اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 21%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 144786 / ڈاؤنلوڈ: 5487
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

تہذيبوں كے انحطاط اور زوال كے اسباب

بعض اہل نظر كا عقيدہ ہے كہ ہر تمدن اپنى پورى زندگى ميں كچھ مراحل طے كرتا ہے: ڈيورينٹ كى رائے كے مطابق ہر تمدن كے لوگ كچھ مدت كے بعد اپنے عقلى پيش رفت كى بناء پر توحيد اور مبدا ء معنوى كى پرستش كى بجائے علم و عقل كى ستايش ميں مشغول ہو جاتے ہيں ، اسكے بعد اقدار اور علم ميں جنگ شروع ہو جاتى ہے ، معاشرے كى قوت محركہ بتدريج ختم ہوجاتى ہے اور اسكے بعد اس تہذيب كا دور انحطاط و زوال شروع ہوجاتا ہے_

ابن خلدون كى نظر ميں ہر تمدن تين مراحل كو طے كرتا ہےں : جنگ اور مقابلہ كا ابتدائي مرحلہ ، خود غرضى اور استبداد كا مرحلہ اور آخر كار رياكارى اور فساد كا مرحلہ جوكہ تمدن كا اختتام شمار ہوتاہے ، دور حاضر كے الجزائرى دانشور مالك بن بنى بھى اسى اساس پر اسلامى تمدن كے تين مراحل روح ، عقل اور غريزہ كو سمجھتے ہيں انكا عقيدہ ہے كہ: اسلامى تمدن ميں آٹھويں صدى ہجرى كے بعد سے خواہشات نفسانى كا روح پر غلبے كا مرحلہ شروع ہوا اور اسلامى تمدن ترقى كے مرحلہ سے دور ہوگيا_(۱)

اسكے علاوہ اور بھى اسباب كو تہذيبوں كے زوال كے حوالے سے ذكر كيا گيا ہے مثلا معاشرہ ميں وحدت اور نظم كا فقدان ، بيرونى دشمنوں كا حملہ ، معاشرتى طبقات كى ساخت ميں انتشار تصنع اور بناوٹ كا پيدا ہونا اور تاجرانہ رويہ اور مزاج وغيرہ_

اخلاق ، ثقافت، تہذيب اور قانون

ہر معاشرے ميں اخلاق ، ثقافت ، تہذيب اور قانون ميں سے ہر ايك مفہوم كى پيش رفت و ترقى دوسرے مفہوم كى پيش رفت كے برابر ہے جبكہ ہر ايك كا انحطاط خواہ ناخواہ دوسرے كى تباہى و بربادى كى علامت ہے_

____________________

۱) دانشنامہ جہان اسلام ، ج ۴، ذيل بن بنى مالك ( محمد على مہتدي)_

۲۱

جب اخلاق ترقى كرتا ہے اور لوگ اخلاقى اصولوں كا خيال ركھيں تو اعتماد كى فضا تعلقات وروابط كى پيش رفت كے اسباب فراہم كرتى ہے ، اور اس فضا كاپھيلاؤ معاشرہ كى ثقافت كو نماياں كرتا ہے ، اسى طرح ہر معاشرہ اپنے اجتماعى نظام كے اندر پانے جائے والى مفاہمت كى تقويت اور اسے محفوظ كرنے كيلئے قوانين كا محتاج ہے، لوگوں كا ان چار اسباب كے بارے ميں رويہ معاشرے كى ترقى و پيش رفت يا زوال و انحطاط كا باعث بنتاہے، جس طرح لوگوں كا ان چار اسباب كو قبول كرنا اور توجہ دينا معاشرے كى خوشبختى اور سعادت كا باعث ہے اسى طرح ان سے دورى اور منہ پھيرنا فساد، تباہى ، فحشاء اور آخر ميں معاشرے كى بربادى كا باعث ہے_

۲) عصر دعوت سے فتوحات كے زمانہ تك اسلامى اور ثقافتى تاريخ كا خلاصہ

مورخين عرب كى تاريخ كو تين ادوار ميں تقسيم كرتے ہيں :

۱) سبا اور حمير كا دور جو بہت ہى قديم زمانے ميں شروع اور پھر ختم ہو جاتا ہے_

۲) دوسرا دور جاہليت كہ چھٹى صدى عيسوى سے شروع ہوتا ہے اور اسلام كے ظہور پر ختم ہو جاتا ہے_

۳) اسلامى دور يعنى صدر اسلام سے اب تك_

تاريخ اور آثار قديمہ پر مبنى شواہد كے مطابق جزيرہ عرب ميں بہت سے مكاتب فكراور ثقافتى وتاريخى نظريات موجود تھے، حضرت ابراہيم (ع) نے اسى تمدن ميں اپنى دعوت كا آغاز كيا تھا ، بين النہرين اور شمال ميں آل غسان اور آل منذر اور جنوب ميں نجران و يمن كے لوگ عيسائي تھے، بازار جيسے مثلا ''بازار عكاظ ''شعرا اور اديبوں كے جمع ہونے كى جگہ تھے كہ جو عربى ثقافت كے اہم ترين ركن يعنى شاعرى كا محل ظہور تھے ،جس قبيلہ ميں كوئي زبردست اور بڑا شاعر ظاہر ہوتا اسكے افراد دوسروں پر فخر برترى كا اظہار كيا كرتے تھے_(۱)

معاشرتى اور اجتماعى حوالے سے سياسى اور حكومتى عہدے لياقت اور طاقت كى بنياد پر نہيں بلكہ اپنى رسوم و

____________________

۱) سيد جعفر شہيدي، تاريخ تحليلى اسلام، تہران ۱۳۶۶، ص ۱۵ _ ۱۴_

۲۲

روايات اور وراثت كى بناء پر تقسيم ہوتے تھے، اسى ليے درخشان صلاحيتيں كو اپنے ظہور كاموقع نہيں ملتا تھا_ مكہ كے لوگ كعبہ كے وجود اور اسكى ہمسايگى كى بركت سے اور زمانہ جاہليت كے رسوم و رواج سے ما خوذ خاص روابط كى بناپر آرام و سكون كى زندگى گزاررہے تھے، مشترك دفاع ميں شركت كيا كرتے تھے_

اسى كے ساتھ ساتھ مكہ اور يثرب كے درميان واضح فرق اور امتياز نظر آتاہے ، مكہ كے لوگ تاجر اور دورانديش تھے جبكہ يثرب والے زراعت پيشہ اور سخت محنت كش شمار ہوتے تھے_

اس قسم كى فضاء ميں تقريبا ۶۱۰ عيسوى ميں پيغمبر اسلام(ص) نے مكہ ميں اپنى دعوت كا آغاز كيا، اس دعوت كے نتيجے ميں مسلمانوں كا ايك گروہ مكہ ميں وجودميں آيا كہ جو اہل مكہ كى بدسلوكى اور رقابت كا شكارہوگيا_

بعثت كے گيا رھويں سال مدينہ كے ساكن قبيلہ خزرج كا ايك گروہ كہ جو حج كيلئے مكہ آئے تھے انہوں نے عقبہ ميں پڑاؤ كے دوران پيغمبر (ص) سے ملاقات كى اس ملاقات ميں پيغمبر اكرم(ص) نے انہيں اپنى اور اپنے دين كى شناخت كروائي اور ان لوگوں نے قبول كيا، اسكے ايك سال بعد قبيلہ خزرج كے بارہ مردوں اور ايك عورت نے اسى جگہ پيغمبر اكرم(ص) كى بيعت كى كہ اسلامى تاريخ ميں اسے پہلى بيعت عقبہ كہ نام سے ياد كيا جاتا ہے ، پيغمبر اكرم(ص) نے اسى بيعت كى بناء پر مصعب بن عمير كو پہلے داعى اسلام كے طور پر مدينہ ميں بھيجا تا كہ وہ مدينہ والوں كو قرآن ، اسلامى تعليمات اور نماز كے آداب سكھائيں چونكہ معلوم ہوچكا تھا كہ مدينہ اسلام اور مسلمانوں كيلئے مناسب پناہ گاہ ثابت ہوگى ، تو پيغمبر اكرم(ص) نے بعثت كے چودھويں سال بارہ ربيع الاول كو اپنى تاريخى ہجرت كي_

اسكے بعد پيغمبراكرم(ص) كے اصحاب دو گروہ ميں تقسيم ہوگئے : مہاجرين كہ جو مكہ سے آئے تھے ، او رانصار يعنى مدينہ كے ساكن كہ جنہوں نے اسى شہر ميں پيغمبر اكرم(ص) كا استقبال كيا_(۱)

پيغمبر اكرم(ص) نے مدينہ ميں اسلامى معاشرے كى عمارت كو تين اہم بنيادوں پر قائم كيا يعنى مسجد بنائي گئي ،

____________________

۱) دائرة المعارف بزرگ اسلامى و مجمع اڈريس_

۲۳

مہاجرين اور انصار ميں عقد اخوت قائم ہوا اور مسلمانوں اور غير مسلم قبائل ميں با ہمى تعاون كا معاہدہ طے پايا، يعنى حقيقت ميں اسلامى سياسى معاشرہ بھى مدينہ كى طرف ہجرت كے بعد تشكيل پايا، مدينہ كى اسلامى حكومت ايك حكومت كيلئے ضرورى تمام لوازمات يعنى زمينى جگہ ، آبادى ، حاكميت اور دفترى اور انتظامى نظام كى حامل تھي_

اس اسلامى معاشرہ ميں ايك خصوصيت اوربھى تھى كہ جو اس زمانہ تك انسانى تاريخ ميں پہلے كہيں موجود نہ تھى وہ يہ كہ معاشرہ كى تشكيل كے اہم ركن يعنى قانون كى حاكميت تھى ، يعنى معاشرہ كے تمام افراد كيلئے بغير كسى امتياز كے ايك جيسا قانونى نظام قائم تھا_

ان اقدامات كے ذريعے پيغمبر اكرم (ص) نے اپنى منشاء كے مطابق مدينہ ميں بتدريج سياسى اور ادارہ جاتى نظام قائم كرديا، دينى عقايد كے گوہر سے استفادہ كرتے ہوئے اور انكے تحفظ اور انكى نشر و اشاعت _جو كہ آپكا معاشرہ ميں اصلى ہدف تھا_كى وجہ سے معاشرہ كى سياسى اور انتظامى حالت مستحكم ہوگئي، اسى طرح پيغمبر اكرم(ص) كى دس سالہ حكمرانى ميں تقريبا اسّى چھوٹى بڑى جنگيں بھى مدينہ ميں انجام پائيں ، كہ پيغمبر اكرم(ص) يا بذات خود ان ميں شريك ہوتے تھے اور لشكر كى كمانڈ كرتے تھے يا خود مدينہ ميں تشريف فرما رہتے اور كسى ايك صحابى كو لشكر كے سپہ سالار كے طور پر روانہ كرتے ،ان جنگوں نے اسلام كى تازہ تشكيل شدہ حكومت كى سياسى اور فوجى حيثيت كو مضبوط كرنے ميں بہت بنيادى كردار ادا كيا_

پيغمبر اكرم(ص) نے مختلف قبائل مثلا يہودى اور عيسائي قبائل كے ساتھ معاہدے كيے ،پيغمبر(ص) نے ان معاہدوں ميں ايك موزون اور كامياب حكمت كے ساتھ مدينہ كى نئي حكومت كے تحفظ اور ثبات كى ضمانت فراہم كى ، اسكے علاوہ ہمسايہ ممالك مثلا ايران ، روم ، مصر ، يمن اور حبشہ كے بادشاہوں اور حكام كى طرف خط بھيجے، مورخين كى نگاہوں ميں يہ خطوط پيغمبر اكرم (ص) خارجہ پاليسى كا كچھ حصہ شمار ہوتے ہيں _

ان اقدامات اور ديگر بے شمار شواہد كى بناء پريہ كہا جاسكتا ہے كہ ہجرت كے ابتدائي ايام ميں ہى اسلامى تمدن كى تشكيل كے مختلف پہلو ظاہر ہوچكے تھے اوريہ بات نازل شدہ آيات كے لہجے كے تغير سے بخوبى معلوم ہوتى ہے كہ دعوت اسلام كے ابتدائي ايام كے برعكس مدينہ ميں الہى آيات بيشتر احكام و حدود كے پہلوكى حامل ہيں اور ان ميں قوانين شريعت اور معاشرتى احكامات كى گفتگو ہوئي ہے _

۲۴

اس كے بعد پيغمبر اكرم(ص) نے ادارہ جاتى اور محكمانہ نظام كے ابتدائي مراحل كى تشكيل كيلئے كوشش كى ، اپنے ليے معاونين كا انتخاب كيا اور ہر ايك كو ايك ذمہ دارى سپردكى ، اگلے مرحلے ميں اسلامى حاكميت كے پھيلاؤ كے ليے كاركنوں كا تقرر كيا ان ميں سے بعض زكوة اور صدقات كى وصولى ميں مشغول ہوئے اور دوسرے گروہ كو معاشرتى امور كو منظم كرنے كى ذمہ دارى سوپنى ،اس دور ميں جو دس سال تك چلا جو آيات الہى نازل ہوئيں ان ميں اسلامى حاكميت كے اركان كو مستحكم كرنے كى تاكيد ہوئي ،انہى سالوں ميں كچھ اور اقدام بھى ہوئے جن ميں غور و فكر كرنے سے پيغمبر اكرم (ص) كى اصلى ذمہ دارى اور انكے اندرونى ميلانات كى حقيقى تصوير سامنے آتى ہے_

گيارہ ہجرى كو پيغمبر اكرم (ص) كى وفات عظمى كے بعد انكى جانشينى والے مسئلہ ميں اختلاف پيدا ہوا ، بالاخرہ سقيفہ بنى ساعدہ كے ماجرا كے نتيجہ ميں حضرت ابوبكر كى بيعت انجام پائي ، ابوبكر نے بہت زيادہ كوشش اور ان لوگوں سے دو سال تك جنگ و جدال كرنے كے بعد كہ جو خليفہ كى حاكميت اور ايك مركزى حكومت كو قبول نہيں كرتے تھے_ بالاخرہ سارے جزيرہ عرب كو اپنى حكومت كے تحت لے ليا، اسكے بعد مذہب اسلام كى نشر و اشاعت كے حوالے سے شام اور عراق كى طرف لشكر بھيجے ،ابوبكر نے تير ھويں ہجرى ميں انتقال كيا ليكن اپنى وفات سے قبل حضرت عمر بن خطاب كو خليفہ نامزد كر ديا تھا _

