اسلام اور سیاست جلد ۱

اسلام اور سیاست 0%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور سیاست

مؤلف: آیة اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 34322
ڈاؤنلوڈ: 2681


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 39 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34322 / ڈاؤنلوڈ: 2681
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد 1

مؤلف:
اردو

چودھواں جلسہ

قانون کے سلسلے میں غرب کی مادی نگاہ

۱۔گذشتہ مطالب پر ایک نظر

جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ اسلام کے نقطہ نظر سے معاشرہ کو قانون کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی ایسا قانون جو انسان کی دنیا و آخرت کی سعادت کا ضامن ہو، اور مجری قانون کو بھی قانون کو اسکے مصادیق پر مطابقت کرنے میں مکمل طور پر آگاہ، دلسوز، متقی، عادل اور طاقت ور ہونا چاہیے ،جیسا کہ مدیریت کا لازمہ بھی یھی ہے۔

حکومت کے سلسلہ میں اسلام کا یہ اصل نظریہ ہے کہ جس کو ہمارا معاشرہ ولایت فقیہ کے نام سے جانتا ہے اس نظریہ کو بیان کرتے وقت ہم نے بیان کیا تھا کہ انسان کا تنھا جنگل یا غار میں زندگی بسر کرنا ممکن ہے، لیکن کبھی کبھی انسان کی مادی او رمعنوی پیشرفت اجتماعی زندگی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی، تمام علوم، فنون اور ٹیکنولوجی اجتماعی زندگی کا ہی ثمرہ ہے، یھاں تک کہ جو افراد خود سازی اور تھذیب واخلاق اور سیر و سلوک او رعرفان کے راستوں کو طے کئے ہوئے ہیں وہ اجتماعی زندگی کے اثر اور اپنے اخلاق کے اساتذہ اور مربیوں کے ذریعہ اس مقام پر پہونچے ہیں ۔

اگر بشر کے مابین یہ ارتباط و رابطہ نہ ہوتا تو وہ کبھی مادی اور معنوی پیشرفت حاصل نہیں کر سکتے تھے، اس بنا پر انسان کیلئے اجتماعی زندگی کی ضرورت پیش آتی ہے اور اس لئے کہ افراد اس نعمت الٰھی سے استفادہ کریں تو اجتماعی زندگی کو گذارنے کے لئے ان سب پر حاکم ہونے والے کچھ قوانین کا ہوناضروری ہے ۔

بدیھی ہے کہ اگر قوانین نہ ہوں تو معاشرہ میں بے نظمی، اختلال اورعسر وحرج لازم آئےگا اور انسانی زندگی حیوانی زندگی میں تبدیل ہوجائےگی، بعض محققین کھتے ہیں کہ انسان ذاتی طور پر ایک دوسرے کیلئے بھیڑیے کی مانند ہیں اور ان کو کسی زبردستی طاقت کے ذریعہ معتدل کرنا چاہیے لیکن اس طرح کا رویہ افراط کرنے والے انسانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے، بہر حال انسان کے اندر بہت سے ایسے جاذبات پائے جاتے ہیں کہ اگر ان کو نظم اور قانون کے ذریعہ مھار نہ کیا جائے تو معاشرہ میں فساد پھیل جائےگا۔

اس کے بعد یہ سوال پیش آتا ہے کہ یہ قوانین کس طرح کے قوانین ہونے چاہئیں اور ان میں کیا خصوصیات ہونی چاہئیں تاکہ وہ انسانی معاشرہ کی دنیا اور آخرت کی سعادت کی طرف ہدایت کرسکیں ؟ مختصر طور پر یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ ایک گروہ کا یہ عقیدہ ہے کہ قانون کو معاشرہ میں صرف نظم اور امنیت برقرار کرنے والا ہونا چاہیے اسکے علاوہ قانون کا اور کوئی فریضہ نہیں ہے، دوسرے گروہ کا عقیدہ ہے کہ قانون کو معاشرہ میں نظم وامنیت کے علاوہ عدالت کو بھی برقرار کرنے والا ہونا چاہیے اس بنا پر قانون کی تعریف کرنے میں مختلف نظریے بیان کئے گئے ہیں جیسا کہ ہم نے مجمل طور پر بیان کیا ہے، اسی بارے میں کچھ افراد کھتے ہیں کہ معاشرہ میں نسانوں کے طبیعی حقوق کے خلاف ہونے والے قوانین کو نافذ نہیں کرنا چاہئے۔

اس مندرجہ بالا نظریہ کی تائید میں اخباروں ، رسالوں اور تقریروں میں مختلف طرح کے انگیزہ بیان کئے جاتے ہیں اور کھا جاتا ہے کہ آزادی انسانوں کے طبیعی حقوق کی بیان گر ہے، اور کوئی قانون انسانوں سے اس طبیعی حق کو چھین نہیں سکتا ہے، ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ یہ نظریے مختلف اشخاص کی طرف سے اور مختلف انگیزوں کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اور میرا بذات خود ان افراد کے ساتھ کوئی واسطہ بھی نہیں ہے کہ ان مطالب کو بیان کرنے والے کس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا کیا انگیزہ ہے اور وہ کیوں ان مطالب کو بیان کرتے ہیں ؟ میں صرف اس عنوان سے کہ طالب علم ہوں اور پچاس سال سے میرا علوم دینی سے سروکار ہے میں صرف فلسفہ حقوق یا فلسفہ سیاست کے بارہ میں اسلامی نقطہ نظر سے تو بحث کر سکتا ہوں اور اپنا نظریہ پیش کر سکتا ہوں ، اور شاید اکثر افراد کو معلوم ہوگا کہ میرا کسی گروہ، کسی حزب، او رکسی تشکیلات سے کوئی رابطہ نہیں ہے، اور حقیرصرف وظیفہ شرعی کے حکم سے مطالب پیش کررہا ہوں ۔

