اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 15%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 144829 / ڈاؤنلوڈ: 5493
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

كپڑا اور قالين بننے كا كام

صفويوں نے قالين بننے كى صنعت كو ديہاتوں سے بڑھا كر ملكى سطح تك ترقى دى اور ملك كے اقتصاد كا اہم جزو قرار ديا_ قالين بننے كا سب سے پہلا كارخانہ تقريباً شاہ عباس كبير كے زمانہ ميں اصفہان ميں قائم ہوا(۱) صفوى دور كے قالينوں ميں سے قديم ترين نمونہ ''اردبيل'' نام كا مشہور قالين ہے كہ جو لندن كے ويكٹوريا البرٹ ميوزيم ميں موجود ہے اسے سال ۹۴۲ قمرى ميں تيار كيا گيا تھا_

شاہ عباس كے زمانہ ميں قالين تيار كرنے كے حكومتى كارخانوں كى تعداد زيادہ تھى اور آرڈر پر قيمتى قالين تيار كيے جاتے تھے_ مثلاپولينڈ كے بادشاہ سيگسمنڈ سوم نے ايران سے قالين خريد كر اپنى بيٹى كو جہيز ميں ديے _ قالين تيار ہونے كے علاوہ كپڑا بننے كى صنعت نے بھى قابل ذكر ترقى كي_ قيمتى لباس اور محلات كے خوبصورت پردوں نے سياحوں كو مبہوت كرديا تھا_ درخشاں رنگوں كى آميزش ، جدت اور اسليمى وگل دار ڈيزائينوں سے تزيين نے ايرانى ماہرين كو اس قابل بناديا كہ وہ ايسا كپڑا بنائيں جو خوبصورتى اور جدت ميں بے نظير ہو(۲)

كہا يہ جاتا ہے كہ اصفہان كے بازار ميں پچيس ہزار كاريگر كام كرتے تھے اور كپڑا بنانے كى انجمن كا صدر ملك كا ايك طاقتور ترين شخص شمار ہوتا تھا_ ريشم اور ريشم كے كپڑوں كى تجارت اس دور كى ايك اور صنعت تھى كہ جو انتہائي اہميت كى حامل تھى بقول چارڈن:شاہ عباس ريشم بنانے اور برآمد كرنے والا سب سے پہلابادشاہ تھا _ ريشم جارجيا ، خراسان، كرمان بالخصوص گيلان اور مازندران كے علاقوں سے حاصل ہوتا تھا اور سالانہ ۲۲ ہزار عدل(۳) ريشم كى پيداوار يورپ برآمد ہوتى تھى _(۴)

____________________

۱) راجر سيوري،سابقہ حوالہ ص ۳۳ _ ۱۳۲_

۲) سابقہ حوالہ ص ۶ _ ۱۲۵ _

۳) عدل: وزن كا ايك پيمانہ (مصحح)

۴) شاردن ، سياحتنامہ شاردن ، ترجمہ محمد عباسى ، تہران امير كبير ج ۴ ص ۳۷۰ _ ۳۶۹

۲۲۱

فوجى اسلحہ

چالدران كى جنگ ميں صفوى فوجى عثمانى فوج كے بارودى اسلحے اور توپخانہ كے مد مقابل زيادہ نہ ٹھہرسكے ، چونكہ اس قسم كے اسلحہ كے استعمال سے واقف نہ ہونے كى وجہ سے ايرانى فوج زيادہ طاقتور نہ تھي_

شاہ عباس كے بادشاہ بننے اور ماڈرن فوج كى تشكيل سے پہلے ايرانى فوج كا ڈھانچہ قزلباشوں كے گروہوں پر مشتمل تھا_ يہ وہ خوفناك جنگى طاقت تھى جنكا عثمانى بھى احترام كرتے تھے_ ليكن چالدران كى جنگ كے بعد فوجى ڈھانچے ميں تبديلى ناگزير تھى _ شاہ تھماسب نے جوانوں كے انتخاب سے پانچ ہزار افراد كى ايك رجمنٹ تشكيل دى كہ جنہيں ''قورچي'' كہا گيا _ اس رجمنٹ سے ايك ماڈرن فوج كى بنياد فراہم ہوئي اور شاہ عباس كبير كيلئے راستہ ہموار ہوا _(۲)

شاہ عباس كبير نے فوج كى ابتدائي بنياد (شا ہسونہا يعنى بادشاہ كے حامي) تشكيل دينے كے ساتھ ايك نئي فوج خاص نظم كے ساتھ تشكيل دى كہ جو مختلف اقوام اور اقليتوں پر مشتمل تھى _ شاہ نے اس كام كے ساتھ ساتھ شرلى برادران سے بہت قيمتى فوجى علوم بھى كسب كيے _ اور پہلى دفعہ ايرانى فوج ميں مختلف دھڑے ، پيادے ، سوار اور توپخانہ وجود ميں آئے _ اسى طرح توپ بنانے اور گولے مارنے كا فن بھى شرلى برادران سے سيكھا گيا _(۳) ليكن قابل افسوس بات يہ ہے كہ شاہ عباس نے ايرانى فوج ميں جس چيز كى بنياد ركھى اس كے جانشينوں نے اس كى طرف توجہ نہ كى جس كے نتيجہ ميں ايرانى فوج روز بروز كمزور ہوتى چلى گئي يہاں تك كہ نادر شاہ كے زمانہ ميں ايرانى فوج ميں دوبارہ قوت پيدا ہوئي_

____________________

۱) خانبابابيانى ، تاريخ نظامى ايران، جنگہاى دورہ صفويہ ص ۵۹_

۲) راجو سيوري، سابقہ حوالہ ص ۱۹۹ _

۲۲۲

صفويوں كا دفترى نظام

صفويوں كے حكومتى ڈھانچے ميں بادشاہ تمام امور كا سربراہ ہوتا تھا كہ جو ملك كو اداروں اور شعبوں كے عہديداروں اور منصب داروں كے ذريعہ چلا تا تھا ، ذيل ميں ان عہدوں اور مناصب كى طرف اشارہ كيا جاتا ہے:

ايك عہدہ ''وكيل نفس نفيس ہمايون' ' تھا كہ جو سياسى امور ميں برجستہ كردار ادا كرتا تھا يہ عہدہ سپہ سالاروں ميں سے ہوتا تھا اور ''صدر '' كے عہدہ كيلئے انتخاب ميں بہت زيادہ اثر و رسوخ ركھتا تھا_ چالدران كى جنگ كے بعد اس عہدہ كى اہميت ختم ہوگئي ،اب يہ دين اور دنياوى امور ميں نائب السلطنہ شاہ نہيں رہا تھا بلكہ دفاتر كے شعبہ كے سربراہ كى حيثيت اور صفوى حكومت كے نمائندہ كے حيثيت سے پہچانا جاتا تھا اور صفوى دور كے آخر ميں تو اس عہدہ كانام و نشان ہى نہ رہا _

دوسرا مقام ''اميرالامرائ'' كا تھا_ صفوى دور ميں قزلباش لشكروں كا سپہ سالار اس عہدہ پر فائز ہوتا تھا جو فوجى طاقت ركھنے كے ساتھ ساتھ دفترى امور پر واضح كنٹرول ركھتا تھا_(۱)

صفوى حكومت كے فوجى عہدوں ميں سے ايك عہدہ''قورچى باشي'' تھا كہ جو قبائلى رجمنٹوں كا كمانڈر ہوتا تھا _ شاہ اسماعيل اول كے بعد يہ عہدہ بہت اہميت كا حامل ہوا _ شاہ عباس كے دور ميں جارجين اور چركسوں كى وجہ سے ان فوجى مناصب نے ايك منظم اور مسلح فوج كو وجود بخشا_

شاہ كے بعد كا مقام '' وزير '' كہلاتا تھا كہ جسے''اعتماد الدولہ '' كا لقب ديا جا تا تھا _ ديوان كا سربراہ وزير اعظم ہوتا تھا كہ جسكے ماتحت بہت سے وزير ، منشى اور ديگر حكومتى عہديدار كام كرتے تھے _ ديوانى عہديداروں كا انتخاب وزير كى مہر كے بغير كوئي حيثيت نہ ركھتاتھا _''صدر'' كا عہدہ كہ جسكى ذمہ دارى نظرياتى اور مذہبى وحدت كو وجود ميں لانا تھا، صفوى حكومت كے مسلك مناصب ميں سے اہم منصب تھا_ اگر چہ ''صدر'' مسلك شيعہ

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۷۹_ ۷۰_

۲۲۳

كا سربراہ تھا ليكن سياسى نظام كى ہم آہنگى كے بغير فعاليت انجام نہيں ديتا تھا _ وہ ديوان بيگى (عمومى قوانين ميں شاہ كا مكمل اختيارات ركھنے والا نمائندہ) كے ساتھ عدالتى امور كو بھى نمٹا تا تھا _ يہ سب اعلى حكام درالحكومت ميں ہوتے تھے كہ جنكے ماتحت بہت سے عہديدار انكى ذمہ داريوں كو بجالانے ميں ان سے تعاون كيا كرتے تھے_(۱)

صفويوں كا زوال

اس شاہى سلسلہ كے زوال كے بارے ميں مختلف نظريات سامنے آئے ہيں _ صفوى جوكہ ايك شيعہ حكومت تھى تقريباً ۲۲۰ سال تك جارى رہى ، اس مدت ميں صفوى بادشاہوں نے جو بھى سياسى پاليسياں بنائيں وہ ايك طرح اس حكومت كے تدريجى زوال ميں كردار ادا كرتى ہيں _ شاہ عباس كبير كى تجربہ كار شخصيتوں اور شاہزادوں كو ختم كرنے كى سياست اور املاك ممالك كو املاك خاص ميں تبديل كركے بيشتر درآمد كے ذرائع پيدا كرنے كى سياست نے حكومتى ڈھانچے پر بہت برے اثرات ڈالے_ شاہ عباس كى فوج ميں بہت سى خوبيوں اور امتيازات كے باوجود قزلباشوں كى نسبت ديگر قبائل اور اقوام كے سپاہى صفوى حكومت اور ايران سے بہت كم عقيدت ركھتے تھے_

صفويوں كے سقوط كے ديگر اسباب ميں سے عہدوں اور مناصب پر نااہل اور نالائق افراد كا ہونا اور مريدى و مرشدى كا روحانى رابطہ ختم ہونا نيز افغانوں كا اصفہان پر ناگہان اور برق رفتارى سے حملہ تھا كہ اس طولانى مدت ميں ان تمام اسباب نے اكھٹے ہوكر ايرانى حكومت كے ايك اہم سلسلہ كو ختم كرديا_

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۹۷_

۲۲۴

عثمانى حكومت

امارت سے بادشاہت تك

عثمانى حكومت كى بنياد آٹھويں صدى ہجرى اور چودہويں صدى عيسوى كے آغاز ميں ركھى گئي _ اس حكومت كا نام عثمان غازى (حكومت ۷۲۴_۶۸۰) سے ليا گيا كہ جو اغوز تركوں كے ايك قبيلہ كا سردار تھا _ يہ ان ترك قبائل كا حصہ تھے جو سن ۴۶۳ ہجرى ذيقعدہ ميں الپ ارسلان سلجوقى كى بيزانس( مشرقى روم) كے بادشاہ رومانس چہارم پر فتح كے بعد موجودہ تركى ميں سلجوقى حكومت قائم ہونے كے ساتھ سلاجقہ روم اور بيز انس كے ما بين سرحدى علاقوں ميں سكونت پذير ہوئے(۱) منگولوں كے رومى سلاجقہ پر تسلط كے بعد جب ايلخانان (منگولوں ) كى گرفت كمزور پڑگئي تھى تو انہوں نے اسى علاقہ ميں سردارى حاصل كرلى تھي_

اگرچہ عثمانى قبائلى امراء كو اناتولى كے ديگر امراء پر كوئي برترى حاصل نہ تھى بلكہ ان كى نسبت كمزور اور حقير محسوس ہوتے تھے(۲) _ ليكن اپنى خاص جغرافيائي حدود اور ديگر عوامل بالخصوص جہاد كيلئے فوج تيار كرنا اور بحيرہ اسود كے كنارے كے ساتھ ساتھ بيز انس كى ديگر سرزمينوں كو اپنے ساتھ ملحق كرنے كى بناء پر يہ مملكت وسعت اختيار كر گئي اور روز بروز يہ اقتدار بڑھتا گيا جسكے نتيجہ ميں يہ ايك قبيلہ سے ايك وسيع حكومت اور بادشاہت تك پہنچ گئے _(۳)

عثمان غازى كى حكومت كے درميانى دور ميں عثمانى حكومت تشكيل پائي _ يہ كاميابى اہل تصوف كے شيوخ، ابدالوں اور با باؤں نيز علماء و فقہاء سے اچھے روابط كى وجہ سے حاصل ہوئي كيونكہ علماء وفقہاء كا مسلمان تركوں ميں روحانى اثر ورسوخ بہت زيادہ تھا _

____________________

۱) ادموند كليفورد ياسورٹ_ سلسلہ ہاى اسلامى ، ترجمہ فريدون بدرہ اى ص ۲۱۰_

۲) چاستا نفورد جى ، شاد، تاريخ امپراتورى عثمانى تركيہ جديد _ ترجمہ محمود رمضان زادہ ص ۳۶ _

۳) ہامر پور گشتال _ تاريخ امپراتورى عثمانى ، ترجمہ ميرزا ازكى على آبادي، تہران ج ۱ ص ۴۳ _

۲۲۵

اور اہل فتوت كى تنظيميں كہ جو انتہائي وسعت كے ساتھ تمام شہرى طبقات ميں مؤثر كردار ادا كر رہى تھيں ، انكى خدمات اور كوششوں كا نتيجہ عثمانى حكومت كى صورت ميں سامنے آيا _(۱)

