اسلام اور سیاست جلد ۱

اسلام اور سیاست 0%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور سیاست

مؤلف: آیة اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 34324
ڈاؤنلوڈ: 2681


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 39 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34324 / ڈاؤنلوڈ: 2681
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد 1

مؤلف:
اردو

چوتھا جلسہ

دین میں سیاست کی اہمیت

۱۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر

گذشتہ جلسوں میں عرض کیا جاچکا ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کا میابی اور اسلامی حکومت کے قیام کے بعد ،اسلام دشمن طاقتیں اپنی پوری جد جھد اور تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہونچیں کہ اس اسلامی حکومت سے مقابلہ کے لئے انقلاب کی بنیادی او رمرکزی چیز کا مطالعہ کیا جائے جو ”ولی فقیھ“ کی ولایت وسرپرستی ہے، او راس کو اپنے پروپیگنڈے کی تیز دھار کا نشانہ بنایا جائے ، چنانچہ آج ہم دیکہ رہے ہیں کہ گذشتہ چند سالوں سے عصر حاضر تک اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ پر دنیا بھر سے مختلف اعتراض ہوتے رہتے ہیں او راس طرح دشمن طاقتوں کے نمائندے ملک میں ولایت فقیہ کے برخلاف تمام تر کوششوں میں مشغول ہیں ، ان تما م باتو ں کے باوجوداگرچہ ہماری قوم و ملت ولایت فقیہ کی حکومت پر بھر پور اعتمادو ایمان رکھتی ہے، او ر اس حکومت کی ہر اعتبار سے حمایت کرتے ہیں لیکن پھر بھی ضروری ہے کہ مذکورہ مسائل کے بارے میں تفصیلی بحث کی جائے تاکہ اس حکومت کی نظری او رفکری بنیادیں عوام اور بالخصوص جوان نسل کے لئے واضح وروشن ہوجائیں ۔

جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ اس سلسلے میں تین طرح کے اعتراض کئے جاتے ہیں :

پھلا اعتراض:

پھلا اعتراض یہ ہے کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے،اور ایک سیاسی لظام کسی بھی صورت میں دینی نہیں ہو سکتا ، گذشتہ جلسہ میں ہم نے اس اعتراض کا جواب دیا کہ اگرکوئی شخص چاہتا ہے کہ وہ یہ یکھے کہ اسلا م ایک دین اورمذہب ہونے کے عنوان سے کسی سیا ست سے منسلک ہے یا نہیں ؟ تو اس کے جواب کیلئے قر آن مجید کا اور اس میں بیان کئے گئے احکا م وقوانین کا ایک سطحی اور سر سر ی مطالطہ کا فی ہے اور حقیقت میں جوشخص مسلمان ہے اور قرآن پر اعتقاد رکھتا ہے اور اسی طرح وہ شخص جو مسلمان نہیں ہے ،لیکن اسلام کی شنا خت اور معرفت حاصل کر نا چاہتا ہے تو اس کو قرآن مجید کی طرف رجو ع کرنا چاہئے ،تب اس پر یہ حقیقت واضح ہو جا ئیگی کہ دین اور سیا ست کا ایک دوسرے سے جداہونا نا ممکن ہے ۔

اور یہ بات بھی واضح ہے کہ اسلام کی پہچان کا صحیح طریقہ قرآن مجید ہے ،جس طرح اگر ہم چاہیں کہ کسی ایک موضوع کے بارے میں عیسا ئیت کا نظریہ معلوم کریں تو اس کیلئے ہمیں انجیل کا مطا لعہ کرنا پڑے گا ،البتہ ہم نے جو کچھ بیان کیا یہ ان لوگوں کیلئے ہے جو مسائل کو سمجھنے کیلئے صحیح اور منطقی طریقہ اپنا ئیں چاہے بحث وگفتگوہو چاہے مطالعہ تحقیق وبررسی ہو ،صحیح طریقے کا انتخاب کریں ،لیکن دشمن بحث وگفتگو کیلئے صحیح اور منطقی طریقوں سے دوربھاگتا ہے کیونکہ ان کا مقصد صرف مومن لوگوں میں اعتراضات اور شبھا ت پیدا کرنا ہوتا ہے ،تا کہ ان کے ایمان کو نا قص کردیں چو نکہ ان کی بحث وگفتگو منطقی نہیں ہوتی کہ ہم اس کا جواب دیں ،لیکن پھر بھی اپنا وظیفہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اعتراضات اور شبھات کا متطقی جواب دیں ۔

