۴۲۱
اتنی عقل تمہارے لیے کافی ہے کہ جو گمراہی کی راہوں کو ہدایت کے راستوں سے الگ کر کے تمہیں دکھا دے۔
۴۲۲
اچھے کا م کر و اور تھوڑی سی بھلائی کو بھی حقیر نہ سمجھو۔ کیونکہ چھوٹی سی نیکی بھی بڑی اور تھوڑی سی بھلائی بھی بہت ہے۔ تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ اچھے کام کے کرنے میں کوئی دوسرا مجھ سے زیادہ سزاوار ہے۔ ورنہ خدا کی قسم ایسا ہی ہوکر رہے گا۔ کچھ نیکی والے ہوتے ہیں اور کچھ برائی والے۔ جب تم نیکی یا بدی کسی ایک کو چھوڑ دو گے، تو تمہارے بجائے اس کے اہل اسے انجام دے کر رہیں گے
۴۲۳
جو اپنے اندرونی حالات کو درست رکھتا ہے خدا اس کے ظاہر کو بھی درست کر دیتا ہے۔ اور جو دین کے لیے سرگرم عمل ہوتا ہے، اللہ اس کے دنیا کے کاموں کو پوراکر دیتا ہے اور جو اپنے اور اللہ کے درمیان خوش معاملگی رکھتا ہے۔ خدا اس کے اور بندوں کے درمیان کے معاملات ٹھیک کردیتا ہے.
۴۲۴
حلم وتحمل ڈھانکنے والا پردہ اور عقل کاٹنے والی تلوار ہے۔ لہٰذا اپنے اخلاق کے کمزور پہلو کو حلم وبردباری سے چھپاؤ, اور اپنی عقل سے خواہش نفسانی کا مقابلہ کرو۔
۴۲۵
بندوں کی منفعت رسائی کے لیے اللہ کچھ بندگان خدا کو نعمتوں سے مخصوص کرلیتا ہے۔ لہٰذا جب تک وہ دیتے دلاتے رہتے ہیں، اللہ ان نعمتوں کو ان کے ہاتھوں میں برقرار رکھتا ہے اور جب ان نعمتوں کو روک لیتے ہیں تو اللہ ان سے چھین کر دوسروں کی طرف منتقل کردیتا ہے۔
۴۲۶
کسی بندے کے لیے مناسب نہیں کہ وہ دو چیزوں پر بھروسا کرے۔ ایک صحت اور دوسرے دولت کیونکہ ابھی تم کسی کو تندرست دیکھ رہے تھے، کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے بیمار پڑجاتاہے، اور ابھی تم اسے دولتمند دیکھ رہے تھے کہ فقیر و نادار ہوجاتاہے۔
۴۲۷
جو شخص اپنی حاجت کا گلہ کسی مرد مومن سے کرتا ہے۔ گویا اس نے اللہ کے سامنے اپنی شکایت پیش کی۔ اور جو کافر کے سامنے گلہ کرتا ہے گویا اس نے اپنے اللہ کی شکایت کی۔
۴۲۸
ایک عید کے موقع پر فرمایا :
عید صرف اس کے لیے ہے جس کے روزوں کو اللہ نے قبول کیا ہو، اور اس کے قیام (نماز )کو قدر کی نگاہ سے دیکھتاہو، اور ہروہ دن کہ جس میں اللہ کی معصیت نہ کی جائے عید کا دن ہے.
۴۲۹
قیامت کے دن سب سے بڑی حسرت اس شخص کی ہوگی جس نے اللہ کی نافرمانی کرکے مال حاصل کیاہو، اور اس کا وارث وہ شخص ہوا ہو جس نے اسے اللہ کی اطاعت میں صرف کیا ہو کہ یہ تو اس مال کی وجہ سے جنت میں داخل ہوا، اور پہلا اس کی وجہ سے جہنم میں گیا.