حضرت عمر كى خلافت كا آغاز مصر ، ايران اور شام ميں فتوحات كے زمانہ ميں ہوا جس زمانہ ميں عرب اسلام كے زير سايہ طاقتور ہو رہے تھے اسى زمانہ ميں روم اور ايران كى حكومتيں با ہمى طويل اور لا حاصل جنگوں كے بعد كمزور اور ناتواں ہو چكى تھيں ، ان ممالك كے لوگوں كى اپنى حكومتوں سے بيزارى لشكر اسلام كے استقبال كا باعث بنى _

آدھى صدى سے كمتر عرصہ ميں ہى ، اسلام ايران اور افريقہ كے غالب دين كے طور پر ابھرا مسلمانوں كى ان ممالك كے لوگوں كے عقائد اور آداب سے آشنائي نے مدينہ كى اجتماعى فضا كو بھى متغير كرديا تھا، دوسرى طرف سے مفتوحہ سرزمينوں كا نظم سنبھالنے كى وجہ سے مسلمانوں كو گوناگوں معلومات اور تجربات حاصل ہوئے ، يہى دور تھا كہ آہستہ آہستہ حكومت كے تمام سياسى ستونوں كو منظم كرنے كيلئے دفاتر اور محكمے وجود ميں آئے_

۲۵

دوسرا باب:

اسلامى تمدن كى تشكيل كا پس منظر

۲۶

۱ اسلام ميں علم و دانش كا مقام

جو كچھ آيات اورروايات ميں علم و دانش اور معرفت كى فضيلت كے حوالے سے ذكر ہوا ہے اگر اسے بغير كسى تفسير اور تشريح كے جمع كريں تو بڑى كتابوں كى شكل ميں سامنے آئيگا، اگر اس حد تك اسلام كے اولياء علم اور تعليم پر تاكيد نہ فرماتے ہوتے تو كبھى بھى اسلامى تمدن عظمت كے اس بلند مقام پر فائز نہ ہوتا_

خود كلمہ '' علم '' اپنے مشتقات كے علاوہ تقريبا اسّى بار قرآن مجيد ميں مختلف موارد ميں استعمال ہوا ہے ،كلمہ ''عقل'' اگر چہ قرآن مجيد ميں نہيں آيا ليكن '' اولى الالباب'' كى تركيب كہ جسكا معنى صاحبان عقل ہے قرآن ميں موجود ہے ، اسى طرح '' حكمت ، برہان ، فكر ، فقہ و غيرہ جيسے كلمات كئي بار قرآن مجيد ميں استعمال ہوئے ہيں ، اللہ تعالى نے مومنين كو اس حوالے سے كہ وہ اندھى تقليد كى بناء پر اس پر ايمان لائيں نہى فرمائي ہے ، حتى كہ ايك آيت ميں (روم ۶۵) علم اور ايمان كا اكھٹا ذكر كيا ہے _

مزيد يہ كہ صرف ان كلمات پر اكتفاء نہيں ہوا بلكہ تعليم و تربيت كے حوالے سے بہت سى آيات قرآن ميں موجود ہيں ، مثلا آل عمران كى آيت ۱۹۰، انعام آيت ۹۷، يونس كى آيت ۵ يہاں تك كہ وہ آيات كہ جو گذشتہ لوگوں كے قصے بيان كرتى ہيں اور ان واقعات كو بيان كرنے سے انكا ہدف عبرت دلانا ہے ان ميں بھى تاريخى موضوعات ، تاريخ نويسى پر حوصلہ افزائي ، آثار تاريخى كا مشاہدہ اور حقائق بينى جيسے احساسات كو واضح اور آشكار طور پر درك كيا جاسكتا ہے_(سورہ انعام ۱۱)

پيغمبر اكرم(ص) اور ائمہ اطہار عليہم السلام سے منقول احاديث اور اقوال ميں بھى عظمت علم اور فضيلت علماء كے حوالے سے بہت كچھ ذكر ہوا ہے، پيغمبر اسلام (ص) كى يہ تاكيد كہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر حصول علم واجب اور

۲۷

فرض ہے يا يہ كہ ايك گھنٹے كى فكر ايك سالہ عبادت سے بہتر ہے ، يہ سب اسلام ميں تعليم و تعلم كے حوالے سے تاكيد كى مثاليں ہيں _

آئمہ عليہم السلام كى حيات مباركہ كے ادوار ميں بالخصوص امام جعفر صادق (ع) كا سنہرى دور كہ جب علم و تعليم عروج پر تھى آب اپنے اصحاب كو علم كے حصول پر شوق دلاتے تھے ،يہ كہ قيامت كے دن دانشوروں كے قلم شہداء كے خون پر بھارى پڑ جائيں گے اس قسم كى رغبت اور شوق دلانے كى مثالوں ميں سے ہے، البتہ اس نكتہ پر توجہ ركھنى چاہيے كہ حصول علم كى اسلام ميں كچھ شرائط ہيں : اسلام علم اور اخلاق ميں كسى فاصلے كا قائل نہيں ہے بلكہ ان دونوں كے با ہم پيوستہ رہنے پر تاكيد كرتا ہے، اسلام ميں اہل علم و دانش ذمہ دار فرد ہے اور اخلاق سے بے بہرہ استاد سوائے گمراہى كے كوئي اور راہنمايى نہيں كرتا ، يہ موضوع بذات خود اسلام كے امتيازات ميں سے ہے كہ وہ تعليم و تربيت كے حوالے سے ايك عليحدہ اور خاص مكتب كا مقام ركھتا ہے_(۱)

اسلامى تہذيب و تمدن ميں تاريخ كتابت پر ايك نظر

تاريخ كے مختلف اوراق سے جو معلومات حاصل ہوئي ميں وہ يہ كہ زمانہ جاہليت ميں اہل عرب اگر چہ لكھنے كے فن سے مطلع تھے ليكن ان كى صحرائي زندگى ايسى نہ تھى كہ فن كتابت انكے لئے ضرورى ہو،اس دور ميں زبانى ياد كرنے اور حفظ كرنے كے كلچر كا غلبہ تھا، جزيرہ عرب كے بعضى مناطق مثلا حجاز سے ايك لكھا ہوا پتھر ملا ہے كہ جو اس منطقہ كے قديم زمانے سے تعلق ركھتا ہے ماہرين اس نتيجہ پرپہنچے ہيں كہ اس علاقے ميں پہلے خط نبطى كى ايك قسم رائج تھي_

قرآن مجيد ميں كتابت كے حوالے سے خاص الفاظ كا موجود ہونا بتاتاہے كہ ظہور اسلام كے زمانہ ميں اہل عرب كتابت كى مختلف اقسام كا كچھ علم ركھتے تھے، ان الفاظ ميں سے ايك لفظ '' كتاب'' ہے اگر چہ يہ

____________________

۱) محمد رضا حكيمى ، اور ديگران '' الحياة'' تہران ، ج ۱_

۲۸

واضح نہيں ہے كہ اس سے مقصود وہ چيز ہے كہ جسے ہم كتاب كہتے ہيں ، بہرحال كسى لكھى ہوئي اور مكتوب چيز كااشارہ دے رہاہے، اسى طرح لفظ صحيفہ جمع كى صورت ميں يعنى '' صحف'' قرآن ميں ذكر ہوا ہے ، يہاں يقينا مراد مكتوب اورلكھى ہوئي چيز ہے، با وجود اس كے كہ اہل عرب حفظ اور زبانى ياد كرنے پر بہت زيادہ رغبت ركھتے تھے قرآں مجيد كا كتابت پر تاكيد و اصرار بہت دلچسپ اور اہم ہے اور اس بات پر اشارہ ہے كہ مسلمان ان اولين ايام ميں ہى جانتے تھے كہ كتاب آسمانى كى آيات ميں كوئي لفظ تبديل نہيں ہونا چاہيے_(۱)

جلد اورر چمڑا ان چيزوں ميں سے ايك تھى كہ جس پر قرآن لكھا جاتا تھا اس زمانہ ميں اہم مسائل تحرير كرنے كے ليے جلد يا چمڑااستعمال كرنے كى وجہ اسكى پائيدارى تھى ليكن اسكا حصول امير لوگوں كيلئے بھى دشوار تھا، اسى لئے اہل عرب كچھ اور مناسب چيزوں كو كتابت كيلئے استعمال كرتے تھے ، مثلا كھجور كے درخت كى خشك كى ہوئي چھال يا اسكى كوئي خشك شاخ ،مسلمانوں كى اردگرد كى تہذيبوں سے آشنائي انكى كتابت كے وسائل سے آگاہى ميں بھى بہت اثرات كى حامل تھى ،مسلمان، مصر وشام كى سرزمينوں كو فتح كرنے كے بعد قرطاس يا پيپورس سے آشنا ہوئے ، اسكے بعد انہيں كتابت كيلئے ديگر چيزوں پر ترجيح ديتے تھے ليكن پيپورس (كاغذ كى طرح ايك چيز) بھى انكے لئے بہت مہنگا ثابت ہوا_

لہذا تحرير كے ليے مناسب انتخاب '' كاغذ'' تھا مسلمان شروع ميں ماوراالنہر كے علاقے فتح كرنے كے زمانے ميں كاغذ سے آشنا ہوئے تھے، سمرقند كہ جہاں بہت سے چينى كاغذ سازى كى صنعت ميں مشغول تھے وہاں سے يہ صنعت ديگر اسلامى سرزمينوں ميں منتقل ہوئي ، كاغذكے خام مال كو مختلف مقدار ميں استعمال كرنے كى وجہ سے پہلى صدى ہجرى ميں مختلف انواع اقسام كے كاغذ تيار ہوئے تھے، يہ كاغذ اپنى نوعيت ، استحكام ، ضخامت ، چمك اور رنگ ميں ايك دوسرے سے مختلف ہوتے تھے_

اس سے معلوم ہوتاہے كہ مسلمانوں نے چينى لوگوں سے كاغذ سازى كى روش كو سيكھنے پر اكتفاء نہيں كيا بلكہ اس صنعت كو ترقى دى اور كمال تك پہنچايا ، بتدريج تمام اسلامى شہروں اور سرزمينوں ميں مثلا عراق ، مصر ،

____________________

۱) يحيى وہب الجبورى ، الخط و الكتابة فى الحضارة العربيہ ، بيروت ، ص ۲۴۹ كے بعد تك_

۲۹

ايران اور اندلس ميں كاغذ سازى شروع ہوگئي ، دوسرى صدى ہجرى كے اختتام ميں ہارون الرشيد كے علم دوست وزير فضل بن يحيى برمكى كى كوششوں سے كاغذ سازى كى صنعت بغداد ميں شروع ہوئي اور اس صنعت نے بہت سرعت كے ساتھ كھال اور چمڑا كى جگہ لے لي_

يانچويں صدى ہجرى ميں يہ صنعت عراق سے شام كى طرف منتقل ہوئي اور وہاں اس نے حيران كن انقلاب بپا كرديا، اسطرح ناصر خسرو اپنے سفرنامہ ميں لبنان كے شہر طرابلس كے حوالے سے لكھتا ہے كہ اس شہر ميں سمرقندى اور اق كى طرح خوبصورت اوراق تيار ہوتے تھے اور ان سے كيفيت ميں بہتر ہوتے تھے، گويا اس طرح مسلمانوں نے ثقافتى روابط كے اہم ذرائع ميں سے ايك يعنى كاغذ كى ترقى اور پھيلاؤ ميں اہم كردار ادا كيا ، يہ صنعت مصر اور اندلس كے ذريعے يورپ منتقل ہوئي اور سب سے پہلا كاغذ سازى كا كارخانہ اٹلى ميں تقريبا تيرھويں صدى عيسوى ميں تعمير ہوا اور اس نے كام شروع كيا_(۱)

۲_ علوم كا منتقل ہونا اور اہل علم و دانش كى دنيائے اسلام ميں شموليت

عالم اسلام ميں علوم عقلى كى پيدائشے كا اصلى منبع يونان اور اسكى علمى محفل تھى ، اگر چہ اكثر علوم بالواسطہ يونانى زبان سے سريانى اور لاتينى زبان ميں ترجمہ كى شكل ميں مسلمانوں كے پاس پہنچے ليكن ان علوم كا ايك حصہ اسكندريہ (مصر ميں ) اور وہاں كے علمى مركز سے يعنى مدرسہ اسكندريہ كے ذريعے مسلمانوں كے پاس پہنچا(۲) وہ علوم جو مسلمانوں نے يونانيوں سے حاصل كيے يہ ہيں : رياضى ، نجوم، طب اور علوم طبيعى _

اسلامى دانشوروں كى تاليفات بتاتى ہيں كہ كس حد تك مسلمانوں نے بقراط ، جالينوس ، افلاطون ، فيثاغوريث اور ارسطو كى كتابوں سے فائدہ اٹھايا، ايك اہم نكتہ يہ ہے كہ پہلے پہل مسلمان ان علوم سے يوناني

____________________

۱) دايرة المعارف فارسي، غلام حسين مصاحب، ج۲ ص ۲۱۴۴_

۲) سيد حسن تقى زادہ ، تاريخ علوم در اسلام ، تہران ۱۳۷۹ شمسى ص ۳۱،۳۰_

۳۰

كتابوں كے ترجمہ كے كى بجائے ان اطباء كے ذريعے آگاہ ہوئے كہ جو مسلمانوں كى فتح كے زمانہ ميں ان يونانى سرزمينوں ميں رہتے تھے، دمشق كو مركز خلافت كے طور پر انتخاب كرنا باعث بنا كہ يونانى دانشوروں سے رابطہ كئي گناآسان ہوگيا ، كچھ علوم ہندوستان سے عالم اسلام ميں وارد ہوئے ، عباسى دور كے اوائل ميں يہ علمى رابط برقرار ہوا ، علوم طب ، نجوم وغيرہ ميں ہندى كتابوں سے ترجمہ كيا گيا، اسى طرح چند ہندى ماہرين كہ جن ميں ايك صف اول كا ستارہ شناس بھى تھا خليفہ عباسى منصور كے پاس آئے ، تو منصور نے اس ستارہ شناس سے چاہا كہ ان علوم كا كچھ حصہ اسكے دربار كے علماء كو سكھائے ، اسطرح ہندى علوم وسيع پيمانے پر علوم اسلامى كى محفلوں ميں وارد ہوئے_

