اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 0%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف: ڈاكٹر على اكبر ولايتي
زمرہ جات:

صفحے: 375
مشاہدے: 124266
ڈاؤنلوڈ: 3023

تبصرے:

اسلامى تہذيب و ثقافت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 124266 / ڈاؤنلوڈ: 3023
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

تہذيبوں كے انحطاط اور زوال كے اسباب

بعض اہل نظر كا عقيدہ ہے كہ ہر تمدن اپنى پورى زندگى ميں كچھ مراحل طے كرتا ہے: ڈيورينٹ كى رائے كے مطابق ہر تمدن كے لوگ كچھ مدت كے بعد اپنے عقلى پيش رفت كى بناء پر توحيد اور مبدا ء معنوى كى پرستش كى بجائے علم و عقل كى ستايش ميں مشغول ہو جاتے ہيں ، اسكے بعد اقدار اور علم ميں جنگ شروع ہو جاتى ہے ، معاشرے كى قوت محركہ بتدريج ختم ہوجاتى ہے اور اسكے بعد اس تہذيب كا دور انحطاط و زوال شروع ہوجاتا ہے_

ابن خلدون كى نظر ميں ہر تمدن تين مراحل كو طے كرتا ہےں : جنگ اور مقابلہ كا ابتدائي مرحلہ ، خود غرضى اور استبداد كا مرحلہ اور آخر كار رياكارى اور فساد كا مرحلہ جوكہ تمدن كا اختتام شمار ہوتاہے ، دور حاضر كے الجزائرى دانشور مالك بن بنى بھى اسى اساس پر اسلامى تمدن كے تين مراحل روح ، عقل اور غريزہ كو سمجھتے ہيں انكا عقيدہ ہے كہ: اسلامى تمدن ميں آٹھويں صدى ہجرى كے بعد سے خواہشات نفسانى كا روح پر غلبے كا مرحلہ شروع ہوا اور اسلامى تمدن ترقى كے مرحلہ سے دور ہوگيا_(۱)

اسكے علاوہ اور بھى اسباب كو تہذيبوں كے زوال كے حوالے سے ذكر كيا گيا ہے مثلا معاشرہ ميں وحدت اور نظم كا فقدان ، بيرونى دشمنوں كا حملہ ، معاشرتى طبقات كى ساخت ميں انتشار تصنع اور بناوٹ كا پيدا ہونا اور تاجرانہ رويہ اور مزاج وغيرہ_

اخلاق ، ثقافت، تہذيب اور قانون

ہر معاشرے ميں اخلاق ، ثقافت ، تہذيب اور قانون ميں سے ہر ايك مفہوم كى پيش رفت و ترقى دوسرے مفہوم كى پيش رفت كے برابر ہے جبكہ ہر ايك كا انحطاط خواہ ناخواہ دوسرے كى تباہى و بربادى كى علامت ہے_

____________________

۱) دانشنامہ جہان اسلام ، ج ۴، ذيل بن بنى مالك ( محمد على مہتدي)_

۲۱

جب اخلاق ترقى كرتا ہے اور لوگ اخلاقى اصولوں كا خيال ركھيں تو اعتماد كى فضا تعلقات وروابط كى پيش رفت كے اسباب فراہم كرتى ہے ، اور اس فضا كاپھيلاؤ معاشرہ كى ثقافت كو نماياں كرتا ہے ، اسى طرح ہر معاشرہ اپنے اجتماعى نظام كے اندر پانے جائے والى مفاہمت كى تقويت اور اسے محفوظ كرنے كيلئے قوانين كا محتاج ہے، لوگوں كا ان چار اسباب كے بارے ميں رويہ معاشرے كى ترقى و پيش رفت يا زوال و انحطاط كا باعث بنتاہے، جس طرح لوگوں كا ان چار اسباب كو قبول كرنا اور توجہ دينا معاشرے كى خوشبختى اور سعادت كا باعث ہے اسى طرح ان سے دورى اور منہ پھيرنا فساد، تباہى ، فحشاء اور آخر ميں معاشرے كى بربادى كا باعث ہے_

۲) عصر دعوت سے فتوحات كے زمانہ تك اسلامى اور ثقافتى تاريخ كا خلاصہ

مورخين عرب كى تاريخ كو تين ادوار ميں تقسيم كرتے ہيں :

۱) سبا اور حمير كا دور جو بہت ہى قديم زمانے ميں شروع اور پھر ختم ہو جاتا ہے_

۲) دوسرا دور جاہليت كہ چھٹى صدى عيسوى سے شروع ہوتا ہے اور اسلام كے ظہور پر ختم ہو جاتا ہے_

۳) اسلامى دور يعنى صدر اسلام سے اب تك_

تاريخ اور آثار قديمہ پر مبنى شواہد كے مطابق جزيرہ عرب ميں بہت سے مكاتب فكراور ثقافتى وتاريخى نظريات موجود تھے، حضرت ابراہيم (ع) نے اسى تمدن ميں اپنى دعوت كا آغاز كيا تھا ، بين النہرين اور شمال ميں آل غسان اور آل منذر اور جنوب ميں نجران و يمن كے لوگ عيسائي تھے، بازار جيسے مثلا ''بازار عكاظ ''شعرا اور اديبوں كے جمع ہونے كى جگہ تھے كہ جو عربى ثقافت كے اہم ترين ركن يعنى شاعرى كا محل ظہور تھے ،جس قبيلہ ميں كوئي زبردست اور بڑا شاعر ظاہر ہوتا اسكے افراد دوسروں پر فخر برترى كا اظہار كيا كرتے تھے_(۱)

معاشرتى اور اجتماعى حوالے سے سياسى اور حكومتى عہدے لياقت اور طاقت كى بنياد پر نہيں بلكہ اپنى رسوم و

____________________

۱) سيد جعفر شہيدي، تاريخ تحليلى اسلام، تہران ۱۳۶۶، ص ۱۵ _ ۱۴_

۲۲

روايات اور وراثت كى بناء پر تقسيم ہوتے تھے، اسى ليے درخشان صلاحيتيں كو اپنے ظہور كاموقع نہيں ملتا تھا_ مكہ كے لوگ كعبہ كے وجود اور اسكى ہمسايگى كى بركت سے اور زمانہ جاہليت كے رسوم و رواج سے ما خوذ خاص روابط كى بناپر آرام و سكون كى زندگى گزاررہے تھے، مشترك دفاع ميں شركت كيا كرتے تھے_

اسى كے ساتھ ساتھ مكہ اور يثرب كے درميان واضح فرق اور امتياز نظر آتاہے ، مكہ كے لوگ تاجر اور دورانديش تھے جبكہ يثرب والے زراعت پيشہ اور سخت محنت كش شمار ہوتے تھے_

اس قسم كى فضاء ميں تقريبا ۶۱۰ عيسوى ميں پيغمبر اسلام(ص) نے مكہ ميں اپنى دعوت كا آغاز كيا، اس دعوت كے نتيجے ميں مسلمانوں كا ايك گروہ مكہ ميں وجودميں آيا كہ جو اہل مكہ كى بدسلوكى اور رقابت كا شكارہوگيا_

