اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 0%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف: ڈاكٹر على اكبر ولايتي
زمرہ جات:

صفحے: 375
مشاہدے: 124274
ڈاؤنلوڈ: 3023

تبصرے:

اسلامى تہذيب و ثقافت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 124274 / ڈاؤنلوڈ: 3023
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

جسكے نتيجہ ميں سن پچاس كے عشرہ ميں اسلامى بيدارى كى تحريك كے مراحل كچھ زيادہ مؤثر نہ تھے_

۱۳۵۰ سے ليكر ۱۳۵۳ شمسى تك اس تنظيم كے بہت سے قائدين اور بانى حضرات انكى مسلحانہ سرگرميوں كے انكشاف پر گرفتار ہوئے يا پھانسى چڑھ گئے_(۱) يہ تنظيم ۱۳۵۴ شمسى ميں اندرونى خلفشار كا شكار ہوئي اور دو گروہوں اسلامى اور كيميونسٹ ميں بٹ گئي اور پھر يہ اختلاف آپس ميں خونى لڑائيوں تك پہنچ گيا_(۲)

۱۳۵۶ شمسى سے سياسى گھٹن كم ہونا شروع ہوى اور آہستہ آہستہ سياسى قيدى آزاد ہونا شروع ہوئے _ ان سالوں ميں اسلامى گروہوں ميں بعض مجاہدين مثلا محمد جواد باہنر، محمد على رجائي، ہاشمى رفسنجاني، جلال الدين فارسى اور ديگرافراد كے ذريعے علمى فعاليت كہ جس كا سياسى رنگ كم تھا كا آغاز ہوا(۳) كو اپريٹواشاعتى اداروں كى فعاليت كہ جو مذہبى مجاہد طرز كے دانشور حضرات كى قلمى كاوشوں كى اشاعت كرتے تھے ،نے دينى تفكر كو پھيلانے ميں اہم كردار ادا كيا_(۴)

بيدارگراور دينى مصلح شخصيات كے ساتھ ساتھ جلال آل احمد، مہدى بازرگان اور على شريعتى جيسى شخصيات كے نظريات اور آثار نے بھى بتدريج اسلامى بيدارى كے رجحان كو قوت بخشي_ آل احمد نے اپنى دو كتابوں ''غرب زدگى و در خدمت و خيانت روشنفكران'' ميں مغرب پرستى اور روشن فكرى كے مختلف پہلووں كو واضح كيا ،وہ تشيع كو ايرانى تشخص كاجزو لاينفك سمجھتے تھے اور مغربى تسلط كے مقابلے ميں دينى علماء كے كردار پرزور ديتے تھے_(۱)

____________________

۱) غلام رضا نجاتي، تاريخ سياسى بيست سالہ ايران، ج ۱، تہران ، ص ۴۰۷ _ ۳۹۳_

۲) بيانيہ اعلام مواضع ايدئو لويك ،تہران ، سازمان مجاہدين خلق ايران، ۱۳۵۴_

۳) جلال الدين فارسي، زواياى تاريك، تہران، حديث ، ص ۱۳۸_

۴) حسن يوسفى اشكوري، در تكاپوى آزادى ، ج۱، تہران ، ص ۲۳۹ _ ۲۳۸_

۵) مہرزاد ، بروجردي، روشنفكران ايران و غرب، ترجمہ جمشيد شيرازى ، تہران ، ج ۲ ص ۱۲۳ _ ۱۱۸، محمد على زكريايي، سابقہ ماخذ ، ص ۱۹۳_ ۱۸۹_

۳۴۱

بازرگان نے بھى وسيع سياسى فعاليت كے ساتھ ساتھ پچاس كے عشرہ سے قلمى نظرياتى محاذپر كام شروع كيا_ ۱۳۴۵ شمسى ميں اپنى اہم ترين كتاب '' بعثت و ايدئولوي'' (بعثت اور آئيڈيالوجي) كو تحرير كيا(۱) اس قسم كى فعاليت ساٹھ كے عشرہ ميں بھى جارى رہي_ ڈاكٹر شريعتى كى خدمات اسلامى تحرك كو يونيورسيٹوں طلبا اور نوجوان نسل ميں پھونكنے اور انہيں مغربى ماركسسى نظريات سے دور ركھنے ميں انتہائي اہميت كى حامل ہيں انہوں نے اپنے نظريے''بازگشت بہ خويشتن''(اپنى طرف لوٹنا)كے ذريعے آل احمد كے مغرب پرستى كے موضوع كو آگے بڑھايا(۲)

پچاس كے عشرہ ميں بالخصوص اسكے دوسرے حصہ ميں عالم اسلام ميں بيدارى كى لہر اور اسلامى اقوام كى خود مختارى كى كوششوں نے بھى ايران ميں اسلامى بيدارى كى تحريك پر اثرات مرتب كيے اس حوالے سے الجزائر كے مجاہد مسلمانوں كى كاميابى اور فلسطين كى تحريك زيادہ موثر رہي_(۳)

اس دور كا اہم ترين واقعہ ۱۳۴۹ شمسى ميں امام خمينى كى طرف سے نجف ميں اسلامى حكومت كى علمى بحث كا '' ولايت فقيہ'' كے عنوان سے آغاز تھا_ انہوں نے ان نشستوں ميں فقہاء كى حكومت، دين و سياست كے ملاپ اور آئيڈيالوجى كے عبادت سے بالاتر ہونے كے اثبات اور وضاحت كو محور سخن قرار ديا ،ان مباحث كے ضمن ميں ايرانى حكومت اور ديگر اسلامى ممالك كے حالات پر بھى تنقيد كى اور اہل نظر حضرات كو ان موضوعات پر مطالعہ اور تحقيق كيلئے دعوت دي_(۵) ان كے افكار پيغام رسانى كے چينل كے ذريعے ايران منتقل ہوئے جو ايرانى مجاہدين ميں نئي رو ح پھونكنے كا باعث بنے_

يورپ اورامريكہ ميں امام خمينى كے افكار كى مقبوليت اور اشاعت ميں ايك سبب وہاں كے ايرانى مسلمان

____________________

۱) سعيد برزين ، زندگينامہ سياسى مہندس مہدى بازرگان ، تہران، ج ۲ ، ص ۱۰۲_ ۲۰۱_

۲) مہرزاد بروجردى ، سابقہ ماخذ ، ص ۱۶۷_

۳) رسول جعفريان، سابقہ ماخذ ص ۲۲۲ _ ۲۲۰ ، فرہدد شيخ فرشي، روشنفكرى دينى و انقلاب اسلامى ، تہران، ص ۳۴۰ _ ۳۳۹

۴) حميد روحاني، نہضت امام خمينى ، ج ۲ ، تہران ، ص ۶۹۵ _ ۶۸۱

۳۴۲

طلباء كا كردار تھا كہ جو اسلامى انجمنوں كى صورت ميں فعاليت كر رہے تھے اور نجف سے رابطہ ركھے ہوئے تھے وہاں كى مناسب سياسى فضاء اور ان طلباء كى ذرائع ابلاغ تك رسائي نے انہيں تبليغ اور فعاليت كا زيادہ سے زيادہ موقعہ فراہم كيا ،اس حوالے سے آيت اللہ بہشتى كہ جو جرمنى ميں ہيمبرگ كے اسلامى مركز كے سر براہ تھے انكا ان طلباء سے رابطہ انتہائي اہميت كا حامل تھا سنہ ۱۳۴۵ شمسى ميں يورپ كے مسلمان طلباء نے ايك رسالہ بنام '' اسلام مكتب مبارز'' بھى جارى كيا(۱) ساٹھ كے عشرہ ميں حسينيہ ارشاد ميں ڈاكٹر على شريعتى كى تقارير اور انكى تاليفات كے ممنوع ہونے كى بناء پر يونيورسٹى كے طلباء ميں انكى تاليفات كے مطالعہ كا رجحان بڑھ گيا انكى سماجيات، تاريخ، فلسفہ اور دين كے امتزاج پر مبنى گفتگونے طلباء كے مذہبى ونگ ميں اسلامى بيدارى كے احساس كو مزيد قوت بخشي(۲) _

