اسلام اور سیاست جلد ۱

اسلام اور سیاست 8%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 39 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 38347 / ڈاؤنلوڈ: 4458
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

اسلام اور سیاست جلد( ۱)

حضرت آیۃ اللہ مصباح یزدی مد ظلہ العالی

پہلا جلسہ

اسلامی سیاست کے سلسلے میں چند اہم سوالات

مقدمہ ۱

بے شک ہمارے اسلامی نظام اور انقلاب کے ثمرات میں سے ایک نماز جمعہ بھی ہے جس کے امت اسلامی کے لئے بہت سے فوائد ہیں مثلاً جس کا ایک ضمنی فائدہ مومنین کو ضروری چیزوں سے آگاہ کرنا ہے ، نماز جمعہ کے خطبوں سے قبل یا نماز جمعہ اور نماز عصر کے درمیان تقاریر کا سلسلہ لوگوں کے لئے بہت مفید ہے ، چنانچہ شروع انقلاب سے آج تک مختلف اساتید دانشمندان اور خطباء کے ذریعہ مختلف موضوعات منجملہ اعتقادی ‘تربیتی ‘ اقتصادی‘ وغیرہ جیسے عظیم اور مہم مسائل پرنماز جمعہ پڑھنے والوں کے درمیان یہ گفتگو ہوتی رہی ہے اور ریڈیو وغیرہ کے ذریعہ بھی دوسرے لوگوں تک یہ آواز پہونچتی رہی ہے۔

ہم نے بھی ”اعتقادی نظام اور ارزش اسلام میں توحید کی اہمیت“ کے موضوع پر تقریریں کیں ہیں ، جو الحمد للہ چھپ کر قارئین کرام تک پہونچ چکی ہیں ، فی الحال بعض احباب اور دوستوں کی فرمایش اور ان کے اصرار پر” اسلام کے سیاسی نظریات “ کے عنوان کے تحت چند جلسہ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور امیدوار ہیں کہ خداوند عالم اس سلسلہ میں ہماری مدد فرمائے، او رجو بھی اس کی مرضی ہو اور امت اسلام کے لئے مفید ہو وہ ہمیں الھام کرے ، او ر ہماری زبان پر جاری کرے ، تاکہ شھید پرور اور حزب اللٰھی امت تک ہم اس کو پہونچا سکیں ، ہماری اس بحث کا عنوان بہت وسیع ہے ، اس کے اندر مختلف موضوعات کی بحثیں کی جاسکتی ہیں چاہے وہ عمیق ہوں یا سادی اور رواں ۔

اگرچہ اس سلسلہ میں امام خمینی کی تحریک کے آغاز (یعنی۱۳۴۱ھجری شمشی )سے لے کر آج تک بہت سی گفتگو ہوتی رہی ہے اور مضامین و کتابیں بھی لکھی گئی ہیں ، اس طرح بہت سی تقاریر بھی ہوتی رہیں ہیں ، لیکن معاشرہ کے متوسط فہم لوگوں کے لئے بہت ہی کم اس طرح کے منظم مطالب بیان کئے گئے ہیں ، بہرحال احباب کا اصرا ر تھا کہ ان مطالب کو اس ترتیب سے بیان کیا جائے تاکہ سبھی لوگ اس سے استفادہ کرسکیں ،اور مختلف لوگوں کی خصوصا جوان طبقہ کی ضرورت کو پورا کرسکے ، الحمد للہ ہماری قوم تمدن کے لحاظ سے بہت عمدہ ہے ، خصوصاً آخری چند سالوں میں ہمارے معاشرے اور ماحول نے بہت زیادہ ترقی کی ہے ، اور بہت سے دقیق و عمیق مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، بہر حال علمی او ر ادبی زبان ، علمی مراکز (یونیورسٹی اور حوزات علمیہ )سے مخصوص ہے ، اور اگر عوام کے لئے گفتگو کرنا ہو تی ہے تو حتی المقدور علمی اصطلاحات نہیں ہونی چاہیئے تاکہ اکثر لوگ (چونکہ مطالعہ نہیں ہے ) ان ابحاث سے فائدہ اٹھا سکیں ، البتہ اس بات کی توجہ رکھنی چاہیے کہ اسلام کے سیاسی فلسفہ کے تحت جو گفتگو کی جائے گی اتنی مفصل بحث ہے جس کو ۱ ۰۰ جلسوں میں بھی بیان کرنا مشکل کام ہے ، اس وجہ سے ہم اپنے وقت اور جلسات کی محدودیت کی بنا پر کچھ منتخب مسائل کو چھیڑیں گے ، او ر جن مسائل کی زیادہ ضرورہے، اور جن کے سلسلہ میں سوالات اور شبھات کئے جاتے ہیں ،ان کے بارے میں بحث کریں گے۔

یہ توجہ رہے کہ ہمارا موضوع بنام”اسلام کا سیاسی فلسفہ “ تین کلموں سے مرکب ہے جس کے ہر ایک کلمہ کے لئے مفصل بحث درکار ہے اور سیاسی فلسفہ کی متعدداصطلاح ہیں (مثلاًعلم سیاست کا فلسفہ وعلم سیاست کے مقابل میں فلسفہ سیاسی) لیکن فلسفہ سیاسی سے ہماری یھاں مراد حکومت و سیاست کے بارے میں اسلامی نظریات کی توضیح وتفسیر ہے جو خاص اصولوں پر قائم ہے ، اور اسلامی حکومت کے سیاسی افکار بھی انہیں اصولوں کی بنیاد پرقابل وضاحت ہیں ۔

.۲اسلام اور اس کا سیاسی نظریہ

جس وقت ہم یہ بحث کرتے ہیں کہ اسلام ”سیاست اور حکومت“ کے سلسلہ میں ایک خاص نظریہ رکھتا ہے ، جواسلامی اصول و ضوابط پر مبتنی ہے توسب سے پہلے یہ سوال ہوتاہے کہ کیا دین سیاست و حکومت کے بارے میں کوئی خاص نظریہ رکھتا ہے تاکہ اسلام اس سیاسی نظریہ کو بیان کرے ؟ یہ ایک ایسا مشہور سوال ہے جو صدیوں سے مختلف ممالک اور مختلف معاشرہ میں ہوتا آیا ہے ، ہمارے ملک میں بھی یہ سوال مورد بحث چلا آیا ہے خصوصا مشروطیت کے زمانے سے آج تک اس سوال پر کافی زور دیا گیا ہے ،اور اس سلسلہ میں مختلف طریقوں سے بحث بھی ہوچکی ہے ،البتہ امام خمینی کے بیانات کے پیش نظر اور مرحوم شھید مدرس کے مشہور و معروف جملہ کہ ”ہمارا دین عین سیاست اور ہماری سیاست عین دین ہے“ جس نے ہمارے ذہن میں نقش بنا لیا ہے ، اور یہ مسئلہ ہم لوگوں کے لئے واضح اور روشن ہوچکا ہے، اور ہم اپنے لئے اس سوال کا واضح جواب رکھتے ہیں ، لیکن اسلام کے سیاسی نظریہ اور دین کی سیاست میں دخالت جیسے مسائل پر تحقیق اور بررسی کی ضرورت ہے ۔

مغربی تمدن میں دین کو جامعیت نہیں دی گئی ہے اور اس کو محدود کرکے پیش کیا گیا ہے کہ دین کا تعلق اجتماعی وسیاسی مسائل سے نہیں ہے ، فقط دین کے اندر انسان کا خدا سے رابطہ ہونا چاہئے اور فرد کا رابطہ خدا سے کیا ہے اس اس چیز کو دین کے اندر مغربی تمدن کے نزدیک بیان کیا جاتا ہے، لھٰذا سیاسی، اجتماعی ، بین الاقوامی، حکومت اور لوگوں کے درمیان روابط اور حکومتوں کے آپسی روابط یہ سب انسان اور خدا کے رابطہ سے جداگانہ چیزیں ہیں ، یعنی ان کا دین سے کوئی ربط نہیں ہے، لیکن اسلامی نقطہ نگاہ سے دین ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے کہ جس کے اندر انسان کے فردی مسائل اجتماعی مسائل شامل ہیں اور اس کے اندر انسان کا خدا سے رابطہ اور انسان کا آپس میں رابطہ اور دیگر سیاسی، اجتماعی اور بین الاقوامی روابط بھی شامل ہیں یعنی دین کے اندر یہ ساری باتیں پائی جاتی ہیں ، کیونکہ اسلام کے اعتبار سے خداوندعالم تمام دنیا پر حاکم ہے لھٰذا سیاست، اقتصاد (معاش) تعلیم وتربیت، مدیریت ارو وہ تمام مسائل جو انسانی زندگی سے متعلق ہیں وہ سب دینی احکام میں شامل ہیں ۔

۳۔اسلامی سیاسی نظریہ کا بنیادی ہونا

اب جبکہ ہم نے قبول کرلیا کہ اسلام حکومت اور سیاست کے سلسلے میں اپنا ایک نظریہ رکھتا ہے ، اور حکومت و سیاست کے بارے میں اسلام کی طرف ایک خاص نظریہ کی نسبت دی جاسکتی ہے ،اس نظریہ کی ماہیت و کیفیت کے بارے میں چند سوال پیدا ہوتے ہیں ۔

