اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 15%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 144789 / ڈاؤنلوڈ: 5488
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

لہذا جب آمريت پر مشتمل مختلف اسباب كے تحت بالفاظ ديگرجب تمام چيزيں ايك آمر حاكم كے ارادہ كے تحت وجود ميں آئيں تو ايسے معاشروں كے سماجى معاملات مثلاً اقتصادى ، معاشرتي، سياسى اور بطور كلى اس معاشرہ كى تہذيبى ترقى كى ہم كيسے توقع كرسكتے ہيں _

ايك سماج كلچر و ثقافت كے حوالے سے اسى وقت ترقى كرسكتا ہے كہ جب ترقى كيلئے ضرورى شرائط اور ماحول ميسر ہو _ پس آمريت زدہ معاشروں كے حوالے سے يہ توقع نہيں كى جاسكتى كہ اس معاشرہ كى تہذيب و ثقافت ترقى كرے اور وسعت اختيار كرے يا اگر كسى مسئلہ ميں كوئي ترقى بھى ہوتى ہو تو اس كے ثمرات كى حفاظت ہوسكے _

اسلامى معاشروں ميں آمريت

دين اسلام كے ظہور سے فكر بشريت ميں ايك عظيم انقلاب پيدا ہوا اس الہى دين كا مقصد انسانوں كو ان تمام قسم كى قيد و بند سے نجات دينا تھا جو طول تاريخ ميں اسكو جكڑے ہوئے تھيں _ اسلام حكومتى معاملات ميں فرد واحد كى رائے كو محور بنانے كا مخالف ہے بلكہ مشورہ كو حكومت كى بنياد قرار ديتا ہے _ رسول اكرم (ص) اكثر مسائل ميں اپنے اصحاب سے مشورہ كيا كرتے تھے اور آنحضرت (ص) كے بعد خلفاء راشدين بھى ايسا رويہ اپناتے تھے كہ لوگ اندرونى رغبت و رضا سے انكى اطاعت كيا كرتے تھے اگر كسى كيلئے كوئي سزا مقرر ہوتى تو وہ اطاعت كرتے اور تعميل كرتے تھے_

ليكن جب بنى اميہ مقام اقتدار پر پہنچے تو بہت سے مسائل تبديل ہوگئے روادارى اور تحمل پر مبنى حكومت كا دور ختم ہوچكا تھا معاويہ كے والى اور حكام كو يہ خوف تھا كہ اگر لوگوں كو آزادى دى گئي تو وہ بغاوت برپا كريں گے لہذا تشدد كى پاليسى شروع ہوئي_ سب سے پہلے معاويہ كا ہى دور تھا كہ جب رسمى طور پر تشدد كا كام شروع ہوا وہ لوگ جو معاويہ كے مخالف سمجھے جاتے تھے اور انہيں گرفتار كركے سزائيں دى جاتى تھيں(۱) _

۲۰۱

عباسى خلفاء كے ادوار بھى اسى طرح تھے بلكہ بعض تو اموى دور سے بھى بدتر تھے _ ان ادوار ميں خلفاء اپنے مخالفين كو قتل كرنے سے بھى نہ چوكتے تھے اس قسم كى سياست سے وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ لوگ متنفر ہونے لگے_

آمريت و استبداد كوئي ايسا مظہر نہيں ہے كہ جسے ہم تاريخ كے كسى خاص دور ميں محدود كرديں بلكہ آج بھى بہت سى اقوام آمريت كا شكار ہيں ليكن بعض ادوار تاريخى ميں آمريت ايسى خاص شكل وصورت ميں سامنے آئي كہ مورخين اور دانشوروں كى توجہ كا مركز قرار پائي مثلاً عثمانى بادشاہت كا تجزيہ كريں تو معلوم ہوتا ہے كہ اس بہت بڑى بادشاہت كے سقوط كا ايك اہم سبب عثمانى بادشاہوں كى آمريت اور عوام كى ناراضگى تھا_ اسى طرح ايران كى تاريخ كا تجزيہ و تحليل كريں بالخصوص مشروطيت كے دور كا مطالعہ كريں تو معلوم ہوتاہے كہ لوگوں كا قيام اور انقلاب مشروطيت مكمل طور پر ظلم اور آمريت كو ختم كرنے اور قانون پر مبنى عادل حكومت كى تشكيل كيلئے تھا_

عصر حاضر ميں بھى مشرق وسطى كے تيل كى دولت سے مالا مال بہت سے ممالك آمرانہ نظام و حكومت كے حامل ہيں _ دانشوروں كے نظريہ كے مطابق ان ممالك كى حكومت كا ہم ستون تيل كى دولت سے تشكيل پانے والا اقتصاد اور دوسرا يہ كہ عمومى درآمدات سے بے نيازى ہے گويا كہ تيل نے انہيں عوام سے بے نياز كرديا ہے بہرحال آمريت كى كوئي بھى وجہ ہو اور كسى زمانہ ميں بھى ظاہر ہو يہى كہيں گے كہ يہ تہذيب و تمدن كے زوال كا اہم سبب ہے اوراسلامى تہذيب و تمدن بھى اسى قانون و قاعدہ سے مستثنى نہيں ہے اسلامى تہذيب كى تاريخ بتاتى ہے كہ جس قدر بادشاہوں كى آمريت و استبداد كم ہوا اسى قدر اسلامى تہذيب كى ترقى اور وسعت كيلئے اسباب و امكانات حاصل ہوئے _

۲_ دنيا پرستى ،قدامت پسندى اور حقيقى اسلام سے دوري:

آنحضرت (ص) اسلام كے پيغمبر ہونے كى حيثيت اپنى سيرت طيبہ اور روش زندگى كو ايسے سامنے لائے جو ہر

____________________

۱)_ جرجى زيدان ، تاريخ تمدن اسلام، ترجمہ على جواہر كلام، ص ۷۲۴ _ ۷۲۳_

۲۰۲

قسم كے اسراف و نمود و نمايش سے دور تھي_ آپ كى غذا ، رہائشے اور لباس معاشرہ كے معمولى ترين افراد كى مانند سادہ اور چمك دمك سے دور تھا_ آپكى وفات عظمى كے بعد خلفاء راشدين كى سيرت بھى آپ (ص) سے مشابہت ركھتى تھى وہ بھى سعى كرتے تھے كہ اسلام حقيقى اور رسول اكرم (ص) كى سيرت طيبہ كى پيروى ميں مادى نمود و نمايش سے دور رہيں اور تمام مسلمانوں كيلئے نمونہ عمل كى حيثيت سے رہيں جبكہ اموى خلافت كے آغاز سے ہى دنيا پرستى اور تجملات مسلمانوں كے حقيقى اسلام سے دورى كا باعث بنے اسى طرح فكرو نظر اور روشن خيالى كى راہ ميں قدامت پسندى كى ركاوٹ بھى اسلامى تہذيب وتمدن كے زوال كا سبب قرار پائي_

الف: دنيا پرستي

ابن خلدون كا نظريہ تھا كہ حكومتيں انسانى زندگى كى مانند ايك عمر اور اسكے مختلف مراحل جيسے پيدائشے ، رشد و جوانى اور ضعف و بڑھاپا ركھتى ہيں _ انكے خيال كے مطابق حكومتيں پيدائشے سے زوال تك پانچ مراحل سے گزرتى ہيں :

پہلا مرحلہ كہ جسكا نام كاميابى كا مرحلہ ہے فرد حاكم قوم كے اندرونى روابط سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار حاصل كرتا ہے يہ قومى روابط ايك طرح سے مختلف امور اور فيصلوں كو اسكى ذات ميں منحصر ہونے سے مانع ہوتے ہيں _دوسرے مرحلہ ميں وہ كوشش كرتا ہے اپنى حاكميت كو مستحكم كرتے ہوئے اقتدار كو اپنى ذات ميں منحصر كرلے_

تيسرے مرحلہ ميں اپنے اقتدار پر بھروسہ ركھتے ہوئے آسودگى اور آسايش كى نعمات سے بہرہ مند ہوتا ہے _ دوسرے الفاظ ميں وہ طاقت واقتدار كے پھل چنتا ہے اس مرحلہ ميں نمود و نمائشے اور آسودگى كا اظہار ہوتا ہے وہ ديگر مشہور حكومتوں كى مانند بے پناہ رقم شہروں كو خوبصورت بنانے اورعوامى عمارات كى تعمير پر لگاتا ہے_ اسى طريقہ كار پر چلتے ہوئے اس كے ماتحت، حوارى اور حكومتى كارندے دونوں ہاتھوں سے مال و ثروت جمع كرتے ہيں اور پر تعيش زندگى اختيار كرتے ہيں پھر اقتصادى ترقى كا زمانہ آتا ہے حاكم طبقہ كى توجہ اور حوصلہ

۲۰۳

افزائي كى وجہ سے مصنوعات ، خوبصورت فنون اور علوم ترقى كرتے ہيں اسى دوران آرام وسہولت كا زمانہ آپہنچتا ہے اس زمانہ ميں انسان دنياوى لذتوں اور آسائشے سے بہرہ مند ہوتے ہيں يہاں حكومت كے ارتقا كا پہلا مرحلہ مكمل ہوجاتا ہے_

چوتھے مرحلہ ميں حاكم طبقہ اور رعايا كى مسرتوں كا عروج كا دور ہے يہ لوگ پچھلى نسلوں كى مانند زندگى كى لذتوں سے فائدہ اٹھاتے ہيں ليكن اس امر سے غافل ہيں كہ پچھلى نسل نے ان لذتوں تك پہنچنے كيلئے كتنى جدو جہد كى تھيں وہ اسى خيال ميں رہتے ہيں كہ تعيش اور زرق وبرق سے بھرپور زندگى اور معاشرتى تہذيب كى ديگر سہوليات ہميشہ سے موجود تھيں اور موجود رہيں گى _

تجملات، آسائشے اور خواہشات نفسانى كو پور اكرنا گويا انكے لئے ايك عام سى بات ہوجاتى ہے وہ اس دور ميں گذشتہ لوگوں كى محصولات اور ايجادات پر مكمل طور پر اكتفاء كيئے ہوئے ہوتے ہيں ايسے مصائب اور اسباب جو ممكن ہے كہ انكى كاميابيوں ميں خلل ڈال ديں ، ان كے مقابلے ميں كمزور پڑجا تے ہيں پانچوےں مرحلہ ميں حكومت زوال كى كى راہوں پر قدم ركھتى ہے اس دور ميں فضول خرچى اور اسراف كا آخرى مرحلہ شروع ہوتا ہے_ تن آساني، تجملات، جسمانى ضعف اور اخلاقى تباہى كا حملہ يا اندرونى اضمحلال يا دونوں اسباب كى بناء پر يہ حكومت تباہ ہوجاتى ہے _(۱)

سلسلہ بنى اميہ كا آغاز اورعيش و عشرت كى ابتدائ

اكثر اسلامى فتوحات بنى اميہ كے دور ميں مكمل ہوئيں يہ چيز ايك طرح سے حقيقى اسلام كى صورت بگاڑنے ميں اہم كردار ركھتى ہے كيونكہ اسلام ايسے خاندان اور ان كے وابستہ لوگوں كے ذريعہ ترويج ہورہا تھا كہ جو خود اسلام كے زيادہ معتقد نہ تھے_ بنى اميہ نے دين ميں مختلف بدعتيں ايجاد كيں اور ان بدعات كو دين كے نام سے پھيلايا _ انہوں نے اسلام كے زريں قانون مساوات كو پائوں تلے روندڈالا اور عرب كى عجم پر برترى كے نظريہ كا پروپيگنڈا كيا _

____________________

۱) عبدالرحمان ابن خلدون ، مقدمہ ابن خلدون، ترجمہ محمد پروين گنابادى تہران_

۲۰۴

اموى حكمرانوں نے اسلامى حكومت كى بہت سى درآمدات كو اپنى عيش وعشرت اور خوبصورت محلات بنانے پر صرف كيا اسى بناء پر عوامى طبقات ميں ناراضگى كى لہر دوڑى اور يہ چيز اموى حكمرانوں كے سلسلہ كو ختم كرنے كا باعث بني_ انكے بعد بنى عباس نے بھى اسى طرز عمل كو جارى ركھا اور انہيں بھى بنى اميہ كى مانند انجام كا سامنا كرنا پڑا_

