حریم قرآن کا دفاع

حریم قرآن کا دفاع0%

حریم قرآن کا دفاع مؤلف:
: محمد باقرمقدسی
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 76

حریم قرآن کا دفاع

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ محمد فاضل لنکرانی
: محمد باقرمقدسی
زمرہ جات: صفحے: 76
مشاہدے: 33789
ڈاؤنلوڈ: 3625

تبصرے:

حریم قرآن کا دفاع
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 76 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 33789 / ڈاؤنلوڈ: 3625
سائز سائز سائز
حریم قرآن کا دفاع

حریم قرآن کا دفاع

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

     بسم الله الرحمن الرحیم

کتاب کی شناخت

نام کتاب .......................حریم قرآن کا دفاع

مؤلف .......................جواد فاضل لنکرانی

مترجم ..........................محمد باقر مقدسی

زیر نظر............................. علی ایمانی

کمپوزنگ ..........................محمد یونس حیدری

طبع اول

۱

بسم الله الرحمن الرحیم

انا نحن نذلنا الذکر و انا له لحافظون

ترجمہ

ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے حفاظت کرنے والے ہیں  ۔

۲

حرف آغاز

عظیم پروردگار کا شکر گزار ہوں اور وہی حمد و ثنا کا مستحق ہے جس نے ہم پر احسان کیا اور ایک عظیم امانت کو اٹھانے کے لائق سمجھا ،وہی امانت جو اللہ کی طرف سے آخری اور ابدی معجزہ ہے ،وہ معجزہ جو ایک وسیع دسترخوان کی مانند پورے عالم کے حقائق سے بھرا ہوا ہے اور ہمیشہ کے لئے بھیجا گیا ،یعنی قرآن کریم کی شکل میں  کریم مطلق ،کی طرف سے نازل کیا گیا ہے تا کہ انسانوں  کی سعادت کا ذریعہ بنے ،ایک ایسا بیکران سمندر ہے جس کی چھوٹی بڑی تمام امواج بہت ہی عمیق اور عظیم اسرار پر مشتمل ہیں    ،وہی بہترین ہدایت اور سعادت کا راستہ ہے ،کتاب جو ہمیشہ پوری بشریت اور ہر معاشرے کے لئے زمان و مکان میں چراغ ہدایت ہے ،اور قیامت تک گمراہی اور ضلالت کی تاریکیوں  میں  مبتلا ء افراد کی رہنمائی کرتی رہے گی ،یہ کتاب ہر زمانے میں  نور اور ہر مرحلہ میں  بہترین رہنما اور ہر خشک و تر کا ذکر اس میں  موجود ہے ،انسانی زندگی کے تمام پہلؤں  اور کائنات کی ہر شیء کا اس میں کھلا بیان ہے ۔یہ وہ کتاب ہے جس کی ہر وقت اور ہمیشہ کسی بھی قسم کی تبدیلی سے حفاظت کرنے کا خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے،اور ایسا وعدہ کہ جس سے تخلف کرنا محال ہے ،جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے : ''انّ وعد الله حق'' اس مختصر کتابچہ میں  جو مطالب بیان کئے گئے ہیں    وہ قرآن میں  تحریف نہ ہونے سے مربوط ہیں  جسے علوم قرآن کے مباحث میں  سے بنیادی اور اہم مسئلہ سمجھا جاتا ہے ۔اور یہ مسئلہ تمام محققین،مفسرین او ر اس کتاب کے بارے میں  غور و خوض کرنے والوں   کی نظر میں   بہت اہمیت کا حامل ہے ۔اس لئے اس کے تمام پہلوؤں  پر گفتگو اور وضاحت ضروری ہے ۔

۳

اس مسئلہ کے بارے میں باریکی کے ساتھ غور کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحریف قرآن کا مسئلہ اسلامی فرقوں میں سے کسی کی طرف نسبت دینا بجائے خود ایک نمایاں تحریف ہے ،خصوصاً کسی ایسے مذہب کی طرف جس کے اعتقادات کی بنیاد عدم تحریف پر ہو تحریف کی تہمت دینا سراسر جھوٹ اور بہتان ہے ۔عنقریب ان اہم مطالب کی توضیح اور تشریح کے دوران اس مسئلے پر مختلف پہلوؤں  سے تحقےق کرکے ےہ ثابت کریں  گے کہ شیعہ امامیہ نہ صرف تحریف قرآن کے معتقد نہیں    ہیں    بلکہ اپنے عقیدے کی بنیاد پر وہ تحریف کے قائل ہو ہی نہیں    سکتے ۔کیونکہ اگر وہ تحریف کے قائل ہو جائیں  تو ان کے اعتقادات کی بنیاد ڈھ جائے گی ۔

آئیے اس عظیم اجتماع ( 1 ) میں  جہاں  بڑے بڑے دانشور ،علماء اور مذہبی

......................................