مطہري، مفتح، محمد تقى جعفرى اور فخرالدين حجازى كى يونيورسيٹوں ميں تقارير اور قلمى آثار نے جہاں حوزہ علميہ اور يونيورسيٹوں كو ہم فكر اور ہمقدم بنانے ميں كردار ادا كيا وہاں اسلامى بيدارى كى تحريك كو علم، ايمان اور جديد دور كى معلومات سے بھى يكساں طور پرمسلح كيا _

۱۳۵۱ شمسى ميں پہلوى حكومت نے سپاہ دين كو تشكيل ديا تا كہ اپنے مخالف علماء كى فعاليت كو كنٹرول كرے_ ليكن اس اقدام كا نتيجہ بھى الٹ نكلا امام خمينى كى قيات ميں علماء نے سختى سے اس اقدام كى مخالفت كى اور حكومت كے خلاف وسيع پيمانے پر مہم چلائي_

۱۳۵۴ شمسى اور ۱۳۵۵ شمسى ميں بے پناہ سياسى گھٹن اور صف اوّل كے بہت سے مجاہدين اور دانشور شخصيات كو قيد و بند ميں ڈالنے كى فضاء سے اسلامى بيدارى كى تحريك كچھ عرصہ كيلئے جمود كا شكار ہوئي اور زيادہ تر يونيورسٹى طلبا كى تحريك كى صورت ميں جارى رہى ،يونيورسٹى كے طلباء نے يونيورسيٹوں ميں بہت سے

____________________

۱) على رضا كريميان ، سابقہ ماخذ، ص ۲۷۳_ ۲۷۱ ، ياران امام بہ روايت اسناد ساواك ( شہيد بہشتي) مركز بررسى اسناد تاريخى وزارت اطلاعات )_ ص ۱۲۷_ ۱۲۳ ، ۷۸، ۷۷، ۶۷ؤ ۳۹، ۳۴ عباس على عميد زنجاني، سابقہ ماخذ، ص ۱۷۳ _ ۱۷۰ ، علمى دوانى ، نہضت روحانيون ايران، ج ۵و ۶ مركز اسناد انقلاب اسلامى ، ص ۲۰۸ _۲۰۷_

۲) شريعتى بہ روايت اسناد ساواك ، ۳ جلد ، تہران، مركز اسناد انقلاب اسلامي_

۳۴۳

نماز خانے قائم كيے_ كوہ پيمائي كے پروگرام بنائے ، نماز جماعت كا اہتمام كيا، اور گھروں ميں علمى نشستيں ركھتے ہوئے نظرياتى جنگ اور يونيورسٹى اور معاشرہ ميں فاسد كلچر كے مقابلہ پر مبنى گفتگو اور اسى طرح كے ديگر كام سرانجام ديتے ہوئے انہوں نے اس جمود كے دور كو بعد كے مرحلے كے ساتھ متصل كيا وہ مرحلہ جس ميں انقلاب كى كاميابى كيلئے آخرى جوش و خروش پيدا ہوا تھا _(۱)

ساٹھ كے عشرہ ميں اس معتدل اور اصولى فكرى اور اسلامى سياسى فعاليت كے ساتھ ساتھ كچھ اور گروہ بھى كام كر رہے تھے كہ جو مذہبى طور پر متشددانہ افكار كے مالك تھے ان ميں سے وہ جو علماء كے ساتھ رابطہ ركھے ہوئے تھے ،ميں سے سات كى طرف اشارہ كيا جا سكتا ہے وہ يہ ہيں ''امت واحدہ ، توحيدى صف، فلق، فلاح، منصورين اور موحدين كچھ ايسے گروہ بھى تھے كہ جو دينى رجحان كے حامل ہونے كے با وجود علما سے ہٹ كر كام كر رہے تھے گروہ فرقان اور گروہ آرمان مستضعفين و غيرہ ان ميں سے تھے_(۲)

۵۰ اور ۶۰ كے عشرہ ميں اسلامى بيدارى كى تحريك كو آگے بڑھانے كا ايك اہم ترين ذريعہ علمى حوزات ، دينى مدارس اور مجاہد علماء كا تبليغى پليٹ فارم تھا_ حوزات ميں سب سے اہم اور وسيع ترين حوزہ حوزہ علميہ قم تھا_ اس دور ميں حوزہ علميہ قم سے وابستہ موسسات كہ جو اسى دور ميں تشكيل پائے اور فعاليت كا آغاز كرچكے تھے ان ميں سے مكتب اہل بيت ( تشكيل ۱۳۴۰ شمسى ) جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم ( تشكيل ۱۳۴۲ شمسي)اور موسسہ در راہ حق ( تشكيل ۱۳۴۵) قابل ذكر ہيں _(۳)

دارالتبليغ اسلامى كى تشكيل اور اسكے آثار اور مطبوعات اگرچہ امام خمينى كى تحريك كے ساتھ مكمل طور پر موافق نہ تھے بلكہ كبھى كبھى انكى مخالفت بھى كرتے تھے اور امام خمينى بھى انكى طرز فعاليت اور بعض كاركن حضرات كي

____________________

۱) حميد روحاني، سابقہ ماخذ، ج ۳ _ ص ۱۰۰۴_ ۹۹۸ ، عمادالدين باقي، جنبش دانشجويى ايران از آغاز تا انقلاب اسلامي،تہران، جامعہ ايرانيان، ص ۲۵۳ _ ۲۴۸_

۲) رسول جعفريان ، سابقہ ماخذ، ص ۱۷۹ _ ۱۷۷_

۳) سابقہ ماخذ ۱۳۴ _ ۱۳۱_ على رضا سيد كبارى ، حوزہ ہاى علميہ شيعہ در گستردہ جہان، تہران، اميركبير ، ص ۴۲۰ _ ۴۱۴

۳۴۴

تائيد نہيں كرتے تھے اسكے باوجود يہ آگے كى طرف ايك قدم تھا اور دارالتبليغ نے علمى اور مذہبى سطح پر ايسى مسلسل فعاليت كے دوران جو ان طلباء كو علوم انسانى اور دينى ميں جديد تعليمات سے بہرہ مند كيا_ دينى علوم كے مدارس مثلا مدرسہ حقانى ،مدرسہ منتظريہ ، مدرسہ آيت اللہ گلپايگانى اور بعض ديگر مدارس اسى طرح بعض مطبوعات مثلا مكتب اسلام، مكتب تشيع، بعثت ، سالنامہ مكتب جعفري، طلوع اسلام ، مسجد اعظم قم كا رسالہ ''پيك اسلام ''يہ سب مجاہد علماء كى سعى و كاوش تحت چل رہے تھے اور شايع ہو رہے تھے _ اور مجموعى طور پر ان سب كااسلامى بيدارى ميں اہم كردار تھا_(۱)

ديگر شہروں كے علمى حوزات بھى اہم فعاليت كر رہے تھے اس حوالے سے مشہد كا علمى حوزہ مشہور مجاہد علماء مثلا آيت اللہ محمد ہادى ميلاني، آيت اللہ حسن قمي، آيت اللہ على خامنہ اى اسى طرح عبدالكريم ہاشمى ناد اور عباس واعظ طبسى كى موجودگى كى وجہ سے پہلوى حكومت كے خلاف ايك اہم محاذ كى شكل اختيار كر گيا تھا اور دينى تفكر كے احياء ميں موثر كردار ادا كرنے والے مراكز ميں سے ايك اہم مركز شمار ہوتا تھا_(۲)

مبلغين علماء كرام بھى بالخصوص ماہ محرم، صفر اور رمضان المبارك ميں اپنے تبليغى سفر اور پروگراموں كى صورت ميں اسلامى تحريك كى ہمراہى كر رہے تھے اور لوگوں كو جديد سياسى اور مذہبى مسائل سے آگاہ كر رہے تھے_(۳)

