اسلام اور سیاست جلد ۱

اسلام اور سیاست 0%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور سیاست

مؤلف: آیة اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 33932
ڈاؤنلوڈ: 2573


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 39 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 33932 / ڈاؤنلوڈ: 2573
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد 1

مؤلف:
اردو

اٹھارہواں جلسہ

قانون گذاری کے شرائط اور اسلام میں اس کی اہمیت

۱۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر

گذشتہ جلسوں میں عرض کیا جاچکا ہے کہ اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث میں دو سوالوں کا جواب د ینا بہت ضروری ہے:

پھلا سوال:یہ ہے کہ معاشرے کے لئے قانون کا ہونا کیوں ضروری ہے؟

دوسرا سوال: یہ ہے کہ کون سا قانون مفید اور مطلوب ہے اور اس کے وضع کرنے کا اور پھر اس کو معاشرہ میں جاری کرنے کا مقصد کیا ہے؟

پھلے سوال کے جواب میں گذشتوں جلسوں میں ہم نے عرض کیا کہ دنیا کے تقریبا تمام ہی عقلاء کا اتفاق اس بات پر ہے کہ معاشرے میں اخلاقی قوانین کے علاوہ حکومتی قوانین بھی ہونا چاہئے،لیکن دوسرے سوال کا جواب کہ قانون کا ہدف کیا ہے؟ اس سلسلے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے، ایک نظریہ یہ ہے کہ قانون معاشرہ کے نظم وضبط سنوارنے کے لئے ہوتا ہے،دوسرا نظریہ یہ ہے کہ قانون معاشرہ میں عدل وانصاف کے لئے ہوتا ہے، تیسرا نظریہ اس وقت لیبرالیزم نے بیان کیا ہے کہ قانون انسان کی انفرادی آزادی کی حفاظت کے لئے ہوتا ہے یعنی انسان اپنی زندگی میں ہر طرح سے آزاد ہونا چاہئے کہ جوچاہے وہ انجام دے سکے،لیکن اس طرح مقام عمل میں مزاحمت اور ٹکراؤ ہوگا کہ بعض افراد کی وجہ سے دوسروں کی آزادی خطرہ میں پڑجاتی ہے ، لھٰذا قانون اس وجہ سے وضع کیا گیا ہےکہ سب کی آزادی برقرار رہ سکے ، اور مزاحمت سے روکا جاسکے۔

جیسا کہ گذشتہ بحث میں ہم نے عرض کیا کہ اسلام کے سیاسی نظریات میں انسانوں کی امنیت ونظم وضبط او رعدالت وغیرہ کی حفاظت متوسط قسم کے اہداف ہیں ، لیکن اسلام کی قانون گذاری کا اصل ہدف انسانوں کے مادّی اور معنوی فوائد کی حفاظت ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ معنوی فائدے مادی فائدوں سے کھیں زیادہ اہم ہیں ، لھٰذا قانون اس طرح ہونا چاہئے کہ جس سے انسان کی کمال تک پہونچنے کے لئے راہ ہموار ہوسکے یعنی جو تقرب خداوندمتعال کا باعث بنے، لھٰذا جو چیزیں خدا کی طرف جانے میں مانع ہوں ، وہ معاشرہ سے ختم ہوجانا چاہئے، مختصر الفاظ میں یہ کھا جائے کہ قانون وہ ہے جس میں تمام انسانوں کے مادی اور معنوی مصالح ومنافع کی حفاظت ہو۔

یھاں پہونچنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قانون گذار کون ہونا چاہئے؟ اس سلسلے میں بھی مختلف نظریات پائے جاتے ہیں ، خلاصہ یہ کہ سیاسی اور حقوق الناس کے دعویدارحضرات کے درمیان دوشرطوں کو معتبر جانا گیا ہے :

پہلی شرط: قانونگذار وہ ہو جو قانون کے ہدف کو اچھی طرح جانتا ہو ۔

دوسری شرط: قانون گذار معاشرہ کے منافع کواپنے ذاتی مفاد پر قربان نہ کرے،اور وہ قانون کے اہداف ومقاصد کو اچھی طرح جانتا ہو ۔

ان دو چیزوں کو تقریباً تمام ہی لوگ قبو ل کرتے ہیں ، اگرچہ ان کے قانون بنانے کے اہداف مختلف ہیں ، بہر حال قانون بنانے سے کسی کا کوئی ہدف ہو وہ یہ ضرور مانتا ہے کہ قانون گذار کو قانون کے اہداف سے اچھے طریقہ سے واقفیت ہونا چاہئے، اور ان اہداف تک پہونچنے کے راستوں سے واقف ہو، تاکہ اس کے بنائے ہوئے قوانین کے ذریعہ ان اہداف تک پہونچا جاسکے، قانون گذار کا علم ایسا ہو کہ جس کے ذریعہ قوانین کے اہداف تک پہونچنے کا راستہ کا پتہ لگاسکے ،اور قوانین کو اسی کے مطابق بنائے ، اور اخلاقی صلاحیت ایسی ہو کہ معاشرہ کے مفاد کو اپنے مفاد پر قربان نہ کرے۔

۲۔قانون گذاری کے شرائط خدا وندعالم میں منحصر ہیں

اسلامی نظریہ کے مطابق مذکورہ شرطوں کے علاوہ ،قانون گذار کی انسانی مادّی ومعنوی مصلحتوں سے واقفیت ضروری ہے اور کسی خاص فرد یا کسی خاص گروہ کے فائدہ کی خاطر معاشرہ کے فائدوں کو قربان نہ کرے۔

اسلام اس نکتہ کا بھی اضافہ کرتا ہے کہ قانون گذاری کا اصل حق اسی کو ہے جو انسانوں کو امر ونھی کرسکتا ہو،اگر کوئی معاشرہ کی مصلحتوں کا علم رکھتا ہو او روہ معاشرہ کی مصلحتوں کو اپنی ذاتی مصلحتوں پر مقدم کرے پھربھی قانون گذاری کا حق اصالةً اس کو نہیں ہے؛ کیونکہ ہر قانون خواہ ناخواہ امر ونھی رکھتا ہے ، جیسا کہ ہم نے بحث ”حق وتکلیف “کے بارے میں گذشتہ جلسوں کے دوران عرض کیا کہ ہر قانون صریحاً یا اشارةً امر ونھی رکھتا ہے ، مثلاً تایک دفعہ کھا جاتا ہےکہ دوسروں کے مال کا احترام کرو اور اس میں تجاوز نہ کرو،یہ امر صریح او رواضح ہے لیکن کبھی قانون میں ظاہری طور پر امر ونھیں ہوتا ،مثلاً کھا جائے کہ آپ کے لئے اس طرح کا حق ہے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوسرے اس حق کی رعایت کریں ، ان تمام چیزوں کا قانون ضامن ہوتا ہے،یعنی یہ ساری باتیں قانون کے اندر ہونا چاہئے گویا اس طرح کا امر پر بھی قانون مشتمل ہوتا ہے۔

