اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ

اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ0%

اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
زمرہ جات: مشاہدے: 40150
ڈاؤنلوڈ: 3344

تبصرے:

اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 41 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 40150 / ڈاؤنلوڈ: 3344
سائز سائز سائز
اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ

اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱۵۱

ہر شخص کا ایک انجام ہے۔ اب خواہ وہ شیریں ہو یا تلخ۔

۱۵۲

ہر آنے والے کے لیے پلٹنا ہے اور جب پلٹ گیا تو جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔

۱۵۳

صبر کرنے والا ظفرو کامرانی سے محروم نہیں ہوتا، چاہے اس میں طویل زمانہ لگ جائے.

۱۵۴

کسی جماعت کے فعل پر رضا مند ہونے والا ایسا ہے جیسے اس کے کام میں شریک ہو۔ اور غلط کام میں شریک ہو نے والے پر دو گناہ ہیں۔ ایک اس پر عمل کرنے کا اور ایک اس پر رضا مند ہونے کا۔

۱۵۵

عہد و پیمان کی ذمہ داریوں کو ان سے وابستہ کرو جو میخوں کے ایسے (مضبوط) ہوں۔

۱۵۶

تم پر اطاعت بھی لازم ہے ان کی جن سے ناواقف رہنے کی بھی تمہیں معافی نہیں۔

خداوند عالم نے اپنے عدل و رحمت سے جس طرح دین کی طرف رہبری و رہنمائی کر نے کے لیے انبیاء کا سلسلہ جاری کیا اسی طرح سلسلہ نبوت کے ختم ہونے کے بعد دین کو تبدیلی و تحریف سے محفوظ رکھنے کے لیے امامت کا نفاذ کیا تاکہ ہر امام علیہ السّلام اپنے اپنے دور میں تعلیمات الہیہ کو خواہش پرستی کی زد سے بچا کر اسلام کے صحیح احکام کی رہنمائی کرتا رہے اور جس طرح شریعت کے مبلغ کی معرفت واجب اسی طرح شریعت کے محافظ کی بھی معرفت ضروری ہے اور جاہل کو اس میں معذور نہیں قراردیا جاسکتا۔ کیونکہ منصب امامت پر صدہا ایسے دلائل و شواہد موجود ہیں جن سے کسی بابصیرت کے لیے گنجائش انکار نہیں ہوسکتی چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:

جو شخص اپنے دور حیات کے امام کو نہ پہچانے اور دنیا سے اٹھ جائے، اس کی موت کفر و ضلالت کی موت ہے۔

ابن ابی الحدید نے بھی اس ذات سے کہ جس سے ناواقفیت و جہالت عذر مسمو ع نہیں بن سکتی حضرت کی ذات کو مراد لیا ہے اور ان کی اطاعت کا اعتراف اور منکر امامت کے غیر ناجی ہونے کا اقرار کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ:

جو شخص حضرت علی علیہ السلام کی امامت سے جاہل اور اس کی صحت و لزوم کا منکر ہو وہ ہمارے اصحاب کے نزدیک ہمیشہ کے لیے جہنمی ہے.نہ اسے نماز فائدہ دے سکتی ہے نہ روزہ۔ کیونکہ معرفت امامت ان بنیادی اصولوں میں شمار ہوتی ہے جو دین کے مسلمہ ارکان ہیں۔ البتہ ہم آپ کی امامت کے منکر کو کافر کے نام سے نہیں پکارتے بلکہ اسے فاسق خارجی اور بے دین وغیرہ کے ناموں سے یاد کرتے ہیں اور شیعہ ایسے شخص کو کافر سے تعبیر کرتے ہیں، اور یہی ہمارے اصحاب اور ان میں فر ق ہے۔ مگر صرف لفظی فرق ہے کوئی واقعی اور معنوی فرق نہیں ہے. (شرح ابن ابی الحدید، جلد ۴، صفحہ ۱۳۱۹)

۱۵۷

اگر تم دیکھو، تو تمہیں دکھایا جاچکا ہے اور اگر تم ہدایت حاصل کرو تو تمہیں ہدایت کی جاچکی ہے اور اگر سننا چاہو تو تمہیں سنایا جاچکا ہے۔