۲۔کیادین سیاست سے جدا ہے؟)مذہبی و غیرمذہبی لوگوں کا نظریہ)

جن لوگوں نے دین کو سیا ست اور حکومت سے ہونے میں غیرمذہبی نظریہ کو انتحاب کیا ہے ،وہ لوگ کھتے ہیں ۔ہم کو قرآ ن سے کوئی مطلب نہیں اور اسلام پر غیرمذہبی نگا ہ سے دیکھتے ہیں ،اس سے پہلے کہ ہم اسلامی منابع وماخذ کی تحقیق وبررسی کریں یا یہ دیکھیں کہ قرآن سیاست سے متعلق کیا کھتا ہے ،یہ سوال کرتے ہیں کہ انسان کو دین کی کیا ضروت ہے ؟اور کن مسائل میں اس کو دین کی راہنمائی کی ضروت ہے ؟

انھوں نے اس مسئلہ سے متعلق اپنے خیا ل خام میں دو نظریہ فرض کیئے ہیں ،پھلافرض یہ ہے کہ انسا ن تمام چیزوں میں اور زندگی کے تمام امور میں دین کی ضروت رکھتاہو ،مثلاًکس طریقہ سے غذا آمادہ کی جائے اور کس طرح سے کھائی جائے ،یا کسی طرح مکان بنایا جائے ،شادی بیاہ کے کیا طریقے ہیں اور حکومت اور جامعہ کی تشکیل کو ایک ہی صف میں رکھا ہے ،اور اس طرح کھتے ہیں ، کیا دین کیلئے ضروری ہے کہ ان تمام مسائل کو حل کرے ،اور انسان کو علمی اور دقیق مسائل کی تحقیق کرنے کی کوئی ضروت نہیں ہے ،اور ہم کو اکثر مسائل میں دین کا منتظر نہیں اپنا چائیے کہ ہر چیز کی وضاحت دین ہی سے طلب کریں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم کوئی لباس بنانا چائیں تو پہلے یہ معلوم کریں اسلام کا نظریہ کیا ہے، اور اگرکھانا کھانا چاہیں تو دیکھیں کہ اسلام نے کن کھا نوں کی اجازت دی ہے ،اور اگر بیمار ہوجائیں اور ڈاکڑکے پاس جانا پڑے تو دیکھیں کہ اسلام نے اس سلسلے میں کیا وصیت کی ہے ؟نیز اس طرح اسلام نے حکومت اور سیاست کے بارے میں کیا نظر یہ پیش کیا ہے ۔

دوسرے فرض یہ ہے کہ دین فقط بعض چیزوں میں دخالت رکھتا ہے اور دین سے ہماری تو قعات حداقل در جہ پر ہونی چاہئے اور یہ بات طبیعی ہے کہ دین ہر اعتبار سے انسان کی ضروریات میں نظر نہیں رکھتا ، بلکہ کوئی بھی دین یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ انسان کی تمام ضروریات پوراکر سکتا ہے ۔

اور جب ہم نے یہ مشاہدہ کرلیا کہ دین ہم کو کھانا بنانا ،علاج کرنا ،ھوائی جہاز اور کشتی بنانا وغیرہ نہیں سکھاتا تو اب ہم کو یہ دیکھنا ہوگا ،وہ مسائل کہ جن کو اپنے سے بیان کیا ہے ان کا دوسرے مسائل سے بھی کیا امتیازھے ،اور اصلا دین نے کس کس میدان میں وارد ہوا ہے ۔

یہ لوگ اپنے خیال خام میں اس نتجہ پر پہونچے کہ ایک دوسری قسم کو لنتخا ب کریں اور وہ یہ ہے کہ دین فقط ان امور میں دنیاوی امور سے کوئی تعلق نھیں ۔

اور دین سے ہماری تو قعات کم سے کم ہونی چاہئے اور ہم کو چائیے کہ جن کے ذریعہ فقط ان چیزوں اور طریقوں کو پہچانیں کہ جن کے ذریعہ آخرت میں کا میابی ،جنت میں جانے، دوزخ سے نجات حاصل کی جاسکے ۔جیسے نماز پڑھنا ،روزہ ،رکھنا،حج کو انجام دینا اوردوسرے عبادی امورکو دین سے حاصل کریں ،

