اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 21%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 144790 / ڈاؤنلوڈ: 5488
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

11 ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

12 ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً 20 آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

13 ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

14 ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

15 ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت 3)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

16 ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت 173)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

17 ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت 9)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت 95)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت 130)

۵۳

18 ۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔

19 ۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ

فقل هل لک الی ان تزکی و اهد یک الی ربک فتخشی ٰ( سورہ النازعات آیت 19)

”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“

۵۴

20 ۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔

21 ۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔

22 ۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔

23 ۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔

ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسهم ( سورہ رعد آیت 11)

۵۵

24 ۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔

25 ۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات

اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۵۶

1 ۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:

اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۵۷

3 ۔ سہولت اور آسانی:

رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“( 1) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔

ماجعل علیکم فی الدین من حرج

( سورہ حج آیت 87)

”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:

اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:

لا رہبانیۃ فی الاسلام

”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“

پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۸

5 ۔ اجتماعی ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی:

اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۵۹

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:

جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

8 ۔ شوریٰ کا حصول:

اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

منگولوں كا حملہ اور اسكے نتائج

اسلامى دنيا كو تاريخ ميں اگر چہ اغيار كے حملوں كے تجربات ہوئے ليكن كم كہہ سكتے ہيں كہ ان ميں سے كوئي تجربہ بھى منگولوں كے حملہ كى مانند شديد اور تلخ تھا ہم اس مختصر سے تبصرے ميں كوشش كريں گے كہ اسلامى تہذيب و تمدن كے جمود ميں وحشى منگولوں كے ہولناك طوفانى حملوں كے كرداد كا جائزہ ليں _

اسلامى دنيا پر منگولوں كا حملہ

منگولوں كے قبائل كے مقتدر سر براہ چنگيز خان نے اپنے ماتحت قبايل كى ضروريات پورى كرنے كيلئے ہمسايہ ممالك يعنى چين اور ايران كو غارت كرنے كا پروگرام بنايا _ چين اس زمانہ ميں اختلاف اور تفرقہ كا مركز بناہوا تھا_ اس نے سب سے پہلے اس ملك پر حملہ كى تيار كى _ دوسال تك اسكے چين پر حملات جارى رہے ان دو سالوں ميں اس نے اس نعمات سے مالامال ملك كو تباہ و برباد كرديا _ ان حملات كے بعد ابھى اسكا دنيائے اسلام پر تجاوز كرنے كا ارادہ نہ تھا_ كيونكہ اسے ايران كے بادشاہ سلطان محمد خوارزم شاہ كى قوت و طاقت كے حوالے سے بہت سى خبريں مل رہى تھيں _ اس نے كوشش كى كہ سب سے پہلے اس ملك كے حوالے سے دقيق معلومات حاصل كرے اور ساتھ ساتھ كسى بھى عنوان سے اسے حملہ شروع كرنے كا بہانہ بھى مل جائے _(۱) اسى زمانہ ميں خلافت عباسيہ روز بروز اپنى طاقت كھورہى تھى سلطان محمد خوارزم شاہ خراسان ميں اپنى پے درپے كاميابيوں كے بعد اور ہندوستان سے بغداد تك اور آرال كے دريا سے خليج فارس تك ايك متحدہ حكومت تشكيل ديتے ہوئے اس كا ارادہ تھا كہ عباسى خليفہ كوہٹا كر اپنا من پسند خليفہ لائے اور يہ اقدام سلطان محمد خوارزم شاہ كى بہت بڑى غلطى تھى اسكى بناء عباسى خليفہ مجبور ہوا كہ محمد خوارزم شاہ كى حكومت تباہ كرنے كيلئے چنگيز خان سے مدد مانگے_

____________________

۱) شيرين بيانى ، مغولان و حكومت ايلخانى در ايران ، تہران _ ص ۱۷ _۱۰_

۱۸۱

اگر چہ يہ موضوع چنگيزخان كيلئے مناسب بہانہ بن سكتا تھا ليكن ايران پر ۶۱۵ /۱۲۱۸ عيسوى ميں حملہ كى اصلى وجہ منگولوں كا وہ تجارتى قافلہ بنا جو كہ خوارزم شاہ كى مملكت كے مشرقى سرحدى علاقہ ميں شہر اترا ر كے حاكم كے ہاتھوں تباہ و برباد ہوا اور اس قافلہ ميں سوائے ايك شخص كے تمام افراد قتل ہوگئے يہ وہى وقت تھا كہ چنگيز خان نے ايران پر حملے كا حكم صادر كيا _(۱)

منگولوں كى پيش قدمي

منگولوں كا ايك لشكر چنگيز كے بيٹے تولى كى كمانڈ ميں جنوب كى طرف بڑھا جبكہ دوسرے منگول لشكر چنگيزكے بيٹوں اكتاى اور جغتاى كى كمانڈ ميں اترار كى طرف روانہ ہوئے اور خود چنگيز بھى ۶۱۶ قمري/ ۱۲۲۰ عيسوى ميں كاشمر اور بلا ساقوں شہروں سے ہوتا ہوا كہ جو پہلے سے منگولوں كے قبضہ ميں آچكے تھے بخارا كى طرف بڑھا_

سلطان محمد خوارزم شاہ كہ جسے ابھى تك منگولوں كا سامنا نہيں ہوا تھا سمرقند سے بخارا اوربخارا سے سيحون كى طرف لشكر كے ساتھ بڑھا اس دوران اس نے تمام صوبوں سے فوج كو جمع كرنے كا حكم ديا _ منگولوں كے ساتھ جنگ ميں سلطان محمد خوارزم شاہ كى فوج پر ايسى سخت ضرب لگى كہ اگر اسكے شجاع بيٹے جلال الدين كى جانفشانى نہ ہوتى تو ہ خود بھى اس لڑائي ميں مارا جاتا بہر حال شكست نے سلطان محمد كے دل ميں ايسا خوف ڈالا كر وہ مازندران كى طرف فرار ہوا اور وہاں سے كسى جزيرہ ميں پناہ لى اور وہيں غم سے جان دي_(۲)

منگولوں كا پہلا نشانہ شہر اترار تھا كہ وہاں انكا تجارتى قافلہ لوٹا گيا تھا لہذا سب سے پہلے انہوں نے اسى شہر كا محاصرہ كيا پانچ مہينے كى مزاحمت كے بعد شہر والوں نے ہتھيار ڈال ديے حملہ آور منگولوں نے كسى پر رحم نہ كيا سب كو خاك و خون ميں غلطاں كرديا منگولوں نے يہاں سے مملكت ايران كو ويران كرنا شروع كيا اور پھر جو

____________________

۱) عباس اقبال آشتيانى ، تاريخ مغول و اوايل تيمور در ايران ، تہران_

۲) شيرين بيانى ، دين و دولت در ايران عہد مغول ، تہران ص ۱۹_۱۴_

۱۸۲

بھى شہر انكے راستے ميں آيا سب شہر والوں كا قتل عام كيا اور پھر اس شہر ميں سوائے خاكستر كے كوئي چيز باقى نہ رہنے ديتے _