عثمان غازى جو كہ اپنى مدبرانہ سياست اور عثمانى سماج كے تمام طبقات اور مختلف شعبہ جات زندگى كے لوگوں سے اچھے تعلقات اور اپنے مسلمان اور عيسائي ہمسايوں سے اچھے مراسم ركھنے كى بناء پر ترك قبائل كے رہبر كے مقام پر فائز ہوچكا تھا ،اس اپنى مملكت كو وسعت بخش كر اپنے جانشينوں كے لئے مزيد فتوحات كے اسباب فراہم كرديے تھے اور اپنى چھوٹى سى حكومت كى ايسى مضبوط بنياد ركھى تھى كہ جو حكومت كے استحكام اور وسعت كى ضمانت فراہم كرتى تھي_(۲)

اورخان غازى ( ۷۶۱_۷۲۴ق) جو كہ اپنے والد عثمان غازى كے سياسى اور فوجى معاملات ميں انكا داياں بازو تھا اس فتوحات كو جارى ركھنے كے ساتھ ساتھ حكومت كو منظم كركے اسے بادشاہت ميں تبديل كرنے كى كوشش جارى ركھي_ اس نے اہم شہر بروسہ پر قبضہ كرليا كہ جس پر فتح پانے كے حالات چند سالوں سے بن رہے تھے اور اسى شہر كو اپنا دارالحكومت قرار ديا اور عثمانى حكومت كے مستقل ہونے كے اعلان كيلئے اپنے نام سے سكہ جارى كيا اور اس كا نام خطبات ميں پڑھاجانے لگا_ يہ سال ۷۲۶ قمرى تھا(۳) اس ليے بعض مورخين اسے عثمانى حكومت كا پہلا بادشاہ شمار كرتے ہيں(۴)

اس نے اس كے بعد ايشاے كوچك اور ديگر اہم مناطق اور شہروں پر قبضہ كرتے ہوئے بيزانس (روم) كو ايشيا سے باہر دھكيل ديا(۵) _ اس سلطنت كے اندرونى كشمكش ميں بعض رقيبوں كى درخواست پر

____________________

۱) اوزون چارشيعى واسماعيل حقي، تاريخ عثمانى ،ترجمہ ايرج نوبخت تہران ج ۱ ص ۱۲۶ _ ۱۲۵_استانفورد چى ، شاو،سابقہ حوالہ ص ۴۳_

۲) استانفورد چى شاد، سابقہ حوالہ ص ۲۲۳ ، لردكين راس، قرون عثمانى ، ترجمہ پروانہ ستارى ، ص ۲۴ _

۳) مادر _ يورگشتال ، سابقہ حوالہ ص ۸۳ كے بعد سے ، اوزون چارشيلى ص ۱۴۱ _ ۱۲۹ _ ۱۴۷ كے _

۴) Sanderora ، siyasi Tarib ، Ank ، ۱۹۸۹ ، p۳۱

۵) اوزون چارشيلى ،سابقہ حوالہ ص ۱۴۷ _ ۱۴۱ _ استانفوردچى شاو، گذشتہ مدرك ص ۴۵_ ۴۴_

۲۲۶

اس كے اندرونى امور ميں دخل ديا اور كچھ مواقع سے بہترين فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں اپنى فوج كو داخل كيا _ بالكان ميں مزيد فتوحات كيلئے اپنے آپ كو تزويرى اہميت كے حامل جزيرے گيلى پولى ( Gallipoli )ميں مستحكم كيا _(۱)

بيزانسى (رومي) طاقت كے تشنہ لوگوں كے لئے اسكى اہميت اسقدر زيادہ تھى كہ اس ملك كے دوبادشاہوں نے اسكے ساتھ اپنى بيٹيوں كى شادى كيلئے ارادے كا اظہار كيا _ ايك اور بادشاہ نے مجبور ہوكر اپنى مملكت ميں اس كى فتوحات كو تسليم كرليا_(۲)

اور خان بيگ حكومت اور فوج كے معاملات كو منظم كرنے ميں بھى فعال تھا اس نے ايك منظم فوج كو تشكيل ديا تھا نيز ''ينى چري'' سپاہيوں كى ابتدائي شكل بھى اسى دور ميں وجود ميں آئي(۳) _ اسكے اپنے والد كى مانند اہل فتوت و تصوف اور علماء سے روابط بہت اچھے تھے ،اہل فتوت ميں سے اسكے كچھ وزير بھى تھے اس نے ابدالان (زاہدوں ) كے لئے خانقاہيں اور دينى علوم كى تدريس كيلئے مدارس بنائے(۴) اس كے بعد سب سے پہلے سياسى روابط جمہورى جنيوا(۵) سے ہوئے كہ جس كى كالونياں بحيرہ روم كے جزائر وسواحل ميں تھيں _ ان روابط كے نتيجہ ميں انكے درميان ايك تجارتى معاہدہ بھى وقوع پذير ہوا_(۶)

اور خان غازى كى وفات كے بعد اس كا بيٹا مراد اول (۷۹۱_ ۷۶۱ق) المعروف خداوندگار اسكا جانشين بنا_ وہ اپنے والدكے زمانہ حيات ميں ''روم ايلى ''ميں جنگ ميں مصروف تھا _ اس نے بھى اپنے والد كى مانند اسى سرزمين ميں فتوحات كا دائرہ بڑھانے كى كوشش جارى ركھي_ ادرنہ (موجودہ تركى كا ايك شہر) كى فتح

____________________

۱) Kramers ، op ، cil- p -۱۹۲-۱۹۳

۲) Gokbilgin ، Tayyib ، otnonin Ta ، vol ۹ ، P -۴۰۲-۴۰۳

۳_ احمد راسم، عثمانى تاريخى ، ج ۱ _ ص ۵۲_۵۱ استانفورد جى شاو،سابقہ حوالہ ص ۴۳ كے بعد ،اوزون چارشيلي،سابقہ حوالہ ص ۱۵۲_ ۱۵۰

۴_ شمس الدين ساى ، قاموس الاعلام، استانبول _ ص ۳۹۴۳ ،حامر ، يورگشتال ،سابقہ حوالہ ص ۱۱۱ _

۵- Genova

۶- kromers ، op c.+ p ۱۹۳

۲۲۷

كہ جو اس كے تخت نشينى كے سال انجام پائي برا عظم يورپ ميں عثمانيوں كى حكومت قائم ہونے كے اعتبار سے بہت اہميت كى حامل تھي_

يہ اور بالكان كى تاريخ بلكہ يورپ كى تاريخ ميں اہم مرحلہ شمار ہوتى ہے_(۱) اس بہت بڑے شہر جو كہ بعد ميں عثمانيوں كا درالحكومت بنا ،فتح كے بعد قسطنطنيہ كا خشكى كے راستے سے يورپ سے رابطہ كٹ گيا_(۲) اس طرح در حقيقت مشرقى روم كے دارالحكومت كے محاصرہ كا پہلا قدم اٹھايا گيا تھا_

مراد كے دور ميں بعد والى فتوحات نے جزيرہ يونان كے علاوہ تمام بالكان كو عثمانيوں كے اختيار ميں دے ديا_ كہاجاسكتا ہے كہ ان فتوحات كے ذريعہ پانچ صديوں تك چلنے والى حاكميت كے بيج بوئے گئے _ ايسى حاكميت كے جس نے اس نئے تمدن كو جنم ديا كہ جو تاريخ كے اوراق پر مختلف قومي، دينى اور لسانى عناصركى آميزش سے ظاہر ہوا_(۳) بہرحال ان فتوحات نے دنيائے غرب كو وحشت زدہ كرديا يہاں تك كہ پاپائے روم نے عثمانيوں كو روكنے كيلئے دو صليبى جنگوں كا آغاز كيا_(۴)

لارڈ كيں اس كے تجزيہ كے مطابق مراد اول فوجى اور سياسى قيادت ميں اپنے والد اور دادا سے بڑھ كر تھا اسكى كوششوں سے مغرب مشرق كى گرفت ميں آگيا جيسا كہ يونانيوں اور روميوں كے دور ميں مشرق اہل مغرب كى گرفت ميں تھا ،وہ پہلے تين عثمانى حكمرانوں كے باہمى موازنہ كے بعد اس نتيجہ پر پہنچا كہ عثمان نے اپنے گرد قوم كو جمع كيا ،اس كے بيٹے اور خان نے ايك قوم سے ايك حكومت تشكيل دى جبكہ اس كے پوتے مراد اول نے اس حكومت كو بادشاہت پہچاديا_ مراد كے بھى اپنے والد اور دادا كى مانند اہل فتوت سے بہت اچھے

____________________

۱- Inalcik ، in IA vol /p- ;sevim - yucel ، op ، cit ، vol ، p .۲۶ -۲۷

۲_ احمد راسم ،سابقہ حوالہ ص ۶۳_

۳- sander ، op. cit ، P .۳۱

۴ _ اوزون چارشيلى ، سابقہ حوالہ ، ص ۲۰۰ _ ۱۹۳ _ احمد راسم ،سابقہ حوالہ ج۱ ص ۶۷_۶۵_ ۷۹_ ۷۸_ لارڈكيں ، سابقہ حوالہ ، ص ۵۸_ ۵۷_

۲۲۸

روابط تھے يہاں تك كہ اس كے زمانے كے و قف ناموں ميں يہ عبارات موجود ہيں كہ فلان كو فلان جگہ اخى كى حيثيت سے معين كرتاہوں _(۱)

مراد كے بعد سلطان بايزيد اول (۸۰۴_ ۷۹۱ ق) نے روم ايلى ميں فتوحات كا دائرہ بڑھايا اور آناتولى كے چند امراء كو اپنا اطاعت گزار بنايا_ اور قسطنطنيہ كا تين بار محاصرہ كيا اور بيزانس كے بادشاہ كو ايسى قرار داد قبول كرنے پر مجبور كيا كہ جسكے تحت وہ شہر ميں ايك محلہ كہ جس ميں مسجد ہو مسلمانوں كے ساتھ خاص كردے اورعدالتى امور كے ليے ايك اسلامى ادارہ بھى قائم كرے(۲) اس كى فتوحات نے عثمانى مملكت كو فرات سے دانوب تك پھيلاديا تھا،ليكن آناتولى پر تيمور كى يلغار سے فتوحات كا يہ سلسلہ ختم ہوگيا_ انقرہ كى جنگ(۳) (ذى الحجہ ۸۰۴ق) ميں بايزيد كى تيمور سے شكست كھانے سے عثمانى تاريخ كا پہلا دور كہ جسے اسلامى فتوحات كا پہلا دور كہا گياہے ،ا پنے اختتام كو پہنچا_

عثمانى كاميابيوں اور انكے تسلط واقتدار كے اسباب كو دو اقسام ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے :

۱_ بيزانس اور بالكان كى حكومتوں كو كمزور اور عثمانى فتوحات كيلئے راستہ ہموار ہو نے كے اسباب:

۱) مذكورہ حكومتوں ميں اندرونى كشمكش اور ختم نہ ہونے والى باہمى جنگيں اور ملوك الطوايفى كا دور دورہ كہ جسكے نتيجہ ميں مركزى حكومت كا اقتدار كمزور پڑگيا_(۴)

۲) بالكان كے آرتھوڈوكس عيسائيوں كا لاطينى كليسائوں سے نفرت كرنا اور عثمانيوں كے خلاف پادريوں كے صليبى فوج تيار كرنے كے اقدامات كر قبول نہ كرنا_ يہ احساسات اتنے شديد تھے كہ بالكان كے بہت سے عيسائي عثمانيوں كو اپنے ليئے كيتھولك كليسا كے تسلط سے نجات دہندہ سمجھتے تھے_(۵)

____________________

۱- Neset ، Cagatar ، Makaleler velncele meler ، konra ،۱۹۸۳ ، P ۲۹۰

۲)ہامر، يورگشتال ، سابقہ حوالہ ص ۲۰۶ اوزون چارشيلى ،سابقہ حوالہ ص ۳۳۴_

۳- Yinane ، Op. Cit. P ۳۸۶ ، Sevil-Yucel ، Op. Cit P ۶۳ ،۶۸

۴) شاو، سابقہ حوالہ ص ۳۶ _ لارڈكين راس، سابقہ حوالہ ص ۵۵ _

۵) لارڈ كين رس ، سابقہ حوالہ ص ۴۴_ ۵۱_

۲۲۹

۳_ٹيكسوں كے بڑھانے كى وجہ سے ديہاتى لوگوں كا حكومتوں سے ناراض ہونا يہ ٹيكس وغيرہ اتنے زيادہ تھے كہ كبھى كبھى يہ لوگ حكومت كے خلاف بغاوت كيا كرتے تھے_(۱)

۲_ عثمانيوں كو مستحكم كرنے والے اسباب : فوجى صلاحيتوں سے مالامال ہونے كے ساتھ ساتھ اس دور ميں عثمانى حكومتوں كو اندرونى اختلافات كا سامنا نہيں كرنا پڑو_ اور مذہبى اور اقتصادى محركات كے ساتھ ساتھ فتوحات كى خاطر دائمى جنگ كے ليے آمادگى بھى اہم اسباب تھے_(۲)

عثمانيوں كو مستحكم كرنے والے بعض ديگر اسباب يہ ہيں كہ مفتوحہ سرزمين پر لچكدار سياست اور پاليسياں روا ركھنا ركھا، مفتوحہ علاقوں كے لوگوں سے مذہبى تعصب سے پاك رويہ ركھنا ، غير مسلم رعايا كو اپنى رسم و رواج كے مطابق رہنے كى اجازت دينا، آرتھوڈوكس كليسا كے ٹيكسوں كو معاف كرنے والے قانون كو برقرار ركھنا(۳) اورگردو نواح كے عيسائي امراء سے دوستانہ روابط ركھنا اور بعض اوقات ان ميں سے كچھ اسلام كى طرف راغب ہوكر مسلمان ہوجاتے تھے، اسى وجہ ان امراء كى بعد والى نسليں مثلاً ميخال اوغلواور اورنوس او غلو عثمانى مملك كے بارسوخ خاندانوں ميں ميں شمار ہونے لگے_(۴)

مفتوحہ سرزمينوں ميں رعايا كى سہولت كے پيش نظر قانون و نظم كى برقرارى ، انكى جان ومال كى حفاظت اور حكومت كا رعايا پر ٹيكسوں ميں كمى كرنا يہ وہ امور تھے جنكى بناء عيسائي رعايا عثمانيوں كو اپنے سابق حاكموں پر ترجےح ديتے تھے_(۵)