کیا اسلام کا سیاسی نظریہ ایک بنیادی نظریہ ہے یا کسی نظریہ کی تقلید ہے ؟یعنی کیا اسلام نے یہ نظریہ اختراع اور ایجاد کیا ہے اور خدا کے نازل شدہ تمام احکام تعبدی کی طرح اس نظریہ کو پیش کیا ہے یا یہ کہ اسلام نے کسی ایک نظریہ کو لے کر اس کی تائید کرکے پیش کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ اسلام نے بہت سے مسائل میں سیرت عقلاء کی تائید کی ہے ، جسے اصطلاحاً اسلام میں ”امضاء روش عقلاء“ کھا جاتا ہے، مثال کے طور پر عام انسان جس طرح کے معاملات کرتے ہیں مثلا خرید وفروخت ،کرایہ ،بیمہ وغیرہ ان کو سیرت عقلائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، کہ لوگوں نے ان کو ایجاد کیا ہے اور شارع مقدس نے ان کی تائید فرمائی ہے ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت ا ور سیاست کے سلسلہ میں اسلام کا نظریہ اسی طرح ہے کہ عقلاء نے کچھ حکومت و سیاست کے بارے میں نظریہ قائم کیئے اور ان کو قبول کیا ، اور شارع مقدس نے بھی ان نظریات کی تائید کرنے کے بعد قبول کرلیا ہے؟ یا یہ کہ خود اسلام نے اس سلسلے میں اپنا ایک خاص اور اختراعی نظریہ پیش کیا ہے ؟ اور دنیا کے تمام نظریات کے مقابلے میں ا سلامی حکومت کے بارے میں پیش کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے حکومت اور سیاست کے بارے میں سیاسی و اجتماعی زندگی کے لئے بنیادی و اختراعی اصولوں پر مشتمل ایک مجموعہ پیش کیاہے ، نہ یہ کہ اسلام کے نظریات تقلید ی اور تائیدی ہیں جو حضرات حکومت کے مختلف اشکالات اور سیاسی فلسفہ سے آگاہی رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس سلسلے میں مختلف نظریات موجود ہیں جن میں سے ایک نظریہ ” تئوکراسی“ (الہی حکومت ) بھی ہے یہ نظریہ عیسوی صدی کے وسط میں یعنی تقریباً ایک ھزار سال پہلے یورپ میں کلیسا (عیسائی کی عبادتگاہ) کی طرف سے پیش کیا گیا مخصوصاً کیتھولک عیسائیوں کے کلیسا کا کہنا یہ تھا کہ ہم لوگ خدا کی طرف سے لوگوں پر حاکم ہیں ، اس کے مقابلہ میں عیسائیوں کا دوسرا فرقہ یہ کھتا ہے تھا کہ حضرت عیسی مسیح (ع) کا دین سیاست سے جدا ہے ، یعنی دین اور سیاست میں کوئی ربط نہیں ہے۔

بہر حال دوسرے فرقے کا اعتقاد یہ تھا کہ پاپ کو حکومت کا حق ہے، اور خدا کی طرف سے کلیسا کو ایسا صاحب اقتدار ہونا چاہئے جو لوگوں پر خدا کی طرف سے حکومت کر سکے ، اور لوگوں کو بھی خدا کے حکم سے پاپ کی اطاعت کرنا چاہئے اس نظریہ کو تئو لوکراسی حکومت نام دیا گیا ۔

جب یہ کھاجاتا ہے کہ اسلام عام لوگوں کی ایجاد شدہ حکومت کے علاوہ اپنے خاص نظریہ کے تحت اسلامی اور الہی حکومت کوپیش کرتاہے تو کیا اس سے یھی تئوکراسی حکومت مراد ہوتی ہے جسے مغرب اور یورپ میں سمجہا جاتاہے اور الٰھی حکومت ان کے تمدن میں اسی معنی میں پہچانی جاتی ہے ؟ اور جس طرح تئوکراسی حکومت میں خدا وند عالم نے حاکم کو وسیع پیمانے پر اختیار ات دیئے ہیں اور وہ اپنی مرضی کے مطابق لوگوں پر حکومت کرسکتا ہے اور لوگوں پربھی واجب ہے کہ اس حاکم کی مرضی کے مطابق عمل کریں ؟کیا حکومت الہی و ولایی کے مطابق بھی جس کا ہم دعوی کرتے ہیں اور اسلام کے ولایت فقیہ کے نظریہ کے تحت کیا ولی فقیہ اپنی مرضی کے مطابق لوگوں پر حکومت کا حق رکھتا ہے اور کیا اس کو یہ بھی حق ہے کہ جس طرح وہ چاہے قوانین بنا کر ان کے ذریعہ لوگوں پر حکومت کرے ، اور لوگوں پر بھی اس کی اطاعت واجب ہے ؟

یہ سوال بہت اہم ہے اور ضروری ہے کہ اس سلسلے میں ایک مناسب بحث اور تحلیل کی ضرورت ہے تاکہ اس سلسلہ میں جو غلط فہمی پائی جاتی ہے وہ دور ہوجائے ۔

مذکورہ سوال کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ جس الھی حکومت کے ہم معتقد ہیں اور وہ تئوکراسی حکومت (جو مغرب اور یورپ میں معروف ہے ) زمین تا آسمان فرق رکھتی ہے ، یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ الھی حکومت اسلام کی نظرمیں وہی حکومت ہے کہ جس کے عیسائی خصوصا ًفرقہ کیتھولک خدا اور پاپ بارے میں قائل ہیں ۔

سیاسی صاحب نظرافراد نے حکومت کے نظریات کی کثرت کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے :

(۱) ڈکٹیٹری حکومت(شہنشاہی حکومت)

(۲)ڈیموکراٹک (جمہوری حکومت) اگرچہ ان دونوں کی بہت سی قسمیں موجود ہیں لیکن کلی طور پر حکومت کی دو قسمیں ہیں ۔

پہلی قسم ایسی حکومت جس میں حاکم اپنی مرضی سے حکومت کرتا ہے اور خود فرمان جاری کرتا ہے اور مختلف طریقوں سے اپنی حکومت کو چلاتا ہے اور اپنی فوجی طاقت کے ذریعہ لوگوں کو اپنی اطاعت پر مجبور کرتا ہے ۔

دوسری قسم ایسی حکومت جس میں لوگوں کی رائے دخالت رکھتی ہے اور لوگ اپنی مرضی سے اپنے حاکم کو چنتے ہیں اور حاکم بھی لوگوں کی خواہشات کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں یعنی ان کی حکومت لوگوں کے ارادے اور ان کی چاہت پر موقوف ہوتی ہے۔

۴۔اسلامی حکومت کی حقیقت اور اس کے ارکان

جن لوگوں نے حکومت کے سلسلہ میں مغربی تقسیم کو قبول کیا ہے اور معتقد ہیں کہ حکومت دو حال سے خالی نہیں ہے حکومت یا ڈکٹیٹری ہے یا ڈیموکراٹک اور جمہوریت ، اب یھاں یہ سوال ہوتا ہے کہ اسلامی حکومت ڈکٹیٹری حکومت ہے یعنی جو بھی حکومت پر ہو مختار ہے مثلا ًہمارے زمانہ میں ولی فقیہ اپنی طاقت و قدرت اور اسلحہ کے ذریعہ لوگوں پر حکومت کرتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق عمل کرتا ہے یا اسلامی حکومت کا کوئی نیا اندازھے ؟ یا اسلامی حکومت کی کوئی تیسری شکل ہے کہ نہ ڈکٹیٹری ہے اور نہ جمہوریت ؟

بہر حال حکومت کی دوگانہ تقسیم ایسی ہیں جن کو تمام لوگوں نے قبول کیا ہے لھٰذا اسلامی حکومت مذکورہ تقسیم سے خارج نہیں ہے یا یہ حکومت ڈکٹیٹری ہے یا جمہوری اگر اسلامی حکومت جمہوری ہے تو اسلامی حکومت کو یورپی حکومت میں پائے جانے والے طور طریقے اپنانا چاہئیں ، اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اسلامی حکومت ڈکٹیٹری حکومت ہوگی جو صرف خاص فرد کی مرضی پر تکیہ زن ہوتی ہے اور اس سلسلہ میں تیسر ے نظریہ کو انتخاب کرنے کی ضرورت نھیں ھے،لھٰذا ضرورت ہے اس چیز کی کہ اس اہم سوال کا جواب دیں اور بیان کریں کہ اسلامی حکومت ڈکٹیٹری ہے یا جمہوری یا کوئی تیسری قسم انہیں سوالوں میں سے ایک سوال یہ بھی ہوتاہے کہ اسلامی حکومت کے مقدمات اور اس کے ارکان کیا ہیں ؟ وہ کون سے ارکان ہیں کہ جن پر حکومت اسلامی کو توجہ رکھنی چاہئے تاکہ واقعی طور پر حکومت اسلامی ہوسکے ؟ جو حضرات ہمارے مذہب اور فقہ کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ اگر نماز کے ارکان میں کوئی ایک بھی رکن چھوٹ جائے چاہے عمداًطور پر چھوڑا جائے یا سھواً چھوٹ جائے اس کی نماز باطل ہوجائیگی در حقیقت ارکان نماز سے ہی نماز ہے اسی طرح اسلامی حکومت کے ارکان ہونا چاہئیے کہ اگر وہ ارکان موجود ہوں تو اس حکومت کو اسلامی حکومت کھا جائے گا اوراگر وہ ارکان نہیں ہیں یا اگر ان میں خلل (کمی و زیادتی ) پائی جائے تو اس کو حکومت اسلامی نہیں کھا جائے گا ۔

انہیں ارکان کی اہمیت کے پیش نظر جن پر اسلامی حکومت موقوف ہوتی ہے، ہم ان ارکان سے آگاہ ہونے کی خاطر ان کے بارے میں گفتگو کرنا ضروری سمجھتے ہیں ، کیونکہ جب ہم ان ارکان کو پہچان لیں گے تو اسلامی حکومت کا معیار و ملاک ہمارے ھاتہ میں آجائے گا کہ جس کے ذریعہ سے ہم اسلامی اور غیر اسلامی حکومت کے فرق کو مکمل طریقہ سے پہچان لیں گے اسی وجہ سے اس اہم سوال کا جواب بہت ضروری ہے ۔

۵۔اسلامی حکومت کا ڈھانچہ ، اس کے اختیارات اور وظایف کی وسعت

اس سلسلہ کا ایک دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اسلام نے حکومتِ اسلامی کی ایک خاص شکل وصورت معین کی ہے؟ جیساکہ آپ حضرات کو معلوم ہے کہ آج کی اس دنیا میں حکومت کے کیا ڈھانچے اور طور طریقے ہیں اور قدیم زمانے میں بھی حکومت کی شکل وصورت ہوتی تھی جو اس وقت نہیں ہے۔

موجودہ حکومتوں کی بعض قسمیں اس طرح ہیں :