دنيا كا ايك اور علمى مركز كہ جہاں سے مختلف علوم اسلامى تمدن ميں داخل ہوئے وہ ايران بالخصوص ايران كا شہر گُندى شاپور(شوستر شہر اور دزفول شہر كے درميان) تھا، گُندى شاپور ميں خسرو انوشيروان كى حكومت كے زمانے سے مدرسہ اور ايك ہسپتال تعمير ہوا تھا كہ جہاں مختلف ممالك سے طبيب اور ماہرين مشغول تھے_ گندى شاپور كى ترقى كى ايك وجہ نسطوريوں كا وہاں آنا تھا، جب نسطوريوں كو مدرسہ ادسا ء سے نكالا گيا تو وہ ايران كى طرف آئے اور گندى شاپور شہر ميں مقيم ہوئے ، وہ يونانى كتابوں كا سريانى ترجمہ بھى اپنے ساتھ لائے تھے ، اشراقى (ايك فلسفى مكتب ) حكماء كہ جو اہل يونان تھے '' ايتھنز '' سے انہيں در بدر كيا گيا تو وہ بھى يہاں آكرفلسفہ كى تعليم ميں مشغول ہوگئے اور انوشيروان كے حكم سے انہوں نے افلاطون اور ارسطو كى بعض كتابوں كا پھلوى زبان (قديم فارسي) ميں ترجمہ كيا_

مسلمانوں كے ہاتھوں ايران كى فتح كے بعد ان كتابوں كا فارسى سے عربى زبان ميں ترجمہ ايك قدرتى امر تھا، عباسى خلافت كے زمانے ميں كچھ كتابوں كا پھلوى سے عربى ميں ترجمہ كيا گيا بعد ميں يہ كتابيں اسلامى نجوم كے علم كى تكميل كے حوالے سے اہم ترين منبع شمار ہوتى ہيں _

علوم طبيعى كے ميدان ميں ايك اہم ترين علم '' علم الادوية''تھا جو يونان سے اسلامى دنيا ميں داخل ہوا، ايشياى كوچك كے ايك ماہر و دانشور ديسقوريدس كى كتاب '' حشائشے يا الھيولى فى الطب '' كى نام سے عربى

۳۱

ميں ترجمہ ہوئي ،يہ كتاب يونانيوں كے نزديك بہت اہميت كى حامل تھى اور عربوں كے ہاتھوں بہت دقيق انداز سے ترجمہ اور تحقيق ہوئي ، اس قسم كى قديم اور معيارى كتب كے ذريعے مسلمان علم الادويہ اور طبى مفردات ميں ممتاز مقام كے حامل ہوگئے_(۱)

۳_ترجمے كى تحريك:

فتوحات كے عروج كا زمانہ گزرنے كے بعد جب اسلامى حكومت مستحكم ہوگئي اور مسلمان اسلام كے بنيادى علوم كى تدوين سے كچھ حد تك فراغت پاگئے ، بعض عباسى خلفاء كے اہتمام اور حوصلہ افزا سياست كے زير سايہ اور بيت المال كى بے پناہ دولت سے استفادہ كرنے كے باعث اسلامى معاشرہ آہستہ آہستہ ان علوم اور صنعتوں كى طرف متوجہ ہوگيا كہ جو غير مسلم تہذيبوں ميں موجود تھے، اس توجہ كا اصلى سرچشمہ قرآن اور بہت سى احاديث تھيں جو مومنين كو علم و فن كے كسب كرنے پر ترغيب دلاتى تھيں _

دہ چيز جو سب سے زيادہ اس تحريك كے اسباب كو فراہم كرنے كا باعث تھى وہ مسلمانوں كى فتوحات بالخصوص مسلمانوں كا ساسانيوں كى سارى مملكت پر تسلط اور مشرقى روم كے كچھ مناطق پر قبضہ تھا ، ان ميں سے ہر سرزمين ايك قديم تہذيب كى حامل تھي، اس سے بڑھ كر يہ كہ ايك ہزار سال قبل يہاں اسكندر اعظم نے لشكر كشى كى تھى ، جس كى بناء پر ان ميں كچھ حد تك يونانيوں كا مزاج رسوخ كرگيا تھا_

مسلمان فاتحين نے اپنے زير تسلط سرزمينوں سے ايك متحدمملكت تشكيل دى _ دوسرى تہذيبوں كے ساتھ ساتھ يونانيوں كے ساتھ مبادلہ اور ثقافتى تفاہم كا ہر طرح سے ايك نيا تجربہ كيا ،تو بہت ہى كم مدت ميں عالم اسلام كے حكام، دانشوروں اور اہل دانش كا اشتياق اور كام اسقدر بڑھ گيا كہ بعد ميں اس دور كانام ''تحريك ترجمہ ''كا دور پڑگيا ، اگر چہ اس تحريك كا آغاز بنى اميہ كے دور سے ہواليكن اس تحريك كے اصلى اثرات بنى عباس كے دور ميں حاصل ہوئے_

____________________

۱) آلدوميہ لى ، علوم اسلامى و نقش آن در تحولات علمى جہان _ ترجمہ محمد رضا قدس رضوى ، ص ۹ _ ۷۷_

۳۲

بنى اميہ كے دور ميں اكثر ترجمے اداروں ، محكموں ، سياست اور تجارت سے مربوط تھے انہيں جديد حكام اور غير عرب زبان لوگوں كے درميان رابط كى ضرورت كى بناء پر ترجمہ كيا گيا تھا، يہانتك كہ اگر كوئي ايسا متن كہ جسے علمى كہا جاسكے ترجمہ ہو ا تو وہ بھى فوجى يا محكمانہ ضرورتوں كى بناء پر تھا، ترجمے كى با قاعدہ تحريك جس نے بہت سے تاريخي، اجتماعى اور علمى آثار چھوڑے ،اولين عباسى خلفا كے دور سے شروع ہوئي _

يہ علمى تحريك دو صديوں سے زيادہ جارى رہى ،بالخصوص دوسرے خليفہ منصور عباسى كى حكومت كے زمانہ ميں غير مسلم اقوام كے علوم كے ترجمہ كے حوالے سے اہم اقدامات دو روشوں يعنى تحت اللفظى اور با محاورہ صورت ميں انجام پائے، اس زمانہ ميں پہلے ترجمے فارسى سے عربى ميں ہوئے ، ان كتابوں كے بيشتر مترجمين نو مسلم زرتشتى تھے، چند ادبى كتابوں مثلا كليلہ اور دمنہ كا ترجمہ ايرانى مصنف عبداللہ بن مقفع (متوفاى ۱۴۱ قمري) كے ہاتھوں انجام پايا، بعد والے ادوار ميں اسلامى مترجمين ترجمہ كے فنون ميں بہت زيادہ مہارت پيدا كرگئے اس فن ميں اپنے تجربات كى بناء پر انہوں نے سريانى اور يونانى زبانوں سے عربى ميں ترجمہ كيا_

اس دور ميں نسطورى مذہب كے حاذق حكيم اور شيخ المترجمين كے نام سے مشہورحنين بن اسحاق جو يونانى ، سريانى ، عربى او پہلوى زبانوں پر تسلط ركھتے تھے پہلے مترجم تھے جنہوں نے ايك گروہ تشكيل ديا اور ترجمہ كے كام كو منظم كيا ،ان كے فن ترجمہ كے شاگردوں ميں سے انكے فرزند اسحاق اور بھانجے حبيش بن اعسم تھے، حنين بھى ديگر مترجمين كے ترجموں كو اصل كتابوں سے مطابقت ديتے ہوئے اصلاح كيا كرتے تھے_

عباسى خلافت كے دور ميں ترجمہ كى اس تحريك كو چند ادوار ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے كہ ان تمام ادوار ميں خليفہ كے ميلان ياديگر عوامل كى بناء پر تراجم كى تعداد اور موضوعات ميں فرق پڑا ،ان ادوار كو خاص طور پانچويں عباسى خليفہ ہارون الرشيد (حكومت ۱۹۳ _ ۱۷۰) كے دور سے يوں ترتيب ديا جا سكتا ہے:

(الف) ہارون الرشيد كا دور:

اس دور ميں توجہ كا مركزسائنس كى كتابوں كا ترجمہ تھا ، يحيى بن خالد برمكى جو كہ ہارون كے وزير تھے انہوں نے لائق مترجمين كو اكٹھا كرنے كے ليے بہت زيادہ كوشش كى ، ہارون كے

۳۳

زمانہ ميں جو شہر جو مسلمانوں كے قبضہ ميں آتے تھے انكے كتابخانے كامل طور پر بغداد ميں منتقل ہوتے تھے، يونانى علوم كے پہلے آثار اور تاليفات مثلا اقليدس اور مجسطى كى اصول ہندسہ پر لكھى ہوئي كتابيں ،بطلميوس كى تصانيف اور ہندوستانى زبان سے طب كے بارے ميں تصنيفات كا عربى ميں ترجمہ اس دور ميں انجام پايا_

ب) مامون كا دور ( حكومت ۲۱۸ _ ۱۹۸قمرى ) :

ہارون الرشيد كے بعدكچھ عرصے ميں مامون مقام خلافت پر پہنچ گيا ،جس زمانہ ميں حكومت اسكے ہاتھوں آئي اس زمانہ ميں آيات قرآن سے مختلف فہم و تعبير كى بناء پر علم كلام كى مباحث عروج پر تھيں اوراس دور ميں بالخصوص بہت سى فلسفى تصنيفات عربى ميں ترجمہ ہوئيں _

ج) مامون كے بعد كا دور:

مامون كے بعد متوكل عباسى (حكومت ۲۴۷ _ ۲۳۲قمري) كے دور ميں ترجمہ كا كام اسى طرح چلتا رہا، مثلا حنين بن اسحاق اسى طرح متوكل كے دور ميں بھى ترجمہ كے كام ميں مشغول رہے ، ليكن حكومت اسلامى كے مركز كا معتصم (حكومت ۲۳۷ _ ۲۱۸قمري) كے دور ميں بغداد سے سامرا منتقل ہونا مختلف تصانيف كے ترجمہ كى كيفيت ميں تبديلياں لايا، اس تبديلى كى اہم ترين وجہ '' بيت الحكمة'' جو كہ ايك اہم ترين علمى ادارہ تھا اسكى عظمت و اہميت كا كم ہونا تھا_

د) تحريك ترجمہ كا اختتام:

بغداد ميں ترجمہ كى تحريك دو سو سال تك بہت زيادہ كام كرنے كے بعد بتدريج زوال پذير ہوگئي اور آخر كار نئے عيسوى ہزارہ كے آغاز ميں اپنے اختتام تك پہنچ گئي، البتہ يہاں تحريك ترجمہ كے ختم ہونے كا يہ مطلب نہيں ہے كہ لوگوں كى توجہ ترجمہ شدہ علوم كى طرف كم ہوگئي يا يونانى زبان سے ترجمہ كرنے والے ماہرين كم ہوگئے تھے بلكہ اس تحريك كے اختتام كى اصلى وجہ ان زبانوں ميں نئے موضوعات كا موجود نہ ہونا تھا ،دوسرے الفاظ ميں يہ تحريك اپنى اجتماعى مركزيت كھو بيٹھى تھى ، جديد مضامين كا پيش نہ ہونا سے مراد يہ نہيں ہے كہ ديگر غير دينى يونانى كتب ترجمہ كيلئے موجود نہ تھى بلكہ اس سے مراديہ ہے كہ ايسى يونانى كتب جو اس تحريك كے بانى حضرا ت، علماء اور دانشور طبقہ كى توجہ اور ضرورت سے متعلق ہوں موجود نہ تھيں ،

۳۴

كيونكہ بيشتر علوم و فنون ميں بہت عرصہ پہلے سے اصلى متون اور تصنيفات تشكيل پا چكى تھيں كہ جو ان ترجمہ شدہ كتب كى سطح سے كہيں بلند علمى سطح كى حامل تھيں ،اس تحريك كے بانى اور حامى گذشتہ دور كى نسبت اب ترجمہ كے كام كى طرف توجہ يا اسكى پشت پناہى كرنے كى بجائے خود عربى زبان ميں اصلى مضامين وموضوعات كو پيش كر رہے تھے_

۴_ اسلامى تمدن ميں علمى مراكز

اسلام كے نئے تشكيل شدہ نظام كے استحكام اور اسلامى معاشرے كے اندرونى رشد و كمال سے بتدريج تعليمى مراكز وجود ميں آگئے جنہوں نے علوم و فنون كى پيدائشے اور وسعت ميں اہم كردار ادا كيا، پہلا تعليمى ادارہ كہ جو اس عنوان سے وجود ميں آيا اسكا نام بيت الحكمة تھا يہ بغداد ميں تعمير ہوا اور حكومتى خزانہ يا بيت المال كى رقم سے چلتا تھا_

يہ دانشوروں ،محققين اورخصوصاًايسے لائق مترجمين كے اجتماع كا مركز تھا كہ جو يونان كى علمى و فلسفى كتب كو عربى ميں ترجمہ كيا كرتے تھے، بيت الحكمة كہ جو مسلمانوں كا بغداد ميں پہلا كتابخانہ تھا اسكى بنياد ہارون الرشيد نے ڈالى ، اس سے پہلے منصور عباسى كہ جسكے زمانہ ميں ترجمہ كے كام كا آغاز ہوا تھا اس نے حكم ديا تھا كہ ديگر زبانوں سے كتب كو عربى ميں ترجمہ كيا جائے بعد ميں يہى كتب بيت الحكمة كى اساس قرار پائيں _

مامون كے زمانہ ميں بيت الحكمة كو وسيع كيا گيا، اس نے كتابوں سے لدے ہوئے سو اونٹ بغداد منگوائے اور بظاہر يہ كتب اس قرار داد كے تحت مسلمانوں كودى گئيں جو مامون اور روم كے بادشاہ مشل دوم كے در ميان طے پائي، نيز مامون نے ۳لاكھ دينار ترجمہ كے كام پر خرچ كيے، اس دور ميں بيت الحكمة كے علاوہ ديگر علمى ادارے بھى موجود تھے ان اداروں ميں سے ايك ''دار العلوم'' تھا يہ ايك عمومى لا ئبريرى كى شكل ميں تھا، اسى طرح مصر ميں ايك تعليمى مركز دار العلم فاطميون تھا، يہ ادارہ الحاكم با مراللہ جو كہ مصر ميں فاطمى خليفہ تھے انكے حكم سے ۳۹۵ ہجرى قمرى قاہرہ ميں تعمير ہوا، اس ادارہ ميں تقريبا دس لاكھ كتب موجود تھيں ،موصل كا

۳۵

دار العلم جعفر بن محمد ہمدان موصلى نے تعمير كيا يہ وہ پہلا علمى مركز تھا كہجسميں تمام علوم سے كتابيں جمع كى گئي تھيں موجودہ لبنان كے ايك شہر طرابلس ميں پانچويں صدى ہجرى كے آخر ميں ايك دارالعلم سوا لاكھ جلد كتابوں كے ساتھ موجود تھا_(۱)

