اسلام اور سیاست جلد ۱

اسلام اور سیاست 0%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور سیاست

مؤلف: آیة اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 34298
ڈاؤنلوڈ: 2677


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 39 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34298 / ڈاؤنلوڈ: 2677
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد 1

مؤلف:
اردو

سترہواں جلسہ

ربوبیت تشریعی، حاکمیت اور قانون گزاری میں رابطہ

۱۔گذشتہ مطالب پر ایک نظر

اسلام کے سیاسی نظریے کے تحت ہم نے گذشتہ جلسات میں عرض کیا کہ ایک حکومت کا اسلامی ہونا اس بات پر متوقف ہے کہ اس حکومت کے ارادے ،اسلامی مقاصد اور اس کا معین کردہ راستہ کو اپناتے ہوئے قدم بڑھا ئیں ،لھذا وہ حکومت، اسلامی کہ جس میں قانوں گزار یاور، عدالت یاور اور مجری یاور اسلامی راہ پر چلیں ، یا یہ کھا جائے کہ خدائی اور اسلامی رنگ ہونا چاہیے،اور اجمالی طور پر وضاحت کر دی گئی کہ ان طاقتوں کا الھی و اسلامی رنگ ہونا معنی کیا۔

اسی طرح یہ بھی بیان ہو چکا کہ قوانین کے لیے مرحلے ہیں ،اسلامی مقاصد کو مد نظر رکھا جائے اور یہ قوانین خدا کے براہ راست احکام کہ جو پیغمبریا انکے معصوم جانشینوں کے ذریعے پہونچے میں کے مخالف نہ ہوں ،اوردوسرے مرحلہ میں قانون کا جاری کرنے والا عام معنوں میں کہ قوہ قضائیہ کو شامل ہے کے ذریعے منصوب ہو،یا تو خدا براہ راست اس کو معین کرے،جیسے پیغمبر اکرم یا خدا کی طرف سے کسی کے ذریعہ منصوب ہو، جیسے پیغمبر کے ذریعہ ائمہ معصومین علیہم السلام کو منصوب کرنا، یا عمومی طور پر منصوب ہو،جیسے ولی فقیہ کہ جس کے بارے میں در حد امکان بحث ہو چکی ہے۔

۲۔اصول موضوعہ کو معین کرنے کی ضرورت

اس چیز کو ثابت کرنے کیلئے کہ ایک اجتماعی اور صحیح و سالم حکومت مذکورہ شکل و صورت رکھتی ہو،اور ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا کہ اگر ہم اس مسئلہ کو ان لوگوں کیلئے بیان کریں کہ جو ہمارے فقھی و اعتقادی بنیادوں پر عقیدہ رکھتے ہیں ، تو ان کے لئے شرعی دلیلوں خصوصا ً قرآنی آیات کے ذریعہ ثابت کر سکتے ہیں ، لیکن وہ حضرات جو دین کی حقانیت ، یا دوسرے بنیادوں کو کہ جو اس نظریہ کی بنیادیں قبول نہیں کرتے،لھذا اگر ان افراد کے لئے اس نظریہ کو ثابت کرنا ہے تو پہلے اصول موضوعہ کے بارے میں بتانا پڑے گا کہ اس بحث کے اصول موضوعہ کیا ہیں ؟ اور پہلے ان کو اصول موضوعہ کو ثابت کرنا ہوگا، اصول موضوعہ ان مسائل کو کھتے ہیں کہ جو بدیھی اور ظاہر ی چیزوں سے شروع ہوتے ہیں اور اس نظریہ پر ختم ہوتے ہیں ۔

جو لوگ استدلال حساب یا ھندسہ کے ذریعے کچھ چیزوں کو ثابت کرنے کے طریقوں سے واقفیت رکھتے ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ ھندسی بحثیں اس طرح شروع ہوتی ہیں کہ پہلے کسی قضیہ کو اصل موضوع کے عنوان سے بیان کیا جاتا ہے، اور اس کی بنیاد پر دوسرے قضیہ کو ثابت کیا جاتا ہے اور اس طرح قضیہ سوم کو اثبات کرتے ہیں اور اس طرح چوتھے اور پانچویں کو اثبات کرتے ہیں اور اس طرح آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اگر بیسوں قضیوں کو ثابت کرنا چاہیں تو اس کیلئے انیسوں قضیہ کو پہلے سے ثابت ہونا ضروری ہے اور اس طرح انیسویں کو ثابت کرنے کے لئے اس سے پہلے والا قضیہ ثابت ہونا چاہیے۔

اگر کسی کے لئے کسی ایک قضیہ کو ثابت کرنا ہو تویھان پر یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ اس سے پہلے قضیوں کو کھاں تک درک کیا ہے، تاکہ ان کو بحث کا اصل موضوع قرار دیں وگرنہ اگر ہر ایک قضیہ کو اثبات کرنے کیلئے پہلے والے قضیوں کے اثبات کو تکرار کرنا پڑے گا،مثال کے طورپر جب ایک سیدھی لائن کی تعریف دونقطوں کے درمیان چھوٹے فاصلہ یا دونوں ایک دوسرے کے مقابل لائن آپ ان کو کتنا بھی بڑھائیں وہ ایک دوسرے کو قطع نہیں کرسکتی ہیں ان کو بیان کریں ،اسی طرح ہر ایک قضیہ کو بیان کرنے کیلئے کوئی نئے مسائل کوبیان کرنے کی ضرورت نھیں ھوتی، بلکہ ہمیشہ گذشتہ مطلب ہی کی تکرارہوتی رہتی ہے۔

اسی طرح اگر کسی ایک عقلی قضیہ کو ثابت کرنا چاہیں تو اس کے اصول موضوعہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے،کہ جن کو الگ کسی دوسرے علم یا دوسری بحثوں میں ثابت کیا جا چکا ہے، مثال کے طور پر اگر یہ کھیں کہ قانون کو الہی قانون ہونا چاہیے تو خدا کا اثبات ثابت ہونا ضروری ہے ، لھٰذا اگر کوئی کھے کہ میں خدا ہی کو نہیں مانتا تو پھر اس کے ساتھ کلامی اور فلسفی بحث کریں تاکہ اس پر ثابت ہوسکے کہ ھاں خدا بھی ہے،اور وہ خدا ایک ہے اور ہمارا رب ہے، تا کہ بحث کے دوران حکومت کے سلسلہ میں حکومت کی نسبت خدا کی طرف دی جاسکے۔

