سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)0%

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

مؤلف: تارى، جليل
زمرہ جات:

مشاہدے: 10390
ڈاؤنلوڈ: 2325

تبصرے:

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 20 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10390 / ڈاؤنلوڈ: 2325
سائز سائز سائز
سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

مؤلف:
اردو

پانچواں اعتراض؛ ابو مخنف نے بعض افراد کے نام ذکر کئے ہیں جو دوسر ے راویوں نے بیان نہیں کئے ہیں

ابو مخنف نے اپنی روایات میں بعض ایسے افراد کے نام ذکر کئے ہیں جن کا نام دوسرے راویوں نے ذکر نہیں کیا جیسا کہ انہوں نے ان دو آدمیوں میں سے جنہوں نے راستے میں ابوبکر اور عمر سے ملاقات کی ایک کا نام عاصم بن عدی بتایا ہے جب کہ صحیح یہ ہے کہ ان میں سے ایک کا نام "معن بن عدی" تھا (نہ عاصم بن عدی)(۲۵۳)

جواب

۔ جیسا کہ ابو مخنف نے اپنی روایت اور عمر نے اپنے خطبہ میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب ابوبکر، عمر اور ابوعبیدہ جراح سقیفہ جارہے تھے تو دو آدمیوں سے ان کی ملاقات ہوئی جنہوں نے ان حضرات کو سقیفہ میں جانے سے روکا مگر ابوبکر، عمر اور ابوعبیدہ ان دونوں کی باتوں کی پروا کئے بغیر سقیفہ روانہ ہوگئے۔

اب وہ دو آدمی کون تھے؟ عمر نے اپنے خطبہ(۲۵۴) میں ان دونوں کا نام ذکر نہیں کیا بلکہ فقط اتنا کہا ہے کہ راستے میں دو نیک و صالح افراد سے ملاقات ہوئی جب کہ ابو مخنف کی روایت میں ان دو افراد کے نام ذکر کئے گئے ہیں کہ ان میں سے ایک "عویم بن ساعدہ" اور دوسرا شخص "عاصم بن عدی" تھا۔ مآخذ و منابع میں تحقیق اور جستجو کے بعد یہ پتہ چلا کہ ان دو آدمیوں میں سے ایک شخص یقینی طور پر "عویم بن ساعدہ" تھا جب کہ دوسرے شخص کو معمولاً "معن بن عدی" کہا گیا ہے اور فقط ابو مخنف نے اس کا نام "عاصم بن عدی" بتایا ہے لھٰذا اس اعتبار سے ابو مخنف کی روایت باقی راویوں کی روایت سے تعارض رکھتی ہے، اور کیونکہ اکثر تاریخ اور احادیث کی کتابوں نے اس کا نام "معن بن عدی" بتایا ہے اس لئے یہ قول ترجیح رکھتا ہے لھٰذا یہ اعتراض اس اعتبار سے بجا ہے لیکن بعض روایات میں یہ بات ذکر ہے کہ سقیفہ میں انصار کے اجتماع کی خبر جس شخص نے ابوبکر اور عمر کو دی وہ معن بن عدی تھا(۲۵۵) جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص پہلے ہی سے ابوبکر اور عمر سے مل کر انہیں سقیفہ کے اجتماع سے آگاہ کر چکا تھا، لھٰذا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص ان سے دوبارہ ملا ہو اور انہیں وھاں جانے سے روکا ہو؟!

اس بیان کے پیش نظر ابو مخنف کے کلام کو قابل قبول تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ دو آدمی ایک عویم بن ساعدہ اور دوسرا عاصم بن عدی تھا نہ معن بن عدی اس لئے کہ معن بن عدی پہلے ہی ان کے پاس آچکا تھا (واللہ العالم!)

چھٹا اعتراض؛ سقیفہ میں ابوبکر کی تقریر کے تنہا راوی ابو مخنف ہیں

"ابو مخنف کی روایت میں ابوبکر کا سقیفہ میں جو خطبہ نقل ہوا ہے وہ دوسری کسی بھی جگہ لفظی یا معنوی اعتبار سے نقل نہیں ہوا ہے"(۲۵۶) ۔

جواب۔

یہ بات تو کسی بھی صورت قابل تردید نہیں کہ ابوبکر نے سقیفہ میں مفصل خطبہ ضرور دیا ہے اس لئے کہ عمر کا کہنا ہے کہ میں نے پہلے ہی سے کچھ مطالب بیان کرنے کے لئے اپنے ذھن کو تیار کر رکھا تھا لیکن ابوبکر نے مجھ سے پہلے ہی خطبہ دے دیا اور مجھ سے بھی زیادہ کامل تر خطبہ دیا(۲۵۷) ۔