انہوں نے سمرقند ، بخارا ، خوارزم ، بلخ ، مرو ، ہرات اور ديگر تمام شہروں اور قصبات كو تباہ و برباد كيا اور بعض ديہاتوں ميں تو پالتو جانوروں پر بھى رحم نہ كيا بالخصوص وہ شہر كہ جہاں كچھ مزاحمت ہوئي وہاں كسى چيز كو نہ چھوڑا گيا _ مثلا جب چنگيز كو دس ماہ تك طالقان كے لوگوں كى مزاحمت كا سامنا كرنا پڑا تو اس نے اپنے بيٹوں (جغتاى ، اوكتاى ، تولي) كو مدد كيلئے بلايا تو ان لوگوں كى مزاحمت اور جغتاى كے قتل ہونے كى سزا كا انتقام ايسے ليا كہ اس شہر ميں كسى كتے اور بلى كو بھى زندہ نہ چھوڑا _(۱)

چنگيز كے جانشين اور عالم اسلام پر حملوں كا تسلسل

۱۰ رمضان ۶۲۴ قمر ى اور ۱۲۲۷ عيسوى ميں چنگيز خان مرگيا اس نے اپنى موت سے قبل مشرقى ممالك كى سلطنت تولى كے حوالے كى اور مغربى ممالك كى پادشاہى اكتاى كو بخشى ۵ ۶۶ قمرى ۱۲۵۳ عيسوى ميں چنگيز كے پوتے ہلاكو خان كو ايشيا كے معاملات كى ذمہ دارى ملى تا كہ ايران كى تمام مقامى حكومتوں كوختم كرتے ہوئے ايك واحد منگولى حكومت كو تشكيل دے _ اس نے فرقہ اسماعيليہ كى ۱۷۰ سالہ حكومت كو بھى ختم كيا اور ايران كے تمام قبايل اور گروہوں كو اپنے مقابل سر تسليم ختم كرنے پر مجبور كيا _

ليكن ہلاكوخان كى سب سے بڑى كاميابى بغداد يعنى اسلامى خلافت كے مركز كو فتح كرنا تھى اس نے بغداد پر چارو ں طرف سے حملہ كرنے كا حكم ديا چھ دن مزاحمت كے بعد ۴ صفر ۶۵۵ يا ۱۲۵۷ عيسوى ميں اہل بغداد نے ہتھيار ڈال ديے كچھ افراد كے علاوہ باقى تمام شہر والوں كو قتل كرديا گيا اسكے بعد ايك ايك كركے عراق كے تمام شہروں پر منگولوں كا قبضہ ہوتا چلا گيا ہلاكوخان بغداد كو فتح كرنے كے بعد آذربايجان كى طرف روانہ ہوا

____________________

۱) ج ، ج ساندوز ، تاريخ فتوحات مغول ، ترجمہ ابوالقاسم حالت ، تہران ، امير كبير ، ج ۲ ص ۱۱۴_

۱۸۳

اس نے پہلے مراغہ اور بعدميں تبريز ميں سكونت اختيار كى اسكے بعد عراق مكمل طور پر اور خاص طور پر افسانوى شہر بغداد يعنى اسلامى خلافت كے مركز كى سياسى اہميت ختم ہوگئي اور منگول اپنى حاكميت كے اختتام تك يعنى ۷۳۴ قمرى ۱۳۳۵ عيسوى تك اس سرزمين پر قابض رہے(۱) _

منگولوں كى پيش قدمى كا اختتام او ر ايلخانى حكومت كى تشكيل

ہلاكوخان كى مسلسل يہى كوشش تھى كہ ماوراء النہر ميں دريائے جيحوں سے بحيرہ روم كے مشرق اور مغرب ميں مصر تك اسكى بادشاہت كى حدود پر اسكا تسلط برقرار رہے _ اسى ليے اس نے شام و سوريہ پر حملہ كيا انہى سالوں ميں مصر اور قاہرہ خاندان مماليك (غلاماں )كے ہاتھوں ميں تھا اور وہ دنيائے اسلام كے دفاع كى ذمہ دارى اپنے كندھوں پر محسوس كرتے تھے انہوں نے منگولوں سے كوئي سمجھوتہ نہ كيا اور فلسطين ميں عين جالوت كے مقام پر منگولوں كو سخت شكست فاش سے دوچار كيا اسطرح منگولوں كا ناقابل شكست والا طلسم ہميشہ كيلئے ٹوٹ گيا اسكے بعد شام ميں منگولوں كے ما تحت علاقے انكے ہاتھوں سے نكل گئے اور دوبارہ مصر كے مماليك ان علاقوں پر حكومت كرنے لگے اسكے بعد ديگر جنگى معركوں ميں منگولوں كو شكست ديتے ہوئے انہوں نے دريائے فرات كو اپنے اور منگولوں كے درميان سرحدى پٹى قرار ديا _

جنگى معركوں ميں كئي دفعہ ہارنے كے باوجود ہلاكو خان نے اپنى بادشاہى اور فوجى قوت كو مستحكم كرتے ہوئے '' ايلخان'' كے نام سے اپنى حكومت كا اعلان كيا اسكى حكومت كى حدود شرق ميں دريائے جيحون اور مغرب ميں مصر تك اور شمال ميں قفقاز اور جنوب ميں خليج فارس تك پھيلى ہوئي تھيں _

ہلاكو خان ۶۶۳ قمرى اور ۱۲۶۵ عيسوى ميں ۴۸ سال كى عمر ميں دنيا سے رخصت ہو ا اسكے بعد ۶۵۴ سے ۷۳۶ تك آٹھ ايل خانوں نے حكومت كى _ آخرى ايلخان منگول بادشان جو كہ لا ولد تھا بہت زيادہ عيش و عشرت كى بناء پر ۷۳۶ قمرى اور ۱۳۳۶ عيسوى ميں فوت ہوا اسكے بعد حكومت كے دعويدار اختلافات كا شكار

____________________

۱) رشيد دو ، لى _ شن ، سقوط بغداد، ترجمہ اسداللہ آزداد ، مشہد ، انتشارات آستان قدس رضوى ، ص ۲_ ۱۴۱_

۱۸۴

ہوئے جسكى بناء پر ايل خان مختلف ٹكڑوں ميں بٹ گئے _(۱)

منگولوں كے دور ميں اسلامى دنيا كى تہذيبى صورت حال كا جائزہ

دوسو سال پر محيط منگولوں كى حكومت كا دور اسلامى ممالك كى تاريخ ميں ايك انتہائي تكليف وہ دور شمار ہوتا ہے _ كہ اس دور ميں منگولوں كى وحشيانہ حركات كى بناء پر اسلامى تہذيب و تمدن كو ناقابل تلافى نقصانات پہنچے _ منگولوں كى وحشيانہ تباہى سے پہنچنے والا ايك ناقابل تلافى نقصان بغداد پر قبضہ كے وقت كتابخانوں كو تباہ كرنا اور چند ہزار جلد كتاب كو آگ كى نذر كرنا تھا _

ابن خلدون كے بقول منگولوں نے اسقدر زيادہ اور بے شمار كتابوں كو دريائے دجلہ ميں پھينكا كہ ان كتابوں سے دريا ميں گويا ايك پل بن گيا كہ ديہاتوں كے لوگ اور گھوڑ سوار اس پل كے ذريعہ ايك كنارے سے دوسرے كنارے تك جاتے تھے_ بغداد كى تباہى كے ساتھ اسلامى خلافت كا مركز اور دنيائے اسلامى كا سياسى اقتدار بھى ختم ہو گيا اور اسلامى مقدس مقامات مثلا مساجد ، مدارس اور علمى حوزات ويران ہو گئے يا يہ كہ علمى تحقيقات اور ترقى سے محروم ہو گئے_(۲)

