اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ

اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ0%

اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
زمرہ جات: مشاہدے: 42530
ڈاؤنلوڈ: 4283

تبصرے:

اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 41 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42530 / ڈاؤنلوڈ: 4283
سائز سائز سائز
اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ

اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱۲۱

ان دونوں قسم کے عملوں میں کتنا فرق ہے ایک وہ عمل جس کی لذت مٹ جائے لیکن اس کا وبال رہ جائے اور ایک وہ جس کی سختی ختم ہوجائے لیکن اس کا اجر وثواب باقی رہے

۱۲۲

حضرت ایک جنازہ کے پیچھے جارہے تھے کہ ایک شخص کے ہنسنے کی آواز سنی جس پر آپ نے فرمایا.

گویا اس دنیا میں موت ہمارے علاوہ دوسروں کے لیے لکھی گئی ہے او رگویا یہ حق (موت )دوسروں ہی پر لاز م ہے اور گویا جن مرنے والوں کو ہم دیکھتے ہیں ,وہ مسافر ہیں جو عنقریب ہماری طرف پلٹ آئیں گے .ادھر ہم انہیں قبروں میں اتارتے ہیں ادھر ان کا ترکہ کھانے لگتے ہیں گویا ان کے بعد ہم ہمیشہ رہنے والے ہیں .پھر یہ کہ ہم نے ہر پندو نصیحت کرنے والے کو وہ مرد ہو یا عور ت بھلا دیا ہے اور ہر آفت کا نشانہ بن گئے ہیں

۱۲۳

خوشانصیب اس کے کہ جس نے اپنے مقام پر فروتنی اختیا ر کی جس کی کمائی پاک و پاکیزہ نیت نیک اورخصلت و عادت پسندیدہ رہی جس نے اپنی ضرورت سے بچا ہو امال خداکی راہ میں صرف کیا بے کار باتوں سے اپنی زبان کو روک لیا ,مردم آزادی سے کنارہ کش رہا ,سنت اسے ناگوار نہ ہوئی اور بدعت کی طرف منسوب نہ ہوا

سید رضی کہتے ہیں

کہ کچھ لو گوں نے اس کلام کو اور اس سے پہلے کلام کو رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے

۱۲۴

عورت کا غیر ت کر نا کفر ہے ,اور مرد کا غیور ہونا ایمان ہے

مطلب یہ ہے کہ جب مر دکو چار عورتیں تک کر نے کی اجازت ہے تو عورت کا سوت گوارا نہ کر نا حلال خدا سے ناگواری کا اظہار اور ایک طرح سے حلال کو حرام سمجھنا ہے اور یہ کفر کے ہمپایہ ہے ,اور چونکہ عورت کے لیے متعدد شوہر کرنا جائز نہیں ہے ,اس لیے مرد کا اشتراک گوارا نہ کرنا اس کی غیرت کا تقاضا اور حرام خدا کو حرام سمجھنا ہے اور یہ ایمان کے مترادف ہے

مردوعورت میں یہ تفریق اس لیے ہے تاکہ تولید و بقائے نسل انسانی میں کوئی روک پیدا نہ ہو ,کیونکہ یہ مقصد اسی صورت میں بدرجہ اتم حاصل ہوسکتا ہے جب مرد کے لیے تعددازواج کی اجازت ہو ,کیونکہ ایک مرد سے ایک ہی زمانہ میں متعدد اولادیں ہوسکتی ہیں اور عور ت اس سے معذورو قاصر ہے کہ وہ متعدد مردوں کے عقد میں آنے سے متعدد اولادیں پیدا کرسکے .کیونکہ زمانہ حمل میں دوبارہ حمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا .اس کے علاوہ اس پر ایسے حالات بھی طاری ہوتے رہتے ہیں کہ مرد کو اس سے کنارہ کشی اختیا ر کرنا پڑتی ہے چنانچہ حیض اور رضاعت کا زمانہ ایساہوتاہی ہے جس سے تولید کا سلسلہ رک جاتا ہے اور اگرمتعدد ازواج ہونگی تو سلسلہ تولید جاری رہ سکتا ہے کیونکہ متعدد بیویوں میں سے کوئی نہ کوئی بیوی ان عوارض سے خالی ہوگی جس سے نسل انسانی کی ترقی کا مقصد حاصل ہوتا رہے گا کیونکہ

