اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 21%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 144783 / ڈاؤنلوڈ: 5487
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

ایسی محنت کریں کہ زمین خود کہے کہ مجھ کو شرعی احکام کے بیج بوتا کہ

ایمانیت کا جڑ

عبادت کا تنا

اور فرائض واجبات کے برگ وبار

اور اعمال صالحہ کادرخت تیار ہو

پھر اس میں اخلاقیات کے پھل آئیں اور ان میں

اخلاص کا رس ہو ۔

اگر کسی گھر میں معنویت اور روحانیت نہ ہو ،اسلامی تعلیمات پر عمل نہ ہو اس گھر کی حالت خراب ہوہی جاتی ہے ۔

گناہ انسان کے دل کو سیاہ کردیتاہے ،دل کو بیمار کردیتا ہے اورجب دل ہی بیمار ہوجائے تو اس پر سب سے پہلی مصیبت یہ آتی ہے کہ انسان عبادت سے لذت حاصل نہیں کرسکتا بلکہ گناہ سے لذت حاصل کرتاہے اور جو گناہ سے لذت حاصل کرتا ہے وہ جان لے کہ وہ روحانی اعتبار سے بیمار ہے ۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ :

"اگر کوئی شخص چاقو کو ہاتھ میں یا پیٹ میں کسی کی کمر میں مارے تو جو ہوتا ہے اس سے زیادہ یہ گناہ دل کے لئے خطرناک ہوتے ہیں ۔"

لہذا یہ ماں باپ کا فرض ہے کہ اپنی لڑکیوں کو اسلام کے احکام وقوانین

۶۱

سے روشناس کرائیں اور واجب احکام یاد کرائیں ۔ لیکن اب جب کہ انہوں نے ا س سلسلے میں کوتاہی کی ہے اور سادہ لوح بے گناہ لڑکی کو تعلیم دئیے بغیر شادی کے بندھن میں باندھ دیا ہے تو اب یہ اہم ترین اور سنگین فریضہ شوہر پر عائد ہوتاہے کہ وہ بیوی کو دینی مسائل سے روشناس کرائے اور سلام کے واجبات وحرام چیزوں کے متعلق بتائے اور اس کی فہم اور عقل کے مطابق اس کو اسلامی اخلاق اور عقائد کی تعلیم دے ۔

شوہر محترم! اگر آپ خود اس کام کو انجام دے سکیں تو کیا کہنا ۔

اس کے علاوہ اہل علم سے مشورہ کرکے سودمند اور علمی اور اخلاقی کتب اور رسالے مہیا کرکے اس کو پڑھنے کی ترغیب دلائے اور ضرورت ہو تو ایک قابل اعتماد اور عالم دیندار استاد یا معلمہ کو اس کی تعلیم وتربیت کے لئے مقررکیجئے ۔

اب اگر آپ نے اس فریضہ کو ادا کیا تو آپ ایک دیندار ،دانا ،خوش اخلاق اور مہربان بیوی کے ہمراہ زندگی بسر کریں گے اور اخروی ثواب کے علاوہ بہترین دنیاوی زندگی بھی بسر کریں گے ۔

اور اگر آپ نے اس فریضے کی انجام دہی میں کوتاہی کی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دنیا میں ضعیف الایمان اور لاعلم بیوی کا ساتھ رہے گا جو دینی واخلاقی اصولوں سے بے بہرہ ہوگی اور قیامت میں بھی خداوند قہار اس سلسلے میں بازپرس کرے گا ۔

کیونکہ اس سے قرآن میں آپ کی یہ ذمہ داری قراردی ہے کہ :

۶۲

"اے ایمان والو ، خود اپنے آپ کو اور اپنے خاندان والوں کو اس جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھرہوں گے "۔

امام صادق(ع)فرماتے ہیں کہ :

"جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس کو سن کر ایک مسلمان رونے لگا اوربولا میں خود اپنے نفس کو آگ سے محفوظ رکھنے سے عاجز ہوں اس پر مجھے یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے کہ اپنے گھر والوں کو بھی دوزخ کی آگ سےبچاؤں "۔

تو پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا :

" اس قدر کافی ہے کہ جن کاموں کو تم انجام دیتے ہو ان ہی کو کرنے کو ان سے کہو اور خود جن کاموں کو تمہیں ترک کرنا چاہیے ان سے انہین روکتے رہو ۔"

تعلیم وتربیت کے لئے حوصلہ اور وقت درکار ہے اگر عقل اور تدبر سے کام لے کر اس سلسلے میں جس قدر محنت کرے گا خود اس کے مفاد میں ہوگا اور اگلی زندگی اور عالم آخرت تک اس کے اثرات سے بہرہ مند ہوگا ۔

٭ جس دعا کی ابتدا ء بسم اللہ الرحمن الرحیم ہو وہ دعا کبھی نامنظور نہیں ہوتی ۔(حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

۶۳

نسخہ نمبر ۱۲

--{دیندار شوہر گھر میں فقہی قوانین نہ چلائیں کیونکہ گھر الفت ومحبت سے چلتے ہیں ، قانون سے نہیں }--

مثلا اگرآپ بیوی سے یہ کہیں کہ تم اپنے والدین یا فلاں رشتہ دار سے ملنے نہیں جاؤں گی کیونکہ میری اجازت کے بغیر گھر س ے باہر قدم نہیں نکال سکتیں ۔

یہ قانون سے بہت غلط استفادہ ہے ۔آیت اللہ حسین مظاہری، ایک مجتہد کا قول اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں کہ

"بعض عادل شمر سے بھی بدتر ہیں ۔"

قانون سے ایسا غلط استفادہ بظاہر مذہبی مردوں اور عورتوں میں زیادہ پایا جاتا ہے ۔مثلا کوئی لڑکی اسکول یا کالج جاتی ہے اور ایک یا دو اصطلاحات یاد کرکے غرور کرنے لگتی ہے اپنے شوہر سے کہتی ہے میں پڑھنا چاہتی ہوں ، میں گھر کا کوئی کام نہ کروں گی کیونکہ یہ مجھ پر واجب نہیں ہے ۔ یہ قانون فقہی سے غلط اسفادہ ہے بقول ان عالم کے یہ لڑکی عادل ہے لیکن شمر سے بدتر ہے کیونکہ آج نہیں تو کال ضرور اس گھر کو برباد کرے گی ۔

۶۴

اگر چہ آپ ایک مومن ہیں لیکن سخت گیر ہیں ،امر بالمعروف اور نہیں عن المنکر میں ضرورت سے زیادہ ہی سخت ہیں ۔ آپ کی یہ سخت گیری اور تیز روی ایک دن آپی پاکیزہ بیوی کو اور آپ کی نیک سیرت لڑکی کو ضدی اور خراب کردے گی ۔

نسخہ نمبر ۱۳

--{بیوی سے اچھا سلوک کرنا اور اسے ہمیشہ خوش رکھنا }--

اگر آپ صدر مملکت یا وزیر اعظم کے داماد بنیں اور وہ آپ سےیہ کہے کہ " دیکھو میری بیٹی س اچھا سلوک کرنا اور اسے ہمیشہ خوش رکھنا " تو آپ کس طرح دل وجان سے اس کو خوش رکھنے کی کوشش کریں گے اور اس کی ناگوار باتوں کو بھی خندہ پیشانی س برداشت کریں گے ۔

جب صدر یا وزیر اعظم کی بات کی آپ کو اتنی ہی پرواہ ہے تو اگر اس پوری کائنات کا پروردگار آپ سے یہ کہے :

"وعاشر هنّ بالمعروف "

"(دیکھو)ان بیویوں سے اچھا سلوک کرو۔"(سورۃ نساء ۱۹)

تو اب آپ کا رد عمل بیوی سے کیا ہونا چاہئے ،افسوس صدر اور وزیر اعظم

۶۵

کی ہدایت کی تو اتنی پرواہ ہو اور کائنات کے پروردگار کی ہدایت اور حکم کو اتنی اہمیت بھی نہ ہو جتنی اس کے فاسق وفاجر بندہ کی ہو ۔ افسو س! اگر آپ پروردگار عالم کی اس ہدایت کو یاد رکھیں گے تو گھر میں کبھی جھگڑا نہ ہوگا ۔

نسخہ نمبر ۱۴

--{ اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگتے رہنا چاہیئے }--

ان تمام نسخوں پر عمل کے ساتھ ساتھ اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگتے رہنا چاہیئے ۔بعض اوقات انسان کے اپنے گناہوں کی نحوست کایہ اثر ہوتا ہے کہ بیوی یا اولاد نافرمان ہوجاتی ہے اوراسی طرح بیوی کے لئے بھی مسلسل دعائیں مانگتی رہنا چاہیئں ۔ایک مرد دانا کا کہنا ہے کہ میں اپنے گناہوں کا اثر اکثر بیوی بچوں بلکہ گھر کے پالتو جانوروں تک میں پاتا ہوں کہ ہو پہلے کی طرح میرے مطیع وفرمانبردار نہیں رہتے ۔

آخری بات :- آپ نے دیکھا کہ آپ کی بیوی ،ایک لڑکی نے صرف دو بول پڑھ کر آپ سے ایسا رشتہ قائم کیا اور اپنے والدین ان دو بولیوں کی ایسی لاج رکھی کہ ماں کو چھوڑ ا ، باپ کو چھوڑا ،بہن بھائی اور پورے خاندان کو چھوڑا اورآپ کی ہوگئی ۔جب یہ لڑکی ان دو بولیوں کا اتنا بھرم رکھتی ہے کہ سب کو چھوڑ کر ایک

۶۶

کی ہوگئی لیکن آپ سے نہ ہو سکا کہ یہ دو بول :

"لا اله الا الله محمد رسول الله علی ولی الله "

" پڑھ کر اس اللہ کے ہوجاؤ جس کے لئے یہ دو بول پڑھےتھے :۔؟؟؟

٭ علم حاصل کرو ۔ علم کاحاصل کرنا نیکی ہے ۔ مشق جاری رکھنا تسبیح ہے ۔علمی معاملات میں بحث ومباحثہ جہاد ہے ۔ جاہل آدمی کو تعلیم دینا صدقہ ہے اور علم کی وجہ سے طالب علم خدا سے نزدیکی حاصل کرلیتا ہے ۔ کیونکہ علم کے ذریعے حرام وحلال کے درمیان فرق پہچانا جاتاہے اور علم طالب علم کو جنت کے راستے پر لگادیتا ہے اور علم وحشت میں انیس ہے علم تنہائی میں دوست ہے ۔(حضرت علی علیہ السلام

