اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 15%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 144832 / ڈاؤنلوڈ: 5493
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

نے ترقى بھى كى جب ايران منگولوں كے وحشيانہ حملوں كى زد ميں تھا اسى زمانہ ميں مصر كے سلطان بيبرس آرٹسٹ حضرات اور جنگجووں كى حمايت كر رہے تھے _ ايك قلعہ ميں ايك بلند ٹيلے پر سلطان بيرس كے حكم پر حصار نما د،يوار نماپناہ گاہ بنائي گى اسميں قديم اہرام جيزہ كے پتھر استعمال كيے گئے _ اسى زمانہ ميں شيشہ گر حلب اور دمشق ميں موجودتھے كہ جنكے شاہكاروں كوعيسائي لوگ پسند كرتے تھے اور خريدتے تھے _ يہ شيشہ گر لوگ اپنے ظروف كو سونے كے پانى اور براق زرد، سرخ اور سبز رنگ كے پانى سے آراستہ كرتے تھے _

اسلامى جلد سازى كا ہنر جسميں ہندسى ( Geomatrical )اشكال كو كتابوں كى چرمى جلدوں پر استعمال كيا جاتا تھا كى كشش نے مصر اور شمالى افريقہ كے ہنرمندوں كو اپنى طرف كھينچا اور يہ بالكل وہى زمانہ تھا كہ قلمى نسخہ جات ميں سے كوفى خط رخصت ہو رہا تھا اور اسكى جگہ خط نسخ لے رہا تھا كہ جسميں كوفى خط كى نسبت لچك زيادہ تھى(۱)

ساتويں ايل خان غازان خان (۷۰۳_ ۶۹۴ قمرى ) نے اپنے دار الحكومت تبريز كو علم و دانش اور اسلامى فنون كے مركز ميں تبديل كرديا تھا _ وہ با قاعدہ طور پر مسلمان ہوچكا تھا اس نے تبريز كے جنوب ميں ايك نيا شہر بسايا اور وہاں دينى مدارس ، كتابخانہ ، ہسپتال اور ايك محل تعمير كروايا اسكے وزير رشيد الدين فضل اللہ ہمدانى جو كہ خود بھى اپنے زمانہ كے اديبوں ميں سے تھے انہوں نے تبريز كے مشرقى حصہ ميں ربع رشيدى كے نام سے ايك كمپليكس بنوايا جو بہت سے ثقافتى مراكز اور طالب علموں ، مصوروں ، خطاطوں اور نسخوں كو سونے اور رنگوں كے پانى مزين كرنے والوں كے ليے تربيت گاہوں پر مشتمل تھا _ خود انہوں نے كتاب'' جامع التواريخ '' تاليف كى كہ آج اسكے كچھ حصے مولف كے زمانہ كى تصاوير كے ساتھ موجود ہيں _

ايران كى قديم ترين پينٹنگ وہ تصاوير ہيں كہ جو كتاب منافع الحيوان كيلئے بنائي گئيں اور يہ كتاب ۴۹۹ قمرى ميں منگول بادشاہ كے حكم پر مراغہ ميں دوبارہ لكھى گئي _ اس كتاب كى پينٹنگ اور شاہنامہ فردوسى كے ايك نفيس نسخے جس كى نقل (۷۲۰ ھ ق) ميں تيار كى گئي كى تصاوير ميں چينى فن كى اسلامى ايران كى مصورى پر تاثير واضح طور پر محسوس كى جاسكتى ہے_

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۶۹_

۱۴۱

مصورى كى مانند مٹى كے برتن بنانے كا ايرانى فن بھى چينى فن سے متاثر تھا،يہ برتن بنانے والے بجائے اسكے كہ اسى سلجوقى روش كو آگے بڑھاتے انہوں نے مختلف (جديد)اور آزاد روشوں كو اختيار كرليا_ ان برتنوں اور ديواروں كى كاشى كارى ميں سياہ ، خاكسترى ، فيروزى ، ارغوانى اور نيلے رنگ ہلكے اور رقيق انداز بہت دلفريب اور بھلے معلوم ہوتے تھے _

ايلخانى (منگول)دور ميں ايرانى اور اسلامى اديبوں كى منگولوں كى اولاد ميں تمدن كى روح پھونكنے كى كوششيں ابھى ثمر آور ہوئيں ہى تھيں كہ يہ حكومت اندرونى مخالفتوں اور بغاوتوں كا شكار ہوگئي اور ختم ہوگئي انكے بعد تيمور لنگ ايران پر قابض ہوگيا اسكے وحشيانہ حملوں كى زد سے كوئي بھى سرزمين ايران ، ہند ، شام ، مصر اور ايشيا ئے صغير محفوظ نہيں رہى ليكن تيمور كے بيٹے اور اسكے پوتے اور نواسے بالخصوص شاہرخ ، بايسنقر، الغ بيگ، سلطان حسين ، بايقرا اور تيمور كى اولاد كا وہ سلسلہ كہ جو ہندوستان كے عظيم مغل بادشاہ كہلائے انہوں نے مختلف فنى ميدانوں ميں بہت سے فنى نمونے ايجاد كرنے كے اسباب مہيا كيے_

پندرہويں صدى عيسوى كے آخر ميں اندلس مسلمان كے ہاتھوں سے نكل گيا اسلامى حكومت كا وہ چھوٹاسا مركز اپنى زندگى كے آخرى سالوں ميں بہت ہى خوبصورت فنون سے آراستہ تھا _ اس دور كى ايك باشكوہ عمارت قصر الحمرا ، ( سرخ محل) تھى جب بنى نصر كے پہلے امير محمد بن احمد نے ۶۳۴ قمرى اور ۱۲۳۶ عيسوى ميں غرناطہ كو فتح كيا تو اس نے اپنا محل ايك بلند پہاڑ پر ايك چٹان پر بنايا اسكے بعد اسكى نسل كے ہر بادشاہ نے اس محل ميں كچھ نہ كچھ اضافہ كيا_

اسى سلسلہ كے ايك بادشاہ محمد پنجم نے چھٹى صدى ہجرى ميں الحمراء كو انتہائي خوبصورت صورت ميں آراستہ كيا كہ جو ابھى تك موجود ہے تقريبا اسى زمانہ ميں كہ جب الحمراء محل تعمير ہو رہا تھا قاہرہ ميں مدرسہ سلطان حسين تعمير ہوا البتہ دونوں كى معمارى ميں بڑا فرق تھا_ مدرسہ سلطان حسين كى وہ سمت جو قبلہ كى طرف تھى سلطان كے مقبرہ سے متصل تھى _ يہ عمارت مكعب شكل ميں تھى اور اسكا گنبد بيزانس كے گنبدوں سے مشابہہ تھا_

۱۴۲

مسلمانوں كے خوبصورت محلات نے ہسپانيہ كے عيسائي معماروں كو حيران كن انداز سے متاثر كيا _ عيسائي بادشاہ ہسپانيہ كو فتح كرنے كے بعد مسلمان صنعت گروں كو اسلامى طرز پر كام كرنے كا كہتے تھے چونكہ انہيں مسلمانوں كے صحن والے گھروں سے انس ہوگيا تھا اس ليے وہ يہ طرز و روش امريكا بھى لے گئے _ تيمورى دور ميں جيسا كہ ذكر ہوا لوٹ مار اور قتل و غارت كے باوجود تيمور نے ہنر و فن ميں ترقى كا راستہ اختيار كيا تيمور كے بيٹے شاہرخ نے دارالحكومت كو سمرقند سے ہرات كى طرف منتقل كيا _ اور اپنے باپ كے ہاتھوں سے ہونے والى ويرانيوں كو دوبارہ آباديوں ميں تبديل كيا _

شاہرخ كى ملكہ گوہر شاد نے امام رضا (ع) كے روضہ كے قريب اپنے نام سے ايك مسجد بنائي _ شاہرخ اور اسكے بعد والے بادشاہوں كے دور ميں مشہد اور اصفہان كى رنگين چمكدار كاشى والى ٹائيلوں كا استعمال اپنے عروج كو پہنچا عمارتوں ميں رنگين چمكدار كاشى والى ٹائيلوں كا استعمال اپنے عروج كو پہنچا _ اسى طرح تيمورى دوربالخصوص شاہرخ اور بايسنقر كے دورنفيس قلمى كتابوں كے تيار ہونے كا زرين زمانہ تھا _ اس دور جيسا جلد سازى ، خطاطى ، پينٹنگ اور پينٹنگ كا ہنر كسى اور دورميں نہيں ملتا ( ۱)

مصوّرين نے تصويروں كے بنانے ميں خاص روش ايجاد كى جو ''مكتب ہرات ''كہلائي _ ہرات كى پينٹنگ كا اسلوب اور شيوہ بغداد اور شيراز كے فن مصورى سے كافى حد تك مختلف تھا اور ايلخانى دور كے چينى ہنر سے متاثر تھا مكتب ہرات شاہرخ كے بعد بھى جارى رہا _ شاہرخ كا بيٹا بايسنقر ميرزا جو كہ ہنر پسند اور آرام پسند طبيعت كا مالك بادشاہ تھا اس نے ايران كے بہترين چاليس مصوروں كو ہرات ميں جمع كيا تا كہ وہ اسكے كتابخانہ كے قلمى نسخوں كيلئے تصاوير تيار كريں اسكى دلچسپى كى بنا پر اس دور ميں جو مشہورترين كام ہوا وہ بايسنقر معروف شاہنامہ تھا كہ جسكى پينٹنگ كا كام ۸۳۳ ميں مكمل ہوا _ تركمانى بادشاہ '' قراقوينلو اور آق قوينلو '' كے دور ميں شيراز كے اہل فن حضرات نے ايك نيا طريقہ دريافت كيا كہ جو'' تركمان'' كے عنوان سے معروف ہوا_

____________________

۱) كريستين ، پرايس، سابقہ حوالہ، ص ۱۲۹_

۱۴۳

نويں صدى كے وسط ميں ايك بچے نے اس جہان ميں آنكھيں كھوليں كہ جسے بہزاد كا نام ملا يہ بچہ بڑا ہو كہ ہرات ميں سلطان حسين كے دربار ميں مصورى كے كام ميں مشغول ہوا تھوڑى ہى مدت كے بعد اسكا نام ايرانى فن مصورى ميں امر ہوگيا كمال الدين بھزاد نے ايك نيا شيوہ ايجاد كيا كہ اس ميں وہ روزانہ كى حقيقى زندگى كى جزئيات بيان كرتا تھا _ اس طرز كى بہترين اور بولتى ہوئي پينٹنگ طہماسپ صفوى كے دور حكومت ميں تبريز ، قزوين اور مشہد ميں تيار ہوئيں ان تصوير وں ميں جذاب رنگوں كے استعمال كے ساتھ ايرانى لوگوں كى روزانہ كى زندگى كو پيش كيا جاتا تھا _(۱)

ايشيا ئے صغير ميں عثمانى تركوں كى مملكت بھى اسلامى فنون كے آشكار ہونے كى ايك اور نظير تھى '' اياصوفيہ'' كہ جو شروع ميں كليسا تھا پھر مسجد بنا اسكے اثرات انكے دل و جان ميں اسقدر تھے كہ نويں صدى كے اختتام اور اسكے بعد تك اسكى معمارى كے اثرات قسطنطنيہ شہر يا ديگر عثمانى حكومت كے علاتوں ميں باقى اور واضح تھے ان ميں سب سے بڑا اور عظيم معمارى كا شاہكار مسجد سلطان احمد اول ہے جو سن ۱۶۰۹ عيسوى سے ۱۶۱۶ عيسوى تك تعمير ہوئي _ اسى طرح اسلامى معمارى كا ايك اور نمونہ مسجد سليمانيہ ہے كہ جو سلطان سليمان قانونى كے حكم پر ''سنان پاشا ''كى معمارى اور نقشہ سازى كے مطابق كے ساتھ تيار ہوئي _ سنان پاشا كہ جس نے ۹۶۸ قمرى ميں مسجد سليمانيہ ميں كام ختم كيا ايك اور مسجد بنام رستم پاشا كو بھى تعمير كيا _ وہ محل كہ جسكى تعمير كا آغاز سلطان محمد فاتح نے شروع كيا تھاسليمان قانونى كے دور ميں ايك چھوٹے سے شہر كى شكل اختيار كر گيا تھا جسكے چار بڑے صحن اور چند دروازے تھے _

يہ مسلم سى بات ہے كہ مشرق قريب بالخصوص ايران ميں پانچ قرن قبل مسيح قالين سازى كى صنعت رائج تھى _ سائبيريا كے جنوب ميں ''پا زير يك'' نام كى جگہ پر پانچ قرن قبل چھوٹا سا پشمى قالين معجزانہ طريقہ سے ہمارے ليے برف ميں محفوظ رہا _ يہ قالين جس جگہ سے ملا وہ جگہ '' قالى پا زير يك '' كے عنوان سے مشہور ہوگئي