اگرکچھ افراد معاشرہ میں فساد برپا کرنا چاہتے ہیں ، لوگوں کے سامنے غلط تفسیروں کو پیش کرتے ہیں یا مطالب میں تحریف کیا کرتے ہیں ، وہ ان تفسیروں کی ابتدا یا آخر سے کچھ کلمات کو حذف کر دیتے ہیں اور ایک جملہ ہوتا کسی کا ہے اور اس کو کسی اور سے منسوب کر کے بیان کیا کرتے ہیں اور اس کو ذرہ بین کے سامنے رکھکر اس سے غلط استفادہ کرتے ہیں تو میرا ایسے افراد سے کوئی رابطہ نہیں ہے، معاشرہ میں ایسے افراد ہمیشہ رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے۔

اگر آپ کے یاد ہو تو میں نے پہلے بھی مکرر اس مسئلہ کی تاکید کی ہے کہ ہم کبھی کبھی ایسا کلمہ استعمال کرتے ہیں کہ اس کا دقیق اور مشخص و معین مفہوم نہیں ہوتا اور ہر شخص اپنی قوت فہم کے مطابق اس سے مطلب اخذ کرتا ہے اور یھی اشتباہ غلطی کا سبب ہوتا ہے اور اس چیز کا باعث ہوتا ہے کہ سننے والا صحیح طریقہ سے کھنے والے کی بات کو نہیں سمجہ سکا اور بعض موقعوں پر یہ مغالطہ کا سبب ہوتا ہے، کبھی تو اتفاق سے مغالطہ ہوجاتا ہے، اور کبھی کوئی شخص جان بوجہ کر مغالطہ کرتا ہے۔

منجملہ ان کلمات میں سے ایک کلمہ ”حق طبیعی“ ہے جو اس جگہ پر بیان کیا گیا ہے جبکہ اصولی طور پر اس طرح بیان ہونا چاہیے کہ ”حق“ کیا ہے اور اسکے طبیعی ہونے کا کیا مطلب ہے؟

۲۔مکتب حقوق طبیعی

جو افراد فلسفہ حقوق سے آشنا ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ فلسفہ حقوق کے مکاتب میں سے ایک ”حقوق طبیعی“ ہے، گذشتہ زمانہ اور جب سے تاریخ فلسفہ مدون ہوئی ہے کچھ لوگوں نے اس موضوع سے متعلق بحث کی ہے۔

یونان کے بعض قدیم فلاسفہ معتقد تھے کھ:انسان حقوق رکھتے ہیں جن کو طبیعت نے ان کو دیئے ہیں انسان کی طبعیت میں حقوق وضع کئے گئے ہیں اور کوئی شخص ان حقوق کو ان سے سلب نہیں کر سکتا، اس لئے کہ انسانی طبیعت نے افراد کیلئے ان حقوق کا ایجاب کرلیا ہے اور اسی بنیاد پر وہ نتیجہ گیری کرتے ہیں اور ظاہراً یہ نتائج ایک دوسرے کے سازگار نہیں ہوتے اور یھیں سے فلسفہ حقوق و اخلاق کے باب میں ایک معروف مغالطہ ایجاد ہوا جسکو ”مغالطہ طبیعت گرایانھ“ کھا جاتا ہے، کیونکہ کچھ افراد کھتے ہیں کہ انسان متعدد طبیعتیں رکھتا ہے مثال کے طور پر سفید گورے انسانوں کی ایک طبیعت ہوتی ہے اور کالے انسانوں کی دوسری طبعیت ہوتی ہے، کالے انسان جسم کے اعتبار سے گورے انسانوں سے زیادہ طاقتور اور فکری اعتبار سے ضعیف (کمزور) ہوتے ہیں ، اسی طرح کا نظریہ ارسطو کا بھی نقل ہوا ہے (یہ غلط فہمی نہ ہوجائے کہ حقیر ان نظریات کو تسلیم نہیں کرتا ہوں اور فقط نقل کرتا ہوں ) جب کالے انسان بدن کے اعتبار سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں تو ان کو صرف بدنی کام انجام دینا چاہیے؟! اور گورے افراد فکری اعتبار سے زیادہ قوی ہیں تو معاشرہ کے تمام اداری کام ان کے حوالہ کردینے چاہییں ، نتیجتاً بعض انسان دوسرے انسانوں کی خدمت کیلئے پیدا ہوئے ہیں اسی وجہ سے غلامی ایک ”طبیعی“ قانون ہے، ہم ابھی اس بحث کو چھیڑنا نہیں چاہتے کہ کیا کالے انسانوں کی طبیعت اس چیز کا تقاضا کرتی ہے یا نھیں ؟ یہ خود ایک مفصل بحث ہے اور اس کے لئے بہت زیادہ وقت درکار ہے۔

بہرحال طول تاریخ میں حقوق طبیعی کے باب میں سب سے زیادہ عاقلانہ، معتدل اور سالم مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر کوئی چیز انسانوں کی طبیعت کلی کی مقتضی ہوتی ہے تو وہ متحقق ہوتی، انسان کو اس طرح کی طبیعت کلی کے اقتضا سے محروم نہیں کرنا چاہیے، یھاں تک تو مطلب کچھ قابل تسلیم ہے لیکن اس کے قطعی اثبات کے لئے استدلال کی ضرورت ہے کہ کیوں جو چیز انسان کی طبیعت کے متقاضی ہے اس کو بجالایا جائے اور انسان کو اس سے محروم نہ رکھا جائے؟ یہ بہر حال اس مطلب کے اصل مشترک کے عنوان سے تسلیم کیا گیا ہے۔ہمارا بھی یھی عقیدہ ہے کہ جو انسان کی طبیعت کی اقتضا کرتی ہے اور طبیعی طور پر وہ تمام انسان تقاضہ کے اعتبار سے مشترک ہےں تو انسان کو اس طرح کی ضروتوں سے محروم نہیں کرنا چاہیے اس مطلب کی تائید میں عقلی استدلال بھی موجود ہیں جن کو ہم فعلی طور پر بیان نہیں کرنا چاہتے ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ ان ضروتوں کے مصادیق کیا ہیں ؟انسان کی طبیعت کو کھانے کی ضرورت ہوتی ہے اور تمام انسانوں کو غذا کی ضرورت ہے اس بنا پر کسی انسان کو کھانا کھانے محروم نہیں کرنا چاہیے یعنی نہ اسکی زبان کاٹی جائے یا اسکو کوئی ایسی دوا کھلادی جائے جس کی وجہ سے وہ بات کرنے سے محروم ہو جائے اور یا اسی طرح کے دوسرے امور، لیکن اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ اس طرح کے مطالب بیان کرنے کے خاص اہداف ہوتے ہیں ۔