بعثت كے گيا رھويں سال مدينہ كے ساكن قبيلہ خزرج كا ايك گروہ كہ جو حج كيلئے مكہ آئے تھے انہوں نے عقبہ ميں پڑاؤ كے دوران پيغمبر (ص) سے ملاقات كى اس ملاقات ميں پيغمبر اكرم(ص) نے انہيں اپنى اور اپنے دين كى شناخت كروائي اور ان لوگوں نے قبول كيا، اسكے ايك سال بعد قبيلہ خزرج كے بارہ مردوں اور ايك عورت نے اسى جگہ پيغمبر اكرم(ص) كى بيعت كى كہ اسلامى تاريخ ميں اسے پہلى بيعت عقبہ كہ نام سے ياد كيا جاتا ہے ، پيغمبر اكرم(ص) نے اسى بيعت كى بناء پر مصعب بن عمير كو پہلے داعى اسلام كے طور پر مدينہ ميں بھيجا تا كہ وہ مدينہ والوں كو قرآن ، اسلامى تعليمات اور نماز كے آداب سكھائيں چونكہ معلوم ہوچكا تھا كہ مدينہ اسلام اور مسلمانوں كيلئے مناسب پناہ گاہ ثابت ہوگى ، تو پيغمبر اكرم(ص) نے بعثت كے چودھويں سال بارہ ربيع الاول كو اپنى تاريخى ہجرت كي_

اسكے بعد پيغمبراكرم(ص) كے اصحاب دو گروہ ميں تقسيم ہوگئے : مہاجرين كہ جو مكہ سے آئے تھے ، او رانصار يعنى مدينہ كے ساكن كہ جنہوں نے اسى شہر ميں پيغمبر اكرم(ص) كا استقبال كيا_(۱)

پيغمبر اكرم(ص) نے مدينہ ميں اسلامى معاشرے كى عمارت كو تين اہم بنيادوں پر قائم كيا يعنى مسجد بنائي گئي ،

____________________

۱) دائرة المعارف بزرگ اسلامى و مجمع اڈريس_

۲۳

مہاجرين اور انصار ميں عقد اخوت قائم ہوا اور مسلمانوں اور غير مسلم قبائل ميں با ہمى تعاون كا معاہدہ طے پايا، يعنى حقيقت ميں اسلامى سياسى معاشرہ بھى مدينہ كى طرف ہجرت كے بعد تشكيل پايا، مدينہ كى اسلامى حكومت ايك حكومت كيلئے ضرورى تمام لوازمات يعنى زمينى جگہ ، آبادى ، حاكميت اور دفترى اور انتظامى نظام كى حامل تھي_

اس اسلامى معاشرہ ميں ايك خصوصيت اوربھى تھى كہ جو اس زمانہ تك انسانى تاريخ ميں پہلے كہيں موجود نہ تھى وہ يہ كہ معاشرہ كى تشكيل كے اہم ركن يعنى قانون كى حاكميت تھى ، يعنى معاشرہ كے تمام افراد كيلئے بغير كسى امتياز كے ايك جيسا قانونى نظام قائم تھا_

ان اقدامات كے ذريعے پيغمبر اكرم (ص) نے اپنى منشاء كے مطابق مدينہ ميں بتدريج سياسى اور ادارہ جاتى نظام قائم كرديا، دينى عقايد كے گوہر سے استفادہ كرتے ہوئے اور انكے تحفظ اور انكى نشر و اشاعت _جو كہ آپكا معاشرہ ميں اصلى ہدف تھا_كى وجہ سے معاشرہ كى سياسى اور انتظامى حالت مستحكم ہوگئي، اسى طرح پيغمبر اكرم(ص) كى دس سالہ حكمرانى ميں تقريبا اسّى چھوٹى بڑى جنگيں بھى مدينہ ميں انجام پائيں ، كہ پيغمبر اكرم(ص) يا بذات خود ان ميں شريك ہوتے تھے اور لشكر كى كمانڈ كرتے تھے يا خود مدينہ ميں تشريف فرما رہتے اور كسى ايك صحابى كو لشكر كے سپہ سالار كے طور پر روانہ كرتے ،ان جنگوں نے اسلام كى تازہ تشكيل شدہ حكومت كى سياسى اور فوجى حيثيت كو مضبوط كرنے ميں بہت بنيادى كردار ادا كيا_

پيغمبر اكرم(ص) نے مختلف قبائل مثلا يہودى اور عيسائي قبائل كے ساتھ معاہدے كيے ،پيغمبر(ص) نے ان معاہدوں ميں ايك موزون اور كامياب حكمت كے ساتھ مدينہ كى نئي حكومت كے تحفظ اور ثبات كى ضمانت فراہم كى ، اسكے علاوہ ہمسايہ ممالك مثلا ايران ، روم ، مصر ، يمن اور حبشہ كے بادشاہوں اور حكام كى طرف خط بھيجے، مورخين كى نگاہوں ميں يہ خطوط پيغمبر اكرم (ص) خارجہ پاليسى كا كچھ حصہ شمار ہوتے ہيں _

ان اقدامات اور ديگر بے شمار شواہد كى بناء پريہ كہا جاسكتا ہے كہ ہجرت كے ابتدائي ايام ميں ہى اسلامى تمدن كى تشكيل كے مختلف پہلو ظاہر ہوچكے تھے اوريہ بات نازل شدہ آيات كے لہجے كے تغير سے بخوبى معلوم ہوتى ہے كہ دعوت اسلام كے ابتدائي ايام كے برعكس مدينہ ميں الہى آيات بيشتر احكام و حدود كے پہلوكى حامل ہيں اور ان ميں قوانين شريعت اور معاشرتى احكامات كى گفتگو ہوئي ہے _

۲۴

اس كے بعد پيغمبر اكرم(ص) نے ادارہ جاتى اور محكمانہ نظام كے ابتدائي مراحل كى تشكيل كيلئے كوشش كى ، اپنے ليے معاونين كا انتخاب كيا اور ہر ايك كو ايك ذمہ دارى سپردكى ، اگلے مرحلے ميں اسلامى حاكميت كے پھيلاؤ كے ليے كاركنوں كا تقرر كيا ان ميں سے بعض زكوة اور صدقات كى وصولى ميں مشغول ہوئے اور دوسرے گروہ كو معاشرتى امور كو منظم كرنے كى ذمہ دارى سوپنى ،اس دور ميں جو دس سال تك چلا جو آيات الہى نازل ہوئيں ان ميں اسلامى حاكميت كے اركان كو مستحكم كرنے كى تاكيد ہوئي ،انہى سالوں ميں كچھ اور اقدام بھى ہوئے جن ميں غور و فكر كرنے سے پيغمبر اكرم (ص) كى اصلى ذمہ دارى اور انكے اندرونى ميلانات كى حقيقى تصوير سامنے آتى ہے_

