اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 0%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف: ڈاكٹر على اكبر ولايتي
زمرہ جات:

صفحے: 375
مشاہدے: 125832
ڈاؤنلوڈ: 3155

تبصرے:

اسلامى تہذيب و ثقافت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125832 / ڈاؤنلوڈ: 3155
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

نے ترقى بھى كى جب ايران منگولوں كے وحشيانہ حملوں كى زد ميں تھا اسى زمانہ ميں مصر كے سلطان بيبرس آرٹسٹ حضرات اور جنگجووں كى حمايت كر رہے تھے _ ايك قلعہ ميں ايك بلند ٹيلے پر سلطان بيرس كے حكم پر حصار نما د،يوار نماپناہ گاہ بنائي گى اسميں قديم اہرام جيزہ كے پتھر استعمال كيے گئے _ اسى زمانہ ميں شيشہ گر حلب اور دمشق ميں موجودتھے كہ جنكے شاہكاروں كوعيسائي لوگ پسند كرتے تھے اور خريدتے تھے _ يہ شيشہ گر لوگ اپنے ظروف كو سونے كے پانى اور براق زرد، سرخ اور سبز رنگ كے پانى سے آراستہ كرتے تھے _

اسلامى جلد سازى كا ہنر جسميں ہندسى ( Geomatrical )اشكال كو كتابوں كى چرمى جلدوں پر استعمال كيا جاتا تھا كى كشش نے مصر اور شمالى افريقہ كے ہنرمندوں كو اپنى طرف كھينچا اور يہ بالكل وہى زمانہ تھا كہ قلمى نسخہ جات ميں سے كوفى خط رخصت ہو رہا تھا اور اسكى جگہ خط نسخ لے رہا تھا كہ جسميں كوفى خط كى نسبت لچك زيادہ تھى(۱)

ساتويں ايل خان غازان خان (۷۰۳_ ۶۹۴ قمرى ) نے اپنے دار الحكومت تبريز كو علم و دانش اور اسلامى فنون كے مركز ميں تبديل كرديا تھا _ وہ با قاعدہ طور پر مسلمان ہوچكا تھا اس نے تبريز كے جنوب ميں ايك نيا شہر بسايا اور وہاں دينى مدارس ، كتابخانہ ، ہسپتال اور ايك محل تعمير كروايا اسكے وزير رشيد الدين فضل اللہ ہمدانى جو كہ خود بھى اپنے زمانہ كے اديبوں ميں سے تھے انہوں نے تبريز كے مشرقى حصہ ميں ربع رشيدى كے نام سے ايك كمپليكس بنوايا جو بہت سے ثقافتى مراكز اور طالب علموں ، مصوروں ، خطاطوں اور نسخوں كو سونے اور رنگوں كے پانى مزين كرنے والوں كے ليے تربيت گاہوں پر مشتمل تھا _ خود انہوں نے كتاب'' جامع التواريخ '' تاليف كى كہ آج اسكے كچھ حصے مولف كے زمانہ كى تصاوير كے ساتھ موجود ہيں _

ايران كى قديم ترين پينٹنگ وہ تصاوير ہيں كہ جو كتاب منافع الحيوان كيلئے بنائي گئيں اور يہ كتاب ۴۹۹ قمرى ميں منگول بادشاہ كے حكم پر مراغہ ميں دوبارہ لكھى گئي _ اس كتاب كى پينٹنگ اور شاہنامہ فردوسى كے ايك نفيس نسخے جس كى نقل (۷۲۰ ھ ق) ميں تيار كى گئي كى تصاوير ميں چينى فن كى اسلامى ايران كى مصورى پر تاثير واضح طور پر محسوس كى جاسكتى ہے_

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۶۹_

۱۴۱

مصورى كى مانند مٹى كے برتن بنانے كا ايرانى فن بھى چينى فن سے متاثر تھا،يہ برتن بنانے والے بجائے اسكے كہ اسى سلجوقى روش كو آگے بڑھاتے انہوں نے مختلف (جديد)اور آزاد روشوں كو اختيار كرليا_ ان برتنوں اور ديواروں كى كاشى كارى ميں سياہ ، خاكسترى ، فيروزى ، ارغوانى اور نيلے رنگ ہلكے اور رقيق انداز بہت دلفريب اور بھلے معلوم ہوتے تھے _

ايلخانى (منگول)دور ميں ايرانى اور اسلامى اديبوں كى منگولوں كى اولاد ميں تمدن كى روح پھونكنے كى كوششيں ابھى ثمر آور ہوئيں ہى تھيں كہ يہ حكومت اندرونى مخالفتوں اور بغاوتوں كا شكار ہوگئي اور ختم ہوگئي انكے بعد تيمور لنگ ايران پر قابض ہوگيا اسكے وحشيانہ حملوں كى زد سے كوئي بھى سرزمين ايران ، ہند ، شام ، مصر اور ايشيا ئے صغير محفوظ نہيں رہى ليكن تيمور كے بيٹے اور اسكے پوتے اور نواسے بالخصوص شاہرخ ، بايسنقر، الغ بيگ، سلطان حسين ، بايقرا اور تيمور كى اولاد كا وہ سلسلہ كہ جو ہندوستان كے عظيم مغل بادشاہ كہلائے انہوں نے مختلف فنى ميدانوں ميں بہت سے فنى نمونے ايجاد كرنے كے اسباب مہيا كيے_

پندرہويں صدى عيسوى كے آخر ميں اندلس مسلمان كے ہاتھوں سے نكل گيا اسلامى حكومت كا وہ چھوٹاسا مركز اپنى زندگى كے آخرى سالوں ميں بہت ہى خوبصورت فنون سے آراستہ تھا _ اس دور كى ايك باشكوہ عمارت قصر الحمرا ، ( سرخ محل) تھى جب بنى نصر كے پہلے امير محمد بن احمد نے ۶۳۴ قمرى اور ۱۲۳۶ عيسوى ميں غرناطہ كو فتح كيا تو اس نے اپنا محل ايك بلند پہاڑ پر ايك چٹان پر بنايا اسكے بعد اسكى نسل كے ہر بادشاہ نے اس محل ميں كچھ نہ كچھ اضافہ كيا_

اسى سلسلہ كے ايك بادشاہ محمد پنجم نے چھٹى صدى ہجرى ميں الحمراء كو انتہائي خوبصورت صورت ميں آراستہ كيا كہ جو ابھى تك موجود ہے تقريبا اسى زمانہ ميں كہ جب الحمراء محل تعمير ہو رہا تھا قاہرہ ميں مدرسہ سلطان حسين تعمير ہوا البتہ دونوں كى معمارى ميں بڑا فرق تھا_ مدرسہ سلطان حسين كى وہ سمت جو قبلہ كى طرف تھى سلطان كے مقبرہ سے متصل تھى _ يہ عمارت مكعب شكل ميں تھى اور اسكا گنبد بيزانس كے گنبدوں سے مشابہہ تھا_