خلفاء اورا مراء كى بے پناہ ثروت اور اسكے نتائج

خليفہ اسلامى ممالك كى حكومت ميں مكمل اختيارات كا مالك تھا_ تمام درآمدات سب سے پہلے اس كے ہاتھوں ميں پہنچتى تھيں _ لہذا قدرتى طور پر وہ تمام لوگوں سے زيادہ مال و دولت كا مالك تھا_ خلفاء كے بعد علاقوں كے والى اور امراء بھى بے پناہ دولت كے مالك تھے_ كيونكہ وہ ماليات اور ٹيكس جمع كرتے تھے جتنا چاہتے تھے لوگوں سے چھين ليتے تھے _

يہ ايك طبعى بات ہے كہ انسان جسقدر زيادہ ثروت و دولت كا مالك ہو تو اس كى زندگى كا معيار اتنا ہى وسيع اور بلند ہوتا ہے وہ خوراك، لباس اور نمود و نمايش ميں بہت زيادہ افراط كرتا ہے_ تعيش كى طرف رجحان نے عرب بدووں كو صحرا نشينى والى خصلتوں سے دور كركے يوں شہرى زندگى كى آسائشےوں كا عادى كرديا كہ وہ تعيش اور تفنن ميں روم اور ايران كے بادشاہوں سے بھى سبقت لے گئے _ سب سے پہلے حضرت عمر نے معاويہ كے فاخرہ لباس پر اعتراض كيا اور كہا اے معاويہ تم نے ايران كے بادشاہ كسرى كى مانند لباس پہنا ہے؟(۱) _

بنى اميہ كے خلفاء پھولوں كے نقش ونگار والا ريشمى لباس پسند كرتے تھے جيسا كہ ہشام بن عبدالملك كے نقش و نگار سے بھرے ہوئے بارہ ہزار ريشمى لباس مشہور ہيں _ اسطرح كے نمود و نمايش اور آسائشے پسندى نے مسلمانوں كو رام كرليا تھا اور يہ چيز مسلمانوں پر پڑنے والى مہلك ترين ضرب تھي(سقوط اندلس كا مطالعہ كريں )(۲)

____________________

۱)سابقہ حوالہ_

۲) زين العابدين قرباني، علل پيشرفت اسلام و انحطاط مسلمين _ تہران _ ص ۸۹ _ ۳۸۲ _

۲۰۵

ب: قدامت پرستي

اسلامى تہذيب و تمدن كے زوال ميں ايك سبب قدامت پرستى ہے كہ اس سے پہلے كے ہم اسلامى تہذيب پر اس كے اثرات كا مطالعہ كريں سب سے پہلے اسكى دقيق تعريف و تشريح كريں گے _ قدامت پرستى كے مختلف معانى ہيں مثلاً توقف، تبديلى قبول نہ كرنا، جمود اور تہذيب اور حقيقى و بلند اقدار كا ترقى نہ كرنا ہے_

قدامت پسندى فكر و نظر كے ميدانوں ميں وجود پاتى ہے اور اگر كردار و رجحانات سے ظاہرہو تو جمود كہلاتا ہے _ قرآنى مفاہيم ميں بھى (قدامت پسندي) كو معرفت و شناخت كيلئے مانع و ركاوٹ كے عنوان سے ذكر كيا گيا ہے ؟ (ثم قست قلوبكم من بعد ذلك فہى كالحجارة اور اشدّ قسوة ...)(بقرہ ۷۴)

قرآنى نگاہ ميں يہ وہ لوگ ہيں كہ جنہوں نے فكر و تدبر سے دورى اختيار كرلى ہے اور ناقابل ہدايت ہوچكے ہيں پس قدامت پسندى حق كو قبول كرنے اور حقيقى كمال و سعادت تك پہنچنے ميں ركاوٹ ہے اسكے ساتھ ساتھ يہ دينى افكار كى ترقى ميں بھى مانع ہے _

قدامت پسندى كے ہوتے ہوئے حقيقت، معرفت، حكمت، حكومت ، انتظام ، سياست اور معيشت كے ساتھ فكرى اور عملى طور پر پروان نہيں چڑھا جاسكتا _

قدامت پرست لوگ اسلام سے فقط خشك و جمود يافتہ تعليمات ليتے ہيں كہ زمان و مكان كے تقاضوں كے مد مقابل كسى قسم كى لچك، تحقيق اور نمو سے خالى ہيں _ اور كبھى بھى اپنے اسلامى افكار و نظريات اور عمل ميں غلطى اور نظرثانى كے قائل نہيں بلكہ ہميشہ ٹھراؤ اور خواہ مخواہ كے توقف كے شكار ہيں _(۱)

ايك قدامت پرست انسان اپنى فكر و نظر كا ايك مضبوط جال اپنے ارد گرد تن ليتا ہے اور كبھى بھى اپنے افكار اور عقائد كو تبديل كرنے پر تيار نہيں ہوتا_ استاد مطہرى اس مسئلہ كے حوالے سے فرماتے ہيں كہ ''اسلامى دنيا ميں كچھ فكرى تحريكيں سامنے آتى ہيں كہ انكا نام افراط يا جہالت ركھنا چاہئے ان تحريكيوں كے ذريعہ دينى امور اور بے جا دخل ميں افراط سے كام ليا گيا جبكہ ان كے مد مقابل كچھ ايسے فكرى رويے سامنے آئے كہ جو تفريط

____________________

۱) محمد جواد رودگر، تحجر و تجدد از منظر استاد مطہرى كتاب نقد سال ہفتم شمارہ ۲_۳ ص ۵۰_ ۴۹_

۲۰۶

اور جمود كے حامل تھے_ ليكن يہ سب گذشتہ دور ميں تھا مسلمانوں كو چاہيے كہ قرانى تعليمات پرعقيدہ ركھيں اور معتدل انداز سے فكرى حركت كرےں _(۱)

استاد مطہري منحرف فكرى تحريكوں كا تجزيہ و تحليل كرتے ہوئے تين ايسے كلى مكاتبكے بارے ميں بتاتے ہيں كہ جو شديد انداز سے جمود فكرى كا شكار تھے اور قدامت پرستى كى تبليغ و ترويج ميں اہم كردار ادا كرتے تھے :

۱)_وہ عناصركہ جنہوں نے سياسى مقاصد كى خاطر ''حسبنا كتاب اللہ'' كا نظريہ پيش كيا _ اور فكرى انحراف پيدا كرنے كے ساتھ ساتھ اہلبيت رسول سے لوگوں كو دور كرنے ميں مؤثر كردار اداكيا_

۲)_ايك اورگروہ نے پہلى تحريك كے مدمقابل ''حسبنا احاديثنا واخبارنا'' كا نعرہ بلند كيا اور قرآن كريم كو مہجور قرار دينے ميں اہم كردار ادا كيا اور لوگوں كو بنيادى اور زندگى بخش معارف و تعليمات سے دور كيا_

۳)_وہ عناصر كہ جنہوں نے تقدس كے رنگ ميں قرانى تعليمات كے ناقابل فہم و درك ہونے كا نظريہ پيش كيا اور ''اين التراب ورب الارباب'' كا نعرہ بلند كيا جسكا نتيجہ فكرى تعطيل كى صورت ميں سامنے آيا اور يہ گروہ ''معطلہ'' كہلايا _(۲)

اگر ہم اسلام كے مختلف سماجى ادوار ميں اسلامى نظريہ اور فكرى وثقافتى تحريكوں كى تاريخ ميں تحقيق كريں تو يہ مشاہدہ كريں گے كہ ان مندرجہ بالا تين كلى تحريكوں كى بناء پر ''اخباريت اور ظاہر پرستى '' اور انكے مد مقابل ''باطنيت اور تاؤيل'' كى شكل ميں حنبليوں اور اسماعيليوں كے دو غلط فكرى نظام سامنے آتے ہيں كہ ان دو فكرى نظاموں اور اخباريت كى تحريك نے اسلامى تہذيب و تمدن كے پيكر پر شديد اور خطرناك ضربيں لگائيں كہ استاد مطہري كے بقول ''اسلام نے اخباريوں اور حديث مسلك لوگوں كے ہاتھوں جو ضرب كھائي وہ كسى اور تحريك سے نہيں كھائي تھي''_(۳)

____________________

۱) مجموعہ آثار ج ۲۱ ص ۱۲۹ _ ۱۲۸_

۲) سابقہ حوالہ ج ۶ ص ۹۰۰ _ ۸۷۸ _

۳) رودگر، سابقہ حوالہ ص ۵۳_ ۲۱۹

۲۰۷

ج ) اسلامى دنيا ميں عقل اور عقل دشمن تحريكيں

بہرحال تمام تہذيبوں بالخصوص اسلامى تہذيب و تمدن كا عروج و زوال مختلف فكرى تحريكوں كا مديون منت ہے_ بعض اہل فكر وتحقيق اسلامى افكار و ثقافت كے زوال كا سبب متوكل عباسى (۲۴۷_ ۲۳۲ قمري) كا دور خلافت سمجھتے ہيں اس خليفہ سے پہلے كے خلفاء مكتب معتزلى يعنى عقل گرائي كى طرف رجحان ركھتے تھے اور اہل نظر ، حكماء ، فلاسفہ اور دانشوروں كے حامى سمجھے جاتے تھے ليكن يہ خليفہ مكتب اہل حديث سے وابستہ ہوا ، عقائد معتزلہ كى مخالفت كى اور عقائد وافكار ميں جدل و مناظرہ كو ممنوع كيا_ يہاں تك كہ كوئي بھى علمى مباحث اور مناظرہ كا اہتمام كرتا اسے سزا ديتا تھا_

ان اقدامات كا يہ نتيجہ نكلا كہ احمد بن حنبل كے پرچم تلے اہل حديث كے گروہ نے ترقى كى جو فقط سنت و حديث كى تقليد كرتے تھے اور جو كچھ نقل ہوا صرف اسى كے سامنے سر تسليم خم كرتے تھے اور اپنے مخالفين يعنى اہل عقل و نظر بالخصوص معتزلہ پر كفر كا الزام لگاتے تھے _ يہ تحريك امام محمد غزالى كے ظہور اور انكى مشہور كتاب ''احياء علوم الدين'' كے سامنے آنے سے شديد تر ہوگئي_ صرف تعقل كو ممنوع كرنے اور معتزلہ كو كافر قرار دينے پر اكتفاء نہ كيا گيا بلكہ شيعہ اثنى عشرى جيسے مكاتب پر بھى كفر، رافضيت اور باطنيت كى تہمت لگائي گئي_

اسلامى تفكر ميں جمود پيدا كرنے والے ان اسباب كے ساتھ ساتھ قرن ششم وہفتم ميں تصوف كى وسيع پيمانے پر ترويج كو بھى شامل كياجاسكتا ہے _ بعض محققين كى نظر كے مطابق يہ تصوف علوم عقلى مثلاً فلسفہ اور استدلال كے مدمقابل بہت بڑى مصيبت شمار ہوتا ہے كيونكہ اہل تصوف شريعت اور عقل كے پيروكاروں كے مد مقابل كشف و شہود كو حقائق كے درك كا وسيلہ پيش كرتے تھے، حقيقت تك پہنچنے كيلئے عقل و استدلال كو ناكافى سمجھتے تھے اور كبھى تو عقل كو اللہ تعالى كى معرفت و شناخت كيلئے حجاب كا عنوان ديتے تھے_

مجموعى طور پر مندرجہ بالا اسباب كو اسلامى تفكر و نظريہ كى ترقى ميں اہم موانع سمجھا جاسكتا ہے جب بھى فكر و استدلال كے راستے بند كيے جائيں تو خودبخود قدامت پرستى اور جمود پروان چڑھيں گے اخر ميں ہم اسلامى نظريہ كى تاريخ كا تجزيہ كرتے ہوئے جمود اور قدامت پرستى كوفكر و استدلال ميں توقف سے تعبير كرسكتے ہيں _

۲۰۸

آٹھواں باب:

بيدارى عالم اسلام كى نشا ة ثانيہ

۲۰۹

۱_ صفوي:

الف) صفويوں كا ظہور:

آيا صفوى خاندان عرب تھے يا تركى يا كردى يا ايرانى _ اس حوالے سے محققين ميں اختلاف نظر ہے _(۱) اس خاندان كے سب سے پہلے فرد شيخ صفى الدين اردبيلى (۷۳۵_ ۶۵۰ قمري) جو كہ ايران كے بزرگ مشائخ اور عرفاء ميں سے تھے _ اپنے مرشد كى جستجو ميں شيخ زاہد گيلانى كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور انكے مقرب قرار پائے پھر انكى وفات كے بعد طريقت زاہد يہ كے رئيس بنے _(۲) شيخ صفى الدين كا مقام معنويت بڑى اہميت كا حامل تھا انہوں نے طريقت كے اس لباس ميں مذہب تشيع كى وسيع پيمانے پر نشر واشاعت كى يوں ان كى ذہانت اور زيركى وجہ سے يہ مسلك ايران ، شام اور برصغير تك وسعت سے پھيلا_(۳)