____________________

۱) فورست دلدمار جنسن ، سابقہ حوالہ ، ص ۳۱۲_

۱۴۴

ان سب چيزوں كے باوجود ساتويں صدى سے ايك جيسى روش كے ساتھ بہت زيادہ تعداد ميں قالين تيار ہونے كا كام رائج تھا _ ايسے قالينوں كا ايك مكمل سيٹ قونيہ اور ديگر شہروں ميں سلجوقيوں كى بڑى مساجد سے ملاہے _ ايران ميں قالين باف افراد نے خطى نسخوں كو سونے كے پانى سے آراستہ كرنے كى روش كى مانند كام كيا قالينوں كے وسط اور حاشيوں پر مختلف انواع كے جذاب رنگ استعمال كيے _ صفوى دور ميں نفيس ترين ايرانى قالين مساجد ، معابد اور متبرك مقامات كو ہديہ كيے جا تے تھے كہ ان ميں سے ايك ابھى تك باقى ہے يہ قالين شيخ صفى كى آرامگاہ كيلئے تيار ہوا تھا اس قالين كا نقشہ مقصود كاشانى نے تيار كيا تھا كہ يہ ۹۶۶ قمرى ميں مكمل ہوا تھا اور اب يہ لندن كے ميوزيم ميں موجود ہے _

صفوى دور كے قالين بيشتر پشم سے تيار ہوتے تھے _ ليكن شاہ عباس كبير كے دور ميں كبھى ريشمى اور كبھى توسونے وچاندى كى تاروں سے قاليں تيار ہوتے تھے_ قفقاز والوں نے بعض ايرانى قالين بطور قرض ليے اور انہيں اس روش كے ساتھ كہ جن ميں گل بوٹے اور جانور و غيرہ تھے تيار كيا _ صفوى دور كے ريشمى اور سونے كى تاروں سے تيار كپڑے ابھى يورپ والوں كے پاس موجود ہيں اس قسم كے كپڑوں پر ڈيزائن زيادہ تر پھول اور كبھى تو جانوروں اور آدميوں كى صورت كے ساتھ بنائے جاتے تھے_

صفوى بادشاہوں ميں شاہ عباس كبير سب سے ممتاز شخصيت كا مالك تھا وہ ہنر و فن كا دلدادہ اور ہنر پروردہ شخصيت كا حامل تھا در اصل اصفہان كى رونق اور شہرت اسى كے مرہون منت ہے_قديم اصفہان كے مغربى جنوبى علاقہ يعنى نئے اصفہان ميں چوك ، ميدان ، مساجد ، محلات ، بازار اور بہت سے باغ كہ جو اس نے بنوائے ان كى بدولت اصفہان نصف جہا ن بنا _

شاہ عباس كے زمانے ميں شہرى اور عمومى تعميرات كيلئے علاقے كا نقشہ تيار ہوا ايك بہت بڑا ميدان يا چوك اس نے بنايا كہ جسے ميدان نقش جہان كا نام ديا گيا _پھر اسكے تمام چاركونوں كے درميان ايك بڑى عمارت بنائي گى ان عمارتوں كا عمومى نقشہ چار ايوانوں پر مشتمل ايك عمارت كا تھا كہ جو ايرانى معمارى ميں قديم

۱۴۵

ادوار سے ربط ركھتا تھا _ يہ چار بہترين عمارتيں يہ تھيں : مسجد شاہ ، مسجد شيخ لطف اللہ ، قيصريہ كے بازار كا دروازہ اور عالى قاپو كى عمارت _(۱)

شہر كے درميان ميدان شاہ پانچ سوميٹر سے زيادہ رقبہ پر مشتمل تھا بازار بھى تھا اورساتھ ساتھ چوگان بازى اور تير اندازى كے ميدان كا كام بھى ديتا تھا ميدان كے تمام اطراف كو ايك دو طبقہ عمارت نے گھيرے ميں ليا ہواتھا نچلے طبقہ ميں دھات كارى اور كندہ كارى والوں كى دوكانيں تھيں كہ جہاں وہ لوگ اپنى فنى ايجادات ميں مصروف تھے_

اس ميدان كے مشرقى حصے ميں مشہور اور خوبصورت مسجد يعنى مسجد شيخ لطف اللہ تعمير ہوئي تھى _ (۱۰۱۲ قمرى ، ۱۶۰۳ عيسوى ) البتہ مسجد شاہ اصفہان مسجد شيخ لطف اللہ سے بڑى ہے اور اسميں ايك قابل ديد اور باشكوہ صحن ہے _ ميدان شاہ كے مغربى جانب چھ طبقات پر مشتمل عالى قاپو كا محل تھا كہ اسكے چوتھے طبقہ ميں بہت سے ستونوں والا ايك ايوان ہے جہاں بادشاہ بيٹھ كہ كھيليں اور جشن ديكھا كرتا تھا _ شاہ عباس نے شہر كے مركز ميں ايك كھلى اور وسيع سڑك بنوائي كر جسكا نام چارباغ ہے كہ جسكے كناروں پر درخت چنار كى چندقطاريں لگوائيں اس سڑك كا اختتام سى و سہ پل يا پل اللہ ورديخان پر ہوتا ہے _

شايد جانسن كى بات درست ہے كہ اس نے گيارہويں صدى كے اوائل يعنى ستريں صدى عيسوى كے ابتدائي پچاس سال كو معمارى كى دنيا ميں اسلامى عروج اور ترقى كا آخرى مرحلہ قرار ديا ہے كيونكہ اس دور ميں عالم اسلام كے تين مقامات پرفن كے تين شاہكار وجود ميں آئے :ايران ميں ميدان شاہ اصفہان ، ہندوستان ميں تاج محل يا ارجمند بانو بيگم كى آرامگاہ اور عثمانى مملكت ميں مسجد سلطان احمد اول _(۲)

____________________

۱) ہورست و لدمار جنسن ، سابقہ حوالہ ، ص ۲۰۰

۲)سابقہ حوالہ، ص ۲۰۲_

۱۴۶

اصفہان ميں شاہ عباس كے دور ميں ايك يا دو مصوروں كى تصاوير اور پينٹنگ بہت زيادہ رائج تھيں اور لوگوں ميں مقبول تھيں وہ آقا رضا اور پھر رضا عباسى تھے جو اس فنى روش كے سردار مانے جاتے تھے اس فنى اسلوب ميں معروفترين ہنرمند رضا عباسى تھااسكا شاہ عباس كے دربار سے تعلق تھا اسكى تمام پينٹنگز اس دور كے تمام ہنرمندوں كيلئے نمونہ عمل كا درجہ اختيار كر گئي تھيں _ گيا رھويں صدى كے پہلے چوتھائي حصہ ميں ايك اور نامى گرامى مصور معين مصور تھے كہ جنكى افسانوں اور تاريخ كے حوالے سے پينٹنگز شہرہ آفاق تھيں _

ہندوستان ميں تيمور لنگ كا نواسہ بابر ميرزا كى ہنر سے دلچسپى كے باعث مكتب ہرات كے بعض فنى آثار خصوصاً بہزادكے تمام فن پاروں كو جمع كيا گيا ، بابر كا بيٹا ہمايوں كہ جس نے فن و ہنر سے عشق اپنے والد سے وراثت ميں ليا تھا ايران ميں ايك سال كے قيام كے بعد ہنرمندوں كا ايك گروہ بھى ہندوستان ساتھ لے گيا اس سے ايرانى كلچر اور ہنر دوبارہ ہندوستان پر چھانے لگا مصورى ميں ہندوستان كے مغليہ آرٹ كى روش ايرانى اور ہندوستانى مصورى كى آميزش كا ثمرہ تھى _ ہند ميں مغليہ آرٹ كے بانى مير سيد على تبريزى اور عبدالصمد شيرازى تھے_ امير حمزہ كى داستان كو تصويروں ميں لانے كے بہت بڑے كام پر مير سيد على اور پچاس ديگر ہندوستانى ہنرمندوں نے كام كيا اور يہ كام ہمايوں كے بيٹے اكبر بادشاہ كے زمانے ميں ختم ہوا _(۱)

اكبر كہ جو مغليہ سلسلہ كا سب سے بڑا بادشاہ تھا معمارى سے بہت زيادہ دلچسپى ركھتا تھا اس نے آگرہ اور فتح پور سيكرى ميں بہت سے گنبد اور قبّے اور محلات تعمير كروائے فتح پور كى بڑى مسجد ايرانى اور ہندوستانى آرٹ كا ملاپ تھى _ اس نے ۱۰۱۴ قمرى ميں انتقال كيا اور اسكا بيٹا جھانگير تخت حكومت پر رونق افروز ہوا وہ مصورى اور افسانوى پيٹنگ كا دلدادہ تھا _ اسى ليے ہندوستان ميں فن مصورى كى مقبوليت جارى رہى _ ۱۰۳۸ ميں جھانگير كا بيٹا شہاب الدين المعروف شاہ جہان بادشاہ بنا تو اس دور تك فن مصورى بہت ترقى كر چكا تھا وہ اس كے ساتھ ساتھ معمارى ميں بھى كافى دلچسپى ركھتا تھا اس نے اپنى ملكہ ارجمند بانو بيگم كى ابدى آرامگاہ كے

____________________

۱) ذبيح اللہ صفا ، سابقہ حوالہ، ص ۱۳_ ۴۱_

۱۴۷

عنوان سے خوبصورت اور عظيم الشان'' تاج محل '' بنانے كا حكم صادر كيا اس تاريخى عمارت كا فن معمارى تيمور كے دور كى ايرانى معمارى سے متاثر تھا _ يہ آرامگاہ اگر چہ شاہ جہاں نے اپنى ملكہ كيلئے تيار كروائي تھى ليكن وہ خود بھى ساتھ ہى دفن ہے _

ايران ميں صفوى عہد كا آخرى زمانہ اور ہندوستان ميں مغليہ دور كا آخرى زمانہ دونوں ہى اندرونى اختلافات اور جنگوں سے دوچار تھے ليكن اسكے باوجود دونوں حكومتيں سانس لے رہيں تھيں كہ نادرشاہ افشار نے دونوں بادشاہتوں كو ختم كرديا _ اسى زمانہ ميں عثمانى بادشاہت كافى حد تك اطمينان و آسايش سے بہرہ مند تھى اور سلطان احمد جشن و سرور كا دلدادہ تھا _ اسى ليے اس دور كے فنكاروں كى افسانوى تصاوير اور پينٹنگز مثلا لونى(۱) ابھى بھى موجود ميں اور انكى تعداد سو سے بھى زيادہ ہے ۱۷۲۷ عيسوى يا ۱۱۴۰ قمرى ميں استانبول ميں چھاپ خانے كى صنعت آنے سے قلمى نسخوں اور كتابوں كو دربارہ لكھنے اور انكى تصويريں بنانے كا دور شروع ہوا _ سلطان احمد سوم كے آخرى دور سے عثمانى سلطنت كى معمارى يورپى معمارى سے متاثر ہوئي اور ديگر اسلامى فنون مصورى ، مٹى كے برتن بنانا اور اينٹوں پر نقش و نگار دسويں صدى ہجرى كى رونق كھو چكے تھے ،البتہ قيمتى پتھروں كو تراشنے ، كپڑوں پر كڑھائي اور زرى كا كام سترھويں صدى كے وسط تك چلتا رہا_

قاجارى دور ميں صفوى دور كے فنون كو باقى ركھنے كى كوششيں ہوئيں مگر كامياب نہ ہو سكےں كيونكہ بہت سے فنون زوال كا شكار ہوگئے تھے ليكن خوشنويسى كا ہنر تينوں اقسام نستعليق ، شكستہ نستعليق اور نسخ ميں اپنى بلندى كو چھونے لگا _ اسى طرح پھول اور پرندوں كے حوالے سے مصورى كے فن خصوصاً لاكى كے آثار نے بہت ترقى كى اور اسى دور ميں كتاب سے ہٹ كر فن مصورى نے ايك ايرانى مكتب كى شكل اختيار كى _(۲)

____________________

۱) Levni

۲) مرصع رنگين ، منتخبى از آثار نفيس خوشنويسان بزرگ ايران تا نيمہ قرن چہاردہم ،تہران ، ج ۱، نگارستان خط ، مجموعہ آثار ميرزا غلامرضا اصفہانى ، احمد سھيل خوانسارى كى كوشش_

۱۴۸

۲_ علم موسيقي

عباسى خلافت كے دور ميں اور اس زمانہ ميں كہ جب تحريك ترجمہ اپنے عروج پر تھى _ ايران ، ہندوستان اور يونان سے موسيقى كى كتب ترجمہ ہوئيں _ عباسى خلفاء نے بھى علم موسيقى كى ترويج اور وسعت ميں بھر پور سعى كى _ يہاں ہم عباسى دور كے موسيقيدانوں كے آثار اوراختراعات كا مختصر سا ذكر كرتے ہيں :

