اسلام اور سیاست جلد ۱

اسلام اور سیاست 0%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور سیاست

مؤلف: آیة اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 34315
ڈاؤنلوڈ: 2680


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 39 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34315 / ڈاؤنلوڈ: 2680
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد 1

مؤلف:
اردو

گیارہواں جلسہ

قانون کے اعتبار کا معیار

۱۔ بڑے سیاسی مسائل کی عمیق تحقیق کی ضرورت

ہم اپنے گذشتہ جلسوں میں اسلام کے سیاسی نظریہ کو بیان کرچکے ہیں اور اس بات کی طرف بھی اشارہ کر چکے ہیں کہ اس بارے میں دو طریقوں سے بحث کی جاتی ہے:

۱۔بحث کا پہلا طریقہ جَدَلی ہے جس میں اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ مخاطب مسلمان ہے ، اسلام اور شیعت کا عقیدہ رکھتا ہے یا کسی اور مسلک سے وابستہ ہے، اس میں تو صرف طرفین کے توافق وتفاہم کی خاطر ابتدائی اصول اور مبانی کو اصول موضوعہ قرار دیکر بحث کی جاتی ہے اور انہیں مقدمات پر اعتماد کرتے ہوئے بحث کو جاری رکھا جاتا ہے۔

۲۔ بحث کا دوسرا طریقہ برہانی ہے، جس میں بحث کو منظم، عمیق اور عقلی دلیلوں کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے اور گفتگو کے تمام اطراف وجوانب یھاں تک کہ اصول موضوعہ کی بھی تحقیق وجستجو کی جاتی ہے اور یقینی وظاہری چیزوں پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے مدعا کے لئے عقلی اور غیر قابل اعتراض دلیلوں کو قائم کیا جاتا ہے۔

اگرچہ برہانی بحث خستہ کنندہ ہوتی ہے اورعلمی محفلوں اور اعلیٰ تعلیم گاہوں کے لئے مناسب ہوتی ہیں اور ان کے سننے والے بھی خاص افراد ہونے چاہئے،لیکن اس بات کو بھی مدّنظر رکھنا چاہئے کہ ہمارے معاشرہ میں اپنی ثقافت کو بلندکرنے اور معلومات حاصل کرنے کے لئے قدم اٹھالئے گئے ہیں اور آج کل ہمارے بہت سے جوانوں کی معلومات خاص طور سے دینی اور سیاسی مسائل پر گذشتہ اندیشمندوں سے کھیں زیادہ ہے اسی وجہ سے برہانی ومدلل اور عمیق مباحث کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے معاشرہ کی فکری اور ثقافتی معیار میں خاص طور سے جو مراکز اصل نظام اور اسلامی اصیل عقائد سے متعلق ہیں ان میں ترقی ہو، ان میں مقابلہ کرنے اور اعتراضا ت کے جوابات دینے کی طاقت پیدا ہو، تاکہ دوسروں سے متاثر نہ ہوں ،اسی لئے ہم اصول موضوعہ سے مربوط مطالب کو علمی اور فلسفی پیچیدہ اصطلاحوں کے بغیر سادہ طریقہ سے بیان کریں گے ، اور ان عقلی عقیدوں کو ذہن میں راسخ اور مستحکم کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ وہ اعتراضات کے سیلاب سے بہت کم متاثر ہوں ۔

حکومت اور سیاسی نظام کا ایک بنیادی کام یہ ہے کہ اس کی بیک سائڈ مضبوط ہو اور وہ معاشرہ میں حقوقی قوانین جاری کرنے کی ضامن ہو، اوریھی سے اخلاقی قوانین کا حقوقی اور سیاسی قوانین سے فرق واضح ہوجاتا ہے ، چونکہ اخلاقی قوانین اس لحاظ سے کہ اخلاقی ہےں ان کو الگ سے نافذ کرنے کی ضمانت کوئی ضرورت نہیں ہوتی اور ہر انسان اپنے عقائد اور اپنی معنوی حیثیت کی و جہ ان کا پابند ہوتا ہے اور ان پر عمل کرتا ہے ، لیکن حقوقی قوانین کے لئے الگ سے ضامن کا ہونا ضروری ہے حقوقی قوانین کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کو معاشرہ یا کسی ادارہ کے ذریعہ عوام الناس کے لئے جاری کیا جاتا ہے یھاں تک کہ اگر گوئی ان کا معتقد بھی نہ ہو تو بھی اُس پر ان قوانین کی پابندی کرنا ضروری ہوتا ہے اور اگر کوئی ان قوانین کو ماننے سے سرپیچی کرے تو حکومت کا وظیفہ ہے کہ اس کے ساتھ طاقت وزبردستی سے پیش آئے اور اگر ضرورت پڑے تو ان قوانین کے نفاذ کیلئے اسلحہ کا بھی استعمال کرسکتی ہے۔

انہیں باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انقلاب کے بعد خاص طور سے اندرونی حالات اور بے رحمانہ قتل وغارت کے بعد نظام کے ذمہ دار افراد نے قانون مندی پر زور دیایھاں تک کہ انقلاب کے ابتدائی سالوں میں سے ایک سال کا نام ”سال قانون“ رکھا گیااور اب تک تمام حکومتوں نے اس اعلان کی پابندی کی ہے، اور اسی وجہ سے موجودہ حکومت کا ایک اصلی او راہم مقصد قانون کے نعرہ کو ملکی پیمانے پر جاری کرنا اور خلاف ورزی سے لوگوں کو منع کرنا ہے، لھٰذا سب سے پہلے قانون اور اس کے معتبر ہونے کے بارے میں بحث کرنا ضروری ہے تاکہ اس بارے میں جو سوالات واعتراضات درپیش ہوں ان کا قانع کنندہ جواب دیا جاسکے۔