۶۷

ساس ،سسر اور گھر کے دیگر افراد کے عمل کے لئے چودہ مجرب نسخے

نسخہ بمبر ۱

--{ساس سسر یا گھر میں رہنے والے اور افراد سورہ بقرہ پڑھ کر اپنے گھر والوں پر دم کریں }--

کیونکہ رسول اسلام (ص)نے فرمایا ہے :

"قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد (ص) کی جان ہے ، شیطان اس گھر میں ٹھہر نہیں سکتا جس میں سورہ بقرہ کی تلاوت کی جائے ۔"

اس لئے کہ گھروں میں جھگڑوں سے بچنے کے لئے شیطان مردوں سے بچنے کی بہت زیادہ فکر کی جائے اور جن چیزوں سے گھروں میں شیاطین آتے ہیں ان سے بچا جائے اور جن اعمال سے شیاطین سے حفاظت ہوتی ہے ،ان اعمال کا اہتمام کیا جائے جس میں سے ایک عمل گھر میں سورہ بقرہ کا ختم ہے ۔

۶۸

نسخہ نمبر ۲

--{ساس سسر یا گھر میں کثرت سے تلاوت قرآن بمعہ ترجمہ کا اہتمام کریں }--

کیونکہ حدیث میں ہے کہ :

" جس گھر میں قران کریم کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ملائکہ اس میں حاضر ہوتے ہیں ،شیاطین نکل جاتے ہیں اور جس گھر میں تلاوت نہ ہو ، اس میں خیر وبرکت کم ہوجاتی ہے ،شیاطین اس گھر میں مسکن بنالیتے ہیں ۔فرشتے وہاں سے چلتے جاتے ہیں "

نسخہ نمبر ۳

--{ حتی الامکان بیٹے کو شادی کے بعد الگ رہنے کی ترغیب دیں }--

دینداری کا دم بھرنے والے اکثر سےایک غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ

۶۹

سب کا ایک ساتھ ،ایک ہی گھر میں رہنا بہت ضروری ہے ورنہ گھر کی برکت نکل جائے گی ۔

محترم ساس وسسر ! ایک برتن میں کھانا پکنے سے برکت ضرور آئے گی لیکن لڑائی جھگڑے ی وجہ سے گھروں میں نفرت ،حسد ،بغض ،غیبت ،لڑائی ،جھگڑے کا دروازہ کھل جاتا ہے اور وہ پورے گھر کو اللہ کی رحمت سے دور کردیتا ہے ۔ صرف ایک ایسی برکت کے لئے ہزاروں مصیبتوں اور گناہوں کا ارتکاب کیسے جائز ہوگا ؟

یعنی ایک مستحب کے لئے اتنا اہتمام کہ ہزاروں حرام اس کی وجہ سے ہوجائیں یہ کہاں کی عقلمندی ہے ؟

ایک گھر جہاں کئی شادی شدہ بھائی ایک ساتھ رہتے ہوں اور ایک ساتھ کھانا کھاتے ہوں لیکن

----- آپس میں دل گرفتہ ہوں ۔

---- روزانہ جھگڑے بڑھ رہے ہوں ۔

---- حسد اور حرص کی بیماریاں بڑھ رہی ہوں ۔

----- رات کو شوہر آئیں تو بہو ئیں ایک دوسرے کے خلاف باتین کرکے شوہروں (سگے بھائیوں )میں عداوت اور دشمنی کے بیج بورہی ہوں ۔

----- غیبت ،چغل خوری اور جھوٹ کے جراثیم پیداہو کر بڑی بڑی روحانی بیماریاں پیدا کررہے ہوں ۔

۷۰

---- بیٹے کو ماں اور بہن سے دور کیا جارہا ہو۔

---- بیوی گھر چھوڑنے یا طلاق لینے کی دھمکی دے رہی ہو ۔

----- ساس ، تعویذ ،گنڈوں کی فکر میں ہو ۔

----- سسر ہر نماز کے بعد بد دعا کررہا ہو ۔

-----لڑکے یا لڑکی کی ساس ،پورے خاندان میں سمدھی اور سمدھن کے برا ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہو ۔

----- چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑے بڑے عیب بنا کر پیش کیا جارہا ہو ۔

----- ان سب کے نتیجے میں گھر کے بعض افراد نفسیاتی ہمسپتالوں کے چکر کاٹ رہے ہوں ۔

----- اپنے بچوں کو مشترک گھر میں رہنے سے حرام سے ڈش انٹینا اور کیبل سے بچانا مشکل ہورہا ہو ۔

اور اس کے بر خلاف ایک گھر ایسا ہو جہاں شادی ک فضول اور بیہودہ رسموں سے پیسے بچا کر اور ایسی شادی کرکے جس میں ش کے تین نقطے نہ ہوں یعنی سادی ،ایسی شادی جو سادہ ہو ، اسراف اور فضول خرچیوں سے مبرا ہو اور ان حرام کاموں سے پیسے بچا کر جب تک مستقل علیحدہ مکان لینے کی گنجائش نہ ہو تو چاہے چھوٹا سا گھر یا فلیٹ بھی کیوں نہ ہو الگ رہ کر ماں ،باپ کی خدمت کرکے زیادہ سے زیادہ دعائیں لی جاتی ہوں ۔

----- نند اور بھاوج میں آپس کی محبت برقراررہے ۔

۷۱

---- دیورانی اور جیٹھانیاں ایک دوسرے کا احترام کرتی ہوں ۔

---- بچوں کی اچھی تربیت ہورہی ہو۔

----- روزانہ یا اکثر ملاقات کے لئے آپس میں آنا جانا ہو۔

----- حسب توفیق تحفہ ،تحائف دئیے جاتے ہوں ۔

---- کھانا پکا کر ساس وسسر کے لئے لایا جاتا ہو ۔

----- چھوٹے بچوں میں آپس میں محبت ہو ۔

دونوں زندگیاں آپ کے سامنے ہیں ،دونوں کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے ۔ کون سی زندگی آپ کو پسند ہے ؟ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے ۔

محترم ساس ! جو بات رب العالمین کی شریعت میں بری نہیں ، اس کو برا نہ سمجھئے ، شریعت میں جس کی اجازت ہو اس پر پابندی نہ لگائیے ۔

لیکن بد قسمتی سے اور بعض اوقات آپ کی ہٹ دھرمی سے اور ان تما م خرابیوں کے بعد لڑجھگڑ کر بیٹا اور بیٹا اور بہو کو علیحدہ ہونا ہی پڑتا ہے تو کیا بہتر نہیں کہ ان تمام خرابیوں سے پہلے ہی ان کو الگ کردیں ۔

----- چاہے کتنی بھی طلاقیں ہوں ۔

----- کتنے بھی گھر اجڑیں ۔

----- کتنے نوجوانوں کی زندگیاں برباد ہوں ۔

---- کتنے بہن بھائی ،بہنوں میں اختلاف وجھگڑے ہوں ۔

کیا تب بھی آپ کا فیصلہ وہی رہے گا ؟

۷۲

اسلامی شریعت نے بھی بہو کے لئے ساس ،سسر کی خدمت کرنے کو حسن سلوک تو کہا ہے لیکن واجب قرار نہیں دیا اور دیور اور جیٹھ کی خدمت تو غیر مناسب بھی ہے اکثر بے پردگی کا اہتمام ہوتا ہے ۔ اور جب یہ سب بہو کے فرائض میں شامل ہی نہیں تو آپ زبردستی خدمت کیسے لیں گے ؟ یہی سوچ فتنے او رفساد کی بنیادیں ہے اور ظلم کی ابتدا ہے ۔

نسخہ نمبر ۴

--{ ہم مزاج بیٹے اور بہو کو ساتھ رکھیں }--

اگر آپ بھی چا ہتے ہیں کہ ایک بیٹا ہمارے ساتھ ہو اور پوتے پوتیوں سے گھر میں رونق ہو تو اس بیٹے کو ساتھ رکھیں جس سے مزاج ملتا ہو ۔اور اس بیٹے اور بہو کو دعائیں بھی دیتے رہیں جو آپ کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔

نسخہ نمبر ۵

--{ کچن تو ضرور علیحدہ ہو }--

اگر مالی حالات یا کسی اور مصلحت سے بہوؤں کو ایک ہی گھر میں رکھنا ہو

۷۳

تو کم از کم اتنا کیجئے کہ ان کے آنے جانے کا راستہ الگ ہو اور کچن تو ضرور علیحدہ ہو ، زیادہ تر آگ چولہے ہی بھڑکتی ہے ۔'

نسخہ نمبر ۶

--{ حسن اخلاق او رخوش دلی سے جتنی چاہے خدمت کروائیے }--

ساس اور سسر خصوصا ساس اگر سلیقہ مند ہو تو بہو کے ساتھ حسن اخلاق او رخوش دلی سے جتنی چاہے خدمت کرواسکتی ہیں ۔ یہ بہو کے لئے سعادت اور ساس وسسر کے اخلاق کی بلندی کی علامت ہے ۔لیکن بہو سے جبر ا خدمت لینا نہ شرعا جائز ہے اور نہ اخلاقا صحیح ہے ۔

بہو کا اکرام اور عزت کرکے دیکھئے آپ حیران ہوں گے کہ وہ آپ کی بیٹی سے بڑھ کر آپ کی خدمت گزار ہوگی ۔

٭ عالم کو عابد پر وہی فضیلت ہے جو چاند کو چودھویں شب میں تمام ستاروں پر ہے اور علماء وارث انبیاء ہوتے ہیں ۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

۷۴

نسخہ نمبر ۷

--{ بہو سے بدگمان نہ ہوں }--

اس کی غلطی دیکھ کر بھی اچھی تاویل کریں ،اپنے خیال کی پرواہ نہ کریں ۔

جب آپ ایسا کریں گے تو گویا شیطان کے منہ پر طمانچہ ماریں گے وہ خبیث خود بخود دور ہوجائے گا ۔

امام صادق (ع) نے فرمایا ہ ےکہ :