شيخ صفى كے بعد انكے فرزند صدر الدين انكے جانشين بنے آرامگاہ بننے سے انكے پيروكاروں كى فعاليت بڑھي(۴) ايلخانان كے بعد بتدريج اردبيل كى خانقاہ كے شيوخ سياسى كھيل ميں داخل ہوئے _ اس كے بعد خواجہ على اور ابراہيم مقام خلافت پر پہنچے اسى دوران صفويوں كى تبليغى سرگرمياں جارى رہيں يہاں تك كہ سنہ ۸۵۱ جنيد صفوى طريقت كے رئيس بنے _

____________________

۱) ابن بزاز اردبيلى (درويش توكلى بن اسمعيل بزاز) صفوة الصفا مقدمہ و تصحيح غلامرضا طباطبائي _ تہران ص ۷۰ حسين ابدال زاہدى ، سلسلہ النسب صفويہ ، تہران ، ايرانمہر ۱۱_ ۱۰ _

۲)ابن بزاز_ سابقہ حوالہ فصول ششم ، ہفتم_

۳)راجو سيورى ، ايران عصر صفوى ، ترجمہ كا ميز عزيزى ، تہران ، نشر مركز ص ۸_

۴) ابن بزاز، سابقہ حوالہ ص ۹۸۳، ۸۹۸_

۲۱۰

انہوں نے دنياوى اقتدار و طاقت كو ہاتھ ميں لينے كى طرف اپنا ميلان آشكار كيا اور سلطان كا لقب اپنے لئے پسند كيا كہ يہ چيز ان كے دنياوى جذبوں كے صفوى طريقت كے ديگر معنوى پہلوؤں پر غلبہ كى عكاسى كرتى ہے انہوں نے كئي بار اپنے مريدوں كو كفار كے خلاف جہاد پر اكسايا_(۱) حيدر ۸۶۰ قمرى ميں جنيد كے جانشين بنے پھر حيدر كے بعد على اسكا جانشين بنا اس نے اپنے آپ كو بادشاہ كہا(۲) صفويوں كى سياسى سرگرمياں باعث بنيں كہ آق قو نيلو جوكہ صفويوں كے دوست اور ہم پيالہ تھے انكے حوالے سے تشويش كا شكار ہوئے بالآخر على آق قو نيلوؤں كے ہاتھوں قتل ہوا اور اسماعيل جوكہ سات سالہ تھا اہل اختصاص (صفويوں كے خصوصى وفادار و محب لوگ) كے ذريعے گيلان فرار كروا ديا گيا _(۳)

ب) صفوى حكومت كى تشكيل :

سنہ ۹۰۵ قمرى ميں اسماعيل دوبارہ اردبيل ميں پلٹا اور اپنے مريدوں كو منظم كيا _ اس نے سنہ ۹۰۷ قمرى ميں آق نيلووں كى كمزورى سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تبريز شہر پر قبضہ كرليا اور تاجيوشى كى تقريب منعقد كى يہ سب اقدامات اہل اختصاص نے انجام ديے چونكہ اس وقت اسماعيل كى عمر چودہ سال سے زيادہ نہ تھى _(۴) اس نے رسمى طور پر حكومت كا مذہب شيعہ قرار ديا اور اماميہ اثنا عشريہ كى ترويج اور استحكام كے لئے كوششيں كيں(۵) _

كچھ عرصہ بعد اسماعيل نے ايران كے شمالى مشرقى علاقوں كى صورت حال درست كرنے كيلئے ازبكان سے جنگ كى ليكن اہل شمشير (ترك لوگ) اور اہل قلم (دفاتر كے ايرانى لوگ)(۶) ميں اختلافات كے باعث

____________________

۱) نيورى ، ص ۱۶ _ ۱۵_

۲) خوانوير _ جيب السير ، زير نظر محمد دبير ساقى ، تہران ، ص ۴۳۸ _

۳ ) سابقہ حوالہ ص ۴۴۲ _ ۴۴۰_

۴) سابقہ حوالہ ص ۵۱_ ۴۴۶_ حسن بيگ روملو، احسن التواريخ باتصحيح عبدالحسنين نواہي_

۵) جہان گشائي خاقان،ص ۸۰ (تاريخ شاہ اسماعيل) مقدمہ اسلام آباد، مركز تحقيقات فارس ايران در پاكستان ص ۶_۱۴۵_

۶) سيورى ، سابقہ حوالہ ص ۳۱_۳۰_

۲۱۱

كے باعث وہ معركہ غجددان ميں كچھ پيش رفت نہ كرسكے اور يہ معركہ ايرانيوں كے ضرر ميں اختتام پذير ہوا_ مغربى محاذ ميں بھى اسماعيل عثمانيہ كى سنى حكومت سے اساسى اختلافات ركھتا تھا _ عثمانى حكومت كسى صورت ميں بھى صفويوں كى شيعہ حكومت كو قبول كرنے كيلئے تيار نہ تھى نيز صفوى كے حاميوں كے آناتولى ميں اقدامات اور خود صفويوں كى عثمانيہ كے امور ميں مداخلت مشہور جنگ چالدران (سنہ ۹۲۰ ميں ) كا باعث بنى كہ جسميں صفويوں كى شكست كے باعث تبريز پر دشمن كا قبضہ ہوا اور شاہ اسماعيل اپنى عمر كے آخرى آيام تك اس شكست سے متاثر اور شرمندہ رہا _

ج) استحكام كا مرحلہ:

سنہ ۹۳۰ قمرى ميں شاہ اسماعيل كى وفات كے بعد تہماسب تخت حكومت پر جلوہ افروز ہوا(۴) اس نے اپنى حكومت كے دوران صفوى اقتدار كى اہليت اور صلاحيت كو ثابت كيا سب سے پہلے امراء اور قزلباشوں كى سركشى اور نافرمانى كو دبايا كہ جو ايرانيوں كے مقابلے ميں زيادہ اختيارات اور طاقت كے طالب تھے اور قزلباشوں اور حكومتى امراء كے درميان ايك خاص نظم قائم كيا كہ جسكى بناء پر اس كا ۵۴ سالہ اقتدار اپنے آخرى ايام تك مستحكم اور باقى رہا _

شاہ تہماسب نے سنہ ۹۳۵ قمرى ميں مرو كے مشہور جنگى معركہ ميں ازبكان كو شكست دى _(۵)

اس نے جنگى چالوں اور توپخانہ كے استعمال سے صفوى حكومت كو آدھى صدى تك متحد اور مستحكم ركھا _ اس كے بعد شاہ اسماعيل دوم كے مختصر دور سلطنت (۹۸۵_ ۹۸۴ قمرى ) اور سلطان محمد خدابندہ كے دور حكومت (۹۹۶_ ۹۸۵ ) ميں قزلباشوں كى مداخلت كى وجہ سے صفوى حكومت كے اندرونى اور بيرونى حالات خراب ہوگئے تھے(۱)

____________________

۱) خورشاہ بن قباد الحسيني، تاريخ ايلچى نظام شاہ ص ۵_ ۸۴_

۲) روملو، احسن التواريخ ص ۲۸۱_ ۲۷۷_

۳) اسكندر بيك منشى ، تاريخ عالم آرامى عباسى ، ص ۳۴۱_

۲۱۲

د) زمانہ عروج :

سنہ ۹۹۶ قمرى ميں عباس ميرزا تخت شاہى پر متمكن ہوا اس نے بھى اپنى اصلاحات كا ايسا جلوہ دكھا يا كہ يورپ كے بادشاہوں اور پاپا ے روم نے بھى اپنے سفيروں كو اس كے دربار ميں بھيجا(۱) شاہ عباس نے اپنى حكومت كے ابتدائي ايام ميں قزلباشوں كى مختلف جماعتوں كى گروہ بندى كا مشاہدہ كياوہ سمجھتا تھا كہ اس سے پہلے كہ اسكا اقتدار انكى سازشوں كى نذر ہو انكى سركشى كو ختم كريا جائے _ لہذا اس نے قزلباشوں كى جگہ فوج ميں جارجين، چركس اور آرمينين اقوام كے دستوں كو داخل كيا جسكى بناء پر ايك منظم فوج تشكيل پائي كہ جسے اس نے يورپى فوجى تكنيك بالخصوص چارلى برادران كى فوجى تربيت اور بارودى اسلحہ اور توپخانہ سے آراستہ كيا_ فوج كے ذريعے قزلباشوں كو پر قابوپايا_ امن بحال كيا اور حكومت كى اقتصادى صورت حال كو درست كيا_

شاہ عباس تجارت بالخصوص بيرونى تجارت كو بہت زيادہ اہميت ديتا تھا(۲) اس نے يورپى حكومتوں كے ساتھ تعلقات بڑھائے ، يورپى ممالك ميں اسكے سفيروں كى بڑى تعداد اسكے وسيع اقدامات كى عكاسى كرتى ہے_ ان اقدامات كے ثمرات كى بناء پرجان چارڈن ( فرانسيسى سياح) نے ايران كى سياحت كے بعد كہاتھا كہ اس عظيم بادشاہ كى وفات سے ايران كى رونق اورفلاح و بہبود بھى ختم ہوگئي(۳)

سال ۱۰۳۸ قمرى ميں شاہ كى شاہزادوں كے قتل اور انہيں حرم ميں محبوس كرنے كى سياست كے باعث صفوى دربار ايسے تجربہ كار لوگوں سے محروم ہوگيا جو شاہ عباس كى پاليسوں كوجارى ركھ سكتے تھے_ شاہ عباس كے بعد شاہ صفى نے قدرت كى باگ ڈور سنبھالي، اس كے زمانہ اقتدار ميں ولايات ممالك كو ولايات خاصہ ميں تبديل كرنے كى سياست ( صوبوں كے اختيارات كى تقليل) وسعت اختيار كر گئي اس سياست كو عباس

____________________

۱) نصراللہ فلسفى ، زندگانى شاہ عباس تہران ، انتشارات علمى ج ۴ ص ۵ ص ۱۲۷۱ _ ۱۳۲۵_

۲) سيورى ، سابقہ حوالہ ص ۹۹_

۳) سيوري، درباب صفويان ،تہران ص ۱۶۸_

۴) محمد يوسف والہ قزوينى اصفہاني، ايران در زمان شاہ صفى و شاہ عباس دوم ، تہران انجمن آثار و مفاخر فرہنگي_ ص ۱۵_ ۳۱۳_ ۵۱_ ۳۵_

۲۱۳

اول نے درآمدات بڑھانے اور ملك كے دفاعى سسٹم كو مضبوط كرنے كيلئے شروع كيا تھا ،ليكن شاہ صفى كے دور ميں اس سے ملك كے دفاعى شعبہ كو نقصان ہوا اور خاندان امامقلى خان كہ جس نے اس حوالے سے بہت سے خدمات انجام ديں تھيں مكمل طور پر ختم ہوگيا(۱) شاہ عباس دوم جو كہ شاہ صفى كا جانشين تھا وہ بھى ملك كے خراب حالات كو زيادہ بہتر نہ كرسكا اگر چہ اس نے اپنى بادشاہت كى سرحدوں كو ہر قسم كے حملے سے بچائے ركھا اور سال ۱۰۵۸ ميں قندھار كو تيموريوں سے واپس لے ليا_

شاہ سليمان كے اقتدار تك پہنچنے سے صفوى سلسلہ كے زوال كا دور شروع ہوا اس دور ميں علماء كا ملك كے سياسى اور مذہبى امور ميں نفوذ تيزى سے بڑھا ليكن صفوى اقتدار شاہ سلطان حسين كے دور ميں مكمل طور پر ضعف كا شكار ہوا جو كہ ايك كمزور شخصيت كا حامل تھا اور ملك كے امور سے لا پرواہ تھا_ اس زمانہ ميں قندھار كے افغان لوگ جو كہ صفويوں كے تسلط كو پسند نہيں كرتے تھے ايران پر حملہ آور ہوئے اور سنہ ۱۱۳۵ قمرى ميں اصفہان پر قبضہ كركے صفوى سلسلہ كے اقتدار كو ختم كرديا(۲)

خارجہ روابط

صفوى دور حكومت ميں انكے مغرب ميں ہمسائے عثمانى تھے، شمال و مشرق ميں ازبكان اور ان كے مشرق ميں مغل تھے ،صفويوں كے انكے ساتھ روابط بہت سے نشيب وفرازسے گذرے_

