۹۱
یہ دل بھی اسی طرح اکتا جاتے ہیں جس طرح بدن اکتا جاتے ہیں۔لہٰذا (جب ایسا ہوتو)ان کے لیے لطیف حکیمانہ نکات تلاش کرو۔
۹۲
وہ علم بہت بے قدروقیمت ہے جو زبان تک رہ جائے، اور وہ علم بہت بلند مرتبہ ہے جو اعضا و جوارح سے نمودار ہو.
۹۳
تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ “اے اللہ! میں تجھ سے فتنہ و آزمائش سے پناہ چاہتا ہوں اس لیے کہ کوئی شخص ایسا نہیں جو فتنہ کی لپیٹ میں نہ ہو، بلکہ جو پناہ مانگے وہ گمراہ کرنے والے فتنوں سے پناہ مانگے کیونکہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے اور اس بات کو جانے رہو کہ تمہارا مال اور اولاد فتنہ ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ لوگوں کومال اور اولاد کے ذریعے آزماتا ہے تاکہ یہ ظاہر ہو جائے کہ کون اپنی قسمت پر شاکرہے اگرچہ اللہ سبحانہ ان کو اتنا جانتا ہے کہ وہ خود بھی اپنے کو اتنا نہیں جانتے۔لیکن یہ آزمائش اس لیے ہے کہ وہ افعال سامنے آئیں جن سے ثواب و عذاب کا استحقاق پیدا ہوتا ہے کیونکہ بعض اولاد نرینہ کو چاہتے ہیں، اور لڑکیوں سے کبیدہ خاطر ہوتے ہیں اور بعض مال بڑھانے کو پسند کرتے ہیں اور بعض شکستہ حالی کو برا سمجھتے ہیں۔
۹۴
آپ سے دریافت کیا گیا کہ نیکی کیاچیز ہے توآپ نے فرمایا کہ نیکی یہ نہیں کہ تمہارے مال و اولاد میں فراوانی ہوجائے۔بلکہ خوبی یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ اور حلم بڑا ہو، اور تم اپنے پروردگار کی عباد ت پر ناز کرسکو اب اگر اچھا کام کرو۔تو اللہ کا شکر بجالاؤ، اور اگر کسی برائی کا ارتکاب کرو۔تو توبہ و استغفار کرو، اور دنیا میں صرف دو شخصوں کے لیے بھلائی ہے۔ایک و ہ جو گناہ کرے تو توبہ سے سے اس کی تلافی کرے اور دوسرا وہ جو نیک کام میں تیز گام ہو.
۹۵
جو عمل تقوی ٰ کے ساتھ انجام دیا جائے وہ تھوڑا نہیں سمجھا جاسکتا، اور مقبول ہونے والا عمل تھوڑ اکیونکر ہوسکتا ہے ؟
۹۶
انبیاء سے زیادہ خصوصیت ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو ان کی لائی ہوئی چیزوں کازیادہ علم رکھتے ہوں (پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی)ابراہیم سے زیادہ خصوصیت ان لوگوں کی تھی جو ان کے فرمانبردار تھے۔اور اب اس نبی اور ایمان لانے والوں کو خصوصیت ہے۔(پھرفرمایا)حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوست وہ ہے جو اللہ کی اطاعت کرے اگرچہ ان سے کوئی قرابت نہ رکھتا ہو، اور ان کا دشمن وہ ہے جو اللہ کی نافرمانی کرے، اگرچہ نزدیکی قرابت رکھتا ہو۔
۹۷
ایک خارجی کے متعلق آپ علیہ السّلام نے سنا کہ وہ نماز شب پڑھتا ہے اور قرآن کی تلاوت کرتا ہے توآپ نے فرمایا یقین کی حالت میں سونا شک کی حالت میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔
۹۸
جب کوئی حدیث سنو تو اسے عقل کے معیار پر پرکھ لو,صرف نقل الفاظ پر بس نہ کرو، کیونکہ علم کے نقل کرنے والے تو بہت ہیں اور اس میں غور کرنے والے کم ہیں۔
۹۹
ایک شخص کو انا للہ و انا الیہ راجعون,(ہم اللہ کے ہیں اور اللہ کی طرف پلٹنا ہے )کہتے سنا تو فرمایا کہ ہمارا یہ کہنا کہ “ہم اللہ کے ہیں “.اس کے مالک ہونے کا اعتراف ہے اور یہ کہنا کہ ہمیں اسی کی طرف پلٹنا ہے۔یہ اپنے لیے فنا کا اقرار ہے.