۳ ۔یورپ میں حقوق بشر کی حدود

آپ حضرات جانتے ہیں کہ اس عصر (دور) کے آخر میں عالمی پیمانہ پر حقوق بشر کے عنوان سے ایک مسئلہ کا اعلان کیا گیا، شروع میں اس اعلان کی چھیالیس ملکوں کے نمائندوں نے تائید کی اس کے بعد آھستہ آھستہ دوسرے ممالک بھی ان سے ملحق ہوگئے اور نتیجتاً وہ اعلان عالمی اعلان کی صورت میں بدل گیا، اس اعلان میں انسانوں کیلئے حقوق بیان کئے گئے، منجملہ یہ حقوق کہ آزادی بیان، مکان منتخب کرنے کی آزادی، شغل اختیار کرنے کی آزادی، مذہب انتخاب کرنے کی آزادی اور ہمسر انتخاب کرنے کی آزادی ہے۔

یہ حقوق (جن کیلئے اس اعلان میں استدلال بھی نہیں کی گیا) کھاں سے وجود میں آئے اور کس طرح تمام انسانوں کے حقوق کے عنوان سے بیان کئے گئے اسکا مفصل ایک تاریخچہ ہے، فلسفہ حقوق سے آشنا حقوق دانوں کو (خاص طور سے مسلمان حقوقدان) کی طرف سے اس اعلان میں بہت سی بحثیں بیان کی گئی ہیں ، منجملہ یہ بحث کہ !وہ فلسفی مطالب جن کو تم انسانوں کے حقوق کے عنوان سے بیان کرتے ہو اور ان کو مطلق جانتے ہو اور تمھارا یہ عقیدہ ہے کہ ان کو کسی کو محدود کرنے کا حق نہیں وہ کیا ہیں ؟ اور ان کیلئے کون سا استدلال پایا جاتا ہے؟

کیا ان کی مشخص و معین کرنے کی کوئی حد ہے یا نھیں ؟ اور کیا یہ حقوق مطلق طور پریہ حقوق قانون سے بلند درجہ رکھتے ہیں اور کسی قانون کو ان حقوق کو محدود کرنے کی اجازت نھیں ؟ کیا کوئی قانون آزادی بیان کی حدود کو معین کرنے کی اجازت نہیں رکھتا؟ کیا کسی قانون کو انتخاب ہمسر کو محدود کرنے کی اجازت نھیں ؟ کیا کوئی قانون ایسا نہیں ہے جو یہ بیان کر سکے کہ تم کو اپنی مملکت کی حدود سے باہر مسکن کو انتخاب کرنے کا حق نہیں ہے؟ کیا کسی قانون کو ان حقوق کی حدود کو مشخص و معین کرنے کی اجازت نہیں ہے؟

جب ہم یہ کھتے ہیں کہ فلاں مطلب طبیعی حق ہے اور انسان کی طبیعت کے متقاضی ہے اور بالفرض اس پر عقلی استدلال بھی موجود ہو تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان حقوق کی کوئی حد نہیں ہے؟اگر حدبندی ہے تو کون اس حدبندی کو کون معین ومشخص کرتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ خود اعلان کو لکھنے والے اور اکثر اس اعلان کی تفسیر کرنے والے (جہاں تک حقیر کی اطلاع میں ہے) بھی ان سوالوں کا صحیح جواب دینے سے کتراتے نظر آتے ہیں ۔

آخر کار یہ کہ آزادی قانون سے بلند و بالا ہے اس سے مراد کیا ہے؟ کیا کچھ ایسی آزادیاں بھی ہیں جن کو محدود کرنے کا کسی قانون کو حق نھیں ؟ کیا ہم یہ سوال نہیں کر سکتے کہ ان آزادیوں کی حد کھاں تک ہے؟ کیا آزادی بیان کا یہ مطلب ہے کہ ہر شخص جو کچھ اسکا دل کھے وہ سب کھہ ڈالے؟! ہم تو یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ کوئی ملک ایسی اجازت نہیں دیتا اور آزادی بیان کیلئے حدبندی کا قائل ہوتا ہے، مثال کے طور پر باشخصیت افراد کی توہین کرنا دنیا میں کھیں بھی جائز نہیں ہے۔

۴ ۔آزادی کی حدبندی میں تعارض کا ظاہر ہونا

اب یہ سوال در پیش ہے کہ آزادیوں کی حدبندی کھاں تک ہے اور کون اس کو معین کرتا ہے؟ اس کا مجمل جواب یہ ہے کہ جب یہ کھا جاتا ہے کہ آزادی قانون سے بلندو بالا ہے اور اس کو محدود نہیں ہونا چاہیے اس سے مراد شرعی آزادیاں ہیں ، کچھ افراد کھتے ہیں کہ مشروع اور معقول آزادیاں اور کچھ دوسرے افراد نے دوسری قید کا اضافہ کیا ہے، حقوق بشر کے اعلان میں اس کو ”اخلاقی“ سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی اخلاقی موازنہ کے ساتھ حقوق کی رعایت کرنا اور کم وبیش یہ ایک مبہم معنی رکھتاہے اور مشروع قانون سے ان کی مراد یہ نہیں ہے کہ دین اسلام جیسی شریعت نے اس قانون کو جائز قرار دیا ہو، اگرچہ لغت کے اعتبار سے ریشہ مشروع اور شریعت ایک ہے لیکن حقوق و سیاست کے بارے میں مشروع سے مراد وہ قانون ہے جسکو حکومت معتبر جانتی ہو نہ یہ کہ ہر حال میں شریعت نے ہی اس کو اجازت دی ہو، بعض متدین افراد کو یہ مطلب شک و شبہ میں نہ ڈال دے کہ جب ہم یہ کھتے ہیں کہ مشروع حقوق یا مشروع آزادیاں تو ان کو شریعت اسلام نے مشخص و معین کیا ہے، مشروع سے ان کی مراد وہ حقوق ہیں جو معتبر اور قانونی ہیں ، اور نامشروع سے مراد دوسروں کے حقوق سے تجاوز کرنا ہے۔

