اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 21%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 144847 / ڈاؤنلوڈ: 5496
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

عام كيا جائے آپ وہاں سے باہر آجائيں تا كہ قتل نہ ہوں ، تو شيخ نے جواب ديا ''ميں خوشحالى كے اسى سالوں ميں خوارزميوں كے ساتھ تھا اور سخت حالات ميں ان سے دور ہونا بے مروتى ہے ''وہ ۶۱۸ قمرى ميں خوارزم ميں شہيد ہوئے اپنے زمانہ كے بڑے عياروں اور صوفيوں ميں سے تھے اور انكا منگولوں كے ساتھ مقابلہ بہت معروف ہوا(۱)

ساتويں سے نويں صدى تك چنگيز اور تيمور كى اولاد ايران پر قابض تھى تو عيارى كى عربوں كے تسلط كے دور كى مانند شہرت اور طاقت تھى ہر جگہ عياروں كى غير ايرانى حاكموں كے ساتھ جنگ كا تذكرہ تھا(۲)

بلا شبہ ايران ميں اسلامى تصوف كے رواج كے بعد ورزش اور پہلوانى بھى تصوف كے ساتھ مخلوط ہوگئي چونكہ اكھاڑوں كى صوفيوں كى خانقاہوں سے بہت زيادہ مشابہت ہے لہذا اہل ورزش كے بہت سے آداب اور القاب بھى صوفى مسلك لوگوں كے آداب و سلوك كى مانند ہيں مثلا صوفيوں كے رقص سماع ميں ''قول'' نامى اشعار پڑھا جانا يااكھاڑوں ميں كشتى كرنا اور اپنے گرد گھومنا كہ اس وقت ''گل كشتى ''يا ''گل چراغ '' اشعار پڑھے جاتے ہيں پٹھے يا شاگرد كا اپنے استاد پہلوان سے اور پير و مريد كا باہمى تعلق اكھاڑوں ميں اخوت كى بناء پر رائج ہے اسى طرح ساتويں صدى اور آٹھويں صدى ميں پہلوانوں كا ايك گروہ جو كہ اپنے زمانہ ميں بزرگ عرفاء اور صوفيوں ميں سے تھے اور ان ميں سب سے بڑے ''پوريا ولى ''ہيں بقول كسى كے اكھاڑوں كى خاك كو چومنا انہى كى سنت چلى آرہى ہے(۳)

پہلوان محمود خوارزمى المعروف پوريا ولى ايران كے مشہورترين پہلوان ہونے كے ساتھ ساتھ بڑے شاعر اور پاكيزہ قلب والے عارف بھى تھے امكان ہے كہ وہ ۶۵۳ قمرى ميں گنج خوارزم ميں پيدا ہوئے پوريا

____________________

۱)حمد اللہ مستوفي، تاريخ گزيدہ ص ۷۸۹ _

۲)كاظم كاظميني، سابقہ ما خذص ۱۴، ۱۳_

۳)پرتو بيضائي كاشاني، تاثير آيين جوانمردى در ورزش ہاى باستانى ، تاريخ ورزش باستانى ايران (زورخانہ) تہران ص ۳۵۲_۱۴۲_

۱۲۱

نے ۷۰۳ قمرى ميں كنز الحقائق مثنوى لكھى كہ جو اپنى جگہ بے نظير ہے _

يقينى بات يہى ہے كہ ساتويں صدى كے دوسرے نصف سے عباسى حكومت كے ختم ہونے كے ساتھ ہى فتوت بھى ايك سياسى اور معاشرتى انجمن كى حالت سے باہر آگئي اور يہ مسلك ايك پيشہ ورانہ مكتب كى شكل ميں ظاہر ہوا(۱) بہت سے بزرگان اسلام كہ جنہوں نے تصوف ميں فارسى اور عربى نظم و نثر كے حوالے سے كتابيں لكھيں انہوں نے فتوت ميں نثر لكھنے كےساتھ نظم بھى كہى كہ غالباً ان كتابوں كو '' فتوت نامہ'' كہا جاتا تھا_ آٹھويں صدى كے بعد بالخصوص عصر حاضر تك جوانمردى اورفتوت كى رسم تصوف كے ساتھ ساتھ سرزمين ايران ميں رائج تھى اور عوامى طبقات ميں باہمى روابط كو باقى ركھنے كے ساتھ انكے ظالموں اور اغيار كے مدمقابل قيام ميں اہم ترين ذريعہ رہى(۲) _

____________________

۱) ہانرى كوربن، سابقہ حوالہ ، باب دوم ، محمد جعفر محبوب ، سيرى در تاريخ فتوت ، ص ۱۸۴_

۲) عباس اقبال آشتيانى ، سابقہ ما خذحوالہ ص ۳۵۲ _ ۳۲۹_

۱۲۲

چوتھا باب:

اسلامى تہذيب ميں انتظامي اور اجتماعى ادارے

۱۲۳

۱) ديوان

يہ واضح سى بات ہے كہ فتوحات كے دور كے بعد وسيع و عريض اسلامى سرزمين ايك وسيع ، پيچيدہ دقيق اور نگہبان دفترى نظام كى محتاج تھى _ يہ ادارتى نظام انتہائي توجہ كےساتھ اس سرزمين كى درآمدت كو كنٹرول كرتا اور انكا دقيق حساب و كتاب كرتا بالخصوص وہ جو بيت المال سے ہميشہ اپنا خرچ ليتے ان ميں دقت كےساتھ مال تقسيم كرتا_ اسى طرح اسلامى سرزمين كے گردو نواح ميں جو فوجى دستے بھيجے جاتے انكى نگرانى كرتا اوروہ سپاہى جو اسلامى سرزمين كى سرحدوں پر نگہبانى كى ڈيوٹى دے رہے ہيں انكى ضروريات اور خرچ كو مخصوص وقفوں كے ساتھ بھيجتا اسى طرح كہ اسلامى سرزمينوں كے اندر بھى لوگوں كى زندگى پر نظارت كى جاتى _ شعبہ عدليہ لوگوں كے مسائل اور جھگڑے نمٹاتا اسى طرح دسيوں ديگر ذمہ دارياں تھيں كہ جنہيں يہ اسلامى سلطنت كے شعبہ جات نمٹاتے_