ليكن اسى راكھ سے اسلامى تہذيب و تمدن نے دوبارہ جنم ليا اوراس طرح نشو و نماپائي كہ كافر منگول بھى متاثر ہوئے بلكہ اسلامى تہذيب كے عاشق ہو گئے_ اور اسى دور ميں اسلام كے بہت سے عظيم اديب اور دانشور ظاہر ہوئے جن ميں سے ہر ايك نے اپنے مقام پر اسلامى تہذيب و تمدن كے احياء كيلئے بہترين كردار ادا كيا ان عظيم لوگوں ميں مثلا مولوى ، سعدى ، حافظ ، عطا ملك جوينى اور خواجہ نصير الدين طوسى قابل ذكرہيں _ مثلا خواجہ نصير الدين طوسى كے حوالے سے كہا جاتا ہے كہ ہلاكو خان ان سے اس قدر متاثر تھا كہ جو وقت خواجہ معين فرماتے وہ اس وقت سفر پر روانہ ہوتا يا كوئي كام كرتا شايد يہى مسلمان دانشوروں كا دانشمندانہ اور شايستہ طرز عمل تھا كہ اسلامى تہذيب دوبارہ ثمر آور ہوئي اور وہ قوم منگول كہ جس نے اسلام كو تباہ كرنے كيلئے كمر

____________________

۱) شيرين بيانى ، مغولان و حكومت ايلخانى در ايران _ ص ۷۶_

۲) اشپولر ، سابقہ حوالہ ، ص ۴ _۱۷۰_

۱۸۵

باندھ ركھى تھى وہ اب اسلام كہ حامى اور مروّج بن چكى تھى اسى زمانہ ميں اسلامى اور ايرانى تہذيب و تمدن چين كى طرف منتقل ہوا اوراد ہر سے چينى علوم بھى سرزميں ايران ميں پھيل گئے بالخصوص چينى ماہرين فلكيات كا ايران ميں گر مجوشى سے استقبال ہوا اور انكے تجربات سے خوب فائدہ اٹھايا گيا _

الغرض ہم كہہ سكتے ہيں كہ منگولوں كے حملہ نے مسلمانوں كى مادى اور معنوى زندگى كو بہت زيادہ حد تك ويران كرديايہاں تك كہ اس دور كا علمى زوال اور معاشرتى سطح پر فقر و نادانى تاريخ كے كسى دور سے قابل موازنہ نہيں ہے _ حقيقى بات يہى ہے كہ اگر وحشى منگول ايران اور تمام اسلامى ممالك پر حملہ آور نہ ہوتے اور يہ سب ضرر و نقصان نہ پہنچتا تو آج اسلامى ممالك بالخصوص ايران كے حالات كچھ اور طرح ہوتے_

۳: سقوط اندلس

بلاشبہ اسلامى تہذيب و تمدن كے تاريخى سفر ميں سقوط اندلس اور دنيا كے اس خطہ ميں مسلمانوں كى حكومت كا زوال ايك تلخ ترين واقعہ ہے_ اندلس كا وہ اسلامى معاشرہ كہ جو آٹھويں صدى سے پندرھويں صدى تك مسلسل علمى ، معمارى ، ثقافتى اور فنى شاہكار كو وجود ميں لاتا رہا آخر كيوں ضعف اور پس ماندگى كا شكار ہو كر تاريخ كا حصہ بن گيا اور دنيا كے سياسى نقشہ سے اس اسلامى تمدن كا وجود مٹ گيا ؟

اندلس مسلمانوں كى فتح سے پہلے

جزيرہ ايبرے كے وہ حصے بحيرہ روم جو انہ كے ساتھ ساتھ اسپين كے جنوب اور پرتگال كے جنوب مشرق ميں موجود ہيں انہيں يا پورے جزيرہ ايبرے كو مسلمانوں نے اندلس كا نام ديا _ '' كلمہ اندلس'' جرمنوں كے ايك قبيلہ واندال كے نام سے ليا گيا تھا كہ جو پانچويں صدى كے آغاز ميں مغربى روم كى بادشاہت كے مختلف حصوں ميں بٹ جانے كے بعد اسپين كے جنوب ميں آباد ہوئے _

ظہور اسلام سے قبل اندلس پرواندالوں اورويزگوٹوں نے حملہ كيا يہ قبائل پير نيز كى پہاڑيوں كو عبور كرنے

۱۸۶

كے بعد اندلس ميں داخل ہوئے كئي سالوں كى جنگ اور خونريزى كے بعد واندال قبيلہ مغرب پر جبكہ ويزيگوٹ قبيلہ اندلس پر قابض ہو گيا ويزيگوٹ لوگ آغاز ميں كيتھو لك نہ تھے جبكہ اندلس كے مقامى لوگوں كى اكثريت كيتھولك عيسائيوں پر مشمل تھى _ بہر حال ۵۸۹ عيسوى ميں وہاں بڑى تبديلياں ہوئيں بادشاہ اور ويزيگوٹوں كے روساء مذہب كيتھولك ميں داخل ہوئے _

آٹھويں صدى كے آغاز ميں ويزيگوٹوں كے طبقہ اشراف اوررومى لوگوں كے ثروت مند لوگ آپس ميں گھل مل گئے يوں ايك اميراور ثروت مند لوگوں كا طبقہ تشكيل پايا كہ جنہوں نے تمام تجارتى اور اجتماعى امتيازات خودحاصل كرليے اور باقى لوگوں كو اقتصادى حوالے سے اپنا محتاج بنا ديا جسكى بناء پر عام لوگ ان سے ناراض ہوئے _ ويزگوٹوں كى حكومت كى كمزورى كے اسباب كو چار اقسام ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے ۱_ امراء كے طبقات ميں جانشينى كے معاملہ پر اختلافات ۲_ معاشرے كے ديگر لوگوں كا امراء طبقہ كے امتيازات پر ناراضگى اختيار كرنا اور سپاہيوں كا غير قابل اعتماد ہونا ۳_ عقائد كى جانچ پڑتال اور يہوديوں كا تعاقب اور انہيں گرفتار كركے اذيتيں دينا ۴_ اقتصادى حوالے سے برے حالات(۱)

مسلمانوں كے ہاتھوں اندلس كى فتح

اس زمانہ ميں افريقا اور مغرب كا حاكم موسى بن نصير تھا جب وہ ويزيگوٹوں كى حكومت كے زوال سے مطلع ہوا اسے اندلس كى تسخير كا اشتياق ہوا تو اس نے اپنے غلام طارق بن زياد كو حكم ديا كہ سال ۹۲ قمرى /۷۱۱ عيسوى ميں تنگ دروں كو عبور كرتے ہوئے كہ جنہيں بعد ميں جبل الطارق كا نام ديا گيا ايك ہزار سپاہيوں كے ساتھ اسپين كى سرزمين پر اترے اور اس جگہ كو فتح كرے _ طارق بن زياد نے اسپين ميں داخل ہوتے ہيں ويزيگوٹوں كے بادشاہ كو شكست دى اور اسپين كے مركز تك پيش قدمى كى اور اس نے ايك سال ميں ہى اندلس كو جنوب سے شمال تك فتح كر ليا دوسرى طرف سے موسى بن نصير نے ۹۳ رمضان ميں ايك عظيم سپاہ كے

____________________

۱) دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج ۱۰ ، ص ۳۲۳ ، ذيل ، انڈلس_

