اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ

اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ0%

اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
زمرہ جات: مشاہدے: 42531
ڈاؤنلوڈ: 4283

تبصرے:

اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 41 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42531 / ڈاؤنلوڈ: 4283
سائز سائز سائز
اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ

اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۳۳۱

جب کاہل اور ناکارہ افراد عمل میں کوتاہی کرتے ہیں تو اللہ کی طرف سے یہ عقلمند وں کے لیے ادائے فرض کا ایک بہترین موقع ہوتا ہے۔

۳۳۲

حکام اللہ کی سر زمین میں اس کے پاسبان ہیں۔

۳۳۳

مومن کے متعلق فرمایا! مومن کے چہرے پر بشاشت اور دل میں غم و اندوہ ہوتا ہے۔ ہمت اس کی بلند ہے اور اپنے دل میں وہ اپنے کو ذلیل سمجھتا ہے سر بلندی کو برا سمجھتا ہے اور شہرت سے نفرت کرتا ہے اس کا غم بے پایاں اور ہمت بلند ہوتی ہے۔ بہت خاموش ہمہ وقت مشغو ل، شاکر، صابر، فکر میں غرق, دست طلب بڑھانے میں بخیل، خوش خلق اور نرم طبیعت ہوتا ہے اور اس کا نفس پتھر سے زیادہ سخت اور خود غلام سے زیادہ متواضع ہوتا ہے۔

۳۳۴

اگر کوئی بندہ مدت حیات اور اس کے انجا م کو دیکھے تو امیدوں اور ان کے فریب سے نفرت کرنے لگے۔

۳۳۵

ہر شخص کے مال میں دو حصہ دار ہوتے ہیں۔ ایک وارث اور دوسرے حوادث.

۳۳۶

جس سے مانگا جائے وہ اس وقت تک آزاد ہے، جب تک وعدہ نہ کرے۔

۳۳۷

جو عمل نہیں کرتا اور دعا مانگتا ہے وہ ایسا ہے جیسے بغیر حلیہ کمان کے تیر چلانے والا.

۳۳۸

علم دو طرح کا ہوتا ہے، ایک وہ جو نفس میں بس جائے اور ایک وہ جو صرف سن لیا گیاہو اور سناسنایا فائدہ نہیں دیتا جب تک وہ دل میں راسخ نہ ہو۔

۳۳۹

اصابتِ رائے اقبال و دولت سے وابستہ ہے اگر یہ ہے تو وہ بھی ہوتی ہے اور اگر یہ نہیں تو وہ بھی نہیں ہوتی.

جب کسی کا بخت یاور اور اقبال اوج و عروج پر ہوتا ہے تو اس کے قدم خود بخود منزل مقصود کی طر ف بڑھنے لگتے ہیں۔ اور ذہن و فکر کو صحیح طریق کار کے طے کرنے میں کوئی الجھن نہیں ہوتی اور جس کا اقبال ختم ہونے پر آتا ہے وہ روشنی میں بھی ٹھوکریں کھاتا ہے اور ذہن وفکر کی قوتیں معطل ہوکر رہ جاتی ہیں۔ چنانچہ جب بنی برمک کا زوال شروع ہوا تو ان میں سے دس آدمی ایک امر میں مشورہ کرنے کے لیے جمع ہوگئے مگر پوری رد و کد کے بعد بھی کسی صحیح نتیجہ تک نہ پہنچ سکے۔ یہ دیکھ کر یحییٰ نے کہا کہ خدا کی قسم یہ ہمارے زوال کا پیش خیمہ اور ہمارے ادبار کی علامت ہے کہ ہم دس آدمی بھی کوئی فیصلہ نہ کر سکیں۔ ورنہ جب ہمارا نیر و اقبال بام عروج پر تھا تو ہمارا ایک آدمی ایسی دس دس گتھیوں کو بڑی آسانی سے سلجھا لیتا تھا۔

