اسلام اور سیاست جلد ۱

اسلام اور سیاست 0%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور سیاست

مؤلف: آیة اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 34300
ڈاؤنلوڈ: 2677


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 39 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34300 / ڈاؤنلوڈ: 2677
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد 1

مؤلف:
اردو

سولھواں جلسہ

قانون اورآزادی کے لحاظ سے الہی اوروالحادی ثقافت میں فرق

۱۔ انتخاب کی اہمیت اور ہدف تک پہونچنے کے لئے قوانین کی آگاہی اور رعایت

اسلام کے سیاسی نظریہ کے بارے میں بحث کے دوران مذکورہ نظریہ سے متعلق اصول موضو عہ اور مقدمات تبینکے سلسلے میں بہت سی چیزیں عرض کی، اور اس سلسلہ میں کئے گئے اعتراضات کا جواب بھی دیا، اس وقت بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے مجموعی اعتبار سے اس کا خلاصہ آپ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں :

اسلامی نظریہ کے مطابق ہر موجود متحرک ہے یا دوسرے لفظوں میں ایک ایسے مسافر سے تعبیر کیا جاتا ہے ، جو ایک جگہ سے اپنے سفر شروع کرکے اپنی منزل کی طرف آگے بڑہ رہا ہے (او ریھی آخری منزل اس کی سعادت اور اخروی کمال ہے) زندگی کا طول وعرض ایک ایسے راستے کی طرح ہے کہ اصل مقصد تک پہونچنے کے لئے اس راستہ کاطے کرنا ضروری ہے، اس سلسلہ میں آپ حضرات کے سامنے ایک مثال پیش کرتے ہیں ،تاکہ یہ بات ہمارے جوانوں کے ذہنوں میں اچھی طرح بیٹہ جائے: فرض کریں ایک ڈرائیور کو تھران سے مشھد جاناچاہتا ہے لیکن اگر اس ڈرائیور کے ھاتہ پیر مفلوج ہوجائیں تواس صورت میں یہ ڈرائیور ڈرائیونگ نہیں کرسکتا،یعنی ڈرائیونگ اس صورت میں کرسکتا ہے جب اس کا بدن اور دوسرے اعضاء صحیح وسالم ہوں ، اور ان پر قدرت واختیار رکھتا ہو۔

یعنی جب وہ چاہے گاڑی کودائیں بائیں موڑدے یا ایکسیلیٹر یا بریگ کو دبا سکے، اسی طرح انسان اپنی زندگی کے کمال کو حاصل کرنے وترقی یافتہ بنانے میں بھی آزاد، اختیار،صاحب قدرت ا ورانتحاب کرنے والاہے، ورنہ اس کمال کے راستہ پر گامزن نہیں رہ سکتا، اسی وجہ خدا وندعالم نے انسان کو انتخاب واختیار کی قدرت دی ہے کہ اپنی مرضی سے اس راستہ پر قدم بڑھائے اور منزل مقصود تک پہونچ جائے،او راگر ایسا نہ ہو تو پھر انسان اپنے مقصد تک نہیں پہونچ سکتا، لھٰذا یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر کوئی شخص بغیر سوچے سمجھے اور بغیر اختیار کے اس کمال کے راستہ پر چلے اور مقصد تک پہونچنا چاہے، تو یہ اس کی غلط فہمی ہے، انسان کا آزاد ہونا اور قدرت انتخاب رکھنا ضروری ہے تاکہ اس راستہ کو طے کرسکے۔

انسان جتنا انتخاب میں آزاد ہوتا ہے اتنا ہی اس کا کام ارزشمند ہوتا ہے، لیکن جس طرح ایک صحیح وسالم ڈرائیور ہونے کے باوجود کوئی گارنٹی نہیں ہے وہ منزل مقصود تک پہونچ ہی جائے گا کیونکہ ہوسکتا ہے کہ بھول چوک یا جان بوجہ کر غلط راستہ کا انتخاب کربیٹھے،اور کسی جبر واکراہ کے بغیر اپنے ھاتھوں سے اسٹیرنگ گہماکر اوراپنے پیروں کے ذریعہ اکسیلیٹر کو دبادے اور گاڑی کو کسی کھائی میں گرادے، لھٰذا معلوم یہ ہوا کہ کسی مقصد کے لئے صرف انتخاب واختیار کافی نہیں ہے ، بلکہ علت تامہ کو حاصل کرنے کے لکے یہ شرط بھی ضروری ہے، یعنی ہماری اصطلاح کے لحاظ سے انسان کو سعادت اور کمال تک پہونچنے کے لئے ضروری ہے کہ راہنمائی کی علامتوں اور نشانیوں پر توجہ کرے اور ڈرائیورنگ کے تمام اصولوں کی صحیح رعایت کرے تاکہ اپنی منزل مقصود تک پہونچ سکے۔

اگر کوئی شخص یھاں پر یہ کھے کہ میں جسم وجسمانیت کے اعتبار سے طاقتور بھی ہوں اور صحیح انتخاب کرنے والا بھی ہوں ، لیکن میرا دل یہ چاہتا ہے کہ ڈرائیورنگ کے اصولوں کے خلاف عمل کروں اور کسی کو میرے راستہ میں رکاوٹ پیداکرنے کا حق نہیں ہے، تو ایسی صورت میں اس شخص کو یہ سوچ لینا چاہئے کہ اس کے سفر کا نتیجہ ھلاکت ہے اور اس کا کسی کھائی میں گرنا یقینی ہے،لھٰذا انسان کو صحیح وسالم ہونے کے ساتھ ساتھ راستہ کا علم بھی ضروری ہے اور قوانین کی رعایت کرنا بھی ضروری ہے. ٹریفک قوانین کی دو قسمیں ہیں :

۱۔ کچھ ایسے قوانین ہیں کہ اگر ان کی رعایت نہ ہو تو خود ڈرائیور کو نقصان پہونچے گا،مثال کے طور پر اگر سڑک سے ہٹ کر چلے تو ممکن ہے کہ کسی کھائی میں گر پڑے، یا پل سے نیچے جاگرے،تو اس صورت میں اس کا نقصان خود اس کو یا اس کی گاڑی کو پہونچے گا،ایسے خطروں سے بچانے کے لئے ہوشیار کرنے والے بورڈ لگائے جاتے ہیں مثلاً خطرناک موڑ کا بورڈ، یابائیں طرف ڈرائیورنگ کریں یا رفتار کم کریں وغیرہ، تاکہ ڈرائیور قوانین کے خلاف ڈرائیورنگ نہ کرے اور احتیاط سے کام لیتے ہوئے صحیح وسالم اپنی منزل تک پہونچ جائے۔

