اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 15%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 144773 / ڈاؤنلوڈ: 5486
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام كتاب: اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف: ڈاكٹر على اكبر ولايتي

مترجم: معارف اسلام پبلشرز

ناشر: انتشارات نور مطاف

اشاعت: دوم

تاريخ اشاعت: رجب المرجب ۱۴۲۸ ھ_ق

۳

مقدمہ:

جو كچھ آپ كے سامنے ہے وہ اسلامى سرزمينوں ميں جنم لينے والى تہذيب و تمدن كى دقيق تحقيق اور منصفانہ جائزہ ہے، فاضل مصنف نے اسلامى تہذيب و ثقافت كے معرض وجود ميں آنے، اسكى نشو و نما كے اسباب اور پھر اسكے جمود كى وجوہات كى ايك مكمل تصوير پيش كرنے كى قابل تحسين كوشش كى ہے_

ابتدائي ابواب ميں اسلام كى آمد ، قلوب كى فتح اور پھر مسلمانوں كا نہايت جد و جہد سے اپنى تہذيب و ثقافت كو اسلامى رنگ ميں ڈھالنے كو بہت خوبصورت انداز ميں منقش كيا گيا ہے اور يہ بھى بيان كيا گيا ہے كہ كس طرح اسلامى تعليمات كو دل وجان سے قبول كرنے كى وجہ سے وہ نہايت قليل مدت ميں علم و ترقى كى بلندترين چوٹيوں كو مسخر كرتے ہوئے ترقى وپيشرفت كے ميدان كے فاتح اور ہراول دستہ بن گئے_

اس كے بعد كے ابواب مسلمانوں كى عزت و عظمت كے زوال كے اسباب و وجوہات كو بيان كرتے ہيں اور بتاتے ہيں كہ كس طرح مغربى طاقتوں نے مشرق خصوصاً مسلمانوں كى مادى اور روحانى دولت كو لوٹ كر اور انہيں بيرونى جنگوں اور داخلى خودساختہ تنازعات ميں الجھا كر اپنے ليے عليحدہ جائے امن و سكون بنالى ہے اور مسلمانوں كو ان شيطانى ہتھكنڈوں سے صنعت اور ٹيكنالوجى كے دائرے سے باہر نكالتے ہوئے خود ان علمى ميدانوں كے حاكم بن بيٹھے ہيں ،البتہ اس كے ساتھ ساتھ انہوں نے نئے سے نئے آلات كے ذريعے اپنى روال پذير اور مضر ثقافت كو دوسرے ممالك ميں برآمد كرديا ہے_

۴

مسلمانوں كى اپنے اصلى مقام كو حاصل كرنے كے ليے دوبارہ بيداري، مغرب كى حقيقى تہذيب مسلمان دانشوروں كى زبانى مغرب كے انحطاط اور انكى آسمانى و فطرى اقدار اور روحانيت سے دورى كا تجزيہ، اور ساتھ ہى انہى دانشوروں اور دوسرے مجددين كى طرف سے مغربى ثقافت كے نفوذ كے خطرات سے متنبہ كرنا، جيسے موضوعات كتاب كے آخرى حصے كو تشكيل ديتے ہيں _

مؤلف نے اس گراں بہا تحقيق ميں اپنى استعداد اور صلاحيتوں كا كھل كر اظہار كيا ہے اور سال باسال سے كيے جانے والے اپنے كتابى اور ميدانى مطالعات كے علاوہ دنيا كى مختلف اقوام ، علمي، ثقافتى اور سياسى شخصيتوں كے ساتھ گزارے گئے لمحات اور تجربات كو نہايت خوبصورت انداز ميں زيور تحرير سے آراستہ كيا ہے_ جس پر ہم انكے ليے خداوند متعال سے اجر اور توفيقات كے طالب ہيں _

مؤسسہ معارف اسلامى جس كے نامہ اعمال ميں علوم اسلامى مثلاً فقہ، تفسير، كلام، تاريخ، سيرت ،اخلاق اور معاشرتى علوم كى بھر پور اشاعت و تبليغ جيسے كارہائے نماياں درج ہيں خداوند متعال كا بے حد شكر گزار ہے كہ اس نے اس قيمتى اور مفيد كتاب كے ترجمے كى سعادت اس علمى مؤسسے كو بخشي_

اميد ہے كہ اس كتاب كى طباعت اور اجراء اسلامى ممالك اور مسلمانوں كى سربلندى كى راہ ميں ايك بہت بڑا قدم شمار ہوگا يہاں ہم ضرورى سمجھتے ہيں كہ محترم مترجم على اصغر سيفى اور محترم مصحح سيد عون نقوى كى بے لوث اور مخلصانہ كاوشوں كا شكريہ ادا كريں ، خداوند متعال سے ان كى مزيد كا ميابيوں كے ليے دعا گو ہيں _

معارف اسلام پبلشرز

۵

تمہيد

عرصہ دراز سے ايك ايرانى مسلمان ہونے كے ناطے اسلام اور ايران كے تہذيبى اور ثقافتى تشخص كا تعين ہر وقت ميرا مقصد جستجو رہا ہے، اسى ليے جہاں كہيں امكان ہوتا كہ مجھے ميرى گم شدہ منزل كا سراغ مل جائے گا ميں بڑے شوق كے ساتھ وہاں بڑھتا كوئي تقرير ہوتى تو اسے سنتا اور كوئي كتاب يامقالہ ہوتا تو مطالعہ كرتا اور حقيقى كى بات جو ميں بتدريج سمجھا يہ تھى كہ ہمارى امت و قوم اور اسكى تہذيب و تمدن پر غيروں كى بدنيتى اور ہمارى سستى كے باعث بہت بڑا ظلم ہوا ہے_

ايك طرف اغيار نے مسلمانوں كى تمام خوبيوں كو ماننے سے انكار كيا اور دوسرى طرف مسلمانوں نے اپنے علمى اور ثقافتى سرمايہ كے اندراج ، ريكارڈ اور منظر عام پر لانے ميں غفلت كا مظاہرہ كيا اور اسكا نتيجہ اس غلط عالمى سوچ كى صورت ميں نكلا كہ جو خود مسلمانوں اور ايرانيوں كے ذہنوں ميں بھى سرايت كرگئي كہ يہ مغربى اقوام عالم خلقت ميں ايك منفرد نوعيت كى حامل ہيں كہ جو غير معمولى ذہن اور صلاحيتوں سے مالامال ہيں ، جبكہ مسلمان اور ديگر اقوام ان نعمتوں سے محروم ہيں ;قديم يونانى دور سے روم اور يورپى نشا ةثانيہ كے دورتك يہى مغربى اقوام ہميشہ ترقى يافتہ اور موجد ہيں جبكہ مشرقى اقوام اور مسلمان ہميشہ سے انكے مقلد اور انكى ايجادات كے صارف رہے ہيں _

دو صديوں سے ليكر اب تك اس قسم كے نظر يے كا وسيع پيمانے پرپروپيگنڈا ہوا كہ جسكا عملى نتيجہ يہ سامنے آيا كہ گويا ہم لوگ (علمى ميدان ميں ) فضول كوشش نہ كريں اور نچلے درجہ كے انسان كى حيثيت سے اسے اپنى قسمت كا لكھا ہوا سمجھ كر تمام سياسى اور ثقافتى نتائج كے ساتھ قبول كرليں اس طرح معلوم ہوا كہ مغربى استعمار كى

۶

شيطانى مكارى اور ہم سب كى غفلت آہستہ آہستہ لوگوں ميں اس قسم كے نظريات پيدا ہونے كا باعث بنى جنہيں ثانوى صفات كا عنوان دينا چاہيے اور وہ (نظريات) يہ ہيں كہ '' ہم فضول كوشش نہ كر ليں '' ہم اس لائق نہيں ہيں كہ علم و دانش كے بلند و بالا درجات كى تمنا كريں بلك اسى حد تك قانع رہيں كہ جو ازل سے ہمارى قسمت ميں لكھا جاچكاہے_

كسى بھى ذمہ دار درد دل ركھنے والے كے ليے اس سے بڑھ كہ جانسوز غم نہ ہوگا كہ اسكى نظرياتى اور قومى حيثيت كو اسطرح پامال كيا جائے ، درست اسى زمانہ سے جب اسلامى اور مشرقى سرزمين اہل مغرب كى فوجى اور ثقافتى يلغار كا مركز بنى اس قسم كے نظريات كى نشر و اشاعت اور لوگوں كے ذہنوں ميں انہيں راسخ كرنے كا آغاز ہوا جو كہ اپنى جگہ استعماريت كا واضح نمونہ تھا، تو كچھ عظيم لوگ اٹھ كھڑے ہوئے جنہوں نے اہل مشرق اور مسلمانوں كى بيدارى كا نعرہ لگايا اور فرنگيوں كے متكبرانہ عزائم كے مقابلے ميں اسلامى بيدارى كا نقارہ بجايا_

اسلامى بيدارى كى لہريں دو سو سال سے اب تك روز بروز بلند اور وسيع تر ہو رہى ہيں ، عالم اسلام ميں اس تاريخى تحريك كا اہم ترين كا رنامہ بتدريج خود اعتمادى كے احساسات كے پلٹنے كى صورت ميں سامنے آيا ،آج ترقى يافتہ آڈيو ، ويڈيو اور اليكڑونك پروپيگنڈے كے باوجود اہل مغرب كا اپنى بڑائي اور برترى پر مبنى قديم دعوى مسلمان اور مشرقى اقوام پر بہت كم اثر چھوڑرہا ہے،اور آج فراعين زمانہ كے جادو كى قلعى كھل گئي ہے ليكن ان سے بے زارى كى يہ حالت علمى كم، سياسى زيادہ ہے اور يہ اسى طرح ہے جسطرح استعمار نے سياسى نفوذ كے بعد اقتصادى استحصال كے ليے ثقافتى و علمى غلبہ حاصل كيا(يعنى مغرب كے خلاف سياسى بيدارى ثقافتى اور علمى بيدارى پر منتج ہوگي)_