۲۔قانون کے معتبر ہونے کا معیار اور اس کی وسعت

بہت سے لوگوں کے سامنے یہ اعتراضات وسوالات پیش آتے ہیں کہ مثلاًقانون کس حد تک معتبر ہے اور اس کی ابتدا کھاں سے ہوئی؟ اور افراد کو کس حد تک قانون کے سامنے سرِتسلیم خم کرنا چاہئے؟ او رکون سا قانون اتنا معتبر ہے کہ افراد کو سوفی صد اس کا تابع اور مطیع ہونا ضروری ہے؟ بحث کو آگے بڑھانے اور ان سوالوں کے بارے میں کچھ بیان کرنے سے پہلے اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ ہم مسلمانوں کے نظریہ کے اعتبار سے اسلامی نظام کے تابع ہےں اور حضرت امام خمینی(رہ) او رمقام معظم رہبری حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای مدظلہ العالی کے اقوال ہمارے لئے حجت ہیں ۔

لھٰذا اس بات کا کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ کہ ہم اسلامی حکومت کے قوانین چاہے وہ پارلیمنٹ نے بنائے ہوں یا حکومت کے کسی دوسرے ادارہ نے بنائے ہیں یھاں تک کہ قوانین کے وہ بخشنامہ جو مختلف وزارتخانوں سے اداورں کو دئے جاتے ہیں ان سب کا نافذ کرنا ضروری ہے ، اور امام خمینی(رہ) کے فرمان کے مطابق اسلامی حکومت کے تمام قوانین ومقررات لازم الاطاعت ہیں ، لھٰذا ہمارے لئے ان سب پر عمل کرنا ضروری ہے، اور ہم سب کو ذاتی طور پر اسلامی حکومت کے چھوٹے سے چھوٹے قوانین ومقررات کی بھرپور رعایت کرنا چاہئے اگرچہ کسی مقام پر وہ ہمارے فقھی فتوے کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

اور اس بارے میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ اسلامی حکومت کے احکام و قوانین ومقررات اور ولی امر مسلمین کی اطاعت ہم سب پر واجب ہے، اب اگر ہم قانون کے اعتبار کے معیار وملاک کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ ہم اسلامی حکومت کے قوانین کے لازم الاطاعت ہونے کے بارے میں شک کررہے ہیں بلکہ اس سے تو ہمارا مقصد فکری بنیادوں کو اس بات کے لئے مستحکم کرنا ہے کہ اسلامی حکومت کی اطاعت کرناضروری ہے۔

اور ہماری کوشش تو اس سوال کی وضاحت کرنا ہے کہ ہم اسلامی حکومت کے قوانین کی اطاعت کیوں کریں ؟ اور یہ معین ہونا چاہئے کہ قانون کے معتبر ومعین ہونے کی وجہ کیا ہے؟ جب حکومت کسی دن عمومی چھٹی کا اعلان کردیتی ہے یا قوانین ومقررات کے تحت آنے والے افراد کے لئے کچھ ٹیکس معین کرتی ہے یا معمول کے مطابق کچھ احکام نافذ کرتی ہے یا جداگانہ شرائط جیسے جنگ کی شرطوں میں عمومی طور پر عوام الناس کو طلب کرتی ہے اور خاص قوانین جاری کرتی ہے کہ عوام الناس یہ جان لیں کہ وہ قوانین اور مقررات پر کیوں عمل کریں ، اور صرف یہ کہ کوئی شخص حکم صادر کردے اورعوام الناس اس کی پیروی کرکے اس پر عمل شروع کردے، یہ کافی نہیں ہے۔

دوسری طرف سے ہماری بحث ”سیاسی فلسفہ“ سے مربوط ہے، مسئلہ قانون اور اس کا معتبر ہونا اور اس کی اطاعت کا لازم ہونا یہ تمام سیاسی نظاموں کی بنیادی بحثوں میں سے ہے اور یہ صرف اسلامی نظام سے مخصوص نہیں ہے، ”فلسفہ سیاست اور فلسفہ حقوق“ سے تقریباً سبھی لوگ واقفیت رکھتے ہیں ، اور محقیقن اور ماہرین حضرات نے معارفِ بشری کے ان دو موضوعات کو بیان کرنے میں بڑی کوششیں اور محنتیں کی ہیں اور مختلف نظریات کو مناسب دلیلوں کے ذریعہ بیان کیا ہے، لیکن پھر بھی آج تک وہ اس نتیجہ پر نہیں پہونچ سکے جو برہانی اورمدلل ہو، اور مکمل طور سے قانع کنندہ ہو تاکہ اس کا دفاع کیا جاسکے، اور قانون کے معتبر ہونے کے باب میں ان محققین نے مندرجہ ذیل تین اہم نظریات قائم کئے ہیں :

الف: نظریہ عدالت

بعض محققین نے قانون کے معتبر ہونے میں عدالت کومعیار قرار دیاہے، کہ اگر کوئی قانون عدالت اور عوام الناس کے حقوق کی رعایت کی بنیاد پر بنایا جائے گا تو وہ معتبر ہوگا اور عوام الناس پر اس کی اطاعت کرنا واجب ہوگی، لیکن اگر قانون عدل کی بنیاد پر نہ بنایا گیا ہو بلکہ غیر عادلانہ طور پر بنایا گیا ہو تو وہ قانون معتبر نھیں ھے۔

