سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)20%

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 20 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12219 / ڈاؤنلوڈ: 3732
سائز سائز سائز
سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

مؤلف:
اردو

حضرت علیعليه‌السلام کی جانشینی کے سلسلے میں ابلاغ وحی کی کیفیت

سورہ( اذا جاء نصر الله والفتح ) (۷۴) نازل ہونے کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قسم کے جملے ادا کررہے تھے جن سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اب آپ کی وفات کے دن نزدیک ہیں(۷۵) نیز حجة الوداع میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خطبات میں صریحی یا غیر صریحی طور پر اپنی وفات کے نزدیک ہونے سے باخبر کر رہے تھے(۷۶) ، تو ایسی صورت میں یہ ایک طبیعی و فطری بات تھی کہ لوگوں کے ذھن میں یہ سوال پیدا ہو کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چلے جانے کے بعد مسلمانوں کے امور کس کی زیر قیادت انجام پائیں گے اور آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ ظاھری طور پر ہر قوم و قبیلے کی یھی کوشش تھی کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جانشین ان میں سے ہو اور اس سلسلے میں وہ اپنے آپ کو اس امر کا زیادہ سزاوار سمجھتے تھے اور اسی فکر میں ڈوبے رہتے تھے۔ اگر چہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مواقع پر حضرت علیعليه‌السلام کی جانشینی کا اعلان کر چکے تھے(۷۷) لیکن اب تک جو اعلان ہوا تھا معمولاً وہ بھت ہی کم افراد کے سامنے ہوا لھٰذا غدیر خم پر یہ وحی آئی کہ اس بارے میں ہر قسم کے شک و شبہ کو دور کردیا جائے اور حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی کا واضح اعلان کیا جائے، وحی کے نزول کے بعد پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مناسب موقع کی تلاش میں تھے تاکہ اس پیغام کو تمام لوگوں تک پھونچایا جاسکے لیکن چونکہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس وقت کے ماحول سے اچھی طرح واقف تھے لھٰذا ایسے ماحول کو ابلاغ وحی کے لئے مناسب نہیں سمجھتے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ پھلے اچھی طرح میدان ہموار ہوجائے اور نھایت مناسب موقع ملتے ہی وحی کے اس پیغام کو پھونچا دیا جائے، البتہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ضروری ہے کہ وحی الھی نے صرف حضرت علی علیہ السلام کی خلافت اور جانشینی کے اعلان کا حکم دیا تھا اور اس کے اعلان کے لئے مناسب موقع کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صوابدید پر چھوڑ دیا تھا(۷۸) اب اگر بعض روایات(۷۹) اس بات کی نشاندھی کرتی ہوں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابلاغ وحی کے سلسلے میں تاخیر سے کام لے رہے تھے تو اس کا مقصد ہر گز کوتاھی نہیں ہے جیسا کہ شیخ مفید (رح) فرماتے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر پہلے ہی وحی نازل ہوگئی تھی لیکن اس کا وقت معین نہیں کیا گیا تھا لھذا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک مناسب موقع کی تلاش میں تھے اور جب غدیر خم کے مقام پر پھنچے تو آیۂ تبلیغ نازل ہوئی(۸۰) اور یہ کہ اس سلسلے میں پہلے ہی وحی آچکی تھی اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مناسب موقع کی تلاش میں ہے اس کے لئے آیۂ تبلیغ(۸۱) خود منہ بولتا ثبوت ہے اس لئے کہ آیت میں کہا گیا ہے "اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو کچھ آپ پر وحی کی جاچکی ہے اسے پھونچادیں" اور اس کے بعد آیت تھدید کرتی ہے کہ اگر اس کام کو انجام نہ دیا تو رسالت کا کوئی کام انجام نہ دیا یعنی یقینی طور پر اس سلسلے میں آپ پر پہلے کوئی وحی ضرور نازل ہوئی ہے جب ہی تو آیت میں کہا گیا ہے کہ جو کچھ آپ پر نازل کیا جاچکا ہے اسے پھونچا دیجئے اور آیت میں جو تھدید موجود ہے اس سے یہ بات ظاھر ہوتی ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسباب کی بنا پر ابلاغ وحی کو مناسب موقع کے لئے چھوڑے ہوئے تھے اور اس کے بعد آیت میں ارشادِ قدرت ہے( والله یعصمک من الناس ) "یعنی خدا آپ کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے گا"۔

اس آیت اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ابلاغ وحی کی کیفیت پر غور کرنے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس وقت کس قسم کے حالات در پیش تھے اور معاشرہ کس نھج پر تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابلاغ وحی میں مناسب موقع تک تاخیر کردی؟ اگر اس سوال کا صحیح اور درست جواب مل جائے تو اس سلسلے میں اٹھنے والے بھت سے شبھات اور سوالات کا جواب دیا جاسکتا ہے اور ہمیں اس وقت کے مسلمانوں کے سماجی اور سیاسی حالات کے بارے میں کافی حد تک معلومات ہوسکتی ہیں۔

تو آیئے ان سوالات کے صحیح جوابات جاننے کے لئے ہم اس دور کے مسلمانوں کے کچھ اہم سیاسی اور سماجی حالات کے بارے میں بحث اور تحقیق کرتے ہیں۔