اسى ليے سياسى اور ثقافتى لحاظ سے بيدارى پيدا كرنے والے صف اول كے رہنماؤں نے جو ماحول فراہم كيا ہے اس سے فائدہ اٹھا نے اور ساتھ ساتھ علم و دانش ميں خود اعتمادى اور استقلال كو پلٹانے كيلئے

۷

جواسباب مہيا كرنا ضرورى تھے ان ہى مقاصد تك پہنچنے كيليے بعض شخصيات نے قابل قدر كوشش كيں ، ليكن اس ميدان ميں اگر غور و فكر كريں تو معلوم ہو گا كہ ابھى راہ كے آغاز ميں ہيں اورمنزل مقصود تك پہنچے ميں كافى فاصلہ پڑا ہے اگر چہ بلا شبہ حركت كا آغاز ہوچكا ہے_

ہم نے بھى كوشش كى كہ اپنى بساط كے مطابق قدم اٹھائيں ہميں اميد ہے كہ كاميابى سے ہمكنار ہونگے ، چار جلد كتاب ''پويايى فرہنگ و تمدن اسلام و ايران'' جوكہ اب تك نشر ہوچكى ہے وہ انہى اہداف كے پيش نظر ايك كوشش ہے اور يہ كتاب '' اسلامى تہذيب و تمدن كى تاريخ '' اس چار جلد كتاب كى اہم مباحث كا خلاصہ ہے كہ جو يونيورسٹيوں كى نصابى ضروريات كے مطابق مرتب كى گئي ہے_

اسلامى تاريخ كے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے كہ اسلامى تہذيب و تمدن كا سفر معين اور دقيق مراحل كا حامل ہے جو واضح اور قابل درك منطقى بنياد پر تشكيل پايا ہے جو شايد اسى فلسفہ تاريخ كا نمونہ ہے كہ ''تاريخ اپنے كو دہراتى ہے ''اور اگر ہم اسكا گراف بنائيں تو ہميں چند صديوں اور چند ہزاريوں ميں ملتے جلتے بلكہ ايك دوسرے كے عين مطابق نكات حاصل ہونگے ان مراحل كے اصلى عناوين يہ ہيں :

مرحلہ اول : زمانہ دعوت يا اسلامى تاريخ و تمدن كا آغاز

مرحلہ دوم: يثرب ميں اسلامى حكومت كے تشكيل كا زمانہ اور تمدن اسلامى كى علامتى بنياد قائم ہونا

مرحلہ سوم: جزيرة العرب اور اس دور كى تہذيب يافتہ دنيا ميں اسلام كى وسيع پيمانے پر نشر و اشاعت كا زمانہ كہ جس ميں بين النہريں ، ايران، روم، مصر ،حبشہ ، ہند، ماورا النہر، چين ، شمالى آفريقا اور آخر كار جنوبى يورپ شامل ہيں _

مرحلہ چہارم : نئي اسلامى تہذيب و تمدن كا دنيا كى قديم ترين تہذيبوں كے قريب ہونا اور ان سے آگاہى كى كوشش اور ان ثقافتوں كواسلامى تہذيب ميں ترجمہ ،لائبريريوں اور مدارس كى تاسيس كے ذريعے منتقل كرنا اور انكے دانشمند مفكر اذہان كو اسلام كے علمى و تعليمى مراكز كى طرف مائل كرنا_

۸

مرحلہ پنجم: اسلامى تمدن كے پھلنے پھولنے كا زمانہ_

مرحلہ ششم: اسلام كى عميق ثقافت اور عرفانى ادبيات كى بہاركازمانہ

مرحلہ ہفتم: آرٹ اور معمارى كا زمانہ

مرحلہ ہشتم: اسلامى تمدن كے زوال كا زمانہ يا وہ زمانہ كہ جب عيسائيوں اورمنگولوں نے انتہائي شقاوت اور بے رحمى سے عالم اسلام پر حملے كرتے ہوئے اسلامى كلچرميں مايوسى كى روح پھونك دى اور شہروں كو تباہ و برباد كرتے ہوئے اسلامى تمدن كى بنيادوں كو ہلاديا_

مرحلہ نہم: عالم اسلام كا دوبارہ اپنے پاؤں پر كھڑے ہونا_

مرحلہ دہم: استعمار كا حملہ اورزوال كے دوسرے دور كا آغاز يا مسلمانوں كے كلچر ميں تبديليوں كا زمانہ ، يہ ايسا حملہ تھا كہ جو عالم اسلام كے حساس مراكز پر برقى جھٹكے كى مانند اثر انداز ہوا اس يلغار كے ديگر اثرات سے قطع نظر اس سے ايسى حياتى لہريں پيدا ہوئيں كہ جو اسلام كى جغرافيايى كى حدود ميں مسلسل تاريخى تحريكوں كے وجود ميں آنے كا باعث بنيں كہ جسے ہم اسلامى بيدارى سے تعبير كرتے ہيں اسلامى بيدارى يا يہ كہ اسلام كى طرف لوٹنے كى دعوت (اس مرحلہ كے تحت چند ديگر مراحل مورد بحث ہيں )_

مرحلہ ۱: اسلامى بيداري

يہ كہ كس زاويے سے اس واقعہ پر نگاہ ڈاليں يقيناہمارے تجزيہ و تحليل ميں ( دوسروں كى نسبت ) فرق پايا جائے گااسى ليے اہل فكر حضرات نے مسلمانوں كے اس بيدار ہونے كے واقعہ كو گوناگون عناوين سے ياد كيا ہے ، انكى نوع فہم كو مندرجہ ذيل اصطلاحات كى صورت ميں معنون كيا جاسكتاہے:

اصلاح پسندي، سلفى گرى ، اپنى حقيقت كى طرف لوٹنا ، خرافات سے جنگ، جديديت ،استعمار سے مقابلہ ، اتحاد بين مسلمين اور اسلامى بيداري_

اسلامى بيدارى كى اصطلاح كا انتخاب اور ايك اہم باب اس بحث سے مختص كرنے كى وجہ يہ ہے كہ يہ كلمہ

۹

انتہائي جامعيت كا حامل ہونے كے ساتھ ساتھ ديگر ابواب كے ساتھ بھى مناسبت ركھتا ہے ،ايك اور نكتہ كہ جو اسطرح نام ركھنے كى نسبت كافى اہم محسوس ہو رہا ہے وہ يہ كہ شايد سب كيلئے واضح ہو چكا ہو كہ پہلے دور يعنى منگولوں كے حملہ سے پہلے اور موجود ہ دور ميں اسلامى تہذيب و تمدن كے تمام گوناگون مراحل ميں يكسانيت موجود ہے گويا اسلامى تہذيب و تمدن كے سفر كے تمام پيچ و خم كو دھرايا جارہا ہو اور يہ صورت حال فلسفہ تاريخ كے اس مقولے كو ياد دلاتى ہے كہ '' تاريخ صرف واقعات اور حادثات تكرار كا نام ہے'' يا يہ كہيں گے كہ وجود اسلام ميں تجديد حيات اور ترقى كرنے كى استعداد اور خصوصيت قدرتاً موجود ہے اس دعوى پر گواہ عصر حاضر ميں اسلام كى صورت حال ہے اپنے اور غير سب تجزيہ نگاروں كا يہى كہنا ہے كہ اسلام دنيا كى تمام اقوام كيلئے پركشش ترين دين ہے اسكى ترقى كى سرعت دنيا كے ديگر مذاہب سے قابل موازنہ نہيں ہے، اسى بات سے يہ نتيجہ ليا جا سكتا ہے كہ يہ دين اب بھى زندہ ہے اور ديگر زندہ موجودات كى مانند اپنے اندر پاكيزگى اور تلخيص كا عمل، بوسيدہ عناصر كى اصلاح اور تعمير كا عمل ،فاسد اور مفسد مواد خارج كرنے ، اجنبى موذى اور مضر عناصر كے حملہ كے مقابلے ميں دفاع كرنے ، ترقى اور نشو ونما كرنے اور استعداد اور صلاحيتوں كو عمل ميں لانے كى قدرت ركھتا ہے_

اسلامى بيدارى كا آغاز خود اصل اسلام كى مانند لوگوں كو دعوت دينے سے شروع ہوا ،امير عبدالقادر، سيد جمال الدين اسد آبادى ، شيخ محمد عبدہ، سيداحمد خان، شيخ فضل اللہ نورى ، عبدالرحمان كواكبي، شيخ شامل ، رشيد رضا، علامہ اقبال لاہوري، سيد حسن مدرس، حسن البنائ، سيد قطب، ابو الاعلامودودي، سيد محسن امين جبل عاملي اور آخر كا امام خمينى سب نے لوگوں كو پلٹنے اور احياء اسلام كى دعوت دى اور لوگوں نے اس دعوت كو قبول كيا، اسلامى اقوام سے گرو ہ درگروہ لوگوں نے دوبارہ اسلام كے ساتھ بيعت كى ، خواص كى اس دعوت اور عوام كى قبوليت كا نتيجہ تمام عالم اسلام ميں دين اور دينى اقدار كو زندہ كرنے كى ايك وسيع تحريك كو جنم دينے كى صورت ميں نكلا_

۱۰

عصر حاضر كى تاريخ اور موجودہ زمانہ كے واقعات كا تجزيہ كريں تو مكمل طور پر يہ حقيقت ہم پر آشكار ہوتى ہے كہ كوئي ايسا اسلامى ملك نہيں ہے كہ جہاں اسلامى بيدارى يا اسلام كى طرف پلٹنے كى تحريك كى علامات نہ ہوں يہ حقيقت اسلامى نشا ة ثانيہ كى پہلے مرحلہ ميں واضح كاميابى كى حكايت كر رہى ہے ، اس مرحلہ كى اہميت اتنى زيادہ ہے كہ آج اسلامى سرزمينوں پر بھو كى نگاہيں ركھے ہوئے قديم استعمار كے وارث '' انسانى حقوق كى حمايت '' اور '' صلح ،امن اورجمہوريت كے دفاع'' كى چادر اوڑھے '' تہذيبوں كے ٹكراؤ'' كا راگ الاپتے ہوئے اسكى نابودى پر كمر باندھ چكے ہيں اور سوويت يونين كے ٹوٹنے كے بعد اپنى تمام تر فوجى طاقت كے ساتھ مسلمانوں كے مقابلے ميں صف آرا ہو چكے ہيں _