لھٰذا اگر اصول اولیہ سے بحث شروع کریں تو یہ بحث تکراری اور خستہ کنندہ ہوگی، مجبوراً اس اصل کو بیان کریں جس کو مد مقابل بھی قبول کرتا ہے اور دور کی بحثوں کو اس کے علم پر چھوڑ دیں ،البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب ہم ھندسہ کے دسویں قضیہ سے بحث کو شروع کریں تو اس سے پہلے قضیوں کو اثبات نہ کیا جا سکے،کیونکہ ان کو تو پہلے ثابت کرچکے ہیں ،لھذا جن اصولوں کو پہلے ثابت کر چکے ہیں ان سے بعد میں نتیجہ حاصل کرتے ہیں ، اس نکتہ کو بیان کرنے کی وجہ یہ تھی کہ بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ اپنے مبانی(بنیادی نظریات) کے اعتبار سے گفتگو کرتے ہیں جبکہ دوسرے ان کو قبول نہیں کرتے،لھذا ان حضرات کے جواب میں یہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارا مخاطب بھی ہمارے ساتھ بہت سی چیزوں کو مانتا ہے تاکہ ان کی بنیاد پر دوسری چیزوں کو ثابت کیا جا سکے اور اگر ان اصول و مقدمات کو نہیں مانتا تو پھر دوسرے علم کی طرف رجوع کریں اور وہاں ان مقدمات کو ثابت کریں ۔

یھاں اس چیز کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے مغربی ثفافت کو ”اور مانیرم و لیرالیزم“کی بنیاد پر اس کو کفر والحاد کی ثقافت بتایا ہے جبکہ مغربی ممالک میں بہت سے افراد خدا کو ماننے والے ہیں ،ہم نے مکرر عرض کیا ہے کہ مغربی ثقافت سے مراد صرف جغرافی علاقہ نہیں ہے اور ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ وہ سبھی لوگ جو مغربی ممالک میں زندگی بسر کرتے ہیں اس طرح کا نظریہ رکھتے ہیں کیونکہ وہاں پر بہت سے لوگ خدا کو مانتے ہیں اور اخلاقی قوانین کی رعایت کرتے ہیں اور ہم ان کا احترام کرتے ہیں لیکن مغربی ثقافت میں جو چیز عمل ہے وہ انہیں اصول پر مبنی نہیں کرتے، بعض خود ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ہم کس منطق کے تحت گفتگو کر رہے ہیں ، جو حضرات اہل بحث و استدلال ہیں اس طرز تفکر کی بنیاد کی معرفت رکھتے ہیں ؟اسی طرح ہم نے اس سے قبل التقاط(دوسروں کے نظریات سے متاثر ہونا) کے بارے میں بیان کیا کہ بعض لوگ مختلف ادیان سے کچھ چیزوں اخذ کرکے ایک جگہ جمع کرتے ہیں ، ان چیزوں کی استدلالی اور بنیادی کو پہلو کو ثابت کئے بغیر،کیونکہ کبھی کبھی یہ چیزیں آپس میں سازگار اور ہم آھنگ نہیں ہوتیں ،در نتیجہ ہم یہ عرض کردینا چاہتے ہیں کہ اگر ہمارے تمام عقائد کو ملاحظہ کیا جائے تو اس طرح کے اشکالات ہمارے یھاں نہیں پائیں گے۔

بہر حال اس چیز کو اثبات کرنے کیلئے کہ ہمارا یہ سیاسی نظام و حکومت جو اسلامی نقطہ نظر سے ہے اور سب سے زیادہ عقلائی اور سب سے زیادہ حکیمانہ ہے، لھٰذا ہم اس کا استدلال شروع کرتے ہیں ،ہم یھاں پر خدا کے اصل وجود اور انہیں صفات کو مسلم مانتے ہوئے اسی بنیاد پر اس مسئلہ کو بھی اثبات کرتے ہیں ،گر چہ کچھ لوگ خدا کو قبول نہیں کرتے یا اس کے بعض صفات کو نہیں مانتے تو ان کو چاہئے کہ علم کلام کا مطالعہ کریں کیونکہ اس وقت ہماری بحث علم کلام میں نھیں ھے بلکہ سیاسی فلسفہ سے متعلق ہے لھٰذا یھاں پر علم کلام کی بحث نہیں کی جا سکتی۔

۳۔خدا کی حاکمیت اور تشریعی الوہیت

ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا تھا کہ اسلامی حکومت کے سیاسی نظام کی اصل بنیاد خداوند عالم کی حاکمیت ہے، در حقیقت اس نظریہ کا سرچشمہ خدا کی تشریعی ربوبیت کا قائل ہونا ہے،اس سلسلہ میں اس مطلب کی یادھانی بھی ضروری ہے کہ نہ صرف یہ کہ اسلام کا بلکہ تمام آسمانی ادیان کا معیار توحید ہے،کلمہ" لا الہ الااللّٰہ" ہے، جو ہمارے نبی اکرم کا اصلی نعرہ ہے،اور یھی تمام ادیان کا نعرہ تھا، اگرچہ اس میں تھوڑی بہت تحریفات ہوتی ہیں ، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ" لا الہ الااللّٰہ کا کیا مطلب ہے؟ بعض لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ توحید کے معنی یہ ہیں کہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ اس جہان کا خالق و پیدا کرنے والا ایک ہے،لیکن کیا توحید کے یھی معنی ہےں ؟ بعض” لا خالق الا اللّٰہ" (خدا کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے) کیا اسلام کی نظر میں توحید کے معنی صرف خلقت میں یگانیت و وحدانیت کا اعتقاد رکھنا ہے؟ چند سال پہلے اسلام کے نظام عقیدتی و نظام ارزشی میں توحید کے عنوان سے بحث میں ہم نے بیان کیا تھاکہ توحید کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان خالقیت میں یگانیت و وحدانیت کا قائل ہو جائے، اسلام کے لحاظ سے توحید کے معنی اس میں محدود نہیں ہیں ، مکہ کے مشرکین بھی خالقیت میں توحید کا عقیدہ رکھتے تھے ۔

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَلَئِنْ سَا لْتَهمْ مَنْ خَلَقَ السَّمٰوٰاتِ وَالا رْضَ لَیَقُولُنَّ اللّٰه ) (۱)

”اور (اے رسول) تم اگر ان سے پوچھو کہ سارے آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو ضرور کھہ دیں گے کہ اللہ نے “

اس طرح شیطان بھی خدا کے وجود کا اعتقاد رکھتا تھا اور خالقیت میں توحید کو قبول کرتا تھا لیکن خدا نے پھر بھی اس کو کافروں میں شامل کردیا

جیسا کہ قرآن مجید میں ابلیس کی خدا سے گفتگو سے نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ توحید در خالقیت اور خدا کی تکوینی ربوبیت کا معتقد تھا نیز معاد و عاقبت کا بھی اعتقاد رکھتا تھا:

( قَالَ رَبِّ فَا نْظِرْنِی إِلٰی یَومِ یَبْعَثُوْنَ.قَالَ فَإِنَّکَ مِنَ الْمُنْتَظَرِیْنَ.إِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ. قَالَ رَبِّ بِمَآ ا غْوَیْتَنِی لَا زَیِّنَنَّ لَهمْ فِی الا رْضِ وَلَا غْوِیَنَّهمْ ا جْمَعِیْنَ ) (۲)

”شیطان نے کھا کہ ا ے میرے پروردگار خیر تو مجھے ا س دن تک کی مھلت دے جبکہ (لوگ دوبارہ زندہ کرکے) اٹھائے جائیں گے خدا نے فرمایا: وقت مقرر کے دن تک کی تجھے مھلت دی گئی ، شیطان نے کھااے میرے پروردگار چونکہ تونے مجھے راستہ سے الگ کیا ہے، میں بھی ان کے لئے دنیا میں (ساز وسامان کو) عمدہ کردکھاؤں گا او رسب کو ضرور بھکاؤں گا۔“

نتیجہ یہ نکلا کہ شیطان بھی توحید در خالقیت اور خدا کی تکوینی ربوبیت کا قائل تھا اور قیامت پر بھی اعتقاد رکھتا تھا اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے کفر کی وجہ کیا تھی؟ شیطان کے کفر کی وجہ کو پہچاننے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اسلامی نقطہ نظر سے توحید کا نصاب پہچاننا پڑے گا، یعنی اسلامی لحاظ سے انسان کب موحد یعنی اہل توحید بنتا ہے ؟ تو جواب یہ ہے کہ خلقت میں خدا کی وحدانیت خدا کی تکوینی و تشریعی الوہیت میں وحدانیت اور وحدت معبود کے اعتقاد سے انسان موجود بنتا ہے یعنی انسان خدا کو تنھا خالق مانے اور اسی کو کردگار، صاحب اختیار جہان، اور اصل قانون گذار مانے، اور الوہیت و عبودیت میں توحید کے اعتقادکے ساتھ ساتھ اس کو عبادت کا مستحق مانے، توحید کے نصاب کی پہچان سے معلوم ہوا کہ شیطان کے کفر کی وجہ خدا وند عالم کی تشریعی ربوبیت کا انکار تھا خدا و ند عالم کی تکوینی ربوبیت کاانکارنھیں تھا۔

اس طرح خداوند عالم اپنے رسول کو حکم دیتا ہے کہ اہل کتاب سے بحث کرتے وقت ان عقائد کی طرف دعوت دیں کہ جن میں خود آپ اور وہ لوگ مشترک ہیں ، اور وہ اعتقاد خدا کی وحدانیت اور اس کی عبودیت کا عقیدہ ہے اس کے بعد خداوند عالم ایک جملہ ارشاد فرماتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اہل کتاب کو ان کے غیر خدا کی تشریعی ربوبیت کے عقیدہ سے روکے، کہ جس کی وجہ سے وہ اس دائرہ میں پہونچ چکی ہیں :

( قُلْ یَا ا هلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا إِلیٰ کَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ إلاّٰ نَعْبُدَ إِلاّٰ اللّٰه وَلاَتُشْرِکْ بِه شَیْئاً َولاَیَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً ا رْبَاباً مِنْ دُوْنِ اللّٰه ) (۳)

”(اے رسول) تم (ان لوگوں ) سے کھو کہ اے اہل کتاب تم ایسی(ٹھکانے کی) بات پر تو آؤ جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہوکہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں اور ہم سے کوئی خدا کے علاوہ کسی کو اپنا پروردگار نہ بنائے۔“

اس آیت کی تفسیر میں جو روایات وارد ہوئی ہیں ان کا مضمون یہ ہے کہ اہل کتاب اپنے جیسے افراد کو اپنا خالق نہیں مانتے تھے بلکہ اپنے احبار و رہبان (روحانی علماء) کو اپنا تشریعی رب مانتے تھے اور ان کے حکم کو خدا کا حکم سمجھتے تھے۔ قرآن مجید میں احبار و رہبان کی بدون قیدو بند اطاعت کو رب ماننے کے مترادف کھا ہے: ”ً َولاَیَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً ا رْبَاباً مِنْ دُوْنِ اللّٰہ"یعنی اپنے بزرگوں کی بدون قید و شرط اطاعت نہ کروکہ یہ کام ایک طرح کا شرک ہے لیکن یہ شرک تکوینی خالقیت و ربوبیت کا شرک نہیں ہے اور نہ ہی الھیت وعبودیت کا شرک ہے، کیونکہ وہ لوگ احبار و رہبان کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا شرک تشریعی ربوبیت میں تھا،یعنی خدا کے ساتھ ساتھ ان کو بھی قانون گذار مانتے تھے، کھتے تھے کہ خدا کے علاوہ دوسرے افراد اور خود پر بھی قانون بنانے کا حق رکھتے ہیں ،یعنی ایسا نہیں ہے کہ صرف خداوند عالم کا قانون معتبر ہو، اور جو بھی کھے اس کی اطاعت کرنا ضروری ہو؟

جس طرح شیطان بھی خدا کی تشریعی ربوبیت کا منکر ہوا،اور اس نے کھا: ”ا نَا خَیْرٌ مِنْہ" (میں اس سے بہت ر ہوں )مجھے جناب آدم کو سجدہ نہیں کرنا چاہیے جبکہ خدا کا حکم ہے کہ جناب آدم کو سجدہ کر،شیطان نے کھا میں آدم کو سجدہ نھیں کروں گا ،کیونکہ میں اس سے بہت ر ہوں ، یعنی شیطان خداوندعالم کے اس حکم کو تسلیم نہ کرتا تھا، دوسرے الفاظ میں یوں عرض کیا جائے کہ شیطان حق حاکمیت کو خدا سے مخصوص نہیں سمجھتا تھا، جس کی وجہ سے کافر ہوگیا، ورنہ تو وہ خدا اور اس کی ربوبیت اور قیامت کا منکر نہ تھا، شیطان کے کفر کی وجہ خدا کی مطلق حاکمیت کا انکار تھا، اسلام جس کفر کی نسبت اہل کتاب کی طرف دیتا ہے اور اس سے روکتا ہے اور توحید کی طرف دعوت دیتا ہے وہ تشریعی کفر و شرک ہے،جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( اتَّخِذُوْا ا حْبَارَهمْ وَرُهبَانَهمْ ا رْبَاباً مِنْ دُوْنِ اللّٰه وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَمَا ا مِرُوْا إِلاَّ لِیَعْبُدُوْا إِلٰهاً وَاحِداً ) (۴)

”ان لوگوں نے تو اپنے خدا کو چھوڑ کر اپنے عالموں کو اور اپنے زاہدوں کو اور مریم کے بیٹے مسیح کو اپنا پروردگار بناڈالا حالانکہ انہیں سوائے اس کے او رحکم ہی نہیں دیا گیا کہ خدائے یکتا کی عبادت کریں ۔“

