سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)20%

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں) مؤلف:
زمرہ جات: امامت

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 20 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12365 / ڈاؤنلوڈ: 4235
سائز سائز سائز
سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

مؤلف:
اردو

تیسرا حصہ: سقیفہ کے رونما ہونے کی صورت حال

تمھید

عام طور سے تاریخ میں رونما ہونے والے ہر حادثہ کا پیش خیمہ کوئی نہ کوئی گذرا ہوا واقعہ ہوتا ہے بلکہ ممکن ہے کہ گذرے ہوئے واقعہ کو آئندہ واقع ہونے والے واقعہ کی علت کہا جائے، واقعۂ سقیفہ اگر چہ ایک اتفاق اور ناگھانی حادثہ تھا لیکن گذشتہ عوامل اس کے وقوع پذیر ہونے میں مؤثر تھے۔

روایت ابی مخنف خود اس اہم واقعہ کو تو بیان کرتی ہے مگر اس کے عوامل و اسباب کی طرف کوئی اشارہ نہیں کرتی یا بھتر ہے کہ یہ کہا جائے کہ تاریخ طبری نے ابو مخنف کی کتاب سقیفہ میں سے صرف اسی حصہ کو نقل کیا ہے اور اگر ہمارے پاس خود اصلی کتاب موجود ہوتی تو شاید اس کے پھلوؤں سے مزید واقفیت ہوتی بھر حال ہر محقق اصل واقعہ کو بیان کرنے سے پھلے اس کے علل و اسباب کی تلاش میں رہتا ہے اور اجمالی طور پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے حالات و واقعات سے آگاھی ذھن میں اعتراضات کا سبب بنتی ہے خاص طور پر جب واقعہ غدیر پر نظر کی جائے، اس لئے کہ حدیث غدیر کا شمار متواتر احادیث میں ہوتا ہے(۶۱) کہ شیعہ اور سنی اس پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۱۰ ہجری میں حجة الوداع کے بعد اٹھارہ ذی الحجہ کو غدیر خم کے مقام پر تمام افراد کو ٹھرنے کا حکم دیا اور پھر ایک طویل خطبہ پڑھا اور فرمایا "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" جس کا میں مولا ہوں بس علی علیہ السلام بھی اس کے مولا ہیں، تاریخ کے اس اہم واقعہ کے رونما ہونے میں کسی بھی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قول کی صراحت اور بے شمار قرائن حالیہ اور مقالیہ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ مولا سے مراد ولایت اور جانشینی ہی ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی منصف مزاج اور مخلص محقق اس قدر شواھد اور ادّلہ کے باوجود اس بات میں ذراسی بھی تردید رکھتا ہو۔

پھر آخر کیا ہوا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ابھی واقعۂ غدیر خم کو دو ماہ اور چند روز ہی گزرے تھے کہ لوگوں نے ہر چیز کو بھلا دیا تھا، اور سب سے عجیب بات یہ ہے وہ انصار جو اسلام میں درخشاں ماضی رکھتے تھے جنھوں نے اس سلسلے میں اپنی جان و مال تک کی پروانہ کی وہ سب سے پہلے سقیفہ میں جمع ہوکر خلیفہ اور جانشین پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا انتخاب کرنے لگے۔

اور اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ شیعہ اور سنی روایات(۶۲) کے مطابق پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا عباس بن عبد المطلب، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات تک آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یھی پوچھتے رہے کہ کیا آپ کے بعد ولایت و ولی عھدی ہمارے خاندان میں ہے؟ اگر ہے تو ہم اسے جان لیں اور اگر نہیں ہے تو لوگوں کو ہمارے بارے میں وصیت کردی جائے۔

اگر پیغبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم وحی سے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین بنادیا تھا تو اس سوال کاکیا مطلب ؟اور وہ بھی نزدیک ترین فرد کے ذریعے؟یہ ایک ایساسوال ہے جو مستند اور صحیح جواب چاھتا ہے اور فقط چند ادبی عبارتوں اور شاعرانہ گفتگو سے اس کاجواب نہیں دیا جا سکتا۔

