اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت 0%

اسلامى تہذيب و ثقافت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 375

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف: ڈاكٹر على اكبر ولايتي
زمرہ جات:

صفحے: 375
مشاہدے: 124278
ڈاؤنلوڈ: 3023

تبصرے:

اسلامى تہذيب و ثقافت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 375 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 124278 / ڈاؤنلوڈ: 3023
سائز سائز سائز
اسلامى تہذيب و ثقافت

اسلامى تہذيب و ثقافت

مؤلف:
اردو

بارھويں صدى كے دوسرے نصف دور سے چودھويں صدى كے دوسرے نصف دور تك ايران پر افشاريہ، زنديہ اور قاجاريہ خاندانوں نے حكومت كى اس دور ميں فارسى شاعرى نے اس دور كے شعراء بالخصوص اصفہان كى ادبى انجمن كے ممبروں كى صفويہ دور كے شعراء كى روش سے ناراضگى كى بناء پر جنم ليا اس گروہ كا يہ نظريہ تھا كہ '' كليم كاشاني'' اور صائب تبريزى جيسے شاعر فصاحت سے دور ہوگئے ہيں لہذا اس نئي تحريك كے پيروكاروں نے كہ جو پہلے اصفہان پھر شيراز اور تہران ميں تشكيل پائي يہ نظريہ اختيار كيا كہ خراسان اور عراق ميں پانچويں صدى سے آٹھويں صدى ہجرى تك كے عظيم اساتذہ كى روش پر شعر كہنے چاہيے اسى ليے اس دور كے شعراء كى شاعرى كے دور كو '' دورہ بازگشت '' ( واپسى كا زمانہ ) كا نام ديا گيا _(۱)

۲) فارسى نثر

تيسرى صدى ہجرى ميں فارسى شعر كے ساتھ ساتھ فارسى نثر نے بھى مختلف وجوہات كى بناء پر ظہور كيا اور چوتھى صدى ميں عروج تك جاپہنچى اسكى مقبوليت كى پہلى وجہ وہ رونق تھى جو ايرانيوں كى اجتماعى اور قومى يكجہتى كے زير سايہ آزادى كے حصول كى وجہ سے پيدا ہوئي اور ادبى آزادى پر منتج ہوئي _ دوسرى اہم وجہ عربى ادب كے مد مقابل ايرانيوں كااپنے ادب كى ضرورت كا احساس تھا اوريہ كہ اسلام كى ابتدائي صديوں ميں وہ لوگ جو ايران ميں عربى زبان سے آشنا ہوئے بہت كم تھے جبكہ ايرانيوں كى فارسى كتب كى ضرورت زيادہ تھى اسى طرح اس دور كے بعض بزرگان مثلا جيحانى اور بلعمى خاندانوں نے مختلف موضوعات ميں (فارسي) كتابوں كى تاليف و تحرير اور عربى و ديگر زبانوں سے ترجمہ كے حوالے سے مصنفين كى بہت حوصلہ افزائي كى _

پانچويں اور چھٹى صدى ہجرى ميں ہى فارسى نثرنے مناسب انداز سے كمال كے مراحل طے كيے اس دورميں بہت سے بزرگ مولفين نے مختلف موضوعا ت ميں معروف آثار چھوڑے تاريخ ، سياست معاشرت ، ادب ، حكمت، طب، طبيعيات، رياضيات ، نجوم ، فقہ ، تفسير، كلام ، جغرافيہ، حالات زندگى اور بالخصوص تصوف جيسے موضوعات پر مختلف كتابيں لكھى گئيں _

اور فارسى زبان بھى پختہ ہونے كے ساتھ ساتھ جاذب و روان ہوگئي_ ليكن ۶۱۶ قمرى ميں چنگيز خان منگول

____________________

۱)سابقہ حوالہ خلاصہ ج ۱،۲_

۸۱

كے حملہ سے تمام معاشرتى ، عملى ، ادبى اور علمى امور حتى كہ فارسى زبان بھى انحطاط كا شكار ہوگئي_ ايرانيوں كى ساتويں صدى ہجرى ميں اپنى ثقافت كى حفاظت كيلئے سعى و كوشش كرنے كے باوجود آٹھويں صدى كے بعد اس جمود كے آثار واضح ہوگئے (۱)

اگر چہ صفويہ دور ميں بھى فارسى نثر جارى رہى ليكن ادبى معيار كے پيش نظرمناسب حالت ميں نہ تھى _ دوسرے الفاظ ميں اگر چہ اس دور ميں گوناگوں موضوعات ميں كتابيں تحرير ہوئيں ليكن چونكہ لغوي، ادبى اور بلاغت كے ميزان و معياركا خيال نہ ركھا گيالہذا فارسى نثر ميں اس دور كو ممتاز دور نہيں كيا جاسكتا _مجموعى طور پر ہم كہہ سكتے ہيں كہ صفوى دور كى نثر تيمورى دور كى نثر سے بھى كہيں پست اور حقير ہے حتى كہ نثر مصنوع كے شعبہ ميں تيمورى دور كے دربارى كاركنوں كى '' نثر مصنوع''كے بھى قريب نہيں ہے اس دور ميں جس فارسى نثر كا ہند ميں رواج تھا وہ بھى اسى قسم كى تھى _

افشاريہ ، زنديہ اور قاجاريہ دور ميں فارسى نثر بتدريج پستى سے بلندى كى طرف سفر كرنے لگى قاجارى دور ميں گذشتہ لوگوں كى مانند كچھ حد تك مناسب روش اختيار كر گئي شعر كى مانند نثر ميں بھى گذشتہ مصنفين كى فصاحت و بلاغت معيار اور نمونہ تھى ليكن اس حوالے سے زيادہ تر چھٹى اور ساتويں صدى كے مولفين اور مصنفين كى روش كى تقليد ہوتى رہى _

ج) تركى ادب:

تركى ادب كا شروع سے ہى واضح طور پر دينى امور كى طرف رجحان ہے قديم تركى ادب كا ايك اہم حصہ كہ جو مركزى ايشيا سے تعلق ركھتا ہے دو بڑے دين '' مانوي'' اور ''بدھ مت'' كى تحريرات پر مشتمل ہے اور بہت سے دينى مفاہيم اورتعليمات كا حامل ہے _ ابتدائي چارصديوں ميں جبكہ دين اسلام مغرب سے مشرق كى طرف بڑھ ريا تھا ترك لوگ اسلام سے آشناہوئے اسطرح ترك اقوام كى تہذيب ميں مفاہيم اسلام كے نفوذ كا راستہ كھل گيا_ ايك تقابلى اور عمومى نظرے كے مطابق ہميں ماننا پڑے گا كہ مركزى ايشيا يعنى اناطولى ، قفقاز اور ولگا ميں تركى اشعار مختلف پہلوؤں سے فارسى اور عربى ادب سے بہت متاثر ہوئے_ اور آلٹائي اور

____________________

۱) ملك الشعراء بہار ، سبك شناسى ، ح ۱ ص ۹۰_۳۵_

۸۲

مشرقى و مغربى سابئير يا جو اسلامى تہذيب سے دور رہ گئے تھے اور آلٹا اقوام كى مقامى ثقافت ميں مدغم تھے وہاں بھى اس شاعرى نے اپنى شكل اور قالب كو قائم ركھا ہے_

پانچويں اور چھٹى صدى ہجرى ميں قراخانيان كے تركستان كے مغرب ميں '' سيرد ريا ''اور'' آمودريا'' كے مناطق پر مكمل تسلط كے ساتھ ساتھ تركى اسلامى ادب نے جنم ليا _ نويں سے گيارہويں صدى ہجرى تك تركستان كے مشرق ميں اغوز ان سالار كے درميان واضح طور پر ايك محدود سا ادبى ماحول بنا اور ان كے بہت سے آثار ميں سے بعض كتابيں كہ جو '' عبادت'' اور قصہ قربان '' نام ركھتى تھيں مكمل طور پر دينى مفاہيم سے متاثر تھيں _

