اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 21%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 144809 / ڈاؤنلوڈ: 5490
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

نے ترقى بھى كى جب ايران منگولوں كے وحشيانہ حملوں كى زد ميں تھا اسى زمانہ ميں مصر كے سلطان بيبرس آرٹسٹ حضرات اور جنگجووں كى حمايت كر رہے تھے _ ايك قلعہ ميں ايك بلند ٹيلے پر سلطان بيرس كے حكم پر حصار نما د،يوار نماپناہ گاہ بنائي گى اسميں قديم اہرام جيزہ كے پتھر استعمال كيے گئے _ اسى زمانہ ميں شيشہ گر حلب اور دمشق ميں موجودتھے كہ جنكے شاہكاروں كوعيسائي لوگ پسند كرتے تھے اور خريدتے تھے _ يہ شيشہ گر لوگ اپنے ظروف كو سونے كے پانى اور براق زرد، سرخ اور سبز رنگ كے پانى سے آراستہ كرتے تھے _

اسلامى جلد سازى كا ہنر جسميں ہندسى ( Geomatrical )اشكال كو كتابوں كى چرمى جلدوں پر استعمال كيا جاتا تھا كى كشش نے مصر اور شمالى افريقہ كے ہنرمندوں كو اپنى طرف كھينچا اور يہ بالكل وہى زمانہ تھا كہ قلمى نسخہ جات ميں سے كوفى خط رخصت ہو رہا تھا اور اسكى جگہ خط نسخ لے رہا تھا كہ جسميں كوفى خط كى نسبت لچك زيادہ تھى(۱)

ساتويں ايل خان غازان خان (۷۰۳_ ۶۹۴ قمرى ) نے اپنے دار الحكومت تبريز كو علم و دانش اور اسلامى فنون كے مركز ميں تبديل كرديا تھا _ وہ با قاعدہ طور پر مسلمان ہوچكا تھا اس نے تبريز كے جنوب ميں ايك نيا شہر بسايا اور وہاں دينى مدارس ، كتابخانہ ، ہسپتال اور ايك محل تعمير كروايا اسكے وزير رشيد الدين فضل اللہ ہمدانى جو كہ خود بھى اپنے زمانہ كے اديبوں ميں سے تھے انہوں نے تبريز كے مشرقى حصہ ميں ربع رشيدى كے نام سے ايك كمپليكس بنوايا جو بہت سے ثقافتى مراكز اور طالب علموں ، مصوروں ، خطاطوں اور نسخوں كو سونے اور رنگوں كے پانى مزين كرنے والوں كے ليے تربيت گاہوں پر مشتمل تھا _ خود انہوں نے كتاب'' جامع التواريخ '' تاليف كى كہ آج اسكے كچھ حصے مولف كے زمانہ كى تصاوير كے ساتھ موجود ہيں _

ايران كى قديم ترين پينٹنگ وہ تصاوير ہيں كہ جو كتاب منافع الحيوان كيلئے بنائي گئيں اور يہ كتاب ۴۹۹ قمرى ميں منگول بادشاہ كے حكم پر مراغہ ميں دوبارہ لكھى گئي _ اس كتاب كى پينٹنگ اور شاہنامہ فردوسى كے ايك نفيس نسخے جس كى نقل (۷۲۰ ھ ق) ميں تيار كى گئي كى تصاوير ميں چينى فن كى اسلامى ايران كى مصورى پر تاثير واضح طور پر محسوس كى جاسكتى ہے_

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۶۹_

۱۴۱

مصورى كى مانند مٹى كے برتن بنانے كا ايرانى فن بھى چينى فن سے متاثر تھا،يہ برتن بنانے والے بجائے اسكے كہ اسى سلجوقى روش كو آگے بڑھاتے انہوں نے مختلف (جديد)اور آزاد روشوں كو اختيار كرليا_ ان برتنوں اور ديواروں كى كاشى كارى ميں سياہ ، خاكسترى ، فيروزى ، ارغوانى اور نيلے رنگ ہلكے اور رقيق انداز بہت دلفريب اور بھلے معلوم ہوتے تھے _

ايلخانى (منگول)دور ميں ايرانى اور اسلامى اديبوں كى منگولوں كى اولاد ميں تمدن كى روح پھونكنے كى كوششيں ابھى ثمر آور ہوئيں ہى تھيں كہ يہ حكومت اندرونى مخالفتوں اور بغاوتوں كا شكار ہوگئي اور ختم ہوگئي انكے بعد تيمور لنگ ايران پر قابض ہوگيا اسكے وحشيانہ حملوں كى زد سے كوئي بھى سرزمين ايران ، ہند ، شام ، مصر اور ايشيا ئے صغير محفوظ نہيں رہى ليكن تيمور كے بيٹے اور اسكے پوتے اور نواسے بالخصوص شاہرخ ، بايسنقر، الغ بيگ، سلطان حسين ، بايقرا اور تيمور كى اولاد كا وہ سلسلہ كہ جو ہندوستان كے عظيم مغل بادشاہ كہلائے انہوں نے مختلف فنى ميدانوں ميں بہت سے فنى نمونے ايجاد كرنے كے اسباب مہيا كيے_

پندرہويں صدى عيسوى كے آخر ميں اندلس مسلمان كے ہاتھوں سے نكل گيا اسلامى حكومت كا وہ چھوٹاسا مركز اپنى زندگى كے آخرى سالوں ميں بہت ہى خوبصورت فنون سے آراستہ تھا _ اس دور كى ايك باشكوہ عمارت قصر الحمرا ، ( سرخ محل) تھى جب بنى نصر كے پہلے امير محمد بن احمد نے ۶۳۴ قمرى اور ۱۲۳۶ عيسوى ميں غرناطہ كو فتح كيا تو اس نے اپنا محل ايك بلند پہاڑ پر ايك چٹان پر بنايا اسكے بعد اسكى نسل كے ہر بادشاہ نے اس محل ميں كچھ نہ كچھ اضافہ كيا_

اسى سلسلہ كے ايك بادشاہ محمد پنجم نے چھٹى صدى ہجرى ميں الحمراء كو انتہائي خوبصورت صورت ميں آراستہ كيا كہ جو ابھى تك موجود ہے تقريبا اسى زمانہ ميں كہ جب الحمراء محل تعمير ہو رہا تھا قاہرہ ميں مدرسہ سلطان حسين تعمير ہوا البتہ دونوں كى معمارى ميں بڑا فرق تھا_ مدرسہ سلطان حسين كى وہ سمت جو قبلہ كى طرف تھى سلطان كے مقبرہ سے متصل تھى _ يہ عمارت مكعب شكل ميں تھى اور اسكا گنبد بيزانس كے گنبدوں سے مشابہہ تھا_

۱۴۲

مسلمانوں كے خوبصورت محلات نے ہسپانيہ كے عيسائي معماروں كو حيران كن انداز سے متاثر كيا _ عيسائي بادشاہ ہسپانيہ كو فتح كرنے كے بعد مسلمان صنعت گروں كو اسلامى طرز پر كام كرنے كا كہتے تھے چونكہ انہيں مسلمانوں كے صحن والے گھروں سے انس ہوگيا تھا اس ليے وہ يہ طرز و روش امريكا بھى لے گئے _ تيمورى دور ميں جيسا كہ ذكر ہوا لوٹ مار اور قتل و غارت كے باوجود تيمور نے ہنر و فن ميں ترقى كا راستہ اختيار كيا تيمور كے بيٹے شاہرخ نے دارالحكومت كو سمرقند سے ہرات كى طرف منتقل كيا _ اور اپنے باپ كے ہاتھوں سے ہونے والى ويرانيوں كو دوبارہ آباديوں ميں تبديل كيا _

شاہرخ كى ملكہ گوہر شاد نے امام رضا (ع) كے روضہ كے قريب اپنے نام سے ايك مسجد بنائي _ شاہرخ اور اسكے بعد والے بادشاہوں كے دور ميں مشہد اور اصفہان كى رنگين چمكدار كاشى والى ٹائيلوں كا استعمال اپنے عروج كو پہنچا عمارتوں ميں رنگين چمكدار كاشى والى ٹائيلوں كا استعمال اپنے عروج كو پہنچا _ اسى طرح تيمورى دوربالخصوص شاہرخ اور بايسنقر كے دورنفيس قلمى كتابوں كے تيار ہونے كا زرين زمانہ تھا _ اس دور جيسا جلد سازى ، خطاطى ، پينٹنگ اور پينٹنگ كا ہنر كسى اور دورميں نہيں ملتا ( ۱)

مصوّرين نے تصويروں كے بنانے ميں خاص روش ايجاد كى جو ''مكتب ہرات ''كہلائي _ ہرات كى پينٹنگ كا اسلوب اور شيوہ بغداد اور شيراز كے فن مصورى سے كافى حد تك مختلف تھا اور ايلخانى دور كے چينى ہنر سے متاثر تھا مكتب ہرات شاہرخ كے بعد بھى جارى رہا _ شاہرخ كا بيٹا بايسنقر ميرزا جو كہ ہنر پسند اور آرام پسند طبيعت كا مالك بادشاہ تھا اس نے ايران كے بہترين چاليس مصوروں كو ہرات ميں جمع كيا تا كہ وہ اسكے كتابخانہ كے قلمى نسخوں كيلئے تصاوير تيار كريں اسكى دلچسپى كى بنا پر اس دور ميں جو مشہورترين كام ہوا وہ بايسنقر معروف شاہنامہ تھا كہ جسكى پينٹنگ كا كام ۸۳۳ ميں مكمل ہوا _ تركمانى بادشاہ '' قراقوينلو اور آق قوينلو '' كے دور ميں شيراز كے اہل فن حضرات نے ايك نيا طريقہ دريافت كيا كہ جو'' تركمان'' كے عنوان سے معروف ہوا_

____________________

۱) كريستين ، پرايس، سابقہ حوالہ، ص ۱۲۹_

۱۴۳

نويں صدى كے وسط ميں ايك بچے نے اس جہان ميں آنكھيں كھوليں كہ جسے بہزاد كا نام ملا يہ بچہ بڑا ہو كہ ہرات ميں سلطان حسين كے دربار ميں مصورى كے كام ميں مشغول ہوا تھوڑى ہى مدت كے بعد اسكا نام ايرانى فن مصورى ميں امر ہوگيا كمال الدين بھزاد نے ايك نيا شيوہ ايجاد كيا كہ اس ميں وہ روزانہ كى حقيقى زندگى كى جزئيات بيان كرتا تھا _ اس طرز كى بہترين اور بولتى ہوئي پينٹنگ طہماسپ صفوى كے دور حكومت ميں تبريز ، قزوين اور مشہد ميں تيار ہوئيں ان تصوير وں ميں جذاب رنگوں كے استعمال كے ساتھ ايرانى لوگوں كى روزانہ كى زندگى كو پيش كيا جاتا تھا _(۱)

ايشيا ئے صغير ميں عثمانى تركوں كى مملكت بھى اسلامى فنون كے آشكار ہونے كى ايك اور نظير تھى '' اياصوفيہ'' كہ جو شروع ميں كليسا تھا پھر مسجد بنا اسكے اثرات انكے دل و جان ميں اسقدر تھے كہ نويں صدى كے اختتام اور اسكے بعد تك اسكى معمارى كے اثرات قسطنطنيہ شہر يا ديگر عثمانى حكومت كے علاتوں ميں باقى اور واضح تھے ان ميں سب سے بڑا اور عظيم معمارى كا شاہكار مسجد سلطان احمد اول ہے جو سن ۱۶۰۹ عيسوى سے ۱۶۱۶ عيسوى تك تعمير ہوئي _ اسى طرح اسلامى معمارى كا ايك اور نمونہ مسجد سليمانيہ ہے كہ جو سلطان سليمان قانونى كے حكم پر ''سنان پاشا ''كى معمارى اور نقشہ سازى كے مطابق كے ساتھ تيار ہوئي _ سنان پاشا كہ جس نے ۹۶۸ قمرى ميں مسجد سليمانيہ ميں كام ختم كيا ايك اور مسجد بنام رستم پاشا كو بھى تعمير كيا _ وہ محل كہ جسكى تعمير كا آغاز سلطان محمد فاتح نے شروع كيا تھاسليمان قانونى كے دور ميں ايك چھوٹے سے شہر كى شكل اختيار كر گيا تھا جسكے چار بڑے صحن اور چند دروازے تھے _

يہ مسلم سى بات ہے كہ مشرق قريب بالخصوص ايران ميں پانچ قرن قبل مسيح قالين سازى كى صنعت رائج تھى _ سائبيريا كے جنوب ميں ''پا زير يك'' نام كى جگہ پر پانچ قرن قبل چھوٹا سا پشمى قالين معجزانہ طريقہ سے ہمارے ليے برف ميں محفوظ رہا _ يہ قالين جس جگہ سے ملا وہ جگہ '' قالى پا زير يك '' كے عنوان سے مشہور ہوگئي

____________________

۱) فورست دلدمار جنسن ، سابقہ حوالہ ، ص ۳۱۲_

۱۴۴

ان سب چيزوں كے باوجود ساتويں صدى سے ايك جيسى روش كے ساتھ بہت زيادہ تعداد ميں قالين تيار ہونے كا كام رائج تھا _ ايسے قالينوں كا ايك مكمل سيٹ قونيہ اور ديگر شہروں ميں سلجوقيوں كى بڑى مساجد سے ملاہے _ ايران ميں قالين باف افراد نے خطى نسخوں كو سونے كے پانى سے آراستہ كرنے كى روش كى مانند كام كيا قالينوں كے وسط اور حاشيوں پر مختلف انواع كے جذاب رنگ استعمال كيے _ صفوى دور ميں نفيس ترين ايرانى قالين مساجد ، معابد اور متبرك مقامات كو ہديہ كيے جا تے تھے كہ ان ميں سے ايك ابھى تك باقى ہے يہ قالين شيخ صفى كى آرامگاہ كيلئے تيار ہوا تھا اس قالين كا نقشہ مقصود كاشانى نے تيار كيا تھا كہ يہ ۹۶۶ قمرى ميں مكمل ہوا تھا اور اب يہ لندن كے ميوزيم ميں موجود ہے _

