حریم قرآن کا دفاع

حریم قرآن کا دفاع50%

حریم قرآن کا دفاع مؤلف:
: محمد باقرمقدسی
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 76

حریم قرآن کا دفاع
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 76 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 38969 / ڈاؤنلوڈ: 5626
سائز سائز سائز
حریم قرآن کا دفاع

حریم قرآن کا دفاع

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

پاس موجود ہے ،ہو بہو وہی قرآن ہے جو پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوا تھا ،جس میں  کوئی اضافہ یاکمی نہیں    ہوئی ہے ۔ لہذا جو لوگ قرآن میں  کمی واقع ہونے والے نظرئےے کو ہم سے منسوب کرتے ہیں    جھوٹے ہیں    ۔

جناب مرحوم شیخ صدوق علیہ الرحمہ جو علم حدیث اور علم تاریخ اوردیگر متعدد علوم میں  ماہر اور عظیم علمائے امامیہ میں  سے ایک ہیں    ۔ وہ تحریف کے نظرئےے کو امامیہ مذہب سے منسوب کرنے کو جھوٹ اور بہتان سے تعبیر کرتے ہیں    ۔

۳۔ جناب مرحوم علی ابن حسین موسوی نے جو سید مرتضی علم الہدیٰ کے لقب سے معروف ومشہور ہیں    ، اورشیعہ امامیہ کے عظیم مجتہدین اور اصولی علماء میں  سے ایک ہیں    طرابلسیات کے سوالات کے جواب میں  فرماتے ہیں  :

'' جس طرح دنیا میں  شہروں  کے وجود اورعظیم واقعات وحادثات کے رونما ہونے پر یقین وعلم حاصل ہے اسی طرح قرآن کے ہم تک بغیر کسی کمی یابیشی کے پہنچنے پر بھی یقین وعلم حاصل ہے ۔ کیونکہ مسلمانوں  نے مختلف عوامل اورانگیزوں  کے ساتھ قرآن کریم کی حفاظت کی تھی یعنی قرآن کریم میں  کسی قسم کی کمی یابیشی واقع ہونے نہ دینے کے لئے بڑا اہتمام کیاتھا اوران کی کوشش یہی رہی ہے کہ جو قرآن پیغمبر اسلام ؐ کے دور میں  مخصوص نظم وضبط کے ساتھ ایک کتاب کی شکل میں  جمع کیا گیا تھا وہی ہم تک پہنچا ہے جس پر واضح دلیل یہ ہے کہ پیغمبر اسلام ؐ نے ایک جماعت کو قرآن کی حفاظت کے لئے مقرر فرمایا تھا ، اورایک جماعت جیسے عبداللہ ابن مسعود اور ابیّ ابن کعب وغیرہ نے کئی دفعہ خود پیغمبر اسلام ؐ کے حضور میں  پورے قرآن کریم کی تلاوت کی تھی ، جو حقیقت میں  قرآن کی صحیح حفاظت ہونے یانہ ہونے کی تصدیق کروانا چاہتے تھے۔

۲۱

  لہذا مرحوم سید مرتضٰی نے اپنی گفتگو اوربحث کے آخر میں  فرمایا کہ جو لوگ امامیہ مذہب سے منسلک ہیں    ان میں  سے چند نفر اور مذہب اہل سنت میں  سے حشویہ اس نظریہ کے مخالف ہیں    ۔ لیکن ان کے نظرئےے کاکوئی اعتبار نہیں    کیونکہ انہوں  نے اپنے نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے کچھ ضعیف روایات بیان کی ہیں    اور انہوں  نے گمان کیا ہے کہ یہ روایات صحیح ہیں    ۔ ( ۱ )

۴۔ مرحوم شیخ طوسی جو شیخ الطائفہ کے لقب سے مشہور ہیں    اورابو جعفر محمدبن حسن کے نام سے موسوم ہیں    اس بارے میں  فرماتے ہیں    :

'' قرآن کریم میں  کمی وبیشی واقع ہونے کا تصور کرنا مناسب نہیں    ہے کیونکہ قرآن کریم میں  کسی چیز کے اضافہ نہ ہونے پر اجماع ہے جبکہ قرآن سے کسی چیز کے حذف یاکم ہونے کو سارے مسلمان غلط اورباطل سمجھتے ہیں    اور امامیہ مذہب سے منسلک علماء کاصحیح نظریہ بھی یہی ہے ۔ یہ وہ نظریہ ہے جس پربہت ساری صحیح السند روایات کی دلالت موجود ہے ، لہذا جو روایات اہل تشیع اوراہل سنت کے طریق سے نقل کی گئی ہوں  ، اور وہ آیات میں سے بعض کے حذف یاکم ہونے پر

.................................

۱۔مجمع البیان ،ج۱،ص۱۵

۲۲

دلالت کرتی ہوں  وہ خبرواحد ہیں    جن سے علم ویقین حاصل نہیں    ہوتاہے لہذا ان کو نظر انداز کرنا چاہئےے ۔( ۱ )

۵۔فضل ابن حسن طبرسی جن کی کنیت ابوعلی ہے اورعظیم مفسر قرآن ، صاحب مجمع البیان ہیں    ، انہوں  نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں  یوں  لکھا ہے :

'' قرآن میں  کسی آیت کے اضافہ ہونے کا عقیدہ رکھنا غلط اورباطل ہونے پر امامیہ مذہب کا اجماع ہے اگرچہ کم اورحذف ہونے کے قائل علمائے امامیہ میں  سے بعض اخباری علماء اورسنی مذہب میں  حشویہ کی طرف نسبت دی گئی ہے لیکن اکثر علمائے امامیہ کے نزدیک یہ نظریہ صحیح نہیں    ہے ۔'' ( ۲ )

۶۔ مرحوم سید ابن طاؤوس نے فرمایاہے :

'' مذہب امامیہ قرآن میں  تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں  ۔ ( ۳)ایک اور جگہ فرمایاکہ مجھے ان لوگوں  پر تعجب ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ جو قرآن آج ہمارے پاس موجود ہے وہی قرآن ہے جو پیغمبراکرم (ص) پرنازل ہواہے اور پیغمبر اکرم (ص) نے ہی اس کو جمع کرنے کا حکم دیا ، اس کے باوجود آیات میں  اہل مدینہ اور مکہ

.............................

۱۔مقدمہ تفسیر تبیان

۲۔ مجمع البیان ۱/۱۵۔

۳۔سعد السعود ،ص۱۴۴

۲۳

یااہل کوفہ وبصرہ کے مابین اختلاف ہونے کو نقل کرکے آخر میں  یہ عقیدہ رکھتے ہیں    کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن اور سورہ کاجزء نہیں    ہے ۔ یہ بہت ہی تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف سے قرآن میں  کسی قسم کی کمی وبیشی نہ ہونے کے قائل ہیں    کہ جس کی تائید دلیل عقلی اورنقلی بھی کرتی ہیں    اس کے باوجود بسم اللہ کو قرآن کی آیات میں  سے ایک آیت اور سورہ کاجز نہ ہونے کو کیسے قبول کرسکتے ہیں    ؟ ( ۱ )

۷۔ جناب ملامحسن جو فیض کاشانی کے لقب سے مشہور ہیں    فرماتے ہیں    :

'' جوروایات قرآن میں  تحریف ہونے پر دلالت کرتی ہیں    وہ کتاب الہٰی کے مخالف ہیں    لہذا ان کو ردکرنا چاہئےے یااس کی توجیہ اور تفسیر اس طرح کریں  کتاب الہٰی کے مخالف نہ ہو۔(۲ )

۸۔ جناب مرحوم محمد بہاء الدین عاملی جو شیخ بہائی کے لقب سے معروف ہیں    یوں  فرماتے ہیں    :

'' صحیح اور درست نظریہ یہ ہے کہ قرآن کریم ہر قسم کی کمی اوربیشی سے محفوظ ہے یعنی قرآن میں  کسی قسم کی تحریف نہیں    ہوئی ہے اورجو چیز لوگوں  کے مابین مشہورہے وہ علمائے امامیہ کی نظر میں  صحیح نہیں    ہے یعنی لوگوں  کے درمیان

...............................

۱۔ سعدا لسعود ص ۱۹۳

۲۔تفسیر صافی ، ج۱ص۵۱

۲۴

مشہور ہے کہ کچھ آیات میں  حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کانام آیا تھا اس کو حذف کردیا گیا ہے ، مثال کے طور پر آیت '' یاایها الرسول بلغ...'' کے بارے میں  کہا گیا ہے کہ آیت یوں  تھی '' یاایها الرسول بلغ ماانزل الیک فی علی ... میں  سے حضرت علی علیہ السلام کانام تھا اسے حذف کیا گیا ہے ۔ ایسا عقیدہ علمائے امامیہ کے نزدیک غلط ہے کیونکہ قرآن تحریف سے محفوظ ہے ۔'' ( ۱ )

۹۔ شیخ محمد ابن حسن حرعاملی جو ہماری کتب احادیث میں  سے اہم کتاب وسائل الشیعہ کے مصنف ہیں    ایک کتابچہ میں  قرآن کریم میں  تحریف نہ ہونے کو ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں    :

'' جو لوگ تاریخ اورائمہ معصومین علیہم السلام سے منقول روایات کی تحقیق کریں  توانہیں    یقین اور علم حاصل ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم ہم تک انتہائی تواتر کے ساتھ اور ہزاروں  اصحاب سے نقل ہوتے ہوئے پہنچا ہے ۔ اوراسی سے معلوم ہوتاہے کہ قرآن کریم کی پیغمبرؐ کے دور میں  ہی ایک کتاب کی شکل میں  تدوین کی گئی تھی ۔'' ( ۲ )

...........................