"اس ناپاک کے منہ پر طمانچہ مارو ،جب اس کو ماروگے ، اس کی باتوں پر عمل نہ کروگے تویہ خود بخود دفع ہوجائے گا ۔"

اس کے برعکس اگر اس کی باتوں کو اہمیت دیں گے اور بہو سے سوء ظن رکھیں گے تو یہ منحوس شیطان آپ کی فکر اور سوچ پر قابض ہو جائے گا لہذا س کا علاج فقط یہ قرآنی حکم ہے کہ :

"لوگوں سے متعلق بد گمانی سے پر ہیز کرو کیونکہ اکثر گمان گناہ ہوتے ہیں ۔"

اگر آپ نے ظن یا گمان بد سے کام لیا تو گویا قرآن کی مخالفت کی ہے ۔

۷۵

نسخہ نمبر ۸

--{بیٹا اور بہو کے ہر کام میں مداخلت نہ کریں }--

اگر آپ اپنی شادی شدہ اولاد کو سعادت مند دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ ان کے ہر کام میں مداخلت نہ کریں ۔

آپ کو حیوانوں سے سبق لینا چاہئیے کہ وہ اپنے بچوں کی اسوقت تک سرپرستی کرتے ہیں جب تک وہ ان کے محتاج ہوتے ہو۔جو نہی وہ ایک مستقل زندگی گزارنے کے قابل ہوتے ہیں والدین ان کو آزاد چھوڑدیتے ہیں تاکہ وہ اپنی مستقل زندگی گزارنا شروع کردیں ۔یہی بات پرندوں اور دیگر جانوروں بلکہ انسانوں میں بھی پائی جاتی ہے ۔بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم اس پر عمل نہیں کرتے ۔

جب اولاد کی شادی ہوجائے تو ان کے کاموں میں بے جا مداخلت نہ کریں ۔

٭ جان لو کہ تم علم کے ساتھ ہی خوش نصیبی حاصل کرسکتے ہو ۔(حضرت علی علیہ السلام)

۷۶

نسخہ نمبر ۹

--{ماں باپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ داماد اور بہو کی طرفداری کریں }--

آیت اللہ مظاہری فرماتے ہیں کہ :

"ہمیشہ صلح وصفائی آپ کا مطمع نظر رہے ۔"

بہو کے ماں باپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ داماد کی طرفداری کریں اور ساس وسسر کو بہو کی طرفداری کرنی چاہئیے ۔

اگر لڑکی لڑبھڑ کر ماں باپ کے گھر چلی جائے تو لڑکی کی ماں اپنی بیٹی کو لے جاکر داماد کے حوالے کردے اور اس کے پاس تھوڑی دیر بیٹھ کرباتیں کرے تو داماد کتنا ہی ناراض کیوں نہ ہو،راضی ہوجائے گا اور اگر ساس وسسر گھر میں بہو کے ساتھ الفت ومحبت رکھیں اور اگر جھگڑا پیدا ہو جائے تو اس کی طرفداری کریں تو بہو خواہ کتنی ہی بری کیوں نہ ہو خود بخود ان کے ساتھ محبت کرنےلگے گی اور جھگڑا فساد ختم ہوجائے گا ۔

امیر المومنین امام علی ابن ابی طالب (ع) نے اپنی شہادت کے وقت اپنے فرزندوں کو یوں نصیحت فرمائی :

۷۷

" اے میرے فرزندوں ! میں تمہیں تاکید کرتاہوں کہ تقوی کو اپنا شعار بناؤ ،اپنے معاملات کو منظم رکھو اور اپنے درمیان ہمیشہ صلح وصفائی رکھو"۔

کیونکہ میں نے تمہارے جد پیغمبر اسلام سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا :-

دو افراد کے درمیان صلح کرنا خدا کے نزدیک ایک سال کی نماز اور روزوں سے افضل ہے ۔"

نسخہ نمبر ۱۰

--{ کبھی بھی بہو کی برائی بیٹے سے یا داماد کی برائی اپنی بیٹی سے نہ کریں }--

ان کی خامیوں کی تلاش میں بھی نہ رہیں ۔

بہت سے لوگ خود اپنے اندر اور دوسروں میں اچھائیاں نہیں دیکھ پاتے ان کو ہر چیز منفی صورت میں نظر آتی ہے وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان کے اندر کیسی کیسی خوبیاں ہیں بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ دوسرے میں کون کون سی برائیاں ہیں ۔

منفی پہلو کی سوچ گویا مکھی کی طرح ہے وہ باغ میں بھی جائے تو ڈھونڈ تی ہے کہ کہیں کوئی گندگی مل جائے تاکہ وہ اس پر بیٹھ سکے ۔

محترم ساس و سسر ،اپنی بہو اور داماد کے پیچھے نہ پڑیں کہ کسی نہ کسی طرح

۷۸

کوئی نقص نکال ہی لوں بلکہ آپ کو ایک بلبل کی طرح ہمیشہ پھولوں پر ہی رہنا چاہئیے ۔آپ کو پھولوں ہی کی تلاش ہونی چاہیے ۔بہو میں اچھائی اور مثبت نقاط کی تلاش کرنی چاہیئے ،آپ اس کی ساری اچھائیاں ایک بد سلوکی کی وجہ سے بھلا دیتے ہیں ۔ اور آپ کا رویہ یکدم بدل جاتا ہے ۔

افسوس! قرآن کا بھی یہی مشہورہ ہے کہ انسان وفادار نہیں ہے ۔

نسخہ نمبر ۱۱

--{معافی کواپنا شعار بنائیں }--

واقعا اگر آپ کی بہو بری بھی ہے ،اور اس نے آپ کے ساتھ کچھ زیادتی بھی کی ہے تو آپ اسے معاف کردیں ۔

کیوں ؟

اس لئے کہ کیا آپ نہیں چاہتے کہ قیامت میں خدا آپ کو معاف کردے ؟

آپ نے سنا ہوگا کہ قیامت میں کچھ لوگ بغیر حساب کتاب کے جنت میں چلے جائیں گے یہ وہ لوگ ہوں گے جو اس دنیا میں عفو ،درگذر اور بخشش سے کام لیتے ہیں ۔

۷۹

نسخہ نمبر ۱۲

--{ جب کوئی تم سے برائی کرے اس کے ساتھ نیکی کرو}--

آیت اللہ مظاہری فرماتے ہیں کہ یہ آیت گھر میں (بمعہ ترجمہ) لکھ کر ایسی جگہ لٹکا دینی چاہئیے ،کہ گھر کے ہر فرد کی نگاہ اس پر پڑتی رہے

"ویدرون بالحسنة "(سورہ قصص)

"جب کوئی تم سے برائی کرے اس کے ساتھ نیکی کرو"

اے ساس وسسر ! اگر آپ قرآنی احکام پر ایمان رکھتے ہیں تو آپ کو اس آیت پر بھی عمل کرنا ہوگا ۔یہ آیت لکھ کر ایسی جگہ لٹکا دیں کہ جسے آپ بھی دیکھیں ،بہو بھی دیکھے ،بیٹا بھی دیکھے ،گھر کے بچے بھی دیکھ لیں اور آہستہ آہستہ سب میں معاف کرنے کی طاقت پیدا ہوجائے ۔ اگر آپ اور بہو میں ہم آہنگی نہ ہو تو بھی بخشش اور حسن سلوک سے اس کمی کو پورا کرسکتے ہیں ۔

٭ علم کی وجہ سے اللہ کے واحد ہونے کا اقرار کیا جاتا ہے علم کے ذریعے صلہ رحم کیا جاتا ہے ۔"

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

ہوجاتى تو دوسرى طرف كا عارضى سكوت دونوں حكومتوں كے باہمى ر وابط كا موجب رہا _(۱) دونوں حكومتوں كے تدريجى زوال كے ساتھ ساتھ يہ روابط بھى بے اعتنائي اور سستى كا شكار ہوگئے_

مغلوں كے يورپى حكومتوں سے تعلقات

يورپى لوگ سن ۱۴۹۸ عيسوى ميں واسكوڈ گاما(۲) كے دريائي سفر كے ذريعہ پہلى مرتبہ سرزمين ہند سے واقف ہوئے _ ۱۵۰۰ عيسوى ميں پرتگاليوں نے كالى كوٹ كے ساحلوں پر قدم ركھا_ كچھ عرصہ كے بعد مسلمان تاجرجوكہ پرتگاليوں كے آنے سے ناراض تھے انہوں نے پرتگاليوں كو كو چين(۳) كے علاقے كى طرف دھكيل ديا_ ۱۵۰۹ عيسوى سے ۱۵۱۵ عيسوى تك پرتگاليوں نے گوابندرگاہ پر قبضہ جماتے ہوئے استعمار كا پہلا ستون كھڑا كيا(۴) _

يہ لوگ اكبر بادشاہ كے آخرى دور تك ہندوستان كى بيرونى تجارت كو اپنے كنٹرول ميں ليے ہوئے تھے _ روئي اور ہندوستانى مصالحوں جيسى اجناس يورپى حكومتوں كو درآمد كرتے تھے_ جلال الدين اكبر سال ۱۵۸۰ عيسوى ميں دوپرتگاليوں پادريوں سے ملاقات كے دوران عيسائي دين سے واقف ہوا_(۵)

۱۶۰۰ عيسوى ميں انگريزوں نے سرزمين مشرق سے تجارت ميں زيادہ منافع اور فوائد كے حصول كے پيش نظرايسٹ انڈيا كمپنى كى بنياد ركھى _ ۱۶۰۸ عيسوى ميں اس كمپنى كا پہلا وفد ويليم ہاكنز كى سربراہى ميں دربار جہانگير ميں حاضر ہوا اس ملاقات ميں ہا كنز نے انگلينڈ كے بادشاہ جيمز اول كا خط بادشاہ كى خدمت ميں پيش كيا_(۶)

____________________

۱) عبدالرضا ہوشنگ مہدوي، تاريخ روابط خارجى ايران، امير كبير ص ۹۸_

۲- Vasco du gama

۳- Cochin

۴) احمد مير فندرسكى _ پيدايش وسقوط امپراتورى مستعمراتى پرتغال در ہند_ تہران ص ۲۱_