۲۔ کچھ ایسے قوانین ہوتے ہیں کہ جن کی خلاف ورزی سے صرف ڈرائیور کو ہی کو نقصان نہیں پہونچتا بلکہ دوسروں کو بھی نقصان پہونچ سکتا ہے اور کبھی کبھی ایسے حادثات رونما ہوتے ہےں کہ سیکڑوں لوگوں کی جانیں چلی جاتی ہیں ۔

کبھی کبھی یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض ”ھائی وے “یا بڑے بڑے چوراہوں پر خصوصاً دوسرے ممالک میں کہ جہاں تیز رفتار سے گاڑی چلانا جائز ہے، بعض خلاف ورزیوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سیکڑوں گاڑیاں ایک دوسرے سے ٹکراجاتی ہیں کہ جن میں بہت سے لوگوں کی جان چلی جاتی ہے،آپ نے اخباروں میں پڑھا ہوگا کہ جرمنی میں ۱۵۰ گاڑیاں آپس میں ٹکراگئیں ، ظاہر ہے کہ ایسے موقعوں پر صرف احتیاط کی رعایت اور ہوشیار ہونے والی نشانیوں پر ہی اکتفا نہیں کی جاتی بلکہ ریڈ لائیٹیں (لال بتّی) یا ہوشیاررہنے والے کی بڑے بڑے بورڈ لگائے جاتے ہیں ،اور بعض جگھوں پر پولیس کو الکٹرونیک آنکھیں اور مختلف ویڈیوکیمرے لگا نے پڑتے ہیں تاکہ خلاف ورزی کرنے والے ڈرائیوروں کو پکڑکر ان کا چالان کرکے سزا دی جاسکے ، خلاف ورزی کا پہلا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے گاڑی سڑک سے نیچے اترجاتی ہے اور الٹ پلٹ ہوجاتی ہے اور ڈرائیور وں کے ھاتہ پیر ٹوٹ جاتے ہیں اور کبھی کبھی مربھی جاتے ہیں ، اس صورت میں ڈرائیور وں کا چالان نہیں کیا جاتا کیونکہ نقصان خود اسی کا ہوا ہے، لیکن اگرخلاف ورزی کے نتیجہ میں کسی دوسرے کو نقصان پہونچا ہے تو پھر پولیس ان کو پکڑکر ان کے خلاف کاروائی کرتی ہے۔

۲۔ اخلاقی اور حقوقی قوانین میں فرق

انسان کی زندگی میں دوطرح کے خطرے لاحق ہیں :

۱۔وہ خطرہ جس کا تعلق صرف ہم سے ہوتا ہے، کہ اگر قوانین کی رعایت نہ کریں تو خود ہم کو نقصان پہونچتا ہے، درحقیقت قوانین کی خلاف ورزی کا نقصان ذاتی اور شخصی ہے، اس موقع پر جو احکام وضع کئے جاتے ہیں او ران پر عمل کرنے کی تاکید ہوتی ہے اصطلاح میں ایسی چیزوں کو قواعد اخلاقی یا قوانین اخلاقی کھا جاتا ہے، مثلاًاگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا یا نعوذ باللہ تنھائی میں دوسرے گناہوں کامرتکب ہوتا ہے کہ کوئی بھی اس کے گناہوں کو نہیں دیکہ پاتا تو ایسی صورت میں خود اس شخص نے اپنے اوپر ظلم کیا ، لھٰذا کسی کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہے او رکوئی نہیں پوچھے گا کہ کیوں آپ نے تنھائی میں ایسا گناہ کیا ہے، ایسے موقعوں پر کسی کو حق بھی نہیں کہ کوئی اس کے کاموں کی تحقیق وجستجو کرے،کیونکہ انسان کے خصوصی کاموں میں تجسس (جاسوسی) کرنا حرام ہے۔

کیونکہ یہ کام خود اس کی ذات سے مربوط ہیں ، اگرچہ اس کواخلاقی نصیحت ضرور کی جاتی ہے، او راس کے بارے میں حکم ہوتا ہے کہ کوئی شخص تنھائی میں گناہ یا گناہ کا تصور بھی نہ کرے، لیکن یہ نصیحتیں ان بورڈوں کی طرح ہیں جو سڑکوں پر ہوشیار اور متوجہ رہنے کے لئے لگائے جاتے ہیں ، مثلاً لکھا جاتا ہے کہ اہستہ چلیں لیکن اس کی خلاف ورزی کرنے پر رفتار بڑہ جاتی ہے او رموڑوغیرہ میں خود ڈرائیور کو نقصان پہونچتا ہے ایسی صورت میں پولیس اس کا پیچھا نہیں کرتی۔

۲۔ وہ خطرہ ہے جس کا تعلق صرف اسی شخصسے متعلق نہیں ہوتا بلکہ اس کا اثر دوسروں تک بھی پہونچتا ہے اس صورت میں ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے کو قوانین حقوقی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یعنی اس خطرے کا اثر اس شخص پر بھی ہوتا ہے اورمعاشرے پر بھی ، نتیجةً یہ قوانین اجرائی اس بات کی ضمانت رکھتے ہیں کہ اگر ان کی خلاف ورزی کی جائے تو خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف قانونی کاروائی ہوسکے، جس طرح ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر اس کے خلاف کاروائی ہوتی ہے، یہ وہ موقع ہے کہ جب اخلاقی قوانین کے مقابلہ میں حقوقی قوانین کی بات آتی ہے ان ہی حقوقی قوانین کے تحت جزائی وکیفری قانون میں آتے ہیں ؛ یعنی یہ دائرہ علم حقوق اور قانون بنانے والے اداروں کے قوانین جن کی اجرائی ضامن حکومت ہوتی ہے ان سے کام پڑتا ہے۔

پس معلوم یہ ہوا کہ اخلاقی اور حقوقی قوانین میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ اخلاقی قوانین میں کوئی بھی شخص ضامن نہیں کہ ان کو عملی جامہ پہنائے، اگر کسی نے ان قوانین کی مخالفت کی تو اس کو سزا دی جائے او راگر کسی کے خلاف کبھی کوئی کاروائی ہوتی بھی ہے تو اخلاقی خلاف ورزی کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ حقوقی پہلو کی وجہ سے ہوتی ہے کہ جو قانون سے متعلق ہے اور اگر کوئی مخصوص شکایت کرنے والا ہے تو حقوقی بمعنی خاص ہوگا ورنہ جزائی وکیفری ہوگا۔