۱۔بادشاہی حکومت،مشروطہ ومطلق۔

۲۔ جمہوری حکومت (ریاستی یا پارلیمینٹ کی حکومت)۔

۳۔ الہی حکومت۔

کیا اسلام نے حکومت کی ان شکلوں میں سے کسی ایک کو قبول کیا ہے یا اسلام نے خود ایک خاص شکل معین کی ہے جو مذکورہ شکلوں سے فرق رکھتی ہے یا یہ کہ اسلام نے حکومت کے لئے کو ئی خاص طریقہ کو نہیں اپنایا ، اور فقط حکومت کے لئے چند معیار معین کئے ہیں جن کا ہر طرح کی حکومت میں لحاظ کرنا ضروری ہے؟ مثال کے طور پر اسلام کا حکم ہے کہ حکومت میں عدالت کا لحاظ رکھا جائے لیکن عدالت کا کس طرح لحاظ رکھا جائے؟ کیا عدالت زمان ومکان کے اعتبار سے لحاظ کی جائے؟ چنانچہ دنیا کے کسی بھی گوشہ میں کسی بھی وقت زمان ومکان کے اعتبار سے اس طرح کی عدالت لحاظ کیا جاسکتا اور اسلام نے ایک خاص شکل وصورت کی عدالت برتنے پر اصرار نہیں کیا ہے؟! اور اسلام کی نظر میں حکومت کی مناسب شکل اس کے معیار کی رعایت پر ہے ۔

اور اگر اسلام نے حکومت کے لئے کسی خاص شکل وصورت کا انتخاب کیا ہے تو کیا اسلام کی نظر میں اس حکومت کا ڈھانچہ ایک ثابت اور پائیدار ڈھانچہ ہے ؟ یا یہ کہ اس کا ڈھانچہ غیر پائیدار ہے کہ جس میں اکثر و بیشتر تبدیلی و تغیر ہوسکتی ہے ؟

اس طرح کے سوالات اسلامی حکومت کے ڈھانچے اور شکل وصورت کے بازے میں ہوتے رہتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ان کے جوابات بھی دئے جائیں ۔ فلسفہ حکومت کے سلسلے میں ایک دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ اسلامی حاکم اور رئیس چاہے وہ کوئی ایک فرد ہو یا ایک گروہ یا ایک مجلس وانجمن کی شکل میں ہو، یعنی اسلامی حکومت کے اختیارات کیا کیا ہیں ؟ اور اسی طرح حکومت کی ذمہ داریاں کیا کیا ہیں ؟ کیو نکہ گذشتہ زمانے اور عصر حاضر کی حکومتوں میں ذمہ داریوں کے لحاظ سے کافی فرق نظر آتا ہے بعض حکومتیں اختیارات اور وظایف کے لحاظ سے کافی محدود ہوتی ہیں مثلا ًیہ کہ بعض حکومتیں فقط لوگوں کی عام حفاظت کی ذمہ دارہوتی ہیں جو اہم ہوتے ہیں ، اور اکثر کاموں میں خود لوگوں کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن بعض حکومتوں کے اختیارات بہت وسیع ہوتے ہیں جس کے نتیجہ میں اس کے وظایف اور ذمہ داریاں بھی وسیع ہوتی ہیں اس حکومت کی ذمہ داریاں بہت مہم اور خطر ناک ہوتی ہیں کہ جن کے بارے میں اسے جواب دہ ہونا ہوتا ہے اور ان ذمہ داریوں کو تمام لوگوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا کیونکہ لوگوں کو حق ہے کہ وہ حکومت سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں مطالبہ کریں ۔

اسی طرح یہ بھی روشن ہونا چاہیے کہ اسلام کے سیاسی فلسفہ کے تحت اسلامی حکومت نے کیا کیا اختیارات و ذمہ داریاں معین کی ہیں اور بلا شبہ یہ اختیارات و ذمہ داریاں مناسب اور متعادل ہونی چاہئیں ، جن مقدمات پر کوئی کام موقوف ہو ان مقدمات کو فراہم نہ کرکے کسی کے سپرد کوئی ذمہ داری کی جائے تو یہ صحیح نہیں ہے ۔

بہر حال اسلامی حکومت کے اختیارات اور اس کی ذمہ داریاں کیاکیا ہیں ؟ اس اہم سوال کے بارے میں ہم گفتگو کریں گے۔

۶۔اسلامی حکومت میں لوگوں کا کردار اور چند دیگر سوالات

آج کے انہیں اہم سوالوں میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ حکومت اسلامی میں لوگوں کا کردار کیا ہے ؟ لوگوں کے اختیارات اور ان کی ذمہ داریاں کیا کیا ہیں ؟انہیں سوالوں میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ صدر اسلام میں حضرت رسول خدا ، حضرت علی علیہ السلام اور حضرت امام حسن علیہ السلام کی حکومتوں کی کیاشکل تھیں ؟ اسی طرح بنی امیہ و بنی عباس وغیرہ کی حکومتیں کس حد تک اسلامی تھیں ؟

اور جس وقت ہم اسلامی حکومت کی گفتگو کرتے ہیں تو اس سے مراد مذکورہ حکومتوں سے کون سی حکومت مراد ہوتی ہے؟ اور تاریخ میں اسلامی حکومت کی تشکیل کس طرح ہوتی آئی ہے کہ نتیجةً اسلامی حکومت کی یہ شکل اسلامی انقلاب کے ذریعہ ایران میں بھی وجود میں آئی؟

البتہ مذکورہ سوالات کے ضمن میں دوسرے جزئی سوال بھی ہوتے ہیں منجملہ یہ سوال کہ کیا ہماری یہ حکومت سو فی صد اسلامی حکومت ہے؟ اور کیا اس میں اسلامی حکومت کے تمام معیار و ضوابط موجود ہیں ؟ اور اگر اس میں وہ تمام معیار وضوابط موجود ہیں تو کیا اس حکومت نے ان کی رعایت کی ہے؟ اسی طرح یہ سوال کہ اس حکومت میں کیا کیا نقص ہیں ؟

۷۔ اسلام کے سیاسی نظریہ کو پہچاننے کے طریقے

قبل اس کے کہ ہم مذکورہ سوالات اور شبھات کا جواب دیں اور فلسفہ سیاسی اسلام میں وارد ہوں اس چیز کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اس روش وطریقے کو پہلے بیان کردیں جس کو مذکورہ بحث کی تحقیق اور بر رسی میں اپنائیں گے اس بحث کی متدلوژی (طوروطریقہ) کیا ہے ، بہر حال یہ ایک مقدماتی بحث ہے کہ جس کو شروع میں بیان کردینا چاہئے، کیا یہ ہماری بحث کا طریقہ اور عقلی روش ہے؟یعنی کیا ہم عقلی دلیلوں کے ذریعہ اسلام کے نظریات کو بیان کریں گے ؟ یا ہماری روش اور شیوہ بحث تعبدی اور نقلی ہوگا یعنی قرآن وسنت کے تابع ہے؟ گویا اس حکومت کے اصول وضوابط قرآن وروایات سے اخذ کئیے جائیں گے؟

یا یہ کہ اسلامی سیاست ایک تجربہ کی طرح ہے؟ کہ جس کے درست اور غیر درست ہونے کو تجربہ ہی ثابت کرسکتا ہے؟ اس صورت میں ہماری گفتگو کا شیوہ تجربہ ہوگا اور فیصلہ کرنے کا معیار بھی تجربہ ہوگا ۔

بہر حال چونکہ ہماری بحث عقلانی پہلو رکھتی ہے اسی وجہ سے اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ عقلی بحث کی کم از کم دو قسمیں ہیں :

(۱) جَدَلی طریقہ ۔

(۲) برہانی اور دلائل کا طریقہ ۔

جس وقت ہم کسی گفتگو کو شروع کرتے ہیں اور عقلی لحاظ سے کسی ایک موضوع کی تحقیق کرتے ہیں تو کبھی ایسے اصول ومقدمات سے بحث کرکے مجھول نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ جن مقدمات اور اصول کوہم اور ہمارا مخالف قبول کرتا ہے اس کے مقابلہ میں وہ برہانی راہ وروش ہے کہ جس میں تمام مقدمات بھی مورد بحث قرار پاتے ہیں گویا بحث خودقضایا اولیہ ویقینیات وبدیھیات سے ہوتی ہے تاکہ ان کے ذریعہ ہمارا استدلال اور برہان یقینی اور قطعی قرار پائے، اور ظاہر ہے اگر ہم اس راستہ کو اختیار کریں تو بحث طولانی ہوجائے گی۔

مثال کے طور پر اگر ہم برہان کے ذریعہ ثابت کرنا چاہیں کہ حکومت اسلامی میں عدل وانصاف رعایت ہونا چاہئے تو سب سے پہلے ہمیں عدل کے مفہوم اور معنی کو واضح کرنا ہوگا اور اس کے بعد اس سوال کا جواب دیں کہ عدالت کا کس طرح لحاظ رکھا جائے؟ اسی طرح یہ سوال کہ عدالت اور آزادی ایک جگہ جمع ہوسکتی ہیں یا نہیں نیز اسی طرح یہ سوال کہ عدالت کے معیار کو کون معین کرے؟کیا عدالت کے معیار کو خدا وندعالم معین کرے یا عقل؟

مذکورہ سوالات کے حل ہونے کے بعد یہ سوال ہوتاہے کہ اس سلسلہ میں عقل کس حد تک فیصلہ کرنے کا حق رکھتی ہے؟ کیا عقل کی قضاوت ایک خاص مقدار میں ہے یا مطلق طور پر اس طرح یہ بحث طول پکڑجاتی ہے یھاں تک کہ اصول اولیہ اور مسائل معرفت شناسی کے بارے میں مورد سوال قرار پاتے ہیں بہرحال ان کو بھی واضح وروشن ہونا چاہئیے، خلاصہ یہ عقل کیا ہے؟ اور اس کی دلالت کس طرح کی ہے؟ عقل کس طرح استدلال کرتی ہے؟ اور عقل کا اعتبار اور اس کا حکم کس حد تک قابل قبول ہے؟ اور ظاہر ہے کہ اگر ہم اس طرح کے مسائل پر تحقیق کریں تو مختلف علوم سے بحث کرنی پڑے گی ، جو ایک طولانی مدت چاہتی ہے جو مفقود ہے۔

