اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 15%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 144796 / ڈاؤنلوڈ: 5488
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

تہذيبوں كے انحطاط اور زوال كے اسباب

بعض اہل نظر كا عقيدہ ہے كہ ہر تمدن اپنى پورى زندگى ميں كچھ مراحل طے كرتا ہے: ڈيورينٹ كى رائے كے مطابق ہر تمدن كے لوگ كچھ مدت كے بعد اپنے عقلى پيش رفت كى بناء پر توحيد اور مبدا ء معنوى كى پرستش كى بجائے علم و عقل كى ستايش ميں مشغول ہو جاتے ہيں ، اسكے بعد اقدار اور علم ميں جنگ شروع ہو جاتى ہے ، معاشرے كى قوت محركہ بتدريج ختم ہوجاتى ہے اور اسكے بعد اس تہذيب كا دور انحطاط و زوال شروع ہوجاتا ہے_

ابن خلدون كى نظر ميں ہر تمدن تين مراحل كو طے كرتا ہےں : جنگ اور مقابلہ كا ابتدائي مرحلہ ، خود غرضى اور استبداد كا مرحلہ اور آخر كار رياكارى اور فساد كا مرحلہ جوكہ تمدن كا اختتام شمار ہوتاہے ، دور حاضر كے الجزائرى دانشور مالك بن بنى بھى اسى اساس پر اسلامى تمدن كے تين مراحل روح ، عقل اور غريزہ كو سمجھتے ہيں انكا عقيدہ ہے كہ: اسلامى تمدن ميں آٹھويں صدى ہجرى كے بعد سے خواہشات نفسانى كا روح پر غلبے كا مرحلہ شروع ہوا اور اسلامى تمدن ترقى كے مرحلہ سے دور ہوگيا_(۱)

اسكے علاوہ اور بھى اسباب كو تہذيبوں كے زوال كے حوالے سے ذكر كيا گيا ہے مثلا معاشرہ ميں وحدت اور نظم كا فقدان ، بيرونى دشمنوں كا حملہ ، معاشرتى طبقات كى ساخت ميں انتشار تصنع اور بناوٹ كا پيدا ہونا اور تاجرانہ رويہ اور مزاج وغيرہ_

اخلاق ، ثقافت، تہذيب اور قانون

ہر معاشرے ميں اخلاق ، ثقافت ، تہذيب اور قانون ميں سے ہر ايك مفہوم كى پيش رفت و ترقى دوسرے مفہوم كى پيش رفت كے برابر ہے جبكہ ہر ايك كا انحطاط خواہ ناخواہ دوسرے كى تباہى و بربادى كى علامت ہے_

____________________

۱) دانشنامہ جہان اسلام ، ج ۴، ذيل بن بنى مالك ( محمد على مہتدي)_

۲۱

جب اخلاق ترقى كرتا ہے اور لوگ اخلاقى اصولوں كا خيال ركھيں تو اعتماد كى فضا تعلقات وروابط كى پيش رفت كے اسباب فراہم كرتى ہے ، اور اس فضا كاپھيلاؤ معاشرہ كى ثقافت كو نماياں كرتا ہے ، اسى طرح ہر معاشرہ اپنے اجتماعى نظام كے اندر پانے جائے والى مفاہمت كى تقويت اور اسے محفوظ كرنے كيلئے قوانين كا محتاج ہے، لوگوں كا ان چار اسباب كے بارے ميں رويہ معاشرے كى ترقى و پيش رفت يا زوال و انحطاط كا باعث بنتاہے، جس طرح لوگوں كا ان چار اسباب كو قبول كرنا اور توجہ دينا معاشرے كى خوشبختى اور سعادت كا باعث ہے اسى طرح ان سے دورى اور منہ پھيرنا فساد، تباہى ، فحشاء اور آخر ميں معاشرے كى بربادى كا باعث ہے_

۲) عصر دعوت سے فتوحات كے زمانہ تك اسلامى اور ثقافتى تاريخ كا خلاصہ

مورخين عرب كى تاريخ كو تين ادوار ميں تقسيم كرتے ہيں :

۱) سبا اور حمير كا دور جو بہت ہى قديم زمانے ميں شروع اور پھر ختم ہو جاتا ہے_

۲) دوسرا دور جاہليت كہ چھٹى صدى عيسوى سے شروع ہوتا ہے اور اسلام كے ظہور پر ختم ہو جاتا ہے_

۳) اسلامى دور يعنى صدر اسلام سے اب تك_

تاريخ اور آثار قديمہ پر مبنى شواہد كے مطابق جزيرہ عرب ميں بہت سے مكاتب فكراور ثقافتى وتاريخى نظريات موجود تھے، حضرت ابراہيم (ع) نے اسى تمدن ميں اپنى دعوت كا آغاز كيا تھا ، بين النہرين اور شمال ميں آل غسان اور آل منذر اور جنوب ميں نجران و يمن كے لوگ عيسائي تھے، بازار جيسے مثلا ''بازار عكاظ ''شعرا اور اديبوں كے جمع ہونے كى جگہ تھے كہ جو عربى ثقافت كے اہم ترين ركن يعنى شاعرى كا محل ظہور تھے ،جس قبيلہ ميں كوئي زبردست اور بڑا شاعر ظاہر ہوتا اسكے افراد دوسروں پر فخر برترى كا اظہار كيا كرتے تھے_(۱)

معاشرتى اور اجتماعى حوالے سے سياسى اور حكومتى عہدے لياقت اور طاقت كى بنياد پر نہيں بلكہ اپنى رسوم و

____________________

۱) سيد جعفر شہيدي، تاريخ تحليلى اسلام، تہران ۱۳۶۶، ص ۱۵ _ ۱۴_

۲۲

روايات اور وراثت كى بناء پر تقسيم ہوتے تھے، اسى ليے درخشان صلاحيتيں كو اپنے ظہور كاموقع نہيں ملتا تھا_ مكہ كے لوگ كعبہ كے وجود اور اسكى ہمسايگى كى بركت سے اور زمانہ جاہليت كے رسوم و رواج سے ما خوذ خاص روابط كى بناپر آرام و سكون كى زندگى گزاررہے تھے، مشترك دفاع ميں شركت كيا كرتے تھے_

اسى كے ساتھ ساتھ مكہ اور يثرب كے درميان واضح فرق اور امتياز نظر آتاہے ، مكہ كے لوگ تاجر اور دورانديش تھے جبكہ يثرب والے زراعت پيشہ اور سخت محنت كش شمار ہوتے تھے_

اس قسم كى فضاء ميں تقريبا ۶۱۰ عيسوى ميں پيغمبر اسلام(ص) نے مكہ ميں اپنى دعوت كا آغاز كيا، اس دعوت كے نتيجے ميں مسلمانوں كا ايك گروہ مكہ ميں وجودميں آيا كہ جو اہل مكہ كى بدسلوكى اور رقابت كا شكارہوگيا_

بعثت كے گيا رھويں سال مدينہ كے ساكن قبيلہ خزرج كا ايك گروہ كہ جو حج كيلئے مكہ آئے تھے انہوں نے عقبہ ميں پڑاؤ كے دوران پيغمبر (ص) سے ملاقات كى اس ملاقات ميں پيغمبر اكرم(ص) نے انہيں اپنى اور اپنے دين كى شناخت كروائي اور ان لوگوں نے قبول كيا، اسكے ايك سال بعد قبيلہ خزرج كے بارہ مردوں اور ايك عورت نے اسى جگہ پيغمبر اكرم(ص) كى بيعت كى كہ اسلامى تاريخ ميں اسے پہلى بيعت عقبہ كہ نام سے ياد كيا جاتا ہے ، پيغمبر اكرم(ص) نے اسى بيعت كى بناء پر مصعب بن عمير كو پہلے داعى اسلام كے طور پر مدينہ ميں بھيجا تا كہ وہ مدينہ والوں كو قرآن ، اسلامى تعليمات اور نماز كے آداب سكھائيں چونكہ معلوم ہوچكا تھا كہ مدينہ اسلام اور مسلمانوں كيلئے مناسب پناہ گاہ ثابت ہوگى ، تو پيغمبر اكرم(ص) نے بعثت كے چودھويں سال بارہ ربيع الاول كو اپنى تاريخى ہجرت كي_

اسكے بعد پيغمبراكرم(ص) كے اصحاب دو گروہ ميں تقسيم ہوگئے : مہاجرين كہ جو مكہ سے آئے تھے ، او رانصار يعنى مدينہ كے ساكن كہ جنہوں نے اسى شہر ميں پيغمبر اكرم(ص) كا استقبال كيا_(۱)

پيغمبر اكرم(ص) نے مدينہ ميں اسلامى معاشرے كى عمارت كو تين اہم بنيادوں پر قائم كيا يعنى مسجد بنائي گئي ،

____________________

۱) دائرة المعارف بزرگ اسلامى و مجمع اڈريس_

۲۳

مہاجرين اور انصار ميں عقد اخوت قائم ہوا اور مسلمانوں اور غير مسلم قبائل ميں با ہمى تعاون كا معاہدہ طے پايا، يعنى حقيقت ميں اسلامى سياسى معاشرہ بھى مدينہ كى طرف ہجرت كے بعد تشكيل پايا، مدينہ كى اسلامى حكومت ايك حكومت كيلئے ضرورى تمام لوازمات يعنى زمينى جگہ ، آبادى ، حاكميت اور دفترى اور انتظامى نظام كى حامل تھي_

اس اسلامى معاشرہ ميں ايك خصوصيت اوربھى تھى كہ جو اس زمانہ تك انسانى تاريخ ميں پہلے كہيں موجود نہ تھى وہ يہ كہ معاشرہ كى تشكيل كے اہم ركن يعنى قانون كى حاكميت تھى ، يعنى معاشرہ كے تمام افراد كيلئے بغير كسى امتياز كے ايك جيسا قانونى نظام قائم تھا_

ان اقدامات كے ذريعے پيغمبر اكرم (ص) نے اپنى منشاء كے مطابق مدينہ ميں بتدريج سياسى اور ادارہ جاتى نظام قائم كرديا، دينى عقايد كے گوہر سے استفادہ كرتے ہوئے اور انكے تحفظ اور انكى نشر و اشاعت _جو كہ آپكا معاشرہ ميں اصلى ہدف تھا_كى وجہ سے معاشرہ كى سياسى اور انتظامى حالت مستحكم ہوگئي، اسى طرح پيغمبر اكرم(ص) كى دس سالہ حكمرانى ميں تقريبا اسّى چھوٹى بڑى جنگيں بھى مدينہ ميں انجام پائيں ، كہ پيغمبر اكرم(ص) يا بذات خود ان ميں شريك ہوتے تھے اور لشكر كى كمانڈ كرتے تھے يا خود مدينہ ميں تشريف فرما رہتے اور كسى ايك صحابى كو لشكر كے سپہ سالار كے طور پر روانہ كرتے ،ان جنگوں نے اسلام كى تازہ تشكيل شدہ حكومت كى سياسى اور فوجى حيثيت كو مضبوط كرنے ميں بہت بنيادى كردار ادا كيا_

پيغمبر اكرم(ص) نے مختلف قبائل مثلا يہودى اور عيسائي قبائل كے ساتھ معاہدے كيے ،پيغمبر(ص) نے ان معاہدوں ميں ايك موزون اور كامياب حكمت كے ساتھ مدينہ كى نئي حكومت كے تحفظ اور ثبات كى ضمانت فراہم كى ، اسكے علاوہ ہمسايہ ممالك مثلا ايران ، روم ، مصر ، يمن اور حبشہ كے بادشاہوں اور حكام كى طرف خط بھيجے، مورخين كى نگاہوں ميں يہ خطوط پيغمبر اكرم (ص) خارجہ پاليسى كا كچھ حصہ شمار ہوتے ہيں _

ان اقدامات اور ديگر بے شمار شواہد كى بناء پريہ كہا جاسكتا ہے كہ ہجرت كے ابتدائي ايام ميں ہى اسلامى تمدن كى تشكيل كے مختلف پہلو ظاہر ہوچكے تھے اوريہ بات نازل شدہ آيات كے لہجے كے تغير سے بخوبى معلوم ہوتى ہے كہ دعوت اسلام كے ابتدائي ايام كے برعكس مدينہ ميں الہى آيات بيشتر احكام و حدود كے پہلوكى حامل ہيں اور ان ميں قوانين شريعت اور معاشرتى احكامات كى گفتگو ہوئي ہے _