لھٰذا قانون کو یہ حق ہے کہ دوسروں کو امر ونھی کرے اور یہ اصل حق خدا سے مخصوص ہے، چاہے شرط اول کے لحاظ سے دیکھا جائے جس میں یہ کھا گیا تھا کہ قانون گذار کو انسانوں کے مصالح سے آگاہ ہونا چاہئےے، یا شرط دوم کے لحاظ سے دیکھا جائے جس میں یہ کھا گیا تھا کہ قانون گذار وہ ہے جو اجتماعی مصالح پر فردی مصالح کو مقدم نہ کرے ، ان دونوں شرطوں کے اعتبار سے خدا متحقق ہے کیونکہ وہ انسانوں کے مصالح کا سب سے زیادہ عالم ہے ، چنانچ مذکورہ شرطیں سب سے زیادہ کامل خدا میں موجود ہیں ؛ کیونکہ انسان کے اعمال کا کوئی بھی فائدہ خدا کو نہیں پہونچتا، مثلاً اگر تمام انسان مومن ومتقی بن جائیں تو خدا کاکو ئی فائدہ نہیں ہے اور اسی طرح اگر تمام لوگ کافر ہوجائیں تو بھی خدا کا کوئی نقصان نہیں ہے،اگر تمام لوگ قوانین کی رعایت کریں تو بھی خدا کا کوئی فائدہ نہیں ہے اسی طرح اگر تمام لوگ قوانین کی مخالفت کریں تو بھی خدا کا کوئی نقصان نہیں ہے۔

لیکن تیسری شرط،(امر ونھی)خدا کے علاوہ کوئی بھی انسان اصالةً یہ حق نہیں رکھتاکہ کسی کو امر ونھی کرے، انسان دوسروے کو اس وقت امرونھی کرسکتا ہے جس اس کا دوسرے پر کوئی حق ہو اور لوگوں کا ایک دوسرے پر اس طرح کا کوئی حق نہیں ہے، خدا کی نظر تمام کے تمام انسان برابر ہیں ،خدا ان سبھی کا مالک ہے اور انسان اور اس کا تمام وجود خدا سے متعلق ہے ، لھٰذا صرف خدا کو انسانوں پر امر ونھی کا حق ہے۔

دوسرے الفاظ میں یہ عرض کیا جائے کہ انسانوں کے لئے ضروری ہے کہ خدا کی ربوبیت کو پہچانیں اور اس کی ربوبیت کے حق کو ادا کر ے اور خداوندعالم کی ربوبیت انسانوں کے لئے دو اعتبار سے ظاہر ہے:

۱۔تکوینی، یعنی کائنات کے چلانے کا حق صرف ذات باری تعالیٰ سے مخصوص ہے وہی کائنات کا مدبّر ہے، لھٰذا انسان اس چیز کا عقیدہ رکھے کہ خداوندعالم نے اس کائنات میں کچھ تکوینی قوانین نافذ کئے ہیں جن کے تعاون سے یہ کائنات رواں دواں ہے، چاند سورج اسی کے حکم سے گردش میں ہیں ، کائنات کا ذرہ ذرہ اسی کے اشارہ پر چلتا ہے،لھٰذا اس کائنات کا صاحب اختیار، ربّ تکوینی اور اس کائنات کا چلانے والاخدا وحدہ لاشریک ہے، اسی طرح یہ عقیدہ بھی رکھے کہ اس کائنات کا ربّ تشریعی بھی خدا وندعالم ہے، گذشتہ جلسہ میں اس سلسلہ میں گفتگو ہوچکی ہے کہ ربوبیت تشریعی بھی خداہی کا حق ہے اور ربوبیت تشریعی میں توحید اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انسان فقط خدا سے احکامات کو لے اور اس سے قانون کو اخذ کرے، اور قانون کو جاری کرنے والے افراد خدا کی اجازت سے معاشرہ میں جاری کرےں ۔

۳۔ قانون بنانے والے متعدد ہوسکتے ہیں (ایک اعتراض)

یھاں پر کچھ شبھات بیان کئے جاتے ہیں : (گذشتہ گفتگو میں ان اعتراضات وشبھات کے بارے میں ایک اشارہ ہوچکا، لیکن کبھی کبھی اخباروں یا تقریروں یا کانفرنس وغیرہ میں کچھ چیزیں بیان کی جاتی ہےں کہ جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یا تو ان لوگوں نے اس سلسلہ میں توجہ نہیں کی یا یہ کہ یہ بحث ان کو ھضم نہیں ہوئی،لھٰذا ضروری ہے کہ اس سلسلہ میں مزید وضاحت کردی جائے) ان شبھات میں سے ایک یہ ہے : کہ آپ کھتے ہیں کہ قانون کو خدا وضع کرے، جیسا کہ ربوبیت تشریعی اس بات کا تقاضا کرتی ہے،لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں ایسے قوانین کی ضرورت ہے کہ جن کو خدا نے نہیں بنایا بلکہ خود لوگوں نے ان قوانین کو بنایا ہے،اور اگر ان کو نہ بنایا جاتا تو معاشرہ میں بہت بڑی مشکل ہوتی، مثلاً وہ قوانین جو ہمارے اسلامی معاشرہ میں اسلامی پارلیمینٹ کے ذریعہ بنائے جاتے ہیں ، ان قوانین کی ہمارے معاشرہ کو ضرورت ہے، لیکن ان کو خدا وپیغمبر نے نہیں بنایا ، جن کا سب سے واضح نمونہ ٹریفک قوانین ہیں ، کہ اگر یہ قوانین نہ ہوتے تو پھر کتنے حادثہ ہوتے کتنے لوگوں کی جان خطرہ میں ہوتی اور کتنا مال برباد ہوتا۔