ابراہيم بن ماہان موصلى (۱۸۸ _ ۱۲۵ قمرى ) اسكا والد ماہان ،ارجان يا ارگان فارس كا دہقان تھا فارس سے ہجرت كرتاہوا كوفہ پہنچا وہاں ايك ايرانى خاندان ميں شادى كى _ ابراہيم نے موسيقى كا فن ايرانى موسقيدانوں ''جو انويہ ''سے سيكھا اور حيرت انگيز ترقى كى كہ اسكى شہرت عباسى خليفہ مہدى كى دربار تك پہنچى عباس خليفہ مہدى اور اسكے بيٹے ہارون الرشيد كى دعوت سے ابراہيم نے دربار ميں خاص مقام و منزلت پائي _ بغداد اور دربار خلفاء كے اكثر گلوكار ، موسيقار، بالخصوص فن موسيقى كے بزرگ دانشور حضرات مثلا اسحاق موصلى اسى كے تربيت يافتہ شاگرد تھے _(۱)

اسحاق موصلي، ابراہيم موصلى كا بيٹا تھا كہ جو تقريباً ۱۵۰ قمرى ميں رى ميں پيدا ہوا اس نے علم موسيقى كے اصول و قواعد اپنے والد اور ماموں منصور زلزل كے ہاں سيكھے اور اپنے دور ميں علم موسيقى ميں بے نظير مقام حاصل كيا اسكے موسيقى ميں مكتوب آثار مثلا الاغانى و الكبير ، النغم ، الايقاع اغانى معبد اور كتاب الرقص اب موجود نہيں ہيں يہ ہارون الرشيد ، مامون ، معتصم اور واثق عباسى كے دور ميں رہا اور ۲۳۵ ميں اسكا انتقال ہوا _

ابوالحسن على بن نافع ، اسكا لقب زرياب تھا وہ بصرى كے عنوان سے معروف تھا اور نسب كے اعتبار سے ايرانى اور اسحاق موصلى كے شاگردوں ميں سے تھا _ اس نے ايرانى موسيقى كے آلہ'' بربط'' ميں جدت پيدا كي_ بربط كے چارتاروں ميں ايك اور تار كا اضافہ كيا اور بربط كو بنانے كيلئے عقاب كے ناخن اور شير كے بچے كى انتڑيوں كو استعمال كيا كہ اس سے بربط كى آواز زيادہ جاذب ہوگئي زرياب نے اپنے مكتب ميں فن موسيقى كے

____________________

۱) ابوالفرج اصفہانى ، الاغانى ، قاہرہ ، ج ۵ ، ص ۲۰۸، ص ۲۳۰_

۱۴۹

حوالے سے نئے اصول و قواعد بنائے_ اور اسى كا شيوہ اہل مغرب ميں بھى مقبول ہوا بالخصوص اسپين كے مكتب موسيقى كى ايك روش زرياب كى تخليق تھى كہ جو سرزمين مغرب ميں منتقل ہوئي_(۱)

منصور زلزل عباسى دور ميں ايك ايرانى موسيقى دان تھا كہ جو بربط بجانے ميں استاد اور بے نظير گلوكار تھا _ ابونصرفارابى (۳۳۹ _ ۲۵۹ يا ۲۶۰ قمرى ) ايران كا عظيم الشان فلسفى ، رياضى دان اور موسيقيدان تھا _ فارابى نے موسيقى ميں قيمتى ترين كتابيں تاليف كيں ، اسكى موسيقى كے حوالے سے كتابيں مندرجہ زيل ہيں : المدخل الى صناعة الموسيقي، كلام فى الموسيقا، احصاء الايقاع ، كتاب فى النقرة مضافا الى الايقاع اور مقالات كے عنوان سے رسالہ ان ميں سے بعض كتابيں ختم ہو چكى ہيں _ موسيقى كے حوالے سے فارابى كى اہم ترين كتاب احصاء العلوم و الموسيقى الكبير ہے اسى وجہ سے قرون وسطى ميں فارابى كو موسيقى ميں سب سے بڑا مصنف جانا جاتا ہے _ فارابى نے موسيقى كے دو معروف پردوں '' وسطاى زلزل اور وسطاى فرس ميں دقيق مطالعہ كيا اور انكے فاصلوں كو بيان كيا _(۲)

ابوعلى سينا (۴۲۸ _ ۳۷۰ قمرى ) طب ، فلسفہ ، منطق ميں عظيم تاليفات كے ساتھ ساتھ فن موسيقى ميں انتہائي اہم تاليفات كے حامل ہيں انہوں نے كتاب شفا ميں فن موسيقى كيلئے ايك باب خاص كيا بوعلى سينا پہلے شخص ہيں كہ اسلام ميں موسيقى كے بارے ميں انكى فارسى ميں كتاب ابھى تك موجود ہے يہ وہى كتاب النجاة ہے جسكا انكے شاگرد ابوعبيدہ جو زجانى نے ترجمہ كيا اور اسكا نام ''دانشنامہ علايى ''ركھا_(۳)

____________________

۱) H.G. Farmer A historY of Arabian Music to the Xth Century London p .

۲) احصاء العلوم ، فصل موسيقى ، ہنرى جورج فارمو، سابقہ حوالہ، ص ۱۴۴، مہدى يركشلى ، موسيقى ، ايوانشہر، كميسيون ملى يونسكو در ايران نيز Encyclopaedia of Islam. New Edition S v Musiki Byo. Wright

۳)مہدى بركشلى ، سابقہ حوالہ، دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ذيل ابن سينا ، موسيقى ، تقى بينش ، ہنرى جارج فارمر، تاريخ موسيقى خاور زمين ، ترجمہ بہزاد باشى ، تہران ، ص ۳۶۸_

۱۵۰

صفى الدين عبدالمومن ارموى (۶۱۹ _ ۶۱۳ قمرى ) ساتويں صدى ہجرى ميں ايرانى موسيقى كا درخشاں ستارہ تھا ، انكى دو معتبر كتابيں '' الادوار'' اور '' رسالہ الشرفيہ '' كے مطالعہ سے يہ حقيقت آشكار ہوتى ہے كہ فارابى كے بعد وہ سب سے بڑا اور اہم ترين شخص ہے جنہوں نے فن موسيقى كے قواعد ميں تحقيق كى ہے _ اسكى كتاب ''الادوار ''ميں فارسى اور عربى كے قديم ترين راگ موجود ہيں _

عبدالقادر غيبى مراتمى (۸۳۸ قمرى ) تيمورى دور (تيمور اور شاہرخ كے دربار) ميں نظرى علم موسيقى كا اہم ترين عالم شمار ہوتا ہے اسكى سب سے بڑى كتاب ''جامع الالحان ''ہے دوسرى كتاب ''مقاصد الالحان ''جو جامع الالحان كى نسبت چھوٹى ہے ، شرح الادوار بھى مراغى كى تاليف ہے كہ ابھى بھى موجود ہے _ اسى طرح مراغى كى كتاب كنزالالحان انتہائي قيمتى كتاب تھى كہ جو فن موسيقى سے آشنا لوگوں كيلئے بہت اہميت كى حامل تھى اور اس كے نغموں پر مشتمل تھى ليكن اب موجود نہيں ہے اسكا بيٹا اور پوتا بھى موسيقيدان تھے اسكے بيٹے كا نام عبدالعزيز تھا جس نے ''نقاوة الادوار'' اور پوتے نے ''مقاصد الادوار'' كتابيں لكھيں _

نويں صدى ہجرى كے بعد ايران ميں كوئي بڑا موسيقيدان ظاہر نہيں ہوا كبھى كبھى كوئي شخصيت سامنے آتى رہى ليكن كسى نے جدت پيدا نہيں كى _ ايرانى موسيقى كے ترك موسيقى اور عرب ممالك حتى كہ مشرق بعيد كے ممالك كى موسيقى ميں اثرات واضح ہيں اور موسيقى كى فارسى اصطلاحات ان مناطق كى زبان اور تہذيب ميں واضح اور آشكار ہيں _(۱)

____________________

۱)ہنرى جارج فارمر، مجلہ روزگار نو ، ش ۱، ۱۹۴۲_

۱۵۱

چھٹا باب :

اسلامى تہذيب كےمغربي تہذيب پر اثرات

۱۵۲

دنيا كى موجودہ تہذيب پورى تاريخ ميں تمام اقوام كى كوششوں كا نتيجہ ہے اگر چہ موجودہ تہذيب ديگر اقوام كى تہذيبوں سے خصوصيات كے اعتبار سے مختلف ہے ليكن يہ حقيقت ميں گذشتہ تہذيبوں كا مركب ہے _ واضح سى بات ہے كہ اس جديد تہذيب كے وجود ميں آنے اور وسعت پانے ميں اسلام كا كردار ديگر تہذيبوں سے كم نہيں ہے _ ميرے خيال ميں گوناگوں تہذيبوں كى تركيب اور اقوام عالم ميں نظرياتى تبادلہ اس جديد تہذيب كے وجود ميں آنے اور وسعت پانے ميں بہت زيادہ كردار ركھتا ہے _ اور اسلام بھى اس امتزاج كے اسباب مہيا كرنے ميں متاثر كن اور اساسى كردار ركھتا ہے _ اس باب ميں اس موضوع پر گفتگو ہوگى كہ مختلف تہذيبوں كے امتزاج اور ان ميں فكرى ، ثقافتى اور علوم كے تبادلہ اور انكو مغرب ميں منتقل كرنے ميں اسلام كا كردار كيسا تھا ؟

اسلام سے مغرب ميں علم اور تہذيب كا نقل و انتقال تين راہوں سے انجام پايا :

۱) مسلمانوں كااسپين ، اٹلى ،سسلى اور صليبى جنگوں ميں عيسائيوں كے ساتھ ميل جول اور انكا عالم اسلام كے مختلف مناطق ميں اسلامى تہذيب اور كلچر سے آشنا ہونے اور عالم اسلام كى باہر كى دنيا سے سرحدوں كے ذريعے_

۲) پانچويں صدى سے ساتويں صدى ہجرى تك عربى كتب كا يورپى زبانوں ميں ترجمہ _

۳) ان عربى كتب كى تدريس اور ان سے فائدہ اٹھانا كہ جنہيں مسلمان دانشوروں نے علمى مراكز ميں تحرير يا ترجمہ كيا تھا_

مغرب والوں كا اسلامى تہذيب و تمدن سے آشنائي كا ايك اہم ترين مركز اسپين تھا _ اسپين كے عيسائيوں

۱۵۳

پر اسلامى نظريات كى چھاپ انكے عيسائي رہبروں پر اسلامى نظريات كے اثرات سے ديكھى جا سكتى ہے _ جيسا كہ كہاگيا ہے كہ ٹولڈو(طليطلہ ) شہر كے پادرى ايلى پنڈس نے اسلامى عقائد سے متاثر ہوتے ہوئے حضرت عيسى كى الوہيت كا انكار كيا اور كہا كہ وہ بشر اور خدا كے منہ بولے بيٹے تھے دوسرى طرف اس زمانہ ميں اسپين كے لوگ عربى لباس پہنتے تھے اور اسلامى و عربى آداب كاخيال ركھتے تھے كہا جاتا ہے كہ غرناطہ (گرايناڈا) شہر كى دو لاكھ مسلمان آبادى ميں سے فقط پانچ سو عرب تھے باقى سب خود اسپين كے لوگ تھے _(۱)

اسلامى آثار كا يورپى زبانوں ميں ترجمہ : مجموعى طور پر عربى زبان سے يورپى زبانوں ميں ترجمہ كے رواج كو عيسائي مملكت كے اندرونى اوربيرونى دو قسم كے اسباب ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے _

صليبى جنگوں ميں عيسائيوں كا مسلمانوں كى تہذيب سے آشنا ہونا اور مسلمانوں كى علمى ميراث اور كتابوں كے ايك مجموعہ كا سامنا كرنے كو بيرونى سبب شمار كيا جا سكتا ہے،عيسائيوں ميں اہم ترين اندرونى سبب يہ ہے كہ عيسائي دانشور حضرات كو معلوم نہ تھا كہ يونانى علماء بالخصوص ارسطو ، سقراط، بطلميوس اور جالينوس كے علمى آثار كے مقابلے ميں كيا كريں ، بہت سارے دلائل اس بات كى طرف اشارہ كرتے ہيں كہ عيسائي علماء اور فلاسفہ ان يونانى آثار كے اصلى متون سے استفادہ كرنے پر قادر نہيں تھے ، چونكہ يونانى معيارى زبان اور ان آثار كى كتابت كے مابين بارہ صديوں كے فاصلے كے باعث عيسائيوں كے بہترين زبان شناس اور مترجمين بھى ان متون كے ادراك سے عاجز تھے ، اور ساتھ بہت سے يونانى كلاسيكى آثار ختم ہوچكے تھے اور ان تك پہنچنے كيلئے عربى زبان سے ترجمہ كے علاوہ كوئي اور راستہ نہ بچا تھا اسى ليے عربى آثار سے لاطينى ميں ترجمہ كى تحريك شروع ہوئي_

يہ تحريك دو بڑے ادوار ميں تقسيم ہوتى ہے:پہلا دورہ ويٹيكن كے پاپ سيلوسٹر دوم ( ۱۰۰۳ _ ۹۹۸عيسوي) كے اس عہدے پر پہنچنے سے شروع ہوا اور اسپين كے مقامى حاكموں ميں سے آلفونسوى دہم كى حكومت كے