ان لوگوں نے اپنے خیا ل خام میں دین وسیاست کے ربط کو اس طرح حاصل کیا ہے کہ دین سیاست سے جدا ہے اور یہ کھا کہ سیاست کا دین سے کو ئی ربط نہیں ہے اور یہ کہ سیا ست کا دائرہ ونیوی امور میں ہے ،اور دین کا دائرہ آخرت سے مربوط ہے ،نہ دین کو سیا ست میں دخالت کرنا چائیے اور نہ ہی سیاست کو دین میں دخالت کرنی چائیے ،

لھٰذا وہ سیاست کہ جس کا تعلق دنیا اور علم سے ہے ،لھٰذا سیاست کو فقط علم اور انسا نی تر قی میں دخالت کا حق ہے چاہے وہ علم فیر کی ہو یا زیت شنا سی روا شناسی ہو یا جامعہ شناسی طب یا دوسرے علوم میں دین کی کوئی دخالت نہیں ہے،اور دین کی دخالت صرف اخروی امدر میں ہے ۔

ان مسائل کا تا ریچہ چند صدی پہلے مغربی ممالک کی طرف پلٹتا ہے کہ جس وقت کلیسائی پا دریوں اور علم وسیاست کے لوگوں کے درمیان اختلاف اور تضاد پیدا ہوا ،اور آپس میں مدتوں تک اسی سلسلے میں جنگ جدال ہو تی رہی ،اور آخرمیں ان کی یہ جنگ وجدال ایک بے لکھی صلح پر تمام ہوئی ،جس میں یہ طے پایاکہ دین فقط آخرت سے تعلق رکھتا ہے دین بھی انسان کا خدا سے رابطہ ،اور دنیا دی کا موں میں دخالت کرنا اہل سیاست اور اصل علم افراد کے سپرد کیا گیا ۔

یہ تمام نظریات مغربی ممالک کے تھے ،لیکن بعد میں جو لوگ ان کے تحت تاثیر قر ار پائے ان کا کہنا ہے کہ ہمارے اسلامی ممالک میں بھی اس طرح تقیم ہونا چاہئے مثا ل کے طورپر اس طرح ہونا چاہئے کہ دین کی باگ ڈورفقط دینی علماء کے ھاتھوں میں ہو اور ان کا نام صرف ضروری کا موں میں حق دخالت ہو ،اور دین یا دینی علماء دنیا وی کاموں کو بالکل دخالت نہ کر یں ،لھٰذ ا سیاست کو اہل سیاست حضرات پر چھوڑدیا جائے اور دینی علماء اور فقھاء کو سیاست میں دخالت کا کوئی حق نھیں ،اور اس سلسلے میں بہت سی تقرریں ہوئی ، مقالات لکھے گئے ،اور اپنے اس نظریہ کی تائید کیلئے ہر ممکن کوشش کی گئی تاکہ ہمارے جوانوں کے درمیان اس اعتراض کو رائج کریں اور اس نظر یہ کو تقویت پہونچائیں کہ دین سیاست سے جدا ہیں ۔

افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ بعض پڑھے لکھے افراد نا خواستہ طوران کے نظریہ کے تحت تاثیر قرار پا ئے ،اور اہستہ اہستہ یہ نظریہ لوگوں کے ذہن میں اپنا مقام بناتا جارہا ہے ،کہ دین ،دنیا کے مقابلہ میں ہے یعنی دین انسانی زندگی کے بعض مسائل کو حل کر سکتا ہے اور دنیاوی امور کا دین سے کوئی رابطہ نھیں ،اور جب یہ اعتراضات اور شبھات ہمارے پڑھے لکھے اور مو لفین اور مقر رین حضرات کے ذریعہ بیان ہوتے ہیں تو واقعا ًیہ ہماری ملت اور جامعہ کیلئے ایک بہت بڑاخطرہ ہے ۔