لھٰذا ایک طرف تو معاشرہ کو ایسے قوانین کی ضرورت ہے جبکہ خدا کی طرف سے ایسے قوانین نہیں بنائے گئے ہیں ، نہ ہی قرآن مجید میں اس طرح کے قوانین موجود ہیں اور نہ ہی حدیث رسول اکرم اور ائمہ کے کلمات میں یہ قوانین ملتے ہیں ، پس آپ کس طرح یہ کھتے ہیں کہ قوانین کو خدا کی طرف سے ہونا چاہئے اور خدا قوانین کو بنائے؟ اور اگر انسانی قانون گذار کے ذریعہ یہ قوانین بنائے جائیں اور ان کو معتبر سمجہا جائے تو اس بات کا نتیجہ یہ ہے کہ قانون بنانے والے دو مرجع ہوئے ایک خدا اور دوسرے انسان، اور یہ آپ کے بیان کے مطابق تشریع میں شرک ہے، یہ ایک مہم اعتراض ہے کہ جو مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے البتہ اس کا جواب بھی دیا جاچکا ہے لیکن جواب کو وہ لوگ صحیح ھضم نہ کرسکے۔

۴۔ گذشتہ اعتراض کا جواب

گذشتہ اعتراض کے جواب میں دو نکتوں پر توجہ کرنا ضروری ہے، پہلا نکتہ یہ ہے کہ قانون کی مختلف اصطلاحیں ہیں ، کبھی کبھی کلی قواعد کو قانون کھا جاتا ہے، اور ان میں جزئی اور دوسرے دستور العمل شامل نہیں ہوتے ،اور کبھی قانون کو اتنی وسعت دی جاتی ہے کہ اس دستور العمل کو بھی شامل ہوتا ہے جو ایک ادارہ کا رئیس اپنے کارکن کو دیتا ہے،البتہ یہ اطلاق بھی نادرست نہیں ہے بہرحال دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ قانون کی دو اصطلاح ہیں ایک خاص اور ایک عام، اور دونوں صحیح ہیں ، دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اسلام میں بہت سے ثابت قوانین ہیں ، جو کسی بھی وقت تبدیل نہیں ہوسکتے ،اورہر زمانہ میں تمام لوگوں کے لئے ثابت ہیں اور اسلام کے کچھ قوانین متغیرہیں ، جو زمان ومکان سے لحاظ سے ہیں اوران قوانین کو فقھاء ومجتھدین جن کو دین کی صحیح شناخت ومعرفت ہوتی ہے کلی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے بناتے ہیں ۔

ہم جس چیز پر زور دیتے ہیں وہ ایسے قوانین ہیں جو خداکی طرف سے ثابت قوانین ہیں اور متغیر قوانین کے لئے خاص شرائط ہیں ، ورنہ ممکن نہیں ہے کہ تمام ثابت متغیر قوانین کسی ایک قانون گذار کے ذریعہ بنائے جائیں ، اور لوگوں کو تک پہونچائے جائیں ، متغیر قوانین اپنے زمان ومکان کے اعتبار سے لاتعداد ہیں ،اور ان کی کوئی حد نھیں ، اور انسان کی ذہینت آغاز دنیا سے لے کر آخر تک کے متغیر قوانین کے تصور سے عاجز ہے، لھٰذا متغیر قوانین اپنے زمانہ کے اعتبار سے جو اس زمانہ اور مکان کا تقاضہ ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں ، مثال کے طور پر چونکہ رسول اسلام کے زمانہ میں کوئی بھی موٹر گاڑی نہیں تھی تو اس موقع پر اگر یہ کھا جاتا کہ گاڑیوں کو داہنی طرف چلنا چاہئےے یا بائیں طرف، تو کیا اس وقت کے لوگ اس قانون کو سمجھ سکتے تھے، اور اس قانون کے معنی کو درک کرسکتے تھے؟ لھٰذا قانون کو اس کے زمانہ کے لحاظ سے ہونا چاہئے، البتہ ان قوانین کے کچھ خاص شرائط ہیں کہ جن کو خدا بیان کرتا ہے، لھٰذا جو لوگ ان متغیر قوانین کو مرتب کریں ان کے لئے ضروری ہے کہ ان شرائط کی رعایت کریں ، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قوانین وہ حضرات بناسکتے ہیں کہ جو ثابت قوانین اور متغیر قوانین کے شرائط کو بہت ر طور پر جانتے ہوں ۔

پس ہماری مراد اس قول سے کہ قوانین کو خداکی طرف ہونا چاہئےے، یہ ہے کہ ثابت قوانین ہمیشگی ہیں اور متغیر قوانین کے لئے بھی شرائط خدا کی طرف سے معین شدہ ہوں ،جن کو متغیر قوانینکا میزان قرار دیا گیا ہے ، اس سلسلہ میں قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ ا لاَّ تَطْغَوا ِفیْ الْمِیْزَانِ ) (۱)

”اور ترازو (انصاف) کو قائم کیا تاکہ تم لوگ ترازو (سے تولنے) میں حد سے تجاوز نہ کرو“

الہی اور توحیدی نظریہ جس بات کی تاکید ہے اور تقاضا کرتا ہے وہ تیسرا نکتہ ہے جس کو ہم نے قانون بنانے کے سلسلہ میں گفتگو کے دوران بیان کیا، اور وہ یہ ہے : چونکہ قانون میں امر ونھی ہوتا ہے، او رجس کو قانون بنانے کا حق ہے اس کو امر ونھی کرنے کا بھی حق ہونا چاہئے، اور وہ خدا کے علاوہ کوئی نہیں ہے، خود انسان ایک دوسرے پر امر ونھی کا حق نہیں رکھتے لھٰذا قانون کو بھی نہیں بناسکتے اور نہ ہی اس کوجاری کرسکتے، لھٰذا اگر زمان ومکان کے لحاظ سے متغیر قوانین کو بنانا پڑے تو اس کی اجازت بھی خدا کی طرف سے ہو، کیونکہ صرف وہی ہے کہ جسے امر ونھی کا حق ہے،اور وہی دوسروں کو یہ حق عطاکرسکتا ہے تاکہ ان کے بنائے ہوئے قوانین معتبر ہوسکیں ۔

۵۔ قانون گذاری میں خدا کی اجازت بے اثر ہے .(دوسرا اعتراض)

