سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)20%

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں) مؤلف:
زمرہ جات: امامت

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 20 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12536 / ڈاؤنلوڈ: 4375
سائز سائز سائز
سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

کتاب کا نام : سقیفہ کے حقائق ( روایت ابومخنف کی روشنی میں)

مؤلف : تاری، جلیل

مترجم / مصحح : سید نسیم حیدر زیدی

ناشر : مجمع جهانی اہل بیتعليه‌السلام

نشر کی جگہ : قم (ایران)

نشر کا سال : ۲۰۰۶

جلدوں کی تعداد : ۱

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیض یاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے ہیں غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کر لیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں،چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و مؤسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفٰی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگھی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل، فطرت انسانی سے ہم آھنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا،اس لئے تیئیس برس کے مختصر سے عرصے میں ہی اسلام کی عالم تاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تھذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تھذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذھبِ عقل و آگھی سے رو برو ہونے کی توانائی کھو دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاھب اور تھذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگر چہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ گراں بھا میراث کہ جس کی اہلبیت علیہم السلام اور ان کے پیروؤں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرندان اسلام کی بے توجھی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بھت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناھی کی ہے ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبھات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاھیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذھبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بیتاب ہیں،یہ زمانہ علمی و فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بھتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جھانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیتعليه‌السلام عصمت وطھارت کے پیروؤں کے درمیان ہم فکری و یکجھتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بھتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے،تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے، زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے،ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماھرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طھارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علم بردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوںخواروں کی نام نھاد تھذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جھالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنٰی خدمت گار تصور کرتے ہیں،

زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل آقای علّام جلیل تاری کی گراں قدار کتاب حقائق سقیفہ کو فاضل جلیل مولانا سید نسیم حیدر زیدی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار اور مزید توفیقات کے آرزو مند ہیں،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنٰی جھاد رضائے مولٰی کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الکرام

مدیر امور ثقافت: مجمع جھانی اہل بیت علیہم السلام

بیاں اپنا

تمام تعریفیں اس خدائے وحدہ لا شریک سے مخصوص ہیں جو عالمین کا پالنے والا ہے اور بے شمار درود و سلام ہو اس کی بھترین مخلوق حضرت محمد اور ان کی پاکیزہ آل پر جنھوں نے بشریت کی تعلیم تربیت اور راھنمائی کے لئے فرش زمین پر قدم رکھ کر پیغام الٰھی کو پھونچایا اور انسانوں کو ہر طرح کی پستی سے نکال کر معراج عبودیت تک پھونچایا۔

واقعۂ سقیفہ: تاریخ اسلام کا وہ عظیم سانحہ ہے جس نے دین اسلام کو تہتر فرقوں میں تقسیم کر کے امت محمدیہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داغدار بنا دیا، سقیفہ کے موضوع پر کل بھی کتابیں لکھی گئی تھیں اور آج بھی لکھی جارہی ہیں اور آئندہ بھی محققین اپنے قلم کا کرشمہ دکھاتے رہیں گے مگر اس کتاب میں جس انداز اور جن پہلوؤں سے بحث کی گئی ہے وہ قابل قدر ہیں اور اس کے مصنف لائق تحسین اور قابل مبارک باد ہیں۔

حقیر نے اس کتاب کو مجمع جہانی اہل البیتعليه‌السلام کی فرمائش پر اردو زبان حضرات کے لئے نہایت دقت کے ساتھ اردو کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے، پھر بھی اگر ترجمے میں کوئی نقص نظر آئے تو برائے مہربانی حقیر کو مطلع فرمائیں تاکہ اس کی اصلاح ہوسکے۔

خالق لوح و قلم کی بارگاہ میں اہل بیتعليه‌السلام طاھرین کے وسیلے سے دعاگو ہوں کہ پروردگارا! اس ناچیز کوشش کو بطفیل قائم آل محمد (عج) شرف قبولیت عطا فرما، کتاب کے مصنف اور ناشر کو مزید خدمت دین کی توفیق عطافرما۔ آمین

آخر میں اپنے تمام دوستوں کا شکر گذار ہوں جنہوں نے اس کام میں میری مدد فرمائی ہے خصوصاً برادر عزیز حجة الاسلام مولانا سید حسین اختر رضوی اعظمی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس ترجمہ میں میری راھنمائی فرمائی ہے۔ انہ ولی التوفیق

سید نسیم حیدر زیدی۔ قم المقدسہ ۳ صفر ۱۴۲۶ ہجری

پیش لفظ

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے فوراً بعد پیش آنے والا ایک عظیم سانحہ "واقعۂ سقیفہ" ہے جو آپ کی وفات کے بعد رونما ہونے والے بہت سے حوادث و نظریات کا پیش خیمہ ہے جس طرح اس واقعہ کے ابتدائی مرحلہ ہی میں اس کے طرفدار اور مخالفین موجود تھے، اُسی طرح آج بھی مسلمانوں کے درمیان فرقہ بندی کا اہم سبب واقعہ سقیفہ ہی ہے۔

لھٰذا ممکن ہے کہ اس سلسلے میں علمی اور استدلالی بحث، طالب حق انسان کے لئے رہنما ثابت ہو۔

"سقیفہ" لغت میں چھت دار چبوترہ کو کہتے ہیں یہ مدینہ کے ایک گوشہ میں ایک امکان تھا جس کی بڑی چھت تھی اور یہ مکان بنو ساعدہ بن کعب خزرجی کا تھا اسی وجہ سے سقیفہ بنی ساعدہ کے نام سے مشھور تھا۔ انصار اس مکان میں جو ایک مجلس مشاورت کی حیثیت رکھتا تھا اپنے فیصلوں کے لئے جمع ہوئے تھے(۱)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد انصار کا ایک گروہ جس میں اوس و خزرج(۲) دونوں ہی شامل تھے یہاں جمع ہوئے تاکہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خلافت کے سلسلے میں کوئی چارہ جوئی کریں(۳) ۔