____________________

۱) استانفورڈ جى ، شاد ،سابقہ حوالہ ص ۱۰۰

۲) استانفورد جى شاد،سابقہ حوالہ ص ۴۰

۳) لارڈكين راس ، سابقہ حوالہ ص ۲۶_ ۲۴

۴) اوزون چارشيلى ، سابقہ حوالہ ص ۱۳۱ ، ۱۴۱ ، استانفورڈ جى شاو،سابقہ حوالہ ص ۸۵ _ ۸۲ _ ۵۲ لارڈكين راس، سابقہ حوالہ ص ۲۷ _ ۲۴

۵) Sender ، Op.Cit.P.۳۰

۲۳۰

تيمور كى يلغار اور بايزيد اول كے بيٹوں كے باہمى كشمكش سے خلاء پيدا ہوا ،اسكے بعد عثمانى تاريخ كا دوسرا دور شروع ہوا كہ جسے عثمانى بادشاہت كى دوبارہ تشكيل اور عثمانى حكومت كے عروج كے دور سے ياد كياجاتا ہے_ سلطان محمد اول كے زمانہ ميں دوبارہ عثمانيوں ميں يكجہتى پيدا ہونے كے بعد مراد دوم نے قسطنطيہ كو ايك مدت تك محاصرہ ميں ركھا_(۱) اور اناتولى كے بہت سے امراء كو اطاعت گزار بنايا _(۲)

سلطان محمد دوم (حكومت ۸۸۶_۸۵۵ / ۱۴۸۱_ ۱۴۵۱ عيسوي) المعروف فاتح تخت نشين ہوا، اسے عثمانى فتوحات كى تاريخ ميں اہم ترين فتح يعنى سنہ ۸۵۷ كا / ۱۴۵۲ عيسوى ميں قسطنطيہ كى فتح اور بيزانس كى بادشاہت كے خاتمہ كى توفيق حاصل ہوئي يہاں تك كہ قرون وسطى كا دور ختم ہوا اور قرون جديد كا دور شروع ہوا_ اس نے قسطنطيہ كو عظیم الشان مساجد اور مدارس كے اسلامى دارالحكومت ميں تبديل كرديا_(۳)

مغرب ميں سربيا ، بوسنيا، ہرزگوينيا اور شمال ميں جزيرہ كريمہ پر قبضہ كرليا_ ليكن شہربلغراد كو فتح كرنے سے ناكام رہا(۴) فاتح نے مشرقى روم كے دارالحكومت كو فتح كرنے اور ديگر فتوحات كے ذريعے مملكت عثمانيہ كو ايك بہت بڑى طاقتور بادشاہت ميں تبديل كيا اور خود ايك عظيم الشان بادشاہ كے روپ ميں دنيا كے سامنے جلوہ گر ہوا_(۵)

وہ تجارت كے پھلنے پھولنے كو بہت اہميت ديتا تھا_ عمومى مصالح كے پيش نظر اس نے مملكت عثمانيہ كے اٹلى سے روابط كو كنٹرول كرتے ہوئے انہيں ايك خاص نظم ميں لايا _ اٹلى كے تاجروں پر كسٹم ٹيكس كى معافى ختم كردي_ اور بعد ميں انكے تجارتى مال پر كسٹم ٹيكس دو فى صد سے پانچ فيصد بڑھاديا اور مملكت عثمانيہ كے شہرى خواہ يوناني، يہودى ، ارمنى اور مسلمانوں كو سہولت دى كہ اٹلى كے تاجروں كى جگہ يہ لوگ تجارت كريں _

____________________

۱) sevim-yucel ، Op.cit ، PP ،۶۹-۹۷

۲)احمد راسم،سابقہ حوالہ ، ص ۵۴_

۳) سابقہ حوالہ ص ۲۰۵_ ۲۰۲، ۲۱۵_ ۲۱۴_

۴) احمدراسم ، سابقہ حوالہ ص ۲۰۵ _ ۲۰۲_ ۲۱۵_۲۱۴_

۵) Kunt ، Metin ، Op.cit ، P ۷۶ ، inalcik ، intarkdunvasi...P ۴۶۴

۲۳۱

اس دور ميں بعض شہر مثلاً بروسہ جو كہ ايران اور سعودى عرب كے تجارتى قافلوں كے راستہ ميں آتا تھا ، تجارت كے مركز ميں تبديل ہوگيا بالخصوص يہ شہر ايرانى ريشم كى تجارت كے باعث ريشمى كپڑوں كى صنعت كا بہت بڑا مركز بن گيا _(۱)

سلطان محمد فاتح كا دور تہذيب وتمدن اور علوم كى ترقى اور پھلنے پھولنے كا زمانہ بھى تھا _ وہ خود بھى اعلى سطح كى تعليم حاصل كيے ہوئے تھا اور تركي، فارسي، عربى لاطينى ، يونانى اور عربى زبانوں كو جانتا تھا _(۲) استانبول كو فتح كرنے كے بعد فورى طور پر اس نے اياصوفيہ كليسا كو مسجد ميں تبديل كرنے اوراسكے نزديك ايك مدرسہ بنانے كا فرمان جارى كيا_ اور علاء الدين على قوشجى (متوفى ۸۷۹ قمري) كو وہاں كا سرپرست اور منتظم بنايا_

قوشجى ايك زمانہ ميں سمرقند كے رصدخانہ كا منتظم تھا_ الغ بيگ كے قتل كے بعد اوزدن حسن آق قونيلو كى خدمت ميں پيش ہوا چونكہ وہ مذكورہ بادشاہ اور عثمانى سلطان ميں ايك مصالحت كيلئے فاتح كے دربار ميں حاضر ہوا تھا اس ليے فاتح كى توجہ كا مركز قرار پايا اور اس نے قوشجى كے استنبول ميں اقامت پذير ہونے پر رضايت كا اظہار كيا_ قوشچى نے ثمرقند كے علمى مركز كو مملكت عثمانيہ ميں منقتل كرنے اور مملكت عثمانيہ ميں بہت سے علوم مثلاً رياضى اور نجوم كى ترقى ميں اہم كردار ادا كيا اس نے عربى زبان ميں علم ہيئت كے متعلق ايك رسالہ لكھا اور فاتح كى اوزدن حسن پر فتح كى مناسبت سے اسكانام فتحےہ ركھا_(۳)

فاتح كے حكم پر مسجد فاتح كے گرد ونواح ميں بننے والے مدارس نيز دربارسے وابستہ مدارس اور علمى مراكز علماء دين اور حكومتى عہديداروں كى تربيت كے اہم مراكز بن چكے تھے_(۴)

____________________

۱) Inalcik ، Op.cit ، P ۴۶۵ ، Inalcik ، La ، Vol ،۷ PP ۵۳۳ -۵۳۴

۲_ احمد راسم ، سابقہ حوالہ ص ۲۱۹_

۳_ ابوالقاسم قرباني، زندگى نامہ رياضى دانان دورہ اسلامي_ تہران ص ۳۶۴ _۳۶۰ _

۴) Huseyin ، Yurdaydin ، Dusunceve bilim Tavihi( ۱۳۰۰-۱۶۰۰ ) in Turkiye Tarihi ، ed sim Aksin ، Vd ۲ ، PP. ۱۸۱-۱۸۲

۲۳۲

فاتح كے بعد سلطان بايزيد دوم اور اس كے بعد سلطان سليم اول ( ۹۲۶_ ۹۱۸ق) المعروف ياووز (بے رحم) تخت نشين ہوا _ اس نے چالدران كى جنگ ميں شاہ اسماعيل صفوى پر كاميابى كے علاوہ مكمل طور پرا ناتولى پر تسلط، شام اور مصر كو فتح كرنا اور مماليك (غلاموں ) كى حكومت ختم كرتے ہوئے عثمانى مملكت كو دوگنا كرديا_ ''خادم حرمين شرفين'' كا لقب اختيار كيا اور شريف مكہ كى طرف سے اس كے نام كاخطبہ پڑھا گيا اور مصر ميں خاندان عباسى كے آخرى خليفہ ''متوكل على اللہ سوم'' سے خليفہ كا عنوان اپنے ليے اور اپنے عثمانى خاندان كيلئے منتقل كرنے كے ليے پورے عالم اسلام پر حكمرانى كے درپے ہوا(۱) _ انہى فتوحات بالخصوص بحيرہ روم كے مشرقى اور شمال مشرقى تمام سواحل كے عثمانى مملكت سے الحاق نے اس مملكت كى اقتصادى ترقى ميں اہم كردار ادا كيا _(۲)

شاہ سليم بذات خود شاعر تھا فارسى ميں اسكا ديوان آج بھى اس كى يادگار كے طور پر باقى ہے _ وہ علماء اور عرفاء كى محفل ميں بيٹھنا پسند كرتا تھا_ شيخ محى الدين ابن عربى كے ساتھ عقيدت كى بناء پر شام ميں انكى قبرپر ايك مقبرہ بنايا _(۳) اس نے اپنے زمانے كے مشہور علمى وثقافتى مراكز كى لائبريريوں سے نفيس كتابوں كو استنبول منتقل كيا اور علماء ، ہنرمندوں اور تاجروں كو بھى استنبول دعوت دي، اسطرح وہ چاہتا تھا كہ جسطرح وہ اسلامى دنيا كا طاقتورترين سلطان نظر آتا ہے _ اسى طرح اسكا دارالحكومت بھى عالم اسلام كا عظیم الشان شہر بن جائے(۴) _ اگر چہ شاہ سليم نے آٹھ سال سے زيادہ حكومت نہيں كى اسكے باوجود اتنى قليل مدت ميں روم ايلى اور آناتولى كے علاقوں كى ايك مقامى مملكت ايك عالمگير بادشاہت تك ترقى كرگئي _(۵)

____________________

۱) Serafeddinturan ، selim in La ، Vol ۱۰ p ۴۲۷-۴۳۲ sander ، opcit ، p ۳۵

۲) Derin ، op. citP ۴۸۱

۳) محمد امين رياحي، زبان و ادب فارسى در قلمرو عثمانى ،تہران ص ۱۷۸ _ ۱۶۸ الہامہ مفتاح و وہاب ولى ، نگاہى بہ روند نفوذ وگسترش زبان و ادب فارسى در تركيہ ، تہران ص ۲۰۲_۱۹۴

۴) P.۱۱۶ ، Kunt ، op دربارہ ہنرمندان و دانشمندان وشعراى راہى شدہ از ايران بہ استانبول در زمان سلطان سليم _ نصراللہ فلسفى ، جنگ چالدران _ مجلہ دانشكدہ ادبيات، س۱ ،ش ۲ ،ص ۱۱۱ _ فريدون بيك منشات السلاطين _ استانبول ج ۱ ، ص ۴۰۵ _

۵) kunt ، op ، cit ، p-۱۱۹

۲۳۳

سليم كے بعد اسكابيٹا سليمان ( ۹۷۴ _ ۹۲۶ قمرى / ۱۵۶۶_ ۱۵۲۰ عيسوي) المعروف قانوني، كبير اور باشكوہ _(۱) تخت نشين ہوا_ اس نے اپنے آباؤ اجداد كى روايت كو جارى ركھا _ اپنے اقتدار كے ابتدائي دور سے ہى مملكت عثمانيہ كو مشرق ومغرب سے برّى و بحرى مناطق ميں وسعت دينا شروع كرديا_ مثلاً اس نے سات مرتبہ ہنگرى پر حملہ كيا_(۲) جنگوں اور حملوں كا يہ دائرہ وہاں سے بڑھا يہاں تك كہ ہنگرى سے آگے بوہم (چيكو سلواكيہ) اور باداريا تك جاپہنچا_(۳) اس نے دوبارہ سن ۱۵۲۹ اور ۱۵۳۲ عيسوى ميں اس اميد پر ہيسبورگ خاندان كے مركز حكومت پر حملہ كيا جو يورپ كے وسيع حصہ پر حاكم تھے_(۴) تا كہ اس پر قبضہ كرسكے يا كم از كم آسٹرياكى فوجى حيثيت كو ايسا تباہ كردے كہ ہنگرى كے معاملات ميں دخل دينے سے باز رہے(۵) _ ليكن مختلف اسباب كى بناء پر اس شہر كو فتح نہ كرسكا(۶) _

سليمان نے كئي بارمسلسل چند سال تك صفوى سلطنت پر بھى حملہ كيا ليكن تہماسب صفوى كى افواج كى طرف سے زمين جلانے والى سياست كى بناء پر سليمان كى آذربائيجان عراق عجم اور عراق عرب پر فوجى كاميابياں زيادہ مستحكم نہ رہ سكيں _ بالآخر ۹۶۲ قمرى / ۱۵۰۵ عيسوى ميں آماسيہ معاہدہ پر دستخط كرتے ہوئے ان جنگى ثمرات كو بھى كھو بيٹھا_(۷)

ليكن عراق اس كے پہلے حملے (سال ۹۴۲ _ ۹۴۰ قمري) _( ۱۵۳۴ _۱۵۳۳عيسوي) ميں شاہ سليمان كے قبضہ ميں آگيا اس فتح كے ساتھ شاہ سليم كے زمانے سے شروع ہونے والى اسلامى خلافت كے تمام

____________________

۱- Magnificent

۲) لردكين راس ، سابقہ حوالہ ص ۲۶۱_

۳)استانفورڈجى ، شاو، سابقہ حوالہ ، ص ۱۷۱_

۴) دايرة المعارف فارسى ، ج ۱ ص ۳۲ _ ۲۵_

۵) استانفورد جى ، شاد،سابقہ حوالہ ص ۱۷۰_

۶) لرد كين راس، سابقہ حوالہ ص ۲۰۵_ ۱۹۸_

۷) رئيس نيا مقدمہ : نصوح مطراق چي، بيان منازل ، تہران ص ۵۳_ ۳۱ _ دايرة المعارف فارسى ج ۱ ص ۲۳۶_

۸- Kramers ، Op Cit ، P ۱۹۵

۲۳۴

دارالحكومتوں كو فتح كرنے كى مہم ختم ہوگئي_(۱)