مرد کے لیے ایسے مواقع پیدا نہیں ہوتے کہ جو سلسلہ تولید میں روک بن سکیں .اس لیے خدا وند عالم نے مردوں کے لیے تعدد ازواج کو جائز قرار دیا ہے ,اور عورتوں کے لیے یہ صورت رکھی کہ وہ بوقت واحد متعدد مردوں کے عقد میں آئیں .کیونکہ ایک عورت کا کئی شوہر کرنا غیرت و شرافت کے بھی منافی ہے اور اس کے علاوہ ایسی صورت میں نسب کی بھی تمیز نہ ہوسکے گی کہ کون کس کی صلب سے ہے چنانچہ امام رضا علیہ السلام سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کہ مر دایک وقت میں چار بیویا ںتک کر سکتا ہے اور عورت ایک وقت میں ایک مرد سے زیادہ شوہر نہیں کرسکتی

حضرت نے فرمایا کہ مرد جب متعدد عورتوں سے نکاح کر ے گا تو اولاد بہرصورت اسی کی طرف منسوب ہوگی اور اگر عورت کے دو ۲یا دو سے زیادہ شوہر ہوں گے تو یہ معلوم نہ ہوسکے گا کہ کو ن کس کی اولاد اور کس شوہر سے ہے لہٰذا یسی صورت میں نسب مشتبہ ہو کر رہ جائے گا اور صحیح باپ کی تعیین نہ ہوسکے گی .اور امر اس مولود کے مفاد کے بھی خلاف ہوگا .کیونکہ کوئی بھی بحیثیت باپ کے اس کی تربیتکی طرف متوجہ نہ ہوگا جس سے وہ اخلاق و آداب سے بے بہرہ اور تعلیم و تربیت سے محروم ہوکر رہ جائے گا

۱۲۵

میں اسلام کی ایسی صحیح تعریف بیان کر تا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نے بیان نہیں کی .اسلام سر تسلیم خم کر نا ہے اور سر تسلیم جھکانا یقین ہے اور یقین تصدیق ہے اور تصدیق اعتراف فرض کی بجاآوری ہے اور فرض کی بجاآوری عمل ہے

۱۲۶

مجھے تعجب ہوتا ہے بخیل پر کہ وہ جس فقرو ناداری سے بھاگنا چاہتا ہے ,ا س کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے اور جس ثروت و خوش حالی کا طالب ہوتا ہے وہی اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے وہ دنیا میں فقیروں کی سی زندگی بسر کرتا ہے اورآخرت میں دولت مندوں کا سا اس سے محاسبہ ہوگا ,اور مجھے تعجب ہوتا ہے .متکبر و مغرور پر کہ جس کل ایک نطفہ تھا ,او ر کل کو مردا ر ہوگا .اور مجھے تعجب ہے اس پر جو اللہ کی پیدا کی ہوئی کائنات کو دیکھتا ہے اورپھر اس کے وجود میں شک کرتا ہے اور تعجب ہے اس پر جو مرنے والوں کو دیکھتا ہے اور پھر موت کو بھولے ہوئے ہے .اور تعجب ہے اس پر کہ جو پہلی پیدائش کو دیکھتا ہے اور پھر دوبارہ اٹھاءے جانے سے انکار کرتاہے اور تعجب ہے ا س پر جو سرائے فانی کو آباد کرتا ہے اور منزل جاودانی کو چھوڑ دیتا ہے

۱۲۷

جو عمل میں کوتاہی کرتا ہے ,وہ رنج و اندوہ میں مبتلا رہتا ہے اور جس کے مال و جان میں اللہ کا کچھ حصہ نہ ہو اللہ کو ایسے کی کوئی ضرورت نہیں

۱۲۸

شروع سردی میں سردی سے احتیاط کرو اور آخر میں اس کاخیر مقدم کر و ,کیونکہ سردی جسموں میں وہی کرتی ہے ,جو وہ درختو ں میں کرتی ہے کہ ابتدائ میں درختوں کو جھلس دیتی ہے ,اور انتہا میں سرسبز و شاداب کرتی ہے.