۳۴۰

فقر کی زینت پاکدامنی اور تونگری کی زینت شکر ہے۔

۳۴۱

ظالم کے لیے انصاف کا دن اس سے زیادہ سخت ہوگا، جتنا مظلوم پر ظلم کا دن۔

۳۴۲

سب سے بڑی دولت مندی یہ ہے کہ دوسروں کے ہاتھ میں جو ہے اس کی آس نہ رکھی جائے۔

۳۴۳

گفتگوئیں محفوظ ہیں اور دلوں کے بھید جانچے جانے والے ہیں۔ ہر شخص اپنے اعمال کے ہاتھوں میں گروی ہے اور لوگوں کے جسموں میں نقص اور عقلوں میں فتور آنے والا ہے مگر وہ کہ جسے اللہ بچائے رکھے۔ ان میں پوچھنے والا الجھانا چاہتا ہے اور جواب دینے والا (بے جانے بوجھے جواب کی)زحمت اٹھاتا ہے جو ان میں درست رائے رکھتا ہے۔ اکثر خوشنودی و ناراضگی کے تصورات اسے صحیح رائے سے موڑ دیتے ہیں اور جو ان میں عقل کے لحاظ سے پختہ ہوتا ہے بہت ممکن ہے کہ ایک نگا ہ اس کے دل پر اثر کردے اور ایک کلمہ اس میں انقلاب پیدا کردے۔

۳۴۴

اے گروہ مردم! اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ کتنے ہی ایسی باتوں کی امید باندھنے والے ہیں جن تک پہنچتے نہیں اور ایسے گھر تعمیر کرنے والے ہیں جن میں رہنا نصیب نہیں ہوتا اور ایسا مال جمع کرنے والے ہیں جسے چھوڑجاتے ہیں حالانکہ ہوسکتا ہے کہ اسے غلط طریقہ سے جمع کیا ہو یا کسی کا حق دبا کر حاصل کیا ہو۔ اس طرح اسے بطور حرام پایا ہو اور اس کی وجہ سے گناہ کا بوجھ اٹھایا ہو، تو اس کا وبال لے کر پلٹے اور اپنے پروردگار کے حضور رنج و افسوس کرتے ہوئے جا پہنچے دنیا و آخرت دونوں میں گھاٹا اٹھایا۔ یہی تو کھلم کھلا گھاٹا ہے۔

۳۴۵

گناہ تک رسائی کا نہ ہوتا بھی ایک صورت پاکدامنی کی ہے۔

۳۴۶

تمہاری آبرو قائم ہے جسے دست سوال دراز کرنا بہا دیتا ہے۔ لہٰذا یہ خیال رہے کہ کس کے آگے اپنی آبرو ریزی کر رہے ہو۔

۳۴۷

کسی کو اس کے حق سے زیادہ سراہنا چاپلوسی ہے اور حق میں کمی کرنا کوتاہ بیانی ہے یا حسد.

۳۴۸

سب سے بھاری گناہ وہ ہے کہ جس کا ارتکاب کرنے والا اسے سبک سمجھے۔

چھوٹے گناہوں میں بے باکی و بے اعتنائی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان گناہ کے معاملہ میں بے پرواہ سا ہوجاتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ عادات اسے بڑے بڑے گناہوں کی جرات دلا دیتی ہے اور پھر وہ بغیر کسی جھجک کے ان کا مرتکب ہونے لگتا ہے۔ لہٰذا چھوٹے گناہوں کو بڑے گناہوں کا پیش خیمہ سمجھتے ہوئے ان سے احتراز کر نا چاہیے تاکہ بڑے گناہوں کے مرتکب ہونے کی نوبت ہی نہ آئے۔

۳۴۹

جو شخص اپنے عیوب پر نظر رکھے گا وہ دوسروں کی عیب جوئی سے باز رہے گا۔ اور جو اللہ کے دیئے ہوئے رزق پر خوش رہے گا، وہ نہ ملنے والی چیز پر رنجیدہ نہیں ہو گا۔ جو ظلم کی تلوار کھینچتا ہے وہ اسی سے قتل ہوتا ہے جو اہم امور کو زبردستی انجام دینا چاہتا ہے۔ وہ تباہ و بر باد ہوتا ہے، جو اٹھتی ہوئی موجوں میں پھاندتا ہے، وہ ڈوبتا ہے، جو بدنامی کی جگہوں پر جائے گا، وہ بدنام ہوگا، جو زیادہ بولے گا، وہ زیادہ لغزشیں کرے گا اور جس میں حیا کم ہو اس میں تقویٰ کم ہوگا اور جس میں تقویٰ کم ہوگا اس کا دل مردہ ہوجائے گا۔ اور جس کا دل مردہ ہوگیا وہ دوزخ میں جا پڑا۔ جو شخص لوگوں کے عیوب کو دیکھ کر نا ک بھول چڑھائے اور پھر انہیں اپنے لیے چاہے اور سرا سرا حمق ہے قناعت ایسا سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہوتا۔ جو موت کو زیادہ یاد رکھتا ہے وہ تھوڑی سی دنیا پر بھی خوش ہو رہتا ہے۔ جو شخص یہ جانتا ہے کہ اس کاقول بھی عمل کا ایک جز ہے، وہ مطلب کی بات کے علاوہ کلام نہیں کرتا۔