۱۸۷

ساتھ جبل الطارق سے گزتے ہوئے اندلس كے اہم شہروں كو فتح كيا اور طارق سے جاملا _

البتہ بعض مورخين كا خيال ہے كہ ابتداء ميں عرب لوگ انڈلس كى مكمل فتح اور وہاں رہنے كے موڈميں نہ تھے وہ محض كچھ مال غنيمت ليكر واپس افريقا جانے كے خيال ميں تھے ليكن طارق كى غير متوقع وسيع پيمانے پر كاميابى نے انكى سوچ بدل دي_(۱)

اسلامى حكومت كے دور ميں اندلس كى سياسى تاريخ

مسلمانوں كى حكومت كے دوراں اندلس كى سياسى تاريخ مجموعى طور پرتيں ادوار ميں تقسيم ہوتى ہے_

الف) اندلس دمشق كى مركزى اموى حكومت كا ايك حصہ (۱۳۲_۹۸ قمرى / ۷۵۵_۷۱۶ )عيسوي

اس زمانہ ميں دمشق كى خلافت كى سرحدوں ميں اندلس افريقہ كى حكومت (آج كا تيونس)كا ايك حصہ شمار ہوتا تھا انڈلس كے حاكموں كا تقرر افريقہ كے والى كرتے تھے جو قيروان ميں سكونت پذير تھے_ ان سالوں ميں تقريبا بيس افراد اندلس كے حاكم ہوئے كہ ان ميں صرف دو شخص پانچ يا پانچ سے زيادہ سالوں تك حكومت كر سكے اسى زمانہ ميں اندلس كے حكمران مزيد اسلامى فتوحات كے پروگرام ميں رہا كرتے تھے_

ب) اندلس پر اموى حاكموں كا جداگانہ سلسلہ (۴۲۲_ ۱۳۸ قمري) / (۱۰۳۱ _ ۷۵۵عيسوي)

اموى حكام نے تين صديوں تك اندلس پر حكومت كى اس سلسلہ ميں سولہ بادشاہ گذرے سب سے پہلے بادشاہ كا نام عبدالرحمن بن معاويہ بن ہشام تھا( ۱۷۲_۱۳۸ قمرى /۷۸۸_ ۷۵۵عيسوي)اور اس سلسلہ كے آخرى بادشاہ كا نام حسان بن محمد تھا (۴۲۲_ ۴۱۸قمري/۱۰۳۱_۱۵۲۷ عيسوي) اموى حكومت كے دوران

____________________

۱) حسين مونس ، سپيدہ دم انڈلس ، ترجمہ حميد رضا شيخى ، مشہد ، آستان قدس رضوى ، ص ۳۶_۲۵_

۱۸۸

اندلس كى شمالى سر حديں كئي بار تبديل ہوئيں جزيرہ ايبرے كے شمال ميں اسلامى حكومت كى حدود بالخصوص شمالى سر حديں كئي بار تبديلى ہوتى رہيں اندلس پر عظمت اور نعمات كى فراوانى كا دور تھا ليكن آہستہ آہستہ اموى حكومتى خاندان ميں اندرونى اختلافات اور ان اختلافات كاعواى سطح تك پھيل جانے سے اندلس كى تاريخ ميں ايك غمگين دور شروع ہوا ور اس خطہ كا عروج ، ثروت اور ترقى اندرونى جنگوں كى نذر ہوگئي_

ج) اندلس ميں جاگير دارانہ دور ۸۹۸_ ۴۲۲ قمري/ ۱۴۹۲_۱۰۳۱عيسوي

امويوں كے زوال كے بعد سرزمين اندلس كا شيرازہ بكھر گيا _ بنى حمود وادى الكبير كے اكثر شہروں اور تقريبا دريائے شنيل تك كے علاقے پر حكومت كرنے لگے اسى زمانہ ميں عرب كے متعدد خاندان اور جاگير داروں كے متعدد سلسلوں نے مختلف شہروں كو اپنے قبضہ ميں لے ليا ۴۷۸ قمري/۱۰۸۵ ميں طليطلہ كے سقوط كے بعد مرابطوں نے تقريبا آدھى صدى تك اندلس پرحكومت كى اس حكومت كى حدود ميں نہ صرف يہ كہ مكمل مراكش اور موريطانيہ تھا بلكہ جنوب ميں دريائے اور رسٹگال تك اور شمال ميں مراكش كے مغربى حصہ تك انكى حكومت تھى اندلس ميں مرابطوں كى حكومت زيادہ عرصہ تك نہ چل سكى بلكہ بربروں كے موحدون نامى ايك اور گروہ نے ۵۴۱ قمرى /۱۱۴۵ عيسوى ميں مرابطوں كے بربرى سلسلہ كو ختم كرديا_ مرابطوں كے زوال كے حوالے سے مختلف اسباب ميں سے ايك يہ تھا كہ اس سلسلہ كے رؤساء ، افسر لوگ اور ديگر بلند پايہ حكام زرق و برق تہذيب اور اخلاقى بدعمليوں ميں غرق ہو چكے تھے_(۱)

موحدوں كے زمانہ ميں اندلس عيسائيوں كے پے درپے حملوں كى زدميں تھا اندلس كے مشرق و مغرب كے علاقے ايك ايك كركے عيسائيوں كے ہاتھوں ميں آگئے يہانتك كہ ساتويں صدى كے وسط ميں اندلس كے شمال ، مغرب اور مشرق كے تمام اسلامى شہروں پر عيسائيوں كا قبضہ ہو گيا اور اندلس كى اس عظيم مملكت ميں صرف جنوبى شہر عزناطہ اور چند چھوٹے شہر مسلمانوں كے پاس رہ گئے موحدوں كى حكومت كے آخرى ايام ميں

____________________

۱)محمد ابراہيم آيتى ، انڈلس يا تاريخ حكومت مسلمين در اروپا ، انتشارات دانشگاہ تہران_

۱۸۹

انكے مخالف محمد بن يوسف نصرى كہ جو ابن احمد كے نام سے معروف تھا اس نے سال ۶۳۵ قمري/ ۱۲۳۸ عيسوى ميں غرناطہ كے عليحدہ ہونے كا اعلان كيا عيسائي اندلس كے بڑے شہروں پر قبضہ كے بعد كئي بار ابن احمد كى مملكت پر حملہ آور ہوئے ليكن غرناطہ كے سپاہيوں نے سختى كے ساتھ انكے حملے كو پسپا كرديا بنى احمد با بنى نصر نے ڈھائي صديوں سے زيادہ مدت تك اندلس كے جنوب پر حكومت كى بالاخر ۸۹۸قمري/ ۱۴۹۲ عيسوى ميں اسلامى شہر غرناطہ فرنانڈو پنجم كے ہاتھوں سقوط كر گيا اور بنى نصر كے اخرى امير ابو عبداللہ كے فرار كے ساتھ اندلس مكمل طور پر مسلمانوں كے ہاتھوں سے نكل گيا_(۱)

اندلس كے علمى اور ثقافتى حالات كا جائزہ

انڈلس اپنى جغرافيائي حيثيت كى بنا پر ہميشہ سے عالم اسلام اور مغرب كا مركز توجہ رہاتھا با لفاظ ديگر دنيا كے اس خطہ نے مسلمان حكومت كى بركت سے چند صديوں تك مشرق و مغرب كے درميان رابطہ كے پل كا كردار ادا كيا _ علمى اور ثقافتى پہلوں سے كئي ميدانوں ميں واضح ترقى كى مثلاً اندلس ميں ديگر اسلامى ممالك كے اثرات كى بناء پر علوم قرآنى كے دائرہ ميں علوم حديث اور فقہ ( فقہ مالكي) نے وسعت اختيار كى _

