اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 15%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 144843 / ڈاؤنلوڈ: 5495
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

كے عنوان سے معروف ہوا _ وہ ابوحنيفہ كى آراء بالخصوص احكام شرعى كى تشخيص كے سلسلے ميں ابوحنيفہ كے فقہى قياس اور نظريات كے مد مقابل اپنے مخصوص نظريات ركھتے تھے انہوں نے سعى كى كہ فقہى روش پر حديث كى كتاب لكھ كر اپنى آراء پيش كريں اس كتاب ميں جس كا نام مؤطا ہے مالك سب سے پہلے حديث نقل كرتے ہيں پھر مدينہ كے فقہاء كا فتوى ذكر كرتے ہيں اسكے بعد اپنى فقہى نظر پيش كرتے ہيں انكا نظريہ يہ تھا كہ احكام شرعى كيلئے روايات جيسى مستند دليل كے ہوتے ہوئے قياس يا اپنى رائے كى طرف نہيں آنا چاہيے_ مالكى مذہب بتدريج شمالى آفريقا ، مصر اور اندلس ميں رواج پاگيا(۱)

اہل سنت كے تيسرے فقہى مكتب كو ابوعبداللہ محمد بن ادريس شافعى(۲) (۲۰۴ _ ۱۵۰ قمرى ) نے تشكيل ديا وہ چونكہ دونوں حنفى اور مالكى مذاہب كے بارے ميں معلومات ركھتے تھے اسى ليے انہوں نے كوشش كہ ان دو مذاہب ميں اساسى امتزاج پيدا كيا جائے اور اس امتزاج اور وحدت پر جديد فقہ كو تشكيل ديا جائے(۳) ليكن اسكے ساتھ ساتھ انہوں نے حنفى مكتب كے استحسان اور مالكى مكتب كى استصلاح كى بھى مخالفت كي_ انہوں نے اپنى فقہى آراء كے اساسى قواعد كو اصول الفقہ كے متعلق ايك رسالہ ميں تحرير كيا _ مصر ميں صلاح الدين ايوبى كے ذريعے فقہ شافى رائج ہوئي(۴) اور اس فقہ كے عراق اور مكہ ميں بھى حامى موجودہيں(۵)

اہل سنت كا چوتھا فقہى مكتب احمد بن حنبل(۶) (۲۴۱ _ ۱۶۴ قمري) كى طرف منسوب ہے جو فقہ حنبلى كے عنوان سے مشہور ہے _ احمد بن حنبل علماء حديث كے بڑے مفكرين ميں سے شمار ہوتے ہيں انہوں نے شافعى

____________________

۱)كاظم مدير شانہ چى ، علم الحديث، مشہد ص ۳۶_

۲)محمد ابوزہرہ ، امام شافعى حياتہ و عصرہ و آرا و فقہہ ، قاہرہ_

۳) ج م عبدالجليل ، تاريخ ادبيات عرب، ترجمہ آذر تاش آذرنوش ، تہران ص ۱۷۵_

۴)قيس آل متين ، سابقہ ما خذ ، ج ۵ ص ۵_

۵) بوجينا غيانة ، سابقہ ما خذص ۱۷۴_

۶)ذائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۶ ، ذيل احمد بن حنبل_

۱۰۱

كے ہاں درس پڑھا(۱) تيس ہزار احاديث پر مشتمل حديث كى مسند لكھ كر دوسروں كو اپنى طرف متوجہ كرليا(۲) انكى فقہ كى بنياديں كتاب ، سنت ، صحابہ كے فتاوى ، قياس، استحسان ، مصالح او رذرايع سے تشكيل پائيں انكے مذہب كے سب سے زيادہ پيروكار حجاز ميں ہيں(۳)

فقہ حنبلى كے حوالے سے ايك نكتہ يہ ہے كہ چونكہ احمد بن حنبل آراء او رنظريات كے مكتوب شكل ميں جمع كرنے كے مخالف تھے اسى ليے انكے شاگردوں اور بعد ميں آنے والے حنبلى مسلك افراد كى آراء ميں جو احمد بن حنبل سے نقل كى گئي ہيں خاص فرق حتى كہ تضاد بھى نظر آتا ہے اور كبھى تو كسى ايك مسئلہ ہيں انكا نام ليكر نقل ہونے والے متضاد اقوال چار يا پانچ كى تعداد تك بھى ہيں(۴)

اہل سنت كے ان چار اماموں كے بعد سنى فقہ نے اپنى جدت اور تحرك كو كھوديا_ چوتھى صدى سے تيرھويں صدى تك ان آئمہ كے آثار پرصرف حاشيہ يا انكى شرح و تفسير كى حد تك كام ہوا ان مذاہب كے فقہاء نے انكى آراء كے ساتھ تقريبا كوئي نئے نكتے كا اضافہ نہ كيا اسى ليے اہل سنت كى فقہ ميں اجتہاد ان چار اشخاص كى تقليد ميں تبديل ہوكر رہ گيا اگر چہ ان چار آئمہ ميں اجتہاد كو منحصر كرنے پر كوئي بھى عقلى اور نقلى دليل موجود نہ تھى ليكن بتدريج اور حاكموں كے سياسى مقاصد اور كاموں كى بناء پر اس مسئلہ ميں اجماع كى كيفيت پيدا ہوگى كہ اب اسكے خلاف آواز بلند كرنا آسان كام نہ تھا(۵) ليكن تيرھويں صدى ہجرى سے عالم اسلام ميں واضح تبديلياں پيدا ہوئيں _ عصرى تقاضوں ، زندگى اور معاشرتى روابط ميں گہرى اور وسيع تبديليوں كے پيش نظر اہل سنت كے بعض فقہاء فقط ان چار آئمہ كى تقليد ميں منحصر ہونے كے مسئلہ ميں شك و ترديد كا شكار ہوگئے_

____________________

۱)وحينا غيانة ، سابقہ ما خذص ۱۷۷ _

۲)كاظم مدير شانہ چي، سابقہ ما خذص ۵۵_

۳)دائرة المعارف بزرگ اسلامي، سابقہ ما خذ_

۴)رجوع كريں ، ابن حبيرہ الافصاح عن معافى الصحاح، حلب ج ۱ ص ۵۴_

۵) ابوالفضل عزتى ، سابقہ ما خذص ۸۳ _ ۷۱ _

۱۰۲

بتدريج اہل سنت كے فقہاء يہ بات سمجھ گئے كہ ان آئمہ كى تقليد پر كوئي عقلى و نقلى حكم اور معتبر دليل موجود نہيں ہے وہ بھى ان چار فقہاء كى مانند شرعى مسائل ميں اجتہاد كرسكتے ہيں اس حوالے سے مصر كے عظيم مفتى شيخ محمود شلتوت نے شيعہ فقہاء كى آراء پر توجہ كرتے ہوئے شيعہ فقہا كى آرا كى پيروى كے جواز كا اعلان كر كے ايك اہم ترين قدم اٹھايا _ (يہ بات قابل ذكر ہے كہ ان مندرجہ بالا چارمسالك كے علاوہ ديگر مسلك اور مكاتب بھى دائرہ وجود ميں آئے جن ميں سے بعض مسالك مثلا زيديہ اور اسماعيليہ شيعہ مسالك ميں شمارہوتے ہيں اور اپنى فقہ اور پيروكاروں كے ساتھ عہد حاضر ميں موجود ہيں اور بعض مسالك جو كسى سے وابستہ نہيں ہيں مثلا اباضى مسلك كہ جو خوارج كے مسلك ميں سے ابھى تك اپنا وجود برقرار ركھے ہوئے ہے(۱) يا ديگر مسالك مثلا مسلك اوزاعى (متوفى ۱۵۰ قمري) اور مسلك سفيان ثورى (متوفى ۱۶۱ قمري) اور مسلك داود بن على ظاہرى (متوفى ۲۷۰ قمري) كہ يہ سب سنى مسالك ميں سے شمار ہوتے ہيں ليكن بہت كم پيروكاروں كى بناء پر زيادہ عرصہ تك نہ چل سكے(۲)

ليكن ان تمام مسالك ميں ايك معمولى ساموازنہ كرتے ہوئے ہم ديكھتے ہيں كہ زيدى مسلك بہت زيادہ پيروكاروں اور بے شمار علما، محدثين ، معروف فقہاء اور مؤلفين كى بناء ايك ممتاز مقام كا حامل ہے اس مذہب كى بعض كتب مندرج ذيل ہيں :

زيد بن على بن الحسين (ع) سے منسوب '' المجموع''(۳) يحيى بن حسين (۹۸_ ۲۴۵قمري) كى جامع الاحكام فى الحلال و الحرام احمد بن يحيى المرتضى (۸۴۰ _ ۷۷۵قمري) كى البحر الزخار، ابراہيم بن محمد كى الروض فى الحامل شرح الكافل حسن بن احمد (متوفى ۱۰۴۸) كى ضوء النہار فى شرح الازہار اور محمد بن على الشوكانى (متوفى ۱۲۲۱)

____________________

۱)رجوع كيجئے : موسوعة الفقہ الاسلامى ج ۱ ص ۳۲ ، صبحى الصالح ، انظم الاسلامية ، نشا تہا و تطورہا ص ۲۰۷ ، صبحى رجب محمصانى ، فلسفة التشريع فى الاسلام ج ۵ ص ۶۹ _۷۰_

۲)عبدالكريم زيدان، المدخل لدراسة الشريعة الاسلامية ، بيروت ج ۱۱ ص ۱۴۸_

۳) سابقہ ما خذ_

۱۰۳

كى الدرر البھية والسيل الجرار و نيل الاوطار(۱) (زيدى مذہب سے كافى عرصہ كے بعد ہم داود بن على الظاہرى سے منسوب ظاہرى مذہب كا نام لے سكتے ہيں كيونكہ اسكے پيروكار بہت ہى كم تھے اور آج تقريباً موجود نہيں ہيں اس مذہب كى بنيادى فقہى كتا ب'' المحلى '' ہے كہ جسے ابن حزم ظاہرى نے تحرير كيا اس مذہب كے استحكام اور بقاء كا باعث تھى اسى شخص كى خدمات جانى گئيں(۲)

۵_ اصول

اسلامى علوم ميں وہ علم كہ جو اصلى منابع اور مصادر سے اسلامى احكام اور قوانين كے استنباط كيلئے تدوين ہوا علم اصول ہے يہ علم وجود ميں آنے كے بعد سے اب تك نو مراحل سے گزرا:_

۱)وجود ميں آنے كا دور: اس دور ميں اس علم كى تدوين اور اسكے مقدمات بيان كرنے كيلئے سب سے پہلى كوششيں ہوئيں _ شيعہ محققين كى رائے كے مطابق اس علم كے خالق امام باقر (ع) اور امام صادق (عليہما السلام ) ہيں _ اگر چہ عصر حاضر كے كچھ محققين كا خيال ہے كہ اصلى قواعد كا سادہ انداز ميں استعمال صدر اسلام سے ہى رائج تھا(۳)

۲) تصنيف كے دور كا آغاز: اس دور ميں علم اصول جس كا ذكر فقہى مسائل كے درميان ہوتا تھا جداگانہ شكل ميں سامنے آيا_ ميرے خيال ميں علم اصول كى سب سے پہلى تصنيف جناب حشام بن حكم كى ہے كہ جواماميہ متكلمين كے سربراہ شمار ہوتے ہيں انہوں نے كتاب '' الفاظ و مباحثہا'' تحرير كى(۴)

____________________

۱) موسوعة الفقہ الاسلام ، سابقہ ما خذ، الحليمي، الروض النضير ، مقدمہ ، دائرة المعارف بزرگ اسلام ج ۲ ص ۵۹ _۱۶۴ ، على بن عبدالكريم شرف الدين ، الزيدية نظريہ و تطبيق ، العصر الحديث ج ۲ ص ۱_۳ اور اسكے بعد ، فواد سزگين ، تاريخ التراث العربى ج ۱ ، جزء ۳ عربى ، ص ۳۵۳_

۲)مصطفى الزلمى ، اسباب اختلاف الفقہاء فى احكام الشريعة ص ۵۶_

۳)حسن شفايي، ملاك اصول استنباط، ص ۹ ، حسن ہادى الصدر، تاسيس الشيعہ لعلوم الاسلام بغداد ، ابولاقاسم گرجى ، مقالات حقوقى ،ج۲ ص ۱۱۷، ۱۱۳_

۴) ابوالقاسم گرجي، سابقہ ما خذص ۱۱۹ _ ۱۱۸_

۱۰۴

۳)علم اصول كے علم كلام كے ساتھ ملاپ كا دور: يہ دور جو كہ زيادہ تر اہل سنت كے حوالے سے ہے ، اہل سنت كے متكلمين بالخصوص معتزلہ علم اصول ميں داخل ہوئے اور اسے اسكے اصلى راہ '' فرعى و فقہى احكام كے استنباط'' سے ہٹا ديا_ اس دور ميں اہل سنت كے مولفين ميں سے ''كتاب آراء اصولى ابوعلي'' كے مصنف محمد بن عبدالوہاب بن سلام جبائي ( متوفى ۳۰۳ قمرى )كتاب التحصيل كے مصنف ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر تميمى اسفراينى (متوفى ۴۲۹ قمري) اور كتاب '' المستصفى ''كے مصنف ابوحامد غزالى (متوفى ۵۰۵ قمرى ) قابل ذكر ہيں _