موسم خزاں میں سردی سے بچاؤاس لیے ضروری ہے کہ موسم کی تبدیلی سے مزاج میں انحراف پیدا ہوجاتا ہے ,اور نزلہ و زکام اور کھانسی وغیرہ کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے .وجہ یہ ہوتی ہے کہ بد ن گرمی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں کہ ناگا ہ سردی سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس سے دماغ کے مسامات سکڑجاتے ہیں ,اور مزاج میں برودت و پیوست بڑھ جاتی ہے چنانچہ گرم پانی سے غسل کرنے کے بعد فورا ًٹھنڈے پانی سے نہانا اسی لیے مضر ہے کہ گرم پانی سے مسامات کھل چکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ پانی کے اثرات کو فوراًقبول کرلیتے ہیں

اور نتیجہ میں حرارت غریزی کو نقصان پہنچتا ہے البتہ موسم بہار میں سردی سے بچاؤ کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ وہ صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے کیونکہ پہلے ہی سے سردی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں اس لیے بہار کی معتدل سردی بدن پر ناخوشگوار اثرنہیں ڈالتی ,بلکہ سردی کا زور ٹوٹنے سے بدن میں حرارت و رطوبت بڑھ جاتی ہے جس سے نشوونما میں قوت آتی ہے ,حرارت غزیری ابھرتی ہے اور جسم میں نمو طبیعت میں شگفتگی اور روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے

اسی طرح عالم نباتا ت پر بھی تبدیلی موسم کا یہی اثر ہوتا ہے چنانچہ موسم خزاں میں برودت و پیوست کے غالب آنے سے پتے مرجھا جاتے ہیں روح نباتاتی افسردہ ہو جاتی ہے ,چمن کی حسن و تازگی مٹ جاتی ہے اور سبزہ زاروں پر موت کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور موسم بہار ان کے لیے زندگی کا پیغام لے کر آتا ہے او ربار آور ہواؤں کے چلنے سے پتے اور شگوفے پھوٹنے لگتے ہیں اور شجر سر سبز و شاداب اور دشت و صحرا سبزہ پوش ہوجاتے ہیں

۱۲۹

اللہ کی عظمت کا احساس تمہاری نظروں میں کائنات کو حقیر و پست کردے.

۱۳۰

صفین سے پلٹتے ہوئے کوفہ سے باہر قبرستان پر نظر پڑی تو فرمایا:

اے وحشت افزا گھروں ,اجڑے مکانوں اور اندھیری قبروں کے رہنے والو!اے خاک نشینو !اے عالم غربت کے ساکنوں اے تنہائی اور الجھن میں بسر کرنے والو !تم تیز رو ہو جو ہم سے آگے بڑھ گئے ہو اور ہم تمہارے نقش قدم پر چل کر تم سے ملا چاہتے ہیں .اب صورت یہ ہے کہ گھروں میں دوسرے بس گئے ہیں بیویوں سے اوروں نے نکاح کر لیے ہیں اور تمہار ا مال و اسباب تقسیم ہوچکا ہے یہ تو ہمارے یہاں کی خبر ہے .اب تمہارے یہاں کی کیا خبر ہے.

(پھر حضرت اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا)اگر انہیں بات کرنے کی اجازت دی جائے .تو یہ تمہیں بتائیں گے کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے

۱۳۱

ایک شخص کو دنیا کی برائی کرتے ہوئے سنا تو فرمایا !اے دنیا کی برائی کرنے والے اس کے فریب میں مبتلا ہو نے والے !اور غلط سلط باتوں کے دھوکے میں آنے والے !تم اس پر گرویدہ بھی ہوتے ہو ,اور پھر اس کی مذمت بھی کرتے ہو .کیا تم دنیا کو مجرم ٹھہرنے کا حق رکھتے ہو؟یا وہ تمہیں مجرم ٹھہرائے تو حق بجانب ہے ؟دنیا نے کب تمہارے ہوش وحواس سلب کئے اور کس بات سے فریب دیا ؟کیا ہلاکت و کہنگی سے تمہارے باپ دادا کے بے جان ہو کر گر نے سے یا مٹی کے نیچے تمہاری ماؤں کی خواب گاہوں سے ؟کتنی تم نے بیماروں کی دیکھ بھال کی ,اور کتنی دفعہ تو خود تیمار دار ی کی اس صبح کو کہ جب نہ دوا کارگر ہوتی نظر آتی تھی ,اور نہ تمہارا رونا دھونا ان کے لیے کچھ مفید تھا تم ان کے لیے شفا کے خواہشمند تھے اور طبیبوں سے دوا دارو پوچھتے پھرتے تھے ان میں سے کسی ایک کے لیے بھی تمہارا اندیشہ فائدہ مند ثابت نہ ہو سکا اور تمہارا اصل مقصد حاصل نہ ہوا اوراپنی چارہ سازی سے تم موت کو ا س بیمار سے نہ ہٹا سکے تو دنیا نے تو اس کے پردے میں خود تمہار ا انجا م اور اس کے ہلاک ہونے سے خود تمہاری ہلاکت کا نقشہ تمہیں دکھایا دیا بلاشبہ دنیا اس شخص کے لیے جو باور کرے ,سچائی کا گھر ہے اور جو اس کی ان باتوں کو سمجھے اس کے لیے امن و عافیت کی منزل ہے اور اس سے زادراہ حاصل کرلے ,اس کے لیے دولتمندی کی منزل ہے اور جو اس سے نصیحت حاصل کر ے ,اس کے لیے وعظ ونصیحت کا محل ہے .وہ دوستان خدا کے لیے عبادت کی جگہ ,اللہ کے فرشتوں کے لیے نماز پڑھنے کا مقام وحی الہی کی منزل اور اولیاء اللہ کی تجارت گاہ ہے انہوں نے اس میں فضل و رحمت کا سودا کیا اور اس میں رہتے ہوئے جنت کو فائدہ میں حاصل کیا تو اب کون ہے جو دنیا کی برائی کرے ,جب کہ اس نے اپنے جدا ہونے کی اطلاع دے دی ہے چنانچہ اس نے اپنی ابتلاء سے ابتلائ کا پتہ دیا ہے اور اپنی مسرتوں سے آخرت کی مسرتو ں کا شوق دلایا ہے ,وہ رغبت دلانے اور ڈرانے خوفزدہ کرنے اور متنبہ کرنے کے لیے شام کو امن و عافیت کا اور صبح کو درد و اندوہ کا پیغام لے کر آتی ہے توجن لوگوں نے شرمسار ہوکر صبح کی وہ اس کی برائی کرنے لگے .اور دوسرے لوگ قیامت کے دن اس کی تعریف کریں گے کہ دنیا نے ان کو آخرت کی یاد دلائی تو انہو ں نے یاد رکھا اور اس نے انہیں خبر دی تو انہوں نے تصدیق کی اور اس نے انہیں پند و نصیحت کی تو انہوں نے نصیحت حاصل کی

ہر متکلم و خطیب کی زبان منجے ہوئے موضوع پر زور بیان دکھایاکرتی ہے اور اگر سے موضوع سخن بدلنا پڑے تو نہ ذہن کا م کرے گا اور نہ زبان کی گویائی ساتھ دے گی ,مگر جس کے ذہن میں صلاحیت تصرف اور دماغ میں قوت و فکر ہو ,وہ جس طرح چاہے کلام کو گردش دے سکتا ہے اور جس موضوع پر چاہے “قادر الکلامی”کے جو ہر دکھاسکتا ہے .چنانچہ وہ زبان جو ہمیشہ دنیا کی مذمت اور اس کی فریب کار یوں کو بے نقاب کرنے میں کھلتی تھی جب اس کی مدح میں کھلتی ہے تو وہی قدرت کلام و قوت استدلال نظر آتی ہے جو اس زبان کا طرہ امتیاز ہے اور پھر الفاظ کو توصیفی سانچہ میں ڈھالنے سے نظر یہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہو تی اور راہوں کے الگ الگ ہونے کے با وجود منزلگہ مقصود ایک ہی رہتی ہے