بہرحال جس طرح ایک ڈرائیور اپنی اور مسافروں کی جان کو خطرات سے بچانے کی ذمہ داری رکھتا ہے اسی طرح انسان بھی ایک مسافر کی طرح ہے کہ ایک جگہ سے اپنا راستہ شروع کرتا ہے اور اپنے مقصدتک پہونچنے کے لئے بہت سے خطروں سے روبرو ہوتا ہے ، یہ خطرات کبھی تو خود اسی سے مخصوص ہیں ، کہ جن کے احکام خود اس کی ذات سے مربوط ہیں اور ان کے لئے اخلاقیاتی نصیحتیں موجود ہیں ،لیکن اگر کسی موقع پر کسی دوسرے کے لئے خطرہ ہے یا کسی بھی طرح سے دوسروں کے عقائد کو خراب اور لوگوں کے جان مال او رناموس پر تجاوز کرتا ہے توپھر اس پر حقوقی قوانین جاری ہونگے کہ جن کی ذمہ دار حکومت ہوتی ہے۔

ہم نے جو ڈرائیور کی مثال پیش کی ، کوئی مغرور ڈرائیور کھے کہ ”میں تو آزاد ہوں ، اور قوانین کی مخالفت کرتا ہوں “ تو اگر خود اس کا نقصان ہے تو صرف اس کو نصیحت کی جاتی ہے او رکھا جاتا ہے کہ احتیاط کرو دھیان رکھو ، ورنہ آپ کی جان خطرہ میں ہے، لیکن اگر کسی دوسرے کی جان کا مسئلہ ہو تو پھر اس کو روکا جاتا ہے اور پولیس اس کا پیچھا کرتی ہے اور مختلف طریقوں (راڈار الکٹرونیک آنکھوں یا مختلف ویڈیو کیمرے) سے اس کو تلاش کرتی ہے اور اس کو سزا دیتی ہے، اس موقع پر کوئی نہیں کھتا کہ پولیس کا پیچھا کرنا انسان کی آزادی کے مخالف ہے ، پوری دنیامیں کے عقلمند حضرات اس کو مانتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے لئے خطرہ پیدا کررہا ہے تو اس کے لئے قانون کا ہونا ضروری ہے تاکہ خلاف ورزی کرنے والے کو روکا جاسکے، کیونکہ یہ آزادی مشروع اور قانونی نہیں ،اس آزادی کو عقل تسلیم نہیں کرتی۔

کیونکہ اس سے دوسروں کو خطرہ لاحق ہے ، اس بات کو تمام ہی عقلاء مانتے ہیں ، اور ہم کسی ایسے عقلمند انسان کو نہیں دیکھا کہ جو یہ کھے کہ انسان اپنی زندگی میں اس قدر آزاد ہے کہ جو چاہے کرے یھاں تک اپنی جان کے علاوہ دوسروں کی جان ومال او رعزت کو بھی نقصان پہونچائے، اس بات کو کوئی بھی قبول نہیں کرتا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ قوانین کا ہونا ضروری ہے ، او رمعاشرہ کو بھی چاہئے کہ ان قوانین کو قبول کرے ، اس سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے ،اگر اختلاف ہے تو دین میں ، کہ کیا دین میں اخلاقی قوانین کافی ہیں یا حکومتی قوانین کا بھی ہونا ضروری ہے ؟ اور کیا اس سلسلہ میں کسی اجرائی ضامن کی ضرورت ہے ، یا صرف اخلاقی نصیحتوں پر اکتفاء کی جاسکتی ہے؟

جولوگ کھتے ہیں کہ حکومت ضروری نہیں ہے اور انسان خود ہی اخلاقی نصیحتوں کے ذریعہ تربیت پاسکتاہے، اور اسے حکومت وقانون کی کوئی ضرورت نہیں ،! ہم ان کے جواب میں عرض کرتے ہیں کہ یہ کہنا صحیح نہیں ہے اور انسانی تاریخ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ کوئی معاشرہ صرف اخلاقی نصیحتوں کے ذریعہ ہدف تک نہیں پہونچ سکتا ، لھٰذا قانون وحکومت کا ہونا بہت ضروری ہے۔

۳۔ الہی اور کفر والحادکی ثقافت میں فرق اور قانون کے بارے میں اختلاف نظر

یھاں تک یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قوانین کی ضرورت ہے ، اختلاف یھاں سے شروع ہوتا ہے کہ جو قانون آزادی کو محدود کرتا ہے او رکھتا ہے: ”داہنی طرف چلونہ کہ بائیں طرف،یا اہستہ چلو“ تو اس قانون کو انسان کی آزادی کو محدود کرنے کا کھاں تک حق ہے؟

اس چیز کو سب مانتے ہیں کہ اگر دوسروں کی جان ومال خطرے میں ہو ، تو قانون آزادی کو محدود کردیتا ہے مثلاً اجازت نہیں دیتاکہ کسی پر اسلحہ نکال لو یا کسی کو جان سے مارڈالو، ممکن نہیں ہے کہ قانون کسی کو حق دے کہ کسی کو بغیر دلیل کے قتل کرڈالو !

اب جبکہ یہ مان لیا گیا کہ قانون اس آزادی کو محدود کرتا کہ جو دوسروں کے لئے نقصان دہ ہے، تو اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قانون گذار فقط انسان کی زمانی آزادی کو محدود کرتا ہے کہ دوسرے لوگوں کی مادی منافع کوضرر پہونچائے یا قانون گذاری کے وقت انسان کے معنوی او رروحی منافع کو بھی نظر میں رکھا جائے؟ اصل اختلاف اسی جگہ ہے۔

ہم فرہنگ وثقافت کو دوحصوں میں بانٹ سکتے ہیں : ایک الہی ثقافت کہ جس کا سب سے روشن نمونہ اسلامی ثقافت ہے کہ جس کو ہم مانتے ہیں اور ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ الہی ثقافت دین اسلام سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے آسمانی ادیان میں بھی یہ الٰھی ثقافت پائی جاتی تھی، اگرچہ ان میں تحریفات اور انحرافات پید اہو گئے، اس ثقافت کے مقابلے میں کفر والحاد یا غیر الہی ثقافت رائج ہوئی کہ آج جس کا نمونہ مغربی ممالک ہیں ، البتہ توجہ رہے کہ مغرب سے ہماری مراد صرف جغرافیائی علاقہ نہیں ہے بلکہ اس ثقافت کو مغربی ثقافت کا نام اس وجہ سے دیتے ہیں کہ جو امریکہ اور یورپ میں رائج ہے، اور دوسرے ممالک بھی اس ثقافت کی حمایت کرتے ہیں ، او ران کی تمام تر کوشش اس کود نیا کے مختلف ممالک میں پھیلانا ہے، لھٰذا آسان طریقہ سے سمجہانے کے لئے ثقافت کی دو قسم کرتے ہیں :

اول: الہی اور اسلامی ثقافت ۔

دوم: غربی (الحادی) ثقافت ۔

ہم یھاں پر ان دونوں ثقافتوں کے اہم فرق کو بیان کرتے ہیں :

