اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 0%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف: ڈاكٹر على اكبر ولايتي
زمرہ جات:

صفحے: 375
مشاہدے: 126600
ڈاؤنلوڈ: 3236

تبصرے:

اسلامى تہذيب و ثقافت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 126600 / ڈاؤنلوڈ: 3236
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

خمينى (رہ) جسطرح كہ جداگانہ اسلامى تشخص كو زندہ كرنے كے در پے تھے جديديت اور ترقى بھى انكى بحث و گفتگو ميں ايك خاص مقام كى حامل تھي_ ايسى ترقى كہ جو اسلامى تشخص كى حد بندى ميں تعريف ہوتى ہو_ امام كا سياسى نظريہ صرف اسلامى قالب اور صورت ميں پيش كيا گيا تھا اسى وجہ سے عالم اسلام ميں اسلام پسند تنظيموں اور تحريكوں ميں امام خمينى نے ايك خاص مقام اور ممتاز حيثيت پائي_(۱)

ايران ميں امام خمينى كى رہبرى ميں اسلامى انقلاب عالم اسلام ميں بہت سى اسلامى تحريكوں كے وجود ميں آنے اور بعض كى تقويت كا باعث بنا_

قوم پرستي، نيشنلزم اور لائيسزم كے زوال سے دنيائے اسلام ميں اسلام پسندوں كو قوت بڑھانے كا موقع ملا_ اسلامى انقلاب اور امام خمينى (رہ) كے افكار نے بھى انہيں بہت متاثر كيا ،عرب دنيا ميں اسلامى بيدارى كى تحريك كے قائدين ميں سيدقطب كے افكار كسى حد تك امام (رہ) كے نظريات كے قريب تھے_ آيت اللہ خمينى (رہ) اور سيدقطب دونوں كى نظر ميں تمام مسائل كا حل اسلام كى فہم اور سمجھ بوجھ ميں تھا_ اور دونوں دنيا كو تقابل كى صورت ميں يعنى ''ہم ''اور ''وہ ''كى صورت ميں ملاحظہ كرتے تھے_ آيت اللہ خميني(رہ) نے اس تقابل كے دونوں كناروں كو ''مستكبر ''اور '' مستضعف'' سے تعبير كيا جبكہ سيد قطب نے انہيں جاہليت اور اسلام سے تعبير كيا_ دونوں نے دنيا كے وہ مقامات جہاں اسلامى نظام حكومت موجود نہيں ہے ( ہم يہاں يہ بھى اضافہ كريں گے كہ وہ جگہ جہاں دينى طور و اطوار رائج نہيں ہے) وہ جاہليت اور استكبار كا مقام ہے_(۲)

امام اور سيد قطب جيسے مفكرين كى نظر ميں اسلام دين بھى ہے اور حكومت بھى ،لہذا مغرب كى اقدار اور رويّے اسلامى اقدار سے ہم آہنگ نہيں ہوسكتے_

____________________

۱) بابى سعيد، ہراس بنيادين، ص ۱۰۵، ۱۰۹ نيز:

JohnL. Esposito ، The Iranian Revolution: Its Global ، Miami: Florida ، International University Press ، pp. ۱۲-۱۳

۲) فرہنگ رجالي، پديدہ جہانى شدن وضعيت بشرى و تمدن اطلاعاتي، ترجمہ عبدالحسين آذرنگ نشر آگاہ ، ۱۳۸۰، ص ۶۹_

۳۰۱

۲_ ايران ميں اسلامى بيداري

تاريخ ايران ميں آخرى دوصدياں سياسي، اقتصادي، معاشرتى اور دينى سطح پر مختلف تغيرات اور تبديليوں كى بناپر_اہم ادوار ميں سے شمار ہوتى ہيں يہ دور كہ جسے '' تاريخ معاصر ايران'' كے عنوان سے شہرت حاصل ہوئي ايران ميں قاجاريہ سلسلہ حكومت كے آغاز سے شروع ہوا_

ايسى حالت ميں جبكہ قاجار خاندان مملكت ايران پر پرانے رسم و رواج كے تحت بغير لوگوں كى رائے اور شراكت كے اپنى آخرى قبايلى حكومت كو مستحكم كرنے ميں لگے ہوئے تھے دنيا كے ايك اوركو نے ميں فرانس كا عظيم انقلاب آچكا تھاااور وہ لوگ نئے افكار اور نظام سے لوگوں كو متعارف كروا رہے تھے ،جسكى سب سے اہم خصوصيت سياسى طاقت كى مركزيت ايك فرد كى آمرانہ حكومت كے نظام سے ہٹاتے ہوئے جمہوريت اور ڈيموكريسى كى صورت ميں لانا تھا_

اس حساس دور ميں قاجارى ايك دھائي تك تخت و تاج پر قبضہ كرنے كى كشمكش كے بعد بھى كوئي نيا نظام سامنے نہ لاسكے بلكہ انہوں نے اسى انداز سے اپنى مرضى اور ارادہ كو ان حالات پر مسلط كيا اور حكومتى عہدوں كو اپنے افراد ميں تقسيم كرديا اور حكومت اسى طرح بادشاہى نظام ميں آمرانہ بنيادوں پر جارى رہي_(۱) اقتصادى حوالے سے حكومت سابقہ ادوار كى مانند سب سے بڑى حيثيت كى مالك تھى ،لوگوں كى اقتصادى اور معاشرتى زندگى كى باگ دوڑ حكومت كے پاس تھى اوردر آمدات كے ذخائر ميں بادشاہ لا محدود حقوق كامالك تھا اسى طرح اسكے زير حكومت سرزمين كے افراد كى جان و مال سب عملى طور پر اسكى مرضى اور منشاكے تحت تھے_(۲)

ايران يورپ سے اگر چہ دور تھا جو طاقتور ممالك كى رقابتوں كا مركز تھا ليكن انگريزوں كے ما تحت ہندوستان كى ہمسايگى كى وجہ سے اور يہ كہ ايران ہندوستان پر تسلط كيلئے بہترين تزويرى محل وقوع كا حامل

____________________

۱) ويلم فلور، جستارہايى از تاريخ اجتماعى ايران در عصر قاجار، ترجمہ ابوالقاسم سرى تہران، توس، ج ۲ ، ص ۲۰_

۲) احمد سيف، اقتصاد ايران در قرن نوزدہم ، تہران ، نشر چشمہ ۱۳۷۳، ص ۴۹_

۳۰۲

تھا (وہ ہندوستان جودنيا ميں انگلستان كى سياست ، اقتصاد اور طاقت كا سرچشمہ تھا) فتح على شاہ قاجار كے زمانہ سے ايكدم استعمارى ممالك كى توجہ كا مركزبن گيا_ ديگر ممالك سے ايران كے خارجہ تعلقات كے سلسلے ميں نہ چاہتے ہوئے بھى كسى طرح سے روس، فرانس اور انگلستان بھى داخل ہوگئے اورايرانى حكومت اور معاشرتى نظام ميں كمزوريوں كے باعث ان ممالك سے روابط غير متوازن ہوگئے كہ جسكا نتيجہ استعمارى معاہدوں كو مسلط كرنا اور مملكت ايران كے شمال اور مشرق ميں اہم علاقوں كا اس سے جدا ہونے كى صورت ميں نكلا_

بڑى طاقتوں بالخصوص روس اور انگلينڈ كے مقابلے ميں ايران كى شكست سے بتدريج سب سے پہلے مروجہ سياسى نظام اور پھر معاشرتى سطح پر غير رسمى نظام ميں اہم تبديلياں پيدا ہوئيں ،يہ اہم تبديلياں مندرجہ ذيل ہيں :اصلاحات كا حتمى طور پر عسكرى اور صنعتى شعبوں ميں جارى ہونا اور پھر ديگر شعبوں بالخصوص سياسى سطح پر جارى ہونا ،اسى طرح اسلام اور دين كى اساس كى حفاظت كيلئے اسلامى بيدارى كے احساسات كا ظاہر ہونا اور اندرونى آمريت كامقابلہ كيا جانا اور غير ملكى استعمارگروں سے سامنا كى صورت ميں قاعدہ ''نفى سبيل ''كا استعمال ميں لانا ہمارا اس تحرير ميں ہدف يہ ہے كہ تاريخ معاصر ايران ميں اسلامى بيدارى اور اسكے نشيب و فراز كا تجزيہ كيا جائے_