۴)علم اصول كے كمال اور دوبارہ جدا ہونے كا دور : يہ دور جو كہ مكتب شيعہ كے حوالے سے ہے علم اصول بتدريج پختگى كى منازل طے كر گيا اور كافى حد تك علم كلام كے مسائل سے جدا ہوگيااس دور كے اہم ترين آثار كے جنہوں نے علم اصول كو ترقى كى انتہائي بلنديوں تك پہنچا ديا وہ ابن ابى عقيل ، شيخ مفيد اور شيخ طوسى كى تصنيفات و تاليفات ہيں _

۵)استنباط كے جمود اور علم اصول ميں ٹھہراؤ كا دور: شيخ طوسى كے علمى نبوغ اور عظمت كى بناء پر تقريباً ايك صدى تك مختلف علوم بالخصوص اصول فقہ ميں انكى آرا، اور نظريات بغير كسى علمى تنقيد كے باقى رہے اور اس دور كے مولفين كى كتب پر انكے آثار كى تقليد كى چھاپ باقى رہى _ مثلا سديد الدين حمصى رازى كى كتاب مصادر اور حمزہ بن عبدالعزيز المعروف سلار كى كتاب '' التقريب'' ميں يہ تقليد ديكھى جاسكتى ہے مجموعى طور پر اس دور كے تمام فقہى استنباط اور نتائج شدت كے ساتھ شيخ طوسى كى آراء سے متاثر تھے_

۶) تجديد حيات كى تحريك: اس دور كى خصوصيات ميں سے يہ ہيں كہ ايك طرف روح اجتہاد دوبارہ زندہ ہوئي اور دوسرى طرف گذشتہ بزرگان دين كى كتب كى شرح ، حاشيہ اور تلخيص كى گئي اور فن منطق كے بعض مسائل علم اصول ميں داخل ہوئے اس دور كے علما اور بزرگ محققين ميں سے محمد بن ادريس حلى (متوفى ۵۹۸ قمرى )محقق حلى ، علامہ حلي، فاضل مقداد اور شيخ بہائي قابل ذكر ہيں(۱)

____________________

۱)سابقہ ما خذ ص ۱۲۱ ، ۱۳۰ ، ۱۳۵_

۱۰۵

۷)علم اصول ميں ضعف كا دور : تشيع كى علمى محافل اور حوزات ميں اخبارى مكتب فكر كى طرف ميلان بڑھنے سے علم اصول كى گذشتہ ادوار كى مانند رونق ختم ہوگئي اس دور ميں اخباريوں اور اصوليوں ميں شديد نزاع رہا، اس دور كى اخبارى مكتب فكر ميں اہم ترين تاليف '' كتاب فوائد المدنيہ'' ہے كہ جو محمد امين استر آبادى (متوفى ۱۰۳۳) نے تاليف كي_

۸)علم اصول كا جديدد ور: جناب وحيد بہبہانى كے علمى حوزات ميں ظاہر ہونے سے علم اصول بتدريج دوبارہ ترقى كے زينوں كى طرف بڑھنے لگا، آپ اور آپكے شاگردوں نے اپنى حيرت انگيز صلاحيتوں سے مالامال علمى طاقت سے اخبارى مكتب فكروالوں كے تمام شبہات اور تہمتوں كا جواب ديا اور يہ ثابت كرنے كيلئے بہت زيادہ كوشش كى كہ فقہى مسائل تك پہنچنے كيلئے ہم سب فقط اصولى قواعد كے محتاج ہيں اس دور ميں علامہ وحيد بہبہانى كے علاوہ عظيم علمى شخصيات ميں سے سيد مہدى بحر العلوم (متوفى ۱۲۱۲ قمري) كاشف الغطاء (متوفى ۱۲۲۷قمري) اور سيد على طباطبائي (متوفى ۱۲۲۱ قمري) قابل ذكر ہيں(۱)

۹)عصر حاضر : يہ دور جو كہ حقيقت ميں علم اصول كى معراج كا دور شمار ہوتاہے شيخ مرتضى انصارى (متوفى ۱۲۸) كے ظہور سے شروع ہوا اور انكے بعد انكے شاگردوں كى كوششوں سے جارى رہا _ واقعى بات تو يہى ہے كہ اس دور ميں علم اصول كى ترقى كاگذشتہ ادوار ميں كسى دور سے موازنہ نہيں كياجاسكتا اس دور ميں علم اصول ميں تحقيقات كيفيت اور كميت كے اعتبار سے وسيع ہونے كے ساتھ ساتھ انتہائي عميق بھى ہيں(۲)

۶_ كلام

اسلامى تمدن كے زير سايہ علم كلام كى پيدائشے كى كچھ وجوہات تھيں ان ميں سے ايك مسلمانوں كا غير مسلم اقوام مثلا ايرانيوں ، روميوں اورمصريوں سے تعلقات تھے ان روابط اور تعلقات كى بناء پر عقائد و نظريات

____________________

۱)سابقہ ما خذ ص ۱۳۸_

۲)مرتضى مطہري، آشنائي با علوم اسلامى ، بخش اصول فقہ ص ۲۶۳_

۱۰۶

ميں اختلاف آشكار ہوا _ مسلمانوں نے دين اسلام كے دفاع كيلئے نئي فكرى اور استدلالى روشوں كو سيكھا_ اسى طرح اس علم كے وجود ميں آنے كى دوسرى وجہ ايسى اقوام كا اسلام قبول كرنا قرار پائي كہ جو اپنے مذاہب ميں اللہ تعالى كى صفات، توحيد ، قضا و قدر اور جزا و سزا و غيرہ كے مسائل ميں مخصوص عقائد و نظريات كے حامل تھے_ اسى بناء پہ نئے مسلمان لوگ اسى كوشش ميں رہتے تھے كہ اپنے سابقہ دينى عقائد كو دين اسلام كے سانچے ميں ڈھال كر پيش كريں اسى ليے مسلمانوں نے بھر پور كوشش كى كہ عقلى دلائل سے بہرہ مند ہوكر اسلام كے بنياد ى عقايد كو مستحكم اور پائيدار بنائيں(۱)

علم كلام اپنے آغاز ميں فقط عقائدى مسائل بالخصوص توحيد و غيرہ پر بحث كرتا تھا اور جو شخص عقائد كے امور ميں دليل سے بات كرتا اسے متكلم كہا جاتاتھا اور خود دينى عقائد اور اصول ميں بحث اور جدل كرنے كو علم كلام كا نام دياگيا _ اسلام كے بڑے متكلمين ميں سے جنہوں نے كلامى نظريات اور مسالك كى تشكيل ميں اہم كردار ادا كيا حسن بصرى (۱۱۰ _ ۲۱ قمري) كى طرف اشارہ كيا جاسكتاہے كہ جو گناہوں كے حوالے سے بہت سخت موقف ركھتے تھے _ انكا عقيدہ تھا كہ تمام افعال فقط انسانى مرضى كى بناء پر انجام پاتے ہيں

دوسرى صدى ہجرى ہيں ابو محرز جھم بن صفوان نے مسلك جھميہ كو تشكيل ديا _ اس مسلك كے ماننے والوں كا نظريہ يہ ہے كہ اللہ تعالى كى شناخت كيلئے فقط ايمان كافى ہے ديگر عبادات سے اس كا كوئي ربط نہيں ہے اور كوئي بھى اللہ تعالى كے ارادے كے سوا فعل انجام نہيں ديتا_ پس انسان اپنے افعال ميں مجبور ہے(۲)

تيسرى صدى ہجرى ميں ابو سہل بشر بن معتمر ہلالى كوفى بغدادى (متوفى ۲۱۰قمري) نے مسلك بشرية كو تشكيل ديا _ اسكا نظريہ يہ تھا كہ اللہ تعالى قادر ہے اور اس نے اپنے بندوں كو اپنے كام كرنے پر قادر كيا ہے ليكن يہ مناسب نہ سمجھا كہ حيات، موت اور قدرت جيسے امور بھى انسانوں كے سپرد كرے(۳)

____________________

۱) علامہ شبلى نعماني، تاريخ علم كلام، ترجمہ داعى گيلاني، ص ۸_

۲)خير الدين زركلى ، الاعلام ، ج ۲ ص ۲۲۶_

۳) محمد شہرستاني، الملل و النحل، محمد جواد شكور كى سعى سے ، ج۱، ص ۷۲_

۱۰۷

چوتھى صدى ميں ہم چند مشہور و معروف متكلمين كا عرصہ وجود ميں ظہور كا مشاہدہ كرتے ہيں ان ميں سے ايك شيخ مفيد ہيں انكى تقريباً دو سو كے قريب تاليفات تھيں كہ جن ميں سے اكثر مختلف كلامى مسالك كے عقائد كى رد پر لكھى گئيں _ اسى صدى كے دوسرے مشہور متكلم شيخ الطايفہ ابوجعفر محمد بن حسن طوسى ہيں وہ سب سے پہلے شخص تھے كہ جنہوں نے نجف كو شيعہ مكتب كے علمى اور دينى مركز ميں تبديل كيا انكى كلام ميں مشہور كتابوں كے نام مندرجہ ذيل ہيں :الشافي، الاقتصادالہادى الى الرشاد اورتمھيد الاصول_

پانچويں صدى ميں مشہور متكلم ابوحامد محمد غزالى پيدا ہوئے_ غزالى كا عقيدہ تھا كہ متكلمين نے اس زمانہ ميں دين كى نصرت كيلئے قيام كيا كہ جب دينى فرقوں ميں اختلاف بڑھ گيا تھا اور لوگوں كے دلوں ميں ايمان متزلزل ہوچكا تھا انہوں نے عقلى اور منطقى دلائل كے ساتھ شبہات پيدا كرنے كا راستہ بند كرديا تھا نيز انكا عقيدہ تھا كہ عوام كو علم كلام سے دور كرنا چاہيے كہ اگر ان ميں سے كوئي ''يد'' ، '' فوق'' اور عرش پر استوار'' كا معنى پوچھيں تو بھى انہيں نہ بتائيں خواہ انہيں تازيانے مارنا پڑيں(۱) جس طرح كہ خليفہ دوم حضرت عمرہر اس شخص سے ايسا سلوك كيا كرتے تھے كہ جو تشابہ آيات كے بارے ميں سوال كرتا پانچويں صدى كے ايك اور معروف متكلم ابوالفتح محمد بن عبدالكريم بن احمد شہرستانى ہيں انكى علم كلام ميں معتبرترين كتاب كا نام نہاية الاقدام فى علم الكلام ہے جو علم كلام كے بيس قواعد اور اس علم كے مسائل كى فروع پر تشريح كى حامل ہے(۲)

چھٹى صدى ہجرى كے مشہورترين متكلم امام فخر رازى ياامام المشككين ہيں وہ علم اصول و كلام ميں مكتب اشعرى پر اور فروع دين ميں شافعى مسلك پر تھے انكے بيشتر اعتراضات اورتشكيكات فلسفي، كلامى اور علمى مسائل ميں تھے_ وہ اسلامى عقايد كى تشريح اشعرى مكتب كے اصولوں كى بناء پر كيا كرتے تھے اور فقہ اہل سنت پر عمل پيرا تھے_

____________________

۱)ابوحامد محمد غزالي، المنقد من اللال والمفصح عن الاحوال، محمدحابر كى كوشش سے _ دہر، عبدالكريم گيلانى حاشيہ الانسان الكامل ، قاہرہ_

۲)ابراہيم مذكور، فى الفلسفة الاسلامية، قاہرہ_

۱۰۸

ساتويں صدى ہجرى كے عظيم ترين متكلم خواجہ نصير الدين طوسى ہيں چونكہ خواجہ شيعہ ہونے كے ساتھ ساتھ منگولوں كے بادشاہ ہلاكوخان كى نگاہ ميں اہم مقام كے حامل تھے لہذا اہل سنت كے بہت سے علماء ان سے حسد كيا كرتے تھے اور انہيں سب و شتم كيا كرتے تھے انكى علم كلام ميں اہم ترين كتاب '' تجريد الاعتقاد'' ہے(۱)

ساتويں صدى ميں ابن تيميہ پيدا ہوئے وہ قرآنى علوم، حديث، فقہ، كلام ، فلسفہ اور ہندسہ ميں مہارت ركھتے تھے، وہ مسلمانوں كى سنت كا دفاع كيا كرتے تھے كہ جسكى وجہ سے اہل سنت كے ديگر مسالك كے بہت سے پيروكاروں نے انكى مخالفت كى _ اگر چہ انكا حنبلى مسلك سے تعلق تھا ليكن اس مسلك كے اصول كو اجتہاد كے ذريعہ قبول كرتے تھے اور بدعات كى مخالفت كرتے تھے اور اولياء خدا سے تمسك كرنے اور انبياء كى قبور كى زيارت پر تنقيد كيا كرتے تھے _ علماء اسلام كے ايك گروہ نے انكى مذمت كى جبكہ ايك گروہ نے انكى تعريف كي(۲)

ان تمام گذشتہ صديوں ميں علماء اسلام ميں سے فقط علامہ حلى ہيں كہ جنہيں آيت اللہ كے لقب سے نوازا گيا آپ ساتويں صدى ميں پيدا ہوئے، آپكى چار سو سے زيادہ تاليفات ہيں انہوں نے اپنى علم كلام كے بارے ميں تاليفات ميں سياست كى بحث بھى كي_ وہ سياست كوعين دين سمجھتے تھے انكى علم كلام كى مباحث ميں شيعہ سياسى افكار جلوہ گر ہيں _ انكى علم كلام ميں اہم ترين كتا ب الباب الحادى عشر ہے اسكے ابواب ميں مذہب شيعہ كے مختلف كلامى موضوعات مثلا نبوت، عصمت پيغمبر(ص) كا ضرورى ہونا، پيغمبر (ص) كى افضليت ، پيغمبر(ص) كا نقص سے دور ہونا، امامت ، امام كا معصوم ہونا اور حضرت على (ع) كى امامت كے حوالے سے بحث اور تجزيہ و تحليل كياگيا ہے_(۳)