ایک دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ قانونگذاری میں خدا کی اجازت کا معتبر ماننا صرف ایک دعوی ہے، جس کا کوئی اثر نہیں ہے، اور ایسا نہیں ہے کہ اس شرط سے قانون گذاری میں کوئی تغیر ومشکل ایجاد ہو، اور یہ صرف ایک الفاظ کا کھیل ہے، مثلاً اسلامی پارلیمینٹ میں ممبران جمع ہوکر کسی اجتماعی متغیر امر کے لئے قانون بنانے کا مشورہ کریں ، اور اس کے بعد کوئی خاص قانون بنا کر پیش کریں ، اس موقع پر کیا فرق ہے کہ خدا نے اجازت دی ہے یا نھیں ؟ یہ صرف ایک لفظ ہے جس کو استعمال کیا گیا ہے او راس کا کوئی اثر نہیں ہے، لھٰذا قانون کا معیار یہ ہے کہ اچھائیوں اور برائیوں کو جاننے والے حضرات اس کی تحقیق وبررسی کرکے کوئی قانون بنادیں ، اب یھاں کیا فرق پڑتاہے کہ یہ قانون اس کی طرف سے قانون گذاری کا حق ہے یا قانون دان افراد کے ذریعہ یہ قانون بنادیا جائے،(توجہ رہے کہ یہ اعتراض بھی اپنی جگہ اہم ہے)۔

۶۔گذشتہ اعتراض کا جواب

اس اعترا ض کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ ہم اس طرح کی اجازت کو معتبر جانتے ہیں ، اور اصطلاح میں اس کو ایک امر اعتباری کھا جاتا ہے، اور کسی کا کسی دوسرے کو کسی کام کی اجازت دینے سے کام کی حقیقت نہیں بدلتی، لیکن کیا انسان کی اجتماعی زندگی ان اعتبارات کے علاوہ ہے؟ مثلاً اگر کسی شخص نے اپنی گاڑی کو کسی جگہ کھڑا کردیا ہے او رآپ کو اس گاڑی کی ضرورت پڑجاتی ہے ،آپ اس پر بیٹھےں او راپنے کام کرکے واپس آجائیں تو کیا آپ اس کی اجازت کے بغیر اس گاڑی کو لے جاسکتے ہیں ؟ اور ہوسکتا ہے کہ گاڑی کا مالک آپ کو اجازت بھی دیدے، لیکن جب تک اس کی اجازت نہیں ہے کیا آپ کو حق ہے کہ اس کی گاڑی کو لے جائیں ؟

اگر آپ کو اجازت دیدے تو آپ اس کو لے جاسکتے ہیں ، لیکن اگر اس کی اجازت نہیں ہے اور آپ اس کی گاڑی میں بیٹہ کر چل دیں تو کیا یہ آپ کا کام خلاف قانون نہیں ہے؟ اور گاڑی کا مالک آپ پر مقدمہ میں دائر کرسکتا ہے کیونکہ اس نے آپ کو اجازت نہیں دی تھی۔

دوسری مثال تصور کیجئے کہ کوئی مرد وعورت آپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں ،کافی مدت سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں مثلاً کافی مدت سے کسی ایک ادارے میں کام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے اخلاق سے بھی واقف ہیں ، ایک دوسرے کے گھر والوں کو بھی جانتے ہیں کہ مومن متدین ہیں ، اور اب شادی کی تمام تیاریاں پوری ہوگئی ہیں ؛ لیکن جب تک نکاح نہ ہوجائے یا ہر مذہب کے رسم ورواج پورے نہ ہوجائیں ،اس وقت تک ان مرد وعورت میں جنسی رابطہ غیر مشروع ہے، ٹھیک ہے کہ نکاح الفاظ کے علاوہ کچھ نھیں ھے، دونوں کی مرضی سے یہ نکاح ہوتا ہے، لیکن یہ ایسے الفاظ ہیں جن سے ھزاروں حرام چیزیں حلال ہوجاتی ہیں ، اور ھزاروں حلال چیزیں حرام ہوجاتی ہیں ،انسان کی اجتماعی زندگی انہیں اعتباروں چلتی ہے، یعنی اجتماعی زندگی انہیں اجازت، دستخط، یا رد کرنے پر متوقف ہوتی ہے۔

تیسری مثال : فرض کریں کہ کسی کو شہر کاڈی ایم( D.M ) معین کیا جائے لیکن ابھی تک اس کا حکم نامہ نہیں آیا ہے اور اس کو اس عنوان سے نہیں پھچنوایا گیا ہے، تو کیا اس کا حق ہے کہ وہ ( D.M ) کے دفتر میں جاکر بیٹہ جائے اور دستوارت صادر کرے، ظاہر ہے کہ اس کو یہ حق نہیں ہے، اور ذمہ دار لوگ اس کو وہاں سے باہر نکال کھڑا کریں گے، اور کھیں گے کہ یہ ڈی ایم کی کرسی ہے! لیکن اگر وہ کھے کہ مجھے ایک مھینہ کے بعد اس شہر کا ڈی .ایم بنایا جائے گا، تو اس کو جوا ب ملے گا کہ جس وقت تم کو یہ عھدہ سونپ دیا جائے گا تو آپ ہمارے ڈی ایم ہونگے، لیکن اگر وہ کھے کہ صرف رئیس اعلیٰ کاایک دستخط اور اجازت ہی باقی ہے ، کوئی بات نہیں ، جواب ملے گاکہ وہی ایک دستخط تو آپ کے اعتبار کے لئے ضروری ہے، تومعلوم ہوا کہ تمام اجتماعی امور صرف ایک دستخط او راجازت پر متوقف ہوتے ہیں ، قانون گذاری بھی اسی طرح ہے، حق قانون گذاری خدا کا حق ہے ،صرف اسی کی ایک اجازت سے دوسروں کے بنائے ہوئے قانون معتبر ہوجاتے ہیں ، اس کے علاوہ یہ قوانین معتبر نہیں ہوسکتے:

( قُلْ ءَ اللّٰه ا ذِنَ لَکُمْ ا مْ عَلَی اللّٰه تَفْتَرُوْنَ ) (۲)

”(اے رسول) تم کھہ دو کہ کیا خدا نے تمھیں اجازت دی ہے یا تم خدا پر بہت ان باندھتے ہو“

اگر خدا نے تم کو اجازت نہ دی ہو تو پھر تمھیں کیا حق پہونچتا ہے کہ تم کسی چیز کو حلال کھو یا حرام؟ قانون بنانا یعنی یہ کام جائز ہے یا وہ کام جائز نھیں ، یہ کام حلال ہے اور وہ کام حرام ہے، جب تک تم کو خداکی طرف سے اجازت نہ ہو تو کیا تم کو اس طرح کے احکام صادر کرنے کا حکم ہے؟ جمہوری اسلامی ایران کی اسلامی پارلیمنٹ اور شاہ کے زمانہ کی پارلیمینٹ میں صرف اسی ایک بات کا فرق ہے کہ یہ پارلیمینٹ اس کے حکم سے کام کرتی ہے کہ جو خدا کی طرف سے ماذون (اجازت یافتھ) ہے، یعنی ولی فقیہ اس پارلیمینٹ کومتغیر قانون بنانے کی اجازت دیتا ہے اور انہیں کی اجازت کی وجہ سے یہ پارلیمینٹ معتبر ہوتی ہے۔