لیکن یہ سوال در پیش ہے کہ کونسے حقوق مشروع اور معقول ہیں اور کونسے نامشروع اور نامعقول ہیں ؟ اور کس شخص کو انہیں معین و مشخص کرنا چاہیے؟ ان کے پاس اس جواب کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ آزادی سے مربوط جزئیات اور حدود کو قانون معین و مشخص کرتا ہے اور یھیں سے سب سے پہلے تناقض اور تعارض کا آغاز ہوتا ہے کھ: ایک طرف تو وہ یہ کھتے ہیں کہ یہ حقوق اور آزادیاں قانون سے زیادہ اونچا درجہ رکھتی ہےں اور کوئی قانون ان کو محدود نہیں کرسکتا ہے، لیکن جب ہم ان سے کھتے ہیں کہ یہ آزادی مطلق ہے یا محدود؟ تو وہ جواب میں کھتے ہیں کھ: مطلق آزادی نہیں ہے چونکہ وہ صحیح جواب نہیں دے سکتے اس لئے کھتے ہیں کہ ہماری مراد مشروع آزادیاں ہیں ۔

جب ہم ان سے کھتے ہیں کہ مشروع سے کیا مراد ہے؟ تو جواب دیتے ہیں کہ جس چیز کو قانون نے تصویب کر دیا ہو، یعنی قانون آزادی کی حدبندی کو مشخص و معین کرتا ہے،اور ابھی تو تم نے تو یہ کھا تھا کہ یہ آزادیاں قانون سے بلند و بالا ہیں ۔

ممکن ہے آپ اس کا یہ جواب دیں کہ مشروع اور معقول آزادیوں سے تمام انسان اور عقلائے عالم واقف ہیں ، ہم ان سے کھتے ہیں کہ جس مطلب کو تمام انسان اور عقلائے عالم جانتے ہوں تو پھر بحث ہی ختم ہو جاتی ہے، چونکہ ہم اور تمام مسلمان انہیں میں شمار کیے جاتے ہیں ، اور دنیا میں تقریباً ایک میلیارد اور چند لاکہ مسلمان ہیں اور عقلا ء بھی انہیں میں شامل ہیں ، اور سب یہ کھہ سکتے ہیں کہ اسلام میں کس قسم کی آزادیوں کو قبول کیا گیا ہے اور وہ کس قسم کی آزادیوں کو قبول کرتے ہیں اور کس قسم کی آزادیوں کو رد کرتے ہیں ، ہماری تمام معلومات اور مطالعات کے مطابق ابھی تک یہ سوال بلا جواب ہے اور فلاسفہ حقوق کے پاس اس کا کوئی قطعی جواب نہیں ہے کہ آزادیوں کو کونسی چیز محدود کرتی ہے؟

۵۔حقوق بشر میں آزادی کی اہمیت

حقوق بشر کے اعلان کی شرح کرنیوالوں اور فلاسفہ حقوق نے اپنی فلسفہ کی کتابوں میں آزادی کی حدبندی کے بارے میں مندرجہ ذیل چیزیں لکھی ہیں :

۱۔جس چیز کو فردی آزادیوں کو محدود کرنے کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے وہ دوسروں کی آزادی ہے، یعنی ہر فرد وہاں تک آزاد ہے جہاں تک وہ دوسروں کا مزاحم نہ ہو اور دوسروں کے حقوق سے تجاوز نہ کرے، فلاسفہ حقوق نے اس موضوع کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور اس کے بارے میں بہت زیادہ پافشاری کی ہے اور حقیقت میں حقوق بشر کے اعلان میں جو یورپ کے فلاسفہ حقوق کی انجیل کے مانند ہے اس چیز پر بہت زیادہ تاکید کی ہے کہ ہر انسان وہاں تک آزاد ہے جہاں تک وہ دوسروں کا مزاحم نہ ہوتا ہو، لیکن اگر فردی آزادی سے دوسروں کو زحمت ہوتی ہو وہ اس طرح کی آزادی سے محروم ہوگا اور یھیں پر آزادی محدود ہوجاتی ہے۔

یھاں پر بہت سے سوال پیش آتے ہیں : پہلاسوال: تم دوسروں کی مزاحمت کرنے کو کن مقولوں سے تعبیر کرتے ہو؟ کیا یہ مزاحمت صرف امور مادی میں ہے یا امور معنوی کو بھی شامل ہوتی ہے؟ کیا لوگوں کے دینی مقدسات کی مخالفت کرنا ان کی آزادی کی مخالفت کرنا ہے یا نھیں ؟ یورپی لیبرال کا نظریہ کھتا ہے کہ آزادیوں کی حدبندی معنوی ادوار کو شامل نہیں ہوتی اور امور معنوی کی مخالفت آزادی کو محدود نہیں کرتی۔

لھٰذا جب یہ کھا جاتا ہے کہ دین اسلام خدا وپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مقدسات اسلام کی اہانت کرنے والے کو مرتد سمجھتا ہے، مثال کے طور پر اسلام، سلمان رشدی کو مقدسات اسلام کی اہانت کرنے کی وجہ سے واجب القتل سمجھتا ہے تو وہ اس چیز کو تسلیم کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں اور کھتے ہیں کہ بیان آزاد ہے، وہ محقق ہے جو چاہے لکہ سکتا ہے، تم بھی جو چاہو وہ لکھو! تو ہمارا ان سے یہ سوال ہے کہ اس کتاب کے مطالب سے دوسروں کی مقدسات کی اہانت ہوتی ہے؟ تو حقیقت میں وہ یہ نہیں کھہ سکتے کہ توہین آمیز نہیں ہے۔