۴۔ مغربی ثقافت کے تین اہم رکن ہیں

یہ کھا جاسکتا ہے کہ مغربی تمدن وثقافت تشکیل دینے کے لئے تین چیزیں بہت اہم ہیں ، اگرچہ ان کے علاوہ بہت سی دوسری چیزیں بھی ہیں لیکن یہ تین چیزیں اس ثفافت کی جڑ ہیں :

پھلا رکن: ”رومانیزم“ ہے یعنی انسان کی زندگی میں ہر طرح کی خوشی ،چین وسکون ہونا چاہئے او ربس ، لفظ ”اومانیزم“ خدا پرستی اوردین پرستی کے مقالہ میں بولا جاتا ہے، اگرچہ اس سے دوسرے معنی بھی لئے جاتے ہیں کہ جن سے ہماری کوئی بحث نہیں ہے اور اس لفظ کے مشہور معنی یہ ہیں کہ انسان صرف اپنی او راپنی لذتوں اور اپنی خوشی وراحتی کی فکر میں ہو ، اور اگر کوئی خدایا فرشتہ کا وجود ہے بھی تو اس سے کوئی مطلب نہیں ہے. یہ اس نظریہ کے مقابلہ میں نظریہ ایجاد ہوا کہ جو درمیانی صدیوں میں یورپ میں او راس سے پہلے مشرقی زمین میں تھا کہ انسان کی اصل توجہ خدا او رمعنویات پر ہوتی تھیں ۔

یہ نظریہ رکھنے والے کھتے ہیں کہ ان تمام چیزوں کو چھوڑدیا جائے ہم اس زمانے سے تھک چکے ہیں ہمارا کہنا یہ ہے کہ اس زمانے کی کلیساووں کی بحث کے بدلے اصل انسانیت کی طرف پلٹ جائیں اور انسان وطبیعت کے ماورای خصوصا ًخدا کے بارے میں بحث نہ کریں ؛ البتہ یہ بھی ضروری نہیں کہ ان کا انکار کریں لیکن ان سے ہمارا کوئی مطلب بھی نہیں ہے اور ہمارا معیار انسان ہونا ہے۔

اس اصل کو الٰھی ثقافت کے مقابلہ میں رکھا گیا ہے، یہ الٰھی ثقافت کھتی ہے کہ ”سب کچھ اللہ" ہے اور ہماری تمام تفکرات خدائی ہونا چاہئے او رہماری تمام توجہ خدا کی طرف جاکر رکیں ، او راپنی سعادت وکمال کو خدا کے قرب میں تلاش کریں ، کیونکہ تمام ترسعادتوں ، زیبائیوں ،اصالتوں اورکمالات کا وہی سرچشمہ ہے، پس اللہ محوری ہے ، او راگر ”ایزم“ لگانا ہی چاہتے ہیں تو یہ نظریہ ”اللہ ایزم“ ہے یعنی خدا کی طرف توجہ ہونا چاہئے ،انسان کی طرف نھیں ،یہ تھا الہی اور مغربی ثقافت کا پہلا فرق، (البتہ ہم یہ تاکیدکرتے ہیں کہ مغرب میں بھی استثناء کے قائل ہیں اورو ھاں بھی بعض لوگ معنوی اور الہی نظریہ کے قائل ہیں اور ہماری مراد وہاں کی اکثریت ہے کہ جس کو مغربی تمدن کھا جاتا ہے)

دوسرا رکن: غربی تمدن کا دوسرااہم رکن ”سیکولریزم“ ہے ،یعنی اصل انسان ہے اور انسان کو محور قرار دینے کے بعد اگر کوئی انسان کسی دین کی طرف مائل ہونا چاہے تو وہ اس طرح ہے کہ کوئی شاعر یا پینٹر بننا چاہے کہ کسی کو اس سے کوئی مطلب نھیں ، جس طرح بعض فرقے مجسمہ سازی اور نقاشی کو پسند کرتے ہیں ، بعض لوگ مسلمان یا عیسا ئی ہونا پسند کرتے ہیں ان کے لئے کوئی ممانعت بھی نہیں ہے، کیونکہ انسان کی مرضی کا ادب و احترم ہونا چاہئے۔

کھا جاتا ہے کہ اگر کوئی انسان اپنی زندگی کے ایک طرف کسی دین کا انتخاب کرنا چاہے اس کی مثال اس شخص کی طرح کہ جو شاعری ، ادبیات اور کسی دوسرے کام کو منتخب کرے او راس کاانتخاب مورد احترام ہے؛ لیکن توجہ رہے کہ دین انسان کی زندگی کے اہم مسائل سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور دین انسان کی زندگی کا رخ نہیں بدل سکتا،جس طرح شاعری یا کوئی دوسرا کام اگرچہ اہم ہے، اسی طرح دین بھی اہم ہے ، فرض کیجئے کہ کچھ لوگ آرٹ میں مشغول ہیں اور انھوں نے ایک آرٹ گیلری بنائی کہ جس میں اپنے اپنے آرٹ کی نمائش لگائی ، ہم بھی ان کا احترام کرتے ہیں ، لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آرٹ ان کے لئے سیاست، اقتصاد، او ربین الاقوامی مسائل کا محور بن جائے؛ یعنی آرٹ ایک سائڈ کا کام ہے ۔

ان کی نظر میں دین بھی اسی طرح ہے کہ اگر کوئی شخص خدا سے راز ونیاز کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ عبادتگاہ میں جائے اور شاعر کے شعر کی طرح خدا سے مناجات کرے ، ہم سے کوئی مطلب نہیں ہے؛ لیکن اگر کسی ایک معاشرے میں کون سے قوانین حکومت کریں یا اقصادی اور سیاسی نظام کس طرح کا ہو؟ دین کو ان چیزوں سے کوئی مطلب نہیں ہے، دین کی جگہ عبادتگاہ، مسجد یا بت خانہ ہے ، او رانسان کے زندگی کی حقیقی مسائل علم سے متعلق ہیں اور دین کوزندگی کے مسائل میں کوئی دخالت نہیں کرنا چاہئے۔

اس نظریہ کو کلی طور پر ”سیکولرایزم“ کھا جاتا ہے یعنی دین کو زندگی کے مسائل سے دور رکھنا، یا دنیا داری بھی کھا جاتا ہے، یا اصطلاح میں ”آسمانی فکر کرنے“ کے بجائے ”اس دنیا کی فکر کرنے“ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

کھتے ہیں کہ پیغمبر پر ملائکہ کا نازل ہونا یا عالم آخرت میں ملکوت سے مل جانا وغیرہ وغیرہ جیسی باتوں کو چھوڑو اور اس دنیا کے بارے میں سوچو! کھانے، لباس ، ناچ گانااورمیوزک کے بارے میں باتیں کروکہ جن کا دین سے کوئی ربط نہیں ہے، اور انسانی زندگی کے اہم امور بالخصوص اقتصاد، سیاست اور حقوق علم سے مربوط ہیں ، اور دین کو ان میں کوئی دخالت نہیں کرنا چاہئے،یہ ہے مغربی تمدن کا دوسرا رکن۔