جب اس وقت ولی فقیہ امام زمانہ (عج) کی طرف سے یہ حق رکھتا ہے تو پھر دوسروں کو یہ حق نہیں ہے ، جس طرح امام زمانھ(عج) کو خدا کی طرف سے یہ حق ہے تو پھر کسی دوسرے کو یہ حق نہیں ہے،بہر حال جس شخص کوبراہ راست یا غیر مستقیم طور پر خدا وند کی طرف سے اجازت ہے وہ دوسروں کے امور میں تصرف اور دوسروں کو امر ونھی کرسکتا ہے، لیکن جس کو خدا کی طرف سے اذن نہیں ہے وہ امر ونھی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ،چنانچہ اس کی امر ونھی کا کوئی اثر نہیں ہے۔

(ہم اپنی نظری اور تھیوری بحث میں نہیں چاہتے کہ کسی کی گفتگو کی بناپر بحث کریں ، لیکن امام خمینی کو دوسروں کی فہرست میں نہیں رکھا جاسکتا، ان کی گفتگو قرآن وحدیث سے اخذ شدہ ہوتی تھی، لھٰذا ان کی گفتگو سے دلیل پیش کرنے میں کوئی حرج نھیں ھے) امام خمینی اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں : ”یھاں تک کہ اگر کوئی صدر بھی ولی فقیہ کی طرف سے منصوب نہ ہو تو وہ طاغوت ہے اور اس کی اطاعت جائز نہیں ہے“(۳)

صدر کو خود افراد اپنے ووٹ کے ذریعہ انتخاب کرتے ہیں لیکن اگر ولی فقیہ کی طرف سے اجازت نہ ہو تو امام خمینی کے فرمان کے مطابق طاغوت ہے، او راس کا امر ونھی معتبر نہیں ہے، اور اس کی اطاعت بھی جائز نہیں ہے، حضرت امام خمینی نے تمام صدرورئیس جمہور کو منصوب کرتے وقت فرمایا کہ میں تم کو منصوب کرتا ہوں ،(بعض موقع پر آپ نے وضاحت کے ساتھ فرمایا کہ میں چونکہ تم پر الٰھی ولایت رکھتا ہوں اس وجہ سے صدارت پر منصوب کرتا ہوں ) درحالیکہ لوگوں نے ان کو ووٹ دیا ہے اور ان کا ووٹ دینا بھی صحیح اور مورد تائید ہے۔

البتہ تمام لوگ بھی اجتماعی کاموں میں شرکت کریں اور ان کا شرعی وظیفہ ہے کہ ووٹینگ میں شرکت کریں ،اسی وجہ سے جس وقت انتخابات شروع ہوتے تھے امام خمینی فرماتے تھے: انتخابات میں شرکت کرنا ایک شرعی وظیفہ ہے او رتما م لوگوں کو شرکت کرنا ضروری ہے؛ لیکن ہر قانون گذار وصاحب منصب کا اعتبار خدا کی طرف پلٹنا چاہئے، کیونکہ وہی صاحب اختیار ہے ، خدا ہی نے پیغمبر او رائمہ معصومین علیہم السلام کو حکومت وقانون گذاری کی اجازت دی ہے، اور پیغمبر وائمہ معصومین علیہم السلام کی طرف سے عمومی طورپر ولی فقیہ منصوب ہوتا ہے جس طرح ان حضرات کے زمانے میں والی شہر وحاکم شہر معین ہوتے تھے،اور امام معصوم کی اجازت سے مشروعیت پیدا کرتا ہے اور جب ان کو اجازت مل گئی تو وہ معتبر ہوگئے۔

پس یہ اعتراض کہ اجازت ہونا یا نہ ہونا یا دستخط کرنا یا نہ کرنا قانون کے اجراء اور وضع کرنے میں کوئی فرق نہیں کرتا ،توجواب یہ ہے کہ فرق وہی فرق ہے کہ جو تمام اجتماعی امور میں فرق ہوتا ہے ، جس ڈی ایم کا ابھی حکم نامہ نہ آیا ہو اس کا دوسروں سے کیا فرق ہے؟ یا تعلیمی بورڈ کا آفیسرجس کا ابھی حکم نامہ نہیں آیا دوسروں سے کیا فرق رکھتا ہے؟ اگرچہ طے یہ ہے کہ ابھی کچھ دنوں کے بعد ان کا حکم نامہ آجائے گا، لیکن جب تک ان کا حکم نامہ نہ صادر ہو اس وقت تک ان کی کوئی اہمیت نھیں ،جس وقت یہ حکم نامہ ان تک پہونچ جائے گا اس وقت سے وہ اس عھدے پر فائز ہوجائیں گے، صرف ایک دستخط سے یہ حضرات دوسروں کے مال میں تصرف کرسکتے ہیں ، جس طرح اگر کوئی شخص اپنی لاکھوں کی دولت آپ کے سپرد کردے یا آپ کوبخش دے اور آپ کو اجازت دےدے کہ جس کام میں بھی چاہیں خرچ کریں یا کوئی اپنا مال عمومی طور پر وقف کرے یا کسی خاص آدمی کو بخش دے ، بہر حال صرف ایک لفظ کھنے سے کہ ”میں نے اپنا مال تمھیں بخش دیا“ کام تمام ہوجاتا ہے او راس مال میں دخل وتصرف حلال ہوجاتا ہے،لیکن اگر اس کی اجازت نہ ہو اور اس نے نہ بخشا ہو ،تو اس کے مال میں تصرف کرنا حرام ہے او راگر کوئی اس کے مال میں اس طرح تصرف کرے تو وہ مجرم ہے۔

نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ تمام اجتماعی مسائل اسی طرح کے اعتبارات پر ہوتے ہیں او رجب تک یہ اذن واجازت نہ ہوں اجتماعی امور میں وہ کام معتبر نہیں سمجہا جاتا، تو پھر کس طرح یہ کھا جاتا ہے کہ خدا کی طرف سے حکومت کرنے والے اور ان کو امر ونھی کرنے والے کو اجازت کی ضرورت نہیں ہے؟

کیا خدا کی اجازت کے بغیر اس کے بندوں پر حکومت کی جاسکتی ہے؟ لوگ ہمارے بندے تو ہےں نھیں کہ ہم کو ان پر حکومت کرنے کا حق ہو، لوگ خدا کے بندے ہیں حاکم وراعیٰ خدا کی نظر میں برابر ہیں اور جب تک خدا اجازت نہ دے تو پھر رہبر ،امت، رئیس اور عوام الناس سب برابر ہیں اور جب خدا اجازت دےدے تب لوگوں پر اس کے امر ونھی معتبر ہوتے ہیں ۔

