سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)30%

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں) مؤلف:
زمرہ جات: امامت

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 20 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12557 / ڈاؤنلوڈ: 4400
سائز سائز سائز
سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

مؤلف:
اردو

روایت ابی مخنف کی تحقیق کا طریقۂ کار

ابو مخنف کی روایات کے متن کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں فیصلہ کرنا آسان کام نہیں ہے کیونکہ ابو مخنف کو تاریخی روایات نقل کرنے والوں میں ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے لھٰذا دوسری روایات کے پیش نظر ان کی روایت کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ تاریخ کے تمام راوی جیسے ھشام کلبی، واقدی، مدائنی، ابن سعد وغیرہ یہ سب ان کے دور کے بعد سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی کے مرہون منت ہیں۔

کافی غور و فکر اور جستجو کے بعد اس کتاب میں تحقیق کا جو طریقۂ کار اپنایا گیا ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ سب سے پھلے ابو مخنف کی اس روایت کے مضمون کو تاریخ کی اہم کتابوں سے، جو تاریخ طبری سے پہلے اور اس کے بعد لکھی گئی ہیں نیز خود تاریخ طبری کی متعدد روایات سے اس کا موازنہ کیا جائے اس کے بعد تمام قرائن و شواھد کی روشنی میں اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جائے، اس سلسلے میں جن کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے وہ تاریخ کی معتبر، معروف و مشھور کتابیں ہیں جن میں سے اکثر کتابیں اہل سنت کی ہیں۔ ہم آپ کی معلومات کے لئے ان کتابوں کے نام کے ساتھ ساتھ ان کا مختصر تعارف کرانا بھی ضروری سمجھتے ہیں(۴۰)

البتہ اس سے پہلے کہ تاریخ طبری سے پہلے لکھی جانے والی کتابوں کا تعارف کرایا جائے سب سے پہلے خود تاریخ طبری کا تعارف پیش کرتے ہیں کیونکہ یہ ہماری بحث کا محور ہے اور تاریخ کی ایک جامع کتاب ہے۔

تاریخ طبری:

اس کتاب کا نام "تاریخ الامم والملوک یا تاریخ الرسل والملوک" ہے جس کے مولف ابو جعفر محمد بن جریر طبری ہیں وہ ۲۲۴ ہجری میں آمل طبرستان (مازندران: ایران کا ایک شہر) میں پیدا ہوئے اور تحصیل علوم کے سلسلے میں مقامات کا سفر کیا پھر بغداد میں سکونت اختیار کرلی اور ۳۱۰ ہجری میں وھیں انتقال کر گئے(۴۱) ۔

آپ کا شمار فقہ، تفسیر اور تاریخ کے عظیم علماء میں ہوتا تھا خاص طور پر آپ کی تاریخ اور تفسیر کی کتابیں تو علماء اہل فن کی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔

طبری نے اپنی کتاب میں اکثر روایات اپنے سے پہلے والے راویوں سے نقل کی ہیں اور طبری کے پاس ان کے ما قبل لکھی جانے والی کتابوں کا کافی ذخیرہ موجود تھا جن سے انھوں نے خوب استفادہ کیا اور چونکہ ان میں سے بعض کتابیں زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ناپید ہوگئیں تو ان کتابوں کے مطالب کو نقل کرنے کا واحد مآخذ فقط تاریخ طبری ہی ہے اسی لئے یہ کتاب ایک خاص اہمیت کی حامل ہے اور ابو مخنف کی کتاب "مقتل حسینعليه‌السلام " جو اپنی نوعیت کی واحد کتاب تھی اور اس بات کا زندہ ثبوت ہے کیونکہ اس کتاب کی روایتیں تاریخ طبری میں متعدد مقامات پر کثرت سے ذکر کی گئی ہیں(۴۲)

تاریخ طبری نے خلقت کی ابتداء، اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر خاتم الانبیاء تک اور پھر ان کی ہجرت سے لیکر ۳۰۲ ہجری تک کے ہر سال کے حالات و واقعات کو الگ الگ بیان کیا ہے۔

طبری کا کسی بھی واقعہ یا حادثہ کو نقل کرنے کا طریقہ جس کا تذکرہ انہوں نے اپنے مقدمہ میں کیا ہے(۴۳) یہ ہے کہ کسی واقعہ کے بارے میں راویوں سے روایتوں کو سند کے ساتھ نقل کرنے کے بعد اس کے بارے میں اپنی رائے دئے بغیر اسے قارئین کی نظر پر چھوڑ دیتے ہیں، البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ طبری کے پاس جو روایتیں موجود تھیں ان میں سے انہوں نے صرف چند روایتوں کا انتخاب کر کے انہیں اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے لیکن واقعہ غدیر کے بارے میں انہوں نے ایک روایت بھی ذکر نہیں کی ہے۔

وہ تمام راوی جن سے طبری نے روایتوں کو نقل کیا ہے وثاقت کے اعتبار سے برابر نہیں ہیں۔ جیسے ابن اسحاق، ابو مخنف، مدائنی، زُھری اور واقدی یہ تمام افراد وہ ہیں جنہوں نے تاریخی واقعات کو نقل کرنے میں ایک خاص طریقۂ کار اپنایا ہے اور اسی طبری کے راویوں میں سے ایک سیف بن عمر بھی ہے جو صرف روایتیں گڑھتا تھا اور نہایت ہی جھوٹا آدمی تھا(۴۴) ۔

اگر چہ طبری سنی مذھب تھے مگر زندگی کے آخری لمحات میں ان کے تشیع کی طرف مائل ہونے کا احتمال دیا جاسکتا ہے۔

طبری سے پھلے لکھی جانے والی وہ کتابیں جو اس گفتگو کے لئے منتخب کی گئی ہیں

۱۔ السیرة النبویہ لابن ھشام:

در اصل اس کتاب کے مولف ابن اسحاق ہیں، اور سیرت نبوی پر لکھی جانے والی اہم اور مصادر کی کتابوں میں اس کا شمار ہوتا ہے اس سے پہلے سیرت نبوی پر اتنی جامع کتاب نہیں لکھی گئی تھی۔ عبدالملک بن ھشام (وفات ۲۱۳ یا ۲۱۸ ہجری ) نے اس کتاب کی تلخیص کی اور اپنے خیال میں اس کی کچھ غیر ضروری عبارتوں کو حذف کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ مطالب کا اضافہ بھی کیا(۴۵) اس کے بعد یہ کتاب "السیرة النبویہ ابن ھشام" کے نام سے مشہور ہوگئی۔

۲۔ المغازی واقدی:

اس کتاب کے مولف محمد بن عمر واقدی (ولادت ۱۳۰ ہجری وفات ۲۰۷ ہجری ) ہیں ان کا تعلق عثمانی مذھب سے تھا وہ مدینہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۸۰ ہجری میں بغداد تشریف لائے اور مامون کی طرف سے بغداد کے قاضی مقرر ہوئے اور اسی شہر میں انتقال کرگئے، وہ غزوات اور فتوحات کے سلسلے میں اچھی خاصی معلومات رکھتے تھے انہوں نے ہجرت سے لیکر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت تک کی روایات کے بارےمیں عمدہ تحقیق کی ہے جس کی وجہ سے وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہے۔

۳۔ الطبقات الکبريٰ:

اس کتاب کے مولف محمد بن سعد (ولادت ۱۶۸ ہجری وفات ۲۳۰ ہجری ) ہیں وہ کاتب واقدی کے نام سے مشہور تھے اور ایک نہایت ہی متعصب قسم کے سنی تھے ان کا تعلق بصرہ سے تھا اور پھر بغداد جاکر واقدی کے پاس ان کے کاتب کی حیثیت سے تعلیم میں مشغول ہوگئے، انھوں نے اپنی کتاب کی پھلی دو جلدوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور اس کے بعد کی جلدوں میں صحابہ اور تابعین کے بارے میں بحث کی ہے جو اس سلسلے کی ایک اہم ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔

۴۔ تاریخ خلیفہ بن خیاط (وفات ۲۴۰ ہجری ):

خلیفہ بن خیاط تیسری صدی ہجری کے ایک اہم مورخ سمجھے جاتے ہیں جو سنی مذھب سے تعلق رکھتے ہیں، ابن کثیر نے انہیں امام تاریخ کہہ کر یاد کیا ہے(۴۶) یہ کتاب تاریخی کتابوں میں قدیم ترین کتاب ہے کہ جس نے تاریخی حالات و واقعات کو ہر سال کے اعتبار سے پیش کیا ہے۔

۵۔ الامامہ والسیاسة:

یہ کتاب ابن قتیبہ دینوری (ولادت ۲۱۳ ہجری وفات ۲۷۶ ہجری ) کی طرف منسوب ہے جن کا شمار تیسری صدی ہجری کے اہل سنت سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور مورخین میں ہوتا ہے، ان کی ولادت بغداد میں ہوئی مگر کچھ عرصہ دینور میں قاضی رہے اگر چہ اس کتاب کی نسبت دینوری کی طرف مشکوک ہے لیکن بہر حال یہ کتاب سن تین ہجری کے آثار میں سے ایک اہم کتاب ہے۔

۶۔ انساب الاشراف:

یہ کتاب احمد بن یحیيٰ بلاذُری (ولادت ۱۷۰ ہجری سے ۱۸۰ ہجری کے درمیان، وفات ۲۷۹ ہجری ) نے لکھی ہے جو تیسری صدی ہجری کے برجستہ مورخین اور نسب شناس افراد میں سے ایک تھے وہ سنی مذھب اور عباسیوں کے ہم خیال افراد میں سے تھے، اس کتاب میں تاریخ اسلام سے متعلق خاندانوں کا نام اور ان کا نسب وغیرہ بیان کیا گیا ہے۔

۷۔ تاریخ یعقوبی:

اس کتاب کے مولف احمد بن ابی یعقوب اسحاق بن جعفر بن وھب بن واضح ہیں ۲۸۴ ہجری میں انتقال ہوا، آپ کا تعلق شیعہ مذھب سے تھا یہ کتاب تاریخ کی موجودہ قدیم ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔

تاریخ طبری کے بعد لکھی جانے والی وہ کتابیں جن سے اس گفتگو میں استفادہ کیا گیا ہے یہ ہیں۔

۱۔ السقیفہ و فدک:

یہ کتاب ابوبکر جوھری (وفات ۳۲۳ ہجری ) نے لکھی مگر زمانے کے گذرنے کے ساتھا ساتھ گم ہوگئی اس کتاب کے عمدہ مطالب دوسری کتابوں میں موجود ہیں، یہ کتاب ابن ابی الحدید کے پاس موجود تھی انہوں نے شرح نہج البلاغہ میں اس کتاب سے بہت کچھ نقل کیا ہے، اب یہ کتاب محمد ھادی امینی کی کوششوں سے مآخذ سے جمع آوری کے بعد "السقیفہ و فدک" کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔

۲۔ مروج الذھب:

یہ کتاب علی بن حسین مسعودی (وفات ۳۴۶ ہجری ) نے لکھی ہے، ممکن ہے کہ وہ شیعہ اثنا عشری ہوں مگر اس بات کا اندازہ "مروج الذھب" میں موجود مطالب سے نہیں لگایا جاسکتا بلکہ اس سے فقط ان کے مذھب شیعہ کی طرف مائل ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہ کتاب مقامات کے سفر کر کے نہایت تحقیق اور جستجو کے بعد لکھے جانے کی وجہ سے کافی اہمیت کی حامل ہے، انہوں نے اپنی کتاب میں ابو مخنف کا بہت ذکر کیا ہے۔

۳۔ الارشاد:

اس کتاب کے مولف شیخ مفید (ولادت ۳۳۶ ہجری وفات ۴۱۳ ہجری ) ہیں وہ ایک شیعہ متکلم، فقیہ اور نامور مورخ ہیں، یہ کتاب اگر چہ شیعوں کے آئمہعليه‌السلام کی زندگی کے بارے میں لکھی گئی ہے لیکن اس کے باوجود اس کتاب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سے متعلق بھی بہت سے واقعات ملتے ہیں۔ شیخ مفید کے علمی مقام و مرتبہ اور تقويٰ و پرہیز گاری کی وجہ سے انکی تحریریں شیعہ علماء کے نزدیک ایک معتبر سند کی حیثیت رکھتی ہیں۔

۴۔ المنتظم فی تاریخ الملوک والامم:

یہ کتاب ابن جوزی (ولادت ۵۰۸ ہجری وفات ۵۹۷ ہجری ) نے لکھی ہے، وہ چھٹی صدی ہجری کے مفسرین، خطباء اور مورخین میں سے ایک تھے، یہ کتاب عام طور سے بعد میں آنے والے مورخین کے لئے بہت زیادہ قابل استفادہ قرار پائی۔

۵۔ الکامل فی التاریخ:

یہ کتاب ابن اثیر (ولادت ۵۵۵ ہجری وفات ۶۳۰ ہجری ) نے لکھی ہے، انہوں نے اس کتاب میں ایسی دلچسپ روش اور طریقۂ کار کا انتخاب کیا ہے کہ جس نے اس کتاب کو تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے تمام افراد کے لئے قابل استفادہ بنا دیا ہے، انہوں نے مطالب کی جمع آوری اور انھیں نقل کرنے کے سلسلے میں بہت محنت اور توجہ سے کام لیا ہے۔

۶۔ البدایہ والنھایہ:

یہ کتاب ابن کثیر (ولادت ۷۰۱ ہجری وفات ۷۷۴ ہجری ) نے لکھی ہے۔ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ ابن تیمیہ(۴۷) کے شاگردوں میں سے ہیں۔

اس کتاب میں بعض بحثیں جیسے سیرت نبوی کو مختصر طور پر بیان کرنے کے بعد نظریات پر تنقید کے علاوہ ان کی تحقیق کی گئی ہے۔

یھاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ یہ جتنی بھی کتابیں ذکر کی گئی ہیں یہ ہماری بحث کے تاریخی مآخذ ہیں اور اس سے ھرگز مراد یہ نہیں ہے کہ ہم نے فقط ان ہی کتابوں پر اکتفا کی ہے۔ بلکہ بعض مقامات پر احادیث کی کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے جیسا کہ اہل سنت کی احادیث کی کتابوں میں سے صحیح بخاری، مسند احمد بن حنبل اور شیعہ احادیث کی کتابوں میں سے کافی اور بحار الانوار کو اس گفتگو کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ اگر چہ بعض مخصوص مطالب کے سلسلے میں ان کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے جو انہیں موضوعات پر لکھی گئی ہیں مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کتاب میں تحقیق کا جو طریقۂ کار اپنایا گیا ہے اگر چہ وہ بہت مشکل اور سنگین کام ہے لیکن ممکن ہے کہ یہ طریقۂ کار بہت سی تاریخی مباحث کی تحقیق کے سلسلے میں مفید ثابت ہو۔

____________________

۴۳. طبری۔ ج۱ ص۷، ۸

۴۵. السیرة النبویہ ابن ھشام ج۱ ص۴ (ابن اسحاق نے ایسے مطالب کا ذکر نہیں کیا کہ جو رسول خدا (ص.سے متعلق نہیں تھے یا یہ کہ بعض مطالب غیر مناسب تھے)

۴۶. منابع تاریخ اسلام۔ ص۱۲۱

۴۷. ابن تیمیہ کے افکار ہی در حقیقت وھابیت کی بنیاد ہیں۔

فرائض دور ِ غیبت

علامہ شیخ عباس قمی علیہ الرحمہ نے دور ِ غیبت ِامام میں آٹھ طرح کے فرائض کا تذکرہ کیا ہے جو احساس غیبت امام اور امام کی حقیقت کے واضح کرنے کے بہترین وسائل ہیں اور جن کے بغیر نہ ایمان بالغیب مکمل ہو سکتا ہے اور نہ انسان کو منتظرین امام زمانہ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ان آٹھ فرائض کی مختصر تفصیل یہ ہے:

۱ ۔ محزون و رنجیدہ رہنا: ۔

حقیقت امر یہ ہے کہ انسان کو غیبت ِ امام کی حقیقت اور اس سے پیدا ہونے والے نقصانات کا اندازہ ہو جائے تو اس کی زندگی سے مسرت و ابتہاج ناپید ہو جائے۔

زمانہ کے بدترین حالات، اہل زمانہ کے بے پناہ ظلم و ستم، نظام اسلامی کی بربادی، تعلیمات الٰہیہ کا استہزاء اور اس طرح کے بے شمار معاملات ہیں جن سے غیبت ِ امام کے نقصانات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور ان کا احساس ہی انسان کے آنسو بہانے کے لیے کافی ہے۔ پھر اگر یہ بات صحیح ہے کہ امام انسان کی زندگی کی محبوب ترین شخصیت کا نام ہے، تو کیسے ممکن ہے کہ محبوب نگاہوں سے اوجھل رہے اور عاشق کے دل میں اضطراب اور بے قراری نہ پیدا ہو اور وہ اپنے محبوب کی طرف سے اس طرح غافل ہو جائے کہ مخصوص تاریخوں اور مواقع کے علاوہ اس کے وجود اور اس کی غیبت کا احساس بھی نہ پیدا کرے۔

دعائے ندبہ میں انہیں تمام حالات کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے اور اسی لیے اس دعا کو دعائے ندبہ کہا جاتا ہے کہ انسان اس کے مضامین کی طرف متوجہ ہو جائے اور غیبت ِ امام کی مصیبت کا صحیح اندازہ کر لے تو گریہ اور ندبہ کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے اور شاید اسی لیے اس دعا کی تاکید ایام عید میں کی گئی ہے یعنی روز عید فطر، روز عید قربان، روز عید غدیر اور روز جمعہ جسے اسلامی احکام کے اعتبار سے عید سے تعبیر کیا گیا ہے کہ عید کا دن انسان کے لیے انتہائی مسرت کا دن ہوتا ہے اور اس دن ایک محب اور عاشق کا فرض ہے کہ اپنے محبوب حقیقی کے فراق کا احساس پیدا کرے اور اس کی فرقت پر آنسو بہائے تاکہ اسے فراق کی صحیح کیفیت کا اندازہ ہو سکے جیساکہ امام محمد باقرں نے فرمایا ہے کہ :

”جب کوئی عید کا دن آتا ہے تو ہم آل محمد کا غم تازہ ہو جاتا ہے کہ ہم اپنا حق اغیار کے ہاتھوں پامال ہوتے دیکھتے ہیں اور مصلحت ِ الٰہیہ کی بنیاد پر کوئی آواز بھی بلند نہیں کر سکتے۔“

ائمہ معصومین میں مولائے کائنات کے دور سے امام عسکریں تک ہر امام نے غیبت کے نقصانات اور مصائب کا تذکرہ کرکے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کائنات میں خیر صرف اس وقت نمایاں ہوگا جب ہمارا قائم قیام کرے گا اور اس سے پہلے اس دنیا سے کسی واقعی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی ہے تاکہ انسان مومن بدترین حالات سے بھی مایوس نہ ہو جائے اور پھر انہیں حالات سے راضی اور مطمئن بھی نہ ہو جائے کہ یہ اس کے نقص ایمان کا سب سے بڑا ذریعہ ہوگا۔

اس مقام پر سدیر صیرفی کی اس روایت کا نقل کرنا نامناسب نہ ہوگا کہ میں (سدیر) اور مفضل بن عمر اور ابو بصیر اور ابان بن تغلب امام صادقں کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ خاک پر بیٹھے ہوئے بے تحاشہ گریہ فرما رہے ہیں اور فرماتے جاتے ہیں کہ میرے سردار! تیری غیبت نے میری مصیبت کو عظیم کر دیا ہے، میری نیند کو ختم کر دیا ہے اور میری آنکھوں سے سیلاب ِ اشک جاری کر دیا ہے۔ میں نے حیرت زدہ ہوکر عرض کی کہ ”فرزند رسول! خدا آپ کو ہر بلا سے محفوظ رکھے، یہ گریہ کا کون سا انداز ہے اور خدا نخواستہ کون سی تازہ مصیبت آپ پر نازل ہوگئی ہے؟“ تو فرمایا کہ:

”میں نے کتاب ِ جفر کا مطالعہ کیا ہے جس میں قیامت تک کے حالات کا ذکر موجود ہے تو اس میں آخری وارث پیغمبر کی غیبت اور طول غیبت کے ساتھ اس دور میں پیدا ہونے والے بدترین شکوک و شبہات اور ایمان و عقیدہ کے تزلزل کے حالات اور پھر شیعوں کے مبتلائے شک و ریب ہونے اور تغافل اعمال کا مطالعہ کیا ہے اور اس امر نے مجھے اس طرح بے قرار ہوکر رونے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس غیبت میں صاحبانِ ایمان کا کیا حشر ہوگا اور ان کا ایمان کس طرح محفوظ رہ سکے گا۔“

عزیزانِ گرامی! اگر ہمارے حالات اور ہماری بد اعمالیاں سیکڑوں سال پہلے امام صادقں کو بے قرار ہوکر رونے پر مجبور کر سکتی ہیں تو کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ہم اس دور ِ غیبت میں ان حالات اور آفات کا اندازہ کرکے کم از کم روز ِ جمعہ خلوص دل کے ساتھ دعائے ندبہ کی تلاوت کرکے اپنے حالات پر خود آنسو بہائیں کہ شاید اسی طرح ہمارے دل میں عشق امام زمانہ کا جذبہ پیدا ہو جائے وار ہم کسی آن ان کی یاد سے غافل نہ ہونے پائیں جس طرح کہ انہوں نے خود اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم کسی وقت بھی اپنے چاہنے والوں کی یاد سے غافل نہیں ہوتے ہیں اور نہ ان کی نگرانی کو نظر انداز کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ان کا اعتماد ہمارے اوپر رہے اور ان کی حفاظت و رعایت کی ذمہ داری بھی ہمارے ہی حوالے کی گئی ہے۔

۲ ۔ انتظار ِ حکومت و سکونِ آل محمد :۔

اس انتظار کو دور ِ غیبت میں افضل اعمال قرار دیا گیا ہے اور اس میں اس امر کا واضح اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس دنیا میں ایک دن آل محمد کا اقتدار ضرور قائم ہونے والا ہے اور مومنین کرام کی ذمہ داری ہے کہ اس دن کا انتظار کریں اور اس کے لیے زمین ہموار کرنے اور فضا کو سازگار بنانے کی کوشش کرتے رہیں۔

اب یہ دور کب آئے گا اور اس کا وقت کیا ہے؟ یہ ایک راز ِ الٰہی ہے جس کو تمام مخلوقات سے مخفی رکھا گیا ہے بلکہ روایات میں یہاں تک وارد ہوا ہے کہ امیر المومنینں کے زخمی ہونے کے بعد آپ کے صحابی عمرو بن الحمق نے آپ کی عیادت کرتے ہوئے عرض کی کہ مولا! ان مصائب کی انتہاء کیا ہے؟ تو فرمایا کہ ۷۰ ء ھ تک۔ عرض کی کہ کیا اس کے بعد راحت و آرام ہے؟ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا اور غش کھا گئے۔

اس کے بعد جب غش سے افاقہ ہوا تو دوبارہ سوال کیا۔ فرمایا: بے شک ہر بلا کے بعد سہولت اور آسانی ہے لیکن اس کا اختیار پروردگار کے ہاتھ میں ہے۔

اس کے بعد ابو حمزہ ثمالی نے امام باقرں سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا کہ ۷۰ ء ھ تو گزر چکا ہے لیکن بلاؤں کا سلسلہ جاری ہے؟ تو فرمایا کہ شہادت ِ امام حسینں کے بعد جب غضب پروردگار شدید ہو تو اس نے سہولت و سکون کے دور کو آگے بڑھا دیا۔

پھر اس کے بعد ابو حمزہ نے یہی سوال امام صادقں سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ بے شک غضب ِ الٰہی نے اس مدت کو دوگنا کر دیا تھا، اس کے بعد جب لوگوں نے اس راز کو فاش کر دیا تو پروردگار نے اس دور کو مطلق راز بنا دیا اور اب کسی کو اس امر کا علم نہیں ہو سکتا ہے، اور ہر شخص کا فرض ہے کہ اس دور کا انتظار کرے کہ انتظار ظہور کرنے والا مر بھی جائے گا تو وہ قائم آل محمد کے اصحاب میں شمار کیا جائے گا۔

۳ ۔ امام کے وجود ِ مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہِ احدیت میں دست بدعا رہنا:۔

ظاہر ہے کہ دعا ہر اس مسئلہ کا علاج ہے جو انسان کے امکان سے باہر ہو اور جب دور ِ غیبت میں امام کی حفاظت کسی اعتبار سے بھی ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور ہم خود انہیں کے رحم و کرم سے زندہ ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے وجود ِ مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہِ احدیت میں مسلسل دعائیں کرتے رہیں اور کسی وقت بھی اس فرض سے غافل نہ ہوں: ﴿اَللّٰھُمَّ کُنْ لِّوَلِیِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ﴾ جسے عام طور سے اثنائے نماز قنوت یا بعد نماز وظیفہ کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔ امامں کے وجود کی حفاظت، ان کے ظہور کی سہولت اور ان کی عادلانہ حکومت کے بارے میں جامع ترین دعا ہے، جس سے صاحبانِ ایمان کو کسی وقت غافل نہیں ہونا چاہیے۔

۴ ۔ امام کی سلامتی کے لیے صدقہ نکالنا :۔

صدقہ درحقیقت خواہش سلامتی کا عملی اظہار ہے کہ انسان جس کی سلامتی کی واقعاً تمنا رکھتا ہے اس کے حق میں صرف لفظی طور پر دعا نہیں کرتا ہے بلکہ عملی طور پر بھی دفع بلا کا انتظام کرتا ہے اور یہ انتظام صدقہ سے بہتر کوئی شے نہیں ہے۔ دعا ان لوگوں کے لیے بہترین شے ہے جو صدقہ دینے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے ہیں لیکن جن کے پاس یہ استطاعت پائی جاتی ہے وہ اگر صرف دعا پر اکتفا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف لفظی کاروبار کرنا چاہتے ہیں اور امام کی سلامتی کے لیے چند پیسے بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے ہیں جب کہ جو کچھ مالک کائنات سے لیا ہے وہ سب انہیں کے صدقہ میں لیا ہے اور جو کچھ آئندہ لینا ہے وہ بھی انہیں کے طفیل میں اور انہیں کے وسیلہ سے حاصل کرنا ہے۔

۵ ۔ امام عصر کی طرف سے حج کرنا یا دوسروں کو حج نیابت کے لیے بھیجنا :۔

جو دور قدیم سے شیعوں کے درمیان مرسوم ہے کہ لوگ اپنے امام زمانہں کی طرف سے نیابةً اعمال انجام دیا کرتے تھے اور امام عصرں ان کے ان اعمال کی قدر دانی بھی فرمایا کرتے تھے جیساکہ ابو محمد دعلجی کے حالات میں نقل کیا گیا ہے کہ انہیں کسی شخص نے امام عصرں کی طرف سے نیابةً حج کے لیے پیسہ دیے تو انہوں نے اپنے فاسق و فاجر اور شرابی فرزند کو حج نیابت ِ امام کے لیے اپنے ساتھ لے لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میدانِ عرفات میں ایک انتہائی نوجوان شخص کو دیکھا جو یہ فرما رہے ہیں کہ تمہیں اس بات سے حیا نہیں آتی ہے کہ لوگ تمہیں حج نیابت کے لیے رقم دیتے ہیں تو تم فاسق و فاجر افراد کو یہ رقم دے دیتے ہو۔ قریب ہے کہ تمہاری آنکھ ضائع ہو جائے کہ تم نے انتہائی اندھے پن کا ثبوت دیا ہے۔ چنانچہ راوی کہتا ہے کہ حج سے واپسی کے چالیس روز کے بعد ان کی وہ آنکھ ضائع ہوگئی جس کی طرف اس مرد نوجوان نے اشارہ کیا تھا۔

۶ ۔ امام عصر کا اسم گرامی آنے پر قیام کرنا :۔

بالخصوص اگر آپ کا ذکر لفظ قائم سے کیا جائے کہ اس میں حضرت کے قیام کا اشارہ پایا جاتا ہے اور آپ کے قیام کے تصور کے ساتھ کھڑا ہو جانا محبت ،عقیدت اور غلامی کا بہترین مقتضی ہے جس سے کسی وقت بھی غفلت نہیں کی جا سکتی ہے۔

۷ ۔ دور غیبت میں حفاظت دین و ایمان کے لیے دعا کرتے رہنا :۔

امام صادقں نے زرارہ سے فرمایا تھا کہ ہمارے قائم کی غیبت میں اس قدر شبہات پیدا کیے جائیں گے کہ اچھے خاصے لوگ مشکوک ہو جائیں گے لہٰذا اس دور میں ہر شخص کا فرض ہے کہ سلامتی ایمان کی دعا کرتا رہے اور یاد امام میں مصروف رہے اور عبد الله بن سنان کی امام صادقں سے روایت کی بنا پر کم سے کم ﴿یٰا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبیْ عَلٰی دِیْنِکَ﴾ کا ورد کرتا رہے کہ سلامتی دین و ایمان کے لیے یہ بہترین اور مختصر ترین دعا ہے۔