تیسرا رکن: ”لیبرالیزم“ ہے، چونکہ اصل انسان ہے اور انسان مکمل طور پر آزاد ہے مگر بعض ضرورتوں کے پیش نظر، انسانی زندگی کے لئے کوئی قیدو شرط نہیں ہونا چاہئے، کوشش یہ کرنا چاہئے کہ محدویتوں کو کم کیا جائے او رارزشوں کو محدود بنایا جائے، یہ صحیح ہے کہ ہر معاشرہ میں کچھ ارزشیں ہوتی ہیں لیکن ان کو مطلق قرار نہیں دیا جاسکتا، ہر انسان کسی بھی گروہ کے رسم ورواج کو اپنانے میں آزاد ہے، لیکن ان کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ ان کو اجتماعی ارزش قرار دیدیا جائے اوران کو سیاست وحقوق اور اقتصاد میں ان کو دخالت کرنے دیا جائے، انسان آزاد ہے جس طرح کا معاملہ کرنا چاہے کرے، اور جو چیز بنانا چاہے بنائے کسی بھی کام میں مشغول رہے، او رجہاں تک ممکن ہو اقتصاد میں آزادی ہو، اور مفید معاملات میں کسی محدودیت کا قائل نہ ہو، چاہے فائدہ ہو یا نہ ہو، اور جہاں تک ممکن ہو مزدور سے کام لیا جائے اور اس کے کام کے وقت کو معین نہیں کرنا چاہئے ،تاکہ مالدار لوگو ں کو مزید فائدہ پہونچے۔

مزدور کی مزدوری جتنی کم ہو بہت ر ہے ، انصاف ومحبت اور عدالت لیبرالیزم سے ہم اہنگ نہیں ہے ، لیبرال انسان صرف اپنے فائدہ کی فکر میں ہو، البتہ کبھی کبھی قانون کی رعایت بھی کی جائے تاکہ بغاوت او ردوسری مشکلات پیش نہ آئیں ، لیکن اصل یہ ہے کہ انسان جس طرح بھی چاہے کرے، لباس میں بھی انسان آزاد ہے یھاں تک کہ اگر چاہے تو برہنہ باہر نکل آئے، کوئی بات نھیں ، او ر اس کو روکنے کا کسی کو حق نہیں ہے،البتہ کبھی کبھی ایسا موقع آتا ہے کہ اگر کوئی برہنہ باہر نکلنا چاہے تو لوگ اس کو گالی دیتے ہیں برابھلا کھتے ہیں اور اس چیز کو برداشت نہیں کرتے، یہ ایک الگ بات ہے، ورنہ کوئی بھی قانون انسان کو محدود نہیں کرسکتاکہ کیسا لباس پہنے لمبا ہو یا چھوٹا، کسا ہوا ہو یا ڈھیلا، مرد برہنہ ہو یا عورت،سب کو آزاد ہونا چاہئے،اور جہاں تک ممکن ہو مرد وعورت کے درمیان رابطہ آزاد ہونا چاہئے، صرف معاشرہ میں مشکلات پیدا ہونے کی صورت میں تھوڑا بہت کنٹرول کیا جائے! آزادی کی حدیھاں تک ہے، لیکن اگر اس حد تک نہ پہونچے تو عورت مرد آزاد ہے جو ان کا دل چاہے کریں ، جہاں چاہیں جائیں ،جس طرح کا رابطہ رکھنا چاہےں ، رکھیں ۔

سیاسی مسائل اور دوسرے مسائل میں بھی اسی طرح ہے ،اصل یہ ہے کہ کوئی بھی قید وشرط انسان کو محدود نہ کرے مگر یہ کہ ضرورت اس چیز کا تقاضا کرے، یہ ہے لیبرالیزم کا اصل ہدف ، اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ مغربی تمدن کے تھرے رکن ہیں ، ”اومانیزم، سیکولرایزم اور لیبرالیزم“ اور یہ قانون گذاری میں اہم کردار رکھتے ہیں ۔

۵۔ اسلامی اور مغربی تمدن کا بنیادی فرق

پھلا مسئلہ ”اومانیزم“ ہے کہ جواصالت خدا کے مقابلہ میں ہے جو لوگ اس نظریہ کو مانتے ہیں مسلمانوں کی طرح خدا اور اس کے قانون گذاری کو نہیں مانتے، یہ لوگ صرف اپنے فائدہ ،لذتوں او راپنے آرام کے چکر میں ہیں ، اگرچہ مغربی مکاتب میں کم وزیادہ اختلاف پایا جاتا ہے مثلاً یہ کہ لذت ومنفعت میں اصل انفرادیت ہے یا اجتماعی؟ البتہ یہ تمام مکاتب ایک اصل میں متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ حتی الامکان قید وشرط میں کمی ہونا چاہئے، اس الحادی نظریہ کے مقابلہ میں الہی مکتب فکر اور الہی تمدن ہے ، کہ جس کا کہنا یہ ہے کہ انسان اصل نہیں ہے،بلکہ خدا اصل ہے اور خدا ہی تمام کمالات وزیبائی وسعادت کا سرچشمہ ہے وہی حقّ مطلق ہے انسان پر سب سے بڑا حق اسی کا ہے او رانسان اس طرح عمل کرے تاکہ اس سے رابطہ رہے ، اپنی زندگی میں خدا کو نادیدہ نہیں کیا جاسکتا، انسان کا کمال خداپرستی میں ہے اور انسان کا فطری طور پر اللہ سے لگاؤ رکھتا ہے او راگر ہم اس لگاؤ کو نادیدہ کریں تو انسان خود اپنی انسانیت کو نابود کررہا ہے،لھٰذا تمام افکار واندیشہ میں اصلی محور خدا ہے کہ اس کا نقطہ مقابل انسان کو محور بنانا ہے۔