ب: معاشرے کی ضرورتوں کو پوراکرنا

قانون کے معتبر ہونے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ وہ قانون معتبر ہے کہ جو معاشرے کی ضروتوں کو پورا کرسکے، کیونکہ معاشرہ کے افراد اجتماعی زندگی سے سروکار رکھتے ہیں جن میں ان کی مخصوص ضرورتیں ہوتی ہیں او ران میں ان کا کوئی فردی اور ذاتی پہلو نہیں ہوتا ہے، اگرچہ تمام لوگوں کو ان ضروتوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے لیکن اصل میں وہ لوگ اجتماعی ہیں اور اجتماعی زندگی کی شرطوں کا خیال رکھتے ہیں ،مثال کے طور پر عمومی نظافت کی رعایت کرنا معاشرہ کی ایک اہم ضرورت ہے اگرچہ ہر شخص اگر وہ چاہے تو اپنی ذاتی زندگی اور گھر کی چھاردیواری کے اندر رہ کر اس کی رعایت کرسکتا ہے۔

لیکن عمومی نظافت کی رعایت کرنے کی خاطر ہر شخص کو اس کی رعایت کرنے پر آمادہ کرنا ایک مشکل کام ہے اور اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ فرد کے عملی اقدام سے بالا تر کوئی ادارہ یا قانون موجود ہو جو عمومی ضرورتوں کو پورا کرسکے. مثال کے طور پر اگر معاشرہ میں وبا اور طاعون جیسی خطرناک بیماریاں پھیل جائیں تو ان بیماریوں پر کنٹرول کرنے کے لئے فردی اقدامات سودمند ثابت نہیں ہوسکتے بلکہ اس چیز کی ضرورت پیش آئے گی کہ حکومتی پیمانہ پر کسی ادارہ کی طرف سے بیماری پر کنٹرول کرنے اور عمومی نظافت کو ایجاد کرنے کے لئے واکسن (سوئی) وغیرہ لگائے جائیں تو حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ قوانین وضع کرکے اگرچہ وہ موسم کے لحاظ ہی سے کیوں نہ ہوں ، لوگوں کو اس بات کا پابند بنادے کہ فلاں مدت تک سب کو واکسن لگوالینے چاہئے، (جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ قانون سے ہماری مراد عام معنی ہیں جو تمام لازم الاجراء دستور العمل اور آئین نامہ وغیرہ کو بھی شامل ہوتا ہے)

قارئین کرام ! آپ نے ملاحظہ کیا چونکہ عمومی نظافت معاشرہ کی ضرورت ہے اور اس کی رعایت کرنا ایک اجتماعی ضرورت ہے، لھٰذا اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کچھ خاص قوانین بنائے گئے ہیں ،اور سب پر ان قوانین کی رعایت کرنا ضروری ہوتا ہے اسی طرح اپنے مقام و محل زندگی کے اچھے اور سالم رکھنے کے لئے حکومت کی طرف سے کچھ اذارے معین کئے گئے ہیں جو ان ضرورتوں کو پورا کرنے کا اقدام کرتے ہیں اور عوام الناس پر بھی ان اداروں کی طرف سے صادر ہونے والے قوانین اور دستور العمل کی پیروی کرنا لازم ہوتا ہے، نتیجہ کے طور پر حکومت کی طرف سے بھی ادارے معین کئے گئے ہیں جیسے تعلیمی ادارے، نظافت ومعالجہ کے ادارے، وزارتخانے، او ران کے دستور العمل جو معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں اور اسی بناپر ان کو شرعی حیثیت ہے لھٰذا ان کے دستورات کے مطابق ہر فرد پر عمل کرنا واجب ہے۔

ج: عوام الناس کیا چاہتی ہے

بعض محققین قانون کے معتبر ہونے کا معیار وملاک عوام الناس کو خواہش سمجھتے ہیں ان کے نظریہ کے مطابق قانون معاشرہ کی خواہشوں کو پورا کرنے کے لئے ہوتا ہے، لھٰذا جب بھی عوام الناس کوئی چیز حکومت اور قانون بنانے والے ادارہ سے طلب کرے تو حکومت کے پارلیمینٹ میں عوام الناس کے نمائندے عوام الناس کی خواہش کے مطابق قانون بنائیں ، اورچونکہ جب قانون لوگوں کی خواہش کو مدنظر رکہ کر بنایا گیا ہے ، تو پھر عوام الناس کا بھی فریضہ یہ ہے کہ اس کی پیروی اور اس کی حفاظت کرے اور اس سلسلہ میں بھر پور کوشش کرے، درحقیقت عوام الناس کی عینی خواہش کا متحقق ہونا پارلیمینٹ کے ممبروں کا منتخب کرنا ہے او ران کو چاہئے کہ کہ وہ عوام الناس کی خواہش کے مطابق قوانین بنائیں ، اس بناپر اگر عوام الناس کے منتخب کئے ہوئے نمائندے قانون بنانے کا حق نہ رکھتے ہوں تو عوام الناس کی طرف سے ان کا منتخب کرنا بے فائدہ اور بے سود ہوگا، اور اگر ان کو قانون بنانے کا حق ہو لیکن ان کی جانب سے وہ قانون لازم الاجراء نہ ہو تو قانون گذاری ایک عبث امر ہوگا۔