۴۳۰
لین دین میں سب سے زیادہ گھاٹا اٹھا نے والا اور دوڑ دھوپ میں سب سے زیادہ ناکام ہونے والا وہ شخص ہے جس نے مال کی طلب میں اپنے بدن کو بوسیدہ کر ڈالا ہو۔ مگر تقدیر نے اس کے ارادوں میں اس کا ساتھ نہ دیا ہو۔ لہٰذا وہ دنیا سے بھی حسرت لیے ہوئے گیا اور آخرت میں بھی اس کی پاداش کاسامنا کیا۔
۴۳۱
رزق دو طرح کا ہوتا ہے ایک وہ جو خود ڈھونڈتا ہے اور ایک وہ جسے ڈھونڈا جاتا ہے چنانچہ جو دنیا کا طلبگار ہوتا ہے، موت اس کو ڈھونڈتی ہے۔ یہاں تک کہ دنیا سے اسے نکال باہر کرتی ہے اور جو شخص آخرت کاخواستگار ہوتا ہے، دنیا خود اسے تلاش کرتی ہے یہاں تک کہ وہ اس سے تمام و کمال اپنی روزی حاصل کر لیتا ہے.
۴۳۲
دوستان خدا وہ ہیں کہ جب لوگ دنیا کے ظاہر کو دیکھتے ہیں تو وہ اس کے باطن پر نظر کرتے ہیں اور جب لوگ اس کی جلد میسر آجانے والی نعمتوں میں کھو جاتے ہیں، تو وہ آخرت میں حاصل ہونے چیزوں میں منہمک رہتے ہیں اور جن چیزوں کے متعلق انہیں یہ کھٹکا تھا کہ وہ انہیں تباہ کریں گی، انہیں تباہ کرکے رکھ دیا اور جن چیزوں کے متعلق انہوں نے جان لیا کہ وہ انہیں چھوڑ دینے والی ہیں انہیں انہوں نے خود چھوڑ دیا اور دوسروں کے دنیا زیادہ سمیٹنے کوکم خیال کیا، اور اسے حاصل کرنے کو کھو نے کے برابر جانا۔ وہ ان چیزوں کے دشمن ہیں جن سے دوسروں کی دوستی ہے اور ان چیزوں کے دوست ہیں جن سے اوروں کو دشمنی ہے ان کے ذریعہ سے قرآن کا علم حاصل ہوا قرآن کے ذریعہ سے ا ن کا علم ہوا اور ان کے ذریعہ سے کتاب خدا محفوظ اور وہ اس کے ذریعہ سے برقرار رہیں۔ وہ جس چیز کی امید رکھتے ہیں اس سے کسی چیز کو بلند نہیں سمجھتے اور جس چیز سے خائف ہیں اس سے زیادہ کسی شے کو خوفناک نہیں جانتے.
۴۳۳
لذتوں کے ختم ہونے اور پاداشوں کے باقی رہنے کو یاد رکھو۔
۴۳۴
آز ماؤ تاکہ اس سے نفرت کرو۔
۴۳۵
ایسا نہیں کہ اللہ کسی بندے کے لیے شکر کا دروازہ کھولے اور (نعمتوں کی) افزائش کا دروازہ بند کر دے اور کسی بندے کے لیے دعا کا دروازہ کھولے اور درقبولیت کو اس کے لیے بند رکھے اور کسی بندے کے لیے تو بہ کا دروازہ کھولے اور مغفرت کا دروازہ اس کے لیے بندکردے۔
۴۳۶
لوگوں میں سب سے زیادہ کرم و بخشش کا وہ اہل ہے جس کا رشتہ اشراف سے ملتا ہو۔
۴۳۷
آپ سے دریافت کیا گیا کہ عدل بہتر ہے یا سخاوت؟ فرمایا عدل تمام امور کو ان کے موقع و محل پر رکھتا ہے، اور سخاوت ان کو ان کی حدوں سے باہر کردیتی ہے عدل سب کی نگہداشت کر تا ہے، اور سخاوت اسی سے مخصوص ہوگی۔ جسے دیا جائے۔ لہٰذا عدل سخاوت سے بہتر و برتر ہے۔
۴۳۸
لوگ جس چیز کونہیں جانتے اس کے دشمن ہوجاتے ہیں۔
۴۳۹
(زہد کی مکمل تعریف قرآ ن کے دو جملوں میں ہے ) ارشاد الہی ہے۔ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے اس پر رنج و نہ کرو، اور جو چیز خدا تمہیں دے اس پر اتراؤ نہیں لہٰذا جو شخص جانے والی چیز پر افسوس نہیں کرتا اور آنے والی چیز پر اتراتا نہیں، اس نے زہد کو دونوں سمتوں سے سمیٹ لیا۔
۴۴۰
نیند دن کی مہموں میں بڑ ی کمزوری پیدا کر نے والی ہے۔
۴۴۱
حکومت لوگوں کے لیے آزمائش کا میدان ہے.