۱۴۲

مسلمانوں كے خوبصورت محلات نے ہسپانيہ كے عيسائي معماروں كو حيران كن انداز سے متاثر كيا _ عيسائي بادشاہ ہسپانيہ كو فتح كرنے كے بعد مسلمان صنعت گروں كو اسلامى طرز پر كام كرنے كا كہتے تھے چونكہ انہيں مسلمانوں كے صحن والے گھروں سے انس ہوگيا تھا اس ليے وہ يہ طرز و روش امريكا بھى لے گئے _ تيمورى دور ميں جيسا كہ ذكر ہوا لوٹ مار اور قتل و غارت كے باوجود تيمور نے ہنر و فن ميں ترقى كا راستہ اختيار كيا تيمور كے بيٹے شاہرخ نے دارالحكومت كو سمرقند سے ہرات كى طرف منتقل كيا _ اور اپنے باپ كے ہاتھوں سے ہونے والى ويرانيوں كو دوبارہ آباديوں ميں تبديل كيا _

شاہرخ كى ملكہ گوہر شاد نے امام رضا (ع) كے روضہ كے قريب اپنے نام سے ايك مسجد بنائي _ شاہرخ اور اسكے بعد والے بادشاہوں كے دور ميں مشہد اور اصفہان كى رنگين چمكدار كاشى والى ٹائيلوں كا استعمال اپنے عروج كو پہنچا عمارتوں ميں رنگين چمكدار كاشى والى ٹائيلوں كا استعمال اپنے عروج كو پہنچا _ اسى طرح تيمورى دوربالخصوص شاہرخ اور بايسنقر كے دورنفيس قلمى كتابوں كے تيار ہونے كا زرين زمانہ تھا _ اس دور جيسا جلد سازى ، خطاطى ، پينٹنگ اور پينٹنگ كا ہنر كسى اور دورميں نہيں ملتا ( ۱)

مصوّرين نے تصويروں كے بنانے ميں خاص روش ايجاد كى جو ''مكتب ہرات ''كہلائي _ ہرات كى پينٹنگ كا اسلوب اور شيوہ بغداد اور شيراز كے فن مصورى سے كافى حد تك مختلف تھا اور ايلخانى دور كے چينى ہنر سے متاثر تھا مكتب ہرات شاہرخ كے بعد بھى جارى رہا _ شاہرخ كا بيٹا بايسنقر ميرزا جو كہ ہنر پسند اور آرام پسند طبيعت كا مالك بادشاہ تھا اس نے ايران كے بہترين چاليس مصوروں كو ہرات ميں جمع كيا تا كہ وہ اسكے كتابخانہ كے قلمى نسخوں كيلئے تصاوير تيار كريں اسكى دلچسپى كى بنا پر اس دور ميں جو مشہورترين كام ہوا وہ بايسنقر معروف شاہنامہ تھا كہ جسكى پينٹنگ كا كام ۸۳۳ ميں مكمل ہوا _ تركمانى بادشاہ '' قراقوينلو اور آق قوينلو '' كے دور ميں شيراز كے اہل فن حضرات نے ايك نيا طريقہ دريافت كيا كہ جو'' تركمان'' كے عنوان سے معروف ہوا_

____________________

۱) كريستين ، پرايس، سابقہ حوالہ، ص ۱۲۹_

۱۴۳

نويں صدى كے وسط ميں ايك بچے نے اس جہان ميں آنكھيں كھوليں كہ جسے بہزاد كا نام ملا يہ بچہ بڑا ہو كہ ہرات ميں سلطان حسين كے دربار ميں مصورى كے كام ميں مشغول ہوا تھوڑى ہى مدت كے بعد اسكا نام ايرانى فن مصورى ميں امر ہوگيا كمال الدين بھزاد نے ايك نيا شيوہ ايجاد كيا كہ اس ميں وہ روزانہ كى حقيقى زندگى كى جزئيات بيان كرتا تھا _ اس طرز كى بہترين اور بولتى ہوئي پينٹنگ طہماسپ صفوى كے دور حكومت ميں تبريز ، قزوين اور مشہد ميں تيار ہوئيں ان تصوير وں ميں جذاب رنگوں كے استعمال كے ساتھ ايرانى لوگوں كى روزانہ كى زندگى كو پيش كيا جاتا تھا _(۱)

ايشيا ئے صغير ميں عثمانى تركوں كى مملكت بھى اسلامى فنون كے آشكار ہونے كى ايك اور نظير تھى '' اياصوفيہ'' كہ جو شروع ميں كليسا تھا پھر مسجد بنا اسكے اثرات انكے دل و جان ميں اسقدر تھے كہ نويں صدى كے اختتام اور اسكے بعد تك اسكى معمارى كے اثرات قسطنطنيہ شہر يا ديگر عثمانى حكومت كے علاتوں ميں باقى اور واضح تھے ان ميں سب سے بڑا اور عظيم معمارى كا شاہكار مسجد سلطان احمد اول ہے جو سن ۱۶۰۹ عيسوى سے ۱۶۱۶ عيسوى تك تعمير ہوئي _ اسى طرح اسلامى معمارى كا ايك اور نمونہ مسجد سليمانيہ ہے كہ جو سلطان سليمان قانونى كے حكم پر ''سنان پاشا ''كى معمارى اور نقشہ سازى كے مطابق كے ساتھ تيار ہوئي _ سنان پاشا كہ جس نے ۹۶۸ قمرى ميں مسجد سليمانيہ ميں كام ختم كيا ايك اور مسجد بنام رستم پاشا كو بھى تعمير كيا _ وہ محل كہ جسكى تعمير كا آغاز سلطان محمد فاتح نے شروع كيا تھاسليمان قانونى كے دور ميں ايك چھوٹے سے شہر كى شكل اختيار كر گيا تھا جسكے چار بڑے صحن اور چند دروازے تھے _

يہ مسلم سى بات ہے كہ مشرق قريب بالخصوص ايران ميں پانچ قرن قبل مسيح قالين سازى كى صنعت رائج تھى _ سائبيريا كے جنوب ميں ''پا زير يك'' نام كى جگہ پر پانچ قرن قبل چھوٹا سا پشمى قالين معجزانہ طريقہ سے ہمارے ليے برف ميں محفوظ رہا _ يہ قالين جس جگہ سے ملا وہ جگہ '' قالى پا زير يك '' كے عنوان سے مشہور ہوگئي

____________________

۱) فورست دلدمار جنسن ، سابقہ حوالہ ، ص ۳۱۲_

۱۴۴

ان سب چيزوں كے باوجود ساتويں صدى سے ايك جيسى روش كے ساتھ بہت زيادہ تعداد ميں قالين تيار ہونے كا كام رائج تھا _ ايسے قالينوں كا ايك مكمل سيٹ قونيہ اور ديگر شہروں ميں سلجوقيوں كى بڑى مساجد سے ملاہے _ ايران ميں قالين باف افراد نے خطى نسخوں كو سونے كے پانى سے آراستہ كرنے كى روش كى مانند كام كيا قالينوں كے وسط اور حاشيوں پر مختلف انواع كے جذاب رنگ استعمال كيے _ صفوى دور ميں نفيس ترين ايرانى قالين مساجد ، معابد اور متبرك مقامات كو ہديہ كيے جا تے تھے كہ ان ميں سے ايك ابھى تك باقى ہے يہ قالين شيخ صفى كى آرامگاہ كيلئے تيار ہوا تھا اس قالين كا نقشہ مقصود كاشانى نے تيار كيا تھا كہ يہ ۹۶۶ قمرى ميں مكمل ہوا تھا اور اب يہ لندن كے ميوزيم ميں موجود ہے _