۲۴

اس كے بعد پيغمبر اكرم(ص) نے ادارہ جاتى اور محكمانہ نظام كے ابتدائي مراحل كى تشكيل كيلئے كوشش كى ، اپنے ليے معاونين كا انتخاب كيا اور ہر ايك كو ايك ذمہ دارى سپردكى ، اگلے مرحلے ميں اسلامى حاكميت كے پھيلاؤ كے ليے كاركنوں كا تقرر كيا ان ميں سے بعض زكوة اور صدقات كى وصولى ميں مشغول ہوئے اور دوسرے گروہ كو معاشرتى امور كو منظم كرنے كى ذمہ دارى سوپنى ،اس دور ميں جو دس سال تك چلا جو آيات الہى نازل ہوئيں ان ميں اسلامى حاكميت كے اركان كو مستحكم كرنے كى تاكيد ہوئي ،انہى سالوں ميں كچھ اور اقدام بھى ہوئے جن ميں غور و فكر كرنے سے پيغمبر اكرم (ص) كى اصلى ذمہ دارى اور انكے اندرونى ميلانات كى حقيقى تصوير سامنے آتى ہے_

گيارہ ہجرى كو پيغمبر اكرم (ص) كى وفات عظمى كے بعد انكى جانشينى والے مسئلہ ميں اختلاف پيدا ہوا ، بالاخرہ سقيفہ بنى ساعدہ كے ماجرا كے نتيجہ ميں حضرت ابوبكر كى بيعت انجام پائي ، ابوبكر نے بہت زيادہ كوشش اور ان لوگوں سے دو سال تك جنگ و جدال كرنے كے بعد كہ جو خليفہ كى حاكميت اور ايك مركزى حكومت كو قبول نہيں كرتے تھے_ بالاخرہ سارے جزيرہ عرب كو اپنى حكومت كے تحت لے ليا، اسكے بعد مذہب اسلام كى نشر و اشاعت كے حوالے سے شام اور عراق كى طرف لشكر بھيجے ،ابوبكر نے تير ھويں ہجرى ميں انتقال كيا ليكن اپنى وفات سے قبل حضرت عمر بن خطاب كو خليفہ نامزد كر ديا تھا _

حضرت عمر كى خلافت كا آغاز مصر ، ايران اور شام ميں فتوحات كے زمانہ ميں ہوا جس زمانہ ميں عرب اسلام كے زير سايہ طاقتور ہو رہے تھے اسى زمانہ ميں روم اور ايران كى حكومتيں با ہمى طويل اور لا حاصل جنگوں كے بعد كمزور اور ناتواں ہو چكى تھيں ، ان ممالك كے لوگوں كى اپنى حكومتوں سے بيزارى لشكر اسلام كے استقبال كا باعث بنى _

آدھى صدى سے كمتر عرصہ ميں ہى ، اسلام ايران اور افريقہ كے غالب دين كے طور پر ابھرا مسلمانوں كى ان ممالك كے لوگوں كے عقائد اور آداب سے آشنائي نے مدينہ كى اجتماعى فضا كو بھى متغير كرديا تھا، دوسرى طرف سے مفتوحہ سرزمينوں كا نظم سنبھالنے كى وجہ سے مسلمانوں كو گوناگوں معلومات اور تجربات حاصل ہوئے ، يہى دور تھا كہ آہستہ آہستہ حكومت كے تمام سياسى ستونوں كو منظم كرنے كيلئے دفاتر اور محكمے وجود ميں آئے_

۲۵

دوسرا باب:

اسلامى تمدن كى تشكيل كا پس منظر

۲۶

۱ اسلام ميں علم و دانش كا مقام

جو كچھ آيات اورروايات ميں علم و دانش اور معرفت كى فضيلت كے حوالے سے ذكر ہوا ہے اگر اسے بغير كسى تفسير اور تشريح كے جمع كريں تو بڑى كتابوں كى شكل ميں سامنے آئيگا، اگر اس حد تك اسلام كے اولياء علم اور تعليم پر تاكيد نہ فرماتے ہوتے تو كبھى بھى اسلامى تمدن عظمت كے اس بلند مقام پر فائز نہ ہوتا_

خود كلمہ '' علم '' اپنے مشتقات كے علاوہ تقريبا اسّى بار قرآن مجيد ميں مختلف موارد ميں استعمال ہوا ہے ،كلمہ ''عقل'' اگر چہ قرآن مجيد ميں نہيں آيا ليكن '' اولى الالباب'' كى تركيب كہ جسكا معنى صاحبان عقل ہے قرآن ميں موجود ہے ، اسى طرح '' حكمت ، برہان ، فكر ، فقہ و غيرہ جيسے كلمات كئي بار قرآن مجيد ميں استعمال ہوئے ہيں ، اللہ تعالى نے مومنين كو اس حوالے سے كہ وہ اندھى تقليد كى بناء پر اس پر ايمان لائيں نہى فرمائي ہے ، حتى كہ ايك آيت ميں (روم ۶۵) علم اور ايمان كا اكھٹا ذكر كيا ہے _

مزيد يہ كہ صرف ان كلمات پر اكتفاء نہيں ہوا بلكہ تعليم و تربيت كے حوالے سے بہت سى آيات قرآن ميں موجود ہيں ، مثلا آل عمران كى آيت ۱۹۰، انعام آيت ۹۷، يونس كى آيت ۵ يہاں تك كہ وہ آيات كہ جو گذشتہ لوگوں كے قصے بيان كرتى ہيں اور ان واقعات كو بيان كرنے سے انكا ہدف عبرت دلانا ہے ان ميں بھى تاريخى موضوعات ، تاريخ نويسى پر حوصلہ افزائي ، آثار تاريخى كا مشاہدہ اور حقائق بينى جيسے احساسات كو واضح اور آشكار طور پر درك كيا جاسكتا ہے_(سورہ انعام ۱۱)

پيغمبر اكرم(ص) اور ائمہ اطہار عليہم السلام سے منقول احاديث اور اقوال ميں بھى عظمت علم اور فضيلت علماء كے حوالے سے بہت كچھ ذكر ہوا ہے، پيغمبر اسلام (ص) كى يہ تاكيد كہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر حصول علم واجب اور

۲۷

فرض ہے يا يہ كہ ايك گھنٹے كى فكر ايك سالہ عبادت سے بہتر ہے ، يہ سب اسلام ميں تعليم و تعلم كے حوالے سے تاكيد كى مثاليں ہيں _

آئمہ عليہم السلام كى حيات مباركہ كے ادوار ميں بالخصوص امام جعفر صادق (ع) كا سنہرى دور كہ جب علم و تعليم عروج پر تھى آب اپنے اصحاب كو علم كے حصول پر شوق دلاتے تھے ،يہ كہ قيامت كے دن دانشوروں كے قلم شہداء كے خون پر بھارى پڑ جائيں گے اس قسم كى رغبت اور شوق دلانے كى مثالوں ميں سے ہے، البتہ اس نكتہ پر توجہ ركھنى چاہيے كہ حصول علم كى اسلام ميں كچھ شرائط ہيں : اسلام علم اور اخلاق ميں كسى فاصلے كا قائل نہيں ہے بلكہ ان دونوں كے با ہم پيوستہ رہنے پر تاكيد كرتا ہے، اسلام ميں اہل علم و دانش ذمہ دار فرد ہے اور اخلاق سے بے بہرہ استاد سوائے گمراہى كے كوئي اور راہنمايى نہيں كرتا ، يہ موضوع بذات خود اسلام كے امتيازات ميں سے ہے كہ وہ تعليم و تربيت كے حوالے سے ايك عليحدہ اور خاص مكتب كا مقام ركھتا ہے_(۱)

اسلامى تہذيب و تمدن ميں تاريخ كتابت پر ايك نظر

تاريخ كے مختلف اوراق سے جو معلومات حاصل ہوئي ميں وہ يہ كہ زمانہ جاہليت ميں اہل عرب اگر چہ لكھنے كے فن سے مطلع تھے ليكن ان كى صحرائي زندگى ايسى نہ تھى كہ فن كتابت انكے لئے ضرورى ہو،اس دور ميں زبانى ياد كرنے اور حفظ كرنے كے كلچر كا غلبہ تھا، جزيرہ عرب كے بعضى مناطق مثلا حجاز سے ايك لكھا ہوا پتھر ملا ہے كہ جو اس منطقہ كے قديم زمانے سے تعلق ركھتا ہے ماہرين اس نتيجہ پرپہنچے ہيں كہ اس علاقے ميں پہلے خط نبطى كى ايك قسم رائج تھي_

قرآن مجيد ميں كتابت كے حوالے سے خاص الفاظ كا موجود ہونا بتاتاہے كہ ظہور اسلام كے زمانہ ميں اہل عرب كتابت كى مختلف اقسام كا كچھ علم ركھتے تھے، ان الفاظ ميں سے ايك لفظ '' كتاب'' ہے اگر چہ يہ

____________________

۱) محمد رضا حكيمى ، اور ديگران '' الحياة'' تہران ، ج ۱_

۲۸

واضح نہيں ہے كہ اس سے مقصود وہ چيز ہے كہ جسے ہم كتاب كہتے ہيں ، بہرحال كسى لكھى ہوئي اور مكتوب چيز كااشارہ دے رہاہے، اسى طرح لفظ صحيفہ جمع كى صورت ميں يعنى '' صحف'' قرآن ميں ذكر ہوا ہے ، يہاں يقينا مراد مكتوب اورلكھى ہوئي چيز ہے، با وجود اس كے كہ اہل عرب حفظ اور زبانى ياد كرنے پر بہت زيادہ رغبت ركھتے تھے قرآں مجيد كا كتابت پر تاكيد و اصرار بہت دلچسپ اور اہم ہے اور اس بات پر اشارہ ہے كہ مسلمان ان اولين ايام ميں ہى جانتے تھے كہ كتاب آسمانى كى آيات ميں كوئي لفظ تبديل نہيں ہونا چاہيے_(۱)

جلد اورر چمڑا ان چيزوں ميں سے ايك تھى كہ جس پر قرآن لكھا جاتا تھا اس زمانہ ميں اہم مسائل تحرير كرنے كے ليے جلد يا چمڑااستعمال كرنے كى وجہ اسكى پائيدارى تھى ليكن اسكا حصول امير لوگوں كيلئے بھى دشوار تھا، اسى لئے اہل عرب كچھ اور مناسب چيزوں كو كتابت كيلئے استعمال كرتے تھے ، مثلا كھجور كے درخت كى خشك كى ہوئي چھال يا اسكى كوئي خشك شاخ ،مسلمانوں كى اردگرد كى تہذيبوں سے آشنائي انكى كتابت كے وسائل سے آگاہى ميں بھى بہت اثرات كى حامل تھى ،مسلمان، مصر وشام كى سرزمينوں كو فتح كرنے كے بعد قرطاس يا پيپورس سے آشنا ہوئے ، اسكے بعد انہيں كتابت كيلئے ديگر چيزوں پر ترجيح ديتے تھے ليكن پيپورس (كاغذ كى طرح ايك چيز) بھى انكے لئے بہت مہنگا ثابت ہوا_

لہذا تحرير كے ليے مناسب انتخاب '' كاغذ'' تھا مسلمان شروع ميں ماوراالنہر كے علاقے فتح كرنے كے زمانے ميں كاغذ سے آشنا ہوئے تھے، سمرقند كہ جہاں بہت سے چينى كاغذ سازى كى صنعت ميں مشغول تھے وہاں سے يہ صنعت ديگر اسلامى سرزمينوں ميں منتقل ہوئي ، كاغذكے خام مال كو مختلف مقدار ميں استعمال كرنے كى وجہ سے پہلى صدى ہجرى ميں مختلف انواع اقسام كے كاغذ تيار ہوئے تھے، يہ كاغذ اپنى نوعيت ، استحكام ، ضخامت ، چمك اور رنگ ميں ايك دوسرے سے مختلف ہوتے تھے_

اس سے معلوم ہوتاہے كہ مسلمانوں نے چينى لوگوں سے كاغذ سازى كى روش كو سيكھنے پر اكتفاء نہيں كيا بلكہ اس صنعت كو ترقى دى اور كمال تك پہنچايا ، بتدريج تمام اسلامى شہروں اور سرزمينوں ميں مثلا عراق ، مصر ،

____________________

۱) يحيى وہب الجبورى ، الخط و الكتابة فى الحضارة العربيہ ، بيروت ، ص ۲۴۹ كے بعد تك_

۲۹

ايران اور اندلس ميں كاغذ سازى شروع ہوگئي ، دوسرى صدى ہجرى كے اختتام ميں ہارون الرشيد كے علم دوست وزير فضل بن يحيى برمكى كى كوششوں سے كاغذ سازى كى صنعت بغداد ميں شروع ہوئي اور اس صنعت نے بہت سرعت كے ساتھ كھال اور چمڑا كى جگہ لے لي_