اسلامى دور كے ديگربہت اہم مشہورعلمى مراكز نظاميہ مدارس تھے، پانچويں صدى كے آخرى پچاس سالوں ميں خواجہ نظام الملك نے بغداد ، نيشابور ، اور ديگر شہروں ميں مدارس كى تعمير كر كے نظاميہ نام كے مدارس كے سلسلے كى بنياد ركھى ، بغداد كا نظاميہ جو كہ ۴۵۹ قمرى ميں تاسيس ہوا اسميں ابواسحاق شيرازى تدريس كيا كرتے تھے، انكے بعد اس مدرسہ ميں تدريس كى سب سے بڑى كرسى امام محمد غزالى كو نصيب ہوئي ، اسكے بعد عالم اسلام ميں مدارس كا جال بچھ گيا ،سلجوقيوں كى مملكت ميں جو مدارس اور علمى مراكز خواجہ كے حكم سے تعمير ہوئے تو وہ خواجہ نظام الملك كى طرف منسوب ہونے كى وجہ سے نظاميہ كے عنوان سے مشہور ہوئے _

بغداد كے نظاميہ كے علاوہ اور مدارس نظاميہ بھى قابل ذكر ہيں مثلا نيشابور كا نظاميہ خواجہ نظام الملك اور ديگر سلجوقى بادشاہوں كى نيشابور شہر كى طرف خصوصى توجہ كے باعث تاسيس ہوا ،مشہور افراد مثلا امام موفق نيشابورى ، حكيم عمر خيام، حسن صباح ، امام محمد غزالى اور انكے بھائي امام احمد اور امام محمد نيشابورى نے اس مدرسے ميں تربيت پائي ،نيشابور كا يہ نظاميہ مدرسين اورمشہور فقہاء كى تعداد جو كہ وہاں تعليم ديتے تھے ،كے باعث بغداد كے نظاميہ كے بعد دوسرا مقام ركھتا تھا، اسى طرح اصفہان اور بلخ كے مدارس نظاميہ بھى نامور اساتذہ كے حامل تھے_

مجموعى طور پر كہا جاسكتا ہے كہ عالم اسلام ميں علمى و تعليمى مراكزمتعدد اور متنوع تھے، ان مراكز ميں سے وسيع اور غالب ترين علمى مراكز مساجد تھيں كہ جو سارے عالم اسلام ميں پھيلى ہوئي تھيں ،مساجد مسلمانوں كے دينى اجتماع كے سب سے پہلے مراكز ميں شمار ہوتى تھيں _

____________________

۱)على رفيعى علامہ دشتى ، درآمدى بر دايرة المعارف ،كتابخانہ ہاى جہان ، قم ، ص ۴۳ _ ۴۲_

۳۶

حتى كہ مدارس كى عمارتيں بھى مساجد كے نقشہ كے مطابق ہوتى تھيں ايسى معروف مساجد جو اپنى تاسيس كے آغاز ميں يا كچھ عرصہ بعد ان ميں لائبريرياں بھى تشكيل پائيں ، عالم اسلام كے اہم شہروں ميں بہت زيادہ تھيں مثلا مسجد جامع بصرہ ، مسجد جامع فسطاط ، مسجدجامع كبير قيروان ، مسجد جامع اموى دمشق، مسجد جامع زيتونہ جو كہ تيونس ميں ہے، مسجد جامع قرويين فاس اور مسجد جامع الخصيب اصفہان(۱) _

عالم اسلام كے ہسپتال كہ جنہيں '' مارستان'' بھى كہا جاتا تھامريضوں كے علاج كے ساتھ ساتھ اطباء كى تحقيق اور مطالعہ كے مراكز بھى شمار ہوتے تھے، اور ان ميں صرف اسى علم پر لائبريرياں بھى تھيں ،مثلا مارستان فسطاط ، مارستان الكبير منصورى قاہرہ ، مارستان نورى بغداد ، رى كا ہسپتال

اسى طرح علمى مراكز ميں سے رصد خانے ( علم ہيئت كے مراكز) بھى تھے ،عالم اسلام ميں بہت بڑے متعدد رصد خانے تعمير ہوئے جن كا شمار دنيا كے سب سے بڑے اور اہم ترين رصد خانوں ميں ہوتا تھا،كہ جن ميں علم رياضى اور نجوم كى جديد ترين تحقيقات ہوتى تھيں ،رصد خانوں ميں اسلامى دانشوروں كے بہت سے انكشافات اور تحقيقات صديوں بعد بھى يورپ ميں تجزيہ و تحليل كا مركز قرار پائے ،ان رصد خانوں ميں اہميت كے لحاظ سے مثلا مراغہ اور سمرقندكے رصد خانوں كا نام ليا جاسكتا ہے_

ان تمام اسلامى تعليمى اداروں ميں دو علمى مركز بہت زيادہ اہميت كے حامل ميں ان دو ميں ايك ''ربع رشيدي'' ہے كہ بہت سے علماء كى آمد و رفت كا مقام تھا كہ جو وہاں علمى كاموں ميں مصروف تھے ،دوسرا ''شنب غازاني''كہ جو ايل خانوں كے دور ميں تعمير ہوا كہ جس ميں مختلف ا فراد كے درميان متعدد علمى معلومات كا تبادلہ ہوا كرتا تھا_

____________________

۱) منور جمال رشيد ، قديم اسلامى مدارس، لاہور ، ص ۱۳۸ _ ۱۱۴_

۳۷

تيسرا باب:

اسلامى تمدن ميں علوم كى پيش رفت

۳۸

علوم كى درجہ بندي:

كلى طور پر ديكھا جائے تو اسلامى دانشوروں كى آغاز ميں عالم طبيعت بالخصوص انسان كے حوالے سے علم طب ميں انہى حدود كے اندر نگاہ تھى كہ جو يونانى علماء نے متعين كى تھيں اسى طرح علم فلكيات كے حوالے سے وہى بطلميوس كا زمين كو مركز قرار دينے والا نظريہ ركھتے تھے، ليكن اسلامى دانشوروں كى تحقيق و مطالعہ نے انہيں ان نظريات سے مختلف حقائق سے آشنا كيا، لہذا طب، علم فلكيات ، رياضى ، فزكس كے حوالے سے عالم اسلام ميں ايسے نكات اور قواعد سامنے آئے كہ جنكے بارے ميں كہا جاسكتا ہے كہ وہ كسى بھى طرح سے يونان سے نہيں ليے گئے بلكہ وہ اساسا اسلامى مفكرين كى كاوشوں كا نتيجہ ہيں ، اس حوالے سے مزيد تجزيہ و تحليل كيلئے ضرورى ہے كہ سب سے پہلے ہم اسلامى تمدن ميں علوم كى درجہ بندى پر نگاہ ڈاليں ،يو ں ان تمام علوم كى اقسام ميں اسلامى دانشوروں اور انكى تحقيقات سے آشنا ہونے كے ساتھ ساتھ ان حقيقى نكات اور مسائل كا تجزيہ كريں كہ جو يونانى علوم كى حدود اور معيار سے ہٹ كر سامنے آئے _

اسلام ميں علوم كى درجہ بندى كے حوالے سے مختلف روشيں موجود ہيں اوريہ روشيں عام طور پر اپنے بانيوں كى اپنے ارد گرد كے جہان پر انكى خاص نگاہ سے وجود ميں آتى رہيں ، پہلى درجہ بندى ميں علوم كود و اقسام نظرى اور عملى ميں تقسيم كيا گيا ، البتہ يہاں ابھى ان علوم عملى كى كيفيت اور انجام كے طريقہ كار كو مد نظر نہيں ركھا گيا، علوم نظرى كہ جنہيں حكمت نظرى سے بھى تعبير كيا گياہے ان ميں اصول شناخت و معرفت زير بحث ہيں اور بحث كا موضوع وجود اور اسكا مادے سے تعلق كى حالت ہے ،يہ علوم پھر تين اقسام ميں تقسيم ہوئے ہيں علم الہى (علم اعلي) وہ امور جو مادہ سے جدا ہيں ،علم حساب و رياضى (علم اوسط) ان علوم كى بحث مكمل طور پر ذہنى اور مادہ

۳۹

سے ہٹ كرہے اور علم طبيعى (علم ادني) جو مادہ كے بارے ميں بحث كرتا ہے خواہ وہ ذہنى صورت ميں ہو ں يا ذہن سے باہر كى دنيا ميں _

اسى طرح علوم عملى بھى تين اقسام ميں تقسيم ہوتے ہيں :

''علم اخلاق ''كہ جو انسان كى انفرادى و ذاتى زندگى سے مربوط ہے ،علم'' تدبير منزل'' كہ جوگھرانے سے متعلق ہے اور علم سياست كہ جو معاشرہ كے مسائل سے متعلق ہے ،يہ درجہ بندى يونانى فلسفہ بالخصوص ارسطو كے فلسفہ كے زير اثر تشكيل پائي_

دوسرى درجہ بندى علوم كے اپنے حقيقى ہدف كے ساتھ بلاواسطہ تعلق كى بنا پر ہے يعنى ان مختلف علوم سے ايك معين ہدف تك پہنچے كيلئے فائدہ اٹھا يا جا تا ہے ، مثلا حكمت نظرى يا شرعى علوم ميں شناخت و معرفت كومركزيت حاصل ہے جبكہ ديگر علوم مثلا صرف ونحو(گرائمر كے قواعد) ان كو سمجھنے ميں مدد ديتے ہيں _

تيسرى درجہ بندى ميں علوم دو قسموں اسلامى اور غير اسلامى ميں تقسيم ہوتے ہيں ، علوم اسلامى وہ علوم ہيں كہ جنكا سرچشمہ مكمل طور پر مسلمانوں كى فكر و نظر ہے ، جبكہ علوم غير اسلامى وہ علوم ميں كہ جنكے اصول ديگر تہذيبوں ں سے اسلام ميں پہنچے اور مسلمانوں نے اپنى تحقيقات ميں انہيں وسعت دى اور مختلف شاخوں ميں تقسيم كيا_

چوتھى درجہ بندى ميں علوم دو قسموں شرعى اور غير شرعى ميں تقسيم ہوتے ہيں علوم شرعى سے مراد وہ چيزيں ہيں كہ جو پيغمبر اكرم(ص) اور ائمہ اطہار سے ہم تك پہنچيں كہ جن ميں اصول و فروع دين مقدمات اورمتممات دين شامل ہيں جبكہ علوم غير شرعى سے مراد فقط علوم عقلى ہيں مثلا رياضيات و غيرہ _

پانچويں درجہ بندى ميں علوم دو قسموں عقلى اور نقلى (منقول )ميں تقسيم ہوتے ہيں يہاں علوم عقلى سے مراد حكمت ، كلام اور فلسفہ و غيرہ ہے جبكہ علوم نقلى سے مراد شرعى اور وہ معلومات كہ جو مختلف علوم مثلا علم فلكيات اور طب و غيرہ سے حكايت ہوئي ہيں _

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

كے عنوان سے معروف ہوا _ وہ ابوحنيفہ كى آراء بالخصوص احكام شرعى كى تشخيص كے سلسلے ميں ابوحنيفہ كے فقہى قياس اور نظريات كے مد مقابل اپنے مخصوص نظريات ركھتے تھے انہوں نے سعى كى كہ فقہى روش پر حديث كى كتاب لكھ كر اپنى آراء پيش كريں اس كتاب ميں جس كا نام مؤطا ہے مالك سب سے پہلے حديث نقل كرتے ہيں پھر مدينہ كے فقہاء كا فتوى ذكر كرتے ہيں اسكے بعد اپنى فقہى نظر پيش كرتے ہيں انكا نظريہ يہ تھا كہ احكام شرعى كيلئے روايات جيسى مستند دليل كے ہوتے ہوئے قياس يا اپنى رائے كى طرف نہيں آنا چاہيے_ مالكى مذہب بتدريج شمالى آفريقا ، مصر اور اندلس ميں رواج پاگيا(۱)

اہل سنت كے تيسرے فقہى مكتب كو ابوعبداللہ محمد بن ادريس شافعى(۲) (۲۰۴ _ ۱۵۰ قمرى ) نے تشكيل ديا وہ چونكہ دونوں حنفى اور مالكى مذاہب كے بارے ميں معلومات ركھتے تھے اسى ليے انہوں نے كوشش كہ ان دو مذاہب ميں اساسى امتزاج پيدا كيا جائے اور اس امتزاج اور وحدت پر جديد فقہ كو تشكيل ديا جائے(۳) ليكن اسكے ساتھ ساتھ انہوں نے حنفى مكتب كے استحسان اور مالكى مكتب كى استصلاح كى بھى مخالفت كي_ انہوں نے اپنى فقہى آراء كے اساسى قواعد كو اصول الفقہ كے متعلق ايك رسالہ ميں تحرير كيا _ مصر ميں صلاح الدين ايوبى كے ذريعے فقہ شافى رائج ہوئي(۴) اور اس فقہ كے عراق اور مكہ ميں بھى حامى موجودہيں(۵)

اہل سنت كا چوتھا فقہى مكتب احمد بن حنبل(۶) (۲۴۱ _ ۱۶۴ قمري) كى طرف منسوب ہے جو فقہ حنبلى كے عنوان سے مشہور ہے _ احمد بن حنبل علماء حديث كے بڑے مفكرين ميں سے شمار ہوتے ہيں انہوں نے شافعى

____________________

۱)كاظم مدير شانہ چى ، علم الحديث، مشہد ص ۳۶_

۲)محمد ابوزہرہ ، امام شافعى حياتہ و عصرہ و آرا و فقہہ ، قاہرہ_

۳) ج م عبدالجليل ، تاريخ ادبيات عرب، ترجمہ آذر تاش آذرنوش ، تہران ص ۱۷۵_

۴)قيس آل متين ، سابقہ ما خذ ، ج ۵ ص ۵_

۵) بوجينا غيانة ، سابقہ ما خذص ۱۷۴_

۶)ذائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۶ ، ذيل احمد بن حنبل_

۱۰۱

كے ہاں درس پڑھا(۱) تيس ہزار احاديث پر مشتمل حديث كى مسند لكھ كر دوسروں كو اپنى طرف متوجہ كرليا(۲) انكى فقہ كى بنياديں كتاب ، سنت ، صحابہ كے فتاوى ، قياس، استحسان ، مصالح او رذرايع سے تشكيل پائيں انكے مذہب كے سب سے زيادہ پيروكار حجاز ميں ہيں(۳)