۸ ۔ امام زمانہ سے مصائب و بلیات کے موقع پر استغاثہ کرنا :۔

کہ یہ بھی اعتقاد کے استحکام اور روابط و تعلقات کے دوام کے لیے بہترین طریقہ ہے اور پروردگار عالم نے ائمہ طاہرین کو یہ طاقت اور صلاحیت دی ہے کہ وہ فریاد کرنے والوں کی فریاد رسی کر سکتے ہیں جیساکہ ابو طاہر بن بلال نے امام صادقں سے نقل کیا ہے کہ پروردگار جب اہل زمین تک کوئی برکت نازل کرنا چاہتا ہے تو پیغمبر اکرم سے امام آخر تک سب کو وسیلہ قرار دیتا ہے اور ان کی بارگاہوں سے گزرنے کے بعد برکت بندوں تک پہنچتی ہے اور جب کسی عمل کو منزل قبولیت تک پہنچانا چاہتا ہے تو امام زمانہں سے رسول اکرم تک ہر ایک کے وسیلہ سے گزار کر اپنی بارگاہِ جلالت پناہ تک پہنچاتا ہے اور پھر قبولیت کا شرف عنایت کرتا ہے بلکہ خود امام عصرں نے بھی شیخ مفید کے خط میں تحریر فرمایا تھا کہ تمہارے حالات ہماری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہیں اور ہم تمہارے مصائب کی مکمل اطلاع رکھتے ہیں اور برابر تمہارے حالات کی نگرانی کرتے رہتے ہیں۔

علامہ مجلسی نے تحفة الزائر میں نقل کیا ہے کہ صاحبانِ حاجت کو چاہیے کہ اپنی حاجت کو کسی کاغذ پر لکھ کر ائمہ طاہرین کی قبور مبارکہ پر پیش کر دیں یا کسی خاک میں رکھ کر دریا یا نہر وغیرہ کے حوالہ کر دیں کہ امام زمانہں اس حاجت کو پورا فرما دیں گے۔ اس عریضہ کی ترسیل میں آپ کے چاروں نواب خاص میں سے کسی کو بھی مخاطب بنایا جا سکتا ہے۔ انشاء الله وہ اسی طرح امام کی بارگاہ میں پیش کریں گے جس طرح اپنی زندگی میں اس فرض کو انجام دیا کرتے تھے اور امامں اسی طرح مقصد کو پورا کریں گے جس طرح اس دور میں کیا کرتے تھے۔

مَنْ اَنْکَرَ خُرُوْجَ الْمَھْدِیْ

اسلامی روایات کے مطالعہ سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ سرکار دو عالم نے اپنی زندگی میں قیامت تک پیش آنے والے بیشتر واقعات کی وضاحت کر دی تھی اور پروردگار کی طرف سے ترتیب پانے والے نظامِ ہدایت کی صراحت فرما دی تھی۔

آیت اولی الامر کی وضاہت کرتے ہوئے ان تمام افراد کے ناموں کا بھی تذکرہ کر دیا تھا جنہیں پروردگار کی طرف سے منصب ِ ہدایت تفویض ہوا تھا اور جن کے ذمہ صبح قیامت تک ہدایت عالم کی ذمہ داری تھی۔

اس سلسلہ میں ایک عنوان ”مہدی“ بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے جس کی بار بار تکرار کی گئی ہے اور جس کے ذریعہ امت کو سمجھایا گیا ہے کہ کائنات کے لیے ایک مہدی کا وجود لازمی ہے، اور دنیا اس وقت فنا نہیں ہو سکتی ہے جب تک کہ مہدی منظر عام پر آکر ہدایت ِ عالم اور اصلاحِ امت کا فرض انجام نہ دے دے۔

لفظ ”مہدی“ کی تعبیر میں یہ نکتہ بھی پوشیدہ تھا کہ وہ ایسا ہادی ہوگا جو اپنی رہنمائی میں کسی کی ہدایت کا محتاج نہ ہوگا بلکہ اسے پروردگار ِ عالم کی طرف سے ہدایت حاصل ہوگی اور وہ دنیا کی ہدایت کا فرض انجام دے گا۔

یہ بات امت ِ اسلامیہ میں اس قدر واضح تھی کہ ہر دور کے مسلمان کو ایک مہدی کی تلاش تھی اور بسا اوقات تو ایسا بھی ہوا ہے کہ لوگ خود ہی مہدی بن گئے یا سلاطین زمانہ نے اپنی اولاد کے نام مہدی رکھ دیے تاکہ امت کے درمیان جانے پہچانے لق سے فائدہ اٹھایا جا سکے، اور انہیں یہ سمجھایا جا سکے کہ جس کی آمد کی خبر سرکار دو عالم نے دی تھی وہ مہدی میرے گھر میں پیدا ہو چکا ہے۔

بالکل ”مہدی“ ہی کی طرح کا ایک عنوان ”قائم“ بھی تھا جس کا تذکرہ بار بار روایات میں وارد ہوا ہے اور اس کثرت سے وارد ہوا ہے کہ سلسلہ امامت کے درمیانی دور ہی سے امت کو ایک ”قائم“ کی تلاش شروع ہوگئی تھی اور جب بھی وہ حالات پیدا ہوگئے یا مظالم اس منزل پر آگئے جس منزل پر امت کے خیال میں ”قائم“ کا قیام ضروری تھا ایک ”قائم“ کی تلاش میں شدت پیدا ہوگئی اور لوگ بے چینی سے اس مصلحِ امت کا انتظار کرنے لگے جس کے قیام سے عالمِ انسانیت کی اصلاح ہو جائے گی اور دنیا کے حالات یکسر تبدیل ہو جائیں گے۔

بلکہ اکثر و بیشتر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لوگ ائمہ معصومین کی بارگاہ میں حاضر ہوکر برجستہ یہ سوال کرتے تھے کہ کیا سرکار ہی ”قائم آل محمد“ ہیں؟ یا اپنے جس فرزند کی امامت کا اعلان کر رہے ہیں اور اس کی طرف قوم کو متوجہ کر رہے ہیں۔ یہی ”قائم آل محمد“ ہے۔ یعنی امت کے ذہن میں ”قائم“ کا تصور اور ”قائم“ کے ساتھ بساطِ ظلم و جور کے فنا ہو جانے اور عدل و انصاف کے قائم ہونے کا تصور اس قدر راسخ تھا کہ جہاں حالات سے پریشانی پیدا ہوئی اور عدل و انصاف کی ضرورت محسوس ہوئی وہیں ایک ”قائم“ کی جستجو کا خیال صفحہ ذہن پر ابھر آیا اور چونکہ مرسل اعظم نے مصلح امت کا تصور اپنی ہی نسل اور اپنے ہی خاندان کے بارے میں دیا تھا اس لیے لوگ اسی خاندان میں تلاش کرنے لگتے اور اس کی ہر فرد سے اصلاح کی آخری امید وابستہ کرکے اسے ”قائم“ کے لقب سے یاد کرنے لگتے۔

ائمہ معصومین نے بھی یہ اہتمام برقرار رکھا کہ ایک طرف یہ وضاحت کرتے رہے کہ ہم ”قائم“ نہیں ہیں یا ابھی آل محمد کے قیام کا وقت نہیں آیا ہے۔ ”قائم“ اس کے بعد آنے والا ہے اور دوسری طرف جہاں بھی لفظ ”قائم“ زبان پر آیا وہیں سر و قد کھڑے ہوگئے اور گویا کہ ایک طرح کا فرض تعظیم بجا لائے جس کا ظاہری تصور یہی تھا کہ ”قائم“ ایسی باعظمت شخصیت کا نام ہے جس کے تذکرہ پر اس کے آباء و اجداد بھی کھڑے ہو جاتے ہیں اور تعظیم و تکریم کا انداز اختیار کر لیتے ہیں جس طرح کہ عظمت ِ زہرا سلام الله علیہا کے اظہار کے لیے مرسل اعظم قیام فرماتے تھے لیکن حقیقی اعتبار سے اس کا ایک دقیق تر نکتہ یہ بھی تھا کہ ائمہ معصومین اس طرزِ عمل کے ذریعہ قوم کے ذہن میں یہ تصور راسخ کرنا چاہتے تھے کہ ”قائم“ کا کام تنہا قیام کرنا نہیں ہے کہ وہ اپنے قیام و جہاد کے ذریعہ سارے عالم کی اصلاح کر دے اور امت خاموش تماشائی بنی رہے جس طرح کہ قوم موسیٰ نے جناب موسیٰں سے کہا تھا کہ آپ اور ہارون جا کر اصلاح کا فرض انجام دیں، ہم یہاں بیٹھ کر آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ائمہ معصومین کو بنی اسرائیل کا یہ قعود اور ان کی بے حسی اس قدر ناگوار تھی کہ آپ اپنی قوم کو اس کے بالکل برعکس انداز میں تربیت دے رہے تھے کہ وہاں نبی خدا قیام کے لیے آمادہ تھا اور قوم بیٹھی ہوئی تھی اور یہاں قیام کی شان یہ ہے کہ ابھی صرف اس کے نام ”قائم“ کا ذکر آیا ہے اور ہم اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں تاکہ تمہارے ذہن میں یہ تصور راسخ رہے کہ جب وہ ظاہر بظاہر تمہارے سامنے آجائے اور قیام کے لیے آمادہ ہو جائے تو خبردار تم خاموش نہ بیٹھے رہ جانا اور تمہاری حیثیت ایک تماشائی کی نہ ہو جائے۔ بلکہ تمہارے فرض ہے کہ جیسے ہی وہ قیام کا ارادہ کرے تم بھی اس کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور اصلاح عالم کی مہم میں اس کے ساتھ شریک ہو جاؤ ورنہ صرف کسی کے نام آجانے پر اس کے بزرگوں کا کھڑا ہو جانا کوئی دقیق توجیہہ نہیں رکھتا ہے۔ صدیقہ طاہرہ سلام الله علیہا کے لیے پیغمبر اسلام کا قیام ان کی تشریف آوری پر ہوتا تھا ان کے نام پر نہیں۔ اور ائمہ معصومین کا یہ قیام بھی باقی القاب و خطابات سے وابستہ نہیں تھا بلکہ صرف لفظ ”قائم“ سے وابستہ تھا جس کا کھلا ہوا مطلب یہ تھا کہ ان کے نام پر قیام مطلوب ہے اور اس شخصیت کے ساتھ شریک قیام و جہاد ہونا اسلامی فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے۔