۱۰۰
کچھ لوگوں نے آپ علیہ السّلام کے روبرو آپ علیہ السّلام کی مدح و ستائش کی، تو فرمایا۔اے اللہ! تومجھے مجھ سے بھی زیادہ جانتا ہے، اور ان لوگوں سے زیادہ اپنے نفس کومیں پہچانتا ہوں۔اے خدا جو ان لوگوں کاخیال ہے ہمیں اس سے بہتر قرار دے اور ان (لغزشوں )کو بخش دے جن کا انہیں علم نہیں.
۱۰۱
حاجت روائی تین چیزوں کے بغیر پائدار نہیں ہوتی۔اسے چھوٹا سمجھاجائے تاکہ وہ بڑی قرار پائے اسے چھپایا جائے تاکہ وہ خود بخود ظاہر ہو، اور اس میں جلدی کی جائے تاکہ وہ خوش گوار ہوں۔
۱۰۲
لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جس میں وہی بارگاہوں میں مقرب ہوگا جو لوگوں کے عیوب بیان کرنے والا ہو, اور وہی خوش مذاق سمجھا جائے گا, جو فاسق و فاجر ہو اور انصا ف پسند کو کمزور و ناتواں سمجھا جائے گا صدقہ کو لوگ خسارہ اور صلہ رحمی کو احسان سمجھیں گے اور عبادت لوگوں پر تفو ق جتلانے کے لیے ہوگی۔ایسے زمانہ میں حکومت کا دارومدار عورتوں کے مشورے، نو خیز لڑکوں کی کار فرمائی اور خواجہ سراؤں کی تدبیر و رائے پر ہوگا.
۱۰۳
آپ کے جسم پر ایک بوسیدہ اور پیوند دار جامہ دیکھا گیا تو آپ سے اس کے بارے میں کہاگیا، آپ نے فرمایا !اس سے دل متواضع اور نفس رام ہوتا ہے اور مومن اس کی تاسی کرتے ہیں۔دنیا اورآخرت آپس میں دو ناساز گار دشمن اور دو جدا جدا راستے ہیں۔چنانچہ جو دنیا کو چاہے گا اور اس سے دل لگائے گا۔وہ دونوں بمنزلہ مشرق و مغرب کے ہیں اور ان دونوں سمتوں کے درمیان چلنے والا جب بھی ایک سے قریب ہوگا تو دوسرے سے دور ہونا پڑے گا۔پھر ان دونوں کا رشتہ ایسا ہی ہے جیسا دو سوتوں کاہوتا ہے۔
۱۰۴
نوف ابن فضالہ بکالی کہتے ہیں کہ میں نے ایک شب امیرالمومنین علیہ السلام کو دیکھاکہ وہ فرش خواب سے اٹھے ایک نظر ستاروں پر ڈالی اور پھر فرمایا اے نوف !سوتے ہو یا جاگ رہے ہو ؟میں نے کہا کہ یا امیرالمومنین علیہ السّلام جاگ رہا ہوں۔فرمایا ! اے نوف!
خوشانصیب ان کے کہ جنہوں نے دنیا میں زہد اختیار کیا، اور ہمہ تن آخرت کی طرف متوجہ رہے۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زمین کو فرش، مٹی کو بستر اور پانی کو شربت خوش گوار قرار دیا۔قرآن کو سینے سے لگایا اور دعا کو سپر بنایا. پھر حضرت مسیح کی طرح دامن جھاڑ کر دنیا سے الگ ہوگئے.
اے نوف ! داؤد علیہ السلام رات کے ایسے ہی حصہ میں اٹھے اور فرمایا کہ یہ وہ گھڑی ہے کہ جس میں بندہ جو بھی دعا مانگے مستجاب ہوگی سوا اس شخص کے جو سرکاری ٹیکس وصول کرنے والا، یا لوگوں کی برائیاں کرنے والا، یا ( کسی ظالم حکومت کی) پولیس میں ہو یا سارنگی یا ڈھول تاشہ بجانے والا ہو.