الف) ہمسايوں كے ساتھ روابط

صفويوں كے اپنے ہمسايوں كے ساتھ روابط ميں فقط انكا مذہب ( شعيت ) ہى اہم تاثير كا حامل نہ تھا بلكہ بہت سے اسباب اور دلائل ديگر بھى موجود تھے_ ايران كے شمال مشرق ميں ازبكان لوگ اپنے صحرائي مزاج

____________________

۱) ولى قلى بن داود بن قلى شاملي_قصص الخاقاني_ ص ۴۱۲ _۴۰۶_

۲) تاريخ ايران دورہ صفويان _ پوہشى از دانشگاہ كمبريج ترجمہ يعقوب آنہ ص ۱۲۶_۱۲۲_

۲۱۴

اور قبائلى نظام كے باعث اكثر ايرانيوں كے ساتھ حالت جنگ ميں ہوتے تھے ليكن يہاں اہم نكتہ يہ ہے كہ صفويوں نے اكثر ان كے ساتھ طاقت كى زبان استعمال كى اور فتح پائي(۱) دونوں حكومتوں ميں مذہبى اختلافات كے علاوہ جنگ وجدال كا اہم سبب دونوں ممالك كے مابين جغرافيائي اور سياسى سرحدوں كا نہ ہونا تھا اس كشمكش كے ساتھ ساتھ دونوں ميں دوستانہ روابط بھى موجود رہے ،بہت سے ايرانى اور ازبكى سفيروں كى رفت وآمد نيز ازبكوں كا حج كے اعمال بجالانے كيلئے ايران سے عبور كرنا صفويوں كے ساتھ دوستانہ روابط كا متقاضى تھا(۲)

صفويوں كے عثمانيوں كے ساتھ روابط بھى صلح وجنگ كا آميزہ تھے ،بہت سى جنگيں اور مختلف صلح نامے سے اس فراز و نشيب كى عكاسى كرتے ہيں _ ايران اور عثمانيوں ميں اہم ترين معركہ جنگ چالدران تھى كہ عثمانيوں كے باغى شاہزادے سلطان مرادكى(۳) شاہ اسماعيل كى طرف سے حمايت اور دونوں حكومتوں كے مذہبى اختلافات كے باعث يہ جنگ پيش آئي_ شاہ تہماسب كے دور ميں سال ۹۶۲ قمرى ميں(۴) صلح آماسيہ كے عہدنامہ سے يہ روابط ايك نئے مرحلہ ميں داخل ہوگئے_ اس صلح نامہ كے تحت كردستان ، بين النہرين اور جارجيا كا كچھ علاقہ عثمانيہ كو حاصل ہوا اس كے مد مقابل آرمينيا، كاخت اور آج كے مشرقى آذربائيجان كا كچھ حصہ ايران كا جزو شمار ہوا _(۵) سرحد متعين ہوگئي اور يہ معاہدہ سلطان محمد خدابندہ كے دور تك باقى رہا_(۶) شاہ عباس كے ابتدائي دور ميں اس نے مجبور ہوكر ايران كے كچھ علاقے عثمانيوں كے حوالے كئے ليكن بعد ميں اس نے عثمانيوں سے واپس لے ليے(۷) شاہ صفى كے زمانہ اقتدار ميں عثمانيوں نے بغداد پر قبضہ

____________________

۱) عباسقلى غفارى ، روابط صفويہ و ازبكان ج ۱_

۲) اسكندر بيگ منشي، سابقہ حوالہ ص ۷۳_ ۷۲_

۳) ھامر پور گشتال ، تاريخ امپراتورى عثمانى ص ۱۹_ ۸۱۶_

۴) خورشاہ _سابقہ حوالہ ص ۸۶_ ۱۸۴ اسكندر پلك منشى ، سابقہ حوالہ ج ۱ ص ۹_۱۲۸_

۵) عبدالرضا ہوشنگ مہدوي، تاريخ روابط خارجى ايران از ابتداى دوران صفويہ تاپايان جنگ دوم جہاني، ص ۳۳_

۶) راجرسيوري، سابقہ حوالہ ص ۷۳_۷۰_

۷) سابقہ حوالہ ص ۶_۸۳ _

۲۱۵

كرليا اور بادشاہ نے سال ۱۰۴۹ قمرى ميں عثمانيوں كے ساتھ معاہدہ قصر شيرين طے كيا جس كى روسے بصرہ اور مغربى كردستان كا كچھ حصہ عثمانيوں كو ديا گيا جبكہ مشرقى آذربائيجان، رواندوز، آرمينيا اور جارجيا ايران كو ديے گئے، يہ معاہدہ بہت اہميت كا حامل تھا كہ كيونكہ اس معاہدہ كى روسے متنازعہ علاقوں كا مسئلہ حل ہوا اور ايك صدى تك دونوں حكومتوں ميں صلح برقرار رہى _(۱)

آخرى نكتہ يہ ہے كہ عثمانيوں كے ساتھ ايران كے روابط ميں مختلف عوامل كردار ادا كرتے تھے _ مثلاً مذہب، سياسى عوامل سرحدى علاقوں كے قبائل كى حركات، سرحدوں كا متعين نہ ہونا اور عثمانيوں كى توسيع پسندي_

مغلوں كے ساتھ تعلقات ميں ديگر ہمسايوں كى نسبت بہت كم معاملہ جنگ وجدال تك پہنچا يہاں صرف اہم مسئلہ قندھار كا تھا_مغلول كے ساتھ دوستانہ روابط اكثر صفوى بادشاہوں كے زمانہ ميں رہے ہيں دونوں حكومتوں نے باہمى روابط ميں امن اورصلح قائم ركھنے كو ترجيح دى _(۲)

(ب) يورپى حكومتوں كے ساتھ روابط : سال ۹۱۲ قمرى كے بعد سے خليج فارس ميں پرتگاليوں كے نفوذ كى بناء پر شاہ اسماعيل نے كوئي چارہ نہ ديكھتے ہوئے انكے اقتدار كو قبول كيا اصل ميں وہ عثمانيوں كے خلاف ان سے مدد لينا چاہتا تھا _ پرتگاليوں سے قرار داد ميں يہ درج تھا كہ وہ ايرانى لوگوں كو بارودى اسلحہ كے استعمال كا طريقہ سكھائيں _ شاہ تہماسب كى عثمانيوں كے ساتھ بيس سالہ جنگى دور ميں پرتگاليوں نے كچھ مقدار ميں بندوقيں اور جديد اسلحہ ايرانيوں كو ديا _(۳) اس دور كے بعد عيسائي مبلغين نے دوستانہ روابط برقرار كرنے كى كوششيں شروع كيں _

سال سنہ ۱۰۰۶ قمرى ميں دو انگريز آنتھونى شرلى اور رابرٹ شرلى شاہ عباس كے دربار ميں حاضر ہوئے _

____________________

۱) ہوشنگ مہدوى ، سابقہ حوالہ ص ۵_ ۱۰۴_

۲)رياض السلام ،تاريخ روابط ايران و ہند، ترجمہ محمد باقر آرام و عباسقلى خان ، تہران _

۳) ہوشنگ مہدوي، سابقہ حوالہ ص ۳، ۲۳_

۲۱۶

ايك سال كے بعد شاہ عباس نے انتھونى شررلى كو بادشاہ كى طرف سے دوستى كے خطوط كے ساتھ پايائے اعظم اور يورپ كے بادشاہوں مثلاً روم كے بادشاہ رودلف دوم فرانس كے بادشاہ آنري، ملكہ انگلستان اور وينس كے حاكم دوك توسكانى كى طرف بھيجا _ انتھونى كا مشن يہ تھا كہ وہ ان بادشاہوں كى مشتركہ دشمن عثمانيوں كے ساتھ جنگ ميں حمايت حاصل كرے_

پرتگاليوں كے ساتھ انگريزوں كى رقابت كے سلسلہ ميں انتھونى جيكسن ماسكو كى كمپنى كے نمائندے كى حيثيت سے ايران آيا_ وہ ملكہ اليزبتھ كى طرف سے شاہ تھماسب كےلئے بہت سے خطوط لايا كہ جنكا مقصد تجارتى روابط برقرار كرنا تھا_ انگريزايسٹ انڈين كمپنى كے ذريعے سال ۱۰۲۴ قمرى ميں آہستہ آہستہ ايرانى بازاروں ميں داخل ہوئے وہ ايران ميں كپڑا لائے انہوں نے شيراز اور اصفہان ميں تجارت خانے قائم كيے اور شاہ عباس سے بہت سى سہوليات حاصل كيں _ شاہ عباس انگريزوں كى دريائي طاقت كو پرتگاليوں كے خلاف استعمال كرنا چاہتا تھا بالآخر امامقلى كى كوششوں سے انگريزوں ے مدد لى اور ہرمز كو پرتگاليوں كے چنگل سے آزاد كرواليا _(۱)

سال ۱۰۷۴ قمرى ميں ايران كے بعد يورپى حكومتوں كے ساتھ روابط ميں فرانسيسى لوگ ظاہر ہوئے ،كيپشن گروپ ايران ميں فعال ہوئے انہوں نے اصفہان ميں مراكز قائم كيے اور انگريزوں اوراہل ہالينڈ كى مانند انہوں نے بھى دربار سے سہوليات حاصل كيں(۲) ايسٹ انڈيا انگريز كمپنى نے صفوى دور كے اختتام تك ايران ميں اپنے من پسند حقوق بحال ركھے صفويوں كے غير ملكى روابط كے حوالے سے كہا جاسكتا ہے كہ شاہ اسماعيل ، شاہ تھماسب اور شاہ عباس كبير جيسے حاكموں نے اپنے ملك كے استقلال اور دشمنوں كے مد مقابل اس كى حفاظت كيلئے بھر پور كوشش كى اور دو صديوں تك ايك مستحكم اور طاقتور حكومت كے ذريعے اپنے ملك كى سياسى اور قومى سرحدوں كا بھرپور دفاع كيا_

____________________

۱) راجر سيوري، سابقہ حوالہ ص ۱۳_ ۱۰۶_

۲)عبدالحسين نوايي، روابط سياسى و اقتصادى ايران در دورہ صفويہ ،تہران فصل ہشتم_

۲۱۷

صفوى دور كى تہذيب و تمدن

مذہب شيعہ كوسركارى قرار دينا اور اسكے نتائج:

جيسا كہ بتايا گياہے كہ شاہ اسماعيل نے سال ۹۰۷ قمرى ميں تبريز ميں ايران كے سركارى مذہب كو شيعہ قرار ديا اور حكم ديا كہ آذربائيجان تك رياستوں كے خطباء ''ائمہ اثنى عشر سلام اللہ عليہم الى يوم الحشر'' كے نام خطبہ پڑھيں(۱) مذہب شيعہ كو سركارى قرار دينے سے صفويوں كيلئے سب سے پہلا مرحلہ شيعى فقہى احكام كا اجراء اور حكومت كے امور كا شيعہ فقہ كے مطابق چلنا تھا_

ايران ميں شيعہ فقہ سے آگاہ افراد كى كمى كے باعث شاہ اسماعيل كو جبل عامل اور بحرين كے شيعہ علماء كا سہارا لينا پڑا اور انہيں ايران كى طرف دعوت دي(۲) شاہ تھماسب كے دور ميں اس پر زيادہ توجہ دى گئي اور بہت سے شيعہ علماء نے ايران كى طرف ہجرت كى _ بعض علمائے دين نے صفوى حكومت كا ساتھ ديا اور انہيں استحكام بخشا جسكے نتيجہ ميں بادشاہوں نے بھى علماء دين اور انكے مقام كو عزت و توقير سے نوازا اور اہم حكومتى مناصب مثلاً صدر ، شيخ الاسلام ، مجتہد ، قاضى اور مفتى وغيرہ كے عہدے علماء كے حوالے كيے_

شاہ عباس كے زمانے ميں اسكا اقتدار اوررعب و دبدبہ مذہبى قوتوں پر حاوى رہا ليكن اس كے بعد علماء كا غلبہ بڑھتا گيا اور صفوى حكومت كے آخرى ايام ميں بالخصوص سليمان اور حسين صفوى بادشاہ كے دور ميں علامہ باقر مجلسى عہد صفوى كے علماء ميں ايك بارسوخ ترين شخصيت بن كر ابھرے اور آپ اصفہان كے شيخ الاسلام تھے _ انہوں نے خود امام زمانہ (ع) كے نائب كى حيثيت سے شاہ سلطان حسين كو اپنا نائب قرار ديا ہوا تھا_