گيارہ ہجرى كو پيغمبر اكرم (ص) كى وفات عظمى كے بعد انكى جانشينى والے مسئلہ ميں اختلاف پيدا ہوا ، بالاخرہ سقيفہ بنى ساعدہ كے ماجرا كے نتيجہ ميں حضرت ابوبكر كى بيعت انجام پائي ، ابوبكر نے بہت زيادہ كوشش اور ان لوگوں سے دو سال تك جنگ و جدال كرنے كے بعد كہ جو خليفہ كى حاكميت اور ايك مركزى حكومت كو قبول نہيں كرتے تھے_ بالاخرہ سارے جزيرہ عرب كو اپنى حكومت كے تحت لے ليا، اسكے بعد مذہب اسلام كى نشر و اشاعت كے حوالے سے شام اور عراق كى طرف لشكر بھيجے ،ابوبكر نے تير ھويں ہجرى ميں انتقال كيا ليكن اپنى وفات سے قبل حضرت عمر بن خطاب كو خليفہ نامزد كر ديا تھا _

حضرت عمر كى خلافت كا آغاز مصر ، ايران اور شام ميں فتوحات كے زمانہ ميں ہوا جس زمانہ ميں عرب اسلام كے زير سايہ طاقتور ہو رہے تھے اسى زمانہ ميں روم اور ايران كى حكومتيں با ہمى طويل اور لا حاصل جنگوں كے بعد كمزور اور ناتواں ہو چكى تھيں ، ان ممالك كے لوگوں كى اپنى حكومتوں سے بيزارى لشكر اسلام كے استقبال كا باعث بنى _

آدھى صدى سے كمتر عرصہ ميں ہى ، اسلام ايران اور افريقہ كے غالب دين كے طور پر ابھرا مسلمانوں كى ان ممالك كے لوگوں كے عقائد اور آداب سے آشنائي نے مدينہ كى اجتماعى فضا كو بھى متغير كرديا تھا، دوسرى طرف سے مفتوحہ سرزمينوں كا نظم سنبھالنے كى وجہ سے مسلمانوں كو گوناگوں معلومات اور تجربات حاصل ہوئے ، يہى دور تھا كہ آہستہ آہستہ حكومت كے تمام سياسى ستونوں كو منظم كرنے كيلئے دفاتر اور محكمے وجود ميں آئے_

۲۵

دوسرا باب:

اسلامى تمدن كى تشكيل كا پس منظر

۲۶

۱ اسلام ميں علم و دانش كا مقام

جو كچھ آيات اورروايات ميں علم و دانش اور معرفت كى فضيلت كے حوالے سے ذكر ہوا ہے اگر اسے بغير كسى تفسير اور تشريح كے جمع كريں تو بڑى كتابوں كى شكل ميں سامنے آئيگا، اگر اس حد تك اسلام كے اولياء علم اور تعليم پر تاكيد نہ فرماتے ہوتے تو كبھى بھى اسلامى تمدن عظمت كے اس بلند مقام پر فائز نہ ہوتا_

خود كلمہ '' علم '' اپنے مشتقات كے علاوہ تقريبا اسّى بار قرآن مجيد ميں مختلف موارد ميں استعمال ہوا ہے ،كلمہ ''عقل'' اگر چہ قرآن مجيد ميں نہيں آيا ليكن '' اولى الالباب'' كى تركيب كہ جسكا معنى صاحبان عقل ہے قرآن ميں موجود ہے ، اسى طرح '' حكمت ، برہان ، فكر ، فقہ و غيرہ جيسے كلمات كئي بار قرآن مجيد ميں استعمال ہوئے ہيں ، اللہ تعالى نے مومنين كو اس حوالے سے كہ وہ اندھى تقليد كى بناء پر اس پر ايمان لائيں نہى فرمائي ہے ، حتى كہ ايك آيت ميں (روم ۶۵) علم اور ايمان كا اكھٹا ذكر كيا ہے _

مزيد يہ كہ صرف ان كلمات پر اكتفاء نہيں ہوا بلكہ تعليم و تربيت كے حوالے سے بہت سى آيات قرآن ميں موجود ہيں ، مثلا آل عمران كى آيت ۱۹۰، انعام آيت ۹۷، يونس كى آيت ۵ يہاں تك كہ وہ آيات كہ جو گذشتہ لوگوں كے قصے بيان كرتى ہيں اور ان واقعات كو بيان كرنے سے انكا ہدف عبرت دلانا ہے ان ميں بھى تاريخى موضوعات ، تاريخ نويسى پر حوصلہ افزائي ، آثار تاريخى كا مشاہدہ اور حقائق بينى جيسے احساسات كو واضح اور آشكار طور پر درك كيا جاسكتا ہے_(سورہ انعام ۱۱)

پيغمبر اكرم(ص) اور ائمہ اطہار عليہم السلام سے منقول احاديث اور اقوال ميں بھى عظمت علم اور فضيلت علماء كے حوالے سے بہت كچھ ذكر ہوا ہے، پيغمبر اسلام (ص) كى يہ تاكيد كہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر حصول علم واجب اور

۲۷

فرض ہے يا يہ كہ ايك گھنٹے كى فكر ايك سالہ عبادت سے بہتر ہے ، يہ سب اسلام ميں تعليم و تعلم كے حوالے سے تاكيد كى مثاليں ہيں _

آئمہ عليہم السلام كى حيات مباركہ كے ادوار ميں بالخصوص امام جعفر صادق (ع) كا سنہرى دور كہ جب علم و تعليم عروج پر تھى آب اپنے اصحاب كو علم كے حصول پر شوق دلاتے تھے ،يہ كہ قيامت كے دن دانشوروں كے قلم شہداء كے خون پر بھارى پڑ جائيں گے اس قسم كى رغبت اور شوق دلانے كى مثالوں ميں سے ہے، البتہ اس نكتہ پر توجہ ركھنى چاہيے كہ حصول علم كى اسلام ميں كچھ شرائط ہيں : اسلام علم اور اخلاق ميں كسى فاصلے كا قائل نہيں ہے بلكہ ان دونوں كے با ہم پيوستہ رہنے پر تاكيد كرتا ہے، اسلام ميں اہل علم و دانش ذمہ دار فرد ہے اور اخلاق سے بے بہرہ استاد سوائے گمراہى كے كوئي اور راہنمايى نہيں كرتا ، يہ موضوع بذات خود اسلام كے امتيازات ميں سے ہے كہ وہ تعليم و تربيت كے حوالے سے ايك عليحدہ اور خاص مكتب كا مقام ركھتا ہے_(۱)