جہاں تك تجرباتى علوم كا تعلق ہے اندرونى اختلافات كى بناء پرحكم دوم كى حكومت(۳۶۶،۳۵۰قمري) كے زمانہ تك واضح ترقى نہ كر سكا البتہ اسكے زمانہ حكومت ميں علم كى مختلف اقسام ميں كافى ترقى ہوئي يہانتك كہ قرطبہ كى لائبريرى ميں تقريباً چار لاكھ تك كتابوں كى تعداد موجود تھى _

علم طب ميں اندلس نے بہت زيادہ ترقى كى اس سرزمين پر بہت سے حاذق اطبا ظاہر ہوئے _ فلسفہ ، كلام شعر اور ادبيات كے حوالے سے بھى اسلامى اور يورپى سرزمينوں كى سرحد پر واقع ہونے كى وجہ سے ثقافتى تبادلہ كے دروازہ كا كام ديتا رہا اور معروف و مشہور شخصيات كى پرورش كى _ ہنر و فنون كے اعتبار سے بھى اندلس

____________________

۱) دايرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۱ ذيل اندلس (عنايت اللہ خاكى ناد)_

۱۹۰

نے بہت ترقى كى اس دور كے بعض آثار ہنر و فن ہميشہ اسلامى تہذيب و تمدن كا فخر شمار ہوتے رہے مثلا معمارى كے حوالے سے مسجد قرطبہ ، شہر الزہرا اور مدينة الحمراء كى طرف اشارہ كيا جا سكتا ہے كہ ہر مقام اپنى جگہ پراس دور كے يورپ ميں اسلامى فن معمارى كا عجوبہ شمار ہوتا تھا_

اس طرح ديگر فنون مثلاًخطاطى اور مٹى كے ظروف بنانے كے حوالے سے انتہائي اہميت كے حامل آثار وجود ميں لائے گئے جو آج بھى اندلس ميں اسلامى تمدن كے درخشان دور كى تصوير ہيں _(۱)

عيسائيوں كے ہاتھوں اندلس كے سقوط كے اسباب

اندلس ميں مسلمانوں كے زوال پر مختلف نظريات پيش ہوئے ہيں كہ ان نظريات كو تين اقسام اندرونى اسباب ، بيرونى اسباب اور جيوپوليٹيكل اسباب ميں تقسيم كياجا سكتا ہے:

الف: اندلس ميں مسلمانوں كے زوال ميں موثر اندرونى اسباب

جب بنى اميہ كے زمانہ ميں مسلمانوں نے اندلس كو فتح كيا اس زمانہ ميں اسلامى نظام ميں بہت سى بدعات اورانحرافات پيدا ہو چكے تھے كہ ان ميں چند مندرجہ ذيل ہيں :

۱_ وہ اسلامى حكومت كہ جو اہل سنت كے عقيدہ كے مطابق پيغمبر اكرم (ص) كے بعد لوگوں كى خليفہ سے بيعت پر تشكيل پاتى ہے اب ايك خاندان كى وراثتى اور آمريت پر مبنى حكومت ميں تبديل ہوچكى تھى حاكم بجائے اسكے كہ الہى احكام كا اجراء كرتاصرف اپنى ذاتى خواہشات كى پيروى كرتا تھا _

۲_ مساوات جو كہ اسلامى نظام كا ايك اہم ركن شمار ہوتى تھى ختم ہو چكى تھى حالانكہ قرآن اور سنت پيغمبر (ص) نے فضول برترى كے امتيازات كو باطل قرار ديا تھا اور فضيلت كے معيار كو صرف تقوى اور پرہيزكارى قرار ديا تھا ليكن اموى عربى نسل كو سب سے برتر نسل شمار كرتے تھے اور قريش كو عرب ميں ديگر قبائل پر برتر سمجھتے تھے_

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۳۲۶_

۱۹۱

۳_ حكومت كى درآمدت جوكہ لوگوں كے عمومى امور پر صرف ہونى چاہے تھيں حكومت كى آسايش اور عيش و عشرت پر خرج ہورہى تھيں جسكى وجہ سے عام لوگوں ميں حكومت سے ناپسنديدگى كے جذبات بڑھ رہے تھے_

۴_ لوگوں كو گرفتار كرنا، قيد كرنا،تشدد كرنااور قتل عام كرنا بنى اميہ كے حكام كے روزمرّہ كے معمول تھے وہ حكومتى سپاہيوں سے اپنے مخالفين كو تباہ و برباد كرنے كا كام ليتے تھے_

۵_ زندگى كے معمول ميں ، خوراك ، لباس گھر بار ميں دنياوى عيش و عشرت سے وابستگى بنى اميہ كى حكومت ميں رواج پاگئي تھي_

۶_ شراب پينا ،عورتوں سے شعف ، گانے والى كنيزوں كى خريد و فروخت ، اور زمانہ جاہليت والے اشعار پڑھنا بنى اميہ كے زمانہ كے رواج تھے ،يہ غير اسلامى حركات اسلامى فاتحين كے ساتھ مفتوحہ علاقوں ميں بھى سرايت كر گئيں _

ان تمام اسباب كا مجموعہ بتاتا ہے كہ كسطرح بنى اميہ كى حكومت كے ذريعے مسلمانوں كا انحراف اندلس ميں بھى داخل ہو گيا _ اسلامى اقتدار كے ساتھ ساتھ خاندان بنى اميہ كے انحرافات اور بدعات اور بہت سى بلند پايہ اسلامى تعليمات كا مسنح ہونا ،ايك بڑا سبب تھا كہ جو اندلس كے مسلمانوں كو بتدريج كمزور كرنے كى بنيادى وجہ قرار پايا كہ جسكى بناء پر بيرونى اسباب اور دشمنان اسلام كو پيش قدمى كرنے كا كافى موقع ملا _(۱)

ب: سقوط اندلس كے بيرونى اسباب

بہت سى جنگوں ميں مسلمانوں كى مسلسل كاميابى ، يورپ كے وسيع علاقہ كا فتح ہونا اور عيسائيوں كى صليبى جنگوں ميں ناكامى سے يورپ والوں كو سخت خفت كا سامنا كرنا پڑا ،انہوں نے مسلمانوں كو خاص طور پر اندلس سے پيچھے دھكيلنے كيلئے ايك طويل الميعاد منصوبہ بنايا اس پروگرام كے دو مرحلے تھے ۱_ فوجى حملہ اور اسپين كى سرزمين واپس لينا ۲_ ثقافتى يلغار

____________________

۱_ سيد محمد طہطاوى ، غروب آفتاب در انڈلس ، علل انحطاط حكومت مسلمانان در اسپانيا ،تہران ، دار الصادقين ، ص ۱۷_۱۶_

۱۹۲

۱_ فوجى حملات اور بتدريج اسپين كى سرزمين واپس لينا: اسپين كى سرزمين كو واپس لينا يا دوبارہ فتح كرنا پاپ اعظم كى طرف سے عيسائيوں كيلئے شرعى ذمہ دارى كے عنوان سے القاء ہوا انہوں نے ابتداء ميں كوشش كى كہ چھوٹے چھوٹے علاقوں كو محفوظ كرليں پھر انہيں وسيع كرنے كى كوششوں ميں مصروف ہوئے جن چيزوں نے عيسائيوں كى پيش قدمى ميں مدد كى ان ميں سے ايك عربوں كى بربروں سے جنگ تھى _