۵) برايان گاردنر، كمپانى ہند شرقي_ ترجمہ كامل حلمى ومنوچھر ہدايتى ص ۳۱_

۶) احمد محمد الساداتى _ تاريخ المسلمين فى شبہ القارہ الہند و باكستانيہ وحضارتہم ،مكتبہ نہضة الشرق، جامعہ القاہرة، ص ۳۶۵_

۲۴۱

جہانگير كى طرف سے انگريزوں كے وفد كا پرتباك استقبال ہوا _ يہاں تك كہ جہانگير نے انگريز سفير كو چارسو فوجى سواروں كى كمانڈ كے عہدہ كى پيش كش كى _ كچھ عرصہ بعد ہاكنز سورت بندرگاہ كى طرف لوٹ گيا_ يوں ايسٹ انڈيا كمپنى كے ذريعہ انگريزوں كا مغلوں سے پہلا رابطہ ہوا _

سن ۱۶۱۲ عيسوى ميں جہانگير كى حكومت ميں انگريز فوج نے ہالينڈ كى فوج كے ہمراہ بحيرہ ہند ميں پرتگاليوں كو سخت شكست دي_ اس شكست سے جہانگير بہت زيادہ خوش تھا _ مسلمان حاجيوں كوہميشہ پرتگاليوں كى طرف سے حملوں اور لوٹ مار كا سامنا تھا_ اس شكست سے مسلمان حاجى كافى حد تك پرتگاليوں كے حملوں سے آسودہ ہوگئے_ اس واقعہ كے بعد انگريز وفد كى درخواست كے پيش نظر جہانگير نے ايسٹ انڈيا كمپنى كو ہندوستان ميں فعاليت كى اجازت دي_ يوں مغلوں نے انگريزوں كے تعاون كے ساتھ پرتگاليوں پر غلبہ پاليا اور انہيں ہندوستان كے ساحلوں سے دور دھكيل ديا _(۱)

شاہجہاں كے دور ميں بھى پرتگاليوں كے ساتھ جنگ اور انگريزوں سے دوستى كى پاليسى جارى رہى _ ۱۶۲۲ عيسوى ميں شاہجہاں نے پرتگاليوں سے نمٹنے كے لئے ہگلى كے علاقوں ميں فوجى دستے بھيجے ان فوجى دستوں نے انگريزوں كے تعاون سے پرتگاليوں كو شكست دى اور انہيں غلام كے طور پر بازاروں ميں بھيجا گيا يہ قدم پرتگاليوں كے اقدامات كے جواب ميں اٹھايا گيا تھا_(۲)

اورنگ زيب كے دور ميں اسكے عقائد كى بناء پر انگريزوں سے نزاع پيدا ہوا اس نے بنگال ميں انگريزوں سے جنگ كى اور اس جنگ كے بعد سورت كى بندرگاہ كو انگريزوں كے قبضہ سے چھڑاليا _ ليكن دريائي راستوں سے حاجيوں كے قافلوں كى حفاظت و مدد كے پيش نظر اس نے انگريزوں سے صلح كى اور سورت كى بندرگاہ ان كے سپرد كى _ اورنگ زيب كے آخرى دور ميں انگريزوں نے چند علاقوں مثلاً مدراس، بمبئي ' كلكتہ ميں بہت سے مراكز قائم كرليے_(۳)

____________________

۱) برايان گاردنر ،سابقہ حوالہ ص ۵۸_

۲) ش، ف ، دولافوز،سابقہ حوالہ ص ۱۵۸_

۳) برايان گاردنر ، سابقہ حوالہ ص ۹۵_

۲۴۲

۱۷۰۷ عيسوى ميں اورنگ زيب نے وفات پائي_ اب بحر ہند ميں پرتگاليوں كى جگہ مكمل طور پر انگريزوں نے سنبھال لى _ فرانسيسوں نے ۱۶۴۴ عيسوى ميں كلبرٹ كى مدد سے فرانسيسى ايسٹ انڈيا كمپنى كى بنياد ركھي_ دوسال كے بعد فرانس حكومت نے بيجاپور كے علاقے ميں تجارت خانہ قائم كيا اور ''پونڈوشري'' نام كا ايك شہر بنايا _ نيز انہوں نے سال ۱۶۸۸ عيسوى ميں بنگال اور چندرنگر ميں اپنے تجارتى مراكز قائم كيے_(۱)

مغلوں كا اداراتى اور سياسى نظام

مغليہ نظام حكومت ميں بادشاہ حكومت كے تمام شعبوں پر مكمل تسلط ركھتا تھا اور پورے نظام كا سربراہ تھا _ سلطان كوبيشتر شاہ كے عنوان سے ياد كيا جاتا تھا_ جيسے جيسے بادشاہ كا اقتدار مستحكم ہوتا جاتا اسكى تمام امور ميں دخالت بڑھتى جاتى تھى جيسا كہ جلال الدين اكبر كے دور ميں تھا اس نے حكومت و رعايا كے تمام امور ميں اپنى رائے كو رعايا اور درباريوں پر مسلط كيا _

بادشاہ كے بعد مختلف ديوان تھے كہ ان سب ميں اہم ترين ديوان اعلى تھا جس كا فرض تھا كہ بادشاہ كى آمدنى اور املاك (خالصات) پر نگرانى كرے _ اس ديوان كا سربراہ وكيل (وزير) ہوتا تھا_ اس كے بعد ديوان بخشى تھا كہ جسكا سربراہ مير بخشى ہوتا تھا كہ اس ديوان كى ذمہ دارى پورى مملكت ميں حكومتى امور كاتحفظ تھا_ ''صدر الصدور''كى سربراہى ميں ديوان انصاف سياسى امور ، جرمانوں اور ديگر عدالتى امور ميں فعاليت كرتا تھا_(۲)

اكبر كے دور ميں حكومت كا نظام مكمل صورت ميں سامنے آيا_ اس نے حكومت كو بہت سے صوبہ ميں تقسيم كيا _ ہر صبوبے دار كے ساتھ صدر اور بخشى كا عہدہ بھى موجود ہوتا تھا_ اسى طرح ہر صوبہ چند''سركار' ' (ضلعوں ) ميں تقسيم ہوتا تھا_

____________________

۱) ش، ف ، دولافوز ، سابقہ حوالہ ص ۱۹۳_

۲) Raj ، Kumar ، Surrey ، of Medival India New Delhi ۱۹۹۹ Vol ۱۱ P.۱۵۱

۲۴۳

اس دور ميں فوجى عہدے ''منصب'' كے عنوان سے جانے جاتے تھے_ مثلاً منصب پنج ہزاري، سہ ہزارى ، چہار ہزارى ، يہ فوجى عہدے چونكہ بادشاہ كے احكامات مثلاً ٹيكسوں كو وصول كرنا اور جنگ كے لئے افراد مہيا كرنا وعيرہ _ بجالاتے تھے اكثر وبيشتر بادشاہ سے املاك و زمينيں وصول كرتے تھے كہ اس قسم كى املاك كو 'جاگير'' كا عنوان ديا جاتا تھا_ البتہ جاگيروں كا ملنا فوجيوں كے ساتھ خاص نہ تھا بلكہ امراء طبقہ حتى كہ علماء بھى ان سے بہرہ مند تھے_

فارسى ادبيات

جرمنى كى مشہور اسلام شناس اسكالر شيمل كے بقول مغلوں كا دور ہندوستان ميں فارسى ادبيات كے عروج كا دور ہے(۱) كيونكہ شاعروں كى كثرت اور نئے و منفرد موضوعات اور مضامين كى فراوانى اسقدر زيادہ تھى كہ ايرانى فارسى زبان لوگ مغلوں كے دربار سے وابستہ ہوئے تاكہ انكى اس نعمت كے عظیم دسترخوان سے بہرہ مند ہوسكيں _

۹۹۰ قمرى ميں اكبر بادشاہ كے دور حكومت ميں فارسى زبان حكومت كى سركارى زبان قرار پائي_ يہ بادشاہ فارسى ادبيات اور ثقافت كو خاص اہميت ديتا تھا _ آج كى اصطلاح كے مطابق اس نے ايك دارالترجمہ كى بنياد ركھى تاكہ سنسكرت اور ہندى كى قديم كتابوں كا فارسى زبان ميں ترجمہ ہو_ شايد اس دور ميں فارسى اشعار كے مطالب ومضامين ميں جدت اور وسعت كى ايك وجہ شعرا حضرات كا ہندى ادبيات سے آشنائي اور قربت ركھنا ہو(۲)

اس دور ميں معروف شعراء كے بہت سے ديوان سامنے آئے_ ايرانى شاعروں كى ہندوستان كى طرف

____________________

۱) آن مارى شيمل ، ادبيات اسلامى ہند، ترجمہ يعقوب آند، امير كبير ، ۱۳۷۳ ص ۳۸ ، ۳۷_

۲) محمد فتوحي، نقد خيال، نقد ادبى در سبك ہندى ، تہران روزگار ۱۳۷۱ ، ص ۷۳_

۲۴۴

ہجرت اور امراء و اشراف طبقہ كى شاعروں كو اہميت دينا باعث بنا كہ اكبر بادشاہ كے دور ميں فيض دكني، غزالى مشہدى اور عرفى شيرازى جيسے شعراء ظاہر ہوئے _ ايرانى شاعروں كى يہ ہجرت جہانگير اور شاہ جہاں كے دور ميں بھى جارى رہى _ جہانگير كے دور ميں طالب آملى (سال ۱۰۳۶ قمرى ) ايك مشہور ترين شاعر تھے كہ جنہيں ملك الشعرائے دربار كا اعزاز حاصل تھا_

اسى طرح صائب تبريزى ( سال ۱۰۸۱ قمري) ہندى سبك ميں ايك مشہور ترين شاعر تھے جو شاہ جہان كے ہاں خصوصى مقام كے حامل تھے، كہ اورنگ زيب كے بادشاہ بننے سے زبان فارسى اور اس كے ساتھ شعراء كى رسمى حمايت كم ہوتى گئي _ ليكن ايك اور مشہور شاعر بيدل دہلوى (۱۰۵۴ _ ۱۱۳۳ قمري) اسى دور ميں ظاہر ہوئے جنكے اشعار فارسى ميں ہندى سبك كے عروج كى حكايت كرتے ہيں _