دوسرا مسئلہ سیکولریزم“ ہے کہ جس کے مقابلہ میں اصالت دین ہے ، ایک مومن انسان کے لئے سب سے زیادہ ضروری او راہم امر دین کا انتخاب کرنا ہے اس کے لئے آب ونان کی فکر سے پہلے اپنے منتخب دین کی تحقیق ضروری ہے کہ یہ دین حق ہے یا نھیں ،اس کا دین صحیح ہے یا فاسد؟ اور کیا خدا ئے واحد پر اعتقاد رکھنا صحیح ہے یا غلط؟ کیا خدا کی یاد بہت ر ہے یا خدا سے بے توجھی؟ ایک خدا کا اعتقاد صحیح ہے یا تین یا چند خداؤں کا اعتقاد؟ لھٰذا جس روز اس پر تکلیف واجب ہوتی ہے اسی دن اس کو یہ طے کرنا ہوگا کہ خدا، وحی، قیامت وغیرہ کو قبول کرتا ہے یا نھیں ؟ سب سے پہلے دین کا انتخاب کرے؛کیونکہ دین زندگی کے تمام شعبوں میں دخالت رکھتا ہے، پس الہی تمدن میں دوسرا رکن دینداری ہے کہ جس کے مقابلے میں سیکولریزم ہے جو دین کو زندگی کی ایک سائڈ کا کام کھتا ہے جس کا ماننا یہ ہے کہ دین کو زندگی کے اہم کاموں میں دخالت نہیں کرنا چاہئے، اور دین کو اہم مسائل کے عنوان سے پیش نہیں کیا جانا چاہئے اور زندگی تمام مسائل کو تحت تاثیر قرار نہ دے، جبکہ اسلام یہ کھتا ہے کہ کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جو حلال وحرام سے خارج ہو، اور کسی بھی چیز کے حلال یا حرام ہونے کو دین معین کرتا ہے ، یہ نظریہ سیکولریزم کا نقطہ مقابل ہے۔

تیسرا مسئلہ لیبرالیزم ہے؛یعنی آزادی ،ھوس بازی اور کسی قید وشرط کا نہ ہونا،لیبرالیزم یعنی اصل اپنی مرضی ہے، کیونکہ آزادی کے مختلف معنی کئے گئے ہیں لیکن یھاں اس کے معنی دلخواہ لیتے ہیں ، اس لیبرالیزم کے مقابلہ میں حق وعدالت او رانصاف ہے،لیبرالیزم کھتی ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق عمل کیا جائے جبکہ الہی ثقافت کھتی ہے کہ حق وعدالت سے کام لینا چاہئے،اور کوئی بھی ایسا کام نہ کیا جائے جو ناحق ہو، اسی طرح عدالت کی رعایت کی جائے، البتہ ان دونوں میں آپس میں رابطہ ہے کیونکہ حق کے کماحقہ معنی کئے جائیں تو عدالت کو بھی شامل ہوتا ہے:

”العَدالةُ اعطاءُ کلِّ ذی حقٍّ حَقَّہ (عدالت ہر صاحب حق کو اس کا حق عطاکرتی ہے) پس عدالت میں حق پوشیدہ ہے، لیکن اس وجہ سے کہ اس میں کوئی غلط فہمی نہ ہو ان دونوں اصولوں کو ذکر کرتے ہیں ۔

نتیجہ یہ نکلا کہ لیبرالیزم دلخواہی کو اصل ماننے کے نظریہ پر اعتقادرکھتی ہے ،اور اس کے مقابلہ میں دین عدالت وحق کا طرفدارہے، دوسرے الفاظ میں یوں عرض کیا جائے کہ واقعاً حق وباطل دونوں ہیں ایسا نہیں ہے کہ جو بھی چاہیں مان لیں بلکہ ہمیں چاہئے کہ تلاش کریں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟ کیا عدالت ہے او رکیا ظلم ہے؟ اگر میں کسی پر ظلم کو اچھا مانوں تو کسی پر ظلم نہ کروں : لیبرالیزم کا تقاضا یہ ہے کہ ہم حق وعدالت کی رعایت وہاں تک کریں کہ اس کی مخالفت سے معاشرے میں بحرانی کیفیت طاری نہ ہو، ہر کوئی اپنے فائدہ کی فکر میں رہے۔

کھا جاتا ہےکہ مروّت وانصاف ایسی چیزیں ہیں جن کو انسان کمزوری کی وجہ سے ان کو اپنا تا ہے، اگر آپ میں طاقت وقدرت ہے تو پھر جو چاہو انجام دو، مگر یہ کہ آپ کو احساس ہوجائے کہ اس آزادی سے معاشرہ میں بحران ہوسکتا ہے اور اس وقت بحران کی زد میں وہ خود بھی آسکتا ہے اس کا وقت محدود ہوجاتا ہے ، پس الہی واسلامی تمدن میں اصل عدالت وحق ہے۔

غربی تمدن میں ان تین ارکان کے علاوہ بھی او ردوسری چیزیں ہیں کہ یاتو عمومی نہیں ہے یا اصالت نہیں مانا جاتا، کہ جن میں سے ”اخلاقی پوزیٹونیزم“ ( Positivisme ) ہے یعنی اخلاقی ارزشیں انسان کے سلیقہ او رمرضی کے مطابق ہیں کہ جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے، مثلاً آج اگر کسی چیز کو پسند کیا اور اس کو اچھا لگا او راس کی حمایت میں ووٹ دیا تو یہ باارزش ہوجائے گا، لیکن اگر بعد میں اس میں کوئی برائی دکھائی دی،تو اس کو چھوڑ دیا تو یہ ارزش کے خلاف ہوجائے گا۔

ہم نے متعدد بار عرض کیا ہے کہ ہمارے معاشرے کے لوگ چونکہ ان کا ذہن صاف ہے ، وہ جانتے ہیں کہ مغربی تمدن کس قدر برا ہے، مثال کے طور پر کہ جس معاشرے میں ہم جنس بازی کو بہت برا سمجہاجاتا تھا آج اسی کو قبول کیا جارہا ہے، اس کو اچھا مانا جارہا ہے، اس کے بارے میں بہت رین فلسفہ تراشی او ربہت رین اشعار پیش کئے جاتے ہیں اور باقاعدہ اس بارے میں انجمن بنائی جاتی ہیں کہ ملک کے بڑے بڑے عھدہ دار افراد، منسٹر اور ایڈوکیٹ حضرات اس انجمن کے ممبر بنائے جاتے ہیں !!

سننے کی بات ہے کہ اس کام کی حمایت میں جو مظاہرے ہوتے ہیں ان کی تعداد عام مظاہروں سے کھیں زیادہ ہوتی ہے، کیوں ؟ اس لئے کہ لوگوں کا سلیقہ بدل چکا ہے ،اب تک ان میں یہ رواج تھا کہ مخالف جنس کے ساتھ زندگی ہوتی تھی، لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم جنس کے ساتھ زندگی کو ترجیح دیتے ہیں !! مرد سے مرد او رعورت سے عورت کی شادی کو باقاعدہ طریقوں سے حکومتی اداروں میں درج کرایا جاتا ہے!!