اور اسی طرح روایت احمد میں جو حمید بن عبد الرحمٰن سے نقل ہوئی ہے کہا گیا ہے کہ "فتکلم ابوبکر ولم یترک شیاً انزل فی الانصار ولا ذکره رسول الله، من شأنهم الّا و ذکره "(۲۵۸) یعنی ابوبکر نے اپنی تقریر شروع کی تو جو کچھ انصار کے بارے میں قرآن میں آیا تھا اور جو کچھ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا تھا سب کچھ کہہ ڈالا اور کوئی چیز بھی باقی نہ چھوڑی اور نیز ابن ابی شیبہ ابو اسامہ سے روایت نقل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ابوبکر نے انصار سے اس طرح خطاب کیا اے گروہ انصار ہم آپ لوگوں کے حق کے منکر نہیں ہیں۔ ۔ ۔(۲۵۹)

یہ تمام موارد سقیفہ میں ابوبکر کی مفصل تقریر پر دلالت کرتے ہیں لیکن روایات نے ابوبکر کی تقریر کو معنوی اعتبار سے نقل کیا اور ان کی تقریر کے کچھ ہی مطالب کے بیان پر اکتفا کیا ہے لیکن ابو مخنف کی روایت نے باریک بینی اور تفصیل کے ساتھ ابوبکر کی تقریر کو بیان کیا ہے

لھٰذا یقینی طور پر تاریخی اعتبار سے ابو مخنف کی روایت کافی اہمیت کی حامل ہے اس لئے کہ اس میں ایک واقعہ کے ان تمام پہلوؤں کا ذکر کیا گیا ہے جو اس میں پیش آئے تھے اس بنا پر ابو مخنف کی روایت کا ان تمام روایات سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا جو نقل بہ معنی ہیں، اس کے علاوہ یہ کہ وھی خطبہ جو ابو مخنف نے سقیفہ کے بارے میں نقل کیا ہے تاریخ کی دوسری کتابوں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے جیسے الامامة والسیاسة(۲۶۰) ، الکامل فی التاریخ ابن اثیر(۲۶۱) ، السقیفہ و فدک جوھری(۲۶۲) ان تمام نے اسے مختلف اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے لھٰذا یہ دعويٰ کہ سقیفہ میں ابوبکر کی تقریر کے تنہا راوی ابو مخنف ہیں یہ بے بنیاد اور باطل ہے۔

ساتواں اعتراض؛ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج سے متعلق

ابو مخنف کی روایت میں ہے کہ ابوبکر نے سقیفہ میں انصار سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ "و فیکم جُلة ازواجه " یعنی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اہم ازواج تم میں موجود ہیں ابوبکر کی طرف اس قسم کے بیان کی نسبت دینا صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تمام ازواج قریش سے تھیں اور کوئی بھی معتبر سند اس چیز کو بیان نہیں کرتی کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کسی بیوی کا تعلق انصار سے رہا ہو(۲۶۳) ۔

جواب۔

پہلی بات تو یہ کہ یہ بات قابل تردید نہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تمام ازواج کا تعلق قریش سے تھا اور انصار سے نہ تھا لیکن اس جملے کے معنی ھرگز وہ نہیں جو اعتراض کرنے والے سمجھے ہیں اور معترض کے عرب ہونے کی بنا پر یہ بات نہایت باعث تعجب اور قابل افسوس ہے کیونکہ اس جملہ کا متن یہ ہے "وجعل الیکم هجرته وفیکم جُلة ازواجه واصحابه " اب اگر لفظ جلہ کو جیم پر پیش کے ساتھ پڑھا جائے تو اس جملے کے معنی اس طرح ہوں گے "خدا نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کو آپ لوگوں کی طرف قرار دیا اور آپ لوگوں کے درمیان اور آپ ہی کے معاشرے (مدینہ) میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اکثر ازواج مطھرہ اور ان کے اصحاب موجود ہیں"۔ اور اگر جلہ کی جیم پر زیر دے کر پڑھا جائے تو معنی یہ ہوں گے، "اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کو آپ لوگوں کی طرف قرار دیا اور آپ کے معاشرے (مدینہ) میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج اور گرانقدر اصحاب موجود ہیں"۔