صفوى دور كے قالين بيشتر پشم سے تيار ہوتے تھے _ ليكن شاہ عباس كبير كے دور ميں كبھى ريشمى اور كبھى توسونے وچاندى كى تاروں سے قاليں تيار ہوتے تھے_ قفقاز والوں نے بعض ايرانى قالين بطور قرض ليے اور انہيں اس روش كے ساتھ كہ جن ميں گل بوٹے اور جانور و غيرہ تھے تيار كيا _ صفوى دور كے ريشمى اور سونے كى تاروں سے تيار كپڑے ابھى يورپ والوں كے پاس موجود ہيں اس قسم كے كپڑوں پر ڈيزائن زيادہ تر پھول اور كبھى تو جانوروں اور آدميوں كى صورت كے ساتھ بنائے جاتے تھے_

صفوى بادشاہوں ميں شاہ عباس كبير سب سے ممتاز شخصيت كا مالك تھا وہ ہنر و فن كا دلدادہ اور ہنر پروردہ شخصيت كا حامل تھا در اصل اصفہان كى رونق اور شہرت اسى كے مرہون منت ہے_قديم اصفہان كے مغربى جنوبى علاقہ يعنى نئے اصفہان ميں چوك ، ميدان ، مساجد ، محلات ، بازار اور بہت سے باغ كہ جو اس نے بنوائے ان كى بدولت اصفہان نصف جہا ن بنا _

شاہ عباس كے زمانے ميں شہرى اور عمومى تعميرات كيلئے علاقے كا نقشہ تيار ہوا ايك بہت بڑا ميدان يا چوك اس نے بنايا كہ جسے ميدان نقش جہان كا نام ديا گيا _پھر اسكے تمام چاركونوں كے درميان ايك بڑى عمارت بنائي گى ان عمارتوں كا عمومى نقشہ چار ايوانوں پر مشتمل ايك عمارت كا تھا كہ جو ايرانى معمارى ميں قديم

۱۴۵

ادوار سے ربط ركھتا تھا _ يہ چار بہترين عمارتيں يہ تھيں : مسجد شاہ ، مسجد شيخ لطف اللہ ، قيصريہ كے بازار كا دروازہ اور عالى قاپو كى عمارت _(۱)

شہر كے درميان ميدان شاہ پانچ سوميٹر سے زيادہ رقبہ پر مشتمل تھا بازار بھى تھا اورساتھ ساتھ چوگان بازى اور تير اندازى كے ميدان كا كام بھى ديتا تھا ميدان كے تمام اطراف كو ايك دو طبقہ عمارت نے گھيرے ميں ليا ہواتھا نچلے طبقہ ميں دھات كارى اور كندہ كارى والوں كى دوكانيں تھيں كہ جہاں وہ لوگ اپنى فنى ايجادات ميں مصروف تھے_

اس ميدان كے مشرقى حصے ميں مشہور اور خوبصورت مسجد يعنى مسجد شيخ لطف اللہ تعمير ہوئي تھى _ (۱۰۱۲ قمرى ، ۱۶۰۳ عيسوى ) البتہ مسجد شاہ اصفہان مسجد شيخ لطف اللہ سے بڑى ہے اور اسميں ايك قابل ديد اور باشكوہ صحن ہے _ ميدان شاہ كے مغربى جانب چھ طبقات پر مشتمل عالى قاپو كا محل تھا كہ اسكے چوتھے طبقہ ميں بہت سے ستونوں والا ايك ايوان ہے جہاں بادشاہ بيٹھ كہ كھيليں اور جشن ديكھا كرتا تھا _ شاہ عباس نے شہر كے مركز ميں ايك كھلى اور وسيع سڑك بنوائي كر جسكا نام چارباغ ہے كہ جسكے كناروں پر درخت چنار كى چندقطاريں لگوائيں اس سڑك كا اختتام سى و سہ پل يا پل اللہ ورديخان پر ہوتا ہے _

شايد جانسن كى بات درست ہے كہ اس نے گيارہويں صدى كے اوائل يعنى ستريں صدى عيسوى كے ابتدائي پچاس سال كو معمارى كى دنيا ميں اسلامى عروج اور ترقى كا آخرى مرحلہ قرار ديا ہے كيونكہ اس دور ميں عالم اسلام كے تين مقامات پرفن كے تين شاہكار وجود ميں آئے :ايران ميں ميدان شاہ اصفہان ، ہندوستان ميں تاج محل يا ارجمند بانو بيگم كى آرامگاہ اور عثمانى مملكت ميں مسجد سلطان احمد اول _(۲)

____________________

۱) ہورست و لدمار جنسن ، سابقہ حوالہ ، ص ۲۰۰

۲)سابقہ حوالہ، ص ۲۰۲_

۱۴۶

اصفہان ميں شاہ عباس كے دور ميں ايك يا دو مصوروں كى تصاوير اور پينٹنگ بہت زيادہ رائج تھيں اور لوگوں ميں مقبول تھيں وہ آقا رضا اور پھر رضا عباسى تھے جو اس فنى روش كے سردار مانے جاتے تھے اس فنى اسلوب ميں معروفترين ہنرمند رضا عباسى تھااسكا شاہ عباس كے دربار سے تعلق تھا اسكى تمام پينٹنگز اس دور كے تمام ہنرمندوں كيلئے نمونہ عمل كا درجہ اختيار كر گئي تھيں _ گيا رھويں صدى كے پہلے چوتھائي حصہ ميں ايك اور نامى گرامى مصور معين مصور تھے كہ جنكى افسانوں اور تاريخ كے حوالے سے پينٹنگز شہرہ آفاق تھيں _

ہندوستان ميں تيمور لنگ كا نواسہ بابر ميرزا كى ہنر سے دلچسپى كے باعث مكتب ہرات كے بعض فنى آثار خصوصاً بہزادكے تمام فن پاروں كو جمع كيا گيا ، بابر كا بيٹا ہمايوں كہ جس نے فن و ہنر سے عشق اپنے والد سے وراثت ميں ليا تھا ايران ميں ايك سال كے قيام كے بعد ہنرمندوں كا ايك گروہ بھى ہندوستان ساتھ لے گيا اس سے ايرانى كلچر اور ہنر دوبارہ ہندوستان پر چھانے لگا مصورى ميں ہندوستان كے مغليہ آرٹ كى روش ايرانى اور ہندوستانى مصورى كى آميزش كا ثمرہ تھى _ ہند ميں مغليہ آرٹ كے بانى مير سيد على تبريزى اور عبدالصمد شيرازى تھے_ امير حمزہ كى داستان كو تصويروں ميں لانے كے بہت بڑے كام پر مير سيد على اور پچاس ديگر ہندوستانى ہنرمندوں نے كام كيا اور يہ كام ہمايوں كے بيٹے اكبر بادشاہ كے زمانے ميں ختم ہوا _(۱)

