سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)0%

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں) مؤلف:
زمرہ جات: امامت

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

مؤلف: تارى، جليل
زمرہ جات:

مشاہدے: 10584
ڈاؤنلوڈ: 2543

تبصرے:

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 20 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10584 / ڈاؤنلوڈ: 2543
سائز سائز سائز
سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

سقيفہ كے حقائق ( روایت ابومخنف كي روشني ميں)

مؤلف:
اردو

گیارہواں اعتراض؛ ابوعبیدہ کی تقریر کے تنہا راوی ابو مخنف ہیں

انصار سے ابو عبیدہ کا خطاب کرنا فقط ابو مخنف کی روایت میں ملتا ہے اور کسی دوسری روایت میں اس کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں ہے(۲۸۴) ۔

جواب

۔ ابو عبیدہ وہ شخص ہے جو ابوبکر اور عمر کے ساتھ سقیفہ گیا اور اس کی کاروائی میں موجود تھا شروع میں ابوبکر نے لوگوں کو ابوعبیدہ اور عمر کی بیعت کرنے کی پیشکش کی اور اسی چیز سے اس جلسہ میں اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ممکن ہے کہ اس نے بھی اس جلسہ میں تقریر کی ہو جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ جو روایات سقیفہ کی کاروائی کو بیان کرتی ہیں وہ نہایت مختصر اورنقل بہ معنی ہیں اس لئے دوسرے راویوں کا نقل نہ کرنا ابو مخنف کی مفصل روایت کے بارے میں اس کی ضعیف ہونے پر دلیل نہیں ہے، اس کے علاوہ ابو عبیدہ کے خطاب کو فقط ابو مخنف ہی نے نقل نہیں کیا بلکہ دینوری نے الامامة والسیاسة(۲۸۵) میں، ابن اثیر(۲۸۶) نے الکامل میں اور یعقوبی(۲۸۷) نے اسے اپنی تاریخ یعقوبی میں بالکل ابو مخنف کی روایت کی طرح نقل کیا ہے۔

بارہواں اعتراض؛ سعد بن عبادہ اور عمر کے درمیان نزاع سے انکار

اس بات پر اتفاق ہے کہ عمر نے سقیفہ میں سعد بن عبادہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا "قتل الله سعداً " یعنی خدا سعد کو قتل کرے لیکن عمر کے اس جملہ سے مراد جیسا کہ کتاب غریب الحدیث میں ذکر ہوا ہے کہ "دفع الله شرّه " یعنی خدا اس کے شر کو دفع کرے نہ یہ کہ خدا سعد کو موت دے، جب کہ ابو مخنف کی روایت عمر اور سعد بن عبادہ کے درمیان بحث و مباحثہ اور تلخ کلامی کو بیان کرتی ہے اور دوسری تمام روایات اس کے برعکس ہیں(۲۸۸) ۔

جواب۔

پہلی بات تو یہ کہ بہت سی تاریخ اور احادیث کی کتابوں نے واضح طور پر اس تلخ کلامی کی طرف اشارہ کیا ہے۔

۱۔ انساب الاشراف(۲۸۹) میں روایت نقل ہوئی ہے کہ عمر نے سعد کے بارے میں کہا "اقتلوہ فانہ صاحب فتنہ" یعنی اسے قتل کردو کہ وہ فتنہ گر ہے۔

۲۔ یعقوبی(۲۹۰) کا کہنا ہے کہ عمر نے کہا "اقتلوا سعداً قتل الله سعداً " یعنی سعد کو قتل کردو، خدا سعد کو ھلاک کرے۔

۳۔ عمر کے خطبہ کے سیاق و سباق سے بھی یہی معنی سمجھ میں آتے ہیں اس لئے کہ اس سے پہلے کہ عمر یہ بات کہیں لوگوں کے ازدھام کی وجہ سے سعد کے ایک قریبی فرد نے کہا کہ "کہیں سعد کچل نہ جائے" تو عمر نے یہ جملہ سننے کے بعد کہا "قتل الله سعداً " اللہ سعد کو موت دے دے(۲۹۱) ۔

۴۔ دینوری(۲۹۲) نے بھی اس تلخ کلامی کو ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے "اقتلوہ (اسے قتل کردو) قتلہ اللہ (خدا اسے موت دے)" اگر چہ اس نے اس قول کے کہنے والے کے نام کو ذکر نہیں کیا لیکن یہ بات متفق علیہ ہے کہ وہ شخص عمر ہی تھے اور یہ صراحت اور وضاحت جو اس عبارت میں موجود ہے ہر قسم کی تفسیر اور تاویل کے راستہ کو بند کردیتی ہے۔

دوسری بات یہ کہ ۔ "قتل الله سعداً " در حقیقت اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ خدا سعد کو ھلاک کرے۔ لھٰذا اگر اس جملے کے کہنے والے کی مراد اس کے حقیقی معنی نہ ہوں اور وہ اسے مجازی معنی میں استعمال کر رہا ہو تو اسے دو مسئلوں کی طرف توجہ رکھنی چاھیے، ایک یہ کہ حقیقی اور مجازی معنی کے درمیان رابطہ ضروری ہے اور دوسری بات یہ کہ حقیقی معنی کو مجازی معنی میں استعمال کرنے کے لئے قرینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہاں پر کسی بھی قسم کا تناسب اور رابطہ حقیقی معنی اور معترض کے کلام میں نہیں پایا جاتا ہے اس لئے کہ جملہ کے حقیقی معنی ایک قسم کی بددعا ہے جب کہ معترض کے معنی اس کے برعکس ہیں جو ایک قسم کی دعا سمجھی جاتی ہے اور اسی طرح کوئی قرینہ ایسا موجود نہیں ہے کہ جو اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ کلام کے کہنے والے نے اسے مجازی معنی کے لئے استعمال کیا ہے، اس لئے کہ کسی بھی تاریخ اور حدیث کی کتاب میں قرینۂ مذکور موجود نہیں ہے اور نہیں معلوم کہ جن لوگوں نے یہ مضحکہ خیز تاویل پیش کی ہے اس لئے ان کی کیا دلیل ہے؟۔

