اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 10%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 144779 / ڈاؤنلوڈ: 5487
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام كتاب: اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف: ڈاكٹر على اكبر ولايتي

مترجم: معارف اسلام پبلشرز

ناشر: انتشارات نور مطاف

اشاعت: دوم

تاريخ اشاعت: رجب المرجب ۱۴۲۸ ھ_ق

۳

مقدمہ:

جو كچھ آپ كے سامنے ہے وہ اسلامى سرزمينوں ميں جنم لينے والى تہذيب و تمدن كى دقيق تحقيق اور منصفانہ جائزہ ہے، فاضل مصنف نے اسلامى تہذيب و ثقافت كے معرض وجود ميں آنے، اسكى نشو و نما كے اسباب اور پھر اسكے جمود كى وجوہات كى ايك مكمل تصوير پيش كرنے كى قابل تحسين كوشش كى ہے_

ابتدائي ابواب ميں اسلام كى آمد ، قلوب كى فتح اور پھر مسلمانوں كا نہايت جد و جہد سے اپنى تہذيب و ثقافت كو اسلامى رنگ ميں ڈھالنے كو بہت خوبصورت انداز ميں منقش كيا گيا ہے اور يہ بھى بيان كيا گيا ہے كہ كس طرح اسلامى تعليمات كو دل وجان سے قبول كرنے كى وجہ سے وہ نہايت قليل مدت ميں علم و ترقى كى بلندترين چوٹيوں كو مسخر كرتے ہوئے ترقى وپيشرفت كے ميدان كے فاتح اور ہراول دستہ بن گئے_

اس كے بعد كے ابواب مسلمانوں كى عزت و عظمت كے زوال كے اسباب و وجوہات كو بيان كرتے ہيں اور بتاتے ہيں كہ كس طرح مغربى طاقتوں نے مشرق خصوصاً مسلمانوں كى مادى اور روحانى دولت كو لوٹ كر اور انہيں بيرونى جنگوں اور داخلى خودساختہ تنازعات ميں الجھا كر اپنے ليے عليحدہ جائے امن و سكون بنالى ہے اور مسلمانوں كو ان شيطانى ہتھكنڈوں سے صنعت اور ٹيكنالوجى كے دائرے سے باہر نكالتے ہوئے خود ان علمى ميدانوں كے حاكم بن بيٹھے ہيں ،البتہ اس كے ساتھ ساتھ انہوں نے نئے سے نئے آلات كے ذريعے اپنى روال پذير اور مضر ثقافت كو دوسرے ممالك ميں برآمد كرديا ہے_

۴

مسلمانوں كى اپنے اصلى مقام كو حاصل كرنے كے ليے دوبارہ بيداري، مغرب كى حقيقى تہذيب مسلمان دانشوروں كى زبانى مغرب كے انحطاط اور انكى آسمانى و فطرى اقدار اور روحانيت سے دورى كا تجزيہ، اور ساتھ ہى انہى دانشوروں اور دوسرے مجددين كى طرف سے مغربى ثقافت كے نفوذ كے خطرات سے متنبہ كرنا، جيسے موضوعات كتاب كے آخرى حصے كو تشكيل ديتے ہيں _

مؤلف نے اس گراں بہا تحقيق ميں اپنى استعداد اور صلاحيتوں كا كھل كر اظہار كيا ہے اور سال باسال سے كيے جانے والے اپنے كتابى اور ميدانى مطالعات كے علاوہ دنيا كى مختلف اقوام ، علمي، ثقافتى اور سياسى شخصيتوں كے ساتھ گزارے گئے لمحات اور تجربات كو نہايت خوبصورت انداز ميں زيور تحرير سے آراستہ كيا ہے_ جس پر ہم انكے ليے خداوند متعال سے اجر اور توفيقات كے طالب ہيں _

مؤسسہ معارف اسلامى جس كے نامہ اعمال ميں علوم اسلامى مثلاً فقہ، تفسير، كلام، تاريخ، سيرت ،اخلاق اور معاشرتى علوم كى بھر پور اشاعت و تبليغ جيسے كارہائے نماياں درج ہيں خداوند متعال كا بے حد شكر گزار ہے كہ اس نے اس قيمتى اور مفيد كتاب كے ترجمے كى سعادت اس علمى مؤسسے كو بخشي_

اميد ہے كہ اس كتاب كى طباعت اور اجراء اسلامى ممالك اور مسلمانوں كى سربلندى كى راہ ميں ايك بہت بڑا قدم شمار ہوگا يہاں ہم ضرورى سمجھتے ہيں كہ محترم مترجم على اصغر سيفى اور محترم مصحح سيد عون نقوى كى بے لوث اور مخلصانہ كاوشوں كا شكريہ ادا كريں ، خداوند متعال سے ان كى مزيد كا ميابيوں كے ليے دعا گو ہيں _

معارف اسلام پبلشرز

۵

تمہيد

عرصہ دراز سے ايك ايرانى مسلمان ہونے كے ناطے اسلام اور ايران كے تہذيبى اور ثقافتى تشخص كا تعين ہر وقت ميرا مقصد جستجو رہا ہے، اسى ليے جہاں كہيں امكان ہوتا كہ مجھے ميرى گم شدہ منزل كا سراغ مل جائے گا ميں بڑے شوق كے ساتھ وہاں بڑھتا كوئي تقرير ہوتى تو اسے سنتا اور كوئي كتاب يامقالہ ہوتا تو مطالعہ كرتا اور حقيقى كى بات جو ميں بتدريج سمجھا يہ تھى كہ ہمارى امت و قوم اور اسكى تہذيب و تمدن پر غيروں كى بدنيتى اور ہمارى سستى كے باعث بہت بڑا ظلم ہوا ہے_

ايك طرف اغيار نے مسلمانوں كى تمام خوبيوں كو ماننے سے انكار كيا اور دوسرى طرف مسلمانوں نے اپنے علمى اور ثقافتى سرمايہ كے اندراج ، ريكارڈ اور منظر عام پر لانے ميں غفلت كا مظاہرہ كيا اور اسكا نتيجہ اس غلط عالمى سوچ كى صورت ميں نكلا كہ جو خود مسلمانوں اور ايرانيوں كے ذہنوں ميں بھى سرايت كرگئي كہ يہ مغربى اقوام عالم خلقت ميں ايك منفرد نوعيت كى حامل ہيں كہ جو غير معمولى ذہن اور صلاحيتوں سے مالامال ہيں ، جبكہ مسلمان اور ديگر اقوام ان نعمتوں سے محروم ہيں ;قديم يونانى دور سے روم اور يورپى نشا ةثانيہ كے دورتك يہى مغربى اقوام ہميشہ ترقى يافتہ اور موجد ہيں جبكہ مشرقى اقوام اور مسلمان ہميشہ سے انكے مقلد اور انكى ايجادات كے صارف رہے ہيں _

دو صديوں سے ليكر اب تك اس قسم كے نظر يے كا وسيع پيمانے پرپروپيگنڈا ہوا كہ جسكا عملى نتيجہ يہ سامنے آيا كہ گويا ہم لوگ (علمى ميدان ميں ) فضول كوشش نہ كريں اور نچلے درجہ كے انسان كى حيثيت سے اسے اپنى قسمت كا لكھا ہوا سمجھ كر تمام سياسى اور ثقافتى نتائج كے ساتھ قبول كرليں اس طرح معلوم ہوا كہ مغربى استعمار كى

۶

شيطانى مكارى اور ہم سب كى غفلت آہستہ آہستہ لوگوں ميں اس قسم كے نظريات پيدا ہونے كا باعث بنى جنہيں ثانوى صفات كا عنوان دينا چاہيے اور وہ (نظريات) يہ ہيں كہ '' ہم فضول كوشش نہ كر ليں '' ہم اس لائق نہيں ہيں كہ علم و دانش كے بلند و بالا درجات كى تمنا كريں بلك اسى حد تك قانع رہيں كہ جو ازل سے ہمارى قسمت ميں لكھا جاچكاہے_

كسى بھى ذمہ دار درد دل ركھنے والے كے ليے اس سے بڑھ كہ جانسوز غم نہ ہوگا كہ اسكى نظرياتى اور قومى حيثيت كو اسطرح پامال كيا جائے ، درست اسى زمانہ سے جب اسلامى اور مشرقى سرزمين اہل مغرب كى فوجى اور ثقافتى يلغار كا مركز بنى اس قسم كے نظريات كى نشر و اشاعت اور لوگوں كے ذہنوں ميں انہيں راسخ كرنے كا آغاز ہوا جو كہ اپنى جگہ استعماريت كا واضح نمونہ تھا، تو كچھ عظيم لوگ اٹھ كھڑے ہوئے جنہوں نے اہل مشرق اور مسلمانوں كى بيدارى كا نعرہ لگايا اور فرنگيوں كے متكبرانہ عزائم كے مقابلے ميں اسلامى بيدارى كا نقارہ بجايا_

اسلامى بيدارى كى لہريں دو سو سال سے اب تك روز بروز بلند اور وسيع تر ہو رہى ہيں ، عالم اسلام ميں اس تاريخى تحريك كا اہم ترين كا رنامہ بتدريج خود اعتمادى كے احساسات كے پلٹنے كى صورت ميں سامنے آيا ،آج ترقى يافتہ آڈيو ، ويڈيو اور اليكڑونك پروپيگنڈے كے باوجود اہل مغرب كا اپنى بڑائي اور برترى پر مبنى قديم دعوى مسلمان اور مشرقى اقوام پر بہت كم اثر چھوڑرہا ہے،اور آج فراعين زمانہ كے جادو كى قلعى كھل گئي ہے ليكن ان سے بے زارى كى يہ حالت علمى كم، سياسى زيادہ ہے اور يہ اسى طرح ہے جسطرح استعمار نے سياسى نفوذ كے بعد اقتصادى استحصال كے ليے ثقافتى و علمى غلبہ حاصل كيا(يعنى مغرب كے خلاف سياسى بيدارى ثقافتى اور علمى بيدارى پر منتج ہوگي)_

اسى ليے سياسى اور ثقافتى لحاظ سے بيدارى پيدا كرنے والے صف اول كے رہنماؤں نے جو ماحول فراہم كيا ہے اس سے فائدہ اٹھا نے اور ساتھ ساتھ علم و دانش ميں خود اعتمادى اور استقلال كو پلٹانے كيلئے

۷

جواسباب مہيا كرنا ضرورى تھے ان ہى مقاصد تك پہنچنے كيليے بعض شخصيات نے قابل قدر كوشش كيں ، ليكن اس ميدان ميں اگر غور و فكر كريں تو معلوم ہو گا كہ ابھى راہ كے آغاز ميں ہيں اورمنزل مقصود تك پہنچے ميں كافى فاصلہ پڑا ہے اگر چہ بلا شبہ حركت كا آغاز ہوچكا ہے_

ہم نے بھى كوشش كى كہ اپنى بساط كے مطابق قدم اٹھائيں ہميں اميد ہے كہ كاميابى سے ہمكنار ہونگے ، چار جلد كتاب ''پويايى فرہنگ و تمدن اسلام و ايران'' جوكہ اب تك نشر ہوچكى ہے وہ انہى اہداف كے پيش نظر ايك كوشش ہے اور يہ كتاب '' اسلامى تہذيب و تمدن كى تاريخ '' اس چار جلد كتاب كى اہم مباحث كا خلاصہ ہے كہ جو يونيورسٹيوں كى نصابى ضروريات كے مطابق مرتب كى گئي ہے_