مرحلہ ۲: اسلامى حكومت كى تشكيل

پہلى تقسيم كے مطابق زمانہ دعوت (اسلام كى طرف لوٹنا) كے بعد دوسرا مرحلہ اسلامى حكومت كى تشكيل ہے، شيعہ اور سنى دونوں مكاتب فكر ميں ايك اسلامى حكومت كى تشكيل كے حوالے سے نظرياتى اور عملى ميدانوں ميں شدت سے كوشش شروع ہوئي، اہل سنت كى دنيا ميں عنوان خلافت كو مختلف دانشور حضرات نے اسلامى حكومت كى تشكيل كيلئے محور قرار ديتے ہوئے لوگوں كو اسى عنوان كى طرف لوٹنے كى دعوت دي، رشيد رضا جو كہ سلفى فكر كے اساسى ستونوں ميں سے شمار ہوئے ہيں انہوں نے خلافت كے موضوع كو انتہائي مضبوط انداز ميں پيش كيا اس حوالے سے انكى عملى تجويز يہ تھى :عالم اسلام ميں شہر موصل كو مركز قرار ديتے ہوئے اور امام ہادى يعنى يمن كے زيدى امام (رشيد رضا كے ہم عصر ) كى خليفةالمسلمين كے عنوان سے بيعت كرتے ہوئے بين الاقوامى اسلامى حكومت تشكيل دى جائے_

شيعہ دنيا ميں آيت اللہ نائينى نے عصر جديد ميں اسلامى حكومت كى تشكيل كو نظرى شكل دى اور اسے ايك كتاب '' تنبيہ الامة و تنزيہ الملة'' كى صورت ميں نشر كيا، اور امام خمينى نے ولايت فقيہ كے موضوع كو پيش كرتے ہوئے آج كے دور كے تقاضوں كے عين مطابق اسلامى حكومت كے ماڈل كو سامنے لائے_

۱۱

اس مرحلہ كا دوسرا حصہ اسلامى حكومت كى تشكيل ہے ، شمالى نائجيريا ميں عثمان دان فوديو نے انيسويں صدى عيسوى كے آغاز ميں اسلامى حكومت قائم كى جو ايك صدى تك قائم رہي، مكتب اہل سنت ميں اسكے علاوہ بھى كامياب اور نيم كامياب اقدام ہوئے ، سوڈان ميں اخوان المسلمين گروہ كے حسن ترابى اسلامى حكومت كى تشكيل كا نظريہ دينے والے مفكر كى حيثيت سے ابھرے اور حسن عمرالبشير كے تعاون سے جعفر نميرى كى سيكولر حكومت كا تختہ الٹ ديا اور اس ملك ميں شريعت كے اجراكا نعرہ بلند كرتے ہوئے اسلامى حكومت قائم كى ، تركى ميں نجم الدين اربكان نے اسلامى حكومت كے ہدف كى خاطر قومى رفاہ پارٹى قائم كى اگر چہ اس ہدف كا صريحا (فوجى جرنيلوں كے ڈرسے) اعلان نہيں كيا ، اس پارٹى نے بہت كوشش كرتے ہوئے اور كئي بار اپنى روش اور طريقہ كار ميں تبديلى لاتے ہوئے بالآخرہ ميڈم تانسو چيلركے ساتھ اتحاد قائم كركے ايك مخلوط حكومت كو تشكيل ديا كہ اس حكومت كے واضح ترين ثمرات خواتين كا پردہ بر قرار كرنا، اداروں ميں نماز جماعت كا قيام اور امام وخطيب كى درسگاہوں كو وسعت دينے كى صورت ميں سانے آئے_

الجزائر ميں عباس مدنى كى قيادت ميں '' نجات اسلامى جماعت'' حكومت اسلامى كى تشكيل كے اہداف كے پيش نظر قائم ہوئي اور بہت سرعت سے پھيل گئي ، اسطرح كہ الجزائر كے تمام شہروں كے بلدياتى انتخابات ميں سب سے زيادہ ووٹ حاصل كيے_

عالم تشيع ميں بيسويں صدى عيسوى كے آغاز ميں آيت اللہ سيد عبدالحسين لارى نے ايران كے جنوب ميں ولايت فقيہ كى بنيادپر اسلامى حكومت تشكيل دى _

ميرزا كوچك خان جنگلى كے ذريعہ ' ' حزب اتحاد اسلام'' كے تحت گيلان كى حكومت كو بھى شايد حكومت اسلامى كى تشكيل كے حوالے سے نامكمل نمونہ شمار كيا جاسكتاہے_

اسى طرح پاكستان ميں ضياء الحق كے زمانے ميں پارليمنٹ ميں شريعت بل كى منظورى كيلئے كيے گئے اقدام كے تحت پاكستان كا نام '' اسلامى جمہور يہ پاكستان '' كى صورت ميں تبديل كيا گيا اسے ايك اسلامى

۱۲

حكومت كے قيام كيلئے كى گئي بعض كوششوں كى حدتك شماركياجاسكتاہے_

آخر ميں اسلامى جمہوريہ ايران كى حكومت كے قيام كو زمانہ حاضر ميں اسلامى حكومت كا بہترين اور واضح ماڈل قرار دياجا سكتا ہے_

مرحلہ ۳: اسلام كى نشر و اشاعت

تيسرامرحلہ جو كہ پہلى صدى ہجرى سے ہى شروع ہوا اور اس نے بہت تيزى سے پيش رفت كى ، اسى طرح عصر حاضر ميں اسلام كى تجديد حيات كے حوالے سے بھى يہى تيز رفتار پيش رفت سامنے آئي،آخرى عشروں ميں امريكہ يورپ اور افريقہ ميں اسلام كى سرعت كے ساتھ نشر و اشاعت كو '' اسلام كے عصر حاضر كے تقاضوں كے مطابق پھيلاؤ كا واضح ترين نمونہ شمار كيا جاسكتاہے''_

مرحلہ ۴: اسلامى تہذيب و تمدن كى تجديد

مسلمانوں كى بيدارى اور اٹھان كے سايہ ميں اسلامى تہذيب و تمدن بھى تجديد كے مراحل سے گزر رہاہے اسلامى ثقافت كے احياء اور تجديد سے فراعين عصر كے فريب آميز سحر كى قلعى كھل گئي ہے ،آج درآمد شدہ مغربى اقدار نہ صرف اہل علم و دانش بلكہ كئي ملين مسلمان عوام كے سامنے اپنا رنگ و روپ كھوچكى ہيں اور اسلامى تہذيب كے علمدار مغربى ثقافت كے حامى مفكرين كے سامنے مردانہ وار كھڑے ہوكر اور زرخيز اسلامى ثقافت اور اعتقادات پر تكيہ كرتے ہوئے ايك عظيم ثقافت كى تشكيل كا سبب بنے ہيں ، شاہكار قيمتى تاليفات مثلاً ''بيسويں صدى كى جہالت ''(محمد قطب)، ''اسلامى قلمرو ميں زمانہ مستقبل ''(سيد قطب) ''ہمارا فلسفہ اور ہمارا اقتصاد ''(آيت اللہ سيد محمد باقر صدر) ''ماذا خسر العالم بالانحطاط المسلمين ''(ابوالحسن ندوي) ''اصول فلسفہ و روش رئاليزم ''(علامہ طباطبائي اور آيت اللہ مطہري) يہ سب اسلامى كلچر كى تشكيل اور تجديد كيلئے عالم اسلام كے اہل علم و دانش كى نظرياتى كوششوں كے نمونے ہيں ،بسا اوقات بعض اسلامى اقوام كى ترقى يافتہ

۱۳

ٹيكنالوجى كے حصول كے ليے كى گئي كوششيں مغربى استعمار كو وحشت ميں ڈال ديتى ہيں اور يہ چيز تمدن اسلامى كے دوبارہ طلوع كى حكايت كر رہى ہے_

تہذيب و تمدن كے اتار چڑھاؤ پر مشتمل تاريخى سفر كے مطالعہ سے يہ نتيجہ ليا جا سكتا ہے كہ ايك دفعہ پھر وہ زمانہ زيادہ دور نہيں كہ ہم مسلمانوں اور اسلامى تہذيب و تمدن كے عروج اور عظمت كا دوبارہ مشاہدہ كريں گے ان شاء اللہ_

ضرورى سمجھتاہوں كہ ان تمام احباب كا شكريہ ادا كروں كہ جنہوں نے اس كتاب كى تاليف كے مختلف مراحل ميں تعاون فرمايا اور اسى طرح اس حوالے سے ديگر خدمات انجام دينے والے تمام حضرات كا تہہ دل سے شكر گزار ہوں اورخداوند كريم كى بارگاہ سے سب كيلئے زيادہ سے زيادہ تو فيقات كا طالب ہوں ،مجھے اميد ہے كہ صاحب نظر حضرات ، اساتيد اور اس مضمون كے طلباء اس كتاب ميں كو ئي كمى بيشى دور كرنے اور كسى غلطى كى درستگى كے حوالے سے ہمارى مدد فرمائيں گے_و من اللہ التوفيق و عليہ التكلان

على اكبر ولايتي

خزان ۱۳۸۳ ہجرى شمسى (ايرانى تقويم كے مطابق)

۱۴

پہلا باب:

كلى مباحث

۱۵

۱_ علمى بنياد اور تاريخى سرچشمے

تقريبا سنہ ۶۱۰عيسوى ميں پيغمبر اسلام (ص) كى دعوت كے ساتھ سرزمين مكہ ميں دين اسلام ظہور پذير ہوا، دين اسلام كى تاريخى شناخت كو اس زمانہ سے دومر حلوں ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے:۱_ دعوت كا مرحلہ،۲_ پيغمبر اسلامى (ع) كى يثرب كى طرف ہجرت اور اسلامى حكومت كى تشكيل كا مرحلہ ، اسلامى حكومت كى تشكيل كے بعد اسلام ايك وسيع نشر و اشاعت كے دور ميں داخل ہوا_