اس نظریہ کو ”اخلاقی پوزیٹونیزم“ کا نام دیا جاتا ہے کہ واقعاً جس میں اخلاقی اہمیتیں کسی بھی طرح عقلانی نہیں ہیں اور صرف لوگوں کی مرضی پر ہے ، معیار لوگوں کے نظریات ہیں آج جس چیز کو بھی اچھاکھا وہی اچھا ہے اور اگر اسی کام کل برا کھنے لگیں تو برا ہے، لوگوں کی مرضی کے ماوراء کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کو ارزشوں کا ملاک ومعیار بنایا جائے؛ یہ ایک نظریہ ہے نیز اسی طرح کے بہت سے نظریات ہیں جن کو بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتے ہیں ، پس جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ مغربی تمدن کے تین اہم رکن ہیں :

۱۔اومانیزم، ۲۔ سیکولریزم، ۳۔ لیبرالیزم، اور یھی تین اہم رکن قانون گذاری میں بہت زیادہ موثر ہوتی ہیں

۶۔ آزادی کے حدود کو معین کرنے میں اسلام اور مغربی تمدن میں فرق

جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ دنیا بھر کے تمام عقلمند افراد ،مطلق آزادی کا انکار کرتے ہیں ،اور ہم کسی عاقل کو نہیں پہچانتے کہ جو یہ کھے کہ انسان اس قدر آزاد ہے کہ جس وقت جو چاہے انجام دے، لھٰذاجب یہ معلوم ہوچکا ہے کہ آزادی مطلق نہیں ہے بلکہ محدود ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آزادی کی حد کیا ہے؟ مشہور یہ ہے کہ آزادی کی حد کو قانون بیان کرتا ہے ، یھاں سوال یہ ہوتا ہے کہ قانون کس درجہ آزادی کو محدود کرسکتا ہے؟

ہم نے گذشتہ مطالب میں بیان کیا کہ بعض لوگوں کایہ کہنا ہے کہ کچھ اس طرح کی آزادیاں ہیں کہ جن کو کوئی بھی قانون محدود نہیں کرسکتا، کیونکہ وہ قانون اوردین کے مافوق ہیں ، اور ہم نے گذشتہ جلسوں میں یہ وضاحت کی ہے کہ قانون کی شان آزادی کومحدود کرنا ہے اور قانون گذار کو آزادی کو کافی حد تک محدود کرنے کا حق ہوتا ہے، اور قانون کے اصل معنی ہی یھی ہیں ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانون آزادی کو کس حد تک محدود کرسکتا ہے، اس کا جواب الہی ومغربی تمدن کے لحاظ سے الگ الگ ہے: مغربی تمدن کے لحاظ سے ،اگر انسان کا مادی خطرہ درپیش ہو تو اس وقت آزادی محدود ہوجاتی ہے اگر انسان کی زندگی میں اس کی جان ومال کو خطرہ لاحق ہوتو قانون آگے بڑہ کر اس کے مانع ہوجاتا ہے۔

اس بناپر ،اگر قانون یہ ہے کہ صفائی کا خیال رکھنا ضروری ہے یا یہ کہ پینے کے پانی کو زھریلا نہیں کرنا چاہئے، (کیونکہ اس سے لوگوں کی جان کا خطرہ ہے، )اس طرح کی آزادی کو محدود کرنا قابل قبول ہے ،ایسی آزادی کو محدود ہونا چاہئے تاکہ لوگوں کی صحت محفوظ رہے، او راس قانون کے قبول کرنے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے، لیکن اگر کسی کام سے لوگوں کی عزت ، ہمیشگی سعادت اور اس کی معنویات کو خطرہ ہو اور انسان کی روح گندی ہوجائے تو قانون کو اس سے ممانعت کرنا ضروری ہے یا نھیں ؟ اس موقع پر الہی او رمغربی ثقافت میں اختلاف پایا جاتا ہے:

الہی نظریہ کے تحت انسان ہمیشگی کمال کی طرف بڑہ رہا ہے او رقانون کو اس کے لئے راستہ کو ہموار کرنا چاہئے، او راس راستہ میں جو رکاوٹیں ہیں ان کو بھی ختم کرنا چاہئے، (قانون سے ہماری مراد وہ قانون ہے جو حقوقی وحکومتی قانون ہیں کہ جن کے جاری کرنے کی ذمہ دار حکومت ہوتی ہے اور فردی مسائل (اخلاقی مسائل) سے ہماری بحث نہیں ہے) اگر یھاں یہ سوال ہو کہ کیا قانون کو انسان کے معنوی فائدوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے؟ کیا ان چیزوں سے روکے کہ جو انسانی آخرت کی کامیابی کے خطر کو دور کرنا ضروری ہے؟

الہی تمدن کھتا ہے کہ ان چیزوں سے روکنا ضروری ہے ، لیکن کفروالحاد کی ثقافت کا جواب منفی ہے (یعنی ان کی نظر میں ضروری نہیں ہے ) شروع سے اب تک بحث اسی مطلب کو واضح کرنے کے لئے تھی اگر ہم مسلمان ومومن ہیں اور خدا، رسول، حضرت علی اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کو مانتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان معنوی وابدی ارزشوں کو قبول کریں ۔

ہمارے قانون گذار حضرات الہی ومعنوی مصلحتوں کا لحاظ رکھیں اور جو چیز انسانی معنویات کے لئے خطرناک ہیں ان سے روکا جائے ورنہ مغربی تمدن کے پیرو ہوجائیں گے، ایسا نہیں ہے کہ قانون فقط صحت وسلامتی او رمادی آسائش کو فراہم کرے اور جو چیزیں معاشرے میں ناآرامی کا سبب بنے ان سے روکے، نیزان کاموں سے روکے کہ جن سے معاشرے کی اقصادی امنیت خطرہ میں پڑتی ہے، بلکہ قانون کے لئے ضروری ہے کہ معنویات کوبھی مدنظر رکھے، ہمارے سامنے دو چیزیں ہیں : یا اسلامی قانون کو قبول کریں یا مغربی قانون کو،البتہ ان دوچیزوں میں بہت سی ملاوٹ موجود ہے کہ جس کو ہم نے گذشتہ بحث میں ذکر کیا ہے ۔

جو لوگ یہ کھتے ہیں :”یُوخَذُ مِنْ هٰذٰا ضِغْثٌ وَمِنْ هٰذٰا ضِغْثٌ فَیُمْزِجٰانِ“ (۱)

تھوڑا یھاں سے لیا اور تھوڑا وہاں سے او رآپس میں ملادیا۔

کچھ چیزیں اسلام سے لیں اور کچھ چیزیں مغربی تمدن سے اور ایک غیر ہم اہنگ مجموعہ بنالیا ، اسلام اس طریقہ کو قطعاً پسند نہیں کرتا، قرآن کریم اس چیز کی مذمت کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰه وَرُسُلِه وَیُرِیْدُوْنَ ا نْ ُیفَرِّقُوا بَیْنَ اللّٰه وَرُسُلِه وَیَقُولُونَ نُومِنُ بِبِعْضٍ وَنَکْفِرُبِبِعْضٍ وَیُرِیْدُوْنَ ا نْ یَتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاً ا وْلٓئِکَ همُ الْکَافِرُوْنَ حَقاً ) (۲)