قاجارى حكومت كے اوائل ميں ايرانى معاشرہ ميں مذہبى قوتوں بالخصوص مراجع تقليد كا ہميشہ كيلئے مذہبى قائدين كے عنوان سے سامنے آنے كے اسباب فراہم ہوچكے تھے نيز شيعہ علمى و دينى مراكزميں اہم تبديلى رونما ہوچكى تھى ، يہ تبديلى مجتہدين كى محدثين پر فتح با الفاظ ديگر اجتہادى اور اصولى روش كا حديثى اور اخبارى روش پر غلبہ تھا(۱) اجتہادى مكتب كو زندہ كرنے كے ليے وحيد بہبہانى كى كوششوں كى اہميت يہ تھى كہ انہوں نے ايسے شاگردوں كى تربيت كى كہ جنہوں نے ا سلامى بيدارى كى تحريك ميں اہم كردار ادا كيا_ مثلا كاشف الغطاء ملا مہدى اور ملا احمد نراقي_(۲)

____________________

۱) آقا احمد كرمانشاہي، مرآت الاحوال جہانما، بہ تصحيح و اہتمام على دوانى ، تہران ، مركز اسناد انقلاب اسلامى ، ۱۳۷۵، ص ۱۱۰_

۲) روح اللہ حسنيان ، چہاردہ قرن تلاش شيعہ براى ماندن و توسعہ، تہران، مركز اسناد انقلاب اسلامي، ج دوم ۱۳۸۲، ص ۱۹۵_ ۱۹۴_

۳۰۳

متعدد تاليفات اور بنيادى امور جنہيں اسلامى بيدارى اور اصولى مكتب كے فكرى مقدمات كى حيثيت حاصل تھى _ طے كرنے كے بعد عملى مرحلہ شروع ہوا اس زمانہ ميں شيعہ علماء كو '' بيرونى استعمار '' كے عنصر كا سامنا كرنا پڑا_ علماء نے ان بيرونى تسلط پسندوں كے مد مقابل فقہى قانون'' نفى سبيل'' كا سہارا ليتے ہوئے محاذقائم كيا_ اس فقہى قانوں كى اساس يہ قرآنى آيت ہے'' لن يجعل اللہ للكافرين على المومنين سبيلاً''(۱) يہ آيت مسلمانوں پر كفار كے تسلط كى نفى كر رہى ہے_ جديد شيعہ انقلابى نظريہ ميں ايسى تعابيركہ جو آرام و سكون اور تسليم و پسپائي كى طرف دعوت ديتى تھيں انہيں ترك كرديا گيا اور انكى جگہ مبارزانہ اور انقلاب پسند جذبات نے لے لي_(۲)

فتحعلى شاہ قاجار كے زمانہ ميں ايران اور روس كے درميان جنگوں ميں ايران كى شكست كے بعد روس كا ايران كے ايك وسيع علاقہ پر قابض ہونے پر اصول پسند علماء كى طرف رد عمل كا اظہار تاريخ معاصر ايران ميں اصولى علماء كى طرف سے پہلى عملى مد اخلت شمار ہوتى ہے_

علماء نے روس كے ساتھ جنگ كوجہاد كا عنوان ديا_ كہا جاتا ہے كہ ايران و روس كے درميان جنگوں سے قبل بھى جہاد كے افكار ايرانى معاشرہ ميں موجود تھے ايران كے ساتھ دفاعى قرار دادوں كے باوجود انگريزوں اور فرانسيسيوں كا ايران پر روس كے حملے كے دوران ايران كى حمايت نہ كرنا اور روس سے ايران كى شكست كے بعد حكومت قاجاريہ اس نتيجہ پر پہنچى كہ مسلمانوں كى سرزمين سے روسى افواج كو دھكيلنے كے ليے علماء شيعہ كى مدد ليے بغير چارہ نہيں ہے ،ميزرا عيسى فراہانى كہ جسے قائم مقام اول كا لقب دياگيا تھا نے اس مسئلہ ميں فتوى حاصل كرنے كيلئے علماء كى حمايت اور تعاون حاصل كرنے كى ذمہ دارى اپنے كندھوں پر لى ،كچھ مدت كے بعد مقدس مقامات ا ور ايران كے دوسرے شہروں سے بہت سے فتاوى اور جہادى رسالے سامنے آنے لگے جو

____________________

۱) نساء ،آيت ۱۴۱_

۲) يداللہ ہنرى لطيف پور ، فرہنگ سياسى شيعہ و انقلاب اسلامي، تہران، مركز اسناد انقلاب اسلامى ،ج ۲، ص ۱۰۷_

۳۰۴

سب روسى كفار كے مقابلے ميں جہاد كے وجوب پر تاكيد كرتے تھے ميرزا عيسى قائم مقام نے ان سب كو جمع كرنے كے بعد ''جہاديہ ''كے عنوان سے انكى اشاعت كي_(۱)

علماء شيعہ كى طرف سے فورى رد عمل بتارہا تھا كہ اصولى مكتب كے علماء كا اسلامى بيدارى كے احساسات كو زندہ كرنے ميں ميلان اور سياست ميں انكى مداخلت ہر روز بڑھ رہى تھى ،كم از كم ايران و روس ميں جنگوں كے دوسرے دور تك فتحعلى شاہ كى مذہبى سياست يعنى علماء حضرات كى حمايت و تعاون كا حصول اور انہيں ايرانى معاشرے ميں كردار اداكرنے كى دعوت اس طبقے (علما) كے معاشرے ميں بھر پور مقام كا باعث بني_(۲)

ايران و روس ميں جنگوں كے پہلے دور ميں مذہبى قوتوں سے زيادہ تعاون حاصل نہيں كيا گيا تھا ليكن يہ بات واضح ہوگئي تھى كہ يہ مذہبى طبقہ مسلمان مملكت كے دفاع ميں اہم موثر كردار ادا كرسكتا ہے_ البتہ فقط علماء كا كردار و عمل مكمل كاميابى كى ضمانت نہيں تھا بلكہ اس طبقہ كى سعى اس وقت نتيجہ خيز تھى كہ جب جنگ كے حوالے سے تمام متعلقہ ادارے اور شعبے اپنى ذمہ داريوں پر درست عمل كرتے _ ايران و روس كى پہلى اور دوسرى جنگ كے درميانى فاصلہ ميں كئي ايسے مسائل پيدا ہوئے كہ جنكى بناء پر اصولى علماء دوبارہ ميدان جنگ ميں روسيوں كے مد مقابل آگئے_

گريبايدوف كا قتل جو كہ بظاہر لوگوں كے مذہبى رد عمل كا نتيجہ تھا اورروس كے زير تسلط سرزمينوں ميں شيعہ و سنى علماء كے زير قيادت اسى قيام كا تسلسل مثلا قاضى ملا محمد كا شيعہ و سنى اتحاد كے نعرے كے ساتھ ۱۲۴۸ قمرى تك قيام اور شيخ شامل داغستانى كا ۱۲۹۲ قمرى تك كا قيام و غيرہ يہ سب در حقيقت وہى اسلامى بيدارى كاہى تسلسل تھا(۳)

____________________

۱) ميرزا عيسى قائم مقام فراہانى ، احكام الجہاد و اسباب الرّشاد ،باسعى غلام حسين زرگرى ناد، تہران، قبعہ ،ص ۶_۷۵_

۲) حامد الگار،دين و دولت در ايران، ترجمہ ابوالقاسم سرّي، تہران، توس، ج ۲ ، ص ۹۷_ ۸۷ _

۳) حسين آباديان ، روايت ايرانى جنگہاى ايران و روس ، تہران ، مركز اسناد و تاريخ ديپلماسى ،ص ۱۱۰_