انصار کیوں اور کس مقصد کے تحت وھاں جمع ہوئے؟ کیا تقریریں ہوئیں اور ان کا نتیجہ کیا نکلا؟ یہ تمام موضوعات ایسے ہیں جن کے بارے میں اس کتاب میں تفصیلی بحث کی گئی ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ یہ واقعہ ایک اچھی خاصی اہمیت کا حامل تھا اور ہے اور بہت سے مورخین کی توجہ کا مرکز بنا رہا اس کے باوجود محدثین نے اس اہم واقعہ کے فقط چند پہلوؤں کے بیان پر ہی اکتفا کی ہے لیکن ابو مخنف ان راویوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس واقعہ کی باریکیوں کو تفصیل سے بیان کیا بلکہ سقیفہ کے موضوع پر ایک پوری کتاب بھی لکھی ۳ لیکن ہمارے پاس اس کتاب کا فقط وہ حصہ موجود ہے جو تاریخ طبری میں نقل ہوا ہے۔

اس کتاب میں ہماری کوشش ہے کہ ابو مخنف (جو تاریخ اسلام کے ایک عظیم اور باریک بین محدث ہیں) کے تعارف کے ساتھ ساتھ واقعۂ سقیفہ کے بارے میں ان کی اہم روایت پر محققانہ اور منصفانہ نظر کی جائے نیز معتبر تاریخی کتابوں سے متن روایت کو پیش کریں اور حاشیہ پر مآخذ و منابع کا ذکر کرتے ہوئے دوران بحث ہر قسم کی جانبداری اور بے بنیاد باتوں سے پرہیز کریں۔

مصنف نے اپنی کم علمی کے باوجود بے حد کوشش کی ہے کہ واقعہ سقیفہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معتبر کتابوں کا سہارا لیا جائے، اور ہر مسئلہ میں طرفین کے نظریہ اور تنقید کو بیان کرتے ہوئے ایک خاص نظر پیش کی جاتی۔

امید ہے کہ اس کتاب کے اسلوب تحریر سے تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا، جسے "اجتہادی تاریخ" کے نام سے یاد کیا جاسکتا ہے۔

آخر میں خدا کے شکر کے بعد تمام ان افراد کی قدر دانی کو ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے میری تعلیم و تربیت میں مؤثر کردار ادا کیا بالخصوص اپنے محترم والدین، بھائی، اساتذہ نیز جناب ڈاکٹر صادق آئینہ وند اور حجة الاسلام والمسلمین رسول جعفریان کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس کتاب کی تخلیق میں میری رہنمائی فرمائی۔

جلیل تاری۔ ۱۴۲۳ ہجری

____________________

۱. صاحب حسن اللغات کے مطابق سقیفہ ایک ایسا خفیہ مکان تھا جہاں عرب باطل مشوروں اور بے ہودہ باتوں کے لئے جمع ہوتے تھے (مترجم)

۲. مدینہ کے دو بڑے قبیلوں کے نام ہیں۔ (مترجم)

۳. رجال نجاشی: ص۳۰۲

پہلا حصہ: تمہیدات

ابو مخنف کا تعارف

کیونکہ ہم سقیفہ سے متعلق ابو مخنف کی روایت کے بارے میں گفتگو کریں گے لھٰذا ضروری ہے کہ سب سے پہلے ان سوالات کا مختصر جواب دے دیا جائے جن کا قارئین کے ذہن میں ابھرنے کا امکان ہے، مثال کے طور پر ابو مخنف کون تھے؟ کس دور میں تھے؟ شیعہ اور سنی علماء ان کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں ان کا مذہب کیا تھا؟ کتاب کا یہ حصہ انہیں سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے۔

ابو مخنف کون تھے؟

ابو مخنف کا نام، لوط بن یحيٰ بن سعید بن مخنف(۵) بن سُلیم ازدی(۶) ہے ان کا اصلی وطن کوفہ ہے اور ان کا شمار دوسری صدی ہجری کے عظیم محدثین اور مورخین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد سے اموی حکومت کے آخری دور تک کے اہم حالات و واقعات پر کتابیں لکھیں، جیسے کتاب المغازی، کتاب السقیفہ، کتاب الردہ، کتاب فتوح الاسلام، کتاب فتوح العراق، کتاب فتوح خراسان، کتاب الشوريٰ، کتاب قتل عثمان، کتاب الجمل، کتاب صفین، کتاب مقتل أمیر المؤمنین کتاب مقتل الحسن (علیہ السلام) کتاب مقتل الحسین (علیہ السلام) و ۔ ۔ ۔

جو مجموعی طور پر اٹھائیس کتابیں ہیں اور ان کی تفصیل علم رجال کی کتابوں میں موجود ہے(۷) ۔ لیکن ان میں سے اکثر کتابیں ہماری دسترس میں نہیں ہیں البتہ ان کتابوں کے کچھ مطالب ان کے بعد لکھی جانے والی کتابوں میں روایت ابی مخنف کے عنوان سے موجود ہیں مثلاً تاریخ طبری(۸) میں ابو مخنف سے مجموعی طور پر پانچ سو سے زیادہ روایتیں موضوعات پر نقل ہوئی ہیں اور ان نقل شدہ روایات میں سے اکثر کا تعلق کہ جو تقریباً ایک سو چھبیس روایتیں ہیں حضرت علی علیہ السلام کے دوران حکومت کے حالات و واقعات سے ہے۔ ایک سو اٹھارہ روایتیں واقعۂ کربلا اور ایک سو چوبیس روایتیں حضرت مختار کے قیام کے بارے میں ہیں۔

