حریم قرآن کا دفاع

حریم قرآن کا دفاع50%

حریم قرآن کا دفاع مؤلف:
: محمد باقرمقدسی
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 76

حریم قرآن کا دفاع
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 76 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 38920 / ڈاؤنلوڈ: 5621
سائز سائز سائز
حریم قرآن کا دفاع

حریم قرآن کا دفاع

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

     بسم الله الرحمن الرحیم

کتاب کی شناخت

نام کتاب .......................حریم قرآن کا دفاع

مؤلف .......................جواد فاضل لنکرانی

مترجم ..........................محمد باقر مقدسی

زیر نظر............................. علی ایمانی

کمپوزنگ ..........................محمد یونس حیدری

طبع اول

۱

بسم الله الرحمن الرحیم

انا نحن نذلنا الذکر و انا له لحافظون

ترجمہ

ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے حفاظت کرنے والے ہیں  ۔

۲

حرف آغاز

عظیم پروردگار کا شکر گزار ہوں اور وہی حمد و ثنا کا مستحق ہے جس نے ہم پر احسان کیا اور ایک عظیم امانت کو اٹھانے کے لائق سمجھا ،وہی امانت جو اللہ کی طرف سے آخری اور ابدی معجزہ ہے ،وہ معجزہ جو ایک وسیع دسترخوان کی مانند پورے عالم کے حقائق سے بھرا ہوا ہے اور ہمیشہ کے لئے بھیجا گیا ،یعنی قرآن کریم کی شکل میں  کریم مطلق ،کی طرف سے نازل کیا گیا ہے تا کہ انسانوں  کی سعادت کا ذریعہ بنے ،ایک ایسا بیکران سمندر ہے جس کی چھوٹی بڑی تمام امواج بہت ہی عمیق اور عظیم اسرار پر مشتمل ہیں    ،وہی بہترین ہدایت اور سعادت کا راستہ ہے ،کتاب جو ہمیشہ پوری بشریت اور ہر معاشرے کے لئے زمان و مکان میں چراغ ہدایت ہے ،اور قیامت تک گمراہی اور ضلالت کی تاریکیوں  میں  مبتلا ء افراد کی رہنمائی کرتی رہے گی ،یہ کتاب ہر زمانے میں  نور اور ہر مرحلہ میں  بہترین رہنما اور ہر خشک و تر کا ذکر اس میں  موجود ہے ،انسانی زندگی کے تمام پہلؤں  اور کائنات کی ہر شیء کا اس میں کھلا بیان ہے ۔یہ وہ کتاب ہے جس کی ہر وقت اور ہمیشہ کسی بھی قسم کی تبدیلی سے حفاظت کرنے کا خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے،اور ایسا وعدہ کہ جس سے تخلف کرنا محال ہے ،جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے : ''انّ وعد الله حق'' اس مختصر کتابچہ میں  جو مطالب بیان کئے گئے ہیں    وہ قرآن میں  تحریف نہ ہونے سے مربوط ہیں  جسے علوم قرآن کے مباحث میں  سے بنیادی اور اہم مسئلہ سمجھا جاتا ہے ۔اور یہ مسئلہ تمام محققین،مفسرین او ر اس کتاب کے بارے میں  غور و خوض کرنے والوں   کی نظر میں   بہت اہمیت کا حامل ہے ۔اس لئے اس کے تمام پہلوؤں  پر گفتگو اور وضاحت ضروری ہے ۔

۳

اس مسئلہ کے بارے میں باریکی کے ساتھ غور کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحریف قرآن کا مسئلہ اسلامی فرقوں میں سے کسی کی طرف نسبت دینا بجائے خود ایک نمایاں تحریف ہے ،خصوصاً کسی ایسے مذہب کی طرف جس کے اعتقادات کی بنیاد عدم تحریف پر ہو تحریف کی تہمت دینا سراسر جھوٹ اور بہتان ہے ۔عنقریب ان اہم مطالب کی توضیح اور تشریح کے دوران اس مسئلے پر مختلف پہلوؤں  سے تحقےق کرکے ےہ ثابت کریں  گے کہ شیعہ امامیہ نہ صرف تحریف قرآن کے معتقد نہیں    ہیں    بلکہ اپنے عقیدے کی بنیاد پر وہ تحریف کے قائل ہو ہی نہیں    سکتے ۔کیونکہ اگر وہ تحریف کے قائل ہو جائیں  تو ان کے اعتقادات کی بنیاد ڈھ جائے گی ۔

آئیے اس عظیم اجتماع ( ۱ ) میں  جہاں  بڑے بڑے دانشور ،علماء اور مذہبی

......................................

۱۔اس تحریر کو سب سے پہلے ایک علمی کانفرس میں  پیش کیا گیا تھا (اس عظیم اجتماع) سے مراد یہی کانفرنس ہے ۔

۴

شخصیات موجود ہیں  ہم ایک'' عالمی اعلان ''شایع کریں ۔تمام مذاہب ،طبقات ،ملل،اقوام ،اور ادیان کو یہ بتائیں  کہ قرآن کریم حضور اکرمؐ پر نزول کے زمانے سے لے کر آج تک کسی بھی قسم کی تحریف سے محفوظ رہا اور قیامت تک کوئی بھی اس میں تحریف نہیں  کرسکتا۔ایسا نہیں    ہے کہ ہم اس مسئلہ کو ایک قضیہ خارجیہ کے طور پر پیش کر کے کہیں    کہ اب تک قرآن کی تحریف نہیں    ہوئی ہے بلکہ ہم اس مسئلہ کو ایک ''قضیہ حقیقیہ ''کے طور پر بیان کریں یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کی قطعی سنت قرآن کے بارے میں  یہ ہے کہ اس میں تحریف ہونا محال ہے کوئی شخص یا گروہ آیات الٰہی میں سے کسی ایک آیت میں  بھی تحریف کرنے پر قادر نہیں    ہے یہ ایک ایسی مقدس کتاب اور ابدی معجزہ ہے جو خود ہر زمان و مکان میں تحریف سے محفوظ ہونے کی مدّعی ہے اور اس کی مانند لانے کو چیلنج کیا ہے ۔ اس مختصر کتابچہ میں  مسئلہ تحریف کے تمام پہلوؤں  پر تفصیلی بحث کرنے کی گنجائش نہیں    ہے کیونکہ اگر کوئی اس مسئلہ کے بارے میں  تفصیلی بحث کرنا چاہے تو کئی جلدوں  پر مشتمل ایک کتاب بن جائے گی ہم اس کے اہم نکات میں سے چند ایک کا جائزہ لینا چاہتے ہیں  جو مختصراً بیان ہوئے ہیں  تا کہ اس بحث کے چند نمایاں  پہلوؤں کو واضح کیا جاسکے۔

۵

پہلا مطلب

لفظ تحریف کی تحقیق

تحریف باب '' تفعیل'' کا مصدر ہے جو لفظ ''حرف'' سے مشتق ہے جس کے لغوی معنیٰ کسی چیز کے کنارہ اور طرف کے ہیں  ۔یا کسی چیز کے کنارے اور طرف سے کچھ حصہ کے ضائع کرنے یا ہونے کو کہا جاتا ہے ۔ لہٰذا تحریف کے معنیٰ کسی چیز میں  تبدیلی لانے اور اس کے اطراف اور گوشہ سے کچھ کم یا ضائع کرنے کو

کہتے ہیں    ۔خداوند عالم قرآن مجید میں  فرماتا ہے:

''و من النّاس من یعبد الله علیٰ حرفٍ'' ۔ ( ۱ )

یعنی لوگوں  میں سے بعض ایسے بھی ہیں    جو کنارے ہو کر خدا کی عبادت کرتے ہیں    ۔یہ وہ لوگ ہیں    جن کو اپنے دین پر یقین نہیں    ،ایسے لوگ ان افراد کی مانند ہیں    جو جنگ کے دوران کسی کنارے میں  کھڑے ہو کر لشکروں  کے ما بین ہونے والی جنگ کو دیکھ رہے ہوں  ،اگر اپنی اطراف کامیابی نظر آئے تو مال غنیمت کی خاطر جا کر شامل ہوتے ہیں  ورنہ راہ فرار اختیار کرتے ہیں    ۔ ( ۲ )

................................

۱۔حج/۲۲،۱۱

۲۔کشاف ج۲ص۱۲۶

۶

پس تحریف لغت کے اعتبار سے ہر چیز کی تبدیلی اور جا بجا ہونے کو کہاجاتا ہے ۔لہٰذا ہم کہہ سکتے ہی کہ تحریف سے ہمیشہ تحریف لفظی سمجھ میں  آتا ہے لیکن قرآن کریم میں  ایک قرینہ کے موجود ہونے کی بنا پر تحریف کا ایک ثانوی ظہور یعنی تحریف معنوی کا مفہوم بھی نظر آتا ہے ۔جیسا کہ یہودی علماء کی مذمت میں  ارشادہوا:

''ویحرفون الکلم عن مواضعه'' ( ۱ )

یعنی تورات میں  کلام حق کو اس کے محل و معانی اور مقاصد الٰہی سے تبدیل کرتے ہیں    اور کلام حق کو اس کے ظاہری معنوں  پر محمول نہیں    کرتے ۔

اس آیت کریمہ میں  لفظ ''عن مواضعہ ''تحریف معنوی ہونے پر واضح قرینہ اور دلیل ہے لہٰذا راغب اصفہانی نے صرف تحریف نہیں    بلکہ تحریف الکلام کے بارے میں یوں  لکھا ہے ۔

تحریف الکلام ،ان تجعله علیٰ حرفٍ من الاحتمال یمکن حمله علیٰ الوجهین ( ۲ ) یعنی کلام میں اس طرح تبدیلی لانا کہ جس سے اس کلام میں  دو احتمال ہو سکتے ہوں  ۔یہاں  واضح ہے کہ راغب کا مقصد تحریف سے اس کے لغوی معنیٰ کی وضاحت کرنا نہیں    ہے بلکہ اس کا مقصد تحریف معنوی کو سمجھانا ہے جس کا ذکرآیت شریفہ میں  ہوا ہے۔

............................