۳۵۰

لوگوں میں جو ظالم ہو اس کی تین علامتیں ہیں :وہ ظلم کرتا ہے اپنے سے بالا ہستی کی خلاف ورزی سے، اور اپنے سے پست لوگوں پر قہر و تسلط سے اور ظالموں کی کمک و امداد کرتا ہے۔

۳۵۱

جب سختی انتہا کوپہنچ جائے تو کشائش و فراخی ہوگی اور جب ابتلاء ومصیبت کی کڑیاں تنگ ہوجائیں تو راحت و آسائش حاصل ہوتی ہے۔

۳۵۲

اپنے اصحاب میں سے ایک سے فرمایا زن و فرزند کی زیادہ فکر میں نہ رہو، اس لیے کہ اگر وہ دوستان خدا ہیں تو خدا اپنے دوستوں کو برباد نہ ہونے دے گا اور اگر دشمنان خدا ہیں تو تمہیں دشمنان خدا کی فکروں اور دھندوں میں پڑنے سے مطلب ہی کیا۔

۳۵۳

سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ اس عیب کو بر ا کہو، جس کے مانند خود تمہارے اندر موجود ہے۔

اس سے بڑھ کر اور عیب کیا ہوسکتا ہے کہ انسان دوسروں کے ان عیوب پر نکتہ چینی کرے جو خود اس کے اندر بھی پائے جاتے ہوں، تقاضائے عدل تو یہ ہے کہ وہ دوسروں کے عیوب پر نظر کرنے سے پہلے اپنے عیوب پر نظرکرے اور سوچے کہ عیب، عیب ہے وہ دوسرے کے اند ر پایا جائے یا اپنے اندر

ہمہ عیب خلق دیدن نہ مروت است و مروی نگہے بخویشین کن کہ ہمہ گنا ہ داری

۳۵۴

حضرت کے سامنے ایک نے دوسرے شخص کو فرزند کے پید ا ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ “شہسوار مبارک ہو”.جس پر حضرت نے فرمایا کہ یہ نہ کہو کہ تم بخشنے والے (خدا) کے شکر گزار ہوئے یہ بخشی ہوئی نعمت تمہیں مبارک ہو، یہ اپنے کمال کو پہنچے اور اس کی نیکی و سعادت تمہیں نصیب ہو۔

۳۵۵

حضرت کے عمال میں سے ایک شخص نے ایک بلند عمار ت تعمیر کی جس پر آپ نے فرمایا۔ چاندی کے سکوں نے سر نکالا ہے۔ بلاشبہ یہ عمار ت تمہاری ثروت کی غمازی کرتی ہے.

۳۵۶

حضرت سے کہا گیا کہ اگر کسی شخص کو گھر میں چھوڑ کر اس کا دروازہ بند کردیا جائے تو اس کی روزی کدھر سے آئے گی؟ فرمایا:

جدھر سے اس کی موت آئے گی۔

اگر خداوند عالم کی مصلحت اس امر کی مقتضی ہو کہ وہ کسی ایسے شخص کو زندہ رکھے جسے کسی بند جگہ میں محصور کردیاگیا ہو، تو وہ اس لیے سروسامان زندگی مہیا کرکے اسے زندہ رکھنے پر قادر ہے اور جس طرح بند دروازے موت کو نہیں روک سکتے، اسی طرح رزق سے بھی مانع نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اس قادر مطلق کی قدرت دونوں پر یکساں کار فرما ہے.