اسلام كا اس زمانے كى ديگر تہذيبوں يعنى ايران، روم اور مصر كا ہمسايہ بننے سے ان تہذيبوں سے روابط كے اسباب فراہم ہوے ،پيغمبر اسلام (ص) نے صلح حديبيہ كے بعد (جسكى وجہ سے جزيرہ عرب ميں اسلام كى حاكميت مستحكم ہوئي) ہمسايہ ممالك كے حكام كو خطوط بھيج كر مسلمانوں كے ان سے روابط كے اسباب فراہم كيے، يہ صورت حال پيغمبر اكرم (ص) كے بعد خلفاء راشدين كے دور ، بنى اميہ اور بنى عباس كے دور ميں بھى بحال رہى ،بنى عباس كے دوركے وسط ميں اسلام تين براعظموں ايشياء ، آفريقا اور يورپ تك پھيل گيا، اس دورانيہ ميں دين اسلام كى جغرافيائي حدود مشرق ميں آج كے چين كى سرحد تك ، مغرب ميں آج كے مراكش تك كہ جو اس زمانے كے مغربى افريقا كى آخرى آبادى تھى ،شمال ميں تمام ماوراء النہر كا علاقہ اور جنوبى سائبريا، ايشيا صغير كا وسيع حصہ، بحيرہ روم كا تمام مشرقى ساحل اور پيرنيز pyrenees كى پہاڑ ياں جو كہ اسپين اور فرانس ميں حد فاصل ہيں اور جنوب ميں مجمع الجزائر يعنى جنوبى شرقى ايشيا، جزيرہ جافنا جو كہ سرى لنكا ميں ہے اورصحراے افريقا كے جنوب تك پھيلى گئي تھيں _

اس وسيع و عريض سرزمين ميں جو گوناگون اقوام اور زبانوں كى حامل تھى اسلام كے پھيلنے سے لوگوں كے

۱۶

در ميان الفت اور وحدت پيدا ہوگئي جبكہ اسلام كے ظہور سے پہلے انكى زندگى كے روز و شب لا حاصل جنگ و جدال ميں گزرتے تھے_(۱) دين اسلام نے اسلامى تمدن اورديگر گذشتہ تہذيبوں اور ثقافتوں ميں آراء وافكار كے تبادلہ كے حوالے سے اسباب فراہم كيے، اسكے بعد والے مرحلہ ميں قرآن مجيد كو محور قرار ديتے ہوئے اوران علاقوں ميں اسلام سے پہلے كے علوم سے بہترين فائدہ اٹھاتے ہوئے '' علوم اسلامي'' وجود ميں لائے گئے، اس كام كا آغاز دوسرى صدى ہجرى كے آخر ميں شروع ہوا اور اسكا عروج چھٹى صدى ميں تھا،'' ادب '' كا غنچہ چوتھى صدى ميں كھلا اور پانچويں ،چھٹى اور ساتويں ہجرى ميں اپنے عروج پر پہنچ گيا_

'' عرفان'' نظرى اور عملى كاپھول چو تھى سے چھٹى صدى تك كھلا اور نويں صدى تك اسكى خوشبو جارى رہي، ''آرٹ'' كو پانچويں اور چھٹى صدى ميں رونق ملى اور اس نے دسويں اور گيا رھويں صدى تك اپنا عروج كا زمانہ گزارا(۱) دسويں صدى كے آخر اور گيا رھويں صدى كے اوائل ميں اسلامى تہذيب و تمدن كى بلندى اورعظمت متزلزل ہوگئي او ر يہ تمدن زوال پذير ہونے لگا، يہ انحطام اور تنزلى داخلى اور خارجى دونوں اسباب كى بناء پر تھى ، اكثريت كى رائے كے مطابق ممكن تھا اس تنزلى كى بناء پر اسلامى تہذيب كى بنياديں ختم ہوجاتيں اور بالاخر اسلامى معاشروں ميں دين كا رنگ پھيكا پڑجاتا، ليكن اسلامى بيدارى كى تحريك سے معلوم ہوا كہ يہ انحطاط و تنزلى كا زمانہ اسلامى تہذيب و تمدن كے سفر ميں ايك عارضى وقفہ تھا_

اسلامى بيدارى كہ جو يورپ كے نئے نظريات كے مقابلے ميں اسلامى مفكرين كے اضطراب كا نتيجہ تھى در اصل سيد جمال الدين افغانى ، شيخ محمد عبدہ، عبدالرحمان كواكبى اور بہت سى ديگر شخصيات كے نظريات اور دعوت اسلامى كى بناء پر وجود ميں آئي ، قرآنى مفاہيم كى حفاظت اور پاسدارى كى طرف دوبارہ دعوت سے ايك ننے عصر دعوت كا آغاز ہوا ، اس دورانيہ كے بعد ہم اسلامى حكومت كى تشكيل كيلئے بہت سى تحريكوں كا سامنا كرتے ہيں كہ سب كا ہدف كمال مطلق تك رسائي يعنى مدينہ ميں زمانہ پيغمبر (ص) كے كامل نمونے تك پہنچنا تھا_

____________________

۱) اس حوالے سے مزيد معلومات كيلئے رجوع فرمائيں : دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج ۸، ذيل '' اسلام''_

۲) تاريخ تمدن اسلام مؤلف جرجى زيدان ، ترجمہ على جواہر كلام چاپ امير كبير ، تہران ، ص ۱۵۰ _ ۱۰۰ و ص ۵۵۹_ ۵۵۱_

۱۷

بالآخريہ تحريكيں دوسرے اسباب كى معيت ميں ايران ميں امام خمينى كى قيادت ميں اسلامى حكومت كى تشكيل كا باعث بنيں ،ليكن يہ تحريك صرف ايك مسلم ملك يعنى ايران تك محدود نہيں رہى بلكہ ہم ديگر اسلامى ممالك ميں بھى اسلامى تحريكوں كے ظہور كا مشاہدہ كر رہے ہيں كہ جو اسلامى اقدار كا احياء اور شريعت محمدي(ص) كے اجراء جيسے مقاصد كو پيش نظر ركھتى ہيں _

تعريفيں

اسلامى تہذيب و تمدن پر بحث كے ليے ضرورى ہے كہ اس موضوع كے اہم مفاہيم كى تعريف كريں ، ان مفاہيم ميں سب سے اہم '' تمدن '' ہے_

سيموئل ہينٹنگٹن كى نظر ميں تمدن سے مراد اعلى سطح كى ثقافتى گروہ بندى اور ثقافتى تشخص كا وسيع ترين درجہ ہے_(۱) ہنرى لوكس تمدن كو باہمى پيوستہ كاايك ايسا مظہر سمجھتاہے جو اجتماعي، اقتصادي، سياسى مسائل حتى آرٹ اور ادب كو بھى سموئے ہوئے ہے_(۲)

ديگر مغربى دانشور حضرات لفظ تمدن كو اجتماعى تغيركے معين مراحل كى وضاحت كيلئے استعمال كرتے ہيں ، جبكہ اسكے مقابلے ميں تمدن كو دانشور طبقہ يعنى معاشرے كا وہ ممتاز طبقہ جو كہ ذھانت، فطانت اور جدت كى خصوصيات كا حامل ہوتاہے معاشرے كى تدريجى ترقى اور تغيرات كے سايہ ميں غير معمولى دريافت سمجھتاہے_(۲)

الفرڈويبركى تعريف بھى ويل ڈيورنٹ كے مشابہہ ہے ، ويبر تمدن كو علم و ٹيكنالوجى كا ثمر سمجھتاہے، ڈيورنٹ كے خيال ميں جب كوئي عمومى ثقافت ترقى كے كسى درجہ تك پہنچتى ہے تو زراعت كى فكر پيدا ہوتى ہے ،يہ نظريہ بھى وبر كى رائے كى مانند تمدن كے لغوى معنى سے ليا گيا ہے كہ تمدن سے مراد شہرنشينى يعنى شہرى زندگى ہے_

____________________

۱) ساموئل ھانتينگتون '' نظريہ برخورد تمدنہا'' ترجمہ مجتبى اميري، تہران، ص ۴۷_

۲) ہنرى لوكاس'' تاريخ تمدن '' ترجمہ عبدالحسين آذرنگ ،تہران ، ج ۱ ، ص ۷ و ۱۶_

۳)منير البعلبكى '' موسوعة المورد'' ، ج ۳، ۲۸_

۱۸

زراعت كى طرف توجہ كے بعد تجارتى مبادلات اور شہروں كے باہمى تعلقات سے لوگوں كى شعورى سطح بلند ہوتى ہے، اسى بناء پران ميں اخلاقى خوبياں اور نيك خصلتيں پيدا ہوتى ہيں جو بھى پسنديدہ اخلاق اور حسن معاشرت كا حامل ہو اسے مہذب سمجھا جاتا ہے_

مشرقى دانشور حضرات نے بھى اہل مغرب كى مانند لفظ تمدن كى خاص تعريف اور مفہوم پيش كيا ہے :

ابن خلدون كے مطابق انسان كا اجتماعى ہونا تمدن ہے ،ايك اور دانشور كے نزديك ان تمام اخلاقى اور مادى اسباب كے مجموعہ كو تمدن كہتے ہيں كہ جو معاشرے كو موقع فراہم كرتا ہے كہ وہ اپنے تمام افراد ميں ہر فرد سے زندگى كے تمام مراحل ميں بچپن سے بڑھاپے تك كمال و رشد تك پہنچتے ميں ضرورى تعاون كرے_(۱)

مجموعى طور پر اس بنيادى مفہوم كى يوں تعريف كى جاسكتى ہے كہ تہذيب يا تمدن ، ثقافت كى ترقى و پيش رفت اور اجتماعى نظم كى قبوليت كا نتيجہ ہے يعنى صحرانشينى كے مرحلہ سے نكلنا اور اجتماعى امور كے منظم ہونے كى شاہراہ پرقدم ركھنا_