فقہ حنبلى كے حوالے سے ايك نكتہ يہ ہے كہ چونكہ احمد بن حنبل آراء او رنظريات كے مكتوب شكل ميں جمع كرنے كے مخالف تھے اسى ليے انكے شاگردوں اور بعد ميں آنے والے حنبلى مسلك افراد كى آراء ميں جو احمد بن حنبل سے نقل كى گئي ہيں خاص فرق حتى كہ تضاد بھى نظر آتا ہے اور كبھى تو كسى ايك مسئلہ ہيں انكا نام ليكر نقل ہونے والے متضاد اقوال چار يا پانچ كى تعداد تك بھى ہيں(۴)

اہل سنت كے ان چار اماموں كے بعد سنى فقہ نے اپنى جدت اور تحرك كو كھوديا_ چوتھى صدى سے تيرھويں صدى تك ان آئمہ كے آثار پرصرف حاشيہ يا انكى شرح و تفسير كى حد تك كام ہوا ان مذاہب كے فقہاء نے انكى آراء كے ساتھ تقريبا كوئي نئے نكتے كا اضافہ نہ كيا اسى ليے اہل سنت كى فقہ ميں اجتہاد ان چار اشخاص كى تقليد ميں تبديل ہوكر رہ گيا اگر چہ ان چار آئمہ ميں اجتہاد كو منحصر كرنے پر كوئي بھى عقلى اور نقلى دليل موجود نہ تھى ليكن بتدريج اور حاكموں كے سياسى مقاصد اور كاموں كى بناء پر اس مسئلہ ميں اجماع كى كيفيت پيدا ہوگى كہ اب اسكے خلاف آواز بلند كرنا آسان كام نہ تھا(۵) ليكن تيرھويں صدى ہجرى سے عالم اسلام ميں واضح تبديلياں پيدا ہوئيں _ عصرى تقاضوں ، زندگى اور معاشرتى روابط ميں گہرى اور وسيع تبديليوں كے پيش نظر اہل سنت كے بعض فقہاء فقط ان چار آئمہ كى تقليد ميں منحصر ہونے كے مسئلہ ميں شك و ترديد كا شكار ہوگئے_

____________________

۱)وحينا غيانة ، سابقہ ما خذص ۱۷۷ _

۲)كاظم مدير شانہ چي، سابقہ ما خذص ۵۵_

۳)دائرة المعارف بزرگ اسلامي، سابقہ ما خذ_

۴)رجوع كريں ، ابن حبيرہ الافصاح عن معافى الصحاح، حلب ج ۱ ص ۵۴_

۵) ابوالفضل عزتى ، سابقہ ما خذص ۸۳ _ ۷۱ _

۱۰۲

بتدريج اہل سنت كے فقہاء يہ بات سمجھ گئے كہ ان آئمہ كى تقليد پر كوئي عقلى و نقلى حكم اور معتبر دليل موجود نہيں ہے وہ بھى ان چار فقہاء كى مانند شرعى مسائل ميں اجتہاد كرسكتے ہيں اس حوالے سے مصر كے عظيم مفتى شيخ محمود شلتوت نے شيعہ فقہاء كى آراء پر توجہ كرتے ہوئے شيعہ فقہا كى آرا كى پيروى كے جواز كا اعلان كر كے ايك اہم ترين قدم اٹھايا _ (يہ بات قابل ذكر ہے كہ ان مندرجہ بالا چارمسالك كے علاوہ ديگر مسلك اور مكاتب بھى دائرہ وجود ميں آئے جن ميں سے بعض مسالك مثلا زيديہ اور اسماعيليہ شيعہ مسالك ميں شمارہوتے ہيں اور اپنى فقہ اور پيروكاروں كے ساتھ عہد حاضر ميں موجود ہيں اور بعض مسالك جو كسى سے وابستہ نہيں ہيں مثلا اباضى مسلك كہ جو خوارج كے مسلك ميں سے ابھى تك اپنا وجود برقرار ركھے ہوئے ہے(۱) يا ديگر مسالك مثلا مسلك اوزاعى (متوفى ۱۵۰ قمري) اور مسلك سفيان ثورى (متوفى ۱۶۱ قمري) اور مسلك داود بن على ظاہرى (متوفى ۲۷۰ قمري) كہ يہ سب سنى مسالك ميں سے شمار ہوتے ہيں ليكن بہت كم پيروكاروں كى بناء پر زيادہ عرصہ تك نہ چل سكے(۲)

ليكن ان تمام مسالك ميں ايك معمولى ساموازنہ كرتے ہوئے ہم ديكھتے ہيں كہ زيدى مسلك بہت زيادہ پيروكاروں اور بے شمار علما، محدثين ، معروف فقہاء اور مؤلفين كى بناء ايك ممتاز مقام كا حامل ہے اس مذہب كى بعض كتب مندرج ذيل ہيں :

زيد بن على بن الحسين (ع) سے منسوب '' المجموع''(۳) يحيى بن حسين (۹۸_ ۲۴۵قمري) كى جامع الاحكام فى الحلال و الحرام احمد بن يحيى المرتضى (۸۴۰ _ ۷۷۵قمري) كى البحر الزخار، ابراہيم بن محمد كى الروض فى الحامل شرح الكافل حسن بن احمد (متوفى ۱۰۴۸) كى ضوء النہار فى شرح الازہار اور محمد بن على الشوكانى (متوفى ۱۲۲۱)

____________________

۱)رجوع كيجئے : موسوعة الفقہ الاسلامى ج ۱ ص ۳۲ ، صبحى الصالح ، انظم الاسلامية ، نشا تہا و تطورہا ص ۲۰۷ ، صبحى رجب محمصانى ، فلسفة التشريع فى الاسلام ج ۵ ص ۶۹ _۷۰_

۲)عبدالكريم زيدان، المدخل لدراسة الشريعة الاسلامية ، بيروت ج ۱۱ ص ۱۴۸_

۳) سابقہ ما خذ_

۱۰۳

كى الدرر البھية والسيل الجرار و نيل الاوطار(۱) (زيدى مذہب سے كافى عرصہ كے بعد ہم داود بن على الظاہرى سے منسوب ظاہرى مذہب كا نام لے سكتے ہيں كيونكہ اسكے پيروكار بہت ہى كم تھے اور آج تقريباً موجود نہيں ہيں اس مذہب كى بنيادى فقہى كتا ب'' المحلى '' ہے كہ جسے ابن حزم ظاہرى نے تحرير كيا اس مذہب كے استحكام اور بقاء كا باعث تھى اسى شخص كى خدمات جانى گئيں(۲)

۵_ اصول

اسلامى علوم ميں وہ علم كہ جو اصلى منابع اور مصادر سے اسلامى احكام اور قوانين كے استنباط كيلئے تدوين ہوا علم اصول ہے يہ علم وجود ميں آنے كے بعد سے اب تك نو مراحل سے گزرا:_

۱)وجود ميں آنے كا دور: اس دور ميں اس علم كى تدوين اور اسكے مقدمات بيان كرنے كيلئے سب سے پہلى كوششيں ہوئيں _ شيعہ محققين كى رائے كے مطابق اس علم كے خالق امام باقر (ع) اور امام صادق (عليہما السلام ) ہيں _ اگر چہ عصر حاضر كے كچھ محققين كا خيال ہے كہ اصلى قواعد كا سادہ انداز ميں استعمال صدر اسلام سے ہى رائج تھا(۳)

۲) تصنيف كے دور كا آغاز: اس دور ميں علم اصول جس كا ذكر فقہى مسائل كے درميان ہوتا تھا جداگانہ شكل ميں سامنے آيا_ ميرے خيال ميں علم اصول كى سب سے پہلى تصنيف جناب حشام بن حكم كى ہے كہ جواماميہ متكلمين كے سربراہ شمار ہوتے ہيں انہوں نے كتاب '' الفاظ و مباحثہا'' تحرير كى(۴)

____________________

۱) موسوعة الفقہ الاسلام ، سابقہ ما خذ، الحليمي، الروض النضير ، مقدمہ ، دائرة المعارف بزرگ اسلام ج ۲ ص ۵۹ _۱۶۴ ، على بن عبدالكريم شرف الدين ، الزيدية نظريہ و تطبيق ، العصر الحديث ج ۲ ص ۱_۳ اور اسكے بعد ، فواد سزگين ، تاريخ التراث العربى ج ۱ ، جزء ۳ عربى ، ص ۳۵۳_

۲)مصطفى الزلمى ، اسباب اختلاف الفقہاء فى احكام الشريعة ص ۵۶_

۳)حسن شفايي، ملاك اصول استنباط، ص ۹ ، حسن ہادى الصدر، تاسيس الشيعہ لعلوم الاسلام بغداد ، ابولاقاسم گرجى ، مقالات حقوقى ،ج۲ ص ۱۱۷، ۱۱۳_

۴) ابوالقاسم گرجي، سابقہ ما خذص ۱۱۹ _ ۱۱۸_

۱۰۴

۳)علم اصول كے علم كلام كے ساتھ ملاپ كا دور: يہ دور جو كہ زيادہ تر اہل سنت كے حوالے سے ہے ، اہل سنت كے متكلمين بالخصوص معتزلہ علم اصول ميں داخل ہوئے اور اسے اسكے اصلى راہ '' فرعى و فقہى احكام كے استنباط'' سے ہٹا ديا_ اس دور ميں اہل سنت كے مولفين ميں سے ''كتاب آراء اصولى ابوعلي'' كے مصنف محمد بن عبدالوہاب بن سلام جبائي ( متوفى ۳۰۳ قمرى )كتاب التحصيل كے مصنف ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر تميمى اسفراينى (متوفى ۴۲۹ قمري) اور كتاب '' المستصفى ''كے مصنف ابوحامد غزالى (متوفى ۵۰۵ قمرى ) قابل ذكر ہيں _

۴)علم اصول كے كمال اور دوبارہ جدا ہونے كا دور : يہ دور جو كہ مكتب شيعہ كے حوالے سے ہے علم اصول بتدريج پختگى كى منازل طے كر گيا اور كافى حد تك علم كلام كے مسائل سے جدا ہوگيااس دور كے اہم ترين آثار كے جنہوں نے علم اصول كو ترقى كى انتہائي بلنديوں تك پہنچا ديا وہ ابن ابى عقيل ، شيخ مفيد اور شيخ طوسى كى تصنيفات و تاليفات ہيں _

۵)استنباط كے جمود اور علم اصول ميں ٹھہراؤ كا دور: شيخ طوسى كے علمى نبوغ اور عظمت كى بناء پر تقريباً ايك صدى تك مختلف علوم بالخصوص اصول فقہ ميں انكى آرا، اور نظريات بغير كسى علمى تنقيد كے باقى رہے اور اس دور كے مولفين كى كتب پر انكے آثار كى تقليد كى چھاپ باقى رہى _ مثلا سديد الدين حمصى رازى كى كتاب مصادر اور حمزہ بن عبدالعزيز المعروف سلار كى كتاب '' التقريب'' ميں يہ تقليد ديكھى جاسكتى ہے مجموعى طور پر اس دور كے تمام فقہى استنباط اور نتائج شدت كے ساتھ شيخ طوسى كى آراء سے متاثر تھے_

۶) تجديد حيات كى تحريك: اس دور كى خصوصيات ميں سے يہ ہيں كہ ايك طرف روح اجتہاد دوبارہ زندہ ہوئي اور دوسرى طرف گذشتہ بزرگان دين كى كتب كى شرح ، حاشيہ اور تلخيص كى گئي اور فن منطق كے بعض مسائل علم اصول ميں داخل ہوئے اس دور كے علما اور بزرگ محققين ميں سے محمد بن ادريس حلى (متوفى ۵۹۸ قمرى )محقق حلى ، علامہ حلي، فاضل مقداد اور شيخ بہائي قابل ذكر ہيں(۱)

____________________

۱)سابقہ ما خذ ص ۱۲۱ ، ۱۳۰ ، ۱۳۵_

۱۰۵

۷)علم اصول ميں ضعف كا دور : تشيع كى علمى محافل اور حوزات ميں اخبارى مكتب فكر كى طرف ميلان بڑھنے سے علم اصول كى گذشتہ ادوار كى مانند رونق ختم ہوگئي اس دور ميں اخباريوں اور اصوليوں ميں شديد نزاع رہا، اس دور كى اخبارى مكتب فكر ميں اہم ترين تاليف '' كتاب فوائد المدنيہ'' ہے كہ جو محمد امين استر آبادى (متوفى ۱۰۳۳) نے تاليف كي_

۸)علم اصول كا جديدد ور: جناب وحيد بہبہانى كے علمى حوزات ميں ظاہر ہونے سے علم اصول بتدريج دوبارہ ترقى كے زينوں كى طرف بڑھنے لگا، آپ اور آپكے شاگردوں نے اپنى حيرت انگيز صلاحيتوں سے مالامال علمى طاقت سے اخبارى مكتب فكروالوں كے تمام شبہات اور تہمتوں كا جواب ديا اور يہ ثابت كرنے كيلئے بہت زيادہ كوشش كى كہ فقہى مسائل تك پہنچنے كيلئے ہم سب فقط اصولى قواعد كے محتاج ہيں اس دور ميں علامہ وحيد بہبہانى كے علاوہ عظيم علمى شخصيات ميں سے سيد مہدى بحر العلوم (متوفى ۱۲۱۲ قمري) كاشف الغطاء (متوفى ۱۲۲۷قمري) اور سيد على طباطبائي (متوفى ۱۲۲۱ قمري) قابل ذكر ہيں(۱)

۹)عصر حاضر : يہ دور جو كہ حقيقت ميں علم اصول كى معراج كا دور شمار ہوتاہے شيخ مرتضى انصارى (متوفى ۱۲۸) كے ظہور سے شروع ہوا اور انكے بعد انكے شاگردوں كى كوششوں سے جارى رہا _ واقعى بات تو يہى ہے كہ اس دور ميں علم اصول كى ترقى كاگذشتہ ادوار ميں كسى دور سے موازنہ نہيں كياجاسكتا اس دور ميں علم اصول ميں تحقيقات كيفيت اور كميت كے اعتبار سے وسيع ہونے كے ساتھ ساتھ انتہائي عميق بھى ہيں(۲)

۶_ كلام

اسلامى تمدن كے زير سايہ علم كلام كى پيدائشے كى كچھ وجوہات تھيں ان ميں سے ايك مسلمانوں كا غير مسلم اقوام مثلا ايرانيوں ، روميوں اورمصريوں سے تعلقات تھے ان روابط اور تعلقات كى بناء پر عقائد و نظريات