صدر اسلام میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں ابو مخنف کی روایات اس قدر دقیق، مفصّل اور مکمل جزئیات کے ساتھ ہیں جو ہر قسم کے تعصب سے دور ہونے کے علاوہ ہر واقعہ کے پہلوؤں کی طرف قارئین کی رہنمائی کرتی ہیں یہاں تک کہ اس کے بعد لکھی جانے والی شیعہ اور سنی تاریخی کتابوں نے ان کی روایات سے کافی استفادہ کیا ہے اور روایت کے ذکر کے ساتھ ساتھ اس پر مکمل اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے۔

ابو مخنف کا دور

اگر چہ ان کی تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے لیکن ان کی تاریخ وفات عام طور سے سن ۱۵۷ ہجری قمری نقل کی گئی ہے ان کی تاریخ ولادت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے بعض علماء رجال غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں۔ بعض نے انہیں امام علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام، اور امام حسین علیہ السلام کا صحابی کہا ہے، جب کہ بعض علماء نے انہیں امام جعفر صادق علیہ السلام کا صحابی جانا ہے، جیسا کہ شیخ طوسی علیہ الرحمہ(۹) نے "کشّی" سے نقل کیا ہے کہ ابو مخنف امام علی علیہ السلام امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہیں۔ لیکن ان کا خود یہ نظریہ نہیں ہے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ ابو مخنف کے والد "یحیيٰ" امام علی علیہ السلام کے صحابی تھے جب کہ خود ابو مخنف (لوط) نے آپ کا زمانہ نہیں دیکھا ہے۔

شیخ نجاشی کا کہنا ہے کہ ابو مخنف امام صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہیں(۱۰) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے بھی روایت نقل کی ہے۔ مگر یہ قول صحیح نہیں ہے شیخ نجاشی کے قول کے مطابق ابو مخنف صرف امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے تھے اور آپ کے اصحاب میں سے تھے اور انہوں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے کوئی روایت نقل نہیں کی چہ جائیکہ وہ امام علی علیہ السلام سے روایت نقل کرتے۔ تمام شواھد و قرائن شیخ نجاشی کے قول کی تصدیق کرتے ہیں اس لئے کہ

۱۔ تاریخ طبری میں ابو مخنف کی جو روایت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے وہ بغیر کسی واسطہ کے ہے جب کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے ان کی روایت ایک واسطہ کے ساتھ نقل ہوئی ہے(۱۱) ۔

۲۔ حضرت امام علی علیہ السلام کے خطبات اور حضرت فاطمہ زھرا (س) کے خطبہ سے متعلق ابو مخنف کی روایت دو واسطوں کے ذریعہ نقل ہوئی ہے(۱۲) ۔

۳۔ اگر ابو مخنف کی تاریخ وفات کو ملحوظ نظر رکھا جائے جو ۱۵۷ہجری ہے اور یہ کہا جائے کہ انہوں نے امام علی علیہ السلام کا زمانہ بھی دیکھا ہے (یعنی کم از کم وہ اس دور میں شعور رکھتے تھے) تو ایسی صورت میں وفات کے وقت ان کی عمر تقریباً ایک سو تیس سال ہوجائے گی(۱۳) جب کہ کسی راوی نے بھی اس قسم کی بات کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔

یہ تمام قرائن شیخ نجاشی کے قول کے صحیح ہونے کی دلیل ہیں کہ وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے اور آپ ہی سے روایت کرتے تھے۔

لیکن کتاب "الکافی"(۱۴) میں ابو مخنف کی ایک روایت بغیر کسی واسطہ کے حضرت امام علی علیہ السلام کے دور حکومت سے متعلق نقل ہوئی ہے۔ اس حدیث میں ان کا بیان ہے کہ شیعوں کا ایک گروہ امیر المومنین علیہ السلام کے پاس آیا۔ ۔ ۔ لیکن یہ حدیث ھرگز یہ ثابت نہیں کرتی کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے دور میں تھے۔ اس لئے کہ ممکن ہے یہ حدیث "مرسلہ"(۱۵) ہو جو بات یقینی ہے وہ یہ کہ ابو مخنف کے پر دادا "مخنف بن سلیم" رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے(۱۶) اور آپ کی طرف سے شہر اصفہان کے گورنر مقرر ہوئے(۱۷) اور جنگ جمل کے دوران حضرت علی علیہ السلام کی فوج میں قبیلہ ازد کے دستہ کی سالاری کے فرائض انجام دیتے ہوئے اس جنگ میں شہادت کے درجہ پر فائز ہوئے۔

سوانح حیات سے متعلق اکثر کتابوں کے مطابق ان کی شہادت جنگ جمل میں ہوئی مثلاً "الکنی والالقاب" شیخ عباس قمی "الذریعہ" آقا بزرگ تہرانی، "اعلام" زرکلی اور اسی طرح "تاریخ طبری"(۱۸) میں ابو مخنف کی روایت اسی چیز پر دلالت کرتی ہے، لیکن اسی تاریخ طبری(۱۹) میں مخنف بن سلیم کی ایک روایت واقعہ صفین سے متعلق نقل ہوئی ہے جو اس بات سے تناسب نہیں رکھتی کہ وہ جنگ جمل میں شہید ہوئے تھے۔

اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب "رجال" اور "فہرست"(۲۰) میں ابو مخنف کے والد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ آپ حضرت علی علیہ السلام کے صحابی تھے جب کہ جو چیز مسلم ہے وہ یہ کہ ابو مخنف کے والد یحیيٰ حضرت علی علیہ السلام کے صحابی نہ تھے بلکہ آپ کے پردادا حضرت کے اصحاب میں سے تھے لھٰذا یہ بات قابل توجہ ہے کہ مخنف بن سلیم، ابو مخنف کے نہ والد ہیں اور نہ دادا جیسا کہ بعض افراد ان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں اور انہیں ابو مخنف کا دادا کہا ہے(۲۱) جب کہ وہ ابو مخنف کے پردادا ہیں۔

ابو مخنف شیعہ اور سنی علماء کی نظر میں

اہل تشیع کی علم رجال سے متعلق کتابوں سے یہ بات روشن ہے کہ ابو مخنف ایک قابل اعتماد شخص تھے، شیخ نجاشی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ابو مخنف کوفہ کے بزرگ راویوں کے شیوخ (اساتذہ) میں سے ہیں ان کی روایت پر اعتماد کیا جاسکتا ہے(۲۲) شیخ طوسی(۲۳) نے اپنی علم رجال کی کتاب میں انہیں امام جعفر صادق علیہ السلام کا صحابی کہا ہے شیخ عباس قمی نجاشی جیسی عبارت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ابو مخنف عظیم شیعہ مورخین میں سے ایک ہیں نیز آپ فرماتے ہیں کہ ابو مخنف کے شیعہ مشھور ہونے کے باوجود طبری، اور ابن اثیر(۲۴) ، جیسے علماء اہل سنت نے ان پر اعتماد کیا ہے، آقا بزرگ تہرانی نجاشی کی چند عبارتیں نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں "ان کے شیعہ مشہور ہونے کے باوجود علمائے اہل سنت جیسے طبری اور ابن اثیر نے ان پر اعتماد کیا ہے بلکہ ابن جریر کی کتاب تاریخ الکبیر(۲۵) تو ابو مخنف کی روایات سے پُر ہے۔ آیة اللہ خوئی نے بھی انہیں ثقہ کہا ہے اور شیخ طوسی (رح) سے ابو مخنف تک جو سند ہے اسے آپ نے صحیح جانا ہے(۲۶) ۔

لیکن بعض علماء اہل سنت نے ان کے شیعہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے ان کی روایت کو متروک قرار دیا ہے اور بعض افراد نے ان کے شیعہ ہونے کا ذکر کئے بغیر ان کی روایت کو ضعیف کہا ہے جیسا کہ یحیيٰ بن معین کا کہنا ہے "ابو مخنف لیس بشئ(۲۷) یعنی ابو مخنف قابل اعتماد نہیں ہیں) اور ابن ابی حاتم نے یحیی بن معین کا قول نقل کیا ہے کہ وہ ثقہ نہیں ہیں(۲۸) اور دوسروں سے بھی اس بات کو نقل کیا ہے کہ وہ "متروک الحدیث" ہیں(۲۹) ۔

ابن عدی یحیيٰ بن معین کا قول نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ گذشتہ علماء بھی اسی بات کے قائل ہیں، (یوافقہ علیہ الائمہ) اس کے بعد وہ کہتا ہے کہ ابو مخنف ایک افراطی قسم کے شیعہ ہیں، ان کی احادیث کی سند نہیں ہے ان کی احادیث کی سند نہیں ہے ان سے ایسی ناپسندیدہ اور مکروہ روایات نقل ہوئی ہیں جو نقل کرنے کے لائق نہیں(۳۰) ۔

ذھبی کا کہنا ہے کہ وہ متروک ہیں(۳۱) اور دوسری جگہ پر کہا ہے کہ ابو مخنف نے مجھول افراد سے روایت نقل کی ہے(۳۲) دار قُطنی کا قول ہے کہ ابو مخنف ایک ضعیف اخباری ہیں(۳۳) ابن حجر عسقلانی کا کہنا ہے کہ ان پر اطمینان نہیں کیا جاسکتا ہے پھر بعض علماء کا قول نقل کرتا ہے کہ ابو مخنف قابل اعتماد اور مورد اطمینان نہیں ہیں(۳۴) ۔

لیکن ابن ندیم کا ان کے بارے میں کہنا ہے کہ میں نے احمد بن حارث خزار کے ھاتھ سے لکھی ہوئی تحریر میں دیکھا ہے کہ علماء کا کہنا ہے، کہ ابو مخنف کی عراق اور اس کی فتوحات سے متعلق روایات سب سے زیادہ اور سب سے بہتر ہیں، جس طرح سے خراسان، ھندوستان اور فارس کے بارے میں مدائنی، حجاز و سیرت کے بارے میں واقدی، اور شام کی فتوحات کے بارے میں ان تینوں کی معلومات یکساں ہیں(۳۵) یہ عبارت یاقوت حموی نے بھی اپنی کتاب "معجم الادباء" میں ذکر کی ہے،(۳۶) مجموعی طور پر اکثر علماء اہل سنت نے یحیيٰ بن معین کے قول کا سہارا لے کر ابو مخنف کو غیر ثقہ قرار دیا ہے۔