۳۰۵

۱۳۴۳ قمرى ميں ايران وروس كے درميان جنگوں كے اختتام سے ليكر تنباكو كى تحريك تك كے درميانى عرصہ ميں احياء شدہ نظر و فكر اور اسلامى بيدارى كى تحريك بظاہر سست اور ٹھہراؤ كا شكار ہوگئي _ ليكن ان سب كے باوجود ايرانى شيعوں كى اپنى شيعہ تہذيب كے مفاہيم اورتعلميات كے بارے ميں فہم ميں ٹھہراؤ نہ رہا بلكہ وہ روز بروز تغيير و تبديلى محسوس كر رہے تھے_ اسكى سب سے بڑى مثال اصفہان ميں اس زمانہ كے سب سے بڑے عالم سيد محمد باقر شفتى كى روز بروز محمد شاہ كى حكومت سے بڑھتى ہوتى مخالفت تھى انہوں نے زندگى كے آخرى لمحات تك محمد شاہ كى حكومت پر اعتماد نہيں كيا تھا_مركزى حكومت سے يہ ٹكراؤ بتاتا ہے كہ اجتہادى مكتب كسى صورت ميں بھى بادشاہت كے سامنے سر تسليم خم كرنے كے ليے تيار نہيں ہے_(۱)

اجتہاد ى مكتب كے محور پرشيعہ عقائد كے ارتقا كا سفر بيدارى كى تحريك كى پيشرفت ميں بہت زيادہ اثرات كا حامل تھا_ اگر چہ ايران و ورس كى جنگوں سے ليكر تنباكو كى تحريك تك كے درميانى عرصہ ميں ہم دينى قوتوں ميں ٹھراؤ اور سكون كى كيفيت كا مشاہدہ كرتے ہيں ليكن يہ ظاہرى كيفيت ہے باطن ميں اصلاح طلب اور دينى فكر كے احياء كى يہ تحريك آئندہ اقدامات كيلئے تيارى كے مراحل سے گزرہى تھي_ كيونكہ اس تيارى كے بغير وہ بعد والے مسائل مثلا تنباكو كى تحريك اور مشروطيت پسندى اورديگر مسائل ميں وسيع پيمانے پر سياسى معاشرتى اور مذہبى يعنى تمام جوانب سے تحريك اور جوش و خروش نہيں پيدا كرسكتى تھي_

اس درميانى دور ميں اجتہادى مكتب كے ٹھراؤ اور جمود كى ايك وجہ اندرونى اور بيرونى مخالفين كا رد عمل بھى تھا يہ رد عمل صوفيت ، بابيت، شيخيت اور اخبارى رحجان جيسے باطل اور فاسد مكاتب كى ترويج كى صورت ميں ظاہر ہوا ،ان سب مسائل اور تحريكوں كے پس پردہ استعمار بالخصوص انگريزوں كے خفيہ ہاتھ اپنا كام دكھا رہے تھے نيز اجتہادى مكتب كى ترقى كى راہ ميں ايك اور ركاوٹ لادينى اور الحادى افكار و عقايد كى نشر و اشاعت تھى با بالفاظ ديگر سكولاريزم اور فرى ميسن ( freemason ) كى وسيع پيمانہ پر ترويج تھي_

____________________

۱) انديشہ دينى و جنبش ضد ريم در ايران، تہران ،موسسہ مطالعات تاريخ معاصر ايران ،ص ۴۵_

۳۰۶

اس دور ميں دينى قوتوں كى ايك ذمہ دارى '' قاعدہ نفى سبيل'' كى بناء پر استعمار سے جنگ اور فرقہ سازى كا مقابلہ كرنا تھا_ كيونكہ استعمارى پاليسيوں نے شيعوں كے درميان تفرقہ اور انتشارڈالنے كيلے فرقہ سازى كى مہم شروع كردى تھى مثلا صوفى مسلك شيخ احمد احسايى كے شاگرد سيد كاظم رشتى كے ذريعے شيخى فرقہ كا بنانا اور سيد كاظم رشتى كے شاگرد على محمد باب كے ذريعے فرقہ بابيہ كا بنايا جايا اسى استعمارى اہداف كى تكميل تھى _ يہ فرقہ بابيہ وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ دو شاخوں ازليہ ( يحيى صبح ازل كے پيروكاروں ) اور بہائيہ ( ميرزا حسين على بہاء كے پيروكاروں ) ميں تقسيم ہوا روسى استعمار نے ازليہ اور انگلستان كے استعمار نے بہائيہ كى حمايت كى اور ان فرقوں كو اپنے آغوش ميں پرورش دى اور ا نكى نشر و اشاعت كا انتظام كيا_(۱)

اگر چہ حاجى ميرزا آقاسى كى صدارت كے دور ميں صوفيوں كے امور كى طرف جھكاؤ نظر آيااورمحمد شاہ قاجار نے بھى اس پر اپنى رضامندى دكھائي تھى _ ليكن ميرزا تقى خان امير كبير كى صدارت كے دور ميں صوفى و درويش مسلك عناصر كو حكومت و سلطنت سے مربوط محافل اور اداروں سے نكال ديا گيا اور بدعات و خرافات كا قلع قمع كيا گيا_ گوشہ نشينى اور خانقاہوں كى رسم ختم كردى گئي_ نيز مذہبى بانفوذ شخصيات مثلا ميرزا ابوالقاسم جو كہ امام جمعہ تھے ،كى سفارش قبول كرنے سے پرہيز كيا گيا وہ (امير كبير) فقط اس بات پر تاكيد كرتے تھے كہ علماء دين دينى اور شرعى امور ميں قوت و طاقت سے فعاليت انجام ديں اور دين كو كمزور پڑنے كاموقع نہ ديں ليكن اس سياست كے ساتھ ساتھ وہ اس بات كا بھى خيال ركھتے تھے كہ استعمار كى فرقہ سازى اور انہيں نشر و اشاعت دينے والى سياست كى بھى روك تھام كريں ، اس حوالے سے سب سے واضح مثال فتنہ بابيہ كے مقابلے ميں انكا علماء كى حمايت كرنا_ قضاوت كے امور ميں بھى انھوں نے شرعى اور عرفى قوانين كى تركيب اور امتزاج كيلئے اقدامات انجام دے اور اقليتوں كے حقوق اور انكى دينى آزادى كے حوالے سے بھى خاص توجہ كي(۲)

____________________

۱) موسى نجفى و موسى فقيہ حقالي، تاريخ تحولات سياسى ايران، بررسى مؤلفہ ہاى دين ، حاكميت ، مدنيت و تكوين دولت _ ملت در گسترہ ہويت ملى ايران ، تہران، موسسہ مطالعات تاريخ معاصر ايران ،ص ۱۱۹_۱۱۸_

۲) دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۱۰، ذيل امير كبير ( على اكبر ولايتي) _

۳۰۷

مجموعى طور پر اميركبير كى علماء كے كردار كو محدود كرنے والى مذہبى پاليسى نے اسلامى بيدارى كى تحريك كى اعانت كى _ انہوں نے دينى ميدانوں ميں آگاہى اور مختلف امور كے علمى اور عقلانى پہلو كو ترجيح دي، توہمات اور خرافات كا مقابلہ كيا دربارى ملاؤں كى فعاليت كو كم كيا، آئمہ جمعہ ،نظام العلماء و سلطان الذاكرين جيسے القاب والے علماء دين كے اختيارات كو كم كيا ان تمام امور كے ساتھ انہوں نے نادانستہ طور پر بتدريج اسلامى بيدارى كى تحريك كى حمايت كي_جبكہ ميرزا آقا خان نورى كى صدارت كے دور ميں معاملہ الٹ ہوگيا دربارى ملاؤں اور حكومت كى حامى اور باعتماد مذہبى قوتوں كو فعاليت كا زيادہ موقعہ ملا اور بعض علماء كى نظر مساعدت لينے كيلئے حكومتى وظيفہ بھى مقرر كيا گيا_(۱)

ميزرا حسين خان سپہسالار كے دور ميں بھى دينى اداروں كو كمزور كيا گيا اسكى مغرب زدہ اصلاحات اور غير ملكيوں كو امتيازى حيثيت دينا علماء كى مخالفت اور اعتراض كا باعث قرار پايا، سپہسالاركى اصلاحات لانے كى ايك روش يہ تھى كہ ناصر الدين شاہ كو فرنگيوں كے ملك كى طرف سفر كى ترغيب دى جائے تا كہ وہ مغربى ترقى كا مشاہدہ كرے_ چونكہ سپہسالار كى مطلوبہ اصلاحات واضح طور پر مغربى زندگى كے قوانين اور اصولوں كى تقليد پر مبنى تھيں اور بہت سے امور ميں تو يہ اصلاحات اسلامى قوانين اور شريعت كى مخالف بھى تھيں اس ليے دينى حلقے اسكے مخالف ہوگئے_