دوسرى طرف سے اسلامى مملكت كے اس پيچيدہ نظام كى تشكيل كيلئے مضبوط بنياد كى ضرورت تھى كہ معلوم ہونا چاہيے كہ اس تمام سرزمين كى كل درآمد (اگر چہ اندازہ كے طور پر ہى )كتنى ہے اور يہ مقدار كس قدر زمين سے كس قسم كے ٹيكس كے ساتھ اور كس وقت اكٹھى كى جاسكتى ہے _اسى طرح رقم اور سكّے كہ جو اس سرزمين ميں رائج تھے اسطرح بنائے جائيں كہ اس مملكت كى تمام وسيع حدود ميں لوگ ان سے فائدہ اٹھاسكيں _ راستے تلاش كرنے كے بعد بنائے جاتے اور پل تعمير كيے جاتے تا كہ خلافت كے مركز سے جو احكامات صادر ہوں وہ سرعت كےساتھ اپنے مقصد تك پہنچيں _

فتوحات كے دور كے بعد اسلامى سرزمينوں پر جب كسى حد تك امن و سكون كى فضا چھائي تو خلفاء نے ادارى نظام اور شعبہ جات كى تشكيل كيلئے قدم اٹھائے اسطرح كے بہت سے كام دوسرے خليفہ نے بالخصوص حضرت على (ع) كى راہنمايى ميں انجام ديے_ ان ميں سے كچھ مندرجہ ذيل ہيں :

۱_ اسلامى سرزمين كو حكومتى اور سياسى طور پر چھوٹے چھوٹے ٹكڑوں ميں تقسيم كرنا اور ہر ايك كيلئے گورنر

۱۲۴

كا انتخاب كرنا

۲_اسلامى سرزمين كى پيمائشے بالخصوص زرخيز علاقوں كى سالانہ درآمد كا اندازہ لگانے كيلئے پيمائشے اورتخمينہ۳_ زراعتى زمينوں سے بہرہ مند ہونے كيلئے جديد جنترى بنانا ۴_ پيمانوں كى پيمايش ، وزن حجم اور فاصلے كى اكائيوں كو يكسان كرنا ۵_ سكوں كو يكسان بنانا ،مالى منفعت كے حامل سرٹيفكيٹس كو رائج كرنا اور اس قبيل كے ديگر كام(۱)

فتوحات كے بعد كے سالوں ميں اسلامى ممالك ميں بڑے بڑے شہر عرصہ وجود ميں آئے يہ شہر يا تو انہى شہروں كا پھيلاؤ تھا كہ جو اسلام سے پہلے موجود تھے يا مكمل طور پر اسلام كے بعد تشكيل پائے_ بڑے بڑے شہروں ميں لوگ مجبور تھے كہ ان قوانين كے تحت زندگى گزاريں كہ جو اس دور كى حكومت بناتى تا كہ سب لوگ آرام و سكون سے زندگى گزار سكيں كوئي كسى كے حق پر تجاوز نہ كرسكے_ بہر حال ان بڑے شہروں كے وجود ميں آنے سے ديوانات اور مختلف محكمہ جات كى ضرورت اسلامى تمدن ميں ناگزير تھي_

ديوان خراج يا استيفائ:

اسلام ميں جو سب سے پہلا اور اہم ترين ديوان تشكيل پايا اسكا نام ديوان خراج يا ديوان استيفاء تھا_ اس ديوان كى ذمہ دارى يہ تھى كہ وہ اسلامى سرزمينوں كے ايك بڑے حصے كى مالى امور ميں سرپرستى كرے _ اس ديوان ميں اسلامى سرزمينوں كے اموال و متاع كى فہرست بنا ئي جاتى تھى اس ديوان كے كاموں كى تفضيل يہ ہے كہ : ان سرزمينوں سے خراج اكھٹا كرنے كا طريقہ ، پھر انہيں مركز خلافت كے حوالے كرنا ، انكا مسلمانوں كے درميان تقسيم كا طريقہ اور خراج وصول كرنے كيلئے مسلمانوں ميں عہدوں كى درجہ بندى و غيرہ _

جوں جوں اسلامى سرزمين وسعت پاتى گئي اور ساتھ ساتھ مسلمان بھى ديگر اقتصادى روشوں اور طريقہ كاروں سے آشنا ہوتے گئے مثلا زمين سے بہرہ مند ہونے كى مختلف روشيں و غيرہ تو ديوان خراج كى ذمہ داريوں اور سرپرستى كادائرہ بھى بڑھنے اور پيچيدہ ہونے لگا ايك دورانيے ( term )ميں اسلامى سلطنت كي

____________________

۱)اس حوالے سے ديگر اقدامات كو جاننے كيلئے رجوع فرمائيں : محمد بن واضح يعقوبى ، تاريخ يعقوبى ، ترجمہ ، عبدالمحمد آيتى ، تہران ج ۲،ص ۵۴ _۴۰_

۱۲۵

درآمدات كاحساب و كتاب ، مال و متاع كو اكھٹا كرنا اور انہيں ترتيب دينا پھر انكے خرچ پر نگراني، ملك كى ممتاز شخصيات بالخصوص سلاطين اور حكام كے اموال كى فہرست بنانا اور ملك كے مختلف علاقوں ميں ماليات كو جمع كرنے كيلئے لوگوں كو بھيجنا و غيرہ يہ سب ديوان خراج كى ذمہ دارياں شمار ہوتى تھي_

يہ ديوان خراج يا استيفاء ايران سے ليكر ہسپانيہ تك اسلامى سرزمينوں كے مختلف حصوں ميں موجود ہوتے تھے اس ديوان كے سرپرست كا نام مستوفى ، مستوفى خاصہ يا مستوفى الممالك ہوتا تھا_ ايران ميں بارہويں صدى تك يعنى ايرانيوں كے جديد مغربى كلچر سے آشنائي ہونے اور اہل مغرب كى تقليد ميں ملك كے نظام كو تبديل كرنے تك يہ ادارہ موجود تھا اور اپنا كام كررہا تھا(۱)

ديوان بريد(ڈاك اور خبر رسانى كا نظام):

معلوم يہ ہوتاہے مسلمانوں نے ديوان بريد كے نظام كو ايرانيوں يا روميوں سے سيكھا ہوگا،اسلامى دور ميں اس ديوان كى ذمہ دارياں بہت زيادہ اور اہم شمار ہوتى تھيں اس ديوان كى ذمہ داريوں ميں سے بعض مثلاخبريں پہچانا، حكومتى احكام منتقل كرنا اور اسلامى سرزمينوں كے گرد و نواح كى اطلاعات مركز خلافت تك پہچانا و غيرہ تھيں _

وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ اس ديوان كى ذمہ دارياں بڑھتى گئيں يہاں تك كہ يہ ديوان اسلامى سرزمينوں ميں امن و امان قائم ركھنے كيلئے ايك اہم شعبہ كى شكل اختيار كرگيا_ چونكہ ان سرزمينوں كے گرد و نواح كے حادثات اور واقعات سے باخبر ہونا انتہائي اہم موضوع تھا اسى ليے وقت گذرنے كے ساتھ مختلف علاقوں سے جاسوسى كى ذمہ دارى بھى اس ديوان كے سپرد كى گئي _ اسى ليے يہ ديوان اسلامى سلطنت كے اہم ستونوں ميں شمار ہونے لگا كہ جنكا كام مملكت اسلامى كى نگہبانى تھا_ اس ديوان كا سربراہ خلافت كى بقاء كے ضامن چار اركان ميں سے ايك ركن شمار ہونے لگا _

