اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 0%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف: ڈاكٹر على اكبر ولايتي
زمرہ جات:

صفحے: 375
مشاہدے: 124254
ڈاؤنلوڈ: 3020

تبصرے:

اسلامى تہذيب و ثقافت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 124254 / ڈاؤنلوڈ: 3020
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

ايسٹ انڈيا كمپنى اور انگلستان گورنمنٹ كى پاليسى باعث بنى كہ ہندوستان جوكہ خودكپڑے بنانے اور برآمد كرنے والا ملك تھا اب كپڑا درآمد كرنے والا ملك بن گيا اس كى برآمدات صرف روئي تك محدود رہ گئيں _ ايشيا كے جنوب مشرقى اور جنوبى ممالك بھى اس مشكل سے بچ نہ سكے _ اہل ہالينڈ نے انڈونيشيا كو اپنے قبضہ ميں كيا ہوا تھا اور انہوں نے اس سرزمين پر كافى اور چينى كى كاشت كو بڑھايا اور انگريزوں كى ہندوستانى طرز كى اقتصادى تبديلياں يہاں بھى وجود ميں لائے_

فرانسيسى لوگ بھى انڈيا اور چين ميں داخل ہوئے اور انہى كى طرز كى استعمارى سياست كو لاگو كيا اسطرح كہ سن ۱۷۴۷ ء سے ۱۸۵۰ ء تك انڈيا اور چين كے تمام علاقے سوائے تھائي لينڈ كے انكے كنٹرول ميں آگئے_ تھائي لينڈ ميں انہوں نے بالواسطہ مداخلت كى _ اپنے استعمارى مفادات كو پورا كرنے كيلئے انہوں نے اس ملك ميں بہت سے امور ميں سہوليات حاصل كيں مثلاً جہاز راني، تجارتى فعاليت اور كسٹم ڈيوٹى سے چھوٹ جيسے امور ميں رعايتيں حاصل كيں يہاں تك كہ انہوں نے كيپيٹلائزيشن كا حق بھى حاصل كيا_

اسى طرح چين بھى انكے استعمارى حملات كى زد ميں آيا _ كيونكہ اس بہت بڑى آبادى والے ملك نے استعمارى طاقتوں كى ماركيٹ كو اپنى طرف متوجہ كرليا تھا_ مثلاً يورپى لوگوں بالخصوص انگريزوں نے چين ميں افيون (منشيات كى ايك قسم )درآمد كرتے تھے ، چين كى حكومت نے اس تجارت كو محدود كرنے كيلئے اقدامات كئے جس كے نتيجہ ميں سنہ ۱۸۴۲ ء ميں جنگ افيون واقع ہوئي اور چين كو شكست ہوئي اس جنگ كے ايك سال بعد فرانس اور انگلستان نے چين پر مشتركہ حملہ كيا اور اس ملك كو شكست ہوئي اس كے نتيجہ ميں انہوں نے چين كو مجبور كيا كہ وہ انہيں مختلف امور مثلاً جہاز رانى ، كسٹم اور تجارت وغيرہ ميں بہت سے امتيازى حقوق دے_ يوں چين كا اقتصاد بھى استعمارى كنڑول ميں آگيا اور نابود ہوگيا_ جس كى وجہ سے كئي ميلين چينى لوگوں نے روزگار كى تلاش ميں اپنے وطن كو ترك كيا اور يورپى ممالك اور امريكا ميں سخت كام كرنے پر مجبور ہوئے _(۲)

____________________

۱) سابقہ حوالہ ، ص۱۷۱ _ ۱۴۶_

۲) سابقہ حوالہ ، ص ص ۲۴۹ _ ۲۳۱ _ ۱۴۳_ ۱۲۱ _

۲۶۱

مشرقى وسطى اور خليج فارس ميں استعمار

اہل يورپ كى يہ كوشش تھى كہ بحرى راستوں سے نئي نئي جگہوں كو دريافت كرتے ہوئے اپنى طاقت اور تسلط كو بڑھائيں _ اور سب سے زيادہ ثروت ومال كے ذخائر كو جمع كريں _ سولہويں صدى كے ابتدائي سالوں ميں پرتگالى لوگ خليج فارس ميں داخل ہوئے اور پرتگالى بحرى سردارايلبو كرك نے سن ۱۵۱۴ ء ميں جزيرہ ہرمز پر قبضہ كرليا _ انہوں نے ۵۱۲ ۱ ء سے گمبرون (بندرعباس ) جو كہ ايك عمدہ تجارتى مركز تھا ، پر بھى قبضہ كيا ہوا تھا_(۱)

انكا تقريباً ايك صدى تك خليج فارس كے علاقوں پر كنٹرول رہا _ يہاں تك كہ صفوى بادشاہ ، شاہ عباس نے انگريزوں سے ايك قرار داد طے كى اور انكى بحرى طاقت كى مدد سے اس قابل ہوا كہ پرتگاليوں كوہميشہ كے ليے خليج فارس سے نكال دے _ ليكن انگريزوں نے اپنے اثر نفوذ كو بڑھانا جارى ركھا جس كى بڑى وجہ خليج فارس كى تزويرى (اسٹرٹيجك) اہميت تھى _ انہوں نے عرب شيوخ سے بھى قرار داد باندھي، ان شيوخ نے انگريزوں كو بعنوان قاضى ، مصالحت كروانے والے اور ثالث مانتے ہوئے يہ عہد كيا كہ درياى قزاقى ، اسلحہ اور غلاموں كى سمگلنگ سے پرہيز كريں گے _

سنہ ۱۸۰۰ عيسوى (فتحعلى شاہ قاجاركے دور ميں ) ايران كى طرف سے انگلستان كو بہت سے تجارتى حقوق ديے گئے ، انہوں نے سال ۱۸۵۶ ء ميں بوشہرميں فوج كو لاكر اس پر قبضہ كرليا ليكن آخر كار ايران كے تمام شہروں كو ترك كرديا _(۲)

مشرق وسطى ميں تيل كے ذخيروں نے دنيا كى ديگر قوتوں مثلاً امريكا اور جرمنى كو دلچسپى لينے پر مجبور كيا_ بيسوى صدى كے اوائل ميں اس علاقے كا تيل انگريزى اور امريكى كمپنيوں ميں تقسيم ہوا _ انگريزوں نے قطر ، كويت ، عراق ، عمان اور ايران كے تيل پر كنٹرول حاصل كرليا جبكہ امريكى نے بھى سعودى عرب اور بحرين

____________________

۱) وادلا، خليج فارس در عصر استعمار، ترجمہ شفيع جوادى ، تہران ،ص ۷۷_ ۳۹_

۲)سابقہ حوالہ _

۲۶۲

كے تيل پر اپنا تسلط جماليا_ البتہ يہ بات نہيں بھولنى چاہئے كہ ايران نے اس استعمارى دور ميں سب سے زيادہ ضرراٹھايا كيونكہ ايران كى جغرافيائي حيثيت ايسى تھى كہ بڑى قوتوں كے ميدان جنگ ميں بدل گيا مثلاً انگلستان اور فرانس ، ہندوستان پر قبضہ جمانے كيلئے باہمى رقابت كا شكار تھے يہ جھگڑا ايران تك بڑھتا گيا اور اس ملك كى سياسى اور اقتصادى خود مختارى پر بہت زيادہ ضربيں لگيں _