۱۔نسائ/۴،۴۶

۲۔مفردات ص ۱۱۲

۷

فخر رازی نے اس آیت کریمہ کی تفسیر اور وضاحت میں  کئی احتمالات پیش کئے ہیں    ان میں سے بعض تحریف لفظی کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں  ۔لیکن آخر کسی

آیت کی تفسیر میں  تحریف معنوی کو صحیح قوک قرار دیا ہے اور یوں  کہتا ہے :

''ان المراد بالتحریف القاء الشبه الباطلة والتأویلات الفاسدة و صرف اللفظ عن معناه الحق الیٰ معنی باطلٍ بوجوه الحیل اللفظیة کما یفعله اهل البدعة'' ( ۱ ) بے شک تحریف سے مراد باطل شبہات اور فاسد تاویلات کے ذریعے لفظ کو ان کے حقیقی معنوں  سے بدل کر مختلف لفظی حیلوں کے ذریعے باطل معنی کی طر ف لے جانا ہے جیسا کہ اہل بدعت کرتے رہتے ہیں ۔

.............................

۱۔تفسیر کبیر ج۱۰ ص۱۱۷ طبع قدیم

۸

دوسرا مطلب

تحریف کی قسمیں  اور ان کے استعمال کے موارد

ہمارے بزرگ علمائے کرام کی عبارات میں جیسے محقق خوئی نے دعوا کیا ہے کہ لفظ تحریف چھ معانی میں بطور ''مشترک لفظی '' استعمال ہوا ہے ۔جن میں  سے بعض معانی قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں  جن پر سارے مسلمانوں  کا اجماع اور اتفاق ہے جبکہ بعض موجود تو ہیں  مگر ان کے بارے میں  اجماع واقع نہیں    ہوا کہ اور بعض کے بارے میں اختلاف ہے۔ہم یہاں  مرحوم خوئی نے تحریف کے اصطلاحی معانی کے بارے میں جو مطالب بیان کئے ہیں  اس کا ذکر کر کے تبصرہ کرتے ہوئے اپنا نظریہ بھی بیان کریں گے انہوں نے فرمایا:

تحریف کا لفظ کئی معانی میں استعمال ہوا ہے ان میں سے پہلے معنی کسی چیز کواس کے معانی اور محل سے منتقل کر کے تبدیل کرناہے ۔اس آیہ شریفہ میں  اسی کی طرفاشارہ ہے ۔

''ومن الذین هادوا یحرفون الکلم عن مواضعه'' ( ۱ )

یہودیوں  میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں  جو کلام کو اس کے محل سے بدل ڈالتے ہیں    اس قسم کی تحریف کو تفسیر بالرائے یا تحریف معنوی کہا جاتا ہے اس قسم کی تحریف قرآن

............................

۱۔البیان ص۲۱۵

۹

مجید میں واقع ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کیونکہ کچھ مفسرین قرآن نے

آیات کی اس طرح کی تفسیر کی ہیں    کہ جو قرآن کے الفاظ کے حقیقی اور واقعی معنیٰ نہیں    ہیں  بلکہ اپنی خواہشات اور آراء کے مطابق انہوں  نے آیات کی تحریف کی ہے اور اہل بیت علیہم السلام سے منقول روایات میں  اس کی مذمت ہوئی ہے چناچہ امام محمدباقر علیہ السلام نے ایک خط میں  سعد الخیر سے فرمایا:

''و کان من نبذهم الکتاب ان اقاموا حروفه و حرفوا حدوده فهم یرونه ولا یرعونه'' ( ۱ ) ۔اور ان میں سے بعض کتاب (قرآن) کی عبارات اور حروف کے پابند ہیں    جبکہ اس کے حدود میں تحریف کرتے ہیں    ،ایسے لوگ اس

کتاب کے راوی ہیں  لیکن محافظ نہیں  ۔

تحریف کے دوسراے معنیٰ

تحریف کے دوسرے معنیٰ یہ ہیں    کہ کوئی حرف یا حرکت اجمالی طور پر کم زیادہ ہوئی ہو لیکن خود قرآن محفوظ ہو ۔اس طرح کی تحریف بھی قرآن کریم میں  ثابت ہے جسے ہم اس کی اپنی جگہ ثابت کر چکے ہیں  کہ قرآن کریم کی موجودہ قرائتوں  میں سے کوئی بھی متواتر نہیں  ( ۲ ) لہٰذا ان تمام میں  سے صرف ایک قرآن واقعی کے مطابق ہے اور دوسری قرآنوں میں سے بعض میں اضافہ یا بعض میں کمی ہے ۔

............................

۱۔نسآء ۴/۴۶

۲۔ کافی ج ۸ ص۵۳ و الوافی فی آخر الصلوٰۃ

۱۰

تحریف کے تیسرے معنی

قرآن کریم میں  ایک لفظ یا اس سے زیادہ کو کم یا زیادہ کرنا،حالانکہ خود قرآن کریم محفوظ ہے ۔ان معنوں  میں تحریف صدر اسلام اور اصحاب کرام کے زمانے میں یقینا واقع ہوئی ہے لیکن اس کی شدت سے مخالفت ہوئی ہے اس کی دلیل اجماع مسلمین ہے ۔یعنی جناب عثمان کے دور میں مصاحف میں سے کچھ صحیفوں  کو جمع کر کے آگ لگا دی گئی اور اپنے حکمرانوں  کو دستور دیا کہ میرے قرآن کے علاوہ دوسروں  کو جلا دو ،اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ عثمان کا قرآن دوسرے قرآنوں  سے الگ تھا اور محققین و علماء کی ایک جماعت جس میں سے ایک ابی داؤد سجستانی ہے انہوں  نے اس وقت کے نسخوں  کے جن موارد میں  اختلاف تھا ان کو جمع کیا ہے یعنی عثمان نے جن نسخوں  کوآگ لگانے کا حکم دیا تھا ان میں  اجمالی طور پر تحریف ہوئی تھی لیکن عثمان نے جس قرآن کو جمع کر کے رائج کیا وہ یہی قرآن کریم ہے جو آج تک کسی تحریف کے بغیر ہم تک پہنچا ہے ۔لہٰذا عثمان کے دور حکومت سے پہلے جو نسخے معاشرے میں رائج تھے ان میں  سے ایسی تحریف واقع ہونے کو قبول کرنا چاہیے لیکن جو قرآن دور حاضر میں ہمارے پاس موجود ہے وہ عثمانی نسخہ کے مطابق ہے جس میں کوئی کمی یا بیشی نہیں    ہے ۔

۱۱

چوتھے معنی

تحریف کا چوتھا معنیٰ یہ ہے کہ قرآن میں ایک آیت کا اضافہ یا ان میں سے ایک آیت کم ہو جائے ،اگرچہ نازل شدہ قرآن کریم محفوظ اور مصون ہے لیکن ایسی تحریف سوائے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے کسی دوسری آیت میں نہیں  ہوئی ہے۔یعنی مسلمانوں کا اجماع ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (سورہ توبہ کے علاوہ ) ہر سورہ کی تلاوت سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت فرماتے تھے ۔لیکن اس بارے میں  اہل سنت کے نظریے میں  اختلاف ہے کہ بسم اللہ قرآن میں شامل ہے یا نہیں  بعض قائل ہیں    کہ شامل ہے بعض کہتے ہیں  کہ شامل نہیں    ہے۔لیکن شیعہ امامیہ کے تمام علماء قائل ہیں  کہ بسم اللہ آیات قرآنی میں  سے ایک آیت ہے اور ان کا اجماع ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورہ توبہ کے علاوہ ہر سورہ کا

جزہے ۔

پانچویں  معنی

جو قرآن کریم آج مسلمانوں  کے ہاتھوں  میں موجود ہے اس کی کچھ آیات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ قرآن کریم میں نہیں  تھیں  آج اضافی ہیں    ۔ایسی تحریف کے مسلمانوں  میں سے صرف دو گروہ قائل ہوئے ہیں 

الف:عجاردہ ،وہ لوگ جو عبدالکریم عجر د(جو خوارج کے بزرگوں میں سے ایک ہے) کی پیروی کرنے والے ہیں    ،جن کا عقیدہ یہ ہے کہ سورہ مبارکہ یوسف قرآن کریم کا جزء نہیں    ہے۔