____________________

۱)ميان محمد شريف، تاريخ فلسفہ در اسلام تہران_

۲)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۳ ، ذيل ابن تيميہ_

۳)خوانسارى ، روضات الجنات، لقرآن ص ۴۲۱ _۴۱۹_

۱۰۹

۷_ تصوف، عرفان اورفتوت

تصوف كا لغت ميں معنى '' صوفى بننا'' ہے ، بظاہر سب سے قديمى كتاب كہ جسميں كلمہ صوفى اور صوفيہ استعمال ہوا وہ جاحظ (متوفى ۲۵۵ قمرى ) كى البيان و التبين ہے(۱) ابن خلدون نے اپنے مقدمہ ميں تصوف كو صحابہ ، تابعين اور انكے بزرگان كى روش كے طور پر ذكر كيا(۲) بعض نے لفظ صوفى كو صفا سے ليا كہ جسكا معنى روشنى اور پاكيزگى ہے اور صفوت سے مرادمنتخب ہے ليكن شہرت يہى ہے كہ صوفى صوف سے ليا گيا ہے كہ جسكا معنى پشم ہے اور صوفى يعنى پشم پوش (پشم پہننے والا)(۳)

عرفان كو يورپى زبانوں ميں '' مَيسٹك'' Mystics(۴) كا نام ديا گيا ہے كہ جو يونانى لفظ ميسٹيكوس( Mistikos ) سے ليا گياتھا(۵) اور اسكا مفہوم و معنى ايك مرموز ، پنہان اور مخفى امر ہے_

اور اصطلاح ميں ايسے خاص دينى پہلو پر دلالت كرتاہے كہ جس ميں كسى انسانى فرد كا كائنات كے رب كے ساتھ بلاواسطہ رابطہ اور اتصال پيدا ہونا ممكن ہے اور يہ علم انسان كو خالق كائنات كےساتھ كشف و شہود اور باطنى تجربات كے ذريعے متصل كرتا ہے دوسرے الفاظ ميں عرفان سے مراد وہ روش اور طريقہ كہ جو نظرياتى طورپر علم حضورى كہلاتاہے اور عملى حوالے سے عبادت، كوشش اور زہد و رياضت سے لولگانے كو كہتے ہيں(۶)

دوسرى صدى ہجرى ميں وہ خاص لوگ كہ جو دينى مسائل كى طرف بہت زيادہ توجہ ديتے تھے زاہد، عابد اورمتصوف كہلاتے تھے_ اس دور ميں ہميشہ ميں عبادت ميں مصروف ہونا ، اللہ تعالى كے ليے ترك دنيا،

____________________

۱)عمرو بن بحر حاحظ، البيان و التبين چاپ حسن سندولى قاہرہ ، ج۱ ص ۲۸۳_

۲)ابن خلدون، مقدمہ ، ج۱ ص ۶۱۱_

۳)منصور بن اردشير عبادي، مناقب الصوفيہ ص ۳، ۳۱_

۴) mystic

۵) mistikos

۶)نورالدين كيائي ناد، سير عرفان در اسلام، ص ۷_۶۵_

۱۱۰

دنياوى لذتوں سے دورى اختيار كرنا ، زہد اور ہر وہ چيز كہ جسے لوگ برا سمجھتے ہيں مثلا ثروت جمع كرنے اور جاہ طلبى و غيرہ سے پرہيز كرنا تصوف كہلا تا تھا(۱)

جاحظ اور ابن جوزى نے تقريباً ابتدا كے صوفيوں ميں سے چاليس افر اد كا تعارف كرواياہے جن ميں ابوذر، حذيفہ بن يمان، خباب بن ارث و بلال حبشي، سلمان فارسي، عمار ياسر ، مقداد اور ديگر وہ لوگ كہ جو عبادت اور زہد ميں معروف تھے انكا ذكر ہوا، اسى طرح وہ اشخاص كہ جو صدر اسلام كے شيعوں ميں سے شمار ہوتے ہيں(۲)

تيسرى صدى كے وسط سے صوفى حضرات گروہى اعتبار سے بتدريج منظم ہوگئے_ انكا اہم ترين گروہ بغداد ميں تھا_معروف صوفى مثلا ابوسعيد خرّاز (متوفى ۲۷۷ قمري) جنيد بغدادى (متوفى ۲۹۸قمري) اور ابوبكر شبلى (متوفى ۳۳۴ قمرى ) وہاں زندگى گذارتے تھے(۳) كلامى اوراعتقاد كے اعتبار سے صوفيوں ميں پائے جانے والے مختلف نظريات انكے فكرى اور باطنى مكتبوں اور فرقوں ميں اختلاف كا باعث تھے _ مثلا خواجہ عبداللہ انصارى اور ابوسعيد ابو الخير آپس ميں اختلاف رائے ركھتے تھے(۴)

تيسرى صدى ہجرى سے دوسرے علاقوں كے صوفيوں كا مركز سے رابطہ اور نظم بڑھ گيا يہانتك كہ بغداد ميں - ۳۰۹ قمرى ميں حلاج قتل ہوا _ يہ چيز باعث بنى كہ بغداد بتدريج صوفيوں كا محور اور مركزنہ رہا_ اسى صدى كے وسط سے ہى بغداد كے بڑے صوفى حضرات نے تاليف كا آغاز كيا اس دور كى اہم ترين كتابيں مندرجہ ذيل ہيں : خرگوشى نيشابورى (متوفى ۴۰۶ قمري) كى تہذيب الاسرار، ابوبكر كلا بازى كى

____________________

۱)عبداللہ بن محمد ارضاري، طبقات الصوفيہ ج ۱۲ ، ص ۵ _۱۹۴_

۲)رينولد'' نيكلسون'' پيدائشے و سير تصوف ترجمہ محمد باقر معين، ص ۱۴_۱۱، مانرى كورين ، تاريخ فلسفہ اسلامى ، ترجمہ جواد طباطبائي ص ۷۳_۲۶۵_

۳)ابوبكر محمد بن ابراہيم كلاباذي، التعرف لمذہب اہل التصوف ، دمشق ص ۳۰ _ ۲۸_

۴)احمد جامى ، مقامات شيخ الاسلام حضرت خواجہ عبداللہ انصارى طروى ، چاپ فكرى سلجوقى تہران ص ۳۴_ ۳۱_

۱۱۱

تصنيف ''التعرف لمذھب اہل التصوف ''اور ابونصر سراج طوسى كى تاليف'' كتاب اللمع فى التصوف'' چوتھى صدى ميں اور اس كے بعد بھى تاليف كى يہ روايت جارى رہي_ كتاب ''التعرف كلا بازى ''كو ابواسماعيل مستملى نے فارسى زبان ميں ترجمہ كيا_ ابو حامد غزالى (متوفى ۵۰۵ قمري) نے كتاب ''كيمياى سعادت ''كو عربى زبان ميں تحرير كيا اسى طرح شہاب الدين عمر سہروردى نے ساتويں صدى ہجرى ميں تصوف كے حوالے عربى ميں كتاب'' عوارف المعارف ''تاليف كى _

چوتھى صدى كے دوسرے نصف حصہ سے صوفيوں كى تاريخ خاص اہميت كى حامل ہے ابو عبدالرحمان سلمى نيشابورى نے كتاب طبقات الصوفيہ ميں ۱۰۳ معروف صوفيوں كا پہلى بار اپنى كتاب ميں تعارف كروايا نيز انكى كچھ باتوں كو بھى ذكر كيا_ اسى كتاب طبقات الصوفيہ كى مانند ابونعيم اصفہانى نے بھى كتاب حلية الاولياء تاليف كى جو ''طبقات الصوفيہ ''كا تقريباً چربہ تھى(۱)

چھٹى صدى ہجرى كے بعد سے صوفيوں ميں گوناگوں سلسلے تشكيل پائے ہر سلسلے كا نام اس طريقت كے بانى كے نام پر ہوتا مثلا سلسلہ سہرورديہ ، شہاب الدين عمر سہروردى كے ساتھ منسوب ہے اور سلسلہ مولويہ مولانا جلال الدين بلخى كے ساتھ منسوب ہے ان سلسلوں كو مختلف واسطوں كے ساتھ صدر اسلام اور حضرت رسول اكرم(ص) سے ملايا جاتا تھا كہ اس قسم كى نسبت مستحكم دليل و بنياد سے خالى ہوتى ہے(۲)

مجموعى طور پر پانچويں ، چھٹى اور ساتويں صدى ہجرى ميں شيعہ اور سنى ميں اختلاف نظر ، سنى مذاہب بالخصوص حنفيوں اور شافعيوں ميں مذہبى مجادلے ، فقہاء اور فلاسفہ ميں نظرياتى اختلاف اور مختلف جنگيں مثلا منگولوں كے حملے باعث بنے كہ تصوف لوگوں كيلئے بہت زيادہ پر كشش بن جائے، اس دور ميں بزرگ ، صوفى ظاہر ہوئے مثلا ابوالحسن فرقاني، ابوسعيد ابو الخير(۳) بابا طاہر عريان، ابوالقاسم قشيري، حجت الاسلام

____________________

۱)نصر اللہ پور جوادي، ابو منصور اصفہانى كى سير السلف و نصحات الانس كے حوالے سے معلومات ، معارف دورہ ۱۴ ش ۳ _

۲)احمد بن عبداللہ ابونعيم اصفہاني، سابقہ ماخذج ۱۰ ص ۳ _۴۲۰_

۳)فريش ماير، ابوسعيد ابو الخير ، حقيقت و افسانہ، ترجمہ مہر آفاق بايبوردي_

۱۱۲

غزالى(۱) ابونعيم اصفہانى(۲) ، احمد غزالى ، عين القضات ہمدانى(۳) احمد جامى(۴) عبدالقادر گيلاني، سہروردى(۵) ، نجم الدين كبري، فريد الدين عطار نيشابورى(۶) شمس تبريزي، جلال الدين مولوي(۷) اور بالخصوص محى الدين ابن عربي_

پانچويں اور چھٹى صدى ميں تصوف ادب ميں سرايت كرگيا _اكثرشعراء حضرات عرفان اور تصوف كى طرف مائل ہوگئے مثلا مولوى نے عرفانى اشعار كو معراج پر پہنچا ديا_ اس سے بڑھ كر غزالى اور سہروردى كى مانند افراد كے ظاہر ہونے سے تصوف كا فلسفى پہلو بھى ترقى كرگيا_ اس پہلو اور نظريہ كے سربراہ محى الدين ابن عربى ہيں انكے معروف ترين آثار'' فتوحات مكيہ اورفصوص الحكم ہيں انہوں نے تصوف ، عرفان اور حكمت اشراق كو اپنى كتب ميں استدلالى اور برہانى روش كے ساتھ پيش كيا اور وہ اسلام ميں وحدت وجود كے مكتب كے حقيقى بانى بھى ہيں(۸)

چھٹى صدى ہجرى ميں عين القضات ہمدانى (متوفى ۵۲۵ قمري) جو ايك عظيم عارف اورفقيہ تھے ، پيدا ہوئے انہوں نے اپنے اوپر لگائے ہوئے الزامات كے مقابلے ميں اللہ تعالى پراپنے ايمان اورنبوت و آخرت پر ايمان كا مناسب انداز سے دفاع كيا ليكن ان پر كفر اور زندقہ كى تہمت لگاتے ہوئے انہيں تينتيس

____________________

۱)محمد بن محمد غزالي، احياء علوم الدين ، بيروت_

۲)احمد بن عبداللہ ابونعيم اصفہاني، سابقہ ما خذ_

۳)عبداللہ بن محمد عين القضاة ، دفاعيات عين القضاة ہمداني، ترجمہ رسالہ شكورى الغريب ، ترجمہ و حاشيہ قاسم انصاري، تہران_

۴) عبدالرحمان بن احمد جامي،نفحات الانس، محمود عابدى كى كوشش كے ساتھ _تہران_

۵)يحيى بن جبش سہروردى ، مجموعہ مصنفات شيخ اشراق ، كوربن كى كوشش كے ساتھ، تہران ، محمد بن مسعود قطب الدين شيرازى شرح كلمة الاشراق سہروردى عبداللہ نورانى و مہدى محقق كى كوشش كے ساتھ تہران_

۶)محمد بن ابراہيم عطا، تذكرة الاولياء ،محمد استعلامى كى كوشش كے ساتھ ، تہران_

۷)جلال الدين محمد بن محمد مولوى ، مثنوى معنوي، تصحيح و ترجمہ رينو الاولين ينكلسون، تہران_

۸)رينو اور نيكلسون، سابقہ ما خذص ۴ _ ۳۲_

۱۱۳

۳۳ سال كى عمر ميں قتل كرديا گيا يہ واقعہ حسين بن منصور حلاج كے قتل كے بعد اسلامى تصوف كى تاريخ ميں انتہائي جانگداز واقعہ شمار ہوتاہے(۱)

اسى صدى ميں اس قسم كے خشك تعصب كا ايك اور مظاہرہ ايران كے مشہور فلسفى شہاب الدين سہروردى كے قتل كى شكل ميں سامنے آيا وہ ۵۴۹ قمرى ميں سہرورد زنجان ميں پيدا ہوئے اور ۵۸۷ قمرى ميں صلاح الدين ايوبى كے حكم اور حلب شہر كے متعصب لوگوں كے بھڑكانے پر اٹھتيس سال كى عمر ميں قتل ہوئے ساتويں صدى ہجرى ميں سہروردى كا مكتب تشكيل پايا اسى صدى ميں تصوف وجد اور حال كے مرحلہ سے '' قال'' كے مرحلہ تك پہنچا اور علمى فلسفى صورت ميں سامنے آنے لگا(۲)