۱۵۸

اپنے بھائی کو شرمندہ احسان بنا کر سر زنش کرو اور لطف و کرم کے ذریعہ سے اس کے شر کو دور کرو۔

اگر برائی کا جواب برائی سے اور گالی کا جواب گالی سے دیا جائے، تواس سے دشمنی کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اور اگر برائی سے پیش آنے والے کے ساتھ نرمی و ملائمت کا رویہ اختیار کیا جائے تو وہ بھی اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوجائے گا۔ چنانچہ ایک دفعہ امام حسن علیہ السلام بازار مدینہ میں سے گزر رہے تھے کہ ایک شامی نے آپ کی جاذب نظر شخصیت سے متاثر ہوکر لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ کو ن ہیں؟ اسے بتایا گیا کہ یہ حسن ابن علی علیہ السلام ہیں۔ یہ سن کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور آپ کے قریب آکر انہیں بر ا بھلا کہنا شروع کیا۔ مگر آپ خاموشی سے سنتے رہے جب وہ چپ ہوا توآپ علیہ السّلام نے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم یہاں نووارد ہو؟ اس نے کہا کہ ہاں ایسا ہی ہے۔ فرمایا کہ پھر تم میرے ساتھ چلو میرے گھر میں ٹھہرو، اگر تمہیں کوئی حاجت ہو گی تو میں اسے پورا کروں گا، اور مالی امداد کی ضرورت ہوگی تو مالی امداد بھی دوں گا۔ جب اس نے اپنی سخت و درشت باتوں کے جواب میں یہ نرم روی و خوش اخلاقی دیکھی، تو شرم سے پانی پانی ہو گیا اور اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے عفو کا طالب ہوا، اورجب آپ سے رخصت ہوا تو روئے زمین پر ان سے زیادہ کسی کی قدر و منزلت ا س کی نگاہ میں نہ تھی۔

اگر مرد ی احسن الی من اساء

۱۵۹

جوشخص بدنامی کی جگہوں پر اپنے کو لے جائے تو پھر اسے برا نہ کہے جو اس سے بدظن ہو.

۱۶۰

جو اقتدار حاصل کرلیتا ہے جانبدار ی کرنے ہی لگتا ہے۔

۱۶۱

جو خود رائی سے کام لے گا، وہ تباہ و برباد ہو گا اور جو دوسروں سے مشورہ لے گا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہو جائے گا۔

۱۶۲

جو اپنے راز کو چھپائے رہے گا اسے پورا قابو رہے گا۔

۱۶۳

فقیری سب سے بڑی موت ہے۔

۱۶۴

جو ایسے کا حق ادا کرے کہ جو اس کا حق ادا نہ کرتا ہو، تو وہ اس کی پرستش کرتا ہے۔

۱۶۵

خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔

۱۶۶

اگر کوئی شخص اپنے حق میں دیر کرے تو اس پر عیب نہیں لگایا جاسکتا۔ بلکہ عیب کی بات یہ ہے کہ انسان دوسرے کے حق پر چھاپا مارے۔

۱۶۷

خود پسندی ترقی سے مانع ہوتی ہے.

جو شخص جویائے کمال ہوتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ ابھی وہ کمال سے عاری ہے، اس سے منزل کمال پر فائز ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ لیکن جو شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ وہ تمام و کمال ترقی کے مدارج طے کرچکا ہے وہ حصول کمال کے لیے سعی و طلب کی ضرورت محسوس نہیں کرے گا۔ کیونکہ وہ بزعم خود کمال کی تمام منزلیں ختم کرچکاہے اب اسے کوئی منزل نظرہی نہیں آتی کہ اس کے لیے تگ ودو کرے چنانچہ یہ خود پسند برخود غلط انسان ہمیشہ کمال سے محروم ہی رہے گا۔ اور یہ خود پسند ی اس کے لیے ترقی کی راہیں مسدود کردے گی۔