۱۔ نئے مسلمانوں کی اکثریت

اگر چہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کے آخری لمحات میں مسلمانوں کی تعداد اپنے عروج پر پھنچ چکی تھی مگر ان میں اکثریت نئے مسلمانوں کی تھی، اگر چہ ان میں ایسے افراد بھی تھے جو پختہ ایمان رکھتے تھے لیکن ایسے افراد کی تعداد ان افراد کے مقابلے کچھ بھی نہ تھی جو صلابتِ ایمانی کے مالک نہ تھے(۸۲) اس لئے کہ بعض افراد اپنے مفاد کی خاطر مسلمان ہوئے تھے تو بعض اقلیت میں رہ جانے کی وجہ سے اور ان کے پاس مسلمان ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا، اور بعض افراد ایسے بھی تھے جو آخری دم تک اسلام اور مسلمانوں سے لڑتے رہے اور جب لڑنے کے قابل نہ رہے تو پھر دوسرا راستہ اپنا لیا۔ ابوسفیان اور اس کے ماننے والے اسی قسم کے افراد تھے اور فتح مکہ میں ان کا شمار طلقا (آزاد شدہ) میں ہوتا تھا لھٰذا ایسی صورت حال میں واضح سی بات ہے کہ اس امر عظیم کو پھونچانا کوئی آسان کام نہ تھا بلکہ یہ بھت سی مشکلات کا پیش خیمہ بن سکتا تھا۔

۲۔ مسلمانوں کے درمیان منافقین کا وجود

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دور میں ایک سب سے بڑی مشکل مسلمانوں کے درمیان منافقین کا وجود تھا یہ گروہ ظاھری طور پر مسلمان تھا مگر باطنی طور پر اسلام پر کسی قسم کا اعتقاد نہ رکھتا تھا بلکہ موقع ملتے ہی اسلام کو نقصان پھونچاتا اور مسلمانوں کی گمراھی کا سبب بنتا۔

قرآن کریم نے اس سلسلے میں سوروں میں سخت ترین لھجہ میں ان سے خطاب کیا ہے جیسے سورہ بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، انفال، توبہ، عنکبوت، احزاب، فتح، حدید، حشر اور منافقون نیز مجموعی طور پر قرآن میں سینتیس مقامات پر کلمۂ نفاق استعمال ہوا ہے۔

یہ افراد جن کی تعداد جنگ احد میں تمام مسلمانوں کی ایک تھائی تھی "عبد اللہ بن ابی" کی سر کردگی میں جنگ کرنے سے الگ ہوگئے اور مسلمانوں میں تفرقہ کا باعث بنے کہ سورۂ منافقون انھیں لوگوں کے بارے میں نازل ہوا ہے(۸۳) اب آپ خود سوچیں کہ جب کہ نہ ابھی اسلام کے اس قدر طرفدار موجود ہیں اور نہ اس کے پاس کوئی خاص اقتدار ہے اور اعتقاد کو چھپانے کا بھی کوئی خاص مقصد دکھائی نہیں دیتا اس کے باوجود مسلمانوں کی کل آبادی میں سے ایک تھائی تعداد منافقین کی تھی تو اب آپ اندازہ لگائیں کہ جب اسلام مکمل طور سے بر سر اقتدار آگیا اور سارے جزیرة العرب پر چھا گیا تھا تو ان کی تعداد کس قدر بڑھ چکی ہوگی۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ اس گروہ کی مخالفت سے دوچار رہتے تھے اور خاص طور پر حجة الوداع میں یہ تمام افراد پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تھے اور یہ بات واضح و روشن تھی کہ یہ لوگ کسی بھی صورت حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کو قبول نہ کرینگے اور فتنہ و فساد پھیلائیں گے اور امنیت خطرہ میں پڑ جائے گی اور اس طرح خود اسلام اور قرآن کو نقصان پھنچے گا لھٰذا ایسی صورت حال کے پیش نظر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فکر مند ہونا خالی از امکان نہ تھا۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کے آخری لمحات تک منافقین کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا یہاں تک کہ عمر آپ کی وفات کا انکار کرتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے کہ کچھ منافقین یہ خیال کر رہے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وفات پاگئے ہیں(۸۴) اور اسی طرح بعض تاریخی کتابیں اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ اسامہ کے جوان ہونے پر اعتراض کر کے ان کی سرداری سے انکار کرنے والے افراد منافقین ہی تھے(۸۵) ، یہ گروہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں آپ کا بدترین دشمن سمجھا جاتا تھا لیکن نہیں معلوم آخر کیا ہوا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد خلفاء ثلاثہ کے لئے کسی قسم کی مشکل پیش نہ آئی اور یہ گروہ ایک دم سے غائب ہوگیا۔ کیا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد یہ سب کے سب ایک دم بالکل سچے مسلمان ہوگئے تھے یا کوئی مصلحت ہوگئی تھی یا پھر ایسے افراد بر سر اقتدار آگئے تھے کہ جو منافقین کے لئے کسی بھی طرح مضر نہ تھے؟!

