۳۹۱
دنیا سے بے تعلق رہو ,تاکہ اللہ تم میں دنیا کی برائیوں کا احساس پیدا کرے .اور غافل نہ ہو اس لیے کہ تمہاری طرف سے غافل نہیں ہوا جائے گا
۳۹۲
بات کرو ,تاکہ پہچانے جاؤکیونکہ آدمی اپنی زبا ن کے نیچے پوشیدہ ہے
۳۹۳
جو دنیا سے تمہیں حاصل ہوا اسے لے لو اور جو چیز رخ پھیر لے اس سے منہ موڑ ے رہو .اور اگر ایسا نہ کر سکو تو پھر تحصیل و طلب میں میانہ روی اختیار کرو
۳۹۴
بہت سے کلمے حملہ سے زیادہ اثر ونفوذ رکھتے ہیں
۳۹۵
جس چیز پر قناعت کر لی جائے و ہ کافی ہے
۳۹۶
موت ہو اور ذلت نہ ہو .کم ملے اور دوسروں کو وسیلہ بنانا نہ ہو ,جسے بیٹھے بٹھائے نہیں ملتا اسے اٹھنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا زمانہ دو۲ دنوں پر منقسم ہے ایک دن تمہارے موافق اور ایک تمہارے مخالف .جب موافق ہوتو اتراؤ نہیں اور جب مخالف ہو تو صبر کرو
۳۹۷
بہترین خوشبو مشک ہے جس کا ظرف ہلکا اورمہک عطر بار ہے
۳۹۸
فخر و سر بلندی کو چھوڑ دو ,تکبر و غرو ر کو مٹاؤ اور قبر کو یاد رکھو
۳۹۹
ایک حق فرزند کا باپ پر ہوتا ہے اور ایک حق باپ کا فرزند پر ہوتا ہے .باپ کا فرزند پر یہ حق ہے کہ وہ سوائے اللہ کی معصیت کے ہر با ت میں اس کی اطاعت کرے اور فرزند کا باپ پر یہ حق ہے کہ اس کا نام اچھا تجویز کرے ,اچھے اخلاق و آداب سے آراستہ کرے اور قرآن کی اسے تعلیم دے
۴۰۰
چشم بد ,افسوس ,سحر اورفال نیک ان سب میں واقعیت ہے .البتہ فال بد اور ایک بیماری کا دوسرے کو لگ جانا غلط ہے خوشبو سونگھنا ,شہد کھانا,سواری کرنا اور سبزے پر نظرکرنا غم و اندوہ اور قلق و اضطراب کو دور کرتا ہے
۴۰۱
لوگوں سے ان کے اخلاق و اطوار میں ہمرنگ ہونا ان کے شر سے محفوظ ہوجاناہے
۴۰۲
ایک ہم کلام ہونے والے سے کہ جس نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر ایک بات کہی تھی ,فرمایا تم پر نکلتے ہی اڑنے لگے اور جوان ہونے سے پہلے بلبلانے لگے
۴۰۳
جو شخص مختلف چیز وں کا طلب گار ہوتا ہے اس کی ساری تدبیریں ناکا م ہوجاتی ہیں .”طلب الکل فوت الکل “.
۴۰۴
حضرت سے لاحول ولا قوۃ الا باللہ (قوت وتوانائی نہیں مگر اللہ کے سبب سے )کے معنی دریافت کئے گئے تو آپ نے فرمایا کہ ہم خدا کے ساتھ کسی چیز کے مالک نہیں اس نے جن چیزوں کا ہمیں مالک بنایا ہے بس ہم انہیں پر اختیار رکھتے ہیں .تو جب اس نے ہمیں ایسی چیز کا مالک بنا یا جس پر وہ ہم سے زیاد ہ اختیا ر رکھتا ہے تو ہم پر شرعی ذمہ داریاں عائد کیں .اور جب اس چیز کو واپس لے گا تو ہم سے اس ذمہ داری کو بھی بر طرف کردے گا
۴۰۵
عمار بن یاسر کو جب مغیر ہ ابن شعبہ سے سوال وجواب کرتے سنا تو ان سے فرمایا !اے عمار اسے چھوڑ دو اس نے دین سے بس وہ لیا ہے جو اسے دنیا سے قریب کر ے اور اس نے جان بوجھ کراپنے کو اشتباہ میں ڈال رکھا ہے تاکہ ان شبہات کو اپنی لغزشوں کے لیے بہانہ قرار دے سکے
۴۰۶
اللہ کے یہاں اجر کے لیے دولتمندوں کا فقیروں سے عجز و انکساری برتنا کتنا اچھا ہے اور اس سے اچھا فقرا کا اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے دولتمندوں کے مقابلہ میں غرور سے پیش آنا ہے
۴۰۷
اللہ نے کسی شخص کو عقل ودیعت نہیں کی ہے مگر یہ کہ وہ کسی دن اس کے ذریعہ سے اسے تباہی سے بچائے گا
۴۰۸
جو حق سے ٹکرائے گا,حق اسے پچھاڑ دے گا
۴۰۹
دل آنکھوں کا صحیفہ ہے
۴۱۰
تقویٰ تمام خصلتوں کا سرتاج ہے
۴۱۱
جس ذات نے تمہیں بولنا سکھایا ہے اسی کے خلاف اپنی زبان کی تیزی صرف نہ کرو .اور جس نے تمہیں راہ پر لگا یا ہے اس کے مقابلہ میں فصاحت ُگفتار کا مظاہرہ نہ کرو
۴۱۲
تمہارے نفس کی آراستگی کے لیے یہی کافی ہے کہ جس چیز کو اوروں کے لیے ناپسند کرتے ہو ,اس سے خود بھی پرہیز کرو
۴۱۳
جو انمردوں کی طرح صبر کرے ,نہیں تو سادہ لوحوں کی طرح بھو ل بھال کر چپ ہوگا
۴۱۴
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اشعث ابن قیس کو تعزیت دیتے ہوئے فرمایا :اگر بزرگوں کی طرح تم نے صبر کیا تو خیر !ورنہ چوپاؤں کی طرح ایک دن بھول جاؤگے
۴۱۵
دنیا کے متعلق فرمایا!