____________________

۱)سابقہ ما خذ ص ۱۳۸_

۲)مرتضى مطہري، آشنائي با علوم اسلامى ، بخش اصول فقہ ص ۲۶۳_

۱۰۶

ميں اختلاف آشكار ہوا _ مسلمانوں نے دين اسلام كے دفاع كيلئے نئي فكرى اور استدلالى روشوں كو سيكھا_ اسى طرح اس علم كے وجود ميں آنے كى دوسرى وجہ ايسى اقوام كا اسلام قبول كرنا قرار پائي كہ جو اپنے مذاہب ميں اللہ تعالى كى صفات، توحيد ، قضا و قدر اور جزا و سزا و غيرہ كے مسائل ميں مخصوص عقائد و نظريات كے حامل تھے_ اسى بناء پہ نئے مسلمان لوگ اسى كوشش ميں رہتے تھے كہ اپنے سابقہ دينى عقائد كو دين اسلام كے سانچے ميں ڈھال كر پيش كريں اسى ليے مسلمانوں نے بھر پور كوشش كى كہ عقلى دلائل سے بہرہ مند ہوكر اسلام كے بنياد ى عقايد كو مستحكم اور پائيدار بنائيں(۱)

علم كلام اپنے آغاز ميں فقط عقائدى مسائل بالخصوص توحيد و غيرہ پر بحث كرتا تھا اور جو شخص عقائد كے امور ميں دليل سے بات كرتا اسے متكلم كہا جاتاتھا اور خود دينى عقائد اور اصول ميں بحث اور جدل كرنے كو علم كلام كا نام دياگيا _ اسلام كے بڑے متكلمين ميں سے جنہوں نے كلامى نظريات اور مسالك كى تشكيل ميں اہم كردار ادا كيا حسن بصرى (۱۱۰ _ ۲۱ قمري) كى طرف اشارہ كيا جاسكتاہے كہ جو گناہوں كے حوالے سے بہت سخت موقف ركھتے تھے _ انكا عقيدہ تھا كہ تمام افعال فقط انسانى مرضى كى بناء پر انجام پاتے ہيں

دوسرى صدى ہجرى ہيں ابو محرز جھم بن صفوان نے مسلك جھميہ كو تشكيل ديا _ اس مسلك كے ماننے والوں كا نظريہ يہ ہے كہ اللہ تعالى كى شناخت كيلئے فقط ايمان كافى ہے ديگر عبادات سے اس كا كوئي ربط نہيں ہے اور كوئي بھى اللہ تعالى كے ارادے كے سوا فعل انجام نہيں ديتا_ پس انسان اپنے افعال ميں مجبور ہے(۲)

تيسرى صدى ہجرى ميں ابو سہل بشر بن معتمر ہلالى كوفى بغدادى (متوفى ۲۱۰قمري) نے مسلك بشرية كو تشكيل ديا _ اسكا نظريہ يہ تھا كہ اللہ تعالى قادر ہے اور اس نے اپنے بندوں كو اپنے كام كرنے پر قادر كيا ہے ليكن يہ مناسب نہ سمجھا كہ حيات، موت اور قدرت جيسے امور بھى انسانوں كے سپرد كرے(۳)

____________________

۱) علامہ شبلى نعماني، تاريخ علم كلام، ترجمہ داعى گيلاني، ص ۸_

۲)خير الدين زركلى ، الاعلام ، ج ۲ ص ۲۲۶_

۳) محمد شہرستاني، الملل و النحل، محمد جواد شكور كى سعى سے ، ج۱، ص ۷۲_

۱۰۷

چوتھى صدى ميں ہم چند مشہور و معروف متكلمين كا عرصہ وجود ميں ظہور كا مشاہدہ كرتے ہيں ان ميں سے ايك شيخ مفيد ہيں انكى تقريباً دو سو كے قريب تاليفات تھيں كہ جن ميں سے اكثر مختلف كلامى مسالك كے عقائد كى رد پر لكھى گئيں _ اسى صدى كے دوسرے مشہور متكلم شيخ الطايفہ ابوجعفر محمد بن حسن طوسى ہيں وہ سب سے پہلے شخص تھے كہ جنہوں نے نجف كو شيعہ مكتب كے علمى اور دينى مركز ميں تبديل كيا انكى كلام ميں مشہور كتابوں كے نام مندرجہ ذيل ہيں :الشافي، الاقتصادالہادى الى الرشاد اورتمھيد الاصول_

پانچويں صدى ميں مشہور متكلم ابوحامد محمد غزالى پيدا ہوئے_ غزالى كا عقيدہ تھا كہ متكلمين نے اس زمانہ ميں دين كى نصرت كيلئے قيام كيا كہ جب دينى فرقوں ميں اختلاف بڑھ گيا تھا اور لوگوں كے دلوں ميں ايمان متزلزل ہوچكا تھا انہوں نے عقلى اور منطقى دلائل كے ساتھ شبہات پيدا كرنے كا راستہ بند كرديا تھا نيز انكا عقيدہ تھا كہ عوام كو علم كلام سے دور كرنا چاہيے كہ اگر ان ميں سے كوئي ''يد'' ، '' فوق'' اور عرش پر استوار'' كا معنى پوچھيں تو بھى انہيں نہ بتائيں خواہ انہيں تازيانے مارنا پڑيں(۱) جس طرح كہ خليفہ دوم حضرت عمرہر اس شخص سے ايسا سلوك كيا كرتے تھے كہ جو تشابہ آيات كے بارے ميں سوال كرتا پانچويں صدى كے ايك اور معروف متكلم ابوالفتح محمد بن عبدالكريم بن احمد شہرستانى ہيں انكى علم كلام ميں معتبرترين كتاب كا نام نہاية الاقدام فى علم الكلام ہے جو علم كلام كے بيس قواعد اور اس علم كے مسائل كى فروع پر تشريح كى حامل ہے(۲)

چھٹى صدى ہجرى كے مشہورترين متكلم امام فخر رازى ياامام المشككين ہيں وہ علم اصول و كلام ميں مكتب اشعرى پر اور فروع دين ميں شافعى مسلك پر تھے انكے بيشتر اعتراضات اورتشكيكات فلسفي، كلامى اور علمى مسائل ميں تھے_ وہ اسلامى عقايد كى تشريح اشعرى مكتب كے اصولوں كى بناء پر كيا كرتے تھے اور فقہ اہل سنت پر عمل پيرا تھے_

____________________

۱)ابوحامد محمد غزالي، المنقد من اللال والمفصح عن الاحوال، محمدحابر كى كوشش سے _ دہر، عبدالكريم گيلانى حاشيہ الانسان الكامل ، قاہرہ_

۲)ابراہيم مذكور، فى الفلسفة الاسلامية، قاہرہ_

۱۰۸

ساتويں صدى ہجرى كے عظيم ترين متكلم خواجہ نصير الدين طوسى ہيں چونكہ خواجہ شيعہ ہونے كے ساتھ ساتھ منگولوں كے بادشاہ ہلاكوخان كى نگاہ ميں اہم مقام كے حامل تھے لہذا اہل سنت كے بہت سے علماء ان سے حسد كيا كرتے تھے اور انہيں سب و شتم كيا كرتے تھے انكى علم كلام ميں اہم ترين كتاب '' تجريد الاعتقاد'' ہے(۱)

ساتويں صدى ميں ابن تيميہ پيدا ہوئے وہ قرآنى علوم، حديث، فقہ، كلام ، فلسفہ اور ہندسہ ميں مہارت ركھتے تھے، وہ مسلمانوں كى سنت كا دفاع كيا كرتے تھے كہ جسكى وجہ سے اہل سنت كے ديگر مسالك كے بہت سے پيروكاروں نے انكى مخالفت كى _ اگر چہ انكا حنبلى مسلك سے تعلق تھا ليكن اس مسلك كے اصول كو اجتہاد كے ذريعہ قبول كرتے تھے اور بدعات كى مخالفت كرتے تھے اور اولياء خدا سے تمسك كرنے اور انبياء كى قبور كى زيارت پر تنقيد كيا كرتے تھے _ علماء اسلام كے ايك گروہ نے انكى مذمت كى جبكہ ايك گروہ نے انكى تعريف كي(۲)

ان تمام گذشتہ صديوں ميں علماء اسلام ميں سے فقط علامہ حلى ہيں كہ جنہيں آيت اللہ كے لقب سے نوازا گيا آپ ساتويں صدى ميں پيدا ہوئے، آپكى چار سو سے زيادہ تاليفات ہيں انہوں نے اپنى علم كلام كے بارے ميں تاليفات ميں سياست كى بحث بھى كي_ وہ سياست كوعين دين سمجھتے تھے انكى علم كلام كى مباحث ميں شيعہ سياسى افكار جلوہ گر ہيں _ انكى علم كلام ميں اہم ترين كتا ب الباب الحادى عشر ہے اسكے ابواب ميں مذہب شيعہ كے مختلف كلامى موضوعات مثلا نبوت، عصمت پيغمبر(ص) كا ضرورى ہونا، پيغمبر (ص) كى افضليت ، پيغمبر(ص) كا نقص سے دور ہونا، امامت ، امام كا معصوم ہونا اور حضرت على (ع) كى امامت كے حوالے سے بحث اور تجزيہ و تحليل كياگيا ہے_(۳)

____________________

۱)ميان محمد شريف، تاريخ فلسفہ در اسلام تہران_

۲)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۳ ، ذيل ابن تيميہ_

۳)خوانسارى ، روضات الجنات، لقرآن ص ۴۲۱ _۴۱۹_

۱۰۹

۷_ تصوف، عرفان اورفتوت

تصوف كا لغت ميں معنى '' صوفى بننا'' ہے ، بظاہر سب سے قديمى كتاب كہ جسميں كلمہ صوفى اور صوفيہ استعمال ہوا وہ جاحظ (متوفى ۲۵۵ قمرى ) كى البيان و التبين ہے(۱) ابن خلدون نے اپنے مقدمہ ميں تصوف كو صحابہ ، تابعين اور انكے بزرگان كى روش كے طور پر ذكر كيا(۲) بعض نے لفظ صوفى كو صفا سے ليا كہ جسكا معنى روشنى اور پاكيزگى ہے اور صفوت سے مرادمنتخب ہے ليكن شہرت يہى ہے كہ صوفى صوف سے ليا گيا ہے كہ جسكا معنى پشم ہے اور صوفى يعنى پشم پوش (پشم پہننے والا)(۳)

عرفان كو يورپى زبانوں ميں '' مَيسٹك'' Mystics(۴) كا نام ديا گيا ہے كہ جو يونانى لفظ ميسٹيكوس( Mistikos ) سے ليا گياتھا(۵) اور اسكا مفہوم و معنى ايك مرموز ، پنہان اور مخفى امر ہے_

اور اصطلاح ميں ايسے خاص دينى پہلو پر دلالت كرتاہے كہ جس ميں كسى انسانى فرد كا كائنات كے رب كے ساتھ بلاواسطہ رابطہ اور اتصال پيدا ہونا ممكن ہے اور يہ علم انسان كو خالق كائنات كےساتھ كشف و شہود اور باطنى تجربات كے ذريعے متصل كرتا ہے دوسرے الفاظ ميں عرفان سے مراد وہ روش اور طريقہ كہ جو نظرياتى طورپر علم حضورى كہلاتاہے اور عملى حوالے سے عبادت، كوشش اور زہد و رياضت سے لولگانے كو كہتے ہيں(۶)

دوسرى صدى ہجرى ميں وہ خاص لوگ كہ جو دينى مسائل كى طرف بہت زيادہ توجہ ديتے تھے زاہد، عابد اورمتصوف كہلاتے تھے_ اس دور ميں ہميشہ ميں عبادت ميں مصروف ہونا ، اللہ تعالى كے ليے ترك دنيا،

____________________

۱)عمرو بن بحر حاحظ، البيان و التبين چاپ حسن سندولى قاہرہ ، ج۱ ص ۲۸۳_

۲)ابن خلدون، مقدمہ ، ج۱ ص ۶۱۱_

۳)منصور بن اردشير عبادي، مناقب الصوفيہ ص ۳، ۳۱_

۴) mystic

۵) mistikos

۶)نورالدين كيائي ناد، سير عرفان در اسلام، ص ۷_۶۵_

۱۱۰

دنياوى لذتوں سے دورى اختيار كرنا ، زہد اور ہر وہ چيز كہ جسے لوگ برا سمجھتے ہيں مثلا ثروت جمع كرنے اور جاہ طلبى و غيرہ سے پرہيز كرنا تصوف كہلا تا تھا(۱)

جاحظ اور ابن جوزى نے تقريباً ابتدا كے صوفيوں ميں سے چاليس افر اد كا تعارف كرواياہے جن ميں ابوذر، حذيفہ بن يمان، خباب بن ارث و بلال حبشي، سلمان فارسي، عمار ياسر ، مقداد اور ديگر وہ لوگ كہ جو عبادت اور زہد ميں معروف تھے انكا ذكر ہوا، اسى طرح وہ اشخاص كہ جو صدر اسلام كے شيعوں ميں سے شمار ہوتے ہيں(۲)

تيسرى صدى كے وسط سے صوفى حضرات گروہى اعتبار سے بتدريج منظم ہوگئے_ انكا اہم ترين گروہ بغداد ميں تھا_معروف صوفى مثلا ابوسعيد خرّاز (متوفى ۲۷۷ قمري) جنيد بغدادى (متوفى ۲۹۸قمري) اور ابوبكر شبلى (متوفى ۳۳۴ قمرى ) وہاں زندگى گذارتے تھے(۳) كلامى اوراعتقاد كے اعتبار سے صوفيوں ميں پائے جانے والے مختلف نظريات انكے فكرى اور باطنى مكتبوں اور فرقوں ميں اختلاف كا باعث تھے _ مثلا خواجہ عبداللہ انصارى اور ابوسعيد ابو الخير آپس ميں اختلاف رائے ركھتے تھے(۴)

تيسرى صدى ہجرى سے دوسرے علاقوں كے صوفيوں كا مركز سے رابطہ اور نظم بڑھ گيا يہانتك كہ بغداد ميں - ۳۰۹ قمرى ميں حلاج قتل ہوا _ يہ چيز باعث بنى كہ بغداد بتدريج صوفيوں كا محور اور مركزنہ رہا_ اسى صدى كے وسط سے ہى بغداد كے بڑے صوفى حضرات نے تاليف كا آغاز كيا اس دور كى اہم ترين كتابيں مندرجہ ذيل ہيں : خرگوشى نيشابورى (متوفى ۴۰۶ قمري) كى تہذيب الاسرار، ابوبكر كلا بازى كى

____________________

۱)عبداللہ بن محمد ارضاري، طبقات الصوفيہ ج ۱۲ ، ص ۵ _۱۹۴_

۲)رينولد'' نيكلسون'' پيدائشے و سير تصوف ترجمہ محمد باقر معين، ص ۱۴_۱۱، مانرى كورين ، تاريخ فلسفہ اسلامى ، ترجمہ جواد طباطبائي ص ۷۳_۲۶۵_