مقصد یہ ہے کہ انسان کو رزق کے معاملہ میں قانع ہونا چاہیے کیونکہ جو اس کے مقدر میں ہے وہ جہا ں کہیں بھی ہوگا، اسے بہر صورت ملے گا

می رسد در خانہ در بستہ روزی چوں اجل حرص داردایں چنیں آشفتہ خاطر خلق را

۳۵۷

حضرت نے ایک جماعت کو ان کے مرنے والے کی تعزیت کرتے ہوئے فرمایا کہ “موت کی ابتداء تم سے نہیں ہوئی ہے اور نہ اس کی انتہا تم پر ہے یہ تمہارا ساتھی مصروف سفر رہتا تھا۔ اب بھی یہی سمجھو کہ وہ اپنے کسی سفرمیں ہے اگر وہ آگیا تو بہتر، ورنہ تم خود اس کے پاس پہنچ جاؤگے”۔

۳۵۸

اے لوگو! چاہیے کہ اللہ تم کو نعمت و آسائش کے موقع پر بھی اسی طرح خائف و ترساں دیکھے جس طرح تمہیں عذاب سے ہراساں دیکھتا ہے۔ بیشک جسے فراخ دستی حاصل ہو، اور وہ اسے کم کم عذاب کی طرف بڑھنے کا سبب نہ سمجھے تو اس نے خوفناک چیز سے اپنے کو مطمئن سمجھ لیا اور جو تنگدست ہو اور وہ اسے آزمائش نہ سمجھے تو اس نے اس ثواب کو ضائع کردیا۔ کہ جس کی امید وآرزو کی جاتی ہے.

۳۵۹

اے حرص و طمع کے اسیرو! باز آؤ کیونکہ دنیا پر ٹوٹنے والوں کو حوادث زمانہ کے دانت پیسنے ہی کا اندیشہ کرنا چاہیے۔

اے لوگو! خود ہی اپنی اصلاح کا ذمہ لو, اور اپنی عادتوں کے تقاضوں سے منہ موڑلو۔

۳۶۰

کسی کے منہ سے نکلنے والی بات میں اگر اچھائی کاپہلو نکل سکتا ہو، تو اس کے بارے میں بدگمانی نہ کرو۔

۳۶۱

جب اللہ تعالیٰ سے کوئی حاجت طلب کرو، تو پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجو، پھر اپنی حاجت مانگو، کیونکہ خداوند عالم اس سے بلند تر ہے کہ اس سے دوحاجتیں طلب کی جائیں اور وہ ایک پوری کردے اور ایک روک لے۔

۳۶۲

جسے اپنی آبرو عزیز ہو، وہ لڑائی جھگڑے سے کنارہ کش رہے۔

۳۶۳

امکان پیداہونے سے پہلے کسی کام میں جلد بازی کرنا اور موقع آنے پر دیر کرنا دونوں حماقت میں داخل ہیں۔

۳۶۴

جو بات نہ ہونے والی ہو اس کے متعلق سوال نہ کرو۔ اس لیے کہ جو ہے، وہی تمہارے لیے کافی ہے۔

۳۶۵

فکر ایک روشن آئینہ ہے، عبر ت اندوزی ایک خیر خواہ متنبہ کرنے والی چیز ہے، نفس کی اصلاح کے لیے یہی کافی ہے کہ جن چیزوں کو دوسروں کے لیے برا سمجھتے ہو ان سے بچ کر رہو۔

۳۶۶

علم عمل سے وابستہ ہے۔ لہٰذا جو جانتا ہے وہ عمل بھی کرتا ہے اور علم عمل کو پکارتا ہے۔ اگروہ لبیک کہتا ہے تو بہتر، ورنہ وہ بھی اس سے رخصت ہوجاتا ہے۔