مملكت عثمانيہ كى وسعت مشرق ميں خليج فارس تك پھيل گئي(۲) بلاشبہ باشكوہ سليمان كے دور ميں مملكت عثمانيہ كى سرحديں وسعت كى آخرى حدوں كو چھونے لگيں تھيں _ اسكى وفات كے زمانہ ميں يورپ ميں بن بوڈاپسٹ كى تمام سرزمين جزيرہ عرب كے آخرى كنارے بندگارہ عدن تك اور افريقا ميں مراكش سے ايشيا ميں ايران تك تمام سرزمينيں اسكى مملكت ميں شامل تھيں _(۳)

شاہ سليمان نے اپنى آدھى صدى پر محيط حكومت ميں سوائے زندگى كے آخرى چند سال كے بقيہ زندگى ايك محاذ سے دوسرے محاذ پر جنگ و حملہ ميں گذارى كيونكہ دارالحرب كى طرف مملكت كو وسعت دينا ، اسلامى عقيدہ جہاد كے ضرورى احكام ميں سے تھا_ اسى لئے جب وہ اپنى عمر كے آخرى دور ميں اندرونى مشكلات ومسائل كو حل كرنے اور بڑھاپے كى بناء پر چند سال جہاد نہ كرسكا تو شيخ نوراللہ جو كہ اس زمانہ كے فقہاء ميں سے تھے ، انہوں نے اعلان كيا كہ جو بادشاہ جہاد جيسا فرض اجرا نہيں كررہا ہے اسكا مواخذہ كرنا چاہئے _ بعض محققين اس تنقيد كو اس كے لشكر كشى كے دور كے اختتام كى وجہ سمجھتے ہيں اسى دور ميں وہ وفات پاگيا _(۴)

شاہ سليمان ايك انتھك جنگى كمانڈر ہونے كے ساتھ ساتھ عدل و نظم كے قيام كى خواہش ركھنے والا قانون دان بھى تھا_ اسكى واضح مثال اسكا ''قانون نامہ سليمان'' ہے كہ جو اس كى براہ راست نگرانى ميں شرعى احكام اور گذشتہ قوانين بالخصوص قانون نامہ محمد دوم فاتح كى رعايت كرتے ہوئے اور اس زمانہ كے تقاضوں كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے تدوين كيا گيا _ نيز اس قانون نامہ كو مترتب كرنے كى وجہ يہ تھى كہ طبقہ حاكم اور سلطان كے تابع افراد كے حقوق اور فرائض كى تشخيص كى جائے اور رعايا كے حقوق و مالى مسائل كو حل كياجائے اور حكومتى اداروں كے فرائض كى حدود معين كى جائيں وغيرہ

____________________

۱) kramers ، op.cit ، p ۳۷

۲)_ استانفورد چى ، شاوسابقہ حوالہ ص ۱۷۵_ ۱۷۴_

۳) Sander ، op cit ، P ۳۷

۴) Gokbilgin LA ،۱۱ ، P ۱۵۵

۲۳۵

مذكورہ قانون نامہ شيخ الاسلام ابوالسعود آفندى كى راہنمائي اور فتاوى كے ساتھ ساتھ ملا ابراہيم حلبى كى نگرانى ميں تدوين ہوا _ اس قانون نامہ كے وسيع پيمانہ پر اجراء ہونے كى صلاحيت كى بناء پر اسے ''ملتقى الابحر'' يعنى سمندروں كى ملاقات كى جگہ '' كانام ديا گيا _ اور يہ قانون نامہ انيسويں صدى ميں قانون ميں اصلاحات اور تراميم كے دور تك باقى رہا(۱) _ سليمان كو قانونى كا لقب بھى اسى لئے ديا گيا تھا_

شاہ سليمان كا طولانى دور حكومت ہنر و ادب كى رونق كے ادوار ميں سے ايك دور جانا جاتا ہے _ شعراء ، ہنرمند، قانون دان، فلاسفہ ، مورخےن ، دانشور حضرات ، علماء ، اہل ادب اور دربار كے مہمان ان تمام مادى وسائل سے بہرہ مند تھے جو اس نے ان كيلئے فراہم كئے تھے_(۲)

اسكے دور حكومت ميں برگزيدہ علماء كى فہرست ميں عبداللہ شيخ ابراہيم شبسترى اور ظہيرالدين اردبيلى بلاشبہ ايرانى مملكت سے تعلق ركھتے تھے_(۳)

معمارى كے آثار مثلاً سليمانيہ ، مسجد سلطان سليم اور اس كے گردو نواح كے آثار كہ جو شاہ سليمان كے حكم پر سال (۹۹۶_ ۸۹۴ قمري/۱۵۸۸_ ۱۴۸۹ عيسوي) ميں معروف معمارسنان كى نگرانى ميں دائرہ وجود ميں آئے، شاہ سليمان كے دور كے عظيم الشان شاہكار ہيں _ سنان فن معمارى ميں نابغہ روزگار تھا وہ سليمان كے بہت سے حملات ميں شريك تھا اور ۳۵۰ سے زيادہ معمارى كے فن پارے مثلاً بڑى ، چھوٹى مساجد، مدرسہ ، دالقرائ، مقبرہ ، عمارت، محل ، دارالشفاء ، كاروانسرااور حمام و غيرہ اس سے منسوب كيے جاتے ہيں(۴)

____________________

۱) استانفورد جى شاد،سابقہ حوالہ ص ۱۶۲ ، ۱۸۵_ ۱۸۴_ ۲۳۸ _ ۲۳۷ ،ورڈكين راس ،سابقہ حوالہ ص ۲۱۴_ شمس الدين سامى ،سابقہ حوالہ ص ۵۶۸_

۲) الہامہ مفتاح و وحاب لى ،سابقہ حوالہ ص ۲۰۶ _

۳) Gokbilgin ، OP.cit ، P ۱۵۲

۴) Oktay ، Aslanapa ، sinan in la ،۱۰ ، pp - Meydan. Lorousse ، vol.۱۱ ) ۱st ۱۹۸۱ ، pp ،۳۵ : Gokbilgin ، La vol.۱۱ p ،۱۴۹

۲۳۶

كہاجاتا ہے كہ شاہ سليم كے دور ميں جتنے ہنرمند لوگ اسكے حكم پر استنبول ميں آئے وہ سب شاہ سليمان كے دور ميں بھى اپنے ہنر وفن كے كرشمے دكھاتے رہے_(۱)

شاہ سليمان كا دور مملكت عثمانيہ كى عظمت كے عروج كا دور تھا ايك نظريے كے مطابق خود شاہ سليمان سياست ميں تمام عثمانى بادشاہوں ميں پہلے نمبر پر ہے(۲) _ ان سب عظمتوں كے ساتھ ساتھ، اسى شاہ كے نصف دور حكومت سے مملكت عثمانيہ كى جڑيں كھوكھلى ہونابھى شروع ہوگئيں يہ صورتحال بعد كى صديوں ميں بھى جارى رہي_(۳)

لارڈ كين راس نے اگر چہ شاہ سليمان كى شخصيت كے مختلف مثبت اور اہم پہلوؤں پر خاص توجہ اور انہيں زور دار انداز ميں بيان كياہے كہ جن كى بدولت اس نے عثمانى حكومت كو ايك خاص نظم ديكر عظمت و قدرت كى معراج پر پہنچايا ليكن وہ اس بات كو نہيں بھولا كہ انہى عظمتوں اور بلنديوں ميں زوال وپستى كے بيج بھى مخفى تھے كيونكہ اس كے بعد جو بھى سلاطين آئے ان ميں نہ كوئي فاتح تھا نہ قانون گذار اور نہ ہى فعال حاكم(۴)

۳_مغل سلاطين

دين اسلام كا ہندوستان ميں داخل ہونا اور پھر اسلامى حكومت كى تشكيل مختلف مراحل پر مشتمل ہے _ قرن اول كى ابتداء سے ہى مسلمان تجار نے مالابار اور گجرات كے ساحلوں ميں سكونت پذير ہندوستانيوں كى مقامى آبادى سے تجارتى تعلقات قائم كيے پھر اسلام كا ايك نئے اور پركشش دين كے عنوان سے ان علاقوں ميں آہستہ آہستہ تعارف ہوا_

____________________

۱) استانفورد جى شاد، سابقہ حوالہ ص ۶۱_

۲) آنستونى بريج، سابقہ حوالہ ص ۲۲_

۳) استانفورد جى شادسابقہ حوالہ ص ۲۹۱_

۴)لارڈكين راس_سابقہ حوالہ ص ۲۶۴_

۲۳۷

بعد كے ادوار ميں مسلمان غازيوں كے ان علاقوں پر حملوں سے ہندوستانيوں كى دين اسلام سے آگاہى اور دلچسپى بڑھتى چلى گئي _ مسلمان مجاہدين كے ساتھ عرفا اور صوفيوں كى بہت بڑى تعداد اسلام كى تبليغ و ترويج كيلئے اس سرزمين ميں داخل ہوئي كہ انہوں نے مسلمان مجاہدين سے مختلف انداز سے اپنے مكتب كى بہت وسيع شكل ميں اور عميق انداز ميں ہندوستانيوں ميں ترويج كى _

مسلمانوں كى زيادہ تر فتوحات ہندوستان كے شمالى علاقوں ميں انجام پائيں _ شروع ميں ترك اور افغان سلاطين ان علاقوں ميں داخل ہوئے_ بعد كے ادوار ميں مختلف مسلمان خاندان ہندوستان ميں حكومت كرتے رہے _ مثلاً دكن كے بہمن ، قطب شاہي، تغلق و آخركار مغل مسلمان خاندان ہندوستان كى بلا مقابلہ سياسى اور اقتصادى قوت كى صورت ميں سامنے آيا_ مغليہ خاندان اپنے منظم اور مرتب نظام حكومت كى بناء پورے ہندوستان كو ايك حكومت كے پرچم تلے لے آئے_ بلاشبہ ہندوستان ميں مسلمانوں كى حكومت كا عروج مغليہ خاندان كے اقتدار كے دوران تھا_

سياسى تاريخ

ہند كے مغليہ سلسلہ حكومت يا بابرى حكومت كى بنياد ظہر الدين بابر نے ركھى كہ جسكا نسب تيمور مغل تك پہنچتا تھا_ تيمور چونكہ منگول قوم سے نسبت ركھتا تھا اسى لئے بعض تاريخى ماخذات ميں مغليہ سلسلہ حكومت كو ہندوستان كے منگولوں كے عنوان سے بھى ياد كيا گيا ہے_(۱)

ظہيرالدين ابتدا ميں سمرقند كا حاكم تھا_ اس نے ۹۱۰ ہجرى قمرى ميں شہر كابل پر قبضہ كرليا اس دور ميں اسكے ہمسايوں ميں دو بڑى طاقتيں صفوى اور ازبك تھے ان كى موجودگى ميں وہ ہرگز اپنى مملكت كو مركزى ايشيا يا ايران كى طرف نہيں بڑھا سكتا تھااسى لئے اس نے اپنے حملات اور فتوحات كا مركز مشرقى علاقوں مثلاً ہند اور

____________________

۱) شيخ ابوالفضل مبارك ، اكبرنامہ، غلامرضا طباطبائي مجد كى كوشش سے تہران _ مؤسسہ مطالعات وتحقيقات فرہنگى ص ۱۳۸

۲۳۸

كابل كو قرار ديا _ بابر كى ۹۳۶ہجرى قمرى ميں وفات كے بعد اسكا فرزند ہمايوں تخت نشين ہوا ، ہمايوں اپنے طاقتور رقيبوں يعنى اپنے سوتيلے بھائي كامران ميرزا اور شيرشاہ سورى كى طرف سے دبائو ميں تھا ،بالآخر ۹۵۱ ہجرى قمرى ميں شير شاہ سورى سے شكست كھانے كے بعد اس نے شاہ طہماسب صفوى كے دربار ميں پناہ لى _ يہاں تك كہ ۹۶۲ہجرى قمرى ميں ايرانيوں كى مدد سے دوبارہ اپنا تاج و تخت واپس لے ليا _(۱)

ہمايوں كے بعد جلال الدين اكبر تخت نشين ہوا اگر چہ اس كى عمر چودہ سال سے زيادہ نہ تھى ليكن اس نے اپنے ايرانى شيعہ سرپرست بہرام خان كى تدبيروں سے اپنى حكومت كى ابتدائي مشكلات پر قابو پاليا _

اكبر نے اپنے دور حكومت ميں دارالحكومت كو دہلى سے آگرہ كى طرف منتقل كيا _ اس نے اپنے دانا وزير ابوالفضل علامى كى مدد سے اپنے ماتحت علاقوں ميں ايك خاص نظم و قانون جارى كيا_ اكبر بادشاہ كا دور حكومت مغليہ دور كا عروج شمار ہوتا ہے_(۲)

اس نے اپنے رقيبوں كى بہت سى بغاوتوں اور ہندووں كى بغاوت كا قلع قمع كرتے ہوئے اپنى حكومت كو پندرہ صوبوں ميں تقسيم كيا اور بذات خود گورنروں كے كاموں كى نگرانى كرتا تھا_

۱۰۱۴ ہجرى ميں جلال الدين اكبر نے آگرہ ميں انتقال كيا _ اسكے بعد اسكا بيٹا جہانگير تخت نشين ہوا_ جہانگير نے اپنى حكومت كے دوران سكھوں كى سب سے بڑى بغاوت كا خاتمہ كيا_ اس وجہ سے ہندوؤں ميں اسكے حوالے سے كينہ پيدا ہوا_ ہندوؤں نے جہانگير كے رقيبوں كا ساتھ ديا جسكى بناء پر بعض علاقے احمد نگر، دكن وغيرہ مغليہ مملكت سے نكل گئے_ جہانگير نے بھى زندگى كے آخرى سالوں ميں مجبورہوكر كابل ميں سكونت اختيار كي_

۱۰۳۷ قمرى ميں جہانگير كابڑا بيٹا شاہ جہاں تخت نشين ہوا چونكہ اسكى ملكہ نورجہاں ايرانى تھي، اسى ليے بہت

____________________

۱) بايزيد بيات _ تذكرہ ہمايوں واكبر، محمد ہدايت حسن كى تصحيح سے_ تہران، انتشارات اساطير ، ص ۳_