اسلامى خلافت نے خبروں كے نظام ميں سرعت پيدا كرنے كيلئے اور دوردراز علاقوں كى اطلاعات اور

____________________

۱)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۸ ، ذيل ، استيفاء ( سيد على آل داؤد)_

۱۲۶

واقعات سے جلد آگاہ ہونے كيلئے وسيع پيمانے پر راستوں اور كاروانسراؤں كا جال بچھايا _ كہ ان تمام كاروانسراؤں ميں كچھ برق رفتار ، آمادہ اور تيار گھوڑے موجود ہوتے تھے كہ جيسے ہى دور كے سفر سے كوئي ڈاكيا پہنچتا فوراً اسكا تھكا ماندہ گھوڑا تازہ دم گھوڑے سے تبديل ہوتا اور قاصد بغير وقفے كے اپنا سفر جارى ركھتا_ يہ ڈاكيے عام انسان كى نسبت زيادہ تحمل و مشقت كے ساتھ بغير كسى آرام اور وقفہ كے سفر جارى ركھتے تھے (۱)

ديوان انشاء :

يہ ديوان اسلامى مملكت كى مختلف سرزمينوں ميں '' ديوان رسائل '' اور ديوان ترسل'' كے نام سے بھى معنون كيا جاتاتھا اس كى اہم ترين ذمہ دارى حكومتى خطوط بالخصوص خليفہ كے فرامين كو ترتيب دينا اور انہيں عالم اسلام كے تمام نقاط تك بھيجنا تھى _ليكن وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ اس ادارہ كى ذمہ دارياں بھى بڑھتى چلى گئيں _ تاريخى اعتبار سے ايسا معلوم ہوتاہے كہ يہ وہ پہلا ديوان ہے كہ جو صدر اسلام ميں خود پيامبر اكرم(ص) كى حيات ميں تشكيل پايا تھا _آنحضرت(ص) كا عرب سرزمينوں كے ہمسايہ اور بڑى بڑى تہذيبوں كے حامل ممالك كے حاكموں اور بڑى شخصيات كو خط لكھنے كيلئے ايك شعبہ بنانا اس قسم كے ديوان كيلئے ايك نمونہ تھا اور ساتھ ہى ان لوگوں كيلئے دليل اور تاييد تھى جو اس شعبہ كو اسلام كا سب سے پہلا ديوان جانتے ہيں(۲)

ديوان جيش:

يہ ديوان كے جسے ''ديوان جند'' كا بھى نام ديا گيا دوسرے خليفہ كے دور ميں تشكيل پايا_ اس ديوان كا اپنى تشكيل كے ابتدائي ايام ميں كام يہ تھا كہ وہ افراد جو كہ صدر اسلام كى جنگوں ميں شركت كيا كرتے تھے انكى فہرست تيار كرنا تا كہ درست ريكارڈ ہونے كى صورت ميں مسلمانوں كے بيت المال كوچيك كرتے ہوئے ہر ايك كے حصہ كى مقدار واضح كى جائے _ اس فہرست كے تيار ہونے كے دوران لوگوں كا پيغمبر اكرم (ص) سے قرب كو معيار بنايا جاتا تھا وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ اس ديوان كى ذمہ دارياں بھى بڑھ گئيں مثلا مسلمانوں

____________________

۱)دانشنامہ جہان اسلام ج ۳ ذيل بريد (بہمن سركاراتى ، نوراللہ كسايى و ناديا برگ نيسي) _

۲)قلقشندى ، صحيح الاعشى فى صناعة الانشاء ج۱ ، ص ۹۲_

۱۲۷

كے لشكر كے حوالے سے امور كى سرپرستى ، جنگجو لوگوں كى تعداد معين ہونا ، شہيد اور زخمى ہونے والے حضرات كى فہرست بننا، اور ہر جنگجو كو اسكا حصہ يا تنخواہ ادا كرنا و غيرہ اس ديوان كى ذمہ داريوں ميں سے شمار ہوتى تھيں _ اس ديوان كے سرپرست كو '' ناظر الجيش'' كہا جاتا تھا_

ديوان بيت المال:

يہ ديوان شروع ميں ايك خاص جگہ كو كہا جاتا تھا كہ جس ميں جز يہ اور خراج و غيرہ سے منتقل ہونے والے مال كو ركھا جاتا تھا تاكہ مسلمانوں ميں تقسيم كيا جائے حضرت عمر كى خلافت كے دوران مسجد النبى كا كچھ حصہ بيت المال كى حفاظت كيلئے انتخاب ہوا اور لوگ اسكى حفاظت كيلئے مقرر كيے گئے وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ يہ شعبہ اسلامى حكومت كے مالى شعبوں ميں سے ايك اہم ترين شعبہ كى حيثيت اختيار كرگيا _ اور خاص افراد اسكى سرپرستى كيلئے مقرر ہوتے تھے بيت المال كى درآمد اور مصارف معين ہوتے تھے مثلا ايك كلى تقسيم كے مطابق اسكى درآمد تين اقسام في، غنيمت اور صدقہ ميں تقسيم ہوتى تھى _ لوگوں كى ضروريات پورى كرنا اور انكى سطح زندگى كو بڑھانا و غيرہ اسكے مصارف شمار ہوتے تھے بعد كے ادوار ميں بيت المال اسلام كے مجاہدين كى تنخواہوں كو ادا كرنا انكے كيلئے اسلحہ مہيا كرنا ، مسلمان فقراء كى ضروريات پورى كرنا اور مسلمان اسيروں كو آزاد كروانا و غيرہ كا كام كرتا تھا(۱)

واضح سى بات ہے كہ ان چند ديوان يا دفاتر كےساتھ تمام اسلامى سرزمينوں كے نظام كو چلانا ممكن نہ تھا _ لہذا ان اہم ديوان يا دفاتر كے علاوہ چھوٹے كاموں كيلئے ان تمام سرزمينوں ميں متعدد اقسام كے ديوا ن موجود تھے كہ ان ميں سے چند مندرجہ ذيل ہيں :

ديوان نفقات:

اس ديوان كے ذمے حكومتى ملازموں ا ور اپنے ماتحت چھوٹے ديوانات كے مالى معاملات اور اخراجات كو نمٹاناتھا_