۱۲

ب:ابن مسعود کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ وہ سورہ مبارکہ ''قل اعوذ برب النّاس '' اور ''قل اعوذ برب الفلق'' (معوذتین) کو قرآن کا جزء نہیں  سمجھتے ہیں    ۔اور ان دو گروہ کے علاوہ دوسرے تمام مسلمانوں  کا اجماع اور اتفاق ہے کہ ایسی تحریف قرآن میں  نہیں    ہوئی ہے اور ایسی تحریف کا نظریہ رکھنے والوں  کا عقیدہ غلط اور باطل ہونا بھی ایک امر لازمی ہے ۔

چھٹے معنی

یعنی جو قرآن ہمارے درمیان موجود ہے اس میں  پیغمبر اکرم (ص) پر نازل شدہ قرآن کی چند آیات آج کے قرآن میں موجود نہیں    ہیں    ۔قرآن میں  ایسی تحریف کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں  اختلاف ہے ۔

نتیجہ

نتیجہ یہ نکلا کہ ان چھ معنوں میں سے پہلے چار معنوں  میں قطعی طور پر تحریف واقع ہوئی ہے پانچویں معنے میں اجماع واقع نہیں  ہوا ہے اور چھٹے معنے پر علماء کو اختلاف ہے۔

اس عظیم محقق (جناب مرحوم خوئی )کے بیان پر دو اعتراض ہو سکتے ہیں    ۔

۱۳

پہلا اعتراض

ہماری تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ مذکورہ تمام معانی اس عنوان میں نہیں  ہیں  کہ لفظ تحریف اس میں استعمال ہو جس کی وجہ سے مشترک لفظی کہلائے بلکہ تحریف کے صرف ایک معنی ہیں  جو معانی مذکورہ میں سے پہلے معنی ہےں  ۔تحریف یعنی ''نقل الشیء عن مواضعہ'' کسی چیز کو اس کے محل سے ہٹا دینا ،لیکن دوسرے سارے معانی اس کے مصادیق ہیں    یا دوسرے لفظوں  میں یوں  کہا جائے کہ مذکورہ تمام معانی میں نقل الشیء عن موضعہ کے معنی پائے جاتے ہیں  ۔لیکن کبھی نقل معنیٰ میں  جس کو تحریف معنوی کہتے ہیں    اور کبھی نقل ،لفظ میں  جس کو تحریف لفظی کہتے ہیں    اور خود اس کی دو قسمیں  ہیں    ۱۔یا تو نقل لفظ تفصیلی ہے ۲۔یا اجمالی۔یا دوسرے لفظوں  میں یوں کہا جائے کہ کمی و بیشی معین طور پر ہوتی ہے یا بطور اجمال واقع ہوتی ہے ۔لہٰذا اس مختصر تحقیق کی بنا پر یہ کہہ سکتے ہیں  کہ اس عظیم محقق کے کلام میں جو معانی تحریف کے لئے ذکر ہوئے ہیں  وہ اس کے مصادیق ہیں  ،یعنی لفظ تحریف مشترک معنوی ہے ایسا نہیں  ہے کہ تحریف معانی کے لئے مختلف موضوع لہ

ہوں  اور تحریف''مشترک لفظی'' کے طور پر ان میں استعمال ہو۔

دوسرا عتراض

اس تقسیم کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تحریف کے تمام اقسام میں باطل کا عنوان موجود نہ ہو اگران اقسام میں سے کوئی اس عنوان میں  داخل ہو جائے تو اس آیہ شریفہ ''ولا یأتیه الباطل من بین یدیه '' کے خلاف ہے کیونکہ اس آیہ شریفہ کی ظاہری دلالت یہ ہے کہ قرآن شریف میں کسی قسم کے باطل کے آنے کی کوئی گنجائش نہیں    ۔

۱۴

  لہٰذا جن موارد میں  فرمایا ہے کہ بنا پر اجماع مسلمین تحریف واقع ہوئی ہے ان موارد میں تحریف کا عنوان صدق روک دیتا ہے اگرچہ یہ مطلب تحریف

معنوی میں  مشکل نظر آتا ہے ۔

لفظ تحریف کے معانی کی وضاحت اور تحقیق کے بعد ہم اس کی اقسام بیان کریں  گے جیسا کہ اہل فن اور علماء کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریف کی

چھ قسمیں  ہیں    :

۱۔تحریف لفظی ،یعنی الفاظ اور جملوں میں کمی اور زیادتی یا تبدیلی کرنا ۔

۲۔تحریف معنوی ،کسی کلام یا جملے کی اس طرح تفسیر کرنا کہ وہ اس پر دلالت نہ کرے اس کو تحریف معنوی یا تفسیر بالرائے کہتے ہیں    ، روایات میں  شدت کے ساتھ اس کی مذمت کی گئی ہے ۔چنانچہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : من فسر القرآن برأیه فلیتبوء مقعده من النّار'' ( ۱ ) جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے کی بنا پر کرے تو اس نے اپناٹھکانہ جہنم میں بنایا۔

۳۔تحریف موضعی ،یعنی کسی ایک آیت یا سورہ کو نزول کی ترتیب کے خلاف مرتب کرنے کو تحریف موضعی کہتے ہیں    ۔ایسی تحریف آیات میں بہت نادر ہے کیونکہ تمام آیات کو نزول کی ترتیب سے مرتب اور جمع کیا گیا ہے ،لیکن سورتوں  کی نسبت یہ کہہ

.................................

۱۔۱عوالی اللاالی ج۴ ص ۱۰۴

۱۵

سکتے ہیں    کہ ساری سورتیں  نزول کی ترتیب کے خلاف پیغمبر اکرم (ص) کے حکم کے مطابق ترتیب دی گئی ہیں  ۔

۴۔قرات میں  تحریف ،کسی لفظ کو جمہور مسلمین کے یہاں  جس قرائت کے ساتھ رائج ہے اس کے خلاف پڑھنے کو قرات کی تحریف کہا جاتا ہے ۔جیسے اکثر قرّاء اپنے اجتہاد اور نظریہ کی بنا پر قرائت کرتے ہیں    جو جمہور مسلمین کی قرائت کے خلاف ہے ۔

۵۔لہجے کی تحریف، اقوام و قبائل کے درمیان لہجے کا اختلاف بھی سبب بنتا ہے کہ تلاوت ہر قبیلہ کے یہاں  مخصوص لہجے کے ساتھ ہوتی ہے اس کو لہجے کی تحریف کہتے ہیں    ۔

۶۔تحریف تبدیلی ،کسی ایک لفظ کو دوسرے لفظ میں تبدیل کرنا ،چاہے دونوں  ہم معنی ٰ ہوں یا نہ ہوں  ،ابن مسعود نے ایسی تحریف کو ہم معنیٰ (مترادف) الفاظ میں جائز سمجھا ہے ۔چنانچہ فرمایاہے :''لفظ ''علیم'' کی جگہ ''حکیم '' رکھا جا سکتا ہے ''۔

تیسرا مطلب

اجمالی اور تفصیلی تحریف

ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ تحریف کی دو قسمیں  ہیں    ۔تحریف یا تفصیلی ہے یا اجمالی ،ان دو قسموں میں  سے جو مورد بحث ہے وہ تحریف تفصیلی ہے ،یعنی کمی و بیشی جو معین طور پر واقع ہو جائے یہی مورد بحث اور محل اختلاف ہے ۔لیکن تحریف اجمالی یعنی اجمالی طور پر کوئی چیز کم یا زیادہ ہو وہ ہماری بحث سے خارج ہے ۔مثال کے طور پر قرائت کے بارے میں  یا بسم اللہ کے بارے میں  اختلاف ہے ،

۱۶

کیا بسم الله الرحمن الرحیم قرآن کی آیات میں سے ایک آیت ہے یا نہیں  ؟جس کو ہم پہلے بھی تحریف اجمالی کے نام سے یاد کیا ہے ہماری بحث سے خارج ہے ،کیونکہ وہ تحریف کہ جس میں  جھگڑہ ہے چاہے کمی کی صورت میں ہو یا اضافہ کی،دونوں  صورتوں  میں  معیار اور ملاک یہ ہے کہ کلام الٰہی کی حقیقت بدلنے کا سبب نہیں  بنے جیسے قرائت کا اختلاف کہ جس میں  شک اور شبہہ کی گنجائش نہیں    ہے کہ ان قرآئتوں میں سے کوئی ایک قرائت یقینا قرآن حقیقی کی قرائت ہے یا بسم الله الرحمن الرحیم کے بارے میں  کوئی شک و شبہہ نہیں  ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) ہر سورہ کے آغاز میں  تلاوت فرماتے تھے ،لیکن مسلمانوں  کا آپس میں اختلاف ہے کہ بسم اللہ قرآن اور سورہ کاجزء ہے یا نہیں  ۔ بعض مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ بسم اللہ اسی سورہ کا جزء اور حقیقی قرآن ہے جس سورے کے آغاز میں  بسم اللہ ہو۔لیکن دوسرے بعض مسلمانوں  کانظریہ ہے کہ بسم اللہ اس کا جزء نہیں  ہے اس لئے کہ حقیقی قرآن نہیں    ہے یہ دونوں  گروہ میں  سے ہر ایک اپنے نظریے کو واقع کے مطابق سمجھتا ہے اور اپنی بات کو حقیقت اور واقع کے خلاف ہونے کا احتمال تک نہیں    دیتا ۔اور دونوں  کا اجماع ہے کہ بسم اللہ کلام الٰہی میں  یقینا تھا اور کلام بشر اس میں داخل نہیں    ہوا ہے اور اختلاف قرّاء کے مسئلہ میں بھی یہی ہے۔

