اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 0%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف: ڈاكٹر على اكبر ولايتي
زمرہ جات:

صفحے: 375
مشاہدے: 124273
ڈاؤنلوڈ: 3023

تبصرے:

اسلامى تہذيب و ثقافت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 124273 / ڈاؤنلوڈ: 3023
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

كتاب يورپ ميں آٹھ صديوں تك مورد استفادہ رہى ايك اور اسلامى دانشور كہ جنكے نظريات مغرب ميں توجہ كا مركز قرار پائے پانچويں صدى ہجرى كے زرقالى اندلسى ہيں انكى علم نجوم ميں مشہور كتاب'' زيج طليطلي'' لاطينى زبان كے ماھرين فلكيات كى مركز توجہ قرار پائي_

جب مسلمانوں نے اپنى حكومت كے تحت تمام اسلامى ممالك ميں رصد خانے قائم كے اور ستاروں كے حوالے سے ابتدائي معلومات حاصل كيں تو اسلامى ماھيرين فلكيات كا نام پورى دنيا معروف ہوا دور و نزديك سے علم كے تشنہ انكى طرف رجوع كرنے لگے مغرب كے بادشاہ نہ صرف يہ كہ اندلس كے مسلمان علماء كى طرف رجوع كرتے تھے بلكہ اپنى علمى مشكلات كے حل كيلئے اپنے نمايندے مشرق كے اسلامى ممالك ميں بھيجتے تھے تا كہ علم نجوم كے حوالے سے مشكلات حل كرسكيں اور مسلمانوں كے بنائے ہوئے بہت سے نجومى آلات مثلا اصطرلاب ، نجومى كرے (گلوب)اور گھڑياں و غيرہ سرزميں مغرب ميں منتقل ہوئيں _

اسطرح مغرب ميں بھى ستارہ شناسى كا علم ترقى كرنے لگا تقريباًيہ بات يقينى ہے كہ اوقات كے تعين كيلئے پنڈولم كے استعمال كا طريقہ كار مسلمانوں سے اسپين كے راستے مغربى سرزمينوں ميں منتقل ہوا اوريہ مسلم ہے كہ يہى وسيلہ بہت سى ديگر علمى ايجادا ت كى اساس بنا، حقيقت ميں كہا جا سكتا ہے كہ مغرب ميں ستارہ شنا سى كے علم ميں ترقى اسلامى ستارہ شناسى كى بناء پر ہوئي اور يہ اسپين كے اس يہودى كے ذريعے ہو ا كہ جس نے ۱۱۰۶ عيسوى ميں عيسائيت كو قبول كيا اور پڈرو آلفونسو كے نام سے معروف ہوا _ آج اسكى تاليفات ميں سے بہت كم بچا ہے ليكن اس نے اپنے بعد كے ستارہ شناس لوگوں بالخصوص فرانس اورانگلنيڈ كے ماھرين فلكيات كو بہت متاثر كيا_رابرٹ گروسٹسٹ كہ جو ايك مدت تك آكسفورڈ يونيورسٹى كے پرنسپل بھى رہے اور اس مادى جہاں كے بارے ميں رياضياتى نظم كے قائل تھے ان كى علمى ترقى كااصلى سبب اسلامى كى زندہ روايت سے براہ راست تعلق اور عربى سے لاطينى زبان ميں علمى آثار كا ترجمہ تھا_(۱)

____________________

۱) جرجى زيدان ،سابقہ حوالہ ، ص ۲۹۴ _۲۸۸ ، سيد حسين نصر ، سابقہ حوالہ ، ص ۱۶۲_۱۶۱ گوسٹالو لوبون ،سابقہ حوالہ، ص ۵۸۶_

۱۶۱

۵_ اسلامى جغرافيہ كے مغربى تہذيب پر اثرات

مسلمانوں كے مغرب كے جغرافيہ ميں اثرات اور وہاں اس علم كى ترقى ميں انكے كردار پر مطالعہ اور تحقيق كوئي آسان كام نہيں ہے كيونكہ يہ واضح نہيں ہے كہ مسلمانوں كى جغرافيہ كے حوالے سے معلومات كس حد تك مطالعاتى اور كس حد تك تجرباتى مشاہدات اور سير و سفر كى بناء پر تھيں _

اگرچہ تيسرى صدى ہجرى سے چھٹى صدى ہجرى تك اس حوالے سے بہت سى كتابيں عربى زبان ميں لكھى گئيں ليكن ان سب كو درست اوربے عيب نہيں سمجھا سكتا دوسرى طرف تاجروں اور جہاز رانوں كے مختلف سير و سفر كے تجربات اور مشاہدات انتہائي اہميت كے حامل ہيں جغرافيہ كے موضوع پر لكھنے دالے مؤلفين يقينا ايسے لوگوں سے خوب بہرہ مند ہوتے تھے كيونكہ يہى تاجراور دريانورد لوگ ہى تھى كہ جنہوں نے اسلام كے قرون وسطى كے يورپ سے تعلقات قائم كيے اور اسلامى تہذيب كو يور پ ميں منتقل كيا _

جغرافيہ كے حوالے سے مختلف سفرنامے ، جغرافيائي كتابيں اور زمين كے حدود اربعہ كى تشريحات ،مختلف انواع كے جغرافيائي نقشہ جات اورفلكيات كى راہنما كتابيں يہ سب مغربى جہاز رانوں اور جغرافيہ دانوں كے زير استعمال تھيں _

اسلامى ماہرين فلكيات كے جغرافيائي آثار ديگر جغرافيائي كتب سے بڑھ كر قرون وسطى كے يورپ ميں مقبول و معروف تھے اور ان ميں سے بعض يورپى زبانوں ميں ترجمہ بھى ہوئے_ سب سے پہلى جگہ جہاں جغرافيہ كے عيسائي اساتذہ نے اسلامى جغرافيہ كى تعليم لى وہ اسپين كا شہر ٹولڈ تھا اور انہوں سے سب سے پہلى چيز زميں كا گول ہونا سمجھا كيونكہ اس كو سمجھے بغير بر اعظم امريكا كا دريافت ہونا ممكن نہ تھا_

اسلامى ماہرين فلكيات علم جغرافيہ كو زيادہ تر جغرافيائي طول و عرض كے تعين كے ليے مطالعہ ميں لاتے تھے اور بطلميوس كى سات تقسيمات كے مطابق ربع مسكون(۱) كو سامنے لاتے تھے_ اسى قسم كى تقسيمات ۱۵۰۱

____________________

۱)زمين كا وہ چوتھائي سطحى حصہ جو خشك ہے اور انسانوں اور حيوانات سے آباد ہے_

۱۶۲

سے ۱۵۰۴ عيسوى تك پرتگا ليوں كے دريائي نقشوں ميں مرتب و منظم كى گئي تھيں ان ہى تقسيمات كے بعض نقشہ جات كوحتى كہ اٹھارہويں صدى كے اواخر ميں بھى يورپى جغرافيائي نقشہ جات ميں ديكھا جا سكتا ہے_