اسلامى تاريخ كے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے كہ اسلامى تہذيب و تمدن كا سفر معين اور دقيق مراحل كا حامل ہے جو واضح اور قابل درك منطقى بنياد پر تشكيل پايا ہے جو شايد اسى فلسفہ تاريخ كا نمونہ ہے كہ ''تاريخ اپنے كو دہراتى ہے ''اور اگر ہم اسكا گراف بنائيں تو ہميں چند صديوں اور چند ہزاريوں ميں ملتے جلتے بلكہ ايك دوسرے كے عين مطابق نكات حاصل ہونگے ان مراحل كے اصلى عناوين يہ ہيں :

مرحلہ اول : زمانہ دعوت يا اسلامى تاريخ و تمدن كا آغاز

مرحلہ دوم: يثرب ميں اسلامى حكومت كے تشكيل كا زمانہ اور تمدن اسلامى كى علامتى بنياد قائم ہونا

مرحلہ سوم: جزيرة العرب اور اس دور كى تہذيب يافتہ دنيا ميں اسلام كى وسيع پيمانے پر نشر و اشاعت كا زمانہ كہ جس ميں بين النہريں ، ايران، روم، مصر ،حبشہ ، ہند، ماورا النہر، چين ، شمالى آفريقا اور آخر كار جنوبى يورپ شامل ہيں _

مرحلہ چہارم : نئي اسلامى تہذيب و تمدن كا دنيا كى قديم ترين تہذيبوں كے قريب ہونا اور ان سے آگاہى كى كوشش اور ان ثقافتوں كواسلامى تہذيب ميں ترجمہ ،لائبريريوں اور مدارس كى تاسيس كے ذريعے منتقل كرنا اور انكے دانشمند مفكر اذہان كو اسلام كے علمى و تعليمى مراكز كى طرف مائل كرنا_

۸

مرحلہ پنجم: اسلامى تمدن كے پھلنے پھولنے كا زمانہ_

مرحلہ ششم: اسلام كى عميق ثقافت اور عرفانى ادبيات كى بہاركازمانہ

مرحلہ ہفتم: آرٹ اور معمارى كا زمانہ

مرحلہ ہشتم: اسلامى تمدن كے زوال كا زمانہ يا وہ زمانہ كہ جب عيسائيوں اورمنگولوں نے انتہائي شقاوت اور بے رحمى سے عالم اسلام پر حملے كرتے ہوئے اسلامى كلچرميں مايوسى كى روح پھونك دى اور شہروں كو تباہ و برباد كرتے ہوئے اسلامى تمدن كى بنيادوں كو ہلاديا_

مرحلہ نہم: عالم اسلام كا دوبارہ اپنے پاؤں پر كھڑے ہونا_

مرحلہ دہم: استعمار كا حملہ اورزوال كے دوسرے دور كا آغاز يا مسلمانوں كے كلچر ميں تبديليوں كا زمانہ ، يہ ايسا حملہ تھا كہ جو عالم اسلام كے حساس مراكز پر برقى جھٹكے كى مانند اثر انداز ہوا اس يلغار كے ديگر اثرات سے قطع نظر اس سے ايسى حياتى لہريں پيدا ہوئيں كہ جو اسلام كى جغرافيايى كى حدود ميں مسلسل تاريخى تحريكوں كے وجود ميں آنے كا باعث بنيں كہ جسے ہم اسلامى بيدارى سے تعبير كرتے ہيں اسلامى بيدارى يا يہ كہ اسلام كى طرف لوٹنے كى دعوت (اس مرحلہ كے تحت چند ديگر مراحل مورد بحث ہيں )_

مرحلہ ۱: اسلامى بيداري

يہ كہ كس زاويے سے اس واقعہ پر نگاہ ڈاليں يقيناہمارے تجزيہ و تحليل ميں ( دوسروں كى نسبت ) فرق پايا جائے گااسى ليے اہل فكر حضرات نے مسلمانوں كے اس بيدار ہونے كے واقعہ كو گوناگون عناوين سے ياد كيا ہے ، انكى نوع فہم كو مندرجہ ذيل اصطلاحات كى صورت ميں معنون كيا جاسكتاہے:

اصلاح پسندي، سلفى گرى ، اپنى حقيقت كى طرف لوٹنا ، خرافات سے جنگ، جديديت ،استعمار سے مقابلہ ، اتحاد بين مسلمين اور اسلامى بيداري_

اسلامى بيدارى كى اصطلاح كا انتخاب اور ايك اہم باب اس بحث سے مختص كرنے كى وجہ يہ ہے كہ يہ كلمہ

۹

انتہائي جامعيت كا حامل ہونے كے ساتھ ساتھ ديگر ابواب كے ساتھ بھى مناسبت ركھتا ہے ،ايك اور نكتہ كہ جو اسطرح نام ركھنے كى نسبت كافى اہم محسوس ہو رہا ہے وہ يہ كہ شايد سب كيلئے واضح ہو چكا ہو كہ پہلے دور يعنى منگولوں كے حملہ سے پہلے اور موجود ہ دور ميں اسلامى تہذيب و تمدن كے تمام گوناگون مراحل ميں يكسانيت موجود ہے گويا اسلامى تہذيب و تمدن كے سفر كے تمام پيچ و خم كو دھرايا جارہا ہو اور يہ صورت حال فلسفہ تاريخ كے اس مقولے كو ياد دلاتى ہے كہ '' تاريخ صرف واقعات اور حادثات تكرار كا نام ہے'' يا يہ كہيں گے كہ وجود اسلام ميں تجديد حيات اور ترقى كرنے كى استعداد اور خصوصيت قدرتاً موجود ہے اس دعوى پر گواہ عصر حاضر ميں اسلام كى صورت حال ہے اپنے اور غير سب تجزيہ نگاروں كا يہى كہنا ہے كہ اسلام دنيا كى تمام اقوام كيلئے پركشش ترين دين ہے اسكى ترقى كى سرعت دنيا كے ديگر مذاہب سے قابل موازنہ نہيں ہے، اسى بات سے يہ نتيجہ ليا جا سكتا ہے كہ يہ دين اب بھى زندہ ہے اور ديگر زندہ موجودات كى مانند اپنے اندر پاكيزگى اور تلخيص كا عمل، بوسيدہ عناصر كى اصلاح اور تعمير كا عمل ،فاسد اور مفسد مواد خارج كرنے ، اجنبى موذى اور مضر عناصر كے حملہ كے مقابلے ميں دفاع كرنے ، ترقى اور نشو ونما كرنے اور استعداد اور صلاحيتوں كو عمل ميں لانے كى قدرت ركھتا ہے_

اسلامى بيدارى كا آغاز خود اصل اسلام كى مانند لوگوں كو دعوت دينے سے شروع ہوا ،امير عبدالقادر، سيد جمال الدين اسد آبادى ، شيخ محمد عبدہ، سيداحمد خان، شيخ فضل اللہ نورى ، عبدالرحمان كواكبي، شيخ شامل ، رشيد رضا، علامہ اقبال لاہوري، سيد حسن مدرس، حسن البنائ، سيد قطب، ابو الاعلامودودي، سيد محسن امين جبل عاملي اور آخر كا امام خمينى سب نے لوگوں كو پلٹنے اور احياء اسلام كى دعوت دى اور لوگوں نے اس دعوت كو قبول كيا، اسلامى اقوام سے گرو ہ درگروہ لوگوں نے دوبارہ اسلام كے ساتھ بيعت كى ، خواص كى اس دعوت اور عوام كى قبوليت كا نتيجہ تمام عالم اسلام ميں دين اور دينى اقدار كو زندہ كرنے كى ايك وسيع تحريك كو جنم دينے كى صورت ميں نكلا_

۱۰

عصر حاضر كى تاريخ اور موجودہ زمانہ كے واقعات كا تجزيہ كريں تو مكمل طور پر يہ حقيقت ہم پر آشكار ہوتى ہے كہ كوئي ايسا اسلامى ملك نہيں ہے كہ جہاں اسلامى بيدارى يا اسلام كى طرف پلٹنے كى تحريك كى علامات نہ ہوں يہ حقيقت اسلامى نشا ة ثانيہ كى پہلے مرحلہ ميں واضح كاميابى كى حكايت كر رہى ہے ، اس مرحلہ كى اہميت اتنى زيادہ ہے كہ آج اسلامى سرزمينوں پر بھو كى نگاہيں ركھے ہوئے قديم استعمار كے وارث '' انسانى حقوق كى حمايت '' اور '' صلح ،امن اورجمہوريت كے دفاع'' كى چادر اوڑھے '' تہذيبوں كے ٹكراؤ'' كا راگ الاپتے ہوئے اسكى نابودى پر كمر باندھ چكے ہيں اور سوويت يونين كے ٹوٹنے كے بعد اپنى تمام تر فوجى طاقت كے ساتھ مسلمانوں كے مقابلے ميں صف آرا ہو چكے ہيں _

مرحلہ ۲: اسلامى حكومت كى تشكيل

پہلى تقسيم كے مطابق زمانہ دعوت (اسلام كى طرف لوٹنا) كے بعد دوسرا مرحلہ اسلامى حكومت كى تشكيل ہے، شيعہ اور سنى دونوں مكاتب فكر ميں ايك اسلامى حكومت كى تشكيل كے حوالے سے نظرياتى اور عملى ميدانوں ميں شدت سے كوشش شروع ہوئي، اہل سنت كى دنيا ميں عنوان خلافت كو مختلف دانشور حضرات نے اسلامى حكومت كى تشكيل كيلئے محور قرار ديتے ہوئے لوگوں كو اسى عنوان كى طرف لوٹنے كى دعوت دي، رشيد رضا جو كہ سلفى فكر كے اساسى ستونوں ميں سے شمار ہوئے ہيں انہوں نے خلافت كے موضوع كو انتہائي مضبوط انداز ميں پيش كيا اس حوالے سے انكى عملى تجويز يہ تھى :عالم اسلام ميں شہر موصل كو مركز قرار ديتے ہوئے اور امام ہادى يعنى يمن كے زيدى امام (رشيد رضا كے ہم عصر ) كى خليفةالمسلمين كے عنوان سے بيعت كرتے ہوئے بين الاقوامى اسلامى حكومت تشكيل دى جائے_

شيعہ دنيا ميں آيت اللہ نائينى نے عصر جديد ميں اسلامى حكومت كى تشكيل كو نظرى شكل دى اور اسے ايك كتاب '' تنبيہ الامة و تنزيہ الملة'' كى صورت ميں نشر كيا، اور امام خمينى نے ولايت فقيہ كے موضوع كو پيش كرتے ہوئے آج كے دور كے تقاضوں كے عين مطابق اسلامى حكومت كے ماڈل كو سامنے لائے_