ظاھراً معترض اور جن لوگوں نے اس تاویل کو پیش کیا ہے شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سعد بن عبادہ نے سقیفہ میں ابوبکر کی بیعت کرلی تھی اور انہوں نے کسی قسم کی کوئی مخالفت نہ کی لیکن یہ ایک نہایت ہی غلط فکر ہے اس لئے کہ تاریخ اور احادیث کی بہت سی کتابوں میں سعد بن عبادہ کی طرف سے ابوبکر اور عمر کی شدید قسم کی مخالفت نقل ہوئی ہے کہ جس کی تفصیل تیرہویں اعتراض کے جواب میں بیان کی جائے گی۔

تیرہواں اعتراض؛ سعد بن عبادہ کا ابوبکر کی بیعت نہ کرنے سے انکار

''سقیفہ کے بارے میں تمام محدثین اور مورخین نے جو روایات نقل کی ہیں ان کی روشنی میں تمام مہاجرین اور انصار کے ساتھ سعد بن عبادہ نے بھی ابوبکر کی بیعت کرلی تھی اور فقط روایت ابو مخنف میں ہے کہ سعد بن عبادہ نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی اور اس قسم کے دوسرے مسائل جیسے اس کا ان کے ساتھ نماز میں شریک نہ ہونا وغیرہ کیا سعد بن عبادہ کا ابوبکر کی بیعت کرنے یا نہ کرنے کا ان پر کوئی اثر ممکن ہے کہ جس کی اطاعت پر امت نے اجماع کرلیا تھا؟ بہر حال کوئی صحیح روایت ایسی نہیں ملتی جو سعد بن عبادہ کے بیعت نہ کرنے کو بیان کرتی ہو بلکہ جو کچھ نقل ہوا ہے وہ اس کے بیعت کرنے کو بیان کرتا ہے(۲۹۳)

جواب۔

معترض کا دعويٰ یہ ہے کہ تمام مہاجرین اور انصار نے ابوبکر کی بیعت کرلی تھی لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ محدثین اور مورخین نے جو سقیفہ کے بارے میں روایات نقل کی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ سقیفہ کی کاروائی کے بعد بہت سے انصار اور مہاجرین نے جن کا شمار رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اکابر صحابہ میں ہوتا تھا ابوبکر کی بیعت کرنے سے انکار کردیا تھا، ذیل میں ہم چند مثالیں بیان کرتے ہیں۔

۱۔ سقیفہ کے بارے میں عمر اپنے خطبہ میں کہتے ہیں کہ "خالف عنّا علّی والزبیر ومن معهما "(۲۹۴) یعنی حضرت علی علیہ السلام اور زبیر اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے انہوں نے ہماری مخالفت کی! اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اور تمام بنی ھاشم اور زبیر اور ان کے قوم اور دوست و احباب نے ابوبکر اور عمر کی مخالفت کی۔

۳۔ یعقوبی کا کہنا ہے "و تخلّف عن بیعة ابی بکر قوم من المهاجرین والانصار، ومالوا مع علی بن ابی طالب، منهم: العباس بن عبد المطلب والفضل بن العباس والزبیر بن العوام بن العاص و خالد بن سعید والمقداد بن عمرو و سلمان الفارسی و ابوذر الغفاری و عمار بن یاسر و البرّاء بن عازب و ابی بن کعب "(۲۹۵) یعنی انصار اور مہاجرین کے ایک گروہ نے بیعت نہیں کی اور وہ لوگ حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کرنا چاھتے تھے جن میں عباس بن عبدالمطلب، فضل بن عباس، زبیر بن عوام بن عاص، خالد بن سعید، مقداد بن عمرو، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار یاسر، برّاء بن عازب اور ابی بن کعب شامل ہیں۔

۴۔ مسعودی کا کہنا ہے کہ جب تک حضرت علی علیہ السلام نے بیعت نہیں کی بنی ھاشم میں سے کسی نے بھی بیعت نہیں کی(۲۹۶) اس بات کو ابن اثیر نے بھی لکھا ہے(۲۹۷) ۔

ہم نے ابوبکر کی بیعت کے مخالفین کے عنوان سے جن چند افراد کے نام پیش کئے ہیں وہ فقط بعنوان مثال اور بطور شاھد ہیں و گرنہ تاریخی کتابوں میں ابوبکر کی بیعت کے مخالفین کی تعداد اس سے کہیں زیادہ بتائی گئی ہے(۲۹۸) ۔

ان مطالب کے پیش نظر اور تاریخی کتابوں پر سرسری نظر ڈالنے سے بھی اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معترض کا یہ دعويٰ کہ پوری امت نے ابوبکر کے مقدم ہونے اور ان کی اطاعت پر اجماع کرلیا تھا بے بنیاد اور بلا دلیل ہے اور یہ بات کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے اس لئے کہ یہ کیسا اجماع تھا کہ جس کے مخالف حضرت علی علیہ السلام، اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور تمام بنی ھاشم جیسے لوگ تھے؟ نیز یہ کس قسم کا اجماع تھا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جلیل القدر صحابہ جیسے سلمان فارسی، ابوذر غفاری، مقداد اور عمار یاسر وغیرہ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی مخالفت کر رہے تھے؟!