مسلمان جہاز رانوں كاجغرافيہ ميں اہم ترين اقدامات ميں سے ايك قطب نما كو استعمال ميں لانا تھا _ اگر چہ يہ چينيوں كى ايجاد تھى _ ليكن يہ معلوم نہيں تھا كہ وہ لوگ آيا اسے كشتى رانى ميں استعمال كرتے تھے يا نہ؟ كيونكہ وہ كبھى بھى ساحل سے دور نہيں ہوئے تھے_ ليكن مسلمانوں كى صورت حال مختلف تھى جب يورپى لوگ چين كے وجود سے بے خبر تھے تو اس دور ميں يمسلمانوں كے اس ملك كے ساتھ تجارتى تعلقات تھے لہذا قوى امكان يہى ہے كہ مسلمانوں نے يورپى لوگوں كو اس قطب نماسے آگاہ كيا ہو_ چونكہ يورپى لوگ تيرھويں صدى سے پہلے تك قطب نما استعمال نہيں كرتے تھے جبكہ اسلام كے عظيم مورخ اور جغرافيہ دان ادريسى نے بارھوين صدى كے وسط ميں قطب نما كے بارے ميں گفتگو كى ، مسلمانوں ميں اس كے استعمال كو بيان كيا اور وہ اسكا يورپ ميں منتقل ہونا مسلمانوں كے ذريعے سمجھتے ہيں _

دوسرى طرف سے واسكو ڈے گاما كے دريائي راستوں كے ذريعے مشرقى سرزمينوں تك پہنچے سے كئي صدياں قبل مسلمان ان سرزمينوں سے آگاہ تھے يہ شخص بھى مسلمان ملاح احمد بن ماجد كے ذريعے ( Goodhope" (۲،۱ " كے راس ( Promontry ) سے ايشيا كے ساحل تك پہنچا حقيقى بات يہ ہے كہ ماركوپولو سے پانچ سو سال پہلے ہند اور چين كى طرف ملاح راستہ ايك مسلمان ملاح سليمان سيرافى كے ذريعے معلوم ہو چكا تھا(۳) _

____________________

۱) جنوبى افريقا كا معروف را س جس كے بارے ميں كہا جاتاہے كہ واسكو ڈے گا مانے اسے ۱۴۹۷ ميں دريافت كيا (مصحح)

۲) را س يا Promontry ، خشكى كا وہ تكون اور ابھرا ہوا حصہ جو سمندر ميں دور تك چلا گيا ہو ( مصحح)_

۳)م،م شريف ، منابع فرہنگ اسلامى ، ترجمہ سيد جليل خليليان ، تہران ، ج ۲ ص ۸۴، شہريار رامہرمزى ، عجائب الہند ، ترجمہ محمد ملك زادہ ، تہران، احمد فرامرزى ، تاريخ جغرافى در دورہ اسلامى ، مجلہ تقدم ، ش ۱ ص ۵۳۸_

۱۶۳

۶_ اسلامى ہنر و فن كا يورپ ميں نفوذ

مسلمانوں نے مختلف علوم و دانش ميں علمى ترقى اور اختراعات كے ساتھ ساتھ فنون لطيفہ ميں بھى اپنےخاص ذوق و سليقہ كے ذريعے بھى اپنى دھاك بٹھائي _ اسلامى تعليمات سے الہام ليتے ہوئے ہنر و فن اور صنعت كو وسعت دينے لگے آئي ايچ كرسٹى اس بارے ميں كہتے ہيں كہ '' يورپ والے ايك ہزار سال سے زيادہ مدت تك تعجب كے ساتھ اسلامى دنيا كے ہنر و فن كى زيبائيوں كا مشاہدہ كرتے رہے اور وہ ان چيزوں كو غير معمولى سمجھتے تھے(۱) _

فنون لطيفہ كى يہ نئي اصطلاح ان مصنوعات كيلئے تھيں جو روح انسان كو وسعت بخشتى ہيں _ اسلام سے قبل بھى مہذب اقوام كم و بيش فنون لطيفہ كى حامل تھيں البتہ مسلمانوں كى ان فنون لطيفہ ميں استعداد ديگر اقوام كى نسبت زيادہ تھى _ كچھ مغربى دانشوروں كا خيال ہے كہ فن مصورى ميں اسلام نے بعض موانع كى وجہ سے زيادہ ترقى نہيں كى جبكہ يہ نظريہ تمام مسلمانوں پر صادق نہيں آتا كيونكہ مسلمان بالخصوص ايرانيوں نے اس فن ميں اہم ارتقائي مراحل طے كيے(۲)

مسلمہ بات يہ ہے كہ اسلامى ہنر و فن ان سرزمينوں سے تعلق ركھتا ہے كہ جہاں مذہب اسلام كا نور پھيلا ہوا تھا(۳) اسلام كى ترقى اور مسلمانوں كے ديگر اقوام سے روابط نے بلا وجہ كے مذہبى تعصبات كو ختم كرديا تھامسلمان مختلف فنون مثلا معمارى ، انجينيرنگ، سنگتراشى ، لكڑى پر كندہ كارى اور خطاطى ميں بہت بڑے استاد تھے ليكن اچھے مجسمہ ساز ، اور مصور نہ تھے يا ان فنون ميں ماہرين كم تھے(۴)

____________________

۱) توماس واكر آرنولد والفرد گيوم، اسلام ميراث ، ترجمہ مصطفى علم ، تہران ، انتشارات مہر ۱۳۲۵، ص ۶۸_

۲) جرجى زيدان ، تاريخ تمدن اسلام ، ترجمہ على جواہر كلام ، تہران ، امير كبير ، ۱۳۳۳ ، ج ۳ ص ۹_۲۹۸_

۳) ارنست كونل ، ہنر اسلامى ، ترجمہ ہوشنگ طاہرى ، تہران ، انتشارات توماس ، ۱۲۵۵، ص ۱۲_۱۱_

۴) كريتيس پرايس ، تاريخ ہنر اسلامى ، ترجمہ مسعود ، رجب نيا، تہران ۱۲۴۷بنگاہ ترجمہ و نشر كتاب ، ص ۹_۸_

۱۶۴

فن خطاطى نے مسلمانوں ميں بہت ترقى كى اسى حوالے سے يورپى كاريگر اسلامى عربى خطوط سے آشنا تو ہوئے ليكن انہيں پڑھ نہيں سكتے تھے مگر ان كے مشابہہ لكھتے تھے_ دوسرى طرف سے مقدس مقامات كى زيارت ، يورپى لوگوں كا اسلامى علوم كے حصول ميں دلچسپى اور تجارتى حوالے سے انكا اشتياق و غيرہ انہيں اسلامى سرزمينوں كى طرف كھينچ لا يا لہذا جب وہ واپس پلٹے تو اپنے ساتھ اسلامى علوم و فنون كو بھى يورپى سرزمينوں تك لے گئے(۱)

ايك چيز جسے يہ يورپى طالب علم اسلامى مدارس سے اپنے ساتھ يورپ لے گئے وہ '' اصطرلاب'' تھا كہ آكسفورديونيورسٹى ميں آج بھى ايك قديمى ترين اصطرلاب موجود ہے كہ جسے ۹۸۴ عيسوى ميں اصفہان كے اصطرلاب ساز ابراہيم كے بيٹوں نے بنايا تھا(۲)