علمائے جبل عامل كا شاگردوں كى تربيت اور صفوى حكومت كو شيعہ عادل بادشاہت كے طور پر تسليم كرنے كا كردار انتہائي اہميت كا حامل تھا_ اس دور ميں علماء نے تعليم ا ور كتب كى تاليف كے ذريعہ مذہب تشيع كى وسيع پيمانوں پر ترويج ميں مدد كى اور شيعہ علوم ومعارف كى ترقى اور وسعت كے اسباب فراہم كيے_(۳)

____________________

۱) خواندمير ، سابقہ حوالہ ج ۴ ص ۴۶۷_

۲) مہدى خوايانى منفرد، مہاجرت علماء شيعہ از جبل عامل بہ ايران _ ص ۱۰۰_

۳) سابقہ حوالہ ص ۱۳_۱۱۰_

۲۱۸

ادبيات

تاريخ ادبيات كے محققين صفوى دور ميں شعر وشاعرى كے زوال يا پر رونق ہونے ميں اختلاف نظر ركھتے ہيں _ مآخذ تاريخ كے تجزيہ سے معلوم ہوتا ہے كہ شاہ اسماعيل تركى زبان ميں شعر كہتے تھے اور خطايى تخلص ركھتے تھے(۱) _ شاہ تھماسب كے زمانہ ميں مخصوص سياسى اور مذہبى صورت حال كے پيش نظر شعر زيادہ تر مرثيہ سرائي ، نوحہ خوانى او رآئمہ معصومين (ع) كى مدح ميں تبديل ہوگيا تھا كہ جسكا ايك نمونہ محتشم كاشانى كا مشہور قصيدہ ہے كہ جسے شاہ تھماسب كے تقاضہ پر اس نے كہا تھا _(۲)

شاہ عباس ہميشہ شعراء كى صحبت ميں رہتا تھا _ دورہ صفوى ميں شعر وشاعرى پر ہندى سبك چھايا ہوا تھا اس دور ميں تاريخ نويسى بعض مخالف اقوال كے باوجود ترقى پر گامزن تھى كہ جسكا ايك نمونہ اسكندر بيك منشى ہيں كہ جو عہد صفوى كے عظیم ترين تاريخ نويس شمار ہوتے ہيں _(۳)

مدارس اور علوم

علماء شيعہ كى ايران كى طرف ہجرت اور انكا مختلف شہروں مثلاً شيراز، تبريز ، قزوين ، مشہد ، قم اور اصفہان ميں سكونت پذير ہونا باعث بنا كہ وہ ان شہروں كے مدارس ميں تدريس ميں بھى مشغول ہوگئے _ چارڈن نے اصفہان كے مدارس كى تعداد ۵۷ ذكر كى _(۴)

علمائے دين كى دينى مدارس ميں فعاليت اور صفوى بادشاہوں كے تعاون كے زير سايہ شيعہ مذہب كے علوم نے بہت وسعت اختيار كى مثلاًاسلامى فلسفہ ملا صدارا ، ميرداماد اور انكے شاگردوں جيسے علماء كى وجہ سے بہت

____________________

۱) رسول اسماعيل زادہ، شاہ اسماعيل صفوى ، خطايى ، انتشارات بين الملل الہدي_

۲) اسكندر بيك منشي، سابقہ حوالہ ج ۱ ص ۲۷۷_

۳) راجر سيورى ، سابقہ حوالہ ص ۲۱۳_

۴) حسين سلطان زادہ ، تاريخ مدارس ايران در عہد باستان تا تا سيس دارالفنون ، تہران ص ۵۷ _ ۲۵۶_

۲۱۹

زيادہ ترقى كر گيا _ اسى طرح علم طب نے بہت زيادہ اہميت پيدا كي_ حكيم باشي( ايك عہدے كا نام ) كا صفوى دربار ميں عہدہ ايك اہم عہدہ شمار ہوتا تھا اس دور ميں نشے كى چيزوں سے بے ہوش كرتے ہوئے مختلف اقسام كے آپريشن كيے گئے_(۱)

علم طب كے علاوہ علم نجوم بھى مورد توجہ تھا _ بادشاہ لوگ اپنے منصوبوں اور فيصلوں ميں علم نجوم سے فائدہ اٹھاتے تھے_

معماري

صفوى دور كى معمارى نے كيفيت اور كميت كے اعتبار سے ترقى كى _ اصفہان صفوى دور كى معمارى كا شاہكار ہے يہ جملہ ''اصفہان نصف جہان ہے'' اس ترقى كو بيان كر رہا ہے كہ جو شاہ عباس كے دور ميں پيكر حقيقت ميں تبديل ہوئي _ شاہ تھماسب نے دارالحكومت تبريز سے قزوين منتقل كيا اور قزوين ميں جديد عمارتيں بنائيں _ شاہ عباس نے اصفہان ميں اپنے بلند و بالا منصوبوں كو عملى جامہ پہنايا _

اصفہان اور اسكے ارد گرد كے علاقوں كا طبيعى حدود اربعہ شہر كو وسعت دينے كيلئے انتہائي مناسب تھا_ ايسا شہر جس ميں بہت سى سڑكيں محلات ، مساجد و مدارس، بازار، قلعے اور برج و مينارہوں ان سب كے بنانے اور وجود ميں لانے ميں بہاء الدين محمد عاملى (شيخ بہائي) كى مہارت وكوشش بہت اہميت كى حامل ہے _ چہار باغ ، ميدان عظیم نقش جہان، مسجد شيخ لطف اللہ، مسجد شاہ اور عالى قاپو ، اس دور كى معمارى كے اعلى نمونے ہيں _

دوسرا شاہكار چہل ستون ہے كہ جو شاہ عباس اول كے زمانہ ميں بننا شروع ہوا اور شاہ عباس دوم كے دور ميں تكميل ہوا اور سفيروں كے استقبال كى جگہ تھا_ آج بہت سے زينے، حمام، كاروانسرا، مدارس، مساجد اور ديگر متبرك مقامات صفوى دور كى عظيم الشان معمارى كى حكايت كررہے ہيں(۲)

____________________

۱) سيويل الگود _ طب در دورہ صفويہ ، ترجمہ محسن جاويد_ دانشگاہ تہران_

۲) زكى محمد حسن ، ہنر ايران، ترجمہ محمد ابراہيم اقليدى ، صداى معاصرص ۳۷ احمد تاجبخش ، تاريخ صفويہ ، انتشارات نويد شيراز_

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' اپنی زبان کو قابو اور اس کی حفاظت کر یہ نفس کے لئے بہترین ہدیہ ہے_ انسان صحیح اور حقیقی ایمان تک نہیں پہنچتا مگر یہ کہ وہ اپنی زبان کی نگاہ داری اور حفاظت کرے_(۴۲۱)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' تین چیزیں فہم اور فقہ کی علامت ہیں تحمل اور بردباری _ علم اور سکوت_ ساکت رہنا دانائی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے_ ساکت رہنا محبت کا سبب ہوتا ہے اور ہر نیکی کی دلیل ہے_(۴۲۲)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' جب عقل کامل ہوتی ہے تو گفتگو ہو جاتی ہے_(۴۲۳)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے ''کوئی بھی عبادت ساکت رہنے اور خانہ کعبہ کی طرف پیدل جانے سے افضل نہیں ہے_(۴۲۴)

رسول خدا نے جناب ابوذر سے فرمایا کہ '' میں تجھے زیادہ ساکت رہنے کی سفارش کرتا ہوں اس واسطے کہ اس وسیلے سے شیطن تم سے دور ہوجائے گا_ دین کی حفاظت کے لئے ساکت رہنا بہتر مددگار ہے_(۴۲۵)

خلاصہ انسان سالک اور عارف پر ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان پر پوری طرح کنٹرول کرے اور سنجیدہ اور سوچ سمجھ کر بات کرے اور زیادہ اور بیہودہ باتیں کرنے سے پرہیز کرے دنیاوی امور میں ضرورت کے مطابق باتیں کرے جو اسے زندگی کرنے کے لئے ضروری ہیں اور اس کے عوض اللہ تعالی کا ذکر اور ورد اور علمی مطالب اور فائدہ مند اور اجتماع کے لئے مفید گفتگو کرنے میں مشغول رہے _ ہمارے بزرگاور عارف ربانی استاد علامہ طباطبائی فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ساکت رہنے کے گراں قدر آثار مشاہدہ کئے ہیں_ چالیس شب و روز ساکت رہنے کو اختیار کیجئے اور سوائے ضروری کاموں کے باتیں نہ کریں اور فکر اور ذکر خدا میں مشغول رہیں تا کہ تمہارے لئے نورانیت اور صفاء قلب حاصل ہو سکے_

۲۴۱

چھٹی رکاوٹ

اپنی ذات اور اپنے اپ سے محبت ہے اگر عارف انسان نے تمام رکاوٹیں دور کر لی ہوں تو پھر اس کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ سامنے آتی ہے اور وہ ہے اس کا جب ذات یعنی اپنی ذات سے محبت کرنا_ وہ متوجہ ہوگا کہ اس کے تمام کام اور حرکات یہاں تک کہ اس کی عبادت و غیرہ کرنا سب کے سب اپنی ذات کی محبت کیوجہ سے انجام پارہے ہیں_ عبادت ریاضت ذکر اور دعا نماز اور روزے اس لئے انجام دے رہا ہے تا کہ اپنے نفس کو کامل کرے اور اسے ان کی اجزاء آخرت میں دی جائے گرچہ اس طرح کی عبادت کرنا بھی انسان کو بہشت اور آخرت کے ثواب تک پہنچا دیتی ہے لیکن وہ ذکر اور شہود کے بلند و بالا مقام اور رتبہ تک نہیں پہنچاتی جب تک اس کا نفس حب ذات کو ترک نہ کرے اور وہ اللہ تعالی کے بے مثال جمال کا مشاہدہ نہیں کر سکے گا جب تک تمام حجاب اور موانع یہاں تک کہ حب ذات کا حجاب اور مانع بھی ترک نہ کرے اس صورت میں وہ انوار الہی کا مرکز بننے کی قابلیت اور استعداد پیدا نہیں کر سکے گا_ لہذا عارف اور سالک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ریاضت اور مجاہدہ کر کے اپنے آپ کو حب ذات کی حدود سے باہر نکالے اپنی ذات کی محبت کو خدا کی محبت میں تبدیل کر دے اور تمام کاموں کو صرف اور صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے بجا لائے اگر غذا کھاتا ہے تو اس غرض سے کھائے کہ اس کے محبوب نے زندہ رہنے کے لئے اسے ضروری قرار دیا ہے اور اگر عبادت کرتا ہے تو اسے اس نیت سے بجالائے کہ ذات الہی ہی عبادت اور پرستش کی سزاوار اور مستحق ہے_ اس طرح کا انسان نہ دینا کا طلب کرنے والا ہوتا ہے اور نہ آخرت کا بلکہ وہ صرف خدا کا طلب کرنے والا ہوتا ہے_ یہاں تک کہ وہ کشف اور کرامت کا طلبکار بھی نہیں ہوتا اور سوائے حقیقی معبود کے اس کا کوئی اور مطلوب اورمنظور نظر نہیں ہوتا_ اگر کوئی اس مرحلے کو طے کر لے یہاں تک کہ اپنی شخصیت اور ذات کو اپنے آپ سے جدا کردے تو وہ مقام توحید میں

۲۴۲

قدم رکھ لے گا اور شہود اور لقاء اللہ کے بلند اور بالا مقام تک ترقی کر جائیگا اور بارگاہ مقعد صدق عند ملیک مقتدر میں نازل ہوجائیگا_