رہی یہ بات کہ بیعت کے مخالفین پر کیا گذری اور ان کے ساتھ کیا برتاؤ ہوا اس سلسلے میں تاریخ کی کتابوں میں بہت اختلاف ہے لیکن مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ان مخالفین میں سے بعض نے دہمکیوں(۲۹۹) سے خوفزدہ ہوکر اور بعض نے مال کی لالچ(۳۰۰) میں بیعت کرلی تھی، اور ان میں بعض وہ تھے کہ جو جبر و اکراہ کے باوجود بھی ابوبکر کی بیعت کرنے پر راضی نہ تھے(۳۰۱) ان افراد میں حضرت علی علیہ السلام تھے کہ جو جبر و اکراہ کے باوجود ابوبکر کی بیعت کرنے پر راضی نہ ہوئے(۳۰۲)

اور یہ کہ حضرت علی علیہ السلام اپنے آپ کو خلافت کا مستحق سمجھتے تھے اور شروع میں انہوں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی یہ بات ناقابل انکار حقیقت ہے بلکہ اس بات پر اجماع ہے جب کہ بعض نے کہا ہے کہ اگر چہ وہ ابتداء میں ابوبکر کی بیعت کرنے پر تیار نہ تھے لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ابوبکر کی بیعت کرلی تھی اور اس سلسلے میں مشھور قول یہ ہے کہ جناب فاطمہعليه‌السلام کی شھادت کے بعد ابوبکر کی بیعت کی(۳۰۳)

سب سے پہلے ہم اس چیز کو بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کرنے سے کیا مراد ہے؟

اگر بیعت سے مراد یہ لیا جائے کہ ابوبکر قانونی طور پر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جانشین اور خلیفہ تسلیم کرنا ہے تو حضرت علی علیہ السلام نے ھرگز اس معنی میں کبھی بھی ابوبکر کی بیعت نہیں کی اس لئے کہ آپ نے ابتداء میں ہی ابوبکر کی بیعت نہ کرکے یہ ثابت کردیا تھا کہ آپ انہیں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خلیفہ نہیں مانتے تھے بلکہ اپنے آپ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا برحق خلیفہ سمجھتے تھے اور اس سلسلے میں آپ کبھی بھی متذبذب نہیں رہے لھٰذا آپ کے بارے میں اس معنی میں بیعت کا گمان کرنا آپ پر ظلم کے مترادف ہے اس لئے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے اپنی گذشتہ غلطی کا اقرار کرلیا تھا۔

اور اگر بیعت کے معنی مقابلہ نہ کرنے، مخالفت نہ کرنے، خلفاء کے کاموں میں مداخلت نہ کرنے اور مسلمانوں کی مشکلات کے حل کے لئے ان کی مدد اور اسلامی معاشرہ کو انحراف سے بچانے کے ہیں تو اس سلسلہ میں یہ کہنا بہتر ہوگا کہ وہ تو ابتداء ہی سے اس کے پابند تھے نیز جب لوگ کسی اور کی طرف رخ کر رہے تھے تو ان سے سلمان فارسی کا یہ کہنا کہ تمھارا بیعت کرنا اور نہ کرنا سب برابر ہے(۳۰۴) حضرت علی علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفن کے بعد جناب فاطمہعليه‌السلام کے گھر تشریف لائے اور گوشہ نشین ہوگئے(۳۰۵) اور حفظ اسلام اور مصالح مسلمین کی خاطر خلفاء سے جنگ اور مقابلہ کے لئے کوئی اقدام نہ کیا بلکہ اگر کسی نے لوگوں کو کسی بھی قسم کے اقدام کے لئے تیار بھی کیا تو آپ نے انھیں روک دیا جیسا کہ عتبہ بن ابی لہب نے ایک جوشیلی تقریر میں بنی ھاشم سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں کچھ کریں تو آپ نے انہیں خاموش رہنے کا حکم دیا(۳۰۶) اور ابوسفیان کہ جو خاندان عبد مناف کی طرف سے مسلحانہ قیام چاھتا تھا اسے آپ نے اپنے سے دور کردیا(۳۰۷) ۔

لیکن خلفاء کی بیعت کیونکہ اتفاقی و ناگہانی ہوئی تھی(۳۰۸) لھٰذا ان کا خیال تھا کہ لوگ حضرت علی علیہ السلام کی طرف ضرور رجوع کریں گے اور حضرت علیعليه‌السلام بھی اپنا حق لے کر رہیں گے اس لئے انھوں نے جناب فاطمہعليه‌السلام کے گھر میں لشکر کشی میں عجلت کا مظاھرہ کیا اور زبردستی حضرت علی علیہ السلام کو مسجد میں لے آئے اور ان سے ابوبکر کی بیعت طلب کی لیکن آپ نے منع کردیا اور فرمایا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا برحق خلیفہ میں ہوں(۳۰۹) ، لیکن کچھ ہی عرصہ گزرنے کے بعد خلیفہ اس بات کو اچھی طرح جان گئے کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے تحفظ کی خاطر اپنے مسلّم حق سے سبکدوش ہوسکتے ہیں، اور اسلامی معاشرہ کی اصلاح کے لئے ہر ممکن کوشش کرینگے۔ بس یہ خلفاء تھے کہ جنہیں اپنی کی ہوئی غلطی کا احساس ہوگیا تھا جس کے نتیجہ میں انہوں نے حضرت علیعليه‌السلام کے ساتھ اپنے رویہ کو تبدیل کیا نہ یہ کہ حضرت علی علیہ السلام ان کو خلیفۂ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سمجھتے تھے۔