انيسويں صدى ميں روس اور انگلستان كے مدمقابل ايران كى بار بار عسكرى شكست سے قاجارى حكومت نے اپنے استحكام كو باقى ركھنے كيلئے مجبوراً بہت سے اقتصادى اور تجارتى حقوق ان ممالك كو عطا كيے _ يوں يہ ملك نصف حد تك استعمارى طاقتوں كى زد ميں آگيا _(۱)

ايران كا اپنا اقتصاد بھى روس و انگلينڈ كى طرف سے سيلاب كى طرح وارد ہونے والى اجناس كے مدمقابل تاب نہ لاسكا اور ايران بھى ہندوستان كى مانند خام زراعتى پيداوار مثلاً روئي اور تمباكو كى حدتك رہ گيا _ استعمارى طاقتوں كے بينكوں (انگلينڈ كے شاہى بينك اور روس كے بينك نے) ايران كے مالى معاملات پر كنٹرول كر ليا اور قاجارى بادشاہوں اور سرداروں كو بار بار قرض ديكر ايران كى سياست اوراقتصاد پر روز بروز اپنا قبضہ وكنٹرول بڑھانا شروع كرديا_

انيسويں اور بيسويں صدى كے درميان مشرق وسطى كے تمام ممالك يورپى استعمار گروں كے كنٹرول ميں آگئے _ استعمار گر لوگوں كى كوشش تھى كہ مشرق وسطى كے اقتصاد اور سياست كو مكمل طور پر اپنے قبضہ ميں كرليں اور اسكے علاوہ ان ممالك كى سياسى جغرافيائي سرحدوں كو اپنے مفادات كى روسے خود ترتيب ديں _ ان سرزمينوں كى تقسيم اس انداز سے ہوئي كہ بہت سے قومى ، مذہبى اور سياسى جھگڑوں نے جنم ليا_ مثلاً استعمار نے كردوں كو ايران ، تركي، شام اور عراق ميں تقسيم كرديا_ لبنان ميں بھى مختلف اقوام اور مذاہب پر مشتمل ناہموار تركيب سامنے آئي كہ مختلف مذاہب اور اقوام كے درميان سياسى قوت عدم استحكام كا شكار رہى اور قومى و مذہبي

____________________

۱) فيروز كاظم زادہ ، روس و انگليس در ايران ، ترجمہ منوچھر اميري، تہران ،ص ۲۵_ ۱۵_

۲۶۳

جھگڑوں نے جنم ليا_

پورى دنيا سے يہودى لوگوں نے استعمار ى طاقتوں كى پشت پناہى كى وجہ سے فلسطين كى طرف ہجرت كى _ اور ايك يہودى حكومت تشكيل ديكر مشرق وسطى اور دنيا ميں ايك بڑى پيچيدگى كو وجود ميں لائے(۱) _ مجموعى طور پر مشرق وسطى كے ممالك ميں استعمار ى طاقتوں كے اقدامات نے دنيا كے اس خطہ كو فتنوں اور جھگڑوں كا مركز بناديا كہ اب بھى مشرق وسطى كانام سنتے ہى ذہن ميں لڑائي اور ناآرامى كى ايك تصوير نقش ہوجاتى ہے_

مختصر يہ كہ استعمار نے دنيا كے مختلف ممالك ميں داخل ہو كر انكے معاشرتى ، سياسى اور اقتصادى حالات اور كلچر كو بلاواسطہ يا بالواسطہ ايسے متاثر كيا كہ اب بھى ان ممالك ميں استعمار كى موجودگى كے بہت سے اثرات اور نتائج مشاہدہ كيے جاسكتے ہيں ،اسلامى ممالك ان مسائل سے جدا نہ تھے جيسا كہ ہم نے كہا ہے كہ استعمار كى موجودگى سے ان ممالك كے اقتصادى حالات تبديل ہوئے ،قدرتى اور انسانى ذخائر سے ان ممالك كو خالى كيا گيا اور يہ سب ذخائر استعمار ى ممالك ميں درآمد كيے گئے جسكے نتيجے ميں ان ممالك كے اجتماعى ڈھانچے اور طبقات ميں تبديلى واقع ہوئي اور ان سے بڑھ كر ان ممالك كى تہذيب و تمدن پر منفى اثرات پڑے ان سب امور پر نئے استعمار كے عنوان كے تحت بحث كى جائے گي_

استعمار جديد

جيسا كہ اشارہ ہوا ہے كہ استعمار كى پہلى صورت ايسى تھى كہ استعمارى طاقتوں نے اپنے رقيبوں كى قوت و طاقت سے موازنہ كرتے ہوئے اپنے عسكرى تحفظ اور اقتصادى مفادات كو بڑھانے كيلئے يہ اقدامات كيے _ يورپى استعمار نے عسكرى فتوحات يا ہجرت كے ذريعے ديگر ممالك پر قبضہ جماليا اور تجارتى كمپنياں قائم كرتے ہوئے ان ممالك كے اقتصاد كو اپنى تجارتى پالسيوں كے سخت كنٹرول ميں لے آئے_

____________________

۱) احمد ساعى ،سابقہ حوالہ ، ص ۷۳_

۲۶۴

سنہ ۱۷۶۳ ء سے ۱۸۷۰ ء تك استعمار كى پيش رفت ميں سستى آگئي كيونكہ اس عرصہ ميں يورپى ممالك اپنے اندرونى مسائل، آزادى پسند انقلابات اور صنعتى انقلابات سے نمٹ رہے تھے_

سنہ ۱۸۷۰ ء سے پہلى جنگ عظیم تك استعمار كى پيشرفت و تحرك بہت وسيع پيمانے پر تھا سارا افريقہ اور مشرق بعيد انكى لپيٹ ميں آگيا ليكن دوسرى جنگ عظیم اور اقوام متحدہ كے وجود ميں آنے كے بعد بالخصوص دو عشروں ۱۹۵۰ اور ۱۹۶۰ ء ميں ہم استعمار كے خلاف (سياسى خودمختارى كے حصول كيلئے)تحريكوں كا مشاہدہ كرتے ہيں _ اس طرح كہ اقوام متحدہ كے ممبر ممالك كى تعداد دوگنى ہوگئي _

ان ممالك نے جنرل اسمبلى ميں اپنى كثير تعداد كے باعث اپنے اقتصادي، سياسى اوراجتماعى مسائل كو اقوام متحدہ كى توجہ كا مركز قرار دلوايا_ ان ممالك پرقديم استعمار كے شديد اثرات كے باعث استعمار سے چھٹكارے كى تحريك نہ صرف يہ كہ انكى مشكلات حل نہ كرسكى بلكہ اس نے ان ممالك كو دو راہے پر لاكھڑا كيا _ يہ ممالك ايك طرف تو ترقى يافتہ ممالك (سابقہ استعمارى ممالك) سے اقتصادى امداد چاہتے ہيں اور دوسرى طرف اپنے اندرونى مسائل ميں كوئي مداخلت بھى پسند نہيں كرتے جبكہ ترقى يافتہ ممالك اب بھى ان ممالك اور بالخصوص انكے بازاروں اور ابتدائي خام پيداوار كے محتاج ہيں اور چاہتے ہيں ان اہداف تك پہنچيں(۱) _