1۔اس تحریر کو سب سے پہلے ایک علمی کانفرس میں  پیش کیا گیا تھا (اس عظیم اجتماع) سے مراد یہی کانفرنس ہے ۔

۴

شخصیات موجود ہیں  ہم ایک'' عالمی اعلان ''شایع کریں ۔تمام مذاہب ،طبقات ،ملل،اقوام ،اور ادیان کو یہ بتائیں  کہ قرآن کریم حضور اکرمؐ پر نزول کے زمانے سے لے کر آج تک کسی بھی قسم کی تحریف سے محفوظ رہا اور قیامت تک کوئی بھی اس میں تحریف نہیں  کرسکتا۔ایسا نہیں    ہے کہ ہم اس مسئلہ کو ایک قضیہ خارجیہ کے طور پر پیش کر کے کہیں    کہ اب تک قرآن کی تحریف نہیں    ہوئی ہے بلکہ ہم اس مسئلہ کو ایک ''قضیہ حقیقیہ ''کے طور پر بیان کریں یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کی قطعی سنت قرآن کے بارے میں  یہ ہے کہ اس میں تحریف ہونا محال ہے کوئی شخص یا گروہ آیات الٰہی میں سے کسی ایک آیت میں  بھی تحریف کرنے پر قادر نہیں    ہے یہ ایک ایسی مقدس کتاب اور ابدی معجزہ ہے جو خود ہر زمان و مکان میں تحریف سے محفوظ ہونے کی مدّعی ہے اور اس کی مانند لانے کو چیلنج کیا ہے ۔ اس مختصر کتابچہ میں  مسئلہ تحریف کے تمام پہلوؤں  پر تفصیلی بحث کرنے کی گنجائش نہیں    ہے کیونکہ اگر کوئی اس مسئلہ کے بارے میں  تفصیلی بحث کرنا چاہے تو کئی جلدوں  پر مشتمل ایک کتاب بن جائے گی ہم اس کے اہم نکات میں سے چند ایک کا جائزہ لینا چاہتے ہیں  جو مختصراً بیان ہوئے ہیں  تا کہ اس بحث کے چند نمایاں  پہلوؤں کو واضح کیا جاسکے۔

۵

پہلا مطلب

لفظ تحریف کی تحقیق

تحریف باب '' تفعیل'' کا مصدر ہے جو لفظ ''حرف'' سے مشتق ہے جس کے لغوی معنیٰ کسی چیز کے کنارہ اور طرف کے ہیں  ۔یا کسی چیز کے کنارے اور طرف سے کچھ حصہ کے ضائع کرنے یا ہونے کو کہا جاتا ہے ۔ لہٰذا تحریف کے معنیٰ کسی چیز میں  تبدیلی لانے اور اس کے اطراف اور گوشہ سے کچھ کم یا ضائع کرنے کو

کہتے ہیں    ۔خداوند عالم قرآن مجید میں  فرماتا ہے:

''و من النّاس من یعبد الله علیٰ حرفٍ'' ۔ ( 1 )

یعنی لوگوں  میں سے بعض ایسے بھی ہیں    جو کنارے ہو کر خدا کی عبادت کرتے ہیں    ۔یہ وہ لوگ ہیں    جن کو اپنے دین پر یقین نہیں    ،ایسے لوگ ان افراد کی مانند ہیں    جو جنگ کے دوران کسی کنارے میں  کھڑے ہو کر لشکروں  کے ما بین ہونے والی جنگ کو دیکھ رہے ہوں  ،اگر اپنی اطراف کامیابی نظر آئے تو مال غنیمت کی خاطر جا کر شامل ہوتے ہیں  ورنہ راہ فرار اختیار کرتے ہیں    ۔ ( 2 )

................................