آخرى صديوں ميں مختلف زبانوں يعنى تركى ، آذربايجانى ، عثمانى اور تركمنى سے تعلق ركھنے والے شعراء اور نثر نويس حضرات جو اسلامى كلچر ميں سے زيادہ تر صوفيت اور عرفان سے متاثر تھے اسلامى اقوام كے مشترك ادب ميں ان كى درجہ بندى اسى حوالے سے كى جاتى ہے_ تركى ادب ميں عظيم شعراء ميں سے امير على شيرنوائي ( متوفى ۹۰۶ قمري) نجاتى ( متوفى ۹۱۵ قمري) باقى (متوفى ۱۰۰۹ قمري) فضولى (متوفى ۹۶۴ قمري) اور شيخ غالب (متوفى ۱۲۱۳) قابل ذكر ہيں _

ب ) اسلامى علوم

۱) قرائت :

قرائت كا علم اسلامى علوم ميں قديم ترين علم ہے كہ جسكے بانى پيامبر اكرم(ص) ہيں انكے بعد على بن ابى طاب (ع) ، عبداللہ بن مسعود اور پھر آئمہ اطہار كا اس علم كى تدوين ميں اہم كردار ہے پہلى صدى ہجرى ميں پہلا شخص كہ جس نے قرآن كى رائج الحان كے ساتھ قرائت كى اسكا نام عبيداللہ بن ابى بكر ثقفى تھا_

پيغمبر اكرم(ص) سے اصحاب كى قرآن كريم كے بعض الفاظ اور انكے حروف كى ادائيگى كے حوالے سے مختلف ذرائع سے روايات نقل ہونے كى بناء پر قرائت ميں اختلاف پيدا ہوگيا اور پھر يہ اختلاف قاريوں كے ذريعہ نقل ہوا اور جارى رہا _ اسلامى فتوحات كے دوران اسلامى ممالك كے ہر شہر كے مسلمانوں نے مشہور قاريوں ميں سے كسى ايك قارى كى قرائت كو اختيار كيا كہ جسكے نتيجہ ميں پچاس طرح كى قرائتيں كہ جن ميں سب سے زيادہ مشہور '' قراء سبعہ'' (سات قرائتيں )ظہور پذير ہوئيں(۱)

____________________

۱)بہاء الدين خرمشاہى ، دانشنامہ قرآن و قرآن پوہى ج ۱ ص ۷۴۲_۱۷۴_

۸۳

پہلے شخص جنہوں نے تمام قرائتوں كو ايك كتاب ميں جمع كيا ابوعبيد قاسم بن سلام (متوفى ۲۲۴ قمري) تھے كہ انہوں نے تمام قرائتوں كو ان سات قرائتوں سميت پچيس قرائتوں ميں خلاصہ كيا انكے بعد احمد بن جبير كوفى نے پانچ قرائتوں كے بارے كتاب تحرير كى كہ اس كام كيلئے انہوں نے تمام مشہور شہروں ميں سے ايك قارى كو انتخاب كيا _ انكے بعد قاضى اسماعيل بن اسحاق مكى (متوفى ۲۸۲ قمري) نے ايك كتاب ميں بيس علمائے قرائت سے جن ميں يہ سات معروف قارى بھى تھے قرائتيں جمع كيں _ انكے بعد محمد بن جرير طبرى ( متوفى ۳۱۰ قمري) نے ايك كتاب '' الجامع'' تاليف كى اور بيس سے زيادہ قرائتيں اسميں ذكركيں _

سات معروف قارى كہ جو '' قراء سبعہ '' كے عنوان سے معروف تھے وہ مندرجہ ذيل ہيں نافع بن عبدالرحمان (متوفى ۱۶۹ قمري) عبداللہ بن كثير (متوفى ۱۲۰ قمري) ابو عمرو بن العلاء ( متوفى ۱۵۴ قمري) عبداللہ بن عامر ( متوفى ۱۱۵ قمري) عاصم بن ابى بخود ( متوفى ۱۲۹ قمري) حمزہ بن حبيب (متوفى ۱۵۴ قمري) اور كسائي ابوالحسن على بن حمزہ ( متوفى ۱۹۸ قمري)_

چوتھى صدى ہجرى كے اوائل ميں قرائت قرآن كے حوالے سے ايسا گروہ ظاہر ہوا كہ جو شاذ و نادراقوال كو بيان كرنے لگے اور يہ كمياب اقوال اختلاف قرائت كا سبب بنے ليكن عباسى خلفاء كا ان كے بارے ميں سخت اقدام باعث بنا كہ يہ اختلاف قرائت مستقل نہ رہ سكا اور سات قاريوں كى قرائت پر اعتماد مستحكم ہوگيا_

پانچويں صدى ہجرى ميں قرائت قرآن كے علم نے اپنى اہميت كو قائم ركھا اسطرح كہ تمام اسلامى ممالك ميں يعنى اندلس سے ماوراء النہر تك بزرگ علماء قرائت قرآن كى تحقيق ميں مشغول تھے اور اس سلسلے ميں بہت سى كتابيں تحرير كى گئيں اندلس ميں مثلا ابو عمرو عثمان بن سعيد دانى (متوفى ۴۴۴ قمري) اور ابو محمد قاسم بن فيرة بن خلف شاطبى اندلسى (متوفى ۵۹۰ قمري) نے قرائت كے حوالے سے متعدد كتابيں تحرير كيں _

چھٹى صدى ہجرى ميں ايران ميں قرائت كے بزرگ عالم ابوالفضل محمد بن طيفور سجاوندى غزنوى ظاہرہوئے انكى كتاب كا نام '' كتاب الموجز و عين المعانى فى تفسير سبع المثاني'' ہے(۱)

____________________

۱)بہاء الدين خرمشاہى ،سابقہ حوالہ ، ص ۱۱۹۰_

۸۴

مجموعى طور پر علم قرائت نے چوتھى صدى سے چھٹى صدى تك ترقى كى كيونكہ ايسے قارى پيدا ہونے سے كہ

جنہوں قرآن كى قرائت ميں كمياب اقوال نقل كيے تھے كہ يہ چيز باعث بنى كہ علم قرائت قرآن ميں جديد مباحث سامنے آئيں اور اسكى مزيد شاخيں وجود ميں آئيں _ دوسرى طرف اسلامى تہذيب كى روز بروز وسعت سے قرائت كا علم اندلس اور جديد اسلامى سرزمينوں كے مدارس تك پھيل گيا ليكن ساتويں ، آٹھويں اور نويں صدى ہجرى ميں علم قرائت نے چھٹى صدى كى مانند ارتقاء كے مراحل طے نہيں كيے _ہم اس دور ميں دو بڑے قاريوں كو جانتے ہيں ايك منتخب الدين بن ابى الغزالى يوسف ہمدانى (متوفى ۶۴۳ قمري) اور دوسرے شمس الدين ابوالخير محمد بن محمد بن يوسف جزرى (متوفى ۸۳۳ قمري) ہيں _

جناب جزرى ايسے زمانے ميں ظاہر ہوئے كہ جب يہ علم زوال كى طرف رواں تھا انہوں نے قرائت كى منسوخ كتب كے تعارف كے ساتھ ساتھ انكے مواد كو اپنى دو كتابوں '' النشر اور غاية النہاية'' ميں قرائت كے موضوعات كو ايك جديد اسلوب كے ساتھ پيش كيا اور يہ دو كتابيں حقيقت ميں علم قرائت كا ايك انسائيكلوپيڈيا ہيں كہ جنكى بدولت آج تك اس علم كى نشر و اشاعت جارى ہے وہ خصوصيات جنہوں نے ان دو كتابوں قرائت كا '' دائرة المعارف'' بنايا وہ پچھلى كتب ميں نہيں ديكھى گئيں _