۳ ۔دنیا اور آخرت میں چولی دامن کا رابطہ ہے

حقیقت یہ ہے کہ اگر چہ ہماری یہ ذندگی دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے دنیا وی ذندگی ،افروی زندگی ،یعنی دنیا میں ہماری زندگی کا ایک حصہ روز پیدائش سے شروع ہوتا ہے اور موت پر ختم ہوجاتا ہے اس کہ بعد دوسری زندگی عالم برزخ اور عالم قیامت میں شروع ہوتی ہے ،البتہ اس کے علاوہ بھی ایک دوسری زندگی فرض کی جاسکتی ہے اور وہ ہے عالم جنین )لیکن زندگی کی تقسیم کا ملاز مہ یہ نہیں ہے کہ ہماری چال چلن دو حصوں میں تقسیم ہوجائے اور دو نظریوں سے دیکھا جائے ،بہرحال اس وقت ہم دنیا میں ہیں اور اس دنیا میں دن بھر ہم بہت سے امور انجام دیتے رہتے ہیں دین اس وجہ سے آیا ہے تاکہ ہمارے امور کو سلیقہ عطا کرے ، اور اپنے دستوری اور تشریعی نظام کے ذریعہ ہماری رہنماکی کرے ،نہ یہ کہ دینی قوانین صرف مر نے کے بعد کیلئے ہیں ۔

ایسا نہیں ہے کہ ہماری ۵۰ یا ۶۰ سال کی عمر کا بعض حصہ دنیا سے مربوط ہو اور بعض حصہ آخرت سے ، بلکہ ہماری نظرمیں دنیا کی کو ئی بھی چیز ایسی نھیں ھے جو آخرت سے مربوط نہ ہو،بلکہ ہمارے تمام دنیاوی امور ایک طرح سے آخرت سے مربوط ہوسکتے ہیں یعنی دنیاوی امور اس طرح سے انجام پائیں کہ آخرت میں مفید ثابت ہوں ،اور ہو سکتا یھی اعمال ہمارے آخرت کے لئے مضراور نقصان دہ ثابت ہوں ،بہرحال گفتگو یہ ہے کہ ہمارے اعمال وافعال آخرت کیلئے موثر ہیں اور بنیاوی طور پر اسلامی نظریہ بھی یھی ہے کہ آخرت کی زندگی کو اسی دنیا میں سنوارا جاتا ہے :

”الیوم عملٌ ولاحساب وغداً حسابٌ ولا عمل“ (۱)

آج کا دن عمل کرنے کا دن ہے حساب کا نہیں اور روز قیامت حساب کا دن ہے وہاں عمل کی جگہ نہیں ہے۔

”الد نیا مزرعة الا خرة“ (۲)

دنیا آخرت کی کھیتی ہے (جیسا بوؤگے ویسا کا ٹو گے لھٰذا جوکام ہم دنیا میں کر یں گے آخرت میں اسی طرح بدلاملے گا ،اور ایسا نہیں ہے کہ دنیا وی زندگی کا اخردی زندگی سے کو ئی رابطہ نہیں ہے یا ہماری زندگی کا کچھ حصہ دنیاسے اور کچھ حصہ آخرت سے متعلق ہے، یعنیہماری زندگی کے الگ الگ شعبے نہیں ہیں ،بلکہ اس دنیا میں ہمارے کام اس طرح ہونا چاہئےے تاکہ ہمیں آخرت میں سعادت اور کا میابی نصیب ہو مثلاً ہمارا اٹھنا بیٹھنا، سانس لینا ،دیکھنا، سننا، گفتگو کرنا ،کھانا پینا،میاں بیوں کے تعلقات اور اجتماعی روابط اس طرح ہوں کہ ہماری آخرت سنور جائے ،اور ہو سکتا ہے ہمارے یھی کام آخرت میں مضر اور نقصان دہ ہوں ،یہ بات مسلم ہے کہ کھانا پکانا اور کھانا کھانا دنیا سے مربو ط ہے لیکن ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کھانے کا یھی طریقہ جنت میں جانے کا با عث بنے اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ہما رے لیئے با عث عذاب ہو

( اِنَّ الَّذِیْنَ یَا کُلُونَ ا مْوَالَ الْیَتَامٰی ظُلْماً إِنَّمَا یَاکُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ نَاراً وَسَیَصْلُوْنَ سَعِیْراً ) (۳)

”بے شک جولوگ یتیموں کا مال ناحق چٹ کر جایا کرتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بس انگارے بھرتے ہیں اور عنقریب واصل جھنم ہونگے“

جوشخص اپنے پیٹ کویتیموں کے مال سے بھرتا ہے ا گر چہ وہ ظاہراً کھانا کھاتا ہے او اس سے لذت بھی اٹھاتا ہے لیکن یھی کھانا جو کھارہا ہے اس کے لئے جھنم کا عذاب بن جائے گا ، جس طرح اگر انسان خدا کی عبادت کرنے کے لئے کھانا کھاتا ہے تو ا سکا یھی کھانا آخرت میں ثواب واجر کا باعث ہے اسی طرح اگر انسان خدا کی خوشنودی کے لئے گفتگو کرتا ہے تو جنت میں اس کے لئے ایک درخت لگایا جاتا ہے ۔