بہر حال برہانی بحث کرنا اپنی جگہ مقدس اور محترم ہے لیکن جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے بھی اشارہ کیا کہ برہانی و استدلالی بحث کرنے کے لئے بہت سے علوم کا سھارا لینا پڑتا ہے اور بہت کم افراد ہی ان علوم میں مھارت رکھتے ہیں اور علم کے ماہر انسان اس کے محدود مسائل تک ہی رسائی رکھتے ہیں خلاصہ یہ کہ یہ کام کافی مشکل ہے اور اس طرح کے مسائل کو واقعاً حل کرنے ایک طویل مدت درکار ہے ہم بھی اپنی گفتگو میں اگر اسی برہانی راستہ کو اپنائیں اور الگ الگ مسائل سے بحث کرکے بدیھی اصول اور مبنا تک پہنچیں تو ہمارے پاس وقت بہت کم ہے،لھٰذا اپنی بحث کو منزل مقصود تک نہیں پہچا سکتے، اسی وجہ سے جہاں برہانی بحث سادہ اور غیر پیچیدہ ہے وہاں برہانی اور استدلالی بحث کریں گے اور اس کے علاوہ تمام موارد میں جدلی بحث کریں گے کیونکہ جدلی بحث کا مناسب ترین طریقہ ہے۔

در حقیقت یہ ہدف اور نتیجہ تک پہنچنے کے لئے یہ راستہ درمیانی راستہ ہے ،یعنی یہ راستہ دوسروں کو قانع کرنے کے لئے عام راستہ ہے ، خداوند عالم نے قرآن مجید میں بارہا دشمن کو قانع کرنے کے لئے اور اپنی طرف سے اتمام حجت کے لئے اس کو بیان کیا ہے ، اور ہمیں بھی حکم دیا ہے کہ ہم بھی اس راستہ کو اپنائیں او ردوسروں سے اسی کے ذریعہ بحث اور گفتگوکریں ،ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے :

( ا دْعُ إِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهمْ بِالَّتِی هیَ ا حْسَن ) (۱)

”حکمت اور موعظہ حسنہ کے ذریعہ اپنے پروردگار کی طرف دعوت دو، اور ان کے ساتھ اچھے طریقہ سے بحث وجدل کرو۔“

حوالہ

۱ سورہ نحل آیت ۱۲۵

دوسرا جلسہ

اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کی اہمیت اور ضرورت

ہم نے پہلے جلسہ میں اسلام کے سیاسی نظریہ کے تحت اس سلسلے کے منتخب مسائل کو بیان کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس سلسلے میں ہم کیا کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں ، آج ہم خداوندعالم کی مدد سے اس سلسلے میں بحث کریں گے کہ اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کتنی مہم اور ضروری ہے۔

۱۔ اسلامی انقلاب سے مغرب ومشرق کا برتاؤ

اس بحث کی اہمیت اور ضرورت کو واضح کرنے کے لئے ایک نگاہ اپنے ملک اور اس زمانے کے اسلامی ممالک کی تاریخ پر نظر ڈالیں ،اور جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہیں کہ دنیا پرست، قدرت طلب، زورگو افراد ہمیشہ تاریخ میں فتنہ وفساد کے باعث بنے ہیں اور جس طرح انسان کی زندگی ماڈرن ہوتی جارہی ہے او رحکومتیں قاعدہ وقانوں اورعلم کی بنیاد پر ترقی کی طرف گامزن ہیں ، فتنہ وفساد کی فعالیت بھی عملی تر اور قواعد وضوابط کے بنیاد پر دقیق تر ہوتی جارہی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی طاقتیں اس نتیجہ پر پہونچ گئی ہیں کہ دنیا کی دو بڑی سُوپر طاقت یعنی مغرب کی ثروتمند طاقت او رمشرق کی مارکسست او رکمیونیسٹ طاقت موجود ہیں اور جنگ کی کامیابی کے بعد دونوں طاقتوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اپنی قدرت سے دوسرے ممالک کو بھی خوف زدہ کیا جائے تاکہ وہ ان کے مقابلہ میں سر نہ اٹھاسکیں ۔

اور جب بھی کسی نے ان فتنہ گر اور مفسدوں کے مقابلہ میں سراٹھایا ہے ا سکو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ان ظالم وستم گروں کا مقابلہ کرنے والے انبیاء اور ان کے پیروکار تھے جو کسی بھی زمانہ میں ستم گروں و ظالموں کے مقابلہ میں تسلیم نہیں ہوئے اسی وجہ سے ظالم و ستمگروں نے انبیاء اور ان کے پیروکاروں کو اپنا دشمن سمجہا اور ان کے ساتھ دشمن جیسا سلوک کیا ، لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد، خصوصاً کلیسا کو جو یورپ میں دینی قدرت کا مظھر تھا میدان سے خارج کرنے بعد یہ گمان کربیٹھے کہ اس وقت دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو ان کے مقابلہ میں آسکے۔

لیکن بیسویں صدی کی آخری تین دھائیوں میں غیر یقینی طور پر ایران کے انقلاب کو دیکھتے ہوئے بہت تعجب ہوا ، شروع میں تو یہ سوجا کہ کہ ایران کا یہ انقلاب ان دوسری انقلابی تحریکوں کی طرح ہے جو کبھی کبھی اسلامی ممالک میں ہوتی چلی آئی تھیں کہ جن کو کلّی طورپر نیست ونابود کردیا گیاتھا، انھوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ ہم اپنے مخصوص تجربات کے ذریعہ اس انقلاب کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینک دیں گے، لیکن جیسے جیسے زمانہ گذرتا گیا انھوں نے دیکھا کہ یہ انقلاب تو دوسری تحریکوں سے بہت نمایاں فرق رکھتا ہے۔

بہر حال اسلامی انقلابِ ایران کے نتیجہ میں اس منطقہ میں ایک بڑی طاقت رونما ہوئی ، انقلاب اسلامی نے مشرق ومغرب پر بھروسہ نہ کیا اور نہ ہی بغاوت جیسی تحریکوں اور فوجی ٹکراؤ کا سھارا لیا ،بلکہ غر ب کو ناکام کرتے ہوئے اسلامی حکومت تشکیل دیدی۔

اسلام دشمن طاقتوں کے پاس دینداری سے مقابلہ کا جو کچھ تجربہ تھا وہ سب انقلاب اسلامی کے نابودی کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کیا مگر کامیاب نہ ہوسکے ، آپ حضرات کے لئے تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم فقط اشارہ کرتے ہوئے گذرتے ہیں ۔

شروع ِ انقلاب میں ملکی حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی ، اس امید میں کہ یھاں پر ایسی ایک حکومت تشکیل دی جائے جو مغرب کے لئے کام کرے، لیکن انھوں نے دیکھا کہ لوگوں کی طاقت وقدرت اس سے کھیں زیادہ ہے کہ یہ گروہوں کو تحریک کرکے انقلاب اسلامی کے لئے کوئی خطرہ ایجاد کریں یھاں تک کہ اپنے مختلف حربے استعمال کیئے منجملہ یہ کہ ایران پر اقصادی پا بند ی لگا ئی عراق کے ذریعہ آٹھ سال تک جنگ تھونپی ان تمام حربوں کے ذریعہ انقلاب اسلامی کو نا کام کرنا چاہتے تھے لیکن خدا کے فضل سے کسی طرح بھی کامیاب نہ ہوسکے۔

۲ ۔ جوانوں کی گمراہی کے لئے مغرب کا ایک ثقافتی حربہ

چونکہ دشمن کسی بھی میدان میں کا میاب نہ ہو سکا تو اس کی امید صرف جوانوں پر آکر رکی کہ ایران کے جوانوں کے لئے فرہنگ (کلچر ) کے لحاظ سے ایک طولانی مدت پروگرام بنا یاجائے ، اور اس پروگرام کے تحت مختلف طریقوں سے ملک میں نفوذ کرنا چاہا (کیونکہ اس سلسلے میں ان کے پاس کافی تجربہ موجود تھا)ان کی کوشش یہ تھی کہ ایک ایسا مرکز بتایاجائے کہ جس کے ذریعہ اپنے افکار ونظریات کو نشر وا شاعت کی جائے اور اس مرکز کے ذریعہ ملت کے مختلف لوگوں تک اپنی تبلیغاتی لھر یں پہونچائی جائیں تاکہ اہستہ اہستہ اپنی مرضی کے مطالق ماحول بنایا جائے ،ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں بھی دوسرے پروگراموں کی طرح انھوں نے اپنے علمی حساب وکتاب کے تحت پروگرام بنا یا۔

چنانچہ جب انھوں نے دیکھا کہ انقلاب کی نسل بڑھاپے کی طرف بڑہ رہی ہے ، اور مستقبل کی نبضوں کو جوانوں کے ھاتھو ں میں دیکھا (وہ جوان کہ جو شاہ کے ظلم وستم سے آگاہ نہیں ہیں اور نہ ہی انقلاب سے پہلے والے ا ور انقلاب کے بعدوالے اسلامی رزمندوں کی جانثار وں سے آگاہ ہیں ، اور صرف وہ اپنی خواہشوں کے پیروں ہیں ان کی مرادیں کبھی مادیات ہوتی ہیں اور کبھی خواہشات ) تو یہ کہ جوان طبقہ جو اس وقت ملت کی اکثریت ہے اس میں کسی طرح سے رسوخ پیدا کیا جائے اور اہستہ اہستہ اپنی مرضی کے مطابق ایسی حکومت بنوائیں حو ان کے نفع کیلئے کام کرے ، اوروہ اسی کشمکش میں تھے کہ پروگرام کو کھاں سے شروع کیا جائے، اور اس جوان نسل کے افکا رو عقائد میں کس طرح نفوذ کیا جائے ، تاکہ ان کی امیدوں کیلئے زمینہ فراہم ہو سکے ،چنانچہ انھوں نے اس سلسلے میں بہت اسٹیڈی کی کہ آخر اس قدر لوگ کیوں حکومت اسلامی کے حامی اور وفادار ہیں یھاں تک کہ تمام مشکلات مالی، مھنگائی، بمباری اور دوسری پریشانیوں کوبھی بر داشت کررہے ہیں پھر بھی حکومت اسلامی کی حمایت سے باز نہیں آتے ،ان تمام چیزوں کو دیکہ کر دشمن اس نتیجہ پر پہونجا کہ یہ سب اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ دین اسلام کے معتقد ہیں ۔