ديگر كاوشيں كہ جنہوں نے اس اسلامى بيدارى كى لہر كى اعانت كى مصر كى دينى تنظيم اخوان المسلمين كے قائدين سيد قطب اور انكے بھائي محمد قطب كے بارے ميں بارہ سے زياہ قلمى آثار كا عربى سے فارسى زبان ميں مجاہد دانشور حضرات كے ذريعے ترجمہ كيا جانا تھا_(۴)

۱۳۵۵ شمسى كے اواخر اور بالخصوص ۱۳۵۶ شمسى ميں كچھ حد تك آزاد سياسى فضا كا پيدا ہونا اور سياسي

____________________

۱) رسول جعفريان، سابقہ ماخذ، ص ۱۷۴ _ ۱۵۹_

۲) مزيدمطالعہ كيلئے رجوع كريں : على رضا سيد كبارى ، سابقہ ماخذ، ص ۷۶۹ _ ۳۵۱، غلامرضا جلالي، مشہد در بامداد نہضت امام خمينى ، تہران ، مركز اسناد انقلاب اسلامي، ص ۱۴۲ روح اللہ حسنيان، سہ سال ستيز در بعثت شيعہ، ص ۱۱۳۹_ ۱۳۷_

۳) رسول جعفريان ، سابقہ ماخذ ، ص ۱۵۸ _ ۱۵۶

۴) سابقہ ماخذ، ص ۱۷۹ ، ۱۷۷_

۳۴۵

قيديوں كى رہائي نے اسلامى بيدارى كى تحريك كے ليے مناسب حالات پيدا كيئے ،اخبارات و رسائل كے سنسر ميں كمى نے بھى يہ موقع فراہم كيا كہ ذرائع ابلاغ سے بہتر فائدہ اٹھايا جاسكے_ اور حكومت كے سياسى مخالفين بالخصوص مذہبى قوتوں نے اس موقع كو غنيمت جانا تا كہ پہلوى حكومت كو وسيع سطح پر تنقيد كا نشانہ بنايا جائے_ مثلا جب '' كيہان'' اخبار نے يہ سوال اٹھايا كہ '' ايران چہ دردى دارد(ايران كا مسئلہ كيا ہے) تو چاليس ہزار سے زيادہ خطوط اس سوال كے جواب ميں حاصل ہوئے_(۱)

مجموعى طور پر پہلوى حكومت كے زير نگرانى (مجبوراً اختيار كى گئي) معتدل پاليسى كا نتيجہ يہ نكلا كہ اسكے سياسى مخالفين متحد ہوگئے پہلوى حكومت كى بنياديں متزلزل ہوگئيں اور اسلامى بيدارى كى تحريك بھى فكرى اور انفرادى كاوشوں سے بڑھ كر وسيع پيمانے پر اپنى حتمى كاميابى كيلئے قدم اٹھانے لگى اور سياسي، اجتماعى اور ثقافتى سطح پر پہلوى حكومت كو اپنے مطالبات كو تسليم كرنے پر مجبور كرديا_ اسى دوران امام خمينى كے بڑے فرزند سيد مصطفى خمينى كى شہادت (۱۳۵۶ شمسى اول آبان) اور انكے ليے مجالس ترحيم كے پروگراموں كا انعقاد ہوا اور يہ مجالس و محافل پہلوى حكومت پر تنقيد اور امام خمينى اور انكى اسلامى تحريك كى تعريف و تجليل ميں تبديل ہوگئيں _(۲)

ملك كے اندراور باہر مجاہدين كے نيٹ ورك نے اپنے تبليغى اور پيغام رسانى كے گوناگون ذرائع كے توسط سے امام خمينى كى مرجعيت اور رہبرى ميں كاميابى كے حصول تك جہاد كى ہدايت اور تاكيد كي_(۳)

آخرى نكتہ يہ ہے كہ سيد مصطفى خمينى كى شہادت كے بعد جو تحريك شروع ہوئي وہ پھر كنٹرول نہ ہوسكى سياسى اسلام اور دينى قيادت نے اسلامى حكومت كى تشكيل كيلئے اپنا نتيجہ خيز قدم اٹھايا جس كا نتيجہ بہمن ۱۳۵۷ ميں صبر و كاوش كے بہت سے عشروں كے بعد امام خمينى كى رہبرى ميں اسلامى حكومت كى تشكيل كى صورت ميں نكلا_

____________________

۱) چمز بيل، عقاب و شير، ترجمہ مہوش غلامي، ج ۱ ، تہران نشر كوبہ ، ص ۴۵۹_

۲) مہدى بازرگان، انقلاب ايران در دو حكومت ، تہران، نہضت آزادى ، ايران، ج ۵، ص ۲۴_

۳) شہيدى ديگر از روحانيت ، نجف ، انتشارات روحانيوں خارج از كشور ، ص ۱۴۰ ، ۱۲۶_

۳۴۶

گيارھواں باب :

مغربى تہذيب پر نقد و نظر

۳۴۷

۱_ مغربى مفكرين كى آراء ميں مغربى تہذيب پر تنقيد

انيسويں صدى كے اختتام اور بيسويں صدى كے آغاز ميں ثقافتى ، معاشرتي، سياسى اور اقتصادى روابط كے پيچيدہ ہونے اور اسكے نتيجہ ميں جديد تہذيب كے مراكز اور اداروں كے وجود ميں آنے سے مغربى دانشوروں كى آراء ميں مغربى تہذيب پر منظم تنقيد، اسكى مختلف اقسام اور مستقبل كے بارے ميں بدگمانيوں كاشكار ہونا ايك خاص روايت بن گيا_

پہلى اور دوسرى جنگ عظيم كے آغاز اور اختتام سے منفى نگاہ كى يہ عادت اہل مغرب كے دل و دماغ ميں مضبوط ہوتى چلى گئي فريڈرچ نيٹشا، كارل ماركس اور سگمنڈ فرايڈ جو كہ اس قسم كى نقد كے پرچم دار تھے انہوں نے اپنے خدشات كو علمى طرز ميں ظاہر كيا_ نيٹشانے مغرب كے ناہماہنگ واقعات اور رويوں كو بہت كم ايك واحدمجموعے يا ايك منظم مظہر كے عنوان سے ياد كيا ہے بلكہ وہ اكثر و بيشتر تاريخى ادوار كے اختلاف اور مغرب ميں ناہموار حادثات كا قائل تھا_ نيٹشاكى نظر ميں مغرب كى تاريخ ميں زرين عرصہ محدود اور ايك خاص دور ميں منحصر ہے جبكہ مغرب كى تاريخ كے باقى ادوار انحطاط اور تباہى كے ادوار ہيں _ پانچويں اور چھٹى صدى قبل مسيح، نيٹشا كے خيال ميں مغرب كا زرين دور تھا اسكے خيال كے مطابق يونان كى قديمى تہذيب كے زوال كے ساتھ ہى مغرب كے زوال كا دور شروع ہوگيا_

نيٹشاقديم يونان كے عروج كى وجہ ڈيونيزوسى ( خوش رہنے ) كے احساسات كا اس تہذيب ميں نماياں ہونے كو بتاتا ہے_ وہ ان احساسات كو اصلى يونانى مزاج اور يونانيوں كا زندگى كى رنگينيوں كو ''ہاں '' كہنا سمجھتا ہے ليكن ايپولانى احساسات كے پيدا ہونے كوجو سرور و وجد اور زندگى كے احساسات كے متضاد ہيں سقراط كے افكار سے منسوب كرتا ہے اور مغرب ميں عقلى رحجانات كے آغاز كى مخالفت كرتا ہے _(۱)