اس مخالفت كى دوسرى وجہ انگريزوں كو رويٹر كا اختيار عطا كيا جانا تھا_ علماء دين بالخصوص ملا على كنى كى نظر كے مطابق حكومت كى جانب سے اغيار كو رعايتيں اور اختيارات دينے سے انكى ايران ميں زيادہ سے زيادہ مداخلت كا راستہ ہموار ہوجاتا تھا_(۲) ناصر الدين شاہ اور سپہسالار كے فرنگستان سے واپسى سے پہلے يہ اعتراضات سامنے آئے تو انہوں نے بادشاہ سے خط كے ذريعے مطالبہ كيا كہ سپہسالار كو ايران نہ لائے_ يہ

____________________

۱) حامد الگار ، سابقہ حوالہ ،ص ۲۳۶_

۲) حسين آباديان، انديشہ دينى ضد ريم در ايران ، ص ۵۰_ ۴۹_

۳۰۸

خطوط بادشاہ كو رشت ميں موصول ہوئے ناصر الدين شاہ نے مجبوراً سپہسالار كو صدارت سے معزول كيا اور گيلان كا حاكم مقرر كيا اور اسكے بغير تہران ميں داخل ہوا(۱) كيونكہ علماء نے بادشاہ كو خبردار كيا تھا كہ سپہسالار كو معزول نہ كرنے كى صورت ميں وہ سب ايران سے چلے جائيں گے_ بادشاہ نے يہ مطالبہ تسليم كرتے ہوئے تہران ميں داخل ہونے كے بعد ملا على كنى كى زيارت كيلئے حاضر ہوا اور مراتب احترام بجالايا تا كہ علماء كى ناراضگى كم ہو ،حاج ملا على كنى كا سپہسالار سے طرز عمل قاجاريہ دور ميں دينى اداروں اور شيعہ علماء كى قاجارى حكومت كے اراكين سے طرز عمل كى تنباكو كى تحريك سے پہلے كى واضح ترين مثال تھى(۲)

سپہسالار كے حوالے سے علماء كے سخت طرز عمل كى ايك وجہ يہ بھى تھى كہ سپہسالار عدليہ كے وزير كے عنوان سے يہ كوشش كر رہا تھا كہ شرعى قاضى و مرجع كے عہدوں پر مجتھدوں كے انتخاب كا اختيار حكومت كے پاس ہو(۳) ملا على كنى كى قيادت ميں دينى قوتوں كے حكومت سے مسلسل ٹكراؤ كى وجہ سے آخر كار ويٹر كى رعايت و اختيار كولغو كرديا گيا_(۴)

حاج ملا على كنى كو اس زمانہ ميں رئيس المجتہدين كا لقب حاصل ہوا تھا وہ ان اقدامات كا مقابلہ كرتے تھے كہ جو دين ، حكومت اور لوگوں كيلئے مضرہوں وہ ايك ماہر دينى سياست دان كى حيثت سے سيكولر اور دين مخالف روشن فكر حضرات كے افكار اور اقدامات پر گہرى نظر ركھتے تھے اور انكا مقابلہ كيا كرتے تھے_ اس زمانہ ميں ايسے روشن خيال لوگوں ميں سے ملكم خان ناظم الدولہ اور فتحعلى خان آخوند زادہ كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے كہ يہ افراد بھى سپہسالار كے مذہبى پاليسى سازوں كى حيثيت سے سيكولر افكار ونظريات پيش كرتے تھے اور اقدامات انجام ديتے تھے_(۵) ميرزا ملكم خان كى بہت زيادہ كوشش تھى كہ ايك مذہبى شخصيت كے خول

____________________

۱) احمد كسروى ، تاريخ مشروطہ ايران، ج ۱، تہران، اميركبير ، ص ۱۰_

۲) محسن بہشتى سرشت، نقش علماء در سياست از مشروطہ تا ا نقراض قاجار، تہران ، پوہشكدہ امام خمينى و انقلاب اسلامي، ص ۸۱_ ۷۷_

۳) صادق زيبا كلام، سنت و مدرنيتہ، ريشہ يابى علل ناكامى اصلاحات و نوسازى سياسى در ايران عصر قاجار ، تہران ، ص ۲۹۴_ ۲۹۳_

۴) موسى نجفى ، تعامل ديانت و سياست در ايران، موسسہ مطالعات تاريخ معاصر ايران ص ۱۰۰_ ۸۹ ،ابراہيم تيمورى ، عصر بى خيرى با تاريخ امتيازات در ايران، تہران، ج جہاد ، ص ۱۱۲_ ۱۰۸_

۵) عبدالہادى حائري، تشيع و مشروطيت در ايران و نقش ايرانيان مقيم عراق، تہران، اميركبير چ دوم، ص ۴۷ _ ۴۰ ، ۲۹ _ ۲۶_

۳۰۹

ميں رہتے ہوئے اپنے جدت پر مبنى اہداف كو پيش كرے وہ عقائد اور فكرى بنيادوں كے حوالے سے مغربى مادى مكاتب كامعتقد تھا _ اگر وہ ان كو پنہان ركھتا تھا تو يہ سب مصلحت انديشى كى بناء پر تھا چونكہ اس كے يہ عقائد اور اہداف ظاہر ہونے كى صورت ميں وہ مسلمان معاشرہ سے دھتكار ديا جاتا _

وہ ۱۲۸۹ قمرى ميں تفليس ميں قيام كے دوران اپنى اخوند زادہ كے ساتھ گفتگو ميں دين كو عقل كى نابودى ، نقل كو عقل پر ترجيح دينے اور عقل كے محبوس ہونے كا سبب سمجھتا تھا _ يا اس نے لندن ميں كسى مسئلہ ميں '' ايرانى مدنيت '' كے موضوع پر تقرير كرتے ہوئے واضح كيا ہ وہ اپنے جدت پر مبنى نظريہ اور غربى تہذيب كے اقتباس كو دينى لفافہ ميں ڈال كر پيش كرے گا كيونكہ وہ اسى راہ كو فقط مسلمانوں كى ترقى كى ضمانت سمجھتا تھا كہ مسلمانوں كو فقط يہى بتايا جائے كہ مغربى ترقى كى اساس اسلامى اصولوں كے منبع سے لى گئي ہے اورمسلمان اس مغربى تہذيب ميں ڈھل كر اپنے آپ كو اور جوانكا سرمايہ تھا اسے پھرپاليں گے _(۱)

بعض لوگوں نے ملكم خان كے متضاد اقوال اور كردار كى بناء پر اسے دورو اور منافق سے تعبير كياہے_ اور وہ اسكى موقع پرستى اور خودغرضى جيسى خصلتوں كى مذمت كرتے ہيں _ ميرزا ملكم خان ايران ميں سب سے پہلا فرى ميسن تھا جس نے اس ادارہ كو تشكيل ديا(۲) لا تارى كے اختيارات عطا كرنے والے مسئلہ ميں ملكم خان كى مالى اور سياسى خيانت و رسوائي اپنے عروج كو پہنچى ،اس زمانہ ميں بعض كم فہم لوگ ان تمام دلائل كے باوجود اسكے دعووں كا فريب كھائے ہوئے تھے ليكن حاج ملا على اسكا اصل چہرہ پہچان چكے تھے لہذا انہوں نے ناصر الدين شاہ كو اپنے ايك خط ميں ملكم كے فرى ميسن ہونے اور اس كے عقائد كے خطرات سے آگاہ كرتے ہوئے اسكے وہاں سے نكالے جانے پر زور ديا(۱)

۱۳۰۶ قمرى ميں ناصرالدين شاہ نے فرنگ كى طر ف اپنے تيسرے سفر كے ضمن ميں سگر يٹ اور تمباكو كي