ايك اور مفہوم كہ جسكى يہاں تعريف ضرورى ہے '' ثقافت ''كا مفہوم ہے ، كلچر يا ثقافت اقوام كى ان تمام روايات ، عقائد ، آداب اور انفرادى ياخاندانى رہن سہن كے مجموعہ كا نام ہے كہ جسكى پابندى سے وہ ديگر اقوام اور قبائل سے منفرد ہو جاتے ہيں ،دوسرے الفاظ ميں ثقافت كسى شخص يا گروہ كے خاص عقائد كے مجموعہ كا نام ہے چونكہ عقايد عام طور پر ذہنى ہوتے ہيں لہذا ثقافت بھى عينى اور خارجى پہلو كى حامل نہيں ہے_

تہذيب كا ثقافت سے ربط

تہذيب اور ثقافت كے آپس ميں تعلق كے باوجود يہ ايك دوسرے كيلئے لازم و مُلزوم نہيں ہيں كيونكہ ممكن ہے كہ كسى ثقافت كى بلندى كے باعث كوئي معاشرہ مہذب اور شہريت كا حامل ہوجائے اسى طرح ممكن ہے

____________________

۱) ويل دورانت ، تاريخ تمدن ، مشرق زمين ، گہوارہ تمدن ،تہران ، ج ۱ ، ص ۵_

۱۹

ايك معاشرہ ايك دوسرے تمدن كى پيروى ميں ترقى كرتے ہوئے ايسے تمدن كى صورت حال ميں سامنے آئے جو كہ اصلى تمدن (جس كى پيروى كى تھي) سے مختلف ہو ہو، دوسرى طرف يہ نكتہ بھى اہم ہے كہ تمدن اور شہريت كے بغير بھى ايك معاشرہ ثقافت كا حامل ہو سكتا ہے، آسٹريليا اور افريقہ كے اصلى باشندے كسى تمدن كے حامل نہ تھے ليكن عقائد و آداب اور رسوم كے مجموعہ كى شكل ميں مقامى ثقافت ركھتے تھے ،لہذا انسانى گروہ اگر چہ ابتدائي شكل ميں كيوں نہ ہوں اپنى خاص ثقافت كے حامل ہيں (۱)

تہذيبوں كى پيدايش اور ترقى ميں مؤثر اسباب

تہذيبوں كى پيدايش اور ترقى ميں متعدد اسباب كا كردار ہے :ايك سبب امن اور سكون كا ہونا ہے ، يعنى اضطراب اور پريشانيوں كا كم ہونا ہے ، دوسرا سبب جو كہ در حقيقت ہر تہذيب كى اصلى روح ہے قومى غرور اور يكجہتى ہے يا ابن خلدون كى تعبير كے مطابق عصبيت وقوميت ہے_

اسكے بعد والا سبب اصول تعاون اور امداد ہے تا كہ ہم فكر گروہ تعاون اور اخلاقيات كى بنياد پر تمدن كى اساس قائم كريں ، ان اسباب كے ساتھ ساتھ '' اخلاق'' سے غافل نہيں ہونا چاہيے نيزتحمل ، بردبارى اور صبر اسى طرح وحدت و اتفاق اور دين كو قائم ركھنا سب تمدن سازى كے ديگر اسباب ميں شمار ہوتے ہيں _

ان سات بنيادى اجزا كے ساتھ ساتھ دو ديگر اسباب كا ذكر بھى ہونا چاہيے :

۱) مناسب فلاح و بہبود_۲) اقتصادى و معاشرتى دباؤ_

پہلا سبب كسى بھى معاشرہ ميں ايك تمدن كى بنياد بن سكتا ہے اور اسكو پانے سے (تمدن كى تشكيل كيلئے )تمام ضرورى توانائياں اور معاشرے ميں پائي جانے والى صلاحيتيں واضح ہو جاتى ہيں _اور دوسرے سبب كى خصوصيت يہ ہے كہ وہ معاشرہ كى ضرورتوں كو عياں كر ديتا ہے اور افراد كو ايك محور كے گرد جمع كر ديتا ہے، اسطرح سے تمدن كى پيدايش يا اسكى ترقى و پيش رفت كے حالات فراہم ہو جاتے ہيں _(۲)

____________________

۱) محمد تقى جعفري، فرہنگ پيرو، فرہنگ پيشرو ، تہران ، ص ۱۱۷۳_

۲) ابولاكوست ، جہان بينى ابن خلدون ، ترجمہ مظفر مہدى ، تہران ، ص ۳۸ _ ۳۳_

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

نہ نوازا ہوتا تو وہ کبھی بھی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی تھی اور اسکے مطابق فیصلہ ممکن نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ خداوند عالم عقل کے مطابق ہی جزا یا سزا دیگا۔

۲۔اطاعت خدا

جب فہم وادراک اورنظری معرفت کے میدان میں عقل کی اس قدر اہمیت ہے۔۔۔تو اسی نظری معرفت کے نتیجہ میں عملی معرفت پیدا ہوتی ہے جسکی بنا پر انسان کیلئے کچھ واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے پرہیز واجب ہوجاتا ہے ۔

چنانچہ جس نظری معرفت کے نتیجہ میںعملی معرفت پیدا ہوتی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کے مقام ربوبیت والوہیت کو پہچان لے اور اس طرح اسکی عبودیت اور بندگی کے مقام کی معرفت بھی پیدا کرلے اورجب انسان یہ معرفت حاصل کرلیتاہے تو اس پر خداوند عالم کے احکام کی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہوجاتی ہے۔

یہ معرفت ،عقل کے خصوصیات میں سے ایک ہے اور یہی وہ معرفت ہے جو انسان کو خدا کے اوامر کی اطاعت اور نواہی سے پرہیز (واجبات و محرمات )کا ذمہ دار اور انکی ادائیگی یا مخالفت کی صورت میں جزاوسزا کا مستحق قرار دیتی ہے اور اگر معرفت نظری کے بعد یہ معرفت عملی نہ پائی جائے تو پھر انسان کے اوپر اوامر اور نواہی الٰہیہ نافذ(لاگو)نہیں ہوسکتے یعنی نہ اسکے اوپر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نہ ہی اسکو جزااور سزا کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔

اسی بیان کی طرف مندرجہ ذیل روایات میں اشارہ موجود ہے:

۸۱

امام محمد باقر نے فرمایا ہے:

(لماخلق ﷲ العقل استنطقه ثم قال له أقبل فأقبل،ثم قال له أدبرفأدبر،ثم قال له:وعزّتی وجلا لی ماخلقت خلقاً هوأحب لیّ منک،ولااکملک الافیمن احبأمانی یّاک آمرو یّاکأنهیٰ ویّاک اُعاقب ویّاک أثیب )( ۱ )

''یعنی جب پروردگار عالم نے عقل کو خلق فرمایا تو اسے گویا ہونے کاحکم دیا پھر اس سے فرمایا سامنے آ،تو وہ سامنے آگئی اسکے بعد فرمایا پیچھے ہٹ جا تو وہ پیچھے ہٹ گئی تو پروردگار نے اس سے فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ اپنی محبوب کوئی اور مخلوق پیدا نہیں کی ہے اور میں تجھے اسکے اندر کامل کرونگا جس سے مجھے محبت ہوگی۔یاد رکھ کہ میں صرف اور صرف تیرے ہی مطابق کوئی حکم دونگا اور تیرے ہی مطابق کسی چیز سے منع کرونگا اور صرف تیرے مطابق عذا ب کرونگا اور تیرے ہی اعتبار سے ثواب دونگا''

امام جعفر صادق نے فرمایا:

(لماخلق ﷲ عزوجل العقل قال له ادبرفادبر،ثم قال اقبل فاقبل،فقال وعزتی وجلالی ماخلقت خلقاً احسن منک،یّاک آمرویّاک انهی،یّاک اُثیب ویّاکاُعاقب )( ۲ )

''جب ﷲ تعالی نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی اسکے بعد فرمایا سامنے آ ،تو وہ آگئی تو ارشاد فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم : میں نے تجھ سے زیادہ حسین و جمیل کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے لہٰذا صرف اور صرف تیرے ہی مطابق امرونہی کرونگا اور صرف اورصرف تیرے ہی مطابق ثواب یا عذاب دونگا''

بعینہ یہی مضمون دوسری روایات میں بھی موجود ہے ۔( ۳ )

ان روایات میں اس بات کی طرف کنایہ واشارہ پایا جاتا ہے کہ عقل، خداوند عالم کی مطیع

____________________

(۱)اصول کافی ج۱ص۱۰۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۹۶۔

(۳)بحارالانوار ج۱ ص ۹۷ ۔

۸۲

وفرمانبردار مخلوق ہے کہ جب اسے حکم دیا گیا کہ سامنے آ، تو سامنے آگئی اور جب کہا گیا کہ واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ۔

روایات میں اس طرح کے اشارے اورکنائے ایک عام بات ہے۔

علم وعمل کے درمیان رابطہ کے بارے میں حضرت علی کا یہ ارشاد ہے:

(العاقل اذا علم عمل،واذا عمل اخلص )( ۱ )

'' عاقل جب کوئی چیز جان لیتا ہے تو اس پر عمل کرتا ہے اور جب عمل کرتا ہے تو اسکی نیت خالص رہتی ہے''

ﷲ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی اور اسکے احکامات کی فرمانبرداری میں عقل کیا کردار ادا کرتی ہے اسکے بارے میں اسلامی کتابو ں میں روایات موجود ہیں جنمیں سے ہم نمونے کے طورپر صرف چند روایات ذکر کر رہے ہیں۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(العاقل من أطاع ﷲ )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو خدا کا فرمانبردار ہو''

روایت ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟

قال :(العمل بطاعة الله،ان العمال بطاعة الله هم العقلاء )