۲) شيخ ابوالفضل مبارك سابقہ حوالہ ص ۲۰۵_

۲۳۹

سے ايرانيو ں نے مغليہ دربار ميں جگہ پائي_(۱)

مغليہ سلسلہ كا آخرى قوى ترين بادشاہ اورنگ زيب تھا كہ اس نے اپنے خاص مذہبى رجحان كى بناء پر ايرانيوں سے اچھے روابط نہيں ركھے_ اسكے دور اقتدار كے بعد مغليہ حكومت روز بروز كمزور اور ضعيف ہوتى چلى گئي اور آہستہ آہستہ زوال پذير ہوگئي_

مغلوں كے صفويوں سے روابط

بابر بادشاہ نے كابل ميں حكومت كے دوران شاہ اسماعيل صفوى اور شاہ طہماسب صفوى سے محدود سے روابط شروع كيے اس نے صفويوں سے دوستى كى بناء پر ازبكوں كے مد مقابل اپنى حكومت كو محفوظ ركھا_ ہمايوں كا دور حكومت بہت اہميت كا حامل تھا_ ہمايوں كى ايران ميں اقامت اور ايرانيوں سے آشنائي كى بناء پر دونوں حكومتوں ميں قريبى روابط برقرار ہوئے اور بہت سے ايرانى مغليہ دربار ميں وابستہ ہوئے كہ ان ميں سب سے اہم ہمايوں كا وزير بہرام خان تھا_

جلال الدين اكبر صفويوں كے دوبادشاہوں شاہ طہماسب اور شاہ عباس كا ہم عصر تھا(۲) دونوں حكومتوں كے اچھے روابط ميں اہم مسئلہ قندھار تھا كہ جسے اكبر نے اپنے قبضہ ميں لے ليا تھا يہ شاہ عباس كبير كے ابتدائي دور ميں ہوا كہ جب ايران كے حالات كچھ اچھے نہ تھے_

اكبر كى مانند جہانگير اور شاہ جہاں كے بھى صفويوں كے ساتھ روابط ميں قندھار كا مسئلہ موجود رہا _مجموعى طور پر بابر كے زمانہ سے ليكر بعد تك قندھار دونوں حكومتوں كے مابين ادھر اُدھرمنتقل ہوتا رہا_ ليكن دونوں حكومتوں كے صبر وحوصلہ كى بناء پر اس مسئلہ سے خصومت نہيں بڑھى كيونكہ جب ايك حكومت قندھار پر قابض

____________________

۱) ش، ف ، دولافوز تاريخ ہند، ترجمہ محمد تقى فخرداعي، گيلانى ، تہران كميسيون معارف ص ۱۶۱_

۲) رياض الاسلام ، تاريخ روابط ايران وہند ، اميركبير ص ۲_۲۷۱ _

۲۴۰

ہوجاتى تو دوسرى طرف كا عارضى سكوت دونوں حكومتوں كے باہمى ر وابط كا موجب رہا _(۱) دونوں حكومتوں كے تدريجى زوال كے ساتھ ساتھ يہ روابط بھى بے اعتنائي اور سستى كا شكار ہوگئے_

مغلوں كے يورپى حكومتوں سے تعلقات

يورپى لوگ سن ۱۴۹۸ عيسوى ميں واسكوڈ گاما(۲) كے دريائي سفر كے ذريعہ پہلى مرتبہ سرزمين ہند سے واقف ہوئے _ ۱۵۰۰ عيسوى ميں پرتگاليوں نے كالى كوٹ كے ساحلوں پر قدم ركھا_ كچھ عرصہ كے بعد مسلمان تاجرجوكہ پرتگاليوں كے آنے سے ناراض تھے انہوں نے پرتگاليوں كو كو چين(۳) كے علاقے كى طرف دھكيل ديا_ ۱۵۰۹ عيسوى سے ۱۵۱۵ عيسوى تك پرتگاليوں نے گوابندرگاہ پر قبضہ جماتے ہوئے استعمار كا پہلا ستون كھڑا كيا(۴) _

يہ لوگ اكبر بادشاہ كے آخرى دور تك ہندوستان كى بيرونى تجارت كو اپنے كنٹرول ميں ليے ہوئے تھے _ روئي اور ہندوستانى مصالحوں جيسى اجناس يورپى حكومتوں كو درآمد كرتے تھے_ جلال الدين اكبر سال ۱۵۸۰ عيسوى ميں دوپرتگاليوں پادريوں سے ملاقات كے دوران عيسائي دين سے واقف ہوا_(۵)

۱۶۰۰ عيسوى ميں انگريزوں نے سرزمين مشرق سے تجارت ميں زيادہ منافع اور فوائد كے حصول كے پيش نظرايسٹ انڈيا كمپنى كى بنياد ركھى _ ۱۶۰۸ عيسوى ميں اس كمپنى كا پہلا وفد ويليم ہاكنز كى سربراہى ميں دربار جہانگير ميں حاضر ہوا اس ملاقات ميں ہا كنز نے انگلينڈ كے بادشاہ جيمز اول كا خط بادشاہ كى خدمت ميں پيش كيا_(۶)

____________________

۱) عبدالرضا ہوشنگ مہدوي، تاريخ روابط خارجى ايران، امير كبير ص ۹۸_

۲- Vasco du gama

۳- Cochin

۴) احمد مير فندرسكى _ پيدايش وسقوط امپراتورى مستعمراتى پرتغال در ہند_ تہران ص ۲۱_

۵) برايان گاردنر، كمپانى ہند شرقي_ ترجمہ كامل حلمى ومنوچھر ہدايتى ص ۳۱_

۶) احمد محمد الساداتى _ تاريخ المسلمين فى شبہ القارہ الہند و باكستانيہ وحضارتہم ،مكتبہ نہضة الشرق، جامعہ القاہرة، ص ۳۶۵_

۲۴۱

جہانگير كى طرف سے انگريزوں كے وفد كا پرتباك استقبال ہوا _ يہاں تك كہ جہانگير نے انگريز سفير كو چارسو فوجى سواروں كى كمانڈ كے عہدہ كى پيش كش كى _ كچھ عرصہ بعد ہاكنز سورت بندرگاہ كى طرف لوٹ گيا_ يوں ايسٹ انڈيا كمپنى كے ذريعہ انگريزوں كا مغلوں سے پہلا رابطہ ہوا _

سن ۱۶۱۲ عيسوى ميں جہانگير كى حكومت ميں انگريز فوج نے ہالينڈ كى فوج كے ہمراہ بحيرہ ہند ميں پرتگاليوں كو سخت شكست دي_ اس شكست سے جہانگير بہت زيادہ خوش تھا _ مسلمان حاجيوں كوہميشہ پرتگاليوں كى طرف سے حملوں اور لوٹ مار كا سامنا تھا_ اس شكست سے مسلمان حاجى كافى حد تك پرتگاليوں كے حملوں سے آسودہ ہوگئے_ اس واقعہ كے بعد انگريز وفد كى درخواست كے پيش نظر جہانگير نے ايسٹ انڈيا كمپنى كو ہندوستان ميں فعاليت كى اجازت دي_ يوں مغلوں نے انگريزوں كے تعاون كے ساتھ پرتگاليوں پر غلبہ پاليا اور انہيں ہندوستان كے ساحلوں سے دور دھكيل ديا _(۱)

شاہجہاں كے دور ميں بھى پرتگاليوں كے ساتھ جنگ اور انگريزوں سے دوستى كى پاليسى جارى رہى _ ۱۶۲۲ عيسوى ميں شاہجہاں نے پرتگاليوں سے نمٹنے كے لئے ہگلى كے علاقوں ميں فوجى دستے بھيجے ان فوجى دستوں نے انگريزوں كے تعاون سے پرتگاليوں كو شكست دى اور انہيں غلام كے طور پر بازاروں ميں بھيجا گيا يہ قدم پرتگاليوں كے اقدامات كے جواب ميں اٹھايا گيا تھا_(۲)

اورنگ زيب كے دور ميں اسكے عقائد كى بناء پر انگريزوں سے نزاع پيدا ہوا اس نے بنگال ميں انگريزوں سے جنگ كى اور اس جنگ كے بعد سورت كى بندرگاہ كو انگريزوں كے قبضہ سے چھڑاليا _ ليكن دريائي راستوں سے حاجيوں كے قافلوں كى حفاظت و مدد كے پيش نظر اس نے انگريزوں سے صلح كى اور سورت كى بندرگاہ ان كے سپرد كى _ اورنگ زيب كے آخرى دور ميں انگريزوں نے چند علاقوں مثلاً مدراس، بمبئي ' كلكتہ ميں بہت سے مراكز قائم كرليے_(۳)

____________________

۱) برايان گاردنر ،سابقہ حوالہ ص ۵۸_

۲) ش، ف ، دولافوز،سابقہ حوالہ ص ۱۵۸_

۳) برايان گاردنر ، سابقہ حوالہ ص ۹۵_

۲۴۲

۱۷۰۷ عيسوى ميں اورنگ زيب نے وفات پائي_ اب بحر ہند ميں پرتگاليوں كى جگہ مكمل طور پر انگريزوں نے سنبھال لى _ فرانسيسوں نے ۱۶۴۴ عيسوى ميں كلبرٹ كى مدد سے فرانسيسى ايسٹ انڈيا كمپنى كى بنياد ركھي_ دوسال كے بعد فرانس حكومت نے بيجاپور كے علاقے ميں تجارت خانہ قائم كيا اور ''پونڈوشري'' نام كا ايك شہر بنايا _ نيز انہوں نے سال ۱۶۸۸ عيسوى ميں بنگال اور چندرنگر ميں اپنے تجارتى مراكز قائم كيے_(۱)

مغلوں كا اداراتى اور سياسى نظام

مغليہ نظام حكومت ميں بادشاہ حكومت كے تمام شعبوں پر مكمل تسلط ركھتا تھا اور پورے نظام كا سربراہ تھا _ سلطان كوبيشتر شاہ كے عنوان سے ياد كيا جاتا تھا_ جيسے جيسے بادشاہ كا اقتدار مستحكم ہوتا جاتا اسكى تمام امور ميں دخالت بڑھتى جاتى تھى جيسا كہ جلال الدين اكبر كے دور ميں تھا اس نے حكومت و رعايا كے تمام امور ميں اپنى رائے كو رعايا اور درباريوں پر مسلط كيا _

بادشاہ كے بعد مختلف ديوان تھے كہ ان سب ميں اہم ترين ديوان اعلى تھا جس كا فرض تھا كہ بادشاہ كى آمدنى اور املاك (خالصات) پر نگرانى كرے _ اس ديوان كا سربراہ وكيل (وزير) ہوتا تھا_ اس كے بعد ديوان بخشى تھا كہ جسكا سربراہ مير بخشى ہوتا تھا كہ اس ديوان كى ذمہ دارى پورى مملكت ميں حكومتى امور كاتحفظ تھا_ ''صدر الصدور''كى سربراہى ميں ديوان انصاف سياسى امور ، جرمانوں اور ديگر عدالتى امور ميں فعاليت كرتا تھا_(۲)

اكبر كے دور ميں حكومت كا نظام مكمل صورت ميں سامنے آيا_ اس نے حكومت كو بہت سے صوبہ ميں تقسيم كيا _ ہر صبوبے دار كے ساتھ صدر اور بخشى كا عہدہ بھى موجود ہوتا تھا_ اسى طرح ہر صوبہ چند''سركار' ' (ضلعوں ) ميں تقسيم ہوتا تھا_

____________________

۱) ش، ف ، دولافوز ، سابقہ حوالہ ص ۱۹۳_

۲) Raj ، Kumar ، Surrey ، of Medival India New Delhi ۱۹۹۹ Vol ۱۱ P.۱۵۱

۲۴۳

اس دور ميں فوجى عہدے ''منصب'' كے عنوان سے جانے جاتے تھے_ مثلاً منصب پنج ہزاري، سہ ہزارى ، چہار ہزارى ، يہ فوجى عہدے چونكہ بادشاہ كے احكامات مثلاً ٹيكسوں كو وصول كرنا اور جنگ كے لئے افراد مہيا كرنا وعيرہ _ بجالاتے تھے اكثر وبيشتر بادشاہ سے املاك و زمينيں وصول كرتے تھے كہ اس قسم كى املاك كو 'جاگير'' كا عنوان ديا جاتا تھا_ البتہ جاگيروں كا ملنا فوجيوں كے ساتھ خاص نہ تھا بلكہ امراء طبقہ حتى كہ علماء بھى ان سے بہرہ مند تھے_

فارسى ادبيات

جرمنى كى مشہور اسلام شناس اسكالر شيمل كے بقول مغلوں كا دور ہندوستان ميں فارسى ادبيات كے عروج كا دور ہے(۱) كيونكہ شاعروں كى كثرت اور نئے و منفرد موضوعات اور مضامين كى فراوانى اسقدر زيادہ تھى كہ ايرانى فارسى زبان لوگ مغلوں كے دربار سے وابستہ ہوئے تاكہ انكى اس نعمت كے عظیم دسترخوان سے بہرہ مند ہوسكيں _

۹۹۰ قمرى ميں اكبر بادشاہ كے دور حكومت ميں فارسى زبان حكومت كى سركارى زبان قرار پائي_ يہ بادشاہ فارسى ادبيات اور ثقافت كو خاص اہميت ديتا تھا _ آج كى اصطلاح كے مطابق اس نے ايك دارالترجمہ كى بنياد ركھى تاكہ سنسكرت اور ہندى كى قديم كتابوں كا فارسى زبان ميں ترجمہ ہو_ شايد اس دور ميں فارسى اشعار كے مطالب ومضامين ميں جدت اور وسعت كى ايك وجہ شعرا حضرات كا ہندى ادبيات سے آشنائي اور قربت ركھنا ہو(۲)

اس دور ميں معروف شعراء كے بہت سے ديوان سامنے آئے_ ايرانى شاعروں كى ہندوستان كى طرف

____________________

۱) آن مارى شيمل ، ادبيات اسلامى ہند، ترجمہ يعقوب آند، امير كبير ، ۱۳۷۳ ص ۳۸ ، ۳۷_

