۲۷۱
روایت کی گئی ہے کہ حضرت کے سامنے دو آدمیوں کو پیش کیا گیا جنہوں نے بیت المال میں چوری کی تھی ایک تو ان میں غلام اور خود بیت المال کی ملکیت تھا، اور دوسرا لوگوں میں سے کسی کی ملکیت میں تھا۔ آپ نے فرمایا کہ “یہ غلام جو بیت المال کا ہے اس پر حد جاری نہیں ہوسکتی کیونکہ اللہ کا مال اللہ کے مال ہی نے کھایا ہے لیکن دوسرے پر حد جاری ہوگی۔ چنانچہ اس کا ہاتھ قطع کردیا۔
۲۷۲
اگران پھسلنوں سے بچ کر میرے پرجم گئے تومیں بہت سی چیزوں میں تبدیلی کر دوں گا۔
۲۷۳
پورے یقین کے ساتھ اس امر کو جانے رہو کہ اللہ سبحانہ نے کسی بندے کے لیے چاہے اس کی تدبیریں بہت زبردست اس کی جستجو شدید اور اس کی ترکیبیں طاقت ور ہوں اس سے زائد رزق قرار نہیں دیا جتنا کہ تقدیر الہی میں اس کے لیے مقرر ہوچکا ہے۔ اور کسی بندے کے لیے اس کمزوری و بے چارگی کی وجہ سے لوح محفو ظ میں اس کے مقررہ رزق تک پہنچنے میں رکاوٹ نہیں ہوتی۔ اس حقیقت کو سمجھنے والا اور اس پر عمل کر نے والا سود و منفعت کی راحتوں میں سب لوگوں سے بڑھ چڑھ کر ہے اور اسے نظر انداز کرنے اوراس میں شک و شبہ کرنے والا سب لوگوں سے زیادہ زیاں کاری میں مبتلاہے بہت سے وہ جنہیں نعمتیں ملی ہیں، نعمتوں کی بدولت کم کم عذا ب کے نزدیک کئے جارہے ہیں، اور بہت سوں کے ساتھ فقر فاقہ کے پردہ ہیں اللہ کا لطف وکرم شامل حال ہے لہٰذا اسے سننے والے شکر زیادہ اور جلد بازی کم کر اور جو تیری روزی کی حدہے اس پر ٹھہرا رہ.
۲۷۴
اپنے علم کو اور اپنے یقین کو شک نہ بناؤ جب جان لیا تو عمل کرو، اور جب یقین پیدا ہوگیا تو آگے بڑھو۔
۔
۲۷۵
طمع گھاٹ پر اتارتی ہے مگر سیراب کئے بغیر پلٹا دیتی ہے۔ ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتی ہے مگر اسے پورا نہیں کرتی۔ اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پانی پینے والے کو پینے سے پہلے ہی اچھو ہوجاتا ہے۔ اور جتنی کسی مرغوب و پسندیدہ چیز کی قدر و منزلت زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی اسے کھودینے کا رنج زیادہ ہوتا ہے۔ آرزوئیں دیدہ و بصیرت کو اندھا کردیتی ہیں اور جو نصیب میں ہوتا ہے پہنچنے کی کوشش کئے بغیر مل جاتا ہے۔
۲۷۶
اے اللہ !میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میرا ظاہر لوگوں کی چشمِ ظاہر بین میں بہتر ہو اور جو اپنے باطن میں چھپائے ہوئے ہوں، وہ تیری نظروں میں برا ہو۔ درآں حالیکہ میں لوگوں کے دکھاوے کے لیے اپنے نفس سے ان چیزوں سے نگہداشت کروں۔ جن سب سے تو آگا ہ ہے۔ اس طرح لوگوں کے سامنے تو ظاہر کے اچھا ہونے کی نمائش کروں اور تیرے سامنے اپنی بداعمالیوں کو پیش کر تا رہوں جس کے نتیجہ میں تیرے بندوں سے تقرب حاصل کر ں، اور تیری خوشنودیوں سے دور ہی ہوتا چلاجاؤں۔
۲۷۷
(کسی موقع پرقسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا)اس ذات کی قسم جس کی بدولت ہم نے ایسی شبِ تار کے باقی ماندہ حصہ کو بسر کردیا۔ جس کے چھٹتے ہی روز ِدرخشاں ظاہر ہوگا ایسا اور ایسا نہیں ہوا.