____________________

۱)دانشنامہ جہان اسلام ، ج ۴ '' ذيل '' بيت المال (محمد كاظم رحمان ستايش)_

۱۲۸

ديوان اقطاع :

وہ زرخيز زرعى زمينيں جو كہ مركز خلافت سے زراعت كيلئے لوگوں كے سپرد كى جاتى تھيں انكى آمدنى كا حساب و كتاب اور ان پر نگرانى اس ديوان كے ذمہ تھى _

ديوان عرض:

يہ ديوان سپاہيوں كے امور كے متعلق تھا اسميں انكے ناموں كى فہرستيں تيار ہوتى تھى تا كہ بوقت ضرورت انكے بارے ميں معلوم كياجاسكے_

ديوان العمائر يا ديوا ن الابنية المعمورة:

اس ديوان كى ذمہ دارى يہ تھى كہ عمارتوں كى عمر كے حوالے سے تحقيق كرے اور انہيں تعمير كروائے اسى طرح شہرى عمارتوں كى ہميشہ ديكھ بھال كرتا رہے_

ديوان مظالم :

يہ ديوان بھى اپنے مقام پر اسلامى سرزمينوں كے اہم دواوين ميں شمار ہوتا تھا اسكا كام لوگوں كى شكايا ت اور درخواستوں كے مطابق انہيں انصاف مہيا كرنا تھا بالفا ظ ديگر آج كے عدالتى اداروں كى مانند يہ كا م كرتا تھا اس ديوا ن كے منتظم كو قاضى كہا جاتا تھا اور سب سے بڑے عہدے پر فائز شخص قاضى القضات كہلا تا تھا_

۲ ) خراج

خراج ہميشہ سے اسلامى سرزمينوں ميں اسلامى خلافت كيلئے مالى درآمد كا ايك اہم ترين منبع شمار ہوتا تھا _ چونكہ بہت سے جديد شہر تشكيل پاچكے تھے، اسلامى سرزمين كى سرحدوں كى حفاظت امن و امان كے ليے ضرورى ہوچكى تھى سپاہيوں كى اجرت اور اسلامى خلافت كے ديگر اخراجات نے حكومت كو نظام چلانے كيلئے مالى درآمد كے منابع كى نئي نئي صورتوں سامنے لانے پر مجبور كرديا تھا_

فتوحات كے دور سے قبل جزيرہ عرب ميں حكومت كيلئے جنوبى علاقوں اور يمن كى زراعت سے ہٹ كر اہم ترين مالى درامد اور ثروت كا منبع تجارت اور تجارتى كاروانوں سے ٹيكس وصول كرنے كى صورت ميں تھا قدرتى

۱۲۹

سى بات تھى كہ اسلامى سرزمينوں كے اخراجات اب فقط تجارتوں قافلوں اور كاروانوں كے ٹيكس سے پورے نہيں ہورہے تھے اسى ليے مسلمان خلفاء نے ثروت جمع كرنے كے ليے مختلف روشوں كو جانچا اور ان سب ميں اہم ترين خراج مقرر كرنا تھا_ معلوم يہ ہوتاہے كہ صدر اسلام كے مسلمانوں نے خراج جمع كرنے كى روش اور زراعتى زمينوں سے ٹيكس وصول كرنا ايرانيوں سے سيكھا ہوگا كيونكہ ہميں ايران ميں اسلام كے آنے سے قبل خراج كے حوالے سے معلومات ملتى ہيں بہر حال ايران كے فتح ہونے سے قبل جزيرہ عرب ميں زرعى زمينوں اور باغوں سے ٹيكس مثلا فدك كى زمينوں سے ٹيكس و غيرہ مقاسمہ(۱) كى صورت ميں تھا نہ كہ خراج كى شكل ميں _ دوسرى طرف اہم ترين مسئلہ يہ تھاكہ كس طرح ايران اور ديگر علاقوں كى مفتوحہ زمينوں سے خراج وصول كيا جائے اور ان زمينوں سے ٹيكس وصول كرنے كى شرعى نوعيت كيا ہے ؟ صدر اسلام كے بعض فقہاء كى نظر كے مطابق كہ جن زمينوں كو مسلمانوں نے جنگ كے ذريعے فتح كيا تھا وہ غنيمت شمار ہوتى تھيں لہذا ضرورى تھا انكو لشكر والوں كے درميان تقسيم كرديا جاتا ليكن يہ چيز بذات خود بہت سى مشكلات كا باعث تھى ايك يہ ہے كہ اس طرح يہ زرخيز زمينيں بہت چھوٹے حصوں ميں تقسيم ہوجاتيں اور اس سے آمدن كى شرح گر جاتى دوسرا يہ كہ مفتوح ممالك ميں موجود مسلمان سپاہى زمين كے مسائل اور كاشت كارى كيلئے ضرورى تجربہ بھى نہ ركھتے تھے اور اگر يہ كام كرنے پر بھى قادر ہوتے تو اس وجہ سے فوجى امور نمٹانے اور اسلامى لشكر كى ہمراہى سے محروم ہوجاتے تھے_

اسى وجہ سے مركز خلافت ميں متعدد نشستيں ہوئيں اور آخر كار يہ طے ہوا كہ مفتوحہ ممالك كى سرزمينيں انہى لوگوں كے اختيار ميں دى جائيں جو پہلے سے ان پر كام كرتے تھے اسكے عوض ميں ان سے سالانہ ايك معين مقدار ميں مبلغ بہ عنوان زرعى ٹيكس يا خراج وصول كيا جائے لہذا ہر دس ہزار مربع ميٹر كے عوض معين خراج طے كيا گيا _ البتہ يہاں بذات خود پہلے زمينوں كے زرخيز ہونے نہ ہونے ، آب ہوا كے مناسب ہونے يانہ ہونے اور جو فصليں ان ميں كاشت ہوئي تھيں انكے حوالے سے ايك تقسيم كى گئي تھي(۱)

ليكن وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ خراج اكھٹا كرنے كے طريقہ كار ميں نقائص پيدا ہوئے ان ميں سے

____________________

۱) مقاسمہ : محصولات كے ايك حصے كو متعين كرنے كے بعد اس پر ٹيكس مقرر كرنا(مصحح)_

۲) ابويوسف ، كتاب الخراج جو كہ موسوعة الخراج ميں مذكور ہے بيروت ص ۴۱، ۲۰_

۱۳۰

ايك مستقل خراج جمع كرنے كا وقت تھا ، اكثر و بيشتر ايسا ہوتا تھا كہ قمرى جنترى كى بناء پر خراج وصول كرنے كا وقت فصلوں كى كٹائي و غيرہ سے پہلے آجاتا تھا اس بات نے كسانوں كو كافى شكايت ميں ڈال ديا اس مشكل كو دوركرنے كيلئے اسلامى خلافت نے خراج كى جمع آورى كيلئے ايسا نظام بناياكہ اسكى رو سے فقط كٹائي كے موقع پرخراج ديا جاتا تھا(۱)

وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ خراج جمع كرنے كى صورت پہلے وقتوں كى سادہ شكل و صورت كھو بيٹھى بلكہ بہت سے پيچيدہ نظاموں كى طرف حركت كرنے لگى چوتھى صدى ہجرى كے بعد ہم ٹيكس اور مالى امور كے بہت سے نظاموں كامشاہدہ كرتے ہيں كہ جنكى بناء يہ آہستہ آہستہ خراج كا ٹيكس ملا نظام توجہ كھوبيٹھا ان نظاموں ميں مثلا نظام اقطاع اور سيور غال كا نام ليا جاسكتاہے كہ جو منگولوں كے تسلط كے بعد اسلامى سرزمينوں ميں بہت شدت سے اجراء ہوئے(۲)

۳)حسبہ(احتساب كا نظام)

معلوم يہ ہوتا ہے مسلمانوں نے معاشرہ ميں لوگوں كے كاموں بالخصوص بازار ميں مختلف تجارتى اجناس كے حامل لوگوں پر نگرانى كيلئے جو نظام وضع كيااس حوالے سے اپنے ہمسايوں بالخصوص مشرقى روم سے سيكھاہوگا_

البتہ اس بات كو تسليم كرنا چاہيے كہ وہ امور جو مسلمان دوسروں سے نہيں سيكھ سكتے تھے وہاں فقہى امور اور دينى تحقيقات نے اس جديد نظام كو ايجاد كرنے ميں مدد دى _ اسى طرح محتسب كے عہدہ پر فائز ہونے يعنى امور كو اجرا ء كرنے كے نظام پر آنے كيلئے خاص شرائط وضع ہوئيں البتہ ان شرائط كى تشريح كيلئے شيعہ و سنى علماء ميں عميق و دقيق مباحث بھى ہوئيں مجموعى طور پر ان شرائط كو تين اقسام ميں تقسيم كيا جاسكتاہے :۱_ عادل ہونا ۲_ درجہ اجتہاد پر فائز ہونا ۳_ مرد ہونا(۳)

____________________

۱)دانشنامہ جہان اسلام ج ۷ ذيل تقويم ( فريد قاسملو)_

۲)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۹ ذيل '' اقطاع'' (سيد صادق سجادي)_

۳) محمد حسين ساكت، نہاد داورى در اسلام، مشہد، ص ۲۱ بہ بعد_

۱۳۱

علمى نگاہ اور معاشرہ ميں محتسب كى ذمہ داريوں كى اہميت كے پيش نظر ان ذمہ داريوں كو بطور كلى درج ذيل اقسام ميں تقسيم كرسكتے ہيں : (۱) بازار اور پيشہ ورانہ كاموں پرنگرانى (۲) معاشرہ كے عمومى رويوں پر نگرانى (۳) قيمتوں اورناپ تول پر نگرانى (۴) لوگوں كى عبادتوں كے طور طريقہ پر نگرانى (۵) راستوں اور عمارتوں پر نگرانى (۶) محدود قضاوت كے متعلقہ مسائل مثلا كم فروشى اور خريد و فروخت ميں مكر وفريب پر نگرانى (۷) مختلف ديگر ذمہ دارياں(۱)

ايك نگرانى كرنے والے شعبہ كى حيثيت سے حسبہ كا مسئلہ انتہائي نازك اور حساس تھا حسبہ كى لوگوں كے درميان اہميت اور لوگوں كے امور ميں اسكا نگرانى كرنے والے ادارے كے عنوان سے كام بتاتاہے كہ يہ فقط نگرانى كرنے والا ادارہ تھا ليكن اسلامى قوانين كااجراء اسكے اختيار ميں نہ تھا محتسب فقط نگرانى كرتا تھا ايسا نہيں تھا كہ وہ كسى مجرم كو سزا دے بلكہ يہ كام عدالتى اور فوجدارى اداروں مثلا ادارہ قضاوت مظالم، شرطہ اور نقابت كے ذمہ تھے اور يہ ادارے اپنے اختيارات كى حدود ميں رہتے ہوئے كام كرتے اور مجرموں كو انكے اعمال كى سزا ديتے(۲)

تاريخى اعتبار سے ہم قرون اوليہ ميں عالم اسلام كے تمام بڑے شہروں اور سرزمينوں ميں اس ادارے كے قيام كا مشاہدہ كرتے ہيں ايسے افراد جو حسبہ كى ذمہ دارى ادا كرتے تھے وہ محتسب يا ولى حسبہ كہلاتے تھے_ ايران ميں چھٹى صدى ہجرى كے بعد سے محتسب كا تقرر سلطان يا حاكم كى ايك اہم ترين ذمہ دارى شمار ہوتى تھى _ وزراء اور كاتبين ايسے افراد كے انتخاب كے حوالے سے سلطان كو مشورہ ديا كرتے تھے_ مصر ، خلافت عثمانيہ ، اندلس اور ہندستان (مغليہ دور ميں ) ميں بھى ادارہ حسبہ اور محتسب موجود تھے ، مصر ميں فاطمى خلفا كے دور ميں محتسبين كے اختيارات بہت وسيع تھے يہانتك كہ وہ فاطمى سلطان كے امور كى نگرانى كرنے كا اختيار

____________________

۱)سيف اللہ صرامى ، حسبہ يك نہاد حكومتى ، قم ص ۱۰ سے بعد_

۲)محتسب كى ذمہ داريوں كے حوالے سے بيشتر معلومات كيلئے رجوع فرمائيں : محمد بن احمد قريشي، آئين شہرداري، چاپ و ترجمہ جعفر شعار، تہران، مقدمہ ص ۵_۴ متن ص ۱۰ كے بعد_

۱۳۲

ھى ركھتے تھے_ عثمانى دور ميں حسبہ ادارہ خاصے دقيق اور پيچيدہ سسٹم كا حامل تھا اس منصب پر فائز افراد محتسب يا احتساب آغاسى كہلاتے تھے _عثمانيہ دور ميں محتسب كى ايك ذمہ دارى احتساب كے ساتھ ساتھ ٹيكس وصول كرنا بھى تھا _

