۲۴۱
مظلوم کے ظالم پر قابو پانے کا دن اس دن سے کہیں زیادہ ہوگا جس میں ظالم مظلوم کے خلاف اپنی طاقت دکھاتا ہے۔
۲۴۲
اللہ سے کچھ تو ڈرو، چاہے وہ کم ہی ہو، اور اپنے اور اللہ کے درمیان کچھ تو پردہ رکھو، چاہے وہ باریک ہی سا ہو۔
۲۴۳
جب (ایک سوال کے لیے) جوابات کی بہتات ہوجائے توصحیح بات چھپ جایا کرتی ہے۔
اگر کسی سوال کے جواب میں ہر گوشہ سے آوازیں بلند ہونے لگیں۔ تو ہر جواب نئے سوال کا تقاضا بن کر بحث و جدل کا دروازہ کھول دے گا اور جوں جوں جوابات کی کثرت ہوگی، اصل حقیقت کی کھوج اور صحیح جواب کی سراغ رسائی مشکل ہوجائے گی۔ کیونکہ ہر شخص اپنے جواب کو صحیح تسلیم کرانے کے لیے ادھر ادھر سے دلائل فراہم کرنے کی کوشش کرے گا جس سے سارا معاملہ الجھاؤ میں پڑجائے گا۔ اور یہ خواب کثرت تعبیر سے خواب پریشان ہو کر رہ جائے گا۔
۲۴۴
بے شک اللہ تعالیٰ کے لیے ہر نعمت میں حق ہے تو جو اس حق کو ادا کرتا ہے، اللہ اس کے لیے نعمت کو اوربڑھاتا ہے۔ اور جو کوتاہی کرتا ہے وہ موجودہ نعمت کو بھی خطرہ میں ڈالتا ہے۔
۲۴۵
جب مقدرت زیادہ ہوجاتی ہے تو خواہش کم ہوجاتی ہے۔
۲۴۶
نعمتوں کے زائل ہونے سے ڈرتے رہو کیونکہ ہر بے قابو ہوکر نکل جانے والی چیز پلٹا نہیں کرتی۔
۲۴۷
جذبہ کرم رابطہ قرابت سے زیادہ لطیف و مہر بانی کا سبب ہوتا ہے۔
۲۴۸
جو تم سے حسن ظن رکھے، اس کے گمان کو سچاثابت کرو۔
۲۴۹
بہترین عمل وہ ہے جس کے بجالانے پر تمہیں اپنے نفس کو مجبور کرنا پڑے۔
۲۵۰
میں نے اللہ سبحانہ کو پہچانا ارادوں کے ٹوٹ جانے,نیتوں کے بدل جانے، اور ہمتوں کے پست ہوجانے سے۔
۲۵۱
دنیا کی تلخی آخرت کی خوشگواری ہے اور دنیا کی خوشگواری آخرت کی تلخی ہے۔
۲۵۲
خداوند عالم نے ایمان کا فریضہ عائد کیا شرک کی آلودگیوں سے پاک کرنے کے لیے۔ اور نماز کو فرض کیا رعونت سے بچانے کے لیے اور زکوۃ کو رزق کے اضافہ کا سبب بنانے کے لیے، اور روزہ کو مخلوق کے اخلاص کو آزمانے کے لیے اور حج کو دین کو تقویت پہنچانے کے لیے، اور جہاد کو اسلام کو سرفرازی بخشنے کے لیے، اور امر بالمعروف کو اصلاحِ خلائق کے لیے اور نہی عن المنکر کو سرپھروں کی روک تھام کے لیے اور حقوقِ قرابت کے ادا کرنے کو (یار و انصار کی) گنتی بڑھانے کے لیے اور قصاص کو خونریزی کے انسداد کے لیے اور حدود شرعیہ کے اجراء کو محرمات کی اہمیت قائم کرنے کے لیے اور شراب خوری کے ترک کو عقل کی حفاظت کے لیے اور چوری سے پرہیز کو پاک بازی کا باعث ہونے کے لیے اور زنا سے بچنے کو نسب کے محفوظ رکھنے کے لیے اور اغلام کے ترک کو نسل بڑھانے کے لیے اور گواہی کو انکارِ حقوق کے مقابلہ میں ثبوت مہیا کرنے کے لیے اور جھوٹ سے علحیدگی کو سچائی کا شرف آشکارا کرنے کے لیے اور قیامِ امن کو خطروں سے تحفظ کے لیے اور امانتوں کی حفاظت کو امت کا نظام درست رکھنے کے لیے اور اطاعت کو امامت کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے
۲۵۳