۲) محمد فتوحي، نقد خيال، نقد ادبى در سبك ہندى ، تہران روزگار ۱۳۷۱ ، ص ۷۳_

۲۴۴

ہجرت اور امراء و اشراف طبقہ كى شاعروں كو اہميت دينا باعث بنا كہ اكبر بادشاہ كے دور ميں فيض دكني، غزالى مشہدى اور عرفى شيرازى جيسے شعراء ظاہر ہوئے _ ايرانى شاعروں كى يہ ہجرت جہانگير اور شاہ جہاں كے دور ميں بھى جارى رہى _ جہانگير كے دور ميں طالب آملى (سال ۱۰۳۶ قمرى ) ايك مشہور ترين شاعر تھے كہ جنہيں ملك الشعرائے دربار كا اعزاز حاصل تھا_

اسى طرح صائب تبريزى ( سال ۱۰۸۱ قمري) ہندى سبك ميں ايك مشہور ترين شاعر تھے جو شاہ جہان كے ہاں خصوصى مقام كے حامل تھے، كہ اورنگ زيب كے بادشاہ بننے سے زبان فارسى اور اس كے ساتھ شعراء كى رسمى حمايت كم ہوتى گئي _ ليكن ايك اور مشہور شاعر بيدل دہلوى (۱۰۵۴ _ ۱۱۳۳ قمري) اسى دور ميں ظاہر ہوئے جنكے اشعار فارسى ميں ہندى سبك كے عروج كى حكايت كرتے ہيں _

اسى طرح اس دور كے ديگر شعراء ميں غالب دھلوي_ شيدا فتحپورى اور حزين لاہيجى ہيں _ مغليہ عہد ميں مصنفين اور منشى حضرات نے بہت سى ادبى اور تاريخى كتب كو لباس تحرير پہنايا _ دنيا كى تاريخ ، عمومى تاريخ اور خاص سلسلوں كى تاريخ كے حوالے سے بہت سى كتابيں تاليف و تصنيف ہوئيں اس دور ميں ہندى كتابوں كا فارسى زبان ميں ترجمہ كافى پر رونق تھا_ مثلاً رامائن ، مہا بھارت ( جنگ نامہ ) اور اور اوپانشاد كا سنسكرت سے فارسى زبان ميں ترجمہ اسى دور كے ترجمہ كى مثالوں ميں سے ہے _(۱)

مسلمان عرفا اور انكى ہندوستان ميں خدمات

دينى مبلغين ميں صوفيا اور عرفا كرام نے مسلمان سپاہيوں اور تجار كى صورت ميں فاتحين كے ہمراہ اپنى خاص طريقت و منش كى بناء پر بہت سے ہندوستانيوں كو دائرہ اسلام ميں داخل كيا_

____________________

۱) دانشنامہ جہان اسلام ، ج ۱ ص ۷۴ _۷۳ ذيل ''بابريان '' ادبيات (منيب الرحمان)_

۲۴۵

انہوں نے غزنوى دور كے بعد دور دراز كے علاقوں ميں مثلاً ہندوستان كے شمال ميں ايسا مقام اور حلقہ اثر بناليا تھا كہ وقت كے سلاطين اور امراء بھى انكا احترام كرنے ميں مجبور ہوتے تھے_ مثلاً شيخ بھاء الدين زكريا كے دور ميں شہر ملتان برصغير كے مسلمانوں كا مركز تھا_(۱)

ہندوستان كے عرفان اور تصوف كے حوالے سے ايك قابل غور نكتہ يہ ہے كہ فارسى زبان عرفان وتصوف اكھٹے ہمسفر رہے جس قدر فارسى زبان وسعت اختيار كر گئي عرفان و تصوف نے بھى ترقى كى اور اسى طرح فارسى كے زوال كے ساتھ اس نظريہ كا حال بھى ويسا ہى ہوا، مجموعى طور پر برصغير ميں چار صوفى سلسلے ظاہر ہوئے _ چشتيہ _ سہروورديہ ، قادريہ اور نقشبنديہ_(۲)

ان سلسلوں كے اولياء اور اقطاب كے مقبرے لوگوں ميں احترام كے حامل تھے آج بھى ہر سال عرس كے ايام يعنى انكى وفات كے دن ہزاروں لوگ ان اولياء كے مزاروں پر اكھٹے ہوتے ہيں اور خاص انداز سے مراسم بجالاتے ہيں _ يہ چاروں سلسلے اپنا نسب حضرت على _كى ذات مبارك سے ملاتے ہيں _

سہرورديہ :جيسا كہ نام سے معلوم ہے كہ يہ سلسلہ شيخ شہاب الدين سہروردى سے منسوب ہے _ شيخ بہاء الدين زكريا ملتانى (متوفى ۶۶۶ قمري) كى سعى وكوشش سے برصغير ميں يہ سلسلہ پھيلا بالخصوص بنگالى علاقوں ميں اس سلسلہ كا بہت بڑا حلقہ اثر ہے _ ہندوستان ميں اس سلسلہ كے مشہور اقطاب ميں سے معروف ايرانى شاعر فخرالدين عراقى قابل ذكر ہيں كہ جو شيخ زكريا كے داماد تھے_

قادريہ:اس سلسلہ كے بانى عبدالقادر گيلانى (متوفى ۵۶۱ہجرى قمري) تھے_ ہندوستان ميں ا س سلسلہ كے سب سے پہلے خليفہ صفى الدين صوفى گيلانى تھے اور اس سلسلہ كے سب سے اہم خليفہ آٹھويں خليفہ ابوعبداللہ محمود غوث گيلانى تھے كہ جو (۹۲۳ ہجرى قمرى )ميں ظہيرالدين بابر كے دور ميں شہر لاہور ميں فوت ہوئے_

____________________

۱) عباس رضوى اطہر ، تاريخ تصوف در ہند ،ترجمہ منصور معتمدى ، تہران ۱۳۸۰ _ ج ۱ ص ۱۳۵_

۲) غلامعلى آريا، طريقہ چشتيہ در ہند وپاكستان ، تہران ، زوار ص ۹۱_ ۶۰_

۲۴۶

نقشبنديہ :اس سلسلہ كے بانى خواجہ بہاء الدين نقشبند( ۷۹۱_۷۱۸ہجرى قمري) تھے_ ہندوستان ميں بابر كے دور ميں خواجہ محمد باقى عبداللہ (متوفى ۱۰۱۲ قمري) كے ذريعے اس سلسلے كى بنياد ركھى گئي _ اس سلسلہ كے سب سے اہم ترين خليفہ شيخ احمد سرہندى تھے كہ جو ''الف ثاني'' كے لقب سے معروف ہوئے_

چشتيہ: صوفيا كا سب سے قديمى سلسلہ ہے _ اس سلسلہ كى وجہ تسميہ ہندوستان ميں اس سلسلہ كے بانى خواجہ معين الدين كا ہرات كے قريب ايك بستى چشت سے تعلق تھا_ اس سلسلہ كے اہم ترين خلفاء ميں خواجہ حسن بصري، فضيل عياض ، ابراہيم ادھم اور ابوالاسحاق شامى قابل ذكر ہيں _(۱)

خواجہ معين الدين سنہ ۵۳۷ قمرى ميں پيدا ہوئے _ انہوں نے سلسلہ چشتيہ كے مشايخ كے حضور زانوے تلمذتہيہ كيا ، علم و معرفت حاصل كى اور خرقہ خلافت حاصل كرنے كے بعد بغداد ميں نجم الدين كبرى كى زيارت كےلئے تشريف لے گئے _ اصفہان ميں قطب الدين بختيار كاكى سے آشنائي ہوئي اور قطب الدين خواجہ معين الدين كے مريد بن گئے اور خواجہ كے ہمراہ ہندوستان كى طرف سفر كيا اور بعد ميں ہندوستان كے مشہور عرفاء ميں سے قرار پائے_(۲)

خواجہ معين الدين لاہور ميں سكونت پذير ہوئے _ ان كے مشہور خلفاء ميں سے قطب الدين بختيار، حميد الدين ناگوري، شيخ سليم چشتى ، نظام الدين اولياء اورامير خسرو دہلوى قابل ذكر ہيں _

مغليہ حكومت كے ہاں خصوصاً مشايخ كا احترام اور عظمت اسقدر زيادہ تھى كہ اكبر بادشاہ ہر سال خواجہ معين الدين كے مزار كى طرف پيدل جاتا تھا اور اس نے اپنے بيٹے كا نام بھى سليم ركھا كہ جسے بعد ميں جہانگير كا لقب ملا_ اور ہر سال خواجہ كے احترام كے پيش نظر انكے زائرين كو بہت سے تحائف سے نوازتا(۳)

____________________

۱) سابقہ حوالہ ،ص ۷۴_۶۹_

۲) عباس رضوى ،سابقہ حوالہ ،ص ۱۵۲_ ۱۴۱_

۳) دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۱۱ ذيل بختيار كاكى _ (غلامعلى آريا)_

۲۴۷

خواجہ معين الدين كے مشہور ترين خليفوں ميں سے ايك خواجہ نظام الدين اولياء تھے وہ شہر ''بدايون'' ميں پيدا ہوئے انكے مريد حسن دھلوى كى كوشش سے انكے كلمات كتاب ''فوايد الفوائد'' ميں جمع كيے گئے وہ سال ۶۶۳ قمرى مےں انتقال فرماگئے_ انكے عرس كى تقريبات ميں شركت كرنے كيلئے پورے ہندوستان سے لوگ دہلى ميں جمع ہوتے ہيں(۱) ہندوستان اور اسلام كے ديگر مشہور عارف على بن عثمان ہجويرى ہيں كہ جنہيں داتا گنج بخش (داتا يعنى استاد) كا مشہور لقب ملا_(۲)

ہجويرى كو غزنہ كے گرد نواح ميں ہجوير علاقے كى طرف نسبت دى گئي ہے _ انہوں نے طريقت و عرفان ميں سب سے پہلى فارسى كتاب ''كشف المحجوب'' كو تحرير كيا _ اندازہ يہ ہے كہ آپ سال ۴۵۰ سے ۴۶۵ كے درميان ميں فوت ہوئے ہيں اور لاہور ميں دفن ہوئے_(۳)

اس سلسلہ كى مشہور ترين شخصيت اور عظيم شاعر امير خسرو دہلوى تھے كہ شاعر ہونے كے ساتھ ساتھ ايك كامل عارف بھى تھے_ امير خسرو شعر ميں شہاب الدين محمود بدايونى كے شاگرد تھے_ اور تركى ، فارسى اور ہندى زبان پر عبور ركھتے تھے _ نيز موسيقى ميں بھى استاد تھے _ مثنوى كہنے ميں نظامى كے تابع اور غزل ميں سعدى كے مريد تھے_ وہ حقيقت ميں برصغير كے سب سے بڑے فارسى زبان كے شاعر شمار ہوتے تھے_ انكى تاليفات مندرجہ ذيل ہيں :

۱_ ديوان

۲_ خمسہ كہ جسميں مطلع الانوار ، شيرين و خسرو ، مجنون و ليلى ، آئينہ اسكندرى اور ہشت بہشت شامل ہيں _

۳ _ تاريخى حماسے مثلاً قران السعدين اور مفتاح الفتوح_(۴)

____________________

۱) غلام على آريا،سابقہ حوالہ ،ص ۵۵_

۲) عبدالحسين زرين كوب ، جستجو در تصوف ايران ، امير كبير ،ج ۳ ،ص ۷۱_

۳) على بن عثمان ہجويرى ، كشف المحجوب ، وكوفسكى كى سعى سے_ تہران ج ۲ ص ۱۹_۱۸_

۴) دانشنامہ ادب فارسي، زير نظر حسن انوشہ ، ج ۴،بخش اول ص ۲۷۳ ذيل امير خسرو دہلوي_

۲۴۸

ہندوستان كے اسلامى ہنر و فنون

بنيادى طور پر برصغير ميں اسلامى فن پارے وہاں كے مقامى ہنر و فنون سے مختلف تھے _ ليكن مختلف اقسام كے اساليب ميں مقامى ہنر سے ربط پيدا كرليا تھا_جغرافيائي اور قومى اعتبارى سے مشترك ہونا اور وہاں كا خام مواد اور مقامى ہندى اساتذہ كى راہنمائي باعث بنى كہ عالم اسلام ميں مسلمانوں كے ہندوستانى طر ز وسبك كے فن پارے بھى سامنے آئے _ا لبتہ برصغير ميں خالص اسلامى فنون كے بارے ميں گفتگو خاص اہميت كى حامل نہيں ہے_

ان فنون ميں سے ايك معمارى ہے كہ جو مغليہ عہد ميں اپنے عروج كو پہنچى _ معمارى ايك اسلامى ہنر ہونے كے ناطے سے خاص خصوصيات كى حامل ہے اسى بناء پر اسلامى معمارى ايك ہنر ہونے كے ناطے تمام اسلامى مناطق كے فن معمارى سے مشابہت ركھتى ہے_

بنيادى طور پر برصغير چند مختلف مراحل كا حامل ہے:

۱) ابتدائي فاتحين كا دور

۲) غزنويوں سے مغلوں تك كا دور

۳) مغليہ دور

مغليہ حكام ايك نئے سلسلہ حكومت كے ناطے اپنے تعارف اور شہرت كى ضرورت محسوس كرتے تھے _ اور چونكہ وسيع و عريض سرزمينوں پر سكونت پذير گوناگوں تہذيبوں اور عقائد كے لوگوں پر حاكم تھے، اس ليے اپنى خودنمائي كيلئے معمارى كو ايك بہترين ذريعہ سمجھتے تھے_ يہ حكام چاہتے تھے كہ عظيم الشان عمارتيں بناكر لوگوں ميں اپنا مقام ومنزلت اور شہرت كو بڑھائيں _(۱)

____________________

۱) اباكخ، معمارى ہند، ترجمہ حسين سلطان زادہ، تہران ، دفتر پوہشان فرہنگى _ ص ۱۴_ ۱۲_