۱۱

اس مرحلہ كا دوسرا حصہ اسلامى حكومت كى تشكيل ہے ، شمالى نائجيريا ميں عثمان دان فوديو نے انيسويں صدى عيسوى كے آغاز ميں اسلامى حكومت قائم كى جو ايك صدى تك قائم رہي، مكتب اہل سنت ميں اسكے علاوہ بھى كامياب اور نيم كامياب اقدام ہوئے ، سوڈان ميں اخوان المسلمين گروہ كے حسن ترابى اسلامى حكومت كى تشكيل كا نظريہ دينے والے مفكر كى حيثيت سے ابھرے اور حسن عمرالبشير كے تعاون سے جعفر نميرى كى سيكولر حكومت كا تختہ الٹ ديا اور اس ملك ميں شريعت كے اجراكا نعرہ بلند كرتے ہوئے اسلامى حكومت قائم كى ، تركى ميں نجم الدين اربكان نے اسلامى حكومت كے ہدف كى خاطر قومى رفاہ پارٹى قائم كى اگر چہ اس ہدف كا صريحا (فوجى جرنيلوں كے ڈرسے) اعلان نہيں كيا ، اس پارٹى نے بہت كوشش كرتے ہوئے اور كئي بار اپنى روش اور طريقہ كار ميں تبديلى لاتے ہوئے بالآخرہ ميڈم تانسو چيلركے ساتھ اتحاد قائم كركے ايك مخلوط حكومت كو تشكيل ديا كہ اس حكومت كے واضح ترين ثمرات خواتين كا پردہ بر قرار كرنا، اداروں ميں نماز جماعت كا قيام اور امام وخطيب كى درسگاہوں كو وسعت دينے كى صورت ميں سانے آئے_

الجزائر ميں عباس مدنى كى قيادت ميں '' نجات اسلامى جماعت'' حكومت اسلامى كى تشكيل كے اہداف كے پيش نظر قائم ہوئي اور بہت سرعت سے پھيل گئي ، اسطرح كہ الجزائر كے تمام شہروں كے بلدياتى انتخابات ميں سب سے زيادہ ووٹ حاصل كيے_

عالم تشيع ميں بيسويں صدى عيسوى كے آغاز ميں آيت اللہ سيد عبدالحسين لارى نے ايران كے جنوب ميں ولايت فقيہ كى بنيادپر اسلامى حكومت تشكيل دى _

ميرزا كوچك خان جنگلى كے ذريعہ ' ' حزب اتحاد اسلام'' كے تحت گيلان كى حكومت كو بھى شايد حكومت اسلامى كى تشكيل كے حوالے سے نامكمل نمونہ شمار كيا جاسكتاہے_

اسى طرح پاكستان ميں ضياء الحق كے زمانے ميں پارليمنٹ ميں شريعت بل كى منظورى كيلئے كيے گئے اقدام كے تحت پاكستان كا نام '' اسلامى جمہور يہ پاكستان '' كى صورت ميں تبديل كيا گيا اسے ايك اسلامى

۱۲

حكومت كے قيام كيلئے كى گئي بعض كوششوں كى حدتك شماركياجاسكتاہے_

آخر ميں اسلامى جمہوريہ ايران كى حكومت كے قيام كو زمانہ حاضر ميں اسلامى حكومت كا بہترين اور واضح ماڈل قرار دياجا سكتا ہے_

مرحلہ ۳: اسلام كى نشر و اشاعت

تيسرامرحلہ جو كہ پہلى صدى ہجرى سے ہى شروع ہوا اور اس نے بہت تيزى سے پيش رفت كى ، اسى طرح عصر حاضر ميں اسلام كى تجديد حيات كے حوالے سے بھى يہى تيز رفتار پيش رفت سامنے آئي،آخرى عشروں ميں امريكہ يورپ اور افريقہ ميں اسلام كى سرعت كے ساتھ نشر و اشاعت كو '' اسلام كے عصر حاضر كے تقاضوں كے مطابق پھيلاؤ كا واضح ترين نمونہ شمار كيا جاسكتاہے''_

مرحلہ ۴: اسلامى تہذيب و تمدن كى تجديد

مسلمانوں كى بيدارى اور اٹھان كے سايہ ميں اسلامى تہذيب و تمدن بھى تجديد كے مراحل سے گزر رہاہے اسلامى ثقافت كے احياء اور تجديد سے فراعين عصر كے فريب آميز سحر كى قلعى كھل گئي ہے ،آج درآمد شدہ مغربى اقدار نہ صرف اہل علم و دانش بلكہ كئي ملين مسلمان عوام كے سامنے اپنا رنگ و روپ كھوچكى ہيں اور اسلامى تہذيب كے علمدار مغربى ثقافت كے حامى مفكرين كے سامنے مردانہ وار كھڑے ہوكر اور زرخيز اسلامى ثقافت اور اعتقادات پر تكيہ كرتے ہوئے ايك عظيم ثقافت كى تشكيل كا سبب بنے ہيں ، شاہكار قيمتى تاليفات مثلاً ''بيسويں صدى كى جہالت ''(محمد قطب)، ''اسلامى قلمرو ميں زمانہ مستقبل ''(سيد قطب) ''ہمارا فلسفہ اور ہمارا اقتصاد ''(آيت اللہ سيد محمد باقر صدر) ''ماذا خسر العالم بالانحطاط المسلمين ''(ابوالحسن ندوي) ''اصول فلسفہ و روش رئاليزم ''(علامہ طباطبائي اور آيت اللہ مطہري) يہ سب اسلامى كلچر كى تشكيل اور تجديد كيلئے عالم اسلام كے اہل علم و دانش كى نظرياتى كوششوں كے نمونے ہيں ،بسا اوقات بعض اسلامى اقوام كى ترقى يافتہ

۱۳

ٹيكنالوجى كے حصول كے ليے كى گئي كوششيں مغربى استعمار كو وحشت ميں ڈال ديتى ہيں اور يہ چيز تمدن اسلامى كے دوبارہ طلوع كى حكايت كر رہى ہے_

تہذيب و تمدن كے اتار چڑھاؤ پر مشتمل تاريخى سفر كے مطالعہ سے يہ نتيجہ ليا جا سكتا ہے كہ ايك دفعہ پھر وہ زمانہ زيادہ دور نہيں كہ ہم مسلمانوں اور اسلامى تہذيب و تمدن كے عروج اور عظمت كا دوبارہ مشاہدہ كريں گے ان شاء اللہ_

ضرورى سمجھتاہوں كہ ان تمام احباب كا شكريہ ادا كروں كہ جنہوں نے اس كتاب كى تاليف كے مختلف مراحل ميں تعاون فرمايا اور اسى طرح اس حوالے سے ديگر خدمات انجام دينے والے تمام حضرات كا تہہ دل سے شكر گزار ہوں اورخداوند كريم كى بارگاہ سے سب كيلئے زيادہ سے زيادہ تو فيقات كا طالب ہوں ،مجھے اميد ہے كہ صاحب نظر حضرات ، اساتيد اور اس مضمون كے طلباء اس كتاب ميں كو ئي كمى بيشى دور كرنے اور كسى غلطى كى درستگى كے حوالے سے ہمارى مدد فرمائيں گے_و من اللہ التوفيق و عليہ التكلان

على اكبر ولايتي

خزان ۱۳۸۳ ہجرى شمسى (ايرانى تقويم كے مطابق)

۱۴

پہلا باب:

كلى مباحث

۱۵

۱_ علمى بنياد اور تاريخى سرچشمے

تقريبا سنہ ۶۱۰عيسوى ميں پيغمبر اسلام (ص) كى دعوت كے ساتھ سرزمين مكہ ميں دين اسلام ظہور پذير ہوا، دين اسلام كى تاريخى شناخت كو اس زمانہ سے دومر حلوں ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے:۱_ دعوت كا مرحلہ،۲_ پيغمبر اسلامى (ع) كى يثرب كى طرف ہجرت اور اسلامى حكومت كى تشكيل كا مرحلہ ، اسلامى حكومت كى تشكيل كے بعد اسلام ايك وسيع نشر و اشاعت كے دور ميں داخل ہوا_

اسلام كا اس زمانے كى ديگر تہذيبوں يعنى ايران، روم اور مصر كا ہمسايہ بننے سے ان تہذيبوں سے روابط كے اسباب فراہم ہوے ،پيغمبر اسلام (ص) نے صلح حديبيہ كے بعد (جسكى وجہ سے جزيرہ عرب ميں اسلام كى حاكميت مستحكم ہوئي) ہمسايہ ممالك كے حكام كو خطوط بھيج كر مسلمانوں كے ان سے روابط كے اسباب فراہم كيے، يہ صورت حال پيغمبر اكرم (ص) كے بعد خلفاء راشدين كے دور ، بنى اميہ اور بنى عباس كے دور ميں بھى بحال رہى ،بنى عباس كے دوركے وسط ميں اسلام تين براعظموں ايشياء ، آفريقا اور يورپ تك پھيل گيا، اس دورانيہ ميں دين اسلام كى جغرافيائي حدود مشرق ميں آج كے چين كى سرحد تك ، مغرب ميں آج كے مراكش تك كہ جو اس زمانے كے مغربى افريقا كى آخرى آبادى تھى ،شمال ميں تمام ماوراء النہر كا علاقہ اور جنوبى سائبريا، ايشيا صغير كا وسيع حصہ، بحيرہ روم كا تمام مشرقى ساحل اور پيرنيز pyrenees كى پہاڑ ياں جو كہ اسپين اور فرانس ميں حد فاصل ہيں اور جنوب ميں مجمع الجزائر يعنى جنوبى شرقى ايشيا، جزيرہ جافنا جو كہ سرى لنكا ميں ہے اورصحراے افريقا كے جنوب تك پھيلى گئي تھيں _

اس وسيع و عريض سرزمين ميں جو گوناگون اقوام اور زبانوں كى حامل تھى اسلام كے پھيلنے سے لوگوں كے

۱۶

در ميان الفت اور وحدت پيدا ہوگئي جبكہ اسلام كے ظہور سے پہلے انكى زندگى كے روز و شب لا حاصل جنگ و جدال ميں گزرتے تھے_(۱) دين اسلام نے اسلامى تمدن اورديگر گذشتہ تہذيبوں اور ثقافتوں ميں آراء وافكار كے تبادلہ كے حوالے سے اسباب فراہم كيے، اسكے بعد والے مرحلہ ميں قرآن مجيد كو محور قرار ديتے ہوئے اوران علاقوں ميں اسلام سے پہلے كے علوم سے بہترين فائدہ اٹھاتے ہوئے '' علوم اسلامي'' وجود ميں لائے گئے، اس كام كا آغاز دوسرى صدى ہجرى كے آخر ميں شروع ہوا اور اسكا عروج چھٹى صدى ميں تھا،'' ادب '' كا غنچہ چوتھى صدى ميں كھلا اور پانچويں ،چھٹى اور ساتويں ہجرى ميں اپنے عروج پر پہنچ گيا_

'' عرفان'' نظرى اور عملى كاپھول چو تھى سے چھٹى صدى تك كھلا اور نويں صدى تك اسكى خوشبو جارى رہي، ''آرٹ'' كو پانچويں اور چھٹى صدى ميں رونق ملى اور اس نے دسويں اور گيا رھويں صدى تك اپنا عروج كا زمانہ گزارا(۱) دسويں صدى كے آخر اور گيا رھويں صدى كے اوائل ميں اسلامى تہذيب و تمدن كى بلندى اورعظمت متزلزل ہوگئي او ر يہ تمدن زوال پذير ہونے لگا، يہ انحطام اور تنزلى داخلى اور خارجى دونوں اسباب كى بناء پر تھى ، اكثريت كى رائے كے مطابق ممكن تھا اس تنزلى كى بناء پر اسلامى تہذيب كى بنياديں ختم ہوجاتيں اور بالاخر اسلامى معاشروں ميں دين كا رنگ پھيكا پڑجاتا، ليكن اسلامى بيدارى كى تحريك سے معلوم ہوا كہ يہ انحطاط و تنزلى كا زمانہ اسلامى تہذيب و تمدن كے سفر ميں ايك عارضى وقفہ تھا_