صفوى دور كے قالين بيشتر پشم سے تيار ہوتے تھے _ ليكن شاہ عباس كبير كے دور ميں كبھى ريشمى اور كبھى توسونے وچاندى كى تاروں سے قاليں تيار ہوتے تھے_ قفقاز والوں نے بعض ايرانى قالين بطور قرض ليے اور انہيں اس روش كے ساتھ كہ جن ميں گل بوٹے اور جانور و غيرہ تھے تيار كيا _ صفوى دور كے ريشمى اور سونے كى تاروں سے تيار كپڑے ابھى يورپ والوں كے پاس موجود ہيں اس قسم كے كپڑوں پر ڈيزائن زيادہ تر پھول اور كبھى تو جانوروں اور آدميوں كى صورت كے ساتھ بنائے جاتے تھے_

صفوى بادشاہوں ميں شاہ عباس كبير سب سے ممتاز شخصيت كا مالك تھا وہ ہنر و فن كا دلدادہ اور ہنر پروردہ شخصيت كا حامل تھا در اصل اصفہان كى رونق اور شہرت اسى كے مرہون منت ہے_قديم اصفہان كے مغربى جنوبى علاقہ يعنى نئے اصفہان ميں چوك ، ميدان ، مساجد ، محلات ، بازار اور بہت سے باغ كہ جو اس نے بنوائے ان كى بدولت اصفہان نصف جہا ن بنا _

شاہ عباس كے زمانے ميں شہرى اور عمومى تعميرات كيلئے علاقے كا نقشہ تيار ہوا ايك بہت بڑا ميدان يا چوك اس نے بنايا كہ جسے ميدان نقش جہان كا نام ديا گيا _پھر اسكے تمام چاركونوں كے درميان ايك بڑى عمارت بنائي گى ان عمارتوں كا عمومى نقشہ چار ايوانوں پر مشتمل ايك عمارت كا تھا كہ جو ايرانى معمارى ميں قديم

۱۴۵

ادوار سے ربط ركھتا تھا _ يہ چار بہترين عمارتيں يہ تھيں : مسجد شاہ ، مسجد شيخ لطف اللہ ، قيصريہ كے بازار كا دروازہ اور عالى قاپو كى عمارت _(۱)

شہر كے درميان ميدان شاہ پانچ سوميٹر سے زيادہ رقبہ پر مشتمل تھا بازار بھى تھا اورساتھ ساتھ چوگان بازى اور تير اندازى كے ميدان كا كام بھى ديتا تھا ميدان كے تمام اطراف كو ايك دو طبقہ عمارت نے گھيرے ميں ليا ہواتھا نچلے طبقہ ميں دھات كارى اور كندہ كارى والوں كى دوكانيں تھيں كہ جہاں وہ لوگ اپنى فنى ايجادات ميں مصروف تھے_

اس ميدان كے مشرقى حصے ميں مشہور اور خوبصورت مسجد يعنى مسجد شيخ لطف اللہ تعمير ہوئي تھى _ (۱۰۱۲ قمرى ، ۱۶۰۳ عيسوى ) البتہ مسجد شاہ اصفہان مسجد شيخ لطف اللہ سے بڑى ہے اور اسميں ايك قابل ديد اور باشكوہ صحن ہے _ ميدان شاہ كے مغربى جانب چھ طبقات پر مشتمل عالى قاپو كا محل تھا كہ اسكے چوتھے طبقہ ميں بہت سے ستونوں والا ايك ايوان ہے جہاں بادشاہ بيٹھ كہ كھيليں اور جشن ديكھا كرتا تھا _ شاہ عباس نے شہر كے مركز ميں ايك كھلى اور وسيع سڑك بنوائي كر جسكا نام چارباغ ہے كہ جسكے كناروں پر درخت چنار كى چندقطاريں لگوائيں اس سڑك كا اختتام سى و سہ پل يا پل اللہ ورديخان پر ہوتا ہے _

شايد جانسن كى بات درست ہے كہ اس نے گيارہويں صدى كے اوائل يعنى ستريں صدى عيسوى كے ابتدائي پچاس سال كو معمارى كى دنيا ميں اسلامى عروج اور ترقى كا آخرى مرحلہ قرار ديا ہے كيونكہ اس دور ميں عالم اسلام كے تين مقامات پرفن كے تين شاہكار وجود ميں آئے :ايران ميں ميدان شاہ اصفہان ، ہندوستان ميں تاج محل يا ارجمند بانو بيگم كى آرامگاہ اور عثمانى مملكت ميں مسجد سلطان احمد اول _(۲)

____________________

۱) ہورست و لدمار جنسن ، سابقہ حوالہ ، ص ۲۰۰

۲)سابقہ حوالہ، ص ۲۰۲_

۱۴۶

اصفہان ميں شاہ عباس كے دور ميں ايك يا دو مصوروں كى تصاوير اور پينٹنگ بہت زيادہ رائج تھيں اور لوگوں ميں مقبول تھيں وہ آقا رضا اور پھر رضا عباسى تھے جو اس فنى روش كے سردار مانے جاتے تھے اس فنى اسلوب ميں معروفترين ہنرمند رضا عباسى تھااسكا شاہ عباس كے دربار سے تعلق تھا اسكى تمام پينٹنگز اس دور كے تمام ہنرمندوں كيلئے نمونہ عمل كا درجہ اختيار كر گئي تھيں _ گيا رھويں صدى كے پہلے چوتھائي حصہ ميں ايك اور نامى گرامى مصور معين مصور تھے كہ جنكى افسانوں اور تاريخ كے حوالے سے پينٹنگز شہرہ آفاق تھيں _

ہندوستان ميں تيمور لنگ كا نواسہ بابر ميرزا كى ہنر سے دلچسپى كے باعث مكتب ہرات كے بعض فنى آثار خصوصاً بہزادكے تمام فن پاروں كو جمع كيا گيا ، بابر كا بيٹا ہمايوں كہ جس نے فن و ہنر سے عشق اپنے والد سے وراثت ميں ليا تھا ايران ميں ايك سال كے قيام كے بعد ہنرمندوں كا ايك گروہ بھى ہندوستان ساتھ لے گيا اس سے ايرانى كلچر اور ہنر دوبارہ ہندوستان پر چھانے لگا مصورى ميں ہندوستان كے مغليہ آرٹ كى روش ايرانى اور ہندوستانى مصورى كى آميزش كا ثمرہ تھى _ ہند ميں مغليہ آرٹ كے بانى مير سيد على تبريزى اور عبدالصمد شيرازى تھے_ امير حمزہ كى داستان كو تصويروں ميں لانے كے بہت بڑے كام پر مير سيد على اور پچاس ديگر ہندوستانى ہنرمندوں نے كام كيا اور يہ كام ہمايوں كے بيٹے اكبر بادشاہ كے زمانے ميں ختم ہوا _(۱)

اكبر كہ جو مغليہ سلسلہ كا سب سے بڑا بادشاہ تھا معمارى سے بہت زيادہ دلچسپى ركھتا تھا اس نے آگرہ اور فتح پور سيكرى ميں بہت سے گنبد اور قبّے اور محلات تعمير كروائے فتح پور كى بڑى مسجد ايرانى اور ہندوستانى آرٹ كا ملاپ تھى _ اس نے ۱۰۱۴ قمرى ميں انتقال كيا اور اسكا بيٹا جھانگير تخت حكومت پر رونق افروز ہوا وہ مصورى اور افسانوى پيٹنگ كا دلدادہ تھا _ اسى ليے ہندوستان ميں فن مصورى كى مقبوليت جارى رہى _ ۱۰۳۸ ميں جھانگير كا بيٹا شہاب الدين المعروف شاہ جہان بادشاہ بنا تو اس دور تك فن مصورى بہت ترقى كر چكا تھا وہ اس كے ساتھ ساتھ معمارى ميں بھى كافى دلچسپى ركھتا تھا اس نے اپنى ملكہ ارجمند بانو بيگم كى ابدى آرامگاہ كے

____________________

۱) ذبيح اللہ صفا ، سابقہ حوالہ، ص ۱۳_ ۴۱_

۱۴۷

عنوان سے خوبصورت اور عظيم الشان'' تاج محل '' بنانے كا حكم صادر كيا اس تاريخى عمارت كا فن معمارى تيمور كے دور كى ايرانى معمارى سے متاثر تھا _ يہ آرامگاہ اگر چہ شاہ جہاں نے اپنى ملكہ كيلئے تيار كروائي تھى ليكن وہ خود بھى ساتھ ہى دفن ہے _

ايران ميں صفوى عہد كا آخرى زمانہ اور ہندوستان ميں مغليہ دور كا آخرى زمانہ دونوں ہى اندرونى اختلافات اور جنگوں سے دوچار تھے ليكن اسكے باوجود دونوں حكومتيں سانس لے رہيں تھيں كہ نادرشاہ افشار نے دونوں بادشاہتوں كو ختم كرديا _ اسى زمانہ ميں عثمانى بادشاہت كافى حد تك اطمينان و آسايش سے بہرہ مند تھى اور سلطان احمد جشن و سرور كا دلدادہ تھا _ اسى ليے اس دور كے فنكاروں كى افسانوى تصاوير اور پينٹنگز مثلا لونى(۱) ابھى بھى موجود ميں اور انكى تعداد سو سے بھى زيادہ ہے ۱۷۲۷ عيسوى يا ۱۱۴۰ قمرى ميں استانبول ميں چھاپ خانے كى صنعت آنے سے قلمى نسخوں اور كتابوں كو دربارہ لكھنے اور انكى تصويريں بنانے كا دور شروع ہوا _ سلطان احمد سوم كے آخرى دور سے عثمانى سلطنت كى معمارى يورپى معمارى سے متاثر ہوئي اور ديگر اسلامى فنون مصورى ، مٹى كے برتن بنانا اور اينٹوں پر نقش و نگار دسويں صدى ہجرى كى رونق كھو چكے تھے ،البتہ قيمتى پتھروں كو تراشنے ، كپڑوں پر كڑھائي اور زرى كا كام سترھويں صدى كے وسط تك چلتا رہا_

قاجارى دور ميں صفوى دور كے فنون كو باقى ركھنے كى كوششيں ہوئيں مگر كامياب نہ ہو سكےں كيونكہ بہت سے فنون زوال كا شكار ہوگئے تھے ليكن خوشنويسى كا ہنر تينوں اقسام نستعليق ، شكستہ نستعليق اور نسخ ميں اپنى بلندى كو چھونے لگا _ اسى طرح پھول اور پرندوں كے حوالے سے مصورى كے فن خصوصاً لاكى كے آثار نے بہت ترقى كى اور اسى دور ميں كتاب سے ہٹ كر فن مصورى نے ايك ايرانى مكتب كى شكل اختيار كى _(۲)

____________________

۱) Levni

۲) مرصع رنگين ، منتخبى از آثار نفيس خوشنويسان بزرگ ايران تا نيمہ قرن چہاردہم ،تہران ، ج ۱، نگارستان خط ، مجموعہ آثار ميرزا غلامرضا اصفہانى ، احمد سھيل خوانسارى كى كوشش_

۱۴۸

۲_ علم موسيقي

عباسى خلافت كے دور ميں اور اس زمانہ ميں كہ جب تحريك ترجمہ اپنے عروج پر تھى _ ايران ، ہندوستان اور يونان سے موسيقى كى كتب ترجمہ ہوئيں _ عباسى خلفاء نے بھى علم موسيقى كى ترويج اور وسعت ميں بھر پور سعى كى _ يہاں ہم عباسى دور كے موسيقيدانوں كے آثار اوراختراعات كا مختصر سا ذكر كرتے ہيں :

ابراہيم بن ماہان موصلى (۱۸۸ _ ۱۲۵ قمرى ) اسكا والد ماہان ،ارجان يا ارگان فارس كا دہقان تھا فارس سے ہجرت كرتاہوا كوفہ پہنچا وہاں ايك ايرانى خاندان ميں شادى كى _ ابراہيم نے موسيقى كا فن ايرانى موسقيدانوں ''جو انويہ ''سے سيكھا اور حيرت انگيز ترقى كى كہ اسكى شہرت عباسى خليفہ مہدى كى دربار تك پہنچى عباس خليفہ مہدى اور اسكے بيٹے ہارون الرشيد كى دعوت سے ابراہيم نے دربار ميں خاص مقام و منزلت پائي _ بغداد اور دربار خلفاء كے اكثر گلوكار ، موسيقار، بالخصوص فن موسيقى كے بزرگ دانشور حضرات مثلا اسحاق موصلى اسى كے تربيت يافتہ شاگرد تھے _(۱)

اسحاق موصلي، ابراہيم موصلى كا بيٹا تھا كہ جو تقريباً ۱۵۰ قمرى ميں رى ميں پيدا ہوا اس نے علم موسيقى كے اصول و قواعد اپنے والد اور ماموں منصور زلزل كے ہاں سيكھے اور اپنے دور ميں علم موسيقى ميں بے نظير مقام حاصل كيا اسكے موسيقى ميں مكتوب آثار مثلا الاغانى و الكبير ، النغم ، الايقاع اغانى معبد اور كتاب الرقص اب موجود نہيں ہيں يہ ہارون الرشيد ، مامون ، معتصم اور واثق عباسى كے دور ميں رہا اور ۲۳۵ ميں اسكا انتقال ہوا _

ابوالحسن على بن نافع ، اسكا لقب زرياب تھا وہ بصرى كے عنوان سے معروف تھا اور نسب كے اعتبار سے ايرانى اور اسحاق موصلى كے شاگردوں ميں سے تھا _ اس نے ايرانى موسيقى كے آلہ'' بربط'' ميں جدت پيدا كي_ بربط كے چارتاروں ميں ايك اور تار كا اضافہ كيا اور بربط كو بنانے كيلئے عقاب كے ناخن اور شير كے بچے كى انتڑيوں كو استعمال كيا كہ اس سے بربط كى آواز زيادہ جاذب ہوگئي زرياب نے اپنے مكتب ميں فن موسيقى كے

____________________

۱) ابوالفرج اصفہانى ، الاغانى ، قاہرہ ، ج ۵ ، ص ۲۰۸، ص ۲۳۰_

۱۴۹

حوالے سے نئے اصول و قواعد بنائے_ اور اسى كا شيوہ اہل مغرب ميں بھى مقبول ہوا بالخصوص اسپين كے مكتب موسيقى كى ايك روش زرياب كى تخليق تھى كہ جو سرزمين مغرب ميں منتقل ہوئي_(۱)

منصور زلزل عباسى دور ميں ايك ايرانى موسيقى دان تھا كہ جو بربط بجانے ميں استاد اور بے نظير گلوكار تھا _ ابونصرفارابى (۳۳۹ _ ۲۵۹ يا ۲۶۰ قمرى ) ايران كا عظيم الشان فلسفى ، رياضى دان اور موسيقيدان تھا _ فارابى نے موسيقى ميں قيمتى ترين كتابيں تاليف كيں ، اسكى موسيقى كے حوالے سے كتابيں مندرجہ زيل ہيں : المدخل الى صناعة الموسيقي، كلام فى الموسيقا، احصاء الايقاع ، كتاب فى النقرة مضافا الى الايقاع اور مقالات كے عنوان سے رسالہ ان ميں سے بعض كتابيں ختم ہو چكى ہيں _ موسيقى كے حوالے سے فارابى كى اہم ترين كتاب احصاء العلوم و الموسيقى الكبير ہے اسى وجہ سے قرون وسطى ميں فارابى كو موسيقى ميں سب سے بڑا مصنف جانا جاتا ہے _ فارابى نے موسيقى كے دو معروف پردوں '' وسطاى زلزل اور وسطاى فرس ميں دقيق مطالعہ كيا اور انكے فاصلوں كو بيان كيا _(۲)

ابوعلى سينا (۴۲۸ _ ۳۷۰ قمرى ) طب ، فلسفہ ، منطق ميں عظيم تاليفات كے ساتھ ساتھ فن موسيقى ميں انتہائي اہم تاليفات كے حامل ہيں انہوں نے كتاب شفا ميں فن موسيقى كيلئے ايك باب خاص كيا بوعلى سينا پہلے شخص ہيں كہ اسلام ميں موسيقى كے بارے ميں انكى فارسى ميں كتاب ابھى تك موجود ہے يہ وہى كتاب النجاة ہے جسكا انكے شاگرد ابوعبيدہ جو زجانى نے ترجمہ كيا اور اسكا نام ''دانشنامہ علايى ''ركھا_(۳)

____________________

۱) H.G. Farmer A historY of Arabian Music to the Xth Century London p .