۱۔الاء الرحمن ، ص۲۶

۲۔اظہار الحق ،ج۲ص۱۲۹

۲۵

۱۰۔جناب شیخ جعفر کاشف الغطا جو امامیہ مذہب کے ایسے مجتہدین میں  سے جن کی مثال بہت کم ملتی ہے ، اپنی گرانبہا کتاب '' کشف الغطاء '' میں  فرماتے ہیں    :

'' قرآن کریم میں  کسی چیز کے اضافہ نہ ہونے پر سارے مسلمانوں  کااجماع ہے اوریہ نظریہ ایسا ہے جو ہرمذہب اور دین کی ضرورت کاتقاضا ہونے کے ساتھ خود قرآن کی صراحت اور علماء کااجماع بھی ہے ۔ یعنی قرآن ہر زمانے میں  کمی وبیشی سے محفوظ اور مصون ہے لیکن ایک چھوٹے گروہ نے اس نظرئےے کے مخالف ہے جن کے قول کا کوئی اعتبار نہیں  ۔( ۱)

ہم نے نمونہ کے طور پر جو کہ شیعہ علمائے کرام چاہے اصولی علماء ہوں  یااخباری کے نظریات ذکر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان تمام سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن میں  تحریف ہونے کا نظریہ غلط اوربے بنیاد ہے جس کا باطل ہونا بھی واضح ہے ۔ اوربہت ہی کم تعداد پر مشتمل ایک گروہ نے کچھ روایات کو جوضعیف السند ہونے کے علاوہ خبر واحدبھی ہیں  کواپنی کتابوں  میں  ذکر کرکے تحریف قرآن کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اوریہ نظریہ علمائے امامیہ کی نظر میں  قابل اعتماد نہیں    ہے ، لہذا قرآن میں  تحریف کا نظریہ علمائے امامیہ کی طرف کیسے منسوب کیا جاسکتا ہے ؟ کیا ایسی نسبت واضح بہتان اورجھوٹ نہیں    ہے ؟ کہ جس کی حرمت سارے

...............................

۱۔کشف الغطاء ، ص۲۹۹۔

۲۶

مسلمانوں  کے یہاں  مسلم ہے ، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس فرقے کے تمام مسائل اعتقادی اور تمام افکار وتصورات کا سرچشمہ قرآن کریم ہو لوگ ان کو قرآن کریم میں  تحریف کے قائل قرار دیں  ؟

چھٹا مطلب

قرآن کریم اور دوسری آسمانی کتب میں  فرق

آج کل کے اہم ترین سوالات میں  سے یہ ہے کہ قرآن اوردیگر آسمانی کتابوں  میں  کیا فرق ہے ؟۔ کیونکہ شیعہ امامیہ قرآن میں  تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں    جبکہ دوسری تمام آسمانی کتابوں  میں  تحریف ہونے پر اجماع ہے ۔ لہذا جو لوگ قرآن کی تحریف کے قائل ہیں    انہیں    میں  سے بعض نے تحریف پر اس طرح استدلال کیا ہے کہ گذشتہ ساری کتب آسمانی میں  تحریف ہوئی ہے ، قرآن بھی آسمانی کتابوں  میں  سے ایک ہے اس میں  بھی تحریف واقع ہوئی ہے کیونکہ بہت ساری روایات جو سنی اور شیعہ دونوں  کے یہاں  متواترہسمجھی جاتی ہیں    وارد ہوئی ہیں    جو حادثہ اور واقعہ سابقہ امتوں  میں  رونما ہواہے ایسا حادثہ اس امت میں  بھی رونما ہوگا، چنانچہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

'' کل ماکان فی الامم السالفة فانّه یکون فی هذه الامة مثله حذوا النعل بالنعل والقَذّة بالقَذّة''. ( ۱ ) ، یعنی جوبھی حادثہ سابقہ امتوں  میں  رونما ہوا ہے ہوبہو اس امت میں  بھی رونما ہوگا۔اس روایت کی رو سے ضروری ہے کہ قرآن میں  بھی تحریف واقع ہوجائے ۔

............................

۱۔ بحار الانوار باب افتراق الامۃ بعد النبی (ص) ، ج۸ ، ص ۴۔

۲۷

لیکن ہم اس قسم کی روایات اور جو لوگ تحریف قرآن کی اشتباہ میں  مبتلاء ہیں  کاجواب بعد میں  دینگے ( ۱) مگرجو مطلب یہاں  پیش کرنا ضروری ہے اورجس کی تلاش میں  ہم ہیں    وہ قرآن اور دیگر کتب آسمانی کے مابین فرق کی وضاحت کرنا ہے اس کے بارے میں  بعض محققین نے یوں  کہاہے:

'' سابقہ آسمانی کتب میں  جوتحریف واقع ہوئی ہے اس سے مراد تحریف معنوی یاتفسیر بالرائے ہے کہ جس کے وقوع اورثبوت پر قرآن کریم صریحاً دلالت کرتا ہے ۔ لیکن وہ تحریف جس سے کمی بیشی مراد لی جاتی ہے اس کاکتب سابقہ میں  ہونے پر قرآن مجید میں  کوئی اشارہ نہیں    ملتا ، اورعلماء کی عبارات اور روایات میں  بھی کوئی قرینہ اور شاہد نہیں    پایا جاتا۔ ( ۲)بلکہ ایسی تحریف سے تورات یاانجیل اور دیگر کتب آسمانی ان کے علماء کے یہاں  محفوظ ہونے کو قرآن صراحتاً بیان کرتا ہے ، چنانچہ ارشاد ہوتاہے :

'' ولو انّهم اقامو التورٰة والانجیل وماانزل الیهم من ربهم لاکلوا من فوقهم ومن تحت ارجلهم ...''

اوراگر وہ لوگ تورات اورانجیل اورجو صحیفے ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف

................................

۱۔ البیان ، ص۲۲۱۔

۲۔صیانۃ القرآن علی التحریف ، ص۹۴

۲۸

سے نازل کئے گئے تھے ان کے احکام پر قائم رہتے تو ضروران کے پروردگار کی طرف سے ان پر اوپر سے رزق برس پڑتا اورپاؤں  کے نیچے سے بھی ابل آتا۔

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ کی طرف سے ابدی معجزہ بن کر آیا ہے اس لئے ضروری ہے ہرقسم کی تحریف اورکمی وبیشی اورتبدیلی وغیرہ سے محفوظ رہے ، جبکہ دوسری آسمانی کتب اللہ کی طرف سے ابدی معجزہ کے طور پر نہیں    آئی ہےں ۔

ساتواں  مطلب

قرآن کے مراحل اور درجات

اہم نکات میں  سے ایک یہ ہے کہ کس قرآن یا دوسرے لفظوں میں موجودہ قرآن کے کس مرحلے نزاع و اختلاف ہے؟ جیسا کہ واضح ہے اور خود قرآن کریم سے بھی استفادہ ہوتا ہے کہ اس مقدس کتاب کے کئی ایک مراحل اور درجات ہیں  ۔

پہلا مرحلہ : لوح محفوظ ہے ، کہ اس مرحلہ میں  واضح اور روشن ہے کہ قرآن قابل تحریف نہیں    ہے اس مرحلہ میں  کسی بشر اورانسان کی رسائی ممکن نہیں  بلکہ قرآن کریم اللہ کے ہاں ہرقسم کی آفت اور آسیب سے محفوظ ہے ۔

دوسرا مرحلہ : جبرئیل کے ذریعہ پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہونا ، اس مرحلہ میں  بھی قرآن میں  تحریف کا تصور نہیں    کیا جاسکتا، کیونکہ جبرئیل اللہ کے فرشتوں  میں  سے ایک مقرب فرشتہ ہے جو عصمت کامالک ہے اورہر قسم کی خطااور اشتباہ وغیرہ سے پاک وپاکیزہ ہے ۔

۲۹

تیسرا مرحلہ : قرآن کریم کاپیغمبر اکرم (ص) کے ذریعہ سے لوگوں  تک پہنچنا یعنی جس قرآن کریم کو جبرئیل نے قلب مطہر رسول اسلام (ص) پر نازل کیا تھا پیغمبر اسلام (ص) نے بغیر کسی کمی وبیشی کے لوگوں  تک پہنچایا۔ واضح ہے کہ اس مرحلہ میں بھی کوئی تحریف نہیں    ہوئی ہے کیونکہ قرآن خود پیغمبر اسلام کے زمانے میں  ایک کتاب کی شکل میں  جمع کیا جا چکا تھا اوربہت سارے اصحاب کرام حافظ قرآن تھے اور انہوں نے ہی آنے والے لوگوں  کے لئے سینہ بہ سینہ اسی قرآن کوتواتر کی شکل میں  منتقل کیا ہے ۔

چوتھا مرحلہ : جس قرآن کا تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچنے کا دعوا کرتے ہیں    یادوسرے لفظوں  میں  جو قرآن آج ایک کتاب کی شکل میں  مخطوط یا مطبوعہ موجود ہے وہ قرآن کے نام سے اللہ کی طرف سے نازل شدہ ایک حقیقت ہے اوربدیہی ہے کہاس میں  تحریف یعنی قرات کی اختلاف وغیرہ کے بارے میں  اختلاف رائے ہے ، ایسی تحریف قرآن مجید کے مراحل میں  سے چوتھے مرحلہ میں  قابل تصور اورممکن ہے ، نیز تحریف یعنی کمی وبیشی کاامکان اور تصور بھی اس مرحلہ میں  ناممکن نہیں  ہے۔ اور جس قرآن کے تحریف ہونے یانہ ہونے کے بارے میں  اختلاف اور جھگڑا ہے وہ ایک حقیقت ہے جو وحی منزل اورکلام حق کی صورت میں  ہم تک تواتر کے ساتھ پہنچا ہے جس کی حفاظت کے بارے میں  خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایاہے :

'' وانّا له لحافظون '' اورہم ہی اس کے محافظ ہیں  ۔ یہاں  کلمہ '' لہ'' کی ضمیر''نازل شدہ ''کی طرف لوٹتی ہے جوقرآن اور ایک حقیقت ہونے کوبیان کرتی ہے ۔ جبکہ قرآنوں  کا تصور تحریف کو بیان کرتا ہے اور اس میں شک نہیں  کہ متعدد ہونے کی صورت میں ان میں تحریف کا امکان ہے۔

۳۰

اس بیان کی روشنی میں بعض محدثین ( ۱)نے کہا ہے کہ قرآن کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ اللہ اپنی کتاب کا محافظ ہے اس سے مراد نزول کا مرحلہ ہے جس طرح لوح محفوظ کے مرحلہ میں  قرآن ہر آفت اورآسیب وتحریف سے محفوظ ہے اسی طرح اس مرحلہ ( مرحلہ نزول) میں  بھی اللہ اس کامحافظ ہے ، نہ یہ کہ اللہ تدوین شدہ قرآن اور صحف کامحافظ ہے ۔

یہ ایک باطل توجیہ ہے کیونکہ اس توجیہ پر کوئی دلیل اور شاہد موجود نہیں    ہے بلکہ قرآن معجزہ ہونے کے حوالے سے اس کی نفی کرتا ہے ، چونکہ جس مرحلہ میں  تحریف اورکمی وبیشی عقل کی رو سے ممکن نہیں    ہے اس میں  اللہ کی طرف سے قرآن کی حفاظت کرنا اعجاز نہیں    کہلاتا ہے ۔

...........................

۱۔فصل الخطاب ،ص۳۶۰

۳۱

آٹھواں  مطلب

عقل کی رو سے تحریف کا امکان اورعملی طور پر واقع نہ ہونا

آیہ شریفہ '' حفظ'' سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم میں  تحریف عقلی اعتبار سے محال نہیں    ہے لیکن اللہ نے ہی قرآن کو اس کے امکان اور تصور سے بچانے کا وعدہ فرمایا ہے کیونکہ اگر عقل کی روشنی میں  تحریف بالکل محال اور ناممکن ہوتی تو اللہ کے محافظ ہونے کا تصور ہی غلط ہوجاتا ۔ لہذا قرآن میں  تحریف کا ہونا عقلاً ممکن ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس امکان محض سے بچانے کا قطعی وعدہ کیا ہے اس لئے عملی طور پر قرآن کریم ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہے اور خداوند عالم نے قرآن میں تحریف کے وقوعی اور عملی امکان کو بھی رد کیا ہے۔

نواں  مطلب

کیا قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر قرآن سے دلیل لانے سے دور لازم آتا ہے ؟

بہت سارے بزرگ علماء نے قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر آیات قرآن سے استدلال کیا ہے ؛ لیکن ہم یہاں  جس چیز پر تحقیق کریں  گے یہ ہے کہ کیا نظریہ تحریف کو غلط اورباطل قرار دینے کے لئے آیات قرآن سے استدلال کرنے سے دور لازم نہیں    آتا (جوعقلاًمحال ہے) بعض کا نظریہ ہے کہ تحریف کے نہ ہونے پر آیات سے استدلال کرنا'' دور '' ہے جس کے لئے انہوں  نے دو قسم کے استدلال بیان کیا ہے۔

۳۲

۱۔ پہلی دلیل: کتاب میں تحریف کا نہ ہونا ان آیات کے حجت ہونے پر موقوف ہے جبکہ ان آیات کی حجیت تحریف نہ ہونے پر موقوف اس بنا پر تحریف کا نہ ہونا خود تحریف نہ ہونے پر موقوف ہے جو دور ہے۔

۲۔ دوسری دلیل: یہ ہے کہ نفی تحریف پرجن آیات سے استدلال کیا ہے ان کی حجیت قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر مبنی اورموقوف ہے جب کہ دوسری طرف سے نفی تحریف خود ان آیات کی حجیت پر موقوف ہے نتیجتاً آیات کریمہ کی حجیت خود آیات کی حجیت پر موقوف ہے یہ ایسا ناممکن کام ہے کہ جس کو علیت میں  دور سے تعبیر کیا جاتا ہے جو محال ہے ۔اس شبہہ اور اعتراض کے کئی جوابات دئے گئے ہیں    ۔ہم ان کا جائزہ لیتے ہیں  ۔

پہلا جواب :

مرحوم محقق خوئی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی گرانبہا کتاب البیان میں  اس کا جواب یوں  دیا ہے :

''جولوگ ائمہ معصومین علیہم السلام کی خلافت اور ولایت کو قبول نہیں    کرتے وہ اس شبہہ اور اعتراض کاجواب دینے سے عاجز ہیں    لیکن جو لوگ ان بزرگواروں  کی خلافت اورولایت کے معتقدہیں    اوران حضرات کو قرآن کریم کے واقعی اور حقیقی مفسر اور قرآن کے قرین سمجھتے ہیں    وہ ایسے شبہہ کا جواب بہت ہی آسان طریقہ سے دے سکتے ہیں    ، کیونکہ ائمہ معصومین علیہم السلام نے موجودہ قرآن کی آیات سے استدلال کیا ہے اور اصحاب کرام نے جن آیات سے استدلال کیا تھا ان کی تائید اور تصدیق فرمائی ہے ۔ پس اگرچہ قرآن کی تحریف ہوئی ہو پھر بھی اس کی حجیت باقی ہے کیونکہ جہاں  کہیں    ائمہ معصومین علیہم السلام نے آیات سے استدلال کیا ہے ان کی حجیت ثابت اور واجب العمل ہے ، اور ان سے ہم بھی تمسک کرسکتے ہیں    ۔

۳۳

لیکن یہ جواب اشکال سے خالی نہیں    کیونکہ اول آپ کایہ جواب ان کے لئے ہے جو اہل بیت عصمت علیہم السلام کے معتقد اور شیعہ امامیہ ہوں  لیکن ایسے اعتراض کے لئے اس طرح کا جواب دینا صحیح نہیں    ہے بلکہ ایسا جواب در کار ہے جوسب کے لئے قابل قبول اور مفید ہو۔

دوسرایہ کہ: یہ جواب دینا در حقیقت شبہہ اور اشکال کو قبول کرنا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس بنا پر تحریف کی نفی پر دلالت کرنے والی آیات سے ہم عدم تحریف کو ثابت نہیں    کرسکتے بلکہ نفی تحریف پر ہم نے آیات قرآنی اور معصومین علیہم السلام کی تائیدکوایک دوسرے کے ساتھ ضمیمہ کرکے استدلال کیاہے اس طرح استدلال کرنا اور جواب دینا مدعاکے خلاف ہونے کے ساتھ حدیث ثقلین کے ظاہرکے بھی خلاف ہے جس سے بخوبی واضح ہوتاہے کہ قرآن کریم '' ثقل اکبر''کی حیثیت سے کسی چیز کے ضمیمہ کئے بغیر خود ایک مستقل دلیل اور حجت ہے ۔

دوسرا جواب

جولوگ قرآن میں  تحریف کے دعویدار ہیں    وہ تحریف کے دائرہ کو محدود سمجھتے ہیں    یعنی تحریف صرف ان آیات میں  واقع ہوئی ہے جن کی طرف کچھ روایات میں  اشارہ کیا گیا ہے لیکن جن آیات سے تحریف نہ ہونے پر استدلال کیا جارہا ہے وہ ان تحریف شدہ آیات میں  سے نہیں    ہیں  دوسرے الفاظ میں تحریف کے دعویدار ان آیات میں  تحریف نہ ہونے پر اعتقاد رکھتے ہیں    ، لہذا ان سے استدلال کرنے سے دور لازم نہیں    آتا ۔

۳۴

یہ جواب بھی اشکال اور اعتراض سے خالی نہیں    ہے کیونکہ تحریف کے بارے میں  دو نظرئےے پائے جاتے ہیں    :

پہلا نظریہ :یہ ہے کچھ لوگوں  کا عقیدہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق چند معین موارد میں  آیات کریمہ میں  تحریف واقع ہوئی ہے اس نظرئےے کے مطابق جواب درست ہے ۔

دوسرانظریہ : یہ ہے کہ کچھ لوگ قرآن میں  تحریف ہونے پر علم اجمالی کے دعویدار ہیں    قطع نظر اس کے کہ روایات کی روشنی میں  تحریف کے قائل ہون اور علم اجمالی جس کا دائرہ وسیع ہے جن آیات سے عدم تحریف پر استدلال کیا گیا ہے وہ بھی اس میں  شامل ہوسکتی ہیں    ، لہذا اس نظریہ کی بنا پر یہ دوسرا جواب صحیح نہیں    ہے۔

تیسرا جواب :

بعض محققین اس اعتراض کاجواب یوں  دیتے ہیں    :

'' جن آیات سے قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر استدلال ہوا ہے ان میں  تحریف نہ ہونے پر اجماع قائم ہے ''۔ ( ۱ )

مگریہ جواب بھی بحث طلب ہے کیونکہ جو لوگ قرآن میں  تحریف ہونے پر علم اجمالی کے دعویدار ہیں    اس میں  وہ آیات بھی شامل ہیں    کہ جن سے نفی تحریف اور عدم تحریف پر استدلال کرچکے ہیں    یادوسرے لفظوں  میں  یوں  کہا جائے کہ وہ آیات

اجماع کے اندر داخل نہیں    ہوسکتیں  ورنہ ان کے نظریے کی موجودگی میں  اس کالازمہ

...............................