۳۔فرہنگی تین حربے

کیونکہ ایرانی قوم اہل بیت علیہم السلام کے پیروں ہیں اور ائمہ علیہم السلام اور امام حسین علیہ السلام کو اپنے لئے نمونہ عمل بنایا ہے، اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اسلام کے لئے اپنی جان ومال بھی قربان کر سکتے ہیں اور ان کو یہ اعتقاد ان کی ماں نے دودہ میں پلایاہے ،اور جب تک زندہ رہیں گے، یہ عقیدہ ان کہ دلوں میں باقی رہے گا مگر دشمن اس عقیدہ کو کم رنگ کرنا چاہتا ہے ،اور دشمن کی تمنا یہ ہے کہ آئندہ آ نے والی نسل میں اس طرح کا عقیدہ باقی نہ رہے اور اس طرح اسلامی حکومت اور اسکے ذمہ دار افراد سے بد ظن کردیں ، کیونکہ لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ دین اسلام ہمارا حاکم ہے ،اور حکومت کے حقدار علماء اور دیندار افراد ہیں جن کی سرپرست ولی فقیہ ، ہے ،اور جب تک یہ عقیدہ جوانوں کے درمیان موجود ہے اس حکومت اسلامی کو کوئی نقصان نہیں پہونچ سکتا ۔

چنانچہ دشمن نے سوچا کہ اس اعتقاد کو ختم کرنا چاہئے لیکن کس طرح؟ ظاہر ہے کہ یہ افکار روشن فکر طبقہ کے ذریعہ ہی ان تک پہونچائے جاسکتے ہیں ، لھٰذا یونیورسٹی اور ثقافتی مراکز کے درمیان ایک ایسا مرکز قائم کیا جائے جس کے ذریعہ یہ افکار ملت تک پہونچائے جائیں ، اور ایسے افراد کو بروئے کار لایا جائے جو ان کے افکار کو پھیلائے اور حداقل لوگوں کے دلوں میں خصوصاً جوان طبقہ میں شک ووسوسہ پیدا کریں اور اسلامی حکومت، ولایت فقیہ کی نسبت ان کے عقائد کو ڈاماڈول اور کم رنگ کیا جائے، جوانوں میں حکومتِ اسلامی کی نسبت عقیدہ کو کم رنگ کرنا ہی ان کا مطلوب ہے کیونکہ اگر ان کے دلوں میں شک پیدا ہوگیا تو پھر کوئی دوسرا ۱۳/ سالہ نوجوان کمر سے بم باندہ کر ٹینک کے نیچے نہیں جائےگا، یہ کام تو اس وقت ہوسکتا ہے کہ جب آخرت اور حساب وکتاب پر ایمان ہو اور اپنے صحیح راستہ کو جانتا ہو،لیکن اگر شک پیدا ہوجائے تو کافی ہے ایک قدم آگے بڑھائے اور پھر پیچھے ہٹ جائے اور یہ شک وتردید دشمن کے لئے کافی ہے تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے۔

انہیں مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنے زرخرید غلاموں (کہ واقعاً جنھوں نے دھوکہ کھایا) اور اپنے مختلف تجربوں ، او ران لوگوں کے ذریعہ کہ جن کے عقائد واقعاً ضعیف وکمزور ہیں مخفیانہ طور پر ذریعہ اپنے مقاصد کی طرف متوجہ کیا اور درج ذیل چیزوں کے ذریعہ اپنا کام شروع کیا۔

الف:دین کو سیاست سے جدا کرنے کی فکر رائج کرنا

دشمن کا سب سے پہلا کام دین کو سیاست اور حکومت سے جدا کرنے کی فکر کورائج کرنا تھا اس مسئلہ کی تبلیغ کے لئے راستہ بحد کافی ہموار تھا کیونکہ صدیوں سے مغرب اور یورپ میں اس سلسلہ میں کافی کام ہوچکا تھا بہت سی کتابیں لکھی گئیں کافی مقدار میں ریسرچ کی گئی تھیں جس کے نتیجہ میں مغربی ممالک میں یہ فکر رائج ہوچکی تھی کہ دین سیاست سے الگ ہے۔

اپنے اسی ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ایران میں بھی راستہ ہموار کیا کہ کم از کم کچھ لوگوں کا یہ عقیدہ ہو کہ دین سیاست سے جدا اور الگ ہے اگرچہ اس کے لئے تھوڑا بہت راستہ پہلے سے ہی ہموار تھا کیونکہ انقلاب سے پہلے بھی اور انقلاب کے بعد بھی بعض وہ لوگ جو حکومت کے کارکنان تھے ایسا عقیدہ رکھتے تھے، ان کا اعتقاد یہ تھا کہ دین اور سیاست میں ایک بہت بڑی دیوار حائل ہے اور اس چیز کے پیش نظر تقریریں بھی ہوئیں ،کتابیں بھی لکھی گئیں ، چنانچہ اسی نظریہ کو مزید تقویت ان چیزوں کے ذریعہ جو مغربی ممالک میں کارگر ہوچکی تھیں اوریہ کوئی مشکل کام نہ تھا،دی گئی۔

پس معلوم یہ ہوا کہ دشمن کی ثقافتی کارکردگی میں سے ایک ، دین کو سیاست سے جدا کرنے کی فکر رائج کرنا ہے، البتہ اس فکر سے تمام لوگ تحت تاثیر قرار نہ پائے کیونکہ جن حضرات نے اس اسلامی حکومت کے لئے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو قربان کیا تھا، مالی قربانی پیش کی ہے ، اور تمام مشکلات کو برداشت کیا ہے، آسانی سے اس فکر سے متاثر نہیں ہونگے، کیونکہ ابھی تک ان کے کانوں میں امام خمینی کی دل نشین آوازیں گونج رہی ہیں ، اور مرحوم مدرس کی یہ آواز کھ” دیانت ماعین سیاست ما است“(ہماری دینداری اور ہماری سیاست ایک ہی ہے) کو اتنی آسانی سے نہیں بھلاسکتے تھے۔

ب: ولایت فقیہ کا انکار

دشمن اور مغرب زدہ روشن فکری کی کارگردی کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ ملت میں یہ فکر ایجاد کریں کہ اگرچہ سیاست اور اجتماعی کاموں میں دین دخالت رکھتا ہے اور معاشرہ میں بھی اسلامی احکامات جاری ہونے چاہئے ، اور سیاست میں بھی دینی امور کی طرف توجہ ہونا چاہئے، لیکن اسلامی حکومت کے معنی فقھاء کی حکومت نہیں ہے بلکہ اسلامی پارلیمینٹ میں قوانین کا طے ہونا کافی ہے، بعض قوانین کا دین کے خلاف نہ ہونا اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے کافی نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں دین کے مطابق قوانین جاری ہوگئے اور بس ، اسلامی حکومت کے معنی اس کے علاوہ کچھ نہیں ہیں ۔

پس دوسرا حصہ دشمن کی سیاست کا یہ تھاکہ اگر تمام لوگوں کو اس بات پر قانع نہ کرسکے کہ دین سیاست سے الگ ہے اور وہ اس بات کے قائل رہے کہ دین اور سیاست باہم ہیں تو ہم کھیں گے کہ دین اور سیاست باہم ہیں لیکن دینی حکومت کا مطلب یہ ہے کہ دینی احکام جاری ہوں ، لیکن ان احکام کامجری (جاری کرنے والا) کون ہے؟اس مسئلہ کا دین سے کوئی ربط نہیں ،بلکہ احکام دینی کو جاری کرنے کے لئے لوگوں نے جس کا انتخاب کرلیا وہی حاکم ہے، پس اسلامی حکومت کا مطلب اسلامی قوانین کا جاری کرنا ہے، نہ کہ حاکم متدین ، مومن اور فقیہ ہو،یعنی دین کی سیاست میں دخالت کو قبول کرتے ہیں لیکن دین احکام کا مجری فقیہ اور مجتھد ہو اس کو قبول نہیں کرتے ، یا یہ کہ حکوت کا سربراہ ولی فقیہ ہو ، غیر قابل قبول ہے۔

اس سلسلہ میں (یعنی ولایت فقیہ کے ذریعہ حکومت نہ ہونے کے سلسہ میں ) بہت کوششیں کیں اور اس وقت بھی ان کی یہ کوشش جاری ہے، مختلف اخباروں ، ماہناموں اور دیگر مختلف طریقوں سے ان مطالب کو منتشر کیا جارہا ہے اور اسی سلسلہ میں یونیورسٹی اور دوسرے مراکز میں میٹیگ کرتے رہتے ہیں تاکہ ابھی تک جو متدین حضرات دین کو سیاست سے جدا نہ ہونے کا نظریہ رکھتے ہیں ان کے ذہنوں میں یہ فکر ڈالیں کہ اسلامی حکومت قابل قبول ہے لیکن ولایت فقیہ کی ضرورت نہیں ہے۔

اس قسم کا تبلیغی مشن، اسلامی احکامات اور فقھی بنیادوں سے نابلد جوانوں میں موثر ہوسکتا ہے خصوصاً جبکہ اس سلسلے میں ثقافتی وسائل کے ذریعہ بھر پور تبلیغات کی جائے، اور وسیع مالی امکانات کو اس کے لئے خرچ کیا جائے، لیکن پھر بھی ایسے افراد موجود ہیں جن پر ان کی تبلیغات کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اور ولایت فقیہ کو جیسا کہ قانون اساسی میں بھی اسی کو محور قرار دیا گیاہے، اپنی تمام زندگی میں اہمیت دیتے ہیں اور جیسا کہ دنیا بھر میں یہ انقلاب، انقلابِ ولایت فقیھ، اور حکومت، حکومتِ ولایت فقیہ کے نام سے مشہور ہے، اور سبھی ولایت فقیہ کے پابند ہیں ۔