1۔حج/22،11

2۔کشاف ج2ص126

۶

پس تحریف لغت کے اعتبار سے ہر چیز کی تبدیلی اور جا بجا ہونے کو کہاجاتا ہے ۔لہٰذا ہم کہہ سکتے ہی کہ تحریف سے ہمیشہ تحریف لفظی سمجھ میں  آتا ہے لیکن قرآن کریم میں  ایک قرینہ کے موجود ہونے کی بنا پر تحریف کا ایک ثانوی ظہور یعنی تحریف معنوی کا مفہوم بھی نظر آتا ہے ۔جیسا کہ یہودی علماء کی مذمت میں  ارشادہوا:

''ویحرفون الکلم عن مواضعه'' ( 1 )

یعنی تورات میں  کلام حق کو اس کے محل و معانی اور مقاصد الٰہی سے تبدیل کرتے ہیں    اور کلام حق کو اس کے ظاہری معنوں  پر محمول نہیں    کرتے ۔

اس آیت کریمہ میں  لفظ ''عن مواضعہ ''تحریف معنوی ہونے پر واضح قرینہ اور دلیل ہے لہٰذا راغب اصفہانی نے صرف تحریف نہیں    بلکہ تحریف الکلام کے بارے میں یوں  لکھا ہے ۔

تحریف الکلام ،ان تجعله علیٰ حرفٍ من الاحتمال یمکن حمله علیٰ الوجهین ( 2 ) یعنی کلام میں اس طرح تبدیلی لانا کہ جس سے اس کلام میں  دو احتمال ہو سکتے ہوں  ۔یہاں  واضح ہے کہ راغب کا مقصد تحریف سے اس کے لغوی معنیٰ کی وضاحت کرنا نہیں    ہے بلکہ اس کا مقصد تحریف معنوی کو سمجھانا ہے جس کا ذکرآیت شریفہ میں  ہوا ہے۔

............................

1۔نسائ/4،46

2۔مفردات ص 112

۷

فخر رازی نے اس آیت کریمہ کی تفسیر اور وضاحت میں  کئی احتمالات پیش کئے ہیں    ان میں سے بعض تحریف لفظی کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں  ۔لیکن آخر کسی

آیت کی تفسیر میں  تحریف معنوی کو صحیح قوک قرار دیا ہے اور یوں  کہتا ہے :

''ان المراد بالتحریف القاء الشبه الباطلة والتأویلات الفاسدة و صرف اللفظ عن معناه الحق الیٰ معنی باطلٍ بوجوه الحیل اللفظیة کما یفعله اهل البدعة'' ( 1 ) بے شک تحریف سے مراد باطل شبہات اور فاسد تاویلات کے ذریعے لفظ کو ان کے حقیقی معنوں  سے بدل کر مختلف لفظی حیلوں کے ذریعے باطل معنی کی طر ف لے جانا ہے جیسا کہ اہل بدعت کرتے رہتے ہیں ۔

.............................

1۔تفسیر کبیر ج10 ص117 طبع قدیم

۸

دوسرا مطلب

تحریف کی قسمیں  اور ان کے استعمال کے موارد

ہمارے بزرگ علمائے کرام کی عبارات میں جیسے محقق خوئی نے دعوا کیا ہے کہ لفظ تحریف چھ معانی میں بطور ''مشترک لفظی '' استعمال ہوا ہے ۔جن میں  سے بعض معانی قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں  جن پر سارے مسلمانوں  کا اجماع اور اتفاق ہے جبکہ بعض موجود تو ہیں  مگر ان کے بارے میں  اجماع واقع نہیں    ہوا کہ اور بعض کے بارے میں اختلاف ہے۔ہم یہاں  مرحوم خوئی نے تحریف کے اصطلاحی معانی کے بارے میں جو مطالب بیان کئے ہیں  اس کا ذکر کر کے تبصرہ کرتے ہوئے اپنا نظریہ بھی بیان کریں گے انہوں نے فرمایا:

تحریف کا لفظ کئی معانی میں استعمال ہوا ہے ان میں سے پہلے معنی کسی چیز کواس کے معانی اور محل سے منتقل کر کے تبدیل کرناہے ۔اس آیہ شریفہ میں  اسی کی طرفاشارہ ہے ۔

''ومن الذین هادوا یحرفون الکلم عن مواضعه'' ( 1 )

یہودیوں  میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں  جو کلام کو اس کے محل سے بدل ڈالتے ہیں    اس قسم کی تحریف کو تفسیر بالرائے یا تحریف معنوی کہا جاتا ہے اس قسم کی تحریف قرآن

............................