اسلامى تہذيب و تمدن ميں تاريخ كتابت پر ايك نظر

تاريخ كے مختلف اوراق سے جو معلومات حاصل ہوئي ميں وہ يہ كہ زمانہ جاہليت ميں اہل عرب اگر چہ لكھنے كے فن سے مطلع تھے ليكن ان كى صحرائي زندگى ايسى نہ تھى كہ فن كتابت انكے لئے ضرورى ہو،اس دور ميں زبانى ياد كرنے اور حفظ كرنے كے كلچر كا غلبہ تھا، جزيرہ عرب كے بعضى مناطق مثلا حجاز سے ايك لكھا ہوا پتھر ملا ہے كہ جو اس منطقہ كے قديم زمانے سے تعلق ركھتا ہے ماہرين اس نتيجہ پرپہنچے ہيں كہ اس علاقے ميں پہلے خط نبطى كى ايك قسم رائج تھي_

قرآن مجيد ميں كتابت كے حوالے سے خاص الفاظ كا موجود ہونا بتاتاہے كہ ظہور اسلام كے زمانہ ميں اہل عرب كتابت كى مختلف اقسام كا كچھ علم ركھتے تھے، ان الفاظ ميں سے ايك لفظ '' كتاب'' ہے اگر چہ يہ

____________________

۱) محمد رضا حكيمى ، اور ديگران '' الحياة'' تہران ، ج ۱_

۲۸

واضح نہيں ہے كہ اس سے مقصود وہ چيز ہے كہ جسے ہم كتاب كہتے ہيں ، بہرحال كسى لكھى ہوئي اور مكتوب چيز كااشارہ دے رہاہے، اسى طرح لفظ صحيفہ جمع كى صورت ميں يعنى '' صحف'' قرآن ميں ذكر ہوا ہے ، يہاں يقينا مراد مكتوب اورلكھى ہوئي چيز ہے، با وجود اس كے كہ اہل عرب حفظ اور زبانى ياد كرنے پر بہت زيادہ رغبت ركھتے تھے قرآں مجيد كا كتابت پر تاكيد و اصرار بہت دلچسپ اور اہم ہے اور اس بات پر اشارہ ہے كہ مسلمان ان اولين ايام ميں ہى جانتے تھے كہ كتاب آسمانى كى آيات ميں كوئي لفظ تبديل نہيں ہونا چاہيے_(۱)

جلد اورر چمڑا ان چيزوں ميں سے ايك تھى كہ جس پر قرآن لكھا جاتا تھا اس زمانہ ميں اہم مسائل تحرير كرنے كے ليے جلد يا چمڑااستعمال كرنے كى وجہ اسكى پائيدارى تھى ليكن اسكا حصول امير لوگوں كيلئے بھى دشوار تھا، اسى لئے اہل عرب كچھ اور مناسب چيزوں كو كتابت كيلئے استعمال كرتے تھے ، مثلا كھجور كے درخت كى خشك كى ہوئي چھال يا اسكى كوئي خشك شاخ ،مسلمانوں كى اردگرد كى تہذيبوں سے آشنائي انكى كتابت كے وسائل سے آگاہى ميں بھى بہت اثرات كى حامل تھى ،مسلمان، مصر وشام كى سرزمينوں كو فتح كرنے كے بعد قرطاس يا پيپورس سے آشنا ہوئے ، اسكے بعد انہيں كتابت كيلئے ديگر چيزوں پر ترجيح ديتے تھے ليكن پيپورس (كاغذ كى طرح ايك چيز) بھى انكے لئے بہت مہنگا ثابت ہوا_

لہذا تحرير كے ليے مناسب انتخاب '' كاغذ'' تھا مسلمان شروع ميں ماوراالنہر كے علاقے فتح كرنے كے زمانے ميں كاغذ سے آشنا ہوئے تھے، سمرقند كہ جہاں بہت سے چينى كاغذ سازى كى صنعت ميں مشغول تھے وہاں سے يہ صنعت ديگر اسلامى سرزمينوں ميں منتقل ہوئي ، كاغذكے خام مال كو مختلف مقدار ميں استعمال كرنے كى وجہ سے پہلى صدى ہجرى ميں مختلف انواع اقسام كے كاغذ تيار ہوئے تھے، يہ كاغذ اپنى نوعيت ، استحكام ، ضخامت ، چمك اور رنگ ميں ايك دوسرے سے مختلف ہوتے تھے_

اس سے معلوم ہوتاہے كہ مسلمانوں نے چينى لوگوں سے كاغذ سازى كى روش كو سيكھنے پر اكتفاء نہيں كيا بلكہ اس صنعت كو ترقى دى اور كمال تك پہنچايا ، بتدريج تمام اسلامى شہروں اور سرزمينوں ميں مثلا عراق ، مصر ،

____________________

۱) يحيى وہب الجبورى ، الخط و الكتابة فى الحضارة العربيہ ، بيروت ، ص ۲۴۹ كے بعد تك_

۲۹

ايران اور اندلس ميں كاغذ سازى شروع ہوگئي ، دوسرى صدى ہجرى كے اختتام ميں ہارون الرشيد كے علم دوست وزير فضل بن يحيى برمكى كى كوششوں سے كاغذ سازى كى صنعت بغداد ميں شروع ہوئي اور اس صنعت نے بہت سرعت كے ساتھ كھال اور چمڑا كى جگہ لے لي_

يانچويں صدى ہجرى ميں يہ صنعت عراق سے شام كى طرف منتقل ہوئي اور وہاں اس نے حيران كن انقلاب بپا كرديا، اسطرح ناصر خسرو اپنے سفرنامہ ميں لبنان كے شہر طرابلس كے حوالے سے لكھتا ہے كہ اس شہر ميں سمرقندى اور اق كى طرح خوبصورت اوراق تيار ہوتے تھے اور ان سے كيفيت ميں بہتر ہوتے تھے، گويا اس طرح مسلمانوں نے ثقافتى روابط كے اہم ذرائع ميں سے ايك يعنى كاغذ كى ترقى اور پھيلاؤ ميں اہم كردار ادا كيا ، يہ صنعت مصر اور اندلس كے ذريعے يورپ منتقل ہوئي اور سب سے پہلا كاغذ سازى كا كارخانہ اٹلى ميں تقريبا تيرھويں صدى عيسوى ميں تعمير ہوا اور اس نے كام شروع كيا_(۱)

۲_ علوم كا منتقل ہونا اور اہل علم و دانش كى دنيائے اسلام ميں شموليت

عالم اسلام ميں علوم عقلى كى پيدائشے كا اصلى منبع يونان اور اسكى علمى محفل تھى ، اگر چہ اكثر علوم بالواسطہ يونانى زبان سے سريانى اور لاتينى زبان ميں ترجمہ كى شكل ميں مسلمانوں كے پاس پہنچے ليكن ان علوم كا ايك حصہ اسكندريہ (مصر ميں ) اور وہاں كے علمى مركز سے يعنى مدرسہ اسكندريہ كے ذريعے مسلمانوں كے پاس پہنچا(۲) وہ علوم جو مسلمانوں نے يونانيوں سے حاصل كيے يہ ہيں : رياضى ، نجوم، طب اور علوم طبيعى _

اسلامى دانشوروں كى تاليفات بتاتى ہيں كہ كس حد تك مسلمانوں نے بقراط ، جالينوس ، افلاطون ، فيثاغوريث اور ارسطو كى كتابوں سے فائدہ اٹھايا، ايك اہم نكتہ يہ ہے كہ پہلے پہل مسلمان ان علوم سے يوناني