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا وہ قانون کے اعتبار کے سلسلہ میں حقوق وسیاست کے کے فلاسفہ کے نظریات کا خلاصہ تھا، اور یہ فطری تقاضا ہے کہ ہم مسلمان ہونے کے ناطے قانون کے معتبر ہونے کا معیار خداوندعالم کی طلب اور مرضی جانتے ہیں ، اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس چیز کا خداوند عالم نے حکم دیا ہے وہی قانون شمار کیا جائے گااور اسی کو معتبر سمجہا جائے گا، البتہ یہ آخری نظریہ وہ لوگ مانتے ہیں جو خداوندعالم کو قبول کرتے ہیں ۔

(ہم مندرجہ بالا نظریوں کی تفصیلی طور پر تحقیق وتنقید اور تجزیہ وتحلیل کرنے سے صرف نظر کرتے ہیں اور صرف اسی تحقیق اور تنقید پر اکتفاء کرتے ہیں جو عام افراد کی فہم ودرک کے مناسب ہے)

۳۔پھلے نظریہ پر اعتراض

پھلے نظریہ میں بیان کیا جاچکا ہے کہ قانون کے معتبر ہونے میں عدالت کا رعایت کرنا ضروری ہے ، یھاں پر ایک بنیادی سوال یہ پیش آتا ہے جس کو دنیا کے بڑے بڑے محققین نے بھی بیان کیا ہے اور اس سوال کے جواب میں انھوں نے بڑی بڑی کتابیں لکھیں ہیں اور وہ سوال یہ ہے کہ عدالت کیا ہے اور عدالت کیسے متحقق ہوتی ہے؟ درحالیکہ عدالت کا مفہوم سب کے لئے واضح ہے پھر بھی سیاسی اور حقوقی نظریہ بیان کرنے والوں کے لئے یہ سوال اتنا وسیع ہوگیا اور ان کو اس بھنور میں پہنسا دیا ، لیکن یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ انھوں نے عدالت کا مطلب مختلف نکالا ہے۔

اگر تمام لوگ معاشرہ کے مال ودولت سے برابر استفادہ کریں تو عدالت قائم ہوگی یا نھیں ؟ یعنی اگر ایک سیاسی نظام ان تمام مقدمات ووسائل کو فراہم کردے کہ تمام افراد گھر ، لباس اور سواری وغیرہ کے اعتبار سے بالکل مساوی طور پر استفادہ کریں تو عدالت برقرار ہے ورنہ ظلم ہے؟اس طرح کی چیزیں مکتب ”مارکسیسم“ (سیاست ومعاش کا مسلک) میں وقوع پذیر ہوئیں او رآخر کار” کمیونیزم“ کا نظریہ پیدا ہوا۔

اور اس نظریہ کو بیان کرنے والوں نے یہ اعلان کئے کہ ہم ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جس میں کوئی طبقہ بندی نہ ہو، اور اس معاشرہ کا ہر فرد اپنی طاقت وقدرت کے لحاظ سے کام کرے، اور اپنی ضرورت کے مطابق استفادہ کرے، اس کے بعد وہ لوگ اس نتیجہ پر پہونچے کہ ان چیزوں کو عمل کے ذریعہ حاصل نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ مندرجہ بالا نظریہ کی طرف ہونے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا انہیں مشکلات میں سے عدالت کے مقابلہ میں آزادی آگئی تھی، اسی وجہ سے ان لوگوں نے اپنے نظریہ کا پھر سے بغو ر مطالعہ کیا اور کچھ تنزل کرتے ہوئے اپنے اعلانات میں ”سوسیالسٹی“ (عمومی سھولتیں ) حکومت کو اپنایا، جب کہ وہ کمیونیزم حکومت کا ایک نمونہ کے طور پر بیان کررہے تھے۔

جس وقت مارکسیسم نے یہ دیکھا کہ لوگوں کی اکثریت پر خاص طور پر مزدوروں اور کسانوں پر ظلم ہورہا ہے تو اس نے اس بے عدالتی اور ظلم سے منع کرتے ہوئے کھا کہ ہم کو وہ امور انجام دنیا چاہئیں کہ حقوق کے اعتبار سے تمام افراد یکساں استفادہ کریں یعنی معاشرہ میں کوئی طبقہ بندی نہ ہو، اور سب کے درمیان بطور کامل مساوات ہو سب ایک دوسرے کے لئے نمونہ عمل ہوں اور سب کے لئے زمین جنت کے مانند ہو، ادھر بعد مسلمانوں نے اس میں ایک لفظ کا اور اضافہ کردیا اور کھا ”توحید کے اعتبار سب لوگ ایک ہوں “تو اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا عدالت کا مطلب یھی ہے کہ تمام افراد ایک جیسے اور برابر ہوں ؟

اس کے مقابلہ میں بعض محققین کا عقیدہ یہ ہے کہ عدالت کا مطلب یہ ہے کہ ہر فرد اپنی محنت وزحمت کے مطابق معاشرہ سے استفادہ کرے، یعنی اگر کوئی شخص کسی کام کو انجام دیتا ہے تو اس کو اس کی محنت کے مطابق مزدوری ملنا چاہئے،اب اگر کوئی شخص کاہلی اور سستی کرے اور کوئی کام انجام نہ دے تو اس کو دوسروں کی زحمت کے برابر استفادہ نہیں کرنا چاہئے اور اجتماعی منفعتوں کو اس کے حوالے نہ کیا جائے اس بھانہ سے کہ عدالت ایجاد ہوسکے. اور جب عدالت ایجاد ہوجائے گی تو جو افرد کام انجام دیں گے وہ اپنے کام کی مزدوری حاصل کرلیں گے اب اگر کوئی اپنی محنت وکوشش سے زیادہ کام کرے اور اس کو اس کام کا کوئی نتیجہ نہ ملے تو یہ اس کے حق میں ظلم ہوگا۔