۱۔اکذوبۃ تحریف القرآن ،ص۴۔

اس کا عدم ہے جومحال ہے ۔

۳۵

چوتھا جواب:

ہمارے والد گرامی محقق فقیہ معظم (آیۃ اللہ العظمی فاضل لنکرانی) نے اس مشکل کو یوں  حل فرمایاہے (۱ )کہ جن آیات سے قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر استدلال کیا گیا ہے ان کے بارے میں  یہ دیکھنا چاہئےے کہ ہم آیات سے کن کے مقابلے میں  استدلال کررہے ہیں    ، اگرہم آیات سے ان لوگوں  کے مقابل میں  استدلال کررہے ہیں    جو قرآن میں  تحریف کے قائل ہیں    جس پر روایات دلالت کرنے کے دعویدار ہیں    اس صورت میں  آیات سے عدم تحریف استدلال کرنے کا لازمہ دور نہیں    ہے کیونکہ ایسی آیات یقینا تحریف کے موضوع سے خارج ہیں    ۔

لیکن اگر ہم آیات سے ان لوگوں  کے مقابلے میں  استدلال کررہے ہیں    جو قرآن میں  تحریف کے قائل ہیں    اور اس کی دلیل علم اجمالی سمجھتے ہیں    تو اس کے دو مفروضے ہیں    :

پہلا مفروضہ: یہ ہے کہ تحریف کا قائل ظواہر کتاب کوحجت مانتاہے چاہے تحریف شدہ ہو ایسی صورت میں  دو ر کا اشکال نہیں    ہوسکتا کیونکہ آیات اپنی ظاہری حجیت پر باقی ہیں    اور تحریف کی مذکورہ قسم ظاہری حجت کے لئے کوئی مانع نہیں    اس کانتیجہ یہ ہے

.............................

۱۔مدخل التفسیر ، ص۲۰۲

۳۶

کہ آیات سے استدلال کرنے میں  کوئی اعتراض نہیں    ۔

دوسرا مفروضہ: یہ ہے کہ تحریف کا قائل تحریف کو کتاب کی ظاہر حجیت کے لئے مانع جانتا ہے اس صورت میں  یاعلم اجمالی کے ذریعے کتاب میں  تحریف کو واقع سمجھتا ہے یا اجمالی یقین کا مسئلہ نہ ہو بلکہ تحریف کا احتمال پیدا ہوجائے تو پہلی صورت میں آیات سے استدلال نہیں  کیا جاسکتا چاہے تحریف کے مفروضے میں  حجیت پر باقی کیوں  نہ ہو ۔ کیونکہ علم اصول میں  یہ ثابت ہے کہ ایسے ظواہر جو شرعی نشانیوں  کی وجہ سے ظنی ہیں    وہ اس صورت میں  معتبر ہیں    کہ اس کے خلاف یقین نہ ہو ۔ اس بنا پر ایسے مفروضے کی صورت میں  آیات شریفہ قابل استدلال نہیں    رہتی دوسری صورت یعنی یقین کے بغیر صرف احتمال تحریف آیات کی حجیت کے لئے مانع نہیں    ہوسکتی اور آیات کے ذریعے استدلال کرنا اشکال سے خالی ہے ۔

اس جواب میں  بھی تحریف کے علم اجمالی کی صورت میں  آیات سے استدلال کرنا کمزوری ہے۔

پانچواں  جواب

جو کچھ ہمیں  نظر آتا ہے یہ ہے کہ جس طرح دیگر حوادث کچھ علل واسباب کا نتیجہ ہوتے ہیں    اسی طرح تحریف بھی بغیر علت اور سبب کے نہیں    ہوسکتی ہے ۔ چونکہ تحریف قرآن کے اسباب وعوامل بہت زیادہ ہیں    لہذا اگران آیات میں  تحریف ہوتی کہ جن سے عدم تحریف پر استدلال کرتے ہیں    تو اس طرح تحریف واقع ہونی چاہئیے کہ ان میں  کمی اور نقص واقع ہوجائے کہ پھر ان سے عدم تحریف پر استدلال کرنا ساقط ہوجائے مثال کے طور پر آیت'' حفظ '' وانا لہ لحافظون '' کے جملے یاکم از کم کلمہ '' لہ'' جو کہ قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر واضح دلیل ہے ، کو حذف کردینا چاہئیے تھا

۳۷

جبکہ ایسے جملے اور الفاظ آیات میں  موجود ہیں    جس سے ہمیں  قرآن میں  تحریف نہ ہونے کایقین یاکم از کم اطمینان حاصل ہوتا ہے اور ایسے موارد میں  جہاں  قرآن کی کسی اور آیت یاجملہ میں  تحریف ہونے کا علم اجمالی ہو جیسے کہ ان آیات میں  ہم عمومی یقین اس کے برخلاف رکھتے ہیں    جس کے نتیجے میں  ایسے موارد علم اجمالی کے دائرے سے خارج ہوتے ہیں    ۔

      دسواں  مطلب

تحریف کے بارے میں  دو دعوے

گذشتہ مطالب سے بخوبی روشن ہوا کہ تحریف کے بارے میں  دو دعوے پائے جاتے ہیں    :

پہلا : کچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں    کہ تحریف کا دائرہ محدود ہے یعنی تحریف صرف ان آیات میں  ہوئی ہے کہ جن کے بارے میں  روایات وارد ہوئی ہیں    لہذا جن آیات کے بارے میں  روایات وارد نہیں    ہوئی ہیں    وہ ہر قسم کی تحریف ، تبدیلی اورکمی وبیشی سے محفوظ ہیں  ۔ جس کو ثابت کرنے کے لئے انہوں  نے ظواہر کتاب سے استدلال کیا ہے عام طور پر یہ دعویٰ وہ لوگ کرتے ہیں    جوتحریف قرآن میں ان روایات کو سند کے طور پر پیش کرتے ہیں  جو بعض حدیث کی کتب میں موجود ہیں  ۔

دوسرا : کچھ لوگ قرآن میں  اجمالی طور پر تحریف واقع ہونے کے معتقد ہیں    دوسرے الفاظ میں یہ لوگ قرآن میں  تحریف ہونے پر علم اجمالی کے دعویدار ہیں    ۔ جولوگ اس نظرئےے کے قائل ہیں    انہوں  نے تحریف کے سلسلے میں  دلیل اور سند کے طور پر دلیل اعتبار اور اس کی مثالیں پیش کی ہیں  ۔ ( ۱ )

............................

۱۔اس دلیل کی وضاحت کے لئے مراجعہ کریں  ، مدخل التفسیر ،ص۲۹۲

۳۸

گیارہواں  مطلب

تحریف نہ ہونے پر عقلی اور عقلائی دلیل کا تجزیہ

بعض صاحب نظر افراد کی عبارات سے استفادہ ہوتا ہے کہ تحریف کے بطلان پر انہوں  نے عقلی دلیل اور سیرت عقلاء سے تمسک کیا ہے ، مرحوم سیدابن طاؤوس نے کتاب سعد السعود میں  صراحت کی ہے کہ قرآن میں  تحریف نہ ہونے پردلیل عقلی ہے جبکہ دوسرے بعض محققین اس مسئلہ پر سیرت عقلاء ( ۱ ) سے استدلال کرتے ہیں  ۔

دلیل عقلی کی وضاحت

عقلی دلیل کو بیان کرنے کے دوصورتیں ہیں    : پہلا بیان : جناب مرحوم خوئی (رح) ( ۲ ) کی عبارات میں  عقلی دلیل کو ایک غیر مستقل دلیل کے طور پر ذکر کیا ہے۔ اس کا خلاصہ ہم یہاں  نقل کرتے ہیں    ۔ تحریف کا احتمال تین صورتوں  سے خالی نہیں    ، کسی پہلی صورت چوتھی صورت کا تصور عقل کی رو سے محال اور نا ممکن ہے قرآن کی تحریف عثمان کے دور خلافت سے پہلے جناب ابوبکر اورعمر کے دور میں  ان کے ہاتھوں  ہوئی ہو ، یہ صورت یقینا باطل ہے

..........................

۱۔ گفتار آسان درنفی تحریف

۲۔ البیان صفحہ ۲۱۵

۳۹

کیونکہ یہ صورت تین احتمالات میں  سے کسی ایک سے خالی نہیں    :

پہلا احتمال : تحریف جوہوئی ہے وہ لاشعوری تھی یعنی حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد جناب ابو بکر اورجناب عمر نے قرآن کی جمع آوری کاکام شروع کیا ، لیکن پورے قرآن پر احاطہ نہ ہونے کی وجہ سے یاپورے قرآن کریم کے دستیاب نہ ہونے کی بنا پر کچھ آیات یاجملے رہ گئے ہیں    جس کا نتیجہ تحریف قرآن کی صورت میں  نکلا۔

دوسرا احتمال : قرآن میں  تحریف اور تبدیلی ان کی طرف سے جان بوجھ کر واقع ہوئی ہے اوروہ بھی ایسی آیات میں  جوان کی حکومت اورخلافت کے لئے کوئی ٹکراؤ یاضرر پہنچانے کا باعث نہیں  تھیں ۔

تیسرا احتمال : تحریف عمداً اور جان بوجھ کرواقع کی گئی ہے اوروہ بھی ان آیات میں  جوان کی حکومت اورخلافت کے ساتھ ٹکراتی تھیں  ۔ چنانچہ تحریف کے قائلین میں  سے بعض اسی احتمال پر بھروسہ کرتے ہیں    ۔

لیکن یہ تینوں  احتمالات غلط اورباطل ہیں    کیونکہ ان تینوں میں  سے پہلا احتمال دو صورتوں  سے باطل ہے ۔