____________________

۱)رضا نجفي، نيٹشا و ارزيابى غرب، غرب وغرب شناسى ، تہران ، سروش ص ۴۴

۳۴۸

ماركس نے مغرب كى اعداد و شمار ميں گھرى ذہنيت كى مخالفت كى اس نے سب سے پہلے بوروازى ( كا روبارى طبقہ) كى اس قسم كى تعقل كو كام ميں لانے پر تعريف كرتا ہے كيونكہ پيداوار ميں مسلسل تغيرات معاشرتى تعلقات ميں بغير كسى وقفے كے اضطراب لامتناہى تلاطم اور بے يقينى نے سرمايہ دار طبقے كے زمانے كو گذشتہ ديگر ادوار سے منفرد كرديا ہے_

ليكن اس دور كا نقص در حقيقت يہاں ہے كہ تاجر طبقے كى اندرونى زندگى اور مسلسل تغيرات اور تنوع كى يہ استعداد بذات خود اسى طبقہ كوہى محو كرديتى ہے_ ہم اس جدلياتى تغير كا انفرادى زندگى ميں اتنا ہى مشاہدہ كرسكتے ہيں جتنا اقتصادى تغير كا، ايسا نظام جس ميں تمام باہمى روابط كمزور اور عارضى ہوں تو سرمايہ دارانہ زندگى كى خصوصيات يعنى ذاتى مالكيت اور اجرت ، معاملات كى قدر و قيمت اور منافع كيسے اپنى جگہ پر قائم رہ سكتا ہے_

جب لوگوں كى آرزوئيں اور ضروريات سركشى اور نافرمانى كى راہ تلاش كرتى ہوں اور زندگى كے تمام شعبوں ميں مسلسل اور پيہم تغيرات موجود ہوں انہيں كونسى چيز بوروايى (تاجر طبقے) كے طے شدہ حدود كے اندر ركھے؟ جب بھى بوروايى معاشرہ اپنے افراد كو زيادہ حساسيت اور بے چينى سے مشتعل كرتاہے كہ وہ يا ترقى كريں يا موت كو گلے لگاليں تو زيادہ امكان يہى ہے كہ وہ خود اپنے معاشرہ كو ہى روند ڈاليں گے ،جب بھى مشعل لوگ اپنے معاشرے كو اپنے ليے ركاوٹ سمجھتے ہوں اور اسكے خلاف اٹھ كھڑے ہوں تو وہ انتھك انداز ميں سرمايہ دار طبقے كے ہى جھنڈے تلے اس طبقے كے خلاف جنگ كريں گے (يعنى طبقاتى تضاد وجود ميں آئے گا) اس ليے تو سرمايہ دارى يعنى مغربى تہذيب اپنے اندرونى تضاد كى بناء پر زوال كا شكار ہو جائيگى(۱) فرائيڈ نے انسان كے لاشعور كو كشف كركے انسان كے اپنے آپ سے عشق پر ضرب لگائي اس انكشاف نے اس جديد انسان كى وہ صورت مغرب كو دكھائي كہ جو بيسويں صدى تك پنہان رہى تھى _ فرائيڈ كى نگاہ ميں تہذيب نہ صرف انسان كى معاشرتى زندگى كو بلكہ اسكى حياتياتى زندگى كو اور حياتياتى زندگى كے فقط بعض حصوں كو نہيں بلكہ جسمانى زندگى اور اسكے غرائز كے مكمل نظام كو محدود كرديتى ہے ليكن اس قسم كى محدوديت اور جبر

____________________

۱) مارشال برمن، ماركس و مدرنيسم و مدرنيزاسيون ، ترجمہ يوسف اباذري، ارغنون ، ص ۶۸ _ ۶۷_

۳۴۹

ترقى اور پيشرفت كى سب سے پہلى شرط ہے_ در حقيقت انسانى نفسانى خواہشات كو مقيد كرنے سے اسكى تہذيب و تمدن كى يكجہتى اور وحدت كى ضمانت فراہم كى جاسكتى ہے_

فرائيڈقانون ''لذت'' كو پيچھے چھوڑتے ہوئے قانون '' حقيقت '' سے پيوستگى كو انسان كے اجتماعى اور تاريخى وجود ميں ايك موڑ سے تعبير كرتا ہے_ دہ بتاتاہے كہ غرائز و نفسانى خواہشات پر ايمان ركھنے والا انسان اپنى خصوصيات مثلا ان خواہشات كا براہ راست پورا ہونا، آسودگى اور لذات كا حاصل ہونا اور كسى روك ٹوك كا نہ ہونا و غيرہ كے بعد ايك حقيقت پسند انسان كى صورت ميں تبديل ہو جاتا ہے جسكى خصوصيات ميں خواہشات كا فورى پورا نہ ہونا، لذات كے حصول سے اجتناب، كام ، پيداوار اور امن و سكون جو روك ٹوك اوردباؤ كے عوض حاصل ہو ،شامل ہيں _

قانون حقيقت كے سامنے آنے سے وہ انسان كہ جو پہلے قانون لذت اور حيوانى غرائز كے تابع تھا اب اپنى معرفت و حقيقت سے آگاہ ايك وجود ميں تبديل ہوجاتاہے اور اپنے آپ كوخارجى حقيقت تلے چھپے اصول و ضوابط كے مطابق ڈھال ليتاہے_ يوں يہ منضبط اور منظم جديد انسان عقل كے كردار اور اس كے دائرہ كاركو وسعت ديتاہے اور يہ سبق ليتاہے كہ حقائق كو آزمانا چاہيے اور موجودات ميں فرق ركھنا چاہيے_(۱) اس نكتہ پر توجہ ركھنى چاہيے كہ فرائيڈكے يہاں انسان سے مراد وہ مغربى انسان ہے جو قديم رواجوں اور جدت كى كشمكش ميں گرفتار ہے_

نيٹشا، ماركس اور فرائيڈكى مغرب كے فلسفي،سماجى اور نفسياتى نظام پر اساسى تنقيد اگرچہ معلومات افزا تھى ليكن دوسرى طرف اس تہذيب كے دردناك حالات اور شكست خوردہ اور بحرانى مقدر كى نشاندہى كررہى تھى ۱۹۱۴ عيسوى ميں پہلى جنگ عظيم كے آغاز سے مغرب ميں سب سے پہلا بڑا بحران پيدا ہوا ايك طرف اس جنگ ميں شريك لوگ انسانى آرزوں كو پاؤں تلے روندتے ہوئے قتل و غارت كا بازار گرم كيے ہوئے تھے دوسرى طرف اكتوبر ۱۹۱۷ميں روس ميں كميونسٹ نظام كى فتح سے مغربى دنيا دو قطبوں ( سرمايہ دار _ كميونسٹ )

____________________

۱) سگمنڈ فرائيڈ ،ناخوشانيديہاى فرہنگ، ترجمہ اميد مہرگان، تہران ، گام نو، ص ۱۲۴ ، ۱۳۳، ۱۳۱_

۳۵۰

ميں تبديل ہوچكى تھى _ ہر ايك قطب اپنے خاص انداز سے اپنے مخالف نظريات اور نظام كو ختم كرنے پر تلا ہوا تھا_

شوالڈ اشپنگر (۱۹۳۶_ ۱۸۸۰) كہ جنہوں نے شوپنہار اور نيٹشاسے لى ہوئي فلسفيانہ منفى نظرسے '' ماوراء الطبيعت كے غائب ہونے كى '' خطرے كى گھنٹى بجادى تھى ،نے مغرب كى جديد تہذيب كو خبرار كيا كہ وہ زوال كے دھانے پر آچكے ہيں _انہوں نے اپنے رسالے '' زوال غرب'' ميں اپنے افكار بيان كيے جنہوں نے انكے بعد والى نسلوں كو بہت زيادہ متاثر كيا_(۱)