کیا آزادی بیان اتنا وسیع ہے کہ ایک شخص دنیا کے اس کونہ سے ایک میلیارد سے زیادہ مسلمانوں کی مقدس شخصیت پیغمبر جنکو مسلمان اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتے ہیں اور اپنے ھزاروں عزیزوں کو آپ پر فدا کرنے کیلئے تیار ہیں ان کی شان میں گستاخی کرے؟ کیا اس کام کو آزادی بیان کھا جاتا ہے؟ اور یہ وہی مطلب ہے جس کو تمام لوگ درک کرتے ہیں ؟ کونسی عقل، منطق استدلال اور شریعت اجازت دیتی ہے کہ ایک انسان دوسرے ایک میلیارد مسلمانوں کی مقدس شخصیت کی شان میں گستاخی کرے؟ اگر حقوق بشر کے اعلان میں آزادی بشر سے یھی چیز مراد ہے تو ہم بغیر کسی چون و چرا کے آرام کے ساتھ ایسے اعلان کو تسلیم نہیں کرتے۔

۶۔یورپ میں آزادی کی حدبندی پر اعتراضات

جو افراد اس اعلان کو معتبر سمجھتے ہیں اور اس کا انجیل کی حد تک احترام کرتے ہیں ان سے ہمارا بنیادی سوال یہ ہے کہ اعلان کیسے معتبر ہوتا ہے؟ کیا تمھارے پاس کوئی عقلی دلیل ہے؟ اس صورت میں تم کو اس پر عقل سے بھی استدلال کرنا چاہیے، بڑے آرام سے یہ نہیں کھا جاسکتا کہ ”آزادی قانون سے بلند درجہ رکھتی ہے اور اس کو محدود نہیں کیا جا سکتا ہے“ اگر تم یہ کھتے ہو کہ اس کا اعتبار اس وجہ سے ہے کہ ممالک کے نمائندوں نے اس اعلان پر دستخط کر دئیے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اعتبار دستخط کا تابع ہے، اب جن ممالک نے اس اعلان پر دستخط نہیں کئے ہیں یا کسی شرط کے ماتحت دستخط کئے ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا وہ بھی بغیر کسی چون وچرا کے اس کی اتباع کر سکتے ہیں ؟

ھر معاشرہ ثقافت، مقدس چیزیں اور خاص احکام رکھتا ہے اور اسی حقوق بشر کے اعلان کے ایک حصہ میں آیا ہے کہ ہر شخص اپنا مذہب منتخب کرنے میں آزاد ہے اور جب انسان کسی مذہب کا انتخاب کرلیتا ہے تو اس کو اسکے احکام پر عمل کرنا چاہیے کسی مذہب کے منتخب کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ صرف زبان پر جاری کر لیا جائے بلکہ انسان کو عمل کرنے میں بھی آزادانہ طور پر اپنے مذہب پر عمل کرناچاہئے۔

اب ہم نے بھی اسلام کو آزادانہ طور پر منتخب کیا ہے، اسلام کا بھی فرمان ہے کہ جو شخص بھی اولیا اسلام کی اہانت کرے گا اسکی سزا موت ہے، یورپی ثقافت کھتی ہے کہ اسلام کا یہ حکم حقوق بشر کے خلاف ہے انسانوں کے طبیعی حقوق کے بر خلاف ہے، اس لئے ہر انسان اپنی طبیعت کے اقتضا کے مطابق جو کچھ چاہے کھنے کا حق رکھتا ہے! نتیجہ کے طور پر حقوق بشر کے اعلان میں جو یہ دو مطلب آئے ہیں یہ ایک دوسرے کے معارض ہیں ۔

ہم اپنی پہلی بحث کی طرف پلٹتے ہیں کہ ہر شخص جو چاہے وہ کھنے کا حق رکھتا ہے اس مطلب پر کونسی دلیل ہے؟ تو تم اپنے ملک میں ہر شخص کو جو کچھ وہ کہنا چاہے اسکی اجازت کیوں نہیں دیتے ہو؟ اگر کوئی شخص تھمت لگاتا ہے تو عدالت میں اسکی کیوں شکایت کرتے ہو، اور جب وہ یہ کھتا ہے کہ ”آزادی بیان“ ہے اور جو میں نے چاہا وہ کھا ہے تو کس دلیل کی بنا پر اس سے یہ کھتے ہو کہ اس طرح کی باتیں مت کرو؟ معلوم ہوتا ہے کہ مطلق آزادی بیان نہیں ہے اور بعض مطالب کو بیان نہیں کرنا چاہیے، اس مطلب کو دنیا کے تمام انسان تسلیم کرتے ہیں کہ مطلق آزادی نہیں ہے ورنہ انسانیت اور معاشرہ باقی نہ رہتا جس میں کوئی قانون حاکم اور حقوق کی رعایت ہوتی۔

نتیجہ کے طور پر کوئی شخص مطلق آزادی کو تسلیم نہیں کرتا، لیکن سوال یہ ہے کہ اسکی حد کھاں تک ہے؟ آزادی بیان کو نمونہ کے طور پر بیان کیا گیا اور ہم نے عرض کیا کہ آزادی کو لامحدود نہیں کھہ سکتے اور ایسا کسی شخص نے بھی نہیں کھا ہے اور عملی طور پر کوئی مملکت اس بات کو تسلیم نہیں کرسکتی کہ ہر انسان کا جو دل چاہے وہ بیان کرے اور لکھے اگرچہ وہ تھمت و افترا ہی کیوں نہ ہو اور دوسرے لوگوں کی گمراہی کا سبب ہو، قومی امنیت کے برخلاف ہو۔

اگر گفتگو کرنا آزاد ہے تو ہم بھی گفتگو کرتے ہیں ، اگر وہ ہم کو اجازت دیں تو ہم بھی ان سے ایک سوال کرتے ہیں ، اور حقوق بشر کا اعلان لکھنے والوں کی خدمت میں مودبانہ زانوئے ادب تھہ کریں اور ان کے سامنے اپنا سوال بیان کریں ، ہمارا ان سے سوال یہ ہے کہ کس دلیل کی بنیاد پر انسان آزاد ہے کہ وہ جو چاہے کھے؟ اگر آزادی مطلق ہے تو تم خود کیوں تسلیم نہیں کرتے ہو؟ تھمت لگانے اور افترا باندھنے اور اہانت کرنے کو کیا تم خود بھی تسلیم کرتے ہو کہ آزادی مطلق ہے؟