۴۔ اسلامی قوانین کی برتری

بغیر کسی شک وشبہ کے عدالت کی دونوں مندرجہ بالا تفسیریں (کہ جن کو نمونہ کے طور پر بیان کیا گیا) مکمل طور پر ایک دوسرے سے مختلف اور مقام عمل میں ناہم اہنگ ہیں ، جن سے نتیجہ یہ نکلا کہ وہ احکام ، عقائد اسلامی اور مسائل توحید سے سازگاری نہیں رکھتے، نمونہ کے طور پر ہمارے دین اسلام میں بہت سے ایسے احکام ہیں جو خود ہمارے عقیدہ کے مطابق معاشرہ کے لئے بہت رین اور سب سے زیادہ مفید ہیں اور مسلماً عدالت کے مطابق ہیں لیکن دنیا کے بہت سے افراد ان کو نہیں مانتے اور نہ ہی ان کو عادلانہ سمجھتے ہیں ، مثال کے طورپر بہت سے مقامات پر ارث کے مسئلہ میں مرد وعورت کے درمیان فرق رکھا گیا ہے اگرچہ بعض مقامات میں ان دونوں کی میراث بھی مساوی اور برابر ہے اور اس فرق کی نص صریح قرآن مجید کی یہ آیت ہے: (فَلِذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْا نْثَیَیْنِ.)(۱) ”مرد کو عورت کے حصہ کے دوگنا ملے گا“

اس میں کوئی شک شبہ نہیں ہے کہ جو افراد اسلام کے نظریات اور اعتقادی اصول کی معرفت نہیں رکھتے وہ اس طرح کے قانون کو ظالمانہ قانون سمجھتے ہیں ، چونکہ ان کے نظریہ کے مطابق خداوند عالم مرد وعورت کے درمیان تبعیض کا قائل ہے، دوسری طرف یہ کہ گھریلو مشترک زندگی میں اسلام نے مرد کو اس بات کا مکلف قرار دیا ہے کہ وہ مشترک زندگی کے تمام مخارج خواہ وہ عورت کے کھانے پینے کی چیزیں ھوں یا لباس ہو یا گھر، سب کچھ مرد کو ہی پورا کرنا ہے، اور اسلامی نقطہ نظر سے عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی تمام درآمد کو بینک میں جمع کردے اور اس کی میراث اور اس کی درآمد کا خود اسی سے متعلق ہو، اور اس پر اپنی زندگی کے لئے کچھ بھی خرچ کرنا لازم نہیں ہے اور اس کو اپنے گھر کے تمام خدمات جیسے لباس دھونا، کھانا بنانا، یھاں تک کہ بچہ کو دودہ پلانے کی مزدوری لینے کا بھی حق ہے، البتہ جو افراد نزدیک سے اسلام کو نہیں جانتے جب وہ اس طرح کے احکام کو دیکھتے ہیں اگر انصاف سے کام بھی لیں تویھی کھتے ہیں کہ اسلام نے عادلانہ قانون نہیں بنائے ہیں ۔

ان تھمتوں کو دور کرنے اور اسلام کے احکامات کی مناسب وضاحت کرنے اور یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اسلام کے قوانین عادلانہ ہیں یا نھیں ؟ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم عدالت کے کیا معنی کرتے ہیں ، کیونکہ اگر عدالت کے معنی مساوات ہے تو تمام قوانین غیر عادلانہ ہیں اس لئے کہ ان میں مساوات کی رعایت نہیں کی گئی ہے، اور اگرعدالت کے کوئی اور معنی ہیں تو یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ معنی کیا ہیں ؟ البتہ عدالت کی ماہیت اور کیفیت کی معرفت حاصل کرنا اور عدالت کا متحقق کرنا آسان کام نہیں ہے اسی وجہ سے بڑے بڑے فیلسوف حضرات نے عدالت کے بارے میں بڑی بڑی تحقیقات کی ہیں اور ان میں سے بعض نے عدالت اور آزادی کے درمیان رابطہ کی تحقیق کی ہیں ۔

خلاصہ کلام یہ کہ اگر ہم قانون کے معتبرہونے کا ملاک ومعیار عدالت قرار دیں تو ہماری مشکل رفع نہیں ہوگی اورہمارے ذہن میں سب سے پہلا سوال یہ آتا ہے کہ عدالت سے کون سے معنی مراد ہیں ؟ کیونکہ ہر انسان اپنے لحاظ سے عدالت کے معنی اور تفسیر کرتا ہے، اور اسی بنا پر قانون کو عادلانہ اور معتبر سمجھتا ہے اور اس پر عمل کرنا ضروری سمجھتا ہے اس کے مقابلے میں دوسرا انسان عدالت کی اپنی تفسیر کے بناپر اس قانون کو غیر عادلانہ اور غیر معتبر سمجھتا ہے۔

۵۔دوسرا نظریہ عملی نہیں ہے

قانون کے معتبر ہونے کا دوسرا معیار یہ تھا کہ اس سے معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کیا جاسکے، البتہ یہ معیار کسی حدتک قابل قبول ہے چونکہ تمام افراد کم وبیش اجتماعی ضروتوں کو سمجھتے ہےں ، اور یہ جانتے ہیں کہ معاشرہ کوکن چیزوں کی ضرورت ہے، خاص طور سے جس معاشرہ میں ہم زندگی بسر کرتے ہیں اور ہم سے پہلے جس معاشرہ میں ہمارے آباء اجداد زندگی بسر کرتے تھے یقینا ایسا قانون اور حاکم موجود تھا جو ضرورتوں کو درک کرے اور اس کو یہ معلوم تھا کہ کس طرح معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کیا جاسکتا ہے۔