ماركس ويبر ( ۱۹۲۰ _ ۱۸۴۴) كى عمرانيات ميں كلاسيكل تاليف بنام '' پروٹيسٹينٹ اخلاق اور سرمايہ دارانہ روح ''نے انسان كى معاشرتى زندگى ميں آلى تعقل پر توجہ دلائي، انہوں نے مغربى ماڈرن معاشرہ كى جو خصوصيات شماركى ہيں وہ ايك طرح ماڈرن سرمايہ دارانہ نظام كے تحت آلى تعقل كو مدنظر ركھتے ہوئے ہيں ويبركى نگاہ ميں فقط ايك نظام تعقل وجود ركھتاہے جو صرف مغرب ميں طلوع ہوا ہے اور اس نے سرمايہ دارى نظام كى تشكيل كى ہے يا اسے تشكيل دينے ميں مدد كى ہے اور مغرب كے مستقبل كو متعين كيا ہے ويبر كے اس نظام تعقل كى خصوصيات كا جاننا ضرورى ہے يہ ہيں :

۱ _ تجربات اور علوم كو حد سے زيادہ رياضياتى صورت ميں لانے كا يہ انداز ابتداء ميں سائنسى علوم ميں تھا اور بيسويں صدى ميں اس نے ديگر علوم اور زندگى كى روشوں كو بہت زيادہ متاثر كيا_

۲_ علمى نظام اور زندگى كے ضوابط ميں عقلى تجارب اور عقلى استدلال كى ضرورت پر تاكيد

۳_ مندرجہ بالا دو عناصر كا نتيجہ يہ ہے كہ ايسى صورت ميں ايك خاص نظام تشكيل پاتاہے اور مستحكم ہوتاہے جو دفترى ملازمين پر مشتمل ہوتا كہ جو فقط اپنى مہارت كى بناپر جانچے جاتے ہيں اور پھر يہ نظام مغربى انسان كى سارى زندگى پر محيط ہوجاتاہے(۲)

____________________

۱) كريسٹان دولا كامپالى ، تاريخ فلسفہ در قرن بيستم، ترجمہ باقر پرحام، تہران، ص ۱۳۵_

۲) ہربرٹ ماركوزہ، صنعتى شدن و سرمايہ دارى در آثار ماركس وبر '' ترجمہ حال لاجوردي' ارغنون ، ش ۱۱_ ۱۲ ،ص ۳۳۴ _ ۳۳۱_

۳۵۱

ويبر كى نقادانہ روش كو آگے بڑھاتے ہوئے جارج لاكچ( ۱۹۷۱ _ ۱۸۸۵) نے سرمايہ دارانہ نظرى نظام كے بارے ميں ماركس اور ويبر كى آراء كے امتزاج كى كوشش كي_ اس نے جوان ماركس سے كچھ مفاہيم مثلا شيئيت اور '' خودبيگانگى '' ليے اور انہيں ويبر كى سرمايہ دارى كے بارے ميں تجزيات ميں استعمال كيا ليكن فكرى روش ميں ماركس كے مادى قواعد پر كاربند رہا ،لاكچ نے مغرب كى ماڈرن ثقافت پر غور كرتے ہوئے ماڈرنزم كى آئيڈيالوجى كى مخالفت كى چونكہ وہ اسے سرمايہ دارى كى بڑى خصوصيت سمجھتا تھا _

اسكى نظر ميں سرمايہ دارانہ نظام كى نظرى بنياديں جنہيں ويبرنے كشف كيا تھا ،كے مطابق مغربى انسان اندر سے خالى ، اپنى حقيقت سے بيگانہ اور اجناس كى مانند ايك وجود ميں تبديل ہو جاتا ہے ،اس روش سے انسانى اصلى اقدار محو ہوكر اپنى جگہ حساب و كتاب ، رياضي، اور نومولود ماڈرنزم كو دے ديتى ہيں _

اسى بناء پر اس نے بہت سے ماڈرنسٹ مولفين اور ماہرين كى مخالفت كى اور انہيں لغويت پسند، حقيقت دشمن اور مشين ازم كے مداح كہا اور قديم يونانى فن و ثقافت كى تقديس كا دعويدار بن گيا ،مغربى سرمايہ دارى كے بارے ميں لاكچ كا تجزيہ اس حوالے سے قابل ذكرہے كہ اس نے سرمايہ دارى كے دور كى ثقافتى بنيادوں پر بہت زيادہ غور كيا اور ماركسزم كے فقط معاشى محور كو اس ليے نظر انداز كيا تا كہ ثقافتوں اور خالص قديمى نظريات و عقايدكے ماڈرنيزم كے ساتھ منطقى تقابل كو بے بنياد قرار دے سكے اور ويبر كى آلى معقوليت كا تجزيہ كر سكے_(۱)

مارٹن ہائيڈگر( ۱۹۷۶ _ ۱۸۸۹) ٹيكنالوجى كى سرعت سے بڑھتى ہوئي ترقى كو انسانى تفكر كيلئے خطرہ سمجھتا تھا _ حقيقت ميں ہائيڈگراہل مغرب سے يہ چاہتاتھا كہ مغربى لوگ اس دنيا ميں اپنے مشينى وجود كى كى اجنبيت اور تنہائي پر توجہ كريں يا بالفاظ ديگر اس قسم كى فكر ميں محو ہوجائيں _ہائيڈگر كى تمام تاليفات گويا اس كى فكرى نداء كى بازگشت ہيں كہ جو مغرب سے يہ چاہتى ہے كہ اس سے پہلے كہ فكر كرنے كے تمام ذرائع ہميشہ كيلئے كھو بيٹھيں اپنے آپ ميں آجائيں اور توجہ كريں كہ كيا كر رہے ہيں اور كہاں كھڑے ہيں ،اس نے ۱۹۵۵ ميں

____________________

۱) امرى جورج، جورج لوكاچ، ترجمہ عزت اللہ فولادوند، سمر، دفتر ويراستہ، ص ۱۰۰ _ ۸۷_

۳۵۲

خبردار كرتے ہوئے يہ نصيحت كى تھى كہ سب اہل مغرب حتى كہ ان كے مفكرين جن كا كام ہى فكر كرناہے زيادہ تر فكرى فقر كے شكار ہيں

اس نے بے فكرى كو ايسا پراسراراور ہوشيار سياح قرار دياجو آج كى دنيا ميں ہر جگہ موجود ہے كيونكہ آج كے دور ميں مغربى لوگ ہر چيز كو تيز ترين اور سريع الزوال سمجھ رہے ہيں صرف اس ليے تا كہ فوراً اسے بھول جائيں _ حقيقت ميں يہ فراموشى فكر نہ كرنے كے مخرب اجزا ميں سے ايك ہے _ انہوں نے ٹيكنالوجى كے تسلط سے آزاد ہونے كے ليے اسكا بدل اس شہودى تفكر يا پُر اسرار تفكر كو بتايا جو سرزمين مشرق كى تہذيب ميں موجود ہے(۱) ہا يڈگر كى فكر ايك طرح كا مغربى افكار ميں دراڑ اور مشرق پر ايك تازہ نگاہ شمار ہوتى ہے_

پہلى جنگ عظيم در اصل مغربى تہذيب كا مسائل اور مشكلات كے مد مقابل نامعقول رويے كا اظہار تھا اسكے نہايت قابل افسوس نتائج نكلے جنہوں نے مغربى تہذيب كو اپنى لپيٹ ميں لے ليا ،منظم تشدد كى ايك ايسى موج جو ايك ايسے نظام كے بطن سے نكلى جو خود كو انسانى نظاموں ميں ترقى يافتہ ترين نظام بتاتاتھا اور اپنے ذرائع كو عقليت سے تعبير كرتا تھا _

ولاديمير لينن( ۱۹۲۴ _ ۱۸۷۰) نے اگرچہ يہ سعى كى كہ مغربى سرمايہ دارى كى جگہ انسانيت كے مطابق كوئي تصور پيش كرے ليكن بعد ميں اسكے اہداف بھى مزدور طبقہ كى خوفناك آمريت كى شكل ميں سامنے آئے ، سرمايہ دارى اور كميونيزم نے نہايت غير منصفانہ انداز سے ايك دوسرے كے خلاف تشدد كو بڑھايا كہ اس كى واضح مثال دوسرى جنگ عظيم ميں فاشزم كى صورت ميں سامنے آئي كہ جوان دو نظاموں كے بطن سے ظاہر ہوا_