اس سوال کے مستند اور صحیح جواب کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ان واقعات پر ایک سر سری نگاہ ڈالی جائے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے لے کر واقعہ سقیفہ تک رونما ہوئے، اور ان کے عوامل و اسباب کا بغور جائزہ لیا جائے، پھر سقیفہ کے واقعے کی ابو مخنف کی روایت کی روشنی میں تحقیق کی جائے۔

ہجرت سے لیکر غدیر خم تک کے واقعات

۱۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کے اسباب

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی نبوت کے ابتدائی حصہ ہی میں قریش سے تعلق رکھنے والے بدترین دشمنوں کا سامنا کرنا پڑا اور بے انتھا زحمت و مشقت کے بعد بھی صرف چند لوگ ہی مسلمان ہوئے ان میں سے اکثر کا تعلق معاشرے کے غریب و فقیر عوام سے تھا جب کہ امیر اور دولت مند افراد آپ کی مخالفت پر اڑے ہوئے تھے اور اسلام کو ختم کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے رہے لھٰذا انھوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس قدر تنگ کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس ہجرت کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ تھا۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دین اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں کسی قسم کی کوئی کوتاھی نہ برتی بلکہ ذرا سی فرصت سے بھی زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے رہے، یھی وجہ تھی کہ جب آپ کی ملاقات بزرگان مدینہ اور وھاں کے معزز افراد سے ہوئی تو آپ نے انھیں اسلام کی دعوت دی تو انھوں نے اسلام کو قبول کرلیا اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عھد و پیمان کیا جسے "بیعة النساء" کہا جاتا ہے، شاید اس کے بیعة النساء کھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس عھد و پیمان میں کوئی جنگی معاہدہ نہیں ہوا تھا(۶۳) ۔

مشرکان قریش نے اسلام کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قتل کا منصوبہ بنایا لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی کے ذریعہ ان کے ارادہ سے باخبر ہوگئے لھذا آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ رات کو پوشیدہ طور پر مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جائیں تاکہ مشرکین آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مکہ سے باھر جانے سے باخبر نہ ہونے پائیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام سے کہا کہ تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ اور اس طرح حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان پر اپنی جان کو فدا کردیا اور اطمینان کے ساتھ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر لیٹ گئے اور اپنے یقینِ کامل اور مستحکم ایمان کی وجہ سے ایک لمحہ کے لئے بھی شک و تردید اور خوف و ہراس کا شکار نہ ہوئے اور اپنے آپ کو ایسے خطرہ میں ڈال دیا کہ جس کے بارے میں جانتے تھے کہ کچھ ہی دیر بعد دشمنوں کے نیزے اور تلواریں مجھ پر ٹوٹ پڑیں گی(۶۴) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس فرصت سے فائدہ اٹھایا اور مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔

۲۔ ہجرت کے بعد کے حالات اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت میں انصار کا کردار

آخرکار پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور اہل مدینہ نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسرے تمام مھاجرین کا شاندار استقبال کیا اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دین خدا کی خاطر ان کے سخت ترین کینہ پرور دشمنون یعنی مشرکین مکہ کے سامنے سینہ سپر ہوگئے اور سچ بات تو یہ ہے کہ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی کوشش اور قربانی سے دریغ نہ کیا، قرآن نے سورۂ حشر(۶۵) میں ان کے ایثار و فداکاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کی مدح سرائی کی ہے۔

مختصر یہ کہ انصار پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت اور دین اسلام کی بقاء و ترقی کی خاطر مشرکین قریش سے نبرد آزما ہونے اور اپنے آپ کو سخت ترین جنگوں میں مشغول رکھنے پر آمادہ ہوگئے، انھوں نے جو پھلی جنگ مشرکین قریش سے لڑی وہ جنگ بدر تھی جس میں مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ نہ تھی، اس کے باوجود مشرکین قریش کے ستر افراد کو قتل کردیا جن میں اکثر سردار قریش تھے(۶۶) اورمسلمانوں کے کل چودہ افراد شھادت کے درجہ پر فائز ہوئے جن میں آٹھ افراد کا تعلق انصار سے تھا(۶۷) ۔