لہٰذا اسی بنا پر جن موارد میں  تحریف اجمالی ہوئی ہے اگرچہ حقیقی کلام اور حقیقی قرائت کی تشخیص ایک مشکل امر ہے لیکن ہماری بحث سے خارج ہے ۔کیونکہ ہماری بحث ایسی تحریف کے بارے میں  ہے کہ قرآن سے کسی چیز کو حذف کیا گیا ہے یا قرآن میں کسی چیز کا اضافہ کیاگیا ہے ۔

۱۷

چوتھا مطلب

تحریف کے قائل ہونے کے لئے خبر واحد کافی نہیں    ہے

یعنی جس طرح قرآنی آیات کے اثبات کے لئے قطعی اور علمی دلیل کی ضرورت ہے اور صرف خبر واحد کے ذریعہ کسی آیت قرآنی کو ثابت نہیں  کر سکتے اسی طرح جو لوگ تحریف کے قائل ہیں    انہیں  چاہیے کہ تحریف کے اثبات پر بھی قطعی دلیل اور علمی برہان پیش کریں  یا دوسرے لفظوں  میں  یوں  کہا جائے کہ جب ہم خبر واحد اوراس جیسی دوسری ادلّہ ظنّیہ (یعنی وہ دلائل جو یقینی اور قطعی نہیں    ہیں    ) کو اعتقادی مسائل ثابت کرنے میں کافی نہیں    سمجھتے ہیں    تو قرآن سے متعلق مسائل کو بھی خبر واحد سے ثابت نہیں  کر سکتے ۔کیونکہ قرآن ہمارے مدارک میں سے اہم ترین مدرک ہے ،اس کے کسی مسئلہ کی نفی یا اثبات کو خبر واحد کے ذریعہ ثابت کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔

لہٰذا مرحوم شیخ طوسی نے اپنی گرانبہا تفسیر ''تبیان '' کے مقدمہ اور تمہید میں فرمایا ہے کہ جتنی روایتیں  تحریف پر دلالت کرتی ہیں    وہ سب خبر واحد ہیں    اور کیونکہ خبر واحد سے یقین اور علم حاصل نہیں    ہوتا لہٰذا مسئلہ تحریف میں بھی ایسی روایتیں  کفایت نہیں  کرتی ہیں  ۔ مرحوم شیخ طوسی کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مسئلہ تحریف ان مسائل میں  سے ہے کہ جس کے اثبات اور نفی کے لئے یقین اور علم ضروری ہے صرف کسی حدیث یا روایت کا پایا جانا کافی نہیں    ہے ۔

۱۸

پانچواں مطلب

قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر علماء شیعہ کا نظریہ

امامیہ مذہب کے عظیم علماء اور محققین اس بات کے معتقد ہیں  کہ قرآن مجید میں  کوئی تحریف نہیں  ہوئی ہے ۔یعنی اس طرح کا عقیدہ رکھتے ہیں    کہ جو قرآن کریم آج ہمارے پاس موجود ہے یہ وہی قرآن ہے جسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قلب مطہر پر اتارا گیا تھا جس میں کسی قسم کی کمی بیشی واقع نہیں    ہوئی ہے ۔یہاں ہم علمائے امامیہ میں سے ان حضرات کے نظریے جو مذہب تشیع کے ستون سمجھے جاتے ہیں  اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں  کیونکہ انہیں    حضرات کی کتابوں کو مذہب تشیع کے اعتقادی اور علمی مسائل کا مدار شمار کیا جاتا ہے لیکن ان حضرات کے نظریے کو ذکر کرنے سے پہلے دو مطالب کی طرف قارئین کی توجہ کو مبذول کرنا ضروری سمجھتا ہوں  ۔

الف:علوم قرآن سے متعلق لکھی گئی کچھ کتابوں  میں قرآن میں تحریف ہونے والے نظریہ کو شیعہ امامیہ کے علماء میں سے جو اخباری ہیں    ،اور اہل سنت میں سے جو حشویہ ہیں    ،ان کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔غور طلب بات یہ ہے کہ اخباری علماء کے بعض بزرگوں  نے جیسے جناب حر عاملیؒ صاحب وسائل الشیعہ ،قرآن کریم میں تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں    ،اور اسی موضوع پر مستقل ایک کتابچہ تحریر فرمایا ہے ۔لہٰذا کسی کا اخباری ہونے سے یہ لازم نہیں    آتا کہ وہ تحریف کا قائل ہے

۱۹

ب:اس میں  شک نہیں    کہ شیعہ امامیہ کے علماء قرآن میں تحریف یعنی کسی شی کا اضافہ نہ ہونے پر اجماع رکھتے ہیں    ،لیکن تحریف یعنی قرآن میں کمی واقع ہونے کا مسئلہ اختلافی ہے ،اگرچہ اس میں بھی بعض علماء جیسے مرحوم مقدس بغدادی اپنی کتاب ''شرح وافیہ'' ( ۱ ) میں مرحوم شیخ کاشف الغطاء اپنی گرانبہا کتاب کشف الغطاء میں

قرآن کریم میں کمی واقع نہ ہونے پر بھی تمام علماء امامیہ کا اتفاق و اجماع ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں  ۔

علمائے امامیہ کے عظیم علماء کے نظریات اس بارے میں یوں  ہیں  ۔

۱۔فضل ابن شاذان جو شیعہ امامیہ قرن سوم ہجری کے مصنفین میں سے ایک ہیں    ، انہوں  نے قرآن میں تحریف یعنی کمی واقع ہونے سے انکار اور اس نظریہ کے قائلین کو رد کرنے کے بعد ''کتاب ایضاح ''میں ان روایات کو جو تحریف پر دلالت کرتی ہیں  دوسرے مذاہب کی طرف نسبت دی ہے۔

۲۔جناب شیخ جعفر کے فرزند محمد بن علی ابن بابویہ قمی شیخ صدوق کے لقب سے معروف و مشہور ہیں  اور جہاں تشیع میں چوتھی صدی کے عظیم اور نامور عالم ہیں  ،

انہوں  نے اپنے ''رسالہ اعتقادات ''میں یوں  تحریر فرمایا ہے:

''قرآن کے بارے میں ہمارا (شیعہ امامیہ عقیدہ یہ ہے کہ جو قرآن آج ہمارے

................................

۱۔آلاء الرحمن بلاغی ص ۲۶

۲۰

پاس موجود ہے ،ہو بہو وہی قرآن ہے جو پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوا تھا ،جس میں  کوئی اضافہ یاکمی نہیں    ہوئی ہے ۔ لہذا جو لوگ قرآن میں  کمی واقع ہونے والے نظرئےے کو ہم سے منسوب کرتے ہیں    جھوٹے ہیں    ۔

جناب مرحوم شیخ صدوق علیہ الرحمہ جو علم حدیث اور علم تاریخ اوردیگر متعدد علوم میں  ماہر اور عظیم علمائے امامیہ میں  سے ایک ہیں    ۔ وہ تحریف کے نظرئےے کو امامیہ مذہب سے منسوب کرنے کو جھوٹ اور بہتان سے تعبیر کرتے ہیں    ۔

3۔ جناب مرحوم علی ابن حسین موسوی نے جو سید مرتضی علم الہدیٰ کے لقب سے معروف ومشہور ہیں    ، اورشیعہ امامیہ کے عظیم مجتہدین اور اصولی علماء میں  سے ایک ہیں    طرابلسیات کے سوالات کے جواب میں  فرماتے ہیں  :

'' جس طرح دنیا میں  شہروں  کے وجود اورعظیم واقعات وحادثات کے رونما ہونے پر یقین وعلم حاصل ہے اسی طرح قرآن کے ہم تک بغیر کسی کمی یابیشی کے پہنچنے پر بھی یقین وعلم حاصل ہے ۔ کیونکہ مسلمانوں  نے مختلف عوامل اورانگیزوں  کے ساتھ قرآن کریم کی حفاظت کی تھی یعنی قرآن کریم میں  کسی قسم کی کمی یابیشی واقع ہونے نہ دینے کے لئے بڑا اہتمام کیاتھا اوران کی کوشش یہی رہی ہے کہ جو قرآن پیغمبر اسلام ؐ کے دور میں  مخصوص نظم وضبط کے ساتھ ایک کتاب کی شکل میں  جمع کیا گیا تھا وہی ہم تک پہنچا ہے جس پر واضح دلیل یہ ہے کہ پیغمبر اسلام ؐ نے ایک جماعت کو قرآن کی حفاظت کے لئے مقرر فرمایا تھا ، اورایک جماعت جیسے عبداللہ ابن مسعود اور ابیّ ابن کعب وغیرہ نے کئی دفعہ خود پیغمبر اسلام ؐ کے حضور میں  پورے قرآن کریم کی تلاوت کی تھی ، جو حقیقت میں  قرآن کی صحیح حفاظت ہونے یانہ ہونے کی تصدیق کروانا چاہتے تھے۔