سید رضی کہتے ہیں کہ عرطبہ کے معنی سارنگی اورکوبہ کے معنی ڈھول کے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ عرطبہ کے معنی ڈھول اور کوبہ کے معنی طنبورہ کے ہیں۔
۱۰۵
اللہ نے چند فرائض تم پرعائد کئے ہیں انہیں ضائع نہ کرو۔اورتمہارے حدود کار مقرر کر دیئے گئے ہیں ان سے تجاوز نہ کرو.اس نے چند چیز وں سے تمہیں منع کیا ہے اس کی خلاف ورزی نہ کرو، اور جن چند چیزوں کا اس نے حکم بیان نہیں کیا، انہیں بھولے سے نہیں چھوڑ دیا.لہٰذا خواہ مخواہ انہیں جاننے کی کوشش نہ کرو.
۱۰۶
جو لوگ اپنی دنیا سنوارنے کے لیے دین سے ہاتھ اٹھالیتے ہیں تو خدا اس دنیاوی فائدہ سے کہیں زیادہ ان کے لیے نقصان کی صورتیں پیدا کردیتا ہے۔
۱۰۷
بہت سے پڑھے لکھوں کو (دین سے) بے خبری تباہ کردیتی ہے اورجوعلم ان کے پاس ہوتا ہے انہیں ذرا بھی فائدہ نہیں پہنچاتا۔
۱۰۸
اس انسان سے بھی زیادہ عجیب وہ گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جو اس کی ایک رگ کے ساتھ آویزاں کردیاگیا ہے اور وہ دل ہے جس میں حکمت و دانائی کے ذخیرے ہیں اور اس کے برخلاف بھی صفتیں پائی جاتی ہیں اگر اسے امید کی جھلک نظر آتی ہے تو طمع اسے ذلت میں مبتلا کر تی ہے اور اگر طمع ابھرتی ہے تو اسے حرص تباہ وبرباد کردیتی ہے۔اگر ناامیدی اس پر چھا جاتی ہے تو حسرت و اندوہ اس کے لیے جان لیوا بن جاتے ہیں اور اگر غضب اس پر طاری ہوتا ہے تو غم و غصہ شدت اختیار کرلیتا ہے اور اگر خوش و خوشنود ہوتا ہے تو حفظ ماتقدم کو بھول جاتاہے اور اگر اچانک اس پر خوف طاری ہوتاہے تو فکر و اندیشہ دوسری قسم کے تصورات سے اسے روک دیتا ہے۔اگر امن امان کا دور دورہ ہوتا ہے تو غفلت اس پر قبضہ کرلیتی ہے اور اگر مال دولتمند ی اسے سرکش بنادیتی ہے اور اگر اس پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو بے تابی و بے قرار ی اسے رسوا کر دیتی ہے۔اور اگر فقر و فاقہ کی تکلیف میں مبتلا ہو۔تو مصیبت و ابتلاء اسے جکڑلیتی ہے اور اگر بھوک اس پر غلبہ کرتی ہے۔ ناتوانی اسے اٹھنے نہیں دیتی اور اگر شکم پری بڑھ جاتی ہے تو یہ شکم پری اس کے لیے کرب و اذیت کا باعث ہوتی ہے کوتاہی اس کے لیے نقصان رساں اور حد سے زیادتی اس کے لیے تباہ کن ہوتی ہے۔
۱۰۹
ہم (اہلبیت )ہی وہ نقطہ اعتدال ہیں کہ پیچھے رہ جانے والے کو اس سے آکر ملنا ہے اور آگے بڑھ جانے والے کو اس کی طرف پلٹ کر آنا ہے۔
۱۱۰
حکم خدا کا نفاذ وہی کر سکتا ہے جو (حق معاملہ میں) نرمی نہ برتے عجز و کمزوری کا اظہار نہ کرے اور حرص و طمع کے پیچھے نہ لگ جائے۔
۱۱۱
سہل ابن حنیف انصار ی حضرت کو سب لوگو ں میں زیادہ عزیز تھے یہ جب آپ کے ہمراہ صفین سے پلٹ کر کوفہ پہنچے تو انتقال فرماگئے جس پر حضرت نے فرمایا.