گذشتہ بیان کی روشنی میں زندگی کے آخری لمحات میں ابوبکر کی زبان سے نکلے ہوئے جملوں کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ "اے کاش میں نے جناب فاطمہعليه‌السلام کے گھر پر لشکر کشی نہ کی ہوتی(۳۱۰) اس لئے کہ انہیں بعد میں اس بات کا احساس ہوا کہ اس کام سے نہ انہیں کوئی فائدہ پہونچا اور نہ اس کی ضرورت ہی تھی بلکہ اس سے جناب فاطمہعليه‌السلام کا غضب جن کا غضب خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غضب ہے(۳۱۱) ان کے شامل حال ہوگیا(۳۱۲) اور اس بنا پر دنیا و آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگئے۔

لھٰذا اگر بیعت پہلے والے معنی میں مراد لی جائے تو حضرت علی علیہ السلام نے ان کو ھرگز رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خلیفہ اور جانشین نہیں مانا اور ان کی بیعت نہ کی اور اگر بیعت کے دوسرے معنی مراد لئے جائیں تو حضرت علی علیہ السلام نے پہلے ہی دن سے خلفاء کے بارے میں چشم پوشی کو اپنا وظیفہ سمجھا اور گوشہ نشین ہوگئے اور کسی بھی صورت ان کا مقابلہ اور ان کے خلاف بغاوت نہ کی۔

یہاں تک تو ہم نے یہ بیان کیا کہ بعض صحابہ نے کس طرح ابوبکر کی بیعت کی تھی لیکن ان تمام افراد کے درمیان ایک فرد ایسا بھی تھا کہ اس نے (ظاھراً اپنی ضد کی وجہ سے) ابوبکر کی بیعت نہ کی اور وہ سعد بن عبادہ تھا بہت سی روایات کے مطابق اس نے ھرگز ابوبکر اور عمر کی بیعت نہ کی اور پھر وہ شام چلا گیا اور وھاں پر مشکوک انداز میں قتل کردیا گیا۔

معترض کا دوسرا دعويٰ یہ ہے کہ سعد بن عبادہ نے سقیفہ میں ہی ابوبکر کی بیعت کرلی تھی اور فقط ابو مخنف کی روایت میں سعد بن عبادہ کے بیعت نہ کرنے کا ذکر ہے جب کہ کسی بھی صحیح روایت میں ایسا بیان نہیں ہے تمام روایتیں اس کے بیعت کرنے کو بیان کرتی ہیں، بہر حال سعد بن عبادہ کی بیعت کرنا یا نہ کرنا کون سا ایسا خاص اثر رکھتی ہے؟

ہم مدعی کے اس دعوے کو باطل کرنے کے لئے فقط چند مثالوں پر ہی اکتفاء کریں گے۔

۱۔ بلاذری نے مدائنی سے روایت کی ہے کہ : سعد بن عبادہ نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی اور پھر عمر نے اس کے پاس ایک شخص کو بھیجا کہ یا تو بیعت کرے یا پھر قتل ہونے کے لئے تیار رہے اور بیعت نہ کرنے کے سبب عمر کے حکم سے اسے قتل کردیا گیا(۳۱۳) ۔

۲۔ مسعودی کا کہنا ہے کہ سعد بن عبادہ نے بیعت نہیں کی اور مدینے سے شام چلا گیا اور ہجرت کے پندرہویں سال قتل کردیا گیا(۳۱۴) ،

۳۔ ابن جوزی(۳۱۵) کا کہنا ہے کہ تمام انصار و مہاجرین نے بیعت کی مگر سعد بن عبادہ نے بیعت نہ کی اس کے بعد وہ ابن اسحاق سے نقل کرتا ہے کہ سعد بن عبادہ نے بیعت نہیں کی اور ان کی نماز جماعت میں بھی شریک نہ ہوتا تھا اور یہ نقل ابو مخنف کی روایت کے مطالب سے شباھت رکھتی ہے۔

۴۔ جوہری کتاب السقیفہ و فدک(۳۱۶) میں کہتا ہے کہ سعد بن عبادہ نے ابوبکر، عمر اور کسی کی بھی بیعت نہیں کی، اور اس کے نماز میں شریک نہ ہونے کو بھی بیان کیا ہے، ۔ ۔ ۔ جیسا کہ ابو مخنف کی روایت بیان کرتی ہے۔

۵۔ دینوری(۳۱۷) نے ابو مخنف کی اصل عبارت کو نقل کیا ہے کہ وہ ان کی نماز جماعت میں شریک نہ ہوتا تھا وہ عمر کے دور خلافت میں شام چلا گیا اور وھاں اس کا انتقال ہوگیا جب کہ اس نے کسی کی بیعت نہیں کی تھی۔

۶۔ ابن اثیر(۳۱۸) نے بھی سعد کے آخری دم تک بیعت نہ کرنے کو ذکر کیا ہے۔

۷۔ ابن سعد(۳۱۹) کا کہنا ہے کہ ابوبکر نے جس آدمی کو سعد سے بیعت لینے کے لئے بھیجا تھا سعد نے اسے منفی جواب دیا اور کہا "لا والله لا ابایع " یعنی خدا کی قسم ھرگز میں بیعت نہ کروں گا۔