اس زمانہ ميں ايك شخص ''آلفونسوپڈرو ''المعروف آلفونسوى اول ،گاليسيا كے علاقہ ميں حاكم تھا جو ايك تجركار ، فہميدہ اور فعال شخص تھا اس نے اس موقعہ سے بہت فائدہ اٹھايااور اسطرح اپنى مملكت كو وسعت دى كہ اسكے بعد مسلمان اسكى حكومت ختم نہ كرسكے اسى وجہ اسپينى لوگ آلفونسوى اوّل (۷۵۷_ ۷۳۹ عيسوي) كى حكومت كو عيسائي اسپين كى حقيقى ولادت قرار ديتے ہيں _ آلفونسوى نے شمالى اندلس كے عيسائيوں كومسلمانوں كے خلاف بغاوت پرابھارا اور كچھ عرصہ بعد يہ علاقے مسلمانوں كے ہاتھوں سے نكل گئے _ اندلس كى حفاظت كيلئے مسلمانوں كى آخرى اميد غرناطہ ميں بنى احمد يا بنى نصر كى حكومت كا ظہور تھا _سلسلہ بنى نصر كى طويل عرصے تك حكومت بحال رہنے كى دو وجوہات تھيں :ايك يہ كہ غرناطہ كى كوہستانى حيثيت اور دوسرا اسكا افريقا كے نزديك ہونا _ يعنى وہ خطرہ كى صورت ميں شمالى افريقا كے مسلمانوں سے مدد كى درخواست كر سكتے تھے_

بہر حال اندرونى مشكلات اور باشكوہ عمارتوں كے بنانے ميں فضول نمود و نمايش اور اسراف سے كام لينے كى وجہ سے يہ حكومت مالى حوالے سے كمزور ہوگئي اسى طرح تخت و تاج پر قبضہ پانے كيلئے اندرونى اختلافات اور مختلف مفادات باعث بنے كہ فرنانڈودوم كے لشكر نے چند مراحل كے بعد مكمل طور پر غرناط كا محاصر ہ كر ليا _

آخر كار مسلمان سمجھ گئے كہ اب اس شہر كا دفاع ممكن نہيں رہا اور انہوں نے ہتھيار ڈال ديے، بنى نصر كا آخرى سلطان اور اسپين كے آخرى مسلمان بادشاہ ابوعبداللہ كے وہاں سے الوداع كے بعد اس علاقے سے اسلامى پرچم ہميشہ كيلئے اتر گيا_(۱)

____________________

۱)سابقہ حوالہ ص ۱۸_۱۷_

۱۹۳

۲_ يورپى عيسائي اور سقوط اندلس كے لئے ثقافتى يلغار كے ذريعے ثقافتى سطح پر اسباب فراہم كرنا:اندلس كے مسلمانوں كے زوال ميں ايك اہم تريں سبب پروپيگنڈا يا دوسرے لفظوں ميں يورپى لوگوں كى اسلام كے خلاف ثقافتى يلغار تھى _ انہوں نے ايك طولانى مدت كے پروگرام كے تحت اسلامى معاشرہ ميں سستى ، لادينيت اور بے پروائي كے بيج بوديے اور مسلمانوں سے سخت انتقام ليا اندلس ميں مسلمانوں كى ابتدائي فتوحات كى ضربات اس قدر سخت تھيں كہ خود پاپ ميدان عمل ميں آگيا اور اس نے اندلس كے مسلمانوں كو تباہ كرنے كيلئے اپنا دينى اثر و رسوخ استعمال كيا اور اس حوالے سے مسلمان سرداروں اور حكام ميں اختلافات سے بھر پور فائدہ اٹھايا _

ايك مسلمان عرب سردار كہ جس نے عيسائيوں كى بہت مدد كى براق بن عمار تھا اس نے عيسائي سرداروں اور كليسا كے عہديداروں كے ساتھ مختلف مباحث اور گفتگو ميں انہيں نصيحت كى كہ مسلمانوں سے براہ راست جنگ كرنے سے پرہيز كريں اور پيمان صلح باندھنے وقت كوشش كريں تا كہ مسلمان معاشرہ اندر سے كھوكھلا ہوجائے اس نے ان سے كہا كہ مسلمانوں كے ساتھ تين چيزوں ميں پيمان صلح باندھيں :دينى تبليغ ميں آزادي، مسلمانوں كو تعليم دينے ميں آزادى اور مسلمانوں كے ساتھ تجارت ميں آزادى _

اسكى نظر كے مطابق پہلى دو چيزوں سے مسلمان لوگ بالخصوص نوجوان ،مسلمان استاد كے حوالے سے اپنى طبيعى احترام كى بنا پر ، يورپى اور عيسائي لوگوں كيلئے ايك طرح كى برترى اور احترام كے قائل ہوجائيں گے اور انہيں مقام كے حوالے سے اپنے سے قوى اور بلند سمھيں گے جسكے نتيجہ ميں مسلمان اپنے عقائد ميں سست اور لاپروا ہوجائيں گے جبكہ تيسرى چيز مسلمانوں ميں خوراك ، پوشاك اور حرام كھانے پينے والى چيزوں كے حوالے سے موثر ہوگى اور انہيں آہستہ آہستہ غير ذمہ دار اور لاپرواہ بنادے گي_

اندلس كے مسلمان حاكموں نے اسى پيمان سے دھوكہ كھايا اور صلح پر راضى ہو گئے _ عيسائيوں كے ساتھ صلح كرنے كے بعد اندلس كے مسلمان اخلاق اور كردار كے حوالے سے فاسد اور تباہ ہوگئے _ عيسائي مبلغين اور

۱۹۴

راہبوں نے خوبصورت اور شاندار تفريح گاہيں بنائيں جن ميں وہ عيسائيت كى تبليغ كيا كرتے تھے مسلمانوں كى شخصيات اتوار والے دن ان تفريح گاہوں ميں جاتى تھيں تا كہ سير و تفريح كے علاوہ عيسائي جوان لڑكيوں كے حسن و جمال كا بھى نظارہ كريں _ اسى زمانہ ميں براق بن عمار كى نصيحت كے مطابق يورپ كى شراب اندلس ميں بہت زيادہ مقدار ميں آنے لگى تا كہ مسلمان جوان ديواليہ ہوں جس كا نتيجہ يہ نكلا كہ شراب خورى مسلمان جوانوں ميں رواج پاگئي _ جو بھى شراب سے انكار كرتا اسے قدامت پسند يا متعصب كا خطاب ملتا _

اب مسلمان نوجوان اپنى دينى اور معاشرتى اقدار كى اہميت كے قائل نہ رہے مساجد صرف بوڑھے لوگوں كے ليے مخصوص ہوگئي جبكہ عشرت كدے اور عيش و شراب كے مراكز نوجوانوں سے بھر گئے جو عيسائي لڑكيوں سے لذت لينے كيلئے وہاں جمع ہوتے تھے_ عيش و عشرت اور تجملات پسندى اسقدر بڑھ گئي كہ ان خواہشات كى تكميل حلال كمائي سے ممكن نہ تھى لہذا اداروں ميں فساد ، رشوت اور لوٹ مار عام ہوگئي _ اشياء كى توليد كرنے والے طبقات مثلا كسان ، كاريگر اور صنعت كار لوگ عدم توجہ كا شكار ہوگئے اور ہر روز غريب ہونے كے ساتھ ساتھ موجودحالات سے ناراض بھى تھے _(۱)