۲۴۹

مصورين كے برعكس اس دور كے معمار بہت كم اپنا نام ذكر كرتے تھے ہم سوائے چند افراد كے اس دور كے ديگر معماروں سے بے خبر ہيں _مجموعى طور پر اس دور كى معمارى كى خصوصيت يہ ہے كہ يہ سب عمارتيں بادشاہوں اور امرا كے حكم سے بنائي جاتى تھيں كہ بعد ميں انكے ارد گرد ديگر حكام كى طرف سے نئي چيزوں كا اضافہ ہوتا رہتا _ اس دور كى طرز معمارى بہت آہستگى سے تبديل ہوئي جيسا كہ مغليہ عہد كى ابتدائي معمارى بے روح تھى كہ جو بعد ميں آہستہ آہستہ دلكش اور زيبا ہوتى چلى گئي _

جلال الدين اكبر كے دور ميں دہلى ميں ہمايوں كا مقبرہ بنايا گيا جسے مغليہ عہد كى معمارى كے ممتاز نمونہ كے عنوان سے مشاہدہ كيا جاسكتا ہے _ يہ عمارت سال ۹۷۰ قمرى سے ۹۷۸ تك كے درميانى عرصہ ميں بنائي گئي_ اس كے معمار سيد محمد اور اس كے والد مير ك سيد غياث نام كے افراد تھے_ مسجد فتح پور سيكرى نيز مغليہ عہد كى ابتدائي معمارى كا ايك اور نمونہ ہے _بعد كے ادوار ميں مثلاً جہانگير اور شاہ جہاں كے زمانہ ميں فن معمارى مستحكم انداز سے مختلف اسا ليب كے ساتھ ترقى كے زينے طے كرتا رہا_ جہانگير كے ايرانى وزير عبدالرحيم خان خانان كے حكم سے مشہور باغ ''شاليمار باغ'' بنايا گيا _ اس وزير كے بارے ميں شہرت تھى كہ اس نے ہندوستان كو ايران بناديا ہے_

فن معمارى كا ايك اور عظیم الشان فن پارہ تاج محل ہے كہ جو شاہ جہان كے زمانہ ميں مغليہ عہد كے فن معمارى كے عروج كى عكاسى كررہا ہے _ شاہ جہان نے يہ تاج محل اپنى ايرانى ملكہ ارجمند بانو بيگم كيلئے تيار كروايا تھا _ اس كے چار مينار اور ايك پيازى شكل كا گنبد ہے اس كے اردگرد خوبصورت باغات ، بازار اور كاروانسرائيں تھيں كہ جنكى درآمد اس مقبرہ كے امور پر خرچ ہوتى تھى ،سب چيزيں بالخصوص خوبصورت و زيبا باغات شايد''جنت ميں باغات'' كے اسلامى نظريہ كى حكايت وعكاسى ہے(۱) تاج محل تيار ہونے ميں بائيس سال لگے بقول ويل ڈيورينٹ صرف اس مقبرے كا موازنہ ويٹى كن كے معروف كليسا سن پيٹرو سے(۲) كيا

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۹۸_

۲) ويل ڈيورينٹ، مشرق زمين (كا حوارہ تمدن) ترجمہ احمد آرام و ديگران ، تہران ج ۱ ص ۶۸۵_

۲۵۰

جاسكتاہےمغليہ عہد كى معمارى كے بارے ميں آخرى نكتہ يہ ہے كہ در اصل مغليہ عہد كى معمارى ايرانى ، مركزى ايشيا اورہندوستانى نمونوں كا با مہارت آميزہ ہے كہ جسميں مغليہ عہد كے آخرى دور ميں يورپى اسلوب كى بھى آميزش ہوئي كہ جسكى بناء اس فن معمارى نے عالمى سطح كے مقبول فن پاروں كو تشكيل ديا _

فن مصورى :

معمارى كى طرح فن مصورى بھى ابتداء ميں دو آرٹ ايرانى ( تيموري) اور ہندى كا آميزہ تھا_ نيز عہد مغليہ ميں معمارى كى مانند فن مصورى نے بھى آغاز ميں حكومتى دربار ميں ترقى كى گويا فن مصورى كا آغاز دربار سے ہوا اور مصوروں كے سب سے پہلے حامى حاكم وسلاطين تھے_

تاريخى ماخذات كى رو سے ظہير الدين بابر ايك ہنرمند اور ہنر دوست شخص تھا_ اسكا كائنات كى قدرتى خوبصورتيوں اور شكار كى طرف بہت زيادہ ميلان باعث بنا كہ اس قسم كى پينٹنگ اور تصويروں كى طرف مائل ہو_ بابر كے دور كى فقط ايك پينٹنگ كہ جو برلن كے حكومتى ميوزيم ميں موجود ہے ، اس قسم كے رجحان كى عكاسى كررہى ہے_ نيز وہ بخارا كے آرٹ اور استاد بہزاد كے فن مصورى كے اثرات كى حكايت بھى كر رہى ہے_(۱)

ہمايوں كے دور ميں اس كى چند سالہ ايران ميں اقامت اور اس كے دربار ميں مير سيد على ، عبدالصمد شيرازى اور فرخ بيگ قلماق جيسے ايرانى مصورين كى موجود گى سے درحقيقت مغليہ مصورى اور آرٹ كى بنياد ركھى گئي(۲) _اسى دورميں امير حمزہ كى تصويرى داستان پر كام شروع ہوا كہ جو جلال الدين اكبر كے دور تك جارى رہا _ يہ تصويرى كام بارہ جلدوں اور چار ہزار صفحات كے مجموعہ كى شكل ميں سامنے آيا _ بظاہر يہ صفوى دور كے خمسہ نظامى كى تقليد ميں كيا گيا _

____________________

۱) م، س _ ڈيمانڈ، راہنماى صنايع اسلامى ، ترجمہ عبداللہ فريار،تہران ،ص ۶۹ _

۲) كريتين پرايس ،تاريخ ہنراسلامى ، ترجمہ مسعود رجب نيا _ ص ۱۷۵_ ۱۷۳_

۲۵۱

ہم اكبر كے دور ميں دوبارہ عہد مغليہ كے مصورى كے ابتدائي اساليب اور تصويرى موضوعات كو پلٹتا ہوا ديكھتے ہيں ،اكبر نے نئے شہر فتح پور ميں فن مصورى كا حكومتى سكول بنايا كہ جسميں ايرانى اساتذہ كے تحت سو سے زيادہ اہل فن حضرات كام كيا كرتے تھے(۱) _ فن مصورى كے ماہرين كى جب حكومت سے سرپرستى ہوئي تو بتدريج انكى پينٹنگز اور تصويروں كى روش ميں تبديلى رونما ہوئي اور آہستہ آہستہ اس فن كاموضوع مختلف طريقوں اور رنگوں سے امراء اور دربار سے متعلقہ خواتين كى صورتوں كو نقش كرنا ہوگيا تھا_ اكبر كے دور كے مصورين ميں سے بساوان(۲) _ بشن داس(۳) اور عبدالصمد(۴) قابل ذكر ہيں _

جہانگير كے دور ميں بھى يہى روش جارى رہي_ ليكن معمارى كى طرح فن مصورى كا عروج بھى شاہ جہاں كے دور ميں ہوا ، منفرد رنگوں كا استعمال ، ماڈل تيار كرنا اور اصل مناظر كى مانند سايہ بنانے كے كام كا بہت رواج ہوا _ دربار اور حكومتى محافل كى مجلل زندگى كو بہترين شكل و صورت كے ساتھ نماياں كيا گيا جيسا كہ نيويارك كے ''ميڑوپولٹين'' ميوزيم ميں شاہ جہاں كى تمام شاہانہ شكوہ و جلال كے ساتھ تخت طاووس، پر متمكن اور گھوڑے پر سوار تصوير سے مشاہدہ كيا جاسكتا ہے _ مشہور تين مصور ابوالحسن ، ميرہاشم اور محمد نادر ثمرقندى تھے كہ جنہوں نے فن شبيہ نگارى ميں كمال كى حد تك تصوير كشى كى _(۵)

فن مصورى پر بعد كے ادوار ميں بالخصوص اورنگ زيب كے دور ميں زيادہ توجہ نہ دى گئي _ مغليہ عہد كے آخرى دور كى تصويريں دراصل گذشتہ رسم وروش كے مطابق ہيں ان ميں گذشتہ دور كى مانند جدت وانفراديت كا وجود نہيں ہے _ آخر ميں كہا جاسكتا ہے كہ اس دور كے باقى ماندہ آثار كا مشاہدہ بتاتا ہے كہ يہ تصويريں صرف

____________________

۱) م ، س ڈيمانڈ،سابقہ حوالہ ص ۷۱_

۲- Basawan

۳- Bishendas

۴) سابقہ حوالہ ص ۷۲_

۵) تارچند، تاثير اسلام در فرہنگ ہند ، ترجمہ على سپرنيا ، عزالدين عثماني، تہران ص ۳۳۱

۲۵۲

ايرانى اور مركزى ايشيا كے اسلوب وآرٹ كا آميزہ نہ تھيں بلكہ پرانى روشوں كى ترقى كے ساتھ ساتھ اہل فن نے ہندوستانى جديد عناصر سے بھى الہام ليا اور ايك نئے اور خاص اسلوب كى بنياد ركھي_ اگرچہ مسلمانوں (ترك وايراني) كى طاقت كے غلبہ كے پيش نظر ہندوستانى عناصر و رواج وسيع پيمانے پر اس آرٹ كو متاثر نہ كرسكے_(۱)

مغليہ سلاطين كے پسنديدہ فنون ميں سے ايك رسم الخط اور خوشنويسى بھى تھا_ حاكموں كے مذہبى عقائد كى بناء پر پسنديدگى و توجہ ہميشہ اونچ نيچ كا شكار رہى _ بابر نے قرآن كو خوبصورت خط ميں لكھا اور كعبہ كو ہديہ كيا_ ہمايوں كے دور ميں ايرانى اساتذہ مثلاً خواجہ احمد مؤتمن قزوينى اور مير قاسم كى وجہ سے نسخ نويسى كا بہت زيادہ رواج ہوا_ شاہ جہان كے دور ميں مير عمار حسينى كے قتل كے بعد اسكے شاگرد آقا عبدالرشيد ، سيد على تبريزى اور خواجہ عبدالباقى نے شاہ جہان كے ہنر پرور دبار سے ''جواہر قلم'' اور ''ياقوت رقم ''جيسے القابات حاصل كيے اور يہ سلسلہ اورنگ زيب كے آخرى دور تك جارى رہا _ وہ اپنے مذہبى عقائد اور رسم الخط اور خوشنويسى كى استعداد كى بناء پر خوشنويس حضرات كا بہت زيادہ حامى تھا اس فن كے عروج كا دور بھى يہى ہے_(۲)

مغليہ دور كے ديگر فنون ميں سے قالين بننے اوركپڑا بننے كافن بھى تھا_ اس دور ميں قالين بنانے كى صنعت بھى مصورى كى مانند ايرانى رنگ و روپ ركھتى تھي_ آگرہ ، فتح پور اورلاہور ميں قالين بننے كے كارخانے موجود تھے كہ جہاں ايرانى شہروں كاشان، اصفہان، كرمان اور سبزوار كے اساتذہ كے ماتحت قالين بننے كا كام كيا جاتا تھا_ ايرانى پھولوں والے قالين يہاں آئڈيل قالين سمجھے جاتے تھے_ ان قالينوں ميں سرخى مائل كليجى اور مالٹاى رنگ كا بہت زيادہ استعمال تھا_جے پور كے مہاراجہ كے قالينوں كا مجموعہ كہ جسے قالى اصفہان ہندى كانام دياگيا تھا اسى طرز كا تھا_

____________________

۱) سوامى آناند ، گومارا، مقدمہ اى بر ہنرمند ، ترجمہ امير حسين ذكر گو ، تہران ، ص ۱۸۳_

۲) على اصغر حكمت ، سرزمين ہند، انشتارات دانشگاہ تہران ، ص ۸_ ۱۲۶_

۲۵۳

واشنگٹن كے قومى گيلرى اور مٹروپولٹين كے ميوزيم ميں موجود قالينوں كا مجموعہ شاہ جہاں كے دور كے خاص اسلوب كى عكاسى كر رہا ہے كہ جو ابھى تك يادگار رہ گئے ہيں ،بہرحال فنى طور پر اس فن كا عروج شاہ جہاں كے دور ميں تھا كيونكہ ہندوستانى قالين باف ايرانى اساتذہ سے بھى بہتر اور آگے بڑھ چكے تھے_ اس بات كى تائيد ان قالينوں ميں بہت سى گرہيں ، رنگ كا استعمال اور منفرد و خوبصورت تصاوير كرتى ہيں _(۱)

مغليہ عہد ميں كپڑا بننے كا كام ہندوستانيوں كے اس كام ميں ديرينہ تجربہ كى بناء پر اسى ہندى طرز و اسلوب پر چل رہا تھا_ انواع واقسام كے كپڑے مثلاً ململ ، سوتى اور زرين ريشم كپڑا بننے كے مشہور مراكز مثلاً لاہور ، دكن اور احمد آباد ميں تھے اورخوبصورت ہندى ساڑھياں اور شاليں دنيا كے بہترين ملبوسات تھے كہ جو پورى دنيا ميں بھيجے جاتے تھے_(۲)

____________________

۱) م _ س ، ڈيمانڈ ،سابقہ حوالہ ، ص ۷۵_ ۲۷۴_

۲)سابقہ حوالہ ، ص ۲۵۵_ ۲۵۴_

۲۵۴

نواں باب:

اسلامى تہذيب و تمدن كے جمود اور زوال كے آخرى اسباب

۲۵۵

۱) استعمار قديم و جديد:

استعمار قديم

اسلامى تہذيب و تمدن كے جمود كے بہت سے اسباب وعوامل ميں سے آخرى ''استعمار'' ہے _ اس مختصر سى گفتگو ميں ہمارى كوشش يہى ہے كہ كلمہ استعمار كى مناسب تعريف اور اسكے وجود ميں آنے كے اسباب كا جائزہ ليتے ہوئے اسلامى ممالك كے اسكے تحت آنے كى تاريخ پر بحث كريں اور اسلامى تہذيب وتمدن پر اسكى وجہ سے جواثرات اور نتائج حاصل ہوئے ہيں ، انكاتجزيہ كريں _