1۔البیان ص215

۹

مجید میں واقع ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کیونکہ کچھ مفسرین قرآن نے

آیات کی اس طرح کی تفسیر کی ہیں    کہ جو قرآن کے الفاظ کے حقیقی اور واقعی معنیٰ نہیں    ہیں  بلکہ اپنی خواہشات اور آراء کے مطابق انہوں  نے آیات کی تحریف کی ہے اور اہل بیت علیہم السلام سے منقول روایات میں  اس کی مذمت ہوئی ہے چناچہ امام محمدباقر علیہ السلام نے ایک خط میں  سعد الخیر سے فرمایا:

''و کان من نبذهم الکتاب ان اقاموا حروفه و حرفوا حدوده فهم یرونه ولا یرعونه'' ( 1 ) ۔اور ان میں سے بعض کتاب (قرآن) کی عبارات اور حروف کے پابند ہیں    جبکہ اس کے حدود میں تحریف کرتے ہیں    ،ایسے لوگ اس

کتاب کے راوی ہیں  لیکن محافظ نہیں  ۔

تحریف کے دوسراے معنیٰ

تحریف کے دوسرے معنیٰ یہ ہیں    کہ کوئی حرف یا حرکت اجمالی طور پر کم زیادہ ہوئی ہو لیکن خود قرآن محفوظ ہو ۔اس طرح کی تحریف بھی قرآن کریم میں  ثابت ہے جسے ہم اس کی اپنی جگہ ثابت کر چکے ہیں  کہ قرآن کریم کی موجودہ قرائتوں  میں سے کوئی بھی متواتر نہیں  ( 2 ) لہٰذا ان تمام میں  سے صرف ایک قرآن واقعی کے مطابق ہے اور دوسری قرآنوں میں سے بعض میں اضافہ یا بعض میں کمی ہے ۔

............................

1۔نسآء 4/46

2۔ کافی ج 8 ص53 و الوافی فی آخر الصلوٰۃ

۱۰

تحریف کے تیسرے معنی

قرآن کریم میں  ایک لفظ یا اس سے زیادہ کو کم یا زیادہ کرنا،حالانکہ خود قرآن کریم محفوظ ہے ۔ان معنوں  میں تحریف صدر اسلام اور اصحاب کرام کے زمانے میں یقینا واقع ہوئی ہے لیکن اس کی شدت سے مخالفت ہوئی ہے اس کی دلیل اجماع مسلمین ہے ۔یعنی جناب عثمان کے دور میں مصاحف میں سے کچھ صحیفوں  کو جمع کر کے آگ لگا دی گئی اور اپنے حکمرانوں  کو دستور دیا کہ میرے قرآن کے علاوہ دوسروں  کو جلا دو ،اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ عثمان کا قرآن دوسرے قرآنوں  سے الگ تھا اور محققین و علماء کی ایک جماعت جس میں سے ایک ابی داؤد سجستانی ہے انہوں  نے اس وقت کے نسخوں  کے جن موارد میں  اختلاف تھا ان کو جمع کیا ہے یعنی عثمان نے جن نسخوں  کوآگ لگانے کا حکم دیا تھا ان میں  اجمالی طور پر تحریف ہوئی تھی لیکن عثمان نے جس قرآن کو جمع کر کے رائج کیا وہ یہی قرآن کریم ہے جو آج تک کسی تحریف کے بغیر ہم تک پہنچا ہے ۔لہٰذا عثمان کے دور حکومت سے پہلے جو نسخے معاشرے میں رائج تھے ان میں  سے ایسی تحریف واقع ہونے کو قبول کرنا چاہیے لیکن جو قرآن دور حاضر میں ہمارے پاس موجود ہے وہ عثمانی نسخہ کے مطابق ہے جس میں کوئی کمی یا بیشی نہیں    ہے ۔