اسلام كے ابتدائي دور كى دھاتى مصنوعات ميں سے قرطبہ كے ايك جرونا(۳) نامى كليسا ميں ايك ڈبہ ہے كہ جو لكڑى سے تيار ہو اہے اور اسكے اوپر چاندى كا ورق چڑھا يا گيا ہے كہ جس پر شاخوں اور پتوں كا ڈيزائن ہے يہ ڈبہ اموى حكومت ( ۷۶_۹۶۱ عيسوي) كے دور سے تعلق ركھتا ہے_(۴) اسلام كے ابتدا ئي دور سے سونے اور چاندى كى كوئي چيز باقى نہيں رہى البتہ امراء كے استعمال ميں رہنے والے پيتل ، تابنے اوركانسى سے بنائے گئے ظروف كے بارے ميں تحقيق كى جا سكتى ہے(۵)

اسلامى كاريگروں نے برتنوں كے جديد اور خوبصورت ڈايزائنز كے علاوہ ان كى خوبصورتى كے ليے ان پر طلائي نقش و نگارى ميں بہت كام كيا ، بارھويں صدى كے وسط ميں دھاتى چيزوں پر سونے كا كام عروج پر

____________________

۱)توماس واكر آرنولد و آلفرد گيوم ، سابقہ حوالہ، ص ۳۵_

۲) سابقہ حوالہ ص ۷_۳۶_

۳) gerona _

۴)سابقہ حوالہ ص ۳۸_

۵)سابقہ حوالہ، ارنست كوتل ، سابقہ حوالہ ، ص ۷۰_۶۸_

۱۶۵

پہنچا(۱) منگولوں كے عراق كے شہروں پر حملے نے اس علاقہ سے كاريگروں كو نكلنے پر مجبور كرديا اور يہ صنعت مصر ميں قدم جمانے لگي_(۲)

دوسرى چيزوں ميں سے مٹى كے كوزے اور طشت ملتے ہيں جو تيرھويں اور چودہويں صدى عيسوى كے دور سے متعلق ہيں كہ ان ميں سے بعض نمونے ويكٹوريا اورالبرٹ كے ميوزيم ميں موجود ہيں كہ ان نمونوں ميں سے تو بعض اسقدر اعلى اور خوبصورتى سے تيار ہوئے ہيں كہ دنيا ميں كسى جگہ بھى انكى مثال موجود نہيں ہے_ ليكن چودھويں صدى عيسوى كے آخر ميں دھاتى چيزوں پر طلا كارى كى صنعت زوال كا شكار ہوگئي _(۳)

پندرھويں صدى عيسوى ميں اٹلى كے لوگوں نے مشرق سے تجارتى روابط كى بناء پر اپنے شہروں وينس اور وروناميں ان صنعتوں كى تقليد كرنا شروع كى _ اسى طرح شہر ونيس ميں رہائشے پذيرايك ايرانى كاريگر گروہ نے خوبصورت دھاتى اشياء تيار كرنا شروع كيں _

قرون وسطى ميں اسلامى كاريگروں كے ہاتھوں دھاتى ظروف پر سونے چاندى كا كام يورپى لوگوں كى مينا كارى كى مانند تھا بس فرق يہ تھا كہ يورپى لوگ سونے چاندى سے تزيين كرنے كى بجائے مختلف رنگوں كے شيشوں سے نقوش تيار كرتے تھے_(۴) اگر چہ مسلمانوں نے ان ظريف صنعتوں كے بعض ڈيزائنوں كو دوسرى جگہوں سے ليا ليكن اپنے ذوق اور سليقہ كى بناء پر ان ميں تبديلى كرتے ہوئے انكو جديد ڈايزائنوں ميں پيش كيا _

____________________

۱) توماس واكر آرنولڈ و آلفرڈ گيوم ، سابقہ حوالہ ، ص ۳۸ ، گوسٹاولولوں ، تاريخ تمدن اسلام و عرب ، ترجمہ سيد ہاشم حسين ، تہران ، انتشارات كتابفروشى اسلاميہ ، ۱۳۴۷ شمسى ص ۱_۶۴۰_

۲) درشت كونل ،سابقہ حوالہ ، ص ۵_۹۴_

۳) گوسٹاولوبوں ، سابقہ حوالہ ، ص ۴۱_ ۶۳۹ ، ٹوماس واكر آرنولڈ وآلفرد گيوم ،سابقہ حوالہ ص ۴۲_

۴) سابقہ حوالہ ص ۳_۴۲ ، ارنست كوئل ،سابقہ حوالہ ، ص ۹_۶۸

۱۶۶

مسلمان چمكدار اور مينا كارى شدہ كوزے بنانے ميں بہت مہارت ركھتے تھے _ چوتھى صدى كے دور سے متعلق كچھ كوزے مشرق قريب ، شمالى افريقا اور اسپين ميں دريافت ہوئے جس سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ صنعت كس حد تك پھيلى ہوئي تھي_ شہر'' رے'' اسى صنعت كے بڑے مراكز ميں سے شمار ہوتا تھا اس خوبصورت ہنر كے بہت سے نمونہ جات وہاں سے دريافت ہوئے ہيں جو پيرس كے ليور عجائب گھر ميں ركھے ہوئے ہيں(۱)

يورپى كاريگروں نے پھولوں كى تصوير كشى جو اس دور ميں مغرب ميں موجود نہيں تھى ميں ايرانيوں كى تقليد كي_ شامات اور مملكت عثمانيہ سے جو ظروف ان تك پہنچے انہوں نے انہيں اپنے كام كيلئے نمونہ قرار ديا(۲) شيشہ سازى كى صنعت اور اس پر آرائشے اور مينا كارى كا كام يہ سب مسلمانوں كے ذريعے يورپ ميں منتقل ہوا(۳)

ايران ، سوريہ اور مصر پر عربوں كے حملہ سے پہلے ان علاقوں ميں كپڑا بننے كى صنعت كا دور دورا تھا اور مشرقى روم كے ہمسايہ ميں ايسے مراكز تھے كہ جہاں مختلف نقش و نگار اور تصاوير والا ريشمى كپڑا تيار ہوتا تھا پھر اس صنعت كے بڑے بڑے مراكز ظہور پذير ہوئے اور اس صنعت سے متعلق اصطلاحات اور مخصوص الفاظ يورپى زبانوں ميں منتقل ہوئے_

مصر ميں مسلمانوں كے سب سے پہلے دار الحكومت فسطاط كا تيار شدہ كپڑا كہ جو انگلستان ميں ليجايا جاتا تھا اسے فاستونى كہا جا تا تھا_ اسى طرح وہ كپڑا كہ جسے آج دمسك (دمسہ) يا دمياطى كا نام ديا جاتا ہے كہ اس زمانہ كے سب سے بڑے تجارتى مركز دمشق سے درآمد كيا جاتا تھا مسلمانوں كے ہاں تيارہ شدہ كپڑے كو اٹلى كے تاجر دمشق سے خريدتے تھے _ غرناطہ كے كپڑے يورپ ميں گرناڈين كے نام سے مشہور تھے، ہاتھ

____________________

۱)سابقہ حوالہ ص ۴۷، كريشين ارايس ، سابقہ حوالہ، ص ۳_۴۲_

۲) شامات سوريا، اردن، فلسطين اور مصر كے مناطق كو اس زمانے ميں شامات كہا جاتا تھا(مصحح)_