وہ لوگ کبھی بھی احبار و راہبوں کو سجدے نہیں کرتے تھے، لیکن بغیر کسی قید وشرط کی اطاعت کو ان کو ربّ ماننے کے برابر سمجہا گیا ہے، درحقیقت وہ لوگ قانون گذاری کو خداوند عالم میں مخصوص نہیں جانتے تھے۔

۴۔خالص توحید کا مطلب

خالص توحید وہ ہے کہ جو اِن شرکوں سے خالی ہو، نہ شیطان جیسا شرک ہو اور نہ اہل کتاب والا شرک، اسلام میں توحید کا حد نصاب خدا کی توحید خالقیت، اس کی معبودیت اور اب ولایت تکوینی کے اعتبار کے ساتھ ساتھ تشریعی ربوبیت میں توحید کا اعتقاد بھی ضروری ہے، پس توحید کے یہ چار رکن ہیں کہ اگر ان میں کوئی ایک بھی نامکمل رہ گیا، تو پھر بھی توحید، حقیقی توحید نہیں ہوگی،ا ور اگر کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ خداکی خالقیت کے ساتھ ساتھ کوئی دوسرا بھی خالق ہے، یا کوئی دوسرا بھی رب تکوینی ہے جو مستقل طور پر عالم کا ادارہ کرتا ہے، یا حق حاکمیت یا حق عبادت رکھتا ہے وہ اسلامی توحید سے خارج ہے۔

لھٰذا تشریعی ربوبیت میں توحید کا قائل ہونا اسلامی توحید کا ایک رکن ہے اور تشریعی ربوبیت میں توحید کے عقیدہ کے بغیر اسلامی توحید نہیں ہوسکتی،ممکن ہے کوئی شخص ظاہری طور پر کلمہ شھادتین پڑھے اگرچہ اس پر طھارت کا حکم بھی ہوتا ہے لیکن یہ ظاہری احکام جن کی وجہ سے اس کو مسلمان شمار کیا جائے گا،اگر فقھا کرام اپنے توضیح المسائل میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص شھادتین پڑھے تو اس پر طھارت کا حکم جاری ہوگا اور اس سے نکاح کرنا صحیح ہے اور اس کا ذبح کردہ حیوان حلال ہے،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس نے کلمہ شھادتین پڑہ لیا ہو، وہ جنتی ہے اور عذاب جھنم سے نجات یافتہ ہے ،بلکہ اس کے لئے اسلام کے دوسرے ضروریات کو پورا کرنا ضروری ہے اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے، ورنہ تو کلمہ شھادتین پڑھنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، کیا اگر کوئی معاد کا منکر ہو تو اسے مسلمان کھا جائے گا؟ یا اگر نماز و زکواة کا منکر ہو تو اس کو مسلمان کھیں گے؟ کلمہ شھادتین صرف اس چیز کی نشانی ہے کہ اس نے ”ما انزل اللہ “ پر اعتماد کر لیا ہے اور ظاہرا ًمسلمان شمار کر لیا جائے گا۔

لیکن اگر اس کے دل میں خدا کا اعتقاد نہ ہو ،یا قیامت کو قبول نہ کرتا ہو،یا اسلام کی ضروریات کو دل سے قبول نہ کرتا ہو ،تو وہ ظاہری طور پر تو مسلمان ہے لیکن حقیقت میں وہ کافر ہے، اگرچہ اس پر اسلامی احکام اس پر جاری ہونگے، پس ظاہری اسلام اور چیز ہے او واقعی ایمان جو عذاب اخروی سے نجات کا باعث ہوتا ہے، وہ دوسری چیز ہے۔

جس وقت یہ کھا جاتا ہے کہ توحید کا ایک معیار تشریعی ربوبیت میں توحید کا اعتقاد ہے تو اس کا مقصد وہ توحید ہے جو سعادت اخروی اور عذاب جھنم کے عذاب سے نجات کا باعث ہے ورنہ ظاہری احکام کے اثبات کیلئے کلمہ شھادتین کاپڑہ لینا کافی ہے۔

۵۔قانون گذار حضرات اور اسلام میں حاکمیت

اسلامی نظریہ اور تشریعی ربوبیت کی بنیاد پر یہ کھا جائے کہ قانون گذاری کا اصل حق خداوند عالم کو ہے اور خدا کے مقابلہ میں کسی کو قانون گذاری کا حق نہیں ہے، تواب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی دوسرا قانون گذاری کا حق رکھتا ہے یا نھیں ؟ اس کے جواب میں پہلے بھی اشارہ کیا جاچکا ہے کہ خدا کے قانون گذاروں کے مقابلہ میں ان لوگوں کو قانون گذاری کا حق ہے جن کو خداوند عالم نے اجازت دی ہے، اور ان کا قانون اس صورت میں قابل اجرا ہے وہ قانون خدا کے اذن سے ہو:

( وَلَا تَقُوْلُوا لِمَا تَصِفُ ا لْسِنَتُکُمْ الْکِذْبَ هٰذَا حَلَالٌ وَهٰذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰه الْکِذْبَ. إِ نَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰه الْکِذْبَ لاَُیفْلِحُونَ. ) (۵)

”اور جھوٹ موٹ جو کچھ تمھاری زبان پر آئے (بے سمجھے بوجھے) نہ کھہ بیٹھا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام، تاکہ ا س کی بدولت خدا پر جھوٹ، بہت ان باندھنے لگو اس میں شک نہیں کہ جو لوگ خدا پر جھوٹ اور بہت ان باندھتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہ ہوں گے“

پس اپنی طرف سے نہیں کہنا چاہئے کہ فلاں چیز حلال اورفلاں چیز حرام، حلال و حرام آپ کے حساب سے نہیں ہے بس لیکن اگر کوئی ایسا کرے تو یہ بھی شرک کی ایک قسم ہے، لھٰذا دیکھنا یہ ہے کہ خدا کا کہنا ہے:

( قُلْ ءَ اللّٰه اَذِنَ لَکُمْ ا مْ عَلَی اللّٰه َتفْتَرُوْنَ ) (۶)

”(اے رسول) تم کہدو کہ کیا خدا نے تمھیں اجازت دی ہے یا تم خدا پر بہت ا ن باندھتے ہو“

جی ھاں خدا نے اپنے پیغمبر کو قانون گذاری اور امور دینی کی اجازت دی ہے۔

( ا طِیْعُوا للّٰه وَا طِیْعُوا الرَّسُوْلَ ) (۷)

”(اے ایمان دارو )خدا کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو“

نیز فرمایا:

( مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ ا طَاعَ اللّٰه. ) (۸)