____________________

۱)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج ۱۰ ، ذيل انڈلس_

۱۵۴

زمانہ ميں ختم ہوا _ اور دوسرا دور اين آلفونسو (۱۲۸۴ _ ۱۲۵۳ عيسوى ) كے زمانہ سے شروع ہوا _ دونوں ادوار ميں اہم فرق يہ ہے كہ پہلے دور ميں عربى آثار سے عمومى طور پر لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوتا تھا جبكہ دوسرے دور ميں زيادہ تر عربى زبان سے اسپينى اور رومى زبان ميں ترجمہ ہوتا تھا اس دور ميں وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ بہت سے مترجم افراد سامنے آئے كہ جنكى تعداد كا ۱۵۰ تك تخمينہ لگايا گيا ہے _(۱)

ان افراد ميں بعض افراد كى اس حوالے سے خدمات پر يوں نگاہ ڈالى جا سكتى ہے :

افريقى گروہ ميں كينسٹينٹن كے ذريعے وسيع پيمانہ پر آثار كا ترجمہ ہوا اسكے ترجمہ شدہ آثار ميں طب كے حوالے سے جالينوس كے آثار اور فلسفہ ميں ارسطو كے آثار قابل ذكر ہيں _ ہوگوسينٹالايى نے ارسطو ، يعقوب بن اسحاق كندى ، ابومعشر بلخى اور ديگر افراد كے آثار كا ترجمہ كيا ، يوہيس ہيسپايسنر نے ارسطو ، بتّانى ، فارابى ، فرغانى ، قبيسي، محمد بن موسى خوارزمى ، يعقوب بن اسحاق كندى اور ابو معشر بلخى كے كثير آثار كاترجمہ كيا اسكا اہم ترين كام بوعلى سينا كے آثار كو لاطينى زبان ميں ترجمہ كرنا ہے مايكل اسكاٹ نے بھى بہت سے ترجمے كيے بالخصوص اسكا اہم كام ارسطو كے تمام آثار كا ترجمہ كرنا ہے _ پلاٹوى ٹيولياى نے بھى مختلف علمى ميدانوں مثلا نجوم ، رياضى ، ہندسہ ، اور فلسفہ ميں بہت سے آثار كا لاطينى زبان ميں ترجمہ كيا _(۲)

عربى سے لاطينى زبان ميں ترجمہ كى تحريك ''گراردوى كرموناي'' كا مقام انتہائي كى اہميت كا حامل ہے اس نے لاطينى زبان ميں ستر كے قريب آثار كا ترجمہ كيا ان ميں بہت سے علمى موضوعات مثلا طب ، فلسفہ ، نجوم ، اخلاق ، سياست و غيرہ شامل ہيں ، طب كے حوالے سے اسكے قلم سے ترجمہ شدہ جالينوس اور سقراط كے آثار اور اسكے ساتھ مسلمان شارحين كے آثار كا ترجمہ يونانى طب كا ايك مكمل مجموعہ كہلاتا ہے _

۱_ عقلى علوم ، اسلامى فلسفہ اور الہى علوم كے مغربى تہذيب پر اثرات

بارہويں صدى عيسوى كے ابتدائي سالوں ميں گونڈيسالومى اور خواں شقوبى نے بوعلى سينا ، فارابى اور غزالي

____________________

۱)دانشنامہ جہان اسلام ، ج ۷ ، ذيل ترجمہ ، نہضت (سيد احمد قاسمى )_

۲)سابقہ حوالہ، ج ۵ ، ذيل پلاوى تيولياى ، فريد قاسملو_

۱۵۵

كے آثار كا ترجمہ كيا ، اہل مغرب ان ترجمہ شدہ كتابوں كے ذريعے ارسطو كے نظريات و عقائد سے آشنا ہوئے ، حقيقى بات يہى ہے كہ اہل مغرب ارسطو كے بارے معلومات حاصل كرنے ميں مسلمانوں كے احسان مند ہيں اور اسميں كوئي شك و شبہہ نہيں ہے كہ يورپ والے مسلمانوں كے نظريات سے آگاہ ہونے كے بعد فلسفہ كے عاشق ہوئے اور ارسطو كے آثار كا مطالعہ كرنے لگے_

ارسطو اور ابن رشد كى تعليمات آپس ميں مخلوط ہو چكى تھيں اس كى روش اور نظريات وسيع پيما نہ پر يہوديوں ميں پھيل چكے تھے_ اسى طرح يہ نظريات عيسائيوں ميں بہت گہرائي تك اس طرح سرايت كر رہے تھے كہ كليسا والے پريشان ہونے لگے يہاں تك كہ سن تھامس نے عربى زبان كے مترجميں پر تنقيد كى اور ارسطو اور اسكى كتابوں كے عرب شارحين كے عقائد و افكار ميں فرق پر زور ديا ابن رشد كے علاوہ بو على سيناكى آراء و افكار كا بھى سرزمين مغرب ميں بہت زيادہ استقبال ہوا_

بوعلى سينا كے جو افكار مغرب ميں منتقل ہوئے ان ميں سے ايك معقولات كا موضوع تھايعنى وہ چيزيں جو عقل كے ذريعے قابل درك ہيں بوعلى سينا كا ايك نظريہ يہ بھى تھا كہ ہر موجود كى اساس تجزيہ كے قابل نہيں ہے اور موجودات ميں كثرت و اختلاف كى بنياد بذات خود مادہ ہے _

سرزمين مغرب كے بعض دانشور مثلا راجر بيكن كا يہ عقيدہ تھا كہ ارسطو كے فلسفہ كے اثرات مغرب ميں زيادہ نہيں تھے خواہ اسكى وجہ اسكى كتابوں اور رسالوں كا كم ہونا ہو خواہ اسكى كتابوں اور رسالوں كا آسانى سے درك نہ ہونا ہو يہاں تك كہ پيغمبر اسلام (ص) كے بعد اسلام كے بڑے فلاسفہ مثلا بوعلى سينا اور ابن رشد نے ارسطو كے فلسفہ كو سمجھا اور موضوع بحث قرار ديا اگر چہ اس دور ميں بوئيٹس نے ارسطو كے بعض آثار كو ترجمہ كرديا تھا فقط مانيكل اسكاٹ كے دور ميں كہ جب اس نے ارسطو كى طبيعت اور حكمت كے بارے ميں بعض كتابوں كا عربى سے لاطينى ميں ترجمہ كيا تو اس دور ميں مغرب ميں ارسطو كے فلسفہ كو پسند كيا گيا(۱) _

____________________

۱)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج ۳ ذيل'' ابن رشد'' ( شرف الدين خراسانى اُ جَ ع ذيل'' ابن سينا''_

۱۵۶

۶۴۸ قمرى ہجرى ميں عيسائي مبلغين كے حكم پر ٹولڈو شہر ميں مشرقى علوم سے آشنائي كيلئے پہلا ادارہ قائم ہوا، اس ادارہ ميں عربى زبان ، عيسائي اور يہودى دينى علوم كى تعليم دى جاتى تھى تا كہ مسلمانوں ميں تبليغ كيلئے افراد تيار كيے جائيں اس ادارہ كا سب سے بہترين طالب علم ريمنڈ مارٹن تھا ،اسكا يورپ ميں مسلمان مصنفين كے بارے ميں معلومات كے حوالے سے كوئي ثانى نہ تھا وہ نہ صرف يہ كہ قرآنى آيات اور اسلامى احاديث سے آگاہى ركھتا تھا بلكہ فارابى سے ليكر ابن رشد تك علم الہى اور اسلامى فلسفہ كے تمام علماء سے نكات بھى جانتا تھا ريمونڈ مارٹين نے غزالى كى مشہور كتاب تھافت الفلاسفہ پر بھى تحقيق كى اور اس كتاب كے بعض حصوں كو اپنى كتاب ''پوگو فيڈي'' ميں نقل كيا غزالى كے افكار و عقائد جب سے يورپى دانشوروں كے ہاں منتقل ہوئے اسى وقت سے عيسائي اہل فكر كيلئے بہت اہميت كے حامل ہيں اور اب بھى ان كے ليے مفيد ہيں _

فلسفہ ميں اسلام كى ديگر عظيم شخصيات ميں سے كہ جو يورپ ميں مشہور ہوئيں جناب ابن رشد تھےاٹلى ميں انكے افكار و نظريات تقريباً سولھويں صدى عيسوى تك چھائے رہے،ان كے عقائد عيسائيوں ميں بہت سى مباحث كا باعث قرار پائے_ مغرب ميں ابن رشد كے فلسفہ كى پيروى كہ جسے اصطلاحى طور پريوروازم كانام ديا گيا جديد علوم كے ظہور تك يورپ ميں فلسفہ كى بقا كے اسباب ميں سے ايك سبب تھا(۱) _

يہ مسلمہ بات ہے كہ اس علم الہى كے حوالے سے مسلمانوں كى خدمات بے حد اہميت كى حامل ہيں اور وہ لوگ جو اسلامى دانشوروں كو جدت و بنياد سے محروم كہتے ہيں يقيناً انہوں نے ابن رشد اور غزالى كے آثار كا مطالعہ نہيں كيا ٹوماز ايكوئنس كى مشہور كتاب ''سوما''اسى كوتاہ فكرى پر ايك دليل ہے_

چارصديوں سے زيادہ مدت تك يورپ كے تمام تعليمى اور ثقافتى مراكز پر اسلامى تہذيب و تمدن كے اثرات چھائے رہے _ جب يورپ ميں اسلامى افكار كى برترى كا دور ختم ہو ا پھر بھى مشرق و مغرب ميں ثقافتى رابطہ باقى رہا اور يہ رابط و تعلق تيرھويں صدى عيسوى ميں اپنے عروج كو پہنچا ، اگر ہم اس دور كے باقى ماندہ

____________________

۱) سابقہ حوالہ ج ۲_

۱۵۷

آثار كا تجزيہ كريں تو ديكھيں گے كہ اسلامى تسلط ہميشہ جارى رہا اور يہ اسلامى برترى قرون وسطى كے ادوار ميں اس سے كہيں زيادہ تھى كہ جس كا تذكرہ آج كيا جاتا ہے_

۲_ اسلامى طب كے مغربى تہذيب پراثرات

اسلامى طب نے مغربى طب پر مختلف انداز سے اثرات ڈالے ان ميں سے ايك اسلامى طبيبوں كے بہت سے آثار كا لاطينى زبان ميں ترجمہ ہونا تھا، ان اطباء ميں سے ايك اہم ترين طبيب محمد بن زكريا رازى ہيں كہ جنكے بہت سے آثار لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئے اور ہر كتاب باربار شايع ہوئي بہت سے مغربى مورخين اور دانشوروں كا يہ نظريہ ہے كہ رازى كى كتاب '' الجدرى و الحصبة'' ( پھوڑے اور خسرہ) انكى سب سے بڑى تاليف ہے يہ كتاب ۱۴۹۸عيسوى ميں پہلى بار ترجمہ ہو كر شايع ہوئي اس كے علاوہ يہ كتاب چاليس بار يورپ ميں شايع ہوئي معلوم يہ ہوتا ہے كہ اسلامى تہذيب ميں اسلامى طبى كتابوں ميں سے اس كتاب كے ترجموں اور چھپنے كى تعداد ديگر كتب سے بہت زيادہ ہے _

رازى كى ايك اور كتاب'' الحصى المتولدہ فى الكلى و المثانہ ۱۸۹۶ عيسوى ميں پيرس ميں شايع ہوئي _

۱۲۷۹ عيسوى ميں چارلس اول كے دور ميں رازى كى كتاب الحاوى فرح بن سالم نامى ايك يہودى طبيب كے ذريعے لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئي اور ۱۵۴۲ عيسوى ميں پانچ بار شايع ہوئي _ يہ كتاب يورپ ميں علم طب كے نصاب كى اہم ترين كتاب شمار ہوتى تھى _

دوسرے طبيب كہ جنہوں نے مغربى طب كو متاثر كيا جناب بو على سينا ہيں انكى كتاب قانون بہت سالوں تك مغرب كى اہم ترين طبى كتاب شمار ہوتى رہى پندرھويں صدى عيسوى كے آخر ميں اس كتاب كى سولہ بار يورپ ميں اشاعت كى گئي جو پندر ہ بار لاطينى زبان اور ايك بار عبرى زبان ميں تھى _ اس كتاب كى لاطينى اور عربى زبان ميں لكھى گئي تفاسيربے شمار ہيں يہ كتاب سترويں صدى عيسوى كے دوسرے نصف حصے تك كئي بار شايع ہوئي اور ايك طويل مدت تك ايك نصابى كتاب شمار ہوئي رہى شايد علم طب ميں آج تك اسكى مانند كوئي كتاب اسقدر رائج نہ رہى ہو_