اسى طرح اس دور كے ديگر شعراء ميں غالب دھلوي_ شيدا فتحپورى اور حزين لاہيجى ہيں _ مغليہ عہد ميں مصنفين اور منشى حضرات نے بہت سى ادبى اور تاريخى كتب كو لباس تحرير پہنايا _ دنيا كى تاريخ ، عمومى تاريخ اور خاص سلسلوں كى تاريخ كے حوالے سے بہت سى كتابيں تاليف و تصنيف ہوئيں اس دور ميں ہندى كتابوں كا فارسى زبان ميں ترجمہ كافى پر رونق تھا_ مثلاً رامائن ، مہا بھارت ( جنگ نامہ ) اور اور اوپانشاد كا سنسكرت سے فارسى زبان ميں ترجمہ اسى دور كے ترجمہ كى مثالوں ميں سے ہے _(۱)

مسلمان عرفا اور انكى ہندوستان ميں خدمات

دينى مبلغين ميں صوفيا اور عرفا كرام نے مسلمان سپاہيوں اور تجار كى صورت ميں فاتحين كے ہمراہ اپنى خاص طريقت و منش كى بناء پر بہت سے ہندوستانيوں كو دائرہ اسلام ميں داخل كيا_

____________________

۱) دانشنامہ جہان اسلام ، ج ۱ ص ۷۴ _۷۳ ذيل ''بابريان '' ادبيات (منيب الرحمان)_

۲۴۵

انہوں نے غزنوى دور كے بعد دور دراز كے علاقوں ميں مثلاً ہندوستان كے شمال ميں ايسا مقام اور حلقہ اثر بناليا تھا كہ وقت كے سلاطين اور امراء بھى انكا احترام كرنے ميں مجبور ہوتے تھے_ مثلاً شيخ بھاء الدين زكريا كے دور ميں شہر ملتان برصغير كے مسلمانوں كا مركز تھا_(۱)

ہندوستان كے عرفان اور تصوف كے حوالے سے ايك قابل غور نكتہ يہ ہے كہ فارسى زبان عرفان وتصوف اكھٹے ہمسفر رہے جس قدر فارسى زبان وسعت اختيار كر گئي عرفان و تصوف نے بھى ترقى كى اور اسى طرح فارسى كے زوال كے ساتھ اس نظريہ كا حال بھى ويسا ہى ہوا، مجموعى طور پر برصغير ميں چار صوفى سلسلے ظاہر ہوئے _ چشتيہ _ سہروورديہ ، قادريہ اور نقشبنديہ_(۲)

ان سلسلوں كے اولياء اور اقطاب كے مقبرے لوگوں ميں احترام كے حامل تھے آج بھى ہر سال عرس كے ايام يعنى انكى وفات كے دن ہزاروں لوگ ان اولياء كے مزاروں پر اكھٹے ہوتے ہيں اور خاص انداز سے مراسم بجالاتے ہيں _ يہ چاروں سلسلے اپنا نسب حضرت على _كى ذات مبارك سے ملاتے ہيں _

سہرورديہ :جيسا كہ نام سے معلوم ہے كہ يہ سلسلہ شيخ شہاب الدين سہروردى سے منسوب ہے _ شيخ بہاء الدين زكريا ملتانى (متوفى ۶۶۶ قمري) كى سعى وكوشش سے برصغير ميں يہ سلسلہ پھيلا بالخصوص بنگالى علاقوں ميں اس سلسلہ كا بہت بڑا حلقہ اثر ہے _ ہندوستان ميں اس سلسلہ كے مشہور اقطاب ميں سے معروف ايرانى شاعر فخرالدين عراقى قابل ذكر ہيں كہ جو شيخ زكريا كے داماد تھے_

قادريہ:اس سلسلہ كے بانى عبدالقادر گيلانى (متوفى ۵۶۱ہجرى قمري) تھے_ ہندوستان ميں ا س سلسلہ كے سب سے پہلے خليفہ صفى الدين صوفى گيلانى تھے اور اس سلسلہ كے سب سے اہم خليفہ آٹھويں خليفہ ابوعبداللہ محمود غوث گيلانى تھے كہ جو (۹۲۳ ہجرى قمرى )ميں ظہيرالدين بابر كے دور ميں شہر لاہور ميں فوت ہوئے_

____________________

۱) عباس رضوى اطہر ، تاريخ تصوف در ہند ،ترجمہ منصور معتمدى ، تہران ۱۳۸۰ _ ج ۱ ص ۱۳۵_

۲) غلامعلى آريا، طريقہ چشتيہ در ہند وپاكستان ، تہران ، زوار ص ۹۱_ ۶۰_

۲۴۶

نقشبنديہ :اس سلسلہ كے بانى خواجہ بہاء الدين نقشبند( ۷۹۱_۷۱۸ہجرى قمري) تھے_ ہندوستان ميں بابر كے دور ميں خواجہ محمد باقى عبداللہ (متوفى ۱۰۱۲ قمري) كے ذريعے اس سلسلے كى بنياد ركھى گئي _ اس سلسلہ كے سب سے اہم ترين خليفہ شيخ احمد سرہندى تھے كہ جو ''الف ثاني'' كے لقب سے معروف ہوئے_

چشتيہ: صوفيا كا سب سے قديمى سلسلہ ہے _ اس سلسلہ كى وجہ تسميہ ہندوستان ميں اس سلسلہ كے بانى خواجہ معين الدين كا ہرات كے قريب ايك بستى چشت سے تعلق تھا_ اس سلسلہ كے اہم ترين خلفاء ميں خواجہ حسن بصري، فضيل عياض ، ابراہيم ادھم اور ابوالاسحاق شامى قابل ذكر ہيں _(۱)

خواجہ معين الدين سنہ ۵۳۷ قمرى ميں پيدا ہوئے _ انہوں نے سلسلہ چشتيہ كے مشايخ كے حضور زانوے تلمذتہيہ كيا ، علم و معرفت حاصل كى اور خرقہ خلافت حاصل كرنے كے بعد بغداد ميں نجم الدين كبرى كى زيارت كےلئے تشريف لے گئے _ اصفہان ميں قطب الدين بختيار كاكى سے آشنائي ہوئي اور قطب الدين خواجہ معين الدين كے مريد بن گئے اور خواجہ كے ہمراہ ہندوستان كى طرف سفر كيا اور بعد ميں ہندوستان كے مشہور عرفاء ميں سے قرار پائے_(۲)

خواجہ معين الدين لاہور ميں سكونت پذير ہوئے _ ان كے مشہور خلفاء ميں سے قطب الدين بختيار، حميد الدين ناگوري، شيخ سليم چشتى ، نظام الدين اولياء اورامير خسرو دہلوى قابل ذكر ہيں _

مغليہ حكومت كے ہاں خصوصاً مشايخ كا احترام اور عظمت اسقدر زيادہ تھى كہ اكبر بادشاہ ہر سال خواجہ معين الدين كے مزار كى طرف پيدل جاتا تھا اور اس نے اپنے بيٹے كا نام بھى سليم ركھا كہ جسے بعد ميں جہانگير كا لقب ملا_ اور ہر سال خواجہ كے احترام كے پيش نظر انكے زائرين كو بہت سے تحائف سے نوازتا(۳)

____________________

۱) سابقہ حوالہ ،ص ۷۴_۶۹_

۲) عباس رضوى ،سابقہ حوالہ ،ص ۱۵۲_ ۱۴۱_

۳) دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۱۱ ذيل بختيار كاكى _ (غلامعلى آريا)_

۲۴۷

خواجہ معين الدين كے مشہور ترين خليفوں ميں سے ايك خواجہ نظام الدين اولياء تھے وہ شہر ''بدايون'' ميں پيدا ہوئے انكے مريد حسن دھلوى كى كوشش سے انكے كلمات كتاب ''فوايد الفوائد'' ميں جمع كيے گئے وہ سال ۶۶۳ قمرى مےں انتقال فرماگئے_ انكے عرس كى تقريبات ميں شركت كرنے كيلئے پورے ہندوستان سے لوگ دہلى ميں جمع ہوتے ہيں(۱) ہندوستان اور اسلام كے ديگر مشہور عارف على بن عثمان ہجويرى ہيں كہ جنہيں داتا گنج بخش (داتا يعنى استاد) كا مشہور لقب ملا_(۲)

ہجويرى كو غزنہ كے گرد نواح ميں ہجوير علاقے كى طرف نسبت دى گئي ہے _ انہوں نے طريقت و عرفان ميں سب سے پہلى فارسى كتاب ''كشف المحجوب'' كو تحرير كيا _ اندازہ يہ ہے كہ آپ سال ۴۵۰ سے ۴۶۵ كے درميان ميں فوت ہوئے ہيں اور لاہور ميں دفن ہوئے_(۳)

اس سلسلہ كى مشہور ترين شخصيت اور عظيم شاعر امير خسرو دہلوى تھے كہ شاعر ہونے كے ساتھ ساتھ ايك كامل عارف بھى تھے_ امير خسرو شعر ميں شہاب الدين محمود بدايونى كے شاگرد تھے_ اور تركى ، فارسى اور ہندى زبان پر عبور ركھتے تھے _ نيز موسيقى ميں بھى استاد تھے _ مثنوى كہنے ميں نظامى كے تابع اور غزل ميں سعدى كے مريد تھے_ وہ حقيقت ميں برصغير كے سب سے بڑے فارسى زبان كے شاعر شمار ہوتے تھے_ انكى تاليفات مندرجہ ذيل ہيں :

۱_ ديوان

۲_ خمسہ كہ جسميں مطلع الانوار ، شيرين و خسرو ، مجنون و ليلى ، آئينہ اسكندرى اور ہشت بہشت شامل ہيں _

۳ _ تاريخى حماسے مثلاً قران السعدين اور مفتاح الفتوح_(۴)

____________________

۱) غلام على آريا،سابقہ حوالہ ،ص ۵۵_

۲) عبدالحسين زرين كوب ، جستجو در تصوف ايران ، امير كبير ،ج ۳ ،ص ۷۱_

۳) على بن عثمان ہجويرى ، كشف المحجوب ، وكوفسكى كى سعى سے_ تہران ج ۲ ص ۱۹_۱۸_

۴) دانشنامہ ادب فارسي، زير نظر حسن انوشہ ، ج ۴،بخش اول ص ۲۷۳ ذيل امير خسرو دہلوي_

