گیارہواں اعتراض؛ ابوعبیدہ کی تقریر کے تنہا راوی ابو مخنف ہیں
انصار سے ابو عبیدہ کا خطاب کرنا فقط ابو مخنف کی روایت میں ملتا ہے اور کسی دوسری روایت میں اس کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں ہے
۔
جواب
۔ ابو عبیدہ وہ شخص ہے جو ابوبکر اور عمر کے ساتھ سقیفہ گیا اور اس کی کاروائی میں موجود تھا شروع میں ابوبکر نے لوگوں کو ابوعبیدہ اور عمر کی بیعت کرنے کی پیشکش کی اور اسی چیز سے اس جلسہ میں اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ممکن ہے کہ اس نے بھی اس جلسہ میں تقریر کی ہو جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ جو روایات سقیفہ کی کاروائی کو بیان کرتی ہیں وہ نہایت مختصر اورنقل بہ معنی ہیں اس لئے دوسرے راویوں کا نقل نہ کرنا ابو مخنف کی مفصل روایت کے بارے میں اس کی ضعیف ہونے پر دلیل نہیں ہے، اس کے علاوہ ابو عبیدہ کے خطاب کو فقط ابو مخنف ہی نے نقل نہیں کیا بلکہ دینوری نے الامامة والسیاسة
میں، ابن اثیر
نے الکامل میں اور یعقوبی
نے اسے اپنی تاریخ یعقوبی میں بالکل ابو مخنف کی روایت کی طرح نقل کیا ہے۔
بارہواں اعتراض؛ سعد بن عبادہ اور عمر کے درمیان نزاع سے انکار
اس بات پر اتفاق ہے کہ عمر نے سقیفہ میں سعد بن عبادہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا "قتل الله سعداً
" یعنی خدا سعد کو قتل کرے لیکن عمر کے اس جملہ سے مراد جیسا کہ کتاب غریب الحدیث میں ذکر ہوا ہے کہ "دفع الله شرّه
" یعنی خدا اس کے شر کو دفع کرے نہ یہ کہ خدا سعد کو موت دے، جب کہ ابو مخنف کی روایت عمر اور سعد بن عبادہ کے درمیان بحث و مباحثہ اور تلخ کلامی کو بیان کرتی ہے اور دوسری تمام روایات اس کے برعکس ہیں
۔
جواب۔
پہلی بات تو یہ کہ بہت سی تاریخ اور احادیث کی کتابوں نے واضح طور پر اس تلخ کلامی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
۱۔ انساب الاشراف
میں روایت نقل ہوئی ہے کہ عمر نے سعد کے بارے میں کہا "اقتلوہ فانہ صاحب فتنہ" یعنی اسے قتل کردو کہ وہ فتنہ گر ہے۔
۲۔ یعقوبی
کا کہنا ہے کہ عمر نے کہا "اقتلوا سعداً قتل الله سعداً
" یعنی سعد کو قتل کردو، خدا سعد کو ھلاک کرے۔
۳۔ عمر کے خطبہ کے سیاق و سباق سے بھی یہی معنی سمجھ میں آتے ہیں اس لئے کہ اس سے پہلے کہ عمر یہ بات کہیں لوگوں کے ازدھام کی وجہ سے سعد کے ایک قریبی فرد نے کہا کہ "کہیں سعد کچل نہ جائے" تو عمر نے یہ جملہ سننے کے بعد کہا "قتل الله سعداً
" اللہ سعد کو موت دے دے
۔
۴۔ دینوری
نے بھی اس تلخ کلامی کو ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے "اقتلوہ (اسے قتل کردو) قتلہ اللہ (خدا اسے موت دے)" اگر چہ اس نے اس قول کے کہنے والے کے نام کو ذکر نہیں کیا لیکن یہ بات متفق علیہ ہے کہ وہ شخص عمر ہی تھے اور یہ صراحت اور وضاحت جو اس عبارت میں موجود ہے ہر قسم کی تفسیر اور تاویل کے راستہ کو بند کردیتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ ۔ "قتل الله سعداً