بہر حال "جلہ" کو کسی بھی طرح پڑھا جائے اس کے معنی میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہوگا اس لئے کہ بنیادی نکتہ لفظ "فیکم" کے معنی میں موجود ہے کہ جس کے معنی "آپ لوگوں کے درمیان میں ہیں" اور ھرگز اس کے معنی یہ نہیں کہ وہ تم میں سے ہیں اس لئے کہ اس قسم کے معنی کے لئے کلمہ منکم سے استفادہ کیا جاتا ہے، لھٰذا یوں کہا جاتا "ومنکم جلة ازواجه واصحابه " لیکن جو چیز متن روایت میں ذکر ہے وہ یہ ہے "وفیکم جُلة ازواجه واصحابه " لھٰذا معترض کے لئے ضروری ہے کہ ایک بار پھر اچھی طرح عربی کے قواعد کو سیکھے تاکہ انہیں فیکم اور منکم کے فرق کا پتہ چل جائے۔

دوسری بات یہ کہ "الامامة والسیاسة" نیز "السقیفہ و فدک" جوھری میں یہ روایت ابو مخنف کی روایت کے الفاظ کے عین مطابق نقل ہوئی ہے اس میں یہ جملہ "و فیکم جلة ازواجه واصحابه " موجود نہیں ہے اور کتاب الکامل ابن اثیر(۲۶۴) میں اس جملہ کو بریکٹ میں قرار دیا گیا ہے، اور اس کے بعد حاشیہ میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ جملہ ابو مخنف کی روایت میں موجود نہیں ہے اور طبری نے سیاق جملہ کے پیش نظر اس کا اضافہ کیا ہے بس اگر ایسا ہے تو یہ اعتراض بنیادی طور پر ہی مخدوش ہے اس لئے کہ یہ عبارت ابو مخنف کی نہیں ہے اور اگر یہ اعتراض صحیح ہے تو طبری پر ہے نہ کہ ابو مخنف پر۔

آٹھواں اعتراض؛ حباب بن منذر اور عمر کے درمیان نزاع سے انکار

"ابو مخنف کی روایت کے علاوہ کسی دوسری روایات میں یہ بات نہیں ملتی کہ حباب بن منذر اور عمر کے درمیان کافی دیر تک تلخ کلامی اور نزاع ہوا ہو جب کہ جو چیز روایات میں بیان ہوئی ہے وہ اس کے برعکس ہے جیسا کہ احمد کی روایت میں ذکر ہوا ہے کہ تمام انصار نے کہا کہ ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں کہ اس امر میں ابوبکر سے پیش قدمی کریں"(۲۶۵) ۔

جواب۔

حقیقت یہ ہے کہ حباب بن منذر اور عمر کے درمیان گفتگو بہت سی تاریخی کتابوں میں ذکر کی گئی ہے، لھٰذا بنیادی طور پر یہ بات غیر قابل انکار ہے اور اسی طرح یہ بات بھی یقینی ہے کہ "انا جُذَیلها المحکک و عُذیقها المرجّب منّا امیر و منکم امیر یا معشر قریش " یہ جملہ کھنے والا شخص حباب بن منذر ہے، رہی یہ بات کہ ان دونوں کے درمیان کوئی نزاع بھی ہوا تھا یا بقول معترض کہ انصار کے قبول کر لینے کے ساتھ ساتھ تمام چیزیں بخوبی انجام پاگئیں تھیں، ہم اس بحث کو روشن اور واضح کرنے کے لئے تاریخ اور احادیث کی کتابوں کے مضامین کے چند نمونے آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

۱۔ الطبقات الکبريٰ میں قاسم بن محمد سے نقل ہے کہ حباب بن منذر جو جنگ بدر کے شرکاء میں سے ایک ہے کھڑا ہوگیا اور کہا کہ ایک امیر ہمارا اور ایک امیر تمہارا، حباب بن منذر کی گفتگو کے بعد عمر نے کہا: اگر ایسا ہے تو پھر مرجاؤ(۲۶۶) یہ روایت حباب بن منذر کی گفتگو اور عمر کے ساتھ اس کی تلخ کلامی اور نزاع کو بیان کرتی ہے۔

۲۔ جو روایات نسائی نے نقل کی ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں، انصار نے کہا کہ ایک امیر ہمارا ہو اور ایک امیر تم لوگوں کا ہوگا تو عمر نے کہا: ایک نیام میں دو تلواریں رکھنا صحیح نہیں ہیں(۲۶۷) ، روایت کا یہ حصہ بالکل اس مضمون جیسا ہے جسے ابو مخنف نے نقل کیا ہے بس فرق یہ ہے کہ اس روایت میں انصار میں سے جس شخص نے یہ بات کہی تھی اس کا نام نہیں لیا جب کہ ابو مخنف اور دوسرے افراد نے انصار کی طرف سے بولنے والے شخص کا نام بتایا ہے کہ وہ حباب بن منذر تھا۔