۱۱

چوتھے معنی

تحریف کا چوتھا معنیٰ یہ ہے کہ قرآن میں ایک آیت کا اضافہ یا ان میں سے ایک آیت کم ہو جائے ،اگرچہ نازل شدہ قرآن کریم محفوظ اور مصون ہے لیکن ایسی تحریف سوائے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے کسی دوسری آیت میں نہیں  ہوئی ہے۔یعنی مسلمانوں کا اجماع ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (سورہ توبہ کے علاوہ ) ہر سورہ کی تلاوت سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت فرماتے تھے ۔لیکن اس بارے میں  اہل سنت کے نظریے میں  اختلاف ہے کہ بسم اللہ قرآن میں شامل ہے یا نہیں  بعض قائل ہیں    کہ شامل ہے بعض کہتے ہیں  کہ شامل نہیں    ہے۔لیکن شیعہ امامیہ کے تمام علماء قائل ہیں  کہ بسم اللہ آیات قرآنی میں  سے ایک آیت ہے اور ان کا اجماع ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورہ توبہ کے علاوہ ہر سورہ کا

جزہے ۔

پانچویں  معنی

جو قرآن کریم آج مسلمانوں  کے ہاتھوں  میں موجود ہے اس کی کچھ آیات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ قرآن کریم میں نہیں  تھیں  آج اضافی ہیں    ۔ایسی تحریف کے مسلمانوں  میں سے صرف دو گروہ قائل ہوئے ہیں 

الف:عجاردہ ،وہ لوگ جو عبدالکریم عجر د(جو خوارج کے بزرگوں میں سے ایک ہے) کی پیروی کرنے والے ہیں    ،جن کا عقیدہ یہ ہے کہ سورہ مبارکہ یوسف قرآن کریم کا جزء نہیں    ہے۔

۱۲

ب:ابن مسعود کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ وہ سورہ مبارکہ ''قل اعوذ برب النّاس '' اور ''قل اعوذ برب الفلق'' (معوذتین) کو قرآن کا جزء نہیں  سمجھتے ہیں    ۔اور ان دو گروہ کے علاوہ دوسرے تمام مسلمانوں  کا اجماع اور اتفاق ہے کہ ایسی تحریف قرآن میں  نہیں    ہوئی ہے اور ایسی تحریف کا نظریہ رکھنے والوں  کا عقیدہ غلط اور باطل ہونا بھی ایک امر لازمی ہے ۔

چھٹے معنی

یعنی جو قرآن ہمارے درمیان موجود ہے اس میں  پیغمبر اکرم (ص) پر نازل شدہ قرآن کی چند آیات آج کے قرآن میں موجود نہیں    ہیں    ۔قرآن میں  ایسی تحریف کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں  اختلاف ہے ۔

نتیجہ

نتیجہ یہ نکلا کہ ان چھ معنوں میں سے پہلے چار معنوں  میں قطعی طور پر تحریف واقع ہوئی ہے پانچویں معنے میں اجماع واقع نہیں  ہوا ہے اور چھٹے معنے پر علماء کو اختلاف ہے۔

اس عظیم محقق (جناب مرحوم خوئی )کے بیان پر دو اعتراض ہو سکتے ہیں    ۔

۱۳

پہلا اعتراض

ہماری تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ مذکورہ تمام معانی اس عنوان میں نہیں  ہیں  کہ لفظ تحریف اس میں استعمال ہو جس کی وجہ سے مشترک لفظی کہلائے بلکہ تحریف کے صرف ایک معنی ہیں  جو معانی مذکورہ میں سے پہلے معنی ہےں  ۔تحریف یعنی ''نقل الشیء عن مواضعہ'' کسی چیز کو اس کے محل سے ہٹا دینا ،لیکن دوسرے سارے معانی اس کے مصادیق ہیں    یا دوسرے لفظوں  میں یوں  کہا جائے کہ مذکورہ تمام معانی میں نقل الشیء عن موضعہ کے معنی پائے جاتے ہیں  ۔لیکن کبھی نقل معنیٰ میں  جس کو تحریف معنوی کہتے ہیں    اور کبھی نقل ،لفظ میں  جس کو تحریف لفظی کہتے ہیں    اور خود اس کی دو قسمیں  ہیں    1۔یا تو نقل لفظ تفصیلی ہے 2۔یا اجمالی۔یا دوسرے لفظوں  میں یوں کہا جائے کہ کمی و بیشی معین طور پر ہوتی ہے یا بطور اجمال واقع ہوتی ہے ۔لہٰذا اس مختصر تحقیق کی بنا پر یہ کہہ سکتے ہیں  کہ اس عظیم محقق کے کلام میں جو معانی تحریف کے لئے ذکر ہوئے ہیں  وہ اس کے مصادیق ہیں  ،یعنی لفظ تحریف مشترک معنوی ہے ایسا نہیں  ہے کہ تحریف معانی کے لئے مختلف موضوع لہ