۴۴۲
تمہارے لیے ایک شہر دوسرے شہر سے زیادہ حقدار نہیں (بلکہ )بہتر ین شہر وہ ہے جو تمہارا بوجھ اٹھائے۔
۴۴۳
جب مالک اشتر رحمتہ اللہ کی خبر شہادت آئی، تو فرمایا:
مالک! اور مالک کیا شخص تھا۔ خدا کی قسم اگر وہ پہاڑ ہوتا تو ایک کوہ بلند ہوتا، اور اگر وہ پتھر ہوتا تو ایک سنگ گراں ہوتا کہ نہ تو اس کی بلندیوں تک کوئی سم پہنچ سکتا اور نہ کوئی پرندہ وہاں تک پر مار سکتا۔
۴۴۴
وہ تھوڑا عمل جس میں ہمیشگی ہو اس سے زیادہ ہے، جو دل تنگی کا باعث ہو.
۴۴۵
اگر کسی آدمی میں عمدہ و پاکیزہ خصلت ہو تو ویسی ہی دوسری خصلتوں کے متوقع رہو۔
۴۴۶
فرزوق کے باپ غالب ابن صعصعہ سے باہمی گفتگو کے دوران فرمایا:
وہ تمہارے بہت سے اونٹ کیا ہوئے؟ کہا کہ حقوق کی ادائیگی نے انہیں منتشر کردیا۔ فرمایا کہ :یہ تو ان کا انتہائی اچھا مصرف ہوا۔
۴۴۷
جو شخص احکام فقہ کے جانے بغیر تجارت کرے گا، وہ ربا میں مبتلا ہوجائے گا۔
۴۴۸
جو شخص ذرا سی مصیبت کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔ اللہ اسے بڑی مصیبتوں میں مبتلا کردیتا ہے۔
۴۴۹
جس کی نظر میں خود اپنے نفس کی عزت ہوگی وہ اپنی نفسانی خواہشوں کو بے وقعت سمجھے گا۔
۴۵۰
کوئی شخص کسی دفعہ ہنسی مذاق نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ اپنی عقل کا ایک حصہ اپنے سے الگ کر دیتا ہے۔
۴۵۱
جو تمہاری طر ف جھکے اس سے بے اعتنائی برتنا اپنے خط ونصیب میں خسارہ کرنا ہے، اور جوتم سے بے رخی اختیار کرے، اس کی طرف جھکنا نفس کی ذلت ہے۔
۴۵۲
اصل فقر و غنا (قیامت میں )اللہ کے سامنے پیش ہونے کے بعد ہوگا۔
۴۵۳
زبیر ہمیشہ ہمارے گھر کا آدمی رہا یہاں تک کہ اس کا بدبخت بیٹا عبداللہ نمودار ہوا۔
۴۵۴
فرزند آدم کو فخر ومباہات سے کیا ربط، جب کہ اس کی ابتدائ نطفہ اور انتہا مردار ہے، وہ نہ اپنے لیے روز ی کاسامان کر سکتا ہے، نہ موت کو اپنے سے ہٹا سکتا ہے۔
۴۵۵
حضر ت سے پوچھا گیا کہ سب سے بڑا شاعر کون ہے ؟فرمایا کہ شعرا کی دوڑ ایک روش پر نہ تھی کہ گوئی سبقت لے جانے سے ان کی آخری حد کو پہچانا جائے، اور اگر ایک کو ترجیح دینا ہی ہے تو پھر ملک ضلیل (گمراہ بادشاہ)ہے۔
۴۵۶
کیا کوئی جوانمرد ہے جو اس چبائے ہوئے لقمہ (دنیا) کو اس کے اہل کے لیے چھوڑدے تمہارے نفسوں کی قیمت صرف جنت ہے۔ لہٰذاجنت کے علاوہ او ر کسی قیمت پر انہیں نہ بیچو.