۱۶۸

آخرت کا مرحلہ قریب اور (دنیا میں) باہمی رفاقت کی مدت کم ہے۔

۱۶۹

آنکھ والے کے لیے صبح روشن ہوچکی ہے۔

۱۷۰

ترک گناہ کی منزل بعد میں مدد مانگنے سے آسان ہے۔

اول مرتبہ میں گناہ سے باز رہنا اتنا مشکل نہیں ہوتا، جتنا گناہ سے مانوس اور اس کی لذت سے آشنا ہونے کے بعد کیونکہ انسان جس چیز کا خو گر ہوجاتا ہے اس کے بجا لانے میں طبیعت پر بار محسوس نہیں کرتا۔ لیکن اسے چھوڑنے میں لوہے لگ جاتے ہیں اور جوں جوں عادت پختہ ہوتی جاتی ہے۔ ضمیر کی آواز کمزور پڑجاتی ہے اور توبہ میں دشواریاں حائل ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا یہ کہہ کر دل کو ڈھارس دیتے رہنا کہ “پھر توبہ کر لیں گے “.اکثر بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ جب ابتداء میں گناہ سے دستبردار ہونے میں دشواری محسوس ہورہی ہے تو گناہ کی مدت کو بڑھا لے جانے کے بعد توبہ دشوار تر ہوجائے گی۔

۱۷۱

بسا اوقات ایک دفعہ کا کھانا بہت دفعہ کے کھانوں سے مانع ہوجاتا ہے۔

یہ ایک مثل ہے جو ایسے موقعوں پر استعمال ہوتی ہے جہاں کوئی شخص ایک فائدہ کے پیچھے اس طرح کھو جائے کہ اسے دوسرے فائدوں سے ہاتھ اٹھا لینا پڑے جس طرح وہ شخص کہ جو ناموافق طبع یا ضرورت سے زیادہ کھالے تو اسے بہت سے کھانوں سے محروم ہونا پڑتا ہے۔

۱۷۲

لوگ اس چیز کے دشمن ہوتے ہیں جسے نہیں جانتے۔

انسان جس علم وفن سے واقف ہوتا ہے اسے بڑی اہمیت دیتا ہے اور جس علم سے عاری ہوتاہے اسے غیر اہم قرار دے کر اس کی تنقیص و مذمت کرتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ جس محفل میں اس علم و فن پر گفتگو ہوتی ہے۔ اسے ناقابل اعتنا سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جس سے وہ ایک طرح کی سبکی محسوس کرتا ہے اور یہ سبکی اس کے لیے اذیت کا باعث ہوتی ہے اور انسان جس چیز سے بھی اذیت محسوس کر ے گا اس سے طبعا ًنفرت کرے گا اور اس سے بغض رکھے گا۔ چنانچہ افلاطون سے دریافت کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ نہ جاننے والا جاننے والے سے بغض رکھتا ہے مگر جاننے والا نہ جاننے والے سے بغض و عناد نہیں رکھتا ؟اس نے کہا کہ چونکہ نہ جاننے والا اپنے اندر ایک نقص محسوس کرتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ جاننے والا اس کی جہالت کی بنا پر اسے حقیر و پست سمجھتا ہوگا جس سے متاثر ہوکر وہ اس سے بغض رکھتا ہے اور جاننے والا اس کی جہالت کے نقص سے بری ہوتا ہے اس لیے وہ یہ تصور نہیں کرتا کہ نہ جاننے والا اسے حقیر سمجھتا ہوگا۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں ہوتی کہ وہ اس سے بغض رکھے۔

۱۷۳

جو شخص مختلف رایوں کا سامنا کرتا ہے وہ خطا و لغزش کے مقاما ت کو پہچان لیتا ہے۔

۱۷۴

جو شخص اللہ کی خاطر سنان غضب تیز کرتا ہے، وہ باطل کے سورماؤں کے قتل پر توانا ہو جاتا ہے۔