آپ(علیہ السلام ) فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی ظالم سے قسم لینا ہو تو اس سے اس طرح حلف اٹھواؤ کہ وہ اللہ کی قوت و توانائی سے بری ہے؟ کیونکہ جب وہ اس طرح جھوئی قسم کھائے گا تو جلد اس کی سزا پائے گا اور جب یوں قسم کھائے کہ قسم اُس اللہ کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو جلد اس کی گرفت نہ ہو گی، کیونکہ اُس نے اللہ کو وحدت و یکتائی کے ساتھ یاد کیا ہے۔
۲۵۴
اے فرزندِ آدم! اپنے مال میں اپنا وصی خود بن اور جو تو چاہتا ہے کہ تیرے بعد تیرے مال میں سے خیر خیرات کی جائے، وہ خود انجام دے دے۔
۲۵۵
غصہ ایک قسم کی دیوانگی ہے کیونکہ غصہ ور بعد میں پشیمان ضرور ہوتا ہے اور اگر پشیمان نہیں ہوتا تو اُس کی دیوانگی پختہ ہے۔
۲۵۶
حسد کی کمی بدن کی تندرستی کا سبب ہے۔
۲۵۷
کمیل ابن زیاد نخعی سے فرمایا: اے کمیل! اپنے عزیز و اقارب کو ہدایت کرو کہ وہ اچھی خصلتوں کو حاصل کرنے کے لیے دن کے وقت نکلیں اور رات کو سو جانے والے کی حاجت روائی کو چل کھڑے ہوں ۔ اُس ذات کی قسم جس کی قوتِ شنوائی تمام آوازوں پر حاوی ہے، جِس کسی نے بھی کسی کے دل کو خوش کیا تو اللہ اُس کے لیے اُس سرور سے ایک لطفِ خاص خلق فرمائے گا کہ جب بھی اُس پر کوئی مصیبت نازل ہو تو وہ نشیب میں بہنے والے پانی کی طرح تیزی سے بڑھے اور اجنبی اونٹوں کو ہنکانے کی طرح اس مصیبت کو ہنکا کر دور کر دے۔
۲۵۸
جب تنگدست ہو جاؤ تو صدقہ کے ذریعے بچو۔
۲۵۹
غداروں سے وفا کرنا اللہ کے نزدیک غداری ہے اور غداروں کے ساتھ غداری کرنا اللہ کے نزدیک عین وفا ہے۔
۲۶۰
کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں نعمتیں دے کر رفتہ رفتہ عذاب کا مستحق بنایا جاتا ہے اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں کہ جو اللہ کی پردہ پوشی سے دھوکا کھائے ہوئے ہیں اوراپنے بارے میں اچھے الفاظ سن کر فریب میں پڑ گئے اور مہلت دینے سے زیادہ اللہ کی جانب سے کوئی بڑی آزمائش نہیں ہے۔
۲۶۱
جب امیرالمومنین علیہ السلام کو یہ اطلاع ملی کہ معاویہ کے ساتھیوں نے (شہر)انبار پر دھاوا کیا تو آپ بنفس نفیس پیادہ پا چل کھڑے ہوئے۔ یہاں تک کہ نخیلہ تک پہنچ گئے، اتنے میں لوگ بھی آپ کے پاس پہنچ گئے اور کہنے لگے یا امیر المومنین علیہ السّلام ! ہم دشمن سے نپٹ لیں گے۔ آ پ کے تشریف لے جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم اپنے سے تو میرا بچاؤ کر نہیں سکتے دوسروں سے کیا بچاؤ کرو گے۔ مجھ سے پہلے رعایا اپنے حاکموں کے ظلم و جورکی شکایت کیا کرتی تھی مگر میں آج اپنی رعیت کی زیادتیوں کا گلہ کرتا ہوں، گویا کہ میں رعیت ہوں اور وہ حاکم اور میں حلقہ بگوش ہوں اور وہ فرمانروا۔
۲۶۲
بیان کیا گیا ہے کہ حارث ابن حوط حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ کیا آپ کے خیال میں اس کا گمان بھی ہوسکتا ہے کہ اصحاب جمل گمراہ تھے؟
حضرت نے فرمایا کہ اے حارث !تم نے نیچے کی طرف دیکھا اوپر کی طر ف نگا ہ نہیں ڈالی، جس کے نتیجہ میں تم حیران و سر گردان ہوگئے ہو، تم حق ہی کو نہیں جانتے کہ حق والوں کو جانو اور باطل ہی کو نہیں پہچانتے کہ باطل کی راہ پر چلنے والوں کو پہچانو۔
حارث نے کہا کہ میں سعد ابن مالک اور عبداللہ ابن عمر کے ساتھ گوشہ گزیں ہوجاؤں گا۔
حضرت نے فرمایا کہ !