اسلامى بيدارى كہ جو يورپ كے نئے نظريات كے مقابلے ميں اسلامى مفكرين كے اضطراب كا نتيجہ تھى در اصل سيد جمال الدين افغانى ، شيخ محمد عبدہ، عبدالرحمان كواكبى اور بہت سى ديگر شخصيات كے نظريات اور دعوت اسلامى كى بناء پر وجود ميں آئي ، قرآنى مفاہيم كى حفاظت اور پاسدارى كى طرف دوبارہ دعوت سے ايك ننے عصر دعوت كا آغاز ہوا ، اس دورانيہ كے بعد ہم اسلامى حكومت كى تشكيل كيلئے بہت سى تحريكوں كا سامنا كرتے ہيں كہ سب كا ہدف كمال مطلق تك رسائي يعنى مدينہ ميں زمانہ پيغمبر (ص) كے كامل نمونے تك پہنچنا تھا_

____________________

۱) اس حوالے سے مزيد معلومات كيلئے رجوع فرمائيں : دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج ۸، ذيل '' اسلام''_

۲) تاريخ تمدن اسلام مؤلف جرجى زيدان ، ترجمہ على جواہر كلام چاپ امير كبير ، تہران ، ص ۱۵۰ _ ۱۰۰ و ص ۵۵۹_ ۵۵۱_

۱۷

بالآخريہ تحريكيں دوسرے اسباب كى معيت ميں ايران ميں امام خمينى كى قيادت ميں اسلامى حكومت كى تشكيل كا باعث بنيں ،ليكن يہ تحريك صرف ايك مسلم ملك يعنى ايران تك محدود نہيں رہى بلكہ ہم ديگر اسلامى ممالك ميں بھى اسلامى تحريكوں كے ظہور كا مشاہدہ كر رہے ہيں كہ جو اسلامى اقدار كا احياء اور شريعت محمدي(ص) كے اجراء جيسے مقاصد كو پيش نظر ركھتى ہيں _

تعريفيں

اسلامى تہذيب و تمدن پر بحث كے ليے ضرورى ہے كہ اس موضوع كے اہم مفاہيم كى تعريف كريں ، ان مفاہيم ميں سب سے اہم '' تمدن '' ہے_

سيموئل ہينٹنگٹن كى نظر ميں تمدن سے مراد اعلى سطح كى ثقافتى گروہ بندى اور ثقافتى تشخص كا وسيع ترين درجہ ہے_(۱) ہنرى لوكس تمدن كو باہمى پيوستہ كاايك ايسا مظہر سمجھتاہے جو اجتماعي، اقتصادي، سياسى مسائل حتى آرٹ اور ادب كو بھى سموئے ہوئے ہے_(۲)

ديگر مغربى دانشور حضرات لفظ تمدن كو اجتماعى تغيركے معين مراحل كى وضاحت كيلئے استعمال كرتے ہيں ، جبكہ اسكے مقابلے ميں تمدن كو دانشور طبقہ يعنى معاشرے كا وہ ممتاز طبقہ جو كہ ذھانت، فطانت اور جدت كى خصوصيات كا حامل ہوتاہے معاشرے كى تدريجى ترقى اور تغيرات كے سايہ ميں غير معمولى دريافت سمجھتاہے_(۲)

الفرڈويبركى تعريف بھى ويل ڈيورنٹ كے مشابہہ ہے ، ويبر تمدن كو علم و ٹيكنالوجى كا ثمر سمجھتاہے، ڈيورنٹ كے خيال ميں جب كوئي عمومى ثقافت ترقى كے كسى درجہ تك پہنچتى ہے تو زراعت كى فكر پيدا ہوتى ہے ،يہ نظريہ بھى وبر كى رائے كى مانند تمدن كے لغوى معنى سے ليا گيا ہے كہ تمدن سے مراد شہرنشينى يعنى شہرى زندگى ہے_

____________________

۱) ساموئل ھانتينگتون '' نظريہ برخورد تمدنہا'' ترجمہ مجتبى اميري، تہران، ص ۴۷_

۲) ہنرى لوكاس'' تاريخ تمدن '' ترجمہ عبدالحسين آذرنگ ،تہران ، ج ۱ ، ص ۷ و ۱۶_

۳)منير البعلبكى '' موسوعة المورد'' ، ج ۳، ۲۸_

۱۸

زراعت كى طرف توجہ كے بعد تجارتى مبادلات اور شہروں كے باہمى تعلقات سے لوگوں كى شعورى سطح بلند ہوتى ہے، اسى بناء پران ميں اخلاقى خوبياں اور نيك خصلتيں پيدا ہوتى ہيں جو بھى پسنديدہ اخلاق اور حسن معاشرت كا حامل ہو اسے مہذب سمجھا جاتا ہے_

مشرقى دانشور حضرات نے بھى اہل مغرب كى مانند لفظ تمدن كى خاص تعريف اور مفہوم پيش كيا ہے :

ابن خلدون كے مطابق انسان كا اجتماعى ہونا تمدن ہے ،ايك اور دانشور كے نزديك ان تمام اخلاقى اور مادى اسباب كے مجموعہ كو تمدن كہتے ہيں كہ جو معاشرے كو موقع فراہم كرتا ہے كہ وہ اپنے تمام افراد ميں ہر فرد سے زندگى كے تمام مراحل ميں بچپن سے بڑھاپے تك كمال و رشد تك پہنچتے ميں ضرورى تعاون كرے_(۱)

مجموعى طور پر اس بنيادى مفہوم كى يوں تعريف كى جاسكتى ہے كہ تہذيب يا تمدن ، ثقافت كى ترقى و پيش رفت اور اجتماعى نظم كى قبوليت كا نتيجہ ہے يعنى صحرانشينى كے مرحلہ سے نكلنا اور اجتماعى امور كے منظم ہونے كى شاہراہ پرقدم ركھنا_

ايك اور مفہوم كہ جسكى يہاں تعريف ضرورى ہے '' ثقافت ''كا مفہوم ہے ، كلچر يا ثقافت اقوام كى ان تمام روايات ، عقائد ، آداب اور انفرادى ياخاندانى رہن سہن كے مجموعہ كا نام ہے كہ جسكى پابندى سے وہ ديگر اقوام اور قبائل سے منفرد ہو جاتے ہيں ،دوسرے الفاظ ميں ثقافت كسى شخص يا گروہ كے خاص عقائد كے مجموعہ كا نام ہے چونكہ عقايد عام طور پر ذہنى ہوتے ہيں لہذا ثقافت بھى عينى اور خارجى پہلو كى حامل نہيں ہے_

تہذيب كا ثقافت سے ربط

تہذيب اور ثقافت كے آپس ميں تعلق كے باوجود يہ ايك دوسرے كيلئے لازم و مُلزوم نہيں ہيں كيونكہ ممكن ہے كہ كسى ثقافت كى بلندى كے باعث كوئي معاشرہ مہذب اور شہريت كا حامل ہوجائے اسى طرح ممكن ہے

____________________

۱) ويل دورانت ، تاريخ تمدن ، مشرق زمين ، گہوارہ تمدن ،تہران ، ج ۱ ، ص ۵_

۱۹

ايك معاشرہ ايك دوسرے تمدن كى پيروى ميں ترقى كرتے ہوئے ايسے تمدن كى صورت حال ميں سامنے آئے جو كہ اصلى تمدن (جس كى پيروى كى تھي) سے مختلف ہو ہو، دوسرى طرف يہ نكتہ بھى اہم ہے كہ تمدن اور شہريت كے بغير بھى ايك معاشرہ ثقافت كا حامل ہو سكتا ہے، آسٹريليا اور افريقہ كے اصلى باشندے كسى تمدن كے حامل نہ تھے ليكن عقائد و آداب اور رسوم كے مجموعہ كى شكل ميں مقامى ثقافت ركھتے تھے ،لہذا انسانى گروہ اگر چہ ابتدائي شكل ميں كيوں نہ ہوں اپنى خاص ثقافت كے حامل ہيں (۱)

تہذيبوں كى پيدايش اور ترقى ميں مؤثر اسباب

تہذيبوں كى پيدايش اور ترقى ميں متعدد اسباب كا كردار ہے :ايك سبب امن اور سكون كا ہونا ہے ، يعنى اضطراب اور پريشانيوں كا كم ہونا ہے ، دوسرا سبب جو كہ در حقيقت ہر تہذيب كى اصلى روح ہے قومى غرور اور يكجہتى ہے يا ابن خلدون كى تعبير كے مطابق عصبيت وقوميت ہے_

اسكے بعد والا سبب اصول تعاون اور امداد ہے تا كہ ہم فكر گروہ تعاون اور اخلاقيات كى بنياد پر تمدن كى اساس قائم كريں ، ان اسباب كے ساتھ ساتھ '' اخلاق'' سے غافل نہيں ہونا چاہيے نيزتحمل ، بردبارى اور صبر اسى طرح وحدت و اتفاق اور دين كو قائم ركھنا سب تمدن سازى كے ديگر اسباب ميں شمار ہوتے ہيں _

ان سات بنيادى اجزا كے ساتھ ساتھ دو ديگر اسباب كا ذكر بھى ہونا چاہيے :

۱) مناسب فلاح و بہبود_۲) اقتصادى و معاشرتى دباؤ_

پہلا سبب كسى بھى معاشرہ ميں ايك تمدن كى بنياد بن سكتا ہے اور اسكو پانے سے (تمدن كى تشكيل كيلئے )تمام ضرورى توانائياں اور معاشرے ميں پائي جانے والى صلاحيتيں واضح ہو جاتى ہيں _اور دوسرے سبب كى خصوصيت يہ ہے كہ وہ معاشرہ كى ضرورتوں كو عياں كر ديتا ہے اور افراد كو ايك محور كے گرد جمع كر ديتا ہے، اسطرح سے تمدن كى پيدايش يا اسكى ترقى و پيش رفت كے حالات فراہم ہو جاتے ہيں _(۲)