جو شخص محض اللہ کی خاطر باطل سے ٹکرانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اسے خداوند عالم کی طرف سے تائید و نصرت حاصل ہوتی ہے اور کمزوری و بے سروسامانی کے باوجود باطل قوتیں اس کے عزم میں تزلزل اور ثبات قدم میں جنبش پیدا نہیں کرسکتیں اور اگر اس کے اقدام میں ذاتی غرض شریک ہو تو اسے بڑی آسانی سے اس کے ارادہ سے باز رکھا جاسکتاہے۔ چنانچہ سید نعمت جز ائری علیہ الرحمہ نے زہرا الربیع میں تحریر کیا ہے کہ ایک شخص نے کچھ لوگوں کو ایک درخت کی پرستش کرتے دیکھا تو اُس نے جذبہ دینی سے متاثر ہوکر اس درخت کو کاٹنے کا ارادہ کیا اور جب تیشہ لے کر آگے بڑھا تو شیطان نے اس کا راستہ روکا اور پوچھا کہ کیا ارادہ ہے؟ اس نے کہا کہ میں اس درخت کو کاٹناچاہتا ہوں تاکہ لوگ مشرکانہ طریق عبادت سے باز رہیں۔ شیطان نے کہا کہ تمہیں اس سے کیا مطلب وہ جانیں اور ا ن کاکام، مگر وہ اپنے ارادہ پر جما رہا جب شیطان نے دیکھا کہ یہ ایسا کرہی گزرے گا، تواس نے کہا کہ اگر تم واپس چلے جاؤ تو میں تمہیں چار درہم ہر روز دیا کروں گا۔ جو تمہیں بستر کے نیچے سے مل جایا کریں گے یہ سن کر اس کی نیت ڈانواں ڈول ہونے لگی اور کہا کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ اس نے کہا کہ تجربہ کرکے دیکھ لو، اگر ایسا نہ ہو ا درخت کے کاٹنے کا موقع پھر بھی تمہیں مل سکتا ہے۔ چنانچہ وہ لالچ میں آکر پلٹ آیا اور دوسرے دن وہ درہم اسے بستر کے نیچے سے مل گئے۔ مگر دو چار روز کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ اب وہ پھر طیش میں آیا۔ اور تیشہ لے کر درخت کی طرف بڑھا کہ شیطان نے آگے بڑھ کر کہا کہ اب تمہارے بس میں نہیں کہ تم اسے کاٹ سکو، کیونکہ پہلی دفعہ تم صرف اللہ کی رضامند ی حاصل کرنے کے لیے نکلے تھے اور اب چند پیسوں کی خاطر نکلے ہو۔ لہٰذا تم نے ہاتھ اٹھایا تو میں تمہاری گردن توڑ دوں گا۔ چنانچہ وہ بے نیل مرام پلٹ آیا۔

۱۷۵

جب کسی امر سے دہشت محسوس کرو تو اس میں پھاند پڑو، اس لیے کہ کھٹکا لگا رہنا اس ضرر سے کہ جس کا خوف ہے، زیادہ تکلیف دہ چیز ہے۔

۱۷۶

سر برآوردہ ہونے کا ذریعہ سینہ کی وسعت ہے۔

۱۷۷

بد کار کی سر زنش نیک کو اس کا بدلہ دے کر کرو۔

مقصد یہ ہے کہ اچھوں کو ان کی حسن کارکردگی کا پورا پورا صلہ دینا اور ان کے کارناموں کی بنا پر ان کی قدر افزائی کرنا بروں کو بھی اچھائی کی راہ پر لگا تا ہے۔ اور یہ چیز اخلاقی مواعظ اور تنبیہ و سرزنش سے زیادہ موثر ثابت ہوتی ہے کیونکہ انسان طبعاً ان چیزوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن کے نتیجہ میں اسے فوائد حاصل ہوں اور اس کے کانوں میں مدح و تحسین کے ترانے گونجیں۔

۱۷۸

دوسرے کے سینہ سے کینہ و شرکی جڑ اس طرح کاٹو کہ خود اپنے سینہ سے اسے نکال پھینکو.

اس جملہ کے دومعنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اگر تم کسی کی طرف سے دل میں کینہ رکھو گے تو وہ بھی تمہاری طرف سے کینہ رکھے گا۔ لہٰذا اپنے د ل کی کدورتوں کو مٹا کر اس کے دل سے بھی کدورت کو مٹا دو۔ کیونکہ دل دل کا آئینہ ہوتا ہے۔ جب تمہارے آئینہ دل میں کدورت کا زنگ باقی نہ رہے گا، تو اس کے دل سے بھی کدورت جاتی رہے گی اور اسی لیے انسان دوسرے کے دل کی صفائی کااندازہ اپنے دل کی صفائی سے بآسانی کرلیتا ہے۔ چنانچہ ایک شخص نے اپنے ایک دوست سے پوچھا کہ تم مجھے کتنا چاہتے ہو؟ اس نے جواب میں کہا سَل قَلبَکَ اپنے دل سے پوچھو.یعنی جتنا تم مجھے دوست رکھتے ہو اتنا ہی میں تمہیں دوست رکھتا ہوں۔