۱۳۲

اللہ کا ایک فرشتہ ہر روز یہ ندا کر تا ہے .کہ موت کے لیے اولاد پیدا کرو ,برباد ہونے کے لیے جمع کرو اور تباہ ہونے کے لیے عمارتیں کھڑی کرو

۱۳۳

“دنیا “اصل منز ل قرار کے لیے ایک گزرگاہ ہے .اس میں دو ۲قسم کے لوگ ہیں :ایک وہ جنہوں نے اس میںاپنے نفس کو بیچ کر ہلاک کر دیا اورایک وہ جنہوں نے اپنے نفس کو خریدکرآزاد کردیا.

۱۳۴

دوست اس وقت تک دوست نہیں سمجھا جاسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کی تین موقعوں پر نگہداشت نہ کرے , مصیبت کے موقع پر اس کے پس پشت اور اس کے مرنے کے بعد :.

۱۳۵

جس شخص کو چار چیزیں عطا ہوئی ہیں وہ چار چیزوں سے محروم نہیں رہتا ,جو دعا کرے وہ قبولیت سے محروم نہیں ہوتا جسے توبہ کی توفیق ہو ,وہ مقبولیت سے ناامید نہیں ہوتا جسے استغفار نصیب ہو وہ مغفرت سے محروم نہیں ہوتا .اور جوشکرکرے وہ اضافہ سے محروم نہیں ہوتا اور اس کی تصدیق قرآن مجید سے ہوتی ہے .چنانچہ دعا کے متعلق ارشاد الہی ہے:تم مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا قبول کروںگا .اور استغفار کے متعلق ارشاد فرمایا ہے .جو شخص کوئی برا عمل کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت کی دعا مانگے تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا .اور شکر کے بارے میں فرمایا ہے اگر تم شکر کرو گے تو میں تم پر (نعمت میں )اضافہ کروں گا .اور توبہ کے لیے فرمایا ہے .اللہ ان ہی لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے جو جہالت کی بناء پر کوئی بری حرکت نہ کر بیٹھیں پھر جلدی سے توبہ کر لیں تو خدا ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور خدا جاننے والا اور حکمت والاہے

۱۳۶

نماز ہر پرہیز گار کے لیے باعث تقرب ہے اور حج ہر ضعیف و ناتواں کا جہاد ہے .ہر چیز کی زکوٰۃ ہوتی ہے ,اور بدن کی زکوٰۃ روزہ ہے اور دعوت کا جہاد شوہر سے حسن معاشرت ہے

۱۳۷

صدقہ کے ذریعہ روزی طلب کرو

۱۳۸

جسے عوض کے ملنے کا یقین ہو وہ عطیہ دینے میں دریا دلی دکھاتا ہے

۱۳۹

جتنا خرچ ہو .اتنی ہی امداد ملتی ہے

۱۴۰

جو میانہ روی اختیار کرتاہے وہ محتاج نہیں ہوتا

۱۴۱

متعلقین کی کمی دو قسموں میں سے ایک قسم کی آسودگی ہے

۱۴۲

میل محبت پیدا کر نا عقل کا نصف حصہ ہے

۱۴۳

غم آدھا بڑھاپا ہے

۱۴۴

مصیبت کے اندازہ پر اللہ کی طرف صبر کی ہمت حاصل ہوتی ہے .جو شخص مصیبت کے وقت ران پر ہاتھ مارے اس کا عمل اکارت ہوجاتا ہے

۱۴۵

بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزوں کا ثمرہ بھوک پیاس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا اور بہت سے عابد شب زندہ دار ایسے ہیں جنہیں عبادت کے نتیجہ میں جاگنے اور زحمت اٹھانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا .زیرک و دانا لوگوں کا سونا اور روزہ نہ رکھنا بھی قابل ستائش ہوتا ہے.