دسويں سے بارھويں صدى تك ايران مين دين و سياست كے ہم قدم ہونے اور صفوى خاندان كے حاكم ہونے كے ساتھ ہى اسلامى علوم ميں جديد باب كھل گيا اور علم قرائت بھى اس جديد فضا سے بہرہ مند ہوا اور ترقى كى راہ ميں اس علم نے نئے اور مثبت قدم اٹھائے اگر چہ اين تين صديوں ميں علم قرائت كے حوالے سے جو كتب تاليف ہوئيں وہ گذشتہ كتب كى مانند قدر و قيمت كى حامل نہ تھيں _ اس دور كى بعض كتابيں مندرجہ ذيل ہيں _ الكشف عن القراآت السبع كہ جو قاضى سعيد قمى (متوفى ۱۱۳ قمري) كى تاليف ہے _ تحفة القراء كہ جو ملا مصطفى قارى تبريزى كى فارسى ميں تحرير ہے اور رسالہ تجويد كہ جو محمد بن محسن بن سميع قارى كى فارسى ميں تاليف ہے ان آخرى صديوں ميں بھى قرائت لغات قرآن كى تشريح اور كشف آيات كے حوالے سے بہت سے كتابيں وجود ميں آئيں(۱)

____________________

۱)عند الحليم بن محمد الہادى قابة، القراة القرانية، تاريخہا ، ثبوتہا، حجتيہا و احكامہا ص ۷۳_۷۰ ، ۷۵ _ ۷۴_

۸۵

۲ _ تفسير

تفسير كى تدوين كا مرحلہ بنى اميہ كى حكمرانى كے آخرى اور بنى عباس كى حكومت كے ابتدائي زمانہ ميں حديث كى تدوين كے ساتھ ہى شروع ہوا كيونكہ سب سے پہلے روايات ہى قرآن كريم كى تفسير تھيں بعد ميں علماء كرام اور بزرگان اسلامى كى كوششوں سے تفسيرى روايات كو احاديث كے عمومى مجموعہ سے جدا كركے مستقل طور پر تدوين كيا گيا بہت سے اہل سنت اورشيعہ حضرات كى نظر ميں سب سے پہلے تفسير كو تدوين كرنے والے سعيد بن جبير ہيں وہ عبداللہ بن عباس كے شاگرد ہونے كے ساتھ ساتھ تابعين ميں سے بڑے اديب شمار ہوتے تھے اور شيعہ ہونے اور حضرت على (ع) كے ساتھ وفا دارى كے جرم ميں حجاج بن يوسف (ع) كے ہاتھوں شہيد ہوئے _

اگر ہم تحقيق اور دقت كے ساتھ اس سوال كا جواب دينا چاہيں كہ اسلام ميں سب سے پہلے مفسر قرآن كون تھے تو بلا شبہ حضرت محمد (ص) اور على بن ابى طالب (ع) كا نام ہى ہمارے سامنے جلوہ گر ہوگا حضرت على (ع) كى تفسير كوحقيقت ميں قرآن كريم كى تفسير عقلى كا آغاز جاننا چاہيے تفسير عقلى سے مراد قرآنى آيات كى وضاحت اور تفسير فكرى اور عقلى روش پر كرنا اور يہ روش در حقيقت وہى راستہ ہے كہ جسكى طرف كتاب خدا مؤمنين كى راہنمائي كرتى ہے_ قرآن كى تفسير كا يہ مكتب امام محمد باقر (ع) اور انكے فرند امام جعفر صادق (ع) كے دور ميں اپنے عروج كو پہنچا _ تفسير عقلى كہ جو تقريبا دوسرى صدى سے شروع ہوئي چھٹى صدى ميں اپنے كمال كى آخرى حدوں كو چھور ہى تھي_

عباسى دور ميں مختلف بلكہ متضاد كلامى مكاتب كى طرز فكر پر يہ تفسيرى مباحث عام ہوگئيں مسلمان دانشوروں كا ايك گروہ اپنے علمى تخصص اور مذہب كى اساس پر قرآن كريم كى تفسير ميں مشغول ہوا مثلا علم نحو كے علماء ادب اورعلوم بلاغت كى رو سے آيات قرآن كى تفسير اور وضاحت ميں مشغول ہوئے اور علوم عقلى كے ماہرين قرآن مجيد كى فلسفى قواعد اور قوانين اور اسلامى حكماء اور فلاسفہ كى آراء كى روشنى ميں تفسير كرنے لگے(۱)

____________________

۱)دانشنامہ جہان اسلام ، ج ۷ ، ذيل تفسير_

۸۶

جسكے نتيجہ ميں متعدد قسم كى روشيں اور مكاتب تفسيرى وجود ميں آئے ہم ان ميں چند اہم ترين روشوں كى وضاحت كرتے ہيں :

۱) تفسير قرآن بہ قرآن : يعنى قرآن كريم كى بعض آيات كى وضاحت اور تفسير كيلئے دوسرى بعض آيات سے مدد لينا(۱)

۲)تفسير موضوعي: اس تفسيرى روش ميں مفسر ايك موضوع اور مسئلہ كى وضاحت كيلئے اس موضوع كے متعلق تمام آيات ايك جگہ ترتيب اور باہمى ربط كے ساتھ پيش كرتاہے_

۳)تفسير اجتہادى : آيات كى تفسير و تشريح كيلئے آيات كے معانى سے منطق ، اصول اور اجتہادى روشوں كى بناء پر بہرہ مند ہونا_

۴)تفسير تطبيقي: مفسر كوشش كرتاہے كہ قرآن كے كلى احكام اور تعليمات كو عہد حاضر كے انسان كى زندگى پر مطابقت دے_

۵ ) تفسير عصري: مفسر تفسير كے حوالے سے گذشتہ علماء كى آراء كا تجزيہ كرتاہے اور گذشتہ مفسرين كے ناقابل دفاع نظريات كو ترك كرديتاہے(۲)

۶)تفسير تاريخي: مفسر قرآن كے تاريخى واقعات بالخصوص انبياء (ع) كے قصوں كى وضاحت كرتاہے اور ان ميں عبرت آموز نكات كو نكال كر تشريح كرتاہے_

۷) تفسير فلسفي: مفسر اسلامى فلسفہ كى معلومات سے قرآنى آيات كے معانى اور اہداف كو درك كرنے كيلئے مدد ليتاہے_

____________________

۱)بہاء الدين خرمشاہى ، سابقہ حوالہ ص ۶۵۲ _ ۶۳۴_

۲)شادى نفيسى ، عقل گرائي در تفاسير قرن چہاردہم_

۸۷

۸)تفسير ادبي:مفسر قرآن كے معانى كو كشف كرنے اور صحيح معنوں ميں درك كرنے كيلئے ادبى علوم سے بہرہ مند ہوتاہے_

۹)تفسير نقلى يا ماثور: مفسر پيغمبر (ص) اور آئمہ معصومين (ع) كے اقوال اور احاديث كى رو سے آيات كى تفسير كرتاہے_

۱۰)تفسير ہدايتى و تربيتي: قرآنى آيات سے اخلاق اور تربيت كے حوالے سے نكات كو پيش كرنا اور ان آيات الہى سے قرآنى دعوت كے مضمون كى تہہ تك پہچنا_

۱۱)تفسير فقہي: عبادات ، معاملات، حدود اور تصرف كے حوالے سے قرآن كے عملى احكام كا تجزيہ كرنا اور اس نظر سے قرآنى آيات كى تشريح كرنا_