مجموعى طور پر ترقى يافتہ ممالك (سابقہ استعمار ) كے آزاد شدہ ممالك (سابقہ مستعمرہ ممالك ) سے روابط ايسى صورت اختيار كرگئے ہيں كہ اسے جديد استعمار كا نام ديا گياہے _ اس نئي صورت ميں سابقہ استعمار گر ممالك انہيں اپنے ہاتھوں بنائي ہوئي بظاہر خود مختار حكومتوں اور بين الاقوامى كمپنيوں كے قوانين اور روابط كے ذريعے بغير كسى براہ راست سياسى اور عسكرى كنٹرول كى ضرورت كے ، اپنى اغراض اور مفادات كو پہلے سے بہتر صورت ميں پورا كررہے ہيں _

بہت سے اہل نظر كى رائے كے مطابق ترقى يافتہ ممالك (سابقہ استعمار )ملٹى نيشنل كمپنيوں اورعالمى اداروں مثلاً عالمى بينك، آئي ايم ايف اور ورلڈ ٹريڈ آرگنائزيشن WTO كے ذريعے مختلف بين الاقوامي

____________________

۱) جك پلنو وآلٹون روى ،سابقہ حوالہ ، ص ۳۰_

۲۶۵

حالات اور روز بروز بڑھتے ہوئے پيچيدہ معاملات اور روابط سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسى كوشش ميں ہيں كہ محروم ممالك يا ترقى پذير ممالك پر تسلط جماليں _ لہذا ہم ان تنظيموں اور عالمگيريت كا تجزيہ كرتے ہوئے كوشش كريں گے كہ جديد استعمار اور اسكے دنيا كے ممالك بالخصوص اسلامى ممالك پر اثرات كا تجزيہ كريں _

ملٹى نيشنل ( كثير القومى ) كمپنياں

چند اقوام پر مشتمل كمپنياں بنانے كا نام بنيادى طور پر امريكہ سے شروع ہوا ،ان كمپنيوں كا ہيڈكوارٹر بھى كسى ايك ہى ملك ميں ہے انكے امورآزاد كمپنيوں يا وابستہ كمپنيوں كے ذريعے تمام ممالك ميں انجام پاتے ہيں _ يہ كثير القومى كمپنياں جديد ٹيكنالوجى اور وسيع پيمانے پر پيداوار كى بناء پر ديگر ممالك تك اپنے كام كا دائرہ بڑھانے پر مجبور ہيں _ اس كے بعد كا مرحلہ انہيں ديگر ممالك ميں بيچنے كے ليے اداروں كے قيام كا ہے_ يہيں سے چند اقوام پر مشتمل ہونے كى طرف رجحان بڑھتا ہے اور وہ عام طور پر اپنے كام كا دائرہ كار بڑھاتے ہيں تاكہ اسباب اور شرائط قيمت ميں بچت كرتے ہوئے زيادہ سے زيادہ منافع حاصل كريں يعنى چيز كى پيداوار كو بڑھاكر پيداوار پراٹھنے والے اخراجات كى اوسط مقدار كو كم كرديتے ہيں _

مثلاً كوكا كولا كمپنى ، جنرل اليكٹرك اورويسٹنگ ہاؤس كمپنياں آزاد كمپنيوں سے قرار داد باندھتى ہيں اور منافع كى شرح ميں سے كچھ فيصد وصول كرتے ہوئے انہيں اجازت ديتى ہيں كہ وہ انكى پيداوار يا خدمات كو اصلى كمپى كے نام سے بنائيں اور فروخت كريں _(۱)

بعض اہل نظر كے مطابق يہ كمپنياں اپنے سرمايہ كے ساتھ تيسرى دنيا كى اقتصادى ركاوٹوں كو ختم كرسكتى ہيں اور اپنى فعاليت سے ان ممالك ميں جديد طرز كے صنعتى نظام كو منتقل كرسكتى ہيں _ ان سے رقابت كرتے ہوئے ان تيسرى دنيا كے ممالك كى اندرونى كمپنياں اور ادارے بھى فعال ہوجائيں گے جسكے نتيجہ ميں ثمر آور

____________________

۱) سابقہ حوالہ ، ص ۳۱_

۲۶۶

اقتصاديات، منظم بازار اور آسايش فراہم ہونگيں _

جبكہ انكے مد مقابل بہت سے اہل نظر كے مطابق سرمايہ كى وہ مقدار جو ان كمپنيوں كے ذريعہ تيسرى دنيا ميں داخل ہو رہى ہيں اس تعداد سے انتہائي كم ہے كہ جو منافع كى شكل ميں وہ ان ممالك سے نكال رہى ہيں _ يہ كمپنياں مختلف صورتوں ميں ابتدائي معمولى سا سرمايہ لگاتى ہيں مثلاً ميزبان ملك سے حاصل شدہ قرض (كريڈٹ) اور سہوليات سے فائدہ اٹھاتے ہيں پھر اپنے ذيلى اداروں اور كمپنيوں ميں دوبارہ سرمايہ گزارى كرتے ہوئے ڈائريكٹ خالص منافع ان ممالك سے نكال ليتے ہيں _(۱)

ان اہل نظر افراد كے مطابق ان كمپنيوں كا سرمايہ عام طور پر كام كے ان مراحل پر لگتا ہے كہ جنكا ميزبان ملك كے مقامى اقتصاد كى ضروريات سے كوئي ربط نہيں ہوتا _ استعمار كے دور ميں يہ سرمايہ اور يہ كمپنياں عام طور پر معدنيات اور زراعت كے امور كے متعلق ہوتى تھيں اور ميزبان ممالك كے طبيعى ذخائر سے بہرہ مند ہوتى تھيں _ اور آج يہ ميزبان ممالك ميں صنعتى پيداوار كے كام كرتى ہيں يعنى يہ كثير القومى كمپنياں تيسرى دنيا كے ممالك ميں كسى چيز كے فقط پارٹس تيار كرتى ہيں پھر انہيں باہم جوڑنے كيلئے ديگر ذيلى كمپنيوں يا اصلى ملك كى طرف منتقل كرتى ہيں _

اس كے علاوہ ان كمپنيوں كے بلند سطح كى سرمايہ كارى ، جديد ٹيكنالوجى اور پروگرام كے ذريعے فعاليت اس ملك كى اندرونى كمپنيوں سے رقابت كا موقع چھين ليتى ہيں اور انہيں بند كروا ديتى ہيں انہى اہل نظر لوگوں كے مطابق ايسى كثير القومى كمپنياں اقتصادى تسلط كے ساتھ ساتھ اپنے ميزبان ممالك كے سياسى امور ميں بھى دخل اندازى كرتى ہيں تاكہ سياسى صورت حال انكے مفادات كے مطابق ہوجائے اسى طرح ان كمپنيوں كے كام كى وجہ سے ان ممالك ميں معاشرتى يا ثقافتى سطح پر بعض پيچيدگياں پيدا ہوتى ہيں كيونكہ وہ ايسى اقدار اور عادات اپنے ہمراہ لاتى ہيں جو اس ملك كى مقامى تہذيب كے ساتھ سازگار نہيں ہوتي_(۲)

____________________

۱) احمد ساعى ، سابقہ حوالہ ، ص ۱۵۰_ ۱۳۹_

۲)سابقہ حوالہ _

۲۶۷

بين الاقوامى مالياتى ادارے

اقوام متحدہ سے وابستہ بعض ادارے كہ جن ميں سے عالمى بينك اور آئي ايم ايف كى طرف اشارہ كياجاسكتا ہے يہ سب دوسرى جنگ عظیم كے بعد بين الاقوامى سطح پر مالى امور كو منظم كرنے اور مالى بحرانوں كو روكنے كيلئے بنائے گئے تھے ،مثلاً ۱۹۳۰ ء كے عشرے كا مالى بحران قابل ذكر ہے كہ جسميں عالمى سطح پر نرخوں كى تبديلى اور رقابت ميں كرنسى كى تقابلى قيمت گھٹنے سے عالمى اقتصاد كو شديد جھٹكے لگے_