۳۔ بعض افراد کی حضرتعليه‌السلام سے کینہ پروری

عربوں کی ایک نمایاں خصلت کینہ پروری ہے(۸۶) اور اس بات کے پیش نظر کہ حضرت علیعليه‌السلام نے ابتداء اسلام ہی سے متعدد جنگوں میں شرکت کی اور بھت سے افراد آپ کے دست مبارک سے قتل ہوئے اور ان مقتولین کے ورثاء مسلمانوں کے درمیان موجود تھے اور یہ افراد شروع سے ہی اپنے دلوں میں حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے کینہ رکھتے تھے لھٰذا یہ امکان تھا کہ یہ لوگ ھرگز آپ کی خلافت پر راضی نہ ہوں گے۔

یہ کھنا کہ یہ لوگ سچے مسلمان ہوگئے تھے اور انھوں نے ماضی کے تمام واقعات و حوادث کو بھلادیا تھا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ عربوں کی خصلت سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں خاص طور پر اس زمانے کے عربوں سے،مثال کے طور پر جب سورۂ منافقون نازل ہوا اور عبد اللہ بن ابی (جو منافقین کا سردار تھا) رسوا ہوگیا تو عبداللہ بن ابی کے بیٹے نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ آپ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنے باپ کو خود ہی قتل کردوں اس لئے کہ میں یہ نہیں چاھتا کہ کوئی دوسرا اسے قتل کرے اور میں اس کا کینہ اپنے دل میں رکھوں(۸۷) ، صدر اسلام میں اس قسم کی بھت سی مثالیں موجود ہیں لیکن غور کیا جائے تو صرف یھی ایک مثال کافی ہے کہ کس طرح سے ایک آدمی اس بات پر راضی ہے کہ وہ اپنے ھاتھوں سے اپنے باپ کو قتل کردے لیکن کوئی دوسرا اسے قتل نہ کرے کھیں ایسا نہ ہو اس کا کینہ اپنے دل میں لئے رکھے، اس واقعہ سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ بعض افراد حضرت علی علیہ السلام سے کینہ کیوں رکھتے تھے۔

۴۔ حضرت علیعليه‌السلام کے جوان ہونے پر اعتراض

بعض افراد دور جاہلیت کے افکار رکھنے کی وجہ سے کسی بھی صورت میں اس بات پر راضی نہ تھے کہ وہ اپنے سے کم سن ایک جوان کی اطاعت کریں یہ لوگ ایک جوان کی حکومت کو اپنے لئے باعث ننگ و عار سمجھتے تھے، مثال کے طور پر عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں: عمر کے دور خلافت میں ایک روز میں عمر کے ساتھ جارہا تھا انھوں نے میری طرف رخ کر کے کہا کہ وہ (حضرت علیعليه‌السلام ) تمام افراد میں اس امر خلافت کے سب سے زیادہ سزاوار تھے لیکن ہم دو چیزوں سے خوفزدہ تھے ایک یہ کہ وہ کمسن ہیں اور دوسرے یہ کہ وہ فرزندان عبد المطلب کو دوست رکھتے ہیں(۸۸) ، دوسری مثال یہ کہ جب حضرت علی علیہ السلام کو زبردستی ابوبکر کی بیعت کے لئے مسجد میں پکڑ کر لائے اور ابو عبیدہ نے دیکھا کہ حضرت علی علیہ السلام کسی بھی صورت بیعت نہیں کر رہے ہیں تو اس نے حضرت علی علیہ السلام کی طرف رخ کیا اور کہا کہ آپ کمسن ہیں اور یہ آپ کی قوم کے بزرگ ہیں اور آپ ان کی طرح تجربہ کار نہیں ہیں لھٰذا ابوبکر کی بیعت کرلیں اور اگر آپ آئندہ زندہ رہے تو آپ صاحب فضل و معرفت، متدین، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب ترین فرد ہونے کی وجہ سے اس امر کے لئے سب سے زیادہ سزاوار ہیں(۸۹) ، تو حضرت علی علیہ السلام کو امر حکومت کا سب سے زیادہ سزاوار اور مناسب سمجھنے کے باوجود اس بات کو قبول کرنے پر راضی نہ تھے کہ ایک جوان ان پر حکومت کرے۔

اس چیز کا مشاہدہ زید بن اسامہ کے لشکر میں بھی کیا جاسکتا ہے جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسامہ کو ایک ایسے فوجی دستہ کی سرداری کے لئے منتخب کیا کہ جس میں قوم کے بزرگان بھی شامل تھے تو بعض افراد نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس انتخاب پر اعتراض کیا جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس اعتراض کا پتہ چلا تو آپ غصہ ہوئے، منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: کہ تم لوگ اس سے پھلے اس کے والد کے انتخاب پر بھی اعتراض کرچکے ہو حالانکہ یہ اور اس کے والد سرداری کی لیاقت رکھتے تھے اور رکھتے ہیں(۹۰) ۔

اگر چہ ایک لحاظ سے اس کی وجہ حسد بھی ہوسکتی ہے کیوں کہ جب ان افراد نے اس چیز کا مشاہدہ کیا کہ ایک جوان "حضرت علیعليه‌السلام " جیسا کہ جو اس قدر صلاحیت اور لیاقت رکھتا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلے جانے کے بعد یھی جوان ہمارا امیر اور حاکم ہوگا تو شدت سے آپ سے حسد کرنے لگے۔