۲۴۸

ہندوستان كے اسلامى ہنر و فنون

بنيادى طور پر برصغير ميں اسلامى فن پارے وہاں كے مقامى ہنر و فنون سے مختلف تھے _ ليكن مختلف اقسام كے اساليب ميں مقامى ہنر سے ربط پيدا كرليا تھا_جغرافيائي اور قومى اعتبارى سے مشترك ہونا اور وہاں كا خام مواد اور مقامى ہندى اساتذہ كى راہنمائي باعث بنى كہ عالم اسلام ميں مسلمانوں كے ہندوستانى طر ز وسبك كے فن پارے بھى سامنے آئے _ا لبتہ برصغير ميں خالص اسلامى فنون كے بارے ميں گفتگو خاص اہميت كى حامل نہيں ہے_

ان فنون ميں سے ايك معمارى ہے كہ جو مغليہ عہد ميں اپنے عروج كو پہنچى _ معمارى ايك اسلامى ہنر ہونے كے ناطے سے خاص خصوصيات كى حامل ہے اسى بناء پر اسلامى معمارى ايك ہنر ہونے كے ناطے تمام اسلامى مناطق كے فن معمارى سے مشابہت ركھتى ہے_

بنيادى طور پر برصغير چند مختلف مراحل كا حامل ہے:

۱) ابتدائي فاتحين كا دور

۲) غزنويوں سے مغلوں تك كا دور

۳) مغليہ دور

مغليہ حكام ايك نئے سلسلہ حكومت كے ناطے اپنے تعارف اور شہرت كى ضرورت محسوس كرتے تھے _ اور چونكہ وسيع و عريض سرزمينوں پر سكونت پذير گوناگوں تہذيبوں اور عقائد كے لوگوں پر حاكم تھے، اس ليے اپنى خودنمائي كيلئے معمارى كو ايك بہترين ذريعہ سمجھتے تھے_ يہ حكام چاہتے تھے كہ عظيم الشان عمارتيں بناكر لوگوں ميں اپنا مقام ومنزلت اور شہرت كو بڑھائيں _(۱)

____________________

۱) اباكخ، معمارى ہند، ترجمہ حسين سلطان زادہ، تہران ، دفتر پوہشان فرہنگى _ ص ۱۴_ ۱۲_

۲۴۹

مصورين كے برعكس اس دور كے معمار بہت كم اپنا نام ذكر كرتے تھے ہم سوائے چند افراد كے اس دور كے ديگر معماروں سے بے خبر ہيں _مجموعى طور پر اس دور كى معمارى كى خصوصيت يہ ہے كہ يہ سب عمارتيں بادشاہوں اور امرا كے حكم سے بنائي جاتى تھيں كہ بعد ميں انكے ارد گرد ديگر حكام كى طرف سے نئي چيزوں كا اضافہ ہوتا رہتا _ اس دور كى طرز معمارى بہت آہستگى سے تبديل ہوئي جيسا كہ مغليہ عہد كى ابتدائي معمارى بے روح تھى كہ جو بعد ميں آہستہ آہستہ دلكش اور زيبا ہوتى چلى گئي _

جلال الدين اكبر كے دور ميں دہلى ميں ہمايوں كا مقبرہ بنايا گيا جسے مغليہ عہد كى معمارى كے ممتاز نمونہ كے عنوان سے مشاہدہ كيا جاسكتا ہے _ يہ عمارت سال ۹۷۰ قمرى سے ۹۷۸ تك كے درميانى عرصہ ميں بنائي گئي_ اس كے معمار سيد محمد اور اس كے والد مير ك سيد غياث نام كے افراد تھے_ مسجد فتح پور سيكرى نيز مغليہ عہد كى ابتدائي معمارى كا ايك اور نمونہ ہے _بعد كے ادوار ميں مثلاً جہانگير اور شاہ جہاں كے زمانہ ميں فن معمارى مستحكم انداز سے مختلف اسا ليب كے ساتھ ترقى كے زينے طے كرتا رہا_ جہانگير كے ايرانى وزير عبدالرحيم خان خانان كے حكم سے مشہور باغ ''شاليمار باغ'' بنايا گيا _ اس وزير كے بارے ميں شہرت تھى كہ اس نے ہندوستان كو ايران بناديا ہے_

فن معمارى كا ايك اور عظیم الشان فن پارہ تاج محل ہے كہ جو شاہ جہان كے زمانہ ميں مغليہ عہد كے فن معمارى كے عروج كى عكاسى كررہا ہے _ شاہ جہان نے يہ تاج محل اپنى ايرانى ملكہ ارجمند بانو بيگم كيلئے تيار كروايا تھا _ اس كے چار مينار اور ايك پيازى شكل كا گنبد ہے اس كے اردگرد خوبصورت باغات ، بازار اور كاروانسرائيں تھيں كہ جنكى درآمد اس مقبرہ كے امور پر خرچ ہوتى تھى ،سب چيزيں بالخصوص خوبصورت و زيبا باغات شايد''جنت ميں باغات'' كے اسلامى نظريہ كى حكايت وعكاسى ہے(۱) تاج محل تيار ہونے ميں بائيس سال لگے بقول ويل ڈيورينٹ صرف اس مقبرے كا موازنہ ويٹى كن كے معروف كليسا سن پيٹرو سے(۲) كيا

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۹۸_

۲) ويل ڈيورينٹ، مشرق زمين (كا حوارہ تمدن) ترجمہ احمد آرام و ديگران ، تہران ج ۱ ص ۶۸۵_

۲۵۰

جاسكتاہےمغليہ عہد كى معمارى كے بارے ميں آخرى نكتہ يہ ہے كہ در اصل مغليہ عہد كى معمارى ايرانى ، مركزى ايشيا اورہندوستانى نمونوں كا با مہارت آميزہ ہے كہ جسميں مغليہ عہد كے آخرى دور ميں يورپى اسلوب كى بھى آميزش ہوئي كہ جسكى بناء اس فن معمارى نے عالمى سطح كے مقبول فن پاروں كو تشكيل ديا _

فن مصورى :

معمارى كى طرح فن مصورى بھى ابتداء ميں دو آرٹ ايرانى ( تيموري) اور ہندى كا آميزہ تھا_ نيز عہد مغليہ ميں معمارى كى مانند فن مصورى نے بھى آغاز ميں حكومتى دربار ميں ترقى كى گويا فن مصورى كا آغاز دربار سے ہوا اور مصوروں كے سب سے پہلے حامى حاكم وسلاطين تھے_

تاريخى ماخذات كى رو سے ظہير الدين بابر ايك ہنرمند اور ہنر دوست شخص تھا_ اسكا كائنات كى قدرتى خوبصورتيوں اور شكار كى طرف بہت زيادہ ميلان باعث بنا كہ اس قسم كى پينٹنگ اور تصويروں كى طرف مائل ہو_ بابر كے دور كى فقط ايك پينٹنگ كہ جو برلن كے حكومتى ميوزيم ميں موجود ہے ، اس قسم كے رجحان كى عكاسى كررہى ہے_ نيز وہ بخارا كے آرٹ اور استاد بہزاد كے فن مصورى كے اثرات كى حكايت بھى كر رہى ہے_(۱)

ہمايوں كے دور ميں اس كى چند سالہ ايران ميں اقامت اور اس كے دربار ميں مير سيد على ، عبدالصمد شيرازى اور فرخ بيگ قلماق جيسے ايرانى مصورين كى موجود گى سے درحقيقت مغليہ مصورى اور آرٹ كى بنياد ركھى گئي(۲) _اسى دورميں امير حمزہ كى تصويرى داستان پر كام شروع ہوا كہ جو جلال الدين اكبر كے دور تك جارى رہا _ يہ تصويرى كام بارہ جلدوں اور چار ہزار صفحات كے مجموعہ كى شكل ميں سامنے آيا _ بظاہر يہ صفوى دور كے خمسہ نظامى كى تقليد ميں كيا گيا _

____________________

۱) م، س _ ڈيمانڈ، راہنماى صنايع اسلامى ، ترجمہ عبداللہ فريار،تہران ،ص ۶۹ _

۲) كريتين پرايس ،تاريخ ہنراسلامى ، ترجمہ مسعود رجب نيا _ ص ۱۷۵_ ۱۷۳_

۲۵۱

ہم اكبر كے دور ميں دوبارہ عہد مغليہ كے مصورى كے ابتدائي اساليب اور تصويرى موضوعات كو پلٹتا ہوا ديكھتے ہيں ،اكبر نے نئے شہر فتح پور ميں فن مصورى كا حكومتى سكول بنايا كہ جسميں ايرانى اساتذہ كے تحت سو سے زيادہ اہل فن حضرات كام كيا كرتے تھے(۱) _ فن مصورى كے ماہرين كى جب حكومت سے سرپرستى ہوئي تو بتدريج انكى پينٹنگز اور تصويروں كى روش ميں تبديلى رونما ہوئي اور آہستہ آہستہ اس فن كاموضوع مختلف طريقوں اور رنگوں سے امراء اور دربار سے متعلقہ خواتين كى صورتوں كو نقش كرنا ہوگيا تھا_ اكبر كے دور كے مصورين ميں سے بساوان(۲) _ بشن داس(۳) اور عبدالصمد(۴) قابل ذكر ہيں _

جہانگير كے دور ميں بھى يہى روش جارى رہي_ ليكن معمارى كى طرح فن مصورى كا عروج بھى شاہ جہاں كے دور ميں ہوا ، منفرد رنگوں كا استعمال ، ماڈل تيار كرنا اور اصل مناظر كى مانند سايہ بنانے كے كام كا بہت رواج ہوا _ دربار اور حكومتى محافل كى مجلل زندگى كو بہترين شكل و صورت كے ساتھ نماياں كيا گيا جيسا كہ نيويارك كے ''ميڑوپولٹين'' ميوزيم ميں شاہ جہاں كى تمام شاہانہ شكوہ و جلال كے ساتھ تخت طاووس، پر متمكن اور گھوڑے پر سوار تصوير سے مشاہدہ كيا جاسكتا ہے _ مشہور تين مصور ابوالحسن ، ميرہاشم اور محمد نادر ثمرقندى تھے كہ جنہوں نے فن شبيہ نگارى ميں كمال كى حد تك تصوير كشى كى _(۵)