۲) احصاء العلوم ، فصل موسيقى ، ہنرى جورج فارمو، سابقہ حوالہ، ص ۱۴۴، مہدى يركشلى ، موسيقى ، ايوانشہر، كميسيون ملى يونسكو در ايران نيز Encyclopaedia of Islam. New Edition S v Musiki Byo. Wright

۳)مہدى بركشلى ، سابقہ حوالہ، دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ذيل ابن سينا ، موسيقى ، تقى بينش ، ہنرى جارج فارمر، تاريخ موسيقى خاور زمين ، ترجمہ بہزاد باشى ، تہران ، ص ۳۶۸_

۱۵۰

صفى الدين عبدالمومن ارموى (۶۱۹ _ ۶۱۳ قمرى ) ساتويں صدى ہجرى ميں ايرانى موسيقى كا درخشاں ستارہ تھا ، انكى دو معتبر كتابيں '' الادوار'' اور '' رسالہ الشرفيہ '' كے مطالعہ سے يہ حقيقت آشكار ہوتى ہے كہ فارابى كے بعد وہ سب سے بڑا اور اہم ترين شخص ہے جنہوں نے فن موسيقى كے قواعد ميں تحقيق كى ہے _ اسكى كتاب ''الادوار ''ميں فارسى اور عربى كے قديم ترين راگ موجود ہيں _

عبدالقادر غيبى مراتمى (۸۳۸ قمرى ) تيمورى دور (تيمور اور شاہرخ كے دربار) ميں نظرى علم موسيقى كا اہم ترين عالم شمار ہوتا ہے اسكى سب سے بڑى كتاب ''جامع الالحان ''ہے دوسرى كتاب ''مقاصد الالحان ''جو جامع الالحان كى نسبت چھوٹى ہے ، شرح الادوار بھى مراغى كى تاليف ہے كہ ابھى بھى موجود ہے _ اسى طرح مراغى كى كتاب كنزالالحان انتہائي قيمتى كتاب تھى كہ جو فن موسيقى سے آشنا لوگوں كيلئے بہت اہميت كى حامل تھى اور اس كے نغموں پر مشتمل تھى ليكن اب موجود نہيں ہے اسكا بيٹا اور پوتا بھى موسيقيدان تھے اسكے بيٹے كا نام عبدالعزيز تھا جس نے ''نقاوة الادوار'' اور پوتے نے ''مقاصد الادوار'' كتابيں لكھيں _

نويں صدى ہجرى كے بعد ايران ميں كوئي بڑا موسيقيدان ظاہر نہيں ہوا كبھى كبھى كوئي شخصيت سامنے آتى رہى ليكن كسى نے جدت پيدا نہيں كى _ ايرانى موسيقى كے ترك موسيقى اور عرب ممالك حتى كہ مشرق بعيد كے ممالك كى موسيقى ميں اثرات واضح ہيں اور موسيقى كى فارسى اصطلاحات ان مناطق كى زبان اور تہذيب ميں واضح اور آشكار ہيں _(۱)

____________________

۱)ہنرى جارج فارمر، مجلہ روزگار نو ، ش ۱، ۱۹۴۲_

۱۵۱

چھٹا باب :

اسلامى تہذيب كےمغربي تہذيب پر اثرات

۱۵۲

دنيا كى موجودہ تہذيب پورى تاريخ ميں تمام اقوام كى كوششوں كا نتيجہ ہے اگر چہ موجودہ تہذيب ديگر اقوام كى تہذيبوں سے خصوصيات كے اعتبار سے مختلف ہے ليكن يہ حقيقت ميں گذشتہ تہذيبوں كا مركب ہے _ واضح سى بات ہے كہ اس جديد تہذيب كے وجود ميں آنے اور وسعت پانے ميں اسلام كا كردار ديگر تہذيبوں سے كم نہيں ہے _ ميرے خيال ميں گوناگوں تہذيبوں كى تركيب اور اقوام عالم ميں نظرياتى تبادلہ اس جديد تہذيب كے وجود ميں آنے اور وسعت پانے ميں بہت زيادہ كردار ركھتا ہے _ اور اسلام بھى اس امتزاج كے اسباب مہيا كرنے ميں متاثر كن اور اساسى كردار ركھتا ہے _ اس باب ميں اس موضوع پر گفتگو ہوگى كہ مختلف تہذيبوں كے امتزاج اور ان ميں فكرى ، ثقافتى اور علوم كے تبادلہ اور انكو مغرب ميں منتقل كرنے ميں اسلام كا كردار كيسا تھا ؟

اسلام سے مغرب ميں علم اور تہذيب كا نقل و انتقال تين راہوں سے انجام پايا :

۱) مسلمانوں كااسپين ، اٹلى ،سسلى اور صليبى جنگوں ميں عيسائيوں كے ساتھ ميل جول اور انكا عالم اسلام كے مختلف مناطق ميں اسلامى تہذيب اور كلچر سے آشنا ہونے اور عالم اسلام كى باہر كى دنيا سے سرحدوں كے ذريعے_

۲) پانچويں صدى سے ساتويں صدى ہجرى تك عربى كتب كا يورپى زبانوں ميں ترجمہ _

۳) ان عربى كتب كى تدريس اور ان سے فائدہ اٹھانا كہ جنہيں مسلمان دانشوروں نے علمى مراكز ميں تحرير يا ترجمہ كيا تھا_

مغرب والوں كا اسلامى تہذيب و تمدن سے آشنائي كا ايك اہم ترين مركز اسپين تھا _ اسپين كے عيسائيوں

۱۵۳

پر اسلامى نظريات كى چھاپ انكے عيسائي رہبروں پر اسلامى نظريات كے اثرات سے ديكھى جا سكتى ہے _ جيسا كہ كہاگيا ہے كہ ٹولڈو(طليطلہ ) شہر كے پادرى ايلى پنڈس نے اسلامى عقائد سے متاثر ہوتے ہوئے حضرت عيسى كى الوہيت كا انكار كيا اور كہا كہ وہ بشر اور خدا كے منہ بولے بيٹے تھے دوسرى طرف اس زمانہ ميں اسپين كے لوگ عربى لباس پہنتے تھے اور اسلامى و عربى آداب كاخيال ركھتے تھے كہا جاتا ہے كہ غرناطہ (گرايناڈا) شہر كى دو لاكھ مسلمان آبادى ميں سے فقط پانچ سو عرب تھے باقى سب خود اسپين كے لوگ تھے _(۱)

اسلامى آثار كا يورپى زبانوں ميں ترجمہ : مجموعى طور پر عربى زبان سے يورپى زبانوں ميں ترجمہ كے رواج كو عيسائي مملكت كے اندرونى اوربيرونى دو قسم كے اسباب ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے _

صليبى جنگوں ميں عيسائيوں كا مسلمانوں كى تہذيب سے آشنا ہونا اور مسلمانوں كى علمى ميراث اور كتابوں كے ايك مجموعہ كا سامنا كرنے كو بيرونى سبب شمار كيا جا سكتا ہے،عيسائيوں ميں اہم ترين اندرونى سبب يہ ہے كہ عيسائي دانشور حضرات كو معلوم نہ تھا كہ يونانى علماء بالخصوص ارسطو ، سقراط، بطلميوس اور جالينوس كے علمى آثار كے مقابلے ميں كيا كريں ، بہت سارے دلائل اس بات كى طرف اشارہ كرتے ہيں كہ عيسائي علماء اور فلاسفہ ان يونانى آثار كے اصلى متون سے استفادہ كرنے پر قادر نہيں تھے ، چونكہ يونانى معيارى زبان اور ان آثار كى كتابت كے مابين بارہ صديوں كے فاصلے كے باعث عيسائيوں كے بہترين زبان شناس اور مترجمين بھى ان متون كے ادراك سے عاجز تھے ، اور ساتھ بہت سے يونانى كلاسيكى آثار ختم ہوچكے تھے اور ان تك پہنچنے كيلئے عربى زبان سے ترجمہ كے علاوہ كوئي اور راستہ نہ بچا تھا اسى ليے عربى آثار سے لاطينى ميں ترجمہ كى تحريك شروع ہوئي_

يہ تحريك دو بڑے ادوار ميں تقسيم ہوتى ہے:پہلا دورہ ويٹيكن كے پاپ سيلوسٹر دوم ( ۱۰۰۳ _ ۹۹۸عيسوي) كے اس عہدے پر پہنچنے سے شروع ہوا اور اسپين كے مقامى حاكموں ميں سے آلفونسوى دہم كى حكومت كے

____________________

۱)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج ۱۰ ، ذيل انڈلس_

۱۵۴

زمانہ ميں ختم ہوا _ اور دوسرا دور اين آلفونسو (۱۲۸۴ _ ۱۲۵۳ عيسوى ) كے زمانہ سے شروع ہوا _ دونوں ادوار ميں اہم فرق يہ ہے كہ پہلے دور ميں عربى آثار سے عمومى طور پر لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوتا تھا جبكہ دوسرے دور ميں زيادہ تر عربى زبان سے اسپينى اور رومى زبان ميں ترجمہ ہوتا تھا اس دور ميں وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ بہت سے مترجم افراد سامنے آئے كہ جنكى تعداد كا ۱۵۰ تك تخمينہ لگايا گيا ہے _(۱)

ان افراد ميں بعض افراد كى اس حوالے سے خدمات پر يوں نگاہ ڈالى جا سكتى ہے :

افريقى گروہ ميں كينسٹينٹن كے ذريعے وسيع پيمانہ پر آثار كا ترجمہ ہوا اسكے ترجمہ شدہ آثار ميں طب كے حوالے سے جالينوس كے آثار اور فلسفہ ميں ارسطو كے آثار قابل ذكر ہيں _ ہوگوسينٹالايى نے ارسطو ، يعقوب بن اسحاق كندى ، ابومعشر بلخى اور ديگر افراد كے آثار كا ترجمہ كيا ، يوہيس ہيسپايسنر نے ارسطو ، بتّانى ، فارابى ، فرغانى ، قبيسي، محمد بن موسى خوارزمى ، يعقوب بن اسحاق كندى اور ابو معشر بلخى كے كثير آثار كاترجمہ كيا اسكا اہم ترين كام بوعلى سينا كے آثار كو لاطينى زبان ميں ترجمہ كرنا ہے مايكل اسكاٹ نے بھى بہت سے ترجمے كيے بالخصوص اسكا اہم كام ارسطو كے تمام آثار كا ترجمہ كرنا ہے _ پلاٹوى ٹيولياى نے بھى مختلف علمى ميدانوں مثلا نجوم ، رياضى ، ہندسہ ، اور فلسفہ ميں بہت سے آثار كا لاطينى زبان ميں ترجمہ كيا _(۲)

عربى سے لاطينى زبان ميں ترجمہ كى تحريك ''گراردوى كرموناي'' كا مقام انتہائي كى اہميت كا حامل ہے اس نے لاطينى زبان ميں ستر كے قريب آثار كا ترجمہ كيا ان ميں بہت سے علمى موضوعات مثلا طب ، فلسفہ ، نجوم ، اخلاق ، سياست و غيرہ شامل ہيں ، طب كے حوالے سے اسكے قلم سے ترجمہ شدہ جالينوس اور سقراط كے آثار اور اسكے ساتھ مسلمان شارحين كے آثار كا ترجمہ يونانى طب كا ايك مكمل مجموعہ كہلاتا ہے _

۱_ عقلى علوم ، اسلامى فلسفہ اور الہى علوم كے مغربى تہذيب پر اثرات

بارہويں صدى عيسوى كے ابتدائي سالوں ميں گونڈيسالومى اور خواں شقوبى نے بوعلى سينا ، فارابى اور غزالي

____________________

۱)دانشنامہ جہان اسلام ، ج ۷ ، ذيل ترجمہ ، نہضت (سيد احمد قاسمى )_

۲)سابقہ حوالہ، ج ۵ ، ذيل پلاوى تيولياى ، فريد قاسملو_

۱۵۵

كے آثار كا ترجمہ كيا ، اہل مغرب ان ترجمہ شدہ كتابوں كے ذريعے ارسطو كے نظريات و عقائد سے آشنا ہوئے ، حقيقى بات يہى ہے كہ اہل مغرب ارسطو كے بارے معلومات حاصل كرنے ميں مسلمانوں كے احسان مند ہيں اور اسميں كوئي شك و شبہہ نہيں ہے كہ يورپ والے مسلمانوں كے نظريات سے آگاہ ہونے كے بعد فلسفہ كے عاشق ہوئے اور ارسطو كے آثار كا مطالعہ كرنے لگے_