”بے شک جو لوگ خدا اور اس کے رسولوں سے انکار کرتے ہیں اور خدا اور اس کے رسولوں میں تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں او رکھتے ہیں کہ ہم بعض (پیغمبروں ) پر ایمان لائے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس (کفر وایمان) کے درمیان ایک دوسری راہ نکالیں ، یھی لوگ حقیقتاً کافر ہیں “

آج بعض لوگ یھی چاہتے ہیں کہ کچھ چیزیں اسلام سے لیں اور کچھ چیزیں مغربی تمدن سے لیں اور ان کو ملاکر جدید اسلام کے نام سے دنیا والوں کے سامنے پیش کریں ! حقیت یہ ہے کہ ان لوگوں کا اسلام پر یقین نہیں ہے، اور اگر اسلام پر یقین ہوتا تو ان کو معلوم ہوتا کہ اسلام اس مجموعہ کا نام ہے کہ جس کی ضروریات کو قبول کرنا چاہئے، اگر کوئی یہ کھے کہ میں نے اسلام تو قبول کرلیا ہے لیکن اس کی بعض چیزوں کو نہیں مانتا، تو اس کی یہ بات قابل قبول نہیں ہے، لھٰذا قانون گذاری اور آزادی کو محدود کرنے میں ہمارے پاس ان دو راستوں کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے ، او ران میں سے ایک کا انتخاب ضروری ہے : یا تو آزادی کو محدود کرنے کا معیار مادی ودنیوی خطرات مانیں یا مادی او رمعنوی خطرات کو معیار قرار دیں ، او راگر پہلے راستہ کو اپنایا تو گویا ہم نے مغربی الحادی تمدن کو قبول کرلیا، اگر دوسرے راستہ کو اپنا یا تو اسلامی تمدن کو قبول کیا، اور جس حد تک بھی پہلے والے راستہ کے نزدیک ہوئے، مغربی تمدن کے قریب ہوئے، او رجس قدر بھی دوسرے تمدن کے نزدیک ہوئے اسلام سے نزدیک ہوئے، بہرحال ان دونوں میں کوئی رابطہ نہیں ہے، کیونکہ جہاں تک مادی فائدوں کی بات ہوتی ہے تو وہاں مغربی تمدن او راسلامی تمدن دونوں کھتے ہیں کہ ان کا خیال رکھا جائے مثلاً دونوں کھتے ہیں کہ صفائی کا خیال رکھا جائے، لیکن جہاں معنوی مسائل کی بات آتی ہے تو وہاں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے۔

جس وقت صرف مادی فائدے پیش نظر ہوں تو آزادی محدود کردیا جاتا ہے ، اگر اس کے ساتھ معنویات کو شامل کردیا جائے تو اس کے مقابلہ میں دوچیزیں ہوجاتی ہیں کہ جو ایک دوسرے کے متداخل ہوتے ہیں ،کہ جس کے نتیجہ میں محدودیت کا دائرہ وسیع تراور آزادی کا دائرہ محدودتر ہوجاتاہے، اگر ہم یہ کھیں کہ اسلام کی آزادی مغربی آزادی کی طرح نہیں ہے تو اس کے معنی یھی ہیں یعنی دلیل یہ ہے : کہ جب ہم معنوی مصلحتوں کی رعایت کرتے ہیں تو پھر مغرب کی طرح بے لگام نہیں ہوسکتے، بلکہ انسانی روح سے متعلق امور کی بھی رعایت کرنا ضروری ہے، جن کی وجہ سے ہماری آخرت سنورتی ہے، لیکن مغربی تمدن کھتا ہے کہ یہ تمام چیزیں اجتماعی قوانین سے متعلق نہیں ہیں ، حکومتی قوانین معاشرہ کے مادی مسائل میں جاری ہوتے ہیں ، او ران کے علاوہ اخلاق سے مربوط ہیں کہ جن کا سروکار حکومت سے نہیں ہے۔

جس وقت یہ کھا جاتا ہے کہ اسلامی مقدسات خطرہ میں ہے حکومت کے بعض ذمہ دار افراد کھتے ہیں کہ مجھ سے کیا ربط! میرے کام تو لوگوں کی زندگی کے مادی مسائل سے مربوط ہیں ، دین کے مسائل علماء سے متعلق ہیں ، اس کی حفاظت کرنا ان کی ذمہ داری ہے، حکومت کا ان سے کوئی مطلب نہیں ہے، لیکن اگر اسلامی حکومت ہوتی ہے تو پہلے دین پھر دنیا کی بات کرتی ہے۔

اس بناپر ، ان دونوں تمدن کے پیش نظر بہت غور وخوض سے کام لیں او رہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ جس وقت ہمارے قدم اسلامی ارزشوں کے مقابلہ میں لڑ کھڑائیں اور اپنے اندر کاہلی کا احساس کریں ، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کفر کے ماحول سے نزدیک ہوتے جارہے ہیں ، اور اسلام کی حقیقت کو بھولتے جارہے ہیں ، ہمارا یہ انقلاب صرف مادی فوائد کو پورا کرنے کے لئے نہیں ہوا ہے ، بلکہ ہم نے یہ انقلاب اسلام کی ترقی کے لئے کیا ہے، کیونکہ اس انقلاب میں اس قدرلوگ شھید ہوئے ، اپنے عزیزو کی قربانی پیش کی، صرف اس وجہ سے کہ اسلام باقی رہے، نہ صرف اس وجہ سے کہ مادی آسائش یا اقتصادی وسیاسی تعلقات میں اضافہ ہو، ان شھیدوں نے اپنی جان کو قربان کیا تاکہ اسلام پھیلے ، اسلامی حکومت کے لئے سب سے پہلے اسلامی مسائل پر توجہ دینا ضروری ہے، او راگر کوئی بعض چیزوں کے غلط معنی وتفسیر کرے او رمختلف مفاد کی خاطر حقائق کی تحریف کریں ہمیں ان سے کوئی مطلب نہیں ، ہم تو مسلمانوں کو متوجہ کرناچاہتے ہیں کہ دین کی حد کھاں تک ہے؟ اسلامی ارزشیں کتنی اہم ہیں اور ان کی محافظت کے لئے کس قدر جانفشانی کی ضرورت ہے؟ ہمارے برادران واقف ہیں ، اسی لئے ایک عالم دین کی یہ ذمہ داری ہے کہ جس وقت معاشرہ میں کسی روحانی ومعنوی بیماری کے پھیلنے کا خطرہ ہو تو لوگوں کو متوجہ کریں اور خطرے کا اعلان کرے۔

حوالہ

۱۔نھج البلاغہ خطبہ نمبر ۵۰

۲۔سورہ نساء آیت ۱۵۰، ۱۵۱