''فرمایا :حکم خدا کے مطابق عمل کرنا، بیشک اطاعت خدا کے مطابق چلنے والے ہی صاحبان عقل ہیں''( ۳ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۱۰۱۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۱۶۰۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۱۔

۸۳

امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا :

''جس سے خداوند عالم (رحمن)کی عبادت کی جائے اور جنت حاصل کی جائے''راوی کہتا ہے کہ میںنے عرض کیا کہ پھر معاویہ کے اندر کیا تھا؟فرمایا:وہ چال بازی اور شیطنت تھی''( ۱ )

حضرت علی :(اعقلکم اطوعکم )( ۲ )

''سب سے بڑا عاقل وہ ہے جو سب سے زیادہ اطاعت گذار ہو''

امام جعفر صادق :

(العاقل من کان ذلولاً عند اجابة الحق )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو دعوت حق کو لبیک کہتے وقت اپنے کو سب سے زیادہ ذلیل سمجھے''

۳۔خواہشات کے مقابلہ کے لئے صبروتحمل(خواہشات کا دفاع)

یہ وہ تیسری فضیلت ہے جس سے خداوند عالم نے انسانی عقل کو نوازا ہے ۔اور یہ عقل کی ایک بنیادی اور دشوار گذار نیزاہم ذمہ داری ہے جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اسکی یہ ذمہ داری اطاعت الٰہی کا ہی ایک دوسرا رخ تصور کی جاتی ہے بلکہ در حقیقت(واجبات پر عمل اور محرمات سے پرہیز)ہی اطاعت خدا کے مصداق ہیں اور ان کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ پہلی صورت میں واجبات پر عمل کرکے اسکی اطاعت کی جاتی ہے اور دوسری صورت میں اسکی حرام کردہ چیزوں سے پر ہیز کرکے خواہشات سے اپنے نفس کو روک کر اوران پر صبرکر کے اسکی فرمانبرداری کیجاتی ہے اس بنا پر عقل کی یہ ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے کہ وہ خواہشات نفس کواپنے قابو میں رکھے اورانھیں اس طرح اپنے ماتحت رکھے کہ وہ کبھی اپنا سر نہ اٹھا سکیں۔

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۱۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۷۹۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۰۔

۸۴

خواہشات نفس کوکنڑول کرنے کے بارے میں عقل کی اس ڈیوٹی کے سلسلہ میں بیحد تاکید کی گئی ہے۔نمونہ کے طور پر حضرت علی کے مندرجہ ذیل اقوال حاضر خدمت ہیں:

٭(العقل حسام قاطع )( ۱ )

''عقل (خواہشات کو)کاٹ دینے والی تیز شمشیر ہے''

٭ (قاتل هواک بعقلک )( ۲ )

''اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات سے جنگ کرو''

٭ (للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجر وتنهیٰ )( ۳ )

''نفس کے اندر ہویٰ وہوس کی بنا پر مختلف حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور عقل ان سے منع کرتی ہے''

٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجرمنها )( ۴ )

''دلوں پر برے خیالات کا گذر ہوتا ہے تو عقل ان سے روکتی ہے''

٭ (العاقل من غلب هواه،ولم یبع آخرته بدنیاه )( ۵ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی خواہش کا مالک ہو اور اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے عوض فروخت نہ کرے''

٭ (العاقل من هجرشهوته،وباع دنیاه بآخرته )( ۶ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت سے بالکل دور ہوجائے اور اپنی دنیا کو اپنی آخرت کے عوض

____________________

(۱)نہج البلاغہ ۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)تحف العقول ص۹۶۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ ص ۰۴ ۱ ۔

(۶)غررالحکم ج۱ص۸۶۔

۸۵

فروخت کرڈالے''

٭ (العاقل عدولذ ته والجاهل عبد شهوته )( ۱ )

''عاقل اپنی لذتوں کا دشمن ہوتا ہے اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے''

٭ (العاقل من عصیٰ هواه فی طاعة ربه )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کے لئے اپنی خواہش نفس (ہوس)کی مخالفت کرے''

٭ (العاقل من غلب نوازع أهویته )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو اپنے خواہشات کی لغزشوں پر غلبہ رکھے''

٭ (العاقل من أمات شهوته،والقوی من قمع لذته )( ۴ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت کو مردہ بنادے اور قوی وہ ہے جو اپنی لذتوں کا قلع قمع کردے''

لہٰذا عقل کے تین مرحلے ہیں:

۱۔معرفت خدا

۲۔واجبات میں اسکی اطاعت

۳۔جن خواہشات نفس اور محرمات سے ﷲ تعالی نے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرنا۔

اس باب (بحث)میں ہماری منظور نظر عقل کا یہی تیسراکردارہے یعنی اس میں ہم خواہشات کے مقابلہ کا طریقہ ان پر قابو حاصل کرنے نیز انھیں کنٹرول کرنے کے طریقے بیان کرینگے ۔لہٰذا اب آپ نفس کے اندر عقل اور خواہشات کے درمیان موجود خلفشار اور کشمکش کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۸۷۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۱۲۰۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۵۸۔

۸۶

عقل اور خواہشات کی کشمکش اور انسان کی آخری منزل کی نشاندہی

عقل اور خواہشات کے درمیان جو جنگ بھڑکتی ہے اس سے انسان کے آخری انجام کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ وہ سعادت مند ہونے والا ہے یا بد بخت ؟

یعنی نفس کی اندرونی جنگ دنیاکے تمام لوگوں کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کردیتی ہے :

۱۔متقی

۲۔فاسق وفاجر

اس طرح بشری عادات و کردار کی بھی دوقسمیں ہیں:

۱۔تقویٰ وپرہیزگاری(نیک کردار)

۲۔فسق وفجور ( بد کردار)

تقویٰ یعنی خواہشات کے اوپر عقل کی حکومت اورفسق وفجور اور بد کرداری یعنی عقل کے اوپر خواہشات کا اندھا راج ،لہٰذا اسی دوراہے سے ہر انسان کی سعادت یا بدبختی کے راستے شمال و جنوب کے راستوں کی طرح ایک دوسرے سے بالکل جدا ہوجاتے ہیںاور اصحاب یمین (نیک افراد) اور اصحاب شمال (یعنی برے لوگوں)کے درمیان یہ جدائی بالکل حقیقی اور جوہری جدائی ہے جس میں کسی طرح کا اتصال ممکن نہیں ہے۔اور یہ جدائی اسی دو راہے سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ کچھ لوگ اپنی خواہشات پر اپنی عقل کو حاکم رکھتے ہیں لہٰذا وہ متقی،صالح اور نیک کردار بن جاتے ہیں اور کچھ اپنی عقل کی باگ ڈوراپنی خواہشات کے حوالہ کردیتے ہیں لہٰذا وہ فاسق وفاجر بن جاتے ہیں اس طرح اہل دنیا دوحصوں میں بٹے ہوئے ہیں کچھ کا راستہ خدا تک پہنچتا ہے اور کچھ جہنم کی آگ کی تہوں میں پہونچ جاتے ہیں۔

۸۷

امیر المومنین نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

(من غلب عقله هواه افلح،ومن غلب هواه عقله افتضح )( ۱ )

''جس کی عقل اسکی خواہشات پر غالب ہے وہ کامیاب وکامران ہے اور جسکی عقل کے اوپر اسکے خواہشات غلبہ پیدا کرلیں وہ رسواو ذلیل ہوگیا''

آپ نے ہی یہ ارشاد فرمایا ہے:

(العقل صاحب جیش الرحمٰن،والهویٰ قائد جیش الشیطان والنفس متجاذبة بینهما،فأیهمایغلب کانت فی حیّزه )( ۲ )

''عقل لشکر رحمن کی سپہ سالارہے اور خواہشات شیطان کے لشکر کی سردار ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان کشمکش اور کھنچائو کا شکاررہتا ہے چنانچہ ان میں جو غالب آجاتا ہے نفس اسکے ماتحت رہتا ہے''

اس طرح نفس کے اندر یہ جنگ جاری رہتی ہے اور نفس ان دونوں کے درمیان معلق رہتا ہے جب انمیں سے کوئی ایک اس جنگ کو جیت لیتا ہے تو انسان کا نفس بھی اسکی حکومت کے ماتحت چلاجاتا ہے اب چاہے عقل کامیاب ہوجائے یا خواہشات۔

حضرت علی :

(العقل والشهوة ضدان، مؤید العقل العلم،مزین الشهوة الهویٰ،والنفس متنازعة بینهما،فأیهما قهرکانت فی جانبه )( ۳ )

''عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں عقل کا مددگار علم ہے اور شہوت کو زینت بخشنے والی چیز

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۸۷۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۱۳۔

(۳)گذشتہ حوالہ ۔

۸۸

ہوس اور خواہشات ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان متذبذب رہتا ہے چنانچہ انمیں سے جوغالبآجاتا ہے نفس بھی اسی کی طرف ہوجاتا ہے''

یعنی نفس کے بارے میں عقل اور خواہشات کے درمیان ہمیشہ جھگڑا رہتا ہے ۔چنانچہ انمیں سے جوغالب آجاتا ہے انسان کا نفس بھی اسی کا ساتھ دیتا ہے۔

ضعف عقل اورقوت ہوس

شہوت(خواہشات)اور عقل کی وہ بنیادی لڑائی جسکے بعد انسان کی آخری منزل (سعادت وشقاوت) معین ہوتی ہے اس میں خواہشات کا پلڑاعقل کے مقابلہ میں کافی بھاری رہتا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ عقل فہم وادراک کا ایک آلہ ہے جبکہ خواہشات جسم کے اندر انسان کو متحرک بنانے والی ایک مضبوط طاقت ہے۔

اور یہ طے شدہ بات ہے کہ عقل ہرقدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسکو نفس کی قوت محرکہ نہیں کہاجاتا ہے۔

جبکہ خواہشات کے اندر انسان کو کسی کام پر اکسانے بلکہ بھڑکانے کے لئے اعلیٰ درجہ کی قدرت وطاقت وافرمقدار میں پائی جاتی ہے۔