۱۔ یہ بات مسلمانوں  کے یہاں  مسلم اوربدیہی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے رحلت سے پہلے قرآن کی حفاظت اس کی قرائت اور ترتیل قرآن کے ساتھ تلاوت کرنے کا مخصوص اہتمام فرمایاتھا اورصحابہ کرام نے بھی اس مسئلہ کو بہت زیادہ اہتمام کے ساتھ انجام دیا لہذا یقینی ہے کہ قرآن کریم ان دونوں  کے دور میں  ہرقسم کے نقص اور زیادتی سے محفوظ تھا۔ اگرچہ قرآن کی جمع آوری دونوں  کے دور میں  ہوئی تھی یاجمع آوری کے بغیر متفرق شکل میں  مکمل طور پر موجود تھا یالوگوں  کے سینوں  یاکاغذوں  پر کسی قسم کی کمی وبیشی کے بغیر موجود تھا ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس زمانہ میں  عرب جاہلیت کے اشعار کو یاد اورحفظ کرنے کو اتنی اہمیت دیں  لیکن پیغمبر اکرم (ص) اور قرآن کے معتقد ہونے کے باوجود اس کی حفاظت نہ کریں !۔

۴۰

2۔ حدیث ثقلین سے بھی اس احتمال کاغلط اور باطل ہونا واضح ہے کیونکہ اس حدیث کامضمون یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے لوگوں  کواپنے زمانے میں  ہی کتاب الہیٰ سے تمسک کرنے کا حکم دیا ہے اگر فرض کریں  کہ چند آیات ان سے ضائع ہوگئی ہوں  تو اس کتاب مدوّن اور آیات کے مجموعہ سے تمسک ممکن نہیں    رہتا۔

دوسرا احتمال بھی غلط اورباطل ہے کیونکہ جہاں  تحریف عمدی ہوتو وہ بغیر سبب اورانگیزہ کے نہیں    ہوسکتی ، اگرتحریف ان آیات میں  جان بوجھ کرکی گئی ہو جن سے جناب ابوبکر اور عمر کی حکومت اور خلافت کے لئے کوئی ضرر نہیں    پہنچتا تھا تو ایسی آیات میں  تحریف کرنے کا سبب کیاہے ؟ لہذا یہ احتمال بھی صحیح نہیں    ہے ۔ نیز تیسرا احتمال بھی صحیح نہیں    ہے کیونکہ اگر اس طرح تحریف ہوتی تو دوسرے لوگ جو ابوبکر اور عمر کی حکومت اور خلافت کے مخالف ہیں    جن میں  سرفہرست حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اور حضرت صدیقہ ئ زہرا سلام اللہ علیہا اور دیگر بارہ افراد جو انصار ومہاجرین کے تھے اس مسئلہ کو ابوبکر اورعمر کی خامیوں  اوران پر ہونے والے اعتراضات میں  ذکر کرتے ، ان کے خلاف کے گئے احتجاجات میں  اس کاتذکرہ ہوتا جبکہ ان کے کلمات اور احتجاجات میں  ایسانظر نہیں    آتا، لہذا اس بحث کانتیجہ یہ ہے کہ ابوبکر اور عمر کے دور خلافت میں  تحریف ہونے کا قائل ہونا مردود اور باطل ہے ۔

۴۱

دوسری صورت

عثمان کے دور خلافت میں  تحریف ہوئی ہے ، یہ نظریہ گذشتہ نظریے کی نسبت بہت زیادہ ضعیف اور کمزورہے کیونکہ :

1۔ عثمان کے دور میں  اسلام کی نشر واشاعت اس قدر ہوئی تھی کہ کسی کو قرآن کی کسی آیت کو مٹانا یاکسی آیت کااضافہ کرنا ممکن نہیں    تھا ۔

2۔ اگرعثمان کے دور میں  تحریف ان آیات میں  ہوئی ہو جو اہل بیت عصمت وطہارت علیہم السلام کی ولایت اور خلافت سے مربوط نہیں    ہیں    تو ان میں  تحریف کرنے کاسبب اورہدف قابل تصور نہیں    ہے ، نیز ولایت ائمہ علیہم السلام سے متعلق آیات میں بھی ان کے زمانے میں  تحریف نہ ہونے کایقین ہے ، کیونکہ اگر قرآن کی کوئی آیت صریحاً حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی خلافت اور ولایت ثابت کرنے کے لئے ہوتی تو وہ آیت لوگوں  میں  شائع ہوتی اور عثمان تک خلافت نہ پہنچتی ۔

3۔ اگر عثمان قرآن میں  تحریف کرتا تو عثمان کے مخالفین کے لئے یہ مسئلہ ان کے خلاف قیام کرنے کا بہترین بہانہ اور عذر تھا جبکہ ان کی طرف سے کوئی ایسی چیز احتجاج کی شکل میں  نظر نہیں    آتی ۔

4۔اگر تحریف عثمان کے دور خلافت اور عثمان کے ہاتھوں  ہوئی ہوتی تو حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام عثمان کے بعد مسلمانوں  کاخلیفہ اور حاکم ہونے کی حیثیت سے قرآن کو اسی طرح ترتیب دینا چاہئےے تھاجس طرح پیغمبر اکرم (ص)پرنازل ہوا تھا جبکہ ایسی کوئی بات تاریخ میں  نہیں    ملتی ، پس یہ صورت بھی باطل اور غلط ہے ۔

۴۲

تیسری صورت

قرآن میں  تحریف عثمان کے دور خلافت کے بعد نبی امیہ کے خلفاء یاان کے ایجنٹوں  کے ہاتھوں  ہوئی ہے ۔ یہ ایسی صورت ہے جس کاسابقہ صورتوں  کی طرح کسی محقق یامورخ نے دعویٰ نہیں    کیا ہے ۔ اور چوتھی صورت بھی عقلاً ممکن نہیں    ہے ۔ لہذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن میں  تحریف ہونے کانظریہ سرے سے ہی غلط اور باطل ہے ،چونکہ عقلی اعتبار سے کوئی چوتھی صورت موجود نہیں    لہذا ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں    کہ عقلی اور تاریخی اعتبار سے تحریف قرآن کامسئلہ باطل اور مردود ہے ۔ یہاں  یہ بھی یادرہے کہ یہ دلیل صرف عقلی حکم سے ثابت نہیں    بلکہ تاریخی تجزیہ بھی ساتھ ہے

دلیل عقلی کا دوسرا بیان

اس بیان کی وضاحت کے لئے دو مقدموں  کی ضرورت ہے :

پہلامقدمہ : شریعت اسلام ادیان الہیٰ میں  سے کامل ترین دین ہے اور لوگوں  کے لئے قیامت تک رہنے والا آئین ہے ۔

دوسرا مقدمہ : ایسے دین اورآئین کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسی دائمی سند اور دستور العمل بھی اس کے ساتھ ہو ، تاکہ لوگ اس کے مطابق عمل کرسکیں ۔

جب ان دو مقدموں  کو ایک دوسرے سے ملائیں  تو نتیجہ نکلتا ہے کہ شارع کو چاہئےے کہ اپنی کتاب کو ہر قسم کی تحریف اور کمی بیشی سے محفوظ رکھے ۔لہذا عقل کی رو سے شارع (اللہ ) پر لازم ہے کہ قرآن کو تحریف جیسی ظلمت سے محفوظ رکھے۔

۴۳

یہ دلیل عقلی بھی شک سے خالی نہیں    ہے کیونکہ عقل قضیہ شرطیہ کے طور پر حکم دیتی ہے کہ قرآن تمام عالم انسانیت کے لئے قیامت تک ان کی زندگی کے تمام مراحل میں  رہنمائی اور ہدایت کے لئے ہے تو تحریف سے محفوظ ہونا چاہئےے لیکن یہ مقدار محل بحث کے لئے مفید نہیں  ہے کیونکہ ہمارا محل بحث تحریف کا واقع ہونایا نہ ہونا ہے اور عقل اس مسئلے میں مستقل طور پر دخالت نہیں  کرسکتی ۔

سیرت اوربناء عقلاء :

بعض علماء نے قرآن کریم میں  تحریف نہ ہونے پر بنا عقلاء اور ان کی سیر ت سے استدلال کیا ہے ا ور اس کی ضاحت یوں  کرتے ہیں    :

'' ہر کتاب میں  لکھی ہوئی بات اور کلام میں  تبدیلی اور تحریف عادت اور فطرت کے خلاف ہے ، پس ایسی تبدیلی اجباری اورغیر عادی ہے ۔ لہذا عقلاء کی سیر ت یہ ہے کہ ایسی تحریف اور تغییر کا اعتنا نہیں    کرتے ۔ اس نظرئےے کی بنا پر قرآن کا تحریف سے محفوظ رہنا ایک امر طبیعی ہے جبکہ تحریف کا احتمال خلاف طبیعت ہے ۔ لہذا یہی اصل اور قانون اوّلیہ کاتقاضا ہے جو بدیہی ہے اورسب کے پاس مسلم ہے ۔ ( 1 )

لیکن یہ دلیل ان کتابوں  کے بارے میں  مفید ہے جن میں  تحریف ہونے کے مختلف انگیزے اور اغراض نہ پائے جاتے ہوں  لیکن قرآن جیسی کتاب میں  کفار او رملحدین کی طرف سے تحریف کے مختلف انگیزے پائے جاتے ہیں    اس میں  تحریف نہ ہونا اس دلیل میں شامل نہیں  ہیں    ۔

...........................