۱۵۸

اس كے علاوہ اور كئي پہلوں سے اسلامى علم طب نے مغربى طب كو متاثر كيا_ ميرے خيال ميں يورپ ميں ہسپتالوں كا وجود ميں آنا شرقى اور اسلامى ہسپتالوں سے متاثر ہونے كى بناء پر تھا_ علاوہ ازيں يورپى طبيب جس چيزميں مسلمانوں كے احسان مند ميں وہ مختلف بيماريوں كے طريقہ علاج تھا يہ تو ہم جانتے ہيں كہ يورپى طبيبوں نے بہت سى بيماريوں مثلا خسرہ ، ٹائيفائڈاور طاعون كا علاج اور اسى طرح بہت سے طبى آپريشنوں كے طريقہ كار كو مسلمانوں سے سيكھا جسكى مثال يہ ہے كہ مسلمان طبيب زھراوى قرطبى كا طبى رسالہ يورپ ميں آج علم جراحت كى اساس كے طور پر جانا گيا ہے _(۱)

۳_ اسلامى رياضيات كے مغربى تہذيب پر اثرات

مغرب ميں علم رياضى كى ترقى كے حوالے سے اسلامى رياضى دانوں كے اثرات بہت زيادہ ہيں يورپى لوگ مسلمانوں كے ذريعے دہائي نظام كى عدد نويسى اور ہندى اعداد كى شكل سے آشنا ہوئے جو آج بھى مورد توجہ ہے _ يہ اثرات خاص طور پر كتاب '' المختصر فى الجبر و المقابلہ'' كے ترجمہ كے ذريعے پڑے _ يہ كتاب بار بار لاطينى زبان ميں '' لبيبر الگوريسمي'' ( يعنى خوارزمى كى كتاب) كے نام سے ترجہ ہوئي اسى كتاب كے لاطينى ترجمہ سے كلمہ '' algorism '' كا معنى حساب كرنا اور حساب كرنے كى روش ليا گيا _

قرون وسطى كے ادوار ميں يہ كتاب يورپ ميں شہرہ آفاق تھي_ اور سولھويں صدى عيسوى ميں فرانسيسى رياضى دان فرانسويت كے زمانہ تك يورپى رياضى دانوں كے مطالعات كى بنياد چلى آئي _ خوارزمى كى ايك اور اہم ترين كتاب كہ جسكا نام '' حساب ھند'' ہے ،خود اصل كتاب تو اب باقى نہيں رہى ليكن چودھويں صدى عيسوى ميں اسكا لاطينى زبان ميں ہونے والا ترجمہ موجود ہے _ اسلامى ماخذات ميں يہ كتاب '' الجمع و التفريق بحساب الہندسہ'' كے نام سے پہچانى جاتى ہے _

____________________

۱) فؤاڈ سزگين : تاريخ نگارشہا ى عربى ، ج ۳ ترجمہ اشاعت از خانہ كتاب ، مقدمہ ، ص ۳۰ كے بعد_

۱۵۹

خوارزمى كے علاوہ ديگر اسلامى دانشوروں كے كى كتابيں بھى اسى دور ميں اور بعد كے ادوار ميں لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئيں(۱) مثلا خيام ، خواجہ نصير الدين طوسى اور فارابى كى علم رياضى ميں كتابيں لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئيں _

آخرى مسلمان رياضى دان كہ جنگے قرون وسطى بعد كے ادوار ميں آثار كا لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوا جناب بہاء الدين عادلى تھے كہ جو شيخ بہائي كے نام سے مشہورترين ہيں انكى كتاب '' خلاصة الحساب انگلش ، فرانسيسي، اور جرمنى زبان ميں ترجمہ ہوئي رياضى كے پرعملى پہلو مثلاًچند حصوں پر مشتمل منظم و غير منظم اشكال الجبرا كى مساواتوں كے متعدد عددى اور ہندسى راہ حل ، p عدد( n ) كے دقيق ميزان تك پہچنا اور متعدد اضلاع پر مشتمل چيزوں كى حدود اور مساحت كى نمائشے كيلئے مختلف روشيں و غيرہ اس مسلمان رياضى دان كے محنتوں كا ثمرہ تھا كر جو مغرب ميں منتقل ہوا(۲)

۴_ اسلامى علم فلكيات كے مغربى تہذيب پر اثرات

اسلامى ماہرين فلكيات كى معلومات و تحقيقات ميں انكى بہت سى اختراعات بھى شامل ہيں مثلا مختلف انداز كى جنتريوں كا بنانا اور ستاروں كے حوالہ سے مختلف معلومات اسى طرح سياروں كى حركت كے بارے ميں جديدنظريات يہ سب اسلامى نجوم كے اہم ثمرات تھے كہ جو سرزمين مغرب ميں منتقل ہوئے_

آج تو مكمل طور پر واضح ہو چكا ہے كہ مغربى ماہرين فلكيات مثلا نيوٹن ، كپلر اور كوپرينك اسلامى علم نجوم سے آشنا تھے اور اسلامى ماہرين فلكيات كى تحقيقات اور ثمرات سے بہت زيادہ بہرہ مند تھے قرون وسطى كے ادوار ميں سب سے پہلے اسلامى ماہر فلكيات كہ جو مغرب ميں بہت زيادہ مشہور ہوے احمد بن كثير فرغانى تھے انكى كتاب '' جوامع علم نجوم'' گوارڈوى كرموناى اور يوھنيس ھسپالنسز كے ذريعے يورپ ميں ترجمہ ہوئي اور يہ

____________________

۱) گوسٹالو بون _ ص ۵۶۷_

۲) سيد حسين نصر، علم و تمدن در اسلام ، ترجمہ احمد آرام ، تہران ۱۳۵۹ ، ج ۲ ص ۱۳۷_۱۳۸_

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

خدا وند عالم کی گواھی:

اس آیہء شریفہ میں پیغمبر خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے پہلے گواہ کے طور پر خدا وندمتعال کا ذکرہوا ہے۔ خدا وند متعال کی اس گواہی کے دوفرض ہیں:

۱ ۔ممکن ہے یہ گواہی قولی ہو اور گفتگو و کلام کے مقولہ سے ہو اس صورت میں وہی آیتیں جو آنحضرت کی رسالت کو بیان کرتی ہیں خداوندمتعال کی اس گواہی کی مصداق ہوں گی، جیسے :( والقران الحکیم انّک لمن المرسلین ) (۱) ” قرآن حکیم کی قسم آپ مرسلین میں سے ہیں“

۲ ۔ ممکن ہے یہ گواہی فعلی ہو اور خدا وندمتعال نے اسے معجزہ کی صورت میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذر یعہ ظاہر کیا ہو، یہ معجزے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے سلسلہ میں دعویٰ کے لئے ایک قوی سند ، واضح دلیل اور گو یا گواہ ہیں، خاص کر قرآن مجید ، جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاایک لافانی معجزہ ہے اورہر زمانہ میں باقی رہنے والا ہے اوران معجزات کی حیثیت ایک طرح سے خداوندمتعال کے فعل کی سی ہے جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت پر گواہ ہیں۔

من عندہ علم الکتاب - سے مرادکون ہے؟

دوسرے محورمیں بحث اس جہت سے ہوگی کہ ” کتاب“ سے مراد کیا ہے؟ اور جس کے پاس ” کتاب کا علم“ ہے ، وہ کون ہے؟ اس سلسلہ میں چند احتمالات پائے جاتے ہیں کہ ہم ان پر بحث کریں گے:

پہلا احتمال :” کتاب“سے مرادقرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابیں ہیں اور کتاب کے عالم سے مرادعلمائے یہودو نصاریٰ ہیں:

اس صورت میں اس آیہ شریفہ کے معنی یوں ہوں گے: ” کہدےجئے اے پیغمبر! ہمارے

_____________________

۱-۔ سورہ یاسین/۱۔۲

۲۴۱

اورتمھارے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے کافی ہے خدا وندمتعال اور وہ لوگ جن کے پاس گزشتہ آسمانی کتابوں کا علم ہے جیسے علمائے یہودونصاری چونکہ ان کتابوں میں پیغمبر)صلی الله علیہ وآلہ وسلم) کا نام آیا ہے اور آنحضرت کی رسالت بیان ہوئی ہے ۔ اسی لئے علمائے یہودو نصاری اس مطلب سے آگاہی رکھتے ہیں اور اس پر گواہ ہیں۔

یہ احتمال صحیح نہیں ہے، کیونکہ اگر چہ علمائے یہودونصاری اپنی آسمانی کتابوں کے عالم تھے ، لیکن وہ کافر تھے اور ہر گز اپنے خلاف گواہی دینے کے لئے حاضر نہیں تھے۔

دوسرا احتمال : ” کتاب “سے مراد وہی قرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابیں ہیں اور ان کے عالم سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا شمار پہلے علمائے یہودونصاری ٰ میں ہوا کر تا تھالیکن بعد میں اسلام قبول کرکے وہ مسلمان ہوگئے تھے، جیسے : سلمان فارسی ، عبدالله بن سلام اور تمیم الداری۔ یہ لوگ ایک جہت سے توریت اور انجیل جیسی گزشتہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتے تھے اور ایک جہت سے آمادہ تھے تاکہ اسلام کی حقانیت اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے بارے میں جو کچھ انہیں معلوم ہے اس کی گواہی دیں۔

یہ احتمال بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ سورہ رعد اور من جملہ زیر بحث آیہء شریفہ جو اس سورہ کی آخری آیت ہے ، مکہ میں نازل ہوئی ہے اور مذکورہ افراد مدینہ میں مسلمان ہوئے ہیں۔ اس لئے اس کاکوئی مفہوم نہیں ہے جو ابھی کافر ہیں اور مسلمان نہیں ہوئے ہیں اپنے دین کے خلاف گواہی دینے کے لئے مدعو ہوجائیں۔

شبعی اور سعید بن جبیر سے نقل ہوئی روآیت کے مطابق انہوں نے بھی مذکورہ احتمال یعنی ” من عندہ علم الکتاب“ سے عبدالله بن سلام کو مراد لینا اس کو مسترد کر دیا ہے ۔ اس کی دلیل یہ پیش کی ہے کہ یہ سورہ مکی ہے اور عبداللهبن سلام مدینہ میں مسلمان ہوا ہے۔(۱)

تیسرا احتمال: ”من عنده علم الکتاب “ سے مقصود خداوندمتعال اور

____________________

۱۔ معالم التنزیل ، ج ۳-، ص ۴۶۴، ۴۶۵-۔ الاتقان ، ج ۱، ص ۳۶، دار ابن کثیر بیروت

۲۴۲

”کتاب“سے مرادلوح محفوظ ہے اور ”من عند ه علم الکتاب “ کا ” الله“ پر عطف ہونا صفت کا اسم ذات پر عطف ہونے کے باب سے ہے۔ اس صورت میں معنی یوں ہوتا ہے: خداوندمتعال اور وہ شخص جو لوح محفوظ )جس میں تمام کائنات کے حقائق ثبت ہیں ) کا علم رکھتا ہے، وہ تمہاری رسالت پر گواہ ہے۔

اول یہ کہ : جملہء( قل کفی باالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب ) میں بظاہر عطف یہ ہے کہ ” من عندہ علم الکتاب“ خدا وندمتعال کے علاوہ ہے کہ جس کا ذکر ابتداء میں پہلے گواہ کے طور پرآیا ہے۔

دوسرے یہ کہ: عربی ادبیات میں صفت کا عطف ، صفت پر موصوف کے سلسلہ میں مشہور اور رائج ہے۔ قرآن مجید میں بھی اس قسم کا استعمال پایاجاتا ہے، جیسے :آیہء شریفہ :( تنزیل الکتاب من اللهالعزيز العلیم غافر الذّنب وقابل التوب ) (۱) میں ”غافرالذّ نب “)گناہ کو بخشنے والا) اور ”قابل التوب “ )توبہ کو قبول کرنے والا) دوصفتیں ہیں جو حرف عطف کے فاصلہ سے ایک دوسرے کے بعدہیں اور خدا وندمتعال کے لئے بیان ہوئی ہیں۔ لیکن جن مواقع پر پہلے اسم ذات ذکر ہوا ہے، کبھی بھی مشہور اور رائج استعمالات میں صفت اس پر عطف نہیں ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ : آیہ کریمہ میں ” من عندہ علم الکتاب“ سے مرادخدا وندمتعال ہے۔

چوتھا احتمال: کتاب سے مراد ” لوح محفوظ“ ہے اور ” جس کے پاس کتاب کا علم ہے اس سے مراد امیرلمومنین علی علیہ السلام ہیں۔

اب ہم اس احتمال پر بحث و تحقیق کرتے ہیں۔

____________________

۱۔ سورہ غافر/۲

۲۴۳

لوح محفوظ اور حقائق ھستی

قرآن مجید کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کے تمام حقائق ایک مجموعہ کی شکل میں موجود ہیں کہ قرآن مجید نے اسے ” کتاب مبین“(۱) یا ” امام مبین“(۲) یا ” لوح محفوظ“(۳) کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ من جملہ سورہ نمل میں فرماتا ہے:( وما من غائبة فی السّماء والارض إلّا فی کتاب مبین ) (۴) یعنی: اور آسمان و زمین میں کوئی پوشیدہ چیزایسی نہیں ہے جس کا ذکر کتاب مبین ) لوح محفوظ ) میں نہ ہو۔