اگر چہ يہ ادارے دنيا كے اكثر ممالك سے تعلق ركھتے ہيں ليكن طاقتور اور سابق استعمارى ممالك كا ان اداروں كے بنيادى فيصلوں پر غلبہ مكمل طور پر واضح ہے _ مثلاً آئي _ ايم_ ايف ميں امريكاكا پانچواں حصہ ہے كيونكہ ہر ملك كى رائے كى اہميت اس كے حصہ كى مقدار سے ربط ركھتى ہے _ لہذا امريكا كى رائے كسى فيصلہ ميں بنيادى كردار اد ا كرتى ہے_(۱)

چونكہ ترقى پذير ممالك اپنى مشكلات محض براہ راست غير ملكى سرمايہ كارى اور ان كثير القومى كمپنيوں كى فعاليت كى مدد سے حل نہيں كرسكتے اس لئے وہ ديگر ممالك سے قرضہ كے طالب ہوتے ہيں _

قرضہ حاصل كرنے كے مختلف طريقوں ميں سے ايك طريقہ يہى ہے كہ ان بين الاقوامى مالى اداروں مثلاً آئي _ ايم _ ايف اور عالمى بينك كى مدد حاصل كى جائے_ ليكن اس قسم كے قرضہ جات حاصل كرنے سے ضرورى نہيں ہے كہ قرضہ لينے والے ملك كے اقتصاد پر مثبت اثر پڑے بلكہ اس كے برعكس يہ قرضے مختلف اقتصادى بحرانوں كے موجب بھى بنتے ہيں جيسا كہ ستر كى دھائي ميں تيسرى دنيا كے ممالك كا مقروض ہونے كا بحران ہے_

اسى طرح يہ قرضہ جات كا حصول ان بين الاقوامى اداروں كى پاليسيوں كو قبول كرنے سے مشروط ہے اور يہ پاليسياں ان ترقى يافتہ (سابقہ استعمار ى ) ممالك كے مفادات كو پورا كرتى ہيں _

____________________

۱) جك يلنووآلٹون روى ،سابقہ حوالہ ، ص ۲۱۹_

۲۶۸

بعض دانشوروں كى رائے كے مطابق آئي ، ايم ، ايف اور عالمى بينك اپنے تسلط كے تحت ممالك كى اقتصادى ترقى كى يہ تعبير كرتے ہيں كہ يہ ترقى پذير ممالك صنعتى ممالك كيلئے اپنے دروازے كھول ديں _ اسى قسم كى ترقى تك پہنچنے كےلئے ضرورى ہے كہ جہاں تك ممكن ہے قرض لياجائے، كسٹم ٹيكس لينے سے ليكر اشياء اور اجناس پرعوام كے ليے ٹيكس كى معافى جيسى شرائط كہ جو تجارتى معاملات كو بہت ضرر پہنچاتى ہيں سے بچنا چاہيے اور بيرونى سرمايہ كارى كو آسان بنانا چاہيے_

بالفاظ ديگر تيسرى دنيا كيلئے ضرورى ہوتا ہے كہ وہ ترقى يافتہ ممالك كى اقتصادى حالت سے خود كو مطابقت ديں _ا س ترقى كے سفر پر ہميشہ خسارے ميں رہتے ہوئے اپنى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے غير ملكى قرضوں كے حصول كى خاطر آئي ، ايم ، ايف كے اقدامات پر انحصار كريں _ عالمى بينك اور آئي ، ايم ، ايف كے پسنديدہ قوانين اور تدبير جن ممالك ميں جارى ہوتى ہيں وہاں يہ انكى آمدنى كے تناسب ميں بہت زيادہ خلل كا باعث بنتى ہيں _ بہرحال آئي ، ايم ، ايف كے پروگرامز بين الاقوامى اقتصادى معاملات اور مغربى ممالك كے مفادات كيلئے سود مند ثابت ہوتے ہيں بالفاظ ديگرترقى پذير ممالك كو اس وقت مالى تعاون حاصل ہوگا كہ جب وہ آئي ، ايم ، ايف كى شرائط اور سياسى اقتصادى تدابير كو اپنے ہاں جارى كريں گے _(۱)

عالمگير يت(۲) اور اسكے نتائج

ايك اورمسئلہ كہ جسكا آج دنيا تجربہ كر رہى ہے وہ عالمگيريت ہے _خلاصةً يہ بھى كہاجاسكتا ہے كہ عالمگيريت كى ايك تعريف عمل (پراسس) كى صورت ميں اور ايك ''منصوبے '' كى صورت ميں كى جاسكتى ہے_ يعنى بعض اہل نظر كے خيال كے مطابق ذرائع ابلاغ ميں ترقى اور وسعت كى بناء پر انسانى معاملات

____________________

۱) على رضا ثقفى خراسانى ، سير تحولات استعمار در ايران ، مشہد ص ۲۱۲_ ۲۰۶_

۲) Globalization

۲۶۹

انتہائي سرعت اور آسانى سے انجام پا رہے ہيں ايسے لگ رہا ہے كہ روز بروز ممالك كى حد بندياں اور سرحديں غير اہم ہو رہى ہيں اور ان ممالك كى حكومتيں غير ملكى ہاتھوں ميں كھيلنے پر مجبور ہيں _

مجموعاً كہاجاسكتا ہے كہ دنيا ايك چھوٹى سى كالونى ميں بدل رہى ہے _ دنيا كے كسى گوشہ ميں ايك معمولى سا مسئلہ فورا سارى دنيا كے مختلف نقاط ميں نشر ہوجا تا اہے اس دنيا ميں ممالك اب مكڑى كے جالے كى طرح باہم متصل اور پيوست ہيں كہ انٹر نيٹ كے چينل نے بھى دنيا كو اس شكل ميں لانے ميں بہت زيادہ تعاون كيا ہے تاكہ پورى دنيا ميں ايك ہى تہذيب تشكيل پاياجائے _(۱)

انكے مد مقابل ديگر اہل نظر لوگوں كے خيال كے مطابق عالمگيريت ايك سازش اور منصوبہ ہے كہ جسے ترقى يافتہ ممالك نے لاگو كيا ہے تاكہ زيادہ سے زيادہ ترقى پذير ممالك يا پس ماندہ ممالك كو لوٹ ليں _انكے نظريہ كے مطابق عالمگيريت فقط تيسرى دنيا كے نقصان ميں ہے _ كيونكہ جب حكومتوں كى حد بندياں اور حكومتوں كا كسٹم كے قوانين اورقيمتوں پر كنٹرول ختم ہوجائے تو ان ممالك كا اقتصاد بھى تباہ ہوجائے گااور وہ ترقى يافتہ ممالك كے احكام وقوانين كے غلام بن كر رہ جائيں گے_