۳) ارنست كوئل ، سابقہ حوالہ، ص ۷_۲۶ توماس واكر آرنولڈ وآلفرد گيوم ، سابقہ حوالہ، ص ۵۱_۵۰_

۴) سابقہ حوالہ ص ۵۲_

۱۶۷

سے بناہوا ايرانى ريشمى كپڑا بھى يورپ ميں بہت مقبول تھا(۱) _

يورپ كے درباروں كى بڑى تقريبات ميں خواتين ايران كے بنے ہوئے ابريشمى كپڑے زيب تن كيے شركت كيا كرتى تھيں بغداد اور ايران سے بننے ہوئے ريشمى كپڑوں كے ٹكڑے آج بھى برلن ،ليوور اور ليون كے ميوزيمز ميں موجود ہيں كہ جو دسويں صدى عيسوى كے آخر ميں بُنے گئے تھے مشرق سے تيارہ شدہ كپڑوں كى ہر روز مغرب ميں مانگ بڑھ رہى تھى جزيرہ سسلى ميں قصر پالرمو ميں مسلمانوں نے ريشمى كپڑے تيار كرنے كا كارخانہ لگايا جہاں سے مدتوں تك نفيس كپڑے يورپ كے ديگر مناطق ميں برآمد ہوتے رہے(۲)

اسى دوران مغربى اور مشرقى ايشياء كے فنون كا تبادلہ ہوتا رہا ،چين ميں مسلمانوں كا ايسا گروہ سامنے آيا كہ جو عربى زبان ميں گفتگو كرتے تھے انكے فنون پورى اسلامى دنيا ميں مشہور تھے مشرقى اور اسلامى فنون كا يورپ پر اس قدر غلبہ تھا كہ ماہرين فن بھى مشرق اور مغربى فن پاروں كى تشخيص اور فرق كرنے ميں لاچار تھے_(۳)

اسلامى فنون كے شاھكاروں ميں سے ايك قالين تھا كہ جو زندگى كے لوازمات ميں شمار ہوتاتھا_ سولھويں صدى عيسوى ميں ايرانى قالين باف افراد كى مہارت اتنے عروج كو پہنچ چكى تھى _ كہ ان سے پہلے اور ان كے بعد آج بھى اُس دور كے قالينوں كى نظير نہيں ملتى اُس زمانہ كے شاہكار قالينوں ميں سے ايك ويكٹوريا اورالبرٹ ميوزيم ميں موجودہے جوشہر اردبيل ميں شيخ صفى الدين اردبيلى كے مقبرہ سے ليا گيا تھا(۴)

مسلمانوں كے ديگر فنون لطيفہ ميں سے ہاتھى دانت كى خوبصورت چيزوں كے بعض نمونے(۵)

____________________

۱) گوستاوبولوں ، گذشتہ مدرك ، ص ۶۳۸ ، ارنست كوتل ، سابقہ حوالہ، ص ۹۱_۱۹۰_

۲) سابقہ حوالہ، ٹوماس واكر آرنولڈ و آلفرڈ گيوم ، سابقہ حوالہ، ص ۵۵۶_

۳) سابقہ حوالہ ص ۸_۵۷ ، كريستين پرايس ،سابقہ حوالہ، ص ۶_۱۵۸_

۴) ارنست كونل ،سابقہ حوالہ ص ۱۹۲، ۲۰۹،۲۷۸، ۸_۲۸۴ ، ٹوماس واكر آرنولڈ و آلفرد گيوم ، سابقہ حوالہ ،ص ۶۰_

۵) محمد مددپور ، تجليات حكمت معنوى در ہنر اسلامى ،تہران ، اميركبير ، ۱۳۷۴، ص ۲۴۰_

۱۶۸

لندن ، پيرس اور ديگر جگہوں پر موجود ہيں اگر چہ ان چيزوں كى ظاہرى شكل و صورت مشابہہ ہے ليكن ان پر بنے ابھرے ہوئے زيادہ تر نقوش مختلف ہيں _(۱)

مٹى اورپتھر كے برتنوں پر نقش و نگار ايك بہترين اسلامى ہنر تھا كہ پہاڑى دُركا بنا ہوا ايك ظرف آج بھى سينٹ مارك وينس ميوزيم وينس ميں موجود ہے اور اسكى تاريخى اہميت كى وجہ يہ ہے كہ اس پر دوسرے فاطمى خليفہ كا نام '' عزيز'' لكھا ہوا ہے(۲) فنون ميں سے مسلمانوں كا ايك اور فن جو مغرب ميں منتقل ہوا اورجس نے يورپى لوگوں كو مسحور كيا وہ قيمتى دھاتوں اور پتھروں كى تراش كارى كا فن تھا_(۳)

يہ تسليم شدہ بات ہے كہ كتابوں كو چھاپنے اور جلدى بندى كرنے كى بنياد ڈالنے والے قرون وسطى كے مسلمان تھے_ اگر چہ چھاپنے كى صنعت پندرھويں صدى ميں يورپيوں كے ذريعے مكمل ہوئي ليكن زمانہ قديم ميں سنگى چاپ بہت مقبول تھى _ يورپ ميں كاغذ سازى كا سب سے پہلا كارخانہ مسلمانوں كے ذريعے سسلى اور اسپين ميں لگايا گيا پھر اٹلى ميں يہ كام آگے بڑھا _

پندرھويں صدى ميں جب كتاب چھاپنے كا كام وسيع ہوا تو اس كام ميں كاغذ كو بنيادى حيثيت حاصل ہوگئي تھى _(۴) سولھويں صدى كے آغاز ميں يورپى ماہرين فنون نے مسلمانوں كے فنون لطيفہ سے نئے ڈيزائن تخليق كيے ان ڈيزائنز سے سے معلوم ہوتا ہے كہ انہوں كسقدر زيادہ اسلامى فن پاروں كى تقليد كى(۵) يورپى لوگوں نے آغاز اسلام كے دور سے ہى اسلامى ہنر كى خاص خصوصيات كا مشاہدہ كيا اور اس خاص ذوق و سليقہ كو سمجھنے كے ليے رغبت و اشتياق كا اظہار كيا_

سترويں صدى ميں يورپ ميں جلد كے كاغذ ، حاشيہ اور كتاب كى جلد كے كونوں كا صيقل ( چمكدار پن)

____________________

۱) ٹوماس واكر آرنولد و آلفرد گيوم، سابقہ حوالہ، ص ۴_۶۳_

۲) سابقہ حوالہ ص ۶۴_

۳) گوستاولوبوں ، سابقہ حوالہ ، ص ۳۸۵، ۱۵_۴۳، ۶۳۹_

۴) ٹوماس واكر آرنولڈو آلفرڈ گيوم ، سابقہ حوالہ ص ۶۵_

۵) سابقہ حوالہ ص ۷۰_۶۸_

۱۶۹

ہونا اور اسكى رنگوں سے بھر پورڈيزائن معروف ہوئے تھے وہ براہ راست اسلامى اور مشرقى فن پاروں سے ليے گئے تھے_