دوسرے معنی یہ ہیں کہ اگر یہ چاہتے ہو کہ دوسرے کو برائی سے روکو تو پہلے خود اس برائی سے باز آؤ. اس طرح تمہاری نصیحت دوسرے پر اثر انداز ہوسکتی ہے ورنہ بے اثر ہوکر رہ جائے گی۔

۱۷۹

ضد اور ہٹ دھرمی صحیح رائے کو دور کردیتی ہے۔

۱۸۰

لالچ ہمیشہ کی غلامی ہے۔

۱۸۱

کوتاہی کا نتیجہ شرمندگی اوراحتیاط و دور اندیشی کا نتیجہ سلامتی ہے.

۱۸۲

حکیمانہ بات سے خاموشی اختیار کرنے میں بھلائی نہیں جس طرح جہالت کی بات میں کوئی اچھائی نہیں۔

۱۸۳

جب دو مختلف دعوتیں ہوں گی, تو ان میں سے ایک ضرور گمراہی کی دعوت ہوگی۔

۱۸۴

جب سے مجھے حق دکھایا گیا ہے میں نے اس میں کبھی شک نہیں کیا۔

۱۸۵

نہ میں نے جھوٹ کہا ہے نہ مجھے جھوٹی خبر دی گئی ہے نہ میں خود گمراہ ہوا، نہ مجھے گمراہ کیا گیا۔

۱۸۶

ظلم میں پہل کرنے والا کل (مذامت سے) اپنا ہاتھ اپنے دانتوں سے کاٹتا ہوگا۔

۱۸۷

چل چلاؤقریب ہے۔

۱۸۸

جو حق سے منہ موڑ تا ہے، تباہ ہوجاتا ہے۔

۱۸۹

جسے صبر رہائی نہیں دلاتا، اسے بے تابی و بے قرار ی ہلاک کر دیتی ہے۔

۱۹۰

العجب کیا خلافت کا معیار بس صحابیت اور قرابت ہی ہے۔

سید رضی کہتے ہیں کہ اس مضمون کے اشعار بھی حضرت سے مروی ہیں جو یہ ہیں۔ اگر تم شوری کے ذریعہ لوگوں کے سیاہ و سفید کے مالک ہوگئے ہو تو یہ کیسے جب کہ مشورہ دینے کے حقدار افراد غیر حاضر تھے اور اگر قرابت کی وجہ سے تم اپنے حریف پر غالب آئے ہو تو پھر تمہارے علاوہ دوسر ا نبی کا زیادہ حقدار اور ان سے زیادہ قریبی ہے۔

۱۹۱

دنیا میں انسان موت کی تیر اندازی کا ہدف اور مصیبت و ابتلاء کی غارت گری کی جولانگاہ ہے جہاں ہر گھونٹ کے ساتھ اچھو اور ہر لقمہ میں گلو گیر پھندا ہے اور جہاں بندہ ایک نعمت اس وقت تک نہیں پاتا جب تک دوسری نعمت جدا نہ ہو جائے اور اس کی عمر کا ایک دن آتا نہیں جب تک کہ ایک دن اس کی عمر کا کم نہ ہوجائے ہم موت کے مددگار ہیں اور ہماری جانیں ہلاکت کی زد پر ہیں تو اس صورت میں ہم کہاں سے بقا کی امید کر سکتے ہیں جب کہ شب و روز کسی عمارت کو بلند نہیں کرتے مگر یہ کہ حملہ آور ہو کر جو بنایا ہے اسے گراتے اور جو یکجا کیا ہے اسے بکھیر تے ہوتے ہیں۔

۱۹۲

اے فرزند آدم علیہ السّلام! تو نے اپنی غذا سے جو زیادہ کمایا ہے اس میں دوسرے کا خزانچی ہے۔

۱۹۳

دلوں کے لیے رغبت و میلان، آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹنا ہوتا ہے۔ لہٰذا ان سے اس وقت کام لو جب ان میں خواہش و میلان ہو، کیونکہ دل کو مجبور کرکے کسی کام پر لگایا جائے تو اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