" در حقیقت اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ خدا سعد کو ھلاک کرے۔ لھٰذا اگر اس جملے کے کہنے والے کی مراد اس کے حقیقی معنی نہ ہوں اور وہ اسے مجازی معنی میں استعمال کر رہا ہو تو اسے دو مسئلوں کی طرف توجہ رکھنی چاھیے، ایک یہ کہ حقیقی اور مجازی معنی کے درمیان رابطہ ضروری ہے اور دوسری بات یہ کہ حقیقی معنی کو مجازی معنی میں استعمال کرنے کے لئے قرینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہاں پر کسی بھی قسم کا تناسب اور رابطہ حقیقی معنی اور معترض کے کلام میں نہیں پایا جاتا ہے اس لئے کہ جملہ کے حقیقی معنی ایک قسم کی بددعا ہے جب کہ معترض کے معنی اس کے برعکس ہیں جو ایک قسم کی دعا سمجھی جاتی ہے اور اسی طرح کوئی قرینہ ایسا موجود نہیں ہے کہ جو اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ کلام کے کہنے والے نے اسے مجازی معنی کے لئے استعمال کیا ہے، اس لئے کہ کسی بھی تاریخ اور حدیث کی کتاب میں قرینۂ مذکور موجود نہیں ہے اور نہیں معلوم کہ جن لوگوں نے یہ مضحکہ خیز تاویل پیش کی ہے اس لئے ان کی کیا دلیل ہے؟۔
ظاھراً معترض اور جن لوگوں نے اس تاویل کو پیش کیا ہے شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سعد بن عبادہ نے سقیفہ میں ابوبکر کی بیعت کرلی تھی اور انہوں نے کسی قسم کی کوئی مخالفت نہ کی لیکن یہ ایک نہایت ہی غلط فکر ہے اس لئے کہ تاریخ اور احادیث کی بہت سی کتابوں میں سعد بن عبادہ کی طرف سے ابوبکر اور عمر کی شدید قسم کی مخالفت نقل ہوئی ہے کہ جس کی تفصیل تیرہویں اعتراض کے جواب میں بیان کی جائے گی۔
تیرہواں اعتراض؛ سعد بن عبادہ کا ابوبکر کی بیعت نہ کرنے سے انکار
''سقیفہ کے بارے میں تمام محدثین اور مورخین نے جو روایات نقل کی ہیں ان کی روشنی میں تمام مہاجرین اور انصار کے ساتھ سعد بن عبادہ نے بھی ابوبکر کی بیعت کرلی تھی اور فقط روایت ابو مخنف میں ہے کہ سعد بن عبادہ نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی اور اس قسم کے دوسرے مسائل جیسے اس کا ان کے ساتھ نماز میں شریک نہ ہونا وغیرہ کیا سعد بن عبادہ کا ابوبکر کی بیعت کرنے یا نہ کرنے کا ان پر کوئی اثر ممکن ہے کہ جس کی اطاعت پر امت نے اجماع کرلیا تھا؟ بہر حال کوئی صحیح روایت ایسی نہیں ملتی جو سعد بن عبادہ کے بیعت نہ کرنے کو بیان کرتی ہو بلکہ جو کچھ نقل ہوا ہے وہ اس کے بیعت کرنے کو بیان کرتا ہے
جواب۔
معترض کا دعويٰ یہ ہے کہ تمام مہاجرین اور انصار نے ابوبکر کی بیعت کرلی تھی لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ محدثین اور مورخین نے جو سقیفہ کے بارے میں روایات نقل کی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ سقیفہ کی کاروائی کے بعد بہت سے انصار اور مہاجرین نے جن کا شمار رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اکابر صحابہ میں ہوتا تھا ابوبکر کی بیعت کرنے سے انکار کردیا تھا، ذیل میں ہم چند مثالیں بیان کرتے ہیں۔
۱۔ سقیفہ کے بارے میں عمر اپنے خطبہ میں کہتے ہیں کہ "خالف عنّا علّی والزبیر ومن معهما
"
یعنی حضرت علی علیہ السلام اور زبیر اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے انہوں نے ہماری مخالفت کی! اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اور تمام بنی ھاشم اور زبیر اور ان کے قوم اور دوست و احباب نے ابوبکر اور عمر کی مخالفت کی۔
۳۔ یعقوبی کا کہنا ہے "و تخلّف عن بیعة ابی بکر قوم من المهاجرین والانصار، ومالوا مع علی بن ابی طالب، منهم: العباس بن عبد المطلب والفضل بن العباس والزبیر بن العوام بن العاص و خالد بن سعید والمقداد بن عمرو و سلمان الفارسی و ابوذر الغفاری و عمار بن یاسر و البرّاء بن عازب و ابی بن کعب
"