۱۲_ تفسير كلامى : مفسر قرآنى آيات كى مدد سے اپنے عقائد اور مذہب كا دفاع كرتاہے اور اس حوالے سے آيات كے شبہات كو دور كرتاہے_

۱۳_ تفسير رمزي: مفسر واضح كرتاہے كہ قرآنى آيات رمز اور اشارہ ہيں لہذا ان آيات كے الفاظ كے معانى اور اسرار تك پہنچنے كيلئے مروجہ ادبى و معانى قواعد سے بڑھ كر ان كے علاوہ ديگر روشوں سے حقائق تك پہنچنے كى كوشش كرتا ہے_

۱۴ _ تفسير عرفاني: مفسر كى نظر ميں قرآن صرف ظاہرى اور لفظى پيغام كى حد تك بيان نہيں كررہا بلكہ ان آيات كے باطن ميں عرفانى تعليمات اور سير و سلوك كے اسرار بھى پنہان ہيں كہ جو كشف و شہود كى روش سے ظاہر ہونگے(۱)

ہم ان چودہ اقسام كى تفاسير كو تاريخى نگاہ سے ديكھتے ہوئے اہم ترين تفاسير كا تعارف كرديتے ہيں :

____________________

۱)دانشنامہ جہان اسلام، سابقہ حوالہ_

۸۸

تيسرى صدى ہجرى كے پہلے نصف زمانہ ميں بخارى نے اپنى كتاب صحيح كا كچھ حصہ گذشتہ تفاسير كے تجزيہ و تحليل كے حوالے سے خاص كيا _ ''جامع البيان فى تفسير القرآن ''محمد بن جرير طبرى كى تيسرى صدى كى مشہور تفاسير ميں سے شمار ہوتى ہے چوتھى صدى ہجرى ميں محمد بن ابراہيم بن جعفر نعمانى كى تفسير نعمانى قابل توجہ ہے پانچويں صدى ہجرى ميں تفسير التبيان فى تفسير القرآن جو كہ محمد بن حسن طوسى كى تاليف ہے جو سب سے پہلى شيعى تفسير شمار ہوتى ہے اور عقلى اور اجتہادى روش كے ساتھ دائرہ تحرير ميں آئي _ اسى صدى ميں عتيق بن محمد سور آبادى نيشابورى كى تفسير سور ابادى يا تفسير التفاسير بھى وجود ميں آئي_

چھٹى صدى ہجرى ميں شيخ طبرسى كى مجمع البيان فى تفسير القرآن '' تاليف ہوئي انہوں نے اس تفسير كے علاوہ اور دو تفاسير '' الكافى الشافي'' اور '' جوامع الجامع'' بھى تحرير كيں _ اسى صدى ميں ابوالفتوح رازى كى روض الجنان فى تفسير القرآن'' بھى تاليف ہوئي_

ساتويں صدى ميں ابو عبداللہ محمد بن محمد انصارى خزرجى قرطبى كى تفسير '' الجامع لاحكام القرآن'' لكھى گئي آپ معروف مذہب مالكى كے علماء ميں سے تھے آٹھويں صدى ميں عبداللہ بن عمر بن محمد نے '' انوار التنزيل و اسرار التاويل '' تحرير كى _ دسويں صدى ہجرى ميں جلال الدين سيوطى نے '' الدر المنثور فى تفسير الماثور'' تاليف كى اور گيارہويں صدى ميں ملا محسن فيض كاشانى نے تفسير صافى تحرير كي_

تفسير كى تدوين كے آغاز سے چودھويں صدى تك تفسيرى آثار كے تاليف ميں اسلوب كے لحاظ سے واضح تبديلى مشاہدہ ميں نہيں آتى ليكن چودھويں صدى ميں تفسير الميزان كے مصنف جناب محمد حسين طباطبائي كے ذريعے تفسيرى اسلوب ميں انقلاب پيدا ہوا اس كتاب كا گذشتہ تفاسير پر امتياز يہ ہے كہ گذشتہ تفاسير ميں روش يہ تھى كہ كسى آيت كے دو يا تين معانى بيان ہوتے اور مختلف احتمالات نقل ہوتے ليكن آخر ميں حقيقى قول واضح اور روشن نہ ہوتا جبكہ تفسير الميزان جو كہ قرآن كى تفسيرقرآن سے كى تفسيرى روش پر لكھى گئي اسميں ديگر آيات كى مدد سے ايك آيت كے مختلف معانى ميں سے ايك معنى كو ترجيح دى گئي ہے _ عہد حاضر ميں تفسير

۸۹

الميزان تمام شيعہ تفاسير ميں سے اہم ترين اور جامع ترين تفسير ہونے كے ساتھ اماميہ كے ہاں مطلقاً اس صدى كى مشہور ترين تفسير بھى ہے(۱)

۳_ حديث

اسلامى فرقوں ميں شروع سے ہى حديث كى تدوين كے بارے ميں اختلاف نظر موجود تھا جبكہ شيعوں نے اسى زمانہ ميں حديث كى اہميت كو درك كرتے ہوئے كتابت كے ذريعے اس تاريخى ورثہ كو محفوظ كرنے كے ليے قدم اٹھايا _ جبكہ اہل سنت دوسرى صدى كے دوسرے نصف حصہ تك احاديث كا كوئي تدوين شدہ مجموعہ نہيں ركھتے تھے كيونكہ دوسرے خليفہ نے كتابت حديث سے منع كرديا تھا(۲)

سب سے پہلى كتاب حديث حضرت على بن ابيطالب نے تدوين كى كہ جو در حقيقت پيغمبر اكرم(ص) نے املا كروائي تھى _ بعض محققين كى تحقيق كے مطابق يہ كتاب امام باقر (ع) كے پاس موجود تھى اور آپ(ع) نے يہ '' حكم بن عتيبہ '' كو دكھائي تھى(۳) شيخ مفيد ، محقق حلى اور شہيد اول كے بقول امير المؤمنين (ع) كے دور سے امام حسن عسكرى (ع) كے زمانہ تك يعنى تيسرى صدى كے دوسرے نصف حصہ تك شيعوں نے حديث ميں چار سوكتب (اصول اربعہ مائة) تحرير كيں _

چوتھى صدى ہجرى سے شيعہ علماء نے حديث ميں چار اہم ترين كتب كى تدوين اور تاليف سے علم حديث كے ارتقا ميں انتہائي عظيم اور يادگار قدم اٹھايا جناب محمد بن يعقوب كلينى (متوفى ۳۲۹ قمري) نے '' الكافي'' تاليف كى _ محمد بن على بن بابويہ قمى جو كہ شيخ صدوق كے نام سے معروف ہيں انہوں نے كتاب '' من لا يحضرہ الفقيہ'' تحرير كى _ اور پانچويں صدى ہجرى ميں محمد بن حسن طوسى (متوفى ۴۶۰ قمري) نے دو كتابيں ''تہذيب

____________________

۱)سابقہ حوالہ _

۲)على بن حسام الدين متقى ، كنز العمال فى سنن الاقوال والافعال، بيروت ج۱ ص۱۷۴_

۳)سيد حسن صدر ، تاسيس الشيعة الكرام ، لفنون الالسلام ص ۲۷۹_

۹۰

اور استبصار '' تاليف كيں _

چھٹى صدى سے گيارہويں صدى تك علم حديث تقريبا جمود كا شكار رہا اسى ليے اس طويل دور ميں كچھ زيادہ احاديث كى تدوين شدہ كتب كا ہم مشاہدہ نہيں كرتے ليكن صفوى حكومت كے قيام سے دوبارہ اس علم كى طرف توجہ بڑھ گئي _ اس دور ميں ملا محسن فيض كاشانى نے ''الوافي'' محمد بن حسن حر عاملى نے '' وسائل الشيعہ'' اور علامہ مجلسى نے بحار الانوار كو تحرير كيا اور چودھويں صدى ميں بھى سيد حسين طباطبائي بروجردى نے ايك اہم كتب جامع الاحاديث الشيعہ فى احكام الشريعہ كو تاليف كيا_