____________________

۱) حجت اللہ اصيل، زندگى و انديشہ اى ميرزا ملكم خان ناظم الدولہ، تہران ، ص ۸۳ _ ۸۲ _

۲) محمد مددپور، سير تفكر معاصر، تجدد و دين زدايى در انديشہ ميرزا ملكم خان ناظم الدولة ، تہران ، ص ۳۷ _ ۳۳_

۳) موسى نجفي، سابقہ ماخذ،ص ۱۰۴ _ ۱۰۰_

۳۱۰

صنعت كے اندرونى اور بيرونى معاملات كے حقوق ايك انگريز كمپنى كو عطا كرديے البتہ اس قرار داد پر دستخط ۱۳۰۸ قمرى اور ۱۸۹۰ عيسوى ميں ہوئے _چونكہ اس قرارداد كى رو سے ہزاروں كسانوں ، مزدوروں اور تاجروں كے مفادات اور ايران كا اقتصاد اغيار سے وابستہ ہو گيا تھا اس ليے يہ نقصان دہ ترين قرار دادوں ميں سے شمار ہوتى تھي_ نيز اس قرارداد كے ضمن ميں علماء كے مقام اوركردار كو ملحوظ خاطر نہ ركھا گيا تھا_

ليكن كچھ عرصہ ہى نہ گذرا تھا كہ شيعہ علماء اور تجار نے متحد ہو كر اس قرار داد كى مخالفت ميں قيام كيا_ علماء نے اس ليے قيام كيا كہ انكے تجزيہ كے مطابق يہ قرارداد ايك غير ملك كے اسلامى مملكت كے ايك حصہ پر تسلط اور قبضہ كا وسيلہ تھى اور اس سے دينى اہداف اور اسلامى معاشرہ كا دينى تشخص خطرہ ميں پڑرہاتھا جبكہ تاجروں كى مخالفت كى وجہ انكے اقتصادى مفادات كو بہت بڑا ضرر پہنچ رہا تھا لذا يہ سب مخالفت ميں اٹھ كھڑے ہوئے_ انگريزوں كا ايران ميں ايك بڑى تعداد كے ساتھ داخل ہونا اور انكے افعال و كردار اور اقدامات كا لوگوں كے عقائد و تہذيب كے منافى ہونے كى وجہ سے اس كمپنى كى مخالفت روز بروز بڑھتى گى اور بتدريج علماء كى قيادت ميں ايك بہت بڑے احتجاج كى شكل اختيار كر گئي_(۱)

بيدارى كى اس تحريك ميں علماء شيعہ اور دينى قوتوں كو ايك تاريخى موقعہ ملاتا كہ ثابت كريں كہ وہ لوگوں كو ساتھ ملا كر اندرونى آمريت اور بيرونى استعمار پر غلبہ پا سكتے ميں اور ميرزا شيرازى كے تنباكو كى حرمت پر تاريخى فتوى سے واقعا ايسا ہى ہوا اورعلماء كو دونوں ہى اہداف حاصل ہوگئے ،حكومت نے اس وسيع احتجاجى تحريك كے سامنے پسپائي اختيار كى اور اس قراداد كو ختم كرنے كا اعلان كرديا_ ملا محمدعلى ھيد جى كے رسالہ ''دخانيہ ''كى تحرير كے مطابق ميرزا شيرازى كے حكم كى پہلے نصف روز تك ايك لاكھ كاپيوں كى تقسيم نے ايرانيوں اور غير ملكوں كو حيرت ميں ڈال ديا_ ھيدجى تحرير كرتے ہيں كہ يہاں تك كہ ناصرالدين شاہ كى بيگمات اور نوكروں نے سگريٹ اور تنباكو استعمال كرنا چھوڑديا، كوئي بھى كسى سڑك پر تنباكو استعمال كرتا ہوا يا خريد

____________________

۱) حسين آبادياں ، سابقہ ماخذ، ص ۸۰ _ ۷۱_

۳۱۱

و فروخت كرتا ہوا نہيں ديكھا گيا بلكہ مشہور تھا كہ عيسائيوں اور يہوديوں نے بھى اس حرمت شرعى كا خيال ركھا(۱)

اہم نكتہ يہاں يہ ہے كہ علماء اور لوگوں كے باہمى جوش و خروش پر مشتمل اس تحريك كا روح رواں نظريہ يہ تھا كہ موجودہ حكام كى حكومت كے كچھ حد تك جواز كى شرط يہ ہے كہ وہ مملكت ايران كى تمام زمينى سر حدوں اور لوگوں كے دينى عقائد و نظريات كى نگہبان ہو، ا س چيز نے شيعہ سياسى نظريہ كى اساس كو تشكيل دے ديا تھا اور اس نظريہ كے مطابق سلاطين اور بادشاہوں كى حكومت و طاقت اصل ميں غير شرعى اور ناجائز ہے سوائے اس كے كہ وہ نظم و ضبط پر كنٹرول كرے_

دوسرا نكتہ يہ تھا كہ اس دور ميں شيعہ مسلك لوگوں كے اتحاد اور فكرى يكجہتى ميں ايك اہم عنصر كى صورت ميں ابھرا_ اس تحريك سے يقينا ثابت ہو چكا تھا كہ قاجارى بادشاہ اب بھرپور انداز سے حكومت چلانے كى طاقت نہيں ركھتا اور كسى صورت ميں بھى بادشاہ كى حكومت و طاقت ميں عنوان الوہيت موجود نہيں ہے ،آخرى نكتہ يہ ہے كہ اس بڑى آزمائشے كى گھڑيوں ميں لوگوں كو بيدار كرنے سے مراجع اور مجتہدين كى سياسى اہميت ثابت ہوچكى تھى اور اس مسئلہ كے بعد نجف ميں مقيم ايرانى مجتہدين اور مراجع ، مشروطہ كى تحريك كے دوران اور اسكے بعد زيادہ اطمينان كے ساتھ لوگوں كى سياسى قيادت اور رہبرى ميں اپنا سياسى كردار ادا كرتے رہے لہذا يہ تنباكو كى تحريك اس مشروطيت كى تحريك كيلئے ايك پيش خيمہ تھى كہ جو تقريباً پندرہ سال كے بعد وجود ميں آئي(۲) _

شاہ ناصر قاجار كے زمانے ميں ايك اور بيدارى كى تحريك كا ہم مشاہدہ كرتے ہيں اور وہ سيدجمال الدين (افغاني) اسدآبادى كى صورت ميں تھي_ سيدجمال ايران ميں كچھ حد تك اسلامى علوم حاصل كرنے كے بعد نجف كى طرف روانہ ہوئے_ وہاں انكے تعليمى اور ضروريات زندگى كے اخراجات شيخ مرتضى انصارى نے اپنے ذمہ ليے_ سيد جمال نے نجف ميں چار سال تك تعليم حاصل كى(۳) سيد جمال كى سب سے بڑي

____________________

۱) محمد على ھيدجي، رسالہ دخانيہ ،على اكبرولايتى كى سعى سے ، تہران ، ص ۵۳، ۵۲_

۲) حسين آباديان، سابقہ ماخذ، ص ۱۹۲ _ ۱۸۹_

۳) سيدعباس رضوى '' سيدجمال الدين فرزند حوزہ'' سيد جمال، جمال حوزہ ، با سعى مصنفين مجلہ حوزہ قم، دفتر تبليغات اسلامي، ص ۲۲۹ _ ۲۲۵_

۳۱۲

آرزو يہ تھى كہ وہ دينى حوزات اور علماء كے ذريعے ايرانى اور ديگر اسلامى معاشروں اور اقوام كو بيدار كريں _ اسى ليے جب وہ كسى شہر يا ملك ميں سفر كے دوران علماء كے استقبال كا محور قرار پاتے توان سے تفصيلى تبادلہ خيال كرتے_(۱)