ساتویں رکاوٹ

کمال اور عرفان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اور شاید یہ سابقہ تمام رکاوٹوں سے بھی زیادہ ہو وہ ہے ارادہ کا ضعیف ہونا_ اور حتمی فیصلے کرنے کی قدرت نہ رکھنا _ یہ رکاوٹ اور مانع انسان کو عمل شروع کرنے سے روک دیتی ہے_ شیطن اور نفس کرتا ہے کہ انسان کو ظاہر ی ذمہ داری اور وظائف شرعی کی بجالانے کو کافی قرار دے گرچہ اس میں حضور قلب اور توجہہ نہ بھی ہو_ شیطن انسان کو کہتا ہے کہ تو صرف انہیں عبادت کے بجالانے کے سوا اور کوئی شرعی وظیفہ نہیں رکھتا تجھے حضور قلب اور توجہہ اور ذکر سے کیا کام ہے؟ اور اگر کبھی انسان اس کی فکر کرنے بھی لگے تو اسے سینکٹروں حیلے اور بہانوں سے روک دیتا ہے اور کبھی اس مطلب کو اس کرے لئے اتنا سخت نمایاں کرتا ہے کہ انسان اس سے مایوس اور نامید ہوجاتا ہے لیکن اس انسان کے لئے جو کمال حاصل کرنے کا ارادہ کرتا ہے ضروری ہے کہ وہ شیطن اور نفس امارہ کے ایسے وسوسوں کے سامنے رکاوٹ بنے اور احادیث اور آیات اور اخلاق کی کتابوں کے مطالعے کرنے سے معلوک کرے کہ سیر اور سلوک کے لئے حضور قلب اور ذکر و شہود کی کتنی ضرورت اور اہمیت ہے اور جب اس نے اس کی اہمیت کو معلوم کر لیا اور اپنی ابدی سعادت کو اس میں دیکھ لیا تو پھر حتمی طور سے اس پر عمل کرے گا اور مایوسی اور ناامیدی کو اپنے سے دور کردے گا اور اپنے آپ سے کہے گا کہ یہ کام گرچہ مشکل ہے اور چونکہ اخروی سعادت اس سے وابستہ ہے لہذا ضرور مجھے اس پر عمل کرنا چاہئے_ اللہ تعالی فرماتا ہے جو ہمارے راستے

۲۴۳

میں کوشش اور جہاد کرتے ہیں ہم اس کو اپنے راستوں کی راہنمائی کر دیتے ہی_

و الذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا (۴۲۶)

ہماری یہ ساری بحث اور کلام تکامل اور تقرب الہی کے پہلے وسیلے اور ذریعے میں تھی یعنی اللہ تعالی کے ذکر میں تھی _ بحث کی طوالت پر ہم معذرت خواہ ہیں_

۲۴۴

دوسرا وسیلہ

فضائل اور مکارم اخلاق کی تربیت

نفس کے کمال تک پہنچنےاور قرب الہی کے حاصل کرنے کے لئے ایک وسیلہ ان اخلاقی کی جو انسان کی فطرت اور سرشت میں رکھ دیئے گئے ہیں پرورش اور تربیت کرنا ہے_ اچھے اخلاق ایسے گران بہا امور ہیں کہ جن کا ربط اور سنخیت انسان کے ملکوتی روح سے ہے ان کی تربیت اور پرورش سے انسان کی روح کامل سے کاملتر ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے بلند و بالا مقام قرب تک پہنچتا ہے_ اللہ تعالی کی مقدس ذات تمام کمالات کا منبع اور سرچشمہ ہے_ انسان چونکہ عالم بالا سے تعلق رکھتا ہے وہ اپنی پاک فطرت سے کمالات انسانی کو کہ جن کی عالم بالا سے مناسبت ہے انہیں خوب پہچانتا ہے اور فطرتا ان کی طرف مائل ہے اسی لئے تمام انسان تمام زمانوں میں نیک اخلاق کو جانتے اور درک کرتے ہیں جیسے عدالت_ ایثار_ سچائی_ امانتداری _ احسان _ نیکی_ شجاعت_ صبر اور استقامت علم خیر خواہی مظلوموں کی مدد شکریہ احسان شناسی سخاوت اور بخشش_ وفا

۲۴۵

عہد_ توکل_ تواضع اور فروتنی_ عفو اور درگزر_ نرمی مزاجی _ خدمت خلق و غیرہ ان تمام کو ہر انسان خوب پہچانتے اور جانتے ہیں خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتاہے_ کہ قسم نفس کی اور اس کی کہ اسے نیک اور معتدل بنایا ہے اور تقوی اور منحرف ہوجانے کا راستہ اسے بتلایا ہے کامیاب وہ ہوا جس نے اپنے نفس کو پاک بنایا اور نقصان میں ہوگا وہ کہ جس نے اپنے نفس کو آلودہ اور ناپاک بنایا_(۴۳۷)

جب اخلاقی کام بار بار انجام دیئے جائیں تو وہ نفس میں راسخ اور ایک قسم کا ملکہ پیدا کر لیتے ہیں وہی انسان کو انسان بنانے اور اپنا نے اور ہوجانے میں موثر اور اثر انداز ہوتے ہیں اسی واسطے اسلام اخلاق کے بارے میں ایک خاص طرح کی اہمیت قرار دیتا ہے_ اسلام کا ایک بہت بڑا حصہ اخلاقیات پر مشتمل ہے_ سینکٹروں آیات اور روایات اخلاق کے بارے میں وارد ہوئی ہیں_ قرآن مجید کی زیادہ آیتیں اخلاق کے بارے میں اور اخلاقی احکام پر مشتمل ہیں یہاں تک کہ اکثر قرآن کے قصوں سے غرض اور غایت بھی اخلاقی احکام امور ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید ایک اخلاقی کتاب ہے _ قاعدتا پیغمبروں کے بھیجنے کی ایک بہت بڑی غرض اور غایت بھی نفس کو پاک اور صاف بنانا اور اخلاق کی اور پرورش کرنا ہے_ ہمارے پیغمبر علیہ السلام نے بھی اپنی بعثت اور بھیجے جانے کی غرص اخلاق کی تکمیل کرنا اور نیک اخلاق کی تربیت کرنا بتلائی ہے اور فرمایا ہے کہ '' میں اللہ تعالی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں تا کہ نیک اخلاق کو پورا اور تمام کروں_(۴۲۸)

پیغمبر اسلام لوگوں سے فرماتے تھے کہ '' میں نیک اخلاق کی تمہیں نصیحت اور وصیت کرتا ہوں کیونکہ خداوند عالم نے مجھے اسی غرض کے لئے بھیجا ہے_(۴۲۹)

نیز پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں اخلاق حسنہ سے کوئی چیز افضل ہو نہیں رکھی جائیگی_(۴۳۰)

۲۴۶

تیسرا وسیلہ

عمل صالح

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد انسان کے تکامل کا وسیلہ اعمال صالح ہیں کہ جن کی وجہ سے انسان قرب خدا اور درجات عالیہ کو حاصل کر سکتا ہے اور اپنی اخروی زندگی کو پاک و پاکیزہ بنا سکتا ہے_ قرآن مجید میں ہے کہ '' جو شخص نیک اعمال بجا لائے خواہ مرد ہو یا عورت جب کہ ایمان رکھتا ہو ہم اس کو ایک پاکیزہ میں اٹھائیں گے اور اسے اس عمل سے کہ جسے وہ بجا لایا ہے_ بہتر جزاء اور ثواب دیں گے_(۴۳۱)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لئے دنیا کی زندگی کے علاوہ ایک اور پاک و پاکیزہ زندگی ہے اور وہ نئی زندگی اس کے ایمان اور عمل صالح کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے_ قرآن فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ خداوند عالم کی طرف لوٹیں یہی وہ لوگ ہیں جو مقامات اور درجات عالیہ پر فائز ہوتے ہیں_(۴۳۲)

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' جو انسان اللہ تعالی کی ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے نیک عمل بجالانا چاہئے اور عبادت میں خدا کا کوئی شریک قرار نہ دینا چاہئے_(۴۳۳)

نیز اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جو شخص عزت کا طلبکار ہے تو تمام عزت اللہ تعالی کے

۲۴۷

پاس ہے کلمہ طیبہ اور نیک عمل اللہ تعالی کی طرف جاتا ہے_(۴۳۴)

اللہ تعالی اس آیت میں فرماتا ہے کہ تمام عزت اور قدرت اللہ کے لئے مخصوص ہے اسی کے پاس ہے اور کلمہ طیبہ یعنی موحد انسان کی پاک روح اور توحید کا پاک عقیدہ ذات الہی کی طرف جاتا ہے اور اللہ تعالی نیک عمل کو اپنے پاس لے جاتا ہے_ نیک عمل جب خلوص نیت سے ہو تو انسان کی روح پر اثر انداز ہوتا ہے اور اسے ترقی اور کمال دیتا ہے_ قرآن مجید سے معلوم ہوتاہے کہ آخرت کی پاک و پاکیزہ زندگی اور اللہ تعالی سے قرب اور القاء کا مرتبہ ایمان اور عمل صالح کے ذریعے حاصل ہوتا ہے_ قرآن مجید نے نیک اعمال کے بجا لانے پر بہت زیادہ زور دیا ہے خدا سعادت اور نجات کا وسیلہ صرف عمل صالح کو جانتا ہے نیک عمل کا معیار اور میزان اس کا شریعت اور وحی الہی کے مطابق ہونا ہوا کرتا ہے_ خداوند عالم جو انسان کی خصوصی غرض سے واقف ہے اس کی سعادت اور تکامل کے طریقوں کو بھی جانتا ہے اور ان طریقوں کو وحی کے ذریعے پیغمبر اسلام کے سپرد کر دیا ہے تا کہ آپ انہیں لوگوں تک پہنچا دیں اور لوگ ان سے استفادہ حاصل کریں_

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان لے آئے ہیں جب خدا اور اس کا رسول تمہیں کسی چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی عطا کرتی ہیں تو اسے قبول کرو_(۴۳۵)

نیک اعمال شرعیت اسلام میں واجب اور مستحب ہوا کرتے ہیں_ عارف اور سالک انسان ان کے بجالانے سے اللہ تعالی کی طرف سیر و سلوک کرتے ہوئے قرب الہی کے مقام تک پہنچ سکتا ہے اور یہی تنہا قرب الہی تک پہنچنے کا راستہ ہے اور دوسرے جتنے راستے ہیں وہ عارف کو اس مقصد تک نہیں پہنچا سکتے بلکہ وہ ٹیڑھے راستے ہیں_ عارف انسان کو مکمل طور سے شرعیت کا مطیع اور فرمانبردار ہونا چاہئے اور سیر و سلوک کے لیے شرعیت کے راستے کے علاوہ اور کوئی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے اور ان اذکار اور اوراد اور حرکت سے کہ جس کا شرعیت اسلام میں کوئی مدرک اور

۲۴۸

ذکر موجود نہ ہو اس سے اجتناب اور پرہیز کرنا چاہئے نہ صرف وہ مقصد تک نہیں پہنچاتے بلکہ وہ اس کو مقصد سے دور بھی کر دیتے ہیں کیونکہ شرعیت سے تجاوز کرنا بدعت ہوا کرتا ہے_ عارف اور سالک انسان کو پہلے کوشش کرنی جاہئے کہ وہ واجبات اور فرائض دینی کو صحیح اور شرعیت کے مطابق بجالائے کیونکہ فرائض اور واجبات کے ترک کردینے سے مقامات عالیہ تک نہیں پہنچ سکتا گرچہ وہ مستحبات کے بجالائے اور ورد اور ذکر کرنے میں کوشاں بھی رہے_ دوسرے مرحلے میں مستحبات اور ذکر اور ورد کی نوبت آتی ہے_ عارف انسان اس مرحلے میں اپنے مزاجی استعداد اور طاقت سے مستحبات کے کاموں کا بجا لائے اور جتنی اس میں زیادہ کوشش کرے گا اتنا ہی عالی مقامات اور رتبے تک جا پہنچے گا_ مستحبات بھی فضیلت کے لحاظ سے ایک درجے میں نہیں ہوتے بلکہ ان میں بعض دوسرے بعض سے افضل ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں بہتر اور جلدی مقام قرب تک پہنچاتے ہیں جیسے احادیث کی کتابوں میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے_ عارف انسان نمازیں دعائیں ذکر اور اوراد کتابوں سے انتخاب کرے اور اس کو ہمیشہ بجا لاتا رہے جتنا زیادہ اور بہتر بجا لائیگا اتنا صفا اور نورانیت بہتر پیدا کرے گا اور مقامات عالیہ کی طرف صعود اور ترقی کرے گا ہم یہاں کچھ اعمال صالح کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور باقی کو کتابوں کی طرف مراجعہ کرنے کا کہتے ہیں لیکن اس کا ذکر کر دینا ضروری ہے کہ فرائض اور نوافل ذکر اور ورد اس صورت میں عمل صالح ار موجب قرب ہونگے جب انہیں بطور اخلاص بجا لایا جائے_ عمل کا صالح اور نیک اور موجب قرب ہونا اخلاص اور خلوص کی مقدار کے لحاظ سے ہوگا لہذا پہلے ہم اخلاص اور خلوص میں بحث کرتے ہیں پھر کچھ تعداد اعمال صالح کی طرف اشارہ کریںگے_

اخلاص

اخلاص کا مقام اور مرتبہ تکامل اور سیر و سلوک کے اعلی ترین مرتبے میں سے ایک ہے اور خلوص کی کی وجہ سے انسان کی روح اور دل انوار الہی کا مرکز بن جاتا ہے