____________________

۱) دايرة المعارف فارسي، غلام حسين مصاحب، ج۲ ص ۲۱۴۴_

۲) سيد حسن تقى زادہ ، تاريخ علوم در اسلام ، تہران ۱۳۷۹ شمسى ص ۳۱،۳۰_

۳۰

كتابوں كے ترجمہ كے كى بجائے ان اطباء كے ذريعے آگاہ ہوئے كہ جو مسلمانوں كى فتح كے زمانہ ميں ان يونانى سرزمينوں ميں رہتے تھے، دمشق كو مركز خلافت كے طور پر انتخاب كرنا باعث بنا كہ يونانى دانشوروں سے رابطہ كئي گناآسان ہوگيا ، كچھ علوم ہندوستان سے عالم اسلام ميں وارد ہوئے ، عباسى دور كے اوائل ميں يہ علمى رابط برقرار ہوا ، علوم طب ، نجوم وغيرہ ميں ہندى كتابوں سے ترجمہ كيا گيا، اسى طرح چند ہندى ماہرين كہ جن ميں ايك صف اول كا ستارہ شناس بھى تھا خليفہ عباسى منصور كے پاس آئے ، تو منصور نے اس ستارہ شناس سے چاہا كہ ان علوم كا كچھ حصہ اسكے دربار كے علماء كو سكھائے ، اسطرح ہندى علوم وسيع پيمانے پر علوم اسلامى كى محفلوں ميں وارد ہوئے_

دنيا كا ايك اور علمى مركز كہ جہاں سے مختلف علوم اسلامى تمدن ميں داخل ہوئے وہ ايران بالخصوص ايران كا شہر گُندى شاپور(شوستر شہر اور دزفول شہر كے درميان) تھا، گُندى شاپور ميں خسرو انوشيروان كى حكومت كے زمانے سے مدرسہ اور ايك ہسپتال تعمير ہوا تھا كہ جہاں مختلف ممالك سے طبيب اور ماہرين مشغول تھے_ گندى شاپور كى ترقى كى ايك وجہ نسطوريوں كا وہاں آنا تھا، جب نسطوريوں كو مدرسہ ادسا ء سے نكالا گيا تو وہ ايران كى طرف آئے اور گندى شاپور شہر ميں مقيم ہوئے ، وہ يونانى كتابوں كا سريانى ترجمہ بھى اپنے ساتھ لائے تھے ، اشراقى (ايك فلسفى مكتب ) حكماء كہ جو اہل يونان تھے '' ايتھنز '' سے انہيں در بدر كيا گيا تو وہ بھى يہاں آكرفلسفہ كى تعليم ميں مشغول ہوگئے اور انوشيروان كے حكم سے انہوں نے افلاطون اور ارسطو كى بعض كتابوں كا پھلوى زبان (قديم فارسي) ميں ترجمہ كيا_

مسلمانوں كے ہاتھوں ايران كى فتح كے بعد ان كتابوں كا فارسى سے عربى زبان ميں ترجمہ ايك قدرتى امر تھا، عباسى خلافت كے زمانے ميں كچھ كتابوں كا پھلوى سے عربى ميں ترجمہ كيا گيا بعد ميں يہ كتابيں اسلامى نجوم كے علم كى تكميل كے حوالے سے اہم ترين منبع شمار ہوتى ہيں _

علوم طبيعى كے ميدان ميں ايك اہم ترين علم '' علم الادوية''تھا جو يونان سے اسلامى دنيا ميں داخل ہوا، ايشياى كوچك كے ايك ماہر و دانشور ديسقوريدس كى كتاب '' حشائشے يا الھيولى فى الطب '' كى نام سے عربى

۳۱

ميں ترجمہ ہوئي ،يہ كتاب يونانيوں كے نزديك بہت اہميت كى حامل تھى اور عربوں كے ہاتھوں بہت دقيق انداز سے ترجمہ اور تحقيق ہوئي ، اس قسم كى قديم اور معيارى كتب كے ذريعے مسلمان علم الادويہ اور طبى مفردات ميں ممتاز مقام كے حامل ہوگئے_(۱)

۳_ترجمے كى تحريك:

فتوحات كے عروج كا زمانہ گزرنے كے بعد جب اسلامى حكومت مستحكم ہوگئي اور مسلمان اسلام كے بنيادى علوم كى تدوين سے كچھ حد تك فراغت پاگئے ، بعض عباسى خلفاء كے اہتمام اور حوصلہ افزا سياست كے زير سايہ اور بيت المال كى بے پناہ دولت سے استفادہ كرنے كے باعث اسلامى معاشرہ آہستہ آہستہ ان علوم اور صنعتوں كى طرف متوجہ ہوگيا كہ جو غير مسلم تہذيبوں ميں موجود تھے، اس توجہ كا اصلى سرچشمہ قرآن اور بہت سى احاديث تھيں جو مومنين كو علم و فن كے كسب كرنے پر ترغيب دلاتى تھيں _

دہ چيز جو سب سے زيادہ اس تحريك كے اسباب كو فراہم كرنے كا باعث تھى وہ مسلمانوں كى فتوحات بالخصوص مسلمانوں كا ساسانيوں كى سارى مملكت پر تسلط اور مشرقى روم كے كچھ مناطق پر قبضہ تھا ، ان ميں سے ہر سرزمين ايك قديم تہذيب كى حامل تھي، اس سے بڑھ كر يہ كہ ايك ہزار سال قبل يہاں اسكندر اعظم نے لشكر كشى كى تھى ، جس كى بناء پر ان ميں كچھ حد تك يونانيوں كا مزاج رسوخ كرگيا تھا_

مسلمان فاتحين نے اپنے زير تسلط سرزمينوں سے ايك متحدمملكت تشكيل دى _ دوسرى تہذيبوں كے ساتھ ساتھ يونانيوں كے ساتھ مبادلہ اور ثقافتى تفاہم كا ہر طرح سے ايك نيا تجربہ كيا ،تو بہت ہى كم مدت ميں عالم اسلام كے حكام، دانشوروں اور اہل دانش كا اشتياق اور كام اسقدر بڑھ گيا كہ بعد ميں اس دور كانام ''تحريك ترجمہ ''كا دور پڑگيا ، اگر چہ اس تحريك كا آغاز بنى اميہ كے دور سے ہواليكن اس تحريك كے اصلى اثرات بنى عباس كے دور ميں حاصل ہوئے_

____________________

۱) آلدوميہ لى ، علوم اسلامى و نقش آن در تحولات علمى جہان _ ترجمہ محمد رضا قدس رضوى ، ص ۹ _ ۷۷_