يانچويں صدى ہجرى ميں يہ صنعت عراق سے شام كى طرف منتقل ہوئي اور وہاں اس نے حيران كن انقلاب بپا كرديا، اسطرح ناصر خسرو اپنے سفرنامہ ميں لبنان كے شہر طرابلس كے حوالے سے لكھتا ہے كہ اس شہر ميں سمرقندى اور اق كى طرح خوبصورت اوراق تيار ہوتے تھے اور ان سے كيفيت ميں بہتر ہوتے تھے، گويا اس طرح مسلمانوں نے ثقافتى روابط كے اہم ذرائع ميں سے ايك يعنى كاغذ كى ترقى اور پھيلاؤ ميں اہم كردار ادا كيا ، يہ صنعت مصر اور اندلس كے ذريعے يورپ منتقل ہوئي اور سب سے پہلا كاغذ سازى كا كارخانہ اٹلى ميں تقريبا تيرھويں صدى عيسوى ميں تعمير ہوا اور اس نے كام شروع كيا_(۱)

۲_ علوم كا منتقل ہونا اور اہل علم و دانش كى دنيائے اسلام ميں شموليت

عالم اسلام ميں علوم عقلى كى پيدائشے كا اصلى منبع يونان اور اسكى علمى محفل تھى ، اگر چہ اكثر علوم بالواسطہ يونانى زبان سے سريانى اور لاتينى زبان ميں ترجمہ كى شكل ميں مسلمانوں كے پاس پہنچے ليكن ان علوم كا ايك حصہ اسكندريہ (مصر ميں ) اور وہاں كے علمى مركز سے يعنى مدرسہ اسكندريہ كے ذريعے مسلمانوں كے پاس پہنچا(۲) وہ علوم جو مسلمانوں نے يونانيوں سے حاصل كيے يہ ہيں : رياضى ، نجوم، طب اور علوم طبيعى _

اسلامى دانشوروں كى تاليفات بتاتى ہيں كہ كس حد تك مسلمانوں نے بقراط ، جالينوس ، افلاطون ، فيثاغوريث اور ارسطو كى كتابوں سے فائدہ اٹھايا، ايك اہم نكتہ يہ ہے كہ پہلے پہل مسلمان ان علوم سے يوناني

____________________

۱) دايرة المعارف فارسي، غلام حسين مصاحب، ج۲ ص ۲۱۴۴_

۲) سيد حسن تقى زادہ ، تاريخ علوم در اسلام ، تہران ۱۳۷۹ شمسى ص ۳۱،۳۰_

۳۰

كتابوں كے ترجمہ كے كى بجائے ان اطباء كے ذريعے آگاہ ہوئے كہ جو مسلمانوں كى فتح كے زمانہ ميں ان يونانى سرزمينوں ميں رہتے تھے، دمشق كو مركز خلافت كے طور پر انتخاب كرنا باعث بنا كہ يونانى دانشوروں سے رابطہ كئي گناآسان ہوگيا ، كچھ علوم ہندوستان سے عالم اسلام ميں وارد ہوئے ، عباسى دور كے اوائل ميں يہ علمى رابط برقرار ہوا ، علوم طب ، نجوم وغيرہ ميں ہندى كتابوں سے ترجمہ كيا گيا، اسى طرح چند ہندى ماہرين كہ جن ميں ايك صف اول كا ستارہ شناس بھى تھا خليفہ عباسى منصور كے پاس آئے ، تو منصور نے اس ستارہ شناس سے چاہا كہ ان علوم كا كچھ حصہ اسكے دربار كے علماء كو سكھائے ، اسطرح ہندى علوم وسيع پيمانے پر علوم اسلامى كى محفلوں ميں وارد ہوئے_

دنيا كا ايك اور علمى مركز كہ جہاں سے مختلف علوم اسلامى تمدن ميں داخل ہوئے وہ ايران بالخصوص ايران كا شہر گُندى شاپور(شوستر شہر اور دزفول شہر كے درميان) تھا، گُندى شاپور ميں خسرو انوشيروان كى حكومت كے زمانے سے مدرسہ اور ايك ہسپتال تعمير ہوا تھا كہ جہاں مختلف ممالك سے طبيب اور ماہرين مشغول تھے_ گندى شاپور كى ترقى كى ايك وجہ نسطوريوں كا وہاں آنا تھا، جب نسطوريوں كو مدرسہ ادسا ء سے نكالا گيا تو وہ ايران كى طرف آئے اور گندى شاپور شہر ميں مقيم ہوئے ، وہ يونانى كتابوں كا سريانى ترجمہ بھى اپنے ساتھ لائے تھے ، اشراقى (ايك فلسفى مكتب ) حكماء كہ جو اہل يونان تھے '' ايتھنز '' سے انہيں در بدر كيا گيا تو وہ بھى يہاں آكرفلسفہ كى تعليم ميں مشغول ہوگئے اور انوشيروان كے حكم سے انہوں نے افلاطون اور ارسطو كى بعض كتابوں كا پھلوى زبان (قديم فارسي) ميں ترجمہ كيا_

مسلمانوں كے ہاتھوں ايران كى فتح كے بعد ان كتابوں كا فارسى سے عربى زبان ميں ترجمہ ايك قدرتى امر تھا، عباسى خلافت كے زمانے ميں كچھ كتابوں كا پھلوى سے عربى ميں ترجمہ كيا گيا بعد ميں يہ كتابيں اسلامى نجوم كے علم كى تكميل كے حوالے سے اہم ترين منبع شمار ہوتى ہيں _

علوم طبيعى كے ميدان ميں ايك اہم ترين علم '' علم الادوية''تھا جو يونان سے اسلامى دنيا ميں داخل ہوا، ايشياى كوچك كے ايك ماہر و دانشور ديسقوريدس كى كتاب '' حشائشے يا الھيولى فى الطب '' كى نام سے عربى

۳۱

ميں ترجمہ ہوئي ،يہ كتاب يونانيوں كے نزديك بہت اہميت كى حامل تھى اور عربوں كے ہاتھوں بہت دقيق انداز سے ترجمہ اور تحقيق ہوئي ، اس قسم كى قديم اور معيارى كتب كے ذريعے مسلمان علم الادويہ اور طبى مفردات ميں ممتاز مقام كے حامل ہوگئے_(۱)

۳_ترجمے كى تحريك:

فتوحات كے عروج كا زمانہ گزرنے كے بعد جب اسلامى حكومت مستحكم ہوگئي اور مسلمان اسلام كے بنيادى علوم كى تدوين سے كچھ حد تك فراغت پاگئے ، بعض عباسى خلفاء كے اہتمام اور حوصلہ افزا سياست كے زير سايہ اور بيت المال كى بے پناہ دولت سے استفادہ كرنے كے باعث اسلامى معاشرہ آہستہ آہستہ ان علوم اور صنعتوں كى طرف متوجہ ہوگيا كہ جو غير مسلم تہذيبوں ميں موجود تھے، اس توجہ كا اصلى سرچشمہ قرآن اور بہت سى احاديث تھيں جو مومنين كو علم و فن كے كسب كرنے پر ترغيب دلاتى تھيں _

دہ چيز جو سب سے زيادہ اس تحريك كے اسباب كو فراہم كرنے كا باعث تھى وہ مسلمانوں كى فتوحات بالخصوص مسلمانوں كا ساسانيوں كى سارى مملكت پر تسلط اور مشرقى روم كے كچھ مناطق پر قبضہ تھا ، ان ميں سے ہر سرزمين ايك قديم تہذيب كى حامل تھي، اس سے بڑھ كر يہ كہ ايك ہزار سال قبل يہاں اسكندر اعظم نے لشكر كشى كى تھى ، جس كى بناء پر ان ميں كچھ حد تك يونانيوں كا مزاج رسوخ كرگيا تھا_

مسلمان فاتحين نے اپنے زير تسلط سرزمينوں سے ايك متحدمملكت تشكيل دى _ دوسرى تہذيبوں كے ساتھ ساتھ يونانيوں كے ساتھ مبادلہ اور ثقافتى تفاہم كا ہر طرح سے ايك نيا تجربہ كيا ،تو بہت ہى كم مدت ميں عالم اسلام كے حكام، دانشوروں اور اہل دانش كا اشتياق اور كام اسقدر بڑھ گيا كہ بعد ميں اس دور كانام ''تحريك ترجمہ ''كا دور پڑگيا ، اگر چہ اس تحريك كا آغاز بنى اميہ كے دور سے ہواليكن اس تحريك كے اصلى اثرات بنى عباس كے دور ميں حاصل ہوئے_

____________________

۱) آلدوميہ لى ، علوم اسلامى و نقش آن در تحولات علمى جہان _ ترجمہ محمد رضا قدس رضوى ، ص ۹ _ ۷۷_

۳۲

بنى اميہ كے دور ميں اكثر ترجمے اداروں ، محكموں ، سياست اور تجارت سے مربوط تھے انہيں جديد حكام اور غير عرب زبان لوگوں كے درميان رابط كى ضرورت كى بناء پر ترجمہ كيا گيا تھا، يہانتك كہ اگر كوئي ايسا متن كہ جسے علمى كہا جاسكے ترجمہ ہو ا تو وہ بھى فوجى يا محكمانہ ضرورتوں كى بناء پر تھا، ترجمے كى با قاعدہ تحريك جس نے بہت سے تاريخي، اجتماعى اور علمى آثار چھوڑے ،اولين عباسى خلفا كے دور سے شروع ہوئي _

يہ علمى تحريك دو صديوں سے زيادہ جارى رہى ،بالخصوص دوسرے خليفہ منصور عباسى كى حكومت كے زمانہ ميں غير مسلم اقوام كے علوم كے ترجمہ كے حوالے سے اہم اقدامات دو روشوں يعنى تحت اللفظى اور با محاورہ صورت ميں انجام پائے، اس زمانہ ميں پہلے ترجمے فارسى سے عربى ميں ہوئے ، ان كتابوں كے بيشتر مترجمين نو مسلم زرتشتى تھے، چند ادبى كتابوں مثلا كليلہ اور دمنہ كا ترجمہ ايرانى مصنف عبداللہ بن مقفع (متوفاى ۱۴۱ قمري) كے ہاتھوں انجام پايا، بعد والے ادوار ميں اسلامى مترجمين ترجمہ كے فنون ميں بہت زيادہ مہارت پيدا كرگئے اس فن ميں اپنے تجربات كى بناء پر انہوں نے سريانى اور يونانى زبانوں سے عربى ميں ترجمہ كيا_

اس دور ميں نسطورى مذہب كے حاذق حكيم اور شيخ المترجمين كے نام سے مشہورحنين بن اسحاق جو يونانى ، سريانى ، عربى او پہلوى زبانوں پر تسلط ركھتے تھے پہلے مترجم تھے جنہوں نے ايك گروہ تشكيل ديا اور ترجمہ كے كام كو منظم كيا ،ان كے فن ترجمہ كے شاگردوں ميں سے انكے فرزند اسحاق اور بھانجے حبيش بن اعسم تھے، حنين بھى ديگر مترجمين كے ترجموں كو اصل كتابوں سے مطابقت ديتے ہوئے اصلاح كيا كرتے تھے_

عباسى خلافت كے دور ميں ترجمہ كى اس تحريك كو چند ادوار ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے كہ ان تمام ادوار ميں خليفہ كے ميلان ياديگر عوامل كى بناء پر تراجم كى تعداد اور موضوعات ميں فرق پڑا ،ان ادوار كو خاص طور پانچويں عباسى خليفہ ہارون الرشيد (حكومت ۱۹۳ _ ۱۷۰) كے دور سے يوں ترتيب ديا جا سكتا ہے:

(الف) ہارون الرشيد كا دور:

اس دور ميں توجہ كا مركزسائنس كى كتابوں كا ترجمہ تھا ، يحيى بن خالد برمكى جو كہ ہارون كے وزير تھے انہوں نے لائق مترجمين كو اكٹھا كرنے كے ليے بہت زيادہ كوشش كى ، ہارون كے

۳۳

زمانہ ميں جو شہر جو مسلمانوں كے قبضہ ميں آتے تھے انكے كتابخانے كامل طور پر بغداد ميں منتقل ہوتے تھے، يونانى علوم كے پہلے آثار اور تاليفات مثلا اقليدس اور مجسطى كى اصول ہندسہ پر لكھى ہوئي كتابيں ،بطلميوس كى تصانيف اور ہندوستانى زبان سے طب كے بارے ميں تصنيفات كا عربى ميں ترجمہ اس دور ميں انجام پايا_