آٹھويں صدى ميں سہروردى ، ابن عربى اور ابن فارض كا عرفانى مكتب شہرت پانے لگا اور تصوف اور عرفان آپس مخلوط ہوگئے_ عرفانى علوم اور خانقاہوں كى راہ و رسم كو ايك جگہ پڑھايا جانے لگا اسى صدى ميں ايران كے عظيم ترين عارف اور سخن سرا حافظ شيرازى پيدا ہوئے اسى طرح شيخ صفى الدين اردبيلى (۷۳۵ _ ۶۵۰ قمري) ، ابوالوفاء (متوفى ۸۳۵ قمري) زين الدين ابوبكر تايبادى (متوفى ۷۹۱) اور زين الدين ابوبكر محمود خوافى (متوفى ۸۳۸ قمري) كہ جو ايران كے آٹھويں صدى اور نويں صدى كے آغاز ميں بزرگ عرفا ميں شمار ہوتے تھے ظاہر ہوئے يہ سب سہرورديہ طريقت كے پيروكار اور شيخ نور الدين عبدالرحمان قريشى مصرى كے مريد تھے _ اس دور كے اور اسكے كچھ عرصہ بعد كے بڑے عرفاء ميں سے جامع الاسرار كے مصنف سيد حيدر آملي، علاء الدين سمنانى ( ۷۳۶ _۶۵۹ قمري) گلشن راز كے مصنف شيخ محمود شبسترى (متوفى ۷۲۰ قمري) نعمت اللہى سلسلہ كے بانى شاہ نعمت اللہ ماہانى كرمانى المعروف شاہ نعمت اللہ ولى اور مختلف كتب اور عرفانى نظموں كے خالق نور الدين عبدالرحمان جامى (متوفى ۹۱۲ قمري) قابل ذكر ہيں تصوف نے در حققت آٹھويں صدى ہجرى ميں اپنے كمال كے تمام مراحل طے كرليے تھے كيونكہ اس تاريخ كے بعد يہ زوال كاشكار ہوا(۳)

____________________

۱)زين الدين كيائي ناد ، سابقہ ما خذص ۴۲ _۱۳۱_

۲)قمر گيلانى ، فى التصوف الاسلامي، مفہومہ و نظورہ و اعلامہ ، بيروت_

۳)زين الدين كيانى ناد ، سابقہ ما خذص ۲ ، ۲۳۱_

۱۱۴

صفوى دورميں تصوف ايك نئے مرحلہ ميں داخل ہوا گذشتہ قرون ميں صوفى راہنماؤں كى ذمہ دارى يہ تھى كہ اپنے مريدوں كى راہنمائي اور تہذيب نفس كريں اسى ليے وہ دنيا كى كوئي پرواہ نہ كرتے تھے اور حق تك وصل اور كمال انسانى ميں سعادت حاصل كرنے كى كوشش ميں رہتے تھے_ نويں صدى ہجرى ميں صوفى مشايخ ميں سے ايك شيخ يعنى شيخ جنيد جو كہ شاہ اسماعيل كے جد تھے انہوں نے طاقت و قدرت اپنے ہاتھوں ميں لينے كيلئے صوفى گروہ اور اپنے مريدوں كو تيار كيا اور اسى ہدف كے پيش نظر صوفيوں كو كفار سے جہاد كيلئے مجبور كيا اور اپنے آپ كو سلطان جنيد كہلايا اس تاريخ كے بعد صوفى لوگ جنگى لباس ميں آگئے_

شاہ اسماعيل كے ابتدائي زمانہ حكومت ميں اسكے مريد اور پيروكار ايك مدت تك اسے صوفى كہتے رہے پھر صوفى اور قزلباش كا عنوان ايك دوسرے كيلئے لازم و ملزم ہوگيا _ شاہ تہماسب كے زمانہ ميں شيعوں اور قديم صوفى مريدوں كى اولاد كا ايك گروہ ديار بكر اور ايشيا ئے كوچك كے كچھ علاقوں سے ايران ميں داخل ہوا اور صوفى گروہ ميں شامل ہوگئے شاہ تہماسب كى وفات كے وقت قزوين ميں صوفيوں كى تعداد دس ہزار تك پہنچ گئي صوفى لوگ قزلباشوں كے ديگر گروہوں كى نسبت بادشاہ كے زيادہ قريب ہوتے تھے صوفيوں كے ہرگروہ كے سربراہ كو خليفہ كا نام ديا جاتا تھا اور تمام صوفيوں كے سربراہ كوخليفةالخلفاء كہا جاتا تھا(۱)

شاہ عباس نے صوفيوں كو نظرانداز كرديا اوروہ تمام اہم امور جو انكے ہاتھوں ميں تھے ان سے لے ليے_ جو كچھ بھى صفويہ دور ميں صوفيوں كے حوالے سے لكھا گيا وہ فقط شيخ صفى الدين اور انكے جانشينوں كے پيروكاروں كے بارے ميں ہے صفوى حكومت كے وسطى زمانہ سے علماء شريعت كى قوت بڑھنے لگى اور اسى نسبت كے ساتھ صوفى لوگ زوال كا شكار ہونے لگے اور انكى مخالفت بڑھنے لگى يہانتك كہ انكے حوالے سے مرتد كافراور زنديق ہونے كى باتيں ہونے لگيں ، قاجارى دورميں اگر چہ صوفيوں كے كام كچھ زيادہ لوگوں كى توجہ كا مركز قرار نہ پائے ليكن حكومت كے استحكام سے معمولى آسايش حاصل ہونے كے ساتھ ساتھ حملہ اور

____________________

۱)نور الدين مدرسى چہاردہي، سلسلہ ہاى صوفيہ ايران ، تہران_

۱۱۵

اذيت سے محفوظ ہوگئے ليكن خانقاہيں پھر منظم اور پرجوش نہ رہيں (۱)

فتوت، عربى زبان ميں ايسى صفت ہے كہ جو كلمہ '' فتي'' سے مشتق ہوئي ہے اور اس شخص كى صفت ہے كہ جس نے جوانى اور شباب ميں قدم ركھا ہويہ كتاب منتھى الارب ميں جوانمردى اور عوامى كے معنى ميں ذكر ہوئي ہے زمانہ جاہليت ميں يہ كلمہ دو مجازى معانى '' شجاعت اور سخاوت'' ميں استعمال ہوا كلمہ فتوت كے مشتقات قرآن مجيد كى سورتوں كہف،يوسف، نساء اورنور ميں ذكر ہوئے ہيں كہ دو يا تين مقامات سے ہٹ كر باقى تمام جگہوں پر جوانمرد يا جوانمردى كے علاوہ معانى ميں انكى تفسير ذكر ہوئي ہے(۲) جنگ احد ميں پيغمبر اكرم نے حضرت على (ع) كو كفار سے دليرى كے ساتھ جنگ كرنے كى بناپر فتى كا لقب ديا اور فرمايا : لا فتى الا علي_(۳) اموى دور ميں فتوت كے معنى ميں وسعت پيدا ہوئي اور مردانگى اور مروت كے مختلف موضوعات اس كے معنى ميں داخل ہوئے ليكن اسكا اساسى ركن ايثار كہلايا كہ جو صوفيانہ فتوت كى سب سے پہلى خصوصيت تھى _

صدر اسلام ميں زاہدين اور سچے مسلمان جہاد اور راہ اسلام ميں جنگ كى مانند اس چيز كواپنى ذمہ دارى سمجھتے تھے _ اس دور كے بعد صوفى حضرات خانقاہوں ميں بسيرا كرنے لگے اور جہاد اصغر سے جہاد اكبر يعنى نفس سے جنگ كى تعليم ميں مشغول ہوئے اسى ليے فتوت كہ جو شجاعت اور كرامت كے مترادف تھا اخلاق حسنہ اور ايثار كے معنى ميں تبديل ہوگيا اور صاحب فتوت كى تين علامات قرار پائيں : (۱_) ايسى وفا كہ جسميں بد عہدى نہ ہو (۲_) بغير توقع كے تعريف كرنا (۳_) بغير مانگے دينا_(۴)

فتوت كى بھى تصوف كى مانند كوئي جامع تعريف موجود نہيں ہے_(۵)

____________________

۱)زين الدين كيانى ناد، سابقہ ما خذص ۲۳۲_

۲)يوسف ۳۰ ، ۳۶ ، ۶۱، ۶۲ ، كہف ۱۰ ، ۱۳، ۵۹ ، ۶۱ ، نساء ۲۹ ، نور ۳۳ ، نيز رجوع كريں محمد جعفر محجوب '' مقدمہ فتوت نامہ سلطانى ، نوشتہ مولانا حسين واعظ كاشفى سبزوارى ص ۹_۷_

۳)سابقہ ما خذمقدمہ ص ۹ _

۴)سابقہ ما خذص ۱۱ _ ۹_

۵) سابقہ ماخذ، ص ۱۱

۱۱۶

فتوت كے حوالے سے ابن عمار حنبلى بغدادى جو اس موضوع پر قديمى ترين كتاب '' كتاب الفتوة'' كے مصنف ہيں اس ميں لكھتے ہيں كہ سنت ميں فتوت كے حوالے سے احاديث بيان ہوئيں ہيں كہ جن ميں سے بہترين احاديث امام جعفر صادق (ع) سے نقل ہوئيں جو انہوں نے اپنے والد اورجد مبارك سے روايت كى ہيں كہ رسول اكرم(ص) نے فرمايا: كہ ميرى امت كے جوانمردوں كى دس علامات ہيں : سچائي ، تعہد سے وفا، امانت ادا كرنا ، كذب سے پرہيز، يتيم پر سخاوت ، سائل كى مدد كرنا ، جو مال پہنچے اللہ كى راہ ميں دينا، بہت زيادہ احسان كرنا، مہمان بلانا اور ان سب سے بڑھ كر حيا ركھنا(۱)

مختلف كتابوں سے تصوف اور فتوت كے حوالے سے بہت سى تعريفيں ملتى ہيں كہ ان كتابوں ميں سے اہم ترين كتابيں '' الفتوة الصوفية اور طبقات الصوفيہ'' مصنف ابو عبدالرحمان سلمى نيشابورى اور سالہ قشيريہ كہ جسكے مصنف ابوالقاسم قشيرى ہيں _(۲)

مسلم بات يہ ہے كہ ان تمام كتب كے مطالعہ سے يہ استنباط ہوتاہے كہ فتوت شروع ميں تصوف كے مسالك ميں سے ايك مسلك كے طور جانا گيا ، عام طورپر يہ جوانمرد لوگ اپنے ''سراويل يا كسوت'' نامى لباس يا حليے كے حامل تھے جس كا عملى سرچشمہ حضرت على كى سيرت اوركردار كو جانتے تھے(۳)

تيسرى صدى كے بعد فتوت صوفيوں كى مذہبى و دينى كتابوں كے علاوہ فتوت ناموں ، عوامى داستانوں ، اشعار اور فارسى ادب كى صورت ميں شاعروں اور اہل سخن و كلام كى تعريف و ستائشے كا محور قرار پايا(۴)

____________________

۱)ابن عمار حنبلى بغدادي، الفتة ص ۲۳۳_ ۱۳۲ صالح بن جناح ، كتاب الادب و المروة ، ترجمہ و تصحيح سيد محمد دامادى ، پوہشگاہ علوم انسانى و مطالعات فرہنگى تہران ص ۸_

۲)فتوت نامہ سلطنى ، سابقہ ما خذص ۱۲ مقدمہ _

۳)محمد جعفر محجوب ، سابقہ ما خذص ۱۳ _ ۱۲_

۴)فتوت نامہ سلطانى ص ۱۳ تا ۱۵ ، على اكبر دہخدا ، امثال و حكم ج ۲_

۱۱۷

فتوت كے حوالے سے قديمى اور معتبر مصادر ميں سے عنصر المعانى كيكاووس بن اسكندر بن قابوس كى كتاب قابو سنامہ ہے كہ جس كے آخرى باب (چواليسواں باب ) ميں جوانمرد ہونے كيلئے قانون كاذكر ہے _ قابوسنامہ كى تفضيلات سے يہ معلوم ہوتاہے كہ اس زمانہ ميں اور اس سے قبل فتوت معاشرہ كے تمام طبقات ميں عملى اور اخلاقى احكام كى شكل ميں رائج تھا ہر كوئي اپنے كاموں ميں جوانمرد ہو اور فتوت كے قوانين كى پابندى كرتا تھا_

دوسرى صدى سے فتوت كا مكتب عياري(۱) كے ساتھ مخلوط ہوا اور اسكے خاص آداب اور رسوم تشكيل پائيں اسى ليے پہلوان لوگ ، ورزش كرنےوالے ، طاقتور لوگ، سپاہى اورعيار لوگ اپنے آپ كو جوانمرد كہنے لگے اور دوسرى طرف سے پيشہ ور اورسوداگر و تاجر لوگ اپنى جوانمردى كيلئے مخصوص آداب اور رسوم ركھنے لگے صوفى اور خانقاہ نشين لوگ بھى اپنے مكتب ميں جوانمردى كى رسوم و آداب كا خيال ركھنے لگے اور جو اس راہ ميں دوسروں سے بڑھ كر كوشش كرتا وہ فتوت ميں برتر سمجھا جاتا تھا(۲)