۲۷۸
وہ تھوڑ اعمل جو پابندی سے بجالایا جاتا ہے زیادہ فائدہ مند ہے اس کثیر عمل سے کہ جس سے دل اکتا جائے۔
۲۷۹
جب مستحبات فرائض میں سدِ راہ ہوں تو انہیں چھوڑ دو.
۲۸۰
جو سفرکی دوری کو پیش نظر رکھتا ہے وہ کمر بستہ رہتاہے۔
۲۸۱
آنکھوں کا دیکھنا حقیقت میں دیکھنا نہیں کیونکہ آنکھیں کبھی اپنے اشخاص سے غلط بیانی بھی کرجاتی ہیں مگر عقل اس شخص کو جو اس سے نصیحت چاہے کبھی فریب نہیں دیتی۔
۲۸۲
تمہارے اور پند و نصیحت کے درمیان غفلت کا ایک بڑا پردہ حائل ہے۔
۲۸۳
تمہارے جاہل دولت زیادہ پاجاتے ہیں اور عالم آئندہ کے توقعات میں مبتلا رکھے جاتے ہیں۔
۲۸۴
علم کا حاصل ہوجانا، بہانے کرنے والوں کے عذر کو ختم کردیتا ہے۔
۲۸۵
جسے جلدی سے موت آجاتی ہے وہ مہلت کا خواہاں ہوتا ہے اور جسے مہلت زندگی دی گئی ہے وہ ٹال مٹول کرتارہتا ہے۔
۲۸۶
لوگ کسی شے پر “واہ واہ “نہیں کرتے مگر یہ کہ زمانہ اس کے لیے ایک برا دن چھپائے ہوئے ہے۔
۲۸۷
آپ سے قضا و قدر کے متعلق پوچھا گیا تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا ! یہ ایک تاریک راستہ ہے اس میں قدم نہ اٹھاؤ.ایک گہرا سمندر ہے۔ اس میں نہ اترو اللہ کا ایک راز ہے اسے جاننے کی زحمت نہ اٹھاؤ.
۲۸۸
اللہ جس بندے کو ذلیل کرنا چاہتا ہے اسے علم و دانش سے محروم کردیتاہے۔
۲۸۹
عہد ماضی میں میر اایک دینی بھائی تھا اور وہ میری نظروں میں اس وجہ سے باعزت تھا کہ دنیااس کی نظروں میں پست و حقیر تھی۔ اس پر پیٹ کے تقاضے مسلط نہ تھے۔ لہٰذا جوچیز اُسے میسر نہ تھی اس کی خواہش نہ کرتا تھا اور جو چیز میسر تھی اسے ضرورت سے زیادہ صرف میں نہ لاتا تھا۔ وہ اکثر اوقات خاموش رہتا تھا اور اگر بولتا تھا تو بولنے والوں کو چپ کرادیتا تھا اور سوال کرنے والوں کی پیاس بجھا دیتا تھا۔ یوں تو وہ عاجز و کمزور تھا، مگر جہاد کا موقع آجائے تو وہ شیر بیشہ اور وادی کا اژدھا تھا۔ وہ جو دلیل و برہان پیش کرتا تھا، وہ فیصلہ کن ہوتی تھی۔ وہ ان چیزوں میں کہ جن میں عذر کی گنجائش ہوتی تھی، کسی کو سرزنش نہ کرتا تھا جب تک کہ اس کے عذر معذرت کو سن نہ لے وہ کسی تکلیف کا ذکر نہ کرتا تھا، مگر اس وقت کہ جب اس سے چھٹکارا پا لیتا تھا، وہ جو کرتا تھا، وہی کہتا تھا اور جو نہیں کرتا تھا وہ اسے کہتا نہیں تھا.اگر بولنے میں اس پر کبھی غلبہ پا بھی لیا جائے تو خاموشی میں اس پر غلبہ حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا.وہ بولنے سے زیادہ سننے کا خواہشمند رہتا تھا اور جب اچانک اس کے سامنے دوچیزیں آجاتی تھیں تو دیکھتا تھا کہ ان دونوں میں سے ہوائے نفس کے زیادہ قریب کون ہے تو وہ اس کی مخالفت کرتا تھا۔ لہٰذا تمہیں ان عادات و خصائل کو حاصل کرنا چاہیے اور ان پر عمل پیرا اور ان کا خواہشمند رہنا چاہیے اگر ان تما م کا حاصل کرنا تمہاری قدرت سے باہر ہو تو اس بات کو جانے رہو کہ تھوڑی سی چیز حاصل کرنا پور ے کے چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔
۲۹۰
اگر خداوند عالم نے اپنی معصیت کے عذاب سے نہ ڈرایا ہوتا، جب بھی اس کی نعمتوں پر شکر کا تقاضا یہ تھا کہ اس کی معصیت نہ کی جائے۔
۲۹۱
اشعث ابن قیس کو اس کے بیٹے کا پرسا دیتے ہوئے فرمایا:
اے اشعث !اگرتم اپنے بیٹے پر رنج وملال کرو تو یہ خون کا رشتہ اس کا سزا وار ہے، اور اگرصبر کرو تو اللہ کے نزدیک ہر مصیبت کا عوض ہے۔ اے اشعث !اگرتم نے صبر کیا تو تقدیر الہی نافذ ہوگی اس حال میں کہ تم اجر و ثواب کے حقدار ہو گے اور اگر چیخے چلائے، جب بھی حکم قضا کا جاری ہو کر رہے گا۔ مگر اس حال میں کہ تم پر گناہ کا بوجھ ہوگا۔ تمہارے لیے بیٹا مسرت کا سبب ہوا حالانکہ وہ ایک زحمت و آزمائش تھا اور تمہارے لیے رنج واندوہ کا سبب ہوا حالانکہ وہ (مرنے سے )تمہارے لیے اجر و رحمت کا باعث ہوا ہے۔
۲۹۲
رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کے دفن کے وقت قبر پر یہ الفاظ کہے۔
صبر عموماًاچھی چیز ہے سوائے آپ کے غم کے اور بیتابی و بے قراری عموما ًبری چیز ہے سوائے آپ کی وفات کے اور بلاشبہ آپ کی موت کا صدمہ عظیم ہے، اور آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آنے والی مصیبت سبک ہے.
۲۹۳
بے وقوف کی ہم نشینی اختیا ر نہ کرو کیونکہ وہ تمہارے سامنے اپنے کاموں کو سجا کر پیش کرے گا اور یہ چاہے گا کہ تم اسی کے ایسے ہوجاؤ.
۲۹۴
آپ سے دریافت کیا گیا کہ مشرق و مغرب کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ؟آپ نے فرمایا “سورج کا ایک دن کا راستہ”.
۲۹۵
تین قسم کے تمہارے دوست ہیں اور تین قسم کے دشمن۔ دوست یہ ہیں :تمہارا دوست، تمہارے دوست کا دوست، اور تمہارے دشمن کا دشمن اور دشمن یہ ہیں :تمہار ا دشمن، تمہارے دوست کا دشمن اورتمہارے دشمن کا دوست۔
۲۹۶
حضرت نے ایک ایسے شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے دشمن کو ایسی چیز کے ذریعہ سے نقصان پہنچانے کے درپے ہے جس میں خود اس کو بھی نقصان پہنچے گا، تو آ پ نے فرمایا کہ تم اس شخص کی مانند ہوجو اپنے پیچھے والے سوار کو قتل کرنے کے لیے اپنے سینہ میں نیزہ مارے۔
۲۹۷
نصیحتیں کتنی زیادہ ہیں اور ان سے اثر لینا کتنا کم ہے۔
۲۹۸
جو لڑائی جھگڑے میں حد سے بڑھ جائے وہ گنہگار ہوتا ہے اور جو اس میں کمی کرے، اس پر ظلم ڈھائے جاتے ہیں اور جو لڑتا جھگڑتا ہے اس کے لیے مشکل ہوتا ہے کہ وہ خوف خدا قائم رکھے۔
۲۹۹
وہ گناہ مجھے اندوہناک نہیں کرتا جس کے بعد مجھے مہلت مل جائے کہ میں دو رکعت نماز پڑھوں اور اللہ سے امن و عافیت کاسوال کروں۔
۳۰۰
امیرالمومنین علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ خداوند عالم اس کثیر التعداد مخلوق کا حساب کیونکر لے گا؟ فرمایا جس طرح اس کی کثرت کے باوجود روزی انہیں پہنچاتا ہے۔ پوچھا وہ کیونکر حساب لے گا جب کہ مخلوق اسے دیکھے گی نہیں؟ فرمایا جس طرح انہیں روزی دیتا ہے اور وہ اسے دیکھتے نہیں۔