اس نظریہ پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ معاشرہ کی ضرورتوں کو مختلف طریقوں سے پورا کیا جاسکتا ہے اور یھی امر قانون کو منظم کرنے میں فرق کا سبب بنتا ہے. مثال کے طور پر کسی شہر کو خوبصورت اور اچھا بنانا اور اس کو صاف ستھرا رکھنا ایک عام ضرورت ہے اور اس ضررورت کو ضرور پورا ہونا چاہئے، لیکن اس کا خرچ کھاں سے آئے؟ تو کیا گھر کے ہر فرد پر کچھ خاص رقم رکھی جائے اور اس کو جمع کیا جائے؟

یعنی گھر کے ہر فرد کو اس بات کا پابند بنادیا جائے کہ وہ شہر کی نظافت اور اس کو صاف وستھرا رکھنے کی بابت کچھ رقم ادا کرے. دوسرا نظریہ یہ ہے کہ شہر کے جاری مخارج کو عمومی سرمایہ سے پورا کیا جائے یعنی وہی سرمایہ جو عام طور سے مالی ٹیکس کے ذریعہ جمع کیا جاتا ہے اور اکثر وہ سرمایہ مالدار لوگوں سے وصول کیا جاتا ہے، اور جو غریب لوگ شہر کے پسماندہ علاقوں میں رہتے ہیں اور ان کے مکانات نامناسب ہوتے ہیں تو وہ اس ٹیکس کے ادا کرنے سے معاف ہوتے ہیں ۔

تیسرا نظریہ یہ ہے کہ حکومت اس چیز کی پابند ہوتی ہے کہ وہ زمین کے اندر سے نکلنے والی چیزیں جیسے تیل، لوہا، وغیرہ ان کو فروخت کرکے ان کی وصول کی گئی رقم سے معاشرہ کی ضرورتوں کوپورا کرے۔

ان تمام باتوں کے باوجود قانون کے معتبر ہونے کا معیار معاشرہ کی ضرورتوں کوپورا کرنا بیان کیا گیا ہے اور مندرجہ بالا نظریات میں سے ہر ایک نظریہ معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے تو ان میں سے کس نظریہ کو عملی جامہ پہنایا جائے اور معتبر قانون کے عنوان سے پیش نظر رکھا جائے اور عوام الناس کون سے قانون کو سب سے زیادہ صحیح اور عادلانہ سمجھتے ہیں ؟ لھٰذا صرف یہ معیار بھی قانون کو معتبر مشخص کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔

۶۔تیسرے نظریہ کی کمی اور اسلامی لحاظ سے ضرورتوں کی وسعت

تیسرے ملاک کے اعتبار سے صرف وہی چیزیں جس کو عوام الناس معتبر سمجھی ہے اور جس کو وہ طلب کرتے ہیں وہ ایک قانون کی صورت میں جاری ہونا چاہئے، یھاں پر ایک سوال یہ پیش آتا ہے کہ کیا معیار یہ ہے کہ تمام لوگ سوفی صد کسی ایک ہی چیز کو طلب کریں ؟ اور یقینا ایسا نہیں ہوتا ہے کہ تمام لوگ کسی ایک چیز پر متفق ہوجائیں اور شاید لاکھوں قوانین میں سے سے کوئی ایک قانون بھی ایسا نہ ہو کہ جس کی تمام افراد نے سوفی صد موافقت کی ہو اور ایک قانون چاہے عام طور پر لوگوں کے من پسند ہی کیوں نہ ہو پھر بھی کم سے کم ایک دو فی صد افراد اس کی مخالفت ضرور کرتے ہیں ، اس بناپر مخالفت کرنے والوں کے لئے قانون کے معتبر ہونے کا ملاک کیا ہے؟

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جو کچھ عوام الناس چاہتے ہیں ، وہ عدالت کی میزان پر پوری نہ ہو تو کیا وہ قانون معتبر نہیں ہے؟ اسی طرح اگر عوام الناس کا مطالبہ دوسرے معیار سے اختلاف رکھتا ہو، یعنی عوام الناس کے مطالبہ معاشرہ کو ضروتوں کوپورا رکنے والی ضرورتوں میں شامل نہ ہوتو کیا وہ پھر اعتبار رکھتاہے؟ اگر کسی قانون میں یہ لازم کیا جارہا ہو کہ عوام الناس سے کچھ رقم وصول کی جائے تو شاید اکثر افرد اس کی مخالفت کریں چونکہ جب نئے ٹیکس مقرر کئے جاتے ہیں تو عوام الناس اس کو زبردستی قبول کرتے ہیں (یعنی بڑی مشکل سے مانتے ہیں ). معمولی طور پر کسی بھی جگہ بھی قانون مالیات کو عام طور پر خوشی سے قبول نہیں کیا جاتا، جب کہ یہ طے ہے کہ حکومت معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے یہ رقم وصول کرتی ہے، تو عوام الناس بڑی مشکل سے اس کو قبول کرتی ہے۔