۳۶۷

اے لوگو! دنیا کا سازوسامان سوکھا سڑا بھوسا ہے جو وبا پید ا کرنے والاہے۔ لہٰذ ا اس چراگاہ سے دور رہو کہ جس سے چل چلاؤ باطمینان منزل کرنے سے زیادہ فائدہ مند ہے اورصرف بقدر کفاف لے لینا اس دولت و ثروت سے زیادہ برکت والا ہے اس کے دولت مندوں کے لیے فقر طے ہوچکا ہے اور اس سے بے نیاز رہنے والوں کو راحت کا سہارا دیا گیا ہے۔ جس کو اس کی سج دھج لبھا لیتی ہے، وہ انجام کار اس کی دونوں آنکھوں کو اندھا کردیتی ہے اور جو اس کی چاہت کو اپنا شعار بنا لیتا ہے وہ اس کے دل کو ایسے غموں سے بھر دیتی ہے جو دل کی گہرائیوں میں تلاطم برپا کر تے ہیں یوں کہ کبھی کوئی فکر اسے گھیرے رہتی ہے، اور کبھی کوئی اندیشہ اسے رنجیدہ بنائے رہتا ہے۔ وہ اسی حالت میں ہوتا ہے کہ اس کا گلاگھوٹاجانے لگتا ہے اور وہ بیابان میں ڈال دیا جاتا ہے اس عالم میں کہ اس کے دل کی دونوں رگیں ٹوٹ چکی ہوتی ہیں۔ اللہ کو اس کا فنا کرنا سہل اور اس کے بھائی بندوں کا اسے قبر میں اتارنا آسان ہوجاتا ہے.مومن دنیا کو عبرت کی نگاہ سے دیکھتاہے اور اس سے اتنی ہی غذا حاصل کرتا ہے۔ جتنی پیٹ کی ضرورت مجبور کرتی ہے اور اس کے بارے میں ہر بات کو بغض و عناد کے کانوں سے سنتا ہے اگر کسی کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مال دار ہو گیا ہے تو پھر یہ بھی کہنے میں آتا ہے کہ نادار ہو گیا ہے اگر زندگی پر خوشی کی جاتی ہے تو مرنے پرغم بھی ہوتا ہے۔ یہ حالت ہے حالانکہ ابھی وہ دن نہیں آیا کہ جس میں پوری مایوسی چھا جائے گی۔

۳۶۸

اللہ سبحانہ نے اپنی اطاعت پرثواب اور اپنی معصیت پر سزا اس لیے رکھی ہے کہ اپنے بندوں کوعذاب سے دور کرے اور جنت کی طرف گھیرکرلے جائے.

۳۶۹

لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا جب ان میں صرف قرآن کے نقوش اور اسلام کا صر ف نام باقی رہ جائے گا، اس وقت مسجدیں تعمیر و زینت کے لحا ظ سے آباد اور ہدایت کے اعتبار سے ویران ہوں گی۔ ان میں ٹھہرنے والے اور انہیں آباد کرنے والے تمام اہل زمین میں سب سے بدتر ہوں گے، وہ فتنوں کا سرچشمہ اور گناہوں کا مرکز ہو ں گے جو ان فتنوں سے منہ موڑ ے گا، انہیں انہی فتنوں کی طرف پلٹائیں گے اور جوقدم پیچھے ہٹائے گا، انہیں دھکیل کر ان کی طرف لائیں گے۔ ارشاد الہی ہے کہ “مجھے اپنی ذات کی قسم میں ان لوگوں پر ایسا فتنہ نازل کروں گا جس میں حلیم و بردبار کو حیران و سر گردان چھوڑ دوں گا “.

چنانچہ وہ ایسا ہی کرے گا، ہم اللہ سے غفلت کی ٹھوکروں سے عفو کے خواستگار ہیں۔

۳۷۰

جب بھی آپ منبر پر رونق افروز ہوتے تو ایسا اتفاق کم ہوتا تھا کہ خطبہ سے پہلے یہ کلما ت نہ فرمائیں۔

اے لوگو! اللہ سے ڈرو,کیونکہ کوئی شخص بے کار پیدا نہیں کیاگیا کہ وہ کھیل کود میں پڑ جائے، اور نہ اسے بے قید و بند چھوڑ دیا گیا ہےکہ بیہودگیا ں کرنے لگے اور دنیا جو اس کے لیے آراستہ و پیراستہ ہے اس آخرت کا عوض نہیں ہوسکتی جس کو اس کی غلط نگاہ نے بری صورت میں پیش کیا ہے وہ فریب خوردہ جو اپنی بلند ہمتی سے دنیا حاصل کرنے میں کامیاب ہو اس دوسرے شخص کے مانند نہیں ہوسکتا جس نے تھوڑا بہت آخرت کا حصہ حاصل کرلیا ہو۔

