حریم قرآن کا دفاع

حریم قرآن کا دفاع0%

حریم قرآن کا دفاع مؤلف:
: محمد باقرمقدسی
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 76

حریم قرآن کا دفاع

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ محمد فاضل لنکرانی
: محمد باقرمقدسی
زمرہ جات: صفحے: 76
مشاہدے: 34257
ڈاؤنلوڈ: 3808

تبصرے:

حریم قرآن کا دفاع
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 76 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34257 / ڈاؤنلوڈ: 3808
سائز سائز سائز
حریم قرآن کا دفاع

حریم قرآن کا دفاع

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پہلی جہت کی وضاحت

ان روایات میں  سے اکثر روایات کے سلسلہ سند میں ''احمد بن محمد سیاری'' ہے جن کے بارے میں علم رجال کے ماہرین کی تعبیر میں '' فاسد المذہب'' او''ر ضعیف الحدیث'' اور نجاشی ( 1 ) نے اس کو غالی ہونے سے متہم کیا ہے جبکہ ابن غضائری نے اس کوگمراہ اور ہلاک کرنے والا قرار دیا ہے ( 2 ) اس سلسلہ سند میں  جتنے افراد ہیں    ان میں  سے دوسرا شخص یونس بن ظبیان ہے ان کے بارے میں  کہا گیا ہے کہ وہ ضعیف ہے اور ان کی کتابیں  غلطیوں  سے بھری ہوئی ہیں  اور ابن غضائری نے اس کو کذاب ،غالی اور جعلی حدیثیں  گھڑنے والا قرار دیا ہے ۔ ( 3 ) اسی طرح سلسلہ سند میں تیسرا جو شخص '' علی ابن احمد کوفی ''ہے ،اس کو علم رجال کے محققین اور مؤلفین نے ضعیف اور فاسد الرّوایۃ یہاں  تک کہ غالی اور گمراہ سے تعبیر کیا ہے ۔ ( 4 )

لہٰذا ان وجوہات کی بنا پر جو لوگ ان روایات کے قائل ہیں  وہ قابل اعتماد افراد نہیں 

...................................

1۔رجال نجاشی ص 58

2۔قاموس الرجال ج1 ص403

3۔خلاصۃ الرجال ص266

4۔دراسات فی الحدیث والمحدثین ص198

۶۱

ہیں  ۔پس ان روایات پر اعتماد نہیں  کیا جاسکتا ہے ۔نیز جن کتابوں میں  ان روایات

کو جمع کیا گیا ہے وہ معتبر کتابیں نہیں  ہیں  ؛

الف:مثال کے طور پر بعض روایات سعد بن عبد اللہ اشعری سے منسوب کتاب سے لی گئی ہیں  ،اور اس کتاب کی جناب نعمانی اور سید مرتضیٰ کی طرف نسبت دی گئی ہے لہٰذا اس بنا پرکتاب کامؤلف و مصنف معلوم نہیں  ،نیزعلم رجال میں سے کسی نے اس کو معتبر شمار نہیں  کیا ہے۔

ب:اسی طرح بعض روایات کو سُلَیم بن قیس ہلالی کی کتاب سے نقل کیا گیا ہے جن کے بارے میں مرحوم شیخ مفید نے فرمایا:''ان کی کتاب میں سے کوئی بات نہیں  ہے کہ اسے موثق قرار دیا جائے اور اس پر عمل کرنا بہت سارے موارد میں جائز نہیں    ہے اور اس کتاب کے اندر غلطیوں  اورفریب کے مواد بھرے ہوئے ہیں    پس جو لوگ پرہیز گار و متدین ہیں    وہ اس پر عمل کرنے سے اجتناب کریں '' ( 1 )

ج:تیسری کتاب ،کتاب التنزیل و التحریف یا کتاب قرائت ہے کہ جس کا مؤلف احمد بن محمد سیّاری ہے اور پہلے بیان ہوا کہ علم رجال کے ماہرین نے اس شخص کو ضعیف قرار دیا ہے ۔

د:ان روایات میں سے بعض کو تفسیر ابی الجارود سے نقل کیا گیا ہے اور یہ ایسا شخص ہے

................................