بلا شبہ فتوت كى گروہى صورت ميں فعاليت ايران كے علاوہ ديگر تمام اسلامى علاقوں مثلا شام اور مصر و غيرہ ميں بھى موجود تھى _ اس سے بڑھ كر تمام صليبى جنگوں كے دوران بيت المقدس سے شواليہ نام كے سواروں كا گروہ فرانس اور ديگر يورپى ممالك ميں ان مسلمانوں جوانمردوں ، سواروں كى تقليد كرتے ہوئے يورپ ميں داخل ہوئے كہ جو كرد، لر، فارس، ترك اور عرب قوميتوں سے مخلوط تھے_ بعض مورخين كا عقيدہ ہے كہ يورپ ميں اخلاقى بالخصوص فرانس ميں اخلاقى تربيت اور اصلاح شواليوں كے ان ممالك ميں جانے سے ہوئي كہ انہوں نے ان ممالك ميں جوانمردى ، اصيل زادگى ( ذات كے حوالے سے نجيب ) اور شجاعت كے قانون كو رائج كيا(۳)

____________________

۱) عيارى (پہلوانى كى طرح) قديم زمانے ميں ٹريننگ اور رياضت كى بعض انواع ميں سے ايك تھى جو دوسرى صدى ہجرى كے اواخر سے اسلامى معاشرے ميں پائي جاتى ہے_ عيار اپنى زندگى ميں كچھ خاص طريقوں اور اصولوں كے پابند ہوتے تھے_ بعد ميں عيارى تصوف سے مخلوط ہوگئي_(مصحح)

۲)فتوت نامہ سلطانى ، ص ۱۷ ، ۱۸ ، مقدمہ_

۳) ہانرى كربن ، سابقہ ما خذص ۱۱۹_

۱۱۸

ملك الشعرا بہار نے سيستان كى تاريخ پر حاشيہ ميں لكھا عرب لوگ اپنے جنگجو ، زيرك اور ہوشيار اشخاص كہ جو ہنگاموں ،شورشوں يا جنگوں ميں شجاعت اور ذھانت دكھاتے انہيں عيار كا نام ديتے تھے _ بنى عباس كے دور ميں خراسان اور بغداد ميں عيار لوگ تعداد ميں بڑھ گئے تھے_ سيستان اور نيشابور ميں خاصہ (بادشاہوں يا امراء كے اصحاب و مقربين) اور يعقوب ليث صفار اس طايفہ كے سرداروں ميں سے تھے ہر شہر ميں عياروں كے سر براہ ہوتے تھے كہ جنہيں وہ ''سرہنگ ''كہا كرتے تھے اور كبھى تو ايك شہر ميں كئي سرہنگ اور چند ہزار عيار موجود ہوتے تھے(۱)

غزنوى اور سلجوى ادوار ميں عيار لوگ شہرى معاشرے كا ايك مخصوص طبقہ ہوتے تھے كہ يہ لوگ شہروں ميں عام لوگوں كى مانند يا مشرقى مصادر كى اصطلاح ميں ''اوباش'' كى صورت ميں ہوتے تھے يہ لوگ كفار كے ساتھ جہاد كيلئے مسلح گروہ تشكيل ديتے تھے جنہيں عيار كہا جاتا تھا(۲)

عباسى خليفہ '' الناصر لدين اللہ كا جوانمردوں كے گروہ ميں شامل ہونا اور فتوت كى ''سراويل ''پہننا چھٹى صدى ہجرى كے آخرى سالوں ميں ايك بڑا واقعہ تھا كہ جو فتوت كى تاريخ كے بہت بڑے واقعات ميں شمار ہوتا تھا_ چونكہ وہ جوانمردى كے مكتب كا اسلامى معاشرے ميں نفوذسے باخبر ہوچكا تھا اس ليے اس نے اسے عباسى حكومت كے ستونوں كو مستحكم كرنے كے ليے بہت مفيد جانا تا كہ اس كے ذريعے عباسى حكومت كو زوال سے بچالے اور عباسى حكومت كى عہد رفتہ كى شان و شوكت كودوبارہ زندہ كرے(۳) ۶۵۶ قمرى ميں منگولوں كے حاكم ہلاكو خان كے بغداد پر قابض ہونے اور بغداد ميں عباسى حكومت كے ختم ہونے كے ساتھ فتوت كى فعاليت ميں جمود پيدا ہوگيا چند سال كے بعد حكومت مماليك (سفيد فام غلام جو گردونواح كے مختلف علاقوں پر فرمانروائي كرتے تھے) كى حمايت كے ساتھ مصر ميں برائے نام عباسى خلافت ظاہر ہوئي كہ جن كے ساتھ

____________________

۱)تاريخ سيستان ص ۶_ ۱۷۵_

۲)مجلہ دانشكدہ ادبيات تہران ، س ۴ ، ش ۲ دى ۱۳۲۵ ص ۸۲_

۳)كاظم كاظمينى ، عياران ص ۱۴_ ۱۳ ، حائرى كوربن ، آئين جوانمردى ص ۱۸۰ ، ۱۷۵_

۱۱۹

فتوت بھى ظاہر ہوئے اور انكا مكتب مصر اور شام ميں رائج ہونے لگا اور يہ رواج بعد كے ادوار ميں بھى جارى رہا ليكن عراق ميں عباسى حكومت كے خاتمہ سے يہ مكتب زوال پذير ہوگيا اگر چہ اسكى جڑيں باقى رہيں(۱)

ناصر نے فتوت ناصرى كے طريقہ كو سلجوقيان كى رومى مملكت ميں رواج ديا _ عثمانيوں نے بھى طاقت اور حكومت تك پہنچے كيلئے ''اَخي'' اور اناطولى كے اہل فتوت كو پل كے طور پر استعمال كيا_

اہل فتوت كے ''اخيوں ''كا شيخ صفى الدين اردبيلى كے گرد موجود ہونا اور شاہ اسماعيل صفوى كا اپنے تركى اشعار كے ديوان ميں اپنے مددگاروں اور تابعين كيلئے عنوان ''اخى ''كا استعمال فتيان، قزلباشوں اور شيعوں كے درميان رابطے سے بڑھ كر ان لوگوں كے حكومتى انتظامى امور ميں ناقابل انكار سياسى اور معاشرتى كردار كو ظاہر كرتاہے _ خصوصاً يہ كہ وہ كسوت (صوفيا كا خاص لباس ) پوش اور پاكيزہ صوفيوں يعنى شاہ كے فدائيوں ميں سے شمار ہوتے تھے(۲)

ايرانى خاندانوں كے ايران پر حكومت كے دوران عيار لوگ كشتى كرنے والے پہلوانوں كے بھيس ميں سلاطين كے دربار ميں موجود ہوتے تھے يافوج ميں جنگجو كى صورت ميں اپنے وطن كى خدمت ميں مشغول تھے_ اور جب غير ايران پر قابض ہوئے تو يہ عيارى شكل و شمائل ميں انكے ساتھ جہاد كرتے جيسا كہ منگولوں كے تسلط كے آخرى دور ميں عياروں كى جماعت نے عبد الرزاق بن خواجہ شہاب الدين بيہقى كى سربراہى ميں قيام كيا اور سربداران كى تحريك كو وجودميں لائے_ يہ لوگ اپنے آپ كو شيعوں اور حضرت على (ع) كے جانثاروں ميں شمار كرتے تھے اور فتيان كے مكتب پر عياروں كى ماند عمل پيرا ہوكر لڑتے تھے_

مشہور ہے كہ چنگيز خان نے كسى كو سلسلہ كبرويہ كے چھٹى اور ساتويں صدى كے مشہور عارف اور بزرگ صوفى شيخ نجم الدين كبرى كے پاس (اس پيغام كے ساتھ) بھيجا كہ : '' ميں نے حكم دياہے كہ خوارزم ميں قتل

____________________

۱)جواد مصطفي، مقدمة الفتوة ، تاليف ، ابن عمار حنفى بغدادي، ہانرى كوربن، سابقہ ما خذص ۱۸۳_

۲)عباس اقبال آشتياني،فتوت و خلافت عباسي، محلہ شرق، دورہ يكم ، ش خرداد ۱۳۱۰ ص ۱۰۵ ،۱۰۱_

۳)صالح بن جناح، كتاب الاب والمروة ص ۹ _ ۷۹_

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

خدا وند عالم کی گواھی:

اس آیہء شریفہ میں پیغمبر خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے پہلے گواہ کے طور پر خدا وندمتعال کا ذکرہوا ہے۔ خدا وند متعال کی اس گواہی کے دوفرض ہیں:

۱ ۔ممکن ہے یہ گواہی قولی ہو اور گفتگو و کلام کے مقولہ سے ہو اس صورت میں وہی آیتیں جو آنحضرت کی رسالت کو بیان کرتی ہیں خداوندمتعال کی اس گواہی کی مصداق ہوں گی، جیسے :( والقران الحکیم انّک لمن المرسلین ) (۱) ” قرآن حکیم کی قسم آپ مرسلین میں سے ہیں“

۲ ۔ ممکن ہے یہ گواہی فعلی ہو اور خدا وندمتعال نے اسے معجزہ کی صورت میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذر یعہ ظاہر کیا ہو، یہ معجزے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے سلسلہ میں دعویٰ کے لئے ایک قوی سند ، واضح دلیل اور گو یا گواہ ہیں، خاص کر قرآن مجید ، جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاایک لافانی معجزہ ہے اورہر زمانہ میں باقی رہنے والا ہے اوران معجزات کی حیثیت ایک طرح سے خداوندمتعال کے فعل کی سی ہے جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت پر گواہ ہیں۔

من عندہ علم الکتاب - سے مرادکون ہے؟

دوسرے محورمیں بحث اس جہت سے ہوگی کہ ” کتاب“ سے مراد کیا ہے؟ اور جس کے پاس ” کتاب کا علم“ ہے ، وہ کون ہے؟ اس سلسلہ میں چند احتمالات پائے جاتے ہیں کہ ہم ان پر بحث کریں گے:

پہلا احتمال :” کتاب“سے مرادقرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابیں ہیں اور کتاب کے عالم سے مرادعلمائے یہودو نصاریٰ ہیں:

اس صورت میں اس آیہ شریفہ کے معنی یوں ہوں گے: ” کہدےجئے اے پیغمبر! ہمارے

_____________________

۱-۔ سورہ یاسین/۱۔۲

۲۴۱

اورتمھارے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے کافی ہے خدا وندمتعال اور وہ لوگ جن کے پاس گزشتہ آسمانی کتابوں کا علم ہے جیسے علمائے یہودونصاری چونکہ ان کتابوں میں پیغمبر)صلی الله علیہ وآلہ وسلم) کا نام آیا ہے اور آنحضرت کی رسالت بیان ہوئی ہے ۔ اسی لئے علمائے یہودو نصاری اس مطلب سے آگاہی رکھتے ہیں اور اس پر گواہ ہیں۔

یہ احتمال صحیح نہیں ہے، کیونکہ اگر چہ علمائے یہودونصاری اپنی آسمانی کتابوں کے عالم تھے ، لیکن وہ کافر تھے اور ہر گز اپنے خلاف گواہی دینے کے لئے حاضر نہیں تھے۔

دوسرا احتمال : ” کتاب “سے مراد وہی قرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابیں ہیں اور ان کے عالم سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا شمار پہلے علمائے یہودونصاری ٰ میں ہوا کر تا تھالیکن بعد میں اسلام قبول کرکے وہ مسلمان ہوگئے تھے، جیسے : سلمان فارسی ، عبدالله بن سلام اور تمیم الداری۔ یہ لوگ ایک جہت سے توریت اور انجیل جیسی گزشتہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتے تھے اور ایک جہت سے آمادہ تھے تاکہ اسلام کی حقانیت اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے بارے میں جو کچھ انہیں معلوم ہے اس کی گواہی دیں۔

یہ احتمال بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ سورہ رعد اور من جملہ زیر بحث آیہء شریفہ جو اس سورہ کی آخری آیت ہے ، مکہ میں نازل ہوئی ہے اور مذکورہ افراد مدینہ میں مسلمان ہوئے ہیں۔ اس لئے اس کاکوئی مفہوم نہیں ہے جو ابھی کافر ہیں اور مسلمان نہیں ہوئے ہیں اپنے دین کے خلاف گواہی دینے کے لئے مدعو ہوجائیں۔

شبعی اور سعید بن جبیر سے نقل ہوئی روآیت کے مطابق انہوں نے بھی مذکورہ احتمال یعنی ” من عندہ علم الکتاب“ سے عبدالله بن سلام کو مراد لینا اس کو مسترد کر دیا ہے ۔ اس کی دلیل یہ پیش کی ہے کہ یہ سورہ مکی ہے اور عبداللهبن سلام مدینہ میں مسلمان ہوا ہے۔(۱)

تیسرا احتمال: ”من عنده علم الکتاب “ سے مقصود خداوندمتعال اور

____________________

۱۔ معالم التنزیل ، ج ۳-، ص ۴۶۴، ۴۶۵-۔ الاتقان ، ج ۱، ص ۳۶، دار ابن کثیر بیروت

۲۴۲

”کتاب“سے مرادلوح محفوظ ہے اور ”من عند ه علم الکتاب “ کا ” الله“ پر عطف ہونا صفت کا اسم ذات پر عطف ہونے کے باب سے ہے۔ اس صورت میں معنی یوں ہوتا ہے: خداوندمتعال اور وہ شخص جو لوح محفوظ )جس میں تمام کائنات کے حقائق ثبت ہیں ) کا علم رکھتا ہے، وہ تمہاری رسالت پر گواہ ہے۔

اول یہ کہ : جملہء( قل کفی باالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب ) میں بظاہر عطف یہ ہے کہ ” من عندہ علم الکتاب“ خدا وندمتعال کے علاوہ ہے کہ جس کا ذکر ابتداء میں پہلے گواہ کے طور پرآیا ہے۔