۱۹۳۹ ميں دوسرى جنگ عظيم كے آغاز سے ميں مغربى دانشوروں نے زيادہ منفى انداز سے مغربى تہذيب كا تجزيہ كرنا شروع كيا_ اور اسميں مخفى ذہنيت پر تنقيد كي_

____________________

۱) لدل مك ورتر ، گناہ ، تكنولوى مديريت ، دعوت ہيدگر بہ تفكر ، فلسفہ وبحران غرب ، ترجمہ محمد رضاجوزى ، تہران ، ہومس ، ص ۱۶۴_

۳۵۳

ميكس ہارك ہايمر( ۱۶۷۳ _ ۱۸۹۵ ) ، تھيوڈر آڈرنو( ۱۹۶۹ _ ۱۹۱۳ ) اور ہربرٹ ماركوزے( ۱۹۷۹ _ ۱۸۹۸ ) كى قيادت ميں فرينكفرٹ كا مكتب ان مفكرين كى پہلى نسل تھى جو مغربى عقليت كى اساس و حقيقت اور اس كى وجہ سے بڑھے ہوئے تشدد وسختى كى مخالفت كرتے تھے_ ہارك ہايمر اور آڈرنونے رسالہ ''منطق شفافيت ...ميں نيشٹا ماركس ،ويبر و غيرہ كى طرف سے آلى عقليت پر ہونے والى تمام تر تنقيد كو مد نظر ركھتے ہوئے يہ كوشش كى كہ اس جديد دور ميں مغربى عقليت كى اصل بنياد كو سترويں اور اٹھارويں صدى ميں تلاش كريں _ انہوں نے اپنے استدلال كو شفافيت كے اس قانون پر قائم كيا كہ روشن خيالى ايك زمانہ ميں مغربى انسان كى زندگى سے قديم خيالى قصوں كے تاثر كو ختم كرنے كا دعوى كرتى تھى ليكن اس دور ميں اس نے عقل كو ہى ايك ديومالائي قصے ميں ڈھال ديا ہے ايك نيا اور جنگ جو خيالى قصہ(۱)

ماركوزے نے ہارك ہايمر اورآڈرنوكے مشن كو آگے بڑھاتے ہوئے كوشش كى كہ ماركسزم اور فرائيڈازم كے امتزاج كى صورت ميں مغربى عقليت پر تنقيد كرے_ انہوں نے رسالہ '' متاع اور تہذيب'' ميں يوں دليل دى ہے كہ جديد مغربى تہذيب نے انسان كى نفسانى طاقت كو اسكى ايك جہت ميں محصور كر ديا ہے اسى ليے مغربى انسان ايك جہت والے موجود ميں تبديل ہوگيا ہے ضرورى ہے كہ يہ ظالمانہ طوق اسكى گردن سے اتارا جائے ماركوزے، نے ماركس اور فرائيڈكے مفاہيم كے امتزاج اور'' اضافى جبر'' كے مفہوم كو استعمال ميں لاتے ہوئے فرائيڈ كے نفسانيات اور حياتيات پر قائم نظريہ كى بنياد كو آڑے ہاتھوں ليا اور ماركسزم كے معاشرتى اور اقتصادى تجزيوں كى بنياد پر تشكيل پانے والے جديد صنعتى معاشرہ پر سخت تنقيد كا اس ميں اضافہ كرديا_

ماركوزے اپنے ايك اور رسالہ '' يك بُعدى انسان'' ميں امريكى كلچر پر تنقيد كي_ وہ دلائل ديتا تھا كہ امريكا ايك ايسى جگہ ہے كہ جہاں ايك طرح كى آرام دہ، پرسكون اور معقول غلامى موجود ہے_ ايسى جگہ ہے كہ جہاں ٹيكنالوجى مكمل فتح پاچكى ہے نيز جہاں فلاحى حكومت اور جنگجو حكومت ايك دوسرے كو چھيڑے بغير اپنا كام

____________________

۱ ) بابك احمدي، خاطرات ظلمت، تہران مركز ۱۳۷۹ _ ص ۱۵۴ _ ۱۵۳_

۳۵۴

كر رہى ہيں ،امريكا ميں اقدار ايك جيسى ہوچكى ہيں جس كى وجہ سے وہاں كے شہريوں كے ليے انتخاب موجود نہيں ہے،يہ حالت اس وقت تك برقرار رہے گى جب تك كہ امريكى معاشرہ كے نچلے طبقہ سے ان حالات كے خلاف غصے كى لہر نہ اٹھے اور اس حالت كو تبديل نہ كردے(۱) ماركوزے۱۹۶۰ ميں يہ نظريات پيش كركے عملاً امريكى اور يورپى ناراض طلباء كا پيشوا بن گيا_

جان پل سارٹر(۱۹۸۰ _ ۱۹۰۵ ) ماڈرن مغرب كے دانشوروں كے سلسلہ كى آخرى كڑى ہے جس نے اگزسٹنالزم (وجوديت پسندي) اور ماركسزم كے امتزاج سے كوشش كى كہ مغربى تہذيب پر تنقيد كرے_ وہ اگزسٹنالزم كى انسانى ضمير كى آزادى كى حمايت كرنے كى بناء پرتعريف كرتا تھا اور ماركسزم كو بعنوان فلسفہ انقلاب قبول كرتا تھا_ اسكا ماركسزم كى طرف رجحان زيادہ تر ماركس كى جوانى كى تاليفات كى طرف ہے، اس نے كوشش كى كہ بعض مفاہيم مثلاً شيئيت، ضميت، سامان كى مانند ہونا، خود بيگانگى اور اگزسٹنالزم كے مضامين مثلاً انفرادى آزادى ، ذاتى وجود اور ''ضمير انسان ''كو آپس ميں مخلوط كرے تا كہ مغربى انسان كى بے چارگى اور محروميوں كو بيان كرنے كيلئے نيا فلسفہ تشكيل دے سكے_

اسكى طرف سے الجزاير ميں استعمار كے خلاف تحريكوں كى بے پناہ حمايت اور مئي ۱۹۶۸ ميں فرانس ميں انقلابى طلباء كے اعتراضات اور احتجاج كے ساتھ ہمدردى كا اظہار كرنا بتاتا ہے كہ وہ مغربى تہذيب ميں بڑھتے ہوئے تشدداور نفرت آميز رويوں پر تنقيد سے قلبى لگاؤ ركھتا تھا_ اگرچہ سارتر نے واضح طور پر مغرب كے زوال كے بارے ميں نظريہ نہيں ديا ليكن اسكے دو فلسفى رسالے بنام '' وجود اور عدم وجود'' اور '' منطقى عقل پر تنقيد'' ايسے ہيومنيزم كو بيان كرتے ہيں كہ جوسرمايہ دارى نظام اور قيود سے انفرادى آزادى كى بنياد پر تشكيل پايا ہے يہ خصوصيت اسكى داستانوں اورڈراموں ميں بھى ملاحظہ كى جاسكتى ہے _ سارتر كے انفرادى آزادى كے نظريے نے دوسرى جنگ عظيم كے بعد ۱۹۵۰ كے عشرہ كے آغاز ميں جوانوں كى ايك مكمل نسل كو اپنا فريفتہ كيے ركھا(۲)

____________________

۱)اسٹوارٹ ميرز، ہجرت انديشہ اجتماعي، ترجمہ عزت اللہ فولادوند ، تہران ، طرح نو، ص ۲۱۰، ۲۰۶_