ج۔ ولایت فقیہ کو موردِ اعتراض قرار دینا

ظاہر ہے کہ جو لوگ ولایت فقیہ کے قائل ہیں ان کے درمیان ان لوگوں نے نفوذ کرنے کا دوسرا طریقہ انتخاب کیا وہ اس طرح کہ لوگوں میں اس فکر کو رائج کیا جائے کہ ایران میں موجودہ ولایت فقیہ مخدوش(قابل اعتراض) ہے، اور اس پر تجدید نظر کی جانی چاہئے اور یہ ولایت فقیہ صحیح نہیں ہے کیونکہ ڈیموکراسی(جمہوریت) اور لیبرالیزم کے اصولوں سے میل نہیں کھاتی، ولایت فقیہ کو اس طرح ہونا چاہئے کہ دور حاضر میں موجودہ ڈیموکراسی سے ہم اہنگ ہو،اور آج کی دنیا میں جو اصول وضوابط مسلم اور قابل قبول ہیں ان سے ولایت فقیہ متفق ہو، پس دشمن کی تیسری فکری سازش جمہوری اسلامی ایران میں ولایت فقیہ کو مخدوش کرناہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ عالمی استکبار اوردشمن ِ اسلام عملی اور فکری تین طریقوں سے اس اسلامی حکومت کو ضعیف کرنا چاہتاہے اور اس سلسلے میں انھوں نے خاص پروگرام بھی بنائے اور آج بھی اس طرح کے پروگرام بناتے رہتے ہیں لیکن ان کی امیدیں آنے والی نسل تھی کہ جس لئے انھوں نے ایک لمبافکری پروگرام بنارکھا تھا۔

اور اس فکری پروگرام کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ دین کو سیاست سے دور ہونے کی فکردے اس امید میں کہ ایک طبقہ اس کو قبول کرے گا۔

دوسرا نظریہ یہ پیش کیا کہ دین سیاست سے جدا نہیں ہے لیکن اسلامی حکومت کا ولایت فقیہ سے کوئی ربط نہیں ہے،یہ نظریہ بھی ایک طبقہ میں قابل قبول ہوسکتا ہے۔

تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ جو لوگ ولایت فقیہ پر ایمان راسخ رکھتے ہیں ان میں یہ نظریہ رائج کریں کہ ولایت فقیہ مورد قبول ہے لیکن ایران میں جو ولایت فقیہ ہے اس کی فعلی صورت کو تبدیل ہونا چاہئے، خلاصہ دشمن ہر ممکن ذریعہ سے کوشش میں ہے کہ جوانوں کے درمیان شک وشبہ پیدا کرے تاکہ اسلامی حکومت کے سلسلے میں ان کا اعتقادضعیف وکمزور ہوجائے، اوراگر ایسا ممکن ہوا توپھر عالمی استکبار کے نفوذ کے لئے راستہ ہموار ہوجائے گا اور اسلامی معاشرے اور اسلامی حکومت میں نفوذ ہوجائےگا۔

جو لوگ ان تینوں نظریات میں سے کسی ایک کا شکار ہوگئے چاہے وہ کسی بھی جگہ ہوں ، کسی بھی مقام ومنزلت پرفائز ہوں گویا انھوں نے عالمی استکبار کی مددا ورنصرت کی اور استکبار کو اپنے اغراض ومقاصد تک پہونچنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

۴۔دشمن کی مذکورہ سازشوں کے مقابلے میں ہمارا وظیفہ

چونکہ دشمن نے مذکورہ سازشوں میں اپنی پوری طاقت صرف کی ہے لھٰذا وہ حضرات جواس حکوت کودل وجان سے چاہتے ہیں (اور الحمد للہ لوگوں کی اکثریت اس حکومت کو دل وجان سے چاہتی ہے اور اس کا نمونہ وہ عظیم مظاہرے ہوتے ہیں جو بعض موقع پر ہوتے رہتے ہیں اور تمام دنیا کو تعجب میں ڈال دیتے ہیں ) ان لوگوں کو ہوشیار رہنا چاہئے کہ دشمن ان تین طریقوں سے انکے درمیان نفوذ نہ کرے، اور ان کوایسی کوشش کرنا چاہئے کہ جس سے لوگوں کا یہ عقیدہ راسخ تر ہوجائے کہ دین سیاست سے جدا نہیں ہے اور انہیں اس بات کا یقین ہوجائے کہ دوسرے ین اگر سیاست سے جدا ہوں تو ہوں ، لیکن اسلام سیاست سے جدا نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ اپنے دلوں میں یہ نظریہ راسخ کرلیں کہ حکومتِ اسلامی کا مطلب فقط یہ نہیں کہ پارلیمینٹ میں اسلامی قوانین بن جائیں یا یہ کہ وہ قوانین اسلام کے مخالف نہ ہوں ، بلکہ اسلامی حکومت کی حقیقت یہ ہے کہ قانوں کو جاری کرنے والے اسلام کے دلسوز اور اسلام کی پہچان رکھنے والے ہوں اور احکام الہی کو جاری کرنے میں اپنی پوری توجہ صرف کریں ، ورنہ اگر قانون کاغذ پر لکھے جائیں اور اس کو جاری کرنے والے ہی ان قوانین کاپاس ولحاظ نہ رکھیں تو اس سے لوگوں کو کیا فائدہ ہوگا؟

کیا شاہ کے زمانے کے قوانین اساسی میں ایران کا رسمی مذہب شیعہ نہیں تھا؟ لیکن یہ قوانی کچھ بھی کارگر ثابت نہ ہوئے کیونکہ شاہ کی حکومت کافر اور دشمنوں سے بے حد متا ثر تھی جس کی وجہ سے اسلامی قوانین پرعمل نہیں ہوتا تھا۔

اگر قوانین صرف کاغذ پر لکھے ہوئے ہوں اور ان کا جاری کرنے والا مومن ومتدین اور قدرتمند نہ ہو تواس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا، لھٰذا اگر اسلامی پارلیمینٹ میں اسلامی قوانین بنائے جائیں لیکن جو شخص ان قوانین کی نظارت کررہا ہے وہ اسلام کا دلسوز نہ ہو اور اس قدر قدرت نہ رکھتا ہوکہ ان قوانین کو جاری کرسکے، توایسے قوانین کو جاری ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے ، لھٰذا دوسری ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم روز بروز ولایت فقیہ کے اعتقاد کو پختہ ترکریں ، تاکہ ہمارے یقین میں بھی اضافہ ہو اور ہماری نسلوں میں بھی یہ عقیدہ باقی رہے کہ ولایت فقیہ کے بغیر اسلامی حکومت ناممکن ہے۔

ان دومرحلوں کے بعد تیسرے مرحلے کی باری آتی ہے کہ یہ ولایت فقیہ کی موجودہ شکل وصورت جو اس وقت ایران می تقریباً ۲ ۰ سال سے ہے یہ وہی شکل وصورت ہے جس کو اہل بیت علیہم السلام نے بیان کیا ہے یا یہ کہ اس کی شکل وصورت کو عوض ہونا چاہئے؟

یہ تیسرا مرحلہ ایک فرعی مرحلہ ہے کہ جو گذشتہ دومرحلوں کے بعد ہے لھٰذا پہلے ان دومرحلوں پر بحث کرنا ضروری ہے اور انہیں دو مسئلوں کی بنیاد پر ہماری بحث اسلام کے سیاسی نظریہ کے تحت تشکیل پاتی ہے۔

۵۔دشمن کی سازشوں کے مقابلہ میں بہت رینراستوں کا انتخاب

مذکورہ مطالب سے واضح ہوجاتا ہے کہ دشمن نے اپنی تمام تر طاقت اپنی مندرجہ ذیل سازشوں میں صرف کردی:

۱۔دین وسیاست میں جدائی کرنا۔

۲۔اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ میں جدائی کرنا۔

۳۔ایران میں ولایت فقیہ کی کارگردگی میں شک وتردید کا ایجادکرنا۔

لھٰذا طبیعی طورپر ہمارا بھی تین گروہوں سے مقابلہ ہے پہلا گروہ وہ ہے کہ جس نے یہ قبول کرلیا ہے کہ دین سیاست سے جدا ہے یعنی مساجد، امامبارگاہ جدا ہیں اور سیاست وحکومت جدا ہے، لھٰذا ان لوگو ں سے بحث کرنے کے لئے ہمیں ایک خاص راستہ اپنانا پڑے گا۔

دوسرا گروہ وہ ہے جس نے اسلامی حکومت کو تو قبول کیا ہے لیکن اس کے احکام کے مجری کے سلسلے میں چوں وچراکرتے ہیں ، ان لوگوں سے بحث کرنے کا انداز دوسرا ہونا چاہئے، کیونکہ اگر فرض کریں کہ کوئی خدا ہی کا قائل نہیں ہے تو اس سے بحث اس طرح شروع کی جائے تاکہ خدا کا اثبات ہوسکے اوراس کے بعد نبوت عامہ (تمام انبیاء کی نبوت) اور نبوت خاصہ (حضرت محمد مصطفی کی نبوت) کے بارے میں بحث کی جائے لیکن اگر کوئی خدا اور بعض انبیاء کو قبول کرتا ہو لیکن حضرت محمد مصطفی کی نبوت کا منکر ہو تو اس سے نبوت خاصہ کے سلسلہ میں بحث کی جائے گی۔

بہر حال جو لوگ خداوندعالم کو قبول کرتے ہیں لیکن پیغمبر اکرم کی نبوت کو قبول نہیں کرتے تو آنحضرت کی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ پہلے خدا کے اثبات سے بحث شروع کی جائے کیونکہ اس کے لئے یہ طے شدہ ہے کہ کوئی خدا ہے اور اس نے انسانوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کو بھیجا ہے اسی طرح دوسرے مسائل میں بھی مناسب راستہ اپنانا چاہئے اور جس سلسلہ میں ہم بحث کرنا چاہتے ہیں وہ ایسے اصول اور مقدمات پر موقوف ہے کہ بعض لوگ قبول کرتے ہیں اور بعض لوگ ا ن کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتے۔

لھٰذا مذکورہ بحث کے سلسلہ میں ہمیں بھی چند طریقوں سے بحث کرنا ہوگی اور اس کے لئے مختلف روش درکار ہیں یعنی ممکن ہے بعض جگہ فقط عقلی دلیلوں کے ذریعہ اپنا مدعی ثابت کریں اور جس چیز کو انسان کی عقل درک کرتی ہے اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کا سھارا نہ لیں ، ایسی صورت میں عقلی برہانوں کے ذریعہ بحث کو آگے بڑھائیں گے بالکل اسی طرح کہ اگر کوئی خدا کو نہ مانتا ہو اور اس کے سامنے خدا کے وجود کوثابت کرنا ہو تو ایسے موقع پر قرآن اور معصومین علیہم اسلام کی احادیث کے ذریعہ اثبات کرنا بے فائدہ ہے کیونکہ وہ ابھی خدا کو ہی نہیں مانتا ، توقرآن وحدیث کو کس طرح قبول کرسکتا ہے؟!