انہى اہل نظر كے ايك اور گروہ كے مطابق عالمگيريت كے منفى اثرات صرف ممالك كى اقتصاديات تك محدود نہيں ہوتے بلكہ ان استعمارى ممالك كى كوشش بھى ہے كہ اپنى تہذيب وكلچر كو ديگر ممالك پر لاگو كريں مثلاً امريكہ ہالى ووڈ كى فلموں كى صورت ميں كوشش كر رہا ہے كہ امريكى كلچر اور طرز زندگى كو عالمى سطح تك پھيلائے اسى لئے بعض عالمگيريت كو امريكى ہونے كے مترادف سمجھتے ہيں _ ڈيموكريسى اور ليبرل اقدار كے پرچم تلے ايك سياسى اور ماڈل حكومتى نظام كى ترويج ايك اور مشكل ہے كہ جو تيسرى دنيا كے ممالك كى خودمختارى كو كمزور كرنے ميں اپنا كردار ادا كر رہى ہے_ مغربى ممالك اس قسم كے نظام حكومت كى ترويج سے اس كوشش ميں ہيں كہ پورى دنيا كے ممالك (بالخصوص مشرق وسطى كے ممالك) كى حكومتوں كو اپنے پسنديدہ طرز حكومت سے

____________________

۱) اس كے بارے ميں زيادہ مطالعہ كيلئے رجوع كريں ، احمد گل محمدى ، جہانى شدن ہويت ، تہران_

۲۷۰

مطابقت ديں _ا س مقصد كے پيش نظر وہ ہر قسم كے اقدام سے دريغ نہيں كر رہے ہيں لہذا عالمگيريت كمزور ممالك كى حكومتوں كے حالات اور سسٹم كو روز بروز تيزى سے تباہ كر رہى ہے او ريہ چيز فقط ترقى يافتہ ممالك كےلئے سود مند ہے _(۱)

مجموعى طور پر كہاجاسكتا ہے كہ اگرچہ قديم استعمار كا دور ختم ہوچكا ہے اور تحت تسلط ممالك خودمختار ہوچكے ہيں ليكن جو صورت اب سامنے آرہى ہے وہ قديم استعمار سے كئي درجے زيادہ پيچيدہ اور مستحكم انداز سے اپنا كام كر رہى ہے _ جديد استعمار مختلف زاويوں سے اس كوشش ميں ہے كہ ديگر ممالك پر اپنا نفوذ بڑھا كر ان ممالك سے فكرى اور مادى ثروت كو نكالنے كے راستے بنائے كہ جو گذشتہ ادوار سے كہيں زيادہ خطرناك اور تباہ كن ہے _

۲_مشرق شناسي

عہد حاضر ميں مطالعہ كيلئے ايك اہم سبجيكٹ Subject مشرق شناسى ہے _ اس حوالے سے كام كرنے والے مغربى دانشوروں كا دعوى ہے كہ مشرق كے بارے ميں واقعيت پر مبنى تحقيقات كے ساتھ انہوں نے اہل مشرق كو بہت سے مخفى نكات اور زاويوں سے آگاہ كيا ہے جن سے اہل مشرق بذات خود آگاہ ہونے كى استعداد نہيں ركھتے تھے_ ماركسس بھى سمجھتا تھا كہ اہل مشرق ميں اپنے آپ كو اور اپنى صلاحيتوں كو كھولنے اور نماياں كرنے كى استعداد نہيں ہے _ لہذا اس بارے ميں ان سے تعاون كياجانا چاہئے _

آيا واقعاً يہ موضوع ايك علمى اور حقيقت پر مبنى موضوع ہے جيسا كہ بہت سے مستشرقين كا دعوى بھى ہے يا جيسا كہ مغرب پر تنقيد كرنے والے اہل نقد ونظر كا نظريہ ہے كہ يہ مسئلہ محض طاقت اور طاقت كو دوسروں پر مسلط كرنے كا بہانہ ہے _ يعنى استعمار گر اہل مغرب كى قوت و طاقت اورتسلط كى توجيہ كا ايك وسيلہ ہے_ مشرق صرف يورپ سے متصل ايك ہمسايہ نہيں ہے بلكہ قدرتى دولت سے مالامال يورپ كے سب سے بڑے مستعمرات ميں سے ہے اور يورپ كى تہذيب كا سرچشمہ بھى ہے نيز تہذيب و تمدن ميں يورپ كا رقيب بھي

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۱۱۲_ ۱۰۵_

۲۷۱

ہے_ مشرق شناسى كا مضمون بھى اسى موضوع كى ثقافتى اور نظرياتى تعريف كو بيان كرتا ہے _ اس طرح مشرق شناسى گفتگو كا ايك غالب مغربى موضوع ہے كہ جو خاص اداروں ، نصاب ، يا مطالعات اور استعمارى بيوركريسى پر مشتمل ہے(۱)

مشرق شناسى كى معروف ترين تعريف اسكى علمى تعريف ہے _ اس كے مطابق جو بھى اپنى تدريس ، تصنيف اور تحقيق كا موضوع مشرق كو قرار دے خواہ اسكا تعلق نفسيات، معاشرت ، تاريخ ، زبان كسى بھى مضمون سے تعلق ہو وہ مشرق شناس ہے جو كچھ بھى انجام دے يہى مشرق شناسى ہے ليكن يہ كالجوں اور يونيورسٹيوں كا مضمون ، مشرق شناسى كے ايك عام معنى سے بھى وابستہ ہے وہ يہ كہ مشرق شناسى دراصل فكر ونظر كى ايك روش ہے كہ جو مشرق اور مغرب كى وجود شناسى اور علم شناسى كے فرق كى بنياد پر استوار ہے _(۲)

بطور اختصار مشرق شناسى كو بھى مشرق پر قبضہ اور اسے اپنا مستعمرہ بنانے كيلئے مغرب كى ايجاد شدہ ايك روش كے طور پر محور تجزيہ قرار دياجاسكتا ہے چونكہ جب تك مشرق شناسى ايك غالب سياسى موضوع كى مانندمورد تجزيہ قرار نہ پائے گى كبھى بھى اسكى منظم اور مرتب خصوصيات درك نہيں كى جاسكتيں كہ جن كے ذريعے مغرب اور مغربى كلچرنے مشرق كى سياسى ، معاشرتى ، فكرى اور علمى محافل اور ميدانوں سے آگاہى حاصل كى بلكہ اسے تشكيل ديا اور اسے نئے سرے سے ايك ايسا موضوع بنايا جس پر تحقيق كى جاسكتى ہو_(۳)

مشرق شناسى پر مطالعہ كب شروع ہواا س موضوع پر محققين باہم اختلاف نظر ركھتے ہيں _ بعض دانشور حضرات مشرق شناسى كے مطالعات كى تاريخ كو بہت قديم سمجھتے ہيں انكے نظر كے مطابق اسكو شرو ع كرنے والا ہيروڈٹ تھا وہ مشرقى اقوام كے بارے ميں مطالعہ كيا كرتا تھا_(۴)

____________________

۱) ايڈورڈ سعيد ، الاسشراق ، ترجمہ كمال ابواديب ، بيروت ۱۹۸۱ ، ص ۳۷_

۲) سابقہ حوالہ ص ۳۸_

۳) سابقہ حوالہ ص ۳۹_

۴) احمد سمايلو ، فتش،فلسفہ الاستشراق داثر ھا فى الادب العربى المعاصر ، قاہرہ ، ص ۷۱ _۷۰_