علماءِ اعلام کی تعلیم اور ان کا طریقہ کار آج بھی یہی ہے کہ جب وارث ِپیغمبر کا ذکر اس لقب کے ساتھ ہوتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں اور حضرت کی خدمت میں زبان حال سے عرض کرتے ہیں کہ ہم حضور کے ساتھ قیام کے لیے تیار ہیں۔ بس آپ کے ظہور و قیام کی دیر ہے اس کے بعد ہم آپ کی خدمت میں رہیں گے اور اصلاح عالم کی مہم میں آپ کی ہر امکانی مدد کریں گے۔

”مہدی“ اور ”قائم“ یہ دونوں الفاظ دو مختلف لیکن باہم مربوط حقائق کی نشان دہی کرتے ہیں۔ لفظ ”مہدی“ اس حقیقت کی وضاحت کرتا ہے کہ دنیا کی اصلاح کسی خود ساختہ یا زمانہ ساز ہادی کے ذریعہ نہیں ہو سکتی ہے، اس کے لیے وہ شخص درکار ہے جس کی ہدایت کا انتظام قدرت کی طرف سے کیا گیا ہو، اور اسے پروردگار نے مہدی بنا کر ہدایت کا ذمہ دار بنایا ہو، اور ”قائم“ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اصلاح عام کا کام گھر بیٹھے انجام نہیں پا سکتا ہے اس کے لیے قیام کرنا ہوگا، زحمتیں برداشت کرنا ہوں گی، مصائب اور طوفانوں کا مقابلہ کرنا ہوگا اور ظلم و جور کے عالم گیر ہنگامہ سے ٹکرانا ہوگا۔

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ائمہ معصومین نے ہر دور میں طوفانوں کا مقابلہ کیا ہے، ہر دور میں مصائب برداشت کیے ہیں اور بنی امیہ و بنی عباس کے فراعنہ و جبابرہ سے ٹکر لی ہے لیکن اس کے باوجود انہیں قائم کے لقب سے یاد نہیں کیا گیا۔

حضرت امام حسینں کا قیام کربلا میں، امام سجادں کا قیام یزید اور یزیدیت کے مقابلہ میں، امام باقرں و امام صادقں کا قیام بنی امیہ و بنی عباس کے مظالم کے سامنے، امام کاظمں و امام رضاں کا قیام ہارون و مامون کے ظلم و جور کے سامنے، امام جوادں و امام نقی ں اور امام عسکریں کا قیام سلاطین وقت کے مقابلہ میں کوئی مخفی بات نہیں ہے۔ ان میں سے اکثر قیام مسلح نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود نہ یہ تصور ہو سکتا ہے کہ ائمہ کرام نے اپنے کو حکومتوں کے سپرد کر دیا تھا اور نہ یہ سوچا جا سکتا ہے کہ وہ حالات سے بالکل الگ تھلگ رہے اور امت کی بربادی کا منظر دیکھتے رہے۔ انہوں نے اپنے اپنے ظاہری امکان بھر ہر موقع پر قیام کیا ہے اور حکومت کو اس کے ظلم و جور پر متنبہ کیا ہے بلکہ عوام کو بھی حکومتوں کے مظالم سے آگاہ کیا ہے۔ صفوان جمال سے یہاں تک فرما دیا تھا کہ ان حکام کو جانور کرایہ پر دینا بھی ان کی زندگی کی تمنا کے برابر ہے اور ظالم کی زندگی کی تمنا اس کے ظلم میں شرکت کے مرادف ہے جو کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ لیکن ان تمام مجاہدات کے باوجود ان معصومین کو لفظ قائم سے نہیں یاد کیا گیا اور یہ حضرات خود فرماتے رہے کہ ”قائم“ اس کے بعد آنے والا ہے۔ اس کا مطلب یہہے کہ آخری ”قائم“ کے ذمہ جو کام رکھا گیا ہے وہ ان سب سے زیادہ اہم اور سنگین ہے اور اس کا انقلاب آخری اور دائمی ہوگا۔ اس کا فریضہ ظالم سے مقابلہ کرنا اور اسے فنا کرن دینا نہیں ہے بلکہ اس کا فریضہ ظلم و جور کا استیصال کرنا ہے۔ اس کے دور میں صرف کسی ایک ظالم حکومت کا سامنا نہیں کرنا ہوگا بلکہ اسلام و کفر کی تمام انحرافی قوتوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ وہ منحرف مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں، عیسائیوں، کافروں، مشرکوں اور بے دینوں سے بیک وقت مقابلہ کرے گا اور ظاہر ہے کہ اتنے بڑے مقابلے کے لیے اسی طرح کی توانائی کی ضرورت ہوگی اور اتنے بڑے جہاد کے لیے ایسا ہی حوصلہ درکار ہوگا۔

مثالی انداز سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح اسلام کی غربت کے دور میں امام حسینں نے تن تنہا اپنے مختصر ساتھیوں کے ساتھ پوری قوت ِ ظلم و جور کے مقابلہ میں قیام کیا تھا اسی طرح یہ وارث ِ حسین ساری دنیا کے ظلم و جور کے مقابلہ میں اپنے چند مخصوص اصحاب کے ساتھ قیام کرے گا اور اس قیام کی عظمت وہی افراد پہنچائیں گے جو قیامِ کربلا کی اہمیت سے آشنا ہیں، اور اس قائم کی ہمت و جرأت کی قدر وہی افراد کریں گے جو اصلاح و انقلاب و جہاد و قیام کے مفہوم سے آشنائی رکھتے ہیں۔ قدرت نے اس آخری حجت کو ایک عظیم کربلا کا ذمہ دار بنایا ہے تو مناسبت برقرار رکھنے کے لیے اور جہاد کی عظمت کا اعلان کرنے کے لیے اس کے آخری فرائض کی ذمہ داری حضرت امام حسینں ہی کے سپرد فرمائی ہے۔ جیساکہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ آغازِ رجعت میں سب سے پہلے امام حسینں ہی کا ظہور ہوگا اور آپ ہی امام عصر کی تجہیز و تکفین کا فرض انجام دیں گے تاکہ معصوم کے امور تجہیز و تکفین معصوم ہی انجام دے اور دنیا پر واضح ہو جائے کہ یہ آخری کربلا ہے جس کا فاتح آخری وارث ِ حسین بن علی ہے۔

اسی لیے آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ امام عصرں کا تعارف و روایات میں فرزند حسین ہی کے نام سے کرایا گیا ہے اور امام حسینں کے بعد ائمہ معصومین کو فرزندان حسین سے تعبیر کیا گیا ہے جس میں اس کے آخری فرزند حسین کو امام زمانہ کہا گیا ہے۔

بہرحال ایک ”مہدی“ اور ایک ”قائم“ کا وجود اصلاح دنیا کی ضرورت، اعتبار پیغمبر کی صداقت اور قدرت کے نظامِ ہدایت کی تکمیل کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اب اگر مہدی کا انکار کر دیا جائے گا تو گویا سارا نظامِ ہدایت ناقص اور سارا کلام پیغمبر غیر صادق ہو جائے گا اور یہ بات مزاجِ اسلام کے خلاف ہے۔ اس لیے روایت میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ جس نے خروج مہدی کا انکار کر دیا گویا اس نے پیغمبر پر نازل ہونے والے تمام قانون کا انکار کر دیا جس طرح کہ پہلی منزل پر یہی اعلانِ غدیر خم میں ہوا تھا اور اب آخری منزل پر ظہورِ امام عصر کے بارے میں ہو رہا ہے۔ اول بآخر نسبتے دارد۔ تاریخ آل محمد برابر مربوط اور مسلسل ہے، یہاں اولنا محمد و آخرنا محمد وکلنا محمد، ایک حقیقت ہے۔

فرائض دور ِ غیبت

علامہ شیخ عباس قمی علیہ الرحمہ نے دور ِ غیبت ِامام میں آٹھ طرح کے فرائض کا تذکرہ کیا ہے جو احساس غیبت امام اور امام کی حقیقت کے واضح کرنے کے بہترین وسائل ہیں اور جن کے بغیر نہ ایمان بالغیب مکمل ہو سکتا ہے اور نہ انسان کو منتظرین امام زمانہ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ان آٹھ فرائض کی مختصر تفصیل یہ ہے:

۱ ۔ محزون و رنجیدہ رہنا: ۔

حقیقت امر یہ ہے کہ انسان کو غیبت ِ امام کی حقیقت اور اس سے پیدا ہونے والے نقصانات کا اندازہ ہو جائے تو اس کی زندگی سے مسرت و ابتہاج ناپید ہو جائے۔

زمانہ کے بدترین حالات، اہل زمانہ کے بے پناہ ظلم و ستم، نظام اسلامی کی بربادی، تعلیمات الٰہیہ کا استہزاء اور اس طرح کے بے شمار معاملات ہیں جن سے غیبت ِ امام کے نقصانات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور ان کا احساس ہی انسان کے آنسو بہانے کے لیے کافی ہے۔ پھر اگر یہ بات صحیح ہے کہ امام انسان کی زندگی کی محبوب ترین شخصیت کا نام ہے، تو کیسے ممکن ہے کہ محبوب نگاہوں سے اوجھل رہے اور عاشق کے دل میں اضطراب اور بے قراری نہ پیدا ہو اور وہ اپنے محبوب کی طرف سے اس طرح غافل ہو جائے کہ مخصوص تاریخوں اور مواقع کے علاوہ اس کے وجود اور اس کی غیبت کا احساس بھی نہ پیدا کرے۔