۵۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے احکام کی نافرمانی

مسلمانوں کے درمیان بعض ایسے افراد بھی تھے کہ جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت بعض شرائط کے ساتھ کیا کرتے تھے جب تک پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ان کے لئے مضر نہ ہوتو کوئی بات نہیں لیکن اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوئی ایسا حکم دیتے کہ جو ان کی خواھشات کے مطابق نہ ہوتا یا یہ کہ وہ اپنی ناقص عقل سے اس کی مصلحت درک نہیں کرپاتے تھے تو کھلے عام یا مخفی طور پر اس سے سرپیچی کرتے تھے، مثال کے طور پر حجة الوداع کے موقع پر کچھ فرائض کو انجام دینے سے بعض افراد نے مخالفت کی، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حج کے دوران فرمایا: اگر کوئی شخص اپنے ساتھ قربانی کے لئے جانور نہیں لایا تو وہ اپنے حج کو عمرہ میں تبدیل کردے اور جو اپنے ساتھ جانور لائے ہیں وہ اپنے احرام پر باقی رہیں، بعض افراد نے اس امر کی اطاعت کی اور بعض افراد نے مخالفت کی(۹۱) اور ان مخالفین میں سے ایک عمر بھی تھے(۹۲) اور اس کی دوسری مثال صلح حدیبیہ کے موقع پر عمر کا اعتراض کرنا ہے(۹۳) ، اسی کی ایک اور مثال اسامہ کی سرداری پر اعتراض(۹۴) اور ان کے ساتھ جانے سے انکار کرنا ہے جب کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بار بار اس امر کی تاکید کر رہے تھے کہ مھاجرین اور انصار سب کے سب اسامہ کے لشکر کے ساتھ مدینہ سے باھر چلے جائیں لیکن بعض بزرگ مھاجرین نے بھانے بنا کر اس امر کی مخالفت کی(۹۵) یہاں تک کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان لوگوں پر لعنت بھی کی جنھوں نے آپ کے اس حکم کی مخالفت کرتے ہوئے اسامہ کے لشکر میں شرکت نہیں کی(۹۶) ۔

نیز اس کی ایک اور مثال نوشتہ لکھنے کا واقعہ ہے کہ جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کے آخری لمحات میں پیش آیا(۹۷) ، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ قلم اور دوات لے آؤ تاکہ تمھارے لئے ایک ایسی چیز لکھ دوں جس کے بعد تم لوگ گمراہ نہ ہوگے! لیکن عمر نے کہا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھذیان بک رہے ہیں بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ بعض افراد نے کہا کہ بات وھی قابل قبول ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھی ہے اور بعض نے کہا کہ عمر صحیح کہہ رہے ہیں(۹۸) یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ عمر اور بعض دوسرے افراد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے امر کی مخالفت کرتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ھذیان کی تہمت لگا رہے تھے!!! جس کے بارے میں قرآن نے صریحی طور پر فرمایا:( ما ینطق عن الهويٰ ) (۹۹) ۔

گذشتہ بیان کی روشنی میں اس بات کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ آخر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابلاغ وحی کے سلسلے میں کسی مناسب موقع کی کیوں تلاش میں تھے؟ یقیناً صرف اس لئے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں کے حالات سے اچھی طرح واقف تھے کہ وہ ان کی مخالفت کریں گے یعنی اگر وہ حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی اور خلافت کا اعلان کریں تو بعض لوگ کھلم کھلّا پیغمبر کے مد مقابل آجائیں گے اور ھرگز اس امر پر راضی نہ ہونگے لیکن آیۂ تبلیغ کے آخر میں خداوند عالم نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اطمینان دلایا کہ خداوند عالم آپ کو محفوظ رکھے گا یعنی خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو لوگوں کے شر اور ان کی علنی مخالفت سے محفوظ رکھے گا۔ اس بات کی تائیدہ وہ روایت کرتی ہے جو جابر بن عبداللہ انصاری اور عبداللہ بن عباس سے تفسیر عیاشی میں نقل ہوئی ہے "فتخوّف رسول الله ان یقولوا حامىٰ ابن عمّه وان تطغوا فی ذلک علیه "(۱۰۰) یعنی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بات کا خطرہ تھا کہ لوگ کھیں گے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ کام اپنے چچا زاد بھائی کی حمایت میں کیا ہے اور اس طرح سرکشی کریں گے، اگر چہ بعض(۱۰۱) نسخوں میں "حامی" کی جگہ خابيٰ اور "تطغوا" کی جگہ یطعنوا آیا ہے کہ ایسی صورت میں کہا جاسکتا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خوف لوگوں کے طعنوں کی وجہ سے تھا، اگر یہ لفظ بھی ہو تو تب بھی ہماری گذشتہ بات پر دلالت کرتا ہے لیکن یہ چیز بعید ہے کہ پیغمبر محض لوگوں کے طعنوں سے بچنے کی خاطر ابلاغ وحی کو کسی مناسب موقع کے لئے ٹال رہے ہوں، ظاھراً تطغوا والی عبارت زیادہ صحیح ہے، یعنی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو علنی مخالفت اور سرکشی کا خطرہ تھا۔

ہماری اس وضاحت کے بعد اس اعتراض کا جواب بھی دیا جاسکتا ہے کہ اگر آیت کی مراد یہ تھی کہ ولایت علیعليه‌السلام کا اعلان کرو اور پھر خدا نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھنے کا وعدہ بھی کیا تھا تو پھر کیونکر حضرت علیعليه‌السلام پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد خلافت پر نہیں پھنچ پائے مگر کیا ممکن ہے کہ خدا کا وعدہ پورانہ ہو ؟!(۱۰۲) اس کا جواب یھی ہے کہ وحی الھی نے وعدہ کیا تھا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو لوگوں کی کھلم کھلا مخالفت اور سرکشی سے محفوظ رکھے گا اور ایسا ہی ہوا جیسا کہ روایات غدیر اس بات کی شاھد ہیں۔