اقوام اسلامى كے فن مصور ى كے مغربى فن مصور ى پر اثرات

بعض اقوال كى بناء پر مسلمانوں كے نزديك انسان اور زندہ موجودات كى تصوير بنانا مكروہ شمار ہوتى ہے _ ليكن اسلامى تہذيب كے باقى ماندہ آثار سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ مسئلہ وقت گزرنے كے ساتھ اپنى اہميت كھوبيٹھا_ آرنلڈ كے نظريہ كے مطابق اسلام كے ابتدائي دور ميں مشرقى مصورى نے مغربى فن مصورى ميں زيادہ اثرات نہيں ڈالے بلكہ يہ اثرات اس وقت نماياں ہوئے جب مسلمانوں كا بحيرہ روم كے خطہ پر قبضہ ہواتھا(۱)

صليبى جنگوں كے زمانہ ميں كہ مسلمانوں اور عيسائيوں ميں جنگى تعلق قائم ہوجانے كے باعث بہت سى خوبصورت اشيا، مصنوعات اور فن پارے جو مسلمانوں كے ذوق اور سليقہ كى عكاسى كرتے تھے يورپ ميں منتقل ہوئے يورپ كے شہروينس ، جينوا ، اور پيزا اس قسم كى اشياء كے سب سے بڑے تجارتى مراكز تھے بلا شبہہ يہ خوبصورت چيزيں اپنے جاذب نقش و نگار كے بدولت سرزمين مغرب كى فن مصور ى كو متاثر كرتى تھيں _

وہ چيزيں كہ جنكى مغرب كے مصوربہت تعريف اور تقليد كيا كرتے تھے قالينوں اور كپڑوں پر گوناگوں تصاوير تھيں جنكا اس زمانہ ميں رواج تھا(۲)

ايك مشہور ترين اسلامى جام كہ جس پر انسانى صورت بنائي گئي ہے ليور كے ميوزيم ميں موجود ہے اس

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۲_۷۱_

۲ ) گوستاو لوبوں ، سابقہ حوالہ، ص ۷_۶۳۴_

۱۷۰

جام كا نام '' جام سن لوئي'' معروف ہے جس سے ايك طويل مدت تك فرانس ميں بچوں كو غسل تعميد ديا جا تا رہا تھا(۱)

بارہويں صدى عيسوى كے بعد ڈيو سكوريڈس اور جالينوس كى تاليفات كے ساتھ ساتھ كتاب كليلہ و دمنہ اور مقامات حريرى ميں افسانوى حيوانات كى تصويريں اس انداز ميں بنائي گئي ہيں كہ ان كى رنگ آميزى مغربى مصورى كہ ہم پلہ نظر آتى ہے بلكہ بعض اوقات تو اس سے بھى بڑھ گئيں تھيں يہ نسخہ جات اور افسانوى تصاوير قرون وسطى كى اسلامى تہذيب كى تاريخ كے حوالے سے بے حداہميت كى حامل ہيں(۲)

اسلامى موسيقى كے مغربى موسيقى ميں اثرات

دسويں صدى عيسوى كے ختم ہونے سے پہلے تك اسلامى اور مغربى موسيقى ميں كوئي زيادہ فرق نہ تھا جس دور ميں مشرقى اور يورپى موسيقى ميں اختلاف بہت كم تھا دونوں مكتب فيثاغورس كے مقياس پر چلتے تھے اور يونانى اور شام كے اسلوب كو استعمال كرتے تھے_

مسلمہ امر يہ ہے كہ ظہور اسلام سے قبل عربوں كى موسيقى ايران اور مشرقى روم كى موسيقى كے زير اثر تھى اور دونوں فيثاغورس كے مقياس كو استعمال ميں لاتے تھے بعد ميں موسيقى كے اوزان ميں تبديلى پيدا ہوگئي ليكن اسحاق موصلى نے فيثاغورس كے طريقہ كا ر كو دوبارہ رائج كرديا _(۳)

مسلمان موسيقى دانوں نے موسيقى كے جديد آلات ايجاد كرنے اور جديد راگ تيار كرنے كے ساتھ ساتھ علم موسيقى ميں بہت سى كتابيں بھى تاليف كيں _(۴)

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۷_۶۳۶_

۲) ارنست كونل ،سابقہ حوالہ ص ۸_۸۷_

۳) ج ، فارس، موسيقى ، ترجمہ مصطفى علم ،تہران ، انتشارات مہر ۱۳۲۵، ص ۶_۱۳۵_

۴) جرجى زيدان ،سابقہ حوالہ ، ج ۳، ص ۳۰۱ _ ۲۹۹_

۱۷۱

اس دور ميں مندرجہ ذيل موسيقى كے اہم آلات رائج تھے: عود ، رباب ، قانون ، بانسرى ، دف اور طبل يہ آلات چھوٹى تقريبات ميں استعمال ہوتے تھے ليكن فوجى بينڈ يا بڑے پروگراموں ميں شہنائي ، باجا ، جھانجھ اور ڈھول و غيرہ استعمال ہوتے تھے كہا جاتا ہے كہ اسلامى اقوام كا يہ نظريہ تھا كہ بيماريوں كے علاج ميں بھى موسيقى اثر ركھتى ہے حتى كہ بعض حيوانات بھى موسيقى كے راگوں سے متاثر ہوتے ہيں جبكہ عرفا كا عقيدہ تھا كہ روح پر سے موسيقى كى روحانى تاثير ايك ازلى(۱) امر ہے اور موسيقى كو سننے كے دوران دوبارہ كلام حق سنتے ہيں _(۲)

ايرانى اور عرب لوگ موسيقى كے آلات كو ايجاد كرنے اور انہيں پا يہ تكميل تك پہنچانے والے لوگ ہيں جسطرح كہ فارابى علم موسيقى كے ايك مولف اور رباب اور قانون كو ايجادكرنے والے تھے_ تيسرى صدى ہجرى كے آغاز ميں مسلمانوں نے بانسرى كو ايجادكيا _ البياض اور ابو المجدنے پانچويں صدى ہجرى ميں ارغنون(ايك قسم كا باجا) بنايا صفى الدين عبد الموسى ارموى نے چار كونوں والا سنتور اختراع كيا محمد بن احمد خوارزمى نے بھى اسى دور ميں '' مفاتيح العلوم' ' نامى ايك كتاب تاليف كى جس ميں موسيقى كے بعض مسائل كو حل كيا _ فارابى كے بعد ابن سينا اور حسن بن ھيثم موسيقى ميں معروف شخصيات تھيں ، ان نكات كو ديكھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے كہ چھٹى صدى ہجرى علم موسيقى كے بہت سے مؤلفين كا دور شمار ہوتى ہے _(۳)

جو كچھ مسلمانوں نے موسيقى كى دنيا كو ديا انتہائي اہم اور گرانقدر ہے اسلامى موسيقى ايشيا ميں ہندوستان تك پھيل گئي ليكن ہندوستان كى نسبت اسكے يورپ ميں اثرات زيادہ ہےں قرون وسطى ميں مسلمانوں كے قلم سے موسيقى ميں بہت سے كتابيں تاليف ہوئيں اور ان ميں سے بعض لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئيں _ ليكن اب ہمارے پاس اس حوالے سے اہم مصادر موجود نہيں ہيں _ اب صرف فارابى كى كتابوں كا لاطينى ترجمہ كہ جو يوھانس ھيسپالنسز كے ذريعے ترجمہ ہوئيں اور ابن رشد كى كتاب كا لاطينى ترجمہ كر جومائيكل اسكاٹ كے