دعائے ندبہ میں انہیں تمام حالات کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے اور اسی لیے اس دعا کو دعائے ندبہ کہا جاتا ہے کہ انسان اس کے مضامین کی طرف متوجہ ہو جائے اور غیبت ِ امام کی مصیبت کا صحیح اندازہ کر لے تو گریہ اور ندبہ کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے اور شاید اسی لیے اس دعا کی تاکید ایام عید میں کی گئی ہے یعنی روز عید فطر، روز عید قربان، روز عید غدیر اور روز جمعہ جسے اسلامی احکام کے اعتبار سے عید سے تعبیر کیا گیا ہے کہ عید کا دن انسان کے لیے انتہائی مسرت کا دن ہوتا ہے اور اس دن ایک محب اور عاشق کا فرض ہے کہ اپنے محبوب حقیقی کے فراق کا احساس پیدا کرے اور اس کی فرقت پر آنسو بہائے تاکہ اسے فراق کی صحیح کیفیت کا اندازہ ہو سکے جیساکہ امام محمد باقرں نے فرمایا ہے کہ :

”جب کوئی عید کا دن آتا ہے تو ہم آل محمد کا غم تازہ ہو جاتا ہے کہ ہم اپنا حق اغیار کے ہاتھوں پامال ہوتے دیکھتے ہیں اور مصلحت ِ الٰہیہ کی بنیاد پر کوئی آواز بھی بلند نہیں کر سکتے۔“

ائمہ معصومین میں مولائے کائنات کے دور سے امام عسکریں تک ہر امام نے غیبت کے نقصانات اور مصائب کا تذکرہ کرکے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کائنات میں خیر صرف اس وقت نمایاں ہوگا جب ہمارا قائم قیام کرے گا اور اس سے پہلے اس دنیا سے کسی واقعی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی ہے تاکہ انسان مومن بدترین حالات سے بھی مایوس نہ ہو جائے اور پھر انہیں حالات سے راضی اور مطمئن بھی نہ ہو جائے کہ یہ اس کے نقص ایمان کا سب سے بڑا ذریعہ ہوگا۔

اس مقام پر سدیر صیرفی کی اس روایت کا نقل کرنا نامناسب نہ ہوگا کہ میں (سدیر) اور مفضل بن عمر اور ابو بصیر اور ابان بن تغلب امام صادقں کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ خاک پر بیٹھے ہوئے بے تحاشہ گریہ فرما رہے ہیں اور فرماتے جاتے ہیں کہ میرے سردار! تیری غیبت نے میری مصیبت کو عظیم کر دیا ہے، میری نیند کو ختم کر دیا ہے اور میری آنکھوں سے سیلاب ِ اشک جاری کر دیا ہے۔ میں نے حیرت زدہ ہوکر عرض کی کہ ”فرزند رسول! خدا آپ کو ہر بلا سے محفوظ رکھے، یہ گریہ کا کون سا انداز ہے اور خدا نخواستہ کون سی تازہ مصیبت آپ پر نازل ہوگئی ہے؟“ تو فرمایا کہ:

”میں نے کتاب ِ جفر کا مطالعہ کیا ہے جس میں قیامت تک کے حالات کا ذکر موجود ہے تو اس میں آخری وارث پیغمبر کی غیبت اور طول غیبت کے ساتھ اس دور میں پیدا ہونے والے بدترین شکوک و شبہات اور ایمان و عقیدہ کے تزلزل کے حالات اور پھر شیعوں کے مبتلائے شک و ریب ہونے اور تغافل اعمال کا مطالعہ کیا ہے اور اس امر نے مجھے اس طرح بے قرار ہوکر رونے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس غیبت میں صاحبانِ ایمان کا کیا حشر ہوگا اور ان کا ایمان کس طرح محفوظ رہ سکے گا۔“

عزیزانِ گرامی! اگر ہمارے حالات اور ہماری بد اعمالیاں سیکڑوں سال پہلے امام صادقں کو بے قرار ہوکر رونے پر مجبور کر سکتی ہیں تو کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ہم اس دور ِ غیبت میں ان حالات اور آفات کا اندازہ کرکے کم از کم روز ِ جمعہ خلوص دل کے ساتھ دعائے ندبہ کی تلاوت کرکے اپنے حالات پر خود آنسو بہائیں کہ شاید اسی طرح ہمارے دل میں عشق امام زمانہ کا جذبہ پیدا ہو جائے وار ہم کسی آن ان کی یاد سے غافل نہ ہونے پائیں جس طرح کہ انہوں نے خود اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم کسی وقت بھی اپنے چاہنے والوں کی یاد سے غافل نہیں ہوتے ہیں اور نہ ان کی نگرانی کو نظر انداز کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ان کا اعتماد ہمارے اوپر رہے اور ان کی حفاظت و رعایت کی ذمہ داری بھی ہمارے ہی حوالے کی گئی ہے۔

۲ ۔ انتظار ِ حکومت و سکونِ آل محمد :۔

اس انتظار کو دور ِ غیبت میں افضل اعمال قرار دیا گیا ہے اور اس میں اس امر کا واضح اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس دنیا میں ایک دن آل محمد کا اقتدار ضرور قائم ہونے والا ہے اور مومنین کرام کی ذمہ داری ہے کہ اس دن کا انتظار کریں اور اس کے لیے زمین ہموار کرنے اور فضا کو سازگار بنانے کی کوشش کرتے رہیں۔

اب یہ دور کب آئے گا اور اس کا وقت کیا ہے؟ یہ ایک راز ِ الٰہی ہے جس کو تمام مخلوقات سے مخفی رکھا گیا ہے بلکہ روایات میں یہاں تک وارد ہوا ہے کہ امیر المومنینں کے زخمی ہونے کے بعد آپ کے صحابی عمرو بن الحمق نے آپ کی عیادت کرتے ہوئے عرض کی کہ مولا! ان مصائب کی انتہاء کیا ہے؟ تو فرمایا کہ ۷۰ ء ھ تک۔ عرض کی کہ کیا اس کے بعد راحت و آرام ہے؟ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا اور غش کھا گئے۔

اس کے بعد جب غش سے افاقہ ہوا تو دوبارہ سوال کیا۔ فرمایا: بے شک ہر بلا کے بعد سہولت اور آسانی ہے لیکن اس کا اختیار پروردگار کے ہاتھ میں ہے۔

اس کے بعد ابو حمزہ ثمالی نے امام باقرں سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا کہ ۷۰ ء ھ تو گزر چکا ہے لیکن بلاؤں کا سلسلہ جاری ہے؟ تو فرمایا کہ شہادت ِ امام حسینں کے بعد جب غضب پروردگار شدید ہو تو اس نے سہولت و سکون کے دور کو آگے بڑھا دیا۔

پھر اس کے بعد ابو حمزہ نے یہی سوال امام صادقں سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ بے شک غضب ِ الٰہی نے اس مدت کو دوگنا کر دیا تھا، اس کے بعد جب لوگوں نے اس راز کو فاش کر دیا تو پروردگار نے اس دور کو مطلق راز بنا دیا اور اب کسی کو اس امر کا علم نہیں ہو سکتا ہے، اور ہر شخص کا فرض ہے کہ اس دور کا انتظار کرے کہ انتظار ظہور کرنے والا مر بھی جائے گا تو وہ قائم آل محمد کے اصحاب میں شمار کیا جائے گا۔

۳ ۔ امام کے وجود ِ مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہِ احدیت میں دست بدعا رہنا:۔

ظاہر ہے کہ دعا ہر اس مسئلہ کا علاج ہے جو انسان کے امکان سے باہر ہو اور جب دور ِ غیبت میں امام کی حفاظت کسی اعتبار سے بھی ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور ہم خود انہیں کے رحم و کرم سے زندہ ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے وجود ِ مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہِ احدیت میں مسلسل دعائیں کرتے رہیں اور کسی وقت بھی اس فرض سے غافل نہ ہوں: ﴿اَللّٰھُمَّ کُنْ لِّوَلِیِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ﴾ جسے عام طور سے اثنائے نماز قنوت یا بعد نماز وظیفہ کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔ امامں کے وجود کی حفاظت، ان کے ظہور کی سہولت اور ان کی عادلانہ حکومت کے بارے میں جامع ترین دعا ہے، جس سے صاحبانِ ایمان کو کسی وقت غافل نہیں ہونا چاہیے۔

۴ ۔ امام کی سلامتی کے لیے صدقہ نکالنا :۔

صدقہ درحقیقت خواہش سلامتی کا عملی اظہار ہے کہ انسان جس کی سلامتی کی واقعاً تمنا رکھتا ہے اس کے حق میں صرف لفظی طور پر دعا نہیں کرتا ہے بلکہ عملی طور پر بھی دفع بلا کا انتظام کرتا ہے اور یہ انتظام صدقہ سے بہتر کوئی شے نہیں ہے۔ دعا ان لوگوں کے لیے بہترین شے ہے جو صدقہ دینے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے ہیں لیکن جن کے پاس یہ استطاعت پائی جاتی ہے وہ اگر صرف دعا پر اکتفا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف لفظی کاروبار کرنا چاہتے ہیں اور امام کی سلامتی کے لیے چند پیسے بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے ہیں جب کہ جو کچھ مالک کائنات سے لیا ہے وہ سب انہیں کے صدقہ میں لیا ہے اور جو کچھ آئندہ لینا ہے وہ بھی انہیں کے طفیل میں اور انہیں کے وسیلہ سے حاصل کرنا ہے۔

۵ ۔ امام عصر کی طرف سے حج کرنا یا دوسروں کو حج نیابت کے لیے بھیجنا :۔

جو دور قدیم سے شیعوں کے درمیان مرسوم ہے کہ لوگ اپنے امام زمانہں کی طرف سے نیابةً اعمال انجام دیا کرتے تھے اور امام عصرں ان کے ان اعمال کی قدر دانی بھی فرمایا کرتے تھے جیساکہ ابو محمد دعلجی کے حالات میں نقل کیا گیا ہے کہ انہیں کسی شخص نے امام عصرں کی طرف سے نیابةً حج کے لیے پیسہ دیے تو انہوں نے اپنے فاسق و فاجر اور شرابی فرزند کو حج نیابت ِ امام کے لیے اپنے ساتھ لے لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میدانِ عرفات میں ایک انتہائی نوجوان شخص کو دیکھا جو یہ فرما رہے ہیں کہ تمہیں اس بات سے حیا نہیں آتی ہے کہ لوگ تمہیں حج نیابت کے لیے رقم دیتے ہیں تو تم فاسق و فاجر افراد کو یہ رقم دے دیتے ہو۔ قریب ہے کہ تمہاری آنکھ ضائع ہو جائے کہ تم نے انتہائی اندھے پن کا ثبوت دیا ہے۔ چنانچہ راوی کہتا ہے کہ حج سے واپسی کے چالیس روز کے بعد ان کی وہ آنکھ ضائع ہوگئی جس کی طرف اس مرد نوجوان نے اشارہ کیا تھا۔