انكى بيدارى گر تحريك كا اہم ترين نظريہ اسلامى يكجہتى كا نظريہ تھا وہ كوئي شك و ترديد نہيں ركھتے تھے كہ مسلمانوں كے درميان سب سے مستحكم تعلق دينى تعلق ہے(۲) لہذا انكى سب سے اہم فعاليت يہ تھى كہ انہوں نے اسلامى معاشروں اور مسلمانوں كو جداگانہ تشخص بخشا_ انكے نعرے ''اسلام كى طرف پلٹنا'' ،'' قرآن كى طر ف پلٹنا'' يا '' سلف صالح كى سنت كا احياء كرنا'' يہ سب مسلمانوں كو انكے نئے تشخص سے روشناس كروانے كيلئے تھا_ وہ مسلمانوں كى يكجہتى كا محور قرآن كو سمجھتے تھے_ عروة الوثقى ميں لكھتے ميں كہ ميرى آرزو يہ ہے كہ سب مسلمانوں كا سلطان قرآن ہو اور انكى وحدت و يكجہتى كا مركز ايمان ہو_(۳)

سيدجمال تمام مسلمانوں كى يكجہتى كے نظريہ كے ساتھ ساتھ ايران كے حالات اور وہاں بيدارى كى ضرورت پر خاص توجہ ركھتے تھے_ ميرزا شيرازى كى طرف انكا خط، قاجارى حاكموں كى بے دينى اور اغيار كے اقتصادى تسلط كے خطرات كے خلاف انكى تقريروں كا اسلامى بيدارى ميں بہت زيادہ كردار ہے_(۴)

سيدجمال ايك طويل مدت تك مسلمانوں ميں احتجاجى روح پھونكنے كے وجہ سے تحريك مشروطيت ميں بہت سا حصہ ركھتے تھے_ نے اعلانيہ ايران كے صدراعظم اور بادشاہ سے مطالبہ كيا كہ وہ اصلاح، آزادي

____________________

۱) سابقہ ماخذ، ص ۲۴۰ _ ۲۳۵_

۲) غلام حسين زرگرى ناد '' كاوشى در انديشہ ہاى سياسى سيدجمال الدين اسدآبادى ، انديشہ ہا و مبارزات، با سعى غلامحسين زرگرى و رضا رئيس طوسي، تہران، ص ۳۵_

۳) حامد اسگار، سابقہ ماخذ، ص ۲۹۵_

۴) سابقہ ماخذ، ص ۳۰۲_

۳۱۳

عدالت اور قانون كو مد نظر ركھيں كہ يہ چيز انكى ايران سے ملك بدرى كا موجب بني_ وہ بہت سے دوسرے حريت پسندوں سے بھى خط و كتابت اور رابطہ ركھتے تھے اور انكى آمريت كے خلاف قيام كرنے پر حوصلہ افزائي كرتے تھے(۱) _

مظفرالدين شاہ قاجار جب بادشاہ بنا( ۱۳۱۳قمري) تو اس وقت تنباكو كى حرمت كے فتوى كے بعد بظاہر حكومت كے علماء سے تعلقات بہتر ہورہے تھے_ ليكن حكومت كى طرف سے بلجيم ناد (ناز)كو ايرانى كسٹم كے ادارہ كا سربراہ مقرر كرنے اور اسكے ايرانى اور غير ملكى تجار كے مابين جانبدارانہ سلوك اور عيسائي تجار كو نوازنے كا عمل ايرانى علما اور تجار كے اعتراض كا باعث قرار پايا_ تہران ميں مجتہد تفرشي، آيت اللہ ميرزا ابوالقاسم طباطبايى اور ديگر شخصيات نے پروگرام بنايا كہ امين السلطان كو بر طرف كيا جائے جو اغيار كو مسلمانوں كے امور پر مسلط كرنے كا سبب تھا بتدريج شيخ فضل اللہ نورى بھى مخالفين كى صفوف ميں داخل ہوگئے_ نجف ميں سكونت پذير ايرانى علماء كے ايك گروہ كہ جن ميں ملا محمد كاظم خراسانى جيسى علمى شخصيات شامل تھيں نے خطوط بھيجتے ہوئے اس مسئلہ پر اپنا اعتراض پيش كيا_(۲) بالاخر ۱۲۲۱ قمرى جمادى الثانى ميں انہوں نے ميرزا على اصغر خان اتابك امين اسلطان كے مرتدہونے كا اعلان كيا(۳) آخر كار بادشاہ كو مجبور ہونا پڑا كہ وہ امين السلطان كو برطرف كرتے ہوئے اسكى جگہ عين الدولہ كو مقرر كرے_

بتدريج علماء دين كى خود بادشاہ مظفر الدين شاہ سے بھى مخالفت شروع ہوگئي اس مخالفت كے بنيادى اسباب غير ممالك سے قرضوں كا حصول، فرنگيوں كے ملك كے پر تعيش سفر، اغيار كا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ، ملكى صنعتوں كا زوال اور اس قسم كے ديگر مسائل تھے_(۴)

____________________

۱) مقصود فراستخواہ''سيد جمال الدين و نوانديشى ديني'' ، تاريخ و فرہنگ معاصر، سال پنجم شمارہ ۳،۴_ص ۲۱۲ _ ۲۰۱_

۲) احمد كسروي، سابقہ ماخذ ، ج ۱ ، ص ۳۱_ ۲۹_

۳) ہاشم محيط مافى ، مقدمات مشروطيت ، مجيد تفرشى اور جواد جان خدا كى سعى سے ، تہران ص ۷۴_

۴) عبداللہ مستوفى ، شرح زندگانى من يا تاريخ اجتماعى و ادارى دورہ قاجار ، ج۲، ص ۶۲_۶۱_

۳۱۴

ليكن دينى طبقے كى پيدا كردہ بيدارى كى لہريں ان مسائل سے كہيں زيادہ و سعت سے پھيل رہى تھيں اس زمانہ ميں بيدارى كے مراحل واضح طور پر ارتقاء كے مقام كو پار ہے تھے_

مشروطہ كى تحريك ميں بيدارى اور آگاہى كا ايك وسيلہ اس تحريك كى موافقت يا مخالفت ميں شايع ہونے والے جرائد و رسائل تھے_ يہ جرائد و رسائل علماء اور اصولى مكتب سے وابستہ دانشوروں كى سعى سے سامنے آرہے تھے اور انكا بنيادى ہدف يہ تھا كہ لوگ اس تحريك كے تمام پہلوؤں سے آشناہوں او راس تحريك كے اسلامى احكام سے مطابقت اور تضادكو اچھى طرح جان ليں(۱)

اس دور ميں اسلامى بيدارى كى تحريك اور دينى مكتب كيلئے ايك اہم مسئلہ فكرى اورعملى ميدان زندگى ميں مغرب پسندى كى لہركا سامنا تھا_ ايرانيوں كے مغربى دنيا سے مختلف شعبوں مثلا تجارت ، سياحت ،تعليم و غيرہ ميں بڑھتے ہوئے تعلقات اور جديد مغربى كلچر كے حامل انسٹيٹيوٹس كا قائم ہونا اور جديد مغربى شہريت كے ضوابط كا رائج ہونا البتہ يہ ضوابط مغربى شہريت كے ظاہرى اور اور نمايشى پرت سے ليے گئے تھے ،ان سے دينى نظريات كے احياء كى تحريك كو بڑھنے ميں دشوارياں پيش آنا شروع ہو ئيں اور ساتھ ساتھ علماء كى آراء و افكار ميں تناقص و تضاد نے بھى ان دشواريوں كو دو چند كرديا_

محمد على شاہ كى آمريت كے دور ميں نجف ميں سكونت پذيرعلماء جو ايران كے سياسى دباؤ اور گھٹن سے دور تھے، نے ايرانى علماء كى نسبت زيادہ آسانى سے مشروطہ كى تحريك اور حريت پسندى كوجارى ركھاانہوں نے محمد على شاہ كى آمرانہ حكومت كے حتمى خاتمہ اوركافر روسى سپاہيوں كے ايران سے نكلنے پر زور ديا(۱)

نجف كے تين بزرگ علماء (تہراني، خراسانى اور مازندراني) نے اپنے ايك خط ميں عثمانى حكومت سے

____________________

۱) مزيدمعلومات كيلئے رجوع فرمائيں _ غلام حسين زرگرى ناد، رسائل مشروطيت، تہران_حسين آباديان، مبانى نظرى حكومت مشروطہ و مشروعة، تہران ، ص ۲۴۳_۱۳۲_