حضرت علی نے فرمایا:

(کم من عقل اسیرعند هویٰ امیر )( ۱ )

''کتنی عقلیں خواہشات کے آمرانہ پنجوںمیں گرفتار ہیں''

خواہشات انسان کو لالچ اور دھوکہ کے ذریعہ پستیوں کی طرف لیجاتی ہیں اور انسان بھی ان کے ساتھ پھسلتا چلا جاتا ہے ۔جبکہ عقل انسان کو ان چیزوںکی طرف دعوت دیتی ہے جن سے اسے نفرت ہے اور وہ انھیں پسند نہیں کرتا ہے۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۱۱

۸۹

امیر المومنین فرماتے ہیں:

(اکره نفسک علی الفضائل،فان الرذائل انت مطبوع علیها )( ۱ )

''نیک کام کرنے کے لئے اپنے نفس کے اوپر زور ڈالو،کیونکہ برائیوں کی طرف تو تم خود بخودجاتے ہو''

کیونکہ خواہشات کے مطابق چلتے وقت راستہ بالکل مزاج کے مطابق گویاڈھلان دار ہوتا ہے لہٰذاوہ اسکے اوپر بآسانی پستی کی طرف اتر تا چلاجاتا ہے لیکن کمالات اور اچھائیوں میں کیونکہ انسان کا رخ بلند یو ںکی طرف ہوتا ہے لہٰذا اس صورت میںہر ایک کو زحمت اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عقل اور شہوت کے درمیان جو بھی جنگ چھڑتی ہے اس میں شہوتیں اپنے تمام لائو لشکر اور بھر پور قدرت وطاقت اور اثرات کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں اوراسکے سامنے عقل کمزور پڑجاتی ہے۔

اور اکثر اوقات جب عقل اور خواہشات کے درمیان مقابلہ کی نوبت آتی ہے تو عقل کو ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں کیونکہ وہ اسکے اوپر اس طرح حاوی ہوجاتی ہیں کہ اسکو میدان چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہیں اور اسکا پورا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیکر اسے بالکل لاچار بنادیتی ہیں۔

____________________

(۱)مستدرک وسائل الشیعہ ج ۲ ص۳۱۰۔

۹۰

عقل کے لشکر

پروردگار عالم نے انسان کے اندر ایک مجموعہ کے تحت کچھ ایسی قوتیں ، اسباب اور ذرائع جمع کردئے ہیں جو مشکل مرحلوں میں عقل کی امداد اور پشت پناہی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور نفس کے اندر یہ خیروبرکت کا مجموعہ انسان کی فطرت ،ضمیر اورنیک جذبات (عواطف)کے عین مطابق ہے اور اس مجموعہ میں خواہشات کے مقابلہ میں انسان کو تحریک کرنے کی تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں

اور یہ خواہشات اور ہوس کو روکنے اور ان پر قابو پانے اور خاص طور سے ہوی وہوس کو کچلنے کے لئے عقل کی معاون ثابت ہوتی ہیں۔

کیونکہ(جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیںکہ) عقل تو فہم وادراک اور علم ومعرفت کا ایک آلہ ہے۔ جو انسان کو چیزوں کی صحیح تشخیص اور افہام وتفہیم کی قوت عطا کرتا ہے اور تنہااسکے اندر خواہشات کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے۔لہٰذا ایسے مواقع پر عقل خواہشات کو کنٹرول کرنے اور ان پر قابو پانے کے لئے ان اسباب اور ذرائع کا سہارا لیتی ہے جوخداوند عالم نے انسان کے نفس کے اندر ودیعت کئے ہیںاور اس طرح عقل کیلئے خواہشات کا مقابلہ اورانکا دفاع کرنے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے لہٰذاان اسباب کے پورے مجموعہ کو اسلامی اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کی زبان میں عقل کے لشکروں کا نام دیا گیا ہے۔جو ہر اعتبار سے ایک اسم بامسمّیٰ ہے۔

نمونہ کے طور پر اسکی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

کبھی کبھی انسان مال و دولت کی محبت کے جذبہ کے دبائو میں آکر غلط اور نا جا ئز راستوں سے دولت اکٹھا کرنے لگتا ہے ۔کیونکہ ہر انسان کے اندر کسی نہ کسی حد تک مال و دولت کی محبت پائی جاتی ہے مگر بسا اوقات وہ اس میں افراط سے کام لیتا ہے ۔ایسے مواقع پر انسانی عقل ہر نفس کے اندر موجود ''عزت نفس ''کے ذخیرہ سے امداد حا صل کرتی ہے چنا نچہ جہاں تو ہین اور ذلت کا اندیشہ ہو تا ہے عزت نفس اسے وہاں سے دولت حاصل کرنے سے روک دیتی ہے اگر چہ اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جس جگہ بھی تو ہین اور ذلت کا خطرہ ہو تا ہے عقل اسکو اس سے اچھی طرح آگاہ کر دیتی ہے لیکن پھر بھی ایسے مو اقع پر مال و دو لت سمیٹنے سے روکنے کے لئے عقل کی رہنما ئی تنہا کا فی نہیں ہے بلکہ اسے عزت نفس کا تعا ون درکارہوتاہے جسکو حاصل کرکے وہ حب مال کی ہوس اور جذبہ کا مقابلہ کرتی ہے ۔

۹۱

۲۔جنسی خو ا ہشات انسان کے اندر سب سے زیادہ قوی خو ا ہشات ہو تی ہیں اوران کے دبائو کے بعد انسان اپنی جنسی جذبات کی تسلی کے لئے طرح طرح کے غلط اور حرام راستوں پردوڑتا چلا جاتا ہے اور اس میں بھی کو ئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ ایسے اکثر حالات میں عقل جنسی بے راہ روی کے غلط مقامات کا بخوبی مقابلہ نہیں کر پاتی اور اسے صحیح الفطرت انسان کے نفس کے اندر مو جود ایک اور فطری طاقت یعنی عفت نفس (پاک دامنی )کی مدد حا صل کرنا پڑتی ہے ۔چنانچہ جب انسان کے سامنے اس کی عفت اور پاکدا منی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس بری حرکت سے رک جاتا ہے ۔

۳۔کبھی کبھی انسان کے اندرسربلندی ،انانیت اور غرور وتکبر کا اتنا مادہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو بالکل ذلیل اور پست سمجھنے لگتا ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہے جس کو عقل ہر اعتبار سے برا سمجھتی ہے اسکے باوجود جب تک عقل، نفس کے اندر خداوند عالم کی ودیعت کردہ قوت تواضع سے امداد حاصل نہ کرے وہ اس غرور و تکبر کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔

۴۔کبھی کبھی انسان اپنے نفس کے اندر موجود ایک طاقت یعنی غیظ وغضب اور غصہ کا شکار ہوجاتا ہے جسکے نتیجہ میں وہ دوسروں کی توہین اور بے عزتی کرنے لگتا ہے۔چنانچہ یہ کام عقل کی نگاہ با بصیرت میں کتنا ہی قبیح اور براکیوں نہ ہواسکے باوجود عقل صرف اورصرف اپنے بل بوتے پر انسان کے ہوش وحواس چھین لینے والی اس طاقت کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے لہٰذا ایسے مواقع پر عقل، عام طور سے انسان کے اندر موجود ،رحم وکرم کی فطری قوت وطاقت کو سہارا بناتی ہے۔کیونکہ اس صفت (رحم وکرم)میں غصہ کے برابر یا بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی قوت اور صلاحیت پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان غصہ کی بنا پر کوئی جرم کرنا چاہتا ہے تو رحم وکرم کی مضبوط زنجیر یں اسکے ہاتھوں کو جکڑلیتی ہیں۔

۵۔اسی طرح انسان اپنی کسی اور خواہش کے اشارہ پر چلتا ہواخداوند عالم کی معصیت اور گناہ کے راستوں پر چلنے لگتا ہے تب عقل اسکو''خوف الٰہی''کے سہارے اس گناہ سے بچالیتی ہے۔

اس قسم کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں سے مذکورہ مثالیں ہم نے صرف وضاحت کے لئے بطور نمونہ پیش کردی ہیں ان کے علاوہ کسی وضاحت کے بغیر کچھ اورمثالیں ملاحظہ فرمالیں۔

جیسے نمک حرامی کے مقابلہ میں شکر نعمت، بغض و حسد کے مقابلہ کے لئے پیار ومحبت اورمایوسی کے مقابلہ میں رجاء وامید کی مدد حاصل کرتی ہے۔

۹۲

لشکر عقل سے متعلق روایات

معصومین کی احادیث میں نفس کے اندر موجود پچھتّر صفات کو عقل کا لشکر کہا گیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ یہ ان دوسری پچھتّر صفات کا مقابلہ کرتی ہیں جنہیں خواہشات اور ہوس یاحدیث کے مطابق جہل کا لشکر کہا جاتا ہے ۔

چنانچہ نفس کے اندر یہ دونوں متضاد صفتیں درحقیقت نفس کے دو اندرونی جنگی محاذوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں جن میں ایک محاذ پر عقل کی فوجوںاور دوسری جانب جہل یا خواہشات کے لشکروں کے درمیان مسلسل جنگ کے شعلے بھرکتے رہتے ہیں۔

علامہ مجلسی (رح)نے اپنی کتاب بحارالانوار کی پہلی جلدمیں اس سے متعلق امام جعفرصادق اور امام موسی کاظم سے بعض روایات نقل کی ہیںجن کو ہم ان کی سند کے ساتھ ذکر کررہے ہیں تاکہ آئندہ ان کی وضاحت میں آسانی رہے۔