1۔ گفتار آسان در نفی تحریف قرآن ص12

۴۴

بارہواں  مطلب

تحریف کے نہ ہونے پر واضح ترین آیت شریفہ

محققین کے ایک گروہ نے دعویٰ کیا ہے کہ قرآن میں تحریف نہ ہونے پر دلالت کرنے والی آیات میں  سے واضح ترین آیت یہ ہے :

''و انّه لکتاب عزیز لا یاتیه الباطل من بین یدیه و لا من خلفه تنزیل من حکیم حمید'' ( 1 )

''اور یہ قرآن تویقینی ایک عالی مرتبہ کتاب ہے جس میں سامنے یا پیچھے کسی بھی طرف سے باطل نہیں  آسکتا ہے کہ یہ خوبیوں والے حکیم کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب ہے''۔

بعض مفسرین نے دعوا کیا ہے کہ اس آیت شریفہ کے عدم تحریف پر واضح ترین دلیل ہونے پر سارے مفسرین کا اجماع ہے۔ ( 2 )

لہٰذا اس آیت شریفہ سے نفی تحریف پر کئی طریقوں  سے استدلال کیا گیا ہے :

پہلا طریقہ:یہ بات واضح ہے کہ اللہ نے اپنی کتاب کی صفت کو لفظ عزت سے متصف کیا ہے ۔ عزت کا تصور لغت کے حوالے سے وہاں صحیح ہے جہاں  ہر قسم

..........................

1۔فصلت /41،42

2۔صیانۃ القرآن عن التحریف ص33

۴۵

کی تبدیلی اور کمی بیشی سے تحفظ حاصل ہو۔ ( 1 )

دوسرا طریقہ:اس آیت شریفہ میں ایک طرف سے طبیعت اور باطل کی نفی ہو رہی ہے اور قاعدے کے مطابق ایسے موارد میں  عموم کا فائدہ دیتی ہے دوسرے الفاظ میں یوں  کہا جاسکتا ہے کہ آیت شریفہ قرآن سے ہر قسم کے باطل کی نفی کرتی ہے اور ہر وہ چیز جو خراب یا فاسد ہو یا کچھ حصہ اس سے ضائع ہوا ہو اس کو عربی زبان میں  باطل کہا جاتاہے ۔پس مسلّم اور بدیہی ہے کہ کلمہئ تحریف ،باطل کے مصادیق میں سے واضح ترین مصداق ہے۔

تیسرا طریقہ:اس آیت میں  اللہ نے ''لایاتیہ الباطل ''یعنی ہر قسم کے باطل کی گنجائش قرآن میں نہیں  ہے ۔اس کی علت کو ا س طرح ذکر کیا ہے کہ کیونکہ یہ کتاب ایسی ہستی کی طرف سے نازل ہوئی ہے جو حکیم اور حمید ہے یہ جملہ واضح کرتا ہے کہ ایسی کتاب جو کسی حکیم و حمید کی طرف سے آئی ہے اس میں  کسی قسم کی تحریف اور تبدیلی کا

آنا حکمت کی صفت کے ساتھ مناسب ہے ۔مرحوم حاجی نوری ( 2 ) نے فرمایا:

''اگرچہ قرآن میں کسی قسم کی تبدیلی یا تغیر کا قائل ہونا باطل کے مصداق میں سے ایک مصداق ہے لیکن یہاں  آیت شریفہ میں  ہر باطل مراد نہیں  ہے بلکہ ایک خاص

..............................

1۔البیان ص211

2۔فصل الخطاب ص 361

۴۶

باطل مراد ہے جو قرآن میں ظاہری طور پر کچھ احکام اور اخبار میں  تناقض کی وجہ سے حاصل ہوجائے اللہ اس کی نفی کرنا چاہتاہے''۔

بعض محققین نے جناب محدث نوری کو یوں جواب دیا ہے :

''آیت شریفہ میں صرف احکام اور اخبارمیں تناقض کی نفی مراد لینا لفظ عزت کے ساتھ مناسب نہیں    ہے۔ ( 1 ) دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اس صفت کے ذکر کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کتاب ہر قسم کے باطل سے دور اور محفوظ ہے۔

اس جواب کی وضاحت اور تکمےل کی ضرورت ہے ۔ وہ ےہ ہے کہ اس آیت شرےفہ کا ظاہری معنیٰ جو ہر خاص و عام کے ذہن میں  آجاتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے اس کتاب کو کسی قید اور محدودیت کے بغیر بطور مطلق ''کتاب عزیز'' فرمایا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آیت شریفہ میں  کلمہ باطل سے صرف تناقض احکام اور اخبار کا ارادہ کرنا صحیح نہیں    ہے کیونکہ اگر کتاب الٰہی صرف تناقض احکام کے حوالہ سے عزیز اور باطل سے مصون ہو تولفظ''عزیز'' کو کسی محدودیت کے بغیر کتاب کی صفت قرار دینا خلاف ظاہر ہے ۔

......................

1۔ البیان ص211

۴۷

اشکالات

لیکن آیت شریفہ پر کئے گئے اعتراضات میں سے اہم ترین اعتراض یہ ہے کہ آیت کے ذکر شدہ معنیٰ اس تفسیر کے مخالف ہیں    جو شیعہ اور سنی کے مفسرین میں سے عظیم ترین مفسرین نے کی ہیں  ۔یعنی اس آیت کی کسی بھی مفسر نے اس طرح تفسیر نہیں    کی ہے کہ جس سے نفی تحریف کا احتمال دیے سکیں  ۔مثال کے طور پر مرحوم شیخ طوسی(رح) نے تفسیر تبیان میں آیت شریفہ کی تفسیر میں پانچ احتمال دیے ہیں  :

الف:لایاتیہ الباطل سے مراد قرآن میں کسی قسم کے شبہہ اور تناقض کی گنجائش نہیں 

ہے بلکہ قرآن خالص حق ہے ۔

ب:قتادہ اور سدّی نے فرمایا ہے :اس آیت شریفہ میں  اللہ تبارک و تعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ شیطان قرآن سے حق بات کو مٹانے اور کسی باطل کے اضافہ کرنے پر قادرنہیں    ہے ۔

ج:قرآن سے پہلے اور اس کے بعد اسے باطل کرنے والی کسی چیز کا نہ ہونا مراد ہے۔

د:حسن نے فرمایا :اس آیت سے قرآن کی ابتداء اور آخر میں کسی باطل کی گنجائش نہ ہونا مراد ہے ۔

ہ:قرآن نے گذشتہ اور آیندہ کے حوالے سے جو خبریں دی ہیں    اس میں باطل کی کوئی گنجائش نہیں  ہے ۔

جناب سید مرتضیٰ فرماتے ہیں    :اس آیت کے بارے میں بہترین تفسیر جو کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی کلام یا کوئی کتاب قرآن کی مانند اور مشابہ نہیں  ہو سکتی ہے ،قرآن وہ واحد کتاب ہے جو اپنے بعد کی کتب سے مشابہت نہیں  رکھتی اسی طرح اپنے سے پہلے والی کتب سے متصل بھی نہیں  یعنی قرآن کریم ہر حوالے سے بے مثال اور مستقل کلام ہے ،کسی بھی کلام کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بہتر اور برتر ہے ۔

۴۸

اس شبہے کا جواب یوں  دیا جا سکتا ہے ۔

پہلا جواب:مذکورہ تفاسیر اور معانی میں سے کچھ جیسے جناب قتادہ اور سدّی سے نقل کیا گیا ہے ،آیت کے ذریعہ قرآن سے تحریف کی نفی کرنے میں مناسب ہے۔

دوسرا جواب:اگر کسی بھی مفسر نے آیت میں کوئی ایسے معنیٰ کی طرف اشارہ نہ بھی کیا ہو جو نفی تحریف کے اثبات کے لئے مناسب ہو ،پھر بھی آیت کے ذریعہ نفی تحریف پر استدلال کرنا صحیح ہے کیونکہ کسی آیت اور کلام کی تفسیر کرنے کے اصول و ضوابط میں  سے ایک یہ ہے کہ کلام اور آیت کے ظاہری معنیٰ کو مدنظر رکھیں اور آیت کا ظاہر ی معنیٰ کسی شک کے بغیر ہمارے مطلب پر دلالت کرتا ہے اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ مفسرین نے مذکورہ معانی پر کوئی معتبر دلیل ذکر نہیں  کی تھی لہٰذا ان کا ہر نظریہ اور تفسیر قابل قبول نہیں    ہے لیکن اس وقت جب ان کی تفسیر پر معصوم سے منقول کوئی روایت ہو ۔

تیسرا جواب:وہ روایات جو لفظ باطل کی وضاحت اور تفسیر میں  آئی ہیں    وہ آیت شریفہ کو اسی میں  منحصر کرنے کے درپے نہیں  بلکہ آیت کریمہ کے مصادیق کو بیان کرتی ہیں    ۔

۴۹

تیرہواں مطلب

کیا تحریف کے قائل ہونے سے ظواہر کتاب کا حجیت سے ساقط ہونا لازم آتا ہے ؟

کیا تحریف کے قائل ہونے کے بعد ہم کتاب کے ظواہر سے استدلال نہیں  کر سکتے ہیں    ؟یہ سوال اس وقت صحیح ہے اگر تحریف کا دعویٰ کرنے والا علم اجمالی کی رو سے تحریف کا قائل ہو۔