اس کو سمجہانے کے لئے فقط عقل سے کام لینا پڑے گا اور اس کو عقلی دلیلوں کے ذریعہ خدا کے وجود کو ثابت کرنا ہوگا، اسی طرح جن لوگوں نے اسلامی حکومت کو قبول کیا ہے وہ لوگ ایک قدم آگے ہیں تو ان لوگوں سے بحث کرنے کے لئے ایسا راستہ اپنا ناپڑے گاجو دینی باتیں قبول کرتے ہیں ان کے سامنے وہ دلیلیں بیان کریں جو محتوائے دین کو بیان کریں یعنی ان سے بحث کرنے کے لئے قرآن وحدیث اور تاریخی شواہد کو مدرک قرار دینا ہوگا۔

لیکن اگر حکومت کی کارگردگی کی بحث کی جائے تو تاریخی شواہد ومدارک کو مدنظر رکہ کر بحث کی جائے یھاں پر عقلی نقلی وتعبدی (قرآن وسنت) بحث نہیں ہوگی۔

خلاصہ یہ کہ ہماری بحث بھی مختلف پہلو رکھتی ہے لھٰذا ہماری بحث بھی مختلف طریقوں سے ہوگی، بعض جگہ عقلی طریقہ سے بحث ہوگی اور بعض جگہ قرآن وحدیث کی روشنی میں بحث ہوگی ، اور بعض دوسری جگہ پر تاریخ کا سھارا لیا جائے گا، یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ بعض افراد بحث کے درمیان ہم پر اعتراض نہ کریں کہ یہ بحث عقلی ہے یا شرعی؟ اس وجہ سے پہلے یہ عرض کردینا مناسب سمجہا کہ ہماری بحث کے مختلف طریقے ہوں گے ، بحث کو اس کے مناسب طریقہ سے مورد تحقیق وبررسی قرار دیا جائے گا۔

۶۔دین کی تعریف اور اس کے حدود

یھاں پر ایک دوسرا مہم مسئلہ بھی ہے جس پر مستقل طور پر جدا گانہ بحث ہوسکتی ہے لیکن اس وقت صرف اس کی طرف اشارہ کریں گے:

یھاں پر بحث یہ ہے کہ دین کے حدود کھاں تک ہیں ؟ جس وقت ہم یہ بحث کرتے ہیں کہ حکومت ودین میں کیا ربط ہے اور دین وسیاست کا جدا کرنا صحیح ہے یا نھیں ۔

تو سب سے پہلے خود دین کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے کہ دین کیا ہے دین کی صحیح تعریف ہمارے پاس ہونا چاہئے تاکہ اس کی بنیاد پر ہم اس کے حدودمعین کرسکیں ، اس سلسلے میں بعض لوگوں نے سعی فرمائی ہے مگر ایک دوسرے عنوان سے ،وہ اس طرح کہ آیاانسان کو دین کی ضرورت ہے یا نھیں ؟ اس چیز کو مورد بحث قرار دیتے ہیں اور اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ دین کی انسان کی زندگی میں کیا دخالت ہے اس مرحلہ کی تحقیق وبررسی کے بعد ان لوگوں نے اس بحث کو مورد بحث قرار دیا کہ اسلام میں سیاست،دین کا جز ہے یا نھیں ؟ بہر حال ان لوگوں نے اس سلسلہ میں بہت سی بحثیں کی ہیں ، جیسا کہ آپ حضرات بھی ان بحثوں سے کم وبیش واقف ہیں ۔

”مثلاًدین سے ہماری امیدیں “ یعنی دین سے ہماری امیدیں حداقل درجہ پر ہیں یا حد اکثر درجہ پر (یعنی کیا دین انسان کی تمام زندگی کے مسائل کو شامل ہوتا ہے؟یا یہ کہ انسان کی زندگی کے بعض پہلوں کو شامل ہوتا ہے، بقیہ امور میں انسانی زندگی کے اکثر مسائل کو عقل و علم اور لوگوں کی مرضی کے مطابق حل ہوتے ہیں )وہ حضرات جو دین کو حکومت سے الگ گردانتے ہیں جس وقت انھوں نے دین کی تعریف فرمائی تو ایسی تعریف کی جو سیکولریزم کے عقیدہ کے موافق تھی مثلاً دین کی یوں تعریف فرماکی کہ : دین یعنی انسان کا خدا سے معنوی رابطہ یا اس سے ایک قدم اور آگے رکھا اور کھادین وہ چیز ہے کہ جو انسان کی آخرت (اگر آخرت کو قبول کرتا ہو )کی زندگی میں موثر اور کارگر ہو،یعنی دین کا کام یہ ہے کہ انسان کی زندگی کو آخرت سے ہم اہنگ کرے ۔

اور یہ بات واضح ہے کہ اگر دین کی اس طرح تعریف کی جائے تو پھر یہ کہنا بہت آسان ہے کہ دین کاسیاست سے کیا رابطھ؟سیاست کا خدا سے انسانی رابطہ کا کیا دخل؟سیاست تو صرف انسانوں کے درمیان ایک دوسرے سے رابطہ کو بیان کرتی ہے، اور سیاست دین سے الگ ہے، سیاست انسان کی دنیاوی زندگی سے متعلق ہے اور اس کا عالم آخرت سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور اگر دین کے حدود صرف یہ ہوں کہ جہاں انسان کی عقل سمجھنے سے قاصر رہے اور جہاں عقل خود فیصلہ اور قضاوت نہ کرسکتی ہو تو پھر وہاں دین سے کوئی رابطہ نہیں کیونکہ دین کے حدود وہاں تک محدود ہیں کہ جہاں پر عقل کی رسائی اور پہنچ نہ ہو ۔

لھٰذا اگر ہم نے دین کی مذکورہ تعریف کے مطابق اس کے حدود کو محدود کردیااور اس بات کے قائل ہوگئے کہ جن مسائل کو ہماری عقل حل کرسکتی ہے وہاں دین کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ہم کو دین کی ضرورت وہاں ہے کہ جہاں ہماری عقل مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے سے عاجز ہو، چنانچہ جسیے جیسے زمانہ گزرتا جارہا ہے اور انسان ترقی کررہا ہے دین کی ضرورت کم ہوتی جارہی ہے چونکہ اس بنیاد پر دین کی ضرورت وہاں ہے کہ جہاں عقل ان مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے سے عاجز ہے۔

چونکہ شروع میں انسان علم و تمدن نہیں رکھتا تھا،لھٰذا اس کو دین کی ضرورت بہت زیادہ تھی اور چونکہ انسان خود اپنی عقل سے مسائل کو نہیں سمجھ سکتا تھا لھٰذا اس کو دین کی ضرورت تھی اور اہستہ اہستہ اس کو دین کی ضرورت کم ہوتی گئی،اور اس آخری زمانہ میں انسان کو دین کی ضرورت تقریبا ً نہیں ہے، ھاں بعض ان جزئی مسائل میں ہے جن کو عقل انسان ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہے اور کوئی امید بھی نہیں ہے کہ ان کو جلد ہی حل کرلیا جائے گا، ان مسائل میں ابھی بھی دین کی ضرورت ہے،(افسوس کہ یہ وہ لوگ ہیں جومسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں اورپھر یہ اعتراض ا ور اشکال کرتے ہیں کہ اس وقت چونکہ عقل بشری کامل ہوگئی ہے،لھٰذا اب دین و وحی کے قوانین کی ضرورت نہیں ہے ) بہر حال مذکورہ دین کی تعریف کے مطابق نتیجہ یہ ہوگا کہ سیاست کا دین سے کوئی رابطہ نہیں ہے،اور جب ہم عقلی کوششوں اور عقلی استدلالوں کے ذریعہ تمام سیاسی مسائل کوحل کرسکتے ہیں ، تو پھر دین کیا ضرورت ہے؟

المختصر یہ کہ اب تک جو ہم نے بیان کئے وہ اس سلسلے کے چند اعتراضات اور اشکالات تھے، اوراب ہم اس کا مختصرا ًجواب عرض کرتے ہیں اور شروع ہی گوش گذار کردیں کہ دین کی تعریف کی گئی ہے اور اس کی بنیاد پر دین کو فقط اخروی زندگی سے مربوط اور خدا سے انسانی رابطہ مانتے ہیں ہماری نظرمیں باطل اور بے نیاد ہے، اور یہ نظریہ کہ دین سے سیاسی مسائل کا یعنی انسان کے سیاسی مسائل کا خدا سے کوئی ربط نہیں ،یہ ساری چیزیں انسان اور خدا کے روحانی رابطہ سے جداگانہ ہیں ، یہ بھی بے بنیاد اور بے ہودہ گفتگو ہے اور اس کا حقیقت دین سے کوئی ربط نھیں ، یہ دین کی نامکمل تعریف ہے، بلکہ دین وہ طریقہ ہے جو انسان کو صحیح رفتار وکردار پر گامزن رکھے یعنی اس طرح انسان کو بنادے کہ جس طرح خدا چاہے،یعنی اگر انسان اپنے اعتقاد اور اپنی فردی واجتماعی زندگی میں خدا کی مرضی کے مطابق قدم اٹھائے تو ایسا شخص دیندار ہے اور ا سکے مقابل اگر انسان کا عقیدہ خدا کی مرضی کے مخالف ہو او ران عقائد کو قبول کرے جو خدا کو ناپسند ہیں اور اس کی انفرادی واجتماعی زندگی کے اعمال و رفتار خدا پسندانہ نہ ہوں ، تو اس کا دین بھی ناقص ہوگا،خلاصہ یہ کہ دین تما م مذکورہ چیزوں کو شامل ہے۔