۱۴۶

صدقہ سے اپنے ایمان کی نگہداشت کرو ,او ر دعا سے مصیبت و ابتلائ کی لہروں کو دور کرو

۱۴۷

کمیل ابن زیاد نخعی کہتے ہیں کہ :

امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا اور قبر ستان کی طرف لے چلے جب آبادی سے باہر نکلے تو ایک لمبی آہ کی .پھر فرمایا:

اے کمیل !یہ دل اسرار و حکم کے ظروف ہیں ان میں سب سے بہتر وہ ہے جو زیادہ نگہداشت کرنے والا ہو .لہٰذا تو جو میں تمہیں بتاؤں اسے یاد رکھنا

دیکھو!تین قسم کے لو گ ہوتے ہیں ایک عالم ربانی دوسرا متعلم کہ جو نجات کی راہ پر برقرار رہے اور تیسرا عوام الناس کا وہ پست گروہ ہے کہ جو ہر پکارنے والے کے پیچھے ہولیتا ہے اور ہر ہو اکے رخ پر مڑ جاتا ہے .نہ انہوں نے نور علم سے کسب ضیا کیا ,نہ کسی مضبوط سہارے کی پناہ لی

اے کمیل !یا د رکھو,کہ علم مال سے بہتر ہے (کیونکہ)علم تمہاری نگہداشت کرتا ہے اورمال کی تمہیں حفاظت کرنا پڑتی ہے اور مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے لیکن علم صرف کرنے سے بڑھتا ہے ,اورمال و دولت کے نتائج و اثرات مال کے فنا ہونے سے فنا ہوجاتے ہیں

اے کمیل !علم کی شناسائی ایک دین ہے کہ جس کی اقتدا کی جاتی ہے اسی سے انسان اپنی زندگی میں دوسروں سے اپنی اطاعت منواتا ہے اور مرنے کے بعد نیک نامی حاصل کرتا ہے .یاد رکھو کہ علم حاکم ہو تا ہے اور مال محکوم

اے کمیل !مال اکٹھا کرنے والے زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہوتے ہیں اور علم حاصل کرنے والے رہتی دنیا تک باقی رہتے ہیں , بے شک ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں .مگر ان کی صورتیں دلوں میں موجود رہتی ہیں (اس کے بعد حضرت نے اپنے سینہ اقدس کی طر ف اشارہ کیا اورفرمایا)دیکھو!یہاں علم کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے کا ش اس کے اٹھانے والے مجھے مل جاتے ,ہاں ملا ,کوئی تو,یا ایسا جو ذہین تو ہے مگر ناقابل اطمینان ہے اور جودنیا کے لیے دین کو آلہ کا ر بنا نے والاہے اور اللہ کی ان نعمتوں کی وجہ سے اس کے بندوں پر اور اس کی حجتوں کی وجہ سے اس کے دوستوں پر تفوق و برتری جتلانے والا ہے .یا جو ارباب حق و دانش کا مطیع توہے مگر اس کے دل کے گوشوں میں بصیرت کی روشنی نہیں ہے ,بس ادھر ذرا سا شبہہ عارض ہو ا کہ اس کے دل میں شکوک و شبہات کی چنگاریاں بھڑکنے لگیں تو معلوم ہونا چاہیے کہ نہ یہ اس قابل ہے اور نہ وہ اس قابل ہے یا ایسا شخص ملتا ہے کہ جو لذتوں پر مٹا ہوا ہے اور بآسانی خواہش نفسانی کی راہ پر کھنچ جانے والا ہے یا ایسا شخص جو جمع آوری و ذخیر ہ اندوزی پر جان دیئے ہوءے ہے یہ دونوں بھی دین کے کسی امر کی رعایت و پاسداری کرنے والے نہیں ہیں ان دونوں سے انتہائی قریبی شباہت چرنے والے چوپائے رکھتے ہیں .اسی طرح تو علم کے خزینہ داروں کے مرنے سے علم ختم ہوجاتا ہے