اكبر كہ جو مغليہ سلسلہ كا سب سے بڑا بادشاہ تھا معمارى سے بہت زيادہ دلچسپى ركھتا تھا اس نے آگرہ اور فتح پور سيكرى ميں بہت سے گنبد اور قبّے اور محلات تعمير كروائے فتح پور كى بڑى مسجد ايرانى اور ہندوستانى آرٹ كا ملاپ تھى _ اس نے ۱۰۱۴ قمرى ميں انتقال كيا اور اسكا بيٹا جھانگير تخت حكومت پر رونق افروز ہوا وہ مصورى اور افسانوى پيٹنگ كا دلدادہ تھا _ اسى ليے ہندوستان ميں فن مصورى كى مقبوليت جارى رہى _ ۱۰۳۸ ميں جھانگير كا بيٹا شہاب الدين المعروف شاہ جہان بادشاہ بنا تو اس دور تك فن مصورى بہت ترقى كر چكا تھا وہ اس كے ساتھ ساتھ معمارى ميں بھى كافى دلچسپى ركھتا تھا اس نے اپنى ملكہ ارجمند بانو بيگم كى ابدى آرامگاہ كے

____________________

۱) ذبيح اللہ صفا ، سابقہ حوالہ، ص ۱۳_ ۴۱_

۱۴۷

عنوان سے خوبصورت اور عظيم الشان'' تاج محل '' بنانے كا حكم صادر كيا اس تاريخى عمارت كا فن معمارى تيمور كے دور كى ايرانى معمارى سے متاثر تھا _ يہ آرامگاہ اگر چہ شاہ جہاں نے اپنى ملكہ كيلئے تيار كروائي تھى ليكن وہ خود بھى ساتھ ہى دفن ہے _

ايران ميں صفوى عہد كا آخرى زمانہ اور ہندوستان ميں مغليہ دور كا آخرى زمانہ دونوں ہى اندرونى اختلافات اور جنگوں سے دوچار تھے ليكن اسكے باوجود دونوں حكومتيں سانس لے رہيں تھيں كہ نادرشاہ افشار نے دونوں بادشاہتوں كو ختم كرديا _ اسى زمانہ ميں عثمانى بادشاہت كافى حد تك اطمينان و آسايش سے بہرہ مند تھى اور سلطان احمد جشن و سرور كا دلدادہ تھا _ اسى ليے اس دور كے فنكاروں كى افسانوى تصاوير اور پينٹنگز مثلا لونى(۱) ابھى بھى موجود ميں اور انكى تعداد سو سے بھى زيادہ ہے ۱۷۲۷ عيسوى يا ۱۱۴۰ قمرى ميں استانبول ميں چھاپ خانے كى صنعت آنے سے قلمى نسخوں اور كتابوں كو دربارہ لكھنے اور انكى تصويريں بنانے كا دور شروع ہوا _ سلطان احمد سوم كے آخرى دور سے عثمانى سلطنت كى معمارى يورپى معمارى سے متاثر ہوئي اور ديگر اسلامى فنون مصورى ، مٹى كے برتن بنانا اور اينٹوں پر نقش و نگار دسويں صدى ہجرى كى رونق كھو چكے تھے ،البتہ قيمتى پتھروں كو تراشنے ، كپڑوں پر كڑھائي اور زرى كا كام سترھويں صدى كے وسط تك چلتا رہا_

قاجارى دور ميں صفوى دور كے فنون كو باقى ركھنے كى كوششيں ہوئيں مگر كامياب نہ ہو سكےں كيونكہ بہت سے فنون زوال كا شكار ہوگئے تھے ليكن خوشنويسى كا ہنر تينوں اقسام نستعليق ، شكستہ نستعليق اور نسخ ميں اپنى بلندى كو چھونے لگا _ اسى طرح پھول اور پرندوں كے حوالے سے مصورى كے فن خصوصاً لاكى كے آثار نے بہت ترقى كى اور اسى دور ميں كتاب سے ہٹ كر فن مصورى نے ايك ايرانى مكتب كى شكل اختيار كى _(۲)

____________________

۱) Levni

۲) مرصع رنگين ، منتخبى از آثار نفيس خوشنويسان بزرگ ايران تا نيمہ قرن چہاردہم ،تہران ، ج ۱، نگارستان خط ، مجموعہ آثار ميرزا غلامرضا اصفہانى ، احمد سھيل خوانسارى كى كوشش_

۱۴۸

۲_ علم موسيقي

عباسى خلافت كے دور ميں اور اس زمانہ ميں كہ جب تحريك ترجمہ اپنے عروج پر تھى _ ايران ، ہندوستان اور يونان سے موسيقى كى كتب ترجمہ ہوئيں _ عباسى خلفاء نے بھى علم موسيقى كى ترويج اور وسعت ميں بھر پور سعى كى _ يہاں ہم عباسى دور كے موسيقيدانوں كے آثار اوراختراعات كا مختصر سا ذكر كرتے ہيں :

ابراہيم بن ماہان موصلى (۱۸۸ _ ۱۲۵ قمرى ) اسكا والد ماہان ،ارجان يا ارگان فارس كا دہقان تھا فارس سے ہجرت كرتاہوا كوفہ پہنچا وہاں ايك ايرانى خاندان ميں شادى كى _ ابراہيم نے موسيقى كا فن ايرانى موسقيدانوں ''جو انويہ ''سے سيكھا اور حيرت انگيز ترقى كى كہ اسكى شہرت عباسى خليفہ مہدى كى دربار تك پہنچى عباس خليفہ مہدى اور اسكے بيٹے ہارون الرشيد كى دعوت سے ابراہيم نے دربار ميں خاص مقام و منزلت پائي _ بغداد اور دربار خلفاء كے اكثر گلوكار ، موسيقار، بالخصوص فن موسيقى كے بزرگ دانشور حضرات مثلا اسحاق موصلى اسى كے تربيت يافتہ شاگرد تھے _(۱)

اسحاق موصلي، ابراہيم موصلى كا بيٹا تھا كہ جو تقريباً ۱۵۰ قمرى ميں رى ميں پيدا ہوا اس نے علم موسيقى كے اصول و قواعد اپنے والد اور ماموں منصور زلزل كے ہاں سيكھے اور اپنے دور ميں علم موسيقى ميں بے نظير مقام حاصل كيا اسكے موسيقى ميں مكتوب آثار مثلا الاغانى و الكبير ، النغم ، الايقاع اغانى معبد اور كتاب الرقص اب موجود نہيں ہيں يہ ہارون الرشيد ، مامون ، معتصم اور واثق عباسى كے دور ميں رہا اور ۲۳۵ ميں اسكا انتقال ہوا _

ابوالحسن على بن نافع ، اسكا لقب زرياب تھا وہ بصرى كے عنوان سے معروف تھا اور نسب كے اعتبار سے ايرانى اور اسحاق موصلى كے شاگردوں ميں سے تھا _ اس نے ايرانى موسيقى كے آلہ'' بربط'' ميں جدت پيدا كي_ بربط كے چارتاروں ميں ايك اور تار كا اضافہ كيا اور بربط كو بنانے كيلئے عقاب كے ناخن اور شير كے بچے كى انتڑيوں كو استعمال كيا كہ اس سے بربط كى آواز زيادہ جاذب ہوگئي زرياب نے اپنے مكتب ميں فن موسيقى كے

____________________

۱) ابوالفرج اصفہانى ، الاغانى ، قاہرہ ، ج ۵ ، ص ۲۰۸، ص ۲۳۰_

۱۴۹

حوالے سے نئے اصول و قواعد بنائے_ اور اسى كا شيوہ اہل مغرب ميں بھى مقبول ہوا بالخصوص اسپين كے مكتب موسيقى كى ايك روش زرياب كى تخليق تھى كہ جو سرزمين مغرب ميں منتقل ہوئي_(۱)