ابھی جنگ بدر کو ختم ہوئے کچھ وقت نہ گزرا تھا کہ جنگ احد واقع ہوگئی اور اس میں بھی مسلمان، مشرکین کے تیئیس افراد ھلاک کرنے میں کامیاب ہوگئے لیکن بعض مسلمانوں کی تساہلی کی وجہ سے جنھیں عینین نامی پھاڑی پرجمے رہنے کو کہا گیا تھا مسلمانوں کے تقریباً ستر افراد شھید ہوگئے(۶۸) ۔ معمولاً دو بڑی جنگوں کے درمیان کچھ سریہ اور غزوات بھی یکے بعد دیگرے وقوع پذیر ہوتے رہتے تھے۔

ہجرت کے پانچویں(۶۹) سال تمام دشمنان اسلام متحد ہوگئے اور اسلام کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے دس ھزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ کا اس طرح محاصرہ کیا کہ پورے مدینہ میں خوف وہراس پھیل گیا، تاریخ میں اس جنگ کو جنگ خندق یا جنگ احزاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

لیکن مولا علی علیہ السلام کی شجاعت و بھادری اور آپ کی وہ تاریخی ضربت جو آپ نے عمر و بن عبدود (جو عرب کا ایک نامور پھلوان تھا) کے سر پر لگائی تھی اس نے اس جنگ کو مسلمانوں کے حق میں کردیا اور پھر شدید بارش اور طوفان کی وجہ سے مشرکین نھایت خوف زدہ ہوگئے اور انھوں نے مدینہ کا محاصرہ ختم کردیا(۷۰) ، مجموعی طور پر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ ہجرت کے بعد دس سال کے عرصہ میں چوھتر جنگوں کا سامنا کیا جن میں سریہ اور غزوات بھی شامل تھے(۷۱) ان تمام جنگوں میں انصار نے اہم کردار ادا کیا یہاں یہ کھنا غلط نہ ہوگا کہ اسلام نے انصار کی مدد کی وجہ سے کافی ترقی کی اور اسی نصرت و مدد کی وجہ سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں انصار کے نام سے یاد کیا۔

مسلمانوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا تھا اور اس دوران بعض لوگ اسلام کو حق سمجھتے ہوئے مسلمان ہورہے تھے جبکہ بعض افراد اسلام کی قدرت اور شان و شوکت دیکھ کر یا پھر اس منفعت کے مد نظر مسلمان ہوئے جو انھیں اسلام قبول کرنے کے بعد حاصل ہوسکتی تھی۔

بالآخر آٹھ ہجری میں مکہ فتح ہوا اور اسلام سارے جزیرة العرب پر چھا گیا، اہل مکہ نے جب اسلام کے سپاھیوں کی یہ شان و شوکت دیکھی تو ان کے پاس اسلام لانے کے علاوہ کوئی دوسری راہ نہ تھی(۷۲) ، اس وقت مسلمانوں کی تعداد اپنے عروج پر پھنچ چکی تھی لیکن وہ ایمانی لحاظ سے مضبوط نہ تھے اور چند حقیقی مسلمان اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مطیع و فرمانبردار افراد کے علاوہ اگر بقیہ تمام افراد کو مصلحتی مسلمان کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔

مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے اب انصار جزیرة العرب کے تنھا مسلمان نہ تھے بلکہ مسلمانوں کے جم غفیر میں ایک چھوٹی سی جماعت کی حیثیت رکھتے تھے لیکن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمیشہ انصار کی حمایت اور ان کی قدر دانی کرتے تھے اس لئے کہ انھوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا تھا، عرصہ دراز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم و تربیت کے زیر سایہ رہنے کی وجہ سے ان کی اکثریت با ایمان تھی یہاں تک کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی انھیں فراموش نہ کیا اور ان کے سلسلے میں سب کو یہ وصیت فرمائی۔ "انہم کانو عیبتی التی أویتُ الیھا فأحسنوا الی محسنہم و تجاوزوا عن مُسیئتہم"(۷۳) "انصار میرے قابل اعتماد اور ہم راز تھے میں نے ان کے پاس پناہ لی لھٰذا ان کے نیک افراد کے ساتھ نیکی اور ان کے بروں سے در گذر سے کام لینا" انصار بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عنایات اور حمایت کی وجہ سے ہمیشہ جوش و خروش سے سرشار رہتے تھے۔