۱۹۴

جب غصہ مجھے آئے تو کب اپنے غصہ کو اتاروں کیا اس وقت کہ جب انتقام نہ لے سکوں اور یہ کہا جائے کہ صبر کیجئے۔ یا اس وقت کہ جب انتقام پر قدرت ہو اور کہا جائے کہ بہتر ہے درگزر کیجئے۔

۱۹۵

آپ کا گزر ہوا ایک گھورے کی طر ف سے جس پر غلاظتیں تھیں۔ فرمایا۔ یہ وہ ہے جس کے ساتھ بخل کرنے والوں نے بخل کیا تھا.ایک اور روایت میں ہے کہ اس موقع پر آپ نے فرمایا :یہ وہ ہے جس پر تم لوگ کل ایک دوسرے پر رشک کرتے تھے۔

۱۹۶

تمہار ا وہ مال اکارت نہیں گیا جو تمہارے لیے عبرت و نصیحت کا باعث بن جائے۔

جو شخص مال و دولت کھو کر تجربہ و نصیحت حاصل کرے اسے ضیاع مال کی فکر نہ کر نا چاہیے اور مال کے مقابلہ میں تجربہ کو گراں سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ مال تو یوں بھی ضائع ہوجاتا ہے مگر تجربہ آئندہ کے خطرات سے بچالے جاتا ہے۔ ایک عالم سے جو مالدار ہونے کے بعد فقیر و نادار ہوچکا تھا، پوچھا گیا کہ تمہارا مال کیا ہوا ؟ اس نے کہا کہ میں نے اس سے تجربات خرید لیے ہیں جو میرے لیے مال سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوئے ہیں۔ لہٰذا سب کچھ کھو دینے کے بعد بھی میں نقصان میں نہیں رہا ہوں۔

۱۹۷

یہ دل بھی اسی طرح تھکتے ہیں جس طرح بدن تھکتے ہیں۔ لہٰذا (جب ایسا ہو تو )ان کے لیے لطیف حکیمانہ جملے تلاش کرو

۱۹۸

جب خوار ج کا قول “لاَ حُکمَ اِلاَّ اللّٰہ “(حکم اللہ سے مخصوص ہے )سنا تو فرمایا :یہ جملہ صحیح ہے مگرجو اس سے مراد لیا جاتا ہے وہ غلط ہے۔

۱۹۹

بازاری آدمیوں کی بھیڑ بھاڑ کے بارے میں فرمایا: یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ مجتمع ہوں تو چھا جاتے ہیں۔ جب منتشر ہوں تو پہچانے نہیں جاتے۔ ایک قول یہ ہے کہ آپ نے فرمایا :کہ جب اکٹھا ہوتے ہیں تو باعث ضرر ہوتے ہیں اور جب منتشر ہوجاتے ہیں تو فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں لوگوں نے کہا کہ ہمیں ان کے مجتمع ہونے کا نقصان تو معلوم ہے مگر ان کے منتشر ہونے کا فائدہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ پیشہ ور اپنے اپنے کاروبار کی طرف پلٹ جاتے ہیں تو لوگ ان کے ذریعہ فائدہ اٹھاتے ہیں جیسے معمار اپنی (زیر تعمیر )عمار ت کی طرف جولاہا اپنے کاروبار کی جگہ کی طرف اور نانبائی اپنے تنور کی طرف.

۲۰۰

آپ کے سامنے ایک مجرم لایا گیا جس کے ساتھ تماشائیوں کا ہجوم تھا توآ پ نے فرمایا :ان چہروں پر پھٹکار کہ جو ہر رسوائی کے موقع پر ہی نظر آتے ہیں۔

۲۰۱

ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے ہوتے ہیں جو اس کی حفاظت کرتے ہیں اور جب موت کا وقت آتا ہے تو وہ اس کے اور موت کے درمیان سے ہٹ جاتے ہیں اور بے شک انسان کی مقررہ عمر اس کے لیے ایک مضبوط سپر ہے.

۲۰۲

طلحہ وزبیر نے حضرت سے کہا کہ ہم اس شرط پر آپ کی بیعت کرتے ہیں کہ اس حکومت میں آپ کے ساتھ شریک رہیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ تم تقویت پہنچانے اور ہاتھ بٹانے میں شریک اور عاجزی اور سختی کے موقع پر مددگار ہو گے.