اسكے بعد عيسائيوں نے بعض مسلمان سرداروں كى خيانت كے ذريعے شہر والانس پر قبضہ كر ليا اور اس شہر ميں فجيع جرائم كے مرتكب ہوئے، انہوں نے نہ صرف يہ كہ ہزاروں مسلمانوں كو قتل كيا بلكہ مسلمان خواتين كے ناموس كو ان كے شوہروں كى آنكھوں كے سامنے لوٹا_ انہوں نے اس شہر پر اتنى تيزى سے قبضہ كيا كہ ديگر شہروں كے حكام اپنى فوج كو تيار ہى نہ كرسكے_

بہرحال اس طرح عيسائيوں نے اپنے مكارانہ ہتھكنڈوں سے اسلامى معاشرہ كو آلودہ كرتے ہوئے بتدريج اسپين كے ديگر شہروں پر بھى ايك ايك كركے قبضہ كرليا_

____________________

۱)سابقہ حوالہ ص۲۲_۸_

۱۹۵

ج: اسلامى اندلس كے سقوط كے سياسى جغرافيائي geopolitical اسباب:

اندلس ميں مسلمانوں كى فتوحات كے حوالے سے جغرافيائي سياسى gepolitical اہم نكتہ يہ ہے كہ جزيرہ ايبري(اندلس) مكمل طور پر فتح نہيں ہوا تھا اور مسلمانوں كے مكمل قبضہ ميں نہيں آيا تھا_ بالخصوص اندلس كا شمالمغربى بڑا علاقہ مسلمانوں كى دستبرد سے محفوظ رہا تھا_ اسى طرح اندلس كے ديگر حصوں ميں ايسے علاقے بھى رہے ہيں جہاں مسلمانوں كا مؤثر قبضہ نہ تھا_ اگرچہ اسپين مكمل طور پر عيسائيوں كے ہاتھوں سے نكل چكا تھا _ مگر عيسائيوں نے اسپين كے شمالى سواحل اور خليج بيسكے( Biscay ) كے قريب پٹى اپنے لئے محفوظ ركھى ہوئي تھى تاكہ كسى دور ميں مسلمانوں كے اندرونى اختلافات اور لا ابالى سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسى جگہ سے جنوبى علاقوں پربتدريج قدم بڑھائيں اور آہستہ آہستہ اسپين كو دوبارہ عيسائيت كے دامن ميں لوٹا ديں _(۱)

نتيجہ بحث

عالم اسلام كى اندرونى تبديليوں كا تجزيہ كريں تو معلوم ہوگا مادى اور غير مادى قدرت و طاقت كے حوالے سے مسلمانوں كا زوال صديوں پہلے شروع ہوچكا تھا _ نظام خلافت ميں ضعف ، منگولوں كے حملے اور ان كے كبھى نہ بھرنے والے گھائو مسلمانوں كے زوال كى سرعت كا باعث بنے، اسى زمانے ميں اہل يورپ عالم اسلام سے تجارت اور صليبى جنگوں كے ذريعے پيدا ہونے والے نزديكى تعلقات كى بدولت اپنى ثقافتى اور علمى تحريك و بيدارى كا آغاز كرچكے تھے _

قابل توجہ بات يہ ہے كہ يورپ كى فكرى اور ثقافتى سطح پر نشاط كا آغاز سال ۱۴۵۳ عيسوى يعنى قسطنطنيہ ميں مشرقى روم كى شكست سے ہوا(۲) حالانكہ مسلمانوں كے زوال كا اہم ترين موڑكچھ عرصہ بعد يعنى ۱۴۹۲ عيسوى ميں اندلس كى آخرى اسلامى حكومت كى شكست پر رونما ہوا البتہ دو صديوں كے گزرنے كے بعد يہ تبديلى مكمل طور پر اور موثر انداز ميں اہل يورپ كے حق ميں انجام پذير ہوئي_

____________________

۱)سابقہ حوالہ ص۲۲_۸_

۲) مونتگمرى وات، اسپانياى اسلامى ، ترجمہ محمد على طالقانى ، تہران ، بنگاہ ترجمہ ونشر كتاب ص ۳۲ _ ۱۰ _

۱۹۶

ب:اندرونى اسباب

۱_ استبداد( آمريت)

بشرى تہذيب و تمدن كى تاريخ كے ہر عصر ميں ہم ايسے ادوار كا مشاہدہ كرتے ہيں كہ جنہيں ''آمريت'' كے دور كے عنوان سے ذكر كيا جاتا ہے بعض محققين كى نظرميں آمريت فقط مشرقى سماج كے ساتھ مختص ہے جبكہ ديگر بعض كے رائے كے مطابق تمام بشرى معاشروں اور سماج ميں ايسے مظاہر رہے ہيں _ انپى نظر ميں ہر ملك اپنى تاريخ كے بعض ادوار ميں آمر بادشاہوں كے شكنجہ ميں رہا ہے _

اس گفتگو ميں ہمارے پيش نظر يہ ہے كہ اسلامى تہذيب و تمدن پر آمريت كے اثرات كا تجزيہ كريں اور يہ ديكھيں كہ كيسے اسلامى تہذيب وتمدن كے زوال كے اسباب ميں ايك سبب آمريت بتايا گيا ہے اور يہ كہ خود آمريت يعنى كيا ؟ كيسے پيدا ہوتى ہے ؟ وہ اسلامى معاشرے جو آمريت ميں گرفتار رہے ان كى كيا صفات ہيں ؟

آمريت يا استبداد ( Dictatorship )كى تعريف:

لغت ميں آمريت سے مراد''يكہ و تنہا'' اور ''خود اپنے طور پر ہى كام كرنا '' اور ''اپنى رائے كو مقدم كرنا'' ہے عرب دانشور عبدالرحمان كواكبى كے بقول : ''لغت ميں آمريت سے مراد يہ ہے كہ ايك شخص ايسا كام جو مشورہ سے انجام دينا چاہيے فقط اپنى رائے سے انجام دے ''، كواكبى كى رائے ميں سياسى لحاظ سے آمريت يعنى كسى ملت كے حقوق پر ايك فرد ياگروہ كا بغير كسى مواخذہ كے ڈر كے تسلط پيدا كرناہے _(۱)

اس بناء پر آمريت اپنى رائے اور اپنى پسند كو فوقيت دينے پر مشتمل ايسا نظام ہے كہ جسميں ايك حكومت يا دقت سے ديكھيں تو ايك شخص جو حكومت ميں بعنوان حاكم ہے ،عوام و ملت كے سامنے كوئي عہد اور ذمہ داري

____________________

۱) عبدالرحمان كواكبى ، طبايع الاستبداد، ترجمہ عبدالحسنين قاجار، ترتيب و تدوين صادق سجادى تہران ، ص ۱۶ _

۱۹۷

محسوس نہيں كرتا _ يعنى ايسا نظام كہ جسميں حكومت لا قانونيت پر قائم ہے يعنى موجودہ قوانين اس وقت تك نافذ رہيں گے جب تك آمر انہيں اپنے مفاد ميں پائے گا ،اسى لئے آمرانہ نظام ميں قوانين ميں بہترى كيلئے ترميمات بے معنى اور خالى ہوتى ہيں _(۱)