____________________

۱) محمد تقى جعفري، فرہنگ پيرو، فرہنگ پيشرو ، تہران ، ص ۱۱۷۳_

۲) ابولاكوست ، جہان بينى ابن خلدون ، ترجمہ مظفر مہدى ، تہران ، ص ۳۸ _ ۳۳_

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

کی اس شاہی نسل سے تھا جس کا مورث اعلی منوچہر ہے لیکن حضرت سلمان نے اس بات کو اپنے لئے باعث فخر نہ سمجھا ۔نسبی کرید کو پسند نہ فرماتے تھے ۔ایک مرتبہ کسی نے ان کے نسب سے متعلق سوال کیا تو جواب دیا کہ میں مسلمان فرزند اسلام ہوں ۔میں ایک غلام تھا اللہ نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ آزاد کرایا میں بے حیثییت شخص تھا اللہ نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ عزت بخشی۔میں ایک فقیر تھا خدا نے مجھے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ غنی کردیا اور یہی میرا حسب نسب ہے ۔صاحب طبقات کے بیان کے مطابق ابن عباس کی روایت ہے کہ حضرت سلمان نے خود پتہ دیا کہ وہ اصفہان کے گاؤں "حئ " کے رہنے والے تھے ۔آپ کے والد ایک زمیندار تھے اور اپنے فرزند سے بہت محبت رکھتے تھے اور ان کو جدا نہ کرتے تھے ان کو گھر میں اس طرح قید رکھا تھا جس طرح لڑکی کو قید کیا جاتا ہے ۔آپ کے والدین مجوس پر تھے اور ان کی یہ خواہش تھی کہ سلمان بالغ ہونے سے قبل اپنے دین کی معرفت حاصل کرے لیکن سلمان کی طبیعت فطرتا مشاہدات قدرت پر غور وفکر کرنے پر مائل تھی اور دین مجوس کے نقائص اکثر ان کے دماغ میں تجسس پیدا کرتے تھے گھر اپنے والد کے احترام میں زبان بند رکھتے تھے ایک دن بوذ خشان اپنے ایک مکان کی بنیاد مرمت کرنے کی غرض سے گھر سے باہر گئے اور سلمان کو اپنی جگہ کھیتوں کے کا م پر روانہ کیا ۔راستے میں آپ کو ایک گرجا دکھائی دیا جہاں لوگ عبادت کررہے تھے اور توحید خداوندی اور رسالت عیسی علیہ السلام علیہ السلام کا ورد کررہے تھے ۔عیسا ئیوں کی یہ عبادت ان کو پسند آئی تحقیق

۱۴۱

کاشوق ہوا عیسائیوں سے مذہبی معلومات کی ۔روایت میں ہے کہ وہ عیسا ئی صحیح دین پر تھے ۔ وہ توحید خداوندی رسالت عیسی علیہ السلام کے اقرار کے ساتھ یہ بھی شہادت دیتے تھے کہ تحقیق محمد اللہ کے حبیب ہیں ۔ مسلمان کے خدا ،عیسی علیہ السلام او رمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا ۔ انھوں نے کہا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی سارے جہاں کا خالق وپروردگار ہے ۔اور عیسی بن مریم علیھما السلام اللہ کے برگزیدہ رسول ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ رسول مبشر ہے جو رسالت ونبوت کو ختم کرے گا ۔حضرت سلمان پر ان باتوں کا اثر ہوا اور تین دن متواتر معلومات میں اضافہ کیا ادھر ان کے والد ان کو تلاش کرتے تھے ۔سلمان پر جو نظر پڑی تو پکڑ لیا اور پوچھا کہ کہاں تھے ؟ آپ نے صاف صاف بتا دیا ۔ باپ نے بھانپ لیا کہ لڑکا اپنے آبائی دین سے باغی ہے ۔لہذا تھوڑا تشدد کیا اور انھیں بیڑیاں پہنا کر قید کرلیا ۔مگر تلاش حق کا جذبہ مضبوط ہوگیا ۔بود خشان کا خیال تھا یہ سختی بیٹے کو نئے عقیدے سے دستبردار کردے گی لیکن انھوں نے آزمایا کہ اذیت کی زیادتی ان کے عقیدے کو مزید سخت کررہی ہے لہذا آپ پر اور تشدد کیاجانے لگا ۔حتی کہ کوڑے تک لگائے گئے اپنے والد کے اس ظالمانہ رویہ سے عاجز آگئے ۔آدھی رات کو انھوں نے اپنے خدا واحد کی بارگاہ میں م اپنی حالت زار خضوع وخشوع سے عرض کی اور دعا مانگی کہ "اے خداوند! میرے دل کو شرک وبت پرستی کی کدورت سے پاک رکھ ۔میں تجھے تیرے حبیب کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے اس حبس سے رہا کر ۔ اپنے حبیب تک پہنچادے " خلوص دل سے دعا فرمائی تھی مستجاب ہوئی ۔ایک غیبی ندا آئی کہ روزبہ اٹھ

۱۴۲

اور قید خانہ سے نکل جا۔ آپ نے تعمیل کی اور اسی گرجا میں آئے ۔ایک عمر رسیدہ راہب چرچ سے باہر آیا اور اس نے خود ہی پوچھا کہ کیا تم ہی روزبہ ہو ؟آپ نے اثبات میں جواب دیا اور وہ بزرگ ان کو گرجا کے اندر لےگئے ۔اگر چہ سلمان دین مجوس کو شروع ہی سے ناقص سمجھتے تھے مگر ڈانوا ڈول تھے ۔اب عیسائیت کی پناہ میں انھیں کچھ قرار محسوس ہوا۔ آپ دن رات عیسائی علماء کی خدمت کرتے اور زہد وتقوی کی تعلیم دل لگا کرحاصل کرتے ۔آپ نے جس بزرگ کو روحانی سرپرست پسند کیا تھا وہ بھی ان کو بہت قریب رکھتے تھے ۔ان کی ذہانت وخدمت کے باعث جب اس کاآخری وقت آیا تو اس نے اپنے شاگرد رشید حضرت سلمان کو بلاکر کہا کہ موت برحق ہے اب میرا انتقال قریب ہے ۔حضرت سلمان نے عاجزانہ عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا لائحہ عمل کی تعلیم فرما جائیں جو مستقبل میں میری رہبری کے لئے مشعل راہ ہو ۔اس بزرگ نے نصیحت کی کہ تم میری ایک لوح لے کر انطاکیہ چلے جاؤ وہاں ایک راہب ہے وہ عموما شہر سے باہر رہتا ہے اس کو تلاش کرو اسے یہ لوح دے دینا اور اس کی خدمت میں میرا سلام پہنچا کر اس کے حلقہ ارادت میں شامل ہوجانا ۔اور جو وہ تمھیں حکم دیے اس کی تعمیل کرنا ۔اس نصیحت کے بعد راہب کی روح پرواز کرگئی اور سلمان انطاکیہ روانہ ہوگئے ۔

جب سلمان انطاکیہ پہنچے تو انھوں نے تلاش کیا کہ شہر کے باہر ایک "دیر" ہے اس کے دروازے پر ایک بوڑھا بیٹھا ہے شکل ولباس سے راہب دکھائی دیتا ہے ۔سلمان نے قریب ہو کر باآواز بلند فرمایا "لا الہ الا اللہ عیسی روح اللہ ومحمد حبیب اللہ"یا یہ کہا

۱۴۳

"اشهد ان لا اله الا الله و ان عیسی روح الله و ان محمد حبیب الله " جب راہب نے سنا تو چونک کر دریافت کیا کہ تم کون ہو ۔سلمان نے نزدیک جک کر لوح اس راہب کے سپرد کردی۔لوح لینے پر راہب نے ان کو اپنے پاس ٹھہرالیا ۔ یہ بزرگ راہب تارک الدنیا اور عبادت گزار بندہ خدا تھا ۔دن رات عبادت الہی یمں مشغول رہتا تھا لہذا سلمان کو اس سے محبت ہوگئی ۔اور وہ ان کی خدمت کرنے لگے ۔ اور ساتھ ساتھ علمی و روحانی پیاس بھی بجھاتے رہے ۔سلمان اس بزرگ سے علمی اور عملی استفادہ حاصل کرنے کا کوئی موقعہ بھی ضائع نہ جانے دیتے تھے یہاں تک کہ اس راہب کا وقت آخر قریب ہوا۔اور اس نے سلمان کو نصیحت کی اب اس جگہ عیسائی کوئی نہیں رہا ہے تم یہ لوح لیکر سکندریہ کے راہب کے پاچلے جانا اور اس کی خدمت میں مشغول ہوجانا ۔چنانچہ اس راہب کی وفات کے بعد حضرت سلمان سکندریہ آئے اور اس راہب کی خدمت میں کافی عرصہ گزارا ۔مورخین کے بیان کے مطابق اسی طرح راہب در راہب حضرت سلمان جاتے رہے اور لوح منتقل ہوتی رہی ۔یہاں تک کہ آخری راہب تک پہنچے ۔اوراس کے آخری وقت پر اس سے التجا کی میں بہت دروازوں پر جاچکا ہوں اب تو آپ مجھے کسی ایسے کے ہاں روانہ کریں جس کے بعد کسی او رکی حاجت نہ ہو ۔راہیب نے کہا بس اب میری نظر میں کوئی ایسا شخص باقی نہیں ہے جس کے پاس تمھیں روانہ کروں ۔لہذا تمھیں مشورہ دیتا ہوں کہ محمد بن عبد اللہ بن

۱۴۴

عبد المطلب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور کا وقت قریب ہے وہ ریگستان میں ظہور کرے گا اور کھجوروں والی زمین کی ہجرت کرےگا یہ وہ ہی آخری رسول ہے جس کی خبر وبشارت بنی اسرائیل کے نبیوں نے دی ہے ۔اور اس کاذکر کتابوں میں موجود ہے اس کی علامتیں یہ ہیں کہ جو ہدیہ کو قبول کرے گا اور صدقہ کو رد کردے گا ۔ اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی تم اس کی خدمت میں حاضر ہوکریہ لوح اسے پیش کردینا ۔

چنانچہ اس راہب کی وفات کے بعد حضرت سلمان اس نبی مبشر کی تلاش میں ریگستانوں کی خاک چھانتے رہے ۔یہاں تک کہ فقر وفاقے کی نوبت آگئی کہ تنگ آکر کچھ آدمیوں کے ایک مجمع میں اعلان کیا کہ جو شخص بھی میرے اخراجات کو برداشت کرے گا میں اس کی غلامی قبول کرلوں گا ۔ مدینہ میں ایک متمول زمیندار اس بات پر آمادہ ہوگیا مگر اس نے شرط عائد کی میں تمھیں مدینہ لے جاؤں گا اور تم وہاں میرے غلام بنکر میری خدمت کروگے عشق رسول کے سامنے یہ سود ا سلمان کوسستا نظر آیا ۔فورا آمادہ ہوگئے ۔جب دوران سفر لوگوں کو سلمان کے عقیدے اور مقصد سفر کی معلومات ہوئیں تو انھوں نے ان کا تمسخر اڑایا اور تکالیف پہنچا ئیں ۔مگر آتش عشق بجھنے کی بجائے بھڑکتی رہی ۔

سلمان مدینہ پہنچ گئے لیکن انھیں اپنے آقا کی خدمت سے اتنی فرصت وفراغت میسر نہ آسکی وہ خود اس رسول کا پتہ چلا تے ۔ایک دن وہ باغ میں کوئی خدمت انجام دے رہے تھے کہ