اس بنا پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لوح محفوظ میں درج شدہ حقائق سے آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے؟ اور اگر یہ ممکن ہے تو کون لوگ ان حقائق سے با خبر اور آگاہ ہیں اور کس حد تک؟

مطھّرون اور لوح محفوظ سے آگاہی

اس سلسلہ میں ہم سورہ واقعہ کی چند آیتوں پر غوروخوض کرتے ہیں:

( فلا اٴُ قسم بمواقع النجوموإنّه لقسم لوتعلمون عظیم إنّه لقرآن کریمفی کتاب مکنون لایمسّه إلّا المطهّرون ) ) سورہ واقعہ/ ۷۵ ۔-- ۷۹)

ان آیات میں ، پہلے ستاروں کے محل و مدارکی قسم کھائی گئی ہے۔ اس کے بعد اس قسم کی عظمت و اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور اس کی نشاندھی کی گئی ہے۔ اس نکتہ پرتو جہ کرنا ضروری ہے کہ قسم کا معیار اور اس کی حیثیت اس حقیقت کے مطابق ہونا چا ہئیے کہ جس کے متعلق یا جس کے

____________________

۱-۔ سورہ یونس/۶۱، سورہ سبا/۱۳، سورہ نمل/۷۵

۲۔ سورہ یسین/۱۲

۳۔ سورہ بروج/ ۲۲

۴۔ سورہ نمل/۷۵

۲۴۴

اثبات کے لئے قسم کھائی جارہی ہے ۔ اگر قسم با عظمت اور بااہمیت ہے تو یہ اس حقیقت کی اہمیت کی دلیل ہے کہ جس کے لئے قسم کھائی گئی ہے۔

جس حقیقت کے لئے یہ عظیم قسم کھائی گئی ہے، وہ یہ ہے: - إنّہ لقرآن کریم فی کتاب مکنون لایمسّہ الّا المطھرون یعنی بیشک یہ بہت ہی با عظمت قرآن ہے جسے ایک پو شیدہ کتاب میں رکھاگیا ہے اسے پاک و پاکیزہ افراد کے علاوہ کوئی چھو بھی نہیں سکتا ہے۔ ) اس کے ساتھ رابطہ نہیں کرسکتا ہے۔)آیہ شریفہ کا یہ جملہ لا یمسّہ الّاالمطھرون بہت زیادہ قابل غور ہے۔

ابتدائی نظر میں کہاجاتا ہے کہ بے طہارت لوگوں کا قرآن مجید سے مس کرنا اور اس کے خط پر ہاتھ لگانا حرام ہے، لیکن اس آیہ شریفہ پر عمیق غور وفکر کرنے سے یہ اہم نکتہ و اضح ہو جاتا ہے کہ مس سے مراد مس ظا ہری نہیں ہے اور ” مطھرون“ سے مراد باطہارت )مثلاً باوضو) افراد نہیں ہیں ۔ بلکہ مس سے مراد مس معنوی )رابطہ) اور”مطھرون “ سے مرادوہ افراد ہیں جنہیں خدا وندمتعال نے خاص پاکیزہ گی عنآیت کی ہے، اور ”لایمسہ“ کی ضمیر کتاب مکنون )لوح محفوظ) کی طرف پلٹتی ہے ۔

آیہ کریمہ سے یہ معنی )مس معنوی) استفادہ کرنے کے لئے چند نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:

۱ ۔ جملہء ”لا یمسہ “ کا ظہور اخبار ہے نہ انشاء ، کیونکہ بظا ہر یہ جملہ دوسرے اوصاف کے مانند کہ جو اس سے قبل ذکر ہوئے ہیں، صفت ہے اور انشاء صفت نہیں بن سکتا ہے، جبکہ آیت میں غیر مطہرون کے مس سے حکم تحریم )حرمت) کا استفادہ اس بنا پر کیا جاتا ہے کہ جملہ ”لا یمسہ “ انشاء ہو ، نہ اخبار۔

۲ ۔ ” لایمسہ“ کی ضمیر بلا فاصلہ ” کتاب مکنوں“ کی طرف پلٹتی ہے ، کہ جو اس جملہ سے پہلے واقع ہے نہ قرآن کی طرف کہ جواس سے پہلے مذکور ہے اور چند کلمات نے ان کے درمیان فاصلہ ڈال دیا ہے۔

۲۴۵

۳ ۔ قرآن مجید کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ ایک پوشیدہ اور محفوظ کتاب میں واقع ہے کہ جس تک عام انسانوں کی رسائی نہیں ہے اور یہ مطلب اس کے ساتھ مس کرنے سے کوئی تناسب نہیں رکھتا ہے۔

۴ ۔ طہارت شرعی ، یعنی وضو )جہاں پر وضو واجب ہو) یا غسل یا تیمم )جہاں پر ان کا انجام دینا ضروری وفرض)رکھنے والے کو ” متطھرّ“ کہتے ہیں نہ ”مطھّر“۔

اس تشریح سے واضح ہوجاتا ہے کہ جو کچھ جملہ ء ”( لا یمسه الّا المطهرون ) “ سے استفادہ ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ ” مطھر“ ) پاک قرار دئے گئے)افراد کے علاوہ کوئی بھی ”کتاب مکنون“ )لوح محفوظ) کو مس نہیں کرسکتا ہے، یعنی اس کے حقائق سے آگاہ نہیں ہوسکتا ہے۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس خصوصی طہارت کے حامل افراد کون لوگ ہیں اور ”مطھرون“ سے مرادکون لوگ ہیں کہ جو ” لوح محفوظ“ سے اطلاع حاصل کرتے ہیں؟

” مطھرون “سے مرادکون ہیں؟

کیا ” مطھرون“کی اصطلاح فر شتوں سے مخصوص ہے جیسا کہ بعض مفسرین نے اشارہ کیا ہے ۔(۱) یایہ کہ اس میں عمومیت ہے یعنی وہ افراد جو خدا کی جانب سے خصوصی طہارت کے حامل ہیں وہ بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر بحث کرنے کی ضرورت ہے:

حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت ، اور خدا کی جانب سے انھیں جانشین مقرر کیا جا نا نیز

____________________

۱۔جیسے ” روح المعانی“ ج ۲۷،۱۵۴،دار احیاء التراث العربی، بیروت

۲۴۶

”اسماء“الہی کا علم رکھنا یعنی ایک ایسی حقیقت سے آگاہی کہ جس کے بارے میں ملا ئکہ نے بھی لا علمی کا اظہار کیا۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام کے لئے ملائکہ کو سجدے کا حکم دیناو غیرہ ان واقعات اور قرآنی آیات ۱ کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کہ خاص علوم سے آگاہی اور تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت انسان کامل میں ملائکہ سے کہیں زیادہ ہے۔

مذکورہ ان صفات کے پیش نظر کوئی دلیل نہیں ہے کہ جملہ لا یمسہ الّا المطھرون کو فرشتوں سے مخصوص کیا جائے جبکہ قرآن مجید کے مطابق خدا کے ایسے منتخب بندے موجود ہیں جو خاص طہارت و پاکیزگی کے مالک ہیں۔

آیہ تطہیر اور پیغمبر کا محترم خاندان

( إنّمایریدالله ليذهب عنکم الرجس اٴهل البیت و یطهر کم تطهیرا )

) سورہ احزاب/ ۳۳)

” بس الله کا ارادہ ہے اے اہل بیت : کہ تم سے ہرطرح کی برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے“

یہ آیہ شریفہ دلالت کرتی ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاندان خدا وندمتعال کی طرف سے ایک خاص اور اعلی قسم کی پاکیزگی کا مالک ہے۔ آیہ کریمہ میں ” تطھیرا“ کا لفظ مفعول مطلق نوعی ہے جو ایک خاص قسم کی طہارت و پاکیزگی کو بیان کرتا ہے۔

ہم یہاں پر اس آیہ شریفہ سے متعلق مفصل بحث کرنا نہیں چاہتے، اس لئے کہ آیت تطہیر سے مربوط باب میں اس پر مکمل بحث گزر چکی ہے، اور اس کا نتےجہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)کے اہل بیت کہ جن میں سب سے نمایاں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ہیں، اس آیہ شریفہ کے مطابق خداکی طرف سے خاص طہارت و پاکیزگی کے مالک ہیں اور

____________________

۱۔ سورہ بقرہ/۳۴۔۳۰

۲۴۷

”مطھرون“ میں شمار ہوتے ہیں ۔ وہ لوح محفوظ کے حقائق سے آگاہی رکھ سکتے ہیں۔

”آصف بر خیا“ اور کتاب کے کچھ حصہ کا علم

ہم جانتے ہیں کہ خدا وندمتعال نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ایک ایسی وسیع سلطنت عطا کی تھی کہ انسانوں کے علاوہ جناّت اور پرندے بھی ان کے تابع تھے ۔ ایک دن جب جن وانس ان کے گرد جمع تھے حضرت سلیمان نے ان سے کہا: تم میں سے کون ہے جو بلقیس کے مسلمان ہونے سے پہلے اس کے تخت کو میرے پاس حاضر کردے؟جنّات میں سے ایک عفریت نے سلیمان نبی سے کہا:قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھے ہیں تخت کو آپ کے پاس حاضر کردوں گا۔ قرآن مجید فرماتا ہے(۱) ” کتاب کے کچھ حصہ کا علم رکھنے والے ایک شخص نے کہا: میں اتنی جلدی تخت بلقیس کو آپ کے پاس حاضر کردوں گا کہ آپ کی پلک بھی جھپکنے نہیں پائے گی اور اسی طرح اس نے حاضر کیا ۔

جیسا کہ مفسرین نے بیان کیا ہے کہ یہ کتاب ” لوح محفوظ “ہے اور ش یعہ و سنی احادیث کے مطابق مذکورہ شخص حضرت سلیمان کا وزیر ” آصف بر خیا“ تھا ۔ قرآن مجید سے استفادہ ہوتا ہے آصف کی یہ غیر معمولی اور حیرت انگیز طاقت وصلاحیت کتاب )لوح محفوظ) کے کچھ حصہ کا علم جاننے کے سبب تھی۔

واضح رہے کہ طہارت و پاکیزگی کے چند مراحل ہیں۔ جس قدر طہارت کامل تر ہوگی اسی اعتبار سے علم وقدرت میں بھی اضا فہ ہو گا۔

جب ہمیں آیہ کریمہ( لا یمسّه إلا المطهرون ) سے یہ معلوم ہوگیا کہ لوح محفوظ کے حقایق کا علم خدا کی خاص طہارت کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے اور آیہ تطہیر نے اس خاص طہارت اور پاکیزگی کو اہل بیت علیہم السلام کے لئے ثابت کیا ہے، وہ بھی ایک ایسی تطہیر جو

____________________

۱۔سورہ نمل/۴۰

۲۔کچھ اردو قوال بھی ہیں کہ تفاسیر کی طرف رجوع کرنا چاہئے

۲۴۸

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تطہیر کے ہم پلہ ہے۔لہذا ان صفات کے پیش نظربعید نہیں ہے کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصومین) علیہم السلام) لوح محفوظ کے تمام حقائق کا علم رکھتے ہوں اس لئے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ ثعلبی کہ جو اھل سنت(۱) کے نزدیک تفسیر کے استاد نیزحافظ اور امام کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں اور اہل سنت کے ائمہ رجال(۲) کے مطابق جن کی روایتیں صحیح اورقابل اعتماد جانی جاتیں ہیں ، تفسیر”الکشف و البیان“(۳) میں اور حاکم حسکانی(۴) تفسیر شواہد التنزیل(۵) میں ، ابوسعید خدری، عبداللہ بن سلام اور ابن عباس جیسے چند اصحاب سے روایت کرتے ہیں کہ ”من عندہ علم الکتاب“سے مراد امیر المومنین علی، علیہ السلام ہیں۔

بلکہ ابو سعیدخدریاور عبداللهبن سلام سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا کہ ” من عندہ علم الکتاب“سے مراد کون ہے؟ جواب میں پیغمبر (ص)نے علی علیہ السلام کو” من عندہ الکتاب“کے مصداق کے طور پر پیش کیا۔ اسی مطلب کو )من عندہ علم الکتاب،سے مرادعلی علیہ السلام ہیں)سعید بن جبیر ،ابی صالح نیزمحمد بن حنفیہ سے بھی نقل کیا گیا ہے۔

اسی طرح کئی طریقوں سے نقل کیا گیا ہے کہ عبدالله بن عطاء کہ جو امام باقر علیہ السلام کے ہمراہ تھے، جب انھوں نے عبدالله بن سلام کے بیٹے کو دیکھا تو امام باقر علیہ السلام سے سوال کیا: کیا یہ )عبداللهبن سلام کا بیٹا) اس شخص کا بیٹا ہے جس کے پاس کتاب کا علم تھا؟ حضرت نے فرمایا: نہیں،”من عندہ علم الکتاب“سے مراد )عبداللهبن سلام نہیں ہے، بلکہ) امیر