۳۔ عمر نے اپنے خطبہ میں کہا ہے کہ انصار میں سے ایک شخص نے کہا کہ "میں ایک تجربہ کار شخص ہوں اور دنیا کے نشیب و فراز سے خوب واقف ہوں لھٰذا ایک امیر ہمارا اور ایک امیر تمھارا ہوگا، اے گروہ انصار! اس کے بعد اس طرح شور و غل اور ایک ھنگامہ آرائی ہوئی کہ مجھے ڈر تھا کہ کھیں اختلاف نہ ہوجائے"(۲۶۸) عمر کے اس کلام کی روشنی میں انصار کی طرف سے بولنے والے شخص کے بعد اس طرح شور و غل شروع ہوا کہ عمر اختلاف پیدا ہوجانے سے خوفزدہ تھے۔

لھٰذا جیسا کہ تیسرے اعتراض کے جواب میں ہم نے عرض کیا کہ ایسا نہ تھا کہ انصار بغیر کسی چون و چرا کے ابوبکر اور عمر کے سامنے جھک گئے تھے، بلکہ یقینی طور پر کافی دیر تک بحث و مباحثہ اور تلخ کلامی کا سلسلہ چلتا تھا اور وہ روایت کہ جسے معترض نے نقل کیا ہے کہ تما انصار ابوبکر کے سامنے جھک گئے تھے (جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے) وہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کے علاوہ اہل سنت کی صحیح روایت سے مکمل تعارض بھی رکھتی ہے۔

۴۔ الامامة والسیاسة(۲۶۹) اور سقیفہ و فدک جوھری(۲۷۰) نے بھی حباب بن منذر اور عمر کے درمیان سخت گفتگو ہونے کو نقل کیا ہے اور ابن اثیر نے الکامل(۲۷۱) میں اس گفتگو کے علاوہ ابو مخنف کی عین عبارت کو بھی نقل کیا ہے کہ ان دونوں نے ایک دوسرے سے کہا "خدا تجھے موت دے" الامامة والسیاسة نے اس مطلب کے علاوہ حباب بن منذر اور عمر کے درمیان پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے کی دشمنی کا بھی ذکر کیا ہے۔

۵۔ طبری نے تو سیف بن عمر کے حوالے سے یہاں تک نقل کیا ہے کہ عمر اور حباب بن منذر کے درمیان بات اتنی بڑھ گئی کہ نوبت مار پیٹ تک پہونچ گئی(۲۷۲)

گذشتہ بیان کی روشنی میں نہ فقط دوسری روایات ابو مخنف کی روایت سے تعارض نہیں رکھتی ہیں بلکہ اس کی تائید کرتی ہیں، اور اگر بات تعارض کے بارے میں کی جائے تو جو کچھ تمام روایات میں بیان کیا گیا ہے وہ روایت احمد سے تعارض رکھتا ہے جسے خود معترض نے سند کے طور پر پیش کیا ہے، نہ کہ روایت ابو مخنف سے۔

نواں اعتراض؛ انصار کی طرف سے مہاجرین کو ڈرانے دہمکانے کا انکار

مہاجرین کے بزرگ افراد کو مدینہ سے باھر نکالنے سے متعلق حباب بن منذر کی گفتگو اور انہیں ڈرانا دہمکانا ان باتوں سے تعارض رکھتا ہے جو کچھ قرآن نے انصار کے بارے میں فرمایا ہے، قرآن سورہ حشر کی آیت نمبر نو میں فرماتا ہے "اور جن لوگوں نے دارالہجرت اور ایمان کو ان سے پہلے اختیار کیا تھا وہ ہجرت کرنے والے کو دوست رکھتے ہیں اور جو کچھ انہیں دیا گیا ہے اپنے دلوں میں اس کی طرف سے کوئی ضرورت نہیں محسوس کرتے ہیں اور اپنے نفس پر دوسروں کو مقدم کرتے ہیں چاھے انہیں کتنی ہی ضرورت کیوں نہ ہو، اور جسے بھی اس کے نفس کی حرص سے بچا لیا جائے وھی لوگ نجات پانے والے ہیں" جو کچھ یہ آیت انصار کے ایثار کے بارے میں بیان کرتی ہے اسے روایت کے مطالب کے ساتھ کیسے جمع کیا جائے؟ اور کس طرح محبت و نفرت، اخوت و دشمنی ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہوسکتے ہیں؟ لھٰذا اگر کوئی شخص انصار کے ایمان اور ایثار سے اچھی طرح واقف ہو تو وہ ھرگز اس بات پر یقین نہیں کرسکتا کہ جسے ابو مخنف کی روایت نے بیان کیا ہے بلکہ وہ اسے محض جھوٹ ہی کھے گا(۲۷۳) ۔