اس کے علاوہ یہ کہ آیت میں کہا گیا ہے( والله یعصمک من الناس ) یعنی خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا اور اس سے مراد بھی وھی ہے جو بیان کیا جاچکا ہے کہ خدا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو لوگوں کی علنی مخالفت سے محفوظ رکھے گا اور آیت میں یہ نہیں کہا گیا "والله یعصمه من الناس " کہ خدا اسے (یعنی حضرت علی علیہ السلام کو) لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ ہم اس آیت کو حضرت علی علیہ السلام کی ظاھری خلافت کے لئے وعدہ الھی قرار دیدیں۔

۶۔ غدیر خم کے بعد اہل بیتعليه‌السلام کے خلاف سازشیں

غدیر کے واقعہ نے مسلمانوں اور اسلامی معاشرہ کے لئے واضح طور پر ان کے آئندہ کا وظیفہ بیان کردیا تھا، جو لوگ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطیع و فرمانبردار تھے انھوں نے اسے دل و جان سے قبول کرلیا اور جو لوگ اندرونی طور پر اس کے مخالف تھے مگر اس وقت اس کا اظھار کرنے کی قوت نہ رکھتے تھے انھوں نے بھی ظاھری طور پر اسے قبول کرلیا اور حضرت علیعليه‌السلام کو ان کی جانشینی پر مبارک باد پیش کی اور اس کی واضح مثال ابوبکر اور عمر کا وہ معروف جملہ ہے "بخٍ بخٍ لک یا بن أبی طالب " ۔(۱۰۳)

جو لوگ حضرت کی جانشینی اور خلافت کے مخالف تھے اور حکومت حاصل کرنا چاھتے تھے اگر چہ ظاھری طور پر اسے قبول کرچکے تھے مگر باطنی طور پر بھت سخت پریشان اور فکر مند تھے اور ہر ممکن کوشش کر رہے تھے کہ کسی بھی طرح حضرت علیعليه‌السلام کو راستے سے ھٹا کر خود حکومت پر قابض ہوجائیں اور اس بات پر بھت سے شواھد موجود ہیں جن میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں۔

____________________

۷۴. السیرة النبویة ابن ھشام: ج۴ ص۳۰۰، الطبقات الکبرىٰ: ج۱ ص۲۵۰، ۲۵۱، انساب الاشراف: ج۲، ص۷۲، نھج البلاغہ: خطبہ۶۸، ص۵۲۔

۷۵. سورہ مبارکہ نصر: آیت۱ (جب خدا کی مدد اور فتح کی منزل آجائے گی)

۷۶. الطبقات الکبرىٰ ج۱ ص۱۹۲، ۱۹۳۔

۷۷. الطبقات الکبرىٰ ج۱ ص۱۸۱۔

۷۸. جیسے، حدیث طیر، منزلت وغیرہ۔

۷۹. المیزان فی تفسیر القرآن۔ ج۴۴۶

۸۰. تفسیر عیاشی۔ ج۱ ص۳۶۰، بحار الانوار۔ ج۳۷ ص۱۶۵، جامع الاخبار۔ ص۱۰۔

۸۱. ارشاد۔ ج۱ ص۱۷۰

۸۲. سورہ مبارکہ مائدہ آیت ۶۷

۸۳. اس روایت کی روشنی میں جو یہ بیان کرتی ہے کہ پیغمبر اسلام (ص.کی وفات کے بعد لوگ مرتد ہوگئے تھے، جیسے روایت ابن اسحاق میں ہے کہ "ارتد العرب" (عرب مرتد ہوگئے.السیرة النبویة: ابن ھشام۔ ج۴ ص۳۱۶۔

۸۴. سنی اور شیعہ تفاسیر اس چیز کو بیان کرتی ہیں۔

۸۵. انساب الاشراف۔ ج۲ص ۷۴۲

۸۶. تاریخ طبری۔ ج۳ ص۱۸۴، الکامل فی التاریخ ج۲ ص۵۔

۸۷. تاریخ ادبیات عرب۔ ص۳۵۔

۸۸. تفسیر طبری۔ ج۱۴ جز ۲۸، ص۱۴۸۔ (حدیث ۲۶۴۸۲)

۸۹. السقیفہ و فدک، ص۵۲، ۷۰

۹۱. السیرة النبویة: ابن ھشام ج۴ ص۲۹۹، ۳۰۰۔ الطبقات الکبرىٰ۔ ج۱ ص۱۹۰، ۲۴۹، تاریخ یعقوبی۔ ج۲ص۱۳، الکامل فی التاریخ۔ ج۲ ص۵۔