فن مصورى پر بعد كے ادوار ميں بالخصوص اورنگ زيب كے دور ميں زيادہ توجہ نہ دى گئي _ مغليہ عہد كے آخرى دور كى تصويريں دراصل گذشتہ رسم وروش كے مطابق ہيں ان ميں گذشتہ دور كى مانند جدت وانفراديت كا وجود نہيں ہے _ آخر ميں كہا جاسكتا ہے كہ اس دور كے باقى ماندہ آثار كا مشاہدہ بتاتا ہے كہ يہ تصويريں صرف

____________________

۱) م ، س ڈيمانڈ،سابقہ حوالہ ص ۷۱_

۲- Basawan

۳- Bishendas

۴) سابقہ حوالہ ص ۷۲_

۵) تارچند، تاثير اسلام در فرہنگ ہند ، ترجمہ على سپرنيا ، عزالدين عثماني، تہران ص ۳۳۱

۲۵۲

ايرانى اور مركزى ايشيا كے اسلوب وآرٹ كا آميزہ نہ تھيں بلكہ پرانى روشوں كى ترقى كے ساتھ ساتھ اہل فن نے ہندوستانى جديد عناصر سے بھى الہام ليا اور ايك نئے اور خاص اسلوب كى بنياد ركھي_ اگرچہ مسلمانوں (ترك وايراني) كى طاقت كے غلبہ كے پيش نظر ہندوستانى عناصر و رواج وسيع پيمانے پر اس آرٹ كو متاثر نہ كرسكے_(۱)

مغليہ سلاطين كے پسنديدہ فنون ميں سے ايك رسم الخط اور خوشنويسى بھى تھا_ حاكموں كے مذہبى عقائد كى بناء پر پسنديدگى و توجہ ہميشہ اونچ نيچ كا شكار رہى _ بابر نے قرآن كو خوبصورت خط ميں لكھا اور كعبہ كو ہديہ كيا_ ہمايوں كے دور ميں ايرانى اساتذہ مثلاً خواجہ احمد مؤتمن قزوينى اور مير قاسم كى وجہ سے نسخ نويسى كا بہت زيادہ رواج ہوا_ شاہ جہان كے دور ميں مير عمار حسينى كے قتل كے بعد اسكے شاگرد آقا عبدالرشيد ، سيد على تبريزى اور خواجہ عبدالباقى نے شاہ جہان كے ہنر پرور دبار سے ''جواہر قلم'' اور ''ياقوت رقم ''جيسے القابات حاصل كيے اور يہ سلسلہ اورنگ زيب كے آخرى دور تك جارى رہا _ وہ اپنے مذہبى عقائد اور رسم الخط اور خوشنويسى كى استعداد كى بناء پر خوشنويس حضرات كا بہت زيادہ حامى تھا اس فن كے عروج كا دور بھى يہى ہے_(۲)

مغليہ دور كے ديگر فنون ميں سے قالين بننے اوركپڑا بننے كافن بھى تھا_ اس دور ميں قالين بنانے كى صنعت بھى مصورى كى مانند ايرانى رنگ و روپ ركھتى تھي_ آگرہ ، فتح پور اورلاہور ميں قالين بننے كے كارخانے موجود تھے كہ جہاں ايرانى شہروں كاشان، اصفہان، كرمان اور سبزوار كے اساتذہ كے ماتحت قالين بننے كا كام كيا جاتا تھا_ ايرانى پھولوں والے قالين يہاں آئڈيل قالين سمجھے جاتے تھے_ ان قالينوں ميں سرخى مائل كليجى اور مالٹاى رنگ كا بہت زيادہ استعمال تھا_جے پور كے مہاراجہ كے قالينوں كا مجموعہ كہ جسے قالى اصفہان ہندى كانام دياگيا تھا اسى طرز كا تھا_

____________________

۱) سوامى آناند ، گومارا، مقدمہ اى بر ہنرمند ، ترجمہ امير حسين ذكر گو ، تہران ، ص ۱۸۳_

۲) على اصغر حكمت ، سرزمين ہند، انشتارات دانشگاہ تہران ، ص ۸_ ۱۲۶_

۲۵۳

واشنگٹن كے قومى گيلرى اور مٹروپولٹين كے ميوزيم ميں موجود قالينوں كا مجموعہ شاہ جہاں كے دور كے خاص اسلوب كى عكاسى كر رہا ہے كہ جو ابھى تك يادگار رہ گئے ہيں ،بہرحال فنى طور پر اس فن كا عروج شاہ جہاں كے دور ميں تھا كيونكہ ہندوستانى قالين باف ايرانى اساتذہ سے بھى بہتر اور آگے بڑھ چكے تھے_ اس بات كى تائيد ان قالينوں ميں بہت سى گرہيں ، رنگ كا استعمال اور منفرد و خوبصورت تصاوير كرتى ہيں _(۱)

مغليہ عہد ميں كپڑا بننے كا كام ہندوستانيوں كے اس كام ميں ديرينہ تجربہ كى بناء پر اسى ہندى طرز و اسلوب پر چل رہا تھا_ انواع واقسام كے كپڑے مثلاً ململ ، سوتى اور زرين ريشم كپڑا بننے كے مشہور مراكز مثلاً لاہور ، دكن اور احمد آباد ميں تھے اورخوبصورت ہندى ساڑھياں اور شاليں دنيا كے بہترين ملبوسات تھے كہ جو پورى دنيا ميں بھيجے جاتے تھے_(۲)

____________________

۱) م _ س ، ڈيمانڈ ،سابقہ حوالہ ، ص ۷۵_ ۲۷۴_

۲)سابقہ حوالہ ، ص ۲۵۵_ ۲۵۴_

۲۵۴

نواں باب:

اسلامى تہذيب و تمدن كے جمود اور زوال كے آخرى اسباب

۲۵۵

۱) استعمار قديم و جديد:

استعمار قديم

اسلامى تہذيب و تمدن كے جمود كے بہت سے اسباب وعوامل ميں سے آخرى ''استعمار'' ہے _ اس مختصر سى گفتگو ميں ہمارى كوشش يہى ہے كہ كلمہ استعمار كى مناسب تعريف اور اسكے وجود ميں آنے كے اسباب كا جائزہ ليتے ہوئے اسلامى ممالك كے اسكے تحت آنے كى تاريخ پر بحث كريں اور اسلامى تہذيب وتمدن پر اسكى وجہ سے جواثرات اور نتائج حاصل ہوئے ہيں ، انكاتجزيہ كريں _

استعمار كا مفہوم اور تاريخ

لفظ استعمار كا لغوى معنى آباد كرنا ہے_ ليكن سياسى اصطلاح ميں اس سے مراد كسى گروہ كى دوسرے لوگوں يا كسى اور سرزمين پر حاكميت ہے _ ايك اور تعريف كے مطابق يہ ايك سياسى اور اقتصادى مسئلہ ہے جو سنہ ۱۵۰۰ء سے شروع ہوا ، اسى زمانہ سے بعض يورپى ممالك كے استعمار گر لوگوں نے دنيا ميں وسيع علاقوں كو دريافت كيا ، وہاں سكونت اختيار كى اور وہاں سے فوائد حاصل كيے_ جبكہ بعض اہل نظر كے نزديك استعمار كا مفہوم ان قديم ادوارسے متعلق ہے كہ جب قديم حكومتوں نے كچھ ايسے اقدامات كيے مثلاً مصرى ، يونانى اور پھر رومى حكومتوں نے اپنى سرزمين سے باہر چھاؤنياں يا مراكز قائم كيے كہ جنكا مقصد جنگ ، تجارت اور اپنى تہذيب كا پھلنا پھولنا تھا اور يہ اقدامات استعمار كہلائے_

كيمونسٹوں نے لفظ استعمار كى جگہ اسكے مشابہ لفظ ''امپريالزم '' كو عنوان بحث قرار ديا _ كلمہ امپريالزم در اصل اس حكومتى نظام كو كہا جاتا تھا جس ميں ايك باشكوہ حاكم دور و نزديك كى بہت سارى سرزمينوں پر حكومت

۲۵۶

كرے يا بالفاظ ديگر بادشاہت قائم كرے ليكن بعد ميں طاقتور ممالك كى ديگر ممالك پر ہر قسم كى بلا واسطہ يا بالواسطہ حكومت كو امپرياليزم سے تعبير كياجانے لگا_(۱)

جب دنيا كے نقشے پر بعض طاقتور يورپى ممالك مثلاً انگلينڈ ، فرانس ، پرتگال اوراسپين ظاہر ہوئے اسى زمانہ ميں استعمار بھى وجود ميں آيا ، سنہ ۱۴۸۸ ء ميں جنوبى افريقا كے اردگرد نئے دريائي راستے دريافت ہوئے اور سال ۱۴۹۲ ء ميں براعظم امريكا دريافت ہوا تو استعمارى مقاصد اور نئي سرزمينوں كى دريافت كيلئے دريائي سفر شروع ہوئے ،انہوں نے ابتداء ميں تو سونے ، ہاتھى كے دانتوں اور ديگر قيمتى اشياء كى تلاش ميں سفر كيے ليكن آہستہ آہستہ انكے اقتصادى مقاصد بڑھتے گئے _ مثلاً تجارت ، دريافت شدہ سرزمينوں كى خام معدنيات اور زرعى پيداوار كو يورپى سرزمينوں كى طرف منتقل كرنا اور يورپى مصنوعات كو ان سرزمينوں ميں پہنچاناان سب چيزوں نے انكى استعمارى فعاليت كو بڑھايا _

استعمارگر ممالك بہت جلد اس نكتہ كو سمجھ گئے تھے كہ دراز مدت تك فوائد حاصل كرنے كيلئے ضرورى ہے كہ ان مستعمرہ ممالك يا سرزمينوں كى سياست اور حتى كہ كلچر كو بھى كنٹرول كياجائے اور انہوں نے يہ تجربہ بعض سرزمينوں يا اقوام پر كيا _ مثلاً براعظم امريكا، افريقا اور بحرالكاہل كے جزائر كى اقوام اور اصلى ساكنين ان استعمارى مقاصد كى زد ميں آئے وہ لوگ معاشرتى طور پر استعمارى طاقتوں كى ابتدائي يلغار اور حملوں سے ڈھير ہوگئے _ لہذا يہ تجربہ يہاں بہت آسان ثابت ہوا _