دوسرے یہ کہ: عربی ادبیات میں صفت کا عطف ، صفت پر موصوف کے سلسلہ میں مشہور اور رائج ہے۔ قرآن مجید میں بھی اس قسم کا استعمال پایاجاتا ہے، جیسے :آیہء شریفہ :( تنزیل الکتاب من اللهالعزيز العلیم غافر الذّنب وقابل التوب ) (۱) میں ”غافرالذّ نب “)گناہ کو بخشنے والا) اور ”قابل التوب “ )توبہ کو قبول کرنے والا) دوصفتیں ہیں جو حرف عطف کے فاصلہ سے ایک دوسرے کے بعدہیں اور خدا وندمتعال کے لئے بیان ہوئی ہیں۔ لیکن جن مواقع پر پہلے اسم ذات ذکر ہوا ہے، کبھی بھی مشہور اور رائج استعمالات میں صفت اس پر عطف نہیں ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ : آیہ کریمہ میں ” من عندہ علم الکتاب“ سے مرادخدا وندمتعال ہے۔

چوتھا احتمال: کتاب سے مراد ” لوح محفوظ“ ہے اور ” جس کے پاس کتاب کا علم ہے اس سے مراد امیرلمومنین علی علیہ السلام ہیں۔

اب ہم اس احتمال پر بحث و تحقیق کرتے ہیں۔

____________________

۱۔ سورہ غافر/۲

۲۴۳

لوح محفوظ اور حقائق ھستی

قرآن مجید کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کے تمام حقائق ایک مجموعہ کی شکل میں موجود ہیں کہ قرآن مجید نے اسے ” کتاب مبین“(۱) یا ” امام مبین“(۲) یا ” لوح محفوظ“(۳) کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ من جملہ سورہ نمل میں فرماتا ہے:( وما من غائبة فی السّماء والارض إلّا فی کتاب مبین ) (۴) یعنی: اور آسمان و زمین میں کوئی پوشیدہ چیزایسی نہیں ہے جس کا ذکر کتاب مبین ) لوح محفوظ ) میں نہ ہو۔

اس بنا پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لوح محفوظ میں درج شدہ حقائق سے آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے؟ اور اگر یہ ممکن ہے تو کون لوگ ان حقائق سے با خبر اور آگاہ ہیں اور کس حد تک؟

مطھّرون اور لوح محفوظ سے آگاہی

اس سلسلہ میں ہم سورہ واقعہ کی چند آیتوں پر غوروخوض کرتے ہیں:

( فلا اٴُ قسم بمواقع النجوموإنّه لقسم لوتعلمون عظیم إنّه لقرآن کریمفی کتاب مکنون لایمسّه إلّا المطهّرون ) ) سورہ واقعہ/ ۷۵ ۔-- ۷۹)

ان آیات میں ، پہلے ستاروں کے محل و مدارکی قسم کھائی گئی ہے۔ اس کے بعد اس قسم کی عظمت و اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور اس کی نشاندھی کی گئی ہے۔ اس نکتہ پرتو جہ کرنا ضروری ہے کہ قسم کا معیار اور اس کی حیثیت اس حقیقت کے مطابق ہونا چا ہئیے کہ جس کے متعلق یا جس کے

____________________

۱-۔ سورہ یونس/۶۱، سورہ سبا/۱۳، سورہ نمل/۷۵

۲۔ سورہ یسین/۱۲

۳۔ سورہ بروج/ ۲۲

۴۔ سورہ نمل/۷۵

۲۴۴

اثبات کے لئے قسم کھائی جارہی ہے ۔ اگر قسم با عظمت اور بااہمیت ہے تو یہ اس حقیقت کی اہمیت کی دلیل ہے کہ جس کے لئے قسم کھائی گئی ہے۔

جس حقیقت کے لئے یہ عظیم قسم کھائی گئی ہے، وہ یہ ہے: - إنّہ لقرآن کریم فی کتاب مکنون لایمسّہ الّا المطھرون یعنی بیشک یہ بہت ہی با عظمت قرآن ہے جسے ایک پو شیدہ کتاب میں رکھاگیا ہے اسے پاک و پاکیزہ افراد کے علاوہ کوئی چھو بھی نہیں سکتا ہے۔ ) اس کے ساتھ رابطہ نہیں کرسکتا ہے۔)آیہ شریفہ کا یہ جملہ لا یمسّہ الّاالمطھرون بہت زیادہ قابل غور ہے۔

ابتدائی نظر میں کہاجاتا ہے کہ بے طہارت لوگوں کا قرآن مجید سے مس کرنا اور اس کے خط پر ہاتھ لگانا حرام ہے، لیکن اس آیہ شریفہ پر عمیق غور وفکر کرنے سے یہ اہم نکتہ و اضح ہو جاتا ہے کہ مس سے مراد مس ظا ہری نہیں ہے اور ” مطھرون“ سے مراد باطہارت )مثلاً باوضو) افراد نہیں ہیں ۔ بلکہ مس سے مراد مس معنوی )رابطہ) اور”مطھرون “ سے مرادوہ افراد ہیں جنہیں خدا وندمتعال نے خاص پاکیزہ گی عنآیت کی ہے، اور ”لایمسہ“ کی ضمیر کتاب مکنون )لوح محفوظ) کی طرف پلٹتی ہے ۔

آیہ کریمہ سے یہ معنی )مس معنوی) استفادہ کرنے کے لئے چند نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:

۱ ۔ جملہء ”لا یمسہ “ کا ظہور اخبار ہے نہ انشاء ، کیونکہ بظا ہر یہ جملہ دوسرے اوصاف کے مانند کہ جو اس سے قبل ذکر ہوئے ہیں، صفت ہے اور انشاء صفت نہیں بن سکتا ہے، جبکہ آیت میں غیر مطہرون کے مس سے حکم تحریم )حرمت) کا استفادہ اس بنا پر کیا جاتا ہے کہ جملہ ”لا یمسہ “ انشاء ہو ، نہ اخبار۔

۲ ۔ ” لایمسہ“ کی ضمیر بلا فاصلہ ” کتاب مکنوں“ کی طرف پلٹتی ہے ، کہ جو اس جملہ سے پہلے واقع ہے نہ قرآن کی طرف کہ جواس سے پہلے مذکور ہے اور چند کلمات نے ان کے درمیان فاصلہ ڈال دیا ہے۔

۲۴۵

۳ ۔ قرآن مجید کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ ایک پوشیدہ اور محفوظ کتاب میں واقع ہے کہ جس تک عام انسانوں کی رسائی نہیں ہے اور یہ مطلب اس کے ساتھ مس کرنے سے کوئی تناسب نہیں رکھتا ہے۔

۴ ۔ طہارت شرعی ، یعنی وضو )جہاں پر وضو واجب ہو) یا غسل یا تیمم )جہاں پر ان کا انجام دینا ضروری وفرض)رکھنے والے کو ” متطھرّ“ کہتے ہیں نہ ”مطھّر“۔

اس تشریح سے واضح ہوجاتا ہے کہ جو کچھ جملہ ء ”( لا یمسه الّا المطهرون ) “ سے استفادہ ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ ” مطھر“ ) پاک قرار دئے گئے)افراد کے علاوہ کوئی بھی ”کتاب مکنون“ )لوح محفوظ) کو مس نہیں کرسکتا ہے، یعنی اس کے حقائق سے آگاہ نہیں ہوسکتا ہے۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس خصوصی طہارت کے حامل افراد کون لوگ ہیں اور ”مطھرون“ سے مرادکون لوگ ہیں کہ جو ” لوح محفوظ“ سے اطلاع حاصل کرتے ہیں؟

” مطھرون “سے مرادکون ہیں؟

کیا ” مطھرون“کی اصطلاح فر شتوں سے مخصوص ہے جیسا کہ بعض مفسرین نے اشارہ کیا ہے ۔(۱) یایہ کہ اس میں عمومیت ہے یعنی وہ افراد جو خدا کی جانب سے خصوصی طہارت کے حامل ہیں وہ بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر بحث کرنے کی ضرورت ہے:

حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت ، اور خدا کی جانب سے انھیں جانشین مقرر کیا جا نا نیز

____________________

۱۔جیسے ” روح المعانی“ ج ۲۷،۱۵۴،دار احیاء التراث العربی، بیروت

۲۴۶

”اسماء“الہی کا علم رکھنا یعنی ایک ایسی حقیقت سے آگاہی کہ جس کے بارے میں ملا ئکہ نے بھی لا علمی کا اظہار کیا۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام کے لئے ملائکہ کو سجدے کا حکم دیناو غیرہ ان واقعات اور قرآنی آیات ۱ کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کہ خاص علوم سے آگاہی اور تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت انسان کامل میں ملائکہ سے کہیں زیادہ ہے۔

مذکورہ ان صفات کے پیش نظر کوئی دلیل نہیں ہے کہ جملہ لا یمسہ الّا المطھرون کو فرشتوں سے مخصوص کیا جائے جبکہ قرآن مجید کے مطابق خدا کے ایسے منتخب بندے موجود ہیں جو خاص طہارت و پاکیزگی کے مالک ہیں۔

آیہ تطہیر اور پیغمبر کا محترم خاندان

( إنّمایریدالله ليذهب عنکم الرجس اٴهل البیت و یطهر کم تطهیرا )

) سورہ احزاب/ ۳۳)

” بس الله کا ارادہ ہے اے اہل بیت : کہ تم سے ہرطرح کی برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے“

یہ آیہ شریفہ دلالت کرتی ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاندان خدا وندمتعال کی طرف سے ایک خاص اور اعلی قسم کی پاکیزگی کا مالک ہے۔ آیہ کریمہ میں ” تطھیرا“ کا لفظ مفعول مطلق نوعی ہے جو ایک خاص قسم کی طہارت و پاکیزگی کو بیان کرتا ہے۔

ہم یہاں پر اس آیہ شریفہ سے متعلق مفصل بحث کرنا نہیں چاہتے، اس لئے کہ آیت تطہیر سے مربوط باب میں اس پر مکمل بحث گزر چکی ہے، اور اس کا نتےجہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)کے اہل بیت کہ جن میں سب سے نمایاں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ہیں، اس آیہ شریفہ کے مطابق خداکی طرف سے خاص طہارت و پاکیزگی کے مالک ہیں اور

____________________

۱۔ سورہ بقرہ/۳۴۔۳۰

۲۴۷

”مطھرون“ میں شمار ہوتے ہیں ۔ وہ لوح محفوظ کے حقائق سے آگاہی رکھ سکتے ہیں۔

”آصف بر خیا“ اور کتاب کے کچھ حصہ کا علم

ہم جانتے ہیں کہ خدا وندمتعال نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ایک ایسی وسیع سلطنت عطا کی تھی کہ انسانوں کے علاوہ جناّت اور پرندے بھی ان کے تابع تھے ۔ ایک دن جب جن وانس ان کے گرد جمع تھے حضرت سلیمان نے ان سے کہا: تم میں سے کون ہے جو بلقیس کے مسلمان ہونے سے پہلے اس کے تخت کو میرے پاس حاضر کردے؟جنّات میں سے ایک عفریت نے سلیمان نبی سے کہا:قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھے ہیں تخت کو آپ کے پاس حاضر کردوں گا۔ قرآن مجید فرماتا ہے(۱) ” کتاب کے کچھ حصہ کا علم رکھنے والے ایک شخص نے کہا: میں اتنی جلدی تخت بلقیس کو آپ کے پاس حاضر کردوں گا کہ آپ کی پلک بھی جھپکنے نہیں پائے گی اور اسی طرح اس نے حاضر کیا ۔

جیسا کہ مفسرین نے بیان کیا ہے کہ یہ کتاب ” لوح محفوظ “ہے اور ش یعہ و سنی احادیث کے مطابق مذکورہ شخص حضرت سلیمان کا وزیر ” آصف بر خیا“ تھا ۔ قرآن مجید سے استفادہ ہوتا ہے آصف کی یہ غیر معمولی اور حیرت انگیز طاقت وصلاحیت کتاب )لوح محفوظ) کے کچھ حصہ کا علم جاننے کے سبب تھی۔

واضح رہے کہ طہارت و پاکیزگی کے چند مراحل ہیں۔ جس قدر طہارت کامل تر ہوگی اسی اعتبار سے علم وقدرت میں بھی اضا فہ ہو گا۔

جب ہمیں آیہ کریمہ( لا یمسّه إلا المطهرون ) سے یہ معلوم ہوگیا کہ لوح محفوظ کے حقایق کا علم خدا کی خاص طہارت کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے اور آیہ تطہیر نے اس خاص طہارت اور پاکیزگی کو اہل بیت علیہم السلام کے لئے ثابت کیا ہے، وہ بھی ایک ایسی تطہیر جو

____________________

۱۔سورہ نمل/۴۰

۲۔کچھ اردو قوال بھی ہیں کہ تفاسیر کی طرف رجوع کرنا چاہئے

۲۴۸

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تطہیر کے ہم پلہ ہے۔لہذا ان صفات کے پیش نظربعید نہیں ہے کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصومین) علیہم السلام) لوح محفوظ کے تمام حقائق کا علم رکھتے ہوں اس لئے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ ثعلبی کہ جو اھل سنت(۱) کے نزدیک تفسیر کے استاد نیزحافظ اور امام کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں اور اہل سنت کے ائمہ رجال(۲) کے مطابق جن کی روایتیں صحیح اورقابل اعتماد جانی جاتیں ہیں ، تفسیر”الکشف و البیان“(۳) میں اور حاکم حسکانی(۴) تفسیر شواہد التنزیل(۵) میں ، ابوسعید خدری، عبداللہ بن سلام اور ابن عباس جیسے چند اصحاب سے روایت کرتے ہیں کہ ”من عندہ علم الکتاب“سے مراد امیر المومنین علی، علیہ السلام ہیں۔