۲۷۲

جبكہ بعض ديگر كہ جن ميں سے ايڈورڈ سعيد قابل ذكر ہيں جس نے متعلقہ اداروں پر تحقيق كے بعد شرق شناسى كا آغاز ۱۳۱۲ ء ميں وين كے كليسا كى كو نسل كے پروگرام كے تحت پيرس ، آكسفورڈ، اوينين اور سلامانكا كى يونيورسٹيوں ميں عربي، يونانى ، عبرى اور سريانى زبانوں كے ذريعے مشرق شناسى كے مطالعہ پر كام كے شروع ہونے كو قرار ديا _(۱)

بعض ديگر دانشور كلمہ ''مشرق شناسى '' اور اسكے مشتقات كا علمى محافل ميں ظہور كے زمانہ كو اس علم كى تحقيقات كے شروع كا زمانہ سمجھتے ہيں ،كيونكہ انگلستان ميں لفظ ''مستشرق'' سنہ ۱۷۷۹ ء اور فرانس ميں ۱۷۹۹ء ميں رائج ہوا اور ۱۸۳۸ء ميں پہلى بار فرانس كى يونيورسٹى ڈكشنرى ميں مشرق شناسى كا مفہوم ومعنى داخل ہوا_(۲)

ليكن درحقيقت يورپ ميں مشرق شناسى كے بارے ميں مطالعات كے عروج كا دور انيسويں صدى اور بيسويں صدى كے اوائل كا زمانہ ہے _ اگرچہ خود مشرق شناسى كى تاريخ اس سے كہيں طولانى ہے ، مجموعى طور پر مشرق شناسى كے مطالعات كا دومراحل ميں تجزيہ كيا جاسكتا ہے اور ان دو مراحل ميں سے ہر مرحلہ ميں مشرق شناسى ايك خاص صورت ميں سامنے آتى ہے:

۱) _ مشرق شناسى كے موضوعات پر مطالعات كا نقطہ آغاز يورپى كليسا كے ساتھ تعلق ركھتا ہے اور اس موضوع پر مطالعات كا مقصد يہ تھا كہ اسلامى نظريہ اور اسكى برترى سے پيدا ہونے والے خطرات سے عيسائي عقائد كا دفاع كرنا تھا اس لحاظ سے اس دور ميں مشرق شناسى ايك دفاعى صورت ميں تھى اور اپنے اندرونى مسائل پر توجہ ركھے ہوئے تھى اس سے انكا يہ ہدف تھا كہ وہ اسلام اور نظريہ اسلام كا حقيقى چہرہ بگاڑ كر اور اسے غير مناسب اور ناپسنديدہ صورت ميں پيش كريں تاكہ وہ يورپى شخص كو اسلامى عقائد سے دور كرسكيں اور اس دور پر غالب عيسائي عقائد ونظريات كا دفاع كرسكيں _(۳)

____________________

۱) ايڈوڈ سعيد ،سابقہ حوالہ ،ص۸۰_

۲) نصر محمد عارف ،التنمية السياسية المعاصرة ، ہيرندن فير جينسا ، امريكہ ، ص۱۱۵_

۳) نصر محمد عارف ، سابقہ حوالہ ،ص ۱۱۷_

۲۷۳

بعض محققين مثلاً فواد زكريا كے بقول مشرق شناسى كے مطالعہ كا يہى ہدف تھا بلكہ اس علم كى مكمل تاريخ ميں يہى ملتا ہے كہ وہ مشرق شناسى كے ذريعے دراصل اپنے تشخص كا دفاع كرنا چاہتے تھے_(۱)

بہرحال كم از كم اس حوالے سے قطعى طور پر يہى كہاجاسكتا ہے كہ پہلے دور ميں مشرق شناسى كے مقصد كو عيسائيت سے وابستہ سمجھتا جاتا تھا اور وہ يہ تھا كہ اس دور ميں يورپى ماحول ومعاشرہ پر حاكم عيسائي تہذيب اور نظريات كا دفاع اور كليسا كے اقتدار كى نگہبانى كى جائے_ بالفاظ ديگر اس قسم كے تجزيے اور تحقيقات يورپى دانشوروں اور وشن خيال حضرات كيلئے كى جاتى تھيں _ وہ بھى ايك معين دور ميں ، ايك معين ہدف و مقصد اور خاص روش سے كہ جسكى غرض پس پردہ پنہاں تھى _

يہاں مقصد يہ نہيں تھا كہ محض حقيقت تك پہنچا جائے اور يہ ايك خالص علمى تحقيق ہو بلكہ يورپى دانشوروں كى آراء اور دانائي كے ثبوت كيلئے ايك مضبوط ڈھال بنائي جائے اور اس ميں انقلاب پيدا كرنے والے آراء و افكار بالخصوص اسلامى آراء كے مد مقابل دفاع كياجائے اور عيسائيت كى مخالفت ميں جانے والا ہر راستہ بند كرديا جائے_(۲)

۲) پہلے مرحلہ ميں مشرق شناسى كے مطالعات كا محور يورپ اور عيسائي دنيا كے اندرونى مسائل تھے _ اس مرحلہ كے بعد ايسے دور كا آغاز ہوا كہ جس ميں مشرق شناسى استعمار سے وابستہ ہوگئي يہاں بيرونى مسائل اور معاملات محور قرار پاگئے اب اس ميں عيسائي نظريات اور رجحانات كے ساتھ ساتھ مشرقى اقوام پر تسلط كا رنگ ڈھنگ بھى پيدا ہوگيا _ اسى دور كے آغاز سے ہى محققين نے اپنے موضوع مطالعہ سرزمينوں كے بارے ميں حقائق پر مبنى دقيق تصوير اپنى حكومتوں كو پيش كى _ تاكہ وہ حكومتيں ان تحقيقات اور تجزيات كى بناء پر ان مشرقى معاشروں اور تہذيب سے ٹكرائيں اور ان پر تسلط پاتے ہوئے انكے زرخيز منابع اور سرچشمے لوٹ ليں _(۳)

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۱۳۱_ فواد زكريا ، نقد الاستشراق وازمة الثقافة العربيہ المعاصرة ، دراسة فى المنہج ، مجلہ فكر للدراسات والابحاث ، ش ۱۰ ، ۱۹۸۶ ، ص ۴۷_ ۳۵_

۲) نصر محمد عارف ،سابقہ حوالہ ،ص ۱۳۱ ، محمود شاكر ، المتنبى رسالة فى الطريق الى ثقافتنا ، قاہرة ، كتاب الھلال ، اكتوبر ، ۱۹۷۸، ص ۹۲_

۳) نصر محمد عارف ،سابقہ حوالہ ص ۱۱۹_

۲۷۴

انيسويں صدى كے فرانسيسى ، جرمن اور انگلستانى نظريات كى تاريخ كا تجزيہ كريں تو مغرب كے اقتصادى اور جغرافيائي توسيع پسندى پر مشتمل رجحانات كا آغاز اور معاشرہ شناسى ميں جديد نظريات كے ظہور كے درميان واضح وابستگى نماياں محسوس ہوتى ہے_ اسطرح سماجيات كى جديد شاخيں محض ايسے استعمارى علوم كى صورت ميں سامنے آتى ہيں كہ جو محكوم اور ماتحت اقوام كے مفادات سے قطع نظر محض استعمار ى حكومتوں كى خدمت كرتى ہيں _(۱)

بيسويں صدى ميں بھى مشرق شناسى دو صورتوں كے ذريعے مغرب كے دنيا پر تسلط ميں اپنا كردا ادا كرتى تھى :