اگر پہاڑبھی مجھے دوست رکھے گا تووہ بھی ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔
۱۱۲
جو ہم اہل بیت سے محبت کرے اسے جامہ فقر پہننے کے لیے آمادہ رہناچاہیے۔
۱۱۳
عقل سے بڑھ کر کوئی مال سود مند اور خود بینی سے بڑھ کر کوئی تنہائی وحشتناک نہیں اور تدبر سے بڑھ کر کوئی عقل کی بات نہیں اور کوئی بزرگی تقویٰ کے مثل نہیں اور خوش خلقی سے بہتر کوئی ساتھی اور ادب کے مانند کوئی میراث نہیں اور توفیق کے مانند کوئی پیشرو اور اعمال خیر سے بڑھ کر کوئی تجارت نہیں اور ثواب کا ایسا کوئی نفع نہیں اور کوئی پرہیز گاری شبہات میں توقف سے بڑھ کر نہیں اور حرام کی طرف بے رغبتی سے بڑھ کر کوئی زہد اور تفکر اور پیش بینی سے بڑھ کر کوئی علم نہیں اور ادائے فرائض کے مانند کوئی عبادت اور حیا و صبر سے بڑھ کر کوئی ایمان نہیں اور فروتنی سے بڑھ کر کوئی سرفرازی نہیں اور علم کے مانند کوئی بزرگی وشرافت نہیں حلم کے مانند کوئی عزت اور مشورہ سے مضبوط کوئی پشت پناہ نہیں
۱۱۴
جب دنیا اور اہل دنیا میں نیکی کا چلن ہو، اور پھر کوئی شخص کسی ایسے شخص سے کہ جس سے رسوائی کی کوئی بات ظاہر نہیں ہوئی سؤِ ظن رکھے تو اس نے اس پر ظلم و زیادتی کی اور جب دنیا واہل دنیا پر شر و فساد کا غلبہ ہو اور پھر کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے حسن ظن رکھے تو اس نے (خود ہی اپنے کو ) خطرے میں ڈالا.
۱۱۵
امیر المومنین علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ آپ علیہ السّلام کا حال کیسا ہے ؟ تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا کہ ا س کا حال کیا ہوگا جسے زندگی موت کی طرف لیے جارہی ہو، اور جس کی صحت بیماری کا پیش خیمہ ہو اور جسے اپنی پناہ گاہ سے گرفت میں لے لیا جائے۔
۱۱۶
کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں نعمتیں دے کر رفتہ رفتہ عذاب کا مستحق بنایا جاتا ہے اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی پردہ پوشی سے دھوکا کھائے ہوئے ہیں اور اپنے بارے میں اچھے الفاظ سن کر فریب میں پڑ گئے ہیں اور مہلت دینے سے زیادہ اللہ کی جانب سے کوئی بڑی آزمائش نہیں ہے۔
۱۱۷
میرے بارے میں دو قسم کے لوگ تباہ و برباد ہوئے۔ایک وہ چاہنے والا جو حد سے بڑھ جائے اور ایک وہ دشمنی رکھنے والا جو عداوت رکھے۔
۱۱۸
موقع کو ہاتھ سے جانے دینا رنج و اندوہ کا باعث ہوتا ہے۔
۱۱۹
دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے جو چھونے میں نرم معلوم ہوتا ہے مگر اس کے اندر زہر ہلاہل بھرا ہوتا ہے، فریب خوردہ جاہل اس کی طرف کھینچتا ہے اور ہوشمند و دانا اس سے بچ کر رہتا ہے۔
۱۲۰
حضرت سے قریش کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ (قبیلہ)بنی مخزوم قریش کا مہکتا ہوا پھول ہیں، ان کے مردوں سے گفتگو اور ان کی عورتوں سے شادی پسندیدہ ہے اور بنی عبد شمس دور اندیش اور پیٹھ پیچھے کی اوجھل چیزوں کی پوری روک تھا م کرنے والے ہیں لیکن ہم (بنی ہاشم )توجو ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے اسے صرف کر ڈالتے ہیں، اور موت آنے پر جان دیتے ہیں۔ بڑے جوانمرد ہوتے ہیں اور یہ بنی (عبد شمس )گنتی میں زیادہ حیلہ باز اور بدصورت ہوتے ہیں اور ہم خوش گفتار خیر خواہ اور خوب صورت ہوتے ہیں۔