ب) مامون كا دور ( حكومت ۲۱۸ _ ۱۹۸قمرى ) :

ہارون الرشيد كے بعدكچھ عرصے ميں مامون مقام خلافت پر پہنچ گيا ،جس زمانہ ميں حكومت اسكے ہاتھوں آئي اس زمانہ ميں آيات قرآن سے مختلف فہم و تعبير كى بناء پر علم كلام كى مباحث عروج پر تھيں اوراس دور ميں بالخصوص بہت سى فلسفى تصنيفات عربى ميں ترجمہ ہوئيں _

ج) مامون كے بعد كا دور:

مامون كے بعد متوكل عباسى (حكومت ۲۴۷ _ ۲۳۲قمري) كے دور ميں ترجمہ كا كام اسى طرح چلتا رہا، مثلا حنين بن اسحاق اسى طرح متوكل كے دور ميں بھى ترجمہ كے كام ميں مشغول رہے ، ليكن حكومت اسلامى كے مركز كا معتصم (حكومت ۲۳۷ _ ۲۱۸قمري) كے دور ميں بغداد سے سامرا منتقل ہونا مختلف تصانيف كے ترجمہ كى كيفيت ميں تبديلياں لايا، اس تبديلى كى اہم ترين وجہ '' بيت الحكمة'' جو كہ ايك اہم ترين علمى ادارہ تھا اسكى عظمت و اہميت كا كم ہونا تھا_

د) تحريك ترجمہ كا اختتام:

بغداد ميں ترجمہ كى تحريك دو سو سال تك بہت زيادہ كام كرنے كے بعد بتدريج زوال پذير ہوگئي اور آخر كار نئے عيسوى ہزارہ كے آغاز ميں اپنے اختتام تك پہنچ گئي، البتہ يہاں تحريك ترجمہ كے ختم ہونے كا يہ مطلب نہيں ہے كہ لوگوں كى توجہ ترجمہ شدہ علوم كى طرف كم ہوگئي يا يونانى زبان سے ترجمہ كرنے والے ماہرين كم ہوگئے تھے بلكہ اس تحريك كے اختتام كى اصلى وجہ ان زبانوں ميں نئے موضوعات كا موجود نہ ہونا تھا ،دوسرے الفاظ ميں يہ تحريك اپنى اجتماعى مركزيت كھو بيٹھى تھى ، جديد مضامين كا پيش نہ ہونا سے مراد يہ نہيں ہے كہ ديگر غير دينى يونانى كتب ترجمہ كيلئے موجود نہ تھى بلكہ اس سے مراديہ ہے كہ ايسى يونانى كتب جو اس تحريك كے بانى حضرا ت، علماء اور دانشور طبقہ كى توجہ اور ضرورت سے متعلق ہوں موجود نہ تھيں ،

۳۴

كيونكہ بيشتر علوم و فنون ميں بہت عرصہ پہلے سے اصلى متون اور تصنيفات تشكيل پا چكى تھيں كہ جو ان ترجمہ شدہ كتب كى سطح سے كہيں بلند علمى سطح كى حامل تھيں ،اس تحريك كے بانى اور حامى گذشتہ دور كى نسبت اب ترجمہ كے كام كى طرف توجہ يا اسكى پشت پناہى كرنے كى بجائے خود عربى زبان ميں اصلى مضامين وموضوعات كو پيش كر رہے تھے_

۴_ اسلامى تمدن ميں علمى مراكز

اسلام كے نئے تشكيل شدہ نظام كے استحكام اور اسلامى معاشرے كے اندرونى رشد و كمال سے بتدريج تعليمى مراكز وجود ميں آگئے جنہوں نے علوم و فنون كى پيدائشے اور وسعت ميں اہم كردار ادا كيا، پہلا تعليمى ادارہ كہ جو اس عنوان سے وجود ميں آيا اسكا نام بيت الحكمة تھا يہ بغداد ميں تعمير ہوا اور حكومتى خزانہ يا بيت المال كى رقم سے چلتا تھا_

يہ دانشوروں ،محققين اورخصوصاًايسے لائق مترجمين كے اجتماع كا مركز تھا كہ جو يونان كى علمى و فلسفى كتب كو عربى ميں ترجمہ كيا كرتے تھے، بيت الحكمة كہ جو مسلمانوں كا بغداد ميں پہلا كتابخانہ تھا اسكى بنياد ہارون الرشيد نے ڈالى ، اس سے پہلے منصور عباسى كہ جسكے زمانہ ميں ترجمہ كے كام كا آغاز ہوا تھا اس نے حكم ديا تھا كہ ديگر زبانوں سے كتب كو عربى ميں ترجمہ كيا جائے بعد ميں يہى كتب بيت الحكمة كى اساس قرار پائيں _

مامون كے زمانہ ميں بيت الحكمة كو وسيع كيا گيا، اس نے كتابوں سے لدے ہوئے سو اونٹ بغداد منگوائے اور بظاہر يہ كتب اس قرار داد كے تحت مسلمانوں كودى گئيں جو مامون اور روم كے بادشاہ مشل دوم كے در ميان طے پائي، نيز مامون نے ۳لاكھ دينار ترجمہ كے كام پر خرچ كيے، اس دور ميں بيت الحكمة كے علاوہ ديگر علمى ادارے بھى موجود تھے ان اداروں ميں سے ايك ''دار العلوم'' تھا يہ ايك عمومى لا ئبريرى كى شكل ميں تھا، اسى طرح مصر ميں ايك تعليمى مركز دار العلم فاطميون تھا، يہ ادارہ الحاكم با مراللہ جو كہ مصر ميں فاطمى خليفہ تھے انكے حكم سے ۳۹۵ ہجرى قمرى قاہرہ ميں تعمير ہوا، اس ادارہ ميں تقريبا دس لاكھ كتب موجود تھيں ،موصل كا

۳۵

دار العلم جعفر بن محمد ہمدان موصلى نے تعمير كيا يہ وہ پہلا علمى مركز تھا كہجسميں تمام علوم سے كتابيں جمع كى گئي تھيں موجودہ لبنان كے ايك شہر طرابلس ميں پانچويں صدى ہجرى كے آخر ميں ايك دارالعلم سوا لاكھ جلد كتابوں كے ساتھ موجود تھا_(۱)

اسلامى دور كے ديگربہت اہم مشہورعلمى مراكز نظاميہ مدارس تھے، پانچويں صدى كے آخرى پچاس سالوں ميں خواجہ نظام الملك نے بغداد ، نيشابور ، اور ديگر شہروں ميں مدارس كى تعمير كر كے نظاميہ نام كے مدارس كے سلسلے كى بنياد ركھى ، بغداد كا نظاميہ جو كہ ۴۵۹ قمرى ميں تاسيس ہوا اسميں ابواسحاق شيرازى تدريس كيا كرتے تھے، انكے بعد اس مدرسہ ميں تدريس كى سب سے بڑى كرسى امام محمد غزالى كو نصيب ہوئي ، اسكے بعد عالم اسلام ميں مدارس كا جال بچھ گيا ،سلجوقيوں كى مملكت ميں جو مدارس اور علمى مراكز خواجہ كے حكم سے تعمير ہوئے تو وہ خواجہ نظام الملك كى طرف منسوب ہونے كى وجہ سے نظاميہ كے عنوان سے مشہور ہوئے _

بغداد كے نظاميہ كے علاوہ اور مدارس نظاميہ بھى قابل ذكر ہيں مثلا نيشابور كا نظاميہ خواجہ نظام الملك اور ديگر سلجوقى بادشاہوں كى نيشابور شہر كى طرف خصوصى توجہ كے باعث تاسيس ہوا ،مشہور افراد مثلا امام موفق نيشابورى ، حكيم عمر خيام، حسن صباح ، امام محمد غزالى اور انكے بھائي امام احمد اور امام محمد نيشابورى نے اس مدرسے ميں تربيت پائي ،نيشابور كا يہ نظاميہ مدرسين اورمشہور فقہاء كى تعداد جو كہ وہاں تعليم ديتے تھے ،كے باعث بغداد كے نظاميہ كے بعد دوسرا مقام ركھتا تھا، اسى طرح اصفہان اور بلخ كے مدارس نظاميہ بھى نامور اساتذہ كے حامل تھے_

مجموعى طور پر كہا جاسكتا ہے كہ عالم اسلام ميں علمى و تعليمى مراكزمتعدد اور متنوع تھے، ان مراكز ميں سے وسيع اور غالب ترين علمى مراكز مساجد تھيں كہ جو سارے عالم اسلام ميں پھيلى ہوئي تھيں ،مساجد مسلمانوں كے دينى اجتماع كے سب سے پہلے مراكز ميں شمار ہوتى تھيں _

____________________

۱)على رفيعى علامہ دشتى ، درآمدى بر دايرة المعارف ،كتابخانہ ہاى جہان ، قم ، ص ۴۳ _ ۴۲_

۳۶

حتى كہ مدارس كى عمارتيں بھى مساجد كے نقشہ كے مطابق ہوتى تھيں ايسى معروف مساجد جو اپنى تاسيس كے آغاز ميں يا كچھ عرصہ بعد ان ميں لائبريرياں بھى تشكيل پائيں ، عالم اسلام كے اہم شہروں ميں بہت زيادہ تھيں مثلا مسجد جامع بصرہ ، مسجد جامع فسطاط ، مسجدجامع كبير قيروان ، مسجد جامع اموى دمشق، مسجد جامع زيتونہ جو كہ تيونس ميں ہے، مسجد جامع قرويين فاس اور مسجد جامع الخصيب اصفہان(۱) _

عالم اسلام كے ہسپتال كہ جنہيں '' مارستان'' بھى كہا جاتا تھامريضوں كے علاج كے ساتھ ساتھ اطباء كى تحقيق اور مطالعہ كے مراكز بھى شمار ہوتے تھے، اور ان ميں صرف اسى علم پر لائبريرياں بھى تھيں ،مثلا مارستان فسطاط ، مارستان الكبير منصورى قاہرہ ، مارستان نورى بغداد ، رى كا ہسپتال

اسى طرح علمى مراكز ميں سے رصد خانے ( علم ہيئت كے مراكز) بھى تھے ،عالم اسلام ميں بہت بڑے متعدد رصد خانے تعمير ہوئے جن كا شمار دنيا كے سب سے بڑے اور اہم ترين رصد خانوں ميں ہوتا تھا،كہ جن ميں علم رياضى اور نجوم كى جديد ترين تحقيقات ہوتى تھيں ،رصد خانوں ميں اسلامى دانشوروں كے بہت سے انكشافات اور تحقيقات صديوں بعد بھى يورپ ميں تجزيہ و تحليل كا مركز قرار پائے ،ان رصد خانوں ميں اہميت كے لحاظ سے مثلا مراغہ اور سمرقندكے رصد خانوں كا نام ليا جاسكتا ہے_

ان تمام اسلامى تعليمى اداروں ميں دو علمى مركز بہت زيادہ اہميت كے حامل ميں ان دو ميں ايك ''ربع رشيدي'' ہے كہ بہت سے علماء كى آمد و رفت كا مقام تھا كہ جو وہاں علمى كاموں ميں مصروف تھے ،دوسرا ''شنب غازاني''كہ جو ايل خانوں كے دور ميں تعمير ہوا كہ جس ميں مختلف ا فراد كے درميان متعدد علمى معلومات كا تبادلہ ہوا كرتا تھا_

____________________

۱) منور جمال رشيد ، قديم اسلامى مدارس، لاہور ، ص ۱۳۸ _ ۱۱۴_

۳۷

تيسرا باب:

اسلامى تمدن ميں علوم كى پيش رفت

۳۸

علوم كى درجہ بندي:

كلى طور پر ديكھا جائے تو اسلامى دانشوروں كى آغاز ميں عالم طبيعت بالخصوص انسان كے حوالے سے علم طب ميں انہى حدود كے اندر نگاہ تھى كہ جو يونانى علماء نے متعين كى تھيں اسى طرح علم فلكيات كے حوالے سے وہى بطلميوس كا زمين كو مركز قرار دينے والا نظريہ ركھتے تھے، ليكن اسلامى دانشوروں كى تحقيق و مطالعہ نے انہيں ان نظريات سے مختلف حقائق سے آشنا كيا، لہذا طب، علم فلكيات ، رياضى ، فزكس كے حوالے سے عالم اسلام ميں ايسے نكات اور قواعد سامنے آئے كہ جنكے بارے ميں كہا جاسكتا ہے كہ وہ كسى بھى طرح سے يونان سے نہيں ليے گئے بلكہ وہ اساسا اسلامى مفكرين كى كاوشوں كا نتيجہ ہيں ، اس حوالے سے مزيد تجزيہ و تحليل كيلئے ضرورى ہے كہ سب سے پہلے ہم اسلامى تمدن ميں علوم كى درجہ بندى پر نگاہ ڈاليں ،يو ں ان تمام علوم كى اقسام ميں اسلامى دانشوروں اور انكى تحقيقات سے آشنا ہونے كے ساتھ ساتھ ان حقيقى نكات اور مسائل كا تجزيہ كريں كہ جو يونانى علوم كى حدود اور معيار سے ہٹ كر سامنے آئے _

اسلام ميں علوم كى درجہ بندى كے حوالے سے مختلف روشيں موجود ہيں اوريہ روشيں عام طور پر اپنے بانيوں كى اپنے ارد گرد كے جہان پر انكى خاص نگاہ سے وجود ميں آتى رہيں ، پہلى درجہ بندى ميں علوم كود و اقسام نظرى اور عملى ميں تقسيم كيا گيا ، البتہ يہاں ابھى ان علوم عملى كى كيفيت اور انجام كے طريقہ كار كو مد نظر نہيں ركھا گيا، علوم نظرى كہ جنہيں حكمت نظرى سے بھى تعبير كيا گياہے ان ميں اصول شناخت و معرفت زير بحث ہيں اور بحث كا موضوع وجود اور اسكا مادے سے تعلق كى حالت ہے ،يہ علوم پھر تين اقسام ميں تقسيم ہوئے ہيں علم الہى (علم اعلي) وہ امور جو مادہ سے جدا ہيں ،علم حساب و رياضى (علم اوسط) ان علوم كى بحث مكمل طور پر ذہنى اور مادہ

۳۹

سے ہٹ كرہے اور علم طبيعى (علم ادني) جو مادہ كے بارے ميں بحث كرتا ہے خواہ وہ ذہنى صورت ميں ہو ں يا ذہن سے باہر كى دنيا ميں _

اسى طرح علوم عملى بھى تين اقسام ميں تقسيم ہوتے ہيں :

''علم اخلاق ''كہ جو انسان كى انفرادى و ذاتى زندگى سے مربوط ہے ،علم'' تدبير منزل'' كہ جوگھرانے سے متعلق ہے اور علم سياست كہ جو معاشرہ كے مسائل سے متعلق ہے ،يہ درجہ بندى يونانى فلسفہ بالخصوص ارسطو كے فلسفہ كے زير اثر تشكيل پائي_

دوسرى درجہ بندى علوم كے اپنے حقيقى ہدف كے ساتھ بلاواسطہ تعلق كى بنا پر ہے يعنى ان مختلف علوم سے ايك معين ہدف تك پہنچے كيلئے فائدہ اٹھا يا جا تا ہے ، مثلا حكمت نظرى يا شرعى علوم ميں شناخت و معرفت كومركزيت حاصل ہے جبكہ ديگر علوم مثلا صرف ونحو(گرائمر كے قواعد) ان كو سمجھنے ميں مدد ديتے ہيں _

تيسرى درجہ بندى ميں علوم دو قسموں اسلامى اور غير اسلامى ميں تقسيم ہوتے ہيں ، علوم اسلامى وہ علوم ہيں كہ جنكا سرچشمہ مكمل طور پر مسلمانوں كى فكر و نظر ہے ، جبكہ علوم غير اسلامى وہ علوم ميں كہ جنكے اصول ديگر تہذيبوں ں سے اسلام ميں پہنچے اور مسلمانوں نے اپنى تحقيقات ميں انہيں وسعت دى اور مختلف شاخوں ميں تقسيم كيا_

چوتھى درجہ بندى ميں علوم دو قسموں شرعى اور غير شرعى ميں تقسيم ہوتے ہيں علوم شرعى سے مراد وہ چيزيں ہيں كہ جو پيغمبر اكرم(ص) اور ائمہ اطہار سے ہم تك پہنچيں كہ جن ميں اصول و فروع دين مقدمات اورمتممات دين شامل ہيں جبكہ علوم غير شرعى سے مراد فقط علوم عقلى ہيں مثلا رياضيات و غيرہ _

پانچويں درجہ بندى ميں علوم دو قسموں عقلى اور نقلى (منقول )ميں تقسيم ہوتے ہيں يہاں علوم عقلى سے مراد حكمت ، كلام اور فلسفہ و غيرہ ہے جبكہ علوم نقلى سے مراد شرعى اور وہ معلومات كہ جو مختلف علوم مثلا علم فلكيات اور طب و غيرہ سے حكايت ہوئي ہيں _

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

صلح حديبيہ كے سياسي، مذہبى اور معاشرتى نتائج

بعض مسلمانوں كى رائے كے برعكس(۳۴) صلح حديبيہ اسلام كى عظيم الشان فتح وكامرانى تھى چنانچہ قرآن نے اسے ''فتح مبين'' كے عنوان(۳۵) سے ياد كرتے ہوئے فرمايا ہے :

( إنَّا فَتَحنَا لَكَ فَتحًا مُبينًا )

''اے نبى (ص) ہم نے تم كو كھلى فتح عطا كردي''_

اور رسول خدا (ص) نے اسے ''اعظم الفتوح'' يعنى عظیم ترين فتح سے تعبير فرمايا ہے(۳۶)

اس دوركے اسلامى معاشرے كيلئے اس فتح ونصرت كے بہت سے عمدہ اورسود مند نتائج برآمد ہوئے جن ميں سے ہم بعض كا ذكر ذيل ميں كريں گے_

۱_رسول خد ا(ص) كى پيش قدمى كے باعث ايك طرف تو صلح وامن كے امكانات روشن ہوگئے اور دوسرى طرف مكہ كے فريب خوردہ لوگوں پر يہ حقيقت عياں ہوگئي كہ رسول خدا (ص) كے دل ميں حرمت كے مہينوں ' شہر مكہ اور خانہ خدا كے لئے بہت زيادہ عقيدت و احترام پايا جاتا ہے_

۲_ صلح حديبيہ كى وجہ سے اسلام كوباقاعدہ طور پر تسليم كرليا گيا اور قريش كے دلوں پر اس كى طاقت و عظمت بيٹھ گئي، اس صلح كے باعث ہى جزيرہ نما ئے عرب ميں اسلام كے وقار كو بلندى حاصل ہوئي اور مسلمانوں كے اثر و رسوخ كے امكانات وسيع ہوگئے _

۳_مسلمانوں پر اس وقت تك جو پابندياں عائد تھيں وہ ختم ہوگئيں اور وہ ہر جگہ رفت و آمد كرسكتے تھے چنانچہ اس باہمى ربط و ضبط كا ہى نتيجہ تھا كہ لوگوں نے اسلام كے بارے ميں پہلے سے كہيں زيادہ واقفيت حاصل كى _

۲۲۱

۴_جزيرہ نمائے عرب ميں دين اسلام كى اشاعت كيلئے مناسب ميدان فراہم ہوگيا اب تك مختلف قبائل كے دلوں ميں اسلام كے بارے ميں غلط فہمى اور بدگمانى تھى ان افراد كو جب رسول خدا (ص) نے صلح پسندى كى دعوت عام دى تو وہ لوگ اسلام كے بارے ميں از سر نو غور وفكر كرنے مجبور ہوگئے اور اس كى وجہ سے وہ رسول خدا (ص) نيز مسلمانوں كے زيادہ نزديك آگئے_ صلح حديبيہ اور فتح مكہ كے درميان تقريباً دو سال كا ہى فاصلہ ہے اور يہ فتح اس حقيقت پردلالت كرتى ہے كہ اس كے باعث مسلمانوں كے اثر و رسوخ ميں روز بروز اضافہ ہوا_

۵_ اس فتح كے باعث ہى مسلمانوں پر ''فتح خيبر'' كى راہيں كھليں''خيبر'' درحقيقت يہود يوں كى وہ سرطانى غدود تھى جو اسلامى حكومت كيلئے بہت بڑا خطرہ بنى ہوئي تھى اسى طرح مركز شرك ، مكہ كى فتح كا باعث بنى اور سب سے اہم بات يہ تھى كہ عرب معاشرے ميں جو انقلاب رونما ہوا تھا اب وہ حجاز كى باہر پہنچنے لگا چنانچہ يہ صلح حديبيہ كا ہى فيض تھا كہ رسول خدا (ص) كو يہ موقع مل گيا كہ آنحضرت (ص) ايران ، روم اور حبشہ جيسے ممالك كے حكمرانوں كو متعدد خط روانہ كريں اور انہيں دعوت اسلام ديں_

۲۲۲

سوالات

۱_ سپاہ احزاب كى شكست كے كيا اسباب تھے ؟ مختصر طور پر بيان كيجئے_

۲_ رسول خدا (ص) نے كونسى جنگ كے بعد :''اَلْيَوْمَ نَغْزُوْهُمْ وَ لَا يَغْزُونَا'' كا جملہ ارشاد فرمايا؟_ مختصر الفاظ ميں اس كا جواب ديجئے_

۳_ رسول خدا (ص) نے ''بنى قريظہ'' كے عہد شكن لوگوں كے ساتھ كيا سلوك كيا ؟

۴_ '' بنى قريظہ'' پر جو مسلمانوں كو فتح ونصرت حاصل ہوئي اس كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟

۵_ غزوہ ''بنى مصطلق'' كا واقعہ كب اور كس وجہ سے پيش آيا اور اس كے كيا نتائج برآمد ہوئے؟

۶_ قبيلہ ''بنى مصطلق'' كے لوگ كس وجہ سے دين اسلام كى جانب مائل ہوئے ؟

۷_ رسول خدا (ص) كب اور كتنے مسلمانوں كے ہمراہ عمرہ كرنے كى خاطر مكہ كى جانب روانہ ہوئے ؟

۸_ وہ كون لوگ تھے جنہوں نے غزوہ حديبيہ ميں رسول خدا (ص) كے ساتھ شركت كرنے سے روگردانى كى ؟ اس سفر كے بارے ميں ان كى كيا رائے تھي؟

۹_ ''بيعت رضوان'' كس طرح اور كس مقصد كے تحت كى گئي تھى ؟

۱۰_ صلح حديبيہ كے كيا سودمند اور مفيد نتائج برآمد ہوئے؟

۲۲۳

حوالہ جات

۱_سورہ احزاب آيت ۹_

۲_اس كے سلسلے ميں رسول خدا (ص) نے فرمايا تھا :لَمْ يَبْقَ بَيْتٌ منْ بُيُوْت الْمُشْركيْنَ الَّا وَقَدْ دَخَلَهُ وَهْنٌ بقَتْل عَمْرو: _ وَ لَمْ يَبْقَ بَيْتٌ منَ الْمُسْلميْنَ الَّا وَقَدْ دَخَلَهُ عزُّ بقَتْل عَمْرو :_بحارالانوار ج ۲۰ _ ص ۲۰۵(مشركين كے گھروں ميں كوئي گھرايسا نہ بچا جس نے عمرو ابن عبدود كے قتل پر سوگ اور ذلت محسوس نہ كى ہو اور مسلمانوں كے گھروں ميں كوئي گھر ايسا نہ تھا جس نے عمركے قتل پر اظہار خوشى اور اس ميں اپنى عزت محسوس نہ كى ہو''_

۳_اس واقعہ كى تفصيل كيلئے ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۲۴_ ۳۲۶_

۴_الارشاد ص ۵۶ و بحارالانوار ج ۲۰ ص ۲۰۹_

۵_المغازى ج ۲ ص ۴۹۶_

۶_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۳۳_

۷_المغازى ج ۲ ص ۴۹۶_

۸_السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۳۳_

۹_''سعد '' كے حاكم مقرر كئے جانے كى ممكن ہے يہ وجہ ہو كہ چونكہ قبيلہ اوس اور يہود بنى قريظہ ايك دوسرے كے حليف تھے اور جب مسلمانوں كے ہاتھوں يہودى گرفتار ہو كر آرہے تھے تو اوس قبيلہ كى ايك جماعت رسول خدا (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئي تھى اور آنحضرت (ص) سے اصرار كے ساتھ درخواست كى تھى كہ ان كى خاطر ''بنى قريظہ'' كو بالكل اسى طرح آزاد كرديا جائے جيسے كہ ''بنى قينقاع'' كو عبداللہ ابن ابى خزرجى كى درخواست پر رہا كيا گيا تھا _ رسول خدا (ص) نے اس خےال كے پيش نظر كہ وہ يہ محسوس نہ كريں كہ ان كے ساتھ امتيازى سلوك روا ركھاجارہا ہے ان كے سردار كو حاكم مقرر فرمايا _