نتیجتاً تم نے یہ تسلیم کرلیا کہ آزادی محدود ہے، لیکن وہ کھاں تک محدود ہے؟ جہاں تک تمھارا دل چاہے وہاں تک محدود ہے؟جب تم یہ کھتے ہو کہ دوسروں کی آزادی کا مزاحم نہیں ہونا چاہیے تو ہمارا تم سے سوال یہ ہے کہ تم دوسروں کی آزادی کو کس حد تک معتبر سمجھتے ہو؟ کیا آزادی کی حد بندی یہ ہے کہ جہاں تک دوسروں کا جانی مالی اور ان کی حیثیت کا نقصان نہ ہوتا ہو؟ کیاو روح، حیات معنوی، افکار اور ان کی مقدس آرزوں پر صدمات وارد ہوتے ہیں وہ ممنوع ہیں یا نھیں ؟ اگر ممنوع ہیں تو ہمارا بھی یھی نظریہ ہے، ہم بھی یھی کھتے ہیں کہ آزادی بیان حدبندی رکھتی ہے، مقدس چیزوں کی اہانت نہیں کرنا چاہیے چوں کہ یہ دوسروں کے حق سے تجاوز کرنا ہے۔

۷۔مادی اور معنوی مصالح پر قانون اسلام کی توجہ

اب اس بحث کو برقرار رکھنے میں یہ سوال پیش آتا ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے آزادی کی اساس و بنیاد کیا ہے اور اس کی حد بندی کیا ہے؟ قانون کیلئے پہلے بیان کی گئی خصوصیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے معاشرہ میں اجتماعی زندگی کے اہداف و مقاصد اور مادی و معنوی مصالح کی ضرورت کو پورا کرنے کی خاطر قانون کا موجود ہونا ضروری ہے، اگر اجتماعی زندگی نہ ہو تو افراد کے مادی اور معنوی مصالح پورے نہیں ہوسکیں گے، اجتماعی زندگی کے ماتحت انسان اس چیز کا منتظر رہتا ہے کہ وہ خدا دادی نعمتیں جیسے علوم، ٹیکنالوجی اور صنعتوں سے بھی اور معارف و کمالات روحی کے بلند پایہ کے استادوں سے بھی کما حقہ استفادہ کرےگا، ان معارف و علوم کا صرف اجتماعی زندگی میں ہی حاصل کرنا میسر ہے۔

نتیجتاً قانون ایسا ہونا چاہیے جو انسانی رشد کی مادی اور معنوی جھتوں میں ضمانت لے قانون کا صرف معاشرہ میں نظم برقرار کرنا ہی کافی نہیں ہے، مثال کے طور پر اگر دو افراد یہ طے کریں کہ وہ دوسروں کو کوئی نقصان پہونچانے اور معاشرہ کے نظم میں خلل ڈالے بغیر ایک دوسرے کو قتل کر ڈالیں گے تو کیا وہ یہ صحیح کام انجام دیں گے؟

اگر آپ حضرات کو یاد ہو تو کچھ دن پہلے امریکہ کے ایک شہر میں انسانوں کے ایک گروہ کو جلا دیا گیااور یہ اعلان کردیا گیا کہ یہ وہ افراد تھے جو اپنے رسم و رواج میں خودکشی کو کمال سمجھتے تھے! البتہ ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ممکن ہے خود امریکا کی حکومت کے ممبران نے جب ان افراد کو اپنے نظام کے مخالف دیکھاہو، تو سب کو نیست و نابود کردیا ہو، فرض کر لیجئے کہ اس گروہ نے اپنے مذہبی عقیدہ کے مطابق اس فعل کو انجام دیا تو کیا ان کا ایسا کرنا صحیح ہے؟ کیا یہ کھا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کسی کو کوئی اذیت نہیں دی اور خود ایک دوسرے سے موافقت کر کے ایک دوسرے کو قتل کردیا تو انھوں نے یہ صحیح کام انجام دیا ہے؟ کیا حکومت کو ایسے قانون کی اجازت دیدینی چاہیے؟ کیا قانون کو ایسی اجازت دیدینی چاہیے یا نھیں ؟ اگر نظم اور امنیت کی رعایت کرنا ہی صرف ملاک ہے تو یہ نظم و امنیت تو کچھ افراد کے ایک ساتھ قتل کردینے سے بھی باقی رہتی ہے! اور قانون دوسرا کوئی اور وظیفہ نہیں رکھتا۔

لیبرل نظریہ میں حکومت کا وظیفہ صرف نظم وامن برقرار کرنا ہے اور قانون کا کام ہر ج و مرج کو روکنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، اس طرز تفکر کا نتیجہ وہی چیز ہے جسکا یورپی ممالک میں مشاہد کیا جاتا ہے جیسے اخلاقی، جنسی، اور اجتماعی فساد وغیرہ یہ تمام مسائل ان کے اس قول کا نتیجہ نہیں کھ: حکومت کو افراد کے حقوق اور ان کی زندگی میں دخالت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور حکومت کو تو صرف نظم برقرار رکھنا چاہیے، حکومت کو تو صرف مسلح پولیس کی طرح اسکولوں میں رہنا چاہیے تاکہ بچے ایک دوسرے کو یا اپنے استادوں کو قتل نہ کردیں ، وہاں پر برقراری نظم و امنیت اسی حد تک ہے کیا قانون کا وظیفہ صرف یھی ہے؟ یا دوسرے وظایف جسیے انسانوں کے اندر رشدونموکرنابھی قانون کی ذمہ داری ہے؟ اور کیا قانون کو اخلاقی برائیوں سے بھی روکنا چاہیے؟