____________________

۱) ازلى امر سے مراد يہ ہے كہ ارواح اس دنيا ميں آنے سے پہلے مذكورہ امر كا تجربہ كرچكى ہيں (مصحح)

۲) محد مدد پور ، سابقہ حوالہ، ص ۱۶۲_

۳) سابقہ حوالہ ، ص ۶۲ _ ۱۵۹ ، توماس واكر آرنولڈ وآلفرڈ گيوم ، سابقہ حوالہ ص ۴۲ _۱۳۹_جرجى زيدان، سابقہ حوالہ ص ۳۰۱_

۱۷۲

ذريعے انجام پايا موجود ہيں _

راجر بيكن نے موسيقى كے حوالے سے اپنى كتاب ميں بعض مقامات پر بطلميوس اور اقليدس كے ساتھ فارابى كا نام ذكر كيا ہے اور ابن سينا كا بھى نام ليا ہے _ گروم مراوى نے اپنى كتاب ''ميوزيكا'' كى ايك فصل فارابى پر لكھي_ موسيقى كى دنيا ميں مسلمانوں كى سب سے بڑى پيش كش موسيقى ''موزون'' تھى جسكى ابتدا ميں كندى نے كچھ توصيف كى پھر فرانكو اور اسكے شاگردوں نے اسلامى موسيقى كے اوزان اور طريقہ كار كو استعمال كيا _ اسپين والے تيسرى صدى ہجرى مں اسلامى موسيقى كے اوزان اور راگوں كو استعمال كيا كرتے تھے_ مسلمانوں نے موسيقى كے سب سے زيادہ آلات اور وسائل يورپ ميں منتقل كيے_(۱)

اسلامى معمارى كے يورپى معمارى پر اثرات اور نقوش

بلا شبہ مسلمانوں نے يورپ كے مختلف فنوں بالخصوص فن معمارى كو متاثر كيا _ اگر چہ بہت سے مولفين يورپ ميں محرابى كمروں كو مسلمان كى تقليد سمجھتے ہيں اور انكے نظريہ كے مطابق دسويں صدى ہجرى ميں مصر ، سسلى اور اٹلى ميں اس قسم كے كمرے بنائے گئے ليكن يہ بات اتنى بھى درست نہيں ہے كہ ہم محرابى شكل كى معمارى كو مكمل طور پر مسلمانوں كا مرہون منت سمجھ ليں _(۲)

كچھ لوگوں كا خيال ہے كہ اسلامى معمارى كے اصول غير مسلم اقوام سے لئے گئے ہيں بعض ديگر كے مطابق مغربى معمارى رومى معمارى كى جديد صورت ہے جبكہ بعض تمام چيزوں كو ايران اور آرمينياكى طرف نسبت ديتے ہيں كہ اس نظريہ پر بحث قابل توجہ ہے كيونكہ ارمنستان ، ايران ، عراق اور ماوراء النہر ميں معمارى كے حوالے سے جو كام ہوا ہے اس نے مغربى معمارى كے رومى معمارى سے تعلق كو مشكوك بنا ديا ہے_(۳)

____________________

۱) توماس واكر آرنولڈ و آلفرڈ گيوم ، سابقہ حوالہ، ص ۷_۱۴۳_

۲) گوستاو لوبوں ،سابقہ حوالہ ، ص ۱۲_۷۱۰ ، ارنست كوئل ، سابقہ حوالہ، ص ۱۶ ، ۹۶_

۳) مارتين س ، بريگز ، معمارى اور ساختمان ، در ميراث اسلام ، ص ۸_۲۰۷_

۱۷۳

مسلم بات يہ ہے كہ سوريہ كے علاقے، آرمينياكا كچھ حصہ ، شمالى افريقا كا آباد علاقہ اور مصر ان سرزمينوں كا حصہ تھے كہ جنہيں مسلمانوں نے رومى بادشاہت سے جدا كيا تھا اسكے علاوہ اسپين جو كہ ويزگوٹز كے ہاتھوں ميں تھا مسلمانوں كے قبضہ ميں آگيا_(۱) مسلمانوں كو ان سررمينوں كى فتح كے دوران بہت زيادہ عمارتوں اور زبردست انجينيرزاور معماروں كا سامنا كرناپڑا كر جنكى معمارى كا طريقہ رومى معمارى سے مختلف تھا_ بعض محققين كے مطابق ان انجنيئروں اور معماروں نے بہت سے فنون بيزانسى معماروں كو سكھائے_

بعض محققين كے فتوحات كے آغاز ميں عربوں كى معمارى سے آشنائي نہ ہونے كے نظريہ كے باوجود قابل اہميت نكتہ يہ ہے كہ اسلامى معمارى ان تمام صديوں ميں اگر چہ ديگر مختلف اقوام كے فن معمارى سے مستفيد ہوتى رہى ليكن ايسى خصوصيات كى حامل ہے كہ جس كى بناء پريہ دنيا كے تمام ديگر معمارى كے اساليب اور فنون سے ممتاز ہے_

مسلمانوں نے شروع ميں مساجد اور محلات بنائے_ مدينہ كى سب سے قديمى مسجد كہ جو رسول اكرم(ص) كے زمانہ يعنى ۶۲۲ عيسوى ميں بنائي گئي ، مسجد كوفہ ۶۲۹ عيسوى ميں بنائي گئي اور ۸۴۲ عيسوى ميں فسطاط (قاہرہ) ميں مسجد بنائي گئي يہ سب مسلمانوں كے ہاتھوں بنى ہوئے مساجد كے چند نمونے ہيں _(۲)

ساتويں صدى كے آخرى سالوں ميں ۶۳۹عيسوى ميں مسلمانوں كے ہاتھوں بيت المقدس كى فتح كے بعد مسجد حضرت عمر كے نزديك قبة الصخرة كے نام سے ايك عظيم الشا ن عمارت بنائي گى قبة الصخرہ كے بعد مسلمانوں كى اہم تعميرات ميں سے دمشق كى سب سے بڑى مسجد ہے جو آٹھويں صدى كے ابتدائي سالوں ميں بنائي گئي البتہ يہاں امكان ہے كہ اس مسجد كى عمارت شام ميں عيسائيوں كے كليساؤں سے كچھ مشابہت

____________________

۱) ويزگوٹ ان مغربى گوٹوں (جرمنى كى ايك قوم)ميں سے تھے كہ جو ۴۱۰ عيسوى ميں اٹلى كے بادشاہ آلاديك كے زمانہ ميں وہاں سے پھولوں كى سرزمين(فرانس) چلے گئے اور پيرنہ پہاڑيوں كے دونوں طرف يعنى فرانس اور اسپين ميں آباد ہوگئے_

۲) محمد مددپور ،سابقہ حوالہ ، ص ۲۵۰_۲۴۹

۱۷۴

ركھتى ہو اس مسجددمشق كے مينار سب سے پہلے مينار ہيں جنكے ذريعے لوگوں كو نماز كى طرف دعوت دى جاتى تھي_(۱)