۸۔ ان تمام شواھد کے باوجود بھی کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ سعد بن عبادہ کی بیعت نہ کرنے کو فقط ابو مخنف نے نقل کیا ہے کیا واقعاً ان تمام شواھد میں سے ایک نمونہ بھی معترض کی نظر کے سامنے سے نہیں گزرا، یا عمداً ان حقائق سے چشم پوشی کی گئی ہے؟

اور معترض نے کس طرح یہ اعتراض کرتے ہوئے صرف محدثین اور مورخین کے اقوال کا سہارا لیا ہے اور کسی بھی صحیح روایت کا حوالہ نہیں دیا لیکن اس مطلب کے جواب کے سلسلے میں صحیح روایت کی تلاش میں ہے کیا یہ تاریخ اور احادیث کی کتابیں معتبر نہیں ہیں اور فقط مسند احمد بن حنبل کی نقل شدہ مرسلہ روایت صحیح اور قابل قبول ہے؟!

اس کے علاوہ یہ کہ ہم اہل سنت کی صحیح روایات کے ساتھ اس روایت کے تعارض کو بیان کرچکے ہیں، نیز وہ تمام روایتیں جن کو معترض نے دلیل کے طور پر پیش کیا ہے(۳۲۰) سعد بن عبادہ کی ابوبکر کی بیعت کرنے کو بیان نہیں کرتیں، اس کے علاوہ مسند احمد بن حنبل(۳۲۱) کی روایت میں بھی سعد بن عبادہ کی طرف سے ابوبکر کی بیعت کرنے کا بیان نہیں ہے، بلکہ روایت میں یہ ہے کہ سعد نے ابوبکر کی گفتگو کی تصدیق کی تھی جب کہ ہم اس روایت کے غلط ہونے کو پہلے ہی ثابت کرچکے ہیں۔

اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سعد بن عبادہ بیعت کریں یا نہ کریں اس سے ابوبکر کی ولایت و حکومت پر کیا اثر پڑتا ہے؟

تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ سعد بن عبادہ قبیلہ خزرج کا سردار تھا لھٰذا اس کا بیعت کرنا یا نہ کرنا اہمیت کا حامل تھا، اس کے علاوہ اس کا شمار پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جلیل القدر اصحاب میں ہوتا تھا، کس طرح وہ لوگ کے جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام صحابہ کے طیب و طاھر ہونے کے دعویدار ہیں مگر جب سعد بن عبادہ کا نام آتا ہے تو ایسا ہوجاتے ہیں کہ جیسے وہ کوئی تھا ہی نہیں؟! اور اگر سعد بن عبادہ ابوبکر کی بیعت کرنے میں پیش پیش ہوتا تو کیا واقعاً بعض کے نزدیک اس کا یھی مقام ہوتا؟

حرف آخر

اگر چہ سقیفہ میں جس چیز کی بنیاد رکھی گئی اور پھر ہر ممکنہ کوشش کے ذریعہ اسے مضبوط کیا گیا کہ جو اہل بیتعليه‌السلام رسول کی گوشہ نشینی اور لوگوں کے لئے علم و معارف کے سرچشمہ سے محرومی کا سبب بنی، اس کے باوجود اہل بیتعليه‌السلام اطہار کا حق تعصب کی کالی گھٹاؤں کے اندر بھی خورشید کے مانند درخشاں اور قابل نظارہ ہیں۔

ہم امید رکھتے ہیں کہ محترم قارئین نے اس کتاب کے مطالعہ سے اس بات کا اندازہ کرلیا ہوگا کہ جمود و انکار اور اتہامات کے گرد و غبار کے ڈھیروں تلے دبے ہوئے حقائق تک پہنچنا کوئی مشکل کام نہیں ہے اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عترت کی حقانیت اور صداقت کو جاننے کے لئے دل کا ذرہ برابر پاکیزہ اور انصاف پسند ہونا ہی کافی ہے، یہاں تک کہ ان چیزوں کا مشاہدہ ان کتابوں میں بھی بآسانی کیا جاسکتا ہے جو ان کے حقائق پر پردہ ڈالنے کے لئے لکھی گئیں ہیں۔

(وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین )

سید نسیم حیدر زیدی، قم المقدسہ ۳ صفرالمظفر ۱۴۲۶ ہجری

____________________

۲۵۴. صحیح بخاری کے نقل کے مطابق۔

۲۵۸. مسند احمد بن حنبل: ج۱ ص۱۹۸

۲۵۹. کتاب المصنف: ج۷ ص۴۳۳ (حدیث ۴۰، ۳۷)