”اور جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی“

البتہ رسول خدا بھی اپنی مرضی کے مطابق عمل نہیں کرتے بلکہ آپ کا عمل بھی خدا کی وحی و الھام کے مطابق ہوتا ہے اور جب تک آیات نازل نہیں ہوتیں ،الہی الھام اور غیر قرآنی وحی کے ذریعہ خدا وند عالم کا تشریعی ارادہ ان تک پہونچتا ہے:

( مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهویٰ إِنْ هوَ إِلاَّ وَحْیٌ یُوْحیٰ (۹)

”اور وہرسول) تو اپنی نفسانی خواہش سے کچھ بھی نہیں کھتے، یہ تو بس وحی ہے جو بھیجی جاتی ہے“

اس بنا پر اگر کسی کو خدا کی طرف سے اجازت ہو تو وہ قانون کو واضح کر سکتا ہے اور اس کا بنایا ہوا قانون لازم الاجرا ء ہے شیعہ حضرات کاعقیدہ یہ ہے کہ جس طرح پیغمبر اکرم کو قانون بنانے کی اجازت دی گئی ہے، اسی طرح ائمہ معصومین کو بھی خدا کی طرف سے قانون بنانے کی اجازت ہے البتہ اس مطلب کی دلیل علم کلام میں واضح طریقہ سے بیان ہوئی ہے، ان میں سے ایک حدیث ثقلین ہے کہ جس میں ائمہ طاہرین علیہم السلام کو قرآن کا ہم پلہ قرار دیا گیا ہے:

”اِنِّی تَارکٌ فیِْکُمُ الثَّقْلِیْنِ مَا اِنْ تَمَسَّکْتُم بِهما لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِی، کِتَابَ اللّٰه وَ عِتْرَتِی“

(میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے ہر گز میرے بعد گمراہ نہ ہونگے ایک کتاب خدا اور دوسرے میری عترت (اہل بیت.)۔

ہم یھاں پر شیعیت کے عقائد کو اثبات نہیں کرنا چاہتے،لیکن پھر بھی اشارہ کرتے ہیں کہ جو لوگ شیعوں کے اس قبول شدہ عقیدہ کو تسلیم کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم کے علاوہ ائمہ معصومین کو اس طرح کی اجازت ملی ہوئی ہے، اس نظریہ کے مقابل میں بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ صرف رسول اکرم معصوم اور واجب الاحترام ہیں لیکن اس اختلاف نظر سے کوئی فرق نہیں پڑتا، مثلاً اگر فرض کریں کہ ہم لوگ رسول اکرم کے زمانہ میں ہوتے اور آپ کسی شہر کیلئے کوئی حاکم بنا کر بھیجتے، اور فرماتے کہ اس حاکم کی اطاعت کریں ، تو کیا یہ اطاعت واجب تھی یا نھیں ؟ کیا یہ اطاعت، اطاعت پیغمبر خدا اور حاکمیت خدا کے مخالف ہوتی؟ ہر نھیں ؟ کیونکہ وہ شخص اس پیغمبر کا نمائندہ ہے کہ جس کو خدا نے معین فرمایا ہے۔

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ائمہ معصومین بھی ایسا ہی اختیار رکھتے ہیں ، اور ائمہ نے اس عصر حاضرکیلئے نوعی(عمومی) طورپر (نہ کہ شخصی طورپر) ان افراد کو منصوب فرمایا ہے جو ائمہ کی طرح سب صالح سے زیادہ ہیں ان کو حکومت کی اجازت ملی ہوئی ہے، اور یہ نظریہ چاہے مقبولہ عمر ابن حنظلہ یا مرفوعہ ابو خدیجہ یا دیگر روایات کے ذریعہ ثابت کیا جائے، یا عقلی دلائل کے ذریعہ ثابت کیا جائے جیسا کہ فقھا کرام نے مختلف طریقوں سے اس نظریہ کو ثابت کیا ہے۔

پس جس طرح پیغمبر اکرم اپنے زمانہ میں کسی کو کسی شہر یا اسلامی علاقہ کا حاکم بناکر بھیجتے تھے، اور ان کی اطاعت وہاں کے رہنے والوں پر واجب ہوتی تھی، یا جس طرح حضرت علی نے اپنی خلافت کے دوران بہت سے لوگوں کو اسلامی ممالک منجملہ بحرین، اہواز، مصر وغیرہ کیلئے والی اور حاکم بنا کر بھیجا، اور ان حضرات کی اطاعت واجب تھی، اس غیبت کے زمانہ میں جو حضرات فقاہت و سیاست میں مالک اشتر کی طرح ہیں اور اسلامی معاشرہ کے چلانے کی صلاحیت اور توانائی رکھتے ہیں ، ولایت فقیہ کے دلائل کے تحت ان کو اجازت ہے اور ان کی اطاعت بھی ہم لوگوں پر واجب ہے،اور وہ خدا کی تشریعی ربوبیت کے مخالف بھی نہیں ہے بلکہ ان کی حاکمیت بھی خدا کی شان میں سے ایک شان ہے۔

جس طرح خدا اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ہے اور پیغمبر اس حاکم کو فرمان دیتے ہیں یا امام معصوم اپنے خاص جانشین اور والی کو اجازت دیتے ہیں ان کی اطاعت ہم لوگوں پر واجب ہے دوسرے الفاظ میں یہ کہ والی و حاکم کی اطاعت پیغمبر اور خدا کی اطاعت ہے، اور اس والی و حاکم کی مخالفت پیغمبر اکرم کی مخالفت اور پیغمبر اکرم کی مخالفت خدا کی مخالفت ہے۔

اس طرح ولی فقیہ کی اطاعت، امام معصوم کی اطاعت اور امام معصوم کی اطاعت پیغمبر کی اطاعت اور پیغمبر کی اطاعت خدا کی اطاعت ہوگی، اور اس کی مخالفت معصوم. کی مخالفت اور معصوم کی مخالفت خدا کی مخالفت ہوگی، یہ مطلب مقبولہ عمر ابن حنظلہ کی روایت سے واضح و روشن ہے جس میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

”ینظرنی من کان منکم ممن قد روی حدیثنا ونظر فی حلالنا وحرامنا وعرف احکامنا فلیرضوا به حکما فانی قد جعلته علیکم حاکما. فاذا حکم بحکمنا فلم یقبله فانما استخف بحکم الله وعلینا رد والراد علینا الراد علی الله وهو حد الشرک بالله "(۱۰)