الف _ علم ودانش كے حصول اوراسكے پھيلاؤ كے ليے جديد ذرائع اور وسائل سے فائدہ اٹھانا مثلاً اسكول، يونيورسٹياں اور ذرائع ابلاغ وغيرہ _ تاكہ اہل مشرق كے افكار اورعقليت كو نئے سرے سے تيار كياجائے اور انہيں اس انداز سے مغربى تہذيب ميں مخلوط كياجائے تاكہ مشرق والے اپنے آپ كو فكر و تدبير ميں اہل مغرب كى مانند سمجھيں اور انكى اقدار كو اپناليں _

ب)_ بعض مشرق شناس لوگوں كا علمى محدوديت اور تھيورى كى حدود سے نكلنا اور عملى ميدان ميں داخل ہونا تاكہ يورپى حكومتوں كے ديگر ممالك پر تسلط كے اہداف كو عملى جامہ پہنايا جائے_(۲)

اسطرح جديد مطالعات سياسى اہداف كے پيش نظر انجام پائے ہيں اور غير علمى سرگرميوں سے بھى فائدہ اٹھايا گيا ہے اگرچہ اس مشرق شناسى كے بعض نتائج مفيد بھى تھے ، انہوں نے اس ذريعے سے مشرقى سرزمينوں كے بہت زيادہ حد تك اہم حقائق كو دريافت كرليا تھا ليكن ان حقائق كا رخ كبھى بھى خالص علمى مقاصد كے حصول كيلئے نہ رہا _(۳)

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۱۳۲_

۲) احمد ابوزيد ''لااستشراق والمستشرقون'' در مجلہ عالم الكفر،كويت ص ۸۶ _ ۸۵_

۳) محمد محمد امزيان ، منہج البحث الاجتماعى ، بين الوضيعة والمعيارية ،حيرندن ، فير جنيا، امريكہ ص ۱۵۰_

۲۷۵

لہذا مشرق شناسى كو مشرق و مغرب كے عمومى تصادم كے تناظر ميں محورتجزيہ قرار دينا چاہئے كيونكہ كہ يہ مشرق شناسى ايسى گفتگو ہے كہ جو اہل مغرب نے مشرقيوں بالخصوص مسلمانوں كو محور قرار ديتے ہوئے شروع كى _(۱)

اسى لئے يہ ايك قدرتى بات ہے كہ اس موضوع پر بعض مشرقى دانشور حصرات تنقيد كريں البتہ انكى سخت تنقيد صرف مغربى مشرق شناس لوگوں كيلئے نہيں ہے بلكہ اس تنقيد كے دائرہ ميں وہ مشرقى لوگ بھى ہيں كہ جو مغرب كى طرف رجحان ركھتے ہيں اور انكے نظريات پر عمل كرنے كيلئے انہيں اپنے مطالعات سے مطابقت ديتے ہيں(۲)

بعض معترضين اور اہل تنقيد نے واضح طور پر كہاہے كہ يہ مشرق شناس اسلام كے بارے ميں بات كرنے كى صلاحيت نہيں ركھتے كيونكہ انكى نظر كے مطابق يہ مشرق شناس ايك علمى تجزيہ كيلئے ضرورى غير جانبدارى كا كوئي بھى معيار نہيں ركھتے _ انكى مسلمانوں كے خلاف صليبى جنگوں ، پيغمبر اسلام (ص) پر تہمتوں ، معنويت اور وحى كے انكار سے بھرى ہوئي تاريخ ، عربى زبان سے ناآگاہى اور مسلمانوں كے مخالف يہوديوں كى حمايت كرنا يہ سب انكى غير جانبدارى كو مشكوك اور مخدوش كررہاہے_(۳)

البتہ ان لوگوں كى مشرق شناسى پر تنقيد ، انكے نقائص اور خاص جہات كى طرف انكى جانبدارى كا اعتراض صرف مشرقى دانشوروں كى حد تك منحصر نہيں رہا بلكہ خود مغربى دانشوروں اور مشرق شناسوں نے بھى يہى راستہ اختيار كيا اور تنقيد كى _

____________________

۱) محمد اركون وآخرون ، الاستشراق بين دعاتہ ومعارضيہ ،ترجمہ ہاشم صالح ، دارالساقى ، بيروت ص ۷_

۲) آركون وآخرون،سابقہ حوالہ ص ۱۸۹_

۳)سابقہ حوالہ ص ۱۹۰_ بانقل از جريدة النور ، ۱۰/۱۰/۱۹۸۴ ، ص ۱۰_

۲۷۶

ايونزبريچرڈ كى رائے ہے كہ مشرق شناسى استعمار ى حكومتوں كى خادم رہى ہے ،وہ اس نكتہ كى طرف اشارہ كرتے ہيں كہ اگر استعمار ى حكومتوں كى پاليسى يہ ہے كہ سرداروں اور حكام طبقہ كے ذريعہ اپنے استعمار شدہ علاقوں پر حكومت جارى ركھيں تو اس مقصد كے پيش نظر بہتر يہى تھا كہ ان مشرقى معاشروں ميں انكے سرداروں اور مخصوص فعال افراد سے آگاہ ہوں اور معاشرہ ميں انكى طاقت كى مقدار اور ان اختيارات كو پہچانا جائے كہ جس سے وہ بہرہ مند ہيں كيونكہ اگر ہمارا مقصد يہ ہے كہ ہم ايك سرزمين پر انكے علاقائي قوانين اور رسم و رواج كے مطابق حكومت كريں تو ضرورى ہے كہ پہلے ان قوانين كى نوعيت جاننى چاہئے _(۱)

ميكسم روڈنسن(۲) جو كہ بذات خود مشرق شناسى كے حوالے سے ايك معروف شخصيت ہيں ، وہ اسلامى اصولوں كے بارے ميں ہارٹ مين اور ليون كيٹين كے طرز عمل اور تحرير كى طرف اشارہ كرتے ہيں اور بتاتے ہيں كہ ان دو افراد نے اسلام اور اس كى تاريخ كا تجزيہ كرتے ہوئے محض اقتصادى مسئلہ كو محور قرار ديا ہے اور اسى پر اپنى آراء ديں _ روڈ نسن، ان دونوں كے نظريات پر تنقيد كرتے ہوئے ان نظريات اور آراء كو اس زمانہ ميں موجود اور حالات سے متاثر شدہ قرار ديتے ہيں _ نيز وہ اس بارے ميں ديگر دانشوروں كى تحقيقات ، فعاليت كى طرف اشارہ كرتے ہوئے انكے نتائج كو تباہ كن سے توصيف كرتے ہيں _(۳)

روڈنسن يورپ ميں مشرق شناسوں كے موضوع اور محور پر تنقيد كرتے ہوئے اس نتيجہ پر پہنچتے ہيں كہ انيسويں صدى اور بيسويں صدى كے اوائل ميں كلاسيك مشرق شناسى اس دور كے افكار ونظريات كى پيروى كررہى تھى كہ جو يورپ كے حالات چھائے ہوئے تھے اور انكى اساس مركزى يورپ اورآئيڈيالزم تھا_(۴)

____________________

۱) ايفانزبريتشارد ، الانثروپولو جيا الاجتماعية ، ترجمہ احمد ابوزيد ، قاہرہ ، ص ۱۶۲ با نقل از امزيان ص ۱۴۹_

۲- Maxime Rodinson

۳) ماكسيم روڈنسون ، الدراسات العربية والاسلامية فى اوروبا ، دراكون وديگران، ص ۴۸_