۳۷۱

کوئی شرف اسلام سے بلند تر نہیں کوئی بزرگی تقویٰ سے زیادہ با وقار نہیں، کوئی پناہ گاہ پرہیز گاری سے بہتر نہیں، کوئی سفارش کرنے والا توبہ سے بڑھ کر کامیاب نہیں، کوئی خزانہ قناعت سے زیادہ بے نیاز کرنے والا نہیں کوئی مال بقدر کفاف پر رضا مند رہنے سے بڑھ کرفقر و احتیاج کا دور کرنے والا نہیں۔ جوشخص قدر حاجت پر اکتفا کرلیتا ہے وہ آسائش و راحت پالیتا ہے۔ اورآرام و آسودگی میں منزل بنا لیتا ہے۔ خواہش و رغبت، رنج و تکلیف کی کلید اور مشقت و اندو ہ کی سوار ی ہے.حرص تکبر اور حسد گناہوں میں پھاند پڑنے کے محرکا ت ہیں اور بدکرداری تمام برے عیوب کو حاوی ہے۔

۳۷۲

جابر ابن عبداللہ انصار ی سے فرمایا اے جابر! چارقسم کے آدمیوں سے دین و دنیا کا قیام ہے عالم جو اپنے علم کو کام میں لاتا ہو,جاہل جو علم کے حاصل کرنے میں عار نہ کرتا ہو,سخی جو داد و دہش میں بخل نہ کرتا ہو، اور فقیر جو آخرت کو دنیا کے عوض نہ بیچتا ہو۔ تو جب عالم اپنے علم کو برباد کرے گا، توجاہل اس کے سیکھنے میں عار سمجھے گا اور جب دولت مند نیکی و احسان میں بخل کرے گا تو فقیر اپنی آخرت دنیا کے بدلے بیچ ڈالے گا۔

اے جابر ! جس پراللہ کی نعمتیں زیادہ ہوں گی لوگوں کی حاجتیں بھی اس کے دامن سے زیادہ وابستہ ہوں گی لہٰذا جوشخص ان نعمتوں پرعائد ہونے والے حقوق کو اللہ کی خاطر ادا کرے گا، وہ ان کے لیے دوام و ہمیشگی کا سامان کرے گا اور جو ان واجب حقوق کے ادا کرنے کے لیے کھڑا نہیں ہو گا وہ انہیں فنا و بربادی کی زد پر لے آئے گا۔

۳۷۳

ابن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں عبدالرحمٰن ابن ابی لیلیٰ فقیہ سے روایت کی ہے اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جو ابن اشعث کے ساتھ حجا ج سے لڑنے کے لیے نکلے تھے کہ وہ لوگوں کو جہاد پر ابھارنے کے لیے کہتے تھے کہ جب اہل شام سے لڑنے کے لیے بڑھے تو میں نے علی علیہ السلام کو فرماتے سنا۔

اے اہل ایمان ! جو شخص دیکھے کہ ظلم و عدوان پر عمل ہو رہا ہے اور برائی کی طرف دعوت دی جارہی ہے اور وہ دل سے اسے برا سمجھے، تو وہ (عذاب سے )محفوظ اور (گناہ سے) بری ہو گیا، اور جوزبان سے اسے برا کہے وہ ماجور ہے صرف دل سے بر اسمجھنے والے سے افضل ہے اور جو شخص شمشیر بکف ہو کر اس برائی کے خلاف کھڑا ہوتا کہ اللہ کا بول بالا ہو، اور ظالموں کی بات گر جائے تو یہی وہ شخص ہے جس نے ہدایت کی راہ کو پالیا اور سیدھے راستے پر ہولیا اور اس کے دل میں یقین نے روشنی پھیلا دی۔