ارسطو اور ابن رشد كى تعليمات آپس ميں مخلوط ہو چكى تھيں اس كى روش اور نظريات وسيع پيما نہ پر يہوديوں ميں پھيل چكے تھے_ اسى طرح يہ نظريات عيسائيوں ميں بہت گہرائي تك اس طرح سرايت كر رہے تھے كہ كليسا والے پريشان ہونے لگے يہاں تك كہ سن تھامس نے عربى زبان كے مترجميں پر تنقيد كى اور ارسطو اور اسكى كتابوں كے عرب شارحين كے عقائد و افكار ميں فرق پر زور ديا ابن رشد كے علاوہ بو على سيناكى آراء و افكار كا بھى سرزمين مغرب ميں بہت زيادہ استقبال ہوا_

بوعلى سينا كے جو افكار مغرب ميں منتقل ہوئے ان ميں سے ايك معقولات كا موضوع تھايعنى وہ چيزيں جو عقل كے ذريعے قابل درك ہيں بوعلى سينا كا ايك نظريہ يہ بھى تھا كہ ہر موجود كى اساس تجزيہ كے قابل نہيں ہے اور موجودات ميں كثرت و اختلاف كى بنياد بذات خود مادہ ہے _

سرزمين مغرب كے بعض دانشور مثلا راجر بيكن كا يہ عقيدہ تھا كہ ارسطو كے فلسفہ كے اثرات مغرب ميں زيادہ نہيں تھے خواہ اسكى وجہ اسكى كتابوں اور رسالوں كا كم ہونا ہو خواہ اسكى كتابوں اور رسالوں كا آسانى سے درك نہ ہونا ہو يہاں تك كہ پيغمبر اسلام (ص) كے بعد اسلام كے بڑے فلاسفہ مثلا بوعلى سينا اور ابن رشد نے ارسطو كے فلسفہ كو سمجھا اور موضوع بحث قرار ديا اگر چہ اس دور ميں بوئيٹس نے ارسطو كے بعض آثار كو ترجمہ كرديا تھا فقط مانيكل اسكاٹ كے دور ميں كہ جب اس نے ارسطو كى طبيعت اور حكمت كے بارے ميں بعض كتابوں كا عربى سے لاطينى ميں ترجمہ كيا تو اس دور ميں مغرب ميں ارسطو كے فلسفہ كو پسند كيا گيا(۱) _

____________________

۱)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج ۳ ذيل'' ابن رشد'' ( شرف الدين خراسانى اُ جَ ع ذيل'' ابن سينا''_

۱۵۶

۶۴۸ قمرى ہجرى ميں عيسائي مبلغين كے حكم پر ٹولڈو شہر ميں مشرقى علوم سے آشنائي كيلئے پہلا ادارہ قائم ہوا، اس ادارہ ميں عربى زبان ، عيسائي اور يہودى دينى علوم كى تعليم دى جاتى تھى تا كہ مسلمانوں ميں تبليغ كيلئے افراد تيار كيے جائيں اس ادارہ كا سب سے بہترين طالب علم ريمنڈ مارٹن تھا ،اسكا يورپ ميں مسلمان مصنفين كے بارے ميں معلومات كے حوالے سے كوئي ثانى نہ تھا وہ نہ صرف يہ كہ قرآنى آيات اور اسلامى احاديث سے آگاہى ركھتا تھا بلكہ فارابى سے ليكر ابن رشد تك علم الہى اور اسلامى فلسفہ كے تمام علماء سے نكات بھى جانتا تھا ريمونڈ مارٹين نے غزالى كى مشہور كتاب تھافت الفلاسفہ پر بھى تحقيق كى اور اس كتاب كے بعض حصوں كو اپنى كتاب ''پوگو فيڈي'' ميں نقل كيا غزالى كے افكار و عقائد جب سے يورپى دانشوروں كے ہاں منتقل ہوئے اسى وقت سے عيسائي اہل فكر كيلئے بہت اہميت كے حامل ہيں اور اب بھى ان كے ليے مفيد ہيں _

فلسفہ ميں اسلام كى ديگر عظيم شخصيات ميں سے كہ جو يورپ ميں مشہور ہوئيں جناب ابن رشد تھےاٹلى ميں انكے افكار و نظريات تقريباً سولھويں صدى عيسوى تك چھائے رہے،ان كے عقائد عيسائيوں ميں بہت سى مباحث كا باعث قرار پائے_ مغرب ميں ابن رشد كے فلسفہ كى پيروى كہ جسے اصطلاحى طور پريوروازم كانام ديا گيا جديد علوم كے ظہور تك يورپ ميں فلسفہ كى بقا كے اسباب ميں سے ايك سبب تھا(۱) _

يہ مسلمہ بات ہے كہ اس علم الہى كے حوالے سے مسلمانوں كى خدمات بے حد اہميت كى حامل ہيں اور وہ لوگ جو اسلامى دانشوروں كو جدت و بنياد سے محروم كہتے ہيں يقيناً انہوں نے ابن رشد اور غزالى كے آثار كا مطالعہ نہيں كيا ٹوماز ايكوئنس كى مشہور كتاب ''سوما''اسى كوتاہ فكرى پر ايك دليل ہے_

چارصديوں سے زيادہ مدت تك يورپ كے تمام تعليمى اور ثقافتى مراكز پر اسلامى تہذيب و تمدن كے اثرات چھائے رہے _ جب يورپ ميں اسلامى افكار كى برترى كا دور ختم ہو ا پھر بھى مشرق و مغرب ميں ثقافتى رابطہ باقى رہا اور يہ رابط و تعلق تيرھويں صدى عيسوى ميں اپنے عروج كو پہنچا ، اگر ہم اس دور كے باقى ماندہ

____________________

۱) سابقہ حوالہ ج ۲_

۱۵۷

آثار كا تجزيہ كريں تو ديكھيں گے كہ اسلامى تسلط ہميشہ جارى رہا اور يہ اسلامى برترى قرون وسطى كے ادوار ميں اس سے كہيں زيادہ تھى كہ جس كا تذكرہ آج كيا جاتا ہے_

۲_ اسلامى طب كے مغربى تہذيب پراثرات

اسلامى طب نے مغربى طب پر مختلف انداز سے اثرات ڈالے ان ميں سے ايك اسلامى طبيبوں كے بہت سے آثار كا لاطينى زبان ميں ترجمہ ہونا تھا، ان اطباء ميں سے ايك اہم ترين طبيب محمد بن زكريا رازى ہيں كہ جنكے بہت سے آثار لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئے اور ہر كتاب باربار شايع ہوئي بہت سے مغربى مورخين اور دانشوروں كا يہ نظريہ ہے كہ رازى كى كتاب '' الجدرى و الحصبة'' ( پھوڑے اور خسرہ) انكى سب سے بڑى تاليف ہے يہ كتاب ۱۴۹۸عيسوى ميں پہلى بار ترجمہ ہو كر شايع ہوئي اس كے علاوہ يہ كتاب چاليس بار يورپ ميں شايع ہوئي معلوم يہ ہوتا ہے كہ اسلامى تہذيب ميں اسلامى طبى كتابوں ميں سے اس كتاب كے ترجموں اور چھپنے كى تعداد ديگر كتب سے بہت زيادہ ہے _

رازى كى ايك اور كتاب'' الحصى المتولدہ فى الكلى و المثانہ ۱۸۹۶ عيسوى ميں پيرس ميں شايع ہوئي _

۱۲۷۹ عيسوى ميں چارلس اول كے دور ميں رازى كى كتاب الحاوى فرح بن سالم نامى ايك يہودى طبيب كے ذريعے لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئي اور ۱۵۴۲ عيسوى ميں پانچ بار شايع ہوئي _ يہ كتاب يورپ ميں علم طب كے نصاب كى اہم ترين كتاب شمار ہوتى تھى _

دوسرے طبيب كہ جنہوں نے مغربى طب كو متاثر كيا جناب بو على سينا ہيں انكى كتاب قانون بہت سالوں تك مغرب كى اہم ترين طبى كتاب شمار ہوتى رہى پندرھويں صدى عيسوى كے آخر ميں اس كتاب كى سولہ بار يورپ ميں اشاعت كى گئي جو پندر ہ بار لاطينى زبان اور ايك بار عبرى زبان ميں تھى _ اس كتاب كى لاطينى اور عربى زبان ميں لكھى گئي تفاسيربے شمار ہيں يہ كتاب سترويں صدى عيسوى كے دوسرے نصف حصے تك كئي بار شايع ہوئي اور ايك طويل مدت تك ايك نصابى كتاب شمار ہوئي رہى شايد علم طب ميں آج تك اسكى مانند كوئي كتاب اسقدر رائج نہ رہى ہو_

۱۵۸

اس كے علاوہ اور كئي پہلوں سے اسلامى علم طب نے مغربى طب كو متاثر كيا_ ميرے خيال ميں يورپ ميں ہسپتالوں كا وجود ميں آنا شرقى اور اسلامى ہسپتالوں سے متاثر ہونے كى بناء پر تھا_ علاوہ ازيں يورپى طبيب جس چيزميں مسلمانوں كے احسان مند ميں وہ مختلف بيماريوں كے طريقہ علاج تھا يہ تو ہم جانتے ہيں كہ يورپى طبيبوں نے بہت سى بيماريوں مثلا خسرہ ، ٹائيفائڈاور طاعون كا علاج اور اسى طرح بہت سے طبى آپريشنوں كے طريقہ كار كو مسلمانوں سے سيكھا جسكى مثال يہ ہے كہ مسلمان طبيب زھراوى قرطبى كا طبى رسالہ يورپ ميں آج علم جراحت كى اساس كے طور پر جانا گيا ہے _(۱)

۳_ اسلامى رياضيات كے مغربى تہذيب پر اثرات

مغرب ميں علم رياضى كى ترقى كے حوالے سے اسلامى رياضى دانوں كے اثرات بہت زيادہ ہيں يورپى لوگ مسلمانوں كے ذريعے دہائي نظام كى عدد نويسى اور ہندى اعداد كى شكل سے آشنا ہوئے جو آج بھى مورد توجہ ہے _ يہ اثرات خاص طور پر كتاب '' المختصر فى الجبر و المقابلہ'' كے ترجمہ كے ذريعے پڑے _ يہ كتاب بار بار لاطينى زبان ميں '' لبيبر الگوريسمي'' ( يعنى خوارزمى كى كتاب) كے نام سے ترجہ ہوئي اسى كتاب كے لاطينى ترجمہ سے كلمہ '' algorism '' كا معنى حساب كرنا اور حساب كرنے كى روش ليا گيا _

قرون وسطى كے ادوار ميں يہ كتاب يورپ ميں شہرہ آفاق تھي_ اور سولھويں صدى عيسوى ميں فرانسيسى رياضى دان فرانسويت كے زمانہ تك يورپى رياضى دانوں كے مطالعات كى بنياد چلى آئي _ خوارزمى كى ايك اور اہم ترين كتاب كہ جسكا نام '' حساب ھند'' ہے ،خود اصل كتاب تو اب باقى نہيں رہى ليكن چودھويں صدى عيسوى ميں اسكا لاطينى زبان ميں ہونے والا ترجمہ موجود ہے _ اسلامى ماخذات ميں يہ كتاب '' الجمع و التفريق بحساب الہندسہ'' كے نام سے پہچانى جاتى ہے _

____________________

۱) فؤاڈ سزگين : تاريخ نگارشہا ى عربى ، ج ۳ ترجمہ اشاعت از خانہ كتاب ، مقدمہ ، ص ۳۰ كے بعد_

۱۵۹

خوارزمى كے علاوہ ديگر اسلامى دانشوروں كے كى كتابيں بھى اسى دور ميں اور بعد كے ادوار ميں لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئيں(۱) مثلا خيام ، خواجہ نصير الدين طوسى اور فارابى كى علم رياضى ميں كتابيں لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئيں _

آخرى مسلمان رياضى دان كہ جنگے قرون وسطى بعد كے ادوار ميں آثار كا لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوا جناب بہاء الدين عادلى تھے كہ جو شيخ بہائي كے نام سے مشہورترين ہيں انكى كتاب '' خلاصة الحساب انگلش ، فرانسيسي، اور جرمنى زبان ميں ترجمہ ہوئي رياضى كے پرعملى پہلو مثلاًچند حصوں پر مشتمل منظم و غير منظم اشكال الجبرا كى مساواتوں كے متعدد عددى اور ہندسى راہ حل ، p عدد( n ) كے دقيق ميزان تك پہچنا اور متعدد اضلاع پر مشتمل چيزوں كى حدود اور مساحت كى نمائشے كيلئے مختلف روشيں و غيرہ اس مسلمان رياضى دان كے محنتوں كا ثمرہ تھا كر جو مغرب ميں منتقل ہوا(۲)

۴_ اسلامى علم فلكيات كے مغربى تہذيب پر اثرات

اسلامى ماہرين فلكيات كى معلومات و تحقيقات ميں انكى بہت سى اختراعات بھى شامل ہيں مثلا مختلف انداز كى جنتريوں كا بنانا اور ستاروں كے حوالہ سے مختلف معلومات اسى طرح سياروں كى حركت كے بارے ميں جديدنظريات يہ سب اسلامى نجوم كے اہم ثمرات تھے كہ جو سرزمين مغرب ميں منتقل ہوئے_

آج تو مكمل طور پر واضح ہو چكا ہے كہ مغربى ماہرين فلكيات مثلا نيوٹن ، كپلر اور كوپرينك اسلامى علم نجوم سے آشنا تھے اور اسلامى ماہرين فلكيات كى تحقيقات اور ثمرات سے بہت زيادہ بہرہ مند تھے قرون وسطى كے ادوار ميں سب سے پہلے اسلامى ماہر فلكيات كہ جو مغرب ميں بہت زيادہ مشہور ہوے احمد بن كثير فرغانى تھے انكى كتاب '' جوامع علم نجوم'' گوارڈوى كرموناى اور يوھنيس ھسپالنسز كے ذريعے يورپ ميں ترجمہ ہوئي اور يہ