۱۴۵

کچھ لوگ باغ کے چشمے کے قریب آکر بیٹھ گئے چونکہ سلمان طبعا مہمان نواز اور تواضع کش تھے لہذا ایک تھا ل میں کچھ کھجوریں لیکر ان کے پاس پہنچے اور عیسائی طریقہ پر سلام کیا اور دعوت طعام کی خواہش فرمائی ۔ انھوں نے سلمان کی دعوت کو قبول کیا اور کھانا شروع کیا مگر ان میں سے ایک صاحب نے ان خرموں کو ہاتھ نہ لگایا ۔سلمان نے وجہ دریافت کی تو جواب پایا کہ "صدقہ مجھ پر اور میرے اہلبیت پر حرام ہے " سلمان نے پوچھا تم کون ہو " جواب دیا میں اللہ کا رسول ہوں " یہ سنکر سلمان واپس ہوئے اور خرمہ کا ایک دوسرا طبق لے کرآئے اور رسول کی خدمت میں ہدیہ کیا ۔آپ نے اس میں تناول فرمایا ۔سلمان کی دلی مراد پوری ہوئی۔پروانہ وار شمع رسالت کا طواف کرتے رہے ۔اور پشت مبارک پر ثبت مہر نبوت کی زیارت کاشرف پاتے ہی قدموں میں گرگئے اور فرمایا " اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد انک رسول اللہ " میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں اس کے بعد حضرت سلمان نے راہب کی دی ہوئی لوح رسول خدا کے سپرد کردی ۔حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلمان کے آقا کے پاس تشریف لےگئے ۔اور سلمان کو خرید کر آزاد کردیا ۔اور ارشاد فرمایا کہ تم "سلمان الخیر "ہو۔

حضرت سلمان کے ابتدا ئی حالات کو کئی طریقوں اور اختلافات سےبیان کیا گیا ہے تاہم ہمارے لئے سرکار خاتم النبین صادق وامین رسول کی زبان وحی بیان کا یہ ارشاد کافی ہے کہ حضور نے فرمایا ۔

"سلمان مجوسی نہیں تھے بلکہ وہ شرک کا اظہار کرتے تھے اور ایمان کو دل میں پوشیدہ کھے ہوئے تھے "

۱۴۶

حضور کی یہ شہادت سلمان کے ابتدائی حالات ایمان کی بحث کو ختم کردینے کے لئے کافی ہے ۔

روایات امامیہ سےیہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حضرت سلمان فارسی کو حضرت عیسی علیہ السلام کے "وصی" ہونے کا روحانی اعزاز حاصل تھا ۔شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت سلمان نے اپنے گھر کی چھت میں ایک تحریر لٹکی ہوئی دیکھی اپنی والدہ سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم بھی جب گھر واپس آئے تو اسے ایسے ہی لٹکا پایا ہے ۔تم اس کو مت چھونا ورنہ تمھارے والد تمھیں سزادیں گے ۔حضرت سلمان اس وقت خاموش ہورہے مگر رات کو جب تمام گھر والے سوگئے تو آپ نے اٹھ کر اس کامطالعہ فرمالیا لکھاتھا کہ ۔

"بسم اللہ الرحمان الرحیم ۔

یہ اللہ کاعہد ہے ۔آدم سے کہ وہ ان کے صلب سے ایک نبی خلق کرے گا جس کا نام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوگا وہ اخلاقی بلندیوں کو حاصل کرنے کا حکم دےگا ۔ اور اصنام کی پر ستش سے منع کرے گا ۔ اے روزبہ ! تم عیسی ابن مریم کے وصی ہو اس لئے ایمان لاؤ اور مجوسیت سے دور رہو ۔اور اس سے بے زاری کا اعلان کرو۔"

اما م جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ عیسی او محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان پانچسو سال کا عرصہ ہے جس میں ڈھائی سو سال ایسے ہیں جن میں نہ تو کوئی نبی تھا اور نہ ظاہری عالم ۔راوی نے عرض کیا پھر لوگ کس دین پر تھے ؟ فرمایا وہ دین عیسوی پر تھے ۔ پوچھا وہ لوگ کیا تھے ؟ فرمایا وہ مومن تھے پھر ارشاد کیا کہ زمین اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتی جب تک اس میں عالم موجود نہ ہو ۔ شیخ صدوق فرماتے ہیں کہ جو لوگ حجت خدا کی تلاش میں جگہ بجگہ منتقل ہوتے رہے ان میں سلمان بھی ہیں ۔وہ ایک عالم سے دوسرے عالم اور ایک فقیہ سے دوسرے فقیہ تک پہنچے

۱۴۷

رہے اور اسرار واخبار میں تدبر کرتے رہے اور حضور کے ظہور کے منتظر رہے ۔ پھر لکھا ہے کہ جناب سلمان حضرت عیسی کے وصی کے وصی تھے اسی طرح ابن طاؤس فرماتے ہیں کہ سلمان حضرت عیسی کے آخری چند اوصیاء میں سے تھے ۔ اس کے ثبوت میں ملا حسین نوری طبرسی نے ایک دلیل پیش کی ہے جو قابل غور ہے ، سلمان کی وفات کے بعد سید الاوصیاء امیر المومنین علیہ السلام نے انھیں غسل دیا حالانکہ بظاہر سلمان مدائن میں تھے اور جناب امیر مدینہ میں تھے کرامت کے ذریعہ اتنی دور تشریف لے جانے کی غالبا وجہ یہی تھی کہ وصی کو نبی یا وصی غسل دے سکتا ہے ۔پھر لوح کا مختلف وسائل کے ذریعے آنحضرت تک پہنچا نا بھی اس بات کا امکانی ثبوت ہے ۔

بہر حال قبل از اسلام کے حالات سے سلمان کو ایک مسلم دینی حیثیت ضرور حاصل تھی اور اس منزل تک پہنچنے کے لئے ان کو ایک طرف شدائد ومصائب کا مقابلہ کرنا پڑا تو دوسری طرف سنگین دشوار یوں سے دوچار ہوئے ۔یہ تمام آلام اور ناگواریاں انتہائی صبر وتحمل سے برداشت کرنا حضرت سلمان کے جذبہ حب دین ومعرفت الہی کے ذوق اور شوق زیارت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاآئنہ دار ہے ۔حقیقی دین عیسوی سے وابستہ علماء کی صحبت او رفیض ربّانی نے یوں تو حضرت سلمان کو سونا بنا دیا تھا مگر جب آپ کو کائنات کے سب سے بڑے ہادی رحمۃ العالمین کا سایہ رحمت وشفقت نصیب ہوا تو آپ پارس ہوگئے ۔سرور کائنات کی صحبت کا رنگ ایسا پکڑا کہ صحابی سے "منّا اهلبیت " قرار پائے ۔آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر قول وعمل کو اپنی زندگی کا جزو لا ینفک بنائے رکھا ۔سلمان کا منشور زندگی صرف سنت رسول کی پیروی ۔آل رسول (ع) کی محبت واتباع اور کتاب الہی کی مطابقت تھی ۔ اسی وجہ سے

۱۴۸

جو فضائل ان کو نصیب ہوئے کسی دوسرے صحابی کو حاصل نہ ہوسکے ۔حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا کہ میں سلمان کے بارے میں کیا کہوں وہ ہماری طینت سے خلق ہوئے ہیں جس کی روح ہماری روح سے ہم آہنگ ہے ۔خداوند تعالی نے سلمان کو علوم اول وآخر اور ظاہر وباطن سے سرفراز کیا ہے ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سلمان مجلس رسول مقبولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں حاضر تھے کہ اچانک ایک عربی آیا ۔ اس نے حضرت سلمان کا ہاتھے پکڑا اور انھیں اٹھا کر ان کی جگہ پر بیٹھ گیا آنحضرت یہ منظر دیکھکر اتنے آزردہ خاطر ہوئے کہ چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہوگیا اور پیشانی اقدس پر قطرات عرق نمودار ہوئے اور اس حالت میں ارشاد فرمایا کہ" تم اس شخص کو مجھ سے دور کررہے ہو جسے خدا دوست رکھتا ہے تم اس شخص کو مجھ سے دور کررہے ہو جسے میں دوست رکھتا ہوں تو اس شخص کو مجھ سے دور کر رہے ہو جس کی منزلت یہ کہ جب بھی جبرئیل مجھ پر نازل ہوتا ہے تو خدا کا سلام اس کے لئے لاتا ہے ۔یقینا سلمان مجھ سے ہے ۔خبردار! تم سلمان کے بارے میں غلط خیال نہ قائم کرو ۔خدا نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں سلمان کو لوگوں کی اموات اور بلاوؤں اور ان کے نسب ناموں کا علم دے دوں ۔اور انھیں ان چیزوں سے آگاہ کردوں جو حق وباطل کو جدا کرنے والی ہیں "۔

وہ عرب (ممکن ہے کہ وہ صحابی حضرت عمر ہو) صحابی جس نے حضرت سلمان کو اپنے زعم میں سمجھ کر اٹھایا تھا ۔ارشاد ات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سنکر گھبراگیا اور عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )میں یہ گمان بھی نہ کرسکتا تھا کہ سلمان ان مراتب جلیلہ پر فائز ہے ۔

۱۴۹

کیا وہ مجوسی نہیں جو بعد میں مسلمان ہوا ۔ حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " میں تو خدا کی نظر میں سلمان کے درجے کوبیان کررہا ہوں اور تم خیال کررہے ہوکہ وہ مجوسی تھا ۔وہ (ہرگز ) مجوسی نہ تھا ۔ صرف اس کا اظہار کرتا تھا (تقیہ میں تھا)اور ایمان اس کے دل میں پوشیدہ تھا "

علمی مقام:-

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک دن حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا میں نے ایک روز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سلمان کے بارے میں سوال کیا حضور نے فرمایا ۔

"سلمان دریائے علم میں کوئی اس کی تھاہ تک نہیں پہنچ سکتا اس کو اول وآخر کے علم سے مخصوص کیا گیا ہے خدا اسے دشمن رکھے جو سلمان کو دشمن رکھتا ہے اور خدا اس کو دوست رکھے جو سلمان کو دوست رکھتا ہے "

اما م محمد باقر علیہ السلام نے فضیل بن یسار سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ سلمان اوّل وآخر علم کو جانتے تھے اس سے کیا مطلب ہے ؟۔فضیل نے جواب دیا یعنی وہ علم بنی اسرائیل اور علم رسالت مآب سے آگاہ ہوگئۓ تھے ۔ امام معصوم نے فرمایا نہیں یہ مطلب نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ علم پیغمبر اور امیر المومنین اور آنحضرت اور امیر المومینین کے عجیب وغریب امور سے آگاہ تھے ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام س ے مروی ہے سلمان نے علم اوّل اور علم آخر معلوم کیا اور وہ دریا علم تھے کہ جن کا علم ختم ہونے والا نہ تھا اور وہ ہم اہل بیت سے ہیں ۔ان کا علم اس درجہ پر پہنچا ہوا تھا کہ ایک روز ان کا گزر ایک شخص کی طرف ہوا جو ایک مجمع میں کھڑا تھا ۔سلمان نے اس شخص سے کہا اے بندہ خدا !پروردگار

۱۵۰

عالم سے توبہ کر اس فعل سے جو کل رات تو نے اپنے مکان میں کیا ہے یہ کہکر سلمان چلے گئے ۔لوگوں نے اس شخص کو ابھارنا چاہا کہ سلمان نے تم پر ایک بدی کی تہمت باندھی ہے اور تونے بھی اس کی تردید نہ کی اس نے جواب دیا کہ سلمان نے مجھے اس امر سے آگاہ کیا ہے جس کو میرے اور خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا ۔(علمائے کے نزدیک یہ شخص اول خلیفہ اہلسنت حضرت ابو صدیق تھے )۔