۶ ۔ امام عصر کا اسم گرامی آنے پر قیام کرنا :۔

بالخصوص اگر آپ کا ذکر لفظ قائم سے کیا جائے کہ اس میں حضرت کے قیام کا اشارہ پایا جاتا ہے اور آپ کے قیام کے تصور کے ساتھ کھڑا ہو جانا محبت ،عقیدت اور غلامی کا بہترین مقتضی ہے جس سے کسی وقت بھی غفلت نہیں کی جا سکتی ہے۔

۷ ۔ دور غیبت میں حفاظت دین و ایمان کے لیے دعا کرتے رہنا :۔

امام صادقں نے زرارہ سے فرمایا تھا کہ ہمارے قائم کی غیبت میں اس قدر شبہات پیدا کیے جائیں گے کہ اچھے خاصے لوگ مشکوک ہو جائیں گے لہٰذا اس دور میں ہر شخص کا فرض ہے کہ سلامتی ایمان کی دعا کرتا رہے اور یاد امام میں مصروف رہے اور عبد الله بن سنان کی امام صادقں سے روایت کی بنا پر کم سے کم ﴿یٰا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبیْ عَلٰی دِیْنِکَ﴾ کا ورد کرتا رہے کہ سلامتی دین و ایمان کے لیے یہ بہترین اور مختصر ترین دعا ہے۔

۸ ۔ امام زمانہ سے مصائب و بلیات کے موقع پر استغاثہ کرنا :۔

کہ یہ بھی اعتقاد کے استحکام اور روابط و تعلقات کے دوام کے لیے بہترین طریقہ ہے اور پروردگار عالم نے ائمہ طاہرین کو یہ طاقت اور صلاحیت دی ہے کہ وہ فریاد کرنے والوں کی فریاد رسی کر سکتے ہیں جیساکہ ابو طاہر بن بلال نے امام صادقں سے نقل کیا ہے کہ پروردگار جب اہل زمین تک کوئی برکت نازل کرنا چاہتا ہے تو پیغمبر اکرم سے امام آخر تک سب کو وسیلہ قرار دیتا ہے اور ان کی بارگاہوں سے گزرنے کے بعد برکت بندوں تک پہنچتی ہے اور جب کسی عمل کو منزل قبولیت تک پہنچانا چاہتا ہے تو امام زمانہں سے رسول اکرم تک ہر ایک کے وسیلہ سے گزار کر اپنی بارگاہِ جلالت پناہ تک پہنچاتا ہے اور پھر قبولیت کا شرف عنایت کرتا ہے بلکہ خود امام عصرں نے بھی شیخ مفید کے خط میں تحریر فرمایا تھا کہ تمہارے حالات ہماری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہیں اور ہم تمہارے مصائب کی مکمل اطلاع رکھتے ہیں اور برابر تمہارے حالات کی نگرانی کرتے رہتے ہیں۔

علامہ مجلسی نے تحفة الزائر میں نقل کیا ہے کہ صاحبانِ حاجت کو چاہیے کہ اپنی حاجت کو کسی کاغذ پر لکھ کر ائمہ طاہرین کی قبور مبارکہ پر پیش کر دیں یا کسی خاک میں رکھ کر دریا یا نہر وغیرہ کے حوالہ کر دیں کہ امام زمانہں اس حاجت کو پورا فرما دیں گے۔ اس عریضہ کی ترسیل میں آپ کے چاروں نواب خاص میں سے کسی کو بھی مخاطب بنایا جا سکتا ہے۔ انشاء الله وہ اسی طرح امام کی بارگاہ میں پیش کریں گے جس طرح اپنی زندگی میں اس فرض کو انجام دیا کرتے تھے اور امامں اسی طرح مقصد کو پورا کریں گے جس طرح اس دور میں کیا کرتے تھے۔

مَنْ اَنْکَرَ خُرُوْجَ الْمَھْدِیْ

اسلامی روایات کے مطالعہ سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ سرکار دو عالم نے اپنی زندگی میں قیامت تک پیش آنے والے بیشتر واقعات کی وضاحت کر دی تھی اور پروردگار کی طرف سے ترتیب پانے والے نظامِ ہدایت کی صراحت فرما دی تھی۔

آیت اولی الامر کی وضاہت کرتے ہوئے ان تمام افراد کے ناموں کا بھی تذکرہ کر دیا تھا جنہیں پروردگار کی طرف سے منصب ِ ہدایت تفویض ہوا تھا اور جن کے ذمہ صبح قیامت تک ہدایت عالم کی ذمہ داری تھی۔

اس سلسلہ میں ایک عنوان ”مہدی“ بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے جس کی بار بار تکرار کی گئی ہے اور جس کے ذریعہ امت کو سمجھایا گیا ہے کہ کائنات کے لیے ایک مہدی کا وجود لازمی ہے، اور دنیا اس وقت فنا نہیں ہو سکتی ہے جب تک کہ مہدی منظر عام پر آکر ہدایت ِ عالم اور اصلاحِ امت کا فرض انجام نہ دے دے۔

لفظ ”مہدی“ کی تعبیر میں یہ نکتہ بھی پوشیدہ تھا کہ وہ ایسا ہادی ہوگا جو اپنی رہنمائی میں کسی کی ہدایت کا محتاج نہ ہوگا بلکہ اسے پروردگار ِ عالم کی طرف سے ہدایت حاصل ہوگی اور وہ دنیا کی ہدایت کا فرض انجام دے گا۔

یہ بات امت ِ اسلامیہ میں اس قدر واضح تھی کہ ہر دور کے مسلمان کو ایک مہدی کی تلاش تھی اور بسا اوقات تو ایسا بھی ہوا ہے کہ لوگ خود ہی مہدی بن گئے یا سلاطین زمانہ نے اپنی اولاد کے نام مہدی رکھ دیے تاکہ امت کے درمیان جانے پہچانے لق سے فائدہ اٹھایا جا سکے، اور انہیں یہ سمجھایا جا سکے کہ جس کی آمد کی خبر سرکار دو عالم نے دی تھی وہ مہدی میرے گھر میں پیدا ہو چکا ہے۔

بالکل ”مہدی“ ہی کی طرح کا ایک عنوان ”قائم“ بھی تھا جس کا تذکرہ بار بار روایات میں وارد ہوا ہے اور اس کثرت سے وارد ہوا ہے کہ سلسلہ امامت کے درمیانی دور ہی سے امت کو ایک ”قائم“ کی تلاش شروع ہوگئی تھی اور جب بھی وہ حالات پیدا ہوگئے یا مظالم اس منزل پر آگئے جس منزل پر امت کے خیال میں ”قائم“ کا قیام ضروری تھا ایک ”قائم“ کی تلاش میں شدت پیدا ہوگئی اور لوگ بے چینی سے اس مصلحِ امت کا انتظار کرنے لگے جس کے قیام سے عالمِ انسانیت کی اصلاح ہو جائے گی اور دنیا کے حالات یکسر تبدیل ہو جائیں گے۔

بلکہ اکثر و بیشتر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لوگ ائمہ معصومین کی بارگاہ میں حاضر ہوکر برجستہ یہ سوال کرتے تھے کہ کیا سرکار ہی ”قائم آل محمد“ ہیں؟ یا اپنے جس فرزند کی امامت کا اعلان کر رہے ہیں اور اس کی طرف قوم کو متوجہ کر رہے ہیں۔ یہی ”قائم آل محمد“ ہے۔ یعنی امت کے ذہن میں ”قائم“ کا تصور اور ”قائم“ کے ساتھ بساطِ ظلم و جور کے فنا ہو جانے اور عدل و انصاف کے قائم ہونے کا تصور اس قدر راسخ تھا کہ جہاں حالات سے پریشانی پیدا ہوئی اور عدل و انصاف کی ضرورت محسوس ہوئی وہیں ایک ”قائم“ کی جستجو کا خیال صفحہ ذہن پر ابھر آیا اور چونکہ مرسل اعظم نے مصلح امت کا تصور اپنی ہی نسل اور اپنے ہی خاندان کے بارے میں دیا تھا اس لیے لوگ اسی خاندان میں تلاش کرنے لگتے اور اس کی ہر فرد سے اصلاح کی آخری امید وابستہ کرکے اسے ”قائم“ کے لقب سے یاد کرنے لگتے۔