دوسرى صدى سے چودھويں صدى تك علماء اہلسنت نے بھى علم حديث كے حوالے سے بہت سى كتابيں تاليف كيں كہ جن ميں سب سے زيادہ مشہور مندرجہ ديل ہيں : صحيح بخارى ، صحيح مسلم سنن ابن ماجہ، سنن ابو داؤد، سنن نسائي اور جامع ترمذى كہ يہ كتب '' صحاح ستہ''كے عنوان سے معروف ہيں يہ سب كتب تيسرى صدى ہجرى ميں تحرير و تاليف ہوئيں اسى طرح اہل سنت كے ديگر حديثى آثار ميں سے '' جامع الاساتيد تاليف ابو الفرج ابن جوزى (متوفى ۵۹۷ قمري) اور كتاب المنتقى فى اخبار مصطفى تاليف ابن تيميہ (متوفى ۶۵۲ قمري) قابل ذكر ہيں(۱)

۴ _ فقہ

الف) شيعہ فقہ :

مكتب شيعہ كا فقہى نظام گوناگوں ادوار سے گزرا، يہاں ہم اختصار سے ان ادوار اور ہر دو ر كے مشہورترين فقہا كا تعارف كرواتے ہيں :

۱_ آئمہ (ع) كا دور:اس دور ميں احكام شرع، فقہ اور اجتہاد كا اصلى محور آئمہ (ع) تھےانكا كا ايك اہم ترين كام امور شرعى ميں فكر اور استدلال كرنے كيلئے ميدان ہموار كرنا ہے اسى ليے بہت سے مقامات پر انہوں نے

____________________

۱)كاظم مدير شانہ چى ، علم الحديث ، مشہد ص ۶۸ ، ۷۰ اور قيس آل قيس الايرانيون و الادب العربى ج۲ _

۹۱

واضح طور پر اپنى ذمہ دارى اصول اور كلى قواعد بيان كرنا قرار دى اور ان قواعد كى مدد سے فرعى اور جزئي احكام نكالنے كى ذمہ دارى دوسرے لوگوں كے كندھوں پر چھوڑى(۱)

آئمہ كے پيروكاروں اور اصحاب ميں علمى اور بالخصوص كلامى مسائل ميں مختلف رجحانات ميں متكلمين ، محدثين كے رجحانات، عصمت يا علم غيب كا انكار يا اثبات اور امام كے علم كے حوالے سے مباحث اس دور كى خصوصيات ميں سے ہيں ، آئمہ كے بہت سے رفقاء جو ان كے نہايت قابل بھروسہ اصحاب ميں سے تھے متضاد عقائد ركھتے تھے(۲)

۲_ فقہ كى تدوين كا آغاز: اس دور ميں شيعہ مكتب كے پيروكاروں ميں فقہى حوالے سے تين بنيادى رجحانات ديكھنے ميں آتے ہيں : اہل حديث كا فكرى ميلان، كہ جو شدت كے ساتھ اجتہاد كے مخالف تھے اور فقہى احكام كو احاديث اور انكے نقل كرنے ميں محدود كرتے تھے مثلا جناب كلينى اور ابن بابويہ قمى(۳)

فقہ ميں اجتہاد كى طرف ميلان كہ اس گروہ كى رہبرى دو بزرگ علماء جناب ابن ابى عقيل عمانى(۴) اور جناب ابن جنيد اسكافى(۵) كررہے تھے ان دونوں كے فقہى نظريات ميں اساسى اختلاف(۶) كے باوجود

____________________

۱)محمد حسن حر عاملى ، وسائل الشيعہ قم ، آل البيت ج ۱۸ ص ۴۱_

۲)اس قسم كے فكرى اور نظرياتى اختلاف كى تشريح شيعہ رجالى كتب ميں موجود ہے مثلا محمد كشى كى ايك كتاب معرفة الرجال ، جو حسن مصطفوى كى كوشش سے نشر ہوئي ص ۸۰، ۲۷۹ ، ۴۸۳ ، ۴۸۸ ، ۹_۴۹۸، ۵۰۶_

۳)محدثين كے اس گروہ كى فقہ محض احاديث كے مجموعہ كى شكل ميں ہوتى تھا كہ جنہيں موضوع كے اعتبار سے ترتيب ديا جاتا تھا كبھى تو انكے مجموعے ميں احاديث كى سند بھى حذف كردى جاتى تھى مثلا جناب كلينى كى '' الكافى فى الفروع'' _

۴)انكى كتاب '' المستمسك حبل آل الرسول'' كہ جو چوتھى اور پانچويں صدى ميں مشہورترين فقہى منبع اور مرجع تھى رجوع كيجئے '' آقا بزرگ طہرانى _ الذريعہ'' ج ۱۹ ص ۶۹_

۵)جناب ابو على محمد بن احمد بن جنيہ الكاتب الاسكافى چوتھى صدى كے وسطى زمانہ كے عالم تھے انكى دو كتابوں كے نام '' تھذيب الشيعہ لاحكام الشريعہ اور والاحمدى فى الفقہ المحمدى '' ہيں _

۶)ابن عقيل متكلمين كى مانند خبر واحد كو حجت نہيں سمجھتے تھے _ جبكہ ابن جنيد اصحاب الحديث كى مانند ان احاديث كى حجيت كے قائل تھے رجوع كيجئے '' سيد حسين مدرسى طباطبائي ، مقدمہ اى بر فقہ شيعہ ، مترجم ص ۲ ۴۱ _

۹۲

ان دو بزرگوں كے فقہ پر عميق اثرات مرتب ہوئے _ تيسرا علمى رجحان متكلمين كى فقہ كى شكل ميں ہے جناب شيخ مفيد اس گروہ كى ممتاز شخصيات ميں سے ہيں(۱)

۳ _ تلفيق (آپس ميں ملانے ) كا دور: شيخ الطانفہ ابوجعفر محمد بن حسن طوسى(۲) نے فقہ ميں اہل حديث اور متكلمين كے رجحانات كو تلفيق كيا اور كوشش كى فقہ كے عقل سے مربوط پہلوؤں كو محفوظ ركھتے ہوئے احاديث كى حجيت ثابت كريں انہوں نے اپنے وسيع آثار و كتابوں كے ساتھ شيعہ فقہ ميں بہت سے نئے افق روشن كئے_ شيخ الطائفہ كى اہم فقہى آراء كا كے ان كے آثار ميں مطالعہ كيا جاسكتاہے (۱) النہاية فى مجرد الفقہ و الفتاوى (۲) المبسوط (۳) الاستبصار (۴) تہذيب الاحكام_ فقہ تفريعى اور فقہ تطبيقى كى تقسيم انكے ہى كارناموں ميں سے ہے _ يہ فقہى مكتب تين صديوں تك شيعہ دنيا پر حكمرانى كرتا رہا شيخ طوسى كے علاوہ اس دور كى اہم ترين شخصيات جناب قطب الدين راوندى(۳) اور ابن شہر آشوب ہيں(۴)

۴_مكتب تلفيقى پرتنقيد كا دور: شيخ طوسى كے سوسال بعد فقہاء كے ايك گروہ نے كوشش كى كہ متكلمين كے فقہى مكتب كو زندہ كيا جائے اس ليے انہوں شيخ طوسى كے مكتب تلفيق پر تنقيد كى اس دور كى مركزى شخصيت ابن ادريس حلى(۵) ہيں _