۲۰۳

اے لوگو! اللہ سے ڈرو کہ اگر تم کچھ کہو تو وہ سنتا ہے اور دل میں چھپاکر رکھو تو وہ جان لیتا ہے اس موت کی طر ف بڑھنے کا سرو سامان کرو کہ جس سے بھاگے تو وہ تمہیں پالے گی اور اگر ٹھہرے تو وہ تمہیں گرفت میں لے لے گی اور اگر تم اسے بھول بھی جاؤ تو وہ تمہیں یاد رکھے گی۔

۲۰۴

کسی شخص کا تمہارے حسن سلوک پر شکر گزا ر نہ ہونا تمہیں نیکی اور بھلائی سے بددل نہ بنا دے اس لیے کہ بسا اوقات تمہاری اس بھلائی کی وہ قدر کرے گا، جس نے اس سے کچھ فائدہ بھی نہیں اٹھایا اور اس ناشکرے نے جتنا تمہاراحق ضائع کیا ہے، اس سے کہیں زیادہ تم ایک قدردان کی قدر دانی سے حاصل کرلو گے اور خدا نیک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

۲۰۵

ہر ظرف اس سے کہ جو اس میں رکھا جائے تنگ ہوتا جاتا ہے، مگر علم کا ظرف وسیع ہوتا جاتا ہے۔

۲۰۶

بردبار کو اپنی بردباری کا پہلا عوض یہ ملتا ہے۔ کہ لوگ جہالت دکھانے والے کے خلاف اس کے طرفدار ہوجاتے ہیں۔

۲۰۷

اگر تم بردبار نہیں ہو تو بظاہر برد بار بننے کی کوشش کرو، کیونکہ ایسا کم ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی جماعت سے شباہت اختیار کرے اور ان میں سے نہ ہو جائے۔

مطلب یہ ہے کہ اگر انسان طبعاً حلیم و برد بار ہو تو سے برد بار بننے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس طرح کہ اپنی افتادہ طبیعت کے خلاف حلم و بردباری کا مظاہرہ کرے اگرچہ طبیعت کا رخ موڑنے میں کچھ زحمت محسوس ہوگی مگر اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آہستہ آہستہ حلم طبعی خصلت کی صور ت اختیار کر لے گا اور پھر تکلف کی حاجت نہ رہے گی کیونکہ عادت رفتہ رفتہ طبیعت ثانیہ بن جایا کرتی ہے۔

۲۰۸

جو شخص اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے وہ فائدہ اٹھاتا ہے اور جو غفلت کرتا ہے وہ نقصان میں رہتا ہے جو ڈرتا ہے وہ (عذاب سے )محفوظ ہو جاتا ہے اور جو عبرت حاصل کرتا ہے وہ بینا ہوجاتا ہے اور جو بینا ہوجاتا ہے وہ بافہم ہوجاتا ہے اور جو بافہم ہوتا ہے اسے علم حاصل ہوتا ہے۔

۲۰۹

یہ دنیا منہ زور ی دکھانے کے بعد پھر ہماری طرف جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچے کی طرف جھکتی ہے۔ اس کے بعد حضرت نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ زمین میں کمزور کردیئے گئے ہیں، ان پر احسان کریں اور ان کو پیشوا بنائیں اور انہی کو اس زمین کا مالک بنائیں۔

یہ ارشاد امام منتظر کے متعلق ہے جو سلسلہ امامت کے آخری فرد ہیں۔ ان کے ظہور کے بعد تمام سلطنتیں اور حکومتیں ختم ہوجائیں گی اور "لیظهره علی الدین کله "کا مکمل نمونہ نگاہوں کے سامنے آجائے گا

ہر کسے رادو لتے از آسمان آید پدید دولت آل علی علیہ السّلام آخر زمان آید پدید

۲۱۰

اللہ سے ڈرو اس شخص کے ڈرنے کے مانند جس نے دنیا کی وابستگیوں کو چھوڑ کر دامن گردان لیا اور دامن گردان کر کوشش میں لگ گیا اور اچھائیوں کے لیے اس وقفہ حیات میں تیز گامی کے ساتھ چلا اور خطروں کے پیش نظر اس نے نیکیوں کی طرف قدم بڑھایا اور اپنی قرار گاہ اور اپنے اعمال کے نتیجہ اور انجام کار کی منزل پر نظر رکھی۔