البتہ ابو مخنف کے بارے میں ابن ندیم اور حموی نے جس حقیقت کا اظھار کیا ہے اس کی وجہ سے ان کے قول کے متروک ہونے کے باوجود اہل سنت کے برجستہ علماء نے ان سے روایات نقل کی ہیں اور شاید عراق کے وہ حالات و واقعات جو تاریخ اسلام کے عظیم تحولات کا سبب ہیں ان تک ابو مخنف کی روایات کے بغیر دسترسی ناممکن ہے، لھٰذا علماء اہل سنت کے نظریات کے سلسلے میں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ شاید ان کے نزدیک ابو مخنف کے متروک ہونے کی وجہ وھی ہو جو ابن عدی نے اپنے کلام کے آخر میں کہی ہے اور وہ یہ کہ ابو مخنف کی روایات میں ایسے واقعات کا ذکر ہے کہ جو بعض افراد پر گراں گزرتے ہیں کیونکہ وہ واقعات ان کے مفروضہ عقائد اور نظریات سے مطابقت نہیں رکھتے۔

ابو مِخنف کا مذھب

ابو مخنف کے مذھب کے بارے میں اقوال ہیں:

شیخ طوسی کا اپنی کتاب "فہرست" میں اور نجاشی کا اپنی کتاب "رجال" میں ان کے مذھب کے بارے میں کوئی رائے پیش نہ کرنا ان کے شیعہ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ شیخ عباس قمی اور آقا بزرگ تہرانی نے واضح طور پر ان کے شیعہ ہونے کو بیان کیا ہے بلکہ یہاں تک کہا ہے کہ ان کا شیعہ ہونا مشھور ہے لیکن آقا خوئی نے اپنی کتاب "معجم رجال الحدیث" میں ان کے شیعہ یا غیر شیعہ ہونے کو بیان کئے بغیر انہیں ثقہ کہا ہے۔

اکثر علماء اہل سنت نے ان کے شیعہ ہونے کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا یہاں تک کہ ابن قتیبہ اور ابن ندیم نے شیعہ افراد کے لئے ایک الگ باب تحریر کیا ہے لیکن ابو مخنف کے نام کا وھاں ذکر نہ ہونا ان کے غیر شیعہ ہونے کو ظاھر کرتا ہے(۳۷) علماء اہل سنت میں سے ابن ابی الحدید وہ ہے جو اس بات کا قائل ہے کہ ابو مخنف کا شمار محدثین میں ہوتا ہے اور وہ امامت پر اعتقاد رکھتے تھے۔ لیکن ان کا شمار شیعہ راویوں میں نہیں ہوتا(۳۸) صاحب قاموس الرجال اقوال پر تنقید کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ابو مخنف کی روایت ان کے متعصب نہ ہونے کی وجہ سے قابل اعتماد ہے لیکن ان کے شیعہ ہونے کے بارے میں کوئی رائے پیش نہیں کی جاسکتی(۳۹) ۔

لھٰذا ان کے مذھب کے بارے میں بحث کرنے کا کوئی خاص عملی فائدہ نہیں ہے لیکن اگر ابو مخنف کی روایات پر غور و فکر کیا جائے جو اکثر سقیفہ، شوريٰ، جنگ جمل، جنگ صفین، مقتل امام حسین علیہ السلام سے متعلق ہیں تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ وہ شیعی افکار کے مالک تھے، البتہ ممکن ہے کہ ان کی روایات میں بعض مطالب ایسے پائے جاتے ہوں جو کامل طور پر شیعہ عقیدہ کے ساتھ مطابقت نہ رکھتے ہوں لیکن ہمیں چاھیے کہ ہم ابو مخنف کے دور زندگی کو بھی پیش نظر رکھیں کیونکہ بعض اوقات ائمہ معصومین علیہم السلام بھی تقیہ کی وجہ سے ایسے مطالب بیان کرتے تھے جو اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق ہوا کرتے تھے اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ وہ ایک معتدل شخص تھے جس کی وجہ سے اہل سنت کی اکثر کتابوں میں ان کی روایات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

بہر حال تاریخ ابو مخنف کی عظمت غیر قابل انکار ہے اور شیعہ و سنی تمام مورخین نے ان سے کافی استفادہ کیا ہے اور چونکہ تمام شیعہ علماء نے انہیں ثقہ جانا ہے اور ان کی روایت پر اعتماد کا اظھار کیا ہے لھٰذا ان کی روایات کے مضامین پر غور و فکر کرنے سے صدر اسلام کے بہت سے اہم حالات و واقعات کی صحیح نشاندھی کی جاسکتی ہے۔

____________________

۵. مخنف، منبر کے وزن پر ہے۔

۶. الفہرست۔ ابن ندیم، ص ۱۰۵

۸. بعض افراد نے تاریخ طبری میں ابو مخنف کی روایات کی تعداد پانچ سو پچاسی کہی ہے جب کہ تحقیق کے بعد مصنف کا کہنا یہ ہے کہ ان کی تعداد پانچ سو باسٹھ ہے ممکن ہے کہ بعض روایات کے چند حصے الگ الگ جگہ نقل ہوگئے ہوں۔

۹. رجال طوسی۔ ص۸۱، الفہرست شیخ طوسی۔ ص۱۲۹

۱۰. رجال نجاشی۔ ص۳۲۰

۱۳. اس بات کے پیش نظر کہ حضرت علی (ع.کی تاریخ شہادت سن چالیس ہجری قمری ہے۔

۱۴. الکافی۔ ج۲ ص۳۱۔

۱۵. مرسلہ ایسی روایت کو کہتے ہیں جس میں راوی ایک یا چند واسطوں کو حذف کرنے کے بعد معصوم سے روایت نقل کرتا ہے (مترجم)

۱۶. الطبقات الکبريٰ: ج۶ ص۳۵، الفہرست ابن ندیم: ج۱۰۵، ۱۰۶

۱۷. ذکر اخبار اصفہان: ترجمہ دکتر کسائی، ص۱۸۹

۱۸. تاریخ طبری۔ ج۴ ص۵۲۱

۱۹. تاریخ طبری۔ ج۴ ص۵۷۰

۲۰. رجال طوسی۔ ص۸۱، فہرست، ص۱۲۹

۲۱. الکنی والالقاب۔ ج۱ ص۵۵، الذریعہ۔ ج۱ ص۳۱۲۔

۲۲. رجال نجاشی : ص۳۲۰۔ (ابو مخنف شیخ اصحاب الاخبار بالکوفہ وجھہم وکان یسکن الی ما یرویہ)