۴۵۷
دو ایسے خواہشمند ہیں جو سیر نہیں ہوتے طالب علم اور طلبگار دنیا۔
۴۵۸
ایمان کی علامت یہ ہے کہ جہاں تمہارے لیے سچائی باعث نقصان ہو، اسے جھو ٹ پر ترجیح دو,خواہ وہ تمہارے فائدہ کا باعث ہو رہا ہو، اور تمہاری باتیں، تمہارے عمل سے زیادہ نہ ہوں اور دوسرے کے متعلق بات کرنے میں اللہ کا خوف کرتے رہو۔
۴۵۹
تقدیر ٹھہرائے ہوئے انداز ے پر غالب آجاتی ہے۔ یہاں تک کہ چارہ سازی ہی تباہی و آفت بن جاتی ہے۔
۴۶۰
برد باری اور صبردونوں کا ہمیشہ ہمیشہ کا ساتھ ہے اور یہ دونوں بلند ہمتی کا نتیجہ ہیں۔
۴۶۱
کمزور کا یہی زور چلتا ہے کہ وہ پیٹھ پیچھے برائی کرے۔
۴۶۲
بہت سے لوگ اس وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ان کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار کیاجاتاہے۔
۴۶۳
دنیا ایک دوسری منزل کے لیے پیدا کی گئی ہے نہ اپنے (بقاودوام کے) لیے۔
۴۶۴
بنی امیہ کے لیے ایک مرودارواد (مہلت کا میدان )ہے جس میں وہ دوڑ لگا رہے ہیں جب ان میں باہمی اختلاف رونما ہو تو پھر بجو بھی ان پر حملہ کریں تو ان پر غالب آجائیں گے۔
۴۶۵
انصار کی مدح و توصیف میں فرمایا خدا کی قسم انہوں نے اپنی خوش حالی سے اسلام کی اس طرح تربیت کی، جس طرح یکسالہ بچھڑے کو پالا پوسا جاتا ہے۔ اپنے کریم ہاتھو ں اور زبانوں کے ساتھ۔
۴۶۶
آنکھ عقب کے لیے تسمہ ہے۔
۴۶۷
ایک کلام کے ضمن آپ نے فرمایا:
لوگوں کے امور کا ایک حاکم و فرماں روا ذمہ دار ہوا جو سیدھے پر چلا اور دوسروں کو اس راہ پر لگایا۔ یہاں تک کہ دین نے اپنا سینہ ٹیک دیا.
۴۶۸
لوگوں پر ایک ایسا گزند پہنچانے والا دور آئے گا، جس میں مالدار اپنے مال میں بخل کرے گا حالانکہ اسے یہ حکم نہیں۔ چنانچہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے کہ “آپس میں حسن سلوک کو فراموش نہ کرو “اس زمانہ میں شریر لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور نیکو کار ذلیل خوار سمجھے جائیں گے اور مجبور اور بے بس لوگوں سے خرید و فروخت کی جائے گی.حالانکہ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے مجبور و مضطر لوگوں سے (اونے پونے )خریدنے کومنع کیا ہے۔
۴۶۹
میرے بارے میں دوقسم کے لوگ ہلاکت میں مبتلا ہوں گے۔ ایک محبت میں حد سے بڑھ جانے والا اور دوسرا جھوٹ و افترا باندھنے والا۔
۴۷۰
حضرت سے توحید و عدل کے متعلق سوال کیاگیا توآپ نے فرمایا:
توحید یہ ہے کہ اسے اپنے وہم و تصور کا پابند نہ بناؤ اور یہ عدل ہے کہ اس پر الزامات نہ لگاؤ.