____________________

۱) گوسٹالو بون _ ص ۵۶۷_

۲) سيد حسين نصر، علم و تمدن در اسلام ، ترجمہ احمد آرام ، تہران ۱۳۵۹ ، ج ۲ ص ۱۳۷_۱۳۸_

۱۶۰

كتاب يورپ ميں آٹھ صديوں تك مورد استفادہ رہى ايك اور اسلامى دانشور كہ جنكے نظريات مغرب ميں توجہ كا مركز قرار پائے پانچويں صدى ہجرى كے زرقالى اندلسى ہيں انكى علم نجوم ميں مشہور كتاب'' زيج طليطلي'' لاطينى زبان كے ماھرين فلكيات كى مركز توجہ قرار پائي_

جب مسلمانوں نے اپنى حكومت كے تحت تمام اسلامى ممالك ميں رصد خانے قائم كے اور ستاروں كے حوالے سے ابتدائي معلومات حاصل كيں تو اسلامى ماھيرين فلكيات كا نام پورى دنيا معروف ہوا دور و نزديك سے علم كے تشنہ انكى طرف رجوع كرنے لگے مغرب كے بادشاہ نہ صرف يہ كہ اندلس كے مسلمان علماء كى طرف رجوع كرتے تھے بلكہ اپنى علمى مشكلات كے حل كيلئے اپنے نمايندے مشرق كے اسلامى ممالك ميں بھيجتے تھے تا كہ علم نجوم كے حوالے سے مشكلات حل كرسكيں اور مسلمانوں كے بنائے ہوئے بہت سے نجومى آلات مثلا اصطرلاب ، نجومى كرے (گلوب)اور گھڑياں و غيرہ سرزميں مغرب ميں منتقل ہوئيں _

اسطرح مغرب ميں بھى ستارہ شناسى كا علم ترقى كرنے لگا تقريباًيہ بات يقينى ہے كہ اوقات كے تعين كيلئے پنڈولم كے استعمال كا طريقہ كار مسلمانوں سے اسپين كے راستے مغربى سرزمينوں ميں منتقل ہوا اوريہ مسلم ہے كہ يہى وسيلہ بہت سى ديگر علمى ايجادا ت كى اساس بنا، حقيقت ميں كہا جا سكتا ہے كہ مغرب ميں ستارہ شنا سى كے علم ميں ترقى اسلامى ستارہ شناسى كى بناء پر ہوئي اور يہ اسپين كے اس يہودى كے ذريعے ہو ا كہ جس نے ۱۱۰۶ عيسوى ميں عيسائيت كو قبول كيا اور پڈرو آلفونسو كے نام سے معروف ہوا _ آج اسكى تاليفات ميں سے بہت كم بچا ہے ليكن اس نے اپنے بعد كے ستارہ شناس لوگوں بالخصوص فرانس اورانگلنيڈ كے ماھرين فلكيات كو بہت متاثر كيا_رابرٹ گروسٹسٹ كہ جو ايك مدت تك آكسفورڈ يونيورسٹى كے پرنسپل بھى رہے اور اس مادى جہاں كے بارے ميں رياضياتى نظم كے قائل تھے ان كى علمى ترقى كااصلى سبب اسلامى كى زندہ روايت سے براہ راست تعلق اور عربى سے لاطينى زبان ميں علمى آثار كا ترجمہ تھا_(۱)

____________________

۱) جرجى زيدان ،سابقہ حوالہ ، ص ۲۹۴ _۲۸۸ ، سيد حسين نصر ، سابقہ حوالہ ، ص ۱۶۲_۱۶۱ گوسٹالو لوبون ،سابقہ حوالہ، ص ۵۸۶_

۱۶۱

۵_ اسلامى جغرافيہ كے مغربى تہذيب پر اثرات

مسلمانوں كے مغرب كے جغرافيہ ميں اثرات اور وہاں اس علم كى ترقى ميں انكے كردار پر مطالعہ اور تحقيق كوئي آسان كام نہيں ہے كيونكہ يہ واضح نہيں ہے كہ مسلمانوں كى جغرافيہ كے حوالے سے معلومات كس حد تك مطالعاتى اور كس حد تك تجرباتى مشاہدات اور سير و سفر كى بناء پر تھيں _

اگرچہ تيسرى صدى ہجرى سے چھٹى صدى ہجرى تك اس حوالے سے بہت سى كتابيں عربى زبان ميں لكھى گئيں ليكن ان سب كو درست اوربے عيب نہيں سمجھا سكتا دوسرى طرف تاجروں اور جہاز رانوں كے مختلف سير و سفر كے تجربات اور مشاہدات انتہائي اہميت كے حامل ہيں جغرافيہ كے موضوع پر لكھنے دالے مؤلفين يقينا ايسے لوگوں سے خوب بہرہ مند ہوتے تھے كيونكہ يہى تاجراور دريانورد لوگ ہى تھى كہ جنہوں نے اسلام كے قرون وسطى كے يورپ سے تعلقات قائم كيے اور اسلامى تہذيب كو يور پ ميں منتقل كيا _

جغرافيہ كے حوالے سے مختلف سفرنامے ، جغرافيائي كتابيں اور زمين كے حدود اربعہ كى تشريحات ،مختلف انواع كے جغرافيائي نقشہ جات اورفلكيات كى راہنما كتابيں يہ سب مغربى جہاز رانوں اور جغرافيہ دانوں كے زير استعمال تھيں _

اسلامى ماہرين فلكيات كے جغرافيائي آثار ديگر جغرافيائي كتب سے بڑھ كر قرون وسطى كے يورپ ميں مقبول و معروف تھے اور ان ميں سے بعض يورپى زبانوں ميں ترجمہ بھى ہوئے_ سب سے پہلى جگہ جہاں جغرافيہ كے عيسائي اساتذہ نے اسلامى جغرافيہ كى تعليم لى وہ اسپين كا شہر ٹولڈ تھا اور انہوں سے سب سے پہلى چيز زميں كا گول ہونا سمجھا كيونكہ اس كو سمجھے بغير بر اعظم امريكا كا دريافت ہونا ممكن نہ تھا_

اسلامى ماہرين فلكيات علم جغرافيہ كو زيادہ تر جغرافيائي طول و عرض كے تعين كے ليے مطالعہ ميں لاتے تھے اور بطلميوس كى سات تقسيمات كے مطابق ربع مسكون(۱) كو سامنے لاتے تھے_ اسى قسم كى تقسيمات ۱۵۰۱

____________________

۱)زمين كا وہ چوتھائي سطحى حصہ جو خشك ہے اور انسانوں اور حيوانات سے آباد ہے_

۱۶۲

سے ۱۵۰۴ عيسوى تك پرتگا ليوں كے دريائي نقشوں ميں مرتب و منظم كى گئي تھيں ان ہى تقسيمات كے بعض نقشہ جات كوحتى كہ اٹھارہويں صدى كے اواخر ميں بھى يورپى جغرافيائي نقشہ جات ميں ديكھا جا سكتا ہے_

مسلمان جہاز رانوں كاجغرافيہ ميں اہم ترين اقدامات ميں سے ايك قطب نما كو استعمال ميں لانا تھا _ اگر چہ يہ چينيوں كى ايجاد تھى _ ليكن يہ معلوم نہيں تھا كہ وہ لوگ آيا اسے كشتى رانى ميں استعمال كرتے تھے يا نہ؟ كيونكہ وہ كبھى بھى ساحل سے دور نہيں ہوئے تھے_ ليكن مسلمانوں كى صورت حال مختلف تھى جب يورپى لوگ چين كے وجود سے بے خبر تھے تو اس دور ميں يمسلمانوں كے اس ملك كے ساتھ تجارتى تعلقات تھے لہذا قوى امكان يہى ہے كہ مسلمانوں نے يورپى لوگوں كو اس قطب نماسے آگاہ كيا ہو_ چونكہ يورپى لوگ تيرھويں صدى سے پہلے تك قطب نما استعمال نہيں كرتے تھے جبكہ اسلام كے عظيم مورخ اور جغرافيہ دان ادريسى نے بارھوين صدى كے وسط ميں قطب نما كے بارے ميں گفتگو كى ، مسلمانوں ميں اس كے استعمال كو بيان كيا اور وہ اسكا يورپ ميں منتقل ہونا مسلمانوں كے ذريعے سمجھتے ہيں _

دوسرى طرف سے واسكو ڈے گاما كے دريائي راستوں كے ذريعے مشرقى سرزمينوں تك پہنچے سے كئي صدياں قبل مسلمان ان سرزمينوں سے آگاہ تھے يہ شخص بھى مسلمان ملاح احمد بن ماجد كے ذريعے ( Goodhope" (۲،۱ " كے راس ( Promontry ) سے ايشيا كے ساحل تك پہنچا حقيقى بات يہ ہے كہ ماركوپولو سے پانچ سو سال پہلے ہند اور چين كى طرف ملاح راستہ ايك مسلمان ملاح سليمان سيرافى كے ذريعے معلوم ہو چكا تھا(۳) _

____________________

۱) جنوبى افريقا كا معروف را س جس كے بارے ميں كہا جاتاہے كہ واسكو ڈے گا مانے اسے ۱۴۹۷ ميں دريافت كيا (مصحح)

۲) را س يا Promontry ، خشكى كا وہ تكون اور ابھرا ہوا حصہ جو سمندر ميں دور تك چلا گيا ہو ( مصحح)_

۳)م،م شريف ، منابع فرہنگ اسلامى ، ترجمہ سيد جليل خليليان ، تہران ، ج ۲ ص ۸۴، شہريار رامہرمزى ، عجائب الہند ، ترجمہ محمد ملك زادہ ، تہران، احمد فرامرزى ، تاريخ جغرافى در دورہ اسلامى ، مجلہ تقدم ، ش ۱ ص ۵۳۸_

۱۶۳

۶_ اسلامى ہنر و فن كا يورپ ميں نفوذ

مسلمانوں نے مختلف علوم و دانش ميں علمى ترقى اور اختراعات كے ساتھ ساتھ فنون لطيفہ ميں بھى اپنےخاص ذوق و سليقہ كے ذريعے بھى اپنى دھاك بٹھائي _ اسلامى تعليمات سے الہام ليتے ہوئے ہنر و فن اور صنعت كو وسعت دينے لگے آئي ايچ كرسٹى اس بارے ميں كہتے ہيں كہ '' يورپ والے ايك ہزار سال سے زيادہ مدت تك تعجب كے ساتھ اسلامى دنيا كے ہنر و فن كى زيبائيوں كا مشاہدہ كرتے رہے اور وہ ان چيزوں كو غير معمولى سمجھتے تھے(۱) _

فنون لطيفہ كى يہ نئي اصطلاح ان مصنوعات كيلئے تھيں جو روح انسان كو وسعت بخشتى ہيں _ اسلام سے قبل بھى مہذب اقوام كم و بيش فنون لطيفہ كى حامل تھيں البتہ مسلمانوں كى ان فنون لطيفہ ميں استعداد ديگر اقوام كى نسبت زيادہ تھى _ كچھ مغربى دانشوروں كا خيال ہے كہ فن مصورى ميں اسلام نے بعض موانع كى وجہ سے زيادہ ترقى نہيں كى جبكہ يہ نظريہ تمام مسلمانوں پر صادق نہيں آتا كيونكہ مسلمان بالخصوص ايرانيوں نے اس فن ميں اہم ارتقائي مراحل طے كيے(۲)

مسلمہ بات يہ ہے كہ اسلامى ہنر و فن ان سرزمينوں سے تعلق ركھتا ہے كہ جہاں مذہب اسلام كا نور پھيلا ہوا تھا(۳) اسلام كى ترقى اور مسلمانوں كے ديگر اقوام سے روابط نے بلا وجہ كے مذہبى تعصبات كو ختم كرديا تھامسلمان مختلف فنون مثلا معمارى ، انجينيرنگ، سنگتراشى ، لكڑى پر كندہ كارى اور خطاطى ميں بہت بڑے استاد تھے ليكن اچھے مجسمہ ساز ، اور مصور نہ تھے يا ان فنون ميں ماہرين كم تھے(۴)

____________________

۱) توماس واكر آرنولد والفرد گيوم، اسلام ميراث ، ترجمہ مصطفى علم ، تہران ، انتشارات مہر ۱۳۲۵، ص ۶۸_

۲) جرجى زيدان ، تاريخ تمدن اسلام ، ترجمہ على جواہر كلام ، تہران ، امير كبير ، ۱۳۳۳ ، ج ۳ ص ۹_۲۹۸_

۳) ارنست كونل ، ہنر اسلامى ، ترجمہ ہوشنگ طاہرى ، تہران ، انتشارات توماس ، ۱۲۵۵، ص ۱۲_۱۱_

۴) كريتيس پرايس ، تاريخ ہنر اسلامى ، ترجمہ مسعود ، رجب نيا، تہران ۱۲۴۷بنگاہ ترجمہ و نشر كتاب ، ص ۹_۸_

۱۶۴

فن خطاطى نے مسلمانوں ميں بہت ترقى كى اسى حوالے سے يورپى كاريگر اسلامى عربى خطوط سے آشنا تو ہوئے ليكن انہيں پڑھ نہيں سكتے تھے مگر ان كے مشابہہ لكھتے تھے_ دوسرى طرف سے مقدس مقامات كى زيارت ، يورپى لوگوں كا اسلامى علوم كے حصول ميں دلچسپى اور تجارتى حوالے سے انكا اشتياق و غيرہ انہيں اسلامى سرزمينوں كى طرف كھينچ لا يا لہذا جب وہ واپس پلٹے تو اپنے ساتھ اسلامى علوم و فنون كو بھى يورپى سرزمينوں تك لے گئے(۱)

ايك چيز جسے يہ يورپى طالب علم اسلامى مدارس سے اپنے ساتھ يورپ لے گئے وہ '' اصطرلاب'' تھا كہ آكسفورديونيورسٹى ميں آج بھى ايك قديمى ترين اصطرلاب موجود ہے كہ جسے ۹۸۴ عيسوى ميں اصفہان كے اصطرلاب ساز ابراہيم كے بيٹوں نے بنايا تھا(۲)