۲)جوڈيٹ باٹلر، ان پل سارتر، ترجمہ خشايار ديہيمى ، تہران ص ۵۲،۴۸_

۳۵۵

نظريہ پوسٹ ماڈرنزم در اصل كيميونزم اور سرمايہ دارى كے نظرياتى تصورات كے خلاف رد عمل تھا كہ جس ميں ۱۹۶۰ كے عشرہ كے آخر ميں يورپ اور آمريكا كے طلباء كى شورش كى وجہ سے جوش و خروش پيدا ہوا ،پوسٹ ماڈرنسٹ ايك طرف كميونزم كى اس عنوان سے كہ وہ دنيا كى نجات كى واحد راہ ہے ،كى مخالفت كر رہے تھے اور دوسرى طرف مصرفانہ كلچرّ ( consumerism ) بے پناہ پيداوار ( mass production ) نظريات ميں يكسانيت اور مغربى سرمايہ دارى كى توسيع پسندانہ ذہنيت كو قبول كر رہے تھے_

وہ (پوسٹ ماڈرنسٹ) دونوں نظريات، كميونزم اور سرمايہ دارى كے اختلافات كا آميزہ اور مركب تھے اور دوسرى طرف دونوں ہى نظريات كى بڑائي كومسترد كرتے تھے_ ان كا عقيدہ تھا كہ بڑے نظريات انسانوں كى ذاتى اور اجتماعى زندگى پر نظارت كى بناپر ايك طرح كے اپنے اقتدار اور تسلط كا اظہار كرتے ہيں _

مشل فوكو، جل ڈلاس،اور جان فرانسوا ليوٹار نے فلسفے اور تحليل نفسى كى آميزش كے بعد اس ميكانزم پر سخت تنقيد كى جو مغربى تہذيب انسان كو محدود اور مقيد كرنے كے ليے استعمال كرتى ہے _ فوكو نے جنون اور جنسيت كے تاريخى تجزيہ كى راہ سے نچلے طبقوں پر مغربى تشدد پسندى كا باريك بينانہ نقشہ كھينچاہے_ ڈلاس شيزوفرينيا كا مفہوم تحليل نفسى سے مستعار ليتے ہوئے اسكا سرمايہ دارانہ تہذيب كے ايك حصے كے طور پر جائزہ ليتا ہے ليوتارنے بڑے نظريات كو مسترد كرتے ہوئے كوشش كى كہ بنياد پرستانہ پايسيوں كو اپنائے اور بجائے وسعت اور ہمہ جہتى پر زور دينے كے علاقائي ہونے اور محدوديت پر اكتفا ء كرے تا كہ بہتر نتيجہ اخذكرسكے(۱)

ايرانى اور عرب دانشوروں كى آراء ميں مغربى تہذيب پر تنقيد

سترويں اور اٹھارويں صدى ميں ايك طرف سے دين سے سياست كى جدائي كا نظريہ ( سيكولرزم) اور دوسرى طرف سے استعمار كا ظاہر ہونا ،ان دونوں كے ملاپ سے مغرب كى ايك مكمل تصوير اہل مشرق كے ذہن ميں پيدا ہوئي_ اہل مشرق بالخصوص عالم اسلام نے خودبخود اس تصوير كے مقابلے ميں محاذ كھولا_ كيونكہ

____________________

۱) مايكل پين ، فرہنگ انديشہ انتقادى ،ترجمہ پيام يزدانجو، تہران، ذيل ''فوكو''، ''دلوز''، ''ليوتا''

۳۵۶

اہل مغرب كے مشرق والوں كواپنى تہذيب سے وابستہ كرنے كا مقصد انكى تہذيبى اقدار پر حملہ كرنا تھا_ مسلمانوں نے مغرب كے اس سوچے سمجھے حملے كے مقابلے ميں اپنى دينى اور قومى روايات اور وراثت كو زندہ ركھنے پر كمر باندھ لي_ لہذا بيسويں صدى ميں بہت سے دانشوروں نے مغرب كے تسلط كا مقابلہ كرنے كيلئے بيدارى اور اصلاح كى كوششيں كيں _

ہم يہاں اس مقالہ ميں ان ميں سے كچھ اكابرين حضرات كى طرف اشارہ كر يں گے_ ايران ميں پہلوى دور ميں مغربى تہذيب پر تنقيد منظم صورت ميں انجام پائي _ اس حوالے سے پيش پيش تين دانشور يہ ہيں : سيد فخرالدين شادمان، سيد احمد فرديد اور جلال آل احمد_ ان تين شخصيات كو ايران ميں '' مغرب پرستي'' كے موضوع كا معمار اور صاحب نظر سمجھا جاسكتا ہے_

سيد فخرالدين شادمان (۱۳۴۶ _ ۱۲۸۶) كہ جو قديم اور جديددونوں تعليمى نظاموں كے تعليم يافتہ تھے_ انہوں نے ۱۳۲۶ شمسى ميں اپنى اہم ترين كتاب '' تسخير شدن فرنگي'' شايع كي_ اسميں وہ لكھتے ہيں كہ اگرايران مغربى تہذيب كے تسلط سے بچ جائے اور اسكے مقابلے ميں كمزور نہ پڑے تو اسے چاہيے كہ وہ رغبت اور شعور كے ساتھ اس تہذيب كو اپنا رنگ دے دے اور اس تحريك كا ايك ہى وسيلہ زبان فارسى ہے كہ جو تمام ايرانيوں ميں مشترك صورت ميں ہے اور انكے اجداد كى موروثى عقل و دانش كا مظہر بھى ہے(۱) يہ قوم پرستانہ گفتگو زيادہ آگے نہ بڑھ سكى كيونكہ اس نظريہ ميں بنيادى طور پر ايرانيوں كے دينى مزاج كى طرف توجہ نہيں دى گئي تھي_

شادمان كى مانند سيد احمد فرديد (۱۳۷۳ _ ۱۲۹۱ شمسى ) بھى دونوں تعليمى نظاموں قديم اور جديد ميں تعليم يافتہ تھے _ وہ سب سے پہلے ايرانى مفكر تھے كہ جنہوں نے اپنے دور كے مغربى فلسفہ بالخصوص مارٹن ہايڈ گر كى آراء كا دقت سے مطالعہ كيا تھا فرديد نے ہايڈگر سے متاثر ہوتے ہوئے مغربى تہذيب پر فلسفى تنقيد كى _ انكا يہ

نظريہ تھا كہ انسانوں كے تين پہلو علمي، فلسفى اور معنوى ميں اگرچہ پہلے دو پہلو مغرب كى فكرى روايت ميں اہميت كے حامل ہيں ليكن تيسرا پہلو واضح طور پر غائب يا خاموش ہے_ اس ترتيب سے فرديد اس نتيجہ پر پہنچتے

____________________

۱) سيد فخرالدين شادمان، تسخير تمدن فرنگي، آرايش و پيرايش زبان، تہران ،ص ۲۳_

۳۵۷

ہيں كہ مغرب كو بھى ايك فلسفے اور ضابطہ حيات كے عنوان سے الوداع كہنا چاہيے ،انكے تجزيہ كے مطابق مغرب كا مقابلہ كرنے كيلئے اسكے فلسفہ كى حقيقت اور جڑ سے آگاہ ہونا چاہيے حقيقت ميں فرديد اپنى شناخت پيدا كرنے كيلئے دوسروں كى شناخت كو ضرورى شرط سمجھتے تھے_(۱)

جلال آل احمد (۴۸ _ ۲_۱۳) كہ جنكا علما گھرانے سے تعلق تھا_انہوں نے مغرب پرستى كى بحث كو معاشرتى اور سياسى افق سے بيان كيا ،۱۳۴۱ شمسى ميں انكى ايك كتاب '' غرب زدگي'' شايع ہوئي بعد ميں چند عشروں تك ايرانى مفكرين كے درميان مقبول رہى ، منتقدى اس كتاب كو سب سے پہلا ايسا مشرقى رسالہ سمجھتے ہيں كہ جس نے مغرب اورمغربى استعمار كے مقابلے ميں مشرق كى صورت حال كو روشن كيا اور اسے عالمى معاشرتى اہميت كا حامل بتايا_(۲)