دنیا دھوکے باز ,نقصان رساں اور رواں دواں ہے .اللہ نے اپنے دوستوں کے لیے اسے بطور ثواب پسند نہیں کیا ,اور نہ دشمنوں کے لیے اسے بطور سزا پسند کیا.اہل دنیا سواروں کے مانند ہیں کہ ابھی انہوں نے منزل کی ہی تھی کہ ہنکانے والے نے انہیں للکارا ,اور چل دیئے
۴۱۶
اپنے فرزند حسن علیہ السلام سے فرمایا :اے فرزند دنیا کی کوئی چیز اپنے پیچھے نہ چھوڑ و .اس لیے کہ تم دو۲ میں سے ایک کے لیے چھوڑ و گے .ایک وہ جو اس مال کو خدا کی اطاعت میں صرف کرے گا تو جو مال تمہارے لیے بدبختی کا سبب بنا وہ اس کے لیے راحت وآرام کا باعث ہوگا.یاوہ ہوگا جو اسے خدا کی معصیت میں صرف کرے ,تو وہ تمہارے جمع کر دہ مال کی وجہ سے بد بخت ہوگا اور اس صورت میں تم خدا کی معصیت میںاس کے معین و مدد گار ہوگے ,اور ان دونوں میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں کہ اسے اپنے نفس پر ترجیح دو
۴۱۷
ایک کہنے والے نے آپ کے سامنے استغفراللہ کہا.تو آپ نے اس سے فرمایا
تمہاری ماں تمہارا سوگ منائے کچھ معلوم بھی ہے کہ استغفار کیاہے ؟استغفار بلند منزلت لوگوں کامقام ہے اور یہ ایک ایسا لفظ ہے جو چھ باتوں پر حاوی ہے .پہلے کہ جو ہوچکااس پر نادم ہو ,دوسرے ہمیشہ کے لیے اس کے مرتکب نہ ہونے کاتہیا کرنا ,تیسرے یہ کہ مخلوق کے حقوق ادا کرنا یہاں تک کہ اللہ کے حضور میں اس حالت میں پہنچو کہ تمہارا دامن پاک و صاف اورتم پر کوئی مواخذہ نہ ہو.چوتھے یہ کہ جو فرائض تم پر عائد کئے ہوئے تھے ,اور تم نے انہیں ضائع کردیاتھا .انہیں اب پورے طور پر بجالاؤ .پانچویں یہ کہ جو گوشت (کل )حرام سے نشونما پاتا رہا ہے ,اس کو غم و اندوہ سے پگھلاؤیہاں تک کے کھال کو ہڈیوں سے ملادو کہ پھرسے ان دونوں کے درمیان نیا گوشت پیدا ہو,چھٹے یہ کہ اپنے جسم کو اطاعت کے رنج سے آشنا کرو .جس طرح اسے گناہ کی شیرینی سے لذت اندوز کیا ہے .تو اب کہو “استغفراللہ “.
۴۱۸
حلم و تحمل ایک پورا قبیلہ ہے
۴۱۹
بیچارہ آدمی کتنا بے بس ہے موت اس سے نہاں ,بیماریاں اس سے پوشیدہ اور اس کے اعمال محفوظ ہیں .مچھر کے کاٹنے سے چیخ اٹھتاہے ,اچھو لگنے سے مرجاتا ہے اور پسینہ اس میں بدبو پیدا کر دیتا ہے
۴۲۰
وارد ہوا ہے کہ حضرت اپنے اصحاب کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے ,کہ ان کے سامنے سے ایک حسین عورت کا گزر ہوا جسے انہوں نے دیکھنا شروع کیا جس پر حضرت نے فرمایا:
ان مردوں کی آنکھیں تاکنے والی ہیں اور یہ نظر باز ی ان کی خواہشات کو برانگیختہ کرنے کاسبب ہے لہٰذا تم میں سے کسی کی نظر ایسی عورت پر پڑے کہ جو اسے اچھی معلوم ہوتو اسے اپنی زوجہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ عورت بھی اس عورت کے مانند ہے .یہ سن کر ایک خارجی نے کہا کہ خدااس کافرکو قتل کر ے یہ کتنا برا فقیہ ہے .یہ سن کر لوگ اسے قتل کرنے اٹھے.حضرت نے فرمایا کہ ٹھہرو !زیادہ سے زیادہ گالی کا بدلہ گالی ہوسکتا ہے ,یااس کے گناہ ہی سے درگزر کرو