____________________

۶۱. سعد بن عبادہ بشیر بن سعد کے چچا زاد بھائی تھے۔

۶۲. اس روایت کی تمام اسناد کو علامہ امینی نے اپنی کتاب "الغدیر" میں بیان کیا ہے۔

۶۴. السیرة النبویہ: ابن ھشام۔ ج۲ ص۷۳۔

۶۵. تاریخ طبری: ج۲ ص ۳۷۲، التفسیر الکبیر: ج۶ ص۵۰۔

۶۶. آیت۱۹۔

۶۹. تاریخ یعقوبی۔ ج۲ ص۴۹

۷۰. الکامل فی التاریخ۔ ج۱ ص۵۶۸

۷۱. تاریخ یعقوبی۔ ج۲ ص۵۰

۷۲. الطبقات الکبرىٰ۔ ج۲ ص۵، ۶ (غزوات کی تعداد ۲۷ اور سریہ کی تعداد ۴۷، غزوہ یعنی وہ جنگ جس میں پیغمبر اکرم (ص.خود شریک تھے، سریہ یعنی وہ جنگ جس میں پیغمبر اکرم (ص.خود شریک نہیں تھے بلکہ کسی کی سپہ سالاری میں فوج بھیج دیتے تھے)

۷۳. تاریخ یعقوبی: ج۲ ص۶۰ (قریش نہ چاھتے ہوئے بھی حکم خدا کے سامنے تسلیم ہوگئے)

روایت ابی مخنف کی تحقیق کا طریقۂ کار

ابو مخنف کی روایات کے متن کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں فیصلہ کرنا آسان کام نہیں ہے کیونکہ ابو مخنف کو تاریخی روایات نقل کرنے والوں میں ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے لھٰذا دوسری روایات کے پیش نظر ان کی روایت کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ تاریخ کے تمام راوی جیسے ھشام کلبی، واقدی، مدائنی، ابن سعد وغیرہ یہ سب ان کے دور کے بعد سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی کے مرہون منت ہیں۔

کافی غور و فکر اور جستجو کے بعد اس کتاب میں تحقیق کا جو طریقۂ کار اپنایا گیا ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ سب سے پھلے ابو مخنف کی اس روایت کے مضمون کو تاریخ کی اہم کتابوں سے، جو تاریخ طبری سے پہلے اور اس کے بعد لکھی گئی ہیں نیز خود تاریخ طبری کی متعدد روایات سے اس کا موازنہ کیا جائے اس کے بعد تمام قرائن و شواھد کی روشنی میں اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جائے، اس سلسلے میں جن کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے وہ تاریخ کی معتبر، معروف و مشھور کتابیں ہیں جن میں سے اکثر کتابیں اہل سنت کی ہیں۔ ہم آپ کی معلومات کے لئے ان کتابوں کے نام کے ساتھ ساتھ ان کا مختصر تعارف کرانا بھی ضروری سمجھتے ہیں(۴۰)

البتہ اس سے پہلے کہ تاریخ طبری سے پہلے لکھی جانے والی کتابوں کا تعارف کرایا جائے سب سے پہلے خود تاریخ طبری کا تعارف پیش کرتے ہیں کیونکہ یہ ہماری بحث کا محور ہے اور تاریخ کی ایک جامع کتاب ہے۔

تاریخ طبری:

اس کتاب کا نام "تاریخ الامم والملوک یا تاریخ الرسل والملوک" ہے جس کے مولف ابو جعفر محمد بن جریر طبری ہیں وہ ۲۲۴ ہجری میں آمل طبرستان (مازندران: ایران کا ایک شہر) میں پیدا ہوئے اور تحصیل علوم کے سلسلے میں مقامات کا سفر کیا پھر بغداد میں سکونت اختیار کرلی اور ۳۱۰ ہجری میں وھیں انتقال کر گئے(۴۱) ۔

آپ کا شمار فقہ، تفسیر اور تاریخ کے عظیم علماء میں ہوتا تھا خاص طور پر آپ کی تاریخ اور تفسیر کی کتابیں تو علماء اہل فن کی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔

طبری نے اپنی کتاب میں اکثر روایات اپنے سے پہلے والے راویوں سے نقل کی ہیں اور طبری کے پاس ان کے ما قبل لکھی جانے والی کتابوں کا کافی ذخیرہ موجود تھا جن سے انھوں نے خوب استفادہ کیا اور چونکہ ان میں سے بعض کتابیں زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ناپید ہوگئیں تو ان کتابوں کے مطالب کو نقل کرنے کا واحد مآخذ فقط تاریخ طبری ہی ہے اسی لئے یہ کتاب ایک خاص اہمیت کی حامل ہے اور ابو مخنف کی کتاب "مقتل حسینعليه‌السلام " جو اپنی نوعیت کی واحد کتاب تھی اور اس بات کا زندہ ثبوت ہے کیونکہ اس کتاب کی روایتیں تاریخ طبری میں متعدد مقامات پر کثرت سے ذکر کی گئی ہیں(۴۲)

تاریخ طبری نے خلقت کی ابتداء، اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر خاتم الانبیاء تک اور پھر ان کی ہجرت سے لیکر ۳۰۲ ہجری تک کے ہر سال کے حالات و واقعات کو الگ الگ بیان کیا ہے۔

طبری کا کسی بھی واقعہ یا حادثہ کو نقل کرنے کا طریقہ جس کا تذکرہ انہوں نے اپنے مقدمہ میں کیا ہے(۴۳) یہ ہے کہ کسی واقعہ کے بارے میں راویوں سے روایتوں کو سند کے ساتھ نقل کرنے کے بعد اس کے بارے میں اپنی رائے دئے بغیر اسے قارئین کی نظر پر چھوڑ دیتے ہیں، البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ طبری کے پاس جو روایتیں موجود تھیں ان میں سے انہوں نے صرف چند روایتوں کا انتخاب کر کے انہیں اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے لیکن واقعہ غدیر کے بارے میں انہوں نے ایک روایت بھی ذکر نہیں کی ہے۔

وہ تمام راوی جن سے طبری نے روایتوں کو نقل کیا ہے وثاقت کے اعتبار سے برابر نہیں ہیں۔ جیسے ابن اسحاق، ابو مخنف، مدائنی، زُھری اور واقدی یہ تمام افراد وہ ہیں جنہوں نے تاریخی واقعات کو نقل کرنے میں ایک خاص طریقۂ کار اپنایا ہے اور اسی طبری کے راویوں میں سے ایک سیف بن عمر بھی ہے جو صرف روایتیں گڑھتا تھا اور نہایت ہی جھوٹا آدمی تھا(۴۴) ۔

اگر چہ طبری سنی مذھب تھے مگر زندگی کے آخری لمحات میں ان کے تشیع کی طرف مائل ہونے کا احتمال دیا جاسکتا ہے۔

طبری سے پھلے لکھی جانے والی وہ کتابیں جو اس گفتگو کے لئے منتخب کی گئی ہیں

۱۔ السیرة النبویہ لابن ھشام:

در اصل اس کتاب کے مولف ابن اسحاق ہیں، اور سیرت نبوی پر لکھی جانے والی اہم اور مصادر کی کتابوں میں اس کا شمار ہوتا ہے اس سے پہلے سیرت نبوی پر اتنی جامع کتاب نہیں لکھی گئی تھی۔ عبدالملک بن ھشام (وفات ۲۱۳ یا ۲۱۸ ہجری ) نے اس کتاب کی تلخیص کی اور اپنے خیال میں اس کی کچھ غیر ضروری عبارتوں کو حذف کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ مطالب کا اضافہ بھی کیا(۴۵) اس کے بعد یہ کتاب "السیرة النبویہ ابن ھشام" کے نام سے مشہور ہوگئی۔

۲۔ المغازی واقدی:

اس کتاب کے مولف محمد بن عمر واقدی (ولادت ۱۳۰ ہجری وفات ۲۰۷ ہجری ) ہیں ان کا تعلق عثمانی مذھب سے تھا وہ مدینہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۸۰ ہجری میں بغداد تشریف لائے اور مامون کی طرف سے بغداد کے قاضی مقرر ہوئے اور اسی شہر میں انتقال کرگئے، وہ غزوات اور فتوحات کے سلسلے میں اچھی خاصی معلومات رکھتے تھے انہوں نے ہجرت سے لیکر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت تک کی روایات کے بارےمیں عمدہ تحقیق کی ہے جس کی وجہ سے وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہے۔