۲۴۹

اور اس کی زبان سے علم اور حکمت جاری ہوتے ہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص خدا کے لئے چالیس دن خالص اور فارغ ہوجائے تو اس کے دل سے حکمت اور دانائی کے چشمے ابلتے اور جاری ہوجاتے ہیں_(۴۳۶)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' کہاں ہیں وہ لوگ جو اپنے اعمال کو خدا کے لئے خالص بجالاتے ہیں اور اپنے دلوں کو اس لئے کہ اللہ تعالی کی وجہ کا مرکز پاک رکھتے ہیں_(۴۳۷)

حضرت زہراء علیہا السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص خالص عبادت اللہ تعالی کی طرف بھیجے اللہ تعالی بھی بہترین مصلحت اس پر نازل فرماتا ہے_(۴۳۸)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے '' بندوں کا پاک دل اللہ تعالی کی نگاہ کا مرکز ہوتا ہے جس شخص نے دل کو پاک کیا وہ اللہ تعالی کا مورد نظر قرار پائیگا_(۴۳۹)

پیغمبر علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام سے نقل کیا ہے اور اس نے اللہ تعالی سے نقل کیا ہے کہ '' خلوص اور اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے کہ جس شخص کو میں دوست رکھتا ہوں اس کے دل میں یہ قرار دے دیتا ہوں_(۴۴۰)

خلوص کے کئی مراتب اور درجات ہیں_ کم از کم اس کا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی عبادت کو شرک اور ریاء اور خودنمائی سے پاک اور خالص کرے اور عبادت کو صرف خدا کے لئے انجام دے خلوص کی اتنی مقدار تو عبادت کے صحیح ہونے کی شرط ہے اس کے بغیر تو تقرب ہی حاصل نہیں ہوتا عمل کی قیمت اور ارزش اس کے شرک اور ریاء سے پاک اور خالص ہونے پر موقوف ہے_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم تمہاری شکل اور عمل کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے_(۴۴۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں بہترین شریک ہوں جو شخص کسی دوسرے کو عمل میں شریک قرار دے (تو تمام عمل کو اسی

۲۵۰

کے سپرد کر دیتا ہوں) میں سوائے خالص عمل کے قبول نہیں کرتا _(۴۴۲) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم لوگوں کو قیامت میں ان کی نیت کے مطابق محشور کرے گا_(۴۴۳)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' خوش نصیب ہے وہ شخص جو عبادت اور دعا کو صرف خدا کے لئے انجام دیتا ہے اور اپنی آنکھوں کو ان میں مشغول نہ کرے جو آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس کی وجہ سے جو اس سے کان پر پڑتا ہے اللہ تعالی کے ذکر کو فراموش نہ کرے اور جو چیزیں دوسروں کو دی گئی ہیں ان پر غمگین نہ ہو_(۴۴۴)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے_ ''عمل میں خلوص سعادت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے_(۴۴۵) اللہ تعالی کے ہاں وہ عبادت قبول ہوتی ہے اور موجب قرب اور کمال ہوتی ہے جو ہر قسم کے ریاء اور خودپسندی اور خودنمائی سے پاک اور خالص ہو اور صرف اور صرف خدا کے لئے انجام دی جائے عمل کی قبولیت اور ارزش کا معیار خلوص اور اخلاص ہے جتنا خلوص زیادہ ہوگا اتناہی عمل کامل تر اور قیمتی ہوگا_ عبادت کرنے والے کئی طرح کے ہوتے ہیں_

ایک وہ لوگ جو اللہ تعالی کے عذاب اور جہنم کی آگ کے خوف اور ڈر سے عبادت بجا لاتے ہیں_

دوسرے وہ لوگ ہیں جو بہشت کی نعمتوں اور آخرت کے ثواب کے لئے اوامر اور نواہی کی اطاعت کرتے ہیں ان کا اس طرح کا عمل اس کے صحیح واقع ہونے کے لئے تو مضر نہیں ہوتا ان کا ایسا عمل صحیح اور درست ہے اور موجب قرب اور ثواب بھی ہے کیونکہ قرآن مجید اور احادیث میں لوگوں کو راہ حق کی ہدایت اور ارشاد اور تبلیغ کے لئے غالبا انہیں دو طریقوں سے استفادہ کیا گیا ہے بالخصوص پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار اور اولیاء اللہ خداوند عالم کے عذاب سے ڈرتے تھے اور جزع اور فزع کیا کرتے تھے اور بہشت اور اس کی نعمتوں کے لئے شوق اور امید کا اظہار کیا کرتے تھے_

۲۵۱

تیسرے وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکرانہ کے لئے اللہ تعالی کی پرستش اور عبادت کیا کرتے ہیں اس طرح کا عمل بجا لانا اسکے منافی نہیں جو عمل کے قبول ہونے میں خلوص شرط ہے اسی واسطے احادیث میں لوگوں کو عمل بجالانے کی ترغیب اور شوق دلانے میں اللہ تعالی کی نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے تا کہ ان کی وجہ سے اللہ تعالی کے احکام کی اطاعت کریں بلکہ خود پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار نے عبادت میں انہماک اور کوشش کرنے کا سبب یہ بتلایا ہے کہ کیا ہم اللہ کے شکر گزار بندے قرار نہ پائیں(افلا اکون عبدا شکورا)گر چہ ان تینوں کے اعمال قابل قبول واقع ہوتے ہیں لیکن تیسرے قسم کے لوگ ایک خاص امتیاز اور قیمت رکھتے ہیں کیونکہ ان میں خلوص زیادہ ہوتا ہے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں وہ تین قسم کے ہوتے ہیں ایک قسم وہ ہے جو آخرت کے ثواب حاصل کرنے کے لئے خدا کی عبادت کرتے ہیں_ ان لوگوں کا کردار تاجروں والا ہے دوسری قسم وہ ہے جو جہنم کے خوف سے اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں یہ اطاعت اور عبادت غلاموں اور نوکر والی ہے_ تیسری قسم وہ ہے جو اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکرانے کے ادا کرنے کے لئے عبادت کرتے ہیں یہ عبادت آزاد مردوں والی عبادت ہے_(۴۴۶)

چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جو نفس کی تکمیل اور روح کی تربیت کے لئے عبادت کرتے ہیں اس طرح کا م قصد بھی اس خلوص کو جو عبادت کے صحیح ہونے میں شرط ضرر نہیں پہنچاتا_

پانچویں قسم اللہ کے ان ممتاز اور مخصوص بندوں کی ہے کہ جنہوں نے خدا کو اچھی طرح پہنچان لیا ہے اور جانتے ہیں کہ تمام کمالات اور نیکیوں کا منع اور سرچشمہ خدا ہے اس کی عبادت کرتا ہے اور چونکہ وہ اللہ کی بے انتہا قدرت اور عظمت کی طرف متوجہ ہیں اور اس ذات کے سوا کسی اور کو موثر نہیں دیکھتے صرف اسی ذات کو پرستش اور عبادت کے لائق سمجھتے ہیں اسی لئے خدا کو دوست رکھتے ہیں اور اس کی قدرت اور

۲۵۲

عظمت کے سامنے خضوع اور خشوع کرتے ہیں اور یہ اخلاص اور خلوص کا اعلی ترین درجہ اور مرتبہ ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عبادت کرنے والے تین گروہ ہیں_ ایک گروہ ثواب کی امید میں عبادت کرتا ہے یہ عبادت حریص لوگوں کی ہے کہ جن کی غرض طمع ہوتا ہے دوسرا گروہ وہ ہے جو دوزخ کے ڈر سے عبادت کرتا ہے_ یہ عبادت غلاموں کی عبادت ہے کہ خوف اس کا سبب بنتا ہے لیکن میں چونکہ خدا کو دوست رکھتا ہوں اسی لئے اس کی پرستش اور عبادت کرتا ہوں یہ عبادت بزرگوں اور اشراف لوگوں کی ہے اس کا سبب اطمینان اور امن ہے اللہ تعالی فرماتا ہے (و ہم فزع یومئسذ امنون کہ وہ قیامت کے دن امن میں ہیں_ نیز اللہ فرماتا ہے ''قل ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم الله و یغفر لکم ذنوبکم _(۴۴۷) امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' اے میرے مالک_ میں تیری عبادت نہ دوزخ کے خوف سے اور نہ بہشت کے طمع میں کرتا ہے بلکہ میں تیری عبادت اس لئے کرتا ہوں کے تجھے عبادت اور پرستش کے لائق جانتا ہوں_(۴۴۸)

یہ تمام گروہ مخلص ہیں اور ان کی عبادت قبول واقع ہوگی لیکن خلوص اور اخلاص کے لحاظ سے ایک مرتبے میں نہیں ہیں بلکہ ان میں کامل اور کاملتر موجود ہیں پانچویں قسم اعلی ترین درجہ پر فائز ہے لیکن یہ واضح رہے کہ جو عبادت کے اعلی مرتبہ پر ہیں وہ نچلے درجہ کو بھی رکھتے ہیں اور اس کے فاقد نہیں ہوتے بلکہ نچلے درجے کے ساتھ اعلی درجے کو بھی رکھتے ہیں_ اللہ تعالی کے مخلص اور صدیقین بندے بھی اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں اور ان کے لطف اور کرم کی امید رکھتے ہیں اللہ تعالی کی نعمتوں کے سامنے شکر ادا کرتے ہیں اور معنوی تقرب اور قرب کے طالب ہوتے ہیں لیکن ان کی عبادت کا سبب فقط یہی نہیں ہوتا اور چونکہ وہ خدا کی سب سے اعلی ترین معرفت رکھتے ہیں اسی لئے اس کی عبادت اور پرستش کرتے ہیں یہ اللہ تعالی کے ممتاز اور منتخب بندے ہیں مقامات عالیہ کے علاوہ نچلے سارے درجات رکھتے ہیں کیونکہ جو انسان تکامل

۲۵۳

کے لئے سیر و سلوک کرتا ہے جب وہ اعلی درجے تک پہنچتا ہے تو نچلے درجات کو بھی طے کر کے جاتا ہے_

اب تک جو ذکر جو ذکر ہوا ہے وہ عبادت میں خلوص اور اخلاص تھا لیکن خلوص صرف عبادت میں منحصر نہیں ہوتا بلکہ عارف انسان تدریجا ایک ایسے مقام تک جا پہنچتا ہے کہ وہ خود اور اس کا دل اللہ تعالی کے لئے خالص ہو جاتا ہے اور تمام غیروں کو اپنے دل سے اس طرح نکال دیتا ہے کہ اس کے اعمال اور حرکات اور افکار خداوند عالم کے ساتھ اختصاص پیدا کر لیتے ہیں اور سوائے اللہ تعالی کی رضایت کے کوئی کام بھی انجام نہیں دیتا اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور خدا کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتا_ اس کی کسی سے دوستی اور دشمنی صرف خدا کے لئے ہوا کرتی ہے اور یہ اخلاص کا اعلی ترین درجہ ہے_

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جس کا عمل اور علم محبت اور بغض کرنا اور نہ کرنا بولنا اور ساکت رہنا تمام کا تمام خدا کے لئے خالص ہو_(۴۴۹)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جس شخص کی محبت اور دشمنی خرچ کرنا اور نہ کرنا صرف خدا کے لئے ہو یہ ان انسانوں میں سے ہے کہ جس کا ایمان کامل ہوتا ہے_(۴۵۰) امام جعفر صادق علیہ السلام نے ''فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے جس بندے کے دل میں سوائے خدا کے اور کوئی چیز نہ رکھی ہو تو اس کو اس سے اور کوئی شریف ترین چیز عطا نہیں کی_(۴۵۱)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کہاں ہے وہ دل جو اللہ تعالی کو بخش دیا گیا ہو اور اس کی اطاعت کا پیمان اور عہد بناندھا گیا ہو_(۴۵۲)

جب کوئی عارف انسان اس مرتبے تک پہنچ جائے تو خدا بھی اس کو اپنے لئے خالص قرار دے دیتا ہے اور اپنی تائید اور فیض اور کرم سے اس کو گناہوں سے محفوظ

۲۵۴

کر دیتا ہے اس طرح کا انسان مخلص پہچانا جاتا ہے اور مخلص انسان اللہ تعالی کے ممتاز بندوں میں سے ہوتے ہیں_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' ہم نے ان کو آخرت کی یاد کے لئے خالص قرار دے دیا ہے_(۴۵۳)

قرآن کریم حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے کہ '' یقینا و ہ خالص ہوگیا ہے اور رسول اور پیغمبر ہے_(۴۵۴)