۴) سابقہ حوالہ ص ص ۵۰_ ۴۹_

۲۷۷

البتہ روڈنسن ان تمام نقائص كو شمار كرنے كے ساتھ ساتھ يہ نظريہ بھى ركھتے ہيں كہ اس ذريعے سے جو بہت سى معلومات ملى ہيں انكى اہميت كو نظر انداز نہيں كياجاسكتا اور ان بہت سى مفيد معلومات كے ذخيرے كا انكار نہيں كياجاسكتا _ روڈنسن كے بقول آج ہم انكى معلومات كے ذريعے ايسے مطالب تك پہنچ گئے ہيں كہ اس دور كے محققين ان سے بے خبر تھے_(۱)

اسلامى دنيا ميں مشرق شناسى پر تنقيد كے حوالے سے دو بنيادى اوركليدى نكات پائے جاتے ہيں ;

ايك كا تعلق مصرى مصنف انور عبدالملك كے مقالہ ''مشرق شناسى بحران ميں '' سے ہے يہ مقالہ ۱۹۶۳ ء ميں فرانس ميں نشر ہوا اور دوسراايڈورڈ سعيد كى كتاب ''مشرق شناسي'' سے تعلق ركھتا ہے كہ جو ۱۹۸۷ء ميں نشر ہوئي _(۲)

انور عبدالملك كى نگاہ ميں يورپى سياحوں اور عيسائي مبلغين كى اسلام كے بارے ميں آراء جو مشرق شناسى كے اہم ماخذات ميں شمار ہوتى ہيں ،وہ اسلامى عقائد ونظريات كے خلاف ہيں اور سخت كينہ توز، جھوٹى ، جعلى اور تحريف شدہ ہيں _(۳)

انور عبدالملك نے مشرق شناسى كے مطالعات پر اپنى تنقيد ميں انتہائي دقت كے ساتھ اس مسئلہ پر گفتگو كى ہے كہ مشرق شناسوں نے قابل اطمينان حد تك اپنى ہم عصر مشرقى اقوام كے بارے ميں كام نہيں كيا _ عبدالملك كى نگاہ ميں اسكى وجہ مشرق شناسوں كا مشرق كى جديد تاريخ ميں تحقيق سے فرار تھا_ كيونكہ اس دور ميں استعماريت كى بناء پر وہ ہميشہ ان اقوام ميں مغرب اور اہل مغرب سے دشمنى جيسے حقائق كا سامنا كر رہے تھے_(۴)

____________________

۱)سابقہ حوالہ ص ۵_

۲)سابقہ حوالہ ص ۷_ انورعبدالملك ،الاستشراق فى ازمة، الفكر العربى ، ۱۹۸۳_ ش ۳۱ ص ۱۰۶ _ ۷۰، ايڈورڈسعيد ،الاستشراق ، ترجمہ كمال ابوديہب بيروت ،۱۹۸۱_

۳)انور عبدالملك ،سابقہ حوالہ ص ۷۷_۷۶_

۴) سابقہ حوالہ ، مختلف جگہ سے ہے ، محمد اركون وآخرون ، سابقہ حوالہ،ص ۳۶_

۲۷۸

بہت زيادہ اہميت كا حامل ايك اور نكتہ يہ ہے كہ اٹھارہويں ، نويں اور بيسويں صدى ميں اكثر مشرق شناس اپنى حكومت كى وزارت خارجہ كے ملازمين كى حيثيت سے استعمار شدہ ، سرزمينوں پر كام كر رہے تھے_ اس حوالے سے فرانس كے معروف مشرق شناس ارنسٹ رينن كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے جو فرانسيسى استعمار كيلئے پروگرام بنانے والوں ميں سے شمار ہوتا تھا_(۱)

مشرق شناسى پر اعتراض وتنقيد كے حوالے سے ان بنيادوں كى طرف اشارہ كياجاسكتا ہے كہ جن پر مشرق شناسى قائم ہوتى ہے ان ستونوں ميں سے چند يہ ہيں _:

۱) يورپى عيسائيت كو ديگر اديان كيلئے ايك معيار سمجھنا اور وہ اسطرح كہ اگر ديگر اديان دين عيسائيت كے اساسى مسائل كے ساتھ ہم آہنگ اور مطابقت نہ ركھتے ہوں تو انہيں رد كرديا جائے گا_ان اديان كى قبوليت كا معيار صرف يہ ہے كہ يہ يورپ ميں رائج عيسائيت كے ساتھ مطابقت كريں _

۲)_ مشرقى معاشروں كا تجزيہ وتحليل ان متضاد معياروں اور نكات كى رو سے كہ جو خود يورپيوں كے تجربات كى بناء پر جمع ہوئے ہيں _

۳)_ نسلى اور قومى تعصب كے ساتھ نگاہ ، يعنى عالم بشر كو دو گروہوں ''ہم '' اور ''دوسرے'' ميں تقسيم كرنا اور دنيا كى اقوام كو بلند اقوام اور حقير اقوام كے معيار سے تقسيم كرنا _

اس ترتيب سے مشرق شناس لوگ يورپيوں كى خصوصيات ميں انہيں تمدن ساز اور صاحبان ايجادات سے ياد كرتے ہيں ،جبكہ سامى اور عرب انكى نگاہ و تحقيق ميں فكر و آراء كے اعتبار سے سطحى ذہن ركھنے والے ہيں _

۴)_ يورپى تجربہ كو عالم بشريت ميں انقلاب كيلئے قابل عمل معيار سمجھنا اور پورى دنيا كى تاريخ كو يورپ كى تاريخ كى اساس اور يورپ كے دريچہ سے ديكھنا_

____________________

۱) احمد سمايلو فتش ،سابقہ حوالہ ص ۱۲۴_

۲۷۹

۵) مشرق كے بارے ميں تجزيہ كرتے ہوئے انتہائي سادگى اور متضاد رويے كا مظاہرہ كرنا كہ جو كچھ بھى يورپ كے علاوہ تھا اسے مشرق سے ربط دينا اور يورپ سے مشابہ قرار دينا اور ان خيالات كے گوناگون مجموعات پر مشرق كے نام كا اطلاق كرنا_(۱)

مجموعى طور پر مشرق شناسوں اور استعمار ميں وابستگى اور مشرق شناسوں كے استعمار گر حكومتوں كى خدمت كرنے كو ''ايلن رشين '' كے نظر كے مطابق مندرجہ ذيل صورت ميں واضح كيا جاسكتا ہے _

بعض مشرق شناس مشرقى ممالك اور اقوام كے بارے ميں مطالعہ كرتے ہيں اور انكى ايك تصوير پيش كرتے ہيں پھر اس تصوير كو ديكھتے ہوئے استعمار گر حكومتوں كو راہنمائي اور نصيحت كرتے ہيں تاكہ وہ مشرقى ممالك پر اپنے تسلط اور حكومت كو جارى ركھيں _

عہد حاضر كا مشرق شناس بھى اگر كوشش كرے كہ مشرقى ممالك اور اقوام كے بارے ميں ايك حقيقى تصوير كشى كرے پھر بھى وہ اس قسم كى تصوير كو پيش كركے استعمار ى ممالك كى خدمت كر ے گا _

____________________

۱) نصر محمد عارف ،سابقہ حوالہ ،ص ۱۲۵_۱۲۱_

۲۸۰