جو کچھ ہم نے بیان کیا اس کا نتیجہ کھ: قانون کو مصالح معنوی کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے، اس بنا پر جو کچھ انسانوں کے معنوی مصالح اور ان کی شخصیت، روح الٰھی، مقام خلیفہ الٰھی اور انسانیت کیلئے مزاحمت ایجاد کرتا ہے اور اسی طرح جو مصالح مادی اور انسانوں کی امنیت اور سلامتی کو ضرر پہونچاتا ہے وہ بھی ممنوع ہونا چاہیے، کیا اجتماع اسلئے نہیں ہوتا کہ انسان اپنی انسانیت کی وجہ سے رشد کرے اور صرف اپنے حیوانی مقاصد ہی نہیں بلکہ انسانی مقاصد کو بھی حاصل کرے؟ تو قانون مصالح مادی اور معنوی دونوں کا متکفل ہونا چاہیے، لھٰذا کسی کی حیثیت، کرامت اور لوگوں کی مذہبی مقدس گاہوں سے معارضہ کرنا یہ انسانوں کی روحی اور معنوی رشد ونموکو روکتا ہے یہ بھی ممنوع ہونا چاہیے، جس طرح سے مواد مخدر کا رائج کرنا یا زھریلی دوا کا انجکشن لگانا منع ہے اس لئے کہ وہ انسان کو بیمار کرتا ہے اور ھستی سے ساقط کردیتا ہے، اور اس کے مصالح مادی کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے۔

اب اگر کوئی اس زھر کا عادی ہوجائے اور اسکے حیوانی افعال میں کوئی خلل ایجاد نہ ہو اور وہ ظاہراً صحیح و سالم ہو لیکن اس کا فہم و شعور ختم ہوگیا ہو تو کیا یہ اس کیلئے جائز ہو جائےگا؟اور اگر دوسری طرح کی آفتیں اور زھر اپنا کام کر جائے جو اس کی سلامت معنوی اور ایمان کے ختم ہوجانے کا باعث ہوجائے تو کیا ان امور کا انجام دینا ممنوع نھیں ھے؟ کیا یہ انسان کی انسانیت کو ضرر پہونچانا نہیں ہے؟ اگر کچھ افراد معاشرہ میں ایسی شرطیں فراہم کریں جو لوگوں کو دینداری سے دور کریں تو ان کو آزاد ہونا چاہیے؟ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے کھ:

( صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّه وَ کُفْرٌ بِه وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ... ) (۱)

”اور (یہ بھی یاد رہے) کہ خداکی راہ سے روکنا اور خدا سے انکار او رمسجد حرام (کعبہ) سے روکنا(اس سے بڑہ کر گناہ ہے)“

جو چیز خداوندعالم کی راہ، ترقی اور انسانوں کے حقائق دین سے آشنا ہونے کے راستہ کو بند کردے اور دین کو جوانوں کے نزدیک مشتبہ جلوہ دینے کا باعث ہوتا ہے وہ منع ہے چونکہ وہ انسان کی انسانیت کو ضرر پہونچاتا ہے، کیسے جو چیز انسان کی حیوانیت کو لطمہ پہونچاتی ہے تو وہ ممنوع ہوتی ہے لیکن جو چیز انسان کی انسانیت کو ضرر پہونچائے وہ آزاد ہوتی ہے؟ دنیا کھتی ہے: ھاں ، لیکن دین کھتا ہے کھ: نھیں ، ہمار ا یہ عقیدہ ہے کہ معاشرہ میں اس قانون کا اجرا ہونا چاہیے جو انسانوں کی مصالح معنوی کی رعایت کرے اور مصالح معنوی کی رعایت کرنا مصالح مادی سے زیادہ اہم ہے۔(قارئین کرام اس بات کا خیال رکھیں کہ جو کچھ ہم نے بیان کیا اس کا علمی بحث سے تعلق ہے اور ممکن ہے اس کا عینی مصداق نہ مل سکے لھٰذا اس کا مطلب یہ نہ سمجہ لیں کہ ہم نے اقتصاد کو بالائے طاق رکہ دیا ہے۔)

۸ ۔مصالح معنوی اور دینی کا مصالح مادی پر مقدم ہونا

اگر کوئی ایسا موقع آجائے کہ ہماری اقتصادی حالت تو اچھی ہوتی ہو لیکن ہمارے دین پر آنچ آتی ہو یا دینی حالت توسدھرتی ہو لیکن اقتصاد ی حالت پر آنچ آتی ہو تو ہم کو دونوں میں سے کونسی چیز انتخاب کرنی چاہیے؟ ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ اسلام کی پیشرفت اقتصادی پیشرفت کی بھی ضامن ہے، مگر ایک طولانی عرصے کے بعد، لیکن کبھی یہ امکان ہے کہ اقتصادی منافع کچھ تھوڑی مدت تک کیلئے ختم ہوجائیں اور افراد کیلئے کچھ تنگی کا باعث ہوجائے، اب اگر اس طرح کی وضعیت پیش آجائے تو بیان کئے گئے مقدمات اور استدلال کو مدنظر رکھتے ہوئے مصلحت دینی کو مقدم ہونا چاہیے یا دنیوی کو مقدم کرنا چاہیے؟ جیسا کہ نھج البلاغہ میں امام حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:

”فان عرض بلاء فقدم مالک دون نفسک فان تجاوز البلاء فقدم مالک و نفسک دون دینک .“ (۲ )

”اگر تمھاری جان خطرہ میں پڑ جائے تو تم اپنے مال کو اپنی جان پر فدا کردو اگر جان ومال کے درمیان خطرہ ہو تو مال کو قربان کردو لیکن اگر جان اور دین کے درمیان خطرہ ہے یعنی زندگی کفر کی حالت میں ہو اور ایمان کی حالت میں شھادت ہو تو پھر اپنی جان ومال کو دین پر قربان کردینا چاہئے، اس موقع پر اگر انسان قتل ہوجائے تو اس کا کوئی نقصان نہیں ہوگا“

کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( قُلْ هَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَا إِلاَّ إِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ. ) (۳)

”(اے رسول) تم منافقوں سے کھہ دو کہ تم تو ہمارے لئے (فتح یاشھادت)دو بھلائیوں میں سے ایک کے (خواہ مخواہ) منتظر ہی ہو“