بعضوں  نے کہا ہے کہ'' ایسے مفروضے کی صورت میں جس کسی آیت کی تحریف کا احتمال ہو اسے اہم عقلائی اصل سے وابستگی اختیار کرنی چاہیے جو ''عدم قرینہ '' ہے اور ظاہراً آیت سے استدلال کیا جائے دوسرے الفاظ میں تحریف شدہ کتاب کی حجیت کے لئے ہمیں  معصومین علیہم السلام کی تایید کی ضرورت نہیں  بلکہ ہم  اس عقلائی اصل کی روشنی میں ان کے ظواہر سے استدلال کرسکتے ہیں  ''۔ یہ بیان اور جواب اس صورت میں  صحیح ہے اگر عقلاء کسی کلام میں  قرینہ متصلہ یعنی متکلم کے کلام کےساتھ کوئی قرینہ ہونے کا احتمال دیں  پھر اصل عدم قرینہ سے تمسک اور استدلال کرنے کو صحیح سمجھے جبکہ عقلائی تحقیق کے مطابق جہاں  کہیں  کسی کلام میں  مخاطب اور سامع کوئی قرینہ منفصلہ '' یعنی متکلم کے کلام سے الگ کوئی قرینہ '' ہونے کا احتمال دے وہاں  قرینہ کی نفی کے لئے عقلاء عدم قرینہ سے تمسک کرنا صحیح سمجھتے ہیں    لیکن اگر کسی کلا م میں  قرینہ متصلہ ہونے کا احتمال ہو وہاں  اصل عدم قرینہ سے استدلال کر کے اس احتمال کی نفی کرنا صحیح نہیں    ہے اور مسئلہ تحریف پر علم اجمالی کے بعد احتمال کیا ہے کہ شاید کوئی قرینہ ہے جو تحریف کے نتیجہ میں  حذف کیاگیا ہے

۵۰

لہٰذا تحریف کے بارے میں  علم اجمالی کے مفروضے کی صورت میں  ظواہر کتاب سے تمسک کے لئے حضرات معصومین علیہم السلام کی تایید کے علاوہ اور کوئی چارہ نظر نہیں  آتا اور یہ مطلب حدیث ثقلین کے ظاہر کے خلاف ہے۔

چودہواں  مطلب

تحریف نہ ہونے پر حدیث ثقلین کی دلالت

تحریف کی نفی پر دلالت کرنے والی روایات میں سے اہم ترین روایت حدیث ثقلین ہے جو متواتر ہے ،یعنی اصحاب رسول ؐ میں سے 33 ہزار افراد نے جو عظیم شخصیت کے مالک تھے ،پیغمبر اسلام ؐ سے نقل کیا ہے ۔جیسے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، ابوذر ، عبداللہ بن عباس ،جناب عبداللہ بن عمر ، جناب حذیفہ ،جناب ابو ایوب انصاری ( 1 ) اور اہل سنت کے علماء میں  سے دو سو عظیم علماء نے اپنی کتابوں  میں تحریر کیاہے ۔اس حدیث کا متن اس کی اسناد میں سے ایک متن کے مطابق یوں  ہے: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ''انّی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی و فیه الهدی والنور فتمسکوا بکتاب الله و خذوا به و اهل بیتی ،اذکرکم الله فی اهل بیتی (ثلاث مرّات)''(٢) ''تحقیق میں تمہارے درمیان دوگراں  بہا چیزیں  چھوڑے جا رہا ہوں  ،ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت (اہلبیت)ہے ،اسی میں  ہدایت اور نور ہے ۔پس تم اللہ کی کتاب اور میرے اہلبیت سے تمسک رکھو ،میرے اہلبیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں  ''۔(یہ جملہ تین دفعہ فرمایا) اس حدیث سے قرآن کریم میں تحریف نہ ہونے پر دو طریقوں  سے استدلال کیا جا سکتا ہے ۔

........................

1۔آلاء الرحمن ص44

2۔سنن دارمی ج2ص431

۵۱

پہلا طریقہ

پہلا طریقہ چھ نکات پر مشتمل ہے :

الف:یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ ہم قیامت تک کتاب سے تمسک رکھ سکتے ہیں 

ب:اس کتاب میں  تحریف ہونے کا لازمہ یہ نہیں    ہے کہ ہم اس سے تمسک نہیں رکھ سکتے۔

ج:قرآن سے تمسک رکھنے کا مطلب اس کے تمام پہلوؤں  سے تمسک رکھنا ہے جن کا ذکر قرآن نے کیاہے اور تمسک کے خصوصی معنی جیسے کہ ''آیات احکام''نہیں    ہےں ۔دوسرے الفاظ میں قرآن صرف واجبات و محرمات بیان کرنے کے لئے نہیں    آیاہے بلکہ قرآن اس لئے آیا ہے کہ انسان کو ظلمت کی تاریکی سے نکال کر ہدایت اور نور کی طرف لے جائے ۔

د:تحریف کا مقصد یعنی حقائق کو چھپانا اور کتاب کے بعض انوار پر پردہ ڈالنا ہو تو ایسی تحریف پر مشتمل کتاب انسان کے تمام پہلوؤں سے نور اور ہادی نہیں  بن سکتی ۔جبکہ قرآن کریم کا ہدف یہ ہے کہ لوگوں  کو ہر ظلمت اور تاریکی سے نکال کر ہدایت اور نور کی طرف لے جائے تا کہ انسان مادی و معنوی امور میں  انسان کامل کے مرحلہ پر فائز ہو جائے ۔یہ مقصد اور ہدف ایسی ہی کتاب کے ساتھ تمسک سے حاصل ہوتا ہے ۔

ہ:قرآن کریم سے استدلال اور تمسک رکھنا بر خلاف تمسک عترت اسی صورت میں  ممکن ہے کہ ہم قرآن تک پہنچیں  وہ بھی وہی قرآن جو لوگو ں کے پاس موجود ہے نہ وہ قرآن جو اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے پاس محفوظ ہے ،دوسرے

انسانوں کی رسائی سے دور ہے ۔

۵۲

حدیث شریف سے استفادہ ہوتا ہے کہ کتاب سے تمسک رکھنا صرف یہ نہیں    کہ تمسک ممکن ہے بلکہ واجب ہے اور انشاء کے مقام پر جملہ خبریہ حکم تکلیفی کا حامل ہے علم اصول کے مباحث میں یہ واضح ہے کہ تکلیف شرعی میں  لازم ہے کہ مکلفین کی قدرت میں  ہو ۔اس لئے اگر قرآن تحریف کا شکار ہو چکا ہے تو اس سے تمسک نہیں    رکھ سکتے ۔

دوسرا طریقہ

اس حدیث سے استفادہ ہوتا ہے کہ ان دوگراں بہا چیزوں  میں سے ہر ایک دوسری دلیل کے ساتھ مستقل دلیل اور حجت ہے یعنی کتاب الٰہی عترت اور اہلبیت سے قطع نظر مستقل طور پر واجب العمل اور حجت ہے ،نیز عترت بھی کتاب سے قطع نظرمستقل دلیل اور حجت ہے ۔البتہ اس کا مطلب یہ نہیں    ہے کہ ہر ایک اکیلا مطلوب کے حصول اور گمراہی و ظلمت سے نجات پانے کے لئے کافی ہو ،یعنی قرآن اہلبیت کے بغیر یا اہل بیت قرآن کے بغیر ہماری نجات کا ذریعہ بنے، بلکہ گمراہی اور ظلمت سے نکال کر ہدایت اور نور کی طرف لے جانے میں دونوں  کی ضرورت ہے ۔لہٰذا گر قرآن کی تحریف ہوئی ہوتو اس کے ظواہر واجب العمل اور حجت ہونے سے ساقط ہو جاتے ،اور جو لوگ تحریف کے معتقد ہیں    ان کے لئے کتاب کی طرف رجوع کرنے میں تصدیق معصومین اور تائید کی ضرورت ہے ۔جو حدیـث ثقلین کے ظاہر ی معنیٰ کے مخالف ہے ۔کیونکہ حدیث ثقلین کے ظاہری معنیٰ یہ ہیں    کہ کتاب و عترت میں سے ہر ایک مستقل یعنی ایک دوسرے سے ضمیمہ کئے بغیر واجب العمل اور حجت ہیں  ۔لہٰذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو چیز ثقل اکبر ہو اس کی حجیت اس چیز پر موقوف ہو جو ثقل اصغر ہے ۔پس ان دو طریقوں  سے درج ذیل نتائج روشن ہو جاتے ہیں    :

1۔قرآن سے تمسک اور استدلال کرنا نہ صرف ممکن ہے بلکہ اس سے تمسک کرنا ضروری ہے ۔

2۔قرآن کو ایک مستقل دلیل اور حجت کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے لہٰذا بدیہی ہے اگر کوئی تحریف کا قائل ہو تو اس کا یہ نظریہ مذکورہ مطلب سے میل نہیں    کھاتا ۔

۵۳

پندرہواں  مطلب

تلاوت کا مٹ جانا اور باطل قرار پانا

سنی علماء کی عبارات میں نسخ تلاوت او رانساء کی دو اصطلاحیں نظر آتی ہیں    اور جواز نسخ تلاوت کو بطور اجمال ذکر کر کے اس پر انہوں  ( 1 ) نے عقلی اور نقلی دلیل ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔اس کی طرف اشارہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم غور کریں کہ کیا یہ دو اصطلاح اور لفظ تحریف دو الگ الگ چیزیں  ہیں  یا ان دو اصطلاحوں کے قائل ہونے کا لازمہ تحریف ہے ؟احادیث اور روایات کی کتابوں میں کچھ ایسی احادیث پائی جاتی ہیں  جس کی توجیہ کے نتیجہ میں اہل تسنن کے بزرگ علماء نے ان میں  نسخ تلاوت کو قرار دیا ہے ،انہیں    روایات میں سے ایک وہ ہے جو مسئلہ رجم سے مربوط ہے ۔چنانچہ ابن عباس نے عمر سے روایت کی ہے کہ عمر نے کہا :پیغمبر اکرم (ص) پر نازل شدہ آیات میں سے ایک آیت رجم ہے ،''الشیخ و الشیخۃ اذا زنیا فارجموھما...'' اگر کوئی عمر رسیدہ مرد اور عورت آپس میں زنا کریں تو ان کو سنگسار کریں اور پیغمبر اکرم (ص)نے اپنے دور میں  اس پر عمل کیا ہے،ان کے بعد ہم بھی

اس پر عمل کرتے رہیں    ہیں  ۔ ( 2 )

.........................