”اگر کوئی ہماری احادیث کو نقل کرنے والے کو دیکھے اور ہماری حلال و حرام کردہ چیزوں بیان کرنے والے کو دیکھے اور ہمارے احکام کو جانتا ہے تو اس کو چاہیے کہ اس کے حکم کو قبول کرے کیونکہ ہم نے اس کو تم پر حاکم قرار دیا ہے،لھٰذا اگر ہمارے حکم کے مطابق عمل کرنے اور کوئی اس کو قبول نہ کرے تو گویا اس نے خدا کے حکم کو سبک(ھلکا) سمجہا، اور ہم کو رد ّ کیا اور جس نے ہم کو ردّ کیا گویا اس نے خدا کو ردّ کیا، اور یھی شرک باللہ ہے“

حضرت امام صادق علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ ”وہوعلی حدالشرک“ کی کیا وجہ ہے کہ شرک کوتوحید کے مقابلہ میں قرار دیا ہے اور توحید کے ارکان میں سے ایک رکن تشریعی ربوبیت میں توحید ہے اب اگر ہم نے خدا کی حاکمیت اور اس کے ساتھ ساتھ پیغمبر ، ائمھ، اور ان لوگوں کی حاکمیت کو قبول کیا ہے کہ جن کو خدا و ائمہ نے منصوب کیا ہے، تو ہم نے تشریعی ربوبیت میں توحید کو قبول کیا ہے اور اگر اس کو نہیں مانا تو پھر تشریعی ربوبیت میں شرک کیا، پس”الراد علیھم“ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے ان فقھا کرام کو رد کیا جن کو لوگوں پر حکومت کرنے کا حق ہے اس نے گویا ائمہ کو رد کیا ہے یعنی اگر کوئی یہ کھے کہ میں ولایت فقیہ کو نہیں مانتا گویا وہ یہ کھتا ہے کہ میں امام معصوم کو نہیں مانتا، اور اگر کوئی امام کو قبول نہیں کرتا اس نے خدا وند عالم پر ایک قسم کا شرک کیا ہے کیونکہ اس نے خداوند عالم کی تشریعی ربوبیت کا انکار کیا ہے البتہ یہ شرک معنوی اور باطنی ہے، اور انسان کی نجاست کا سبب نہیں بنتا۔

لھٰذا ثابت یہ ہوگیا کہ اگر کوئی قبول کرتا ہو کہ درحقیقت حکومت کا حقخدا سے مخصوص ہے اور اس کے بعد رسول اللہ سے مخصوص ہے اور خدا کی حاکمیت کے زیر سایہ رسول اللہ اور ائمہ اور ان کے جانشین حضرات کی حاکمیت تحقق اور مشروعیت پیدا کرتی ہے،لیکن اگر ہم حاکمیت کی مشروعیت کو کسی دوسرے راستہ سے مانیں تو در حقیقت خدا کی حاکمیت کے بارے میں شرک کے قائل ہوئے ہیں ، اس بنا پر، اسلامی حکومت میں الٰھی قوانین اور اس حاکم کے بنائے قانون کے تحت ہوکہ جو خدا کی طرف سے اذن رکھتا ہو اس کی عقلی دلیل خداوند عالم کی تشریعی ربوبیت ہے، اگر توحید کو صحیح معنوں میں سمجہاجائے تو اس نتیجہ پر پہونچیں گے اور اگر انسان اس نتیجہ کا انکار کرے تو گویا اس کا عقیدہ کمزور ہے اور اس کی توحید خالص نھیں ھے اور اس میں شرک کی آمیزش ہے۔

ممکن ہے کوئی سوال کرے کہ معاشرہ میں الہی قوانین کے ہونا کا کیا فلسفہ ہے ؟ اگر کوئی خدا اور اس کے قوانین کو قبول نہ کرے اورخود اپنے لئے قوانین بنائے تو کیا معاشرہ کی فلاح و بھبود نہیں ہوسکتی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کس طرح جو معاشرے خدا کے قوانین کو تسلیم نہیں کرتے لیکن پھر بھی ان کی زندگی بہت ر ہے؟ یہ وہ نظریہ ہے جس کو بہت سے روشن فکر لوگ بیان کرتے ہیں اور کھتے ہیں کہ قانون کا خدا کی طرف ہونا، کیا ضروری ہے؟ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ خود ہم اپنے لئے قانون بنا کر اس پر عمل کریں اور کوئی مشکل نہیں ہے۔

۶۔ قانون گذاری حق خدا سے مخصوص ہونے کے دلائل

اس اعتراض کا جواب واضح ہونے کیلئے یہ توجہ رکھنا ضروری ہے کہ انسان ایک ایسا موجود واحد ہے جو مختلف پہلو رکھتا ہے اور یہ مختلف پہلو ایک دوسرے سے مرتبط ہیں انسان میں صرف اقتصادی پہلو نہیں ہے کہ اگر اقصاد ی قانون بنا دیا تو معاشرہ میں اس کی اقتصادی مشکل آسان ہوجائے، کیونکہ اس کا اقتصاد اس کی سیاست سے مربوط ہے اور اس کی سیاسی، اجتماعی اور مدنی احکام سے مرتبط ہیں اس کے مدنی احکام اس کے جزائی احکام سے مربوط ہیں اوریہ سب بین الاقوامی قوانین سے مرتبط ہیں ، اورتمام کے تمام انسان کے روحی و معنوی اور اخلاقی پہلو سے گھرا ارتباط رکھتے ہیں ، انسان دس موجود نہیں ہیں اور نہ ہی دس روح رکھتا ہے، انسان ایک الھی روح رکھتا ہے جس کے مختلف پہلو اور گوشہ ہیں لیکن تمام ایک دوسرے سے متعلق ہیں ۔

لھٰذا اگر کسی ایک پہلو میں کوئی نقص و کمی پیدا ہوجائے تو پھر اس کا اثر دوسرے پر پڑتا ہے، وہ خدا جس نے انسان کو پیداکیا اور انسان کیلئے اجتماعی زندگی مقرر فرمائی ہے، اجتماعی زندگی کی خاطر انسانی فطرت میں ایسے اسباب قرار دیئے جن کی وجہ سے انسان طبیعی طور پر اجتماعی زندگی کی طرف رجحان پیدا کرتا ہے، لھٰذا خداوند عالم نے انسان کی خلقت ایک مقصد کے تحت کی ہے، اور وہ مقصد یہ ہے کہ انسان اجتماعی زندگی کے ساتھ ساتھ انسانی کمالات تک پہونچے، اور اسی کے تمام پہلو، معنوی پہلو کے تحت کام کریں ، اور وہ ترقی کی منزلوں کو طے کرتا ہوا انسانی کمالات تک پہونچے:

( مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإنْسَ إِلاَّلِیَعْبُدُوْنَ ) (۱۱)