یعنی انصار اور مہاجرین کے ایک گروہ نے بیعت نہیں کی اور وہ لوگ حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کرنا چاھتے تھے جن میں عباس بن عبدالمطلب، فضل بن عباس، زبیر بن عوام بن عاص، خالد بن سعید، مقداد بن عمرو، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار یاسر، برّاء بن عازب اور ابی بن کعب شامل ہیں۔
۴۔ مسعودی کا کہنا ہے کہ جب تک حضرت علی علیہ السلام نے بیعت نہیں کی بنی ھاشم میں سے کسی نے بھی بیعت نہیں کی
اس بات کو ابن اثیر نے بھی لکھا ہے
۔
ہم نے ابوبکر کی بیعت کے مخالفین کے عنوان سے جن چند افراد کے نام پیش کئے ہیں وہ فقط بعنوان مثال اور بطور شاھد ہیں و گرنہ تاریخی کتابوں میں ابوبکر کی بیعت کے مخالفین کی تعداد اس سے کہیں زیادہ بتائی گئی ہے
۔
ان مطالب کے پیش نظر اور تاریخی کتابوں پر سرسری نظر ڈالنے سے بھی اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معترض کا یہ دعويٰ کہ پوری امت نے ابوبکر کے مقدم ہونے اور ان کی اطاعت پر اجماع کرلیا تھا بے بنیاد اور بلا دلیل ہے اور یہ بات کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے اس لئے کہ یہ کیسا اجماع تھا کہ جس کے مخالف حضرت علی علیہ السلام، اہل بیت پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور تمام بنی ھاشم جیسے لوگ تھے؟ نیز یہ کس قسم کا اجماع تھا کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے جلیل القدر صحابہ جیسے سلمان فارسی، ابوذر غفاری، مقداد اور عمار یاسر وغیرہ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی مخالفت کر رہے تھے؟!
رہی یہ بات کہ بیعت کے مخالفین پر کیا گذری اور ان کے ساتھ کیا برتاؤ ہوا اس سلسلے میں تاریخ کی کتابوں میں بہت اختلاف ہے لیکن مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ان مخالفین میں سے بعض نے دہمکیوں
سے خوفزدہ ہوکر اور بعض نے مال کی لالچ
میں بیعت کرلی تھی، اور ان میں بعض وہ تھے کہ جو جبر و اکراہ کے باوجود بھی ابوبکر کی بیعت کرنے پر راضی نہ تھے
ان افراد میں حضرت علی علیہ السلام تھے کہ جو جبر و اکراہ کے باوجود ابوبکر کی بیعت کرنے پر راضی نہ ہوئے
اور یہ کہ حضرت علی علیہ السلام اپنے آپ کو خلافت کا مستحق سمجھتے تھے اور شروع میں انہوں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی یہ بات ناقابل انکار حقیقت ہے بلکہ اس بات پر اجماع ہے جب کہ بعض نے کہا ہے کہ اگر چہ وہ ابتداء میں ابوبکر کی بیعت کرنے پر تیار نہ تھے لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ابوبکر کی بیعت کرلی تھی اور اس سلسلے میں مشھور قول یہ ہے کہ جناب فاطمہعليهالسلام
کی شھادت کے بعد ابوبکر کی بیعت کی
سب سے پہلے ہم اس چیز کو بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کرنے سے کیا مراد ہے؟
اگر بیعت سے مراد یہ لیا جائے کہ ابوبکر قانونی طور پر پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا جانشین اور خلیفہ تسلیم کرنا ہے تو حضرت علی علیہ السلام نے ھرگز اس معنی میں کبھی بھی ابوبکر کی بیعت نہیں کی اس لئے کہ آپ نے ابتداء میں ہی ابوبکر کی بیعت نہ کرکے یہ ثابت کردیا تھا کہ آپ انہیں پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا خلیفہ نہیں مانتے تھے بلکہ اپنے آپ کو رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا برحق خلیفہ سمجھتے تھے اور اس سلسلے میں آپ کبھی بھی متذبذب نہیں رہے لھٰذا آپ کے بارے میں اس معنی میں بیعت کا گمان کرنا آپ پر ظلم کے مترادف ہے اس لئے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے اپنی گذشتہ غلطی کا اقرار کرلیا تھا۔