ہا ں !مگر زمین ایسے فرد خالی نہیں رہتی کہ جو خد اکی حجت کو برقرا ر رکھتا ہے چاہے وہ ظاہر و مشہور ہو ا یا خائف و پنہاں تاکہ اللہ کی دلیلیں اور نشان مٹنے نہ پائیں اور وہ ہیں ہی کتنے اور کہاں پر ہیں -؟خدا کی قسم وہ تو گنتی میں بہت تھوڑے ہوتے ہیں ,اور اللہ کے نزدیک قدرومنزلت کے لحاظ سے بہت بلند .خدا وند عالم ان کے ذریعہ سے اپنی حجتوںاور نشانیوں کی حفاظت کرتا ہے .یہاں تک کہ وہ ان کو اپنے ایسوں کے سپرد کردیں اور اپنے ایسوں کے دلوں میںانہیں بودیں .علم نے انہیں ایک دم حقیقت و بصیرت کے انکشافات تک پہنچا دیا ہے .وہ یقین و اعتماد کی رو ح سے گھل مل گئے ہیں اور ان چیز وں کو جنہیں آرام پسند لوگوں نے دشوار قرار دے رکھا تھا اپنے لیے سہل و آسان سمجھ لیا ہے اور جن چیزوں سے جاہل بھڑک اٹھتے ہیں ان سے وہ جی لگائے بیٹھے ہیں .وہ ایسے جسموں کے ساتھ دنیامیں رہتے سہتے ہیں کہ جن کی روحیں ملائ اعلیٰ سے وابستہ ہیں یہی لوگ توزمین میں اللہ کے نائب اور اس کے دین کی طرف دعوت دینے والے ہیں .ہائے ان کی دید کے لیے میرے شوق کی فراوانی (پھر حضرت نے کمیل سے فرمایا)اے کمیل !(مجھے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا )اب جس وقت چاہو واپس جاؤ.

کمیل ابن زیاد نخعی رحمتہ اللہ اسرار امامت کے خزینہ دار اور امیرالمومنین کے خواص اصحاب میں سے تھے ,علم و فضل میں بلند مرتبہ اور زہد و درع میں امتیاز خاص کے حامل تھے .حضرت کی طرف سے کچھ عرصہ تک ہیت کے عامل رہے ۸۳ھجری میں ۹۰برس کی عمر میں حجاج ابن یوسف ثقفی کے ہاتھ سے شہید ہوئے اور بیرون کوفہ دفن ہوئے

۱۴۸

انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہو ا ہے

مطلب یہ ہے کہ انسان کی قدرو قیمت کا اندازہ اس کی گفتگو سے ہوجاتا ہے .کیونکہ ہر شخص کی گفتگو اس کی ذہنیواخلاقی حالت کی آئینہ دار ہوتی ہے جس سے اس کے خیالات و جذبات کا بڑی آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے .لہٰذا جب تک وہ خامو ش ہے اس کا عیب و ہنر پوشیدہ ہے اور جب انسان کی زبان کھلتی ہے تو اس کا جوہر نمایا ں ہوجاتا ہے

مرد پنہاں است در زیر زبان خوشیتن قیمت و قدرش نداتی تانیاءد در سخن

۱۴۹

جو شخص اپنی قدرو منزلت کو نہیں پہچانتا وہ ہلاک ہو جاتا ہے

۱۵۰

ایک شخص نے آپ سے پندو موعظت کی درخواست کی ,تو فرمایا!