۲) عبدالہادى حائرى ، سابقہ ماخذ، ص ۱۰۹_

۳۱۵

ايران ميں محمد على شاہ كى حكومت كے خاتمہ اور روسيوں كے اخراج كيلئے مدد مانگى اس زمانہ ميں عثمانى حكومت اسلامى وحد ت كے نظريہ كى حامى تھي_ البتہ يہ نكتہ قابل ذكر ہے كہ سنى خليفہ سے مدد مانگنے كى ضرورت اس زمانہ كے تقاضوں اور مشكلات كى بناپر محسوس ہوئي ايران كے اندر بھى محمد على شاہ اور روسى افواج كے خلاف تحريك شروع تھى _نجف كے بزرگ علماء اپنے مقلدين كے ہمراہ ايران كى طرف جہاد كيلئے روانہ ہونے والے تھے_ كہ تحريك مشروطہ كى كاميابى ، اصفہان اور گيلان سے افواج كاتہران ميں داخل ہونا اور محمد على شاہ كے فرار اور روسى سفارت خانہ ميں پناہ لينے سے يہ پروگرام ملتوى ہوگيا_(۱)

ان سالوں ميں علماء كى دوسرى تحريك ۱۳۲۹ اور ۱۳۳۰ كے دوران روس كى طرف سے ايران كو الٹى ميٹم دينے سے پيدا ہونے والے بحران كے رد عمل كے طور پر سامنے آئي_

دوسرے دور كى قومى پارلمينٹ نے اقتصادى امور كى بہترى كيلئے مورگن شاسٹراور ديگر چار امريكى مشيروں كا تقرر كيا_ وہ ايران آئے اور انہوں نے مالى شعبہ كو اپنے كنٹرول ميں لے ليا_ روس اور انگلينڈنے شدت كے ساتھ انكى مخالفت كى روس نے ابتداء ميں تو زبانى كلامى پھر ۷ ذى الحجہ ۱۳۳۹ كو تحريرى طور پر ايران كو الٹى ميٹم ديا كہ شاسٹر كو نكال ديا جائے پھر اسكے بعد فوراً ہى ايران كے بعض شمالى علاقوں پر قبضہ كرليا_ تبريز ميں ثقةالاسلام تبريزى كو پھانسى دي، مشہد ميں امام رضا (ع) كے حرم پر گولہ بارى كى اور لوگوں كو محصور كرليا_

سپيكر پارليمنٹ نے نجف ميں موجود آخوند خراسانى اورديگر علماء كى طرف ٹيلى گراف بھيجتے ہوئے ان سے در خواست كى كہ وہ اسلامى ذمہ دارى كے حوالے سے اقدام كريں اس درخواست كے جواب ميں علماء نجف نے ايران كى خودمختارى كے دفاع كيلئے اقدامات انجام ديے انہوں نے درسى كلاسوں كى تعطيل كرتے ہوئے جہاد كا اعلان كيا اور لوگوں كو كاظمين ميں جمع ہونے كى دعوت دى تا كہ ايران كى طرف روانہ كيا جائے، اسى طرح قبائل كے سرداروں سے بھى مذاكرات ہوئے كہ وہ اپنے مسلح لشكروں سميت روس كے خلاف جہاد

____________________

۱) سابقہ ماخذ ص ۱۱۷_۱۱۰_

۳۱۶

ميں شركت كريں اور انہوں نے بھى قبول كيا _ ليكن روانگى سے ايك روز قبل آخوندخراسانى كى وفات سے يہ پروگرام التواء كا شكار ہوگيا _

كچھ مدت كے بعد آيت اللہ عبداللہ مازندرانى كى قيادت ميں يہ پروگرام دوبارہ شروع ہوا تيرہ مجتھدين اور علماء كى منتخب انجمن تشكيل پائي اور اس انجمن كى روحانى صدارت (آخوند خراسانى كے فرزند) آقا ميرزا مہدى آيت اللہ زادہ خراسانى كے كندھوں پر ركھى گئي بہت سے جہادى فتاوى صادر ہوئے اور مجتہدين نے ملت ايران كو متحد ہوكر دشمن سے مقابلہ كرنے پر زور ديا_ اور ايران كے سركارى عہديداروں كو متعدد ٹيلى گراف بھى بھيجے گئے _

علماء كرام اغيار كى يلغاركو ايران كى خود مختارى اور سالميت كيلئے بہت بڑا خطرہ سمجھتے تھے اس دينى طبقے كى تحريك ميں ميرزا محمد تقى شيرازى ، سيد اسماعيل صدر اور شيخ الشريعہ اصفہانى بھى كاظمين ميں علماء كے اجتماع سے پيوست ہوگئے ،اگر چہ كہ وہ مشروطہ حكومت كے زيادہ حامى نہيں تھے ليكن ايرانى حكومت نے اس مسئلہ كے نتائج كو مد نظر ركھتے ہوئے علماء كى ايران كى طرف جہاد كے عنوان سے روانگى كى مخالفت كى اور اس منتخب انجمن سے تقاضا كيا كہ لوگوں كو انكے شہروں كى طرف لوٹا ديا جائے اور جہاد كا پروگرام ملتوى كرديا جائے علماء بھى كاظمين ميں تين ماہ كے اجتماع كے بعد نجف اور كربلا كى طرف لوٹ گئے اور يہ تحريك بغير كسى عملى نتيجے كے ختم ہوگئي_(۱)

ليكن اس تحريك سے واضح ہوا كہ شيعہ مرجعيت ايك طاقتور سياسى طاقت ميں تبديلى ہوچكى ہے اور قليل مدت ميں عوامى گروہوں كوتيار كرسكتى ہے اوريہ مسئلہ شيعوں كے شعور و آگاہى ميں ترقى كو ظاہر كرتاہے اور بيدارى اور احياء كى تحريكوں كے مابين ان كے نفوذ كوواضح كرتاہے_

احمد شاہ قاجار كے زمانہ حكومت ميں ايرانى معاشرہ كو ايك كمزور حكومت اور بد امنى كے حالات كا سامنا تھا اس غير مناسب صورت حال ميں اصلاحى اور بيدارى كى تحريك بھى جمود كا شكار ہوگئي _ اور يہ تحريك جسكى بناء پر

____________________

۱) حسن نظام الدين زادہ ، ہجوم روس و اقدامات رؤساى دين برائے حفظ ايران، بہ كوشش نصر اللہ صالحى تہران ، ص ۲۴_۳_

۳۱۷

آئندہ سالوں ميں رضا خان كى قيادت ميں تشكيل پانے والى آمرانہ حكومت سے بچاجا سكتا تھا ايك مستحكم حكومت كے قيام اور امن و امان كى صورت حال كو درست كرنے كے گرماگرم موضوع كے نيچے دب گئي_(۱)

البتہ اس دور ميں بالخصوص پہلوى حكومت كى تشكيل كے قريب ترين سالوں ميں بہت سى اسلامى رنگ و روپ كى حامل تحريكيں اور گروہ وجود ميں آئے ليكن يہ بھى ايك مركزى مستحكم حكومت اور امن و امان كى ضرورت كے مسئلہ كے پيش نظر ختم ہوگئيں ،ان تحريكوں كے كامياب نہ ہونے كى دوسرى وجہ شيعہ مكتب كے بانفوذ علماء اور دينى مراجع كى ان تحريكوں كو سرپرستى كا حاصل نہ ہونا تھى نيز يہ تحريكيں ايك مخصوص اسلامى فكر كى حامل تھيں كہ جنكى بناء پر دينى مراجع و مراكز انكى حمايت نہيں كرسكتے تھے _

اس كے علاوہ يہ گروہ اور تحريكيں وقت كى قلت كى وجہ سے اپنى تحريك اور اس كے صحيح مقاصد سے آگاہ نہ كرسكيں جسكى وجہ سے يہ زيادہ عرصہ نہ چل سكيں اور غيرملكى استعمار نے بھى انہيں ناتوان كرنے ميں براہ راست كردار ادا كيا كيونكہ بعض تحريكيں مثلا تحريك جنوب غير ملكيوں كى ايران ميں موجودگى اور تجاوز كے خلاف تھي_