۵_مكتب تلفيق كى اصلاح اورارتقا كا دور: شيخ طوسى كى فقہ بے پناہ جدت كے باوجود نظم، ترتيب اور اصلاح كى محتاج تھى بالخصوص انكے مكتب كے ناقدين نے بہت زيادہ ان پر اعتراضات كيے تھے ،اسى بناء پر

____________________

۱) انہوں بہت شدت كے ساتھ ابن جنيد كى فقہى روش كا مقابلہ كيا رجوع كيجئے مثلا '' مفيد ، المسائل الصاغانيہ والمسائل السروية''_

۲)رجوع كيجئے محمد بن حسن طوسى '' الخلاف'' تہران _

۳)فقہ القرآن كى تصنيف كے علاوہ نہاية پر چند شروح بھى تحرير كيں _

۴)متشابہہ القرآن و مختلفہ كے مصنف _

۵)ابن ادريس كے حوالے سے رجوع كيجئے '' دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۲ ذيل ابن ادريس '' ص ۷۱۸_

۹۳

محقق حلى(۱) اور انكے عظيم شاگرد علامہ حلى(۲) نے اس حوالے سے وسيع پيمانے پر كوشش كيں _ ان دو بزرگوں كے فقہى آثار سے آج تك فقہى محققين بہرہ مند ہوتے ہيں سچى بات يہ ہے كہ اگر ان دو بلند مرتبہ فقہى شخصيات كى كوششيں نہ ہوتيں تو مكتب تلفيق گذشتہ دور ( مكتب تلفيق پر تنفيد كا دور ) ميں ہى فراموشى كے غبار كى نذر ہوجاتا _

۶_ شہيد اول كا دور: شہيد اول(۳) نے فقہى تفكر كو مرحلہ كمال تك پہچانے كيلئے كوشش كى اور فقہ شيعہ كيلئے ايسے اساسى اصول و قواعد تلاش كيے كہ جنكى بناء پر شيعہ فقہ نے اہل سنت كے فقہى مكاتب كى مدد كے بغير اپنى مستقل حيثيت كو تشكيل ديا _ اسى خصوصيت كى بناء پر انكے آثار اور تصنيفات گذشتہ فقہاء كے آثار سے ممتاز ہوئے انكے بعدكے علماء ڈيڑھ صدى سے زيادہ عرصہ تك ان كے پيروكار رہے_ اور اپنى فعاليت انكے آثار پر شرح تحرير كرنے تك محدود ركھى تھي_ اس مكتب كے معروف ترين فقيہ شہيد ثانى(۴) ہيں _

۷_ صفوى دور كى فقہ : يہ دور جو دسويں صدى سے بارھويں صدى تك جارى رہا اسميں تين رجحان سامنے آئے:

الف) محقق ثانى كى فقہ : محقق ثانى(۵) كى اہم فعاليت دو نكتوں ميں خلاصہ ہوتى ہے: فقہ كے قوى دلائل كومزيد مستحكم اور پائدار بنانا اور فقہ ميں حكومتى مسائل كى طرف توجہ مثلا فقيہ كے اختيارات كى حدود نماز جمعہ اور خراج كے متعلقہ مسائل و غيرہ ، محقق ثانى كے اپنے بعد والے فقہاء پر اثرات مكمل طور پر واضح ہيں _

____________________

۱)محسن امين حبل عاملى سابقہ ما خذج ۴ ص ۸۹_

۲)سابقہ ما خذج ۵ ص ص ۳۹۶ _

۳)سابقہ ما خذج ۱۰ ص ۵۹_

۴) سابقہ ماخذ ، ج۷، ص ۱۴۳_

۵) عباس قمى ، ہدية الاحباب ، تہران، ص ۲۵۴_

۶) احمد بن محمد اردبيلي، زبدة البيان، مقدمہ_

۹۴

۲) مقدس اردبيلى كى فقہ : مقدس اردبيلى(۶) نے اگر چہ فقہ ميں كوئي اساسى تبديل نہيں كى ليكن وہ دوسروں سے قطع نظر مخصوص روش كے حامل تھے انكى تحقيقات كى اہم خصوصيت يہ تھى كہ وہ گذشتہ فقہاء كے نظريات و آراء سے قطع نظر فقط اپنى اجتہادى روش اور اپنى نظر پر اعتماد كرتے تھے علمى مباحث ميں انكى شجاعت اور جدت باعث بنى كہ انكے بعد چند فقہاء نے انكى روش كو اختيار كيا _

ج)اخباريوں كى فقہ : اخباريوں كى تحريك كہ جو پانچويں صدى كے آغاز ميں متكلمين كى علمى كوششوں سے تقريباً ختم ہوچكى تھى گيارھويں صدى ميں محمد امين استر آبادى كے ذريعے دوبارہ زندگى ہوگئي(۱) اگر چہ اخبارى فقہاء نے چند دہائيوں تك ايران و عراق كے فقہى اور علمى مراكز پر قبضہ جماليا ليكن اس روش كے حامل مشہور فقہاء كى تعداد زياہ نہيں ہے_

۸ _ اصول كى اساس پر اجتہاد كى تجديد حيات : وحيد بہبہانى(۲) جو كہ بارھويں صدى ہجرى ميں فقہ كے نابغہ شمار ہوتے ہيں انہوں نے اپنى وسيع علمى تحقيقات سے اخباريوں كے اساسى قواعد سے مقابلہ كرتے ہوئے دوبارہ عقلى روش پر اجتہاد كو زندہ كيا _ انہوں نے فقہ، اصول فقہ كى اصلاح اور دقيق علمى تحقيقات كےساتھ كوشش كى كہ شيعہ فقہ كو ايك ترقى يافتہ ، پائدار ، منظم ،قانونى اور فقہى مكتب كى شكل ميں لے آئيں(۳) جناب وحيد كى اس كوشش اور فعاليت سے بڑھ كر انكى كاميابى يہ تھى كہ انہوں نے عظيم المنزلت فقہاء كى تربيت كى كہ جنہوں نے فقہى و اصولى اساس پر قيمتى آثار عرصہ وجود ميں لاكر انكى كوششوں اور ثمرات كو عظيم استحكام بخشا_

____________________

۱)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۱۰ ذيل امين استر آبادي_

۲) محمد باقر بن محمد اكمل كہ انكے آثار ميں سے ہے '' الفوائد الحايرية، شرح مفاتيح الشرائع_

۳)سيد حسين مدرسى طباطبائي ، سابقہ ما خذص ۶۰_

۹۵

ان ميں سے مشہورترين فقہاء مندرجہ ذيل ہيں :بحر العلوم(۱) شيخ جعفر كاشف الغطاء(۲) ، ملااحمد نراقي(۳) اور حسن ابن جعفر كاشف الغطاء(۴)

۹_ شيخ انصارى كا دور: شيخ مرتضى انصارى(۵) تيرھويں صدى كے سب سے بڑے نابغہ اور فقہ و اصول الفقہ ميں دقيق روشوں كو ايجاد كرنے والے تھے انكے دقيق و عميق روشوں نے فقہ ميں انقلاب بر پا كرديا _ انكے آثار ميں موجود فقہى مجموعہ ايسا دقيق و ظريف ہے كہ كلى طورپر ناسخ ماسبق ( گذشتہ فقہا كے استنباط كو منسوخ كرتا) ہے (-۶) انكا فقہى مكتب انكے زمانہ سے آج تك علمى اور فقہى مراكز پر غالب ہے كہ آج تك بڑى شخصيتوں كے پيدا ہونے كے باوجود انكے مكتب ميں بنيادى تبديلى نہ آسكى _ اس دور كے اہم ترين فقہاء مندرجہ ذيل ہيں :