جو شخص دین اسلام کی راہ میں قتل ہوجائے اس کا کیا نقصان ہوتا ہے؟ وہ سیدھا جنت میں جائےگا، لیکن بالفرض اگر کوئی شخص بے دین سو سال تک زندہ رہے تو دن بہ دن اسکے عذاب میں زیادتی ہونے کے علاوہ اس کا اور کیا فائدہ ہوگا؟، پس اسلامی نقطہ نظر سے مصالح دینی اورمعنوی مصالح مادی سے اہم ہیں ،اس بنا پر قانون کو مصالح معنوی کی رعایت کے علاوہ مصالح معنوی کو اولویت بھی دینا چاہیے، ہماری بحث استدلالی ہے اور ہم اپنے استدلال کو کسی دوسرے پر نہیں چھوڑدیتے ہیں جو افرادتسلیم نہیں کرنا چاہتے وہ رد کر سکتے ہیں ، ان استدلالوں کی بنیاد پر ہم نے کوئی غیر منطقی مطلب بیان نہیں کیا۔

۹ ۔اسلام اورلیبرالیزم کے مابین آزادی اور قید میں فرق

ساری دنیا کے تمام عقلا کے مانند ہماری نگاہ میں بھی آزادی محدود ہے، لیکن ان کے اور ہمارے مابین یہ فرق ہے کہ ان کے یھاں آزادی کے مقید ہونے کا یہ مطلب دوسروں کی آزادی سے تجاوز کرنا ہے اور ہمارے یھاں آزادی کے محدود ہونے کا مطلب مصالح اجتماعی کی ہر مصلحت سے تجاوز کرنا ہے، انسان اپنی زندگی میں آزاد ہےں وہ بات کریں ، کھائیں ، کام کریں ، تجارت کریں ، اقتصادی حالت درست کریں ، بحث کریں ، سفر کریں ، قرارداد پر دستخظ کریں ، بہ طور خلاصہ انکو ہر کام کرنے کی اجازت ہے لیکن کس حد تک؟ جہاں تک معاشرہ کے مادی اور معنوی مصالح تباہ وبرباد نہ ہوتے ہوں ۔

جہاں آزادی مادی لحاظ سے معاشرہ کے مصالح کو نقصان پہونچانا شروع کردے وہ ممنوع ہے، اور اسی طرح جہاں پر آزادیوں سے استفادہ کرنا معاشرہ کی معنوی مصالح سے معارضہ کرجائے تو ایسی آزادیاں ممنوع ہیں مندرجہ بالا دونوں صورتوں میں آزادی سے استفادہ کرنا منع ہے یہ ہماری دلیل و منطق ہے، اور اگر کسی کے پاس ہم سے بہت ر منطق ہے تو ہم اس کو سننے اور اس سے استفادہ کرنے کیلئے تیار ہیں ، فلسفہ حقوق کے استادوں سے میری گذارش ہے کہ وہ زیادہ دقت سے کام لیں ۔

جہاں تک ہم کو اطلاع ہے آج تک حقوق اور سیاست کے فلاسفہ نے اس سوال کا کوئی قطعی اور منطقی جواب نہیں دیا کہ آزادی کی حد بندی کیا ہے؟ اگر ہمارے اساسی قانون یا عادی قوانین یا بزرگان عالم کے کلمات میں یھاں تک کہ اگر امام خمینی(رہ) قدس سرہ کے کلمات میں اس سے مشابہ کوئی تعبیر موجود ہو تو اسکی تفسیر کی خاطر اسکے اہل سے رجوع کرنا چاہیے، ہم بھی قانون کے جاری ہونے کے طرفدار ہیں اسلامی ملک میں قوانین کی بہ نسبت ہماری ذمہ داری دوسروں سے کھیں زیادہ ہے۔

لیکن ہمارا دوسروں سے یہ فرق ہے کہ ہم قانون کو اس لئے معتبر سمجھتے ہیں کہ ولی فقیہ نے ان پر دستخط کر دئیے ہیں ، اور چونکہ امام خمینی(رہ) قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ ”اسلامی حکومت کی اطاعت کرنا واجب ہے“ کچھ افراد کھتے ہیں کہ: چونکہ لوگوں نے اپنے ووٹ بھی دیئے ہیں ، اب کونسی منطق قوی ہے؟ کسکا اثر زیادہ ہے؟جب کسی شخص سے کھا جائے چونکہ لوگوں نے ووٹ دئے ہیں ، اس لئے اس قانون پر عمل کرنا واجب ہے؟ممکن ہے وہ شخص یہ جواب دے کہ میں نے اس نمائندے کو ووٹ ہی نھیں دیا ہے، یا میں اس قانون سے راضی ہی نہیں ہوں !

لیکن امام خمینی(رہ) قدس سرہ نے فرمایادیا ہے کہ : اگر اسلامی حکومت کوئی حکم صادر کرے اور مجلس شورائے اسلامی کسی حکم کو تصویب کر دے تو وظیفہ شرعی کے عنوان سے اس کی اطاعت کرنا چاہیے؟ اس وقت دیکھیں کیا چیز وقوع پذیر ہوتی ہے، اب ہم قانون کے پابند ہیں یا وہ.؟ یھاں تک کہ اگر کسی اساسی (بنیادی) قانون میں بھی کوئی ابھام پایا جاتا ہو تو اسکی تفسیر کی خاطر کسی صلاحیت دار مرجع کی طرف رجوع کرنا چاہیے کسی اور کی طرف نھیں ۔

پس نتیجہ یہ نکلاکھ: تمام ملتوں اور تمام عقلا ء کے درمیان آزادی محدود ہے، لیکن اسلامی نقطہ نظر سے معاشرہ کی مصالح مادی اور معنوی اسکی حد ہیں ، تمام انسان وہاں تک آزادھیں جہاں تک معاشرہ کے مادی اور معنوی مصالح کو کوئی نقصان نہ پہونچتا ہو۔

حوالہ

.۱سورہ بقرہ ۲۱۷

.۲شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۸ ص۲۵۰

.۳سورہ توبہ ۵۲