۳۲

بنى اميہ كے دور ميں اكثر ترجمے اداروں ، محكموں ، سياست اور تجارت سے مربوط تھے انہيں جديد حكام اور غير عرب زبان لوگوں كے درميان رابط كى ضرورت كى بناء پر ترجمہ كيا گيا تھا، يہانتك كہ اگر كوئي ايسا متن كہ جسے علمى كہا جاسكے ترجمہ ہو ا تو وہ بھى فوجى يا محكمانہ ضرورتوں كى بناء پر تھا، ترجمے كى با قاعدہ تحريك جس نے بہت سے تاريخي، اجتماعى اور علمى آثار چھوڑے ،اولين عباسى خلفا كے دور سے شروع ہوئي _

يہ علمى تحريك دو صديوں سے زيادہ جارى رہى ،بالخصوص دوسرے خليفہ منصور عباسى كى حكومت كے زمانہ ميں غير مسلم اقوام كے علوم كے ترجمہ كے حوالے سے اہم اقدامات دو روشوں يعنى تحت اللفظى اور با محاورہ صورت ميں انجام پائے، اس زمانہ ميں پہلے ترجمے فارسى سے عربى ميں ہوئے ، ان كتابوں كے بيشتر مترجمين نو مسلم زرتشتى تھے، چند ادبى كتابوں مثلا كليلہ اور دمنہ كا ترجمہ ايرانى مصنف عبداللہ بن مقفع (متوفاى ۱۴۱ قمري) كے ہاتھوں انجام پايا، بعد والے ادوار ميں اسلامى مترجمين ترجمہ كے فنون ميں بہت زيادہ مہارت پيدا كرگئے اس فن ميں اپنے تجربات كى بناء پر انہوں نے سريانى اور يونانى زبانوں سے عربى ميں ترجمہ كيا_

اس دور ميں نسطورى مذہب كے حاذق حكيم اور شيخ المترجمين كے نام سے مشہورحنين بن اسحاق جو يونانى ، سريانى ، عربى او پہلوى زبانوں پر تسلط ركھتے تھے پہلے مترجم تھے جنہوں نے ايك گروہ تشكيل ديا اور ترجمہ كے كام كو منظم كيا ،ان كے فن ترجمہ كے شاگردوں ميں سے انكے فرزند اسحاق اور بھانجے حبيش بن اعسم تھے، حنين بھى ديگر مترجمين كے ترجموں كو اصل كتابوں سے مطابقت ديتے ہوئے اصلاح كيا كرتے تھے_

عباسى خلافت كے دور ميں ترجمہ كى اس تحريك كو چند ادوار ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے كہ ان تمام ادوار ميں خليفہ كے ميلان ياديگر عوامل كى بناء پر تراجم كى تعداد اور موضوعات ميں فرق پڑا ،ان ادوار كو خاص طور پانچويں عباسى خليفہ ہارون الرشيد (حكومت ۱۹۳ _ ۱۷۰) كے دور سے يوں ترتيب ديا جا سكتا ہے:

(الف) ہارون الرشيد كا دور:

اس دور ميں توجہ كا مركزسائنس كى كتابوں كا ترجمہ تھا ، يحيى بن خالد برمكى جو كہ ہارون كے وزير تھے انہوں نے لائق مترجمين كو اكٹھا كرنے كے ليے بہت زيادہ كوشش كى ، ہارون كے

۳۳

زمانہ ميں جو شہر جو مسلمانوں كے قبضہ ميں آتے تھے انكے كتابخانے كامل طور پر بغداد ميں منتقل ہوتے تھے، يونانى علوم كے پہلے آثار اور تاليفات مثلا اقليدس اور مجسطى كى اصول ہندسہ پر لكھى ہوئي كتابيں ،بطلميوس كى تصانيف اور ہندوستانى زبان سے طب كے بارے ميں تصنيفات كا عربى ميں ترجمہ اس دور ميں انجام پايا_

ب) مامون كا دور ( حكومت ۲۱۸ _ ۱۹۸قمرى ) :

ہارون الرشيد كے بعدكچھ عرصے ميں مامون مقام خلافت پر پہنچ گيا ،جس زمانہ ميں حكومت اسكے ہاتھوں آئي اس زمانہ ميں آيات قرآن سے مختلف فہم و تعبير كى بناء پر علم كلام كى مباحث عروج پر تھيں اوراس دور ميں بالخصوص بہت سى فلسفى تصنيفات عربى ميں ترجمہ ہوئيں _

ج) مامون كے بعد كا دور:

مامون كے بعد متوكل عباسى (حكومت ۲۴۷ _ ۲۳۲قمري) كے دور ميں ترجمہ كا كام اسى طرح چلتا رہا، مثلا حنين بن اسحاق اسى طرح متوكل كے دور ميں بھى ترجمہ كے كام ميں مشغول رہے ، ليكن حكومت اسلامى كے مركز كا معتصم (حكومت ۲۳۷ _ ۲۱۸قمري) كے دور ميں بغداد سے سامرا منتقل ہونا مختلف تصانيف كے ترجمہ كى كيفيت ميں تبديلياں لايا، اس تبديلى كى اہم ترين وجہ '' بيت الحكمة'' جو كہ ايك اہم ترين علمى ادارہ تھا اسكى عظمت و اہميت كا كم ہونا تھا_

د) تحريك ترجمہ كا اختتام:

بغداد ميں ترجمہ كى تحريك دو سو سال تك بہت زيادہ كام كرنے كے بعد بتدريج زوال پذير ہوگئي اور آخر كار نئے عيسوى ہزارہ كے آغاز ميں اپنے اختتام تك پہنچ گئي، البتہ يہاں تحريك ترجمہ كے ختم ہونے كا يہ مطلب نہيں ہے كہ لوگوں كى توجہ ترجمہ شدہ علوم كى طرف كم ہوگئي يا يونانى زبان سے ترجمہ كرنے والے ماہرين كم ہوگئے تھے بلكہ اس تحريك كے اختتام كى اصلى وجہ ان زبانوں ميں نئے موضوعات كا موجود نہ ہونا تھا ،دوسرے الفاظ ميں يہ تحريك اپنى اجتماعى مركزيت كھو بيٹھى تھى ، جديد مضامين كا پيش نہ ہونا سے مراد يہ نہيں ہے كہ ديگر غير دينى يونانى كتب ترجمہ كيلئے موجود نہ تھى بلكہ اس سے مراديہ ہے كہ ايسى يونانى كتب جو اس تحريك كے بانى حضرا ت، علماء اور دانشور طبقہ كى توجہ اور ضرورت سے متعلق ہوں موجود نہ تھيں ،

۳۴

كيونكہ بيشتر علوم و فنون ميں بہت عرصہ پہلے سے اصلى متون اور تصنيفات تشكيل پا چكى تھيں كہ جو ان ترجمہ شدہ كتب كى سطح سے كہيں بلند علمى سطح كى حامل تھيں ،اس تحريك كے بانى اور حامى گذشتہ دور كى نسبت اب ترجمہ كے كام كى طرف توجہ يا اسكى پشت پناہى كرنے كى بجائے خود عربى زبان ميں اصلى مضامين وموضوعات كو پيش كر رہے تھے_