۷۔کیا انسان اپنی زندگی پر حقِ حاکمیت رکھتا ہے؟

یھاں پر ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی پر خود حق حاکمیت رکھتا ہے ، اگرچہ ہم نے اس موضوع کے سلسلہ میں گفتگو کی ہے لیکن چونکہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اخباروں اور دوسرے رسالوں او ربعض مودب افراد کی تقریروں میں بیان ہوتا ہے یھاں تک ”ٹی .وی“ کے بعض کانفرنسوں میں بیان ہوتا ہے کہ لوگوں کی آزادی قابل احترام ہے،جیسا کہ قانون اساسی میں بھی موجود ہے کہ لوگ اپنی زندگی پر خودحق حاکمیت رکھتے ہیں ،یعنی از جانب پروردگار انسان خود مختار ہے؛ لھٰذا ضروری ہے کہ اس سلسلہ میں مزید وضاحت کردی جائے:

لفظ ”حاکمیت“ کا استعمال حقوق الناس میں دو جگہ استعمال کیا جاتاہے(البتہ چونکہ الفاظ ایک دوسرے کے مشابہ ہیں ، چنانچہ جن کو اچھی طرح واقفیت نہیں ہوتی وہ ان الفاظ کو جابجا استعمال کرتے ہیں )

اول: پہلی وہ جگہ ہے جہاں اقوام عالم کے حقوق کا ذکر کیا جاتا ہے اور کھا جاتا ہے کہ ہر قوم وملت اپنی سرنوشت پر حاکم ہے، یہ ایک اصطلاح ہے کہ جو بین الاقوامی حقوق میں بیان ہوتی ہے، یہ اصطلاح مختلف ممالک کے آپسی روابط اور ایک دوسرے کے سامنے ان کا موقف اور پھر استعماری طاقتوں سے مقابلہ آرادئی کرنا جیسے مباحث اور موارد میں استعمال ہوتی ہے. ۱۸ویں اور ۱ ۹ ویں صدی عیسوی میں خصوصاً مغربی ممالک میں استعمارگری کا دور دورہ شروع ہوا،چنانچہ جس کے پاس جتنی طاقت ہوتی تھی اسی مقدار میں دوسرے ملکوں پر قبضہ کرلیتا تھا، یا اپنی طرف سے کسی ملک پر حاکم معین کردیتا تھاکہ جو وہاں پر حکومت کرتا تھا، یعنی ایک ملت کی سرنوشت (مقدر) پر دوسروں کے ھاتھوں میں ہوتی تھی یا پھر دوسرا ملک ان ک قیم اور ذمہ دار ہوتا تھا، اصل ”قیمومیت“ ان موضوعات میں سے ہے جو بین الاقوامی حقوق میں بیان کیا جاتا ہے، پس جب لوگ عالمی ظلم سے واقف ہوگئے اور اپنے حقوق کے طالب ہوگئے تو ملت کی حاکمیت کا مسئلہ پیدا ہوا، اور اہستہ اہستہ مسئلہ حاکمیت ملت نے بین الاقوامی حقوق میں اپنی جگہ بنالی، اور کھا جانے لگا کہ ہر قوم اپنی سرنوشت پر حاکم ہے؛ یعنی دوسروں کو استعمار اور قیمومیت کا حق نہیں ہے، ”حاکمیت ملّی“ یعنی ہر قوم وملت مستقل ہے اور اپنی سرنوشت پر خود حاکم ہے اور کسی ملت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسری ملتوں کا اپنے کو حاکم سمجھے، کسی بھی حکومت کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی دوسرے ملک میں اپنی حاکمیت چلائے، پس یہ ایک ایسی اصطلاح ہے کہ جو بین الاقوامی روابط میں بیان ہوتی ہے۔

حاکمیت کی دوسری اصطلاح خود معاشرہ سے متعلق ہے، اور یہ اصل اساسی وبنیادی حقوق سے مربوط ہے، یعنی ایک وہ معاشرہ کہ جس میں مختلف گروہ مختلف اقوام شامل ہےں ، (قطع نظر اس چیز سے کہ اس معاشرہ کا دوسرے ملکوں سے کیسا رابطہ ہے) ان میں سے کسی قوم یا گروہ کو یہ حق نہیں ہے کہ خود کو دوسروں پر حق حاکمیت رکھتا ہو،برخلاف اس نظریہ کے کہ جو دنیا کے بعض ملکوں میں پایا جاتا ہے، کہ جن طبقاتی نظام قائم ہے اور ایک قسم قوم ذات پات کے لوگ حاکم ہوتے تھے جیسے ھندوستان میں ٹھاکر،پنڈات کے حاکم ہونے کا رواج تھا یا مسلمانوں میں سید اور پٹھان حاکم ہوتے تھے وغیرہ وغیرہ۔

خلاصہ یہ کہ اصل یہ بیان کرتی ہے کہ ہر شخص اپنی سرنوشت پر حاکم ہے ، دوسرا اس پر حاکمیت نہیں رکھتا، پس کسی بھی معاشرہ کا کوئی فرد یہ نہیں کھہ سکتا کہ میں فلاں گروہ یا فلاں قبیلہ کا حاکم ہوں ،(یہ تھی ایک اصل)

ہم نے جو کچھ ذکر کیا ، اس بات پر توجہ کرنے کے لئے تھا کہ ان دونوں اصول کا ماحصل یہ تھا کہ انسانوں کے درمیان رابطہ کی فضاء کو ہموار کیا جائے چاہے پہلی اصل ہو یا دوسری اصل ، کیونکہ پہلی اصل جو عمومی بین الاقوامی حقوق سے متعلق ہے ،جس کا کام ملکوں اور حکومتوں کے درمیان رابطہ کو بیان کرنا تھا اور واضح طور پر اس بات کو کھتی ہے کہ ہر ملت اپنی سرنوشت پر حاکم ہے، اور کسی دوسرے ملک کو ان پر حاکمیت کا حق نہیں ہے، لھٰذا اس اصل کے اندر اس چیز کو دیکھا گیا ہے کہ ایک معاشرہ دوسرے معاشرہ کے افراد سے کیا روابط رکھنے کے لئے نظر رکھتا ہے، دوسری اصل میں خود اپنے ملک کے افراد کے حقوق کا مسئلہ زیر بحث آتا ہے یعنی دوسری اصل ملکی افراد کے حقوق کے بارے میں بحث کرتی ہے، اس میں یہ بیان ہوتا ہے ہر انسان اپنی سرنوشت پر حاکم ہے، یعنی دوسرے کسی انسان کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے پر حکومت کرے۔