اسپين ميں قرطبہ كى مسجد اسلام كى سب سے بڑى مسجد ہے جسكى بنياديں ۷۸۶ عيسوى ميں ركھيں گئيں اس مسجد كے بارہ حصے ہيں اور ہر حصہ ميں رومى ڈيزائن كے بيس ستون ہيں(۲) سامرا كى مسجد بھى اسلام كے تاريخى آثار ميں سے ہے كہ جسكے صحن ميں گہرائي تك ايك محراب ہے اور اسكے گرد چند ايوان ہيں _(۳) قاہرہ ميں مسجد ابن طولون بھى ان مساجد ميں سے ہے كہ جن ميں بين النہرين كى قديمى مساجد جيسى خصوصيات ہيں _(۴)

نويں سے بارھويں صدى عيسوى كے دوران مسلمانوں كے ہاتھوں بہت سى مساجد اور فوجى قلعے تيار ہوئے جنكے ڈيزائن صليبى جنگوں ميں عيسائيوں نے مسلمانوں سے سيكھے اسى طرح يورپ والوں نے ''ميچيكوليشن''(۵) نامى كنگرے بنانے كا طريقہ بھى مسلمانوں سے سيكھا چودھويں صدى عيسوى ميں فرانس اورانگلستان ميں محلات اور قلعے بنانے كے دوران اس قسم كے كنگروں نے دوسرى صورت اختيار كر لى _

اسپين ميں تيرھويں صدى عيسوى كے بعد اسلامى معمارى كا شاہكار قصر الحمرائ''الكازار''(القصر) ہے اشبيليہ ميں المرابطين نامى محل كے كھنڈرات اور طليطلہ ميں عيسائيوں اور يہوديوں كے قديمى معابد كو ديكھ معلوم ہوتا ہے كہ كسطرح مراكش كى طرف سے مغربى معمارى كا طرز تعميراسپين ميں پھيلا_(۶)

____________________

۱) ارنست كونل ، سابقہ حوالہ ،ص ۱۷_۱۱۴ ، محمد مددپور ، سابقہ حوالہ، ص ۷_۲۵۶_

۲) سابقہ حوالہ ص ۴_۳۶۳_

۳) ٹوماس داكر آرنولڈ و آلفرڈ گيوم ، سابقہ حوالہ، ص ۲۱۷_

۴) محمد مدد پور ،سابقہ حوالہ، ص ۶_۲۶۵_

۵) Machicolation ، ديوار پر كنگرے كا نام ہے جسميں مختلف سوراخ ركھے جاتے تھے كہ جن سے مختلف وسايل كے ساتھ دشمنوں سے جنگ كى جائي تھي_

۶) سابقہ حوالہ ص ۲۲۱ _ ۲۲۰ ، ارنسٹ كوئل ، سابقہ حوالہ، ص ۶۷ و ۷۴_۱۶۵_

۱۷۵

قرون وسطى ميں مساجد كى عمارتوں كے ڈيزائن اور اسلوب معمارى نے واضح ترقى كى اور مختلف صورتوں ميں سامنے آيا سارا سن طرز كے اسلامى ، گنبدوں نے يورپ كے نشا ة ثانيہ كے دور كے گنبدوں كو متاثر نہيں كيا ليكن مسلمانوں كے ميناروں كى روش معمارى اٹلى ميں چودھويں اور پندرھويں صدى عيسوى ميں رائج تھي_

جسطرح اسلامى معمارى نے ترقى كى اسى طرح گول ، نوك دار ، آدھى دائرہ كے اور دو مركز ركھنے والے ہلال اورايك اور ہلال جسے ''ايرانى ''كہتے تھے بھى رائج ہوئے اسى طرح ايسى كھڑ كيوں كا رواج ہوا جو مختلف رنگوں كے شيشوں سے مزين تھيں حالانكہ اس زمانہ ميں يورپ ميں رنگوں والے شيشوں كا رواج نہ تھا اسلام سے قبل آرمينيااور سوريہ كى پتھروں سے بنى ہوئي عمارتوں اور ايرانى اينٹوں والى معمارى كے قرون وسطى كے يورپ ميں اثرات سے ہٹ كر نوك دار ہلال بنانا مسلمانوں كى ہى ايجاد تھى _

بلا شبہ ايك تو مسلمانوں كے صليبى جنگوں ميں تعلقات اور دوسراقرون وسطى كے دوستانہ روابط اسلامى معمارى كو سرزمين مغرب ميں پھيلانے كے باعث بنے _(۱) ڈالور كى كتاب ''پيرس كى تاريخ '' ميں ملتا ہے كہ '' پيرس كے نٹرڈام كليسا كو بنانے كيلئے اسلامى معماروں كے ايك گروہ كى خدمات لى گئي_(۲) اسپين ميں اسلامى حكومت كے دوران اكثر عمارتوں ميں اسلامى فنون كو عيسائي فنون پر برترى حاصل تھى مثلا مشہور محل سقوبيہ جو گيارھويں صدى عيسوى ميں الفانس ششم كے حكم سے بنايا گيا تھا_(۳)

موسيولونر ميں لكھتا ہے كہ '' فرانس كے بہت سے كليساؤں ميں مسلمانوں كى معمارى كے اثرات واضح محسوس ہوتے ہيں ''(۴) اسى طرح اسلامى فن معمارى كے ايك ماہر موسيو پريس كا يہ نظريہ ہے كہ '' يورپ ميں سولھويں صدى كے آخر تك خوبصورت ميناروں كا جو رواج تھا ان كے ڈيزائن مسلمانوں سے ليے گئے تھے''_(۵)

____________________

۱) سابقہ حوالہ، ص ۸_۴۷ ، ٹوماس واكر آرنولڈ و آلفرد گيوم ،سابقہ حوالہ، ص ۳_۲۲۲_

۲) سابقہ حوالہ ص ۵_۲۲۴ ، ارنست كونل ، سابقہ حوالہ ، ص ۴۷، ۶۵_

۳) گوسٹاو لوپوں ، سابقہ حوالہ، ص ۷۱۴_

۴) كريستين پرايس ، سابقہ حوالہ، ص ۱۱۷_

۵) گوسٹاؤ لولون ، سابقہ حوالہ ، ص ۷۱۴_

۱۷۶

ساتواں باب:

اسلامى تہذيب كے جمود كے اندرونى اور بيرونى اسباب

۱۷۷

الف : بيرونى اسباب

۱_ صليبى جنگيں

بلا شبہ صليبى جنگوں كے برپاہونے كا ايك مضبوط ترين سبب دينى اور مذہبى انگيزہ تھا اور اس بات كو مسلمان اورعيسائي لوگ دونوں قبول كرتے ہيں البتہ ان جنگوں كے بر پا ہونے كے ديگر اسباب بھى بيان ہوئے مثلا عيسائي معاشروں ميں پادريوں كے اثر و رسوخ كا بڑھنا، ايشيا ء صغير ميں سلجوقى تركوں كو پيش قدمى سے روكنا ، قسطنطنيہ كا مسلمانوں كے ہاتھوں سے نكل جانا ، عيسائيوں كا بالكان كے علاقہ ميں داخل ہونا ، عيسائيوں ميں شواليہ(۱) سپاہيوں ميں اپنى شجاعت دكھانے اور يروشلم كى بادشاہت پر قبضہ كرنے كيلئے جوش و خروش پيدا ہونا اور ان سب سے اہم يورپى ممالك كى معاشرتى اور سياسى صورت حال(۲) _