اسلام كے ابتدائي دور كى دھاتى مصنوعات ميں سے قرطبہ كے ايك جرونا(۳) نامى كليسا ميں ايك ڈبہ ہے كہ جو لكڑى سے تيار ہو اہے اور اسكے اوپر چاندى كا ورق چڑھا يا گيا ہے كہ جس پر شاخوں اور پتوں كا ڈيزائن ہے يہ ڈبہ اموى حكومت ( ۷۶_۹۶۱ عيسوي) كے دور سے تعلق ركھتا ہے_(۴) اسلام كے ابتدا ئي دور سے سونے اور چاندى كى كوئي چيز باقى نہيں رہى البتہ امراء كے استعمال ميں رہنے والے پيتل ، تابنے اوركانسى سے بنائے گئے ظروف كے بارے ميں تحقيق كى جا سكتى ہے(۵)

اسلامى كاريگروں نے برتنوں كے جديد اور خوبصورت ڈايزائنز كے علاوہ ان كى خوبصورتى كے ليے ان پر طلائي نقش و نگارى ميں بہت كام كيا ، بارھويں صدى كے وسط ميں دھاتى چيزوں پر سونے كا كام عروج پر

____________________

۱)توماس واكر آرنولد و آلفرد گيوم ، سابقہ حوالہ، ص ۳۵_

۲) سابقہ حوالہ ص ۷_۳۶_

۳) gerona _

۴)سابقہ حوالہ ص ۳۸_

۵)سابقہ حوالہ، ارنست كوتل ، سابقہ حوالہ ، ص ۷۰_۶۸_

۱۶۵

پہنچا(۱) منگولوں كے عراق كے شہروں پر حملے نے اس علاقہ سے كاريگروں كو نكلنے پر مجبور كرديا اور يہ صنعت مصر ميں قدم جمانے لگي_(۲)

دوسرى چيزوں ميں سے مٹى كے كوزے اور طشت ملتے ہيں جو تيرھويں اور چودہويں صدى عيسوى كے دور سے متعلق ہيں كہ ان ميں سے بعض نمونے ويكٹوريا اورالبرٹ كے ميوزيم ميں موجود ہيں كہ ان نمونوں ميں سے تو بعض اسقدر اعلى اور خوبصورتى سے تيار ہوئے ہيں كہ دنيا ميں كسى جگہ بھى انكى مثال موجود نہيں ہے_ ليكن چودھويں صدى عيسوى كے آخر ميں دھاتى چيزوں پر طلا كارى كى صنعت زوال كا شكار ہوگئي _(۳)

پندرھويں صدى عيسوى ميں اٹلى كے لوگوں نے مشرق سے تجارتى روابط كى بناء پر اپنے شہروں وينس اور وروناميں ان صنعتوں كى تقليد كرنا شروع كى _ اسى طرح شہر ونيس ميں رہائشے پذيرايك ايرانى كاريگر گروہ نے خوبصورت دھاتى اشياء تيار كرنا شروع كيں _

قرون وسطى ميں اسلامى كاريگروں كے ہاتھوں دھاتى ظروف پر سونے چاندى كا كام يورپى لوگوں كى مينا كارى كى مانند تھا بس فرق يہ تھا كہ يورپى لوگ سونے چاندى سے تزيين كرنے كى بجائے مختلف رنگوں كے شيشوں سے نقوش تيار كرتے تھے_(۴) اگر چہ مسلمانوں نے ان ظريف صنعتوں كے بعض ڈيزائنوں كو دوسرى جگہوں سے ليا ليكن اپنے ذوق اور سليقہ كى بناء پر ان ميں تبديلى كرتے ہوئے انكو جديد ڈايزائنوں ميں پيش كيا _

____________________

۱) توماس واكر آرنولڈ و آلفرڈ گيوم ، سابقہ حوالہ ، ص ۳۸ ، گوسٹاولولوں ، تاريخ تمدن اسلام و عرب ، ترجمہ سيد ہاشم حسين ، تہران ، انتشارات كتابفروشى اسلاميہ ، ۱۳۴۷ شمسى ص ۱_۶۴۰_

۲) درشت كونل ،سابقہ حوالہ ، ص ۵_۹۴_

۳) گوسٹاولوبوں ، سابقہ حوالہ ، ص ۴۱_ ۶۳۹ ، ٹوماس واكر آرنولڈ وآلفرد گيوم ،سابقہ حوالہ ص ۴۲_

۴) سابقہ حوالہ ص ۳_۴۲ ، ارنست كوئل ،سابقہ حوالہ ، ص ۹_۶۸

۱۶۶

مسلمان چمكدار اور مينا كارى شدہ كوزے بنانے ميں بہت مہارت ركھتے تھے _ چوتھى صدى كے دور سے متعلق كچھ كوزے مشرق قريب ، شمالى افريقا اور اسپين ميں دريافت ہوئے جس سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ صنعت كس حد تك پھيلى ہوئي تھي_ شہر'' رے'' اسى صنعت كے بڑے مراكز ميں سے شمار ہوتا تھا اس خوبصورت ہنر كے بہت سے نمونہ جات وہاں سے دريافت ہوئے ہيں جو پيرس كے ليور عجائب گھر ميں ركھے ہوئے ہيں(۱)

يورپى كاريگروں نے پھولوں كى تصوير كشى جو اس دور ميں مغرب ميں موجود نہيں تھى ميں ايرانيوں كى تقليد كي_ شامات اور مملكت عثمانيہ سے جو ظروف ان تك پہنچے انہوں نے انہيں اپنے كام كيلئے نمونہ قرار ديا(۲) شيشہ سازى كى صنعت اور اس پر آرائشے اور مينا كارى كا كام يہ سب مسلمانوں كے ذريعے يورپ ميں منتقل ہوا(۳)

ايران ، سوريہ اور مصر پر عربوں كے حملہ سے پہلے ان علاقوں ميں كپڑا بننے كى صنعت كا دور دورا تھا اور مشرقى روم كے ہمسايہ ميں ايسے مراكز تھے كہ جہاں مختلف نقش و نگار اور تصاوير والا ريشمى كپڑا تيار ہوتا تھا پھر اس صنعت كے بڑے بڑے مراكز ظہور پذير ہوئے اور اس صنعت سے متعلق اصطلاحات اور مخصوص الفاظ يورپى زبانوں ميں منتقل ہوئے_

مصر ميں مسلمانوں كے سب سے پہلے دار الحكومت فسطاط كا تيار شدہ كپڑا كہ جو انگلستان ميں ليجايا جاتا تھا اسے فاستونى كہا جا تا تھا_ اسى طرح وہ كپڑا كہ جسے آج دمسك (دمسہ) يا دمياطى كا نام ديا جاتا ہے كہ اس زمانہ كے سب سے بڑے تجارتى مركز دمشق سے درآمد كيا جاتا تھا مسلمانوں كے ہاں تيارہ شدہ كپڑے كو اٹلى كے تاجر دمشق سے خريدتے تھے _ غرناطہ كے كپڑے يورپ ميں گرناڈين كے نام سے مشہور تھے، ہاتھ

____________________

۱)سابقہ حوالہ ص ۴۷، كريشين ارايس ، سابقہ حوالہ، ص ۳_۴۲_

۲) شامات سوريا، اردن، فلسطين اور مصر كے مناطق كو اس زمانے ميں شامات كہا جاتا تھا(مصحح)_

۳) ارنست كوئل ، سابقہ حوالہ، ص ۷_۲۶ توماس واكر آرنولڈ وآلفرد گيوم ، سابقہ حوالہ، ص ۵۱_۵۰_

۴) سابقہ حوالہ ص ۵۲_

۱۶۷

سے بناہوا ايرانى ريشمى كپڑا بھى يورپ ميں بہت مقبول تھا(۱) _

يورپ كے درباروں كى بڑى تقريبات ميں خواتين ايران كے بنے ہوئے ابريشمى كپڑے زيب تن كيے شركت كيا كرتى تھيں بغداد اور ايران سے بننے ہوئے ريشمى كپڑوں كے ٹكڑے آج بھى برلن ،ليوور اور ليون كے ميوزيمز ميں موجود ہيں كہ جو دسويں صدى عيسوى كے آخر ميں بُنے گئے تھے مشرق سے تيارہ شدہ كپڑوں كى ہر روز مغرب ميں مانگ بڑھ رہى تھى جزيرہ سسلى ميں قصر پالرمو ميں مسلمانوں نے ريشمى كپڑے تيار كرنے كا كارخانہ لگايا جہاں سے مدتوں تك نفيس كپڑے يورپ كے ديگر مناطق ميں برآمد ہوتے رہے(۲)

اسى دوران مغربى اور مشرقى ايشياء كے فنون كا تبادلہ ہوتا رہا ،چين ميں مسلمانوں كا ايسا گروہ سامنے آيا كہ جو عربى زبان ميں گفتگو كرتے تھے انكے فنون پورى اسلامى دنيا ميں مشہور تھے مشرقى اور اسلامى فنون كا يورپ پر اس قدر غلبہ تھا كہ ماہرين فن بھى مشرق اور مغربى فن پاروں كى تشخيص اور فرق كرنے ميں لاچار تھے_(۳)

اسلامى فنون كے شاھكاروں ميں سے ايك قالين تھا كہ جو زندگى كے لوازمات ميں شمار ہوتاتھا_ سولھويں صدى عيسوى ميں ايرانى قالين باف افراد كى مہارت اتنے عروج كو پہنچ چكى تھى _ كہ ان سے پہلے اور ان كے بعد آج بھى اُس دور كے قالينوں كى نظير نہيں ملتى اُس زمانہ كے شاہكار قالينوں ميں سے ايك ويكٹوريا اورالبرٹ ميوزيم ميں موجودہے جوشہر اردبيل ميں شيخ صفى الدين اردبيلى كے مقبرہ سے ليا گيا تھا(۴)

مسلمانوں كے ديگر فنون لطيفہ ميں سے ہاتھى دانت كى خوبصورت چيزوں كے بعض نمونے(۵)

____________________

۱) گوستاوبولوں ، گذشتہ مدرك ، ص ۶۳۸ ، ارنست كوتل ، سابقہ حوالہ، ص ۹۱_۱۹۰_

۲) سابقہ حوالہ، ٹوماس واكر آرنولڈ و آلفرڈ گيوم ، سابقہ حوالہ، ص ۵۵۶_

۳) سابقہ حوالہ ص ۸_۵۷ ، كريستين پرايس ،سابقہ حوالہ، ص ۶_۱۵۸_

۴) ارنست كونل ،سابقہ حوالہ ص ۱۹۲، ۲۰۹،۲۷۸، ۸_۲۸۴ ، ٹوماس واكر آرنولڈ و آلفرد گيوم ، سابقہ حوالہ ،ص ۶۰_

۵) محمد مددپور ، تجليات حكمت معنوى در ہنر اسلامى ،تہران ، اميركبير ، ۱۳۷۴، ص ۲۴۰_

۱۶۸

لندن ، پيرس اور ديگر جگہوں پر موجود ہيں اگر چہ ان چيزوں كى ظاہرى شكل و صورت مشابہہ ہے ليكن ان پر بنے ابھرے ہوئے زيادہ تر نقوش مختلف ہيں _(۱)

مٹى اورپتھر كے برتنوں پر نقش و نگار ايك بہترين اسلامى ہنر تھا كہ پہاڑى دُركا بنا ہوا ايك ظرف آج بھى سينٹ مارك وينس ميوزيم وينس ميں موجود ہے اور اسكى تاريخى اہميت كى وجہ يہ ہے كہ اس پر دوسرے فاطمى خليفہ كا نام '' عزيز'' لكھا ہوا ہے(۲) فنون ميں سے مسلمانوں كا ايك اور فن جو مغرب ميں منتقل ہوا اورجس نے يورپى لوگوں كو مسحور كيا وہ قيمتى دھاتوں اور پتھروں كى تراش كارى كا فن تھا_(۳)

يہ تسليم شدہ بات ہے كہ كتابوں كو چھاپنے اور جلدى بندى كرنے كى بنياد ڈالنے والے قرون وسطى كے مسلمان تھے_ اگر چہ چھاپنے كى صنعت پندرھويں صدى ميں يورپيوں كے ذريعے مكمل ہوئي ليكن زمانہ قديم ميں سنگى چاپ بہت مقبول تھى _ يورپ ميں كاغذ سازى كا سب سے پہلا كارخانہ مسلمانوں كے ذريعے سسلى اور اسپين ميں لگايا گيا پھر اٹلى ميں يہ كام آگے بڑھا _

پندرھويں صدى ميں جب كتاب چھاپنے كا كام وسيع ہوا تو اس كام ميں كاغذ كو بنيادى حيثيت حاصل ہوگئي تھى _(۴) سولھويں صدى كے آغاز ميں يورپى ماہرين فنون نے مسلمانوں كے فنون لطيفہ سے نئے ڈيزائن تخليق كيے ان ڈيزائنز سے سے معلوم ہوتا ہے كہ انہوں كسقدر زيادہ اسلامى فن پاروں كى تقليد كى(۵) يورپى لوگوں نے آغاز اسلام كے دور سے ہى اسلامى ہنر كى خاص خصوصيات كا مشاہدہ كيا اور اس خاص ذوق و سليقہ كو سمجھنے كے ليے رغبت و اشتياق كا اظہار كيا_

سترويں صدى ميں يورپ ميں جلد كے كاغذ ، حاشيہ اور كتاب كى جلد كے كونوں كا صيقل ( چمكدار پن)

____________________

۱) ٹوماس واكر آرنولد و آلفرد گيوم، سابقہ حوالہ، ص ۴_۶۳_

۲) سابقہ حوالہ ص ۶۴_

۳) گوستاولوبوں ، سابقہ حوالہ ، ص ۳۸۵، ۱۵_۴۳، ۶۳۹_

۴) ٹوماس واكر آرنولڈو آلفرڈ گيوم ، سابقہ حوالہ ص ۶۵_

۵) سابقہ حوالہ ص ۷۰_۶۸_

۱۶۹

ہونا اور اسكى رنگوں سے بھر پورڈيزائن معروف ہوئے تھے وہ براہ راست اسلامى اور مشرقى فن پاروں سے ليے گئے تھے_