۹۲. الطبقات الکبرىٰ۔ ج۱ص۱۸۷، ارشاد۔ ج۱ ص۱۷۴

۹۳. ارشاد۔ ج۱ ص۱۷۴

۹۴. تاریخ طبری: ج۲ ص۶۳۴

۹۵. السیرة النبویة: ابن ھشام ج۴ ص۲۹۹، الطبقات الکبرىٰ ج۱ ص۱۹۰۔

۹۷. السقیفہ و فدک: ص۷۴، ۷۵۔

۹۸. الطبقات الکبرىٰ: ج۱ ص۲۴۴۔ انساب الاشراف۔ ج۲ ص۷۳۸، تاریخ طبری۔ ج۳ ص۱۹۲

۱۰۰. سورۂ مبارکہ نجم: آیت۳ (پیغمبر ھرگز اپنی مرضی سے بات نہیں کرتے)۔

۱۰۱. تفسیر عیاشی۔ ج۱ ص۳۶۰

۱۰۲. تفسیر عیاشی۔ ج۱ ص۳۶۰ کا حاشیہ، تفسیر میزان ج۶ ص۵۴۔

روایت ابی مخنف کی تحقیق کا طریقۂ کار

ابو مخنف کی روایات کے متن کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں فیصلہ کرنا آسان کام نہیں ہے کیونکہ ابو مخنف کو تاریخی روایات نقل کرنے والوں میں ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے لھٰذا دوسری روایات کے پیش نظر ان کی روایت کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ تاریخ کے تمام راوی جیسے ھشام کلبی، واقدی، مدائنی، ابن سعد وغیرہ یہ سب ان کے دور کے بعد سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی کے مرہون منت ہیں۔

کافی غور و فکر اور جستجو کے بعد اس کتاب میں تحقیق کا جو طریقۂ کار اپنایا گیا ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ سب سے پھلے ابو مخنف کی اس روایت کے مضمون کو تاریخ کی اہم کتابوں سے، جو تاریخ طبری سے پہلے اور اس کے بعد لکھی گئی ہیں نیز خود تاریخ طبری کی متعدد روایات سے اس کا موازنہ کیا جائے اس کے بعد تمام قرائن و شواھد کی روشنی میں اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جائے، اس سلسلے میں جن کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے وہ تاریخ کی معتبر، معروف و مشھور کتابیں ہیں جن میں سے اکثر کتابیں اہل سنت کی ہیں۔ ہم آپ کی معلومات کے لئے ان کتابوں کے نام کے ساتھ ساتھ ان کا مختصر تعارف کرانا بھی ضروری سمجھتے ہیں(۴۰)

البتہ اس سے پہلے کہ تاریخ طبری سے پہلے لکھی جانے والی کتابوں کا تعارف کرایا جائے سب سے پہلے خود تاریخ طبری کا تعارف پیش کرتے ہیں کیونکہ یہ ہماری بحث کا محور ہے اور تاریخ کی ایک جامع کتاب ہے۔

تاریخ طبری:

اس کتاب کا نام "تاریخ الامم والملوک یا تاریخ الرسل والملوک" ہے جس کے مولف ابو جعفر محمد بن جریر طبری ہیں وہ ۲۲۴ ہجری میں آمل طبرستان (مازندران: ایران کا ایک شہر) میں پیدا ہوئے اور تحصیل علوم کے سلسلے میں مقامات کا سفر کیا پھر بغداد میں سکونت اختیار کرلی اور ۳۱۰ ہجری میں وھیں انتقال کر گئے(۴۱) ۔

آپ کا شمار فقہ، تفسیر اور تاریخ کے عظیم علماء میں ہوتا تھا خاص طور پر آپ کی تاریخ اور تفسیر کی کتابیں تو علماء اہل فن کی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔

طبری نے اپنی کتاب میں اکثر روایات اپنے سے پہلے والے راویوں سے نقل کی ہیں اور طبری کے پاس ان کے ما قبل لکھی جانے والی کتابوں کا کافی ذخیرہ موجود تھا جن سے انھوں نے خوب استفادہ کیا اور چونکہ ان میں سے بعض کتابیں زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ناپید ہوگئیں تو ان کتابوں کے مطالب کو نقل کرنے کا واحد مآخذ فقط تاریخ طبری ہی ہے اسی لئے یہ کتاب ایک خاص اہمیت کی حامل ہے اور ابو مخنف کی کتاب "مقتل حسینعليه‌السلام " جو اپنی نوعیت کی واحد کتاب تھی اور اس بات کا زندہ ثبوت ہے کیونکہ اس کتاب کی روایتیں تاریخ طبری میں متعدد مقامات پر کثرت سے ذکر کی گئی ہیں(۴۲)

تاریخ طبری نے خلقت کی ابتداء، اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر خاتم الانبیاء تک اور پھر ان کی ہجرت سے لیکر ۳۰۲ ہجری تک کے ہر سال کے حالات و واقعات کو الگ الگ بیان کیا ہے۔

طبری کا کسی بھی واقعہ یا حادثہ کو نقل کرنے کا طریقہ جس کا تذکرہ انہوں نے اپنے مقدمہ میں کیا ہے(۴۳) یہ ہے کہ کسی واقعہ کے بارے میں راویوں سے روایتوں کو سند کے ساتھ نقل کرنے کے بعد اس کے بارے میں اپنی رائے دئے بغیر اسے قارئین کی نظر پر چھوڑ دیتے ہیں، البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ طبری کے پاس جو روایتیں موجود تھیں ان میں سے انہوں نے صرف چند روایتوں کا انتخاب کر کے انہیں اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے لیکن واقعہ غدیر کے بارے میں انہوں نے ایک روایت بھی ذکر نہیں کی ہے۔