۱۰_''ابوعزہ'' وہ مشرك تھا جو اشعار ميں رسول خدا (ص) اور دين اسلام كى ہجو كيا كرتا تھا جنگ بدر ميں وہ اسير ہوا _ اور اس قدر گريہ وزارى كى كہ رسول خدا (ص) نے اسے فديہ لئے بغير ہى اس شرط پر آزاد كرديا كہ وہ اسلام كے خلاف آئندہ كوئي اقدام نہ كرے گا ليكن اس نے اپنے عہد كا پاس نہ كيا اور جنگ احد ميں بھى شريك ہوا

۲۲۴

اور اشعار ميں رسول خدا(ص) (ص) كى ہجو بھى كى چنانچہ غزوہ ''حمراء الاسد '' ميں جب دوبارہ گرفتار ہو كر آيا اور رسول خدا (ص) سے معافى كى درخواست كى تو آنحضرت (ص) نے فرمايا كہ : ''لَايُلْدَغُ الْمُوْمنُ منْ حُجْر: وَاحد: مَرَّتَيْن '' (مومن ايك سوراخ سے دوبار نہيں ڈساجاتا) اور اس كے قتل كئے جانے كا حكم صادر فرمايا_

۱۱_السيرة النبويہ ج ۳ ص ۲۵۲ السيرة الحلبيہ ج ۲ ص ۳۴۰_

۱۲_اعلام الورى ص ۷۹_

۱۳_تاريخ اسلام تاليف ڈاكٹر سيد جعفر شہيدى ص ۷۳ _ ۷۵_

۱۴_قرآن مجيد نے جنگ احزاب ميں ''بنى قريظہ '' كے كردار كو اس طرح بيان فرمايا ہے :( وَأَنزَلَ الَّذينَ ظَاهَرُوهُم من أَهل الكتَاب من صَيَاصيهم وَقَذَفَ فى قُلُوبهم الرُّعبَ فَريقًا تَقتُلُونَ وَتَأسرُونَ فَريقًا _وَأَورَثَكُم أَرضَهُم وَديَارَهُم وَأَموَالَهُم وَأَرضًا لَم تَطَئُوهَا وَكَانَ الله ُ عَلى كُلّ شَيئ: قَديرًا ) _ ''(احزاب ۲۶_ ۲۷) _''پھر اہل كتاب ميں سے جن لوگوں نے ان حملہ آوروں كا ساتھ ديا تھا اللہ ان كے قلعوں سے انہيں اتار لايا اور ان كے دلوں ميں ايسارعب ڈال ديا كہ آج ان ميں سے ايك گروہ كو تم قتل كر رہے ہو اور دوسرے گروہ كو قيد كررہے ہو اور ان كے اموال كا وارث بنا ديا اور وہ علاقہ تمہيں ديا جس پر تم نے كبھى قدم بھى نہيں ركھا تھا اوراللہ ہر چيز پر قادر ہے''_

۱۵_الارشاد ص ۵۸_

۱۶_مناقب آل ابى طالب ج ۱ ص ۱۹ _۲۰_

۱۷_تفسير القمى ج ۲ ص ۱۸۹_ ۱۹۲_

۱۸_اعلام الورى ص ۱۰۲ ومجمع البيان ج ۷ ص ۳۵۲ _ ۳۵۳_

۱۹_بحارالانوار ج ۲۰ ص ۲۱۰_ ۲۱۲_

۲۰_الميزان ج ۱۶ ص ۳۰۲_

۲۱_التنبيہ و الاشراف مسعودى ص ۲۱۸_

۲۲_اس كى وجہ تسميہ شايد يہ تھى كہ اس سال صلح حديبيہ كے فيض سے مسلمين اور غير مسلمين كے درميان ديگر برسوں كى نسبت تعلقات زيادہ خوشگوار رہے اور مختلف افراد ايك دوسرے كے ساتھ بالخصوص اسلام اور رسول

۲۲۵

خدا (ص) سے زيادہ مانوس ہوئے_مترجم_

۲۳_ان غزوات اور سرايا سے متعلق مزيد اطلاع كيلئے ملاحظہ ہو : تاريخ پيامبر(ص) تاليف آيتى مرحوم ص ۳۹۰ _۴۲۵_

۲۴_واقدى اور ابن سعد نے لكھا ہے كہ يہ غزوہ ماہ شعبان سنہ ۵ ہجرى ميں پيش آيا ملاحظہ ہو المغازى ج ۱ ص ۴۰۴ واطبقات الكبرى ج ۲ ص ۶۳_

۲۵_فريد'' نامى مقام كے نواح ميں ساحل كى جانب ايك علاقہ ہے معجم البلدان ج ۵ ص ۱۱۸_

۲۶_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۳ ص ۳۰۷_ ۳۰۸_

۲۷_المغازى ج ۲ ص ۵۷۲ _ ۵۷۴ ، الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۹۵_

۲۸_المغازى ج ۲ ص ۵۷۴_ ۵۷۵_

۲۹_سورہ فتح آيت ۱۲_

۳۰_يہ جگہ مكہ سے تقريباً ۲۰ كيلومٹر دور واقع ہے اور چونكہ يہاں اس نام كا پانى كا كنواں تھايا اس نام كے درخت كثرت سے تھے اس لئے يہ جگہ اس نام سے مشہور ہوئي (ملاحظہ ہو : معجم البلدان ج ۲ ص ۲۲۹) آج يہ مقام مكہ كے بالكل كنارے پر واقع ہے_

۳۱_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۳ ص ۳۲۵ _۳۲۹_

۳۲_ سورہ فتح آيت ۱۸_

۳۳_السيرة النبويہ ج ۳ ص ۳۳۰ _ ۳۳۴_

۳۴_ان لوگوں كا كہنا تھا كہ يہ كيسى فتح ہے ہميں نہ تو زيارت خانہ كعبہ ميسر آئي اور نہ ہى ہم منا ميں قربانى كرسكے : نور الثقلين ج ۵ ص ۴۸ بلكہ بعض تو آپ(ص) كى نبوت كے متعلق بھى شكوك و شبہات كا شكار ہوگئے_

۳۵_سورہ فتح آيت ۱_

۳۶_تفسير نور الثقلين ج ۵ ص ۴۸_

۲۲۶

سبق ۱۳:

جنگ موتہ

۲۲۷

دنيا كے بڑے بڑے حكمرانوں كو دعوت اسلام

صلح ''حديبيہ '' كے بعد رسول خد ا(ص) كو قريش كى جانب سے اطمينان خاطر ہوگيا _ اب وقت آگيا تھا كہ آنحضرت (ص) تبليغ دينكے محدودے كو سرزمين حجاز سے باہر تك پھيلائيں چنانچہ آپ (ص) نے دنيا كے ارباب اقتدار كو دين اسلام كى دعوت دينے كا عزم كرليا اور ماہ محرم سنہ ۷ ہجرى ميں چھ سفير رسول خدا (ص) كے چھ خط لے كر ايران، روم ، حبشہ ، مصر ، اسكندريہ اوريمامہ كى جانب روانہ ہوئے_(۱)

رسول خد ا(ص) كے خطوط جب مذكورہ بالا ممالك كے بادشاہوں تك پہنچے تو ہر ايك سے مختلف رد عمل ظاہر ہوا ، حبشہ كے بادشاہ نجاشى اور روم كے فرمانروا ''ہرقل'' نے آنحضرت (ص) كے رسول خدا (ص) ہونے كى گواہى دى اور كہا كہ انجيل ميں ہميں آپ (ص) كى آمد كے بارے ميں خوشخبرى دى جا چكى ہے اوريہ آرزو كى كہ آپ (ص) كى ركاب ميں رہنے كا شرف حاصل كريں_(۲)

مصر اور اسكندريہ كا فرمانروا ''مقوقس''اگرچہ دين اسلام سے تو مشرف نہ ہوسكا ليكن رسول خد ا(ص) كے خط كا جواب اس نے بہت نرم لہجے ميں ديا اور ساتھ ہى چند تحائف بھى روانہ كئے انہى ميں حضرت ''ماريہ قبطيہ'' بھى شامل تھيں جن كے بطن سے رسول خدا (ص) كے فرزند حضرت ابراہيم (ع) كى ولادت ہوئي_(۳)

''تخوم شام'' كے حاكم ''حارث بن ابى شَمر'' ،يمامہ كے فرمانروا ''سليط بن عمرو'' اور

۲۲۸

بادشاہ ايران ''خسرو پرويز'' نے اس بنا پر كہ ان كے دلوں ميں حكومت كى چاہ تھى رسول خدا (ص) كے خط كا جواب نفى ميں ديا_

بادشاہ ايران نے رسول خد ا(ص) كے نامہ مبارك كو چاك كرنے كے علاوہ يمن كے فرمانروا كو جو اس كے تابع تھا ،اس كام پرمامور كيا كہ وہ افراد كو حجاز بھيجے تاكہ رسول خدا (ص) كے بارے ميں تحقيقات كريں _(۴)

حجاز سے يہوديوں كے نفوذ كا خاتمہ

رسول خد ا(ص) جب صلح ''حديبيہ'' كے فيض و بركت سے جنوبى علاقے (مكہ) كى طرف سے مطمئن ہوگئے تو آپ (ص) نے فيصلہ كيا كہ وہ يہودى جو مدينہ كے شمال ميں آباد ہيں ان كا معاملہ بھى بنٹا ديں كيونكہ ان كا وجود اسلامى حكومت كيلئے خطرہ ہونے كے علاوہ شمالى حدود ميں اسلام كى توسيع و تبليغ ميں بھى مانع تھا اس لئے كہ جب رسول خدا (ص) كے قطعى لہجے اور عزم راسخ كى بنياد پر بڑى طاقتوں نے يا تو دين اسلام قبول كيا تھا ياپھر انہيں حكومت كى چاہ نے شديد رد عمل كيلئے مجبوركيا تھا صورت ضرورى تھا كہ اسلامى حكومت كا اندرونى حلقہ ان خيانت كار عوامل اور ان غدار اقليتوں سے پاك و صاف رہے جو دشمن كے ساتھ سازباز كرنے والى تھيںاور ان كے لئے پانچويں ستوں كا كام دے رہى تھيں تاكہ جنگ ''احد'' اور ''احزاب'' جيسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں اور ايسا ميدان ہموار ہوجائے كہ بالفرض باہر سے كسى عسكرى و اقتصادى خطرے كا احتمال ہو تو اس كا اطمينان سے سد باب كياجاسكے_

۲۲۹

غزوہ خيبر

خيبر(۵) يہوديوں كا مضبوط ترين عسكرى مركز تھا كہ جس ميں دس ہزار سے زيادہ جنگجو(۶) سپاہى مقيم تھے ، رسول خد ا(ص) نے فيصلہ كيا كہ سب سے پہلے اس جگہ كو ان كے وجود سے پاك كياجائے(۷) چنانچہ ماہ محرم سنہ ۷ ہجرى ميں سولہ سو (۱۶۰۰)جنگ آزما سپاہيوں كو ساتھ لے كر آپ (ص) مدينہ سے خيبر كى جانب روانہ ہوئے اور راتوں رات ان كے قلعوں كا محاصرہ كرليا ، اس لشكر كے علمدار حضرت على (ع) تھے_

قلعہ والوں نے يہ فيصلہ كيا كہ عورتوں اور بچوں كو ايك اور ساز وسامان و خوراك كو دوسرے مطمئن قلعے ميں محفوظ كرديں ،اس اقدام كے بعد انہوں نے ہر قلعے كے تير اندازوں كو حكم ديا كہ مسلم سپاہ كو اندر داخل ہونے سے روكيں اور ضرورت پڑنے پر قلعے كے باہر موجود دشمن سے بھى جنگ كريں _

سپاہ اسلام نے دشمن كے سات ميں سے پانچ قلعے فتح كرلئے اس جنگ ميں تقريباً پچاس(۵۰) مجاہدين اسلام زخمى ہوئے اور ايك كو شہادت نصيب ہوئي_

باقى دو قلعوں كو فتح كرنے كيلئے رسول خدا (ص) نے پہلے پرچم جناب ابوبكر كو ديا مگر انہيں اس مقصد ميں كاميابى نصيب نہ ہوئي اگلے دن حضرت عمر كو سپاہ كى قيادت دى گئي ليكن وہ بھى كامياب نہ ہوسكے_