۳۔ الطبقات الکبريٰ:

اس کتاب کے مولف محمد بن سعد (ولادت ۱۶۸ ہجری وفات ۲۳۰ ہجری ) ہیں وہ کاتب واقدی کے نام سے مشہور تھے اور ایک نہایت ہی متعصب قسم کے سنی تھے ان کا تعلق بصرہ سے تھا اور پھر بغداد جاکر واقدی کے پاس ان کے کاتب کی حیثیت سے تعلیم میں مشغول ہوگئے، انھوں نے اپنی کتاب کی پھلی دو جلدوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور اس کے بعد کی جلدوں میں صحابہ اور تابعین کے بارے میں بحث کی ہے جو اس سلسلے کی ایک اہم ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔

۴۔ تاریخ خلیفہ بن خیاط (وفات ۲۴۰ ہجری ):

خلیفہ بن خیاط تیسری صدی ہجری کے ایک اہم مورخ سمجھے جاتے ہیں جو سنی مذھب سے تعلق رکھتے ہیں، ابن کثیر نے انہیں امام تاریخ کہہ کر یاد کیا ہے(۴۶) یہ کتاب تاریخی کتابوں میں قدیم ترین کتاب ہے کہ جس نے تاریخی حالات و واقعات کو ہر سال کے اعتبار سے پیش کیا ہے۔

۵۔ الامامہ والسیاسة:

یہ کتاب ابن قتیبہ دینوری (ولادت ۲۱۳ ہجری وفات ۲۷۶ ہجری ) کی طرف منسوب ہے جن کا شمار تیسری صدی ہجری کے اہل سنت سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور مورخین میں ہوتا ہے، ان کی ولادت بغداد میں ہوئی مگر کچھ عرصہ دینور میں قاضی رہے اگر چہ اس کتاب کی نسبت دینوری کی طرف مشکوک ہے لیکن بہر حال یہ کتاب سن تین ہجری کے آثار میں سے ایک اہم کتاب ہے۔

۶۔ انساب الاشراف:

یہ کتاب احمد بن یحیيٰ بلاذُری (ولادت ۱۷۰ ہجری سے ۱۸۰ ہجری کے درمیان، وفات ۲۷۹ ہجری ) نے لکھی ہے جو تیسری صدی ہجری کے برجستہ مورخین اور نسب شناس افراد میں سے ایک تھے وہ سنی مذھب اور عباسیوں کے ہم خیال افراد میں سے تھے، اس کتاب میں تاریخ اسلام سے متعلق خاندانوں کا نام اور ان کا نسب وغیرہ بیان کیا گیا ہے۔

۷۔ تاریخ یعقوبی:

اس کتاب کے مولف احمد بن ابی یعقوب اسحاق بن جعفر بن وھب بن واضح ہیں ۲۸۴ ہجری میں انتقال ہوا، آپ کا تعلق شیعہ مذھب سے تھا یہ کتاب تاریخ کی موجودہ قدیم ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔

تاریخ طبری کے بعد لکھی جانے والی وہ کتابیں جن سے اس گفتگو میں استفادہ کیا گیا ہے یہ ہیں۔

۱۔ السقیفہ و فدک:

یہ کتاب ابوبکر جوھری (وفات ۳۲۳ ہجری ) نے لکھی مگر زمانے کے گذرنے کے ساتھا ساتھ گم ہوگئی اس کتاب کے عمدہ مطالب دوسری کتابوں میں موجود ہیں، یہ کتاب ابن ابی الحدید کے پاس موجود تھی انہوں نے شرح نہج البلاغہ میں اس کتاب سے بہت کچھ نقل کیا ہے، اب یہ کتاب محمد ھادی امینی کی کوششوں سے مآخذ سے جمع آوری کے بعد "السقیفہ و فدک" کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔

۲۔ مروج الذھب:

یہ کتاب علی بن حسین مسعودی (وفات ۳۴۶ ہجری ) نے لکھی ہے، ممکن ہے کہ وہ شیعہ اثنا عشری ہوں مگر اس بات کا اندازہ "مروج الذھب" میں موجود مطالب سے نہیں لگایا جاسکتا بلکہ اس سے فقط ان کے مذھب شیعہ کی طرف مائل ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہ کتاب مقامات کے سفر کر کے نہایت تحقیق اور جستجو کے بعد لکھے جانے کی وجہ سے کافی اہمیت کی حامل ہے، انہوں نے اپنی کتاب میں ابو مخنف کا بہت ذکر کیا ہے۔