اور اگر بیعت کے معنی مقابلہ نہ کرنے، مخالفت نہ کرنے، خلفاء کے کاموں میں مداخلت نہ کرنے اور مسلمانوں کی مشکلات کے حل کے لئے ان کی مدد اور اسلامی معاشرہ کو انحراف سے بچانے کے ہیں تو اس سلسلہ میں یہ کہنا بہتر ہوگا کہ وہ تو ابتداء ہی سے اس کے پابند تھے نیز جب لوگ کسی اور کی طرف رخ کر رہے تھے تو ان سے سلمان فارسی کا یہ کہنا کہ تمھارا بیعت کرنا اور نہ کرنا سب برابر ہے
حضرت علی علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفن کے بعد جناب فاطمہعليهالسلام
کے گھر تشریف لائے اور گوشہ نشین ہوگئے
اور حفظ اسلام اور مصالح مسلمین کی خاطر خلفاء سے جنگ اور مقابلہ کے لئے کوئی اقدام نہ کیا بلکہ اگر کسی نے لوگوں کو کسی بھی قسم کے اقدام کے لئے تیار بھی کیا تو آپ نے انھیں روک دیا جیسا کہ عتبہ بن ابی لہب نے ایک جوشیلی تقریر میں بنی ھاشم سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں کچھ کریں تو آپ نے انہیں خاموش رہنے کا حکم دیا
اور ابوسفیان کہ جو خاندان عبد مناف کی طرف سے مسلحانہ قیام چاھتا تھا اسے آپ نے اپنے سے دور کردیا
۔
لیکن خلفاء کی بیعت کیونکہ اتفاقی و ناگہانی ہوئی تھی
لھٰذا ان کا خیال تھا کہ لوگ حضرت علی علیہ السلام کی طرف ضرور رجوع کریں گے اور حضرت علیعليهالسلام
بھی اپنا حق لے کر رہیں گے اس لئے انھوں نے جناب فاطمہعليهالسلام
کے گھر میں لشکر کشی میں عجلت کا مظاھرہ کیا اور زبردستی حضرت علی علیہ السلام کو مسجد میں لے آئے اور ان سے ابوبکر کی بیعت طلب کی لیکن آپ نے منع کردیا اور فرمایا کہ رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا برحق خلیفہ میں ہوں
، لیکن کچھ ہی عرصہ گزرنے کے بعد خلیفہ اس بات کو اچھی طرح جان گئے کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے تحفظ کی خاطر اپنے مسلّم حق سے سبکدوش ہوسکتے ہیں، اور اسلامی معاشرہ کی اصلاح کے لئے ہر ممکن کوشش کرینگے۔ بس یہ خلفاء تھے کہ جنہیں اپنی کی ہوئی غلطی کا احساس ہوگیا تھا جس کے نتیجہ میں انہوں نے حضرت علیعليهالسلام
کے ساتھ اپنے رویہ کو تبدیل کیا نہ یہ کہ حضرت علی علیہ السلام ان کو خلیفۂ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سمجھتے تھے۔
گذشتہ بیان کی روشنی میں زندگی کے آخری لمحات میں ابوبکر کی زبان سے نکلے ہوئے جملوں کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ "اے کاش میں نے جناب فاطمہعليهالسلام
کے گھر پر لشکر کشی نہ کی ہوتی
اس لئے کہ انہیں بعد میں اس بات کا احساس ہوا کہ اس کام سے نہ انہیں کوئی فائدہ پہونچا اور نہ اس کی ضرورت ہی تھی بلکہ اس سے جناب فاطمہعليهالسلام
کا غضب جن کا غضب خدا اور رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا غضب ہے
ان کے شامل حال ہوگیا
اور اس بنا پر دنیا و آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگئے۔
