بن جعفر بن وھب بن واضح ہیں ۲۸۴ ہجری میں انتقال ہوا، آپ کا تعلق شیعہ مذھب سے تھا یہ کتاب تاریخ کی موجودہ قدیم ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔

تاریخ طبری کے بعد لکھی جانے والی وہ کتابیں جن سے اس گفتگو میں استفادہ کیا گیا ہے یہ ہیں۔

۱۔ السقیفہ و فدک:

یہ کتاب ابوبکر جوھری (وفات ۳۲۳ ہجری ) نے لکھی مگر زمانے کے گذرنے کے ساتھا ساتھ گم ہوگئی اس کتاب کے عمدہ مطالب دوسری کتابوں میں موجود ہیں، یہ کتاب ابن ابی الحدید کے پاس موجود تھی انہوں نے شرح نہج البلاغہ میں اس کتاب سے بہت کچھ نقل کیا ہے، اب یہ کتاب محمد ھادی امینی کی کوششوں سے مآخذ سے جمع آوری کے بعد "السقیفہ و فدک" کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔

۲۔ مروج الذھب:

یہ کتاب علی بن حسین مسعودی (وفات ۳۴۶ ہجری ) نے لکھی ہے، ممکن ہے کہ وہ شیعہ اثنا عشری ہوں مگر اس بات کا اندازہ "مروج الذھب" میں موجود مطالب سے نہیں لگایا جاسکتا بلکہ اس سے فقط ان کے مذھب شیعہ کی طرف مائل ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہ کتاب مقامات کے سفر کر کے نہایت تحقیق اور جستجو کے بعد لکھے جانے کی وجہ سے کافی اہمیت کی حامل ہے، انہوں نے اپنی کتاب میں ابو مخنف کا بہت ذکر کیا ہے۔

۳۔ الارشاد:

اس کتاب کے مولف شیخ مفید (ولادت ۳۳۶ ہجری وفات ۴۱۳ ہجری ) ہیں وہ ایک شیعہ متکلم، فقیہ اور نامور مورخ ہیں، یہ کتاب اگر چہ شیعوں کے آئمہعليه‌السلام کی زندگی کے بارے میں لکھی گئی ہے لیکن اس کے باوجود اس کتاب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سے متعلق بھی بہت سے واقعات ملتے ہیں۔ شیخ مفید کے علمی مقام و مرتبہ اور تقويٰ و پرہیز گاری کی وجہ سے انکی تحریریں شیعہ علماء کے نزدیک ایک معتبر سند کی حیثیت رکھتی ہیں۔

۴۔ المنتظم فی تاریخ الملوک والامم:

یہ کتاب ابن جوزی (ولادت ۵۰۸ ہجری وفات ۵۹۷ ہجری ) نے لکھی ہے، وہ چھٹی صدی ہجری کے مفسرین، خطباء اور مورخین میں سے ایک تھے، یہ کتاب عام طور سے بعد میں آنے والے مورخین کے لئے بہت زیادہ قابل استفادہ قرار پائی۔

۵۔ الکامل فی التاریخ:

یہ کتاب ابن اثیر (ولادت ۵۵۵ ہجری وفات ۶۳۰ ہجری ) نے لکھی ہے، انہوں نے اس کتاب میں ایسی دلچسپ روش اور طریقۂ کار کا انتخاب کیا ہے کہ جس نے اس کتاب کو تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے تمام افراد کے لئے قابل استفادہ بنا دیا ہے، انہوں نے مطالب کی جمع آوری اور انھیں نقل کرنے کے سلسلے میں بہت محنت اور توجہ سے کام لیا ہے۔

۶۔ البدایہ والنھایہ:

یہ کتاب ابن کثیر (ولادت ۷۰۱ ہجری وفات ۷۷۴ ہجری ) نے لکھی ہے۔ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ ابن تیمیہ(۴۷) کے شاگردوں میں سے ہیں۔

اس کتاب میں بعض بحثیں جیسے سیرت نبوی کو مختصر طور پر بیان کرنے کے بعد نظریات پر تنقید کے علاوہ ان کی تحقیق کی گئی ہے۔

یھاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ یہ جتنی بھی کتابیں ذکر کی گئی ہیں یہ ہماری بحث کے تاریخی مآخذ ہیں اور اس سے ھرگز مراد یہ نہیں ہے کہ ہم نے فقط ان ہی کتابوں پر اکتفا کی ہے۔ بلکہ بعض مقامات پر احادیث کی کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے جیسا کہ اہل سنت کی احادیث کی کتابوں میں سے صحیح بخاری، مسند احمد بن حنبل اور شیعہ احادیث کی کتابوں میں سے کافی اور بحار الانوار کو اس گفتگو کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ اگر چہ بعض مخصوص مطالب کے سلسلے میں ان کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے جو انہیں موضوعات پر لکھی گئی ہیں مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کتاب میں تحقیق کا جو طریقۂ کار اپنایا گیا ہے اگر چہ وہ بہت مشکل اور سنگین کام ہے لیکن ممکن ہے کہ یہ طریقۂ کار بہت سی تاریخی مباحث کی تحقیق کے سلسلے میں مفید ثابت ہو۔

____________________

۴۳. طبری۔ ج۱ ص۷، ۸

۴۵. السیرة النبویہ ابن ھشام ج۱ ص۴ (ابن اسحاق نے ایسے مطالب کا ذکر نہیں کیا کہ جو رسول خدا (ص.سے متعلق نہیں تھے یا یہ کہ بعض مطالب غیر مناسب تھے)

۴۶. منابع تاریخ اسلام۔ ص۱۲۱

۴۷. ابن تیمیہ کے افکار ہی در حقیقت وھابیت کی بنیاد ہیں۔