اقوام اسلامى كے فن مصور ى كے مغربى فن مصور ى پر اثرات

بعض اقوال كى بناء پر مسلمانوں كے نزديك انسان اور زندہ موجودات كى تصوير بنانا مكروہ شمار ہوتى ہے _ ليكن اسلامى تہذيب كے باقى ماندہ آثار سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ مسئلہ وقت گزرنے كے ساتھ اپنى اہميت كھوبيٹھا_ آرنلڈ كے نظريہ كے مطابق اسلام كے ابتدائي دور ميں مشرقى مصورى نے مغربى فن مصورى ميں زيادہ اثرات نہيں ڈالے بلكہ يہ اثرات اس وقت نماياں ہوئے جب مسلمانوں كا بحيرہ روم كے خطہ پر قبضہ ہواتھا(۱)

صليبى جنگوں كے زمانہ ميں كہ مسلمانوں اور عيسائيوں ميں جنگى تعلق قائم ہوجانے كے باعث بہت سى خوبصورت اشيا، مصنوعات اور فن پارے جو مسلمانوں كے ذوق اور سليقہ كى عكاسى كرتے تھے يورپ ميں منتقل ہوئے يورپ كے شہروينس ، جينوا ، اور پيزا اس قسم كى اشياء كے سب سے بڑے تجارتى مراكز تھے بلا شبہہ يہ خوبصورت چيزيں اپنے جاذب نقش و نگار كے بدولت سرزمين مغرب كى فن مصور ى كو متاثر كرتى تھيں _

وہ چيزيں كہ جنكى مغرب كے مصوربہت تعريف اور تقليد كيا كرتے تھے قالينوں اور كپڑوں پر گوناگوں تصاوير تھيں جنكا اس زمانہ ميں رواج تھا(۲)

ايك مشہور ترين اسلامى جام كہ جس پر انسانى صورت بنائي گئي ہے ليور كے ميوزيم ميں موجود ہے اس

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۲_۷۱_

۲ ) گوستاو لوبوں ، سابقہ حوالہ، ص ۷_۶۳۴_

۱۷۰

جام كا نام '' جام سن لوئي'' معروف ہے جس سے ايك طويل مدت تك فرانس ميں بچوں كو غسل تعميد ديا جا تا رہا تھا(۱)

بارہويں صدى عيسوى كے بعد ڈيو سكوريڈس اور جالينوس كى تاليفات كے ساتھ ساتھ كتاب كليلہ و دمنہ اور مقامات حريرى ميں افسانوى حيوانات كى تصويريں اس انداز ميں بنائي گئي ہيں كہ ان كى رنگ آميزى مغربى مصورى كہ ہم پلہ نظر آتى ہے بلكہ بعض اوقات تو اس سے بھى بڑھ گئيں تھيں يہ نسخہ جات اور افسانوى تصاوير قرون وسطى كى اسلامى تہذيب كى تاريخ كے حوالے سے بے حداہميت كى حامل ہيں(۲)

اسلامى موسيقى كے مغربى موسيقى ميں اثرات

دسويں صدى عيسوى كے ختم ہونے سے پہلے تك اسلامى اور مغربى موسيقى ميں كوئي زيادہ فرق نہ تھا جس دور ميں مشرقى اور يورپى موسيقى ميں اختلاف بہت كم تھا دونوں مكتب فيثاغورس كے مقياس پر چلتے تھے اور يونانى اور شام كے اسلوب كو استعمال كرتے تھے_

مسلمہ امر يہ ہے كہ ظہور اسلام سے قبل عربوں كى موسيقى ايران اور مشرقى روم كى موسيقى كے زير اثر تھى اور دونوں فيثاغورس كے مقياس كو استعمال ميں لاتے تھے بعد ميں موسيقى كے اوزان ميں تبديلى پيدا ہوگئي ليكن اسحاق موصلى نے فيثاغورس كے طريقہ كا ر كو دوبارہ رائج كرديا _(۳)

مسلمان موسيقى دانوں نے موسيقى كے جديد آلات ايجاد كرنے اور جديد راگ تيار كرنے كے ساتھ ساتھ علم موسيقى ميں بہت سى كتابيں بھى تاليف كيں _(۴)

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۷_۶۳۶_

۲) ارنست كونل ،سابقہ حوالہ ص ۸_۸۷_

۳) ج ، فارس، موسيقى ، ترجمہ مصطفى علم ،تہران ، انتشارات مہر ۱۳۲۵، ص ۶_۱۳۵_

۴) جرجى زيدان ،سابقہ حوالہ ، ج ۳، ص ۳۰۱ _ ۲۹۹_

۱۷۱

اس دور ميں مندرجہ ذيل موسيقى كے اہم آلات رائج تھے: عود ، رباب ، قانون ، بانسرى ، دف اور طبل يہ آلات چھوٹى تقريبات ميں استعمال ہوتے تھے ليكن فوجى بينڈ يا بڑے پروگراموں ميں شہنائي ، باجا ، جھانجھ اور ڈھول و غيرہ استعمال ہوتے تھے كہا جاتا ہے كہ اسلامى اقوام كا يہ نظريہ تھا كہ بيماريوں كے علاج ميں بھى موسيقى اثر ركھتى ہے حتى كہ بعض حيوانات بھى موسيقى كے راگوں سے متاثر ہوتے ہيں جبكہ عرفا كا عقيدہ تھا كہ روح پر سے موسيقى كى روحانى تاثير ايك ازلى(۱) امر ہے اور موسيقى كو سننے كے دوران دوبارہ كلام حق سنتے ہيں _(۲)

ايرانى اور عرب لوگ موسيقى كے آلات كو ايجاد كرنے اور انہيں پا يہ تكميل تك پہنچانے والے لوگ ہيں جسطرح كہ فارابى علم موسيقى كے ايك مولف اور رباب اور قانون كو ايجادكرنے والے تھے_ تيسرى صدى ہجرى كے آغاز ميں مسلمانوں نے بانسرى كو ايجادكيا _ البياض اور ابو المجدنے پانچويں صدى ہجرى ميں ارغنون(ايك قسم كا باجا) بنايا صفى الدين عبد الموسى ارموى نے چار كونوں والا سنتور اختراع كيا محمد بن احمد خوارزمى نے بھى اسى دور ميں '' مفاتيح العلوم' ' نامى ايك كتاب تاليف كى جس ميں موسيقى كے بعض مسائل كو حل كيا _ فارابى كے بعد ابن سينا اور حسن بن ھيثم موسيقى ميں معروف شخصيات تھيں ، ان نكات كو ديكھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے كہ چھٹى صدى ہجرى علم موسيقى كے بہت سے مؤلفين كا دور شمار ہوتى ہے _(۳)

جو كچھ مسلمانوں نے موسيقى كى دنيا كو ديا انتہائي اہم اور گرانقدر ہے اسلامى موسيقى ايشيا ميں ہندوستان تك پھيل گئي ليكن ہندوستان كى نسبت اسكے يورپ ميں اثرات زيادہ ہےں قرون وسطى ميں مسلمانوں كے قلم سے موسيقى ميں بہت سے كتابيں تاليف ہوئيں اور ان ميں سے بعض لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئيں _ ليكن اب ہمارے پاس اس حوالے سے اہم مصادر موجود نہيں ہيں _ اب صرف فارابى كى كتابوں كا لاطينى ترجمہ كہ جو يوھانس ھيسپالنسز كے ذريعے ترجمہ ہوئيں اور ابن رشد كى كتاب كا لاطينى ترجمہ كر جومائيكل اسكاٹ كے

____________________

۱) ازلى امر سے مراد يہ ہے كہ ارواح اس دنيا ميں آنے سے پہلے مذكورہ امر كا تجربہ كرچكى ہيں (مصحح)

۲) محد مدد پور ، سابقہ حوالہ، ص ۱۶۲_

۳) سابقہ حوالہ ، ص ۶۲ _ ۱۵۹ ، توماس واكر آرنولڈ وآلفرڈ گيوم ، سابقہ حوالہ ص ۴۲ _۱۳۹_جرجى زيدان، سابقہ حوالہ ص ۳۰۱_

۱۷۲

ذريعے انجام پايا موجود ہيں _

راجر بيكن نے موسيقى كے حوالے سے اپنى كتاب ميں بعض مقامات پر بطلميوس اور اقليدس كے ساتھ فارابى كا نام ذكر كيا ہے اور ابن سينا كا بھى نام ليا ہے _ گروم مراوى نے اپنى كتاب ''ميوزيكا'' كى ايك فصل فارابى پر لكھي_ موسيقى كى دنيا ميں مسلمانوں كى سب سے بڑى پيش كش موسيقى ''موزون'' تھى جسكى ابتدا ميں كندى نے كچھ توصيف كى پھر فرانكو اور اسكے شاگردوں نے اسلامى موسيقى كے اوزان اور طريقہ كار كو استعمال كيا _ اسپين والے تيسرى صدى ہجرى مں اسلامى موسيقى كے اوزان اور راگوں كو استعمال كيا كرتے تھے_ مسلمانوں نے موسيقى كے سب سے زيادہ آلات اور وسائل يورپ ميں منتقل كيے_(۱)

اسلامى معمارى كے يورپى معمارى پر اثرات اور نقوش

بلا شبہ مسلمانوں نے يورپ كے مختلف فنوں بالخصوص فن معمارى كو متاثر كيا _ اگر چہ بہت سے مولفين يورپ ميں محرابى كمروں كو مسلمان كى تقليد سمجھتے ہيں اور انكے نظريہ كے مطابق دسويں صدى ہجرى ميں مصر ، سسلى اور اٹلى ميں اس قسم كے كمرے بنائے گئے ليكن يہ بات اتنى بھى درست نہيں ہے كہ ہم محرابى شكل كى معمارى كو مكمل طور پر مسلمانوں كا مرہون منت سمجھ ليں _(۲)

كچھ لوگوں كا خيال ہے كہ اسلامى معمارى كے اصول غير مسلم اقوام سے لئے گئے ہيں بعض ديگر كے مطابق مغربى معمارى رومى معمارى كى جديد صورت ہے جبكہ بعض تمام چيزوں كو ايران اور آرمينياكى طرف نسبت ديتے ہيں كہ اس نظريہ پر بحث قابل توجہ ہے كيونكہ ارمنستان ، ايران ، عراق اور ماوراء النہر ميں معمارى كے حوالے سے جو كام ہوا ہے اس نے مغربى معمارى كے رومى معمارى سے تعلق كو مشكوك بنا ديا ہے_(۳)

____________________

۱) توماس واكر آرنولڈ و آلفرڈ گيوم ، سابقہ حوالہ، ص ۷_۱۴۳_

۲) گوستاو لوبوں ،سابقہ حوالہ ، ص ۱۲_۷۱۰ ، ارنست كوئل ، سابقہ حوالہ، ص ۱۶ ، ۹۶_

۳) مارتين س ، بريگز ، معمارى اور ساختمان ، در ميراث اسلام ، ص ۸_۲۰۷_

۱۷۳

مسلم بات يہ ہے كہ سوريہ كے علاقے، آرمينياكا كچھ حصہ ، شمالى افريقا كا آباد علاقہ اور مصر ان سرزمينوں كا حصہ تھے كہ جنہيں مسلمانوں نے رومى بادشاہت سے جدا كيا تھا اسكے علاوہ اسپين جو كہ ويزگوٹز كے ہاتھوں ميں تھا مسلمانوں كے قبضہ ميں آگيا_(۱) مسلمانوں كو ان سررمينوں كى فتح كے دوران بہت زيادہ عمارتوں اور زبردست انجينيرزاور معماروں كا سامنا كرناپڑا كر جنكى معمارى كا طريقہ رومى معمارى سے مختلف تھا_ بعض محققين كے مطابق ان انجنيئروں اور معماروں نے بہت سے فنون بيزانسى معماروں كو سكھائے_

بعض محققين كے فتوحات كے آغاز ميں عربوں كى معمارى سے آشنائي نہ ہونے كے نظريہ كے باوجود قابل اہميت نكتہ يہ ہے كہ اسلامى معمارى ان تمام صديوں ميں اگر چہ ديگر مختلف اقوام كے فن معمارى سے مستفيد ہوتى رہى ليكن ايسى خصوصيات كى حامل ہے كہ جس كى بناء پريہ دنيا كے تمام ديگر معمارى كے اساليب اور فنون سے ممتاز ہے_

مسلمانوں نے شروع ميں مساجد اور محلات بنائے_ مدينہ كى سب سے قديمى مسجد كہ جو رسول اكرم(ص) كے زمانہ يعنى ۶۲۲ عيسوى ميں بنائي گئي ، مسجد كوفہ ۶۲۹ عيسوى ميں بنائي گئي اور ۸۴۲ عيسوى ميں فسطاط (قاہرہ) ميں مسجد بنائي گئي يہ سب مسلمانوں كے ہاتھوں بنى ہوئے مساجد كے چند نمونے ہيں _(۲)

ساتويں صدى كے آخرى سالوں ميں ۶۳۹عيسوى ميں مسلمانوں كے ہاتھوں بيت المقدس كى فتح كے بعد مسجد حضرت عمر كے نزديك قبة الصخرة كے نام سے ايك عظيم الشا ن عمارت بنائي گى قبة الصخرہ كے بعد مسلمانوں كى اہم تعميرات ميں سے دمشق كى سب سے بڑى مسجد ہے جو آٹھويں صدى كے ابتدائي سالوں ميں بنائي گئي البتہ يہاں امكان ہے كہ اس مسجد كى عمارت شام ميں عيسائيوں كے كليساؤں سے كچھ مشابہت

____________________

۱) ويزگوٹ ان مغربى گوٹوں (جرمنى كى ايك قوم)ميں سے تھے كہ جو ۴۱۰ عيسوى ميں اٹلى كے بادشاہ آلاديك كے زمانہ ميں وہاں سے پھولوں كى سرزمين(فرانس) چلے گئے اور پيرنہ پہاڑيوں كے دونوں طرف يعنى فرانس اور اسپين ميں آباد ہوگئے_

۲) محمد مددپور ،سابقہ حوالہ ، ص ۲۵۰_۲۴۹

۱۷۴

ركھتى ہو اس مسجددمشق كے مينار سب سے پہلے مينار ہيں جنكے ذريعے لوگوں كو نماز كى طرف دعوت دى جاتى تھي_(۱)