وہ تمام راوی جن سے طبری نے روایتوں کو نقل کیا ہے وثاقت کے اعتبار سے برابر نہیں ہیں۔ جیسے ابن اسحاق، ابو مخنف، مدائنی، زُھری اور واقدی یہ تمام افراد وہ ہیں جنہوں نے تاریخی واقعات کو نقل کرنے میں ایک خاص طریقۂ کار اپنایا ہے اور اسی طبری کے راویوں میں سے ایک سیف بن عمر بھی ہے جو صرف روایتیں گڑھتا تھا اور نہایت ہی جھوٹا آدمی تھا(۴۴) ۔

اگر چہ طبری سنی مذھب تھے مگر زندگی کے آخری لمحات میں ان کے تشیع کی طرف مائل ہونے کا احتمال دیا جاسکتا ہے۔

طبری سے پھلے لکھی جانے والی وہ کتابیں جو اس گفتگو کے لئے منتخب کی گئی ہیں

۱۔ السیرة النبویہ لابن ھشام:

در اصل اس کتاب کے مولف ابن اسحاق ہیں، اور سیرت نبوی پر لکھی جانے والی اہم اور مصادر کی کتابوں میں اس کا شمار ہوتا ہے اس سے پہلے سیرت نبوی پر اتنی جامع کتاب نہیں لکھی گئی تھی۔ عبدالملک بن ھشام (وفات ۲۱۳ یا ۲۱۸ ہجری ) نے اس کتاب کی تلخیص کی اور اپنے خیال میں اس کی کچھ غیر ضروری عبارتوں کو حذف کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ مطالب کا اضافہ بھی کیا(۴۵) اس کے بعد یہ کتاب "السیرة النبویہ ابن ھشام" کے نام سے مشہور ہوگئی۔

۲۔ المغازی واقدی:

اس کتاب کے مولف محمد بن عمر واقدی (ولادت ۱۳۰ ہجری وفات ۲۰۷ ہجری ) ہیں ان کا تعلق عثمانی مذھب سے تھا وہ مدینہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۸۰ ہجری میں بغداد تشریف لائے اور مامون کی طرف سے بغداد کے قاضی مقرر ہوئے اور اسی شہر میں انتقال کرگئے، وہ غزوات اور فتوحات کے سلسلے میں اچھی خاصی معلومات رکھتے تھے انہوں نے ہجرت سے لیکر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت تک کی روایات کے بارےمیں عمدہ تحقیق کی ہے جس کی وجہ سے وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہے۔

۳۔ الطبقات الکبريٰ:

اس کتاب کے مولف محمد بن سعد (ولادت ۱۶۸ ہجری وفات ۲۳۰ ہجری ) ہیں وہ کاتب واقدی کے نام سے مشہور تھے اور ایک نہایت ہی متعصب قسم کے سنی تھے ان کا تعلق بصرہ سے تھا اور پھر بغداد جاکر واقدی کے پاس ان کے کاتب کی حیثیت سے تعلیم میں مشغول ہوگئے، انھوں نے اپنی کتاب کی پھلی دو جلدوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور اس کے بعد کی جلدوں میں صحابہ اور تابعین کے بارے میں بحث کی ہے جو اس سلسلے کی ایک اہم ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔

۴۔ تاریخ خلیفہ بن خیاط (وفات ۲۴۰ ہجری ):

خلیفہ بن خیاط تیسری صدی ہجری کے ایک اہم مورخ سمجھے جاتے ہیں جو سنی مذھب سے تعلق رکھتے ہیں، ابن کثیر نے انہیں امام تاریخ کہہ کر یاد کیا ہے(۴۶) یہ کتاب تاریخی کتابوں میں قدیم ترین کتاب ہے کہ جس نے تاریخی حالات و واقعات کو ہر سال کے اعتبار سے پیش کیا ہے۔

۵۔ الامامہ والسیاسة:

یہ کتاب ابن قتیبہ دینوری (ولادت ۲۱۳ ہجری وفات ۲۷۶ ہجری ) کی طرف منسوب ہے جن کا شمار تیسری صدی ہجری کے اہل سنت سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور مورخین میں ہوتا ہے، ان کی ولادت بغداد میں ہوئی مگر کچھ عرصہ دینور میں قاضی رہے اگر چہ اس کتاب کی نسبت دینوری کی طرف مشکوک ہے لیکن بہر حال یہ کتاب سن تین ہجری کے آثار میں سے ایک اہم کتاب ہے۔

۶۔ انساب الاشراف:

یہ کتاب احمد بن یحیيٰ بلاذُری (ولادت ۱۷۰ ہجری سے ۱۸۰ ہجری کے درمیان، وفات ۲۷۹ ہجری ) نے لکھی ہے جو تیسری صدی ہجری کے برجستہ مورخین اور نسب شناس افراد میں سے ایک تھے وہ سنی مذھب اور عباسیوں کے ہم خیال افراد میں سے تھے، اس کتاب میں تاریخ اسلام سے متعلق خاندانوں کا نام اور ان کا نسب وغیرہ بیان کیا گیا ہے۔

۷۔ تاریخ یعقوبی:

اس کتاب کے مولف احمد بن ابی یعقوب اسحاق بن جعفر بن وھب بن واضح ہیں ۲۸۴ ہجری میں انتقال ہوا، آپ کا تعلق شیعہ مذھب سے تھا یہ کتاب تاریخ کی موجودہ قدیم ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔

تاریخ طبری کے بعد لکھی جانے والی وہ کتابیں جن سے اس گفتگو میں استفادہ کیا گیا ہے یہ ہیں۔