منصور زلزل عباسى دور ميں ايك ايرانى موسيقى دان تھا كہ جو بربط بجانے ميں استاد اور بے نظير گلوكار تھا _ ابونصرفارابى (۳۳۹ _ ۲۵۹ يا ۲۶۰ قمرى ) ايران كا عظيم الشان فلسفى ، رياضى دان اور موسيقيدان تھا _ فارابى نے موسيقى ميں قيمتى ترين كتابيں تاليف كيں ، اسكى موسيقى كے حوالے سے كتابيں مندرجہ زيل ہيں : المدخل الى صناعة الموسيقي، كلام فى الموسيقا، احصاء الايقاع ، كتاب فى النقرة مضافا الى الايقاع اور مقالات كے عنوان سے رسالہ ان ميں سے بعض كتابيں ختم ہو چكى ہيں _ موسيقى كے حوالے سے فارابى كى اہم ترين كتاب احصاء العلوم و الموسيقى الكبير ہے اسى وجہ سے قرون وسطى ميں فارابى كو موسيقى ميں سب سے بڑا مصنف جانا جاتا ہے _ فارابى نے موسيقى كے دو معروف پردوں '' وسطاى زلزل اور وسطاى فرس ميں دقيق مطالعہ كيا اور انكے فاصلوں كو بيان كيا _(۲)

ابوعلى سينا (۴۲۸ _ ۳۷۰ قمرى ) طب ، فلسفہ ، منطق ميں عظيم تاليفات كے ساتھ ساتھ فن موسيقى ميں انتہائي اہم تاليفات كے حامل ہيں انہوں نے كتاب شفا ميں فن موسيقى كيلئے ايك باب خاص كيا بوعلى سينا پہلے شخص ہيں كہ اسلام ميں موسيقى كے بارے ميں انكى فارسى ميں كتاب ابھى تك موجود ہے يہ وہى كتاب النجاة ہے جسكا انكے شاگرد ابوعبيدہ جو زجانى نے ترجمہ كيا اور اسكا نام ''دانشنامہ علايى ''ركھا_(۳)

____________________

۱) H.G. Farmer A historY of Arabian Music to the Xth Century London p .

۲) احصاء العلوم ، فصل موسيقى ، ہنرى جورج فارمو، سابقہ حوالہ، ص ۱۴۴، مہدى يركشلى ، موسيقى ، ايوانشہر، كميسيون ملى يونسكو در ايران نيز Encyclopaedia of Islam. New Edition S v Musiki Byo. Wright

۳)مہدى بركشلى ، سابقہ حوالہ، دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ذيل ابن سينا ، موسيقى ، تقى بينش ، ہنرى جارج فارمر، تاريخ موسيقى خاور زمين ، ترجمہ بہزاد باشى ، تہران ، ص ۳۶۸_

۱۵۰

صفى الدين عبدالمومن ارموى (۶۱۹ _ ۶۱۳ قمرى ) ساتويں صدى ہجرى ميں ايرانى موسيقى كا درخشاں ستارہ تھا ، انكى دو معتبر كتابيں '' الادوار'' اور '' رسالہ الشرفيہ '' كے مطالعہ سے يہ حقيقت آشكار ہوتى ہے كہ فارابى كے بعد وہ سب سے بڑا اور اہم ترين شخص ہے جنہوں نے فن موسيقى كے قواعد ميں تحقيق كى ہے _ اسكى كتاب ''الادوار ''ميں فارسى اور عربى كے قديم ترين راگ موجود ہيں _

عبدالقادر غيبى مراتمى (۸۳۸ قمرى ) تيمورى دور (تيمور اور شاہرخ كے دربار) ميں نظرى علم موسيقى كا اہم ترين عالم شمار ہوتا ہے اسكى سب سے بڑى كتاب ''جامع الالحان ''ہے دوسرى كتاب ''مقاصد الالحان ''جو جامع الالحان كى نسبت چھوٹى ہے ، شرح الادوار بھى مراغى كى تاليف ہے كہ ابھى بھى موجود ہے _ اسى طرح مراغى كى كتاب كنزالالحان انتہائي قيمتى كتاب تھى كہ جو فن موسيقى سے آشنا لوگوں كيلئے بہت اہميت كى حامل تھى اور اس كے نغموں پر مشتمل تھى ليكن اب موجود نہيں ہے اسكا بيٹا اور پوتا بھى موسيقيدان تھے اسكے بيٹے كا نام عبدالعزيز تھا جس نے ''نقاوة الادوار'' اور پوتے نے ''مقاصد الادوار'' كتابيں لكھيں _

نويں صدى ہجرى كے بعد ايران ميں كوئي بڑا موسيقيدان ظاہر نہيں ہوا كبھى كبھى كوئي شخصيت سامنے آتى رہى ليكن كسى نے جدت پيدا نہيں كى _ ايرانى موسيقى كے ترك موسيقى اور عرب ممالك حتى كہ مشرق بعيد كے ممالك كى موسيقى ميں اثرات واضح ہيں اور موسيقى كى فارسى اصطلاحات ان مناطق كى زبان اور تہذيب ميں واضح اور آشكار ہيں _(۱)

____________________

۱)ہنرى جارج فارمر، مجلہ روزگار نو ، ش ۱، ۱۹۴۲_

۱۵۱

چھٹا باب :

اسلامى تہذيب كےمغربي تہذيب پر اثرات

۱۵۲

دنيا كى موجودہ تہذيب پورى تاريخ ميں تمام اقوام كى كوششوں كا نتيجہ ہے اگر چہ موجودہ تہذيب ديگر اقوام كى تہذيبوں سے خصوصيات كے اعتبار سے مختلف ہے ليكن يہ حقيقت ميں گذشتہ تہذيبوں كا مركب ہے _ واضح سى بات ہے كہ اس جديد تہذيب كے وجود ميں آنے اور وسعت پانے ميں اسلام كا كردار ديگر تہذيبوں سے كم نہيں ہے _ ميرے خيال ميں گوناگوں تہذيبوں كى تركيب اور اقوام عالم ميں نظرياتى تبادلہ اس جديد تہذيب كے وجود ميں آنے اور وسعت پانے ميں بہت زيادہ كردار ركھتا ہے _ اور اسلام بھى اس امتزاج كے اسباب مہيا كرنے ميں متاثر كن اور اساسى كردار ركھتا ہے _ اس باب ميں اس موضوع پر گفتگو ہوگى كہ مختلف تہذيبوں كے امتزاج اور ان ميں فكرى ، ثقافتى اور علوم كے تبادلہ اور انكو مغرب ميں منتقل كرنے ميں اسلام كا كردار كيسا تھا ؟

اسلام سے مغرب ميں علم اور تہذيب كا نقل و انتقال تين راہوں سے انجام پايا :

۱) مسلمانوں كااسپين ، اٹلى ،سسلى اور صليبى جنگوں ميں عيسائيوں كے ساتھ ميل جول اور انكا عالم اسلام كے مختلف مناطق ميں اسلامى تہذيب اور كلچر سے آشنا ہونے اور عالم اسلام كى باہر كى دنيا سے سرحدوں كے ذريعے_

۲) پانچويں صدى سے ساتويں صدى ہجرى تك عربى كتب كا يورپى زبانوں ميں ترجمہ _

۳) ان عربى كتب كى تدريس اور ان سے فائدہ اٹھانا كہ جنہيں مسلمان دانشوروں نے علمى مراكز ميں تحرير يا ترجمہ كيا تھا_