۲۱

  لہذا مرحوم سید مرتضٰی نے اپنی گفتگو اوربحث کے آخر میں  فرمایا کہ جو لوگ امامیہ مذہب سے منسلک ہیں    ان میں  سے چند نفر اور مذہب اہل سنت میں  سے حشویہ اس نظریہ کے مخالف ہیں    ۔ لیکن ان کے نظرئےے کاکوئی اعتبار نہیں    کیونکہ انہوں  نے اپنے نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے کچھ ضعیف روایات بیان کی ہیں    اور انہوں  نے گمان کیا ہے کہ یہ روایات صحیح ہیں    ۔ ( 1 )

4۔ مرحوم شیخ طوسی جو شیخ الطائفہ کے لقب سے مشہور ہیں    اورابو جعفر محمدبن حسن کے نام سے موسوم ہیں    اس بارے میں  فرماتے ہیں    :

'' قرآن کریم میں  کمی وبیشی واقع ہونے کا تصور کرنا مناسب نہیں    ہے کیونکہ قرآن کریم میں  کسی چیز کے اضافہ نہ ہونے پر اجماع ہے جبکہ قرآن سے کسی چیز کے حذف یاکم ہونے کو سارے مسلمان غلط اورباطل سمجھتے ہیں    اور امامیہ مذہب سے منسلک علماء کاصحیح نظریہ بھی یہی ہے ۔ یہ وہ نظریہ ہے جس پربہت ساری صحیح السند روایات کی دلالت موجود ہے ، لہذا جو روایات اہل تشیع اوراہل سنت کے طریق سے نقل کی گئی ہوں  ، اور وہ آیات میں سے بعض کے حذف یاکم ہونے پر

.................................

1۔مجمع البیان ،ج1،ص15

۲۲

دلالت کرتی ہوں  وہ خبرواحد ہیں    جن سے علم ویقین حاصل نہیں    ہوتاہے لہذا ان کو نظر انداز کرنا چاہئےے ۔( 1 )

5۔فضل ابن حسن طبرسی جن کی کنیت ابوعلی ہے اورعظیم مفسر قرآن ، صاحب مجمع البیان ہیں    ، انہوں  نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں  یوں  لکھا ہے :

'' قرآن میں  کسی آیت کے اضافہ ہونے کا عقیدہ رکھنا غلط اورباطل ہونے پر امامیہ مذہب کا اجماع ہے اگرچہ کم اورحذف ہونے کے قائل علمائے امامیہ میں  سے بعض اخباری علماء اورسنی مذہب میں  حشویہ کی طرف نسبت دی گئی ہے لیکن اکثر علمائے امامیہ کے نزدیک یہ نظریہ صحیح نہیں    ہے ۔'' ( 2 )

6۔ مرحوم سید ابن طاؤوس نے فرمایاہے :

'' مذہب امامیہ قرآن میں  تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں  ۔ ( 3)ایک اور جگہ فرمایاکہ مجھے ان لوگوں  پر تعجب ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ جو قرآن آج ہمارے پاس موجود ہے وہی قرآن ہے جو پیغمبراکرم (ص) پرنازل ہواہے اور پیغمبر اکرم (ص) نے ہی اس کو جمع کرنے کا حکم دیا ، اس کے باوجود آیات میں  اہل مدینہ اور مکہ

.............................

1۔مقدمہ تفسیر تبیان

2۔ مجمع البیان 1/15۔

3۔سعد السعود ،ص144

۲۳

یااہل کوفہ وبصرہ کے مابین اختلاف ہونے کو نقل کرکے آخر میں  یہ عقیدہ رکھتے ہیں    کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن اور سورہ کاجزء نہیں    ہے ۔ یہ بہت ہی تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف سے قرآن میں  کسی قسم کی کمی وبیشی نہ ہونے کے قائل ہیں    کہ جس کی تائید دلیل عقلی اورنقلی بھی کرتی ہیں    اس کے باوجود بسم اللہ کو قرآن کی آیات میں  سے ایک آیت اور سورہ کاجز نہ ہونے کو کیسے قبول کرسکتے ہیں    ؟ ( 1 )

7۔ جناب ملامحسن جو فیض کاشانی کے لقب سے مشہور ہیں    فرماتے ہیں    :

'' جوروایات قرآن میں  تحریف ہونے پر دلالت کرتی ہیں    وہ کتاب الہٰی کے مخالف ہیں    لہذا ان کو ردکرنا چاہئےے یااس کی توجیہ اور تفسیر اس طرح کریں  کتاب الہٰی کے مخالف نہ ہو۔(2 )

8۔ جناب مرحوم محمد بہاء الدین عاملی جو شیخ بہائی کے لقب سے معروف ہیں    یوں  فرماتے ہیں    :

'' صحیح اور درست نظریہ یہ ہے کہ قرآن کریم ہر قسم کی کمی اوربیشی سے محفوظ ہے یعنی قرآن میں  کسی قسم کی تحریف نہیں    ہوئی ہے اورجو چیز لوگوں  کے مابین مشہورہے وہ علمائے امامیہ کی نظر میں  صحیح نہیں    ہے یعنی لوگوں  کے درمیان

...............................

1۔ سعدا لسعود ص 193

2۔تفسیر صافی ، ج1ص51

۲۴

مشہور ہے کہ کچھ آیات میں  حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کانام آیا تھا اس کو حذف کردیا گیا ہے ، مثال کے طور پر آیت '' یاایها الرسول بلغ...'' کے بارے میں  کہا گیا ہے کہ آیت یوں  تھی '' یاایها الرسول بلغ ماانزل الیک فی علی ... میں  سے حضرت علی علیہ السلام کانام تھا اسے حذف کیا گیا ہے ۔ ایسا عقیدہ علمائے امامیہ کے نزدیک غلط ہے کیونکہ قرآن تحریف سے محفوظ ہے ۔'' ( 1 )

9۔ شیخ محمد ابن حسن حرعاملی جو ہماری کتب احادیث میں  سے اہم کتاب وسائل الشیعہ کے مصنف ہیں    ایک کتابچہ میں  قرآن کریم میں  تحریف نہ ہونے کو ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں    :

'' جو لوگ تاریخ اورائمہ معصومین علیہم السلام سے منقول روایات کی تحقیق کریں  توانہیں    یقین اور علم حاصل ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم ہم تک انتہائی تواتر کے ساتھ اور ہزاروں  اصحاب سے نقل ہوتے ہوئے پہنچا ہے ۔ اوراسی سے معلوم ہوتاہے کہ قرآن کریم کی پیغمبرؐ کے دور میں  ہی ایک کتاب کی شکل میں  تدوین کی گئی تھی ۔'' ( 2 )

...........................

1۔الاء الرحمن ، ص26

2۔اظہار الحق ،ج2ص129

۲۵

10۔جناب شیخ جعفر کاشف الغطا جو امامیہ مذہب کے ایسے مجتہدین میں  سے جن کی مثال بہت کم ملتی ہے ، اپنی گرانبہا کتاب '' کشف الغطاء '' میں  فرماتے ہیں    :

'' قرآن کریم میں  کسی چیز کے اضافہ نہ ہونے پر سارے مسلمانوں  کااجماع ہے اوریہ نظریہ ایسا ہے جو ہرمذہب اور دین کی ضرورت کاتقاضا ہونے کے ساتھ خود قرآن کی صراحت اور علماء کااجماع بھی ہے ۔ یعنی قرآن ہر زمانے میں  کمی وبیشی سے محفوظ اور مصون ہے لیکن ایک چھوٹے گروہ نے اس نظرئےے کے مخالف ہے جن کے قول کا کوئی اعتبار نہیں  ۔( 1)

ہم نے نمونہ کے طور پر جو کہ شیعہ علمائے کرام چاہے اصولی علماء ہوں  یااخباری کے نظریات ذکر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان تمام سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن میں  تحریف ہونے کا نظریہ غلط اوربے بنیاد ہے جس کا باطل ہونا بھی واضح ہے ۔ اوربہت ہی کم تعداد پر مشتمل ایک گروہ نے کچھ روایات کو جوضعیف السند ہونے کے علاوہ خبر واحدبھی ہیں  کواپنی کتابوں  میں  ذکر کرکے تحریف قرآن کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اوریہ نظریہ علمائے امامیہ کی نظر میں  قابل اعتماد نہیں    ہے ، لہذا قرآن میں  تحریف کا نظریہ علمائے امامیہ کی طرف کیسے منسوب کیا جاسکتا ہے ؟ کیا ایسی نسبت واضح بہتان اورجھوٹ نہیں    ہے ؟ کہ جس کی حرمت سارے

...............................