روایت ہے کہ جب سلمان ایک اونٹ کو دیکھتے (جس کو لوگ عسکر کہتے تھے اور حضرت عائشہ جمل کے دن اس پر سوار ہوکر تازیانہ مارتی تھیں )تو اس اونٹ سے اظہار نفرت کرتے تھے لوگوں نے "سلمان " سے کہا کہ اس جانور سے آپ کو کیا پرخاش ہے ۔آپ نے جواب دیا یہ جانور نہیں بلکہ عسکر پسر کنعان جنی ہے ۔ جس نے یہ صورت اختیار کی ہے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے ۔پھر اس اورنٹ کے مالک اعرابی س کہا کہ تیرا یہ اونٹ یہاں بے قدر ہے ۔اس جو "حواب" کی سرحد پر لے جا ۔اگر وہاں لے جائے گا تو جو قیمت چاہے گا مل جائے گی ۔امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ لشکر عائشہ نے اس اونٹ کو سات سو درہم میں خرید کیا ۔جبکہ وہ لوگ حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کے لئے جارہے تھے ۔یہ واقعہ بھی حضرت سلمان کے علمی کی تائید کرتا ہے کہ جنگ جمل سے برسوں قبل اس کی اطلاع کردی ۔

امیر المومنین علیہ السلام سے روایت ہے کہ سلمان فارسی حکیم لقمان کے مانند ہیں ۔

ابن بابویہ نے بسند معتبر امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک روز جناب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ تم میں کون ہے جو تمام سال روزہ رکھتا ہے ۔سلمان

۱۵۱

نے کہا میں ہوں ۔حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھرمایا تم میں کون ہے جو ہمیشہ شب بیدار رہے ؟۔ سلمان نے عرض کی میں ہوں ۔پھر حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا تم میں کون ہے جوہر روز ایک قرآن ختم کرتا ہے ۔سلمان نے کہا میں ہوں ۔یہ سنکر حضرت عمر بن خطاب کو غصہ آیا اور بولے یہ شخص فارس کا رہنے والا یہ چاہتا ہے کہ ہم قریشیوں پر فخر کرے ۔ یہ جھوٹ بولتاہے اکثر دنوں کو روزہ سے نہیں تھا ۔اکثر راتوں کو سویا کرتا ہے ۔اور اکثر دن اس نے تلاوت نہیں کی ۔ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا وہ لقمان حکیم کے مانند ومثل ہے ۔تم اس سے پوچھو وہ جواب دیں گے ۔ حضرت عمر نے پوچھا تو حضرت سلمان نے جواب دیک کہ تمام سال روزہ کے بارے میں یہ ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھتا ہوں ۔اور خدا فرماتا ہے کہ جو شخص ایک نیکی کرتا ہے تو اس کو دس گنا ثواب دیتا ہوں ۔اس لئے یہ تمام سال کے روزوں کے برابر ہوا ۔باوجود اس کے ماہ شعبان میں بھی روزے رکھتا ہوں ۔اور ماہ مبارک رمضان سے ملا دیتا ہوں ۔اور ہر رات شب بیداری کے یہ معنی ہیں کہ ہر رات با وضو سوتا ہوں ۔اور میں نے حضور سے سنا ہے کہ جو شخص باوضو سوتا ہے ایسا ہے کہ تمام رات عبادت میں بسر کی اور ہر روز ختم قرآن کے بارے میں یہ ہے کہ ہرروز میں تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ لیتا ہوں اور میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امیر المومنین (ع) سے فرمایا کہ اے علی تمھاری مثال میری امت میں "قل ھو اللہ احد " کی مثال ہے جس نے سورہ قل ھو اللہ ایک مرتبہ پڑھا ایسا ہے کہ اس نے ثلث (ایک تہائی )قرآن کی تلاوت کی جس نے دومر تبہ پڑھا تو اس نے دوتہائی کی تلاوت کی اور جس نے تین مرتبہ پڑھا تو ایسا ہے کہ اس نے قرآن ختم کرلیا ہے اور اے علی (ع) جو شخص تم کو زبان سے دوست رکھتا ہے اس کو

۱۵۲

ثلث(ایک تہائی)ایمان حاصل ہوتا ہے ۔اورجو شخص زبان اور دل سے تمھیں دوست رکھتا ہے اس کو دو ثلث ایمان مل گیا ۔اور جو شخص زبان ودل سے تم کو دوست رکھتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے تمھاری مدد کرتا ہے تو تمام ایمان اس کو حاصل ہوگیا ۔اے علی اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ۔اگر تم اہل زمین بھی اسی طرح دوست رکھتے جس طرح اہل اسمان دوست رکھتے ہیں تو خدا کسی قسم جہنم میں عذاب نہ کرتا ۔یہ سنکر حضرت عمر خاموش ہوگئے جیسے ان کے منہ میں خاک بھر گئی ہو۔

حضرت یعقوب کلینی نے امام جعفر صادق سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلمان اور ابوذر کے درمیان صیغہ اخوت پڑھا تھا اور ابوذر پر یہ شرط عائد کی تھی وہ کبھی سلمان کی مخالفت نہ کریں گے اس لئے کہ سلمان کو ان علوم میں دسترس حاصل ہے جن کا ابوذر کو علم نہیں ۔

روایت ہے کہا ایک روز حضرت ابوذر اپنے بھائی حضرت سلمان کےگھر آئے ۔سلمان کا پیالہ شوربہ اور چربی سے بھر ہوا تھا دوران گفتگو یہ پیالہ الٹا ہوگیا مگر اس میں سے کچھ نہ گرا ۔سلمان نے اسے سیدھا کیا اور پھر مصروف گفتگو ہوئے ۔ابوذر کو یہ دیکھکر حیرت ہوئی اچانک پیالہ پھر اوندھا ہوا ۔لیکن پھر شوربا وغیرہ نہ گرا۔ اس سے ابوذر کا تعجب دہشت میں تبدیل ہوگیا ۔وہان سے اٹھے اور غور کرنے لگے کہ اچانک وہاں امیر المومنین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔ جناب امیر (علیہ السلام ) نے ابوذر سے پوچھا کہ تم سلمان کے ہاں سے واپس کیوں آگئے اور گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟ ابوذر نے ماجرا بیان کیا حضرت امیر (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا "اے ابوذر ! اگر سلمان تم کو وہ امور

۱۵۳

بتادیں جو وہ جانتے ہیں تو یقینا تم کہوگے کہ سلمان کےقاتل پر خدا رحمت نہ کرے ۔اے ابوذر بے شک سلمان زمین میں خدا کی درگاہ ہیں جو ان کو پہچانے وہ مومن ہے ۔جو ان سے انکار کرے وہ کافر ہے بے شک سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں ۔

شیخ مفید لکھتے ہیں کہ جناب امیر حضرت سلمان کے پاس تشریف لائے اور ان سے فرمایا کہ اے سلمان اپنے مصاحب کے ساتھ مدارات کرو اور ان کے سامنے وہ امور ظاہر نہ کرو جس کے وہ متحمل نہیں ہوسکتے "

حضرت امام باقر سے روایت ہے کہ علی علیہ السلام محدث تھے اور سلمان محدث یعنی ملائکہ دونوں حضرات سے باتیں کرتے تھے ۔ امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ سلمان کا محدث ہونا یہ کہ ان کے امام ان سے حدیث بیان کرتے اور اپنے اسرار ان کو تعلیم کرتے تھے نہ یہ کہ براہ راست خدا کی جانب سے ان کو کلام پہنچتا تھا ۔ کیوں کہ حجت خدا کے علاوہ کسی دوسرے کو خدا کی جانب سے کوئی بات نہیں پہنچتی ۔علامہ مجلسی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں کہ یہاں جس امر سے نفی کی گئی ہے ممکن ہے وہ خداکا بے واسطہ ملک کلام کرنا ہو اور فرشتے جناب سلمان سے گفتگو کرتے تھے ۔

چنانچہ ایک مقام پر حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت سلمان کے محدث ہونے کا مطلب یہ کہ ایک فرشتہ ان کے کان میں باتیں کرتا تھا دوسری جگہ ہے کہ ایک بڑا فرشتہ ان سے باتیں کرتا تھا ۔ ایک شخص نے تعجب سے دریافت کیا کہ جب سلمان ایسے تھے تو پھر امیر المومنین علیہ السلام کیسے رہے ہونگے ۔حضرت نے جواب دیا اپنے کام سے سروکار رکھو اور ایسی باتوں سے غرض مت رکھو (یعنی کرید نہ کرو)ایک موقعہ

۱۵۴

پر فرمایا کہ ایک فرشتہ ان کے دل میں ایسا اور ویسا نقش کرتا تھا ۔ایک حدیث میں ہے ک سلمان متمو سمین میں سے تھے کہ لوگوں کے احوال فراست سے معلوم کرلیا کرتے تھے ۔ایک حدیث معتبر میں ہے کہ امام صادق نے ارشاد فرمایا کہ سلمان اسم اعظم جانتے تھے ۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت علی علیہ السلام کے سامنے تقیہ کا ذکر آیا ۔جناب امیر نےفرمایا اگر ابوذر سلمان کے دل میں جوکچھ جان لیتے تو یقینا ان کو قتل کردیتے ۔حالانکہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا تھا ۔پھر دیگر تمام لوگوں کے بارے میں کیا گمان کرتے ہو۔

یہ حدیث بھی جناب سلمان کے بلند مرتبہ عملی کی تائید میں ہے کہ جناب ابوذر پر جناب سلمان کی علمی فوقیت ثابت کرتی ہے کہ حضرت ابوذر ان علوم واسرار الہی کے متحمل نہیں ہوسکتے جو کہ سلمان پر منکشف تھے ۔

شیخ طوسی نے معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت سلمان کے اصحاب میں سے ایک صاحب بیمار ہوئے چند روز تک اس سے ملا قات نہ ہوئی تو اس کا حال دریافت کیا کہ وہ کہاں ہے ۔لوگوں نے بتایاوہ بیمار ہے ۔سلمان نے فرمایا چلو اس کی عیادت کریں ۔غرض لوگ ان کے ہمراہ چلے اور اس شخص کے گھر پر پہنچے ۔اس وقت وہ عالم جان کنی میں تھا ۔جناب سلمان رحمۃ اللہ علیہ نے ملک الموت سے خطاب کیا کہ خدا کے دوست کے ساتھ نرمی اور مہربانی کرو ملک الموت نے جواب دیا جسے تمام حاضرین نے سنا کہ اے ابو عبداللہ

۱۵۵

میں تمام مومنین کے ساتھ نرمی کرتا ہوں اور اگر کسی کے سامنے اس طرح آؤں گا کہ وہ مجھے دیکھے تو بے شک وہ تم ہوگے ۔