ہوں  اور تحریف''مشترک لفظی'' کے طور پر ان میں استعمال ہو۔

دوسرا عتراض

اس تقسیم کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تحریف کے تمام اقسام میں باطل کا عنوان موجود نہ ہو اگران اقسام میں سے کوئی اس عنوان میں  داخل ہو جائے تو اس آیہ شریفہ ''ولا یأتیه الباطل من بین یدیه '' کے خلاف ہے کیونکہ اس آیہ شریفہ کی ظاہری دلالت یہ ہے کہ قرآن شریف میں کسی قسم کے باطل کے آنے کی کوئی گنجائش نہیں    ۔

۱۴

  لہٰذا جن موارد میں  فرمایا ہے کہ بنا پر اجماع مسلمین تحریف واقع ہوئی ہے ان موارد میں تحریف کا عنوان صدق روک دیتا ہے اگرچہ یہ مطلب تحریف

معنوی میں  مشکل نظر آتا ہے ۔

لفظ تحریف کے معانی کی وضاحت اور تحقیق کے بعد ہم اس کی اقسام بیان کریں  گے جیسا کہ اہل فن اور علماء کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریف کی

چھ قسمیں  ہیں    :

1۔تحریف لفظی ،یعنی الفاظ اور جملوں میں کمی اور زیادتی یا تبدیلی کرنا ۔

2۔تحریف معنوی ،کسی کلام یا جملے کی اس طرح تفسیر کرنا کہ وہ اس پر دلالت نہ کرے اس کو تحریف معنوی یا تفسیر بالرائے کہتے ہیں    ، روایات میں  شدت کے ساتھ اس کی مذمت کی گئی ہے ۔چنانچہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : من فسر القرآن برأیه فلیتبوء مقعده من النّار'' ( 1 ) جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے کی بنا پر کرے تو اس نے اپناٹھکانہ جہنم میں بنایا۔

3۔تحریف موضعی ،یعنی کسی ایک آیت یا سورہ کو نزول کی ترتیب کے خلاف مرتب کرنے کو تحریف موضعی کہتے ہیں    ۔ایسی تحریف آیات میں بہت نادر ہے کیونکہ تمام آیات کو نزول کی ترتیب سے مرتب اور جمع کیا گیا ہے ،لیکن سورتوں  کی نسبت یہ کہہ

.................................

1۔1عوالی اللاالی ج4 ص 104

۱۵

سکتے ہیں    کہ ساری سورتیں  نزول کی ترتیب کے خلاف پیغمبر اکرم (ص) کے حکم کے مطابق ترتیب دی گئی ہیں  ۔

4۔قرات میں  تحریف ،کسی لفظ کو جمہور مسلمین کے یہاں  جس قرائت کے ساتھ رائج ہے اس کے خلاف پڑھنے کو قرات کی تحریف کہا جاتا ہے ۔جیسے اکثر قرّاء اپنے اجتہاد اور نظریہ کی بنا پر قرائت کرتے ہیں    جو جمہور مسلمین کی قرائت کے خلاف ہے ۔

5۔لہجے کی تحریف، اقوام و قبائل کے درمیان لہجے کا اختلاف بھی سبب بنتا ہے کہ تلاوت ہر قبیلہ کے یہاں  مخصوص لہجے کے ساتھ ہوتی ہے اس کو لہجے کی تحریف کہتے ہیں    ۔

6۔تحریف تبدیلی ،کسی ایک لفظ کو دوسرے لفظ میں تبدیل کرنا ،چاہے دونوں  ہم معنی ٰ ہوں یا نہ ہوں  ،ابن مسعود نے ایسی تحریف کو ہم معنیٰ (مترادف) الفاظ میں جائز سمجھا ہے ۔چنانچہ فرمایاہے :''لفظ ''علیم'' کی جگہ ''حکیم '' رکھا جا سکتا ہے ''۔

تیسرا مطلب

اجمالی اور تفصیلی تحریف

ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ تحریف کی دو قسمیں  ہیں    ۔تحریف یا تفصیلی ہے یا اجمالی ،ان دو قسموں میں  سے جو مورد بحث ہے وہ تحریف تفصیلی ہے ،یعنی کمی و بیشی جو معین طور پر واقع ہو جائے یہی مورد بحث اور محل اختلاف ہے ۔لیکن تحریف اجمالی یعنی اجمالی طور پر کوئی چیز کم یا زیادہ ہو وہ ہماری بحث سے خارج ہے ۔مثال کے طور پر قرائت کے بارے میں  یا بسم اللہ کے بارے میں  اختلاف ہے ،