1۔کشف الغطاء ، ص299۔

۲۶

مسلمانوں  کے یہاں  مسلم ہے ، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس فرقے کے تمام مسائل اعتقادی اور تمام افکار وتصورات کا سرچشمہ قرآن کریم ہو لوگ ان کو قرآن کریم میں  تحریف کے قائل قرار دیں  ؟

چھٹا مطلب

قرآن کریم اور دوسری آسمانی کتب میں  فرق

آج کل کے اہم ترین سوالات میں  سے یہ ہے کہ قرآن اوردیگر آسمانی کتابوں  میں  کیا فرق ہے ؟۔ کیونکہ شیعہ امامیہ قرآن میں  تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں    جبکہ دوسری تمام آسمانی کتابوں  میں  تحریف ہونے پر اجماع ہے ۔ لہذا جو لوگ قرآن کی تحریف کے قائل ہیں    انہیں    میں  سے بعض نے تحریف پر اس طرح استدلال کیا ہے کہ گذشتہ ساری کتب آسمانی میں  تحریف ہوئی ہے ، قرآن بھی آسمانی کتابوں  میں  سے ایک ہے اس میں  بھی تحریف واقع ہوئی ہے کیونکہ بہت ساری روایات جو سنی اور شیعہ دونوں  کے یہاں  متواترہسمجھی جاتی ہیں    وارد ہوئی ہیں    جو حادثہ اور واقعہ سابقہ امتوں  میں  رونما ہواہے ایسا حادثہ اس امت میں  بھی رونما ہوگا، چنانچہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

'' کل ماکان فی الامم السالفة فانّه یکون فی هذه الامة مثله حذوا النعل بالنعل والقَذّة بالقَذّة''. ( 1 ) ، یعنی جوبھی حادثہ سابقہ امتوں  میں  رونما ہوا ہے ہوبہو اس امت میں  بھی رونما ہوگا۔اس روایت کی رو سے ضروری ہے کہ قرآن میں  بھی تحریف واقع ہوجائے ۔

............................

1۔ بحار الانوار باب افتراق الامۃ بعد النبی (ص) ، ج8 ، ص 4۔

۲۷

لیکن ہم اس قسم کی روایات اور جو لوگ تحریف قرآن کی اشتباہ میں  مبتلاء ہیں  کاجواب بعد میں  دینگے ( 1) مگرجو مطلب یہاں  پیش کرنا ضروری ہے اورجس کی تلاش میں  ہم ہیں    وہ قرآن اور دیگر کتب آسمانی کے مابین فرق کی وضاحت کرنا ہے اس کے بارے میں  بعض محققین نے یوں  کہاہے:

'' سابقہ آسمانی کتب میں  جوتحریف واقع ہوئی ہے اس سے مراد تحریف معنوی یاتفسیر بالرائے ہے کہ جس کے وقوع اورثبوت پر قرآن کریم صریحاً دلالت کرتا ہے ۔ لیکن وہ تحریف جس سے کمی بیشی مراد لی جاتی ہے اس کاکتب سابقہ میں  ہونے پر قرآن مجید میں  کوئی اشارہ نہیں    ملتا ، اورعلماء کی عبارات اور روایات میں  بھی کوئی قرینہ اور شاہد نہیں    پایا جاتا۔ ( 2)بلکہ ایسی تحریف سے تورات یاانجیل اور دیگر کتب آسمانی ان کے علماء کے یہاں  محفوظ ہونے کو قرآن صراحتاً بیان کرتا ہے ، چنانچہ ارشاد ہوتاہے :

'' ولو انّهم اقامو التورٰة والانجیل وماانزل الیهم من ربهم لاکلوا من فوقهم ومن تحت ارجلهم ...''

اوراگر وہ لوگ تورات اورانجیل اورجو صحیفے ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف

................................

1۔ البیان ، ص221۔

2۔صیانۃ القرآن علی التحریف ، ص94

۲۸

سے نازل کئے گئے تھے ان کے احکام پر قائم رہتے تو ضروران کے پروردگار کی طرف سے ان پر اوپر سے رزق برس پڑتا اورپاؤں  کے نیچے سے بھی ابل آتا۔

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ کی طرف سے ابدی معجزہ بن کر آیا ہے اس لئے ضروری ہے ہرقسم کی تحریف اورکمی وبیشی اورتبدیلی وغیرہ سے محفوظ رہے ، جبکہ دوسری آسمانی کتب اللہ کی طرف سے ابدی معجزہ کے طور پر نہیں    آئی ہےں ۔

ساتواں  مطلب

قرآن کے مراحل اور درجات

اہم نکات میں  سے ایک یہ ہے کہ کس قرآن یا دوسرے لفظوں میں موجودہ قرآن کے کس مرحلے نزاع و اختلاف ہے؟ جیسا کہ واضح ہے اور خود قرآن کریم سے بھی استفادہ ہوتا ہے کہ اس مقدس کتاب کے کئی ایک مراحل اور درجات ہیں  ۔

پہلا مرحلہ : لوح محفوظ ہے ، کہ اس مرحلہ میں  واضح اور روشن ہے کہ قرآن قابل تحریف نہیں    ہے اس مرحلہ میں  کسی بشر اورانسان کی رسائی ممکن نہیں  بلکہ قرآن کریم اللہ کے ہاں ہرقسم کی آفت اور آسیب سے محفوظ ہے ۔

دوسرا مرحلہ : جبرئیل کے ذریعہ پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہونا ، اس مرحلہ میں  بھی قرآن میں  تحریف کا تصور نہیں    کیا جاسکتا، کیونکہ جبرئیل اللہ کے فرشتوں  میں  سے ایک مقرب فرشتہ ہے جو عصمت کامالک ہے اورہر قسم کی خطااور اشتباہ وغیرہ سے پاک وپاکیزہ ہے ۔

۲۹

تیسرا مرحلہ : قرآن کریم کاپیغمبر اکرم (ص) کے ذریعہ سے لوگوں  تک پہنچنا یعنی جس قرآن کریم کو جبرئیل نے قلب مطہر رسول اسلام (ص) پر نازل کیا تھا پیغمبر اسلام (ص) نے بغیر کسی کمی وبیشی کے لوگوں  تک پہنچایا۔ واضح ہے کہ اس مرحلہ میں بھی کوئی تحریف نہیں    ہوئی ہے کیونکہ قرآن خود پیغمبر اسلام کے زمانے میں  ایک کتاب کی شکل میں  جمع کیا جا چکا تھا اوربہت سارے اصحاب کرام حافظ قرآن تھے اور انہوں نے ہی آنے والے لوگوں  کے لئے سینہ بہ سینہ اسی قرآن کوتواتر کی شکل میں  منتقل کیا ہے ۔

چوتھا مرحلہ : جس قرآن کا تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچنے کا دعوا کرتے ہیں    یادوسرے لفظوں  میں  جو قرآن آج ایک کتاب کی شکل میں  مخطوط یا مطبوعہ موجود ہے وہ قرآن کے نام سے اللہ کی طرف سے نازل شدہ ایک حقیقت ہے اوربدیہی ہے کہاس میں  تحریف یعنی قرات کی اختلاف وغیرہ کے بارے میں  اختلاف رائے ہے ، ایسی تحریف قرآن مجید کے مراحل میں  سے چوتھے مرحلہ میں  قابل تصور اورممکن ہے ، نیز تحریف یعنی کمی وبیشی کاامکان اور تصور بھی اس مرحلہ میں  ناممکن نہیں  ہے۔ اور جس قرآن کے تحریف ہونے یانہ ہونے کے بارے میں  اختلاف اور جھگڑا ہے وہ ایک حقیقت ہے جو وحی منزل اورکلام حق کی صورت میں  ہم تک تواتر کے ساتھ پہنچا ہے جس کی حفاظت کے بارے میں  خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایاہے :

'' وانّا له لحافظون '' اورہم ہی اس کے محافظ ہیں  ۔ یہاں  کلمہ '' لہ'' کی ضمیر''نازل شدہ ''کی طرف لوٹتی ہے جوقرآن اور ایک حقیقت ہونے کوبیان کرتی ہے ۔ جبکہ قرآنوں  کا تصور تحریف کو بیان کرتا ہے اور اس میں شک نہیں  کہ متعدد ہونے کی صورت میں ان میں تحریف کا امکان ہے۔

۳۰

اس بیان کی روشنی میں بعض محدثین ( 1)نے کہا ہے کہ قرآن کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ اللہ اپنی کتاب کا محافظ ہے اس سے مراد نزول کا مرحلہ ہے جس طرح لوح محفوظ کے مرحلہ میں  قرآن ہر آفت اورآسیب وتحریف سے محفوظ ہے اسی طرح اس مرحلہ ( مرحلہ نزول) میں  بھی اللہ اس کامحافظ ہے ، نہ یہ کہ اللہ تدوین شدہ قرآن اور صحف کامحافظ ہے ۔

یہ ایک باطل توجیہ ہے کیونکہ اس توجیہ پر کوئی دلیل اور شاہد موجود نہیں    ہے بلکہ قرآن معجزہ ہونے کے حوالے سے اس کی نفی کرتا ہے ، چونکہ جس مرحلہ میں  تحریف اورکمی وبیشی عقل کی رو سے ممکن نہیں    ہے اس میں  اللہ کی طرف سے قرآن کی حفاظت کرنا اعجاز نہیں    کہلاتا ہے ۔

...........................