۳۔ الارشاد:

اس کتاب کے مولف شیخ مفید (ولادت ۳۳۶ ہجری وفات ۴۱۳ ہجری ) ہیں وہ ایک شیعہ متکلم، فقیہ اور نامور مورخ ہیں، یہ کتاب اگر چہ شیعوں کے آئمہعليه‌السلام کی زندگی کے بارے میں لکھی گئی ہے لیکن اس کے باوجود اس کتاب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سے متعلق بھی بہت سے واقعات ملتے ہیں۔ شیخ مفید کے علمی مقام و مرتبہ اور تقويٰ و پرہیز گاری کی وجہ سے انکی تحریریں شیعہ علماء کے نزدیک ایک معتبر سند کی حیثیت رکھتی ہیں۔

۴۔ المنتظم فی تاریخ الملوک والامم:

یہ کتاب ابن جوزی (ولادت ۵۰۸ ہجری وفات ۵۹۷ ہجری ) نے لکھی ہے، وہ چھٹی صدی ہجری کے مفسرین، خطباء اور مورخین میں سے ایک تھے، یہ کتاب عام طور سے بعد میں آنے والے مورخین کے لئے بہت زیادہ قابل استفادہ قرار پائی۔

۵۔ الکامل فی التاریخ:

یہ کتاب ابن اثیر (ولادت ۵۵۵ ہجری وفات ۶۳۰ ہجری ) نے لکھی ہے، انہوں نے اس کتاب میں ایسی دلچسپ روش اور طریقۂ کار کا انتخاب کیا ہے کہ جس نے اس کتاب کو تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے تمام افراد کے لئے قابل استفادہ بنا دیا ہے، انہوں نے مطالب کی جمع آوری اور انھیں نقل کرنے کے سلسلے میں بہت محنت اور توجہ سے کام لیا ہے۔

۶۔ البدایہ والنھایہ:

یہ کتاب ابن کثیر (ولادت ۷۰۱ ہجری وفات ۷۷۴ ہجری ) نے لکھی ہے۔ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ ابن تیمیہ(۴۷) کے شاگردوں میں سے ہیں۔

اس کتاب میں بعض بحثیں جیسے سیرت نبوی کو مختصر طور پر بیان کرنے کے بعد نظریات پر تنقید کے علاوہ ان کی تحقیق کی گئی ہے۔

یھاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ یہ جتنی بھی کتابیں ذکر کی گئی ہیں یہ ہماری بحث کے تاریخی مآخذ ہیں اور اس سے ھرگز مراد یہ نہیں ہے کہ ہم نے فقط ان ہی کتابوں پر اکتفا کی ہے۔ بلکہ بعض مقامات پر احادیث کی کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے جیسا کہ اہل سنت کی احادیث کی کتابوں میں سے صحیح بخاری، مسند احمد بن حنبل اور شیعہ احادیث کی کتابوں میں سے کافی اور بحار الانوار کو اس گفتگو کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ اگر چہ بعض مخصوص مطالب کے سلسلے میں ان کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے جو انہیں موضوعات پر لکھی گئی ہیں مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کتاب میں تحقیق کا جو طریقۂ کار اپنایا گیا ہے اگر چہ وہ بہت مشکل اور سنگین کام ہے لیکن ممکن ہے کہ یہ طریقۂ کار بہت سی تاریخی مباحث کی تحقیق کے سلسلے میں مفید ثابت ہو۔

____________________

۴۳. طبری۔ ج۱ ص۷، ۸

۴۵. السیرة النبویہ ابن ھشام ج۱ ص۴ (ابن اسحاق نے ایسے مطالب کا ذکر نہیں کیا کہ جو رسول خدا (ص.سے متعلق نہیں تھے یا یہ کہ بعض مطالب غیر مناسب تھے)

۴۶. منابع تاریخ اسلام۔ ص۱۲۱

۴۷. ابن تیمیہ کے افکار ہی در حقیقت وھابیت کی بنیاد ہیں۔


3

4

5

6

7

8

9

10