جواب۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ انصار کے فضائل اور ان کے ایثار میں کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے انہوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کے ساتھ کمال محبت اور ایثار کا برتاؤ کیا ہے اور اس سے بھی انکار نہیں کہ انہوں نے یہ کام صرف خدا کی خوشنودی کے لئے کیا تھا اور یہ بات واضح ہے کہ انصار کی طرف سے مہاجرین کے ساتھ یہ محبت و ایثار خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خالصانہ اور ان کی فرماں برداری کی بنا پر تھا۔

اب اگر انصار یہ گمان کریں کہ بعض مہاجرین ولایت و حکومت کے بارے میں وحی الھی اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مسلسل تاکیدات سے سرپیچی کر کے حکومت پر قبضہ کرنا چاھتے ہیں اور ان کا مقصد اہل بیتعليه‌السلام کو خلافت سے دور کرنا اور انصار پر غلبہ حاصل کرنا ہے تو ایسی صورت میں نہ فقط ان کی نسبت محبت کی کوئی راہ باقی نہیں رہ جاتی ہے بلکہ اگر خدا کی خاطر ان سے بغض رکھا جائے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔

دوسری بات یہ کہ کیا تمام انصار کا اطلاق حباب بن منذر پر ہوتا ہے؟ اسی طرح کیا تمام مہاجرین فقط وہ تین ہی افراد ہیں کہ اگر ایک انصار ایک مہاجر کے ساتھ سخت لہجہ میں بات کرے تو ہم کہیں کہ یہ چیز قرآن کی اس آیت کے خلاف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "انصا، مہاجرین کی نسبت دوست اور ایثار گر ہیں" لھٰذا اگر ایک انصاری کوئی نازیبا الفاظ ادا کرتا ہے تو اس سے دوسرے انصار کی شان و شوکت میں کوئی کمی نہیں آتی، جیسا کہ سقیفہ میں اس بات کا مشاہدہ بھی کیا گیا کہ بعض انصار نے حباب ابن مندر کی اس پیشکش کا کوئی مثبت جواب نہ دیا اسی طرح اگر بعض مہاجرین پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قرابتداری کا حوالہ دے کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جنازہ کو اسی حالت پر چھوڑ کر سقیفہ میں حکومت حاصل کرنے کی کوششوں میں لگے تھے تو اگر ایسے مہاجرین کے ساتھ اچھی طرح پیش نہ آیا جائے تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ تمام مہاجرین کے بارے میں انصار کی یہی رائے ہے اور حباب بن منذر کی پوری گفتگو کا تعلق صرف سقیفہ میں موجود مہاجرین ہی سے تھا۔ اس لئے کہ وہ کہتا ہے "ولا تسمعوا مقالة هذا و اصحابه فان ابوا علیکم ما وسألتموه فاجلوهم عن هذه البلاد "(۲۷۴) یعنی اس شخص (عمر) اور اس کے ساتھیوں کی گفتگو پر کان مت دھرو اور اگر انہوں نے تمہاری مرضی اور چاھت کے خلاف کوئی کام انجام دیا تو انہیں یہاں سے باھر نکال دو، اس بیان کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ حباب بن منذر کی مراد سقیفہ میں موجود چند افراد تھے، اس لئے کہ انگلیوں پر گنے جانے والے چند افراد کے علاوہ اکثر مھاجرین وھاں موجود نہ تھے اور ان میں سے اکثر سقیفہ کی کاروائی کے مخالف تھے(۲۷۵)

اور تیسری بات یہ کہ آیت کا مفہوم اور اس کی تفسیر ھرگز اس معنی میں نہیں کہ جس کا معترض نے دعويٰ کیا ہے اس لئے کہ آیت ایک تاریخی واقع کو بیان کرتی ہے جو ایک خاص زمانے میں پیش آیا ہے اور وہ تاریخی واقع یہ تھا کہ جب بعض مہاجرین نے سر زمین مدینہ کی طرف ہجرت کی تو مدینہ کے رہنے والوں نے ان کا گرم جوشی سے والھانہ استقبال کر کے ان کے لئے ایثار و قربانی کا مظاھرہ کیا اور یقینی طور پر آیت کے معنی ھرگز یہ نہیں ہیں کہ مہاجرین اور انصار میں سے کسی ایک فرد کا دوسرے کے ساتھ کسی بھی زمانے میں لڑائی جھگڑا نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ ایسے بے شمار مواقع پائے جاتے ہیں جو آیت کی نقض قرار پائیں گے، مثال کے طور پر وہ لڑائی جھگڑے جو خلفاء ثلاثہ کی حکومتوں کے دوران پیش آّئے کہ جن میں ایک مسئلہ خود عثمان کے قتل کا تھا نیز حضرت علی علیہ السلام کے دور خلافت میں شدید قسم کی جنگیں ہوئیں جیسے جنگ جمل، جنگ نہروان، جنگ صفین کہ ان جنگوں میں دونوں طرف مہاجرین اور انصار کی تعداد موجود تھی اور کیا یہی مہاجرین اور انصار نہ تھے جو ان جنگوں میں ایک دوسرے کو قتل کر رہے تھے، اب اس کے بعد بھی کیا قرآن مجید کے مطابق ایسی کج فہمی کی کوئی تاویل ممکن ہے؟ یہ کتنا ضعیف اور فضول اعتراض ہے کہ جو معترض کی طرف سے کیا گیا ہے؟!