ہند ميں مغليہ دور سے حسبہ اور ديگر نگرانى والے اداروں كا قيام عمل ميں آيا تو اس سرزمين كے مسلمان حاكم كى ان اداروں كے امور كى رعايت كرنے يا نہ كرنے سے يہ ادارے كبھى قوت اور كبھى ضعف كا شكار رہتے كبھى تو محتسب كى شان اسقدر بڑھتى كہ سلطان بذات خود محتسب كے امور انجام ديتا اور كبھى يہ امور عدم توجہ كى بناء پر گوشہ گمنامى كى نذر ہوجاتے _ ليكن يہ نگرانى كرنے والے ادارے، ہميشہ ہندوستان كے مسلمانوں كى حكومت ميں موجود رہے ان سرزمينوں كے علاوہ شمالى افريقا، الجزاير، تونس اور مغرب ميں بھى نگرانى كرنے والے اداروں اور ادارہ حسبہ كے موجود ہونے كى معلومات ملتى ہيں _

حسبہ كے حوالے سے مختلف فقہى اور اصولى مباحث مسلمان فقہاء ميں خاص ادب كے پيدا ہونے كا باعث بنيں _ اس ادب ميں وہ تمام كتابيں اورآثار شامل ہيں كہ جو حسبہ كے بارے ميں لكھے گئے اور ان ميں حسبہ كے فقہى اور اصولى بحث انجام پائي ان آثار كو دو اقسام ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے : ايك قسم ايسے آثار كى ہے كہ جن ميں عمومى طور پر اسلامى سرزمينوں ميں مختلف امور كے نظاموں پر بحث ہوئي اور ساتھ كچھ حصہ حسبہ كے حوالے سے بھى خاص كيا گيا جبكہ دوسرى قسم ايسى كتابوں پر مشتمل ہے كہ جو فقط حسبہ كے حوالے سے لكھى گئيں _ پہلى قسم كى كتابوں ميں سے ''ماوردي'' كى تاليف ''احكام السلطاية'' اور غزالى كى تاليف احياء علوم الدين قابل ذكر ہيں اور دوسرى قسم كى كتابوں ميں عبدالرحمان شيزرى كى كتاب محاكم القربة فى احكام الحسبة اور ابن تيميہ كى كتاب الحسبة فى الاسلام كا نام ليا جاسكتاہے(۱)

____________________

۱)دراسات فى الحسبة والمحتسب عند العرب ، بغاد، كتاب كى مختلف جگہوں سے اقتباس_

۱۳۳

پانچواں باب :

اسلامى تہذيب و تمدن ميں فن و ہنر

۱۳۴

۱_ فن معمارى ، مصورى ، خطاطى اور ظروف سازى كى صنعتيں

واضح سى بات ہے كہ دنيائے عالم كى اقوام اور ملتيں فنون سے آشنائي اور اس سے بہرہ مند ہونے كے حوالے تقدم اور تاخر كا رتبہ ركھتى ہيں ايرانى اور رومى لوگ ظہور اسلام سے صديوں قبل فنون سے آشنا ہوچكے تھے اسى ليے ظہور اسلام كے دور ميں يہ دونوں قوميں ان فنون ميں چند صديوں پر محيط تاريخى ميراث كى حامل تھيں _

جزيرہ عرب ميں اسلام سے قبل مختلف فنون كے حوالے سے كوئي خاص كام نہ ہوا تھا سوائے عربى خط كے يہ خط بذات خود بہت سى فنى خوبصورتيوں كو اپنے دامن ميں سميٹنے كيلئے تيار تھا اور تيسرى صدى سے نويں صدى تك يہ ان سب محاسن كامرقع بن گياتھا_(۱)

عربوں ميں بہت زيادہ اہميت كا حامل فن ،شعر اور قصيدہ گوئي كا فن تھا كہ اسلامى فتوحات نے ايكدم ان خيمہ نشين لوگوں پر ايرانيوں كے با شكوہ محلات اور يونانيوں اور روميوں كے معابد اور كليساؤں كے دروازے كھول ديے، اسى ليے آج ايرانى ، يونانى ، مصرى اور شامى فنون كا امتزاج اسلامى حكومت كے پرچم تلے مختلف طريقوں اور روشوں كى صورت ميں جلوہ افروز ہے جسے اسلامى آرٹ كہتے ہيں _(۲)

پہلى صدى ہجرى كے اختتام سے اسلامى حكمرانوں نے مفتوحہ سرزمينوں ميں عظيم الشان مساجد اور محلات

____________________

۱)ہارسٹ ولادى مير جانسن، تاريخ ہنر ، ترجمہ پرويز مرزبان ، تہران ، علمى فرہنگى ، ۱۳۵۹، ص ۲_۱۹۱_

۲) كريسٹين پرايس ،تاريخ ہنر اسلامى ، ترجمہ مسعود رجب نيا ، تہران ، علمى و فرہنگى ، ۱۳۶۴، ص ۹_

۱۳۵

كى تعمير كا كام شروع كيا اور كوشش كى كہ قبل از اسلام كى عمارتوں سے بڑھ كر عظيم الشان اور باشكوہ آثار تخليق ہوں _ ليكن دوسرى صدى ہجرى كے آغاز سے اسلامى آرٹ ميں آہستہ آہستہ معين روايت وجود ميں آئي اور ارتقائي مراحل طے كرنے لگى ماہرين نے ايسى عمارتيں جو مرمت كى محتاج تھيں ان سے قومى اورملى خصوصيات اخذ كيں اور سب كو اسلامى فنون لطيفہ سے ہم آہنگ كيا_

اسلامى معمارى تين صورتوں يعنى مساجد ، مدارس اور مقبرے يا متبرك مقامات ميں ظاہرہوئي _ دمشق كى جامع مسجد جو كے وليد كے زمانے ميں ( ۸۷ سے ۹۶ ہجري)جيوپيٹر ( روم كے خداوں كا خدا) كے معبدكى جگہ تعمير كى گئي اسلام كے قديم ترين آثار ميں شما رہوتى ہے_(۱)

اسلامى دور كے اوائل كى ايك اور عمارت حشام بن عبدالملك ( حكومت۱۲۵ _ ۱۰۵ قمرى ) كا محل ہے كہ جو (مشتى ) ( يعنى موسم سرما كى سرائے) كہلاتا تھا _ يہ اريحا كے نزديك ميدانى علاقوں ميں تعمير ہوا اس باشكوہ محل ميں ساسانى دور كے آرٹ مثلاً پروں والے شير اور ديگر افسانوى جانوروں كا دھاتى چيزوں اوركپڑوں پر نقش ہونا ايرانى آرٹ كى واضح علامات تھيں _ عالم اسلام ميں اسلامى فنون كى زيبائيوں كا ايك اورمرقع ہسپانيہ ميں قرطبہ كى جامع مسجد ہے بلند ميناروں اور متعدد ستونوں والى يہ خوبصورت مسجد اگرچہ آج كليسا ميں تبديل ہوگئي ہے ليكن اب بھى عيسائي پاكيزگى پر اسلامى تقدس حاوى نظر آتا ہے_