اس صورت میں اگر لوگوں کی خواہش کی مطابق عمل کیا جائے تو معاشرہ کی ضرورتیں پوری نہیں ہوسکتیں ، جبکہ ایک نظریہ میں یہ فرض کیا گیا تھا کہ قانون کے معتبر ہونے کا معیار معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے، اور جب لوگوں کا مطالبہ عام ضرورتوں کو پورا کرنے کے منافی ہو تو کیا اس وقت معاشرہ کی مصلحتوں کو مدّ نظر رکھا جائے یا اکثر لوگوں کی مرضی کے مطابق عمل کیا جائے؟ بغیر کسی شک وشبہ کے قانون بنانے والے اور جو لوگ معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے ذمہ دار ہیں ، وہ عملی طور پر مشاہدہ کرتے ہیں ، کہ اگر ان موقعوں پر اکثر لوگوں کی مرضی کے مطابق عمل کیا جائے تو وہ کسی عمل میں پیشرفت نہیں کرسکتے، (البتہ یہ بحث ڈیموکراسی (جمہوریت) کے اصول کی طرف پلٹ جاتی ہے جس کو ہم آئندہ تفصیل سے بیان کریں گے)

بہرحال اس طرح کے اعتراضات قانون کے معتبر ہونے کے معیار وملاک پر پیدا ہوتے ہیں ، البتہ ہمارے نظریہ کے مطابق سب سے اہم او ربنیادی سوال یہ ہے کہ وہ مصالح اور ضرورتیں جو بیان ہوئی ہیں وہ صرف عادی ضرورتیں بیان ہوئی ہیں اور عام معیار یھی ہے کہ معاشرہ میں انسان کی صرف یھی ضرورتیں متحقق ہونا چاہئیں ؟ کیا حکومت کا صرف یھی وظیفہ ہے کہ وہ لوگوں کی صرف مادی اور دنیاوی ضرورتوں کو ہی پورا کرے یا حکومت کے دوسرے فرائض بھی ہوتے ہیں ؟ اس سے واضح الفاظ میں عرض کریں کہ ہم تمام مسلمانوں اور وہ تمام افراد جو ادیان الہی میں سے کسی ایک دین کو مانتے ہیں ہم سب کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان دو چیزوں سے مرکب ہے ایک بدن اور دوسرے روح، اور اکثر یا تمام ادیان کا نظریہ یہ ہے کہ روح بدن سے افضل واشرف ہے اور بدن روح کا خادم ہے. ان سب کا عقیدہ یہ ہے کہ بدن کو نظافت کی ضرورت ہے اور بدن کو بیمار ہونے سے بچانا ضروری ہے اور اگر بدن مریض ہوجائے تو اس کا علاج کرنا چاہئے، اسی طرح انسان کی روح کو بھی نظافت کی ضرورت ہے، اور بیمار ہونے سے اس کی حفاظت کرنا ضروری ہے، اور اگر مریض ہوجائے تو اس کا علاج بھی ضروری ہے، اگر ہم مادی ضرورتوں کا معنوی ضرورتوں سے مقابلہ کریں تو اس نتیجہ پر پہونچیں گے کہ روحی اور معنوی ضرورتیں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں ، روح کی بیماری بدن کی بیماری سے بہت زیادہ خطرناک اور اہمیت رکھتی ہیں ، کیونکہ انسان کی انسانیت کا امتیاز اس کی روح کی وجہ سے ہی ہے اور اگر اس کی روح مریض ہوجائے تو وہ انسانیت سے گر جاتا ہے،تمام حیوانات بھی بدن رکھتے ہیں او راس کو سالم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی مادی اور جسمانی لذتوں کو پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں ،جو کچھ انسان سے مخصوص ہے اور جوہر انسانیت کو اُجاگر کرتا ہے وہ ہے انسانی روح، اب اگر انسانیت کے معیار کو کوئی خطرہ لاحق ہو تو انسان کی حقیقی موت سے ہمکنار ہوجاتا ہے جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے:

( ا وَمَنْ کَانَ مَیْتاً فَا حْیَیْنَاه وَجَعَلْنَالَه نُوْراً یَمْشِی بِه فِیْ النَّاسِ کَمَنْ مَثَلُه فِی الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِنْها کَذَلِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِیْنَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) (۲)

”کیا جو شخص پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور بنایا جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں بے تکلف چلتا پھر تا ہے اس شخص کا سا ہوسکتا ہے جس کی یہ حالت ہے کہ (ھر طرف سے) اندھیروں میں (پہنسا ہوا ہے) کہ وہاں سے کسی طرح نکل نہیں سکتا،(جس طرح مومنوں کے لئے ایمان آراستہ کیا گیا ہے) اسی طرح کافروں کے لئے ان کے اعمال(بد) آراستہ کردئے گئے ہیں “

مندرجہ بالا مطالب کو مدنظر رکھتے ہوئے جو حکومت معاشرہ کی مصلحتوں کو پورا کرنے کے درپے ہے تو کیا اس کو عوام الناس کے روحی اور معنوی امور کی طرف توجہ نہیں دینا چاہئے؟ کیا حکومت کا صرف یھی وظیفہ ہے کہ وہ لوگوں کی صرف مادی ضرورتوں کو پورا کرے ، یا معنوی مصالح کو پورا کرنا بھی حکومت کا ہی فریضہ ہے؟