۷۔دینی طریقوں سے دینی معرفت کی ضرورت

اگر ہم دین کی تعریف کرنا چاہیں تو ہمیں دیندار اور دینی بزرگوں کی تعریف دیکھنا ہوگا کہ ان حضرات نے دین کی کس طرح تعریف کی ہے؟ او راگر ہم خود اپنے ذہن سے دین کی تعریف کریں اور من گھڑت تعریف کی بناپر کھیں کہ سیاسی اور اجتماعی مسائل دین سے خارج ہیں یا یہ کہ سیاسی واجتماعی مسائل کا دین سے کوئی ربط نہیں ہے جیسا کہ دین کی ہم نے تعریف کی ہے نہ جیسا کہ خدا نے دین کو بھیجا ہے ،پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ دین خدا کی معرفت او را سکو سمجھنے کے لئے خود اپنے طور وطریقہ اور اپنی فکر کے مطابق دین کی تعریف نہ کریں بلکہ دین کی معرفت ا ورشناخت کے لئے ضروری ہے کہ دینی منابع ومآخذ کے ذریعہ دین کے بارے میں تحقیق کریں ۔

ھوسکتا ہے کہ کوئی یہ کھے : میں دین کو نہیں مانتا، کیونکہ اسلام کے صحیح ہونے پر جو دلیلیں قائم ہوئی ہیں وہ ضعیف ہیں یا (نعوذ باللہ) یہ کھے کہ ہمارے پاس اسلام کے جھوٹ اور باطل ہونے پر دلیل موجود ہے ، اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے ،تو یہ دعوی منظقی اور صحیح نہیں ہے، البتہ اگر کوئی اسلام کو قبول کرے ، او رپھر وہ کھے کہ جو میں کھتا ہوں وہی دین ہے نہ یہ کہ جو قرآن، پیغمبر اور ائمہ (ع) کھتے ہیں او رجس کے مسلمان معتقد ہیں ، اگر کوئی اسلام کے حق یا نا حق ہونے کے بارے میں بحث کرے چاہے وہ اس کی طرفداری کرے یا اس کی ردّ کرے ، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ اسلام کی معرفت اور پہچان حاصل کرے اور بے شک اسلام کی پہچان کے لئے خدا کے فرمان کی طرف رجوع کرے، جس نے اسلام کو بھیجا ہے ، لھٰذا قرآن کے ذریعہ اسلام کو پہچانا جائے، اس حقیقت کے پیش نظر ہم نے کھا کہ دین کی پہچان، اس کی تعریف اور اس کی فرمانروائی کے دائرے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ دینی منابع، یعنی قرآن وسنت کی طرف رجوع کریں ، نہ یہ کہ اپنی مرضی کے مطابق یا کسی امریکن اوریورپین (کہ جن کی باتیں ہمارے نزدیک غیر معتبر ہیں )کے کھنے کے مطابق دین کی تعریف کریں ۔

لھٰذا اگر کوئی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہے تو اسے چاہئے کہ اس اسلام کے مطابق گفتگو کرے جس کو قرآن، پیغمبر اور ائمہ علیہم السلام نے بیان کیا ہے، او راسی اسلام کی بنیاد پر جس کی اصل قرآن وسنت ہے دین کی تعریف اور اس کے فرمانروائی کے دائرے کو سمجھیں نہ یہ کہ کسی مستشرق (مشرقی زبان دان اور ماہرعلوم) ،مولف اور سیاست مدار کی غرض کے تحت اسلام کی تعریف شدہ تعریف کو اپنائیں یا کسی (یورپی)دائرة المعارف (معلومات عامہ کتاب) کے مطابق اسلام کی تعریف کریں ایسے اسلام سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

اسلامِ حقیقی کے طرف رجوع کرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ دین کی فرمانروائی کا دائرہ انسان کی عقل وفہم پر ختم نہیں ہوتا بلکہ عقل، اسلامی شناخت کے طریقوں میں سے ایک ہے، اور اگر کوئی عربی زبان سے تھوڑی بھی واقفیت رکھتا ہو (اورقرآن کی تفسیر سے چاہے اجمالی ومختصر تفسیر سے آشنا ہو) جس وقت قرآن کی طرف رجوع کرتا ہے تو اس پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن نے اجتماعی مسائل کو نہیں چھوڑا اور ان کو بیان کیا ہے، پس کس طرح یہ کھاجاسکتا ہے کہ دین سیاست سے جدا ہے۔

اگر دین کے معنی قرآن کے مطابق کئے جائیں تو دین میں اجتماعی اور سیاسی مسائل شامل ہیں اور اس میں عبادت وذاتی اخلاقیات کے علاوہ قوانین مدنی ،قوانین جزائی (جرائم) اورعالمی قوانین موجود ہیں ، اور گھریلو زندگی ،شادی بیاہ،تربیت اولاد، کاروبار اور تجارت وغیرہ جیسے مسائل کو بیان کیا ہے، پس کون سی چیز ایسی ہے جو دین سے خارج ہے؟ معاملات،تجارت، اور رہن (گروی رکھنا) کے بارے میں قرآن مجید میں بڑی بڑی آیات موجود ہیں ، اگر اسلام کو قرآن کے ذریعہ پہچانے تو پھر کس طرح کوئی کھہ سکتا ہے کہ اسلام کا اجتماعی سے کیا ربط؟

اگر نکاح وطلاق دین کا جز نہ ہوں ، اگر تجارت، رہن خرید وفروخت اور سود دین سے مربوط نہ ہوں ، اسی طرح ولایت کا مسئلہ اور ولی امر کی اطاعت دین کا جز نہ ہوں تو پھر دین میں کیا باقی بچتا ہے؟! او ر آپ کس دین کی باتیں کرتے ہیں ؟ قرآن کریم نے مسلسل ان چیزوں کے بارے میں گفتگو کی ہے۔

اگر کوئی یہ کھے کہ جس دین میں اجتماعی وسیاسی مسائل کو شامل کیا جائے ہم اس دین کو نہیں مانتے! ٹھیک ہے نہ مانئے ، اسلام کو نہ ماننے والوں کی تعداد کوئی کم نہیں ہے ، اس وقت بھی بہت سے لوگ دین کو نہیں مانتے، ہمارا ان سے کوئی جھگڑا نہیں ، لیکن اگر وہ چاہتے ہیں تو آئیں او رہم سے بحث کریں تاکہ اس اسلامِ کامل کو ان کے لئے ثابت کریں او راگر نہیں چاہتے تو جو راستہ چاہیں اپنائیں :

( وَقُلِ الحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُومِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ ) (۱)

”(اے رسول) تم کھدو کہ سچی بات (کلمہ توحید) تمھارے پروردگار کی طرف سے (نازل ہوچکی ہے) بس جو چاہے مانے اور جو چاہے نہ مانے“

لیکن اگر وہ کھیں کہ ہم اسلام کو قبول کر تے ہیں لیکن پھر اسلام کو ان مسائل پر شامل ہونے کا انکار کرتے ہیں ، او راسلام کے اکثر اجتماعی مسائل پر کیوں اعتراض کرتے ہیں ؟ کیا جو کچھ قرآن وسنت میں موجود ہے اسلام نہیں ہے؟ کہ تم لوگ نہ نماز کو قبول کرتے ہو اور نہ ہی دوسری عبادتوں کو ؟ تمھارا ایمان نہ اسلام کے اجتماعی مسائل پر ہے اور نہ ہی اس کے سیاسی مسائل پر، نہ تم اسلامی نکاح کو قبول کرتے ہو اور نہ ہی طلاق کو، اور اسی طرح دوسرے احکام کو قبول نہیں کرتے، تو پھر اسلام میں کیا چیز باقی ہے کہ جس اسلام کا تم دم بھرتے ہو وہ کیا ہے؟ یہ باتیں صرف سادہ لوح افراد کے لئے موثر ہوسکتی ہیں لیکن دانشمنداور پڑھے لکھے افراد کے لئے بے مایہ اور فضول ہیں ،بہر حال دین یعنی انسانی زندگی الہی رنگ وڈھنگ کے ساتھ ہونا:

( صِبْغَةُ اللّٰه وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰه صِبْغَةً ) (۲)

”(مسلمانوں سے کھدو کہ) رنگ تو خدا ہی کا رنگ ہے جس میں تم رنگے ہوئےھو“

انسانی زندگی الہی رنگ وڈھنگ میں بھی ہوسکتی ہے اور شیطانی رنگ وڈھنگ میں بھی، لیکن اگر انسانی زندگی الہی رنگ وڈھنگ میں ہو تو پھرواقعاً اسلام کامل ہے ،اگر ہم چاہیں کہ الہی رنگ وڈھنگ اور اس کی مرضی کے بارے میں گفتگو کریں تو پہلے ہمیں دینی منابع کوپہچاننا ضروری ہے اور اسلام کی شناخت کے لئے قرآن، سنت اور عقل کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، اور یھی طریقے اسلام کے تما م عبادی، سیاسی، اجتماعی او رانفرادی مراحل کو شامل ہے۔

اور جیسا کہ ہم نے کھا کہ قرآن پر ایک سرسری نظر کافی ہے تاکہ ہمارے لئے یہ بات ثابت ہوجائے کہ وہ دین جو قرآن میں موجود ہے او رقرآن دین کا اصل منبع ہے، ممکن نہیں کہ اس اسلام میں سیاسی اور اجتماعی مسائل کو چھوڑ دیا گیا ہو اور قوانین کا مجموعہ سیاسی اور اجتماعی مسائل سے خالی ہو، یھاں تک کہ عبادی مسائل سے بھر پور ہو،اور یہ سلسلہ اسلام سے مرتبط نہیں ہے، کیونکہ وہ اسلام جو قرآن نے بیان کیا ہے ہم اس اسلام کا دفاع کرتے ہیں اور یہ اسلام سیاسی، اجتماعی اور عبادی مسائل کو شامل ہے اور سیاست اسلام کے مہم ارکان اور اس کے فرمانروائی کے اصل دائرے میں سے ہے، اور امریکن اور یورپین رائٹروں کے مطابق اسلام سے ہمارا کوئی ربط نہیں ہے اور اس کو حقیقی اسلام کی حقیقت سے دور اور اجنبی مانتے ہیں ۔

حوالے

۱ سورہ کھف آیت ۲۹

۲ سورہ بقرہ آیت ۱۳۸


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24