پہلی روایت

سعد اور حمیری دونوں نے برقی سے انھوں نے علی بن حدید سے انھوں نے سماعہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ :میں امام جعفر صادق کی خدمت موجود تھا اور اس وقت آپ کی خدمت میں کچھ آپ کے چاہنے والے بھی حاضر تھے عقل اور جہل کا تذکرہ درمیان میں آگیا تو امام جعفر صادق نے ارشاد فرمایاکہ: عقل اور اسکے لشکر کواور جہل اور اسکے لشکر کو پہچان لو تو ہدایت پاجائوگے۔ سماعہ کہتے ہیں کہ:میںنے عرض کی میں آپ پر قربان، جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں تو امام جعفر صادق نے فرمایا کہ خداوند عالم نے اپنی روحانی مخلوقات میں اپنے نور کے عرش کے دائیں حصہ سے جس مخلوق کو سب سے پہلے پیدا کیا ہے وہ عقل ہے۔پھر اس سے فرمایا سامنے آ:تو وہ سامنے حاضر ہوگئی پھر ارشاد فرمایا:واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ،تو ارشاد الٰہی ہوا، میں نے تجھے عظیم خلقت سے نوازا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر شرف بخشا ہے پھر آپ نے فرمایا:کہ پھر خداوند عالم نے جہل کو ظلمتوں کے کھار ی سمندرسے پیدا کیا اور اس سے فرمایا کہ پلٹ جا تو وہ پلٹ گیا پھر فرمایا : سامنے آ:تو اس نے اطاعت نہیں کی تو خداوند عالم نے اس سے فرمایا : تو نے غرور وتکبر سے کام لیا ہے؟پھر(خدانے) اس پر لعنت فرمائی ۔

۹۳

اسکے بعد عقل کے پچھتّر لشکر قرار دئے جب جہل نے عقل کے لئے یہ عزت و تکریم اور عطا دیکھی تو اسکے اندر عقل کی دشمنی پیدا ہوگئی تو اس نے عرض کی اے میرے پروردگار، یہ بھی میری طرح ایک مخلوق ہے جسے تو نے پیدا کرکے عزت اور طاقت سے نوازا ہے۔اور میں اسکی ضد ہوں جبکہ میرے پاس کوئی طاقت نہیں ہے لہٰذا جیسی فوج تو نے اسے دی ہے مجھے بھی ایسی ہی زبردست فوج عنایت فرما۔تو ارشاد الٰہی ہوا :بالکل ( عطاکرونگا)لیکن اگر اسکے بعد تونے میری نا فرمانی کی تومیں تجھے تیرے لشکر سمیت اپنی رحمت سے باہر نکال دونگا اس نے کہا مجھے منظور ہے تو خداوند عالم نے اسے بھی پچھتّر لشکر عنایت فرما ئے ۔چنانچہ عقل اورجہل کو جو الگ الگ پچھتّر لشکر عنایت کئے گئے انکی تفصیل یہ ہے:

خیر، عقل کا وزیرہے اور اسکی ضد شر کو قرار دیا جو جہل کا وزیر ہے ۔

ایمان کی ضد کفر

تصدیق کی ضد انکار

رجاء (امید)کی ضد مایوسی

عدل کی ضد ظلم وجور

رضا(خشنودی )کی ضد ناراضگی

شکرکی ضد کفران(ناشکری)

لالچ کی ضد یاس

توکل کی ضدحرص

رافت کی ضدغلظت؟

رحمت کی ضد غضب

علم کی ضد جہل

فہم کی ضد حماقت

عفت کی ضد بے غیرتی

زہد کی ضد رغبت(دلچسپی)

قرابت کی ضدجدائی

خوف کی ضد جرائت

۹۴

تواضع کی ضد تکبر

محبت کی ضدتسرع (جلد بازی)؟

علم کی ضد سفاہت

خاموشی کی ضد بکواس

سر سپردگی کی ضد استکبار

تسلیم(کسی کے سامنے تسلیم ہونا)کی ضدسرکشی

عفوکی ضد کینہ

نرمی کی ضد سختی

یقین کی ضد شک

صبر کی ضدجزع فزع (بے صبری کا اظہار کرنا)

خطا پر چشم پوشی (صفح)کی ضد انتقام

غنیٰ کی ضد فقر

تفکر کی ضد سہو

حافظہ کی ضد نسیان

عطوفت کی ضد قطع(تعلق)

قناعت کی ضد حرص

مواسات کی ضد محروم کرنا (کسی کا حق روکنا)

مودت کی ضد عداوت

وفا کی ضد غداری

اطاعت کی ضد معصیت

خضوع کی ضد اظہارسر بلندی

سلامتی کا ضد بلائ

حب کی ضد بغض

۹۵

صدق کی ضد کذب

حق کی ضد باطل

امانت کی ضد خیانت

اخلاص کی ضد ملاوٹ

ذکاوت کی ضد کند ذہنی

فہم کی ضد ناسمجھی

معرفت کی ضد انکار

مدارات کی ضد رسوا کرنا

سلامت کی ضد غیب

کتمان کی ضد افشا(ظاہر کر دینا)

نماز کی ضد اسے ضائع کرنا

روزہ کی ضد افطار

جہاد کی ضد بزدلی(دشمن سے پیچھے ہٹ جانا)

حج کی ضد عہد شکنی

راز داری کی ضدفاش کرنا

والدین کے ساتھ نیکی کی ضد عاق والدین

حقیقت کی ضد ریا

معروف کی ضد منکر

ستر(پوشش)کی ضد برہنگی

تقیہ کی ضد ظاہر کرنا

انصاف کی ضدحمیت

ہوشیاری کی ضد بغاوت

صفائی کی ضدگندگی

۹۶

حیاء کی ضد بے حیائی

قصد (استقامت )کی ضد عدوان

راحت کی ضدتعب(تھکن)

آسانی کی ضد مشکل

برکت کی ضدبے برکتی

عافیت کی ضد بلا

اعتدال کی ضد کثرت طلبی

حکمت کی ضد خواہش نفس

وقار کی ضد ہلکا پن

سعادت کی ضد شقاوت

توبہ کی ضد اصرار (برگناہ)

استغفار کی ضداغترار(دھوکہ میں مبتلارہنا)

احساس ذمہ داری کی ضد لاپرواہی

دعا کی ضدیعنی غرور وتکبر کا اظہار

نشاط کی ضد سستی

فرح(خوشی)کی ضد حزن

الفت کی ضد فرقت(جدائی)

سخاوت کی ضد بخل

پس عقل کے لشکروں کی یہ ساری صفتیں صرف نبی یا نبی کے وصی یا اسی بندئہ مومن میں ہی جمع ہوسکتی ہیں جس کے قلب کا اللہ نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہو!البتہ ہمارے بقیہ چاہنے والوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جسمیںان لشکروں کی بعض صفتیںنہ پائی جائیں یہاں تک کہ جب وہ انہیں اپنے اندر کامل کرلے اور جہل کے لشکر سے چھٹکارا پا لے تو وہ بھی انبیاء اوراوصیاء کے اعلیٰ درجہ میں پہونچ جائے گا ۔بلا شبہ کامیابی عقل اور اسکے لشکر کی معرفت اور جہل نیز اس کے لشکر سے دوری کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔

۹۷

خداوند عالم ہمیں اور خصوصیت سے تم لوگوں کو اپنی اطاعت اور رضا کی توفیق عطا فرمائے ۔( ۱ )

دوسری روایت

ہشام بن حکم نے یہ روایت امام موسیٰ کاظم سے نقل کی ہے اور شیخ کلینی (رہ)نے اسے اصول کافی میں تحریر کیا ہے اور اسی سے علامہ مجلسی (رہ)نے اپنی کتاب بحارالانوار میں نقل کیاہے۔( ۲ )

یہ روایت چونکہ کچھ طویل ہے لہٰذا ہم صرف بقدر ضرورت اسکااقتباس پیش کر رہے ہیں:

امام موسی کاظم نے فرمایا :اے ہشام عقل اور اسکے لشکروں کو اور جہل اور اسکے لشکروں کو پہچان لو اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوجائو:ہشام نے عرض کی ہمیں تو صرف وہی معلوم ہے جوآپ نے سکھادیا ہے تو آپ نے فرمایا :اے ہشام بیشک خداوند عالم نے عقل کو پیدا کیا ہے اور ﷲ کی سب سے پہلی مخلوق ہے۔۔۔پھر عقل کے لئے پچھتّر لشکر قرار دئے چنانچہ عقل کو جو پچھتّر لشکر دئے گئے وہ یہ ہیں:

خیر ،عقل کا وزیر اور شر، جہل کا وزیر ہے

ایمان، کفر

تصدیق، تکذیب

اخلاص ،نفاق

رجا ئ،ناامیدی

عدل،جور

خوشی ،ناراضگی

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱ ص۱۰۹۔۱۱۱ کتاب العقل والجہل۔

(۲)اصول کافی جلد۱ص۱۳۔۲۳،بحارالانوار جلد۱ص۱۵۹۔

۹۸

شکر، کفران(ناشکری)

طمع رحمت ،رحمت سے مایوسی

توکل،حرص

نرم دلی،قساوت قلب

علم، جہل

عفت ،بے حیائی

زہد،دنیا پرستی

خوش اخلاقی،بد اخلاقی

خوف ،جرائت

تواضع ،کبر

صبر،جلدبازی

ہوشیاری ،بے وقوفی

خاموشی،حذر

سرسپردگی، استکبار

تسلیم،اظہار سربلندی

عفو، کینہ

رحمت، سختی

یقین ،شک

صبر،بے صبری (جزع)

عفو،انتقام

استغنا(مالداری) ، فقر

تفکر،سہو

حفظ،نسیان

۹۹

صلہ رحم، قطع تعلق

قناعت ،بے انتہالالچ

مواسات ،نہ دینا (منع)

مودت ،عداوت

وفاداری ،غداری

اطاعت، معصیت

خضوع ،اظہار سربلندی

صحت ،(سلامتی )بلائ

فہم ،غبی ہونا(کم سمجھی)

معرفت، انکار

مدارات،رسواکرنا

سلامة الغیب ،حیلہ وفریب

کتمان (حفظ راز)،افشائ

والدین کے ساتھ حسن سلوک ،عاق ہونا

حقیقت،ریا

معروف ،منکر

تقیہ،ظاہر کرنا

انصاف ،ظلم

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375