”ہم نے نہیں پید اکیا جن وانس کو مگر یہ کہ ہماری عبادت کرے“

جو کچھ بھی ہم نے عرض کیا یہ سب کچھ عبادت کے زیر سایہ ہوں وہ عبادت جو توحید اور ربوبیت سے جدا نہ ہونے والا ارتباط رکھتی ہے،ورنہ انسانی کمال پیدا نہیں ہوسکتا، البتہ اس کے علاوہ بھی معاشرہ میں ظاہری طورپر نظم و ضبط پیدا ہوسکتا ہے لیکن یہ بھی یقینی نہیں ہے، مثلاً جیسا کہ آج کل مختلف ممالک جن کا نمونہ امریکہ ہے اور امریکہ کے کالج تمام ممالک کیلئے نمونہ قرار پائے ہیں ، جب کہ ان کالجوں میں پولیس اسلحہ کے ساتھ رہتی ہے لیکن پھربھی وہاں قتل و غارت ہوتا رہتا ہے، ملاحظہ کریں کہ یہ وہی نظام ہے جس کو انسان نے بنایا ہے اور اس طرح کے دوسرے کارنامے ہیں ، جن کے بیان کرنے سے انسان کو شرم آتی ہے۔

یھاں تک کہ اگر فرض کیا جائے کہ خدا کے قوانین پر عمل انسان کے معنوی پہلو کو ن-ظر انداز کرتے ہوئے معاشرہ میں ظاہری طور پر نظم و ضبط قائم ہوجائے، تو پھر بھی اس کی زندگی کا اصل ہدف پورا نہیں ہوا ہے ، کیا انسان کی زندگی موریانہ(ایک قسم کے حشرات ہیں جو شھد کی مکھی کی طرح ایک جگہ مل کر زندگی کرتے ہیں ) زندگی کی طرح ہے؟ یا انسان کی زندگی شھد کی مکھیوں کی طرح ہیں کہ جن کا ظاہر نظم کافی ہے، انسان کی زندگی یہ تمام نظام، امنیتیں ، ترقیاں ، علام اور ٹکنالوژی صرف اس وجہ سے ہیں تاکہ انسان کمال حاصل کر سکے اور خدا سے نزدیک ہو سکے، کون ہے جو ان روابط کو اچھے طریقہ سے سمجھتا ہے؟ کون حضرات ہیں جو بتائیں کہ کس کھانے سے یا کس کام سے انسان خدا کے نزدیک ہوتا ہے؟کون یہ معین کرے کہ خنزیر کا گوشت کھانے،شراب پینے سے ہماری سعادت و کامیابی پر اثر ہوتا ہے یا نھیں ؟ آج ڈاکٹروں نے ترقی کرکے یہ بتایا ہے کہ الکحل(شراب) زیادہ پینے کی وجہ سے انسان کا ذہن خراب ہوسکتا ہے،لیکن یہ نہیں جانتے کہ شراب کے پینے سے آخرت کو بھی نقصان پہونچتا ہے یا نھیں ؟ کیونکہ اس سلسلہ میں تجربہ نہیں کیا ہے اور اس مسئلہ کو تجربہ کیا بھی نہیں جاسکتا۔

انسانی زندگی کے قوانین اس طرح ترتیب دئیے جائیں کہ زندگی کے تمام پہلو پیش نظر رہیں ، اور صرف جسمانی بھداشت و نظافت، اقتصادی اور سیاسی وضعیت پر اکتفاء نہ کیا جائے اور نہ ہی ان کو دوسرے پہلوؤں سے جدا سمجہا جائے، بلکہ ان تمام پہلوؤں کو ایک مرتب اور ہم آھنگ نظام میں ڈھالا جائے، ظاہر ہے کہ ان تمام پہلوؤں کی مکمل آگاہی اور ان کے ایک دوسرے سے ارتباط اور ان کے ذریعہ آخری کمال تک پہونچانے کا علم خدا کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے، لھٰذا قوانین کو بھی خدا ہی بنا ئے، اس کے علاوہ کونسا ایسا قانون گذار ہے کہ جو قانون بناتے وقت اپنے ذاتی مفاد کو نظر انداز کرسکے، اور ظاہر ہے کہ جو گروہ بھی قدرت و حکومت پر قابض ہوگا وہ اپنے فائدوں کے بارے میں قوانین کو بنائے گا، مثال کے طور پر انہیں اسلامی ممالک میں جب کوئی نئی حکومت بنتی ہے توایسے قوانین اور نحس نامے تیار کرتی ہے کہ جو اس گروہ کے فائدے میں ہو، اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ چاہے سمت راست پارٹی ہو یا بائیں بازو کی پارٹی،یہ انسان کی خاصیت اور طبیعت ہے اور بہر حال تمام انسان معصوم بھی نہیں ہیں ۔

ان مسائل سے صرف وہ ذات مبرّا ہوسکتی ہے کہ جس کو ان مسائل سے کوئی فائدہ نہ ہو،اور ایسی ذات خداوند عالم کی ذات ہے، اور اگر کوئی دوسرا قانون بنائے گا تو ممکن ہے کہ وہ قوانین اس کے لئے یا ضرر ہونگے یا نفع بخش،لیکن خدا کے بنائے قوانین سے خدا کو نہ کوئی نفع ہے اور نہ کوئی نقصان، وہ تو صرف انسانیت کے نفع و نقصان کو دیکھتا ہے، لھٰذا چونکہ خدا کا علم بے نھایت ہے اور قوانین کے بنانے سے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے؟ جبکہ انسان پر حق حکومت ربوبیت بھی رکھتا، اور اگر انسان حقیقی کمال تک پہونچنا ہے تو خدا کے حق ربوبیت کو ادا کرے، البتہ یہ ایک الگ بحث ہے اور مزید وضاحت کی ضرورت ہے جس کی تحقیق اس کتاب میں ممکن نہیں ہے۔

انسان ایک دوسرے پر حق رکھتے ہیں اور عرفی حقوق کی معرفت رکھتے ہیں ، مثلاً کسان مزدور پر حق رکھتا ہے اور مزدور کسان پر حق رکھتا ہے، یا ایک ( DM ) لوگوں پر حق رکھتا ہے،اور لوگ بھی ڈی ایم پر حق رکھتے ہیں ، لیکن کیا خدا لوگوں پر حق نہیں رکھتا؟ اور اس حق کو ادا کرنے کا راستہ بھی معلوم ہے، اسلامی نظریہ کے مطابق، ان تمام حقوق میں سب سے پہلے خداکا حق ہے، لھٰذا سب سے پہلے خدا کے حق کو ادا کیا جائے،تاکہ خدا کے حق کے زیر سایہ لوگوں کے حقوق بخوبی انجام دئے جاسکیں ۔