۴_ اسلامى تمدن ميں علمى مراكز

اسلام كے نئے تشكيل شدہ نظام كے استحكام اور اسلامى معاشرے كے اندرونى رشد و كمال سے بتدريج تعليمى مراكز وجود ميں آگئے جنہوں نے علوم و فنون كى پيدائشے اور وسعت ميں اہم كردار ادا كيا، پہلا تعليمى ادارہ كہ جو اس عنوان سے وجود ميں آيا اسكا نام بيت الحكمة تھا يہ بغداد ميں تعمير ہوا اور حكومتى خزانہ يا بيت المال كى رقم سے چلتا تھا_

يہ دانشوروں ،محققين اورخصوصاًايسے لائق مترجمين كے اجتماع كا مركز تھا كہ جو يونان كى علمى و فلسفى كتب كو عربى ميں ترجمہ كيا كرتے تھے، بيت الحكمة كہ جو مسلمانوں كا بغداد ميں پہلا كتابخانہ تھا اسكى بنياد ہارون الرشيد نے ڈالى ، اس سے پہلے منصور عباسى كہ جسكے زمانہ ميں ترجمہ كے كام كا آغاز ہوا تھا اس نے حكم ديا تھا كہ ديگر زبانوں سے كتب كو عربى ميں ترجمہ كيا جائے بعد ميں يہى كتب بيت الحكمة كى اساس قرار پائيں _

مامون كے زمانہ ميں بيت الحكمة كو وسيع كيا گيا، اس نے كتابوں سے لدے ہوئے سو اونٹ بغداد منگوائے اور بظاہر يہ كتب اس قرار داد كے تحت مسلمانوں كودى گئيں جو مامون اور روم كے بادشاہ مشل دوم كے در ميان طے پائي، نيز مامون نے ۳لاكھ دينار ترجمہ كے كام پر خرچ كيے، اس دور ميں بيت الحكمة كے علاوہ ديگر علمى ادارے بھى موجود تھے ان اداروں ميں سے ايك ''دار العلوم'' تھا يہ ايك عمومى لا ئبريرى كى شكل ميں تھا، اسى طرح مصر ميں ايك تعليمى مركز دار العلم فاطميون تھا، يہ ادارہ الحاكم با مراللہ جو كہ مصر ميں فاطمى خليفہ تھے انكے حكم سے ۳۹۵ ہجرى قمرى قاہرہ ميں تعمير ہوا، اس ادارہ ميں تقريبا دس لاكھ كتب موجود تھيں ،موصل كا

۳۵

دار العلم جعفر بن محمد ہمدان موصلى نے تعمير كيا يہ وہ پہلا علمى مركز تھا كہجسميں تمام علوم سے كتابيں جمع كى گئي تھيں موجودہ لبنان كے ايك شہر طرابلس ميں پانچويں صدى ہجرى كے آخر ميں ايك دارالعلم سوا لاكھ جلد كتابوں كے ساتھ موجود تھا_(۱)

اسلامى دور كے ديگربہت اہم مشہورعلمى مراكز نظاميہ مدارس تھے، پانچويں صدى كے آخرى پچاس سالوں ميں خواجہ نظام الملك نے بغداد ، نيشابور ، اور ديگر شہروں ميں مدارس كى تعمير كر كے نظاميہ نام كے مدارس كے سلسلے كى بنياد ركھى ، بغداد كا نظاميہ جو كہ ۴۵۹ قمرى ميں تاسيس ہوا اسميں ابواسحاق شيرازى تدريس كيا كرتے تھے، انكے بعد اس مدرسہ ميں تدريس كى سب سے بڑى كرسى امام محمد غزالى كو نصيب ہوئي ، اسكے بعد عالم اسلام ميں مدارس كا جال بچھ گيا ،سلجوقيوں كى مملكت ميں جو مدارس اور علمى مراكز خواجہ كے حكم سے تعمير ہوئے تو وہ خواجہ نظام الملك كى طرف منسوب ہونے كى وجہ سے نظاميہ كے عنوان سے مشہور ہوئے _

بغداد كے نظاميہ كے علاوہ اور مدارس نظاميہ بھى قابل ذكر ہيں مثلا نيشابور كا نظاميہ خواجہ نظام الملك اور ديگر سلجوقى بادشاہوں كى نيشابور شہر كى طرف خصوصى توجہ كے باعث تاسيس ہوا ،مشہور افراد مثلا امام موفق نيشابورى ، حكيم عمر خيام، حسن صباح ، امام محمد غزالى اور انكے بھائي امام احمد اور امام محمد نيشابورى نے اس مدرسے ميں تربيت پائي ،نيشابور كا يہ نظاميہ مدرسين اورمشہور فقہاء كى تعداد جو كہ وہاں تعليم ديتے تھے ،كے باعث بغداد كے نظاميہ كے بعد دوسرا مقام ركھتا تھا، اسى طرح اصفہان اور بلخ كے مدارس نظاميہ بھى نامور اساتذہ كے حامل تھے_

مجموعى طور پر كہا جاسكتا ہے كہ عالم اسلام ميں علمى و تعليمى مراكزمتعدد اور متنوع تھے، ان مراكز ميں سے وسيع اور غالب ترين علمى مراكز مساجد تھيں كہ جو سارے عالم اسلام ميں پھيلى ہوئي تھيں ،مساجد مسلمانوں كے دينى اجتماع كے سب سے پہلے مراكز ميں شمار ہوتى تھيں _

____________________

۱)على رفيعى علامہ دشتى ، درآمدى بر دايرة المعارف ،كتابخانہ ہاى جہان ، قم ، ص ۴۳ _ ۴۲_

۳۶

حتى كہ مدارس كى عمارتيں بھى مساجد كے نقشہ كے مطابق ہوتى تھيں ايسى معروف مساجد جو اپنى تاسيس كے آغاز ميں يا كچھ عرصہ بعد ان ميں لائبريرياں بھى تشكيل پائيں ، عالم اسلام كے اہم شہروں ميں بہت زيادہ تھيں مثلا مسجد جامع بصرہ ، مسجد جامع فسطاط ، مسجدجامع كبير قيروان ، مسجد جامع اموى دمشق، مسجد جامع زيتونہ جو كہ تيونس ميں ہے، مسجد جامع قرويين فاس اور مسجد جامع الخصيب اصفہان(۱) _

عالم اسلام كے ہسپتال كہ جنہيں '' مارستان'' بھى كہا جاتا تھامريضوں كے علاج كے ساتھ ساتھ اطباء كى تحقيق اور مطالعہ كے مراكز بھى شمار ہوتے تھے، اور ان ميں صرف اسى علم پر لائبريرياں بھى تھيں ،مثلا مارستان فسطاط ، مارستان الكبير منصورى قاہرہ ، مارستان نورى بغداد ، رى كا ہسپتال