۲۶۰. الامامة والسیاسة: ص۲۳، ۲۴،

۲۶۱. الکامل فی التاریخ: ج۲ ص۱۳

۲۶۲. السقیفہ و فدک: ص۵۶، ۵۷۔

۲۶۴. الکامل فی التاریخ: ج۲ ص۱۳۔

۲۶۶. الطبقات الکبريٰ: ج۳ ص۱۸۲

۲۶۷. فضائل الصحابہ: ص۵۵، ۵۶

۲۶۸. سقیفہ میں عمر کا خطبہ۔

۲۶۹. الامامة والسیاسة: ص۲۵

۲۷۰. السقیفہ و فدک: ص۵۸۰

۲۷۱. الکامل فی التاریخ: ج۲ ص۱۳

۲۷۴. سقیفہ کے بارے میں ابو مخنف کی روایت کا مضمون۔

۲۸۰. السیرة النبویہ: ابن ھشام: ج۴ ص۳۱۶۔

۲۸۱. سقیفہ کے بارے میں عمر کا معروف خطبہ۔

۲۸۲. سورہ مبارکہ حجرات: آیت۱۳۔

۲۸۳. الکتاب المصنف: ج،۷، ۴۳۳۔

۲۸۵. الامامة والسیاسة: ص۲۵۔

۲۸۶. الکامل فی التاریخ: ج۲ ص۱۴۔

۲۸۷. تاریخ یعقوبی: ج۲ ص۱۲۳

۲۸۹. انساب الاشراف: ج۲ ص۷۶۵۔

۲۹۰. تاریخ یعقوبی: ج۲ ص۱۲۳۔

۲۹۲. الامامة والسیاسة: ص۲۷۔

۲۹۴. سقیفہ کے بارے میں عمر کا خطبہ۔

۲۹۵. تاریخ یعقوبی: ج۲ ص۱۲۴۔

۲۹۶. مروج الذھب: ج۲ ص۳۰۱۔

۲۹۹. السقیفہ و فدک: ص۳۸۔

۳۰۰. السقیفہ و فدک: ص۳۷۔

۳۰۱. انساب الاشراف: ج۲ ص۷۶۹، ۷۷۰، تاریخ یعقوبی: ج۲ ص۱۲۶۔ السقیفہ و فدک: ص۶۰۔

۳۰۴. انساب الاشراف: ج۴ ص۷۷۶

۳۰۵. السیرة النبویہ ابن ھشام: ج۴ ص ۳۰۷، انساب الاشراف: ج۲ ص۷۷۶ سب نے (حضرت علی علیہ السلام گوشہ نشین ہوگئے.عبارت نقل کی ہے۔ الکامل میں ابن اثیر، عمر کا خطبہ نقل کرتے ہوئے کہتا ہے (علی علیہ السلام، زبیر اور وہ لوگ جنہوں نے ہماری مخالفت کی جناب فاطمہ (ع.کے گھر میں ہیں.حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے خطبہ سوم شقشقیہ میں فرماتے ہیں کہ کیوں کہ مصلحت نہ دیکھی لھٰذا صبر و تحمل کو ہی قرین فہم و عقل سمجھا۔

۳۰۶. تاریخ یعقوبی: ج۲ ص۱۲۴

۳۰۸. انساب الاشراف: ج۲ ص۷۶۶، السقیفہ و فدک ص۴۴، ابوبکر کا قول ہے کہ (میری بیعت ایک اتفاق اور حادثاتی تھی)

۳۰۹. الامامة والسیاسة: ص۲۸، ۲۹۔

۳۱۰. السقیفہ و فدک: ص۷۳، الامامة والسیاسة: ص۳۶۔

۳۱۱. الامامة والسیاسة: ص۳۱، الغدیر: ج۷ ص۲۳۱ سے ۲۳۵ تک مجموعی طور پر انسٹھ طریقوں سے اس روایت کو نقل کیا ہے۔

۳۱۲. الامامة والسیاسة: ص۳۱، (عمر نے ابوبکر سے کہا کہ جناب فاطمہ (ع.کی خدمت میں چلتے ہیں کہ ہم نے انہیں ناراض کیا ہے.والبدایة والنہای: ج۵ ص۲۷۰ (جناب فاطمہ (ع.ابوبکر سے ناراض تھیں اور آپ نے آخر دم تک ان سے بات نہیں کی)، الغدیر: ج۷ ص۲۲۶ سے ۲۳۱ تک۔

۳۱۴. مروج الذھب: ج۲ ص۳۰۱۔

۳۱۵. المنتظم: ج۴ ص۶۷۔

۳۱۶. السقیفہ و فدک: ص۵۹، ۶۰۔

۳۱۷. الامامة والسیاسة: ص۲۷۔

۳۱۸. الکامل فی التاریخ: ج۲ ص۱۴۔

۳۱۹. الطبقات الکبريٰ: ج۳ ص۶۱۶۔

۳۲۰. مرویات ابی مخنف فی تاریخ الطبری: ص۱۱۲ سے ۱۱۸ تک۔

۳۲۱. مسند احمد بن حنبل: ج۱ ص۱۹۸۔

فھرست منابع

۱۔ قرآن کریم۔

۲۔ نہج البلاغہ۔ حضرت علی علیہ السلام کے خطبات۔ مترجم سید جعفر شہیدی، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، طبع ہفتم ۱۳۷۴ ہجری شمسی۔

۳۔ اعلام۔ خیر الدین زرکلی، بیروت دار العلم (ملایین) طبع ہفتم ۱۹۸۶ میلادی۔

۴۔ الارشاد فی معرفة حجج اللہ علی العباد شیخ مفید، تحقیق مؤسسہ آل البیت لاحیاء التراث، مطبع مہر قم، ناشر مؤتمر العالمی لالفیہ الشیخ المفید طبع اول۔۱۴۱۳ ہجری قمری۔

۵۔ الامامة والسیاسة۔ ابن قتیبہ دینوری، تحقیق علی شیری، انتشارات الشریف رضی طبع اول ایران قم ۱۴۱۳ ہجری قمری۔

۶۔ انساب الاشراف۔ بلاذری، تحقیق سہیل زکاو ریاض زرکلی، دار الفکر بیروت، طبع اول ۱۴۱۷ ہجری قمری۔

۷۔ بحار الانوار، علامہ مجلسی، بیروت دار احیاء التراث العربی، مؤسسة الوفاء، طبع سوم ۱۴۰۳ ہجری قمری۔

۸۔ البدایة والنہایة۔ ابن کثیر، تحقیق مکتب تحقیق التراث، بیروت، موسسة التاریخ العربی دار احیاء التراث العربی طبع اول ۱۴۱۲ ہجری قمری۔