____________________

۱۔اہل سنت کے علم رجال کے جلیل القدرامام ذہبی نے ” سیر اعلام النبلاء“ ج۱۷، ص۴۳۵ میں ثعلبی کے بارے میں کہا ہے : ” الامام الحافظ العلامة شیخ التفسیر“، ۲۔ عبدالغافر نیشابوری کتاب” تاریخ نیشاپوری“ ص۱۰۹ میں اس کے بارے میں کہتا ہے: الثقة الحافظو ہو صحیح النقل موثوق بہ، ۳۔ الکشف وا لبیان، ج۵، ص ۳۰۳۔۳۰۲، داراحیا التراث العربی، بیروت، ۴۔ذہبی کی عبادت کو ہم نے آیہ صادقین کی تفسیر میں اس کے متقن، محکم اسناد کے عالی ہونے کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو ۵۔” شواہد التنزیل“ با تحقیق شیخ محمد باقر محمود، ج۱، ص۴۰۰

۲۴۹

المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام ہیں۔

اس کے علاوہ ابن شہر آشوب(۱) نے اپنی ”کتاب مناقب(۲) “ میں کہا ہے:

” محمدبن مسلم، ابوحمزہ ثمالی اور جابربن یزید نے امام باقر(علیہ السلام) سے اسی طرح علی بن فضل،فضیل بن یسار اور ابو بصیر نے امام صادق(علیہ السلام) سے نیز احمد بن محمدحلبی اور محمد بن فضیل نے امام رضا(علیہ السلام) سے روایت نقل کی ہے اور اس کے علاوہ موسی بن جعفر(علیہ السلام)، زیدبن علی، محمد بن حنفیہ، سلمان فارسی، ابوسعید خدری اور اسماعیل سدی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں خداوند متعال کے قول:( کل کفی بالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب ) کے بارے میں کہا ہے کہ:”من عندہ علم الکتاب“سے مراد علی بن ابیطالب (علیہ السلام) ہیں۔“

شیعہ احادیث میں مختلف طریقوں سے آیا ہے کہ ” من عندہ علم الکتاب“سے مراد امیرالمومنین علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصو مین علیہم السلام ہیں۔ نمونہ کے طور پر مندرجہ ذیل حدیث پر غور فرماہئے: ثقة الاسلام کلینی نے اصول کافی(۳) میں معتبر سند سے بریدبن معاویہ سے کہ جو امام باقر علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے روایت کی ہے انھوں نے حضرت سے عرض کی:”آیہ کریمہ( قل کفی بالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب ) میں ”من عندہ علم الکتاب“ سے مراد کون ہے؟حضرت نے فرمایا:اس سے صرف ہم اھل بیت معصومین(ع) کا قصد کیا گیا ہے اور علی ) علیہ السلام) پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدسب سے مقدم اورہم میں افضل ترین فرد ہیں۔

____________________

۱۔ ہم نے آیہ صادقین کی تفسیر میں اس )شہر آشوب) کی صداقت کے بارے میں ابن ابی طما کی زبانی زہبی کی ستائش بیان کی ہے۔

۲۔ مناقب، ابن شہر آشوب، ج۲، ص۲۹، موسسہ انتشارات علامہ قم،

۳۔ اصول کافی، ج۱،ص۱۷۹

۲۵۰

احادیث میں جس کے پاس کتاب کا علم ہے)علی بن ابیطالب علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصومین) اور جس کے پاس کتاب کا کچھ علم موجود ہے)آصف برخیا) کے در میان دلچسپ موازنہ کیا گیا ہے:

عن اٴبی عبد الله قال: ” الذي عنده علم الکتاب“ هو امیرالمؤمنین - علیه السلام - و سئل عن الذي عنده علم من الکتاب اٴعلم اٴم الذي عنده علم الکتاب؟ فقال: ما کان علم الّذي عنده علم من الکتاب عند الذي عنده علم الکتاب إلّا بقدر ما تاٴخذ البعوضة بجناحها من مائ البحر(۱)

یعنی: امام صادق) علیہ السلام) نے فرمایا:

”جس کے پاس کتاب کا علم تھا علی بن ابیطالب(علیہ السلام) تھے۔ سوال کیا گیا: کیا وہ شخص جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا یعنی آصف برخیازیادہ عالم تھا یا وہ جس کے پاس مطلق کتاب کا علم تھا)یعنی حضرت علی علیہ السلام)امام نے فرمایا:جس کے پاس کتاب کا تھوڑا ساعلم تھا،اس کاموازنہ اس شخص سے کہ جس کے پاس مطلق کتاب کا علم تھا ایسا ہے جیسے مچھرکے بھیگے ہوئے پر کا موازنہ سمندرسے کیاجائے۔“

یہ بحث وگفتگواس بناپرتھی کہ جب”من عندہ علم الکتاب“میں ”کتاب“سے مرادلوح محفو ظ ہو۔لیکن اگر”الکتاب“سے مرادجنس کتاب ہو،اس بنا پرکہ” الف ولام“جنس کے لئے ہے اور کوئی خاص چیز مد نظرنہ ہوتوہرکتاب اس میں شامل ہو سکتی ہے حتی لوح محفوظ بھی اس کے مصادیق میں سے ایک ہوگا،اس میں گزشتہ آسمانی کتابیں اور قرآن مجید سبھی شامل ہیں۔

____________________

۱۔ نورالثقلیب،ج۴،ص۸۸۔۸۷

۲۵۱

اس صورت میں بھی”من عندہ علم الکتاب“سے مرادحضرت علی علیہ السلام ہی ہوں گے کیونکہ حضرت کالوح محفوظ کے حقائق سے آگاہ ہونا آیہ کریمہ”( لایمسه الّا المطهرون ) “کوآیہ تطہیرکے ساتھ ضمیمہ کرنے سے معلوم ہوجا تا ہے،اورحضرت کاقرآن مجید کے تمام ابعاد سے واقف ہو نابہت سی دلیلوں من جملہ حدیث ثقلین(۱) کے ذریعہ ثابت ہے۔

اس لئے اس حدیث شریف میں آیا ہے کہ پیغمبراکرم )صلی الله علیہ و آلہ وسلم )کے اہل بیت )علیہم السلام)ہرگزقرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے اور یہ حضرت علی علیہ السلام کے قرآن مجید کے تمام علوم سے آگاہی رکھنے کی دلیل ہے۔ کیونکہ اگرحضرت قرآن مجید کے کسی پہلوکو نہیں جانتے ہیں تو گو یاوہ اس اعتبار سے قرآن مجید سے اتنا دور ہو گئے ہیں اور یہ حدیث میں بیان کئے گئے مطلب کے خلاف ہے۔

آسمانی کتا بوں کے متعلق حضرت علی علیہ السلام کے علم کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت کی احا دیث کی کتا بوں میں ایا ہے، من جملہ مندرجہ ذیل حدیث سے جوخود حضرت سے نقل کی گئی ہے:

لو ثنّیت لي الوسادة لحکمت بین اٴهل التوراة بتوراتهم، و بین اٴهل الإنجیل بإنجیلهم، و بین اٴهل الزبور بزبورهم(۲)

”اگر میرے لئے مسند قضا بچھادی جائے تو میں اہل توریت کے لئے توریت سے، اہل انجیل کے لئے انجیل سے اور اہل زبو ر کے لئے زبور سے فیصلہ کروں گا۔“

____________________

۱۔ سنن الترمذی،ج۵ص۶۲۲ مسنداحمد،ج۳،ص۱۴،۱۷،۲۶،۹۵وج۵،ص۱۸۹۔۱۸۸خصائص امیرالمؤمنین علی نسائی ص ۸۵۔۸۴

۲۔فرائد السمطن،ج۱،ص۳۴۱۔۹۳۳۔شواہد التنزیل ج۱،ص۳۶۶،ح۳۸۴

۲۵۲

منابع کی فہرست

(الف)

۱ ۔القرآن الکریم

۲ ۔ الاتقان،سیوطی، ۹۱۱ ئھ-،دار ابن کثیر، بیروت، لبنان

۳ ۔ احقاق الحق، قاضی سید نورالله تستری، شہادت ۱۰۱۹ ئہ-

۴ ۔ احکام القرآن، جصاص،ت ۷۳۰ ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت

۵ ۔ احکام القرآن، ابوبکر ابن العربی المعافري، ت ۵۴۶ ئہ-

۶ ۔ اربعین، محمد بن ابی الفوارس، مخطوط کتابخانہ آستان قدس، رقم ۸۴۴۳

۷ ۔ ارجح المطالب، عبدالله الحنفي، ت ۱۳۸۱ ئہ-، طبع لاہور )بہ نقل احقاق الحق)

۸ ۔ ارشاد العقل السلیم، ابو السعود، ت ۹۵۱ ء، داراحیاء التراث العربی،بیروت، لبنان

۹ ۔ اسباب النزول،و احدی النیسابوری، ت ۴۶۸ ئہ-، دارالکتاب العلمیة، بیروت، لبنان

۱۰ ۔ اسد الغابة فی معرفة الصحابة، ابن اثیر،ت ۶۳۰ ئہ- داراحیائ التراث العر بی،بیروت،لبنان

۱۱ ۔ الإصابة فی تمییز الصحابة، احمد بن علی، ابن حجر عسقلانی،ت ۸۵۲ ئہ-، دارالفکر

۱۲ ۔ اضوائ البیان،شنقیطی،ت ۳۹۳ ئہ-، عالم الکتب، بیروت

۱۳ ۔اعیان الشیعة، سیدمحسن الامین، ت حدود ۱۳۷۲ ئہ-،دارالتعارف للمطبوعات، بیروت

۱۴ ۔ الامامة و السیاسة، ابن قتیبة دینوری، ت ۲۷۶ ء ہ-، منشورات الشریف الرضی،قم

۱۵ ۔انساب الاشراف،احمد بن یحیی بلاذری،ت ۲۷۹ ئہ-،دارالفکر

۱۶ ۔ایضاح المکنون، اسماعیل باشا،ت ۴۶۳ ئہ-، دارالفکر

۲۵۳

(ب)

۱۷ ۔ بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ت ۱۱۱۱ ئہ- مؤسسة الوفاء، بیروت

۱۸ ۔ بحر العلوم، نصر بن محمد سمرقندی، ت ۳۷۵ ئہ-، دارالکتب العلمیة،بیروت

۱۹ ۔ البحر المحیط، ابوحیان اندلسی، ت ۷۵۴ ء،المکتبة التجاریة

احمد الباز، مکة المکرمة

۲۰ ۔ البدایة و النہایة، ابن کثیر الدمشقی،ت ۷۷۴ ئہ-،دارالکتب العلمیة، بیروت

۲۱ ۔ البرہان، سید ہاشم بحرانی، ت ۱۱۰۷ ئہ-، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان

۲۲ ۔ البہجة المرضیة، سیوطی، ت ۹۱۱ ئہ-، مکتب المفید)ت)

۲۳ ۔ التاج الجامع للاصول، منصور علی ناصف، ت ۱۳۷۱ ئہ-، دار احیائ التراث العربی، بیروت

۲۴ ۔ تاج الفردوس، محمد مرتضی حسینی زبیدی، ت ۱۲۵۰ ء ہ-، دار الہدایة للطباعة والنشر و التوزیع، دارمکتبة الحیاة، بیروت

۲۵ ۔ تاریخ الاسلام، شمس الدین ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، دارالکتاب العربی

۲۶ ۔ تاریخ بغداد، احمد بن علی خطیب بغدادی، ت ۴۶۳ ء ہ-، دارالفکر

۲۷ ۔ تاریخ طبری، محمد بن جریر طبری،ت ۳۱۰ ئہ-، مؤسسة عزالدین للطباعة والنشر، بیروت، لبنان

۲۸ ۔ تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ت ۵۷۱ ئہ-، دارالفکر، بیروت

۲۹ ۔ تاریخ نیسابور، عبدالغافر نیشابوری،ت ۵۲۹ ہ-

۳۰ ۔ تذکرة الحفّاظ، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان

۳۱ ۔ تذکرة الخواص، سبط بن جوزی ت ۶۵۴ ئہ-، چاپ نجف

۳۲ ۔التسہیل لعلوم التنزیل، ابن حزی الکلبی، ت ۲۹۲ ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت

۳۳ ۔ تفسیر ابن ابی حاتم، عبد الرحمن بن محمد بن ادریسی الرازی، ت ۳۲۷ ہ-، المکتبة المصریة، بیروت

۳۴ ۔ تفسیر البیضاوی، قاضی بیضاوی،ت ۷۹۱ ئہ-

۲۵۴

۳۵ ۔ تفسیر الخازن )لباب التاویل)، علاء الدین بغدادی، ت ۷۲۵ ئہ-، دارالفکر

۳۶ ۔ تفسیر علی بن ابراہیم قمی، متوفی اواخر قرن سوم ہ-، مطبعہ نجف

۳۷ ۔ تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر، ت ۷۷۴ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۳۸ ۔ التفسیر الکبیر، فخر رازی، ت ۶۰۶ ئہ-، دار احیائ التراث العربی بیروت، لبنان