قرطبہ كے نزديك عبدالرحمان سوم كيلئے تيرہ سالوں ميں ايك محل تيار ہوا كہ جو مدينة الزہرا كہلايا اگرچہ آج وہ و يرانى كا شكار ہے ليكن اسكے كچھ حصوں كى دوبارہ تعمير اور مرمت كا كام ہو رہا ہے قاہرہ بھى اسلامى فنون كى تجلى كا ايك اورمركز تھا _ البتہ دريا ئے نيل كے كنارے پر مصر كا پرانا دار الحكومت فسطاط اسى طرح مصر كى صنعتى تجارت كا مركز تھا_ مصر كے اسلامى فنون كى گفتگو فسطاط كے '' سوق القناديل'' (چراغوں كے بازار ) كے تذكرہ كے بغير نا مكمل ہے_

____________________

۱)ہارسٹ ولادى ميرجانسن_سابقہ حوالہ_

۱۳۶

اس دور كے عالم اسلام ميں سوق القناديل فنى اور صنعتى اشياء كى خريد و فروش كے مراكز ميں سے ايك تھا_ فسطاط اور قاہرہ ميں سبز شفاف شيشے كے ظروف درخشان زمرد _ چمكدارسفيد شيشہ اور دمشق كے تانبے كے لمبے گلدانوں نے اسماعيلى داعى كى آنكھوں كو خيرہ كيا ہوا تھا_ اسى طرح ہاتھ سے بنے ہوئے كپڑوں _ لہريے داراطلسى كپڑے _ ريشمى اور سوتى كپڑے اور ان پر موتيوں كے خوبصورت كام نے ناصر خسرو كى حيرت كو دو چند كرديا تھا_(۱)

بالاخرہ سلجوقى تركوں نے حملہ كيا كہ جو ۴۶۴ قمرى ميں فلسطين تك پہنچ گئے تھے انہوں مصريوں كو فلسطين سے نكالا اور بيت المقدس پر قابض ہوگئے يہ خبر باعث بنى كہ صليبى اقوام دوبارہ بيت المقدس پر تسلط پانے كيلئے اسلامى سرزمينوں پر حملے كرنے لگے اور ان جنگوں كے نتيجے ميں اہل مشرق كى تہذيب اور فنون كے بہت سى عجائب سے يہ لوگ آشنا ہوئے(۲)

بيت المقدس كے جسميں ۶۹ قمرى ميں عبدالملك بن مروان نے مسجد اقصى كے شمالى حصہ ميں ايك باشكوہ گنبد تيار كروايا تھا ( جسے قبہ الصخرة كا نام ديا گيا) كہ جو حضرت عيسى كے مزار والے كليسا كے گنبد كے برابر تھا اس گنبد نے حملہ آور صليبيوں كو حيرت زدہ كرديا تھا_ صليبيوں كا وہ گروہ جو جنگ كے بعد اپنى سرزمينوں كى طرف لوٹايہ اسلامى فنون كا ايك خزانہ بھى ساتھ لے گيا _ اور ہنر و فنون كے آثاريورپى اہل فن اور صنعت كاروں كيلئے الہام بخش ثابت ہوئے(۳)

صلاح الدين ايوبى نے چھٹى صدى ہجرى كے آخر ميں صليبيوں كے ساتھ جنگ شروع كى اور بيت المقدس كو آزاد كروايا اسكے زمانہ ميں مسجد اقصى كى آرائشے و زيبائشے ميں اضافہ ہوا حلب ميں كاريگرى كا ايك

____________________

۱) ناصر خسرو قبادياني، سفرنامہ ، محمد دبيرستانى كى سعى سے، تہران ۱۳۷۳ ص ۸_۷۶_

۲) كريستين پرايس ، سابقہ حوالہ ، ص ۵،۴۴_

۳) سابقہ حوالہ ص ۵۰ ، ۴۸

۱۳۷

نمونہ بيرى كى لكڑى سے بنا ہوا منبر لايا گيا اور مسجد ميں ايك اور محراب بنايا گيا اور گنبد كا زريں غلاف از سر نو بنايا گيا_

ان تمام چيزوں كے ساتھ جب بھى اسلامى ہنر و فن كى بات ہوتى ہے ، ايران اور ايرانى لوگوں كا ان فنون كى ترقى ميں خصوصى كردار سامنے آتا ہے چوتھى صدى ہجرى سے ليكر دسويں صدى ہجرى تك كہ جب صفوى صوفيوں نے اپنے قيام كا آغاز كيا ان اداوار ميں ايران عالم اسلام ميں فن اور فن كى تخليق كا گہوارہ تھا، حقيقى بات تو يہ ہے كہ ايران ، بين النہرين ، بر صغير اور قفقاز ميں سلجوقى حكومت كى تشكيل ايرانيوں كے دوبارہ فن و ہنر كى طرف لوٹنے ميں اہم موڑ ثابت ہوئي_(۱)

معمارى ميں سب سى پہلى عمارت جو ايرانى معماروں كے ہاتھوں چوتھى صدى كے آغاز ميں تيار ہوئي وہ بخارا ميں شاہ اسماعيل سامانى كى آرامگاہ كى عمارت تھى ، كہ جو ديگر باشكوہ مقابر كے تيار ہونے كيلئے نمونہ قرار پائي، مساجد اور مدارس كے اطراف ميں مقبروں كى عمارتيں اسلامى معمارى كى تيسرى قسم شمار ہوتى ہيں انكا ۳۹۰ قمرى سے ليكر نويں صدى ہجرى كے آخر تك رواج تھا، ايسى عمارتيں شروع ميں اكثر سادہ ہوتى تھيں مثلا گنبد قابوس ميں قابوس وشمگير كى آرامگاہ ( ۳۹۷ ہجرى قمرى )، بعد ميں اس كے بيرونى حصوں كى آرائشے كى گئي آہستہ آہستہ ايسى ارامگاہ ہيں بننے لگيں كہ جو كاشى كارى سے مزين ہوتى تھيں ايسى آرامگاہوں كا زيادہ تر تعلق تيمورى ادوار سے ہے جيسا كہ ہرات كے نزديك خواجہ عبداللہ انصارى كا مزار جو ۸۳۲ قمرى ميں تعمير ہوا_

مساجد كى تعمير كے حوالے سے ايرانى مسلمانوں نے ابتداء ميں عرب سرزمين كے رواج كے مطابق ستون والى مساجد كى روش كو اپنايا _ ليكن كچھ عرصہ گزرنے كے بعد پتھروں كى جگہ پر اينٹوں كے ستون بنانے لگے كہ جن ميں انواع و اقسام كے قوس دار طاقچوں كو ايجاد كيا _ كہ جو اينٹ سے ہى تيار ہوتے تھے مساجد كى تعمير