ان سرزمينوں ميں ايسے طاقتور مراكز بنائے گئے كہ جو استعمارى طاقتوں كے كنٹرول ميں تھے_ استعمارى طاقتوں نے ان ممالك ميں علاقائي اداروں اور مراكز كے ساتھ ساتھ ايسے مراكز اور ادارے قائم كيے كہ جنہوں نے تجارتي، معاشرتى اور تہذيبى امور و روابط ميں ايسى جدت پيدا كى كہ جو دراصل استعمارى طاقتوں كے مفادات اور ضروريات كو پورا كرنے كيلئے تھى نہ كہ ان سرزمينوں كے ساكنين كيلئے سودمند تھي_(۲)

____________________

۱) ولفگانگ ج ، مومسن ، نظريہ ہائے امپرياليسم ، ترجمہ سالمى ، تہران ، ص ۱۲_۷_

۲) احمد ساعى ، مسائل سياسى _ اقتصادى جہان سوم ، تہران ص ۷، ۴۶_

۲۵۷

وہ ممالك جو كچھ حد تك اندرونى طور پر استحكام ركھتے تھے اور استعمارى طاقتيں ان پر مكمل كنٹرول نہيں پاسكتى تھيں ، مثلاً ايران اور چين وغيرہ يہاں انكى سياست يہ تھى كہ ان ممالك ميں اپنے مفادات كے تحفظ كيلئے كچھ تبديلياں لائي جائيں مثلاً انكى اقتصادى صورت حال كو ايسے تبديل كياجائے كہ وہ فقط عالمى منڈيوں كى ضروريات پورى كريں نہ كہ اپنے اندرونى منڈيوں كى ضروريات كو ملحوظ خاطر ركھيں _(۱)

استعمار كے وجود ميں آنے كے اسباب

اہل فكر ونظر نے استعمار كے وجود ميں آنے اورپيشرفت كرنے كے اسباب كے حوالے سے متعدد نظريات پيش كيے ہيں _ اور اس مسئلے كا مختلف زاويوں سے تجزيہ كيا ہے:

اہل نظر كے ايك گروہ نے استعمار كو سياسى پہلو سے تحقيق وتجزيہ كا محور قرار ديا اور بتايا كہ سولہويں صدى اور اس كے بعد كے ادوار ميں يورپ كے بڑے طاقتور ممالك ميں سياسى اور فوجى رقابت استعمار كے وجود ميں آنے اور اس كى وسعت كا باعث قرار پائي_ اس نظريے كا محور حكومتيں اور انكے سياسى مقاصد ہيں اوراس نظرى كے حامى بڑى حكومتوں كى ديگر رقيبوں كے مد مقابل اپنى طاقت اور حيثيت كو بڑھانے كى طلب كو استعمار كے پھلنے پھولنے كا اصلى سبب قرار ديتے ہيں _

جبكہ اہل نظر كے ايك اور گروہ كا نظريہ ہے كہ استعمار كے وجود ميں آنے اورپھلنے پھولنے كا بنيادى سبب يہ ہے كہ طاقتور اقوام اور حكومتيں اپنے قومى جذبات اور سياسى اور فوجى صلاحيتوں كو مستحكم كرنے اور محفوظ ركھنے كيلئے وسيع پيمانے پر سرزمينوں پرقابض ہوتى تھيں اور بڑى بڑى بادشاہتوں كو تشكيل ديتى تھيں _ كچھ اہل نظر كے مطابق استعمار دراصل ايك نسلى امتياز كا نتيجہ ہے _ انكے خيال كے مطابق گورے لوگ (يورپي) ذاتى طور پر ديگر اقوام سے برتر ہيں ، انكے كندھوں پر يہ ذمہ دارى ہے كہ دنيا كى ديگر اقوام كے امور كى اصلاح اور انكو مہذب كرنے كيلئے ان پر حكومت كريں _(۲)

____________________

۱) تيلمان اورس، ماہيت دوست درجہان سوم ، ترجمہ بھروز توانمند ، تہران ،ص ۵۱_۲۰_

۲) دلفگانگ ج ، سوسن ، سابقہ حوالہ ، ص ۱۲_ ۷_ ۹۰۰ _ ۵۹ _

۲۵۸

بعض ديگر دانشوروں كے خيال كے مطابق استعمار ايك اقتصادى مسئلہ ہے كہ جو نئے سرمايہ دارى نظام كے پھلنے پھولنے سے سامنے آيا ہے_ انكے نظريہ كے مطابق چونكہ يورپى ممالك كے اپنے وسائل (خريد و فروش كے بازار، خام مال اور سرمايہ كارى كے مواقع) انكى روزبروز بڑھتى ہوئي ضرورتوں كيلئے ناكافى ہوچكے تھے جسكى بناء پر وہ ديگر ممالك كے امور ميں مداخلت كرنے لگے ،نيز انكا نظريہ يہ ہے كہ استعمار در حقيت ايك كوشش ہے جس ميں مغرب كے بڑے ترقى يافتہ ممالك ديگر ممالك ميں سود پر مبنى تجارتى وصنعتى نظام كو پيش كرتے ہيں جس سے انكا مقصد يہ ہوتا ہے كہ اپنے سرمايہ دارى نظام كى روز بروز بڑھتى ہوئي ضروريات كو ان ممالك كے ذرائع اور وسائل سے پورا كريں _ يہ نظريہ ليبرل اقتصاد والے سرمايہ دارى نظام كے اہل نظر اور ماركسزم كے پيروكاروں ميں ديكھا جاسكتا ہے_(۱)

ايشيا ميں استعمار

استعمارى طاقتوں ميں سے ايشيا ميں داخل ہونے والا پہلا گروہ پرتگاليوں كا تھا_ سن ۱۴۹۸ ء ميں پرتگالى جہازران واسكوڈ ے گاما ، بحيرہ ہند كے ذريعے ہندوستان كے شمال مشرقى ساحلوں تك پہنچا اسطرح ايشيا اور يورپ كے روابط ميں ايك نيا دور شروع ہوا _ اس زمانہ ميں ايشيا كے بڑے ممالك مثلاً ايران ، سلطنت عثمانيہ اور چين مختلف علوم ، زراعت اور تجارت ميں ترقى كے پيش نظر ايك بلند سطح كے حامل تھے_

واسكوڈ ے گاما تو تجارتى اہداف كے پيش نظر ان سرزمينوں تك پہنچا تھا ليكن آٹھ سال كے بعد پرتگال كا فوجى سردار ايلبوكرك(۲) جديد سرزمينوں كو فتح كرنے اور پرتگالى سلطنت كى توسيع كيلئے ان علاقوں ميں داخل ہوا _ مجموعى طور پر پرتگالى لوگوں كے تجارتي، سياسى ، فوجى اور مذہبى مقاصد تھے ، ليكن بہرحال وہ دنيا

____________________

۱) سابقہ حوالہ ، ص ۵۵_ ۲۵_

۲- Albauquerque

۲۵۹

كے اس منطقہ ميں اپنى حيثيت برقرار ركھنے ميں زيادہ كامياب نہ رہے_ فقط تجارت اس سے متعلقہ مسائل كى حد تك رہے _

يہ نكتہ قابل غور ہونا چاہئے كہ يورپ ميں پرتگالى لوگ ايشيا اور شمالى يورپ كے درميان تجارتى ايجنٹوں كے طور پر كام كرتے تھے_ انہوں نے سولھويں صدى كے آخر تك ہالينڈ كو اپنى تجارتى نظام كے تحت ركھا_ ليكن سترہويں صدى كے اوائل ميں اہل ہالينڈ نے بذات خود ايشيا سے براہ راست تجارت كيلئے كوششيں شروع كيں _اہل ہالينڈ كے بعد انگريز اور پھر فرانسيسى لوگ ايشيا ميں داخل ہوئے_

ايشيا ميں اہل يورپ كے استعمارى روابط دو مرحلوں ميں تقسيم ہوتے ہيں : پہلا دور يا مرحلہ سنہ ۱۴۹۸ ء ميں شروع ہوتا ہے اور ۱۷۵۷ ء ميں ہندوستان پر انگريزوں كى فوجى فتح پر ختم ہوتا ہے _ اس دور ميں اہل يورپ كى يہ كوشش تھى كہ وہ اپنى بحرى اور بارودى اسلحہ كى طاقت كے بل بوتے پر ان سرزمينوں سے تجارتى روابط بڑھائيں اور ان علاقوں كى مرغوب پيداوار مثلاً مصالحوں ، كپڑوں اور آرائشے كے لوازمات تك پہنچيں اسى دور ميں بہت سى تجارتى كمپنياں تشكيل پائيں وہ سب تجارتى سہوليات اور اختيارات كے درپے تھيں ان كمپنيوں ميں سے بعنوان مثال ہالينڈ كى فارلينڈ كمپنى (سال ۵۹۴ ۱ئ) ، ايسٹ انڈيا كمپنى ہالينڈ، ايسٹ انڈيا كمپنى انگلينڈ (سال ۱۶۰۰ ئ) اور فرانسيسى كمپنى كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے_ يہ سب كمپنياں اپنے ممالك كى طرف سے سياسى اور فوجى پشت پناہى كى حامل تھيں _ اور ايشيا كے مختلف علاقوں پر قابض ہونے كيلئے باہمى سخت رقابت كا شكار تھيں _

دوسرا دور سال ۱۷۵۷ ع سے ۱۸۵۸ تك ہے كہ اس دور ميں يورپينز كى اس سرزمين كے امور ميں بالواسطہ مداخلت تھى اور يہ مداخلت بظاہر فوجى صورت ميں نہ تھى مثلا ہندوستان سنہ ۱۷۵۷ء سے ليكر ۱۸۵۸ ء تك ايسٹ انڈيا كمپنى كے تحت تھا اور انگلستان كى حكومت اس كمپنى كى پشت پناہى كرتى تھي_ ليكن اس كے بعد انگلستان كى حكومت نے سرے سے ہى ہندوستان كى حكومت كى باگ دوڑ سنبھال لى اور ہندوستان كى حيثيت برطانيہ كى ايك رياست كى ہوگئي اوروہ اور انگلستان كى پارليمنٹ كے تابع سرزمين كے طورپر جانى گئي _(۱)

____________________

۱) ك ، م پانيكار ، آسيا واستيلاى باخر ، ترجمہ محمد على مہميد ، تہران ،ص ۴۵_ ۱۲_

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375