اسپين ميں قرطبہ كى مسجد اسلام كى سب سے بڑى مسجد ہے جسكى بنياديں ۷۸۶ عيسوى ميں ركھيں گئيں اس مسجد كے بارہ حصے ہيں اور ہر حصہ ميں رومى ڈيزائن كے بيس ستون ہيں(۲) سامرا كى مسجد بھى اسلام كے تاريخى آثار ميں سے ہے كہ جسكے صحن ميں گہرائي تك ايك محراب ہے اور اسكے گرد چند ايوان ہيں _(۳) قاہرہ ميں مسجد ابن طولون بھى ان مساجد ميں سے ہے كہ جن ميں بين النہرين كى قديمى مساجد جيسى خصوصيات ہيں _(۴)

نويں سے بارھويں صدى عيسوى كے دوران مسلمانوں كے ہاتھوں بہت سى مساجد اور فوجى قلعے تيار ہوئے جنكے ڈيزائن صليبى جنگوں ميں عيسائيوں نے مسلمانوں سے سيكھے اسى طرح يورپ والوں نے ''ميچيكوليشن''(۵) نامى كنگرے بنانے كا طريقہ بھى مسلمانوں سے سيكھا چودھويں صدى عيسوى ميں فرانس اورانگلستان ميں محلات اور قلعے بنانے كے دوران اس قسم كے كنگروں نے دوسرى صورت اختيار كر لى _

اسپين ميں تيرھويں صدى عيسوى كے بعد اسلامى معمارى كا شاہكار قصر الحمرائ''الكازار''(القصر) ہے اشبيليہ ميں المرابطين نامى محل كے كھنڈرات اور طليطلہ ميں عيسائيوں اور يہوديوں كے قديمى معابد كو ديكھ معلوم ہوتا ہے كہ كسطرح مراكش كى طرف سے مغربى معمارى كا طرز تعميراسپين ميں پھيلا_(۶)

____________________

۱) ارنست كونل ، سابقہ حوالہ ،ص ۱۷_۱۱۴ ، محمد مددپور ، سابقہ حوالہ، ص ۷_۲۵۶_

۲) سابقہ حوالہ ص ۴_۳۶۳_

۳) ٹوماس داكر آرنولڈ و آلفرڈ گيوم ، سابقہ حوالہ، ص ۲۱۷_

۴) محمد مدد پور ،سابقہ حوالہ، ص ۶_۲۶۵_

۵) Machicolation ، ديوار پر كنگرے كا نام ہے جسميں مختلف سوراخ ركھے جاتے تھے كہ جن سے مختلف وسايل كے ساتھ دشمنوں سے جنگ كى جائي تھي_

۶) سابقہ حوالہ ص ۲۲۱ _ ۲۲۰ ، ارنسٹ كوئل ، سابقہ حوالہ، ص ۶۷ و ۷۴_۱۶۵_

۱۷۵

قرون وسطى ميں مساجد كى عمارتوں كے ڈيزائن اور اسلوب معمارى نے واضح ترقى كى اور مختلف صورتوں ميں سامنے آيا سارا سن طرز كے اسلامى ، گنبدوں نے يورپ كے نشا ة ثانيہ كے دور كے گنبدوں كو متاثر نہيں كيا ليكن مسلمانوں كے ميناروں كى روش معمارى اٹلى ميں چودھويں اور پندرھويں صدى عيسوى ميں رائج تھي_

جسطرح اسلامى معمارى نے ترقى كى اسى طرح گول ، نوك دار ، آدھى دائرہ كے اور دو مركز ركھنے والے ہلال اورايك اور ہلال جسے ''ايرانى ''كہتے تھے بھى رائج ہوئے اسى طرح ايسى كھڑ كيوں كا رواج ہوا جو مختلف رنگوں كے شيشوں سے مزين تھيں حالانكہ اس زمانہ ميں يورپ ميں رنگوں والے شيشوں كا رواج نہ تھا اسلام سے قبل آرمينيااور سوريہ كى پتھروں سے بنى ہوئي عمارتوں اور ايرانى اينٹوں والى معمارى كے قرون وسطى كے يورپ ميں اثرات سے ہٹ كر نوك دار ہلال بنانا مسلمانوں كى ہى ايجاد تھى _

بلا شبہ ايك تو مسلمانوں كے صليبى جنگوں ميں تعلقات اور دوسراقرون وسطى كے دوستانہ روابط اسلامى معمارى كو سرزمين مغرب ميں پھيلانے كے باعث بنے _(۱) ڈالور كى كتاب ''پيرس كى تاريخ '' ميں ملتا ہے كہ '' پيرس كے نٹرڈام كليسا كو بنانے كيلئے اسلامى معماروں كے ايك گروہ كى خدمات لى گئي_(۲) اسپين ميں اسلامى حكومت كے دوران اكثر عمارتوں ميں اسلامى فنون كو عيسائي فنون پر برترى حاصل تھى مثلا مشہور محل سقوبيہ جو گيارھويں صدى عيسوى ميں الفانس ششم كے حكم سے بنايا گيا تھا_(۳)

موسيولونر ميں لكھتا ہے كہ '' فرانس كے بہت سے كليساؤں ميں مسلمانوں كى معمارى كے اثرات واضح محسوس ہوتے ہيں ''(۴) اسى طرح اسلامى فن معمارى كے ايك ماہر موسيو پريس كا يہ نظريہ ہے كہ '' يورپ ميں سولھويں صدى كے آخر تك خوبصورت ميناروں كا جو رواج تھا ان كے ڈيزائن مسلمانوں سے ليے گئے تھے''_(۵)

____________________

۱) سابقہ حوالہ، ص ۸_۴۷ ، ٹوماس واكر آرنولڈ و آلفرد گيوم ،سابقہ حوالہ، ص ۳_۲۲۲_

۲) سابقہ حوالہ ص ۵_۲۲۴ ، ارنست كونل ، سابقہ حوالہ ، ص ۴۷، ۶۵_

۳) گوسٹاو لوپوں ، سابقہ حوالہ، ص ۷۱۴_

۴) كريستين پرايس ، سابقہ حوالہ، ص ۱۱۷_

۵) گوسٹاؤ لولون ، سابقہ حوالہ ، ص ۷۱۴_

۱۷۶

ساتواں باب:

اسلامى تہذيب كے جمود كے اندرونى اور بيرونى اسباب

۱۷۷

الف : بيرونى اسباب

۱_ صليبى جنگيں

بلا شبہ صليبى جنگوں كے برپاہونے كا ايك مضبوط ترين سبب دينى اور مذہبى انگيزہ تھا اور اس بات كو مسلمان اورعيسائي لوگ دونوں قبول كرتے ہيں البتہ ان جنگوں كے بر پا ہونے كے ديگر اسباب بھى بيان ہوئے مثلا عيسائي معاشروں ميں پادريوں كے اثر و رسوخ كا بڑھنا، ايشيا ء صغير ميں سلجوقى تركوں كو پيش قدمى سے روكنا ، قسطنطنيہ كا مسلمانوں كے ہاتھوں سے نكل جانا ، عيسائيوں كا بالكان كے علاقہ ميں داخل ہونا ، عيسائيوں ميں شواليہ(۱) سپاہيوں ميں اپنى شجاعت دكھانے اور يروشلم كى بادشاہت پر قبضہ كرنے كيلئے جوش و خروش پيدا ہونا اور ان سب سے اہم يورپى ممالك كى معاشرتى اور سياسى صورت حال(۲) _

يورپ كى معاشرتى اور سياسى صورت حال كا تجزيہ كريں تو معلوم ہوگا كہ دنيا كے اس حصہ ميں بادشاہتوں كا ايك درخشان تريں دور فرانس كے بادشاہ چارلمين كا زمانہ (۸۰۰ عيسوي) تھا ٹھيك اسى كے زمانہ ميں مسلمانوں كى پيش قدمى اپنے عروج كو پہنچ چكى تھى اور وہ عيسائيوں كيلئے بہت بڑا رقيب شمار ہوتے تھے_ كچھ عرصہ گزرنے كے بعد چارل مين كے جانشين بادشاہوں كى نالائقى ، برے اقتصادى حالات ، تہذيب كا فقدان اور انسانى آبادى ميں كمى كے باعث يہ بادشاہت علاقے كے جاگير داروں ميں تقسيم ہوگئي ، ہر كوئي

____________________

۱) شواليہ: قرون وسطى كے عيسائي گھڑ سوار سپاہى (مصحح)_

۲) رنہ گروسہ ، تاريخ جنگہاى صليب ، ترجہ ولى اختر شادان ، تہران ص ۹،۱_

۱۷۸

اپنے اپنے علاقہ ميں تمام تر اختيارات كے ساتھ حكمرانى كرتا تھا اگر چہ نئے بادشاہ سے وفادارى كا حلف اسكى تاجيوشى كى تقريب ميں اٹھاياجاتا تھا ليكن يہ سب كچھ فقط برائے نام تھا فوج بھى ان گھڑ سواروں پر مشتمل ہوتى تھى جن كى باگ ڈور بادشاہ اور ان جاگير داروں كے ہاتھ ميں تھي_

دسويں صدى عيسوى سے مغربى يورپ بالخصوص فرانس ميں اقتصادى اور صنعتى ترقى كے ساتھ ساتھ آبادى ميں بھى اضافہ ہونے لگا انہى حالات كے ساتھ ساتھ مصر بھى ہندوستان اور يورپ كے مابين پُل كى حيثيت اختيار كر گيا_ مصرى ملاح ''وينس'' اور ''رن'' اور كسى حد تك مارسى جہازرانوں كے توسط سے ہندوستان سے مصالحہ جات اور ديگر اشياء لاتے تھے اور يہ تجارت قرون وسطى ميں يورپ كى سب سے بڑى بندرگاہ يعنى شہر وينس كى ترقى ميں اہم كردار ادا كرتى تھى _(۱)

۲_ منگولوں كى آمد

ساتويں صليبى جنگ(۶۵۲_۶۴۶قمرى /۱۲۵۴_۱۲۴۸عيسوى كے زمانہ ميں منگولوں نے ايشيا كے مشرق سے اسلامى ممالك پرحملہ كرديا اور ايران كے بادشاہ سلطان محمد خوارزم شاہ كو شكست دى اور فرار پر مجبور كرديا حقيقت ميں تيرھويں صدى عيسوى كو''وحشت و خوف كى صدي''كا نام دينا چاہيے كيونكہ اس صدى ميں وحشيوں كا تحرك اور تمدنوں كا زوال ايك ساتھ تھا_

سرزميں شام اس زمانہ ميں ايوبى امراء كے ہاتھوں ميں تھى جس كے ہر منطقہ ميں ايك حاكم حكومت كرتا تھا _ مصر بھى خاندان غلاماں كے قبضہ ميں تھا اور وہ ايوبيوں كے دشمن تھے_ ہلاكو خان نے اس موقع سے فائدہ اٹھايا اور اپنے سپاہوں كو شام كى طرف حركت دى ، ليكن مصرى خاندان غلاماں كے اميرقدوز نے سال ۶۵۸ قمرى ميں منگولوں كو عين جالوت كے علاقے ميں شكست دى _

____________________

۱) سات صليبى جنگوں كے اسلامى تہذيب و تمدن پر اثرات كے بارے ميں مزيد جاننے كيلئے رجوع فرمائيں عبداللہ ناصرى طاہرى ، علل و آثار جنگہاى صليبي، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامى ۱۳۷۳، ص ۴۷_۳۷_

۱۷۹

منگولوں كے زمانہ ظہور سے ہى عيسائي انكے حليف بننے كے خواہشمند تھے _ انہوں نے بہت سے سفراء منگول دربار بھيجے تھے _ ايك طرف منگولوں كى مغرب كى طرف تيزى سے حركت نے انہيں منگولوں كى طاقت سے آگاہ كيا دوسرى طرف سے مسلمانوں كى جنگ عين جالوت ميں فتح سے وہ اس انديشہ ميں پڑے كہ خاندان مماليك(غلاماں ) عيسائيوں كيلئے بہت بڑا خطرہ ہيں اسى لئے انہوں نے منگولوں كے ساتھ اتحاد كا ارادہ كيا پايائے اعظم اوربن چہارم نے ہلاكو خان كى طرف خط بھيجا _ اس ميں اس نے ہلا كوخان كے عيسائيوں كے ساتھ طرز عمل كى تعريف كرنے كے ساتھ ساتھ اسے عيسائيت قبول كرنے كى دعوت دى _

ہلاكوخان خط پہچنے سے پہلے ہى ۶۶۳/۱۲۶۴ عيسوى ميں مرگيا اور اسكا بيٹا اباقاخان اسكا جانشين مقرر ہو ا نئے خان نے بادشان بيزانس (قسطنطنيہ)كى بيٹى سے شادى كى ہوئي تھى اور دين مسيحيت قبول كر چكا تھا وہ عين جالوت كى شكست سے سخت رنجيدہ تھا اپنے اسلاف سے بڑھ كرعيسائي دنيا سے روابط كا خواہشمند تھا _ بہت سے سفرا جو منگولوں كے خان سے مغرب كى طرف جاتے تھے عيسائي تھے اور كوشش كررہے تھے كہ عيسائيوں كو يروشليم اور بيت المقدس پر حملہ ميں اپنا حليف بنائيں _

ليكن ابا قاخان كو ۶۸۰ قمرى /۱۲۸۲ ميں حمص كے مقام پر سلطان قلاوون كى طرف سے شديد شكست كا سامنا كرنا پڑا_ جب احمد كلودار نے اسلام قبول كيا اور مسند حكومت پر متمكن ہوا تو مماليك اور منگولوں ميں دوستانہ روابط پيدا ہوئے تو سلطان قلاوون نے موقع سے فائدہ اٹھايا اور اپنى پورى طاقت كو صليبيوں كے خلاف استعمال كيا اسكے بعد اسكے فرزندملك اشرف شرف نے بھى باپ كى روش كو جارى ركھا اور ۰ ۶۹ قمرى ۱۲۹۱ عيسوى ميں صليبوں كے آخرى گروہ كو شام سے نكالا_ منگولوں اور مماليك كے درميان دوستانہ روابط زيادہ عرصہ نہ چل سكے _ نتيجہ يہ ہوا كہ دونوں ميں جنگ ہوئي غازان خان نے مصر اور شام پر قبضہ كيا ليكن مماليك كى فوج نے بالآخرہ منگولوں كو ۷۰۲ /۱۳۰۳ عيسوى ميں ہميشہ كيلئے شام سے نكال ديا _(۱)

____________________

۱) عبداللہ ناصرى طاہر ، سابقہ حوالہ، ص ۹۳ _ ۹۲_

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375