۲۳. رجال طوسی۔ ص۲۷۵

۲۴. الکنی والالقاب۔ ص۱۵۵

۲۵. الذریعہ۔ ج۱ ص۳۱۲

۲۷. تاریخ یحیيٰ بن معین ج۱ ص۲۱۰

۲۸. قابل اعتماد۔ (مترجم)

۳۱. دیوان الضعفاء والمتروکین: ج۲ ص۲۶۵

۳۲. سیر اعلام النبلاء۔ ج۷ص۳۰۱

۳۳. الضعفاء والمتروکین: ص۳۳۳

۳۵. الفہرست: ابن ندیم۔ ص۱۰۵، ۱۰۶

۳۶. معجم الادباء: ج۵ ص۲۲۵۲۔

۳۷. نقل از قاموس الرجال تستری۔ ج۸ ص۶۲۰

۳۸. شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۱ ص۱۴۷ (ابو مخنف من المحدثین وممن یری صحة الامامة بالاختیار ولیس من الشیعه ولا معدوداً من رجالها )

روایت ابی مخنف کی تحقیق کا طریقۂ کار

ابو مخنف کی روایات کے متن کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں فیصلہ کرنا آسان کام نہیں ہے کیونکہ ابو مخنف کو تاریخی روایات نقل کرنے والوں میں ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے لھٰذا دوسری روایات کے پیش نظر ان کی روایت کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ تاریخ کے تمام راوی جیسے ھشام کلبی، واقدی، مدائنی، ابن سعد وغیرہ یہ سب ان کے دور کے بعد سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی کے مرہون منت ہیں۔

کافی غور و فکر اور جستجو کے بعد اس کتاب میں تحقیق کا جو طریقۂ کار اپنایا گیا ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ سب سے پھلے ابو مخنف کی اس روایت کے مضمون کو تاریخ کی اہم کتابوں سے، جو تاریخ طبری سے پہلے اور اس کے بعد لکھی گئی ہیں نیز خود تاریخ طبری کی متعدد روایات سے اس کا موازنہ کیا جائے اس کے بعد تمام قرائن و شواھد کی روشنی میں اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جائے، اس سلسلے میں جن کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے وہ تاریخ کی معتبر، معروف و مشھور کتابیں ہیں جن میں سے اکثر کتابیں اہل سنت کی ہیں۔ ہم آپ کی معلومات کے لئے ان کتابوں کے نام کے ساتھ ساتھ ان کا مختصر تعارف کرانا بھی ضروری سمجھتے ہیں(۴۰)

البتہ اس سے پہلے کہ تاریخ طبری سے پہلے لکھی جانے والی کتابوں کا تعارف کرایا جائے سب سے پہلے خود تاریخ طبری کا تعارف پیش کرتے ہیں کیونکہ یہ ہماری بحث کا محور ہے اور تاریخ کی ایک جامع کتاب ہے۔

تاریخ طبری:

اس کتاب کا نام "تاریخ الامم والملوک یا تاریخ الرسل والملوک" ہے جس کے مولف ابو جعفر محمد بن جریر طبری ہیں وہ ۲۲۴ ہجری میں آمل طبرستان (مازندران: ایران کا ایک شہر) میں پیدا ہوئے اور تحصیل علوم کے سلسلے میں مقامات کا سفر کیا پھر بغداد میں سکونت اختیار کرلی اور ۳۱۰ ہجری میں وھیں انتقال کر گئے(۴۱) ۔

آپ کا شمار فقہ، تفسیر اور تاریخ کے عظیم علماء میں ہوتا تھا خاص طور پر آپ کی تاریخ اور تفسیر کی کتابیں تو علماء اہل فن کی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔

طبری نے اپنی کتاب میں اکثر روایات اپنے سے پہلے والے راویوں سے نقل کی ہیں اور طبری کے پاس ان کے ما قبل لکھی جانے والی کتابوں کا کافی ذخیرہ موجود تھا جن سے انھوں نے خوب استفادہ کیا اور چونکہ ان میں سے بعض کتابیں زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ناپید ہوگئیں تو ان کتابوں کے مطالب کو نقل کرنے کا واحد مآخذ فقط تاریخ طبری ہی ہے اسی لئے یہ کتاب ایک خاص اہمیت کی حامل ہے اور ابو مخنف کی کتاب "مقتل حسینعليه‌السلام " جو اپنی نوعیت کی واحد کتاب تھی اور اس بات کا زندہ ثبوت ہے کیونکہ اس کتاب کی روایتیں تاریخ طبری میں متعدد مقامات پر کثرت سے ذکر کی گئی ہیں(۴۲)

تاریخ طبری نے خلقت کی ابتداء، اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر خاتم الانبیاء تک اور پھر ان کی ہجرت سے لیکر ۳۰۲ ہجری تک کے ہر سال کے حالات و واقعات کو الگ الگ بیان کیا ہے۔