ميرزاى شيرازى(۷) محمد كاظم خراسانى(۸)

____________________

۱)محمد مہدى بن مرتضى طباطبائي (متوفى ۱۲۱۲ قمري) صاحب تصنيف، المصابيح والدورة النجفية_

۲)كتاب '' كشف الغطاء عن مبھمات الشريعة الغراء كے مصنف انكى زندگى كے حوالے سے رجوع كيجئے '' محسن امين جبل عاملى ، سابقہ ما خذج ۴ ص ۹۹_

۳) كتاب '' مستند الشيعة ومناہج الاحكام'' كے مصنف انكى زندگى كے حوالے سے رجوع كيجئے : محسن امين جبل عاملي، سابقہ ماخذ ، ج۲، ص ۱۸۳_

۴)كتاب انوار الفقاھة كے مصنف رجوع كيجئے '' : محسن امين جبل عاملى ، سابقہ ما خذج ۳ ص ۳۵ ''_

۵)بہت سے فقہى آثار كے مصنف مثلا متاجر ، طہارة ، صلاة ، خمس اور بہت فقہى قواعد ، انكے بارے ميں رجوع كيجئے: محسن امين جبل عاملى ، سابقہ ما خذج ۱۰ ص ۱۱۷_

۶)سيد حسين مدرسى طباطبائي ، سابقہ ما خذص ۶۱_

۷)انكے درس فقہ كى تفصيل حسين بن اسماعيل رضوى كے واسطہ سے بنام '' القواعد الحسنية'' موجود ہے ، رجوع كريں ، آقا بزرگ طہرانى ،الذريعہ ج ۱۷ ص ۱۸۲_

۸)كتب '' تكملة التبصرة ، اللمعات النيرہ ، كتاب القضاء ( انكے دروس كى تفصيل انكے فرزند محمد المعروف آقا زادہ كے ذريعے معلوم ہوئي ) حاشيہ المكاسب كے مصنف ، جہاں بھى شيخ انصارى نے كوئي نظر دى ہے وہاں انہوں نے ان كى تنقيد كى ہے رجوع كيجئے محسن امين ، جبل عاملي، اصلى سابقہ ما خذج ۹ ص ۵_

۹۶

سيد محمد كاظم يزدى(۱) ، محمد حسين نائينى(۲) ، عبدالكريم حائرى يزدي(۳) سيد ابوالحسن اصفہانى(۴) سيد حسين طباطبائي بروجردى(۵) سيد محسن حكيم(۶) سيد ابوالقاسم موسوى خوئي(۷) اور امام خمينى(۸)

اين تمام بزرگوں نے دسيوں بلكہ سينكڑوں شاگردوں كى تربيت كى كہ پھر ان ميں سے ہر ايك نے موجود ہ دور ميں فقہ و فقاہت كے حوزہ ميں اہم خدمات انجام ديں ليكن قابل ذكر نكتہ يہ ہے كہ اگر چہ علماء و فقہاء كے نزديك مشہورنظريہ يہى ہے كہ مكتب شيعہ ميں باب اجتہاد كھلا ہوا ہے ليكن بہت كم ديكھا گياہے كہ يہ باب معاشرہ اور اسپر حاكم نظام پر باضابطہ صورت ميں كھلا ہو ورنہ بے ضابطہ صورت ميں اس كا كھلا ہونا قابل انكار نہيں ہے_

____________________

۱)مشہور كتاب '' العروة الوثقي'' كے مصنف رجوع كيجئے ، محسن امين جبل عاملى ، سابقہ ما خذج ۱۰ ص ۹۴۳_

۲)انكے آثار ميں سے '' قاعدہ لا ضرر اوررسالة فى اللباس الشكوك ہيں '' نيز انكے نماز كے متعلق فقہى درس كى تفصيل انكے د و برجستہ شاگردوں ميں محمد تقى آملى اور محمد على كاظمينى كے ذريعہ جبكہ انكے مكاسب كے حوالے انكے درس كى تفصيل محمد تقى آملى اور موسى خوانسارى كے ذريعے نشر ہوئي_

۳)انكے آثار ميں سے الصلاةہے نيز انكے نكاح كے حوالے سے فقہى درس كى تفصيل محمود آشتيانى كے ذريعے نشر ہوئي_

۴)مشہور كتاب ''وسيلةالنجاة'' كے مصنف ہيں امام خمينى كى كتاب تحرير الوسيلہ اسى كتاب پر نظر ثانى اور امام كى اپنى آراء كے مطابق تكميل ہے _

۵)انكے تمام آثار انكے فقہى دروس ہيں جو ہم تك پہنچے نہاية التقرير محمد موحدى لنكرانى كى ہمت سے ، البدر الزاہر فى صلاةالجمعة و المسافر حسين على منتظرى كے ذريعے اور زبدة المقال فى خمس النبى و الال عباس ابوترابى كى ہمت كے ساتھ نشر ہوئي_

۶)عروة الوثقى پر سب سے پہلى استدلالى شرح بنام مستمسك العروة الوثقى نيز نہج الفقاھة اور دليل الناسك كے مصنف ہيں _

۷)ان:كے درسوں كى مختلف افراد كے ذريعے تفصيل ہم تك پہنچى ہے '' التنقيح فى شرح العروة الوثقى '' على غروى تبريز ى كى كوشش كےساتھ ، دروس فى فقہ الشيعة مہدى خلخالى كى ہمت سے الدر الغوالى فى فروع العلم الاجمالى رضا لطفى كى كوشش كے ساتھ مستند العروة الوثقى مرتضى البروجردى كى كوشش كے ساتھ مصباح الفقاھة محمد على توحيد كى كوشش سے اور محاضرات فى الفقہ الجعفرى سيد على شاہرودى كى كوشش سے نشر ہوئيں _

۸)متعدد فقہى آثار كے مصنف ہيں مثلا كتاب الطہارة كہ جو تين جلدوں ميں ہے كتاب البيع كہ جو پانچ جلدوں ميں ہے المكاسب المحرمة جو كہ دو جلدوں ميں ہے _ تحرير الوسيلة دو جلد ہيں رسالة فى قاعدہ لا ضرر، رسالة فى التقية اوركتاب الخلل فى الصلاة_

۹۷

عہد حاضر كے معروف اصوليوں اور فقہاء ميں سے اور صاحب مكتب كہ جنہيں ايسا پہلا شيعى عالم كہا جاسكتاہو جنہوں نے علم اور اجتہاد كى قديم روايتى روش سے بہرہ مند ہوتے ہوئے بنيادى حقوق كے مفاہيم كے تعارف اورانہيں انكے صحيح مقام پر لانے كى كوشش كرنے كے ساتھ ساتھ'' فقہ حكومت ''پر بھى بحث كى ہو وہ مرحوم ميرزا محمد حسين نائينى ہيں انكى آرا ء ميں ''وجوب مقدمہ واجب ''كے نظريہ كے تحت مشروطيت كے قيام كو واجب قرار دينا ، علاوہ ازيں ايك اور فتوى ميں ٹيكس لينے والے يعنى حكومت كو ٹيكس دينے والے يعنى عوام كے مد مقابل جواب دہ ہونا شامل ہے_(۱)

عہد حاضر كے ديگر فقہاء ميں سے كہ جنہوں قديم روش كے مطابق فقہ كى حدود ميں رہتے ہوئے فقہ حكومت پر بہت زيادہ توجہ دى وہ امام خمينى ہيں انہوں نے اپنى كتاب '' ولايت فقيہ '' يا ''حكومت اسلامى ''ميں ولايت فقيہ كے نظريہ كو عظمت اور ترقى دى اور آخركار اس نظريہ كو عملى طور پر اجراء كيا _