1۔تصحیح الاعتقاد ص72

۶۲

جو امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف سے لعنت کا مستحق ہوا ہے ،اس کے علاوہ اس

تفسیر کے سلسلہ سند میں ''کثیر بن عیاش ''ہے جو خود ضعیف ہے ۔

ھ:ان کتابوں میں سے ایک علی ابن ابراہیم قمی کی تفسیر ہے ۔یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ جو ان کے شاگردابوالفضل العباس بن محمد علوی کو املاء لکھوایا تھا اور اسی طرح تفسیر ابی الجارود کے ساتھ مخلوظ ہے ۔

و:ان روایات کے مدارک میں سے ایک مدرک کتاب استغاثہ ہے جو'' علی ابن احمدالکوفی ''کی ہے ،ابن غضائری نے'' علی احمد الکوفی ''کو کذاب ،جھوٹا اور غالی ہونے سے متہم کیا ہے ۔

ز:ان روایات میں سے بعض کو'' احتجاج طبرسی ''سے نقل کیا گیا ہے اس کتاب میں موجوداکثرروایتیں  مرسلہ ہیں  اور ایک کتاب روائی کے عنوان سے اس سے

استدلال نہیں  کیا جا سکتا۔

ح:ان روایات میں سے اکثر کافی میں موجود ہیں  ،لیکن صرف کسی کتاب میں کسی روایت کے ہونے کا معنیٰ یہ نہیں  ہے کہ اس کی صحت اور جواز عمل ثابت ہوجائے لہٰذا بعض علماء نے فرمایا :16199 ،احادیث اصول کافی میں  موجود ہیں  لیکن ان میں  سے صرف 5172 احادیث صحیح السند ،144،احادیث کو حَسنہ ،2128 ،احادیث معتبر اور 302،احادیث کو قوی قرار دیا ہے جبکہ 7480،احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے

۶۳

روایات کا صرف اصول کافی میں  ہونا دلیل نہیں  ہے کہ ان تمام پر عمل بھی جائز ہو۔ ( 1 )

دوسری جہت کی وضاحت

یہ روایات دلالت کے اعتبار سے ایک نہیں  ہے ،بلکہ کئی دستوں پر تقسیم

ہوتی ہیں  ۔

پہلا دستہ :بعض روایات ،تحریف معنوی سے مربوط ہیں  جو کہ محل نزاع سے خارج

ہیں    ۔

دوسرا دستہ:روایات اس طرح کی ہیں  کہ وہ قرآن کی قرائت مختلف ہونے پر دلالت کرتی ہیں  ،جو ہماری بحث سے خارج ہےں ۔

تیسرا دستہ :کسی آیت کریمہ کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں  جس سے بعض محققین نے یہ خیال کیا ہے کہ روایت کا مضمون ہی قرآن کی آیت تھی ،جیسے وہ روایت جو مرحوم کلینی ؒنے اپنی سند کے ساتھ موسی بن جعفر علیہما السلام سے اس روایت کے بارے میں کہ:

................................

1۔دراسات الحدیث و المحدثین ص137

۶۴

''أولٰئک الذین یعلم الله ما فی قلوبهم فاعرض عنهم وعظهم و مثل لهم فی انفسهم قولاً بلیغاً'' انّه علیه السلام تلاهذه الایة الیٰ قوله :''فاعرض عنهم ''و أضاف:'' فقد سبقت علیهم کلمة الشفاء و سبق لهم العذاب '' و تلابقیة الایة ۔ ( 1 ) یعنی امام علیہ السلام نے آیت ''فاعرض عنھم '' تک کی تلاوت فرمائی ،پھر آپ نے اضافہ کیا ،شقا اور عذاب کی بات ک وپہلے ذکر کیا گیا تھا ،پھر آیت کے دوسرے جملے کی تلاوت فرمائی ۔جس سے بعض محققین جیسے محدث نوری وغیرہ نے فرمایا کہ اس حدیث کی ظاہر ی ہم آہنگی اور سیاق یہ بتاتا ہے کہ یہ آیت کی تفسیر نہیں  ہے بلکہ موجودہ آیت پر ایک اضافہئ جملہ ہے جو آیت کا حصہ تھا۔ ( 2 )

لیکن مرحوم علامہ مجلسی اور دیگر مفسرین نے صاف صاف بتایا ہے کہ یہ آیت کی تفسیر ہے ۔