۱۔ السقیفہ و فدک:

یہ کتاب ابوبکر جوھری (وفات ۳۲۳ ہجری ) نے لکھی مگر زمانے کے گذرنے کے ساتھا ساتھ گم ہوگئی اس کتاب کے عمدہ مطالب دوسری کتابوں میں موجود ہیں، یہ کتاب ابن ابی الحدید کے پاس موجود تھی انہوں نے شرح نہج البلاغہ میں اس کتاب سے بہت کچھ نقل کیا ہے، اب یہ کتاب محمد ھادی امینی کی کوششوں سے مآخذ سے جمع آوری کے بعد "السقیفہ و فدک" کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔

۲۔ مروج الذھب:

یہ کتاب علی بن حسین مسعودی (وفات ۳۴۶ ہجری ) نے لکھی ہے، ممکن ہے کہ وہ شیعہ اثنا عشری ہوں مگر اس بات کا اندازہ "مروج الذھب" میں موجود مطالب سے نہیں لگایا جاسکتا بلکہ اس سے فقط ان کے مذھب شیعہ کی طرف مائل ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہ کتاب مقامات کے سفر کر کے نہایت تحقیق اور جستجو کے بعد لکھے جانے کی وجہ سے کافی اہمیت کی حامل ہے، انہوں نے اپنی کتاب میں ابو مخنف کا بہت ذکر کیا ہے۔

۳۔ الارشاد:

اس کتاب کے مولف شیخ مفید (ولادت ۳۳۶ ہجری وفات ۴۱۳ ہجری ) ہیں وہ ایک شیعہ متکلم، فقیہ اور نامور مورخ ہیں، یہ کتاب اگر چہ شیعوں کے آئمہعليه‌السلام کی زندگی کے بارے میں لکھی گئی ہے لیکن اس کے باوجود اس کتاب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سے متعلق بھی بہت سے واقعات ملتے ہیں۔ شیخ مفید کے علمی مقام و مرتبہ اور تقويٰ و پرہیز گاری کی وجہ سے انکی تحریریں شیعہ علماء کے نزدیک ایک معتبر سند کی حیثیت رکھتی ہیں۔

۴۔ المنتظم فی تاریخ الملوک والامم:

یہ کتاب ابن جوزی (ولادت ۵۰۸ ہجری وفات ۵۹۷ ہجری ) نے لکھی ہے، وہ چھٹی صدی ہجری کے مفسرین، خطباء اور مورخین میں سے ایک تھے، یہ کتاب عام طور سے بعد میں آنے والے مورخین کے لئے بہت زیادہ قابل استفادہ قرار پائی۔

۵۔ الکامل فی التاریخ:

یہ کتاب ابن اثیر (ولادت ۵۵۵ ہجری وفات ۶۳۰ ہجری ) نے لکھی ہے، انہوں نے اس کتاب میں ایسی دلچسپ روش اور طریقۂ کار کا انتخاب کیا ہے کہ جس نے اس کتاب کو تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے تمام افراد کے لئے قابل استفادہ بنا دیا ہے، انہوں نے مطالب کی جمع آوری اور انھیں نقل کرنے کے سلسلے میں بہت محنت اور توجہ سے کام لیا ہے۔

۶۔ البدایہ والنھایہ:

یہ کتاب ابن کثیر (ولادت ۷۰۱ ہجری وفات ۷۷۴ ہجری ) نے لکھی ہے۔ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ ابن تیمیہ(۴۷) کے شاگردوں میں سے ہیں۔

اس کتاب میں بعض بحثیں جیسے سیرت نبوی کو مختصر طور پر بیان کرنے کے بعد نظریات پر تنقید کے علاوہ ان کی تحقیق کی گئی ہے۔

یھاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ یہ جتنی بھی کتابیں ذکر کی گئی ہیں یہ ہماری بحث کے تاریخی مآخذ ہیں اور اس سے ھرگز مراد یہ نہیں ہے کہ ہم نے فقط ان ہی کتابوں پر اکتفا کی ہے۔ بلکہ بعض مقامات پر احادیث کی کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے جیسا کہ اہل سنت کی احادیث کی کتابوں میں سے صحیح بخاری، مسند احمد بن حنبل اور شیعہ احادیث کی کتابوں میں سے کافی اور بحار الانوار کو اس گفتگو کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ اگر چہ بعض مخصوص مطالب کے سلسلے میں ان کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے جو انہیں موضوعات پر لکھی گئی ہیں مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کتاب میں تحقیق کا جو طریقۂ کار اپنایا گیا ہے اگر چہ وہ بہت مشکل اور سنگین کام ہے لیکن ممکن ہے کہ یہ طریقۂ کار بہت سی تاریخی مباحث کی تحقیق کے سلسلے میں مفید ثابت ہو۔

____________________

۴۳. طبری۔ ج۱ ص۷، ۸

۴۵. السیرة النبویہ ابن ھشام ج۱ ص۴ (ابن اسحاق نے ایسے مطالب کا ذکر نہیں کیا کہ جو رسول خدا (ص.سے متعلق نہیں تھے یا یہ کہ بعض مطالب غیر مناسب تھے)

۴۶. منابع تاریخ اسلام۔ ص۱۲۱

۴۷. ابن تیمیہ کے افکار ہی در حقیقت وھابیت کی بنیاد ہیں۔


3

4

5

6

7

8

9

10