مغرب والوں كا اسلامى تہذيب و تمدن سے آشنائي كا ايك اہم ترين مركز اسپين تھا _ اسپين كے عيسائيوں

۱۵۳

پر اسلامى نظريات كى چھاپ انكے عيسائي رہبروں پر اسلامى نظريات كے اثرات سے ديكھى جا سكتى ہے _ جيسا كہ كہاگيا ہے كہ ٹولڈو(طليطلہ ) شہر كے پادرى ايلى پنڈس نے اسلامى عقائد سے متاثر ہوتے ہوئے حضرت عيسى كى الوہيت كا انكار كيا اور كہا كہ وہ بشر اور خدا كے منہ بولے بيٹے تھے دوسرى طرف اس زمانہ ميں اسپين كے لوگ عربى لباس پہنتے تھے اور اسلامى و عربى آداب كاخيال ركھتے تھے كہا جاتا ہے كہ غرناطہ (گرايناڈا) شہر كى دو لاكھ مسلمان آبادى ميں سے فقط پانچ سو عرب تھے باقى سب خود اسپين كے لوگ تھے _(۱)

اسلامى آثار كا يورپى زبانوں ميں ترجمہ : مجموعى طور پر عربى زبان سے يورپى زبانوں ميں ترجمہ كے رواج كو عيسائي مملكت كے اندرونى اوربيرونى دو قسم كے اسباب ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے _

صليبى جنگوں ميں عيسائيوں كا مسلمانوں كى تہذيب سے آشنا ہونا اور مسلمانوں كى علمى ميراث اور كتابوں كے ايك مجموعہ كا سامنا كرنے كو بيرونى سبب شمار كيا جا سكتا ہے،عيسائيوں ميں اہم ترين اندرونى سبب يہ ہے كہ عيسائي دانشور حضرات كو معلوم نہ تھا كہ يونانى علماء بالخصوص ارسطو ، سقراط، بطلميوس اور جالينوس كے علمى آثار كے مقابلے ميں كيا كريں ، بہت سارے دلائل اس بات كى طرف اشارہ كرتے ہيں كہ عيسائي علماء اور فلاسفہ ان يونانى آثار كے اصلى متون سے استفادہ كرنے پر قادر نہيں تھے ، چونكہ يونانى معيارى زبان اور ان آثار كى كتابت كے مابين بارہ صديوں كے فاصلے كے باعث عيسائيوں كے بہترين زبان شناس اور مترجمين بھى ان متون كے ادراك سے عاجز تھے ، اور ساتھ بہت سے يونانى كلاسيكى آثار ختم ہوچكے تھے اور ان تك پہنچنے كيلئے عربى زبان سے ترجمہ كے علاوہ كوئي اور راستہ نہ بچا تھا اسى ليے عربى آثار سے لاطينى ميں ترجمہ كى تحريك شروع ہوئي_

يہ تحريك دو بڑے ادوار ميں تقسيم ہوتى ہے:پہلا دورہ ويٹيكن كے پاپ سيلوسٹر دوم ( ۱۰۰۳ _ ۹۹۸عيسوي) كے اس عہدے پر پہنچنے سے شروع ہوا اور اسپين كے مقامى حاكموں ميں سے آلفونسوى دہم كى حكومت كے

____________________

۱)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج ۱۰ ، ذيل انڈلس_

۱۵۴

زمانہ ميں ختم ہوا _ اور دوسرا دور اين آلفونسو (۱۲۸۴ _ ۱۲۵۳ عيسوى ) كے زمانہ سے شروع ہوا _ دونوں ادوار ميں اہم فرق يہ ہے كہ پہلے دور ميں عربى آثار سے عمومى طور پر لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوتا تھا جبكہ دوسرے دور ميں زيادہ تر عربى زبان سے اسپينى اور رومى زبان ميں ترجمہ ہوتا تھا اس دور ميں وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ بہت سے مترجم افراد سامنے آئے كہ جنكى تعداد كا ۱۵۰ تك تخمينہ لگايا گيا ہے _(۱)

ان افراد ميں بعض افراد كى اس حوالے سے خدمات پر يوں نگاہ ڈالى جا سكتى ہے :

افريقى گروہ ميں كينسٹينٹن كے ذريعے وسيع پيمانہ پر آثار كا ترجمہ ہوا اسكے ترجمہ شدہ آثار ميں طب كے حوالے سے جالينوس كے آثار اور فلسفہ ميں ارسطو كے آثار قابل ذكر ہيں _ ہوگوسينٹالايى نے ارسطو ، يعقوب بن اسحاق كندى ، ابومعشر بلخى اور ديگر افراد كے آثار كا ترجمہ كيا ، يوہيس ہيسپايسنر نے ارسطو ، بتّانى ، فارابى ، فرغانى ، قبيسي، محمد بن موسى خوارزمى ، يعقوب بن اسحاق كندى اور ابو معشر بلخى كے كثير آثار كاترجمہ كيا اسكا اہم ترين كام بوعلى سينا كے آثار كو لاطينى زبان ميں ترجمہ كرنا ہے مايكل اسكاٹ نے بھى بہت سے ترجمے كيے بالخصوص اسكا اہم كام ارسطو كے تمام آثار كا ترجمہ كرنا ہے _ پلاٹوى ٹيولياى نے بھى مختلف علمى ميدانوں مثلا نجوم ، رياضى ، ہندسہ ، اور فلسفہ ميں بہت سے آثار كا لاطينى زبان ميں ترجمہ كيا _(۲)

عربى سے لاطينى زبان ميں ترجمہ كى تحريك ''گراردوى كرموناي'' كا مقام انتہائي كى اہميت كا حامل ہے اس نے لاطينى زبان ميں ستر كے قريب آثار كا ترجمہ كيا ان ميں بہت سے علمى موضوعات مثلا طب ، فلسفہ ، نجوم ، اخلاق ، سياست و غيرہ شامل ہيں ، طب كے حوالے سے اسكے قلم سے ترجمہ شدہ جالينوس اور سقراط كے آثار اور اسكے ساتھ مسلمان شارحين كے آثار كا ترجمہ يونانى طب كا ايك مكمل مجموعہ كہلاتا ہے _

۱_ عقلى علوم ، اسلامى فلسفہ اور الہى علوم كے مغربى تہذيب پر اثرات

بارہويں صدى عيسوى كے ابتدائي سالوں ميں گونڈيسالومى اور خواں شقوبى نے بوعلى سينا ، فارابى اور غزالي

____________________

۱)دانشنامہ جہان اسلام ، ج ۷ ، ذيل ترجمہ ، نہضت (سيد احمد قاسمى )_

۲)سابقہ حوالہ، ج ۵ ، ذيل پلاوى تيولياى ، فريد قاسملو_

۱۵۵

كے آثار كا ترجمہ كيا ، اہل مغرب ان ترجمہ شدہ كتابوں كے ذريعے ارسطو كے نظريات و عقائد سے آشنا ہوئے ، حقيقى بات يہى ہے كہ اہل مغرب ارسطو كے بارے معلومات حاصل كرنے ميں مسلمانوں كے احسان مند ہيں اور اسميں كوئي شك و شبہہ نہيں ہے كہ يورپ والے مسلمانوں كے نظريات سے آگاہ ہونے كے بعد فلسفہ كے عاشق ہوئے اور ارسطو كے آثار كا مطالعہ كرنے لگے_