چوتھا دستہ:روایات اس طرح کی ہیں    کہ وہ دلالت کرتی ہیں  کہ کچھ آیات میں  حضرت علی علیہ السلام اور دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء مبارک تھے لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی روایات کی توضیح اور تاویل کرتی ہیں  نہ یہ کہ حضرت علی اور دیگر ائمہ (ع) کے اسماء مبارکہ آیت کا جزء اور حصہ ہونے پر دلالت کریں ۔

پانچواں دستہ :یہ وہ روایات ہیں  جو قرآن کریم میں قریش کے لوگوں میں سے چند

...............................

1۔روضہ کافی 8/184

2۔فصل الخطاب ص 275

۶۵

کے نام موجود ہونے پر دلالت کرتی ہیں    ۔تحریف کرنے والوں نے اس کو ہٹایا اور صرف ابو لہب کا نام باقی رکھا ہے ۔

لیکن ان روایات پر دو اعتراض ہیں  ۔

پہلا اعتراض :یہ ہے کہ ایسا مطلب بیان کرنے والی روایات خود آپس میں تناقض اور تضاد رکھتی ہیں  کیونکہ چند روایات میں سات لوگوں  کے نام حذف ہونے کا ذکر ہے اور چند میں  ستر لوگوں کے نام مٹانے کا ذکر ہے۔

دوسرا اعتراض :یہ ہے کہ اگر غور سے دیکھیں  تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسی روایات کے مضامین ہی ان کے جھوٹ ہونے پر بہترین دلیل ہیں  ،کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ قریش کے دوسرے ناموں کو حذف کر کے صرف ابی لہب کے نام کو باقی رکھیں ؟

چھٹا دستہ :روایات اس طرح کی ہیں    کہ جو دلالت کرتی ہیں  کہ پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد الفاظ میں تبدیلی لائی گئی ہے یا کچھ الفاظ کو جا بجا کیا گیا ہے ،یعنی ایسی احادیث قرآن میں تحریف ہونے پر دلالت کرتی ہیں    ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی احادیث اجماع کے خلاف ہیں  کیونکہ سارے مسلمانوں کا اجماع ہے کہ قرآن میں  ایک لفظ بھی زیادہ یا کم نہیں    ہوا ہے۔

ساتواں دستہ:احادیث حضرت حجت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی شان میں  وارد ہوئی ہیں  وہ روایات حضرت حجت کے ظہور کے بعد وہ قرآن جو حضرت علی علیہ السلام سے منسوب ہے آپ کے پاس محفوظ ہے ،لوگوں کو اس پر عمل کرنے پر مجبور

کریں  گے پر دلالت کرتی ہیں  ۔

۶۶

اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ ایسی روایات حضرت علی علیہ السلام کے مصحف اور موجودہ مصحف میں  فرق ہونے پر دلالت کرتی ہیں  لیکن حقیقت میں متن قرآن میں اختلاف ہونے کو بیان نہیں  کرتیں  بلکہ از نظر نظم و ضبط اور بعض آیات کی تفسیر و توضیح میں اختلاف ہونے پر دلالت کرتی ہیں  ۔

آٹھواں دستہ :بعض احادیث قرآن میں  کمی ہونے پر دلالت کرتی ہیں  ،ایسی روایات اور احادیث کی خود تین قسمیں  ہیں  :

1۔بعض روایات اور احادیث دلالت کرتی ہیں  کہ قرآنی آیات کی تعداد موجودہ تعداد سے کئی گنازیادہ تھی ۔

2۔کچھ روایات بیان کرتی ہیں    کہ بعض سوروں کی آیات کی تعداد واقعی تعداد سے کم ہے ۔

3۔بعض احادیث بیان کرتی ہیں    کہ کوئی ایک لفظ کسی آیت سے یا کوئی ایک آیت قرآن سے کم ہوئی ہے ۔اس کے کئی جوابات ہیں    ـ:

پہلا جواب یہ ہے کہ ان احادیث میں سے کچھ احادیث ائمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء مبارکہ کے حذف اور مٹا دینے پر دلالت کرتی ہیں  اور چنانچہ پہلے بھی بیان ہوا وہ آیت کے جزء ہونے کو بیان نہیں  کرتی ہیں    انہیں  تاویل و تفسیر پر محمول کرنا چاہئیے یا مصداق آیہ پر محمول کیا جائے۔