تيسرے روز حضرت على (ع) كو يہ قلعہ فتح كرنے پر ماموركيا گيا، آپ (ع) نے پرچم سنبھالا اور دشمن پر حملہ كرنے كيلئے روانہ ہوئے _

ادھر سے يہوديوں كے معروف دلير شہ زور '' مرحب '' بھى زرہ و فولاد ميں غرق قلعے سے نكل كر باہر آيا اور پھردونوں شہ زوروں كے درميان نبرد آزمائي شروع ہوئي دونوں ايك دوسرے پر وار كرتے رہے كہاچانك حضرت (ع) كى شمشير براں مرحب كے فرق پر پڑى جس

۲۳۰

كے باعث اس كے خود اور سر كى ہڈى كے دو ٹكڑے ہوگئے ، مرحب كے ساتھيوں نے جب يہ منظر ديكھا تو ان كے حوصلے پست ہو گئے اور وہ فرار كركے قلعوں ميں پناہ گزيں ہوئے جہاں انہوں نے اپنے اوپر اس كا دروازہ بھى بند كرليا ليكن حضرت على (ع) نے اپنى روحانى طاقت اور قدرت خدا كى مدد سے قلعے كے اس دروازے كو جسے كھولنے اور بند كرنے پر بيس(۸) آدمى مقرر تھے اكھاڑليا اور قلعہ كے باہر بنى ہوئي خندق پر ركھ ديا تاكہ سپاہى اس پر سے گزر كر قلعے ميںداخل ہوسكيں _(۹)

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے دشمن كے سب سے زيادہ محكم ومضبوط قلعہ كو فتح كركے فتنہ خيبر كا خاتمہ كرديا اور يہوديوں نے اپنى شكست تسليم كرلي، اس جنگ ميں پندرہ مسلمان شہيد اور ترانوے(۹۳) يہودى تہ تيغ ہوئے _(۱۰)

يہوديوں پر فتح پانے كے بعد اگر رسول خد ا(ص) چاہتے تو تمام خيانت كاروں كو سزائے موت دے سكتے تھے ، انہيں شہر بدر اور ان كے تمام مال كو ضبط كيا جاسكتا تھا مگر آنحضرت (ص) نے ان كے حق ميں نہايت درگذراور فراخ دلى سے كام ليا چنانچہ انہى كى تجويز پر انہيں يہ اجازت دے دى گئي كہ اگر چاہيں تو اپنے ہى وطن ميں رہيں اور اپنے دينى احكام كو پورى آزادى كے ساتھ انجام ديں بشرطيكہ ہر سال اپنى آمدنى كا نصف حصہ بطور جزيہ اسلامى حكومت كو ادا كريں اور رسول خدا(ص) جب بھى مصلحت سمجھيں گے انہيں خيبر سے نكال ديں گے_(۱۱)

غزوہ خيبر ميں ''حُيَّى بن اخطب'' كى بيٹى ''صفيہ'' دوران جنگ مسلمانوں كى قيد ميں آئي تھيں رسول خدا(ص) نے''غزوہ خيبر'' سے فراغت پانے كے بعد پہلے تو انہيں آزاد كيا اورپھر اس سے نكاح كرليا _(۱۲) اسى عرصے ميں يہ اطلاع بھى ملى كہ حضرت''جعفر بن ابى

۲۳۱

طالب'' حبشہ سے واپس آگئے ہيں جسے سن كر آنحضرت (ص) نے فرمايا كہ :''ان دو خبروں ميں سے كس پر اپنى مسرت كا اظہار كروں ، جعفر كى آمد پر يا خيبر كے فتح ہونے پر _(۱۳)

فدك

خيبر كے يہوديوں پر فتح پانے كے بعد مسلمانوں كا سياسى ، اقتصادى اور عسكرى مقام ومرتبہ بہت بلند ہوگيا اس علاقے ميں آباد يہوديوں پر كارى ضرب لگى اور ان پر مسلمانوں كا رعب بيٹھ گيا _

رسول خد ا(ص) كو جب خيبر كے يہوديوں كى طرف سے يكسوئي ہوئي تو آنحضرت (ص) نے حضرت على (ع) كو وفد كے ہمراہ ''فَدَك''(۱۴) كے يہوديوں كے پاس روانہ كيا اور فرمايا كہ يا تو وہ دين اسلام قبول كريں يا جزيہ ديں يا پھر جنگ كےلئے تيار ہوجائيں_

فدك كے يہودى اپنى آنكھوں سے خيبر كے يہوديوں كى شكست ديكھ چكے تھے اور انہيں يہ بھى معلوم تھا كہ انہوں نے رسول خد ا(ص) كے ساتھ مصالحت كرلى ہے اسى لئے انہوں نے صلح كو قتل اور قيد و بند پر ترجيح دى اور اس بات كيلئے آمادہ ہوگئے كہ ان كے ساتھ بھى وہى سلوك كيا جائے جو خيبر كے يہوديوں كے ساتھ روا ركھا گيا ہے ، رسول خدا (ص) نے ان كى درخواست كو قبول كرليا(۱۵) چونكہ فدك كسى جنگ و خون ريزى كے بغير فتح ہوگيا تھا اسى لئے اسے خالص رسول خدا(ص) كى ذاتى ملكيت ميںشامل كرليا گيا اس جگہ كے متعلق ايسى بہت سى روايات موجود ہيں جن سے يہ ثابت ہوتا ہے كہ خداوند تعالى كے حكم سے رسول خدا(ص) نے فدك اپنى دختر نيك اختر حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا كو عطا كرديا_(۱۶)

۲۳۲

غزوہ وادى القري

رسول خدا (ص) نے يہود كى ''خيبر'' اور ''فدك'' جيسى پناہ گاہوں كو نيست ونابود كرنے كے بعد ''وادى القري'' كى تسخير كا ارادہ كيا اور يہوديوں كے قلعے كا محاصرہ كرليا ، انہوںنے جب يہ ديكھا كہ قلعہ بند رہنے سے كوئي فائدہ نہيں تو انہوں نے بھى اپنى شكست تسليم كرلى ، رسول خدا (ص) نے ان كے ساتھ بھى وہى معاہدہ كيا جو اس سے قبل خيبر كے يہوديوں كے ساتھ كيا جاچكاتھا(۱۷) _

''تيماء يہود'' كے نام سے مشہور(۱۸) علاقہ '' تيمائ''(۱۹) كے يہودى باشندوں نے جو رسول خدا (ص) كے سخت دشمن تھے ، جب دوسرے بھائيوں كى يہ حالت ديكھى تو ان سے درس عبرت حاصل كيا اور اس سے قبل كہ رسول خدا(ص) انكى گوشمالى كے لئے ان كى جانب رخ كريں وہ خود ہى آنحضرت (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور يہ وعدہ كركے كہ ''جزيہ'' ادا كريںگے رسول خدا (ص) سے معاہدہ صلح كرليا(۲۰) اور اس طرح حجاز ميں جتنے بھى يہودى آباد تھے انہوں نے اپنى شكست قبول كرلى اور يہ تسليم كرليا كہ اس علاقے كى اصل طاقت اسلام ہى ہے_

مكہ كى جانب روانگي

جب حجاز ميں اندرونى طور پر امن بحال ہوگيا اور دشمنوں كو غير مسلح كركے شورشوں اور سازشوں كا قلع قمع كرديا گيا نيز صلح ''حديبيہ'' كو ايك سال گزر گياتو رسول خد ا(ص) نے فيصلہ كيا كہ اصحاب كے ہمراہ مكہ تشريف لے جائيں اور زيارت كعبہ سے مشرف ہوں چنانچہ يكم ذى القعدہ سنہ ۷ ہجرى كو آنحضرت (ص) دو ہزار (۲۰۰۰) مسلم افراد كے ہمراہ عمرہ كرنے كى نيت

۲۳۳

سے مكہ كى جانب روانہ ہوئے_

وہ قافلہ جو عمرہ كرنے كى نيت سے روانہ ہوا تھا اس كے آگے آگے (۱۰۰) مسلح گھڑ سوار چل رہے تھے تاكہ دشمن كى طرف سے كوئي خطرہ ہو تو وہ ان مسافرين كا دفاع كرسكيں جن كے پاس اتنا ہى اسلحہ تھا جسے عام مسافر وقت سفر ان دنوں ركھا كرتے تھے _

جس وقت سپاہ اسلام كا مسلح ہر اول دستہ ''مرالظہران''(۲۱) نامى مقام پر پہنچا تو قريش كے سرداروں كو مسافرين كى آمد كا علم ہو اچنانچہ انہوں نے يہ اعتراض كيا كہ اسلحہ كے ساتھ مكہ ميں داخل ہونا ''صلح حديبيہ'' كے معاہدے كى خلاف ورزى ہے_

اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا كہ ہم اسلحہ ساتھ لے كر حرم ميں نہيںجائيں گے، مشركين نے مكہ خالى كرديا اور اطراف كے پہاڑوں پر چڑھ گئے تاكہ رسول خدا(ص) اور اصحاب رسول(ص) كى تبليغ سے محفوظ رہتے ہوئے اوران كى حركات نيز افعال كا مشاہدہ كرسكيں_

رسول اكرم (ص) اپنے دو ہزار صحابيوں سميت خاص جاہ وجلال كے ساتھ مكہ ميں تشريف فرماہوئے ، جس وقت آپ (ص) خانہ كعبہ كى جانب تشريف لے جارہے تھے تو فضا''لبَبَّيكَ اللَّهُمَّ لَبَّيكَ'' كے نعروں سے ايسى گونج رہى تھى كہ مشركين كے دلوں پرغير معمولى رعب وخوف طارى تھا _

ناقہ رسول اكرم(ص) كى مہار حضرت'' عبداللہ ابن رواحہ'' پكڑكرچل رہے تھے وہ نہايت ہى فخريہ انداز ميں رجزيہ بيت پڑھ رہے تھے_

خَلُّوا بَني الكُفَّارَ عَن سَبيله

خَلُّوا فَكُلُّ الخَير في رَسُوله(۲۲)

''اے كفار كى اولاد رسول خد ا(ص) كےلئے راستہ صاف كردو انہيں آگے آنے كيلئے راستہ دو كيونكہ آنحضرت (ص) ہر خير كا منبع اور ہر نيكى كا سرچشمہ ہيں ''_

۲۳۴

رسول خدا (ص) پر اصحاب رسول (ص) پروانہ وار نثار تھے چنانچہ آپ(ص) ان كے حلقے ميں خاص رعب ودبدبے كے ساتھ داخل مكہ ہوئے اور طواف كرنے كيلئے ''مسجدالحرام'' ميں تشريف لے گئے_

اس سياسى عبادى سفر سے ممكن فائدہ اٹھانے كى خاطر رسول خدا (ص) نے فرمايا كہ زائرين زيادہ سے زيادہ اپنى دينى قوت كا مظاہرہ كريں(۲۳) نيز جس وقت طواف كريں تو حركت تيزى كے ساتھ كى جائے ، احرام كے كپڑے كو اپنے جسم كے ساتھ اس طرح لپيٹيں كہ قوى و تند مند بازو لوگوں كو نظر آئيں تاكہ ديكھنے والوں پر ان كى ہيبت طارى ہو _(۲۴)

ظہر كے وقت حضرت ''بلال'' كو حكم ديا گيا كہ وہ خانہ كعبہ كى چھت پر جائيں اور وہاں سے اذان ديں تاكہ خداوند تعالى كى وحدانيت اور رسول خد ا(ص) كى عظمت مجسم كا اہل مكہ عينى مشاہدہ كرسكيں اور جو لوگ فرار كركے پہاڑوں پر چلے گئے ہيں وہ يہ بات اچھى طرح جان ليں كہ اب وقت فرار گزر چكا ہے واپس آجائو ، نماز اور فلاح كى جانب آنے ميں جلدى كرو_

''حَيَّ عَلَى الصَّلوة ، حَيَّ عَلَى الفَلَاَح''

حضرت بلال كى آواز نے قريش كے سرداروں پر ہر كچل دينے والى ضرب اور ہر شمشير براں سے زيادہ اثر كيا اور انتہائي طيش وغضب ميں آكر ايك دوسرے سے كہنے لگے كہ ''خدا كا شكر ہے كہ ہمارے باپ دادا اس غلام كى آواز سننے سے پہلے ہى اس دنيا سے كو چ كرگئے اور انہيں يہ دن ديكھنا نصيب نہ ہوا''_