بہر حال یہ تمام اصول انسان کے ایک دوسرے سے رابطہ سے متعلق ہیں نہ کہ انسان کے خدا سے رابطہ سے، جن لوگوں نے ان اصول کو بیان کیا ہے (چاہے کسی دین کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں ) اس سے مراد کبھی بھی انسان کے خدا سے رابطہ کو مراد نہیں لیا ہے تاکہ یہ کھا جائے کہ خد ا بھی انسانوں پر حق حاکمیت نہیں رکھتا، وہ یہ بیان نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ وہ انسانی روابط یا حکومتی روابط کو بیان کرنا چاہتے تھے، کہ کیا کسی استعمار ی حکومت کو یہ حق ہے کہ وہ کسی دوسری حکومت پر قبضہ کرے یا نھیں ؟ یا ملکی پیمانے پر کسی ایک گروہ یا قبیلہ کو یہ حق ہے کہ وہ ایک دوسرے پر حکومت کریں یعنی کسی قبیلہ کی سرنوشت دوسرے قبیلہ سے متعلق ہے یا نھیں ؟

انسان اپنی سرنوشت پر حاکم ہے اس کے معنی یہ ہیں ،کہ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی آقائی کو کسی دوسرے پر مسلط کرے، نہ یہ کہ یہ حق خدا کو بھی نہیں ہے، اب اگر فرض کریں کہ وہ تمام لوگ کہ جنھوں نے ان قوانین کو بنایا اور ان اصولوں کو بیان کیا ، کیا وہ بے دین تھے اور خدا کو نہیں مانتے تھے، لیکن جب اسلامی جمہوری ایران کا قانون اساسی بن رہا تھا کہ انسان اپنی سرنوشت پر حاکم ہے تو کیا یھاں بھی خدا کو نادیدہ قرار دیا گیا؟ یعنی کیا خدا کو بھی حق نہیں ہے کہ وہ انسانوں کو حکم دے؟

یا یہ کہ یہ اصل وہی ہے کہ جو اس وقت کی دنیا میں رواج یافتہ ہے ، کہ جس کی بناپر کسی انسان کودوسروں پر حکومت کرنے کا حق نہیں ہے، او ردوسروں کی سرنوشت پر حاکم نہیں ہیں ؟ وہ لوگ یہ بالکل نہیں چاہتے تھے کہ یہ کھیں کہ خدا حق حاکمیت نہیں رکھتا، اس بات کی شاہد وہ بہت سی چیزیں ہیں کہ جن کو قانون اساسی بیان کرتا ہے اور اس بات کو واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ معاشرہ میں الہی قوانین کا جاری ہونا ضروری ہے، ان اصول کے باوجود کس طرح یہ ممکن ہے کہ کوئی یہ سوچے کہ یہ حاکمیت جو انسانوں کے لئے طے ہے اس سے خدا کی حاکمیت کی نفی کرےں ، ! کیا کوئی عقلمند جمہوری اسلامی کے قانون اساسی سے یہ نتیجہ نکال سکتا ہے؟

۸۔ انسان کی حاکمیت خدا سے نہیں ٹکراتی

تاکہ ہماری بحث اچھے طریقے سے واضح ہوجائے دوسرے علوم کی مثالیں پیش کرتے ہیں ،تاکہ ان باتوں کو اچھی طرح واضح کیا جاسکے، اور شیطانی شبھات اور سوء استفادہ کے لئے کوئی جگہ باقی نہ رہے: ”اعتماد بنفس“ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کو ہماری ملت بلکہ دنیا کے تما م لوگ اس سے اچھے طرح واقف ہیں (کیونکہ یہ عالمی تمدن کا ایک جز بن چکا ہے) اور یہ مسئلہ ”علم نفسیات “ علم سے مربوط ہے کھا یہ جاتا ہے کہ انسان کو اپنے نفس پر اعتماد رکھنا چاہئے، یہ جملہ مکرر سنا جاتا ہے اور کتابوں میں بھی اس کو بہت پڑھا جاتا ہے، اور ریڈیو ،ٹی،وی،میں اس مسئلہ کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے خصوصاً تربیتی اور فیملی گفتگو میں ، اور کھا جاتا ہے کہ بچوں کی اس طرح تربیت کی جائے کہ اپنے نفس پر اعتماد پیدا کریں ، او رجوانوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کریں کہ اعتماد بنفس پیدا کریں ، اسی طرح اخلاقی مسائل میں اس بات پر بہت توجہ دی جاتی ہے کہ لوگوں کو اپنے نفس پر اعتماد رکھنا چاہئے، اور دوسروں بوجہ نہ بنیں ، جبکہ اسلام اس کے مقابلہ میں ایک دوسری چیز بیان کرتا ہے جو ”توکل علی اللہ" ہے یعنی خدا پر بھروسہ اور اعتماد کرنا اپنے تمام امور میں یعنی انسان کو خدا کے مقابلہ میں اپنے کو کچھ نہیں سمجھنا چاہئے، اور تمام چیزوں کو اسی سے طلب کرے اور صرف اسی کو سب کچھ مانے۔

( وَإِنْ یَمْسَسْکَ اللّٰه بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَه إلاَّ هوَ وَإِنْ یُرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِه یُصِیْبُ بِه مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِه وَهوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ) (۴)

”(یادرکھو کہ) اگر خدا کی صرف سے تمھیں کوئی برائی چھو بھی گئی تو پھر اس کے سوا کوئی اس کا دفع کرنے والا نہیں ہوگا،اور اگرتمھارے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو پھر اس کے فضل وکرم کا پلٹنے والا بھی کوئی نہیں وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے فائدہ پہونچائے او روہ تو بڑا بخشنے والا مھربان ہے“