والحمد لله رب العالمین

۶۷

منابع کتاب

1۔القرآن الکریم

2۔کتاب کشّاف

3۔مفردات راغب

4۔تفسیر کبیر

5۔البیان

6۔اصول کافی

7۔عوالی اللاالی

8۔آلاء الرحمن بلاغی

9۔مجمع البیان

10۔تفسیر تبیان

11۔سعد السعود

12۔تفسیر صافی

13۔اظہار الحق

14۔کشف الغطائ

15۔بحار الانوار

۶۸

16۔صیانۃ القرآن عن التحریف

17۔فصل الخطاب

18۔اکذوبۃ تحریف القرآن

19۔مدخل التفسیر

20۔گفتار آسان در نفی تحریف قرآن

21۔سنن دارمی

22۔الاحکام فی اصول الاحکام

23۔مسند احمد ابن حنبل

24۔محلی ابن حزم

25۔الاحکام آمدی

26۔فتح المنان

27۔ چہرہ ہای درخشان

28۔اہل بیت

29۔رجال نجاشی

30۔قاموس الرجال

31۔خلاصۃ الرجال

32۔دراسات فی الحدیث والمحدثین

۶۹

33۔تصحیح الاعتقاد

34۔روضہ کافی

۷۰

فہرست

حرف آغاز 3

پہلا مطلب 6

لفظ تحریف کی تحقیق 6

دوسرا مطلب 9

تحریف کی قسمیں  اور ان کے استعمال کے موارد 9

تحریف کے دوسراے معنیٰ 10

تحریف کے تیسرے معنی 11

چوتھے معنی 12

پانچویں  معنی 12

چھٹے معنی 13

۷۱

نتیجہ 13

پہلا اعتراض 14

دوسرا عتراض 14

تیسرا مطلب 16

اجمالی اور تفصیلی تحریف 16

چوتھا مطلب 18

تحریف کے قائل ہونے کے لئے خبر واحد کافی نہیں   ہے 18

پانچواں مطلب 19

قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر علماء شیعہ کا نظریہ 19

چھٹا مطلب 27

قرآن کریم اور دوسری آسمانی کتب میں  فرق 27

۷۲

ساتواں  مطلب 29

قرآن کے مراحل اور درجات 29

آٹھواں  مطلب 32

عقل کی رو سے تحریف کا امکان اورعملی طور پر واقع نہ ہونا 32

نواں  مطلب 32

کیا قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر قرآن سے دلیل لانے سے دور لازم آتا ہے ؟ 32

پہلا جواب : 33

دوسرا جواب 34

تیسرا جواب : 35

چوتھا جواب: 36

پانچواں  جواب 37

۷۳

دسواں  مطلب 38

تحریف کے بارے میں  دو دعوے 38

گیارہواں  مطلب 39

تحریف نہ ہونے پر عقلی اور عقلائی دلیل کا تجزیہ 39

دلیل عقلی کی وضاحت 39

دوسری صورت 42

تیسری صورت 43

دلیل عقلی کا دوسرا بیان 43

سیرت اوربناء عقلاء : 44

بارہواں  مطلب 45

تحریف کے نہ ہونے پر واضح ترین آیت شریفہ 45

۷۴

اشکالات 48

تیرہواں مطلب 50

کیا تحریف کے قائل ہونے سے ظواہر کتاب کا حجیت سے ساقط ہونا لازم آتا ہے ؟ 50

چودہواں  مطلب 51

تحریف نہ ہونے پر حدیث ثقلین کی دلالت 51

پہلا طریقہ 52

دوسرا طریقہ 53

پندرہواں  مطلب 54

تلاوت کا مٹ جانا اور باطل قرار پانا 54

سولہواں  مطلب 58

شیعہ امامیہ تحریف قرآن کے قائل نہیں  ہوسکتے 58

۷۵

سترہواں مطلب 60

تحریف کی روایات کا اجمالی جائزہ 60

پہلی جہت کی وضاحت 61

دوسری جہت کی وضاحت 64

منابع کتاب 68

۷۶