تم کوان لوگوں میں سے نہ ہونا چاہیے کہ جو عمل کے بغیر حسن انجا م کی امید رکھتے ہیں اور امید یں بڑھاکر تو بہ کو تاخیر میں ڈال دیتے ہیں جو دنیا کے بارے میں زاہدوں کی سی باتیں کرتے ہیں مگر ان کے اعمال دنیا طلبوں کے سے ہوتے ہیں .اگر دنیا انہیں ملے تو وہ سیر نہیں ہوتے اور اگر نہ ملے تو قناعت نہیں کرتے جو انہیں ملاہے اس پر شکر سے قاصر رہتے ہیں اور جو بچ رہا اس کے اضافہ کے خواہشمند رہتے ہیں دوسروں کو منع کرتے ہیں اور خود باز نہیں آتے اور دوسروں کو حکم دیتے ہیں ایسی باتوں کا جنہیں خود بجانہیں لاتے نیکوں کو دوست رکھتے ہیں مگر ان کے سے اعمال نہیں کرتے اور گنہگاروں سے نفرت و عناد رکھتے ہیں حالانکہ وہ خود انہی میں داخل ہیں اپنے گناہوں کی کثرت کے باعث موت کو برا سمجھتے ہیں مگر جن گناہوںکی وجہ سے موت کو ناپسند کرتے ہیں انہی پر قائم ہیں .اگر بیمار پڑتے ہیں تو پشیمان ہوتے ہیں جب بیماری سے چھٹکارا پاتے ہیں تواترانے لگتے ہیں .اور مبتلا ہوتے ہیں تو ان پر مایوسی چھا جاتی ہے .جب کسی سختی و ابتلا میں پڑتے ہیں تو لاچار و بے بس ہوکر دعائیں مانگتے ہیں اور جب فراخ دستی نصیب ہوتی ہے تو فریب میں مبتلا ہو کر منہ پھیر لیتے ہیں .ان کا نفس خیالی باتوں پر انہیں قابو میں لے آتا ہے اور وہ یقینی باتوں پر اسے نہیں دبالیتے .دوسروں کے لیے گناہ سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں اور اپنے لیے اپنے اعمال سے زیادہ جزا کے متوقع رہتے ہیں .اگر مالدار ہوجاتے ہیں تو اترانے لگتے ہیں اور اگر فقیر ہوجاتے ہیں تو ناامید ہوجاتے ہیں اور سستی کرنے لگتے ہیں .جب عمل کرتے ہیں تو اس میں سستی کرتے ہیں اور جب مانگنے پرآتے ہیں تو اصرار میں حد سے بڑھ جاتے ہیں .اگر ان پر خواہش نفسانی کا غلبہ ہوتا ہے تو گناہ جلد سے جلد کرتے ہیں ,اور توبہ کو تعویق میں ڈالتے رہتے ہیں ,اگر کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو جماعت اسلامی کے خصوصی امتیازات سے الگ ہوجاتے ہیں .عبرت کے واقعات بیان کرتے ہیں مگر خود عبرت حاصل نہیں کرتے اور وعظ و نصیحت میں زور باندھتے ہیں مگر خود اس نصیحت کا اثر نہیں لیتے چنانچہ وہ بات کرنے میں تو اونچے رہتے ہیں .مگر عمل میں کم ہی کم رہتے ہیں .فانی چیزوں میں نفسی نفسی کرتے ہیں اور باقی رہنے والی چیزوں میں سہل انگاری سے کام لیتے ہیں وہ نفع کو نقصان اور نقصا ن کو نفع خیال کرتے ہیں .موت سے ڈرتے ہیں .مگر فرصت کا موقع نکل جانے سے پہلے اعمال میں جلدی نہیں کرتے .دوسرے کے ایسے گناہ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں جس سے بڑے گناہ کو خود اپنے لیے چھوٹا خیال کرتے ہیں .اور اپنی ایسی اطاعت کو زیادہ سمجھتے ہیں جسے دوسرے سے کم سمجھتے ہیں .لہٰذا وہ لوگوں پر معترض ہوتے ہیں اور اپنے نفس کی چکنی چپڑی باتوں سے تعریف کرتے ہیں .دولتمندوں کے ساتھ طرب ونشاط میں مشغول رہنا انہیں غریبوں کے ساتھ محفل ذکر میں شرکت سے زیادہ پسند ہے اپنے حق میں دوسرے کے حق میں اپنے خلاف حکم لگاتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں کرتے کہ دوسرے کے حق میں اپنے خلاف حکم لگائیں .اوروں کو ہدایت کرتے ہیں اور اپنے کو گمراہی کی راہ پر لگا تے ہیں وہ اطاعت لیتے ہیں اور خود نافرمانی کرتے ہیں او رحق پوراپور ا وصول کرلیتے ہیں مگر خود انہیں کرتے .وہ اپنے پروردگا ر کو نظر انداز کر کے مخلوق سے خو ف کھاتے ہیں اور مخلوقات کے بارے میں اپنے پروردگار سے نہیں ڈرتے

سید رضی فرماتے ہیں کہ اگر اس کتاب میں صرف ایک یہی کلام ہوتا تو کامیاب موعظہ اور موثر حکمت اور چشم بینا رکھنے والے کے لیے بصیرت اور نظر و فکر کرنے والے کے لیے عبرت کے اعتبار سے بہت کافی تھا