ميرزا كوچك خان جنگلى كى قيادت ميں تحريك جنگل ان حالات ميں وجود ميں آئي كہ سرزمين ايران كا گوشہ گوشہ اغيار كے تسلط سے ايران كو آزاد كرنے اور بدامنى كى صورت حال كو ختم كرنے كيلئے انقلابات لانے كيلئے تيار تھا _ ميرزا كوچك خان نے تہران ميں تنظيم اتحاد اسلام سے رابطہ كرنے اور ان سے بحث و مناظرہ كرنے كے بعد اس ہدف كو پانے كيلئے ايك تحريك شروع كى كہ جب كوئي حكومت اپنى مملكت كو اغيار اور دشمنوں كے تسلط سے آزاد نہ كرسكے تو ملت كا فرض ہے كہ اپنے وطن كو نجات دے _

انہوں نے ايران كے شمالى جنگلوں سے قيام كا آغاز كيا اور يہ قيام شوال ۱۳۳۳ قمرى سے ليكر ربيع الثانى ۱۳۴۰ قمرى تك جارى رہا _ انہوں نے اپنى سياسى كاوش كا آغاز مذہبى و روحانى طبقے كى ہمراہى ميں كيا ، انقلاب مشروطہ كے دوران اور انكے بعد كے حالات ميں وہ آمريت كے ساتھ جنگ كرتے رہے_ پہلى جنگ عظيم كے دو ران وہ گيلان كى طرف چلے گئے اور'' انجمن اتحاد اسلام'' كے عنوان سے ايك مخفى تنظيم كو تشكيل

____________________

۱) عليرضا ملايى توانى ، مشروطہ و جمہومرى ، ريشہ ہاى نابسامانى نظم دوكراتيك در ايران، تہران،گسترہ ۱۳۸۱، ص ۱۷۵_ ۱۶۲_

۳۱۸

ديا اور بتدريج مجاہدين كو اپنى ساتھ شامل كيا _ چند سال كے مقابلہ و جنگ كے بعد اس تنظيم كو بعض واقعات ميں ہزيمت كا سامنا ہوا بالخصوص سرخ بغاوت كے واقعہ ميں آخر كار وثوق الدولة كى حكومت، انگلستان اور روس كے باہمى مشترك حملہ سے جنگل كى اس تحريك كو شكست ہوئي_(۱)

پہلوى حكومت كى تشكيل كے قر يب ترين دور ميں ديگر اسلامى عناوين كى تحريكوں ميں سے تبريز ميں شيخ محمد خيابانى كا قيام قابل ذكر ہے _ يہ قيام در اصل ۱۹۱۹ عيسوى ميں وثوق الدولة كى حكومت كى انگلستان سے قرار داد كا رد عمل تھا_ البتہ اسى دوران ملك كے ديگر مناطق ميں اور بھى احتجاجى قيام سامنے آئے كہ جو قرار داد كے مخالف تحريكوں كے عنوان سے معروف ہوئے _(۲) اس قرا داد كے مطابق ايران كے عسكرى امور ، اقتصادى امور ، ذرائع ابلاغ كے امور اور ديگر انتظامى امور انگلستان كے كنٹرول ميں آگئے تھے _

شيخ محمد خيابانى ايك شجاع اور اصول پسند عالم تھے جو قاجاريہ دور كے اواخر ميں سامنے آئے اور حريت پسند مجاہد طبقہ سے تعلق ركھتے تھے كہ انہوں نے اس تحريك كے تمام مراحل ميں ظلم و آمريت كے حاميوں سے مقابلہ كيا انہوں نے مندرجہ بالا قرار داد ، آذربائيجان كى حكومت پر عين الدولہ كے تقرر اور ديگر چند مسائل كے رد عمل ميں مركزى حكومت كے خلاف تحريك كو تشكيل ديا اور آذربائيجان كے امور اپنے ہاتھوں ميں لے ليے_ وہ غير ملكى قوتوں كے سخت دشمن اور ايران كے داخلى امور ميں اغيار كى ہر قسم كى مداخلات كے سخت مخالف تھے وہ بھى ميرزا كوچك خان كى مانند اس دھن ميں تھے كہ آذربائيجان سے شروع كريں اورمكمل ايران كو اغيار كے تسلط اور استعمار سے نجات دلائيں _(۳)

____________________

۱) نہضت جنگل بہ روايت اسناد وزارت امورخارجہ ، رقيہ سادات عظيمى كى سعى سے ،تہران، دفتر مطالعات سياسى و بين الملل ، ۱۳۷۷، ص ۱۸_۱۵ ( مقدمہ )_

۲) داريوش رحمانيان، چالش جمہورى وسلطنت در ايران ، زوال قاجار روى كار آمدن رضا شاہ ، تہران، نشر مركز، ۱۳۷۹، ص ۴۲_

۳) على اصغر شميم ، ايران در دورہ سلطنت قاجار، تہران ، علمى ، ج ۲ ص ۶۰۳_ ۵۹۹ ،محمد جواد شيخ الاسلامي، سيماى احمد شاہ قاجار ، ج ۲ ، تہران ، ص ۱۰۸_۹۰_

۳۱۹

اعتراضات بڑھنے كى وجہ سے وثوق الدولة نے استعفى دے ديا _ ليكن خيابانى كى تحريك بھى بعد والى حكومت كے ذريعے دبادى گئي اور خيابانى كے قتل ہونے كے ساتھ ہى يہ تحريك ختم ہوگئي _(۱)

اہم نكتہ يہ ہے كہ خيابانى اور جنگلى كى تحريك كو اسلامى بيدارى كے منظر سے محور تجزيہ قرار نہيں ديا جاسكتا كيونكہ انكے اسلامى افكار اور اصول پسند علماء كے نظريات ميں اساسى فرق تھا، اصول پسند علماء كى اہم خصوصيات يہ تھى كہ وہ دين اور سياست كے امتزاج پر يقين ركھتے تھے جبكہ ان تحريكوں ميں دين كے سياست سے جدا ہونے پرزور ديا گيا تھا_ ليكن امور مسلمين پر كفار اور اغيار كے تسلط كى مخالفت ميں يہ باہمى اور مشابہہ نظريات ركھتے تھے_ اور يہ موضوع بعد ميں استعمار كى مخالف تحريكوں اور تنظيموں ميں اہم تاثير كا حامل تھا _

ديگر واقعات ميں سے كہ جن ميں شيعہ علماء نے رد عمل كا اظہار كيا اور محاذ تشكيل ديا اور اُس موضوع كے خلاف آراء اور نظريات كا اظہار كيا _ وہ رضا خان كا جمہوريت پسند پروگرام تھا _ يہ پروگرام سال ۱۳۰۳ شمسى ميں اس وقت سامنے آيا كہ جب سلسلہ قاجار كا نظام حاكميت مكمل طور پر اپنى حيثيت كھو بيٹھا تھا اور ايران كے ہمسايہ ملك تركى ميں جمہورى نظام كا اعلان ہوچكا تھا_ ايران ميں اس پروگرام كے پيش ہونے اور بالخصوص تركى سے متاثر ہونے نے علماء كو تشويش ميں مبتلا كرديا كيونكہ وہ اس اعلان جمہوريت كو اتا ترك كے اسلام مخالف پروگراموں سے مربوط سمجھتے تھے _(۲)

جمہوريت كے مخالفين ميں سے ايك آيت اللہ سيد حسن مدرس تھے كہ جو قومى پارلمنٹ كے ركن بھى تھے _(۳) جناب مدرس حقيقى جمہوريت كے مخالف نہيں تھے يہ بات وہ كئي بار معترضين كے اعتراض اور تنقيد كے

____________________

۱) على اصغر شميم ، سابقہ ماخذ ، ص ۶۰۳_

۲) سلسلہ پہلوى و نيروہاى مذہبى بہ روايت تاريخ كمبريج ،ترجمہ عباس مخبر، تہران، ج۳ ، ص ۲۲_ ۲۱، عليرضا ملايى تواني، سابقہ ماخذ ، ص ۳۳۵_

۳) على دوانى ، استادان آيت اللہ شہيد سيد حسن مدرس، مدرس، تاريخ و سياست ( مجموعہ مقالات ) موسسہ پوہش و مطالعات فرہنگى ، ص ۴۸_۴۴_

۳۲۰