اسى طرح علمى مراكز ميں سے رصد خانے ( علم ہيئت كے مراكز) بھى تھے ،عالم اسلام ميں بہت بڑے متعدد رصد خانے تعمير ہوئے جن كا شمار دنيا كے سب سے بڑے اور اہم ترين رصد خانوں ميں ہوتا تھا،كہ جن ميں علم رياضى اور نجوم كى جديد ترين تحقيقات ہوتى تھيں ،رصد خانوں ميں اسلامى دانشوروں كے بہت سے انكشافات اور تحقيقات صديوں بعد بھى يورپ ميں تجزيہ و تحليل كا مركز قرار پائے ،ان رصد خانوں ميں اہميت كے لحاظ سے مثلا مراغہ اور سمرقندكے رصد خانوں كا نام ليا جاسكتا ہے_

ان تمام اسلامى تعليمى اداروں ميں دو علمى مركز بہت زيادہ اہميت كے حامل ميں ان دو ميں ايك ''ربع رشيدي'' ہے كہ بہت سے علماء كى آمد و رفت كا مقام تھا كہ جو وہاں علمى كاموں ميں مصروف تھے ،دوسرا ''شنب غازاني''كہ جو ايل خانوں كے دور ميں تعمير ہوا كہ جس ميں مختلف ا فراد كے درميان متعدد علمى معلومات كا تبادلہ ہوا كرتا تھا_

____________________

۱) منور جمال رشيد ، قديم اسلامى مدارس، لاہور ، ص ۱۳۸ _ ۱۱۴_

۳۷

تيسرا باب:

اسلامى تمدن ميں علوم كى پيش رفت

۳۸

علوم كى درجہ بندي:

كلى طور پر ديكھا جائے تو اسلامى دانشوروں كى آغاز ميں عالم طبيعت بالخصوص انسان كے حوالے سے علم طب ميں انہى حدود كے اندر نگاہ تھى كہ جو يونانى علماء نے متعين كى تھيں اسى طرح علم فلكيات كے حوالے سے وہى بطلميوس كا زمين كو مركز قرار دينے والا نظريہ ركھتے تھے، ليكن اسلامى دانشوروں كى تحقيق و مطالعہ نے انہيں ان نظريات سے مختلف حقائق سے آشنا كيا، لہذا طب، علم فلكيات ، رياضى ، فزكس كے حوالے سے عالم اسلام ميں ايسے نكات اور قواعد سامنے آئے كہ جنكے بارے ميں كہا جاسكتا ہے كہ وہ كسى بھى طرح سے يونان سے نہيں ليے گئے بلكہ وہ اساسا اسلامى مفكرين كى كاوشوں كا نتيجہ ہيں ، اس حوالے سے مزيد تجزيہ و تحليل كيلئے ضرورى ہے كہ سب سے پہلے ہم اسلامى تمدن ميں علوم كى درجہ بندى پر نگاہ ڈاليں ،يو ں ان تمام علوم كى اقسام ميں اسلامى دانشوروں اور انكى تحقيقات سے آشنا ہونے كے ساتھ ساتھ ان حقيقى نكات اور مسائل كا تجزيہ كريں كہ جو يونانى علوم كى حدود اور معيار سے ہٹ كر سامنے آئے _

اسلام ميں علوم كى درجہ بندى كے حوالے سے مختلف روشيں موجود ہيں اوريہ روشيں عام طور پر اپنے بانيوں كى اپنے ارد گرد كے جہان پر انكى خاص نگاہ سے وجود ميں آتى رہيں ، پہلى درجہ بندى ميں علوم كود و اقسام نظرى اور عملى ميں تقسيم كيا گيا ، البتہ يہاں ابھى ان علوم عملى كى كيفيت اور انجام كے طريقہ كار كو مد نظر نہيں ركھا گيا، علوم نظرى كہ جنہيں حكمت نظرى سے بھى تعبير كيا گياہے ان ميں اصول شناخت و معرفت زير بحث ہيں اور بحث كا موضوع وجود اور اسكا مادے سے تعلق كى حالت ہے ،يہ علوم پھر تين اقسام ميں تقسيم ہوئے ہيں علم الہى (علم اعلي) وہ امور جو مادہ سے جدا ہيں ،علم حساب و رياضى (علم اوسط) ان علوم كى بحث مكمل طور پر ذہنى اور مادہ

۳۹

سے ہٹ كرہے اور علم طبيعى (علم ادني) جو مادہ كے بارے ميں بحث كرتا ہے خواہ وہ ذہنى صورت ميں ہو ں يا ذہن سے باہر كى دنيا ميں _

اسى طرح علوم عملى بھى تين اقسام ميں تقسيم ہوتے ہيں :

''علم اخلاق ''كہ جو انسان كى انفرادى و ذاتى زندگى سے مربوط ہے ،علم'' تدبير منزل'' كہ جوگھرانے سے متعلق ہے اور علم سياست كہ جو معاشرہ كے مسائل سے متعلق ہے ،يہ درجہ بندى يونانى فلسفہ بالخصوص ارسطو كے فلسفہ كے زير اثر تشكيل پائي_

دوسرى درجہ بندى علوم كے اپنے حقيقى ہدف كے ساتھ بلاواسطہ تعلق كى بنا پر ہے يعنى ان مختلف علوم سے ايك معين ہدف تك پہنچے كيلئے فائدہ اٹھا يا جا تا ہے ، مثلا حكمت نظرى يا شرعى علوم ميں شناخت و معرفت كومركزيت حاصل ہے جبكہ ديگر علوم مثلا صرف ونحو(گرائمر كے قواعد) ان كو سمجھنے ميں مدد ديتے ہيں _

تيسرى درجہ بندى ميں علوم دو قسموں اسلامى اور غير اسلامى ميں تقسيم ہوتے ہيں ، علوم اسلامى وہ علوم ہيں كہ جنكا سرچشمہ مكمل طور پر مسلمانوں كى فكر و نظر ہے ، جبكہ علوم غير اسلامى وہ علوم ميں كہ جنكے اصول ديگر تہذيبوں ں سے اسلام ميں پہنچے اور مسلمانوں نے اپنى تحقيقات ميں انہيں وسعت دى اور مختلف شاخوں ميں تقسيم كيا_

چوتھى درجہ بندى ميں علوم دو قسموں شرعى اور غير شرعى ميں تقسيم ہوتے ہيں علوم شرعى سے مراد وہ چيزيں ہيں كہ جو پيغمبر اكرم(ص) اور ائمہ اطہار سے ہم تك پہنچيں كہ جن ميں اصول و فروع دين مقدمات اورمتممات دين شامل ہيں جبكہ علوم غير شرعى سے مراد فقط علوم عقلى ہيں مثلا رياضيات و غيرہ _

پانچويں درجہ بندى ميں علوم دو قسموں عقلى اور نقلى (منقول )ميں تقسيم ہوتے ہيں يہاں علوم عقلى سے مراد حكمت ، كلام اور فلسفہ و غيرہ ہے جبكہ علوم نقلى سے مراد شرعى اور وہ معلومات كہ جو مختلف علوم مثلا علم فلكيات اور طب و غيرہ سے حكايت ہوئي ہيں _

۴۰