1۔فصل الخطاب ،ص360

۳۱

آٹھواں  مطلب

عقل کی رو سے تحریف کا امکان اورعملی طور پر واقع نہ ہونا

آیہ شریفہ '' حفظ'' سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم میں  تحریف عقلی اعتبار سے محال نہیں    ہے لیکن اللہ نے ہی قرآن کو اس کے امکان اور تصور سے بچانے کا وعدہ فرمایا ہے کیونکہ اگر عقل کی روشنی میں  تحریف بالکل محال اور ناممکن ہوتی تو اللہ کے محافظ ہونے کا تصور ہی غلط ہوجاتا ۔ لہذا قرآن میں  تحریف کا ہونا عقلاً ممکن ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس امکان محض سے بچانے کا قطعی وعدہ کیا ہے اس لئے عملی طور پر قرآن کریم ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہے اور خداوند عالم نے قرآن میں تحریف کے وقوعی اور عملی امکان کو بھی رد کیا ہے۔

نواں  مطلب

کیا قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر قرآن سے دلیل لانے سے دور لازم آتا ہے ؟

بہت سارے بزرگ علماء نے قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر آیات قرآن سے استدلال کیا ہے ؛ لیکن ہم یہاں  جس چیز پر تحقیق کریں  گے یہ ہے کہ کیا نظریہ تحریف کو غلط اورباطل قرار دینے کے لئے آیات قرآن سے استدلال کرنے سے دور لازم نہیں    آتا (جوعقلاًمحال ہے) بعض کا نظریہ ہے کہ تحریف کے نہ ہونے پر آیات سے استدلال کرنا'' دور '' ہے جس کے لئے انہوں  نے دو قسم کے استدلال بیان کیا ہے۔

۳۲

1۔ پہلی دلیل: کتاب میں تحریف کا نہ ہونا ان آیات کے حجت ہونے پر موقوف ہے جبکہ ان آیات کی حجیت تحریف نہ ہونے پر موقوف اس بنا پر تحریف کا نہ ہونا خود تحریف نہ ہونے پر موقوف ہے جو دور ہے۔

2۔ دوسری دلیل: یہ ہے کہ نفی تحریف پرجن آیات سے استدلال کیا ہے ان کی حجیت قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر مبنی اورموقوف ہے جب کہ دوسری طرف سے نفی تحریف خود ان آیات کی حجیت پر موقوف ہے نتیجتاً آیات کریمہ کی حجیت خود آیات کی حجیت پر موقوف ہے یہ ایسا ناممکن کام ہے کہ جس کو علیت میں  دور سے تعبیر کیا جاتا ہے جو محال ہے ۔اس شبہہ اور اعتراض کے کئی جوابات دئے گئے ہیں    ۔ہم ان کا جائزہ لیتے ہیں  ۔

پہلا جواب :

مرحوم محقق خوئی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی گرانبہا کتاب البیان میں  اس کا جواب یوں  دیا ہے :

''جولوگ ائمہ معصومین علیہم السلام کی خلافت اور ولایت کو قبول نہیں    کرتے وہ اس شبہہ اور اعتراض کاجواب دینے سے عاجز ہیں    لیکن جو لوگ ان بزرگواروں  کی خلافت اورولایت کے معتقدہیں    اوران حضرات کو قرآن کریم کے واقعی اور حقیقی مفسر اور قرآن کے قرین سمجھتے ہیں    وہ ایسے شبہہ کا جواب بہت ہی آسان طریقہ سے دے سکتے ہیں    ، کیونکہ ائمہ معصومین علیہم السلام نے موجودہ قرآن کی آیات سے استدلال کیا ہے اور اصحاب کرام نے جن آیات سے استدلال کیا تھا ان کی تائید اور تصدیق فرمائی ہے ۔ پس اگرچہ قرآن کی تحریف ہوئی ہو پھر بھی اس کی حجیت باقی ہے کیونکہ جہاں  کہیں    ائمہ معصومین علیہم السلام نے آیات سے استدلال کیا ہے ان کی حجیت ثابت اور واجب العمل ہے ، اور ان سے ہم بھی تمسک کرسکتے ہیں    ۔

۳۳

لیکن یہ جواب اشکال سے خالی نہیں    کیونکہ اول آپ کایہ جواب ان کے لئے ہے جو اہل بیت عصمت علیہم السلام کے معتقد اور شیعہ امامیہ ہوں  لیکن ایسے اعتراض کے لئے اس طرح کا جواب دینا صحیح نہیں    ہے بلکہ ایسا جواب در کار ہے جوسب کے لئے قابل قبول اور مفید ہو۔

دوسرایہ کہ: یہ جواب دینا در حقیقت شبہہ اور اشکال کو قبول کرنا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس بنا پر تحریف کی نفی پر دلالت کرنے والی آیات سے ہم عدم تحریف کو ثابت نہیں    کرسکتے بلکہ نفی تحریف پر ہم نے آیات قرآنی اور معصومین علیہم السلام کی تائیدکوایک دوسرے کے ساتھ ضمیمہ کرکے استدلال کیاہے اس طرح استدلال کرنا اور جواب دینا مدعاکے خلاف ہونے کے ساتھ حدیث ثقلین کے ظاہرکے بھی خلاف ہے جس سے بخوبی واضح ہوتاہے کہ قرآن کریم '' ثقل اکبر''کی حیثیت سے کسی چیز کے ضمیمہ کئے بغیر خود ایک مستقل دلیل اور حجت ہے ۔

دوسرا جواب

جولوگ قرآن میں  تحریف کے دعویدار ہیں    وہ تحریف کے دائرہ کو محدود سمجھتے ہیں    یعنی تحریف صرف ان آیات میں  واقع ہوئی ہے جن کی طرف کچھ روایات میں  اشارہ کیا گیا ہے لیکن جن آیات سے تحریف نہ ہونے پر استدلال کیا جارہا ہے وہ ان تحریف شدہ آیات میں  سے نہیں    ہیں  دوسرے الفاظ میں تحریف کے دعویدار ان آیات میں  تحریف نہ ہونے پر اعتقاد رکھتے ہیں    ، لہذا ان سے استدلال کرنے سے دور لازم نہیں    آتا ۔

۳۴

یہ جواب بھی اشکال اور اعتراض سے خالی نہیں    ہے کیونکہ تحریف کے بارے میں  دو نظرئےے پائے جاتے ہیں    :

پہلا نظریہ :یہ ہے کچھ لوگوں  کا عقیدہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق چند معین موارد میں  آیات کریمہ میں  تحریف واقع ہوئی ہے اس نظرئےے کے مطابق جواب درست ہے ۔

دوسرانظریہ : یہ ہے کہ کچھ لوگ قرآن میں  تحریف ہونے پر علم اجمالی کے دعویدار ہیں    قطع نظر اس کے کہ روایات کی روشنی میں  تحریف کے قائل ہون اور علم اجمالی جس کا دائرہ وسیع ہے جن آیات سے عدم تحریف پر استدلال کیا گیا ہے وہ بھی اس میں  شامل ہوسکتی ہیں    ، لہذا اس نظریہ کی بنا پر یہ دوسرا جواب صحیح نہیں    ہے۔

تیسرا جواب :

بعض محققین اس اعتراض کاجواب یوں  دیتے ہیں    :

'' جن آیات سے قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر استدلال ہوا ہے ان میں  تحریف نہ ہونے پر اجماع قائم ہے ''۔ ( 1 )

مگریہ جواب بھی بحث طلب ہے کیونکہ جو لوگ قرآن میں  تحریف ہونے پر علم اجمالی کے دعویدار ہیں    اس میں  وہ آیات بھی شامل ہیں    کہ جن سے نفی تحریف اور عدم تحریف پر استدلال کرچکے ہیں    یادوسرے لفظوں  میں  یوں  کہا جائے کہ وہ آیات

اجماع کے اندر داخل نہیں    ہوسکتیں  ورنہ ان کے نظریے کی موجودگی میں  اس کالازمہ

...............................

1۔اکذوبۃ تحریف القرآن ،ص4۔

اس کا عدم ہے جومحال ہے ۔

۳۵

چوتھا جواب:

ہمارے والد گرامی محقق فقیہ معظم (آیۃ اللہ العظمی فاضل لنکرانی) نے اس مشکل کو یوں  حل فرمایاہے (1 )کہ جن آیات سے قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر استدلال کیا گیا ہے ان کے بارے میں  یہ دیکھنا چاہئےے کہ ہم آیات سے کن کے مقابلے میں  استدلال کررہے ہیں    ، اگرہم آیات سے ان لوگوں  کے مقابل میں  استدلال کررہے ہیں    جو قرآن میں  تحریف کے قائل ہیں    جس پر روایات دلالت کرنے کے دعویدار ہیں    اس صورت میں  آیات سے عدم تحریف استدلال کرنے کا لازمہ دور نہیں    ہے کیونکہ ایسی آیات یقینا تحریف کے موضوع سے خارج ہیں    ۔

لیکن اگر ہم آیات سے ان لوگوں  کے مقابلے میں  استدلال کررہے ہیں    جو قرآن میں  تحریف کے قائل ہیں    اور اس کی دلیل علم اجمالی سمجھتے ہیں    تو اس کے دو مفروضے ہیں    :

پہلا مفروضہ: یہ ہے کہ تحریف کا قائل ظواہر کتاب کوحجت مانتاہے چاہے تحریف شدہ ہو ایسی صورت میں  دو ر کا اشکال نہیں    ہوسکتا کیونکہ آیات اپنی ظاہری حجیت پر باقی ہیں    اور تحریف کی مذکورہ قسم ظاہری حجت کے لئے کوئی مانع نہیں    اس کانتیجہ یہ ہے

.............................