۱۶

کیا بسم الله الرحمن الرحیم قرآن کی آیات میں سے ایک آیت ہے یا نہیں  ؟جس کو ہم پہلے بھی تحریف اجمالی کے نام سے یاد کیا ہے ہماری بحث سے خارج ہے ،کیونکہ وہ تحریف کہ جس میں  جھگڑہ ہے چاہے کمی کی صورت میں ہو یا اضافہ کی،دونوں  صورتوں  میں  معیار اور ملاک یہ ہے کہ کلام الٰہی کی حقیقت بدلنے کا سبب نہیں  بنے جیسے قرائت کا اختلاف کہ جس میں  شک اور شبہہ کی گنجائش نہیں    ہے کہ ان قرآئتوں میں سے کوئی ایک قرائت یقینا قرآن حقیقی کی قرائت ہے یا بسم الله الرحمن الرحیم کے بارے میں  کوئی شک و شبہہ نہیں  ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) ہر سورہ کے آغاز میں  تلاوت فرماتے تھے ،لیکن مسلمانوں  کا آپس میں اختلاف ہے کہ بسم اللہ قرآن اور سورہ کاجزء ہے یا نہیں  ۔ بعض مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ بسم اللہ اسی سورہ کا جزء اور حقیقی قرآن ہے جس سورے کے آغاز میں  بسم اللہ ہو۔لیکن دوسرے بعض مسلمانوں  کانظریہ ہے کہ بسم اللہ اس کا جزء نہیں  ہے اس لئے کہ حقیقی قرآن نہیں    ہے یہ دونوں  گروہ میں  سے ہر ایک اپنے نظریے کو واقع کے مطابق سمجھتا ہے اور اپنی بات کو حقیقت اور واقع کے خلاف ہونے کا احتمال تک نہیں    دیتا ۔اور دونوں  کا اجماع ہے کہ بسم اللہ کلام الٰہی میں  یقینا تھا اور کلام بشر اس میں داخل نہیں    ہوا ہے اور اختلاف قرّاء کے مسئلہ میں بھی یہی ہے۔

لہٰذا اسی بنا پر جن موارد میں  تحریف اجمالی ہوئی ہے اگرچہ حقیقی کلام اور حقیقی قرائت کی تشخیص ایک مشکل امر ہے لیکن ہماری بحث سے خارج ہے ۔کیونکہ ہماری بحث ایسی تحریف کے بارے میں  ہے کہ قرآن سے کسی چیز کو حذف کیا گیا ہے یا قرآن میں کسی چیز کا اضافہ کیاگیا ہے ۔

۱۷

چوتھا مطلب

تحریف کے قائل ہونے کے لئے خبر واحد کافی نہیں    ہے

یعنی جس طرح قرآنی آیات کے اثبات کے لئے قطعی اور علمی دلیل کی ضرورت ہے اور صرف خبر واحد کے ذریعہ کسی آیت قرآنی کو ثابت نہیں  کر سکتے اسی طرح جو لوگ تحریف کے قائل ہیں    انہیں  چاہیے کہ تحریف کے اثبات پر بھی قطعی دلیل اور علمی برہان پیش کریں  یا دوسرے لفظوں  میں  یوں  کہا جائے کہ جب ہم خبر واحد اوراس جیسی دوسری ادلّہ ظنّیہ (یعنی وہ دلائل جو یقینی اور قطعی نہیں    ہیں    ) کو اعتقادی مسائل ثابت کرنے میں کافی نہیں    سمجھتے ہیں    تو قرآن سے متعلق مسائل کو بھی خبر واحد سے ثابت نہیں  کر سکتے ۔کیونکہ قرآن ہمارے مدارک میں سے اہم ترین مدرک ہے ،اس کے کسی مسئلہ کی نفی یا اثبات کو خبر واحد کے ذریعہ ثابت کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔

لہٰذا مرحوم شیخ طوسی نے اپنی گرانبہا تفسیر ''تبیان '' کے مقدمہ اور تمہید میں فرمایا ہے کہ جتنی روایتیں  تحریف پر دلالت کرتی ہیں    وہ سب خبر واحد ہیں    اور کیونکہ خبر واحد سے یقین اور علم حاصل نہیں    ہوتا لہٰذا مسئلہ تحریف میں بھی ایسی روایتیں  کفایت نہیں  کرتی ہیں  ۔ مرحوم شیخ طوسی کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مسئلہ تحریف ان مسائل میں  سے ہے کہ جس کے اثبات اور نفی کے لئے یقین اور علم ضروری ہے صرف کسی حدیث یا روایت کا پایا جانا کافی نہیں    ہے ۔

۱۸

پانچواں مطلب

قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر علماء شیعہ کا نظریہ

امامیہ مذہب کے عظیم علماء اور محققین اس بات کے معتقد ہیں  کہ قرآن مجید میں  کوئی تحریف نہیں  ہوئی ہے ۔یعنی اس طرح کا عقیدہ رکھتے ہیں    کہ جو قرآن کریم آج ہمارے پاس موجود ہے یہ وہی قرآن ہے جسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قلب مطہر پر اتارا گیا تھا جس میں کسی قسم کی کمی بیشی واقع نہیں    ہوئی ہے ۔یہاں ہم علمائے امامیہ میں سے ان حضرات کے نظریے جو مذہب تشیع کے ستون سمجھے جاتے ہیں  اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں  کیونکہ انہیں    حضرات کی کتابوں کو مذہب تشیع کے اعتقادی اور علمی مسائل کا مدار شمار کیا جاتا ہے لیکن ان حضرات کے نظریے کو ذکر کرنے سے پہلے دو مطالب کی طرف قارئین کی توجہ کو مبذول کرنا ضروری سمجھتا ہوں  ۔

الف:علوم قرآن سے متعلق لکھی گئی کچھ کتابوں  میں قرآن میں تحریف ہونے والے نظریہ کو شیعہ امامیہ کے علماء میں سے جو اخباری ہیں    ،اور اہل سنت میں سے جو حشویہ ہیں    ،ان کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔غور طلب بات یہ ہے کہ اخباری علماء کے بعض بزرگوں  نے جیسے جناب حر عاملیؒ صاحب وسائل الشیعہ ،قرآن کریم میں تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں    ،اور اسی موضوع پر مستقل ایک کتابچہ تحریر فرمایا ہے ۔لہٰذا کسی کا اخباری ہونے سے یہ لازم نہیں    آتا کہ وہ تحریف کا قائل ہے

۱۹

ب:اس میں  شک نہیں    کہ شیعہ امامیہ کے علماء قرآن میں تحریف یعنی کسی شی کا اضافہ نہ ہونے پر اجماع رکھتے ہیں    ،لیکن تحریف یعنی قرآن میں کمی واقع ہونے کا مسئلہ اختلافی ہے ،اگرچہ اس میں بھی بعض علماء جیسے مرحوم مقدس بغدادی اپنی کتاب ''شرح وافیہ'' ( 1 ) میں مرحوم شیخ کاشف الغطاء اپنی گرانبہا کتاب کشف الغطاء میں

قرآن کریم میں کمی واقع نہ ہونے پر بھی تمام علماء امامیہ کا اتفاق و اجماع ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں  ۔

علمائے امامیہ کے عظیم علماء کے نظریات اس بارے میں یوں  ہیں  ۔

1۔فضل ابن شاذان جو شیعہ امامیہ قرن سوم ہجری کے مصنفین میں سے ایک ہیں    ، انہوں  نے قرآن میں تحریف یعنی کمی واقع ہونے سے انکار اور اس نظریہ کے قائلین کو رد کرنے کے بعد ''کتاب ایضاح ''میں ان روایات کو جو تحریف پر دلالت کرتی ہیں  دوسرے مذاہب کی طرف نسبت دی ہے۔

2۔جناب شیخ جعفر کے فرزند محمد بن علی ابن بابویہ قمی شیخ صدوق کے لقب سے معروف و مشہور ہیں  اور جہاں تشیع میں چوتھی صدی کے عظیم اور نامور عالم ہیں  ،

انہوں  نے اپنے ''رسالہ اعتقادات ''میں یوں  تحریر فرمایا ہے:

''قرآن کے بارے میں ہمارا (شیعہ امامیہ عقیدہ یہ ہے کہ جو قرآن آج ہمارے

................................

1۔آلاء الرحمن بلاغی ص 26

۲۰