ایک روز سلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں داخل ہوئے ۔صحابہ نے ان کی تعظیم فرمائی اور ان کو اپنے اوپر مقدم کرکے صدر مجلس میں ان کے حق کو بلند کیا او ران کی پیروی وتعظیم کی ۔برائے اختصاص جو ان کو حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آل سے تھا ۔ جگہ دی پھر حضرت عمر آئے اور دیکھا کہ وہ صدر مجلس میں بٹھائے گئے ہیں ۔یہ دیکھ کر وہ بولے یہ عجمی کون ہے ؟ جو عربوں کے درمیان صدر مجلس میں بیٹھاہے یہ سنکر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منبر پر تشریف لے گۓ ۔اور خطبہ ارشاد فرمایا کہ حضرت آدم کے زمانہ سے اس وقت تک کہ تما آدمی کنگھی کے دندانوں کف مثل برابر ہیں کوئی فضلیت نہیں ہے عربی کو عجمی پر ،نہ کسی سرخ وسفید کو کسی سیاہ پر مگر تقوی او رپرہیزگاری کے سبب سے ۔

سلمان ایک دریا ہے جو ختم نہیں ہوتا اور ایک خزانہ ہے جو تما م نہیں ہوتا ۔سلمان ہم اہلبیت سے ہیں سلمان حکمت عطاکرتے ہیں اور حق کی دلیلیں ظاہر کرتے ہیں ۔

استیعاب میں معرفۃ الاصحاب میں ہے کہ حضور نے فرمایا " اگر دین ثریا میں ہوتا تو سلمان یقینا وہاں تک پہنچ کر اسے حاصل کرلیتا"

جہاد:-

حضرت سلمان فارسی رحمۃ اللہ علیہ کی قبل از اسلام زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی طبیعت روحانیت ۔زہد عبادت اور معرفت کی طرف مائل رہی ۔ اور جنگ وجدل یا سپاہ گری سے ان کا کسی طرح سےبھی کوئی تعلق نہ رہا انھوں نے کسی جنگ یا

۱۵۶

لڑائی میں شرکت نہ کی بلکہ گھر س ے نکل کر عبادت خانوں میں گوشہ نشین یا تارک الدنیا بنکر اپنی روح کو مفرح ومنور کرنے کی کوشش میں مصروف رہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے پر چم تلے آتے ہی وہ ایک ممتاز مجاہد اور کہنہ مشق سپاہی ثابت ہوتے ہیں ۔ آپ کی اسلامی زندگی میں ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلمان نے نہ صرف جہادوں میں شرکت ہی کی بلکہ بعض موقعوں پر ان کو سپہ سالار مقرر کیا گیا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو خاص علم وتفضل کی بدولت فنون حرب اور علم معرکہ آرائی سے بخوبی واقفیت اور کامل دسترس حاصل تھی بدر واحد کی لڑائیوں میں سلمان شریک نہ ہوئے ۔مگر سنہ ۵ ھجری میں جنگ خندق میں آپ کو بڑی نمایاں حیثیت حاصل ہوئی ۔ حضرت سلمان پہلی مرتبہ جنگ میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ شریک ہوئے ۔اس جنگ میں پورا عرب مسلمانوں کے مقابلہ میں آیا تھا اور شہر مدینہ کا محاصرہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہا تھا ۔ شہر کی نہ ہی کوئی شہرپناہ تھی اور نہ ہی فصیل ۔لشکر کی تعداد بھی قلیل تھی جبکہ دشمن کی فوج کے غول سرپر منڈلا رہے تھے مسلمانوں کی نبض ڈوبی ہوئی تھیں اور کافر متکبر انہ آواز یں کس رہے تھے حضور کو حضرت سلمان نے مشورہ دیا کہ ایرانی طرز کی ایک خندق کھودلی جائے اسے قبول کر لیاگیا اور بمطابق وحی حضور نے خندق کھودنے کا حکم زیر نگرانی حضرت سلمان صادر فرمایا ۔اس خندق کا کھودنا کفار کے ارادوں کو دفن کرنے کی تعبیر ثابت ہوا ۔جب انھوں نے یہ نئی چیز دیکھی تو ششدر رہ گئے ۔عمرہ بن عبدود جیسے بہادر جس کا نام سنکر حضرت عمر جیسے بہادر کا دل ڈوب جاتا تھا ۔خندق کے کنارے ڈھاریں

۱۵۷

مارتا اور دیگر پہلوان باتیں بنارہے تھے کہ مسلمانوں نس یہ ایسا حیلہ کیا ہے کہ ہم عرب اس سے قطعی ناواقف ہیں انھوں نے بائیس روز سرتوڑ کوشش کی کہ کسی طرح مدینہ تک پہنچ سیکیں لیکن ایک نہ چلی آخر تنگ آکرطعن وتشیع پر اتر آئے حضور کو گستاخانہ طریقوں سے مبارزہ طلبی کی ۔آخر حضرت علی علیہ السلام نے عمروبن عبدود کو واصل جہنم کیا اور یہ فوج کثیر دم دبا کر طائف کی طرف بھگ گئی ۔جنگ فتح ہوئی ‏غزوہ خندق کے بعد کوئی ایسی جنگ نہیں ہوئی جس میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ شریک نہ ہوئے ۔پیران سالی کے باوجود آپ نس ہرلڑائی یمں داد شجاعت دی ۔

جب جنگ احزاب کے موقعہ پر خندق کھودی جارہی تھی تو مسلمان مختلف ٹکڑوں میں بٹ کر کام کر رہے تھے ۔خود سرورکائینات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دست مبارک سے کھدائی کا کام کررہے تھے آپ کا جسم مبارک مٹی سےاٹا ہوا تھا اور آپ کی زبان وحی بیان پر رجز جاری تھا سلمان ضعیف العمری کے باوجود تنومند اور قوی الجثہ تھے ۔ انصارو مہاجرین دونوں ان کے ساتھ کام کرنے کے خواہشمند تھے مہاجر کہتے تھے کہ سلمان ہم میں سے ہے ۔جب اس بات کا چرچا حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہونچا تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلمان کا ہاتھ تھام کر فرمایا "سلمان منا اھل البیت " سلمان ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔ اس موقعہ کے بعد متعدد بار یہ جملہ ارشاد فرمایا ۔

اہل سنۃ کے جلیل القدر امام محی الدین ابن عربی نے اس حدیث سے حضرت سلمان کی عصمت وطہارت پر استلال کیا ہے اور کہتے ہیں کہ چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ایک بندہ خاص ومخلص تھے اس لئے اللہ نے ان کے اہل بیت کی ایسی تطہیر کی جو تطہیر کا حق تھا ۔ اور ان سے رجس

۱۵۸

اور ہرعیب کودوررکھا اور رجس عربی زبان میں گندگی کو کہا جاتا ہے پھر آیت تطہیر "انما یرید اللہ لیذھب ۔۔الخ" کے بعد کہا کہ جس شخص کو بھی اہلبیت کی طرف نسبت دی جائے گی ۔اس کا مظہر ہونا ضروری ہے اس کے بعد تحریر کیا کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سلمان کو اہلبیت میں شامل کرنا انکی طہارت ۔خدائی حفاظت اور عصمت کی گواہی دیتا ہے ۔"

علامہ مجلسی نے بصائر الدرجات سے فضل بن عیسی کی ایک روایت حیات القلوب میں نقل کیا ہے کہ فضل کہتے ہیں ایک مرتبہ میں اور میرے والد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔میرے والد بزرگوار نے عرض کی کیا ہے صحیح ہے جناب رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہر کہ سلمان ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔ امام نے فرمایا ہاں ۔میرے والد نے پوچھا کیا وہ عبد المطلب کی اولاد میں سے ہیں ؟ حضرت نے جواب دیا وہ اہلبیت میں سے ہیں ۔میرے والد نے عرض کیا کہ کیا وہ ابوطالب (علیہ السلام )کی اولاد میں ہیں ؟ حضرت نے فرمایا کہ وہ ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔میرے پدر بزرگوار نے کہا کہ میں سرکار کا مطلب نہیں سمجھ سکا ۔ حضرت صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ایسا نہیں ہے ۔جیسا کہ تم نے سمجھا ہے ۔بے شک خدا نے ہماری طینت علیین سے خلق فرمائی اور ہمارے شیعوں کی طینت اس سے ایک درجہ پست خلق فرمائی لہذا وہ ہم میں سے ہیں اور ہمارے دشمنوں کی طینت سجین سے خلق فرمائی اور ان کے دوستوں کی طینت ان سے ایک درجہ پست خلق کی لہذا وہ لوگ ان سے ہیں اور سلمان حضرت لقمان سے بہتر ہیں ۔

اسلامی نقطہ نظر سے جب قتال ناگزیر ہوتو اہل کتاب سے لڑائی کرنے سے قبل دعوت اسلام دی جاتی ہے اگر وہ مسلمان ہونا

۱۵۹

پسند نہ کریں تو ان سے جزیہ طلب کیا جاتا ہے اور اگر وہ انکار کرکے آمادہ جنگ ہوجائیں تو تلوار ہاتھ میں لینا پڑتا ہے ۔چنانچہ چنگ خیبر کے موقعہ پر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو یہی ہدایت کی تھی کہ ہم پہلے انھیں خدا کی توحید اور اور میری رسالت کی دعوت دینا بصورت انکار مطالبہ جزیہ کرنا اور اگر وہ پھر بھی لڑائی پر مصر رہیں تو ان سے جنگ کرنا ۔چنانچہ حضرت سلمان ان جنگی اخلاق سے بخوبی واقف تھے ۔ لہذا ہمیشہ اس پرعامل رہے ۔ چنانچہ ایک موقعہ پر وہ ایک لشکر کے امیر مقرر کئے گئے اور ان کو فارس کے ایک قلعہ کو فتح کرنے کی مہم پر مامور کیا گیا ۔جب آپ اپنی سپاہ کے ساتھ قلعہ کے نزدیک گئے تو تامل فرمایا ۔لوگوں نے پوچھا کیا آپ اس قلعہ پر حملہ نہیں کریں گے فرمایا نہیں جس طرح رسول خدا پہلے دعوت اسلام دیتے تھے اسی طرح میں بھی ان کو دعوت دوں گا پھر سلمان ان کے پاس تشریف لےگئے اور کہا کہ میں بھی تمھاری طرح فارس کا باشندہ ہوں تم دیکھ سکتے ہو کہ عرب میری اطاعت کر رہے ہیں اگر تم دل سے اسلام لےآؤ گے تو میری طرح تمھیں بھی عزت نصیب ہوگی اور اگر تم ہمارا دین قبول نہ کروگے تو میری طرح تمھیں بھی عزت نصیب ہوگی اور اگر تم ہمارا دین قبول نہ کروگے تو ہم تم پر کوئی زبردستی نہیں کریں گے صرف تم سے جزطلب کریں گے ۔اور اگر پھر بھی تم بر سر جنگ نظر آؤگے تو پھر میرے لئۓ جنگ ضروری ہوگی ۔اہل قلعہ نے جواب دیا کہ نہ ہی ہم تمھارا دین قبو ل کریں گے اور نہ ہی کوئی جزیہ دینا منظور کریں گے بلکہ تمھارا مقابلہ کریں گے ۔ اس پر لشکر سلمان نے حملہ کرنے کا اذن طلب کیا مگر آپ نے جواب دیا نہیں ابھی رک جاؤ ۔ان کو غور کرنے کا موقعہ دو ۔ آپ نے تین روز انتظار کیا اور پھرچوتھے دن حملے کا حکم دیا ۔اور قلعہ فتح کیا ۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375