بلکہ ابو سعیدخدریاور عبداللهبن سلام سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا کہ ” من عندہ علم الکتاب“سے مراد کون ہے؟ جواب میں پیغمبر (ص)نے علی علیہ السلام کو” من عندہ الکتاب“کے مصداق کے طور پر پیش کیا۔ اسی مطلب کو )من عندہ علم الکتاب،سے مرادعلی علیہ السلام ہیں)سعید بن جبیر ،ابی صالح نیزمحمد بن حنفیہ سے بھی نقل کیا گیا ہے۔

اسی طرح کئی طریقوں سے نقل کیا گیا ہے کہ عبدالله بن عطاء کہ جو امام باقر علیہ السلام کے ہمراہ تھے، جب انھوں نے عبدالله بن سلام کے بیٹے کو دیکھا تو امام باقر علیہ السلام سے سوال کیا: کیا یہ )عبداللهبن سلام کا بیٹا) اس شخص کا بیٹا ہے جس کے پاس کتاب کا علم تھا؟ حضرت نے فرمایا: نہیں،”من عندہ علم الکتاب“سے مراد )عبداللهبن سلام نہیں ہے، بلکہ) امیر

____________________

۱۔اہل سنت کے علم رجال کے جلیل القدرامام ذہبی نے ” سیر اعلام النبلاء“ ج۱۷، ص۴۳۵ میں ثعلبی کے بارے میں کہا ہے : ” الامام الحافظ العلامة شیخ التفسیر“، ۲۔ عبدالغافر نیشابوری کتاب” تاریخ نیشاپوری“ ص۱۰۹ میں اس کے بارے میں کہتا ہے: الثقة الحافظو ہو صحیح النقل موثوق بہ، ۳۔ الکشف وا لبیان، ج۵، ص ۳۰۳۔۳۰۲، داراحیا التراث العربی، بیروت، ۴۔ذہبی کی عبادت کو ہم نے آیہ صادقین کی تفسیر میں اس کے متقن، محکم اسناد کے عالی ہونے کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو ۵۔” شواہد التنزیل“ با تحقیق شیخ محمد باقر محمود، ج۱، ص۴۰۰

۲۴۹

المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام ہیں۔

اس کے علاوہ ابن شہر آشوب(۱) نے اپنی ”کتاب مناقب(۲) “ میں کہا ہے:

” محمدبن مسلم، ابوحمزہ ثمالی اور جابربن یزید نے امام باقر(علیہ السلام) سے اسی طرح علی بن فضل،فضیل بن یسار اور ابو بصیر نے امام صادق(علیہ السلام) سے نیز احمد بن محمدحلبی اور محمد بن فضیل نے امام رضا(علیہ السلام) سے روایت نقل کی ہے اور اس کے علاوہ موسی بن جعفر(علیہ السلام)، زیدبن علی، محمد بن حنفیہ، سلمان فارسی، ابوسعید خدری اور اسماعیل سدی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں خداوند متعال کے قول:( کل کفی بالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب ) کے بارے میں کہا ہے کہ:”من عندہ علم الکتاب“سے مراد علی بن ابیطالب (علیہ السلام) ہیں۔“

شیعہ احادیث میں مختلف طریقوں سے آیا ہے کہ ” من عندہ علم الکتاب“سے مراد امیرالمومنین علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصو مین علیہم السلام ہیں۔ نمونہ کے طور پر مندرجہ ذیل حدیث پر غور فرماہئے: ثقة الاسلام کلینی نے اصول کافی(۳) میں معتبر سند سے بریدبن معاویہ سے کہ جو امام باقر علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے روایت کی ہے انھوں نے حضرت سے عرض کی:”آیہ کریمہ( قل کفی بالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب ) میں ”من عندہ علم الکتاب“ سے مراد کون ہے؟حضرت نے فرمایا:اس سے صرف ہم اھل بیت معصومین(ع) کا قصد کیا گیا ہے اور علی ) علیہ السلام) پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدسب سے مقدم اورہم میں افضل ترین فرد ہیں۔

____________________

۱۔ ہم نے آیہ صادقین کی تفسیر میں اس )شہر آشوب) کی صداقت کے بارے میں ابن ابی طما کی زبانی زہبی کی ستائش بیان کی ہے۔

۲۔ مناقب، ابن شہر آشوب، ج۲، ص۲۹، موسسہ انتشارات علامہ قم،

۳۔ اصول کافی، ج۱،ص۱۷۹

۲۵۰

احادیث میں جس کے پاس کتاب کا علم ہے)علی بن ابیطالب علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصومین) اور جس کے پاس کتاب کا کچھ علم موجود ہے)آصف برخیا) کے در میان دلچسپ موازنہ کیا گیا ہے:

عن اٴبی عبد الله قال: ” الذي عنده علم الکتاب“ هو امیرالمؤمنین - علیه السلام - و سئل عن الذي عنده علم من الکتاب اٴعلم اٴم الذي عنده علم الکتاب؟ فقال: ما کان علم الّذي عنده علم من الکتاب عند الذي عنده علم الکتاب إلّا بقدر ما تاٴخذ البعوضة بجناحها من مائ البحر(۱)

یعنی: امام صادق) علیہ السلام) نے فرمایا:

”جس کے پاس کتاب کا علم تھا علی بن ابیطالب(علیہ السلام) تھے۔ سوال کیا گیا: کیا وہ شخص جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا یعنی آصف برخیازیادہ عالم تھا یا وہ جس کے پاس مطلق کتاب کا علم تھا)یعنی حضرت علی علیہ السلام)امام نے فرمایا:جس کے پاس کتاب کا تھوڑا ساعلم تھا،اس کاموازنہ اس شخص سے کہ جس کے پاس مطلق کتاب کا علم تھا ایسا ہے جیسے مچھرکے بھیگے ہوئے پر کا موازنہ سمندرسے کیاجائے۔“

یہ بحث وگفتگواس بناپرتھی کہ جب”من عندہ علم الکتاب“میں ”کتاب“سے مرادلوح محفو ظ ہو۔لیکن اگر”الکتاب“سے مرادجنس کتاب ہو،اس بنا پرکہ” الف ولام“جنس کے لئے ہے اور کوئی خاص چیز مد نظرنہ ہوتوہرکتاب اس میں شامل ہو سکتی ہے حتی لوح محفوظ بھی اس کے مصادیق میں سے ایک ہوگا،اس میں گزشتہ آسمانی کتابیں اور قرآن مجید سبھی شامل ہیں۔

____________________

۱۔ نورالثقلیب،ج۴،ص۸۸۔۸۷

۲۵۱

اس صورت میں بھی”من عندہ علم الکتاب“سے مرادحضرت علی علیہ السلام ہی ہوں گے کیونکہ حضرت کالوح محفوظ کے حقائق سے آگاہ ہونا آیہ کریمہ”( لایمسه الّا المطهرون ) “کوآیہ تطہیرکے ساتھ ضمیمہ کرنے سے معلوم ہوجا تا ہے،اورحضرت کاقرآن مجید کے تمام ابعاد سے واقف ہو نابہت سی دلیلوں من جملہ حدیث ثقلین(۱) کے ذریعہ ثابت ہے۔

اس لئے اس حدیث شریف میں آیا ہے کہ پیغمبراکرم )صلی الله علیہ و آلہ وسلم )کے اہل بیت )علیہم السلام)ہرگزقرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے اور یہ حضرت علی علیہ السلام کے قرآن مجید کے تمام علوم سے آگاہی رکھنے کی دلیل ہے۔ کیونکہ اگرحضرت قرآن مجید کے کسی پہلوکو نہیں جانتے ہیں تو گو یاوہ اس اعتبار سے قرآن مجید سے اتنا دور ہو گئے ہیں اور یہ حدیث میں بیان کئے گئے مطلب کے خلاف ہے۔

آسمانی کتا بوں کے متعلق حضرت علی علیہ السلام کے علم کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت کی احا دیث کی کتا بوں میں ایا ہے، من جملہ مندرجہ ذیل حدیث سے جوخود حضرت سے نقل کی گئی ہے:

لو ثنّیت لي الوسادة لحکمت بین اٴهل التوراة بتوراتهم، و بین اٴهل الإنجیل بإنجیلهم، و بین اٴهل الزبور بزبورهم(۲)

”اگر میرے لئے مسند قضا بچھادی جائے تو میں اہل توریت کے لئے توریت سے، اہل انجیل کے لئے انجیل سے اور اہل زبو ر کے لئے زبور سے فیصلہ کروں گا۔“

____________________

۱۔ سنن الترمذی،ج۵ص۶۲۲ مسنداحمد،ج۳،ص۱۴،۱۷،۲۶،۹۵وج۵،ص۱۸۹۔۱۸۸خصائص امیرالمؤمنین علی نسائی ص ۸۵۔۸۴

۲۔فرائد السمطن،ج۱،ص۳۴۱۔۹۳۳۔شواہد التنزیل ج۱،ص۳۶۶،ح۳۸۴

۲۵۲

منابع کی فہرست

(الف)

۱ ۔القرآن الکریم

۲ ۔ الاتقان،سیوطی، ۹۱۱ ئھ-،دار ابن کثیر، بیروت، لبنان

۳ ۔ احقاق الحق، قاضی سید نورالله تستری، شہادت ۱۰۱۹ ئہ-

۴ ۔ احکام القرآن، جصاص،ت ۷۳۰ ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت

۵ ۔ احکام القرآن، ابوبکر ابن العربی المعافري، ت ۵۴۶ ئہ-

۶ ۔ اربعین، محمد بن ابی الفوارس، مخطوط کتابخانہ آستان قدس، رقم ۸۴۴۳

۷ ۔ ارجح المطالب، عبدالله الحنفي، ت ۱۳۸۱ ئہ-، طبع لاہور )بہ نقل احقاق الحق)

۸ ۔ ارشاد العقل السلیم، ابو السعود، ت ۹۵۱ ء، داراحیاء التراث العربی،بیروت، لبنان

۹ ۔ اسباب النزول،و احدی النیسابوری، ت ۴۶۸ ئہ-، دارالکتاب العلمیة، بیروت، لبنان

۱۰ ۔ اسد الغابة فی معرفة الصحابة، ابن اثیر،ت ۶۳۰ ئہ- داراحیائ التراث العر بی،بیروت،لبنان

۱۱ ۔ الإصابة فی تمییز الصحابة، احمد بن علی، ابن حجر عسقلانی،ت ۸۵۲ ئہ-، دارالفکر

۱۲ ۔ اضوائ البیان،شنقیطی،ت ۳۹۳ ئہ-، عالم الکتب، بیروت

۱۳ ۔اعیان الشیعة، سیدمحسن الامین، ت حدود ۱۳۷۲ ئہ-،دارالتعارف للمطبوعات، بیروت

۱۴ ۔ الامامة و السیاسة، ابن قتیبة دینوری، ت ۲۷۶ ء ہ-، منشورات الشریف الرضی،قم

۱۵ ۔انساب الاشراف،احمد بن یحیی بلاذری،ت ۲۷۹ ئہ-،دارالفکر

۱۶ ۔ایضاح المکنون، اسماعیل باشا،ت ۴۶۳ ئہ-، دارالفکر

۲۵۳

(ب)

۱۷ ۔ بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ت ۱۱۱۱ ئہ- مؤسسة الوفاء، بیروت

۱۸ ۔ بحر العلوم، نصر بن محمد سمرقندی، ت ۳۷۵ ئہ-، دارالکتب العلمیة،بیروت

۱۹ ۔ البحر المحیط، ابوحیان اندلسی، ت ۷۵۴ ء،المکتبة التجاریة

احمد الباز، مکة المکرمة

۲۰ ۔ البدایة و النہایة، ابن کثیر الدمشقی،ت ۷۷۴ ئہ-،دارالکتب العلمیة، بیروت

۲۱ ۔ البرہان، سید ہاشم بحرانی، ت ۱۱۰۷ ئہ-، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان

۲۲ ۔ البہجة المرضیة، سیوطی، ت ۹۱۱ ئہ-، مکتب المفید)ت)

۲۳ ۔ التاج الجامع للاصول، منصور علی ناصف، ت ۱۳۷۱ ئہ-، دار احیائ التراث العربی، بیروت

۲۴ ۔ تاج الفردوس، محمد مرتضی حسینی زبیدی، ت ۱۲۵۰ ء ہ-، دار الہدایة للطباعة والنشر و التوزیع، دارمکتبة الحیاة، بیروت

۲۵ ۔ تاریخ الاسلام، شمس الدین ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، دارالکتاب العربی

۲۶ ۔ تاریخ بغداد، احمد بن علی خطیب بغدادی، ت ۴۶۳ ء ہ-، دارالفکر

۲۷ ۔ تاریخ طبری، محمد بن جریر طبری،ت ۳۱۰ ئہ-، مؤسسة عزالدین للطباعة والنشر، بیروت، لبنان

۲۸ ۔ تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ت ۵۷۱ ئہ-، دارالفکر، بیروت

۲۹ ۔ تاریخ نیسابور، عبدالغافر نیشابوری،ت ۵۲۹ ہ-

۳۰ ۔ تذکرة الحفّاظ، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان

۳۱ ۔ تذکرة الخواص، سبط بن جوزی ت ۶۵۴ ئہ-، چاپ نجف

۳۲ ۔التسہیل لعلوم التنزیل، ابن حزی الکلبی، ت ۲۹۲ ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت

۳۳ ۔ تفسیر ابن ابی حاتم، عبد الرحمن بن محمد بن ادریسی الرازی، ت ۳۲۷ ہ-، المکتبة المصریة، بیروت

۳۴ ۔ تفسیر البیضاوی، قاضی بیضاوی،ت ۷۹۱ ئہ-

۲۵۴

۳۵ ۔ تفسیر الخازن )لباب التاویل)، علاء الدین بغدادی، ت ۷۲۵ ئہ-، دارالفکر

۳۶ ۔ تفسیر علی بن ابراہیم قمی، متوفی اواخر قرن سوم ہ-، مطبعہ نجف

۳۷ ۔ تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر، ت ۷۷۴ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۳۸ ۔ التفسیر الکبیر، فخر رازی، ت ۶۰۶ ئہ-، دار احیائ التراث العربی بیروت، لبنان

۳۹ ۔ تفسیر الماوردی، محمد بن حبیب ماوردی بصری، متوفی ۴۵۰ ہ-، دارالمعرفة، بیروت

۴۰ ۔ تفسیر النسفی )مدارک التنزیل وحقائق التاویل) حاشیہ تفسیر خازن، عبدالله النسفی،ت ۷۱۰ ئہ-، دارالفکر

۴۱ ۔ تفسیر المنار، رشید رضا،ت ۱۳۵۴ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۴۲ ۔ تلخیص المستدرک، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-،دارالمعرفة، بیروت

۴۳ ۔ تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی، ت ۸۵۲ ئہ-، دارالفکر

۴۴ ۔تہذیب الکمال، مزّی، ت ۷۴۲ ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت

(ج)

۴۵ ۔جامع الاحادیث، سیوطی،ت ۹۱۱ ئہ-، دارالفکر

۴۶ ۔جامع البیان، محمد بن جریر طبری، ت ۳۱۰ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت، لبنان

۴۷ ۔جامع احکام القرآن، قرطبی، ت ۶۷۱ ئہ-،دارالفکر

۴۸ ۔ الجامع الصحیح الترمذی، محمد بن عیسی ت ۲۷۹ ئہ-، دارالفکر

۴۹ ۔جمع الجوامع، سیوطی، ت ۹۱۱ ئہ-

۵۰ ۔جمہرةاللغة،ابن درید،ت ۳۲۱ ئہ-

۵۱ ۔الجواہر الحسان ابوزید الثعالبی ت ۸۷۶ ء ہ-، داراحیاء التراث العربی، بیروت

۵۲ ۔ جواہر العقدین، سمہودی، ت ۹۱۱ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۲۵۵

(ح)

۵۳ ۔الحاوی للفتاوی سیوطی، ت ۹۱۱ ئہ-، مکتبة القدس قاہرة)بہ نقل احقاق الحق)

۵۴ ۔حاشیة الشہاب علی تفسیر البیضاوی احمد خفاجی مصری حنفی، ت ۱۰۶۹ ئہ-،دار احیائ التراث العربی، بیروت

۵۵ ۔حاشیہ الصاوی علی تفسیر الجلالین، شیخ احمد الصاوی المالکی، ت ۱۲۴۱ ئہ-، دارالفکر

۵۶ ۔حلیة الاولیاء، ابونعیم اصفہانی، ت ۴۳۰ ئہ-، دارالفکر

(خ)

۵۷ ۔ خصائص امیرالمؤمنین علیہ السلام، احمد بن شعیب نسائی ت ۳۰۳ ئہ-، دارالکتاب العربی

۵۸ ۔خصال، محمد بن علی بن بابویہ قمی)صدوق)، ت ۳۸۱ ئہ-، دفتر انتشارات اسلامی

(س)

۵۹ ۔سفینة البحار، شیخ عباس قمی ت ۱۳۵۹ ئہ-، انتشارات کتابخانہ محمودی

۶۰ ۔السنن الکبری، ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، ت ۴۵۸ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت، لبنان

۶۱ ۔السنن الکبری، نسائی، ت ۳۰۳ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۶۲ ۔سیر اعلام النبلاء، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت، لبنان

۶۳ ۔ السیرة النبویة و الآثار المحمدیة )حاشیة السیرة الحلویة)، سیدزینی دحلان، ت ۱۳۰۴ ئہ-، دار احیائ التراث العربی، بیروت، لبنان

۶۴ ۔ السیرة النبویة، ابن ہشام،ت ۲۱۸ ئہ-، داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان

۲۵۶

(ش)

۶۵ ۔شرح التجرید، قوشجی، ت ۸۷۹ ئہ-

۶۶ ۔شرح السنة، بغوی، ت ۵۱۰ ئہ-، المکتب الاسلامی، بیروت

۶۷ ۔ شرح المقاصد، تفتازانی، ت ۷۹۳ ئہ-،منشورات الشریت الرضی

۶۸ ۔شرح المواقف،جرجانی،ت ۸۱۲ ئئئہ-، منشورات الشریف الرضی

۶۹ ۔ شرح التنزیل، حاکم حسکانی، ت اواخر القرن الخامس، مؤسسة الطبع و النشر

(ص)

۷۱ ۔صحاح اللغة، جوہری، ت ۳۹۳ ئہ-

۷۲ ۔صحیح ابن حبان، محمد بن حبان بستی، ت ۳۵۴ ئہ-، مؤسسة الرسالة

۷۳ ۔ صحیح بخاری، محمد بن اسماعیل بخاری، ت ۲۵۶ ئہ-، دارالقلم، بیروت، لبنان-دارالمعرفة، بیروت،لبنان

۷۴ ۔ صحیح مسلم، مسلم بن حجاج نیشابوری، ت ۲۶۱ ئہ-، مؤسسة عز الدین للطباعة و النشر، بیروت، لبنان

۷۵ ۔ الصلاة و البشر،فیروز آبادی ،ت ۸۱۷ ئھجری دارالکتب العلمیہ،بیروت،لبنان۔

۷۶ ۔الصواعق المحرقة، ابن حجر ہیتمی،ت ۹۵۴ ئہ-،مکتبة القاہرة

(ط)

۷۷ ۔ الطبقات الکبری، ابن سعد، ت ۲۳۰ ئہ-،داربیروت للطباعة والنشر

۷۸ ۔ الطرائف، علی بن موسی بن طاووس،ت ۶۶۲ ئہ-، مطبعة الخیام،قم

(ع)

۷۹ ۔العمدة، ابن بطریق، ت ۵۳۳ ئہ-، مؤسسة النشرالاسلامی

۸۰ ۔عوالم العلوم، سید ہاشم بحرانی، ت ۱۱۰۷ ئہ-، مؤسسة الامام المہدی علیہ السلام

۸۱ ۔عیون خبارالرضا، صدوق، ت ۳۸۱ ئہ-

۲۵۷

(غ)

۸۲ ۔غایة المرام، سید ہاشم بحرانی،ت ۱۱۰۷ ئہ-

۸۳ ۔غرائب القرآن،نیشابوری ت ۸۵۰ ئہ-، دارالکتب العلمیة بیروت

۸۴ ۔فتح الباری، ابن حجر العسقلانی، ت ۸۵۲ ئہ-

۸۵ ۔ فتح القدیر، شوکانی، ت ۱۲۵۰ ئہ-، داراکتاب العلمیة بیروت لبنان

۸۶ ۔فرائد السمطین، ابراہیم بن محمد بن جوینی،ت ۷۲۲ ئہ-، مؤسسة المحمودی للطباعة والنشر، بیروت

۸۷ ۔الفصول المہمة، ابن صباغ مالکی،ت ۸۵۵ ئہ-

۸۸ ۔فضائل الصحابة، سمعانی، ت ۵۶۲ ئہ-

(ق)

۸۹ ۔القاموس المحیط، فیروزآبادی،ت ۸۱۷ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۹۰ ۔قواعد فی علوم الحدیث، ظفر احمد تہانوی شافعی، تحقیق ابوالفتاح ابوغدة

(ک)

۹۱ ۔ الکافی، کلینی، ت ۳۲۹ ئہ-، دارالکتب الاسلامیة

۹۲ ۔کتاب الثقات، ابن حبان، ت ۳۵۴ ء ہ-، مؤسسة الکتب الثقافیة، بیروت

۹۳ ۔کتاب العین، خلیل بن احمد فراہیدی، ت ۱۷۵ ئہ-، مؤسسة دارالہجرة

۹۴ ۔الکشاف، زمخشری، ت ۵۸۳ ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت

۹۵ ۔الکشف و البیان، ثعلبی نیسابوری، ت ۴۲۷ ئیا ۴۳۷ ئہ-، داراحیائ التراث العربی،بیروت، لبنان

۹۶ ۔ کفایة الطالب، محمد بن یوسف گنجی شافعی، ت ۶۵۸ ئہ-، داراحیائ تراث اہل البیت

۹۷ ۔کمال الدین، محمد بن علی بن بابویہ، ت ۳۸۱ ئہ-

۹۸ ۔کنز العمال، متقی ہندی، ت ۹۷۵ ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت

۲۵۸

(ل)

۹۹ ۔اللباب فی علوم الکتاب، عمر بن علی بن عادل الدمشقی الحنبلی، متوفی بعد ۸۸۰ ئہ-، دار الکتب العلمیة، بیروت

۱۰۰ ۔لسان العرب، ابن منظور، ت ۷۱۱ ئہ-، دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان

(م)

۱۰۱ ۔ما نزل من القرآن فی علی،ابوبکر الشیرازی، ت ۴۰۷ ئہ-

۱۰۲ ۔ ما نزل من القرآن فی علی، ابو نعیم اصفہانی، ت ۴۳۰ ئہ- )بہ نقل احقاق)

۱۰۳ ۔المتفق و المتفرق خطیب بغدادی، ت ۴۶۳ ئہ-)بہ واسطہ کنزالعمال)

۱۰۴ ۔ مجمع البحرین، طریحی، ت ۱۰۸۵ ئہ-، دفتر نشر فرہنگ اسلامی

۱۰۵ ۔مجمع البیان،طبرسی، ت ۵۶۰ ئہ-، دارالمعرفة،بیروت

۱۰۶ ۔ مجمع الزوائد،ہیثمی، ت ۸۰۷ ئہ-،دارالکتاب العربی-دارالفکر، بیروت

۱۰۷ ۔المستدرک علی الصحیحین،حاکم نیشابوری، ت ۴۰۵ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۱۰۸ ۔مسند ابی داوود طیالسی،ت ۲۰۴ ئہ-،دارالکتاب اللبنانی

۱۰۹ ۔مسند ابی یعلی موصلی،ت ۳۰۷ ئہ-

۱۱۰ ۔مسند احمد،احمد بن حنبل،ت ۲۴۱ ئہ-، دارصادر،بیروت-دارالفکر

۱۱۱ ۔مسند اسحاق بن راہویہ، ت ۲۳۸ ئہ-،مکتبة الایمان، مدینة المنورة

۱۱۲ ۔مسند عبد بن حمید،ت ۲۴۹ ئہ-، عالم الکتب

۱۱۳ ۔مشکل الآثار، طحاوی، ت ۳۲۱ ئہ-،ط مجلس دائرة المعارف النظامیة بالہند

۱۱۴ ۔ المصباح المنیر احمد فیومی، ت ۷۰ ء ۷ ہ- طبع مصطفی البابی الحلبی و اولادہ بمصر

۱۱۵ ۔مصباح الہدایة، بہبہانی، ط سلمان فارسی،قم

۱۱۶ ۔المصنف،ابن ابی شیبة،ت ۲۳۵ ئہ-

۲۵۹

۱۱۷ ۔مطالب السؤول ابن طلحة نصیبی شافعی، ت ۶۵۲ ئہ-

۱۱۸ ۔معالم التنزیل، بغوی،ت ۲۱۰ ئہ-

۱۱۹ ۔المعجم الاوسط، طبرانی،ت ۳۶۰ ئہ-،مکتبة المعارف الریاض

۱۲۰ ۔المعجم الصفیر، طبرنی، ت ۳۶۰ ئہ-

۱۲۱ ۔المعجم الکبیر، طبرانی،ت ۳۶۰ ئہ-

۱۲۲ ۔ المعجم المختص بالمحدثین، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، مکتبة الصدیق سعودی

۱۲۳ ۔معجم مقاییس اللغة، ابن فارسی بن زکریا القزوینی الرازی،ت ۳۹۰ ہ-

۱۲۴ ۔معرفة علوم الحدیث، حاکم نیشابوری، ت ۴۰۵ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۱۲۵ ۔المعرفة والتاریخ، یعقوب بن سفیان بن بسوی،ت ۲۷۷ ئہ-

۱۲۶ ۔مغنی اللبیب، ابن ہشام،ت ۷۶۱ ئ ہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۱۲۷ ۔المفردات،راغب اصفہانی،ت ۵۰۲ ئہ-

۱۲۸ ۔مقتل الحسین، خوارزمی، ت ۵۶۸ ئہ-، مکتبة المفید

۱۲۹ ۔المناقب،موفق بن احمد خوارزمی،ت ۵۶۸ ئہ-

۱۳۰ ۔مناقب ابن مغازلی شافعی،ت ۴۸۳ ئہ-،المکتبة الاسلمة

۱۳۱ ۔مناقب آل ابی طالب، ابن شہر آشوب،ت ۵۸۸ ئہ-،ذوالقربی

۱۳۲ ۔منتہی الارب عبدالرحیم بن عبدالکریم الہندی ت ۱۲۵۷ ئہ-

۱۳۳ ۔المیزان، محمد حسین طباطبائی، ت ۱۴۰۲ ئہ-، دارالکتب الاسلامیة

۱۳۴ ۔میزان الاعتدال، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، دارالفکر

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375