يورپ كى معاشرتى اور سياسى صورت حال كا تجزيہ كريں تو معلوم ہوگا كہ دنيا كے اس حصہ ميں بادشاہتوں كا ايك درخشان تريں دور فرانس كے بادشاہ چارلمين كا زمانہ (۸۰۰ عيسوي) تھا ٹھيك اسى كے زمانہ ميں مسلمانوں كى پيش قدمى اپنے عروج كو پہنچ چكى تھى اور وہ عيسائيوں كيلئے بہت بڑا رقيب شمار ہوتے تھے_ كچھ عرصہ گزرنے كے بعد چارل مين كے جانشين بادشاہوں كى نالائقى ، برے اقتصادى حالات ، تہذيب كا فقدان اور انسانى آبادى ميں كمى كے باعث يہ بادشاہت علاقے كے جاگير داروں ميں تقسيم ہوگئي ، ہر كوئي

____________________

۱) شواليہ: قرون وسطى كے عيسائي گھڑ سوار سپاہى (مصحح)_

۲) رنہ گروسہ ، تاريخ جنگہاى صليب ، ترجہ ولى اختر شادان ، تہران ص ۹،۱_

۱۷۸

اپنے اپنے علاقہ ميں تمام تر اختيارات كے ساتھ حكمرانى كرتا تھا اگر چہ نئے بادشاہ سے وفادارى كا حلف اسكى تاجيوشى كى تقريب ميں اٹھاياجاتا تھا ليكن يہ سب كچھ فقط برائے نام تھا فوج بھى ان گھڑ سواروں پر مشتمل ہوتى تھى جن كى باگ ڈور بادشاہ اور ان جاگير داروں كے ہاتھ ميں تھي_

دسويں صدى عيسوى سے مغربى يورپ بالخصوص فرانس ميں اقتصادى اور صنعتى ترقى كے ساتھ ساتھ آبادى ميں بھى اضافہ ہونے لگا انہى حالات كے ساتھ ساتھ مصر بھى ہندوستان اور يورپ كے مابين پُل كى حيثيت اختيار كر گيا_ مصرى ملاح ''وينس'' اور ''رن'' اور كسى حد تك مارسى جہازرانوں كے توسط سے ہندوستان سے مصالحہ جات اور ديگر اشياء لاتے تھے اور يہ تجارت قرون وسطى ميں يورپ كى سب سے بڑى بندرگاہ يعنى شہر وينس كى ترقى ميں اہم كردار ادا كرتى تھى _(۱)

۲_ منگولوں كى آمد

ساتويں صليبى جنگ(۶۵۲_۶۴۶قمرى /۱۲۵۴_۱۲۴۸عيسوى كے زمانہ ميں منگولوں نے ايشيا كے مشرق سے اسلامى ممالك پرحملہ كرديا اور ايران كے بادشاہ سلطان محمد خوارزم شاہ كو شكست دى اور فرار پر مجبور كرديا حقيقت ميں تيرھويں صدى عيسوى كو''وحشت و خوف كى صدي''كا نام دينا چاہيے كيونكہ اس صدى ميں وحشيوں كا تحرك اور تمدنوں كا زوال ايك ساتھ تھا_

سرزميں شام اس زمانہ ميں ايوبى امراء كے ہاتھوں ميں تھى جس كے ہر منطقہ ميں ايك حاكم حكومت كرتا تھا _ مصر بھى خاندان غلاماں كے قبضہ ميں تھا اور وہ ايوبيوں كے دشمن تھے_ ہلاكو خان نے اس موقع سے فائدہ اٹھايا اور اپنے سپاہوں كو شام كى طرف حركت دى ، ليكن مصرى خاندان غلاماں كے اميرقدوز نے سال ۶۵۸ قمرى ميں منگولوں كو عين جالوت كے علاقے ميں شكست دى _

____________________

۱) سات صليبى جنگوں كے اسلامى تہذيب و تمدن پر اثرات كے بارے ميں مزيد جاننے كيلئے رجوع فرمائيں عبداللہ ناصرى طاہرى ، علل و آثار جنگہاى صليبي، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامى ۱۳۷۳، ص ۴۷_۳۷_

۱۷۹

منگولوں كے زمانہ ظہور سے ہى عيسائي انكے حليف بننے كے خواہشمند تھے _ انہوں نے بہت سے سفراء منگول دربار بھيجے تھے _ ايك طرف منگولوں كى مغرب كى طرف تيزى سے حركت نے انہيں منگولوں كى طاقت سے آگاہ كيا دوسرى طرف سے مسلمانوں كى جنگ عين جالوت ميں فتح سے وہ اس انديشہ ميں پڑے كہ خاندان مماليك(غلاماں ) عيسائيوں كيلئے بہت بڑا خطرہ ہيں اسى لئے انہوں نے منگولوں كے ساتھ اتحاد كا ارادہ كيا پايائے اعظم اوربن چہارم نے ہلاكو خان كى طرف خط بھيجا _ اس ميں اس نے ہلا كوخان كے عيسائيوں كے ساتھ طرز عمل كى تعريف كرنے كے ساتھ ساتھ اسے عيسائيت قبول كرنے كى دعوت دى _

ہلاكوخان خط پہچنے سے پہلے ہى ۶۶۳/۱۲۶۴ عيسوى ميں مرگيا اور اسكا بيٹا اباقاخان اسكا جانشين مقرر ہو ا نئے خان نے بادشان بيزانس (قسطنطنيہ)كى بيٹى سے شادى كى ہوئي تھى اور دين مسيحيت قبول كر چكا تھا وہ عين جالوت كى شكست سے سخت رنجيدہ تھا اپنے اسلاف سے بڑھ كرعيسائي دنيا سے روابط كا خواہشمند تھا _ بہت سے سفرا جو منگولوں كے خان سے مغرب كى طرف جاتے تھے عيسائي تھے اور كوشش كررہے تھے كہ عيسائيوں كو يروشليم اور بيت المقدس پر حملہ ميں اپنا حليف بنائيں _

ليكن ابا قاخان كو ۶۸۰ قمرى /۱۲۸۲ ميں حمص كے مقام پر سلطان قلاوون كى طرف سے شديد شكست كا سامنا كرنا پڑا_ جب احمد كلودار نے اسلام قبول كيا اور مسند حكومت پر متمكن ہوا تو مماليك اور منگولوں ميں دوستانہ روابط پيدا ہوئے تو سلطان قلاوون نے موقع سے فائدہ اٹھايا اور اپنى پورى طاقت كو صليبيوں كے خلاف استعمال كيا اسكے بعد اسكے فرزندملك اشرف شرف نے بھى باپ كى روش كو جارى ركھا اور ۰ ۶۹ قمرى ۱۲۹۱ عيسوى ميں صليبوں كے آخرى گروہ كو شام سے نكالا_ منگولوں اور مماليك كے درميان دوستانہ روابط زيادہ عرصہ نہ چل سكے _ نتيجہ يہ ہوا كہ دونوں ميں جنگ ہوئي غازان خان نے مصر اور شام پر قبضہ كيا ليكن مماليك كى فوج نے بالآخرہ منگولوں كو ۷۰۲ /۱۳۰۳ عيسوى ميں ہميشہ كيلئے شام سے نكال ديا _(۱)

____________________

۱) عبداللہ ناصرى طاہر ، سابقہ حوالہ، ص ۹۳ _ ۹۲_

۱۸۰