ارسطو اور ابن رشد كى تعليمات آپس ميں مخلوط ہو چكى تھيں اس كى روش اور نظريات وسيع پيما نہ پر يہوديوں ميں پھيل چكے تھے_ اسى طرح يہ نظريات عيسائيوں ميں بہت گہرائي تك اس طرح سرايت كر رہے تھے كہ كليسا والے پريشان ہونے لگے يہاں تك كہ سن تھامس نے عربى زبان كے مترجميں پر تنقيد كى اور ارسطو اور اسكى كتابوں كے عرب شارحين كے عقائد و افكار ميں فرق پر زور ديا ابن رشد كے علاوہ بو على سيناكى آراء و افكار كا بھى سرزمين مغرب ميں بہت زيادہ استقبال ہوا_

بوعلى سينا كے جو افكار مغرب ميں منتقل ہوئے ان ميں سے ايك معقولات كا موضوع تھايعنى وہ چيزيں جو عقل كے ذريعے قابل درك ہيں بوعلى سينا كا ايك نظريہ يہ بھى تھا كہ ہر موجود كى اساس تجزيہ كے قابل نہيں ہے اور موجودات ميں كثرت و اختلاف كى بنياد بذات خود مادہ ہے _

سرزمين مغرب كے بعض دانشور مثلا راجر بيكن كا يہ عقيدہ تھا كہ ارسطو كے فلسفہ كے اثرات مغرب ميں زيادہ نہيں تھے خواہ اسكى وجہ اسكى كتابوں اور رسالوں كا كم ہونا ہو خواہ اسكى كتابوں اور رسالوں كا آسانى سے درك نہ ہونا ہو يہاں تك كہ پيغمبر اسلام (ص) كے بعد اسلام كے بڑے فلاسفہ مثلا بوعلى سينا اور ابن رشد نے ارسطو كے فلسفہ كو سمجھا اور موضوع بحث قرار ديا اگر چہ اس دور ميں بوئيٹس نے ارسطو كے بعض آثار كو ترجمہ كرديا تھا فقط مانيكل اسكاٹ كے دور ميں كہ جب اس نے ارسطو كى طبيعت اور حكمت كے بارے ميں بعض كتابوں كا عربى سے لاطينى ميں ترجمہ كيا تو اس دور ميں مغرب ميں ارسطو كے فلسفہ كو پسند كيا گيا(۱) _

____________________

۱)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج ۳ ذيل'' ابن رشد'' ( شرف الدين خراسانى اُ جَ ع ذيل'' ابن سينا''_

۱۵۶

۶۴۸ قمرى ہجرى ميں عيسائي مبلغين كے حكم پر ٹولڈو شہر ميں مشرقى علوم سے آشنائي كيلئے پہلا ادارہ قائم ہوا، اس ادارہ ميں عربى زبان ، عيسائي اور يہودى دينى علوم كى تعليم دى جاتى تھى تا كہ مسلمانوں ميں تبليغ كيلئے افراد تيار كيے جائيں اس ادارہ كا سب سے بہترين طالب علم ريمنڈ مارٹن تھا ،اسكا يورپ ميں مسلمان مصنفين كے بارے ميں معلومات كے حوالے سے كوئي ثانى نہ تھا وہ نہ صرف يہ كہ قرآنى آيات اور اسلامى احاديث سے آگاہى ركھتا تھا بلكہ فارابى سے ليكر ابن رشد تك علم الہى اور اسلامى فلسفہ كے تمام علماء سے نكات بھى جانتا تھا ريمونڈ مارٹين نے غزالى كى مشہور كتاب تھافت الفلاسفہ پر بھى تحقيق كى اور اس كتاب كے بعض حصوں كو اپنى كتاب ''پوگو فيڈي'' ميں نقل كيا غزالى كے افكار و عقائد جب سے يورپى دانشوروں كے ہاں منتقل ہوئے اسى وقت سے عيسائي اہل فكر كيلئے بہت اہميت كے حامل ہيں اور اب بھى ان كے ليے مفيد ہيں _

فلسفہ ميں اسلام كى ديگر عظيم شخصيات ميں سے كہ جو يورپ ميں مشہور ہوئيں جناب ابن رشد تھےاٹلى ميں انكے افكار و نظريات تقريباً سولھويں صدى عيسوى تك چھائے رہے،ان كے عقائد عيسائيوں ميں بہت سى مباحث كا باعث قرار پائے_ مغرب ميں ابن رشد كے فلسفہ كى پيروى كہ جسے اصطلاحى طور پريوروازم كانام ديا گيا جديد علوم كے ظہور تك يورپ ميں فلسفہ كى بقا كے اسباب ميں سے ايك سبب تھا(۱) _

يہ مسلمہ بات ہے كہ اس علم الہى كے حوالے سے مسلمانوں كى خدمات بے حد اہميت كى حامل ہيں اور وہ لوگ جو اسلامى دانشوروں كو جدت و بنياد سے محروم كہتے ہيں يقيناً انہوں نے ابن رشد اور غزالى كے آثار كا مطالعہ نہيں كيا ٹوماز ايكوئنس كى مشہور كتاب ''سوما''اسى كوتاہ فكرى پر ايك دليل ہے_

چارصديوں سے زيادہ مدت تك يورپ كے تمام تعليمى اور ثقافتى مراكز پر اسلامى تہذيب و تمدن كے اثرات چھائے رہے _ جب يورپ ميں اسلامى افكار كى برترى كا دور ختم ہو ا پھر بھى مشرق و مغرب ميں ثقافتى رابطہ باقى رہا اور يہ رابط و تعلق تيرھويں صدى عيسوى ميں اپنے عروج كو پہنچا ، اگر ہم اس دور كے باقى ماندہ

____________________

۱) سابقہ حوالہ ج ۲_

۱۵۷

آثار كا تجزيہ كريں تو ديكھيں گے كہ اسلامى تسلط ہميشہ جارى رہا اور يہ اسلامى برترى قرون وسطى كے ادوار ميں اس سے كہيں زيادہ تھى كہ جس كا تذكرہ آج كيا جاتا ہے_

۲_ اسلامى طب كے مغربى تہذيب پراثرات

اسلامى طب نے مغربى طب پر مختلف انداز سے اثرات ڈالے ان ميں سے ايك اسلامى طبيبوں كے بہت سے آثار كا لاطينى زبان ميں ترجمہ ہونا تھا، ان اطباء ميں سے ايك اہم ترين طبيب محمد بن زكريا رازى ہيں كہ جنكے بہت سے آثار لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئے اور ہر كتاب باربار شايع ہوئي بہت سے مغربى مورخين اور دانشوروں كا يہ نظريہ ہے كہ رازى كى كتاب '' الجدرى و الحصبة'' ( پھوڑے اور خسرہ) انكى سب سے بڑى تاليف ہے يہ كتاب ۱۴۹۸عيسوى ميں پہلى بار ترجمہ ہو كر شايع ہوئي اس كے علاوہ يہ كتاب چاليس بار يورپ ميں شايع ہوئي معلوم يہ ہوتا ہے كہ اسلامى تہذيب ميں اسلامى طبى كتابوں ميں سے اس كتاب كے ترجموں اور چھپنے كى تعداد ديگر كتب سے بہت زيادہ ہے _