۳۷۴

اسی انداز پرحضرت کا ایک یہ کلام ہے لوگوں میں سے ایک وہ ہے جو برائی کو ہاتھ، زبان اور دل سے برا سمجھتا ہے۔ چنانچہ اس نے اچھی خصلتوں کو پورے طور پر حاصل کر لیا ہے اور ایک وہ ہے جو زبان اور دل سے براسمجھتا ہے لیکن ہاتھ سے اسے نہیں مٹاتا تو اس نے اچھی خصلتوں میں سے دوخصلتوں سے ربط رکھا اور ایک خصلت کو رائیگاں کر دیا اور ایک وہ ہے جو دل سے بر ا سمجھتا ہے لیکن اسے مٹانے کے لیے ہاتھ اور زبان کسی سے کام نہیں لیتا اس نے تین خصلتوں میں سے دوعمدہ خصلتوں کو ضائع کردیا، اور صرف ایک سے وابستہ رہا اور ایک وہ ہے جو نہ زبان سے، نہ ہاتھ سے اور نہ دل سے برائی کی روک تھام کرتا ہے، یہ زندوں میں (چلتی پھرتی ہوئی )لاش ہے۔

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمام اعمالِ خیر اور جہاد فی سبیل اللہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلہ میں ایسے ہیں، جیسے گہرے دریا میں لعاب دہن کے ریزے ہوں یہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ایسا نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے موت قبل از وقت آجائے، یا رزق معین میں کمی ہوجائے اور ان سب سے بہتر وہ حق بات ہے جو کسی جابر حکمرا ن کے سامنے کہی جائے۔

۳۷۵

ابو حجیفہ سے روایت ہے کہ انہوں نے امیر المومنین علیہ السّلام کو فرماتے سنا کہ !

پہلا جہاد کہ جس سے تم مغلوب ہو جاؤگے، ہاتھ کا جہاد ہے۔ پھر زبان کا، پھر دل کا جس نے د ل سے بھلائی کو اچھائی اور برائی کو بر ا نہ سمجھا، اسے الٹ پلٹ کر دیا جائے گا۔ اس طرح کہ اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر کردیا جائے گا۔

۳۷۶

حق گراں، مگر خوش گوار ہوتا ہے اور باطل ہلکا,مگر وبا پیداکرنے والا ہوتا ہے۔

۳۷۷

اس امت کے بہترین شخص کے بارے میں بھی اللہ کے عذاب سے بالکل مطمئن نہ ہو جاؤ.کیونکہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے کہ “گھاٹا اٹھانے والے لوگ ہی اللہ کے عذاب سے مطمئن ہوبیٹھے ہیں “.اور اس امت کے بدترین آدمی کے بارے میں بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ کیونکہ ارشاد الہی ہے کہ “خداکی رحمت سے کافروں کے علاوہ کوئی اورناامید نہیں ہوتا “.

۳۷۸

بخل تمام برے عیوب کا مجموعہ ہے اور ایسی مہار ہے جس سے ہربرائی کی طرف کھنچ کر جایاجا سکتا ہے۔

۳۷۹

رزق دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جس کی تلا ش میں تم ہو، اور ایک وہ جوتمہاری جستجو میں ہے۔ اگر تم اس تک نہ پہنچ سکو گے، تو وہ تم تک پہنچ کررہے گا۔ لہٰذ ا اپنے ایک دن کی فکر پر سال بھر کی فکریں نہ لادو۔ جو ہر دن کارزق ہے وہ تمہارے لیے کافی ہے، تو اللہ ہر نئے دن جو روزی اس نے تمہارے لیے مقرر کر رکھی ہے وہ تمہیں دے گا اور تمہاری عمر کا کوئی سال باقی نہیں ہے تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کوئی طلبگارتمہارے رزق کی طرف تم سے آگے بڑھ نہیں سکتا اور نہ کوئی غلبہ پانے والا اس میں تم پر غالب آسکتا ہے اور جو تمہارے لیے مقدر ہوچکا ہے اس کے ملنے میں کبھی تاخیر نہ ہوگی.

(سید رضی فرماتے ہیں کہ) یہ کلام اسی باب میں پہلے بھی درج ہوچکا ہے۔ مگر یہاں کچھ زیادہ وضاحت و تشریح کے ساتھ تھا,اس لیے ہم نے اس کا اعادہ کیا ہے اس قاعدہ کی بناء پر جو کتا ب کے دیباچہ میں گزر چکا ہے۔

۳۸۰

بہت سے لوگ ایسے دن کا سامنا کرتے ہیں جس سے انہیں پیٹھ پھرانا نہیں ہوتا۔ اور بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ رات کے پہلے حصہ میں ان پر رشک کیا جاتا ہے اورآخر ی حصہ میں ان پر رونے والیوں کا کہرام بپاہوتا ہے.