دسواں اعتراض؛ سقیفہ میں اوس و خزرج کے درمیان اختلاف سے انکار

ابو مخنف کی روایت کا ایک جملہ یہ ہے کہ قبیلہ اوس والوں کا کہنا تھا کہ اگر خزرج والے ایک مرتبہ خلافت پر آگئے تو ہمیشہ اس پر باقی رہیں گے ظاھراً اس بات کے پیش نظر قبیلہ اوس والوں کا ابوبکر کی بیعت کرنا در حقیقت خزرج والوں کی حکومت سے جان چھڑانا تھا نہ یہ کہ ان کی بیعت ابوبکر کی فضیلت یا اسلام میں سبقت کی وجہ سے تھی اور یہ چیز ان دونوں قبیلوں کے درمیان اسلام سے پہلے جیسی دشمنی کی نشاندھی کرتی ہے اور یہ کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تربیت، خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد سب کا سب عارضی اور وقتی تھا جس کا اب کوئی اثر تک باقی نہ تھا ایسا کہنا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اصحاب پر بہت بڑی تہمت لگانا ہے جب کہ صحیح روایات اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تربیت شدہ افراد کے سامنے جب حکم خدا کو سنایا گیا تو ان سب نے اسے قبول کرلیا اس لئے کہ ابوبکر کے ساتھ کوئی لشکر تو نہیں تھا کہ جو وہ خوف و ہراس کی وجہ سے بیعت کرنے پر مجبور ہوگئے ہوں(۲۷۶) ۔

جواب۔

پہلی بات تو یہ کہ کوئی شخص بھی انسانوں کی تربیت کے سلسلے میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مسلسل کوششوں کا منکر نہیں ہے اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حتی الامکان کوشش کرتے تھے کہ قبیلوں کے درمیان جو پرانی دشمنیاں چلی آرہی ہیں انہیں جڑ سے ختم کردیا جائے اور انہیں یہ بات سمجھائی جائے کہ کوئی قبیلہ کسی قبیلہ پر برتری اور فوقیت نہیں رکھتا اس کا معیار صرف تقويٰ الھی ہے۔( انّ اکرم کم عند الله اتقاکم ) (۲۷۷) ۔ بے شک پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سلسلے میں بے انتہا کوششیں کیں اور اپنے کار رسالت کو احسن طریقہ سے انجام دیا اور اپنی مکمل ذمہ داری ادا کی( وما علی الرسول الّا البلاغ المبین ) (۲۷۸) ۔

لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ کیا لوگوں نے بھی ان تمام دستورات و احکام پر عمل کیا اور ان تمام تعصّبات کو مکمل طور پر ختم کردیا؟ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی انتھک کوششوں کے نتیجہ میں قبیلوں کے درمیان شدید جنگیں تو ختم ہوگئیں مگر بحث بازی اور آپسی رقابت ختم نہ ہوئی اس لئے کہ اس زمانے میں نہ یہ کام ممکن تھا اور نہ شاید یہ مصلحت رہی ہو کہ اس رقابت کو مکمل طور سے ختم کردیا جائے، عربوں میں قوم اور قبیلہ کا تعصب اس قدر عمیق اور پرانا ہے کہ اسے اتنی جلدی ختم نہیں کیا جاسکتا تھا اور سچ بات تو یہ ہے کہ اس بات کا تعلق فقط عربوں سے ہی نہیں بلکہ عصر حاضر میں غیر عرب بھی اپنے قوم و قبیلہ اور تنظیموں کی طرف تمایل اور رغبت رکھتے ہیں اور یہ بیماری آخری دم تک انسانوں کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔

اور یہ واضح ہے کہ یہ چیز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے کسی بھی طرح نقص شمار نہیں ہوتی اس لئے کہ آپ کی ذمہ داری فقط تبلیغ کی تھی جسے آپ نے کما حقہ انجام دیا اب جو چاھے مومن ہوجائے جو چاھے کافر(۲۷۹) ۔

جیسا کہ بعض لوگوں کی گمراھی اور خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات سے ان کی سرپیچی کرنا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے کوئی نقص محسوب نہیں ہوتا اسی طرح وہ لوگ جو ایمان لے آئے سب کے سب ایمان کے ایک درجہ پر نہیں تھے بعض ایمان کے بلند درجہ پر فائز تھے اور بعض ایمان کے نچلے درجہ پر ہی باقی رہے، اب ان افراد کے ایمان کا کمزور ہونا بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے کسی بھی قسم کا نقص نہیں ہے اس لئے کہ تمام افراد کی استعداد، کوششیں اور جد و جہد و امکانات ایک جیسے نہیں ہوتے، یا یوں کہا جائے کہ ہر آدمی اپنی ظرفیت کے مطابق اس دریائے بے کراں سے سیراب ہوا۔

انصار اور مہاجرین اور دوسرے اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی سب کے سب ایمان کے ایک درجہ پر فائز نہ تھے جسے قرآن نے بھی بیان کیا ہے کہ بعض تو فقط اسلام ہی لائے تھے اور ایمان نہ رکھتے تھے اور یہ بات واضح ہے کہ وھی شخص اپنے قوم و قبیلہ کے تعصب پر قابو پاسکتا ہے کہ جو بہت ہی زیادہ ایمان ایمان اور تقويٰ کی دولت سے مالا مال ہو، اب اگر کوئی اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے قبیلہ کے تعصب کو قابو میں نہیں کرسکتا تو اس کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کیا ربط ہے اور یہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے کس طرح نقص ہے؟!

اس کے علاوہ اہل سنت کی بہت سی روایات اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد بہت سے مسلمان مرتد ہوگئے تھے، جیسا کہ جناب عائشہ کی روایت ہے آپ فرماتی ہیں "لما توفيٰ رسول الله ارتد العرب " ۲۸۰، یعنی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد عرب مرتد ہوگئے تھے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ مسلمانوں کا مرتد ہوجانا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے نقص شمار ہوگا یا نہیں مگر بعض لوگوں کی قبیلہ پرستی تعصب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے لئے نقص سمجھی جاتی ہے؟!

دوسری بات کہ اگر ابو مخنف کی روایت نے قبیلۂ اوس والوں کی طرف یہ نسبت دی ہے کہ وہ قبیلہ جاتی تعصب کا شکار تھے اور یہ چیز پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعلیمات پر انگلی اٹھانے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہے اس لئے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جن افراد کی تربیت کی تھی وہ تمام کے تمام ہر قسم کے تعصب سے پاک تھے۔ تو اب ایسے میں بہتر ہے کہ ہم یہاں ابوبکر کی سقیفہ میں کی جانے والی تقریر کو بیان کردیں کہ جسے اہل سنت کی صحیح روایات نے نقل کیا ہے تاکہ یہ اندازہ ہوجائے کہ اس میں انہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے کس حد تک استفادہ کیا ہے۔

عمر نے سقیفہ کے بارےمیں جو معروف خطبہ دیا تھا اس میں سقیفہ کی کاروائی کے دوران ابوبکر کی تقریر کو انہوں نے اس طرح بیان کیا ہے کہ ابوبکر نے کہا "ولن یعرف هذا الامر الّا لهذا الحی من قریش هم أوسط العرب نسباً و داراً " ۲۸۱، یعنی یہ عہدۂ خلافت قریش کے علاوہ کسی اور کے لئے مناسب نہیں اس لئے کہ وہ نسب اور شہر کے اعتبار سے سب پر شرف رکھتے ہیں، کیا یہ کلام قبیلہ کی برتری جتانے کو ظاھر نہیں کرتا؟ کیا قریش کا نسب اور ان کا شہر دوسروں پر برتری کا سبب بن سکتا ہے؟ مگر کیا ابوبکر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعلیمات سے بے بہرہ تھے کہ جو قبیلے اور شہر کی برتری کی گفتگو بیچ میں لے آئے، کیا انہوں نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی تھی( انّ اکرمکم عند الله اتقاکم ) ؟!(۲۸۲)