اللہ تعالی کے خالص بندے ایک ایسے مقام تک پہنچتے ہیں کہ شیطن ان کو گمراہ کرنے سے ناامید ہوجاتا ہے قرآن کریم شیطن کی زبان نقل کرتا ہے کہ اس نے خداوند عالم سے کہا کہ '' مجھے تیری عزت کی قسم کہ میں تیرے تمام بندوں کو سوائے مخلصین کے گمراہ کروں گا اور مخلصین کے گمراہ کرنے میں میرا کوئی حصہ نہیں ہے_(۴۵۵) بلکہ اخلاص کے لئے روح اور دل کو پاک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور عبادت کرنے میں کوشش اور جہاد کرنا ہوتا ہے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''عبادت کا نتیجہ اور ثمر اخلاص ہوتا ہے_(۴۵۶)

جیسے کہ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ چالیس دن تک عبادت اور ذکر کو برابر بجا لانا دل کے صفا اور باطنی نورانیت اور مقام اخلاص تک پہنچنے کے لئے سبب اور موثر اورمفید ہوتاہے نہ صرف ایک دفعہ بلکہ تدریجا اور اخلاص کے باطنی مراحل طے کرتے رہنے سے ایسا ہو سکتا ہے_

۲۵۵

کچھ نیک اعمال

پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ انسان کو تکامل تک پہچانے اور قرب اور ارتقاء کے مقام تک لے جانے کا راستہ صرف اور صرف وحی الہی اور شرعیت کی پیروی کرنے میں منحصر ہے اور یہی وہ راستہ ہے کہ جسے انبیاء علیہم السلام نے بیان کیا ہے او رخود اس پر عمل کیا ہے اور اسے واجبات اور مستحبات سے بیات کیا ہے یہی عمل صالح ہے_ عمل صالح یعنی واجبات اور مستحبات جو اسلام میں بیان کئے گئے ہیں اور انہیں قرآن اور احادیث اور دعاؤں کی کتابوں میں لکھا گیا ہے آپ انہیں معلوم کر سکتے ہیں اور ان پر عمل کر کے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن ہم یہاں پر ان میں سے کچھ کا ذکر کرتے ہیں_

اول: واجب نمازیں

قرب الہی اور سیر و سلوک معنوی کے لئے نماز ایک بہترین سبب اور عامل ہے_ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر پرہیزگار انسان کے لئے نماز قرب الہی کا وسیلہ ہے_(۴۵۷)

معاویہ بن وھب نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ بہترین وسیلہ جو بندوں کو خدا کے نزدیک کرتا ہے اور خدا اسے دوست رکھتا ہے کیا ہے؟ آپ نے فرمایا

۲۵۶

اللہ کی معرفت کے بعد میں نماز سے بہتر کوئی اور کسی چیز کو وسیلہ نہیں پاتا کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی کے نیک بندے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا نے مجھے جب تک زندہ ہوں نماز اور زکوة کی سفارش ہے_(۴۵۸)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی کے نزدیک نماز محبوب ترین عمل ہے_ انبیاء کی آخری وصیت نماز ہے_ کتنا ہی اچھا ہے کہ انسان غسل کرے اور اچھی طرح وضوء کرے اس وقت ایک ایسے گوشہ میں بیٹھ جائے کہ اسے کوئی نہ دیکھے اور رکوع اور سجود میں مشغول ہوجائے جب انسان سجدے میں جائے اور سجدے کو طول دے تو شیطن داد اور فریاد کرتا ہے کہ اس بندے نے خدا کی اطاعت کی اور سجدہ کیا اور میں نے سجدے کرنے سے انکار کر دیا تھا_(۴۵۹)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ایک بندہ کی خدا کے نزدیک ترین حالت اس وقت ہوتی ہے جب وہ سجدے میں ہوتا اس واسطے کہ خداوند عالم فرماتا ہے کہ واسجد و اقترب_(۴۶۰)

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو آسمان سے اس پر اللہ تعالی کی رحمت نازل ہوتی ہے اور اس کے ارد گرد ملائکہ گھیرا کر لیتے ہیں ایک فرشتہ کہتا ہے کہ اگر یہ نماز کی ارزش اور قیمت کو جانتا تو کبھی نماز سے روگردانی نہ کرتا_(۴۶۱)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے '' جب مومن بندہ نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خداوند عالم نماز سے فارغ ہونے تک اس کی طرف نگاہ کرتا ہے اور آسمان سے اللہ تعالی کی رحمت اسے گھیر لیتی ہے اور فرشتے اس کے اردگرد گھیرا ڈال دیتے ہیں خداوند اس پر ایک فرشتے کو معین کر دیتا ہے جو اسے کہتا ہے کہ اے نماز پڑھتے والے اگر تو جان لیتا کہ تو کس کی توجہ کا مرکز ہے اور کس سے مناجات کر رہا ہے تو پھر تو کسی دوسری چیز کی طرف ہرگز توجہ نہ کرتا اور کبھی یہاں سے باہر نہ جاتا_(۴۶۲)

۲۵۷

نماز میں حضور قلب

نماز ایک ملکوتی اور معنوی مرکب ہے کہ جس کی ہر جزو میں ایک مصلحت اور راز مخفی ہے_ اللہ تعالی سے راز و نیاز انس محبت کا وسیلہ اور ارتباط ہے_ قرب الہی اور تکامل کا بہترین وسیلہ ہے_ مومن کے لئے معراج ہے برائیوں اور منکرات سے روکنی والی ہے_ معنویت اور روحانیت کا صاف اور شفاف چشمہ ہے جو بھی دن رات میں پانچ دفعہ اس میں جائے نفسانی آلودگی اور گندگی سے پاک ہو جاتا ہے اللہ تعالی کی بڑی امانت اور اعمال کے قبول ہونے کا معیار اور ترازو ہے_

نماز آسمانی راز و اسرار سے پر ایک طرح کا مرکب ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ اس میں روح اور زندگی ہو_ نماز کی روح حضور قلب اور معبود کی طرف توجہہ اور اس کے سامنے خضوع اور خشوع ہے_ رکوع اور سجود قرات اور ذکر تشہد اور سلام نماز کی شکل اور صورت کو تشکیل دیتے ہیں_ اللہ تعالی کی طرف توجہ اور حضور قلب نماز کے لئے روح کی مانند ہے_ جیسے جسم روح کے بغیر مردہ اور بے خاصیت ہے نماز بھی بغیر حضور قلب اور توجہ کے گرچہ تکلیف شرعی تو ساقط ہو جاتی ہے لیکن نماز پڑھنے والے کو اعلی مراتب تک نہیں پہنچاتی نماز کی سب سے زیادہ غرض اور غایت اللہ تعالی کی یاد اور ذکر کرنا ہوتا ہے_ خداوند عالم پیغمبر علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ '' نماز کو میری یاد کے لئے برپا کر_( ۴۶۴)

قرآن مجید میں نماز جمعہ کو بطور ذکر کہا گیا ہے یعنی '' اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو موجب نماز جمعہ کے لئے آواز دی جائی تو اللہ تعالی کے ذکر کی طرف جلدی کرو_(۴۶۵)

نماز کے قبول ہونے کا معیار حضور قلب کی مقدار پر قرار پاتا ہے جتنا نماز میں حضور قلب ہوگا اتنا ہی نماز مورد قبول واقع ہوگی_ اسی لئے احادیث میں حضور قلب کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے_ جیسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے ''کبھی آدھی نماز قبول ہوتی ہے اور کبھی تیسرا حصہ اور کبھی چوتھائی اور کبھی پانچواں حصہ

۲۵۸

اور کبھی دسواں حصہ_ بعض نمازیں پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر نماز پڑھنے والے کے سرپر مار دی جاتی ہے_ تیری نماز اتنی مقدر قبول کی جائیگی جتنی مقدار تو خدا کی طرف توجہ کرے گا_( ۴۶۶) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خدا اس کی طرف توجہہ کرتا ہے اور اپنی توجہ کو اس سے نہیں ہٹاتا مگر جب تین دفعہ وہ خدا سے غافل ہو جائے اس وقت خداوند عالم بھی اس سے اعراض اور روگردانی کر لیتا ہے_(۴۶۷)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' سستی اور بیہودہ حالت میں نماز نہ پڑھو_ نماز کی حالت میں اپنی فکر میں نہ رہو کیونکہ تم خدا کے سامنے کھڑے ہو_ جان لو کہ نماز سے اتنی مقدار قبول ہوتی ہے جتنی مقدار تیرا دل اللہ کی طرف توجہ کرے گا_(۸ ۴۶)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو بندہ نماز کی حالت میں خدا کے علاوہ کسی کی طرف متوجہ ہو تو خدا اس سے کہتا ہے کہ اے میرے بندے کس کا ارادہ کیا ہے اور کس کو طلب کرتے ہو؟ کیا میرے علاوہ کسی کو خالق اور حفاظت کرنے والا ڈھونڈتے ہو؟ کیا میرے علاوہ کسی کو بخشنے والا طلب کرتے ہو؟ جب کہ میں کریم اور بخشنے والوں سے زیادہ کریم اور بخشنے والا ہوں اور سب سے زیادہ عطا کرنے والا ہوں میں تمہیں اتنا ثواب دونگا کہ جسے شمار نہیں کیا سکے گا میری طرف توجہ کر کیونکہ میں اور میرے فرشتے تیری طرف توجہ کر رہے ہیں اگر نمازی نے خدا کی طرف توجہ کی تو اس دفعہ اس کے گزرے ہوئے گناہ مٹ جاتے ہیں اور اس نے دوسری دفعہ خدا کے علاوہ کسی طرف توجہہ کی تو خداوند عالم دوبارہ اسے سابقہ گفتگو کی طرح خطاب کرتا ہے اگر اس نے نماز کی طرف توجہ کر لی تو اس کا غفلت کرنے والا گناہ بخشنا جاتا ہے اور اس کے آثار زائل ہوجاتے ہیں اور اگر تیسری دفعہ نماز سے توجہہ ہٹا لے خدا

۲۵۹

پھر بھی پہلے کی طرح اسے خطاب کرتا ہے اگر اس دفعہ نماز کی توجہ کر لے تو اس دفعہ اس کا غفلت والا گناہ بخش دیا جاتا ہے اور اگر چوتھی دفعہ نماز سے توجہ ہٹا لے تو خدا اور اس کے ملائکہ اس سے توجہ ہٹا لیتے ہیں_ خدا اس سے کہتا ہے کہ تجھے اسی کی طرف چھوڑے دیا ہے کہ جس کی طرف توجہ کر رہا ہے_(۴۶۹)

نماز کی ارزش اور قیمت خدا کی طرف توجہ اور حضور قلب سے ہوتی ہے توجہ اور حضور قلب کی مقدار جتنا اسے باطنی صفا اور تقرب الی اللہ حاصل ہوتا ہے_ بلا وجہ انبیاء علیہم السلام اور ائمہ اطہار اور اولیاء کرام نماز کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے_ امیر المومنین علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ جب نماز کا وقت ہوتا تھا تو آپ کے بدن پر لزرہ طاری ہوجاتا تھا اور آپکے چہرے کا رنگ بدن جاتا تھا_

آپ سے تبدیلی اور اضطراب کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا ''کہ اس وقت اس امانت کے ادا کرنے کا وقت آپہنچا ہے جو آسمان اور زمین پر ڈالی گئی تھی لیکن وہ ڈرگئے تھے اور اس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا تھا لیکن انسان نے اس بڑے امانت کے اٹھانے کو قبول کر لیا تھا میرا خوف اس لئے ہے کہ آیا میں اس امانت کو ادا کر لونگا یا نہ؟(۴۷۰)

امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے احوال میں کہا گیا ہے کہ نماز کے وقت ان کے چہرے کا رنگ زرد اور سرخ ہو جاتا تھا اور نماز کی حالت میں اس طرح ہوتے تھے کہ گویا اس گفتگو کر رہے ہیں کہ جسے وہ دیکھ رہے ہیں_(۴۷۱)

امام زین العابدین کے حالات میں لکھا ہے کہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو آپ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوجاتا تھا اور ایک حقیر بندے کی طرح خدا کے سامنے کھڑے ہوتے تھے آپ کے بدن کے اعضاء خدا کے خوف سے لرزتے تھے اور آپ کی نماز ہمیشہ و داعی اور آخری نماز کی طرح ہوا کرتی تھی کہ گویا آپ اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھ سکیں گے_(۴۷۲)

حضرت زہرا علیہا السلام کے بارے میں ہے کہ نماز کی حالت میں سخت خوف کی

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375