۹۔ تاریخ ادبیات عرب۔ رژی بلاشر، مترجم آذر نوش مؤسسہ مطالعات، تحقیقات فرہنگی تہران ۱۳۶۳ ہجری شمسی۔

۱۰۔ تاریخ التراث العربی، فواد سزگین، اعراب گذاری محمود فہمی حجازی، مکتبہ مرعشی نجفی، قم، طبع دوم۔ ۱۴۱۲ ہجری قمری۔

۱۱۔ تاریخ الخلفاء بن خیاط، تحقیق سہیل زکا، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۴ ہجری قمری۔

۱۲۔ تاریخ طبری (تاریخ الرسل والملوک) ابو جعفر محمد بن جریر طبری تحقیق محمد ابو الفضل، بیروت طبع دوم۔ ۱۳۸۷ ہجری قمری۔

۱۳۔ تاریخ یحیيٰ بن معین، تحقیق عبداللہ۔ احمد حسن، دار القلم بیروت۔

۱۴۔ تاریخ یعقوبی۔ احمد بن ابی یعقوب بن واضح، منشورات شریف رضی۔ طبع اول۔ امیر قم۔ ۱۴۱۴ ہجری قمری۔

۱۵۔ تفسیر الطبری (جامع البیان) دار الفکر، بیروت، ۱۴۱۵ ہجری قمری۔

۱۶۔ تفسیر العیاشی۔ محمد بن مسعود عیاش، بیروت مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، تحقیق سید محمد ھاشم رسولی محلاتی طبع اول ۱۹۹۱ میلادی۔

۱۷۔ التفسیر الکبیر۔ فخر رازی، تحقیق مکتب تحقیق دار احیاء التراث العربی، بیروت طبع اول، ۱۹۹۵ میلادی۔

۱۸۔ تہزیب الاحکام فی شرح المقنعہ، محمد بن حسن الطّوسی، تحقیق محمد جعفر شمس الدین، دار التعارف مطبوعات ۱۴۱۲ ہجری قمری۔

۱۹۔ تہذیب الکمال، جمال الدین ابی المحجاج، تحقیق بشار عواد معروف، بیروت مؤسسةالرسالة ۱۹۸۵ میلادی۔

۲۰۔ التنبیہ والاشراف، علی بن حسین مسعودی، تحقیق عبد اللہ اسماعیل صاوی، منابع الثقافہ الاسلامیہ دار الصاوی قاھرہ۔

۲۱۔ جامع الاخبار، محمد بن الشعیری، منشورات مکتبة حیدریہ (اور نجف کی دیگر مطبع) ۱۳۸۵ ہجری قمری۔

۲۲۔ الجرح والتعدیل، ابن ابی حاتم، بیروت، احیاء التراث العربی۔

۲۳۔ دلائل النبوة، ابی بکر احمد بن حسین بھیقی، تحقیق عبد المعطی قلعجی بیروت، دار الکتب العلیہ طبع اول ۱۴۰۵ ہجری قمری۔

۲۴۔ دیوان الضعفاء والمتروکین، ذھبی بیروت، دار القلم ۱۴۰۸ ہجری قمری۔

۲۵۔ الذریعة امی تصانیف الشیعة، آقا بزرگ تہرانی، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان۔ ایران قم۔

۲۶۔ ذکر اخبار اصفہان، حافظ ابو نعیم اصفہانی، ترجمہ۔ نور اللہ کسائی۔ سروش تہران ۱۳۷۷ ہجری قمری شمسی۔

۲۷۔ رجال طوسی، محمد بن حسن طوسی، تحقیق جواد القیومی الاصفہانی موسسہ النشر الاسلامی، جامعہ مدرسین قم طبع اول ۱۴۱۵ ہجری قمری۔

۲۸۔ رجال النجاشی ابی عباس احمد بن علی النجاشی۔ تحقیق سید موسيٰ الشبیری الزنجانی مؤسسہ النشر السلامی، جامعہ مدرسین قم، طبع پنجم ۱۴۱۶ ہجری قمری۔

۲۹۔ السقیفہ۔ الشیخ محمد رضا المظفر، نشر موسسہ انصاریان، مطبع بہمن، قم طبع دوم ۱۴۱۵ ہجری قمری۔

۳۰۔ السقیفہ و فدک۔ ابی بکر بن عبدالعزیز الجوھری، پیشکش، جمع آوری اور تحقیق محمد ھادی امینی، مکتبة نینوی الحدیثہ تہران۔

۳۱۔ سیر اعلام النبلاء، الذھبی، تحقیق شعیب ارنؤوط اور حسین الاسد۔ بیروت مؤسسہ الرسالہ ۱۹۹۴ میلادی۔

۳۲۔ السیرة النبویہ۔ عبدالملک بن ھشام، تحقیق مصطفيٰ السقا۔ ابراھیم الابیاری، عبدالحفیظ شلبی، افست مصر، انتشارات ایران، مطبع مہر قم، ۱۳۶۳ ہجری شمسی۔

۳۳۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، تحقیق محمد ابو الفضل ابراھیم، بیروت دار احیاء التراث العربی طبع دوم ۱۳۸۵ ہجری قمری۔

۳۴۔ صحیح البخاری حاشیة امام سندی، دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۱۹ ہجری ، طبع اول۔

۳۵۔ الضعفاء والمتروکین، دار قطنی، تحقیق موفق عبداللہ بن عبد القادر، مکتبة معارف الریاض ۱۴۰۴ ہجری قمری۔