۳)ابوبكر محمد بن ابراہيم كلاباذي، التعرف لمذہب اہل التصوف ، دمشق ص ۳۰ _ ۲۸_

۴)احمد جامى ، مقامات شيخ الاسلام حضرت خواجہ عبداللہ انصارى طروى ، چاپ فكرى سلجوقى تہران ص ۳۴_ ۳۱_

۱۱۱

تصنيف ''التعرف لمذھب اہل التصوف ''اور ابونصر سراج طوسى كى تاليف'' كتاب اللمع فى التصوف'' چوتھى صدى ميں اور اس كے بعد بھى تاليف كى يہ روايت جارى رہي_ كتاب ''التعرف كلا بازى ''كو ابواسماعيل مستملى نے فارسى زبان ميں ترجمہ كيا_ ابو حامد غزالى (متوفى ۵۰۵ قمري) نے كتاب ''كيمياى سعادت ''كو عربى زبان ميں تحرير كيا اسى طرح شہاب الدين عمر سہروردى نے ساتويں صدى ہجرى ميں تصوف كے حوالے عربى ميں كتاب'' عوارف المعارف ''تاليف كى _

چوتھى صدى كے دوسرے نصف حصہ سے صوفيوں كى تاريخ خاص اہميت كى حامل ہے ابو عبدالرحمان سلمى نيشابورى نے كتاب طبقات الصوفيہ ميں ۱۰۳ معروف صوفيوں كا پہلى بار اپنى كتاب ميں تعارف كروايا نيز انكى كچھ باتوں كو بھى ذكر كيا_ اسى كتاب طبقات الصوفيہ كى مانند ابونعيم اصفہانى نے بھى كتاب حلية الاولياء تاليف كى جو ''طبقات الصوفيہ ''كا تقريباً چربہ تھى(۱)

چھٹى صدى ہجرى كے بعد سے صوفيوں ميں گوناگوں سلسلے تشكيل پائے ہر سلسلے كا نام اس طريقت كے بانى كے نام پر ہوتا مثلا سلسلہ سہرورديہ ، شہاب الدين عمر سہروردى كے ساتھ منسوب ہے اور سلسلہ مولويہ مولانا جلال الدين بلخى كے ساتھ منسوب ہے ان سلسلوں كو مختلف واسطوں كے ساتھ صدر اسلام اور حضرت رسول اكرم(ص) سے ملايا جاتا تھا كہ اس قسم كى نسبت مستحكم دليل و بنياد سے خالى ہوتى ہے(۲)

مجموعى طور پر پانچويں ، چھٹى اور ساتويں صدى ہجرى ميں شيعہ اور سنى ميں اختلاف نظر ، سنى مذاہب بالخصوص حنفيوں اور شافعيوں ميں مذہبى مجادلے ، فقہاء اور فلاسفہ ميں نظرياتى اختلاف اور مختلف جنگيں مثلا منگولوں كے حملے باعث بنے كہ تصوف لوگوں كيلئے بہت زيادہ پر كشش بن جائے، اس دور ميں بزرگ ، صوفى ظاہر ہوئے مثلا ابوالحسن فرقاني، ابوسعيد ابو الخير(۳) بابا طاہر عريان، ابوالقاسم قشيري، حجت الاسلام

____________________

۱)نصر اللہ پور جوادي، ابو منصور اصفہانى كى سير السلف و نصحات الانس كے حوالے سے معلومات ، معارف دورہ ۱۴ ش ۳ _

۲)احمد بن عبداللہ ابونعيم اصفہاني، سابقہ ماخذج ۱۰ ص ۳ _۴۲۰_

۳)فريش ماير، ابوسعيد ابو الخير ، حقيقت و افسانہ، ترجمہ مہر آفاق بايبوردي_

۱۱۲

غزالى(۱) ابونعيم اصفہانى(۲) ، احمد غزالى ، عين القضات ہمدانى(۳) احمد جامى(۴) عبدالقادر گيلاني، سہروردى(۵) ، نجم الدين كبري، فريد الدين عطار نيشابورى(۶) شمس تبريزي، جلال الدين مولوي(۷) اور بالخصوص محى الدين ابن عربي_

پانچويں اور چھٹى صدى ميں تصوف ادب ميں سرايت كرگيا _اكثرشعراء حضرات عرفان اور تصوف كى طرف مائل ہوگئے مثلا مولوى نے عرفانى اشعار كو معراج پر پہنچا ديا_ اس سے بڑھ كر غزالى اور سہروردى كى مانند افراد كے ظاہر ہونے سے تصوف كا فلسفى پہلو بھى ترقى كرگيا_ اس پہلو اور نظريہ كے سربراہ محى الدين ابن عربى ہيں انكے معروف ترين آثار'' فتوحات مكيہ اورفصوص الحكم ہيں انہوں نے تصوف ، عرفان اور حكمت اشراق كو اپنى كتب ميں استدلالى اور برہانى روش كے ساتھ پيش كيا اور وہ اسلام ميں وحدت وجود كے مكتب كے حقيقى بانى بھى ہيں(۸)

چھٹى صدى ہجرى ميں عين القضات ہمدانى (متوفى ۵۲۵ قمري) جو ايك عظيم عارف اورفقيہ تھے ، پيدا ہوئے انہوں نے اپنے اوپر لگائے ہوئے الزامات كے مقابلے ميں اللہ تعالى پراپنے ايمان اورنبوت و آخرت پر ايمان كا مناسب انداز سے دفاع كيا ليكن ان پر كفر اور زندقہ كى تہمت لگاتے ہوئے انہيں تينتيس

____________________

۱)محمد بن محمد غزالي، احياء علوم الدين ، بيروت_

۲)احمد بن عبداللہ ابونعيم اصفہاني، سابقہ ما خذ_

۳)عبداللہ بن محمد عين القضاة ، دفاعيات عين القضاة ہمداني، ترجمہ رسالہ شكورى الغريب ، ترجمہ و حاشيہ قاسم انصاري، تہران_

۴) عبدالرحمان بن احمد جامي،نفحات الانس، محمود عابدى كى كوشش كے ساتھ _تہران_

۵)يحيى بن جبش سہروردى ، مجموعہ مصنفات شيخ اشراق ، كوربن كى كوشش كے ساتھ، تہران ، محمد بن مسعود قطب الدين شيرازى شرح كلمة الاشراق سہروردى عبداللہ نورانى و مہدى محقق كى كوشش كے ساتھ تہران_

۶)محمد بن ابراہيم عطا، تذكرة الاولياء ،محمد استعلامى كى كوشش كے ساتھ ، تہران_

۷)جلال الدين محمد بن محمد مولوى ، مثنوى معنوي، تصحيح و ترجمہ رينو الاولين ينكلسون، تہران_

۸)رينو اور نيكلسون، سابقہ ما خذص ۴ _ ۳۲_

۱۱۳

۳۳ سال كى عمر ميں قتل كرديا گيا يہ واقعہ حسين بن منصور حلاج كے قتل كے بعد اسلامى تصوف كى تاريخ ميں انتہائي جانگداز واقعہ شمار ہوتاہے(۱)

اسى صدى ميں اس قسم كے خشك تعصب كا ايك اور مظاہرہ ايران كے مشہور فلسفى شہاب الدين سہروردى كے قتل كى شكل ميں سامنے آيا وہ ۵۴۹ قمرى ميں سہرورد زنجان ميں پيدا ہوئے اور ۵۸۷ قمرى ميں صلاح الدين ايوبى كے حكم اور حلب شہر كے متعصب لوگوں كے بھڑكانے پر اٹھتيس سال كى عمر ميں قتل ہوئے ساتويں صدى ہجرى ميں سہروردى كا مكتب تشكيل پايا اسى صدى ميں تصوف وجد اور حال كے مرحلہ سے '' قال'' كے مرحلہ تك پہنچا اور علمى فلسفى صورت ميں سامنے آنے لگا(۲)

آٹھويں صدى ميں سہروردى ، ابن عربى اور ابن فارض كا عرفانى مكتب شہرت پانے لگا اور تصوف اور عرفان آپس مخلوط ہوگئے_ عرفانى علوم اور خانقاہوں كى راہ و رسم كو ايك جگہ پڑھايا جانے لگا اسى صدى ميں ايران كے عظيم ترين عارف اور سخن سرا حافظ شيرازى پيدا ہوئے اسى طرح شيخ صفى الدين اردبيلى (۷۳۵ _ ۶۵۰ قمري) ، ابوالوفاء (متوفى ۸۳۵ قمري) زين الدين ابوبكر تايبادى (متوفى ۷۹۱) اور زين الدين ابوبكر محمود خوافى (متوفى ۸۳۸ قمري) كہ جو ايران كے آٹھويں صدى اور نويں صدى كے آغاز ميں بزرگ عرفا ميں شمار ہوتے تھے ظاہر ہوئے يہ سب سہرورديہ طريقت كے پيروكار اور شيخ نور الدين عبدالرحمان قريشى مصرى كے مريد تھے _ اس دور كے اور اسكے كچھ عرصہ بعد كے بڑے عرفاء ميں سے جامع الاسرار كے مصنف سيد حيدر آملي، علاء الدين سمنانى ( ۷۳۶ _۶۵۹ قمري) گلشن راز كے مصنف شيخ محمود شبسترى (متوفى ۷۲۰ قمري) نعمت اللہى سلسلہ كے بانى شاہ نعمت اللہ ماہانى كرمانى المعروف شاہ نعمت اللہ ولى اور مختلف كتب اور عرفانى نظموں كے خالق نور الدين عبدالرحمان جامى (متوفى ۹۱۲ قمري) قابل ذكر ہيں تصوف نے در حققت آٹھويں صدى ہجرى ميں اپنے كمال كے تمام مراحل طے كرليے تھے كيونكہ اس تاريخ كے بعد يہ زوال كاشكار ہوا(۳)

____________________

۱)زين الدين كيائي ناد ، سابقہ ما خذص ۴۲ _۱۳۱_

۲)قمر گيلانى ، فى التصوف الاسلامي، مفہومہ و نظورہ و اعلامہ ، بيروت_

۳)زين الدين كيانى ناد ، سابقہ ما خذص ۲ ، ۲۳۱_

۱۱۴

صفوى دورميں تصوف ايك نئے مرحلہ ميں داخل ہوا گذشتہ قرون ميں صوفى راہنماؤں كى ذمہ دارى يہ تھى كہ اپنے مريدوں كى راہنمائي اور تہذيب نفس كريں اسى ليے وہ دنيا كى كوئي پرواہ نہ كرتے تھے اور حق تك وصل اور كمال انسانى ميں سعادت حاصل كرنے كى كوشش ميں رہتے تھے_ نويں صدى ہجرى ميں صوفى مشايخ ميں سے ايك شيخ يعنى شيخ جنيد جو كہ شاہ اسماعيل كے جد تھے انہوں نے طاقت و قدرت اپنے ہاتھوں ميں لينے كيلئے صوفى گروہ اور اپنے مريدوں كو تيار كيا اور اسى ہدف كے پيش نظر صوفيوں كو كفار سے جہاد كيلئے مجبور كيا اور اپنے آپ كو سلطان جنيد كہلايا اس تاريخ كے بعد صوفى لوگ جنگى لباس ميں آگئے_

شاہ اسماعيل كے ابتدائي زمانہ حكومت ميں اسكے مريد اور پيروكار ايك مدت تك اسے صوفى كہتے رہے پھر صوفى اور قزلباش كا عنوان ايك دوسرے كيلئے لازم و ملزم ہوگيا _ شاہ تہماسب كے زمانہ ميں شيعوں اور قديم صوفى مريدوں كى اولاد كا ايك گروہ ديار بكر اور ايشيا ئے كوچك كے كچھ علاقوں سے ايران ميں داخل ہوا اور صوفى گروہ ميں شامل ہوگئے شاہ تہماسب كى وفات كے وقت قزوين ميں صوفيوں كى تعداد دس ہزار تك پہنچ گئي صوفى لوگ قزلباشوں كے ديگر گروہوں كى نسبت بادشاہ كے زيادہ قريب ہوتے تھے صوفيوں كے ہرگروہ كے سربراہ كو خليفہ كا نام ديا جاتا تھا اور تمام صوفيوں كے سربراہ كوخليفةالخلفاء كہا جاتا تھا(۱)

شاہ عباس نے صوفيوں كو نظرانداز كرديا اوروہ تمام اہم امور جو انكے ہاتھوں ميں تھے ان سے لے ليے_ جو كچھ بھى صفويہ دور ميں صوفيوں كے حوالے سے لكھا گيا وہ فقط شيخ صفى الدين اور انكے جانشينوں كے پيروكاروں كے بارے ميں ہے صفوى حكومت كے وسطى زمانہ سے علماء شريعت كى قوت بڑھنے لگى اور اسى نسبت كے ساتھ صوفى لوگ زوال كا شكار ہونے لگے اور انكى مخالفت بڑھنے لگى يہانتك كہ انكے حوالے سے مرتد كافراور زنديق ہونے كى باتيں ہونے لگيں ، قاجارى دورميں اگر چہ صوفيوں كے كام كچھ زيادہ لوگوں كى توجہ كا مركز قرار نہ پائے ليكن حكومت كے استحكام سے معمولى آسايش حاصل ہونے كے ساتھ ساتھ حملہ اور

____________________

۱)نور الدين مدرسى چہاردہي، سلسلہ ہاى صوفيہ ايران ، تہران_

۱۱۵

اذيت سے محفوظ ہوگئے ليكن خانقاہيں پھر منظم اور پرجوش نہ رہيں (۱)

فتوت، عربى زبان ميں ايسى صفت ہے كہ جو كلمہ '' فتي'' سے مشتق ہوئي ہے اور اس شخص كى صفت ہے كہ جس نے جوانى اور شباب ميں قدم ركھا ہويہ كتاب منتھى الارب ميں جوانمردى اور عوامى كے معنى ميں ذكر ہوئي ہے زمانہ جاہليت ميں يہ كلمہ دو مجازى معانى '' شجاعت اور سخاوت'' ميں استعمال ہوا كلمہ فتوت كے مشتقات قرآن مجيد كى سورتوں كہف،يوسف، نساء اورنور ميں ذكر ہوئے ہيں كہ دو يا تين مقامات سے ہٹ كر باقى تمام جگہوں پر جوانمرد يا جوانمردى كے علاوہ معانى ميں انكى تفسير ذكر ہوئي ہے(۲) جنگ احد ميں پيغمبر اكرم نے حضرت على (ع) كو كفار سے دليرى كے ساتھ جنگ كرنے كى بناپر فتى كا لقب ديا اور فرمايا : لا فتى الا علي_(۳) اموى دور ميں فتوت كے معنى ميں وسعت پيدا ہوئي اور مردانگى اور مروت كے مختلف موضوعات اس كے معنى ميں داخل ہوئے ليكن اسكا اساسى ركن ايثار كہلايا كہ جو صوفيانہ فتوت كى سب سے پہلى خصوصيت تھى _