اس طرح ''عمرہ القضا'' كاميابى اور كامرانى كے ساتھ ادا ہوا ، جس كے ذريعے خانہ كعبہ كى زيارت بھى ہوگئي اور عبادت بھى اس كے ساتھ ہى كفر كو اسلام كى طاقت كا اندازہ

۲۳۵

ہوا اور آئندہ سال فتح مكہ كا ميدان بھى ہموار ہوگيا چنانچہ اس كے بہت سے سياسى ، عسكرى اورثقافتى اثرات نہ صرف اہل مكہ و قبائل اطراف بلكہ خود مسلمانوں كے قلوب پر نقش ہوئے_

يہ سياسى عبادى تحريك قريش كے سرداروں كے دلوں پر ايسى شقاق و گراں گزرى كہ انہوں نے تين دن بعد ہى رسول خد ا(ص) كى خدمت ميں اپنا نمائندہ روانہ كيا اور كہا كہ جس قدر جلد ممكن ہوسكے مكہ سے چلے جائيں_

اس سفر ميں رسول خدا (ص) نے مكہ كى ''ميمونہ'' نامى خاتون سے رشتہ ازدواج قائم كيا تاكہ قرش كا تعلق آپ (ص) كے ساتھ مستحكم اور دشمنى وعداوت كا جذبہ كم ہوجائے كيونكہ اس كى قريش كے سرداروں سے قرابت دارى تھى(۲۵) يہى نہيں بلكہ رسول خدا (ص) نے يہ بھى چاہاكہ شادى كى رسومات مكہ ميں ادا كردى جائيں اور آپ (ص) قريش كو دعوت وليمہ ميں مدعو فرمائيں اگريہ كام انجام پذير ہوجاتا تو اہل مكہ كو اپنى طرف مائل كرنے ميںمؤثر ہوتا مگر افسوس اہل مكہ نے اس تجويز كوقبول نہ كيا چنانچہ رسول خدا (ص) نے يہ رسم مكہ سے واپس آتے وقت ''سرف''(۲۶) نامى مقام پر پورى كي_(۲۷)

جنگ ''موتہ''

مدينہ كے شمال ميں اور مدينہ سے شام كى طرف پرنے والے تجارتى رستے ميں آبادخيبر' فدك ' وادى القرى اور تيماء جيسے يہود يوں كے مراكز اور اہم مقامات كا قلع قمع ہونے كے ساتھ ہى اسلام كے سياسى اورمعنوى نفوذكا ميدان شمالى سرحدوں كى جانب مزيد ہموار ہوگيا_

۲۳۶

اس علاقے كى اولاً اہميت اس وجہ سے تھى كہ وہ عظیم ترين تمدن جو اس زمانے ميں سياسى 'عسكرى ' اجتماعى اور ثقافتى اعتبار سے انسانى معاشرے كا اعلى و نماياں ترين تمدن شمار كيا جاتا تھا يہيں پرورش پارہا تھا دوسرى وجہ اس كا سرچشمہ آسمانى آئين و قانون تھا يعنى وہ آئين و قانون جس كى دين اسلام سے بيشتر واقفيت و ہم آہنگى ہونے كے علاوہ اس كے اور اسلام كے درميان بہت سى مشترك اقدار تھيں او ريہ مقام ديگر مقامات كى نسبت بہتر طور پر اور زيادہ جلدى حالات كو درك كرسكتا تھا اس كے علاوہ جغرافيائي اعتبار سے بھى يہ جگہ مدينہ سے نزديك تر تھى اور شايد يہى وجہ تھى كہ رسول خدا (ص) نے فتح مكہ سے قبل روم كى جانب توجہ فرمائي_

رسول خدا (ص) نے حضرت ''حارث بن عمير'' كے ہاتھ اپنا خط ''بصرہ'' كے بادشاہ كے نام جو ''قيصر'' كا دست پروردہ تھا روانہ كيا جس وقت رسول خدا (ص) كا يہ ايلچى ''موتہ''(۲۸) نامى گائوں پہنچا تو شرحبيل غسانى نے اسے قتل كرديا يہ واقعہ رسول خدا (ص) پر انتہائي شاق گزرا اور آنحضرت (ص) نے فوراً يہ فيصلہ كرليا كہ اس كا سد باب كياجائے چنانچہ آپ (ص) نے ماہ جمادى الاول سنہ ۸ ہجرى ميں تين ہزار سپاہيوں پر مشتمل لشكر ''موتہ'' كى جانب روانہ كرديا_

اس وقت تك مدينہ سے باہر جتنے بھى لشكر روانہ كئے گئے ان ميں سے سب سے بڑا لشكر تھا ،رسول خدا (ص) اسے رخصت كرنے كيلئے مسلمانوں اور سپاہيوں كے قرابت داروں كے ہمراہ مدينہ كے باہر تك تشريف لائے حضرت'' زيد بن حارثہ'' كوسپہ سالار نيز حضرت ''جعفر ابن ابى طالب '' و حضرت ''عبداللہ بن رواحہ'' كو حضرت زيد كا پہلا اور دوسرا نائب مقرر كرنے(۲۹) كے بعد آپ (ص) نے اس كى وضاحت فرمائي كہ جس معركہ كو سر كرنے كيلئے جارہے ہيں اس كى كيا اہميت ہے اس كے ساتھ ہى آنحضرت (ص) نے ان كے حق ميں دعائے

۲۳۷

خير فرمائي_

لشكر اسلام شام كى جانب روانہ ہوا ،''معان''(۳۰) نامى جگہ پر اطلاع ملى كہ قيصر كے دو لاكھ عرب اور رومى سپاہى ''مآب'' نامى مقام پر جمع ہوگئے ہيں_

يہ خبر سننے كے بعد مسلمانوں ميں تردد پيدا ہوگيا اور يہ فيصلہ نہ كرسكے كہ واپس چلے جائيں يا وہيں مقيم رہيں اور پورے واقعے كى اطلاع رسول خدا (ص) كو پہنچائيں يا پھر اسى مختصر سپاہ كے ساتھ اس فرض كو انجام ديں جس پر انہيں مامور كيا گيا ہے اور سپاہ روم كے ساتھ جنگ كريں_

اس اثناء ميں حضرت ''عبداللہ بن رواحہ'' اپنى جگہ سے اٹھے اور لشكر كے سامنے تقرير كرتے ہوئے انہيں يہ ترغيب دلائي كہ اپنے فرض كو ادا كريں اور سپاہ روم كے ساتھ نبردآزماہوں ان كى تقرير نے سپاہ كے اندر ايسا جوش و ولولہ پيدا كيا كہ سب نے متفقہ طور پر فيصلہ كيا كہ سپاہ روم كے ساتھ جنگ كى جائے چنانچہ اس كے بعد وہ لشكر موتہ ميں ايك دوسرے كے مقابل تھے_

حضرت زيد نے پرچم سنبھالا اور جان پر كھيل كر وہ دوسرے مجاہدين كے ساتھ شہادت كے شوق ميں بجلى كى طرح كوندتے ہوئے سپاہ دشمن پر ٹوٹ پڑے دشمن تجربہ كا راور جنگ آموزدہ تھا اس كا لشكر نيزوں 'تلواروں اور تيز دھار تيروں سے آراستہ تھا اور اس طرف كلمہ توحيد ' جسے بلند وبالا كرنے كيلئے سپاہ اسلام نے ہر خطرہ اپنى جان پر مول ليا تھا اورسپاہ روم پر يہ ثابت كرديا كہ وہ اپنے دين و آئين اور مقدس مقصد كو فروغ دينے كى خاطر جان تك دينے كيلئے دريغ نہيں كرتے_

دشمن كى توجہ سپاہ اسلام كے عملدار كى جانب مبذول ہوئي اس نے اسے اپنے نيزوں

۲۳۸

كے حلقے ميں لے كر اسے زمين پر گراديا، حضرت ''جعفر(ع) ابن ابى طالب(ع) '' نے فوراً ہى پرچم كو اپنے ہاتھ ميں لے كرلہر ايا اور دشمن پر حملہ كرديا ، جس وقت انہوں نے خود كو دشمن كے نرغے ميں پايا اور يہ يقين ہوگيا كہ شہادت قطعى ہے تو اس خيال سے كہ ان كا گھوڑا دشمن كے ہاتھ نہ لگے اس سے اتر گئے اور پيدل جنگ كرنے لگے يہاں تك كہ ان كے دونوں ہاتھ قطع ہوگئے آخر كار تقريباً اسى(۸۰) كارى زخم كھا كر شہادت سے سرفراز ہوئے_

حضرت جعفر (ع) كى شہادت كے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ نے پرچم اسلام سنبھالا اور سپاہ روم كے قلب پر حملہ كرديا وہ بھى دليرانہ جنگ كرتے كرتے شہادت سے ہمكنار ہوئے_

''خالد بن وليد حال ہى میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے وہ بڑے ہى چالاك اور جنگجو انسان تھے ، مجاہدوں كى تجويز اور رائے پر اسے سپہ سالار مقرر كرديا گيا جب انہيں جنگ كرنے ميں كوئي فائدہ نظر نہ آيا تو انہوں نے اب جنگى حربہ تبديل كيا(۳۱) جس كى وجہ سے روميوں ميں تردد پيدا ہوگيا اور اس نے اپنى فوج كو يہ سوچ كر پيچھے ہٹا ديا كہ آيا جنگ كى جائے يا نہيں ؟ _ اپنى اس حكمت عملى سے انہوں نے دشمن كے دولاكھ سپاہيوں سے سپاہ اسلام كو نجات دلائي اور واپس مدينہ آگئے_(۳۲)

ابن ہشام نے جنگ ميں شہداء كى تعدادبارہ(۳۳) اور واقدى نے آٹھ آدمى بيان كى ہے(۳۴) _

جنگ موتہ كے نتائج

جنگ موتہ گرچہ بظاہر مسلمانوں كى شكست اور سپہ سالاروں كى شہادت پر تمام ہوئي اور

۲۳۹

قريش نے اسے اپنى دانست ميں مسلمانوں كى ناتوانى سے تعبير كى _اس لئے اس جنگ كے بعد وہ ايسے دلير ہوگئے كہ انہوں نے قبيلہ ''بنى بكر'' كو اس وجہ سے مدد دينى شروع كردى كہ اس كى ان لوگوں كے ساتھ سازو باز ہوچكى تھى جس كے پس پردہ يہ سازش تھيكہ وہ ان كے اور قبيلہ ''خزاعہ'' كے درميان اس بناپر كشت وكشتار كا بازار گرم كردايں كہ اس قبيلے كا رسول خد ا(ص) كے ساتھ دوستى كا عہد وپيمان ہے چنانچہ انہوں نے قبيلہ ''خزاعہ'' كے چند افراد كو قتل كرديا اور صلحنامہ حديبيہ سے بھى روگردان ہوگئے نيز رسول خدا(ص) كے خلاف اعلان جنگ كرديا(۳۵) ليكن جب ہم اس جنگ كى اہميت كے بارے ميں غورو فكر كريں گے تو اس نتيجے پر پہنچيں گے يہ جنگ سياسى طور پر اور دين اسلام كى اشاعت كيلئے نہايت سودمند ثابت ہوئي كيونكہ اس وقت ايران وروم جيسى دو بڑى طاقتوں كا اس عہد كى دنيا پر غلبہ تھا ان كے علاوہ جو بھى دوسرى حكومتيں تھيں وہ سب كسى نہ كسى طرح سے انہى كى دست پروردہ تھيں اور ان ميں اتنى تاب ومجال تك نہ تھى كہ يہ سوچ سكيں كہ ايسا دن بھى آسكتا ہے كہ وہ ان كے مقابلے پرآ سكيں گے ان دونوں حكومتوں ميں بھى روميوں كو ايرانيوں پر اس وجہ سے برترى حاصل تھى كہ انہوں نے ايران سے جنگ ميں مسلسل كئي فتوحات حاصل كى تھيں_

جزيرہ نمائے عرب كو ايران نے مشرقى جانب سے اورروم نے مغربى طرف سے اس طرح اپنے حلقے اور نرغے ميں لے ركھا تھا جيسے انگوٹھى كے درميان نگينہ اور ان دونوں ہى بڑى طاقتوں كے اس خطہ ارض سے مفادات وابستہ تھے اورانہوںنے يہاں اپنى نو آباديات بھى قائم كر ركھى تھيں(۳۶) _

جنگ موتہ نے ان دونوں بڑى طاقتوں بالخصوص روم كو يہ بات سمجھادى كہ اس كے اقتدار كا زمانہ اب ختم ہوا چاہتاہے اور دنيا ميں تيسرى طاقت ''اسلام'' كے نام سے پورے

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375