تو کیا ممکن ہے کہ بنائے ہوئے قوانین میں انسان کے حقوق کا لحاظ کیا جائے لیکن خدا کے حقوق کو نظر انداز کر دیاجائے؟ اور اگر خدا کے حقوق کو پیشِ نظر نہ رکھا جائے تو کیا خدا کے حقوق پر ظلم و جفا نہیں ہوا ہے؟ اور کیا اس ناشکری کے بعد انسان کمال کی منزل تک پہونچ سکتا ہے؟خدا کی ناشکری سے بڑہ کر کون سی ناشکری ہوسکتی ہے؟ اس سلسلہ میں قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ ) (۱۲)

”بے شک شرک بڑا سخت گناہ ہے(جس کی بخشش نھیں )“

سب سے بڑا ظلم خدا پر ظلم کرناہے، لھٰذا اگر خدا وند عالم کے حقوق نظر انداز کردیا جائے تو یہ ظلم عظیم ہے، اس وقت کس طرح دوسروں کے ساتھ عدالت برقرار کر سکتے ہیں ؟ انسان کس طرح عدل کر سکتا ہے در حالیکہ خود اپنے خالق پر ظلم کرتا ہے؟ اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ غیر خدا کیلئے حق قانون گذاری کا عقیدہ ایک شرک ہے، لھٰذا چونکہ خداوند عالم ہمارے نفع و نقصان سے مکمل آگاہی رکھتا ہے اور خدا کیلئے قانون گذاری کا کوئی فائدہ نہیں ہے،اور خدا وند عالم ہر پر تشریعی ربوبیت کا حق رکھتا ہے،سب سے پہلے مرحلہ میں خدا کے قوانین کی رعایت کی جائے اور اس کے بعد ان لوگوں کے قوانین پر عمل کیا جائے کہ جن کو خدا کی طرف سے اجازت ہے اور وہ بھی اس حد تک کہ جس کی خدا نے اجازت دی ہے،تاکہ انسان اس آیت کا مستحق قرار نہ پائے:

( قُلْ ا رَا یْتُمْ مَا ا نْزَلَ اللّٰه لَکُمَ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْه حَرَاماً وَحَلَالاً قُلَ ءَ اللّٰه ا ذِنَ لَکُمْ ا مْ عَلَی اللّٰه َتفْتَرُوْن. ) (۱۳)

”(اے رسول) تم کھہ دو کہ تمھارا کیا خیال ہے کہ خدا نے تم پر روزی نازل کی تو اب اس میں سے بعض کو حرام ، بعض کو حلال بنانے لگے، (اے رسول) تم کھہ دو کہ کیا خدا نے تمھیں اجازت دی ہے یا تم خدا پر بہت ان باندھتے ہو.“

اس طرح دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلَا تَقُوْلُوا لِمَا تَصِفُ ا لْسِنَتُکُمْ الْکِذْبَ هٰذَا حَلَالٌ وَهٰذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰه الْکِذْبَ. إِ نَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰه الْکِذْبَ لاَ ُیفْلِحُونَ. ) (۱۴)

”اور جھوٹ موٹ جو کچھ تمھاری زبان پر آئے (بے سمجھے بوجھے) نہ کہ یٹھا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام، تاکہ ا س کی بدولت خدا پر جھوٹ، بہت ان باندھنے لگو اس میں شک نہیں کہ جو لوگ خدا پر جھوٹ اور بہت ان باندھتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہ ہوں گے۔

اس بنا پر، خدا کے تشریعی حق ربوبیت کی ادائیگی کیلئے پہلے خدا کے قانون پر عمل کریں ، اور اس کے بعد تحقیق و بررسی کرے کہ اس نے کسی کو قانون گذاری کی اجازت دی ہے، یا کسی کو قانون کو جاری کرنے کی اجازت دی ہے،کیونکہ اگر قانون کو اس کی اجازت سے جاری نہ کیا جائے تو پھر بھی خدا کے بندوں پر تصرف کرنا ان کے مولا و آقا کی اجازت کے بغیر ہوگا، اسلامی نظریہ کے مطابق خدا کی مرضی کے خلاف دوسروں پر تصرف کرنا تو دور کی بات ہے خود پر تصرف کرنا بھی جائز نہیں ہے، اس وجہ سے انسان کو خود کشی کا حق نہیں ہے۔

ممکن ہے مغربی ممالک میں لیبرالی نظریہ کے تحت چونکہ انسان خود اپنا مالک ہے، لھٰذا اس کو خود کشی کا بھی حق حاصل ہے ،لیکن اسلام میں اس طرح نہیں ہے، کیونکہ انسان خود اپنا مالک نہیں ہے بلکہ خدا ا س کا مالک ہے، لھٰذا اس کو خود کشی کا بھی حق نھیں ھے، کیونکہ خدا کی طرف سے اس کو اس کام کی اجازت نہیں ہے، خداوندعالم نے اگر انسان کو زندگی عطا کی ہے تواس کا اختیار بھی خود اسی کو ہے،کسی دوسرے کو کوئی اختیار نہیں ہے تو پھر کس طرح کسی غیر کو اس کی جان لینے کی اجازت ہوگی؟

جب انسان اپنا ھاتہ کاٹ ڈالنے یا اپنی آنکہ پھوڑ ڈالنے کا حق نہیں ہے اس لئے کہ ن کا مالک خداہے اور انسان کو ان کام کی اجازت نہیں ہے، تو پھر کسی دوسرے کو کھاں سے یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی چور کے ھاتہ کاٹ ڈالے یا کسی مجرم کو قید کردے؟ کسی کو بھی اس طرح کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ دوسرے لوگ بھی خدا کے بندے ہیں اور خدا کی اجازت کے بغیر ان میں تصرف نہیں کیا جا سکتا، لھٰذا قانون گذاری اور قانون کو جاری کرنے میں خدا کی اجازت ضروری ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اس سلسلہ میں اسلام کا سیاسی نظریہ کی بنیاد یہ ہے کہ خدا کی تشریعی ربوبیت، توحید کا رکن ہے، اور اگر کسی نے اس کی رعایت نہ کی تو پھر وہ شیطان کے کفر کی طرح کفر کا مرتکب ہوا ہے۔

حوالے

(۱)سورہ لقمان آیت ۲۵

(۲)سورہ حجر آیت ۳۶تا ۳۹

(۳)سورہ آیت آل عمران آیت ۶۴.

(۴)سورہ توبہ آیت ۳۱.

(۵)سورہ نحل آیت ۱۱۶.

(۶)سورہ یونس آیت ۵۹.

(۷)سورہ نساء۵۹

(۸)سورہ نساء آیت ۸۰

(۹)سورہ نجم آیت ۳،۴

(۱۰)کافی ج۱ ص ۶۷.

(۱۱)سورہ ذاریات آیت ۵۶

(۱۲)سورہ لقمان آیت ۱۳

(۱۳)سورہ یونس آیت ۵۹

(۱۴)سورہ نحل آیت ۱۱۶