ائمہ معصومین نے بھی یہ اہتمام برقرار رکھا کہ ایک طرف یہ وضاحت کرتے رہے کہ ہم ”قائم“ نہیں ہیں یا ابھی آل محمد کے قیام کا وقت نہیں آیا ہے۔ ”قائم“ اس کے بعد آنے والا ہے اور دوسری طرف جہاں بھی لفظ ”قائم“ زبان پر آیا وہیں سر و قد کھڑے ہوگئے اور گویا کہ ایک طرح کا فرض تعظیم بجا لائے جس کا ظاہری تصور یہی تھا کہ ”قائم“ ایسی باعظمت شخصیت کا نام ہے جس کے تذکرہ پر اس کے آباء و اجداد بھی کھڑے ہو جاتے ہیں اور تعظیم و تکریم کا انداز اختیار کر لیتے ہیں جس طرح کہ عظمت ِ زہرا سلام الله علیہا کے اظہار کے لیے مرسل اعظم قیام فرماتے تھے لیکن حقیقی اعتبار سے اس کا ایک دقیق تر نکتہ یہ بھی تھا کہ ائمہ معصومین اس طرزِ عمل کے ذریعہ قوم کے ذہن میں یہ تصور راسخ کرنا چاہتے تھے کہ ”قائم“ کا کام تنہا قیام کرنا نہیں ہے کہ وہ اپنے قیام و جہاد کے ذریعہ سارے عالم کی اصلاح کر دے اور امت خاموش تماشائی بنی رہے جس طرح کہ قوم موسیٰ نے جناب موسیٰں سے کہا تھا کہ آپ اور ہارون جا کر اصلاح کا فرض انجام دیں، ہم یہاں بیٹھ کر آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ائمہ معصومین کو بنی اسرائیل کا یہ قعود اور ان کی بے حسی اس قدر ناگوار تھی کہ آپ اپنی قوم کو اس کے بالکل برعکس انداز میں تربیت دے رہے تھے کہ وہاں نبی خدا قیام کے لیے آمادہ تھا اور قوم بیٹھی ہوئی تھی اور یہاں قیام کی شان یہ ہے کہ ابھی صرف اس کے نام ”قائم“ کا ذکر آیا ہے اور ہم اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں تاکہ تمہارے ذہن میں یہ تصور راسخ رہے کہ جب وہ ظاہر بظاہر تمہارے سامنے آجائے اور قیام کے لیے آمادہ ہو جائے تو خبردار تم خاموش نہ بیٹھے رہ جانا اور تمہاری حیثیت ایک تماشائی کی نہ ہو جائے۔ بلکہ تمہارے فرض ہے کہ جیسے ہی وہ قیام کا ارادہ کرے تم بھی اس کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور اصلاح عالم کی مہم میں اس کے ساتھ شریک ہو جاؤ ورنہ صرف کسی کے نام آجانے پر اس کے بزرگوں کا کھڑا ہو جانا کوئی دقیق توجیہہ نہیں رکھتا ہے۔ صدیقہ طاہرہ سلام الله علیہا کے لیے پیغمبر اسلام کا قیام ان کی تشریف آوری پر ہوتا تھا ان کے نام پر نہیں۔ اور ائمہ معصومین کا یہ قیام بھی باقی القاب و خطابات سے وابستہ نہیں تھا بلکہ صرف لفظ ”قائم“ سے وابستہ تھا جس کا کھلا ہوا مطلب یہ تھا کہ ان کے نام پر قیام مطلوب ہے اور اس شخصیت کے ساتھ شریک قیام و جہاد ہونا اسلامی فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے۔

علماءِ اعلام کی تعلیم اور ان کا طریقہ کار آج بھی یہی ہے کہ جب وارث ِپیغمبر کا ذکر اس لقب کے ساتھ ہوتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں اور حضرت کی خدمت میں زبان حال سے عرض کرتے ہیں کہ ہم حضور کے ساتھ قیام کے لیے تیار ہیں۔ بس آپ کے ظہور و قیام کی دیر ہے اس کے بعد ہم آپ کی خدمت میں رہیں گے اور اصلاح عالم کی مہم میں آپ کی ہر امکانی مدد کریں گے۔

”مہدی“ اور ”قائم“ یہ دونوں الفاظ دو مختلف لیکن باہم مربوط حقائق کی نشان دہی کرتے ہیں۔ لفظ ”مہدی“ اس حقیقت کی وضاحت کرتا ہے کہ دنیا کی اصلاح کسی خود ساختہ یا زمانہ ساز ہادی کے ذریعہ نہیں ہو سکتی ہے، اس کے لیے وہ شخص درکار ہے جس کی ہدایت کا انتظام قدرت کی طرف سے کیا گیا ہو، اور اسے پروردگار نے مہدی بنا کر ہدایت کا ذمہ دار بنایا ہو، اور ”قائم“ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اصلاح عام کا کام گھر بیٹھے انجام نہیں پا سکتا ہے اس کے لیے قیام کرنا ہوگا، زحمتیں برداشت کرنا ہوں گی، مصائب اور طوفانوں کا مقابلہ کرنا ہوگا اور ظلم و جور کے عالم گیر ہنگامہ سے ٹکرانا ہوگا۔

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ائمہ معصومین نے ہر دور میں طوفانوں کا مقابلہ کیا ہے، ہر دور میں مصائب برداشت کیے ہیں اور بنی امیہ و بنی عباس کے فراعنہ و جبابرہ سے ٹکر لی ہے لیکن اس کے باوجود انہیں قائم کے لقب سے یاد نہیں کیا گیا۔

حضرت امام حسینں کا قیام کربلا میں، امام سجادں کا قیام یزید اور یزیدیت کے مقابلہ میں، امام باقرں و امام صادقں کا قیام بنی امیہ و بنی عباس کے مظالم کے سامنے، امام کاظمں و امام رضاں کا قیام ہارون و مامون کے ظلم و جور کے سامنے، امام جوادں و امام نقی ں اور امام عسکریں کا قیام سلاطین وقت کے مقابلہ میں کوئی مخفی بات نہیں ہے۔ ان میں سے اکثر قیام مسلح نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود نہ یہ تصور ہو سکتا ہے کہ ائمہ کرام نے اپنے کو حکومتوں کے سپرد کر دیا تھا اور نہ یہ سوچا جا سکتا ہے کہ وہ حالات سے بالکل الگ تھلگ رہے اور امت کی بربادی کا منظر دیکھتے رہے۔ انہوں نے اپنے اپنے ظاہری امکان بھر ہر موقع پر قیام کیا ہے اور حکومت کو اس کے ظلم و جور پر متنبہ کیا ہے بلکہ عوام کو بھی حکومتوں کے مظالم سے آگاہ کیا ہے۔ صفوان جمال سے یہاں تک فرما دیا تھا کہ ان حکام کو جانور کرایہ پر دینا بھی ان کی زندگی کی تمنا کے برابر ہے اور ظالم کی زندگی کی تمنا اس کے ظلم میں شرکت کے مرادف ہے جو کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ لیکن ان تمام مجاہدات کے باوجود ان معصومین کو لفظ قائم سے نہیں یاد کیا گیا اور یہ حضرات خود فرماتے رہے کہ ”قائم“ اس کے بعد آنے والا ہے۔ اس کا مطلب یہہے کہ آخری ”قائم“ کے ذمہ جو کام رکھا گیا ہے وہ ان سب سے زیادہ اہم اور سنگین ہے اور اس کا انقلاب آخری اور دائمی ہوگا۔ اس کا فریضہ ظالم سے مقابلہ کرنا اور اسے فنا کرن دینا نہیں ہے بلکہ اس کا فریضہ ظلم و جور کا استیصال کرنا ہے۔ اس کے دور میں صرف کسی ایک ظالم حکومت کا سامنا نہیں کرنا ہوگا بلکہ اسلام و کفر کی تمام انحرافی قوتوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ وہ منحرف مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں، عیسائیوں، کافروں، مشرکوں اور بے دینوں سے بیک وقت مقابلہ کرے گا اور ظاہر ہے کہ اتنے بڑے مقابلے کے لیے اسی طرح کی توانائی کی ضرورت ہوگی اور اتنے بڑے جہاد کے لیے ایسا ہی حوصلہ درکار ہوگا۔

مثالی انداز سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح اسلام کی غربت کے دور میں امام حسینں نے تن تنہا اپنے مختصر ساتھیوں کے ساتھ پوری قوت ِ ظلم و جور کے مقابلہ میں قیام کیا تھا اسی طرح یہ وارث ِ حسین ساری دنیا کے ظلم و جور کے مقابلہ میں اپنے چند مخصوص اصحاب کے ساتھ قیام کرے گا اور اس قیام کی عظمت وہی افراد پہنچائیں گے جو قیامِ کربلا کی اہمیت سے آشنا ہیں، اور اس قائم کی ہمت و جرأت کی قدر وہی افراد کریں گے جو اصلاح و انقلاب و جہاد و قیام کے مفہوم سے آشنائی رکھتے ہیں۔ قدرت نے اس آخری حجت کو ایک عظیم کربلا کا ذمہ دار بنایا ہے تو مناسبت برقرار رکھنے کے لیے اور جہاد کی عظمت کا اعلان کرنے کے لیے اس کے آخری فرائض کی ذمہ داری حضرت امام حسینں ہی کے سپرد فرمائی ہے۔ جیساکہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ آغازِ رجعت میں سب سے پہلے امام حسینں ہی کا ظہور ہوگا اور آپ ہی امام عصر کی تجہیز و تکفین کا فرض انجام دیں گے تاکہ معصوم کے امور تجہیز و تکفین معصوم ہی انجام دے اور دنیا پر واضح ہو جائے کہ یہ آخری کربلا ہے جس کا فاتح آخری وارث ِ حسین بن علی ہے۔

اسی لیے آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ امام عصرں کا تعارف و روایات میں فرزند حسین ہی کے نام سے کرایا گیا ہے اور امام حسینں کے بعد ائمہ معصومین کو فرزندان حسین سے تعبیر کیا گیا ہے جس میں اس کے آخری فرزند حسین کو امام زمانہ کہا گیا ہے۔

بہرحال ایک ”مہدی“ اور ایک ”قائم“ کا وجود اصلاح دنیا کی ضرورت، اعتبار پیغمبر کی صداقت اور قدرت کے نظامِ ہدایت کی تکمیل کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اب اگر مہدی کا انکار کر دیا جائے گا تو گویا سارا نظامِ ہدایت ناقص اور سارا کلام پیغمبر غیر صادق ہو جائے گا اور یہ بات مزاجِ اسلام کے خلاف ہے۔ اس لیے روایت میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ جس نے خروج مہدی کا انکار کر دیا گویا اس نے پیغمبر پر نازل ہونے والے تمام قانون کا انکار کر دیا جس طرح کہ پہلی منزل پر یہی اعلانِ غدیر خم میں ہوا تھا اور اب آخری منزل پر ظہورِ امام عصر کے بارے میں ہو رہا ہے۔ اول بآخر نسبتے دارد۔ تاریخ آل محمد برابر مربوط اور مسلسل ہے، یہاں اولنا محمد و آخرنا محمد وکلنا محمد، ایک حقیقت ہے۔


4

5

6

7

8

9

10