۳۹ ۔ تفسیر الماوردی، محمد بن حبیب ماوردی بصری، متوفی ۴۵۰ ہ-، دارالمعرفة، بیروت

۴۰ ۔ تفسیر النسفی )مدارک التنزیل وحقائق التاویل) حاشیہ تفسیر خازن، عبدالله النسفی،ت ۷۱۰ ئہ-، دارالفکر

۴۱ ۔ تفسیر المنار، رشید رضا،ت ۱۳۵۴ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۴۲ ۔ تلخیص المستدرک، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-،دارالمعرفة، بیروت

۴۳ ۔ تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی، ت ۸۵۲ ئہ-، دارالفکر

۴۴ ۔تہذیب الکمال، مزّی، ت ۷۴۲ ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت

(ج)

۴۵ ۔جامع الاحادیث، سیوطی،ت ۹۱۱ ئہ-، دارالفکر

۴۶ ۔جامع البیان، محمد بن جریر طبری، ت ۳۱۰ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت، لبنان

۴۷ ۔جامع احکام القرآن، قرطبی، ت ۶۷۱ ئہ-،دارالفکر

۴۸ ۔ الجامع الصحیح الترمذی، محمد بن عیسی ت ۲۷۹ ئہ-، دارالفکر

۴۹ ۔جمع الجوامع، سیوطی، ت ۹۱۱ ئہ-

۵۰ ۔جمہرةاللغة،ابن درید،ت ۳۲۱ ئہ-

۵۱ ۔الجواہر الحسان ابوزید الثعالبی ت ۸۷۶ ء ہ-، داراحیاء التراث العربی، بیروت

۵۲ ۔ جواہر العقدین، سمہودی، ت ۹۱۱ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۲۵۵

(ح)

۵۳ ۔الحاوی للفتاوی سیوطی، ت ۹۱۱ ئہ-، مکتبة القدس قاہرة)بہ نقل احقاق الحق)

۵۴ ۔حاشیة الشہاب علی تفسیر البیضاوی احمد خفاجی مصری حنفی، ت ۱۰۶۹ ئہ-،دار احیائ التراث العربی، بیروت

۵۵ ۔حاشیہ الصاوی علی تفسیر الجلالین، شیخ احمد الصاوی المالکی، ت ۱۲۴۱ ئہ-، دارالفکر

۵۶ ۔حلیة الاولیاء، ابونعیم اصفہانی، ت ۴۳۰ ئہ-، دارالفکر

(خ)

۵۷ ۔ خصائص امیرالمؤمنین علیہ السلام، احمد بن شعیب نسائی ت ۳۰۳ ئہ-، دارالکتاب العربی

۵۸ ۔خصال، محمد بن علی بن بابویہ قمی)صدوق)، ت ۳۸۱ ئہ-، دفتر انتشارات اسلامی

(س)

۵۹ ۔سفینة البحار، شیخ عباس قمی ت ۱۳۵۹ ئہ-، انتشارات کتابخانہ محمودی

۶۰ ۔السنن الکبری، ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، ت ۴۵۸ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت، لبنان

۶۱ ۔السنن الکبری، نسائی، ت ۳۰۳ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۶۲ ۔سیر اعلام النبلاء، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت، لبنان

۶۳ ۔ السیرة النبویة و الآثار المحمدیة )حاشیة السیرة الحلویة)، سیدزینی دحلان، ت ۱۳۰۴ ئہ-، دار احیائ التراث العربی، بیروت، لبنان

۶۴ ۔ السیرة النبویة، ابن ہشام،ت ۲۱۸ ئہ-، داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان

۲۵۶

(ش)

۶۵ ۔شرح التجرید، قوشجی، ت ۸۷۹ ئہ-

۶۶ ۔شرح السنة، بغوی، ت ۵۱۰ ئہ-، المکتب الاسلامی، بیروت

۶۷ ۔ شرح المقاصد، تفتازانی، ت ۷۹۳ ئہ-،منشورات الشریت الرضی

۶۸ ۔شرح المواقف،جرجانی،ت ۸۱۲ ئئئہ-، منشورات الشریف الرضی

۶۹ ۔ شرح التنزیل، حاکم حسکانی، ت اواخر القرن الخامس، مؤسسة الطبع و النشر

(ص)

۷۱ ۔صحاح اللغة، جوہری، ت ۳۹۳ ئہ-

۷۲ ۔صحیح ابن حبان، محمد بن حبان بستی، ت ۳۵۴ ئہ-، مؤسسة الرسالة

۷۳ ۔ صحیح بخاری، محمد بن اسماعیل بخاری، ت ۲۵۶ ئہ-، دارالقلم، بیروت، لبنان-دارالمعرفة، بیروت،لبنان

۷۴ ۔ صحیح مسلم، مسلم بن حجاج نیشابوری، ت ۲۶۱ ئہ-، مؤسسة عز الدین للطباعة و النشر، بیروت، لبنان

۷۵ ۔ الصلاة و البشر،فیروز آبادی ،ت ۸۱۷ ئھجری دارالکتب العلمیہ،بیروت،لبنان۔

۷۶ ۔الصواعق المحرقة، ابن حجر ہیتمی،ت ۹۵۴ ئہ-،مکتبة القاہرة

(ط)

۷۷ ۔ الطبقات الکبری، ابن سعد، ت ۲۳۰ ئہ-،داربیروت للطباعة والنشر

۷۸ ۔ الطرائف، علی بن موسی بن طاووس،ت ۶۶۲ ئہ-، مطبعة الخیام،قم

(ع)

۷۹ ۔العمدة، ابن بطریق، ت ۵۳۳ ئہ-، مؤسسة النشرالاسلامی

۸۰ ۔عوالم العلوم، سید ہاشم بحرانی، ت ۱۱۰۷ ئہ-، مؤسسة الامام المہدی علیہ السلام

۸۱ ۔عیون خبارالرضا، صدوق، ت ۳۸۱ ئہ-

۲۵۷

(غ)

۸۲ ۔غایة المرام، سید ہاشم بحرانی،ت ۱۱۰۷ ئہ-

۸۳ ۔غرائب القرآن،نیشابوری ت ۸۵۰ ئہ-، دارالکتب العلمیة بیروت

۸۴ ۔فتح الباری، ابن حجر العسقلانی، ت ۸۵۲ ئہ-

۸۵ ۔ فتح القدیر، شوکانی، ت ۱۲۵۰ ئہ-، داراکتاب العلمیة بیروت لبنان

۸۶ ۔فرائد السمطین، ابراہیم بن محمد بن جوینی،ت ۷۲۲ ئہ-، مؤسسة المحمودی للطباعة والنشر، بیروت

۸۷ ۔الفصول المہمة، ابن صباغ مالکی،ت ۸۵۵ ئہ-

۸۸ ۔فضائل الصحابة، سمعانی، ت ۵۶۲ ئہ-

(ق)

۸۹ ۔القاموس المحیط، فیروزآبادی،ت ۸۱۷ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۹۰ ۔قواعد فی علوم الحدیث، ظفر احمد تہانوی شافعی، تحقیق ابوالفتاح ابوغدة

(ک)

۹۱ ۔ الکافی، کلینی، ت ۳۲۹ ئہ-، دارالکتب الاسلامیة

۹۲ ۔کتاب الثقات، ابن حبان، ت ۳۵۴ ء ہ-، مؤسسة الکتب الثقافیة، بیروت

۹۳ ۔کتاب العین، خلیل بن احمد فراہیدی، ت ۱۷۵ ئہ-، مؤسسة دارالہجرة

۹۴ ۔الکشاف، زمخشری، ت ۵۸۳ ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت

۹۵ ۔الکشف و البیان، ثعلبی نیسابوری، ت ۴۲۷ ئیا ۴۳۷ ئہ-، داراحیائ التراث العربی،بیروت، لبنان

۹۶ ۔ کفایة الطالب، محمد بن یوسف گنجی شافعی، ت ۶۵۸ ئہ-، داراحیائ تراث اہل البیت

۹۷ ۔کمال الدین، محمد بن علی بن بابویہ، ت ۳۸۱ ئہ-

۹۸ ۔کنز العمال، متقی ہندی، ت ۹۷۵ ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت

۲۵۸

(ل)

۹۹ ۔اللباب فی علوم الکتاب، عمر بن علی بن عادل الدمشقی الحنبلی، متوفی بعد ۸۸۰ ئہ-، دار الکتب العلمیة، بیروت

۱۰۰ ۔لسان العرب، ابن منظور، ت ۷۱۱ ئہ-، دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان

(م)

۱۰۱ ۔ما نزل من القرآن فی علی،ابوبکر الشیرازی، ت ۴۰۷ ئہ-

۱۰۲ ۔ ما نزل من القرآن فی علی، ابو نعیم اصفہانی، ت ۴۳۰ ئہ- )بہ نقل احقاق)

۱۰۳ ۔المتفق و المتفرق خطیب بغدادی، ت ۴۶۳ ئہ-)بہ واسطہ کنزالعمال)

۱۰۴ ۔ مجمع البحرین، طریحی، ت ۱۰۸۵ ئہ-، دفتر نشر فرہنگ اسلامی

۱۰۵ ۔مجمع البیان،طبرسی، ت ۵۶۰ ئہ-، دارالمعرفة،بیروت

۱۰۶ ۔ مجمع الزوائد،ہیثمی، ت ۸۰۷ ئہ-،دارالکتاب العربی-دارالفکر، بیروت

۱۰۷ ۔المستدرک علی الصحیحین،حاکم نیشابوری، ت ۴۰۵ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۱۰۸ ۔مسند ابی داوود طیالسی،ت ۲۰۴ ئہ-،دارالکتاب اللبنانی

۱۰۹ ۔مسند ابی یعلی موصلی،ت ۳۰۷ ئہ-

۱۱۰ ۔مسند احمد،احمد بن حنبل،ت ۲۴۱ ئہ-، دارصادر،بیروت-دارالفکر

۱۱۱ ۔مسند اسحاق بن راہویہ، ت ۲۳۸ ئہ-،مکتبة الایمان، مدینة المنورة

۱۱۲ ۔مسند عبد بن حمید،ت ۲۴۹ ئہ-، عالم الکتب

۱۱۳ ۔مشکل الآثار، طحاوی، ت ۳۲۱ ئہ-،ط مجلس دائرة المعارف النظامیة بالہند

۱۱۴ ۔ المصباح المنیر احمد فیومی، ت ۷۰ ء ۷ ہ- طبع مصطفی البابی الحلبی و اولادہ بمصر

۱۱۵ ۔مصباح الہدایة، بہبہانی، ط سلمان فارسی،قم

۱۱۶ ۔المصنف،ابن ابی شیبة،ت ۲۳۵ ئہ-

۲۵۹

۱۱۷ ۔مطالب السؤول ابن طلحة نصیبی شافعی، ت ۶۵۲ ئہ-

۱۱۸ ۔معالم التنزیل، بغوی،ت ۲۱۰ ئہ-

۱۱۹ ۔المعجم الاوسط، طبرانی،ت ۳۶۰ ئہ-،مکتبة المعارف الریاض

۱۲۰ ۔المعجم الصفیر، طبرنی، ت ۳۶۰ ئہ-

۱۲۱ ۔المعجم الکبیر، طبرانی،ت ۳۶۰ ئہ-

۱۲۲ ۔ المعجم المختص بالمحدثین، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، مکتبة الصدیق سعودی

۱۲۳ ۔معجم مقاییس اللغة، ابن فارسی بن زکریا القزوینی الرازی،ت ۳۹۰ ہ-

۱۲۴ ۔معرفة علوم الحدیث، حاکم نیشابوری، ت ۴۰۵ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۱۲۵ ۔المعرفة والتاریخ، یعقوب بن سفیان بن بسوی،ت ۲۷۷ ئہ-

۱۲۶ ۔مغنی اللبیب، ابن ہشام،ت ۷۶۱ ئ ہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۱۲۷ ۔المفردات،راغب اصفہانی،ت ۵۰۲ ئہ-

۱۲۸ ۔مقتل الحسین، خوارزمی، ت ۵۶۸ ئہ-، مکتبة المفید

۱۲۹ ۔المناقب،موفق بن احمد خوارزمی،ت ۵۶۸ ئہ-

۱۳۰ ۔مناقب ابن مغازلی شافعی،ت ۴۸۳ ئہ-،المکتبة الاسلمة

۱۳۱ ۔مناقب آل ابی طالب، ابن شہر آشوب،ت ۵۸۸ ئہ-،ذوالقربی

۱۳۲ ۔منتہی الارب عبدالرحیم بن عبدالکریم الہندی ت ۱۲۵۷ ئہ-

۱۳۳ ۔المیزان، محمد حسین طباطبائی، ت ۱۴۰۲ ئہ-، دارالکتب الاسلامیة

۱۳۴ ۔میزان الاعتدال، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، دارالفکر

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375