نفع ونقصان اس کی طرف سے ہے اور خدا کے مقابلہ میں انسان کا ارادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا ، انسان خدا کی عظمت کے مقابلہ میں ایک معمولی چیز ہے، اسلامی اور قرآنی تعلیمات میں اس چیز کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان کی اس طرح تربیت ہو کہ اپنے کو خدا کے مقابلہ میں بہت چھوٹا اور ناچیز تصور کرے، اور اسلام میں تربیت اسی بنیاد پر ہوتی ہے کہ انسان اللہ کی ربوبیت اور اپنی عبودیت کا قائل رہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح یہ ممکن ہے کہ ایک طرف سے انسان اپنے نفس پر اعتماد بھی رکھے، اور دوسری طرف خدا کے مقابلہ میں اپنے کو ناچیز بھی سمجھے؟ کیا خود کو خدا کے مقابلہ میں ناچیز سمجھنا ، اعتماد بنفس کے ساتھ ہم اہنگ ہے؟ یہ نظریہ اس اعتراض کی طرح ہے کہ جو حاکمیت کے بارے میں بیان ہوچکاہے، کہ جو سیاسی مسائل سے مربوط ہے، اور یہ شبہ واعتراض علم نفسیات اور اخلاقی تربیت میں بیان ہوتا ہے. ہم نے ان دوچیزوں کا موازنہ کیا ہے، چونکہ یہ دو چیزیں آپس میں مشترک ہیں ان کوسمجھنے کے لئے ذہن تیار ہونا چاہئےے ، عرض کرتے ہیں کہ یہ علم نفسیات کا مسئلہ جو دوسروں پر اعتماد کے مقابلہ میں اپنے نفس پر اعتماد پر تاکید کرتا ہے، اور کھتا ہے کہ بچوں کی اس طرح تربیت کی جائے کہ اپنے ماں باپ اور دوستوں پر تکیہ نہ کرےں ، اور دوسروں پر بوجہ نہ بنےں ، نہ یہ کہ اپنے کو خدا کا بھی محتاج نہ مانےں ۔

انسان کا ایک دوسرے سے رابطہ کے متعلق گفتگواور اسی طرح ”اعتماد بنفس“ کا مسئلہ جس میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اپنے کردار کو اتنا مضبوط بنالوکہ کسی دوسرے پر تکیہ نہ کرویہ ایسا مسئلہ ہے کہ اسلام میں بھی اس کی تاکید ہوئی ہے، حضرت رسول اکرم او رائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت میں اس بات پر تاکید ہوئی ہے، لیکن افسوس کہ ان مسائل پر کم توجہ کی گئی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے مسائل مغربی ممالک کی نئی طرز تفکر ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے ائمہ اطھار ان چیزوں کو پہلے بتا چکے ہیں آنحضرت کے زمانہ میں آپ کے اصحاب اس طرح کی تربیت سے آراستہ تھے، چنانچہ اگر کوئی گھوڑے پر بیٹھا جارہا ہے اور اس کے ھاتہ سے تازیا نہ گرگیا ہے تو وہ اس دوست سے نہیں کھتے تھے جو اس کے ساتھ چل رہا ہے کہ اس کے تازیانہ کو اٹھاکر دیدو، بلکہ خود گھوڑے سے اتر کر اس کو اٹھالیتے تھے، او رپھر گھوڑے پر سوار ہوجاتے تھے، ! یہ اسلامی تربیت ہے کہ جو ہم سے یہ چاہتا ہے کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں ، ہم خود اپنا بوجہ سنبھالیں ، او رخود کو دوسروں کا محتاج نہ بنائیں ، اور دوسروں پر نظریں نہ دوڑائیں ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کے مقابلہ میں بھی اپنے کو بے نیاز سمجھیں :

( یَا ا یُّها النَّاسُ ا نْتُمُ الْفُقْرَاءُ إِلَی اللّٰه وَاللّٰه هوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ ) (۵)

”لوگو! تم سب کے سب خدا کے(ھروقت)محتاج ہو اور (صرف)خدا ہی (سب سے) بے پروا سزاوار حمد (وثنا) ہے“

کیا یہ فقر وناداری والا انسان اپنے کو خدا سے بے نیاز سمجھے؟ خدا کے مقابلہ میں بے نیازی کا اظھار کرنا شرک ہے، لھٰذا اعتماد بنفس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خدا پر بھی اعتماد نہ رکھا جائے، اور اگر کوئی یہ کھے کہ خدا پر بھی اعتماد نہ کیا جائے، تو یہ قرآن کریم اور اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے، سیکڑوں آیات وروایات اس سلسلہ میں موجود ہیں کہ انسان اپنے کو خدا کے مقابلہ میں اپنے کو ہیچ سمجھے، اور تمام چیزوں کو خدا سے طلب کرے، اور اس بات کا اعتمادبنفس سے کوئی مطلب نہیں ہے،کیونکہ اعتماد بنفس کا مسئلہ انسانوں کے درمیان رابطہ کو بیان کرتا ہے چونکہ کوئی بھی کسی پر کچھ امتیاز نہیں رکھتا۔

لھٰذا اس بات کا جواب کہ اعتماد بنفس اور خدا پر توکل وبھروسہ ایک ساتھ کسیے جمع ہوسکتے ہیں ، یہ ہے کہ اعتماد بنفس کا تعلق انسانوں کے رابطہ سے ہے، کہ ایک دوسرے پر تکیہ نہ کریں اور کوئی بھی دوسروں سے آگے قدم بڑھا کر نہ رکھیں نہ یہ کہ خدا پر بھی اعتماد نہ رکھے.اسی طرح سیاسی مسائل میں ، انسان کی فردی حاکمیت کا مسئلہ ہے اور حاکمیت ملّی میں بھی اسی طرح ہے، حاکمیت ملّی یعنی ہر ملت خود اپنے پیروں پر کھڑی ہو اور دوسروں کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ ان پر حکمرانی کریں حاکمیت انسان پر خود یعنی کوئی بھی انسان خودبخود اپنے کو دوسروں کا حاکم تصور نہ کرے، نہ یہ کہ خداوندعالم بھی کسی پر حاکمیت نہیں رکھتا، دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ فردی اور ملّی حاکمیت خدا کی حاکمیت کے طول (بعد) میں ہے یعنی اصل حاکمیت خدا سے مخصوص ہے ، اور اس کے طول میں خدا نے جن کو حاکمیت کی اجازت دی ہے ،یعنی خدا نے حکومت کرنے کا جو دائرہ جن کے لئے بیان کیا ہے وہ لوگ صرف اسی دائرہ اور حد کے اندر حکومت کرنے کا حق رکھتے ہیں لھٰذا اگر خدا کی طرف سے اجازت نہ ہو تو پھر کسی انسان کو حق حاکمیت نہیں ہے۔

حوالہ

(۱)سورہ الرحمن آیت ۷،۸.

(۲)سورہ یونس آیت ۵۹

(۳)صحیفہ نور ج۹ص ۲۵۱

(۴)سورہ فاطر آیت ۱۵

(۵)سورہ یونس آیت ۱۰۷