۳۶۔ الطبقات الکبريٰ، ابن سعد، دار بیروت ۱۴۰۵ ہجری قمری۔

۳۷۔ عبداللہ ابن سبا۔ علامہ سید مرتضيٰ عسکری۔ ترجمہ۔ احمد فہری زنجانی۔ ناشر مجمع علمی اسلامی مطبع سپھر۔ ۱۳۶۰ ہجری شمسی۔

۳۸۔ الغدیر، علامہ امینی، دار الکتب السلامیہ، تھران طبع دوم ۱۳۶۶ ہجری شمسی۔

۳۹۔ فضائل الصحابہ۔ احمد بن شعیب نسائی، تحقیق فاروق حمادہ، دار الثقافة الدار البیضاء المغرب، طبع اول ۱۴۰۴ ہجری قمری۔

۴۰۔ الفہرست ابن ندیم مطبع تجدد۔ تہران ۱۳۹۳ ہجری قمری۔

۴۱۔ الفہرست، شیخ طوسی، تحقیق محمد صادق آل بحر العلوم، ناشر شریف رضی، ایران قم (افست نجف)۔

۴۲۔ قاموس الرجال: محمد تقی شوشتری نشر و تحقیق مؤسسہ النشر الاسلامی، جامعہ مدرسین قم۔ طبع دوم ۱۴۱۰ ہجری قمری۔

۴۳۔ الکافی، محمد بن یعقوب الکلینی، تحقیق علی اکبر غفاری، دار لاضواء بیروت ۱۴۰۵ ہجری قمری۔

۴۴۔ الکامل فی الضعفاء الرجال۔ ابن عدی، تحقیق عادل احمد الموجود محمد معوض، دار الکتاب العلمیہ، بیروت ۱۴۱۸ ہجری قمری۔

۴۵۔ الکامل فی التاریخ۔ ابن اثیر، تحقیق مکتب تراث، مؤسسہ التاریخ العربی بیروت طبع چہارم ۱۴۱۴ ہجری قمری۔

۴۶۔ کتاب المجرومین، محمد بن حبان، تحقیق محمود ابراہیم زاید۔ ناشر دار التوعی، حلب، طبع دوم ۱۴۰۲ ہجری قمری۔

۴۷۔ الکتاب المصنف فی الاحادیث والآثار، ابی بکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ، تحقیق محمد عبدالسلام شاھین، بیروت دار الکتب العلمیہ، طبع اول ۱۴۱۶ ہجری قمری۔

۴۸۔ الکنی والالقاب، شیخ عباس قمی، حیدریہ نجف، ۱۳۸۹ ہجری قمری۔

۴۹۔ لسان العرب ابن منظور، تحقیق علی شیری، دار احیاء التراث العربی بیروت طبع اول ۱۴۰۸ ہجری قمری۔

۵۰۔ لسان المیزان۔ ابن حجر عسقلائی، تحقیق محمد عبدالرحمٰن مرسلی، بیروت (ناشر) دار احیاء التراث العربی۔ طبع اول۔ ۱۴۱۶ ہجری قمری۔

۵۱۔ مأساة الزھراء (س) سید جعفر مرتضی عاملی، دارالسیرة، بیروت۔ طبع اول۔ ۱۴۱۷ ہجری قمری۔

۵۲۔ مروج الذھب۔ مسعودی، تحقیق یوسف اسعد داغر (ناشر) دارالاندلس، بیروت۔ طبع اول ۱۳۵۸ ہجری قمری۔

۵۳۔ مرویات ابی مخنف فی تاریخ الطبری، یحیيٰ بن ابراھیم، دار العصامہ۔ ریاض، طبع اول ۱۴۱۰ ہجری قمری۔

۵۴۔ مسند احمد بن حنبل۔ تحقیق شعیب ارنؤوط اور عادل مرشد (ناشر) موسسہ الرسالہ، بیروت طبع اول ۱۴۱۶ ہجری قمری۔

۵۵۔ معجم الادباء۔ یاقوت حموی، تحقیق احسان عباس (ناشر) دار الغرب الاسلامی، بیروت طبع اول ۱۹۹۳ میلادی۔

۵۶۔ معجم رجال الحدیث، ابوالقاسم خوئی ناشر۔ الثقافة الاسلامیہ۔ طبع پنجم ۱۴۱۳ ہجری قمری۔

۵۷۔ المغازی، الواقدی تحقیق مارسدن جونس (ناشر) موسسۃ الاعلمی ، بیروت طبع دوم ۱۴۰۹ ہجری قمری۔

۵۸۔ منابع تاریخ اسلام۔ رسول جعفریان، انصاریان۔ قم۔ طبع اول ۱۳۷۶ ہجری قمری۔

۵۹۔ المنتظم ۔ ابن جوزی۔ تحقیق محمد عبد القادر عطا، مصطفيٰ عبدالقادر عطاء (ناشر) دارالکتب العلمیہ بیروت طبع اول ۱۴۱۲ ہجری قمری۔

۶۰۔ منہاج السنة۔ ابن تیمیہ، تحقیق محمد رشاد سالم (ناشر) ادارة الثقافة والنشر جامعہ عربستان سعودی ۱۴۹۶ ہجری قمری۔

۶۱۔ المیزان فی تفسیر القرآن۔ سید محمد حسین طباطبائی (ناشر) دارالکتب السلامیہ تہران۔ طبع چہارم ۱۳۶۵ ہجری شمسی۔

۶۲۔ وقعة الطف، ابو مخنف، تحقیق محمد ھادی یوسفی غروی۔ موسسة النشر الاسلامی۔ جامعہ مدرسین قم ۱۳۶۷ ہجری شمسی۔