طبری کا کسی بھی واقعہ یا حادثہ کو نقل کرنے کا طریقہ جس کا تذکرہ انہوں نے اپنے مقدمہ میں کیا ہے(۴۳) یہ ہے کہ کسی واقعہ کے بارے میں راویوں سے روایتوں کو سند کے ساتھ نقل کرنے کے بعد اس کے بارے میں اپنی رائے دئے بغیر اسے قارئین کی نظر پر چھوڑ دیتے ہیں، البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ طبری کے پاس جو روایتیں موجود تھیں ان میں سے انہوں نے صرف چند روایتوں کا انتخاب کر کے انہیں اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے لیکن واقعہ غدیر کے بارے میں انہوں نے ایک روایت بھی ذکر نہیں کی ہے۔

وہ تمام راوی جن سے طبری نے روایتوں کو نقل کیا ہے وثاقت کے اعتبار سے برابر نہیں ہیں۔ جیسے ابن اسحاق، ابو مخنف، مدائنی، زُھری اور واقدی یہ تمام افراد وہ ہیں جنہوں نے تاریخی واقعات کو نقل کرنے میں ایک خاص طریقۂ کار اپنایا ہے اور اسی طبری کے راویوں میں سے ایک سیف بن عمر بھی ہے جو صرف روایتیں گڑھتا تھا اور نہایت ہی جھوٹا آدمی تھا(۴۴) ۔

اگر چہ طبری سنی مذھب تھے مگر زندگی کے آخری لمحات میں ان کے تشیع کی طرف مائل ہونے کا احتمال دیا جاسکتا ہے۔

طبری سے پھلے لکھی جانے والی وہ کتابیں جو اس گفتگو کے لئے منتخب کی گئی ہیں

۱۔ السیرة النبویہ لابن ھشام:

در اصل اس کتاب کے مولف ابن اسحاق ہیں، اور سیرت نبوی پر لکھی جانے والی اہم اور مصادر کی کتابوں میں اس کا شمار ہوتا ہے اس سے پہلے سیرت نبوی پر اتنی جامع کتاب نہیں لکھی گئی تھی۔ عبدالملک بن ھشام (وفات ۲۱۳ یا ۲۱۸ ہجری ) نے اس کتاب کی تلخیص کی اور اپنے خیال میں اس کی کچھ غیر ضروری عبارتوں کو حذف کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ مطالب کا اضافہ بھی کیا(۴۵) اس کے بعد یہ کتاب "السیرة النبویہ ابن ھشام" کے نام سے مشہور ہوگئی۔

۲۔ المغازی واقدی:

اس کتاب کے مولف محمد بن عمر واقدی (ولادت ۱۳۰ ہجری وفات ۲۰۷ ہجری ) ہیں ان کا تعلق عثمانی مذھب سے تھا وہ مدینہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۸۰ ہجری میں بغداد تشریف لائے اور مامون کی طرف سے بغداد کے قاضی مقرر ہوئے اور اسی شہر میں انتقال کرگئے، وہ غزوات اور فتوحات کے سلسلے میں اچھی خاصی معلومات رکھتے تھے انہوں نے ہجرت سے لیکر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت تک کی روایات کے بارےمیں عمدہ تحقیق کی ہے جس کی وجہ سے وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہے۔

۳۔ الطبقات الکبريٰ:

اس کتاب کے مولف محمد بن سعد (ولادت ۱۶۸ ہجری وفات ۲۳۰ ہجری ) ہیں وہ کاتب واقدی کے نام سے مشہور تھے اور ایک نہایت ہی متعصب قسم کے سنی تھے ان کا تعلق بصرہ سے تھا اور پھر بغداد جاکر واقدی کے پاس ان کے کاتب کی حیثیت سے تعلیم میں مشغول ہوگئے، انھوں نے اپنی کتاب کی پھلی دو جلدوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور اس کے بعد کی جلدوں میں صحابہ اور تابعین کے بارے میں بحث کی ہے جو اس سلسلے کی ایک اہم ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔

۴۔ تاریخ خلیفہ بن خیاط (وفات ۲۴۰ ہجری ):

خلیفہ بن خیاط تیسری صدی ہجری کے ایک اہم مورخ سمجھے جاتے ہیں جو سنی مذھب سے تعلق رکھتے ہیں، ابن کثیر نے انہیں امام تاریخ کہہ کر یاد کیا ہے(۴۶) یہ کتاب تاریخی کتابوں میں قدیم ترین کتاب ہے کہ جس نے تاریخی حالات و واقعات کو ہر سال کے اعتبار سے پیش کیا ہے۔

۵۔ الامامہ والسیاسة:

یہ کتاب ابن قتیبہ دینوری (ولادت ۲۱۳ ہجری وفات ۲۷۶ ہجری ) کی طرف منسوب ہے جن کا شمار تیسری صدی ہجری کے اہل سنت سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور مورخین میں ہوتا ہے، ان کی ولادت بغداد میں ہوئی مگر کچھ عرصہ دینور میں قاضی رہے اگر چہ اس کتاب کی نسبت دینوری کی طرف مشکوک ہے لیکن بہر حال یہ کتاب سن تین ہجری کے آثار میں سے ایک اہم کتاب ہے۔

۶۔ انساب الاشراف:

یہ کتاب احمد بن یحیيٰ بلاذُری (ولادت ۱۷۰ ہجری سے ۱۸۰ ہجری کے درمیان، وفات ۲۷۹ ہجری ) نے لکھی ہے جو تیسری صدی ہجری کے برجستہ مورخین اور نسب شناس افراد میں سے ایک تھے وہ سنی مذھب اور عباسیوں کے ہم خیال افراد میں سے تھے، اس کتاب میں تاریخ اسلام سے متعلق خاندانوں کا نام اور ان کا نسب وغیرہ بیان کیا گیا ہے۔

۷۔ تاریخ یعقوبی:

اس کتاب کے مولف احمد بن ابی یعقوب اسحاق بن جعفر بن وھب بن واضح ہیں ۲۸۴ ہجری میں انتقال ہوا، آپ کا تعلق شیعہ مذھب سے تھا یہ کتاب تاریخ کی موجودہ قدیم ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔

تاریخ طبری کے بعد لکھی جانے والی وہ کتابیں جن سے اس گفتگو میں استفادہ کیا گیا ہے یہ ہیں۔

۱۔ السقیفہ و فدک:

یہ کتاب ابوبکر جوھری (وفات ۳۲۳ ہجری ) نے لکھی مگر زمانے کے گذرنے کے ساتھا ساتھ گم ہوگئی اس کتاب کے عمدہ مطالب دوسری کتابوں میں موجود ہیں، یہ کتاب ابن ابی الحدید کے پاس موجود تھی انہوں نے شرح نہج البلاغہ میں اس کتاب سے بہت کچھ نقل کیا ہے، اب یہ کتاب محمد ھادی امینی کی کوششوں سے مآخذ سے جمع آوری کے بعد "السقیفہ و فدک" کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔

۲۔ مروج الذھب:

یہ کتاب علی بن حسین مسعودی (وفات ۳۴۶ ہجری ) نے لکھی ہے، ممکن ہے کہ وہ شیعہ اثنا عشری ہوں مگر اس بات کا اندازہ "مروج الذھب" میں موجود مطالب سے نہیں لگایا جاسکتا بلکہ اس سے فقط ان کے مذھب شیعہ کی طرف مائل ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہ کتاب مقامات کے سفر کر کے نہایت تحقیق اور جستجو کے بعد لکھے جانے کی وجہ سے کافی اہمیت کی حامل ہے، انہوں نے اپنی کتاب میں ابو مخنف کا بہت ذکر کیا ہے۔

۳۔ الارشاد:

اس کتاب کے مولف شیخ مفید (ولادت ۳۳۶ ہجری وفات ۴۱۳ ہجری ) ہیں وہ ایک شیعہ متکلم، فقیہ اور نامور مورخ ہیں، یہ کتاب اگر چہ شیعوں کے آئمہعليه‌السلام کی زندگی کے بارے میں لکھی گئی ہے لیکن اس کے باوجود اس کتاب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سے متعلق بھی بہت سے واقعات ملتے ہیں۔ شیخ مفید کے علمی مقام و مرتبہ اور تقويٰ و پرہیز گاری کی وجہ سے انکی تحریریں شیعہ علماء کے نزدیک ایک معتبر سند کی حیثیت رکھتی ہیں۔

۴۔ المنتظم فی تاریخ الملوک والامم:

یہ کتاب ابن جوزی (ولادت ۵۰۸ ہجری وفات ۵۹۷ ہجری ) نے لکھی ہے، وہ چھٹی صدی ہجری کے مفسرین، خطباء اور مورخین میں سے ایک تھے، یہ کتاب عام طور سے بعد میں آنے والے مورخین کے لئے بہت زیادہ قابل استفادہ قرار پائی۔

۵۔ الکامل فی التاریخ:

یہ کتاب ابن اثیر (ولادت ۵۵۵ ہجری وفات ۶۳۰ ہجری ) نے لکھی ہے، انہوں نے اس کتاب میں ایسی دلچسپ روش اور طریقۂ کار کا انتخاب کیا ہے کہ جس نے اس کتاب کو تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے تمام افراد کے لئے قابل استفادہ بنا دیا ہے، انہوں نے مطالب کی جمع آوری اور انھیں نقل کرنے کے سلسلے میں بہت محنت اور توجہ سے کام لیا ہے۔

۶۔ البدایہ والنھایہ:

یہ کتاب ابن کثیر (ولادت ۷۰۱ ہجری وفات ۷۷۴ ہجری ) نے لکھی ہے۔ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ ابن تیمیہ(۴۷) کے شاگردوں میں سے ہیں۔

اس کتاب میں بعض بحثیں جیسے سیرت نبوی کو مختصر طور پر بیان کرنے کے بعد نظریات پر تنقید کے علاوہ ان کی تحقیق کی گئی ہے۔

یھاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ یہ جتنی بھی کتابیں ذکر کی گئی ہیں یہ ہماری بحث کے تاریخی مآخذ ہیں اور اس سے ھرگز مراد یہ نہیں ہے کہ ہم نے فقط ان ہی کتابوں پر اکتفا کی ہے۔ بلکہ بعض مقامات پر احادیث کی کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے جیسا کہ اہل سنت کی احادیث کی کتابوں میں سے صحیح بخاری، مسند احمد بن حنبل اور شیعہ احادیث کی کتابوں میں سے کافی اور بحار الانوار کو اس گفتگو کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ اگر چہ بعض مخصوص مطالب کے سلسلے میں ان کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے جو انہیں موضوعات پر لکھی گئی ہیں مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کتاب میں تحقیق کا جو طریقۂ کار اپنایا گیا ہے اگر چہ وہ بہت مشکل اور سنگین کام ہے لیکن ممکن ہے کہ یہ طریقۂ کار بہت سی تاریخی مباحث کی تحقیق کے سلسلے میں مفید ثابت ہو۔

____________________

۴۳. طبری۔ ج۱ ص۷، ۸

۴۵. السیرة النبویہ ابن ھشام ج۱ ص۴ (ابن اسحاق نے ایسے مطالب کا ذکر نہیں کیا کہ جو رسول خدا (ص.سے متعلق نہیں تھے یا یہ کہ بعض مطالب غیر مناسب تھے)

۴۶. منابع تاریخ اسلام۔ ص۱۲۱

۴۷. ابن تیمیہ کے افکار ہی در حقیقت وھابیت کی بنیاد ہیں۔


3

4

5

6

7

8

9

10