دوسری روایت کہ جسے ابن ابی شیبہ نے ابو اسامہ سے نقل کی ہے، وہ کھتا ہے کہ ابوبکر نے سقیفہ میں انصار سے خطاب کرتے ہوئے اس طرح کہا "ولکن لا ترضيٰ العرب ولا تقر الّا علی رجل من قریش لانهم افصح الناس ألسنة وأحسن الناس وجوهاً،و واسط العرب داراً واکثر الناس سجّیة "(۲۸۳) "لیکن عرب راضی نہ ہونگے اور قبول نہ کریں گے جب تک کوئی شخص قریش میں سے نہ ہو اس لئے کہ وہ فصیح، خوبصورت، جگہ کے لحاظ سے صاحب شرف، نیک فطرت اور خوش مزاج لوگ ہیں" اور کیا کھیں؟ سقیفہ میں ابوبکر کی یہ گفتگو کہ جس میں قریش کی برتری کو بیان کیا جارہا ہے واضح طور پر ان کے قبیلہ جاتی تعصب کی نشاندھی کر رہی ہے جب کہ انہوں نے تقويٰ اور پرہیزگاری کی کوئی بات ہی نہیں کی، اب ایسی صورت میں ابوبکر جو بعض اہل سنت کے نزدیک بہت ہی زیادہ فضائل کے حامل ہیں بلکہ بعض نے تو یہ تک کہا ہے کہ وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل مرد ہیں جب ان کا حال یہ ہے تو اوس اور خزرج سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟

معترض نے اپنے اعتراض کے آخری حصے میں بہت ہی عجیب و غریب بات کہی کہ "جب انصار نے حکم خدا کو سنا تو سب کے سب ابوبکر کے سامنے تسلیم ہوگئے"، ہم اس کا جواب دے چکے ہیں کہ کیا ابوبکر کی گفتگو کے بعد سب کے سب تسلیم ہوگئے تھے یا نہیں؟ اب رہی یہ بات کہ معترض نے ابوبکر کی تقریر کو حکم خدا بیان کرنے سے تعبیر کیا ہے، ہم معترض سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کس طرح تمام انصار میں ایک فرد بھی حکم خدا سے آگاہ نہ تھا اور صرف ابوبکر ہی حکم خدا جانتے تھے؟! کس طرح ممکن ہے کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو احکام الھی کے ابلاغ پر مامور تھے انہوں نے اس حکم خدا کو لوگوں کے لئے بیان نہ کیا ہو؟ اور یہ بات کہنا کہ ابوبکر حکم خدا سے باخبر تھے اور انہوں نے لوگوں کو حکم خدا سے آگاہ کیا، کیا یہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر احکام تبلیغ کے سلسلے میں کوتاھی کرنے کی تہمت نہیں ہے؟

آخر کیا بات ہے کہ حضرت علی علیہ السلام و جناب فاطمہعليه‌السلام کہ جو اہل بیتعليه‌السلام وحی ہیں نیز بنی ھاشم اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے صحابہ نہ فقط یہ کہ اس حکم سے بے خبر تھے بلکہ وہ اس حکم کو قبول بھی نہیں کررہے تھے وہ حکم ابوبکر کی بیعت کرنا تھا۔

کیا واقعاً، وہ حکم جو ابوبکر نے سنایا تھا وہ حکم خدا تھا یا خود ان کا ذاتی حکم تھا؟۔

____________________

۲۵۴. صحیح بخاری کے نقل کے مطابق۔

۲۵۸. مسند احمد بن حنبل: ج۱ ص۱۹۸

۲۵۹. کتاب المصنف: ج۷ ص۴۳۳ (حدیث ۴۰، ۳۷)

۲۶۰. الامامة والسیاسة: ص۲۳، ۲۴،

۲۶۱. الکامل فی التاریخ: ج۲ ص۱۳

۲۶۲. السقیفہ و فدک: ص۵۶، ۵۷۔

۲۶۴. الکامل فی التاریخ: ج۲ ص۱۳۔

۲۶۶. الطبقات الکبريٰ: ج۳ ص۱۸۲

۲۶۷. فضائل الصحابہ: ص۵۵، ۵۶

۲۶۸. سقیفہ میں عمر کا خطبہ۔

۲۶۹. الامامة والسیاسة: ص۲۵

۲۷۰. السقیفہ و فدک: ص۵۸۰

۲۷۱. الکامل فی التاریخ: ج۲ ص۱۳

۲۷۴. سقیفہ کے بارے میں ابو مخنف کی روایت کا مضمون۔

۲۸۰. السیرة النبویہ: ابن ھشام: ج۴ ص۳۱۶۔

۲۸۱. سقیفہ کے بارے میں عمر کا معروف خطبہ۔

۲۸۲. سورہ مبارکہ حجرات: آیت۱۳۔

۲۸۳. الکتاب المصنف: ج،۷، ۴۳۳۔