سعد اور عبداللہ ابن عمر نے حق کی مدد کی، اور نہ باطل کی نصرت سے ہاتھ اٹھایا۔
۲۶۳
باد شاہ کا ندیم و مصاحب ایسا ہے جیسے شیر پر سوار ہونے والا کہ اس کے مرتبہ پر رشک کیا جاتا ہے وہ اپنے موقف سے خوب واقف ہے۔
۲۶۴
دوسروں کے پسماندگان سے بھلائی کرو۔ تاکہ تمہارے پسماند گان پر بھی نظرشفقت پڑے۔
۲۶۵
جب حکماء کا کلا م صحیح ہو تو وہ دوا ہے اور غلط ہوتو سراسر مرض ہے.
۲۶۶
حضرت سے ایک شخص نے سوال کیا کہ ایمان کی تعریف کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ کل میرے پاس آنا تاکہ میں تمہیں اس موقع پربتاؤں کہ دوسرے لوگ بھی سن سکیں کہ اگر تم بھول جاؤتو دوسرے یاد رکھیں۔ اس لیے کلام بھڑکے ہوئے شکار کے مانند ہوتاہے کہ اگر ایک کی گرفت میں آجاتا ہے اور دوسرے کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
۲۶۷
اے فرزند آدم علیہ السّلام ! اس دن کی فکر کا بارجو ابھی آیا نہیں، آج کے اپنے دن پر نہ ڈال کہ جو آچکا ہے۔ اس لیے کہ اگرایک دن بھی تیری عمر کا باقی ہوگا، تواللہ تیرا رزق تجھ تک پہنچائے گا۔
۲۶۸
اپنے دوست سے بس ایک حد تک محبت کرو کیونکہ شاید کسی دن وہ تمہارا دشمن ہوجائے اور دشمن کی دشمنی بس ایک حد تک رکھو ہوسکتا ہے کہ کسی دن وہ تمہار ا دوست ہوجائے۔
۲۶۹
دنیا میں کام کرنے والے دو قسم کے ہیں ایک وہ جو دنیا کے لیے سر گرم عمل رہتا ہے اور اسے دنیا نے آخرت سے روک رکھا ہے۔ وہ اپنے پسماندگا ن کے لیے فقر و فاقہ کا خوف کرتا ہے مگر اپنی تنگدستی سے مطمئن ہے تو وہ دوسروں کے فائدہ ہی میں پوری عمر بسر کردیتاہے اور ایک وہ ہے جو دنیا میں رہ کر اس کے لیے عمل کرتا ہے تو اسے تگ ودو کئے بغیر دنیا بھی حاصل ہوجاتی ہے اور اس طرح وہ دونوں حصوں کو سمیٹ لیتا ہے اور دونوں گھر وں کا مالک بن جاتا ہے وہ اللہ کے نزدیک باوقار ہوتا ہے اور اللہ سے کوئی حاجت نہیں مانگتا جو اللہ پوری نہ کرے۔
۲۷۰
بیان کیا گیا ہے کہ عمر ابن خطاب کے سامنے خانہ کعبہ کے زیورات اور ان کی کثرت کا ذکر ہوا تو کچھ لوگوں نے ان سے کہا کہ اگرآپ ان زیورات کو لے لیں اور انہیں مسلمانوں کے لشکر پر صرف کرکے ان کی روانگی کا سامان کریں تو زیادہ باعث اجر ہوگا، خانہ کعبہ کو ان زیورات کی کیا ضرورت ہے۔ چنانچہ عمر نے اس کا ارادہ کر لیا اور امیرالمومنین علیہ السلام سے اس کے بار ے میں مسئلہ پوچھا۔
آپ نے فرمایا کہ جب قرآن مجید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تو اس وقت چار قسم کے اموال تھے، ایک مسلمانوں کا ذاتی مال تھا اسے آپ نے ان کے وارثوں میں ان کے حصہ کے مطابق تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ دوسرا مال غنیمت تھا، اسے اس کے مستحقین پر تقسیم کیا۔ تیسرا مال خمس تھا، اس مال کے اللہ تعالیٰ نے خاص مصارف مقرر کردیئے۔ چوتھے زکوٰۃ و صدقات تھے۔ انہیں اللہ نے وہاں صرف کرنے کاحکم دیا جو ان کامصرف ہے۔ یہ خانہ کعبہ کے زیورات اس زمانہ میں بھی موجود تھے لیکن اللہ نے ان کو ان کے حال پر رہنے دیا اور ایسا بھولے سے تو نہیں ہوا، اور نہ ان کا وجود اس پر پوشیدہ تھا۔ لہٰذا آپ بھی انہیں وہیں رہنے دیجئے جہاں اللہ اور اس کے رسول نے انہیں رکھاہے۔ یہ سن کر عمر نے کہا کہ اگر آپ نہ ہوتے تو ہم رسوا ہوجاتے اور زیورات ان کی حالت پر رہنے دیا۔