۳۸۱

کلام تمہارے قید وبند میں ہے جب تک تم نے اسے کہا نہیں ہے اور جب کہہ دیا، تو تم اس کی قید و بند میں ہو۔ لہٰذا اپنی زبان کی اسی طرح حفاظت کرو جس طرح اپنے سونے چاندی کی کرتے ہو کیونکہ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو کسی بڑی نعمت کو چھین لیتی اور مصیبت کو نازل کردیتی ہیں۔

۳۸۲

جو نہیں جانتے اسے نہ کہو، بلکہ جوجانتے ہو، وہ بھی سب کاسب نہ کہو۔ کیونکہ اللہ سبحانہ نے تمہارے تمام اعضا پر کچھ فرائض عائد کئے ہیں جن کے ذریعہ قیامت کے دن تم پر حجت لائے گا۔

۳۸۳

اس بات سے ڈرتے رہو کہ اللہ تمہیں اپنی معصیت کے وقت موجود اور اپنی اطاعت کے وقت غیر حاضر پائے تو تمہارا شمار گھاٹا اٹھانے والوں میں ہو گا.جب قوی ودانا ثابت ہونا ہو تو اللہ کی اطاعت پر اپنی قو ت دکھاؤاور کمزور بننا ہو تواس کی معصیت سے کمزوری دکھاؤ.

۳۸۴

دنیا کی حالت دیکھتے ہوئے اس کی طرف جھکنا جہالت ہے اور حسن عمل کے ثواب کا یقین رکھتے ہوئے اس میں کوتاہی کرنا گھاٹا اٹھانا ہے۔ اور پرکھے بغیر ہر ایک پر بھروسا کرلینا عجز و کمزور ی ہے۔

۳۸۵

اللہ کے نزدیک دنیا کی حقارت کے لیے یہی بہت ہے کہ اللہ کی معصیت ہوتی ہے تو اس میں اور اس کے یہاں کی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں تو اسے چھوڑنے سے۔

۳۸۶

جو شخص کسی چیز کو طلب کرے تو اسے یا اس کے بعض حصہ کو پالے گا۔ (جونیدہ یا بندہ )

۳۸۷

وہ بھلائی بھلائی نہیں جس کے بعد دوزخ کی آگ ہو۔ اور وہ برائی برائی نہیں جس کے بعد جنت ہو۔ جنت کے سامنے ہر نعمت حقیر، اور دوزخ کے مقابلہ میں ہر مصیبت راحت ہے۔

۳۸۸

اس بات کو جانے رہو کہ فقر و فاقہ ایک مصیبت ہے، اور فقر سے زیادہ سخت جسمانی امراض ہیں اور جسمانی امراض سے زیادہ سخت دل کا روگ ہے۔ یاد رکھو کہ مال کی فراوانی ایک نعمت ہے اور مال کی فراوانی سے بہتر صحت بدن ہے، اور صحت بد ن سے بہتر دل کی پرہیز گاری ہے۔

۳۸۹

جسے عمل پیچھے ہٹائے، اسے نسب آگے نہیں بڑھا سکتا (ایک دوسری روایت میں اس طرح ہے )جسے ذاتی شرف و منزلت حاصل نہ ہو اسے آباؤ اجداد کی منزلت کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔

۳۹۰

مومن کے اوقات تین ساعتوں پر منقسم ہوتے ہیں ایک وہ کہ جس میں اپنے پروردگار سے رازو نیاز کی باتیں کرتا ہے۔ اور ایک وہ جس میں اپنے معاش کا سروسامان کرتا ہے اور وہ کہ جس میں حلال و پاکیزہ لذتوں میں اپنے نفس کو آزاد چھوڑ دیتا ہے۔ عقلمند آدمی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ گھر سے دور ہو، مگر تین چیزوں کے لیے “معاش”کے بندوبست کے لیے یا امر آخرت کی طرف قدم اٹھانے کے لیے یا ایسی لذت اندوزی کے لیے کہ جو حرام نہ ہو.