1۔مدخل التفسیر ، ص202

۳۶

کہ آیات سے استدلال کرنے میں  کوئی اعتراض نہیں    ۔

دوسرا مفروضہ: یہ ہے کہ تحریف کا قائل تحریف کو کتاب کی ظاہر حجیت کے لئے مانع جانتا ہے اس صورت میں  یاعلم اجمالی کے ذریعے کتاب میں  تحریف کو واقع سمجھتا ہے یا اجمالی یقین کا مسئلہ نہ ہو بلکہ تحریف کا احتمال پیدا ہوجائے تو پہلی صورت میں آیات سے استدلال نہیں  کیا جاسکتا چاہے تحریف کے مفروضے میں  حجیت پر باقی کیوں  نہ ہو ۔ کیونکہ علم اصول میں  یہ ثابت ہے کہ ایسے ظواہر جو شرعی نشانیوں  کی وجہ سے ظنی ہیں    وہ اس صورت میں  معتبر ہیں    کہ اس کے خلاف یقین نہ ہو ۔ اس بنا پر ایسے مفروضے کی صورت میں  آیات شریفہ قابل استدلال نہیں    رہتی دوسری صورت یعنی یقین کے بغیر صرف احتمال تحریف آیات کی حجیت کے لئے مانع نہیں    ہوسکتی اور آیات کے ذریعے استدلال کرنا اشکال سے خالی ہے ۔

اس جواب میں  بھی تحریف کے علم اجمالی کی صورت میں  آیات سے استدلال کرنا کمزوری ہے۔

پانچواں  جواب

جو کچھ ہمیں  نظر آتا ہے یہ ہے کہ جس طرح دیگر حوادث کچھ علل واسباب کا نتیجہ ہوتے ہیں    اسی طرح تحریف بھی بغیر علت اور سبب کے نہیں    ہوسکتی ہے ۔ چونکہ تحریف قرآن کے اسباب وعوامل بہت زیادہ ہیں    لہذا اگران آیات میں  تحریف ہوتی کہ جن سے عدم تحریف پر استدلال کرتے ہیں    تو اس طرح تحریف واقع ہونی چاہئیے کہ ان میں  کمی اور نقص واقع ہوجائے کہ پھر ان سے عدم تحریف پر استدلال کرنا ساقط ہوجائے مثال کے طور پر آیت'' حفظ '' وانا لہ لحافظون '' کے جملے یاکم از کم کلمہ '' لہ'' جو کہ قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر واضح دلیل ہے ، کو حذف کردینا چاہئیے تھا

۳۷

جبکہ ایسے جملے اور الفاظ آیات میں  موجود ہیں    جس سے ہمیں  قرآن میں  تحریف نہ ہونے کایقین یاکم از کم اطمینان حاصل ہوتا ہے اور ایسے موارد میں  جہاں  قرآن کی کسی اور آیت یاجملہ میں  تحریف ہونے کا علم اجمالی ہو جیسے کہ ان آیات میں  ہم عمومی یقین اس کے برخلاف رکھتے ہیں    جس کے نتیجے میں  ایسے موارد علم اجمالی کے دائرے سے خارج ہوتے ہیں    ۔

      دسواں  مطلب

تحریف کے بارے میں  دو دعوے

گذشتہ مطالب سے بخوبی روشن ہوا کہ تحریف کے بارے میں  دو دعوے پائے جاتے ہیں    :

پہلا : کچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں    کہ تحریف کا دائرہ محدود ہے یعنی تحریف صرف ان آیات میں  ہوئی ہے کہ جن کے بارے میں  روایات وارد ہوئی ہیں    لہذا جن آیات کے بارے میں  روایات وارد نہیں    ہوئی ہیں    وہ ہر قسم کی تحریف ، تبدیلی اورکمی وبیشی سے محفوظ ہیں  ۔ جس کو ثابت کرنے کے لئے انہوں  نے ظواہر کتاب سے استدلال کیا ہے عام طور پر یہ دعویٰ وہ لوگ کرتے ہیں    جوتحریف قرآن میں ان روایات کو سند کے طور پر پیش کرتے ہیں  جو بعض حدیث کی کتب میں موجود ہیں  ۔

دوسرا : کچھ لوگ قرآن میں  اجمالی طور پر تحریف واقع ہونے کے معتقد ہیں    دوسرے الفاظ میں یہ لوگ قرآن میں  تحریف ہونے پر علم اجمالی کے دعویدار ہیں    ۔ جولوگ اس نظرئےے کے قائل ہیں    انہوں  نے تحریف کے سلسلے میں  دلیل اور سند کے طور پر دلیل اعتبار اور اس کی مثالیں پیش کی ہیں  ۔ ( 1 )

............................

1۔اس دلیل کی وضاحت کے لئے مراجعہ کریں  ، مدخل التفسیر ،ص292

۳۸

گیارہواں  مطلب

تحریف نہ ہونے پر عقلی اور عقلائی دلیل کا تجزیہ

بعض صاحب نظر افراد کی عبارات سے استفادہ ہوتا ہے کہ تحریف کے بطلان پر انہوں  نے عقلی دلیل اور سیرت عقلاء سے تمسک کیا ہے ، مرحوم سیدابن طاؤوس نے کتاب سعد السعود میں  صراحت کی ہے کہ قرآن میں  تحریف نہ ہونے پردلیل عقلی ہے جبکہ دوسرے بعض محققین اس مسئلہ پر سیرت عقلاء ( 1 ) سے استدلال کرتے ہیں  ۔

دلیل عقلی کی وضاحت

عقلی دلیل کو بیان کرنے کے دوصورتیں ہیں    : پہلا بیان : جناب مرحوم خوئی (رح) ( 2 ) کی عبارات میں  عقلی دلیل کو ایک غیر مستقل دلیل کے طور پر ذکر کیا ہے۔ اس کا خلاصہ ہم یہاں  نقل کرتے ہیں    ۔ تحریف کا احتمال تین صورتوں  سے خالی نہیں    ، کسی پہلی صورت چوتھی صورت کا تصور عقل کی رو سے محال اور نا ممکن ہے قرآن کی تحریف عثمان کے دور خلافت سے پہلے جناب ابوبکر اورعمر کے دور میں  ان کے ہاتھوں  ہوئی ہو ، یہ صورت یقینا باطل ہے

..........................

1۔ گفتار آسان درنفی تحریف

2۔ البیان صفحہ 215

۳۹

کیونکہ یہ صورت تین احتمالات میں  سے کسی ایک سے خالی نہیں    :

پہلا احتمال : تحریف جوہوئی ہے وہ لاشعوری تھی یعنی حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد جناب ابو بکر اورجناب عمر نے قرآن کی جمع آوری کاکام شروع کیا ، لیکن پورے قرآن پر احاطہ نہ ہونے کی وجہ سے یاپورے قرآن کریم کے دستیاب نہ ہونے کی بنا پر کچھ آیات یاجملے رہ گئے ہیں    جس کا نتیجہ تحریف قرآن کی صورت میں  نکلا۔

دوسرا احتمال : قرآن میں  تحریف اور تبدیلی ان کی طرف سے جان بوجھ کر واقع ہوئی ہے اوروہ بھی ایسی آیات میں  جوان کی حکومت اورخلافت کے لئے کوئی ٹکراؤ یاضرر پہنچانے کا باعث نہیں  تھیں ۔

تیسرا احتمال : تحریف عمداً اور جان بوجھ کرواقع کی گئی ہے اوروہ بھی ان آیات میں  جوان کی حکومت اورخلافت کے ساتھ ٹکراتی تھیں  ۔ چنانچہ تحریف کے قائلین میں  سے بعض اسی احتمال پر بھروسہ کرتے ہیں    ۔

لیکن یہ تینوں  احتمالات غلط اورباطل ہیں    کیونکہ ان تینوں میں  سے پہلا احتمال دو صورتوں  سے باطل ہے ۔

1۔ یہ بات مسلمانوں  کے یہاں  مسلم اوربدیہی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے رحلت سے پہلے قرآن کی حفاظت اس کی قرائت اور ترتیل قرآن کے ساتھ تلاوت کرنے کا مخصوص اہتمام فرمایاتھا اورصحابہ کرام نے بھی اس مسئلہ کو بہت زیادہ اہتمام کے ساتھ انجام دیا لہذا یقینی ہے کہ قرآن کریم ان دونوں  کے دور میں  ہرقسم کے نقص اور زیادتی سے محفوظ تھا۔ اگرچہ قرآن کی جمع آوری دونوں  کے دور میں  ہوئی تھی یاجمع آوری کے بغیر متفرق شکل میں  مکمل طور پر موجود تھا یالوگوں  کے سینوں  یاکاغذوں  پر کسی قسم کی کمی وبیشی کے بغیر موجود تھا ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس زمانہ میں  عرب جاہلیت کے اشعار کو یاد اورحفظ کرنے کو اتنی اہمیت دیں  لیکن پیغمبر اکرم (ص) اور قرآن کے معتقد ہونے کے باوجود اس کی حفاظت نہ کریں !۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76