____________________

۱)سابقہ حوالہ ص ۷۰_ ۵۶_

۱۳۸

كے حوالے سے ايرانيوں كى خاص روش ميں ايوان اور بالكونى كا رواج ايرانى گھروں سے آيا ، يہ رواج گھروں سے مساجد اور مساجد سے پانچويں صدى كے دوسرے نصف ميں طلباء كے ليئے تيار ہونے والے حكومتى مدارس ميں پہنچا_ ايران كے سلجوقيوں نے اصفہان كو اپنا دار الحكومت قرار ديا جو مدتوں قبل صنعت و ہنر كا مركز تھا_ اب بھى اصفہان ميں سلجوقيوں كى جامع مسجد موجود ہے _ اگرچہ اس زمانہ كے بادشاہوں كے محل اور اسكے سامنے ايك بڑے ميدان كے حوالے سے كچھ نہيں بچا_

اصفہان كى جامع مسجد يا وہ مسجد كہ جو زوار ہ ميں ۵۳۰ قمرى تعمير ہوئي ابھى بھى اپنى جگہ موجود ہے يہ يقيناً تاريخ كى وہ پہلى مسجد ہے كہ جسميں چار ايوانوں والى معمارى استعمال ہوئي ہے_

سلجوقى دور ميں عمارتوں كى تزيين ميں اينٹ كا استعمال بنيادى اہميت كا حامل ہوتا تھا اسى دور ميں آہستہ آہستہ حاشيے اور اندرونى حصوں كى چينى كى ٹائلوں سے تزيين ہونے لگي(۱) سلجوقى دور كے بعد سے چار ايوان اور گنبد والے نماز خانہ كا نقشہ تمام مساجد كى تعمير ميں استعمال ہونے لگا_

گچ يا جپسم سے تزيين پانچويں صدى كے اواخر ميں را ئج ہوئي جو كبھى وہى انيٹوں والے ڈيزائن كا ہى تكرارہوتا تھااور كبھى نباتا تى اور اسليمى(۲) نقوش بنائے جاتے كہ جنكى بلڈنگ كى اصلى شكل سے ہم آہنگى نہيں ہوتى تھى معرق كاشى كارى ۴۹۴ ق كے نزديك كے سالوں ظاہر ہويى ابتداء ميں يہ صرف فيروزى اور نيلے رنگ كى حد تك محدود تھى ليكن بعد ميں اسميں سرمئي ، سفيد ، سياہ ، سرخ اور زرد رنگ كا اضافہ ہوا_

سلجوقى دور كا ہنر صرف مساجد كى تعمير اور ان ميں كاشى كارى كى حد تك محدود نہ تھا _ مٹى كے خوبصورت ظروف كا بننا بھى اس دور كا ايك اورہنر شمار ہوتا تھا_ ان ميں شاہكار ترين نمونے سلجوقى دور ميں چھٹى صدى ہجرى تك رى اور كاشان ميں تيار ہوتے تھے(۳)

____________________

۱)حسين زدرشيدى ، نقش آجر و كاشى در نماى مدارس ، تہران ، محمود ماہر النقش ، طرح و احداء نقش در كاشيكارى ايران دورہ اسلامى ، تہران_

۲) اسليمى : يہ ايرانى سبك كا ايك جز تھا كہ جسميں مختلف ٹيڑھے خطوط بنائے جاتے ہيں كہ جو كاشى كارى ،گچ يا جپسم سے كام ، قالين كے ڈيزائن بنانے ميں مختلف رنگوں سے استعمال ہوتا ہے يہ چھوٹى سى ٹہنى اور پھولوں كى مانند ہوتا ہے_

۳)كريستين پرايس ، سابقہ حوالہ، ص ۶۳ _

۱۳۹

ان ميں سونے كے پانى اور ديگر رنگوں سے مزين كاسے كوزے اور گلدان يا سياہ ، فيروزى اور ہلكے نيلے رنگ كى تہہ چڑھے ظروف اس دوركے نمونوں ميں سے شمار ہوتے تھے_ ان ميں بعض كو تو سات رنگوں سے سجاياجاتا تھا_

منگولوں كے حملے كہ دوران ايران كے دستى فنون آہستہ آہستہ زوال كے شكار ہوگئے_ ليكن اسكے باوجود تيمورى دور كے دھاتى شاہكار اور صفوى دور كے فولادى آثار جوہم تك پہنچے ہيں بالخصوص جالى دار ظروف اپنى جگہ بے نظير ہيں اسى دور ميں ايران ميں ايك اور نفيس اور خوبصورت فن شروع ہواجوكہ خطى نسخہ جات كو سونے ، چاندى اور جواہر سے ڈيزائن كرنا تھا وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ يہ فن مقبول ہونے لگا_ صدر اسلام ميں قرآن نويسى كے نتيجے ميں ہى فن خطاطى تخليق ہوا ہوگا بہت سے عظيم خطاط ايرانى تھے_ خطاطى كى مختلف اقسام ميں دوخاص روشوں يعنى نستعليق اور شكستہ كے موجد بھى ايرانى تھے_

چھٹى صدى ہجرى ميں كہ جب سلطان علاء الدين كيقباد نے ايشيا ئے كوچك ميں اپنى حكومت قائم كى اور چونكہ وہ خود بھى خطاط ، مصور اور بڑھئي تھا اس ليے اس نے اپنے دارالحكومت قونيہ كو فنكاروں اور دانشوروں كا مركز بناديا_ حقيقت ميں كہہ سكتے ہيں كہ پانچويں ہجرى ميں اگر چہ ايشيائے صغير كى ترك حكومت خراسان اور عراق كے سلجوقيوں سے جدا ہوگئي تھى ليكن انكا فن اور معمارى اسى طرح ايرانى فن اور معمارى سے وابستہ تھا منگولوں كے ايران پر حملہ كے دوران بغير اسكے كہ انہوں نے چاہا ہو يا جانا ہو ايرانى ہنرمند افراد كوايشيائے صغير كى طرف فرار ہونے پر مجبور كرديااسى ليے يہ حملہ اس فن كى روايت كا اس سرزمين كى طرف منتقل ہونے كا باعث بنا _

عالم اسلام كى وسعت اور اسميں متعدد اور مختلف حكومتوں كے ہونے سے يہ فائدہ ہوا كہ جب بھى كسى حادثہ كے نتيجہ ميں عالم اسلام كے كسى ايك حصہ ميں ہنر اور فن كو زوال حاصل ہوا تو دوسرى كسى جگہ پر انہى فنون

____________________

۱) مورست ولد مار جنسن ، سابقہ حوالہ ص ۳_۲۰۲_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375