اسلامى ممالك ميں آمريت كا سرچشمہ

يہ كہ آمريت كا سبب و سرچشمہ كيا ہے مختلف نظريات پيش كئے گئے ہيں _ مشرقى اسلامى معاشروں كے اقتصادى پہلو كے تجزيہ و تحليل سے معلوم ہوتا ہے كہ آمريت كا تسلط ان ممالك ميں ميں اتفاقى نہ تھا ان لوگوں كے طريقہ پيداوار ، سماجى معاملات اور ان معاشروں سے بننے والے مختلف شعبہ جات اس كيلئے راہ ہموار كرتے تھے مثلاً ايرانى معاشرہ كے جائزے سے معلوم ہوتا ہے كہ اس معاشرہ ميں لا محدود آمرانہ قوانين تين اسباب كى بناء پر وجود ميں آتے رہے :

۱_ اقتصاد اور آبپاشى كا طريقہ كار:

ايرانى كسانوں كى گذشتہ ادوار سے اب تك اہم مشكلات ميں سے ايك پانى اورآبپاشى كا مسئلہ تھا_ ايران كے بيشتر زرعى علاقے دنيا كے خشك علاقوں ميں سے شمار ہوتے ہيں اور يہى وجہ بہت عرصہ سے ہمارے ملك كے اقتصادى زوال كا سبب بنى ہوئي ہے(۲) _ اسى موضوع كى بناء پر وقت كى طاقتور حكومتوں نے ايك طرف تو بند باندھے اور نہريں جارى كرتے ہوئے زرعى كاموں كو وسعت دى اورديہاتى لوگوں كى مدد كى تاكہ زراعت كى بھارى ذمہ دارى سے بہتر طريقے سے عہدہ براء ہو سكيں دوسرى طرف اس سہولت سے مكمل فايدہ اٹھايا اور اپنى حكومت اور تسلط كو مستحكم اور پائيدار كيا _

____________________

۱) محمد على كا توزيان، استبداد در دموكراسى ونہضت ملي، تہران ص ۱۲_

۲) مرتضى راوندى _ تاريخ اجتماعى ايران _ تہران _ ج ۲ ص ۲۸۸ _

۱۹۸

۲ _ عمومى مالكيت

جيسا كہ ذكر ہوچكا ہے كہ پانى كے مسئلہ كى بناء پر مركزى حكومت نے كسانوں كو اپنے تابع كرليا تھا زرعى زمين كى وسعت اور پھر اسكى سيرابى كے ليے پانى كے بہت بڑے منصوبے اور ان رزعى زمينوں كے استعمال كے ليے ان منصوبوں كو چلانا ناقابل اجتناب كام تھا_ اسى طرح آبپاشى كے مصنوعى طريقوں كى انتہائي ضرورت بڑے بڑے اداروں كى تشكيل اور ايك فرد كى مطلق حكومت كو بھى اپنے ہمراہ لے آتي_

آمر حكمران سماج كى نمائندگى ميں ان تمام سرزمينوں كا فرضى مالك اور انكے چلانے كا عہدہ دار ہوتا تھا_ اسكے علاوہ حكومت آبپاشى كے وسيع قومى كے اداروں اور پانى كے تمام منابع كى بھى مالك شمار ہوتى تھى _ اسطرح سے ملك كا وسيع حصہ زمين اور پانى كى صورت ميں يعنى پيداوار كے حقيقى وسائل كى صورت ميں حكومت كى ملكيت تھے_(۱)

۳_بيوركريسى (ديوان سالاري)

عمومى مالكيت نے خصوصى حق ملكيت كو تباہ كرديا_ آفيسرز اور كاركنوں كى صور ت ميں حكام كا ايسا طبقہ ظاہر ہوا كہ جو حاكم مطلق كے ماتحت ان تمام زمينوں اور پانى كے ہر منصوبے كى نگرانى كرتا تھا اور انہيں اپنے زير اختيار ركھتا تھا_اسى شعبہ كے تحت ايك بہت بڑا ادارہ وجود ميں آيا كہ جو پورے ملك ميں پھيلا ہوا تھا _ اسطرح ايران كى تاريخ كے ايك مخصوص مرحلہ ميں زمين، آبيارى اور رفاہ عامہ كے امور كے حوالے سے بيوركريسى آگے بڑھتى چلى گئي اور اقتصادى و اجتماعى بنيادوں پر چھا گئي،اس طرح آمر حاكم تمام حكومتى شعبوں اور فوج ، مختصر يہ كہ بيوركريسى كا حاكم شمار ہوتا تھا اور اسكى طاقت مطلق اورلامحدود تھي_(۲)

____________________

۱)مصطفى وطن خواہ_ موانع تاريخى توسعہ نيافتگى درايران _ ص ۹ _ ۱۳۸

۲) سابقہ حوالہ ص ۱۵۶_

۱۹۹

البتہ يہاں واضح كرنا چاہئے كہ يہ آمر بادشاہ اپنے لامحدود اختيارات كى صحيح توجيہ كےلئے آئيڈيالوجى كى مدد ليتے تھے وہ اس تاريخى دور ميں اپنى طاقت كے الہى ہونے كا نظريہ پيش كرتے رہے كہ يہ ايك آسمانى مقدس حكم ہے كہ حكومت انكى نسل ميں منتقل ہوتى رہے اور يہ پرچار كرتے رہے كہ بادشاہ كى خدمت خدا كى خدمت ہے نيز بادشاہ كا حكم بھى خدا كا حكم ہے(۱) _ يقينا اس كام سے انكا مقصود يہ تھا كہ عوام كے دلوں ميں بادشاہ كا مافوق الفطرت رعب و وحشت طارى رہے اور وہ كبھى بھى بادشاہ كے خلاف بغاوت كا خيال بھى ذہن ميں نہ لائيں بلكہ ہميشہ بادشاہ كے تابع اور فرمانبردار رہيں _

آمريت كے نتائج

جيسا كہ پہلے بھى كہا جا چكا ہے كہ ايك آمرانہ سماج ميں تمام مسائل ايك خاص فرد كى پسند اور سليقہ كى بناء پر تشكيل پاتے ہيں شايد كہا جاسكے كہ آمريت كا سب سے معمولى نقصان انفرادى حقوق كا ضائع ہونا ہے _ آمرانہ سماج ميں آمريت كى شكل مخروطى ہوتى ہے يعنى ايك درجہ كے كسى ايك عنصر يا عناصر كے لامحدود و حقوق نچلے درجے كے عناصر كے حقوق سے مطلق بے بہرہ ہونے كے ساتھ جڑے ہوتے ہيں ايك طرف سے حقوق سے كلى محرومى اور دوسرى طرف طاقت و قدرت كى يہ تركيب لوگوں كے اذہان كو تباہى كى طرف ليجاتى ہے اس غلط صورت حال كو برداشت كرنا بالخصوص آزاد ذہنوں كے لئے بہت مشكل ہے _

كيونكہ كسى فرد كى فرديت اس وقت تشكيل پائے گى جب وہ ہميشہ حقوق سے بہرہ مند ہو جبكہ آمرانہ سماج ميں اكثر لوگوں كيلئے حقوق موجود ہى نہيں ہوتے جب تك آمرانہ سماج بنياد سے ہى ختم نہ ہو حقوق ركھنے والا فرض كبھى بھى حقيقت نہيں پاسكتا اور اس صورت حال كا بالآخر نتيجہ حقوق سے مطلق محروميت ہے نہ كہ اكثريت كى طاقت كى قدر اور حفاظت اسى لئے ايسے معاشروں ميں فرديت وجود ميں نہيں آسكتى(۲) _

____________________

۱)فرہنگ رجائي ، تحول انديشہ سياسى در شرق باستان، ص ۸۸_

۲) احمد سيف ، پيش درآمدى بر استبداد سالارى در ايران _ ص ۲۷_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375