آل احمد كا يہ نظريہ تھا كہ ايرانى لوگ مشينى زندگى اور مغرب كے حملے كے مقابلے ميں اپنى ثقافتى اور تاريخى شخصيت كو نہيں بچا سكے بلكہ مضمحل اور منتشر ہو چكے ہيں اور صرف مغربى شكل اپنا چكے ہيں _

آل احمد نے پہلى بار مغربى تہذيب كا مقابلہ كرنے كيلئے دينى علماء كى قوت كى طرف اشارہ كيا اور واضح كيا كہ جب بھى دانشورحضرات اور دينى علماء باہمى اتحاد كے ساتھ آگے بڑھيں گے_ تو اس معاشرتى مقابلے ميں مثبت اور متاثر كن نتايج پائيں گے،در اصل وہ زير لب جديدت اور روايت پسندى كے اتحاد كى تجويز دے رہے تھے اور ان دونوں كو اجتماعى و معاشرتى سطح پر مقابلہ كرنے كيلئے مل جل كر كام كرنے كى دعوت دے رہے تھے_(۳)

سب سے پہلے عالم كہ جنہوں نے مغربى آئيڈيالوجى كى جگہ اسلام كو ايك سياسى آئيڈيالوجى كى صورت

____________________

۱) مہرزاد بروجردي، روشنفكرى ايرانى اور غرب، ترجمہ جمشيد شيرازي، تہران، ص ۱۰۸ _ ۱۰۷_

۲) سابقہ ماخذ، ص ۱۱۱ _ ۱۱۰_

۳) جلال آل احمد، غرب زدگي، تہران، ص ۲۸ ، در خدمت و خيانت روشنفكران ، تہران، ج ۲ ، ص ۵۲_

۳۵۸

ميں پيش كيا وہ امام خمينى تھے ، امام نے اسلامى روايات اور ثقافت سے آگاہى اور عوامى طبقات كو مغرب اوراسكى تابع حكومت كے مقابلے ميں جہاد كى دعوت ديتے ہوئے آل احمد كے آئيڈيل يعنى اجتماعى جد و جہد كرنے كيلئے علماء اور دانشورحضرات كى ہمراہى كو حقيقت ميں بدل ديا_ انہوں نے سياسى سطح پر عوام كو تيار كرتے ہوئے دوران جديد ميں سب سے پہلے مذہبى انقلاب كى تصوير كھينچى وہ انقلاب كہ جس نے اس كليہ كہ ''انقلاب ترقي دين سے نجات '' كو ختم كرديا اور دوبارہ دين كے پرچم كو لہرا ديا_(۱) ا

صل ميں امام كے انقلابى نظريات كے سائے تلے اسلامى جديديت اور روشن خيالى نے اپنى بنياد تشكيل دي_ اور على شريعتى (۱۳۵۶ _ ۱۳۱۲ شمسى ) جيسے مفكر كو ايرانى معاشرہ كے سپرد كيا_ شريعتى كہ جنہوں نے فرانس ميں سماجيات ميں تعليم حاصل كى تھي_ ايك مذہبى فيملى ميں پيدا ہوئے تھے وہ اسلام پر ايك نئي نگاہ كى تلاش ميں تھے كہ جو مسلمانوں كو مغرب كے مقابلے ميں مسلح كرے_ انہوں نے اپنے حقيقى نظريہ كو '' اپنى طرف لوٹنا'' كے عنوان سے پيش كيا_ شريعتى نے قوم پرست اہل نظر كے رد عمل ميں واضح كيا كہ ايرانيوں كے نزديك اپنى طرف لوٹنے سے مراد اسلام سے قبل كے ايران كى طرف لوٹنا نہيں ہے بلكہ اسكا مطلب اسلامى اصولوں كى طرف لوٹنا ہے_

شريعتى كى نظر ميں مشرق و مغرب ميں مختلف نمونہ ہائے عمل نے مختلف خصوصيات كو وجود بخشا_ مغرب ميں عقلى رجحان، مادى رجحان، حقائق كى طرف رجحان اور منفعت پسندى جبكہ مشرق ميں الہى روحانى ، اجتماعي، عقيدتى اور اخلاقى صفات، اسى ليے مغرب فلسفى نگاہ سے ظاہر اورموجود حقيقت كے تعاقب ميں نكلا جبكہ مشرق اس حقيقت كى تلاش ميں چلا كہ جو ہونى چاہيے تھي_(۲)

اسلامى انقلاب كے بعد تين موضوعات مغرب پرستي( شادمان، فرديد ، آل احمد) ،اسلامى شريعت كا احيائ( امام خمينى ) اوراپنى طرف لوٹنا ( شريعتى ) نے فكرى اعتبار سے ايران ميں اسلامى جمہوريہ كى نئي بپا ہونے

____________________

۱) ہشام جعيط ، بحران فرہنگ اسلامي، ترجمہ سيد غلامرضا تہامي، تہران، ص ۱۵۰_

۲) على شريعتي، از كجا آغاز كنيم؟ ج ۲۰ ، تہران، ص ۲۸۲_

۳۵۹

والى حكومت كو قوت بخشي_ اگرچہ عمل كے اعتبار سے دوسرى بحث سياسى اور ثقافتى سطح پر زيادہ تسلط ركھتى تھى اور ايرانى معاشرہ اسكے بيان كيے گئے اصولوں كے مطابق چل رہا تھا_ اسلامى جمہوريہ ايران مغربى تہذيب كى عالم اسلام پر يلغار كے مقابلے ميں قوميت اور شيعہ اسلامى مكتب فكر كے امتزاج سے ايك مضبوط متبادل نظام شمار ہوتا ہے_

انيسويں صدى كے اختتام اور بيسويں صدى كے آغاز ميں عرب مفكرين جو عالم اسلام كا قابل ذكر اور بڑاحصہ شمار ہوتے ہيں انہوں نے مغرب كى ثقافتى اور سياسى سطح پريلغار كے مقابلے ميں رد عمل كا اظہار كيا_ اس رد عمل كو پانج پہلووں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے:

۱ _ قومى ونسلى تفريق: عبدالرحمان كواكبى ( ۱۹۰۲ _ ۱۸۴۸عيسوى ) نے مسلمانوں ميں مغرب مخالف احساسات كى قومى فطرى خصوصيات كى بناء پر تشريح كي_ وہ مغرب والوں كو مادّى زندگى كے قائل، نفسانى خواہشات كے گرويدہ، انتقام جو، مال و دولت پسند اور حريص سمجھتے تھے جبكہ شرق والوں كو اہل ادب و حيا، لطيف روح كے حامل اور محبت آميز رويے والے سمجھتے تھے_(۱)

۲ _ ثقافتى برتري: مغربى زندگى كا طرز عمل مشرقى شيوہ زندگى كى نسبت پست شمار كيا گيا_ ايك عربى مفكر كا نظريہ تھا كہ اہل شرق اہل يورپ كى تقليد چھوڑديں كيونكہ يہ تقليد نہ صرف يہ كہ اہل مشرق كو مالى لحاظ سے مغرب والوں كے تسلط ميں لے آئي ہے بلكہ باعث بنى ہے كہ مغرب والے اپنے سياسى مقاصد حاصل كرسكيں اور مشرق والوں كو ذليل كرسكيں _(۲)

۳ _ مغرب كا تجاوز كرنا: كواكبى كى نظر ميں مغرب والے فطرتاً جارح ہيں اور ديگر اقوام كے مقابلے ميں

____________________

۱) عبدالرحمان كواكبي، طبايع الاستبداد ، ترجمہ عبدالحسين قاجار، ص ۱۰۰_

۲) ہشام شرالى ، روشنفكران عرب و غرب ، ترجمہ عبدالرحمان عالم، ص ۱۱۱_

۳۶۰