صدر اسلام ميں زاہدين اور سچے مسلمان جہاد اور راہ اسلام ميں جنگ كى مانند اس چيز كواپنى ذمہ دارى سمجھتے تھے _ اس دور كے بعد صوفى حضرات خانقاہوں ميں بسيرا كرنے لگے اور جہاد اصغر سے جہاد اكبر يعنى نفس سے جنگ كى تعليم ميں مشغول ہوئے اسى ليے فتوت كہ جو شجاعت اور كرامت كے مترادف تھا اخلاق حسنہ اور ايثار كے معنى ميں تبديل ہوگيا اور صاحب فتوت كى تين علامات قرار پائيں : (۱_) ايسى وفا كہ جسميں بد عہدى نہ ہو (۲_) بغير توقع كے تعريف كرنا (۳_) بغير مانگے دينا_(۴)

فتوت كى بھى تصوف كى مانند كوئي جامع تعريف موجود نہيں ہے_(۵)

____________________

۱)زين الدين كيانى ناد، سابقہ ما خذص ۲۳۲_

۲)يوسف ۳۰ ، ۳۶ ، ۶۱، ۶۲ ، كہف ۱۰ ، ۱۳، ۵۹ ، ۶۱ ، نساء ۲۹ ، نور ۳۳ ، نيز رجوع كريں محمد جعفر محجوب '' مقدمہ فتوت نامہ سلطانى ، نوشتہ مولانا حسين واعظ كاشفى سبزوارى ص ۹_۷_

۳)سابقہ ما خذمقدمہ ص ۹ _

۴)سابقہ ما خذص ۱۱ _ ۹_

۵) سابقہ ماخذ، ص ۱۱

۱۱۶

فتوت كے حوالے سے ابن عمار حنبلى بغدادى جو اس موضوع پر قديمى ترين كتاب '' كتاب الفتوة'' كے مصنف ہيں اس ميں لكھتے ہيں كہ سنت ميں فتوت كے حوالے سے احاديث بيان ہوئيں ہيں كہ جن ميں سے بہترين احاديث امام جعفر صادق (ع) سے نقل ہوئيں جو انہوں نے اپنے والد اورجد مبارك سے روايت كى ہيں كہ رسول اكرم(ص) نے فرمايا: كہ ميرى امت كے جوانمردوں كى دس علامات ہيں : سچائي ، تعہد سے وفا، امانت ادا كرنا ، كذب سے پرہيز، يتيم پر سخاوت ، سائل كى مدد كرنا ، جو مال پہنچے اللہ كى راہ ميں دينا، بہت زيادہ احسان كرنا، مہمان بلانا اور ان سب سے بڑھ كر حيا ركھنا(۱)

مختلف كتابوں سے تصوف اور فتوت كے حوالے سے بہت سى تعريفيں ملتى ہيں كہ ان كتابوں ميں سے اہم ترين كتابيں '' الفتوة الصوفية اور طبقات الصوفيہ'' مصنف ابو عبدالرحمان سلمى نيشابورى اور سالہ قشيريہ كہ جسكے مصنف ابوالقاسم قشيرى ہيں _(۲)

مسلم بات يہ ہے كہ ان تمام كتب كے مطالعہ سے يہ استنباط ہوتاہے كہ فتوت شروع ميں تصوف كے مسالك ميں سے ايك مسلك كے طور جانا گيا ، عام طورپر يہ جوانمرد لوگ اپنے ''سراويل يا كسوت'' نامى لباس يا حليے كے حامل تھے جس كا عملى سرچشمہ حضرت على كى سيرت اوركردار كو جانتے تھے(۳)

تيسرى صدى كے بعد فتوت صوفيوں كى مذہبى و دينى كتابوں كے علاوہ فتوت ناموں ، عوامى داستانوں ، اشعار اور فارسى ادب كى صورت ميں شاعروں اور اہل سخن و كلام كى تعريف و ستائشے كا محور قرار پايا(۴)

____________________

۱)ابن عمار حنبلى بغدادي، الفتة ص ۲۳۳_ ۱۳۲ صالح بن جناح ، كتاب الادب و المروة ، ترجمہ و تصحيح سيد محمد دامادى ، پوہشگاہ علوم انسانى و مطالعات فرہنگى تہران ص ۸_

۲)فتوت نامہ سلطنى ، سابقہ ما خذص ۱۲ مقدمہ _

۳)محمد جعفر محجوب ، سابقہ ما خذص ۱۳ _ ۱۲_

۴)فتوت نامہ سلطانى ص ۱۳ تا ۱۵ ، على اكبر دہخدا ، امثال و حكم ج ۲_

۱۱۷

فتوت كے حوالے سے قديمى اور معتبر مصادر ميں سے عنصر المعانى كيكاووس بن اسكندر بن قابوس كى كتاب قابو سنامہ ہے كہ جس كے آخرى باب (چواليسواں باب ) ميں جوانمرد ہونے كيلئے قانون كاذكر ہے _ قابوسنامہ كى تفضيلات سے يہ معلوم ہوتاہے كہ اس زمانہ ميں اور اس سے قبل فتوت معاشرہ كے تمام طبقات ميں عملى اور اخلاقى احكام كى شكل ميں رائج تھا ہر كوئي اپنے كاموں ميں جوانمرد ہو اور فتوت كے قوانين كى پابندى كرتا تھا_

دوسرى صدى سے فتوت كا مكتب عياري(۱) كے ساتھ مخلوط ہوا اور اسكے خاص آداب اور رسوم تشكيل پائيں اسى ليے پہلوان لوگ ، ورزش كرنےوالے ، طاقتور لوگ، سپاہى اورعيار لوگ اپنے آپ كو جوانمرد كہنے لگے اور دوسرى طرف سے پيشہ ور اورسوداگر و تاجر لوگ اپنى جوانمردى كيلئے مخصوص آداب اور رسوم ركھنے لگے صوفى اور خانقاہ نشين لوگ بھى اپنے مكتب ميں جوانمردى كى رسوم و آداب كا خيال ركھنے لگے اور جو اس راہ ميں دوسروں سے بڑھ كر كوشش كرتا وہ فتوت ميں برتر سمجھا جاتا تھا(۲)

بلا شبہ فتوت كى گروہى صورت ميں فعاليت ايران كے علاوہ ديگر تمام اسلامى علاقوں مثلا شام اور مصر و غيرہ ميں بھى موجود تھى _ اس سے بڑھ كر تمام صليبى جنگوں كے دوران بيت المقدس سے شواليہ نام كے سواروں كا گروہ فرانس اور ديگر يورپى ممالك ميں ان مسلمانوں جوانمردوں ، سواروں كى تقليد كرتے ہوئے يورپ ميں داخل ہوئے كہ جو كرد، لر، فارس، ترك اور عرب قوميتوں سے مخلوط تھے_ بعض مورخين كا عقيدہ ہے كہ يورپ ميں اخلاقى بالخصوص فرانس ميں اخلاقى تربيت اور اصلاح شواليوں كے ان ممالك ميں جانے سے ہوئي كہ انہوں نے ان ممالك ميں جوانمردى ، اصيل زادگى ( ذات كے حوالے سے نجيب ) اور شجاعت كے قانون كو رائج كيا(۳)

____________________

۱) عيارى (پہلوانى كى طرح) قديم زمانے ميں ٹريننگ اور رياضت كى بعض انواع ميں سے ايك تھى جو دوسرى صدى ہجرى كے اواخر سے اسلامى معاشرے ميں پائي جاتى ہے_ عيار اپنى زندگى ميں كچھ خاص طريقوں اور اصولوں كے پابند ہوتے تھے_ بعد ميں عيارى تصوف سے مخلوط ہوگئي_(مصحح)

۲)فتوت نامہ سلطانى ، ص ۱۷ ، ۱۸ ، مقدمہ_

۳) ہانرى كربن ، سابقہ ما خذص ۱۱۹_

۱۱۸

ملك الشعرا بہار نے سيستان كى تاريخ پر حاشيہ ميں لكھا عرب لوگ اپنے جنگجو ، زيرك اور ہوشيار اشخاص كہ جو ہنگاموں ،شورشوں يا جنگوں ميں شجاعت اور ذھانت دكھاتے انہيں عيار كا نام ديتے تھے _ بنى عباس كے دور ميں خراسان اور بغداد ميں عيار لوگ تعداد ميں بڑھ گئے تھے_ سيستان اور نيشابور ميں خاصہ (بادشاہوں يا امراء كے اصحاب و مقربين) اور يعقوب ليث صفار اس طايفہ كے سرداروں ميں سے تھے ہر شہر ميں عياروں كے سر براہ ہوتے تھے كہ جنہيں وہ ''سرہنگ ''كہا كرتے تھے اور كبھى تو ايك شہر ميں كئي سرہنگ اور چند ہزار عيار موجود ہوتے تھے(۱)

غزنوى اور سلجوى ادوار ميں عيار لوگ شہرى معاشرے كا ايك مخصوص طبقہ ہوتے تھے كہ يہ لوگ شہروں ميں عام لوگوں كى مانند يا مشرقى مصادر كى اصطلاح ميں ''اوباش'' كى صورت ميں ہوتے تھے يہ لوگ كفار كے ساتھ جہاد كيلئے مسلح گروہ تشكيل ديتے تھے جنہيں عيار كہا جاتا تھا(۲)

عباسى خليفہ '' الناصر لدين اللہ كا جوانمردوں كے گروہ ميں شامل ہونا اور فتوت كى ''سراويل ''پہننا چھٹى صدى ہجرى كے آخرى سالوں ميں ايك بڑا واقعہ تھا كہ جو فتوت كى تاريخ كے بہت بڑے واقعات ميں شمار ہوتا تھا_ چونكہ وہ جوانمردى كے مكتب كا اسلامى معاشرے ميں نفوذسے باخبر ہوچكا تھا اس ليے اس نے اسے عباسى حكومت كے ستونوں كو مستحكم كرنے كے ليے بہت مفيد جانا تا كہ اس كے ذريعے عباسى حكومت كو زوال سے بچالے اور عباسى حكومت كى عہد رفتہ كى شان و شوكت كودوبارہ زندہ كرے(۳) ۶۵۶ قمرى ميں منگولوں كے حاكم ہلاكو خان كے بغداد پر قابض ہونے اور بغداد ميں عباسى حكومت كے ختم ہونے كے ساتھ فتوت كى فعاليت ميں جمود پيدا ہوگيا چند سال كے بعد حكومت مماليك (سفيد فام غلام جو گردونواح كے مختلف علاقوں پر فرمانروائي كرتے تھے) كى حمايت كے ساتھ مصر ميں برائے نام عباسى خلافت ظاہر ہوئي كہ جن كے ساتھ

____________________

۱)تاريخ سيستان ص ۶_ ۱۷۵_

۲)مجلہ دانشكدہ ادبيات تہران ، س ۴ ، ش ۲ دى ۱۳۲۵ ص ۸۲_

۳)كاظم كاظمينى ، عياران ص ۱۴_ ۱۳ ، حائرى كوربن ، آئين جوانمردى ص ۱۸۰ ، ۱۷۵_

۱۱۹

فتوت بھى ظاہر ہوئے اور انكا مكتب مصر اور شام ميں رائج ہونے لگا اور يہ رواج بعد كے ادوار ميں بھى جارى رہا ليكن عراق ميں عباسى حكومت كے خاتمہ سے يہ مكتب زوال پذير ہوگيا اگر چہ اسكى جڑيں باقى رہيں(۱)

ناصر نے فتوت ناصرى كے طريقہ كو سلجوقيان كى رومى مملكت ميں رواج ديا _ عثمانيوں نے بھى طاقت اور حكومت تك پہنچے كيلئے ''اَخي'' اور اناطولى كے اہل فتوت كو پل كے طور پر استعمال كيا_

اہل فتوت كے ''اخيوں ''كا شيخ صفى الدين اردبيلى كے گرد موجود ہونا اور شاہ اسماعيل صفوى كا اپنے تركى اشعار كے ديوان ميں اپنے مددگاروں اور تابعين كيلئے عنوان ''اخى ''كا استعمال فتيان، قزلباشوں اور شيعوں كے درميان رابطے سے بڑھ كر ان لوگوں كے حكومتى انتظامى امور ميں ناقابل انكار سياسى اور معاشرتى كردار كو ظاہر كرتاہے _ خصوصاً يہ كہ وہ كسوت (صوفيا كا خاص لباس ) پوش اور پاكيزہ صوفيوں يعنى شاہ كے فدائيوں ميں سے شمار ہوتے تھے(۲)

ايرانى خاندانوں كے ايران پر حكومت كے دوران عيار لوگ كشتى كرنے والے پہلوانوں كے بھيس ميں سلاطين كے دربار ميں موجود ہوتے تھے يافوج ميں جنگجو كى صورت ميں اپنے وطن كى خدمت ميں مشغول تھے_ اور جب غير ايران پر قابض ہوئے تو يہ عيارى شكل و شمائل ميں انكے ساتھ جہاد كرتے جيسا كہ منگولوں كے تسلط كے آخرى دور ميں عياروں كى جماعت نے عبد الرزاق بن خواجہ شہاب الدين بيہقى كى سربراہى ميں قيام كيا اور سربداران كى تحريك كو وجودميں لائے_ يہ لوگ اپنے آپ كو شيعوں اور حضرت على (ع) كے جانثاروں ميں شمار كرتے تھے اور فتيان كے مكتب پر عياروں كى ماند عمل پيرا ہوكر لڑتے تھے_

مشہور ہے كہ چنگيز خان نے كسى كو سلسلہ كبرويہ كے چھٹى اور ساتويں صدى كے مشہور عارف اور بزرگ صوفى شيخ نجم الدين كبرى كے پاس (اس پيغام كے ساتھ) بھيجا كہ : '' ميں نے حكم دياہے كہ خوارزم ميں قتل

____________________

۱)جواد مصطفي، مقدمة الفتوة ، تاليف ، ابن عمار حنفى بغدادي، ہانرى كوربن، سابقہ ما خذص ۱۸۳_

۲)عباس اقبال آشتياني،فتوت و خلافت عباسي، محلہ شرق، دورہ يكم ، ش خرداد ۱۳۱۰ ص ۱۰۵ ،۱۰۱_

۳)صالح بن جناح، كتاب الاب والمروة ص ۹ _ ۷۹_

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375