استعمار كا مفہوم اور تاريخ

لفظ استعمار كا لغوى معنى آباد كرنا ہے_ ليكن سياسى اصطلاح ميں اس سے مراد كسى گروہ كى دوسرے لوگوں يا كسى اور سرزمين پر حاكميت ہے _ ايك اور تعريف كے مطابق يہ ايك سياسى اور اقتصادى مسئلہ ہے جو سنہ ۱۵۰۰ء سے شروع ہوا ، اسى زمانہ سے بعض يورپى ممالك كے استعمار گر لوگوں نے دنيا ميں وسيع علاقوں كو دريافت كيا ، وہاں سكونت اختيار كى اور وہاں سے فوائد حاصل كيے_ جبكہ بعض اہل نظر كے نزديك استعمار كا مفہوم ان قديم ادوارسے متعلق ہے كہ جب قديم حكومتوں نے كچھ ايسے اقدامات كيے مثلاً مصرى ، يونانى اور پھر رومى حكومتوں نے اپنى سرزمين سے باہر چھاؤنياں يا مراكز قائم كيے كہ جنكا مقصد جنگ ، تجارت اور اپنى تہذيب كا پھلنا پھولنا تھا اور يہ اقدامات استعمار كہلائے_

كيمونسٹوں نے لفظ استعمار كى جگہ اسكے مشابہ لفظ ''امپريالزم '' كو عنوان بحث قرار ديا _ كلمہ امپريالزم در اصل اس حكومتى نظام كو كہا جاتا تھا جس ميں ايك باشكوہ حاكم دور و نزديك كى بہت سارى سرزمينوں پر حكومت

۲۵۶

كرے يا بالفاظ ديگر بادشاہت قائم كرے ليكن بعد ميں طاقتور ممالك كى ديگر ممالك پر ہر قسم كى بلا واسطہ يا بالواسطہ حكومت كو امپرياليزم سے تعبير كياجانے لگا_(۱)

جب دنيا كے نقشے پر بعض طاقتور يورپى ممالك مثلاً انگلينڈ ، فرانس ، پرتگال اوراسپين ظاہر ہوئے اسى زمانہ ميں استعمار بھى وجود ميں آيا ، سنہ ۱۴۸۸ ء ميں جنوبى افريقا كے اردگرد نئے دريائي راستے دريافت ہوئے اور سال ۱۴۹۲ ء ميں براعظم امريكا دريافت ہوا تو استعمارى مقاصد اور نئي سرزمينوں كى دريافت كيلئے دريائي سفر شروع ہوئے ،انہوں نے ابتداء ميں تو سونے ، ہاتھى كے دانتوں اور ديگر قيمتى اشياء كى تلاش ميں سفر كيے ليكن آہستہ آہستہ انكے اقتصادى مقاصد بڑھتے گئے _ مثلاً تجارت ، دريافت شدہ سرزمينوں كى خام معدنيات اور زرعى پيداوار كو يورپى سرزمينوں كى طرف منتقل كرنا اور يورپى مصنوعات كو ان سرزمينوں ميں پہنچاناان سب چيزوں نے انكى استعمارى فعاليت كو بڑھايا _

استعمارگر ممالك بہت جلد اس نكتہ كو سمجھ گئے تھے كہ دراز مدت تك فوائد حاصل كرنے كيلئے ضرورى ہے كہ ان مستعمرہ ممالك يا سرزمينوں كى سياست اور حتى كہ كلچر كو بھى كنٹرول كياجائے اور انہوں نے يہ تجربہ بعض سرزمينوں يا اقوام پر كيا _ مثلاً براعظم امريكا، افريقا اور بحرالكاہل كے جزائر كى اقوام اور اصلى ساكنين ان استعمارى مقاصد كى زد ميں آئے وہ لوگ معاشرتى طور پر استعمارى طاقتوں كى ابتدائي يلغار اور حملوں سے ڈھير ہوگئے _ لہذا يہ تجربہ يہاں بہت آسان ثابت ہوا _

ان سرزمينوں ميں ايسے طاقتور مراكز بنائے گئے كہ جو استعمارى طاقتوں كے كنٹرول ميں تھے_ استعمارى طاقتوں نے ان ممالك ميں علاقائي اداروں اور مراكز كے ساتھ ساتھ ايسے مراكز اور ادارے قائم كيے كہ جنہوں نے تجارتي، معاشرتى اور تہذيبى امور و روابط ميں ايسى جدت پيدا كى كہ جو دراصل استعمارى طاقتوں كے مفادات اور ضروريات كو پورا كرنے كيلئے تھى نہ كہ ان سرزمينوں كے ساكنين كيلئے سودمند تھي_(۲)

____________________

۱) ولفگانگ ج ، مومسن ، نظريہ ہائے امپرياليسم ، ترجمہ سالمى ، تہران ، ص ۱۲_۷_

۲) احمد ساعى ، مسائل سياسى _ اقتصادى جہان سوم ، تہران ص ۷، ۴۶_

۲۵۷

وہ ممالك جو كچھ حد تك اندرونى طور پر استحكام ركھتے تھے اور استعمارى طاقتيں ان پر مكمل كنٹرول نہيں پاسكتى تھيں ، مثلاً ايران اور چين وغيرہ يہاں انكى سياست يہ تھى كہ ان ممالك ميں اپنے مفادات كے تحفظ كيلئے كچھ تبديلياں لائي جائيں مثلاً انكى اقتصادى صورت حال كو ايسے تبديل كياجائے كہ وہ فقط عالمى منڈيوں كى ضروريات پورى كريں نہ كہ اپنے اندرونى منڈيوں كى ضروريات كو ملحوظ خاطر ركھيں _(۱)

استعمار كے وجود ميں آنے كے اسباب

اہل فكر ونظر نے استعمار كے وجود ميں آنے اورپيشرفت كرنے كے اسباب كے حوالے سے متعدد نظريات پيش كيے ہيں _ اور اس مسئلے كا مختلف زاويوں سے تجزيہ كيا ہے:

اہل نظر كے ايك گروہ نے استعمار كو سياسى پہلو سے تحقيق وتجزيہ كا محور قرار ديا اور بتايا كہ سولہويں صدى اور اس كے بعد كے ادوار ميں يورپ كے بڑے طاقتور ممالك ميں سياسى اور فوجى رقابت استعمار كے وجود ميں آنے اور اس كى وسعت كا باعث قرار پائي_ اس نظريے كا محور حكومتيں اور انكے سياسى مقاصد ہيں اوراس نظرى كے حامى بڑى حكومتوں كى ديگر رقيبوں كے مد مقابل اپنى طاقت اور حيثيت كو بڑھانے كى طلب كو استعمار كے پھلنے پھولنے كا اصلى سبب قرار ديتے ہيں _

جبكہ اہل نظر كے ايك اور گروہ كا نظريہ ہے كہ استعمار كے وجود ميں آنے اورپھلنے پھولنے كا بنيادى سبب يہ ہے كہ طاقتور اقوام اور حكومتيں اپنے قومى جذبات اور سياسى اور فوجى صلاحيتوں كو مستحكم كرنے اور محفوظ ركھنے كيلئے وسيع پيمانے پر سرزمينوں پرقابض ہوتى تھيں اور بڑى بڑى بادشاہتوں كو تشكيل ديتى تھيں _ كچھ اہل نظر كے مطابق استعمار دراصل ايك نسلى امتياز كا نتيجہ ہے _ انكے خيال كے مطابق گورے لوگ (يورپي) ذاتى طور پر ديگر اقوام سے برتر ہيں ، انكے كندھوں پر يہ ذمہ دارى ہے كہ دنيا كى ديگر اقوام كے امور كى اصلاح اور انكو مہذب كرنے كيلئے ان پر حكومت كريں _(۲)

____________________

۱) تيلمان اورس، ماہيت دوست درجہان سوم ، ترجمہ بھروز توانمند ، تہران ،ص ۵۱_۲۰_

۲) دلفگانگ ج ، سوسن ، سابقہ حوالہ ، ص ۱۲_ ۷_ ۹۰۰ _ ۵۹ _

۲۵۸

بعض ديگر دانشوروں كے خيال كے مطابق استعمار ايك اقتصادى مسئلہ ہے كہ جو نئے سرمايہ دارى نظام كے پھلنے پھولنے سے سامنے آيا ہے_ انكے نظريہ كے مطابق چونكہ يورپى ممالك كے اپنے وسائل (خريد و فروش كے بازار، خام مال اور سرمايہ كارى كے مواقع) انكى روزبروز بڑھتى ہوئي ضرورتوں كيلئے ناكافى ہوچكے تھے جسكى بناء پر وہ ديگر ممالك كے امور ميں مداخلت كرنے لگے ،نيز انكا نظريہ يہ ہے كہ استعمار در حقيت ايك كوشش ہے جس ميں مغرب كے بڑے ترقى يافتہ ممالك ديگر ممالك ميں سود پر مبنى تجارتى وصنعتى نظام كو پيش كرتے ہيں جس سے انكا مقصد يہ ہوتا ہے كہ اپنے سرمايہ دارى نظام كى روز بروز بڑھتى ہوئي ضروريات كو ان ممالك كے ذرائع اور وسائل سے پورا كريں _ يہ نظريہ ليبرل اقتصاد والے سرمايہ دارى نظام كے اہل نظر اور ماركسزم كے پيروكاروں ميں ديكھا جاسكتا ہے_(۱)

ايشيا ميں استعمار

استعمارى طاقتوں ميں سے ايشيا ميں داخل ہونے والا پہلا گروہ پرتگاليوں كا تھا_ سن ۱۴۹۸ ء ميں پرتگالى جہازران واسكوڈ ے گاما ، بحيرہ ہند كے ذريعے ہندوستان كے شمال مشرقى ساحلوں تك پہنچا اسطرح ايشيا اور يورپ كے روابط ميں ايك نيا دور شروع ہوا _ اس زمانہ ميں ايشيا كے بڑے ممالك مثلاً ايران ، سلطنت عثمانيہ اور چين مختلف علوم ، زراعت اور تجارت ميں ترقى كے پيش نظر ايك بلند سطح كے حامل تھے_

واسكوڈ ے گاما تو تجارتى اہداف كے پيش نظر ان سرزمينوں تك پہنچا تھا ليكن آٹھ سال كے بعد پرتگال كا فوجى سردار ايلبوكرك(۲) جديد سرزمينوں كو فتح كرنے اور پرتگالى سلطنت كى توسيع كيلئے ان علاقوں ميں داخل ہوا _ مجموعى طور پر پرتگالى لوگوں كے تجارتي، سياسى ، فوجى اور مذہبى مقاصد تھے ، ليكن بہرحال وہ دنيا

____________________

۱) سابقہ حوالہ ، ص ۵۵_ ۲۵_

۲- Albauquerque

۲۵۹

كے اس منطقہ ميں اپنى حيثيت برقرار ركھنے ميں زيادہ كامياب نہ رہے_ فقط تجارت اس سے متعلقہ مسائل كى حد تك رہے _

يہ نكتہ قابل غور ہونا چاہئے كہ يورپ ميں پرتگالى لوگ ايشيا اور شمالى يورپ كے درميان تجارتى ايجنٹوں كے طور پر كام كرتے تھے_ انہوں نے سولھويں صدى كے آخر تك ہالينڈ كو اپنى تجارتى نظام كے تحت ركھا_ ليكن سترہويں صدى كے اوائل ميں اہل ہالينڈ نے بذات خود ايشيا سے براہ راست تجارت كيلئے كوششيں شروع كيں _اہل ہالينڈ كے بعد انگريز اور پھر فرانسيسى لوگ ايشيا ميں داخل ہوئے_

ايشيا ميں اہل يورپ كے استعمارى روابط دو مرحلوں ميں تقسيم ہوتے ہيں : پہلا دور يا مرحلہ سنہ ۱۴۹۸ ء ميں شروع ہوتا ہے اور ۱۷۵۷ ء ميں ہندوستان پر انگريزوں كى فوجى فتح پر ختم ہوتا ہے _ اس دور ميں اہل يورپ كى يہ كوشش تھى كہ وہ اپنى بحرى اور بارودى اسلحہ كى طاقت كے بل بوتے پر ان سرزمينوں سے تجارتى روابط بڑھائيں اور ان علاقوں كى مرغوب پيداوار مثلاً مصالحوں ، كپڑوں اور آرائشے كے لوازمات تك پہنچيں اسى دور ميں بہت سى تجارتى كمپنياں تشكيل پائيں وہ سب تجارتى سہوليات اور اختيارات كے درپے تھيں ان كمپنيوں ميں سے بعنوان مثال ہالينڈ كى فارلينڈ كمپنى (سال ۵۹۴ ۱ئ) ، ايسٹ انڈيا كمپنى ہالينڈ، ايسٹ انڈيا كمپنى انگلينڈ (سال ۱۶۰۰ ئ) اور فرانسيسى كمپنى كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے_ يہ سب كمپنياں اپنے ممالك كى طرف سے سياسى اور فوجى پشت پناہى كى حامل تھيں _ اور ايشيا كے مختلف علاقوں پر قابض ہونے كيلئے باہمى سخت رقابت كا شكار تھيں _

دوسرا دور سال ۱۷۵۷ ع سے ۱۸۵۸ تك ہے كہ اس دور ميں يورپينز كى اس سرزمين كے امور ميں بالواسطہ مداخلت تھى اور يہ مداخلت بظاہر فوجى صورت ميں نہ تھى مثلا ہندوستان سنہ ۱۷۵۷ء سے ليكر ۱۸۵۸ ء تك ايسٹ انڈيا كمپنى كے تحت تھا اور انگلستان كى حكومت اس كمپنى كى پشت پناہى كرتى تھي_ ليكن اس كے بعد انگلستان كى حكومت نے سرے سے ہى ہندوستان كى حكومت كى باگ دوڑ سنبھال لى اور ہندوستان كى حيثيت برطانيہ كى ايك رياست كى ہوگئي اوروہ اور انگلستان كى پارليمنٹ كے تابع سرزمين كے طورپر جانى گئي _(۱)

____________________

۱) ك ، م پانيكار ، آسيا واستيلاى باخر ، ترجمہ محمد على مہميد ، تہران ،ص ۴۵_ ۱۲_

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375