1۔الاحکام فی اصول الاحکام جزء سوم ص154

2۔مسند احمد ابن حنبل 1/47

۵۴

زید بن ثابت فرماتے ہیں  :میں نے پیغمبر اکرم (ص) سے سنا کہ ''اگر کوئی شادی شدہ مرد یا عورت زنا کرے تو ان کو سنگسار کرنا چاہیئے ۔اس بحث میں  غور کی بات یہ ہے کہ زید بن ثابت نے نہیں    کہا پیغمبر کا یہ کلام وحی اور آیات قرآنی میں  سے ایک ہے لیکن عمر نے خیال کیا کہ یہ وحی منزل اور آیات قرآنی میں سے ایک ہے جبکہ عمرنے پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھا کیا اس کو کتاب میں لکھوں ،تو پیغمبر اکرم (ص) نے کوئی جواب نہیں    دیا ( 1 )

اہل تسنن بھی ان کی اتباع کرتے ہوئے خیال کرنے لگے کہ پیغمبر اکرم (ص) کا یہ کلام اور حکم قرآن کی ایک آیت تھی لیکن اس کی تلاوت اور قرائت نسخ اور ختم ہو چکی ہے ،اگرچہ اس کا حکم اب بھی باقی ہے ۔

اس نظریے پر کئی اہم اعتراضات ہوئے ہیں  جو یوں  ہیں  :

1۔پہلا اعتراض یہ ہے کہ نسخ جس طرح کا ہو وہ ناسخ کے بغیر نہیں  ہو سکتا ،لیکن یہاں  کوئی ناسخ نظر نہیں  آتا ۔

2۔دوسرا اعتراض یہ ہے کہ بحث نسخ میں یہ ثابت ہے کہ نسخ صرف احکام شرعی کے حدود میں  واقع ہوا ہے لیکن تلاوت کا عنوان شرعی احکام سے مربوط نہیں    اگرچہ اس اعتراض کا جواب اہل سنت کے علماء میں سے بعض نے اس طرح دیا ہے ( 2 )

...............................

1۔محلی ابن حزم ج1ص235

2۔الاحکام آمدی 3/155

۵۵

کہ تلاوت قرآن سے اس کا وجود خارجی مراد نہیں    ہے بلکہ تلاوت قرآن کا جواز

مراد ہے جو احکام شرعیہ میں سے ایک ہے ۔

3۔تیسرا عتراض یہ ہے کہ اس جیسے نسخ کا کیا فائدہ ؟یعنی یوں کہا جائے کہ آیت کی تلاوت نسخ ہو چکی ہے لیکن اس کا اصل حکم باقی رہے جو اس آیت کا مدلول ہے باقی رہے ۔

4۔چوتھا اعتراض :اہم ترین اعتراض ہے جسے مرحوم محقق خوئی نے کہا ہے انہوں  نے فرمایا کہ اگر نسخ تلاوت کی یہ صورت حضور اکرم (ص) کے زمانے میں آپ کے حکم سے واقع ہوئی ہے چاہے اس کا لازمہ تحریف نہ بھی ہو ،لیکن ایسی روایتیں  جو مطلب پر دلالت کرتی ہیں  یا اس نظریے پر محمول ہو خبر واحد کی حیثیت سے ہیں  اس لئے اعتماد کے لئے کافی نہیں  اس پر اضافہ یہ کہنا کہ اس قسم کا نسخ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے کے بعد واقع ہواہے اور اگر اس قسم کا نسخ حضور اکرم (ص) کے زمانے کے بعد علماء اور حکمرانوں  کے ذریعے واقع ہوا ہے تو یہ قول عین تحریف کو قبول کرنا ہے ۔ ( 1 ) لیکن جو کچھ مسئلہ رجم کے متعلق بیان ہوا ہے اس کا بطلان بہت واضح ہے کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے قرآن کریم کے آیات کو تحریر کرنے میں بڑی باریکی کے ساتھ نگرانی فرمائی

ہے اور بڑے اہتمام کے ساتھ کاتبوں کو اس امر پر مامور فرمایا تھا اس صورت

.............................

1۔البیان ص 206

۵۶

میں  کہ آیت رجم اگر آیات قرآن میں سے ہوئی تو آپ نے اسے قرآن میں لکھنے کا حکم کیوں نہیں  دیا اور عمر کے سوال کا جواب کیوں  نہیں    دیا ۔

لہٰذا نسخ تلاوت ایک ایسا مطلب ہے جس کا باطل ہونا بدیہی طور پر واضح ہے یہاں تک کہ بعض اہلسنت ( 1 ) کے معاصرین نے کہا ہے کہ عقلاً تو ایسا ہونا جائز ہے مگر اللہ کی کتاب میں ایسا کوئی نسخ واقع نہیں  ہوا ہے ۔ابن حزم اندلسی نے پہلے نسخ تلاوت کو قبول کرنے کے بعد اپنے کلام کے آخر میں ایسی توجیہ کی جیسے نسخ

تلاوت وحی الٰہی سے مربوط ہی نہیں  ہے۔

.........................

1۔فتح المنان فی نسخ القرآن ص224

۵۷

سولہواں  مطلب

شیعہ امامیہ تحریف قرآن کے قائل نہیں  ہوسکتے

شیعہ امامیہ نہ صرف تحریف قرآن کے معتقد نہیں  ہیں  بلکہ اصولاً ایسے عقیدے اور نظریے کے قائل نہیں  ہو سکتے ۔کیونکہ شیعہ امامیہ کے اصول اور اعتقادی مسائل کو تشکیل دینے والی اہم ترین دلیلوں  میں سے ایک آیت تطہیر ہے:

''انما یرید الله لیذهب عنکم الرّجس اهل البیت و یطهّر کم تطهیراً'' ( 1 )

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت ! کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے ،اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''۔

اعتقادی مسائل سے مربوط کتابوں میں ثابت کیا گیا ہے کہ یہ آیت شریفہ اہلبیت علیہم السلام کی عصمت پر واضح ترین دلیل ہے اور وہ بھی ایسی عصمت جو مسلمانوں کے پیشوا اور خلیفہ ئوقت کے منصب پر فائز ہونے کے لئے ضروری ہے ،یعنی اس عصمت کو بیان کرنے والی آیات میں سے واضح اور روشن

آیت ،آیت تطہیر ہے ۔لہٰذا جو لوگ قرآن میں تحریف کے قائل ہیں  وہ اس آیت سے عصمت پر استدلال نہیں  کر سکتے ،یعنی جب ہم قرآن کو ایک منظم کتاب سمجھیں

...........................

1۔احزاب/33

۵۸

کہ جس کا آغاز سورہ مبارکہ حمد اور اختتام سورہ والنّاس ہے ،جس کی تدوین اور جمع آوری خود پیغمبر اکرم (ص) کے زما نہ میں مکمل ہوئی تھی آنحضرت ؐ کے بعد کسی قسم کی کمی بیشی نہیں  ہوئی اور اس کی ہر آیت کو اپنی مخصوص مناسبت کے ساتھ اس طرح رکھا گیا ہے اگر کوئی ایک آیت کو اس کی مخصوص جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرے تو اس کا الٰہی مقصد حاصل نہیں  ہوتا ۔کیونکہ اس آیت کو اس مخصوص جگہ میں ترتیب دینے کا ہدف مقصد یہ ہے کہ اللہ پیغمبر اکرم (ص) کی ازواج کی ذمے داریوں  کو بیان کرتے وقت اہلِ بیت (ع) عصمت کی چند خاص ذمے داریوں کو بیان کرے اگر اس جیسی آیات میں

تحریف کا احتمال دیا جائے تو شیعہ امامیہ کے اعتقادات کے لئے کوئی پناہ باقی نہیں رہے گی ۔ ( 1 )

......................

1۔مزید توضیح کے لیے رجوع کریں کتاب'' اہل البیت یا چہرہ ہای درخشان''

۵۹

سترہواں مطلب

تحریف کی روایات کا اجمالی جائزہ

تحریف کے قائلین کے پاس اہم ترین دلیل وہ روایات ہیں    جو سنی اور شیعہ کتابوں  میں  ذکر ہوئی ہیں  ،ان روایات کی تعداد بعض محققین نے ایک ہزار ایک سو بائیس ( 1122 ) بتائی ہے ،بعض بزرگ علماء نے ان روایات کے تواتر اجمالی کو قبول کر لیا ہے اگرچہ مذکورہ روایات میں سے اکثر کی سند ضعیف ہے لیکن اس کثرت سے وارد ہوئی ہیں    کہ جن میں سے بعض کا معصوم علیہ السلام سے صادر ہونے پر ہمیں  یقین حاصل ہو جاتا ہے ۔لہٰذا ان تمام کے جھوٹ ہونے کا احتمال نہیں  ہے اس لئے جو لو گ تحریف کے قائل ہیں  وہ ان روایات سے تحریف قرآن پر استدلال کرتے ہیں    ۔

لیکن ہمارے علماء میں  سے بعض نے ان روایات پر دو اعتراضات کر کے جواب دیا ہے ۔

پہلا طریقہ :جن کتابوں میں ان روایات کو جمع کیا ہے وہ معتبر نہیں  ہیں  ۔

دوسرا طریقہ :ان روایات کے مضمون قابل اعتراض ہیں  ان دونوں  جہتوں کی

وضاحت اور تفصیل کی ضرورت ہے ۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76