اسى طرح ديگر مجتہدين ہيں ہے كہ جنہوں نے روايتى فقہ (قديمى روش اور قواعد پرمشتمل) كى حدود ميں رہتے ہوئے ''فقہ حكومت ''كو موضوع بحث بنايا شہيد سيد محمد باقر الصدر تھے كہ انكى حكومت سے متعلقہ مسائل ميں فقہ كے حوالے سے تخليقى اجتہادى آراء قابل توجہ ہيں(۲)

اسى بحث كے حوالے سے استاد شہيد مرتضى مطہرى جيسے بزرگان كى فعاليت سے غافل نہيں ہونا چاہيے كہ انہوں نے اسى روايتى روش اجتہاد كى روشنى ميں اپنے ہم عصروں سے بڑھ كر معاشرتى مسائل كى پيچيدگيوں اور الجھنوں كو حل كرنے كے طريقے بيان كيے اسى حوالے ان كا نظريہ تھا كہ كوئي شخص بھى اس وقت تك مقام اجتہاد پر فائز نہيں ہوسكتا جب تك وہ يہ اچھى طرح نہ جان لے كہ اسلام كى كائنات ، انسان ، معاشرے ، تاريخ

____________________

۱)مزيد معلومات كيلئے رجوع كريں ، ميرزا حسين نائني، تنبيہ الامة و تنزيہ الملة ، جعفر عبد الرزاق ، الدستور والبرلمان فى الفكر السياسى الشيعى ص ۴۸ ، ۴۷ _

۲)مزيد معلومات كيلئے رجوع كريں ، سيد محمد باقر الصدور الاسلام يقود الحياة_

۹۸

، اقتصاد ، سياست اور كے بارے ميں كيانظر ہے(۱)

ايسے فقہاء ميں مرحوم شيخ محمد مہدى شمس الدين بھى قابل ذكر ہيں كہ جنہوں نے اجمالى طور پر فقہ حكومت پر قابل توجہ بحث كى اور اس حوالے سے اپنى آراء ديں(۲)

ب) اہل سنت كى فقہ اور تغير و تبدل كے ادوار:

اہل سنت كى فقہ اور اسميں تبديلى كے چھ مراحل ہيں :

۱)پيغمبر (ص) كا زمانہ: شرعى نصوص تك براہ راست رسائي (اسلام كے آغاز سے گيارہ ہجرى تك )

۲)صحابہ كا دور: چونكہ براہ راست پيغمبر اكرم(ص) سے رابطہ رہا تھا لہذا آسانى سے ان سے قول نقل كيا كرتے تھے (گيارھويں ہجرى سے چاليسويں ہجرى تك)

۳)تابعين كا دور: انكا ايك واسطہ كے ذريعے پيغمبر اكرم(ص) سے رابطہ تھا لہذا ان سے قول نقل كيا كرتے تھے (چاليسويں ہجرى سے پہلى صدى كے تمام ہونے تك)

۴)چار اماموں كا دور يا فقہى مذاہب كى تشكيل كا دور( دوسرى صدى سے چوتھى صدى تك) _

۵)چار آئمہ كى تقليد كا دور (تيسرى صدى سے چودھويں صدى تك)

۶)جديد فقہى اورقانونى بيدارى اور اجتہادات كے دروازے كے كھلنے كادور(۳)

دراصل اہل سنت كى فقہ چار آئمہ كے ظہور اور فقہى مذاہب كى تشكيل سے مرحلہ كمال تك جاپہنچى اور گذشتہ ادوار اس دور كو وجود ميں لانے كا سبب بنے لہذا ان مذاہب كى تشكيل كيلئے راستہ ہموار ہوگيا _ تيسرے خليفہ

____________________

۱)رجوع كيجئے انكى كتابيں : نہضت ہاى صد سالہ اخير ، انتشارات صدرا ص ۷۵ _۷۱ دہ گفتار ، انتشارات صدرا ۱۲۰ _۱۲۱ ، تعليم و تربيت در اسلام ، انتشارات صدرا ص ۲۴ ، اسلام اور مقتضيات زمان ص ۲۳۲_

۲)انكى اس حوالے سے دو كتابيں مندرجہ ذيل ہيں نظام الحكم والادارة فى الاسلام، اور فى الاجتماع السياسى الاسلامى ، دار الثقافة للطباعة والنشر قم_

۳)محمد خضرى بيك ، تاريخ الشريع الاسلامى ، بنارس ص ۵_

۹۹

كے دور ہيں قرآن كريم كى جمع آورى ، دوسرى صدى سے احاديث كى جمع آورى كا آغاز، گوناگوں عقائد اور نظريات كا ظہور، مسلمانوں كى ديگر تہذيبوں سے آشنا ہونا كلام كے مكاتب كا وجود ميں آنا، حكومت كى توسيع اور اسكے اثرات اورقانون كى ضرورت ميں اضافہ و غيرہ يہ سب ان فقہى مذاہب كو وجود ميں لانے كا سبب بنيں(۱)

اہل سنت كے سب سے پہلے فقہى مكتب كو ابوحنيفہ (۱۵۰ _۸۰ قمري) نے تشكيل ديا(۲) يہ مكتب كہ جو بعد ميں حنفى كے عنوان سے مشہورہوا ، حكومت كے اسے سركارى طور پر قبول كرنے اور حنفى قاضيوں كے تمام اسلامى مناطق ميں بھيجنے سے يہ مكتب بہت سرعت كے ساتھ پھيلا(۳) عباسى خلفاء ، مھدى ، ہادى اور ہارون الرشيد نے قضاوت كے متعلق امور قاضى ابو يوسف كے سپرد كيے كہ جو ابوحنيفہ كے شاگرد اور حوارى تھے تو يہ شخص فقط ان لوگوں كو بہ عنوان قاضى كسى جگہ پر بھيجتا تھا جو حنفى فقہ كو قبول كرتے اور اسے لوگوں ميں پھيلاتے ، اسى ليے حنفى فقہ سب سے پہلے عراق، پھر مصر ، ماوراء النہر ، ايشائے كوچك اور ہند يہاں تك كہ چين تك پھيل گئي(۴)

مكتب ابوحنيفہ كے شاگرد اور تربيت يافتہ لوگوں نے حنفى فقہ كو وسعت دى ليكن بلا شبہ اس حوالے سے قاضى ابويوسف(۵) اور محمد بن حسن شيبانى(۶) كا سب سے زيادہ كردار ہے خود ابوحنيفہ كے علاوہ اس مكتب كے سب پروردہ لوگ در اصل فقہ حنفى كے فقط مروج اور شارح تھے اور انہوں نے ابوحنيفہ كے فقہى نظريات كے مد مقابل كوئي جدت لانے كى كوشش نہ كى _

اہل سنت كا دوسرا فقہى مذہب مالك بن انس(۷) (۱۷۹ _ ۹۳ قمري) كے ذريعے تشكيل پايا اور فقہ مالكي

____________________

۱)ابوالفضل عزتى ،پيدائشے و گسترش و ادوار حقوق اسلامى ، ص ۵۱_

۲)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۵ ذيل ''ابوحنيفہ'' ص ۳۷۹_

۳)بوجينا غيانہ ، تاريخ الدولة الاسلامية و تشريعہا ، بيروت ص ۱۷۳ ، قيس آل قيس ، الايرانيون و الادب العربي، تہران ج ۵ ص ۴_

۴)قيس آل قيس ، سابقہ ما خذص ۵_۴_

۵)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۶ ، ذيل ابويوسف_

۶)بوجينا غيانة، سابقہ ما خذص ۱۶۶_

۷)محمد ابوزھرة ، مالك ، حياتہ و عصرہ ، آرا وہ وفقھہ، قاہرة_

۱۰۰