رازى كى ايك اور كتاب'' الحصى المتولدہ فى الكلى و المثانہ ۱۸۹۶ عيسوى ميں پيرس ميں شايع ہوئي _

۱۲۷۹ عيسوى ميں چارلس اول كے دور ميں رازى كى كتاب الحاوى فرح بن سالم نامى ايك يہودى طبيب كے ذريعے لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئي اور ۱۵۴۲ عيسوى ميں پانچ بار شايع ہوئي _ يہ كتاب يورپ ميں علم طب كے نصاب كى اہم ترين كتاب شمار ہوتى تھى _

دوسرے طبيب كہ جنہوں نے مغربى طب كو متاثر كيا جناب بو على سينا ہيں انكى كتاب قانون بہت سالوں تك مغرب كى اہم ترين طبى كتاب شمار ہوتى رہى پندرھويں صدى عيسوى كے آخر ميں اس كتاب كى سولہ بار يورپ ميں اشاعت كى گئي جو پندر ہ بار لاطينى زبان اور ايك بار عبرى زبان ميں تھى _ اس كتاب كى لاطينى اور عربى زبان ميں لكھى گئي تفاسيربے شمار ہيں يہ كتاب سترويں صدى عيسوى كے دوسرے نصف حصے تك كئي بار شايع ہوئي اور ايك طويل مدت تك ايك نصابى كتاب شمار ہوئي رہى شايد علم طب ميں آج تك اسكى مانند كوئي كتاب اسقدر رائج نہ رہى ہو_

۱۵۸

اس كے علاوہ اور كئي پہلوں سے اسلامى علم طب نے مغربى طب كو متاثر كيا_ ميرے خيال ميں يورپ ميں ہسپتالوں كا وجود ميں آنا شرقى اور اسلامى ہسپتالوں سے متاثر ہونے كى بناء پر تھا_ علاوہ ازيں يورپى طبيب جس چيزميں مسلمانوں كے احسان مند ميں وہ مختلف بيماريوں كے طريقہ علاج تھا يہ تو ہم جانتے ہيں كہ يورپى طبيبوں نے بہت سى بيماريوں مثلا خسرہ ، ٹائيفائڈاور طاعون كا علاج اور اسى طرح بہت سے طبى آپريشنوں كے طريقہ كار كو مسلمانوں سے سيكھا جسكى مثال يہ ہے كہ مسلمان طبيب زھراوى قرطبى كا طبى رسالہ يورپ ميں آج علم جراحت كى اساس كے طور پر جانا گيا ہے _(۱)

۳_ اسلامى رياضيات كے مغربى تہذيب پر اثرات

مغرب ميں علم رياضى كى ترقى كے حوالے سے اسلامى رياضى دانوں كے اثرات بہت زيادہ ہيں يورپى لوگ مسلمانوں كے ذريعے دہائي نظام كى عدد نويسى اور ہندى اعداد كى شكل سے آشنا ہوئے جو آج بھى مورد توجہ ہے _ يہ اثرات خاص طور پر كتاب '' المختصر فى الجبر و المقابلہ'' كے ترجمہ كے ذريعے پڑے _ يہ كتاب بار بار لاطينى زبان ميں '' لبيبر الگوريسمي'' ( يعنى خوارزمى كى كتاب) كے نام سے ترجہ ہوئي اسى كتاب كے لاطينى ترجمہ سے كلمہ '' algorism '' كا معنى حساب كرنا اور حساب كرنے كى روش ليا گيا _

قرون وسطى كے ادوار ميں يہ كتاب يورپ ميں شہرہ آفاق تھي_ اور سولھويں صدى عيسوى ميں فرانسيسى رياضى دان فرانسويت كے زمانہ تك يورپى رياضى دانوں كے مطالعات كى بنياد چلى آئي _ خوارزمى كى ايك اور اہم ترين كتاب كہ جسكا نام '' حساب ھند'' ہے ،خود اصل كتاب تو اب باقى نہيں رہى ليكن چودھويں صدى عيسوى ميں اسكا لاطينى زبان ميں ہونے والا ترجمہ موجود ہے _ اسلامى ماخذات ميں يہ كتاب '' الجمع و التفريق بحساب الہندسہ'' كے نام سے پہچانى جاتى ہے _

____________________

۱) فؤاڈ سزگين : تاريخ نگارشہا ى عربى ، ج ۳ ترجمہ اشاعت از خانہ كتاب ، مقدمہ ، ص ۳۰ كے بعد_

۱۵۹

خوارزمى كے علاوہ ديگر اسلامى دانشوروں كے كى كتابيں بھى اسى دور ميں اور بعد كے ادوار ميں لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئيں(۱) مثلا خيام ، خواجہ نصير الدين طوسى اور فارابى كى علم رياضى ميں كتابيں لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئيں _

آخرى مسلمان رياضى دان كہ جنگے قرون وسطى بعد كے ادوار ميں آثار كا لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوا جناب بہاء الدين عادلى تھے كہ جو شيخ بہائي كے نام سے مشہورترين ہيں انكى كتاب '' خلاصة الحساب انگلش ، فرانسيسي، اور جرمنى زبان ميں ترجمہ ہوئي رياضى كے پرعملى پہلو مثلاًچند حصوں پر مشتمل منظم و غير منظم اشكال الجبرا كى مساواتوں كے متعدد عددى اور ہندسى راہ حل ، p عدد( n ) كے دقيق ميزان تك پہچنا اور متعدد اضلاع پر مشتمل چيزوں كى حدود اور مساحت كى نمائشے كيلئے مختلف روشيں و غيرہ اس مسلمان رياضى دان كے محنتوں كا ثمرہ تھا كر جو مغرب ميں منتقل ہوا(۲)

۴_ اسلامى علم فلكيات كے مغربى تہذيب پر اثرات

اسلامى ماہرين فلكيات كى معلومات و تحقيقات ميں انكى بہت سى اختراعات بھى شامل ہيں مثلا مختلف انداز كى جنتريوں كا بنانا اور ستاروں كے حوالہ سے مختلف معلومات اسى طرح سياروں كى حركت كے بارے ميں جديدنظريات يہ سب اسلامى نجوم كے اہم ثمرات تھے كہ جو سرزمين مغرب ميں منتقل ہوئے_

آج تو مكمل طور پر واضح ہو چكا ہے كہ مغربى ماہرين فلكيات مثلا نيوٹن ، كپلر اور كوپرينك اسلامى علم نجوم سے آشنا تھے اور اسلامى ماہرين فلكيات كى تحقيقات اور ثمرات سے بہت زيادہ بہرہ مند تھے قرون وسطى كے ادوار ميں سب سے پہلے اسلامى ماہر فلكيات كہ جو مغرب ميں بہت زيادہ مشہور ہوے احمد بن كثير فرغانى تھے انكى كتاب '' جوامع علم نجوم'' گوارڈوى كرموناى اور يوھنيس ھسپالنسز كے ذريعے يورپ ميں ترجمہ ہوئي اور يہ

____________________

۱) گوسٹالو بون _ ص ۵۶۷_

۲) سيد حسين نصر، علم و تمدن در اسلام ، ترجمہ احمد آرام ، تہران ۱۳۵۹ ، ج ۲ ص ۱۳۷_۱۳۸_

۱۶۰