۷۔اسلامی انقلاب اور اس کا معنوی مصلحتوں سے برتر مقام

یھاں پر ایک پیچیدہ مسئلہ جو بیان کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی مقام پر معنوی اور مادی پیشرفت میں ٹکراؤ پیدا ہوجائے تو دونوں میں سے کس کو مقدم کرنا چاہئے؟ اگر کسی خاص زمان ومکان میں معاشرہ کی مادی پیشرفت، معنوی مصلحتوں کو چھوڑ دینے کا سبب بنے او راگر مادی اور اقتصادی وسعت اور معنوی مصلحتوں کو پورا کرنے میں تزاحم (یعنی ایک دوسرے کے روبرو ہونا) پیدا ہوجائے، تو کیا حکومت مادی وسعت کو محدود کرسکتی ہے تاکہ معنوی مصلحتیں بھی محفوظ رہ جائیں یا یہ کہ معنوی پیشرفت کا حکومت سے کوئی سروکار نہیں ہے اور حکومت کا وظیفہ صرف مادی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے اور معنوی مصالح کو پورا کرنا خود عوام الناس کی ذمہ داری ہے؟ یہ مسئلہ بہت اہم ہے اور ہماری اجتماعی زندگی میں عملی نتیجہ رکھتا ہے، اور آج کل بڑے بڑے اخباروں اور خبروں میں شایع کیا جاتا ہے اور اس سے متعلق بڑے بڑے مناظرہ اور بحثیں ہوتی ہیں ۔

کچھ افرد کھتے ہیں : حکومت کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ سیاست، معاش اور فرہنگ وثقافت میں وسعت دے ، وسعت کا مطلب وہی ہے جو عرف عام میں مشہور ہے اس بنیاد پر ثقافتی وسعت کے وہ مصادیق ہیں جن کو خاص طور سے ہم معنوی مصلحتوں کے لئے بیان کرتے ہیں اس سے مختلف ہے اور اس سے مراد قومی میراث کی حفاظت کرنا اور ورزش اور موسیقی جسے امور میں وسعت کرنا ہے۔

بلا کسی شبہ جو افراد دین اسلام سے تعلق رکھتے ہیں اور انقلاب اسلامی کے طرفدار ہیں ، مصالح معنوی کی ایک خاص اہمیت کے قائل ہیں اور ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ انقلاب برپا کرنے کا اصلی ہدف معنوی مصالح کی حفاظت کرنا تھا. البتہ ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اسلام کے زیر سایہ ہی مصالح مادی بھی پورے ہوں ۔

اگرچہ کچھ زمانہ ہی کیوں نہ لگ جائے ان سب باتوں کے باوجود ہماری قوم نے معنوی اور الہی پختہ اعتقاد اور معنوی مصالح کی حفاظت کی خاطر عملی طور پر یہ ثابت کردیا کہ ہم معاشی ناکابندی اور مھنگائی اور دوسری مشکلات کے باوجود زندگی بسر کرسکتے ہیں ، ان کے عزیز واقارب اسلام کی خاطر قربان ہوسکتے ہیں ، عورتیں بغیر شوہر اور بچے بغیر باپ کے ہوسکتے ہیں جیسا کہ شھیدوں کے وصیت ناموں سے اس بات کا مسلم ثبوت ملتا ہے کہ ان کا ہدف اسلام کی حفاظت اور معنوی مقاصد کو برقرار رکھنا تھا.

جو کچھ بیان کیا جاچکا ہے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمارے لئے مصالح مادی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے علاوہ دوسرا معیار وملاک بھی موجود ہے اور وہ مصالح معنوی کی ضرورت کو پورا کرنا ہے اور اگر معاشرہ کی مصلحتوں کو پورا کرنے کو ہم قانون کے معتبر ہونے کا ایک معیار جان لیں تو ہمارے لحاظ سے ”مصالح“ مصالح مادی ومصالح معنوی دونوں کو شامل ہوگا۔البتہ معاشرے کے مصالح کی تحقیق وجستجو اور اس کے مصداق کو معین کرنا ایک عمیق اور سلسلہ وار بحث ہے یہ اس سے بھی کھیں زیادہ وسیع ہے جو فلسفہ سیاست اور حقوق میں بیان کی جاتی ہے اور وہ بحث اس بات پر موقوف ہوتی ہے کہ کیا حقیققت میں انسان مادی امور کے علاوہ مصالح واقعی بھی رکھتا ہے یا یہ کہ انسان کے مصالح وہی مصالح مادی ہی ہیں اور اس کے علاوہ کچھ آداب ورسومات ہیں کہ جو کبھی کبھی بدلتے رہتے ہیں اور دوسرے معنوی مصالح اور اہم ضرورتوں کے وجود میں کچھ نہیں ہیں ؟ کیا مصالح اور واقعی ضرورتیں وہی مادی امور جو علمی تجربوں سے انجام پاتے ہیں اور مادی طریقوں سے ہی ان کو معین کیا جاتا ہے جیسے نظافت، معاش میں پیشرفت کرنا صنعت اور ٹکنالوجی یا اس کے علاوہ دوسرے مصالح روحی ومعنوی بھی موجود ہیں ، جو تجربہ حسی کے قابل نہیں ہیں ۔

البتہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ واقعی ومصالح وہی معنوی وروحی مصالح ہیں جو ”متافیزیک“ (حکمت ماوراء الطبیعة) سے متعلق ہوتے ہیں اور اصطلاح میں وہ علمی مسائل کا جز نہیں ہوتے اور علمی طریقے سے قابل اثبات نہیں ہوتے ہیں ، لھٰذا نتیجہ کے طور پر اگر ہم یہ بیان کریں کہ معاشرہ میں معنوی مصالح کی ضرورت کو پورا کرنا جاہئے اور ان کو پورا کرنا حکومت کا وظیفہ ہے اور ہم ایک برہانی اور مدلل بحث پیش کرنا چاہیں تو ہم کو اس مسئلہ کو ضرور بیان کرنا چاہئے کہ ہمارے مادی مصالح کے علاوہ کچھ اور بھی مصالح رکھتے ہیں یا نھیں ؟۔

حوالہ

۱ ۔سورہ نساء ایت۱۷۶

۲۔سورہ انعام آیت ۱۲۲