لھٰذا اگر بیعت پہلے والے معنی میں مراد لی جائے تو حضرت علی علیہ السلام نے ان کو ھرگز رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا خلیفہ اور جانشین نہیں مانا اور ان کی بیعت نہ کی اور اگر بیعت کے دوسرے معنی مراد لئے جائیں تو حضرت علی علیہ السلام نے پہلے ہی دن سے خلفاء کے بارے میں چشم پوشی کو اپنا وظیفہ سمجھا اور گوشہ نشین ہوگئے اور کسی بھی صورت ان کا مقابلہ اور ان کے خلاف بغاوت نہ کی۔
یہاں تک تو ہم نے یہ بیان کیا کہ بعض صحابہ نے کس طرح ابوبکر کی بیعت کی تھی لیکن ان تمام افراد کے درمیان ایک فرد ایسا بھی تھا کہ اس نے (ظاھراً اپنی ضد کی وجہ سے) ابوبکر کی بیعت نہ کی اور وہ سعد بن عبادہ تھا بہت سی روایات کے مطابق اس نے ھرگز ابوبکر اور عمر کی بیعت نہ کی اور پھر وہ شام چلا گیا اور وھاں پر مشکوک انداز میں قتل کردیا گیا۔
معترض کا دوسرا دعويٰ یہ ہے کہ سعد بن عبادہ نے سقیفہ میں ہی ابوبکر کی بیعت کرلی تھی اور فقط ابو مخنف کی روایت میں سعد بن عبادہ کے بیعت نہ کرنے کا ذکر ہے جب کہ کسی بھی صحیح روایت میں ایسا بیان نہیں ہے تمام روایتیں اس کے بیعت کرنے کو بیان کرتی ہیں، بہر حال سعد بن عبادہ کی بیعت کرنا یا نہ کرنا کون سا ایسا خاص اثر رکھتی ہے؟
ہم مدعی کے اس دعوے کو باطل کرنے کے لئے فقط چند مثالوں پر ہی اکتفاء کریں گے۔
۱۔ بلاذری نے مدائنی سے روایت کی ہے کہ : سعد بن عبادہ نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی اور پھر عمر نے اس کے پاس ایک شخص کو بھیجا کہ یا تو بیعت کرے یا پھر قتل ہونے کے لئے تیار رہے اور بیعت نہ کرنے کے سبب عمر کے حکم سے اسے قتل کردیا گیا
۔
۲۔ مسعودی کا کہنا ہے کہ سعد بن عبادہ نے بیعت نہیں کی اور مدینے سے شام چلا گیا اور ہجرت کے پندرہویں سال قتل کردیا گیا
،
۳۔ ابن جوزی
کا کہنا ہے کہ تمام انصار و مہاجرین نے بیعت کی مگر سعد بن عبادہ نے بیعت نہ کی اس کے بعد وہ ابن اسحاق سے نقل کرتا ہے کہ سعد بن عبادہ نے بیعت نہیں کی اور ان کی نماز جماعت میں بھی شریک نہ ہوتا تھا اور یہ نقل ابو مخنف کی روایت کے مطالب سے شباھت رکھتی ہے۔
۴۔ جوہری کتاب السقیفہ و فدک
میں کہتا ہے کہ سعد بن عبادہ نے ابوبکر، عمر اور کسی کی بھی بیعت نہیں کی، اور اس کے نماز میں شریک نہ ہونے کو بھی بیان کیا ہے، ۔ ۔ ۔ جیسا کہ ابو مخنف کی روایت بیان کرتی ہے۔
۵۔ دینوری
نے ابو مخنف کی اصل عبارت کو نقل کیا ہے کہ وہ ان کی نماز جماعت میں شریک نہ ہوتا تھا وہ عمر کے دور خلافت میں شام چلا گیا اور وھاں اس کا انتقال ہوگیا جب کہ اس نے کسی کی بیعت نہیں کی تھی۔
۶۔ ابن اثیر
نے بھی سعد کے آخری دم تک بیعت نہ کرنے کو ذکر کیا ہے۔
۷۔ ابن سعد
کا کہنا ہے کہ ابوبکر نے جس آدمی کو سعد سے بیعت لینے کے لئے بھیجا تھا سعد نے اسے منفی جواب دیا اور کہا "لا والله لا ابایع
" یعنی خدا کی قسم ھرگز میں بیعت نہ کروں گا۔
۸۔ ان تمام شواھد کے باوجود بھی کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ سعد بن عبادہ کی بیعت نہ کرنے کو فقط ابو مخنف نے نقل کیا ہے کیا واقعاً ان تمام شواھد میں سے ایک نمونہ بھی معترض کی نظر کے سامنے سے نہیں گزرا، یا عمداً ان حقائق سے چشم پوشی کی گئی ہے؟
اور معترض نے کس طرح یہ اعتراض کرتے ہوئے صرف محدثین اور مورخین کے اقوال کا سہارا لیا ہے اور کسی بھی صحیح روایت کا حوالہ نہیں دیا لیکن اس مطلب کے جواب کے سلسلے میں صحیح روایت کی تلاش میں ہے کیا یہ تاریخ اور احادیث کی کتابیں معتبر نہیں ہیں اور فقط مسند احمد بن حنبل کی نقل شدہ مرسلہ روایت صحیح اور قابل قبول ہے؟!