۴۷۱
حکمت کی بات سے خاموشی اختیار کرنا کوئی خوبی نہیں جس طرح جہالت کے ساتھ بات کرنے میں کوئی بھلائی نہیں۔
۴۷۲
طلب باراں کی ایک دعا میں فرمایا: بارِ الہٰا! ہمیں فرمانبردار ابروں سے سیراب کر، نہ اُن ابروں سے جو سرکش اور منہ زور ہوں
۴۷۳
حضرت(علیہ السلام ) سےکہا گیا کہ اگر آپ سفید بالوں کو (خضاب سے) بدل دیتے تو بہتر ہوتا۔ اس پر حضرت(علیہ السلام ) نے فرمایا کہ خضاب زینت ہے اور ہم لوگ سوگوار ہیں ۔
۴۷۴
وہ مجاہد جو خدا کی راہ میں شہید ہو، اُس شخص سے زیادہ اجر کا مستحق نہیں ہے جو قدرت و اختیار رکھتے ہوئے پاک دامن رہے۔ کیا بعید ہے کہ پاکدامن فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہو جائے۔
۴۷۵
قناعت ایسا سرمایہ ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔
۴۷۶
جب زیاد ابن ابیہ کو عبد اللہ ابن عباس کی قائم مقامی میں فارس اور اس کے ملحقہ علاقوں پر عامل مقرر کیا تو ایک باہمی گفتگو کے دوران میں کہ جس میں اسے پیشگی مالگزاری کے وصول کرنے سے روکنا چاہا یہ کہا:
عدل کی روش پر چلو۔ بے راہ روی اور ظلم سے کنارہ کشہ کرو کیونکہ بے راہ روی کا نتیجہ یہ ہو گا کہ انہیں گھر بار چھوڑنا پڑے گا اور ظلم انہیں تلوار اٹھانے کی دعوت دے گا۔
۴۷۷
سب سے بھاری گناہ وہ ہے جسے مرتکب ہونے وال سُبک سمجھے
۴۷۸
اللہ نے جاہلوں سے اس وقت تک سیکھنے کا عہد نہیں لیا جب تک جاننے والوں سے یہ عہد نہیں لیا کہ وہ سکھانے میں دریغ نہ کریں ۔
۴۷۹
بدترین بھائی وہ ہے جس کے لیے زحمت اٹھانا پڑے۔
۴۸۰
جب کوئی مومن اپنے کسی بھائی کا احتشام کرے تو یہ اُس سے جدائی کا سبب ہو گا۔
اختتام
سید رضی اس کتاب کے اختتام پر لکھتے ہیں :
اب یہ ہمارا پایانِ کار کی منزل ہے کہ ہم امیر المومنین(علیہ السلام ) کے منتخب کلام کا سلسلہ ختم کریں ۔ ہم اللہ سبحانہ کی بارگاہ میں شکر گزار ہیں کہ اُس نے ہم پر یہ احسان کیا کہ ہمیں توفیق دی کہ ہم حضرت کے منتشر کلام کو یک جا کریں اور دور دست کلام کو قریب لائیں ۔ ہمارا ارادہ ہے جیسا کہ پہلے طے کر چکے ہیں کہ ان ابواب میں سے ہر باب کے آخر میں کچھ سادہ ورق چھوڑ دیں تاکہ جو کلام اب تک ہاتھ نہیں لگا اُسے قابو میں لا سکیں اور جو ملے اُسے درج کر دیں ۔ شاید ایسا کلام جو اس وقت ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔ بعد میں ہمارے لیے ظاہر ہو اور دور ہونے کے بعد ہمارے دامن میں سمٹ آئے۔ ہمیں توفیق حاصل ہے تو اللہ سے اور اسی پر ہمارا بھروسا ہے اور وہی ہمارے لیے کافی اور اچھا کارساز ہے۔
یہ کتاب ماہ رجب سن ۴۰۰ ہجری میں اختتام کو پہنچی
وصلی الله علی سیدنا محمد خاتم الرسل، والهادی الی خیر السبل واله الطاهرین، و اصحابه نجوم الیقین