اس کے علاوہ یہ کہ ہم اہل سنت کی صحیح روایات کے ساتھ اس روایت کے تعارض کو بیان کرچکے ہیں، نیز وہ تمام روایتیں جن کو معترض نے دلیل کے طور پر پیش کیا ہے
سعد بن عبادہ کی ابوبکر کی بیعت کرنے کو بیان نہیں کرتیں، اس کے علاوہ مسند احمد بن حنبل
کی روایت میں بھی سعد بن عبادہ کی طرف سے ابوبکر کی بیعت کرنے کا بیان نہیں ہے، بلکہ روایت میں یہ ہے کہ سعد نے ابوبکر کی گفتگو کی تصدیق کی تھی جب کہ ہم اس روایت کے غلط ہونے کو پہلے ہی ثابت کرچکے ہیں۔
اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سعد بن عبادہ بیعت کریں یا نہ کریں اس سے ابوبکر کی ولایت و حکومت پر کیا اثر پڑتا ہے؟
تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ سعد بن عبادہ قبیلہ خزرج کا سردار تھا لھٰذا اس کا بیعت کرنا یا نہ کرنا اہمیت کا حامل تھا، اس کے علاوہ اس کا شمار پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے جلیل القدر اصحاب میں ہوتا تھا، کس طرح وہ لوگ کے جو پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے تمام صحابہ کے طیب و طاھر ہونے کے دعویدار ہیں مگر جب سعد بن عبادہ کا نام آتا ہے تو ایسا ہوجاتے ہیں کہ جیسے وہ کوئی تھا ہی نہیں؟! اور اگر سعد بن عبادہ ابوبکر کی بیعت کرنے میں پیش پیش ہوتا تو کیا واقعاً بعض کے نزدیک اس کا یھی مقام ہوتا؟
حرف آخر
اگر چہ سقیفہ میں جس چیز کی بنیاد رکھی گئی اور پھر ہر ممکنہ کوشش کے ذریعہ اسے مضبوط کیا گیا کہ جو اہل بیتعليهالسلام
رسول کی گوشہ نشینی اور لوگوں کے لئے علم و معارف کے سرچشمہ سے محرومی کا سبب بنی، اس کے باوجود اہل بیتعليهالسلام
اطہار کا حق تعصب کی کالی گھٹاؤں کے اندر بھی خورشید کے مانند درخشاں اور قابل نظارہ ہیں۔
ہم امید رکھتے ہیں کہ محترم قارئین نے اس کتاب کے مطالعہ سے اس بات کا اندازہ کرلیا ہوگا کہ جمود و انکار اور اتہامات کے گرد و غبار کے ڈھیروں تلے دبے ہوئے حقائق تک پہنچنا کوئی مشکل کام نہیں ہے اور پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی عترت کی حقانیت اور صداقت کو جاننے کے لئے دل کا ذرہ برابر پاکیزہ اور انصاف پسند ہونا ہی کافی ہے، یہاں تک کہ ان چیزوں کا مشاہدہ ان کتابوں میں بھی بآسانی کیا جاسکتا ہے جو ان کے حقائق پر پردہ ڈالنے کے لئے لکھی گئیں ہیں۔
(وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین
)
سید نسیم حیدر زیدی، قم المقدسہ ۳ صفرالمظفر ۱۴۲۶ ہجری
____________________