حضرت رسول اکرم (ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا: جو شخص بھی تسبیحاتاربعہ پڑھے ، خداوندعالم اس کے لئے جنت میں ایک درخت اُگاتا ہے (یہ سننے کے بعد ) بعض لوگوں نے کھا: تب تو ہمارے لئے جنت میں بہت سے درخت موجود ہوں گے، کیونکہ ہم تسبیحات اربعہ کو مکرر پڑھتے رہتے ہیں ،اس موقع پر حضرت رسول اکرم نے ارشاد فرمایا: ٹھیک ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ ان کو جلانے کے لئے وہاں آگ نہ بھیجو۔

لھٰذا اگر ہمارے اعمال وکردار خدا کی خوشنودی کے لئے ہوں تو آخرت کی سعادت وکامیابی کا سبب ہوں گے، اور اگر ہمارے یھی اعمال خدا کی مرضی کے خلاف ہوں تو آخرت میں بدبختی اور عذاب جھنم کے باعث بنتے ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ ہماری یہ زندگی دو مستقل حصوں پر مشتمل ہو جس کا ایک حصہ آخرت سے مربوط ہو اور مسجد وعبادتگاہوں میں گذارا جائے او ردوسرا حصہ ہماری دنیا سے مربوط ہو جس کا آخرت سے کوئی سروکار نہ ہو۔

اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ یہ نظریہ (دین کے حدود صرف انفرادی، عبادی مسائل اور عبادتگاہ تک ہوں کہ جس کا ثمرہ آخرت میں ظاہر ہوگا او ردوسرے مسائل دین سے خارج ہیں ) آخری چند صدی کے درمیان بعض مغربی لوگوں میں بعض ادیان کے ماننے والوں کی طرف سے رائج ہوا ہے اور اس نظریہ نے بہت سے لوگوں کے ذہن کو پراکندہ کردیا ہے ، اور نہ صرف یہ کہ اسلام میں یہ مطلب موجود نہیں ہے۔

بلکہ کسی بھی آسمانی برحق دین میں یہ مطلب نھیں پایا جاتا ہے ،ھر برحق دین کا نظریہ یھی ہے کہ انسان کی تخلیق اس وجہ سے ہوئی ہے کہ انسان اپنے لئے سعادت یا شقاوت (بدبختی) کو معین کرے، او رانسان کی ہمیشگی سعادت یا ہمیشگی شقاوت اس دنیاوی زندگی کے زیر سایہ حاصل ہوتی ہے، یعنی اگر انسان کی رفتارو،گفتار الہی قوانین کے تحت ہو تو ہمیشگی سعادت اس کے شامل حال ہوگی، او راگر انسان کے کارنامے خدا کی مرضی کے خلاف ہوں تو ہمیشگی شقاوت وبدبختی اس کے دامن گیر ہوگی۔

وہ لوگ جن کا نظریہ یہ ہے کہ دین سے ہماری توقعات کم سے کم ہونی چاہئے، انھوں نے انسانی رفتاروگفتار کو دو حصوں پر تقسیم کیا ہے جس کا ایک حصہ دین سے متعلق ہے اور اس کا دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہے او ر دوسرا حصہ دنیا سے متعلق ہے وہ دین سے خارح ہے، جیسے سیاسی اور اجتماعی مسائل، البتہ یہ نظریہ صرف ایک مغالطہ او رکج فہمی کا نتیجہ ہے، کیونکہ ان کا خیال یہ ہے کہ اگر دین سے ہماری توقعات حداکثر ہو تو پھر ہمارے تمام امور دین کے مطابق ہونا ضروری ہیں یھاں تک کہ کھانا پینا مکان بنانا وغیرہ وغیرہ ،چونکہ انھوں نے یہ سوچا کہ یہ نظریہ نہ تو صحیح ہے اور نہ ہی دین ان تمام چیزوں کو پورا کرسکتا ہے، لھٰذا یہ لوگ دین سے کم سے کم توقعات کے قائل ہوگئے۔

ان کی یہ غلط فہمی اس وجہ سے ہوئی کہ انھوں نے اس مسئلہ کی صرف دوقسم تصور کی جب کہ تیسری قسم بھی موجود ہے اور یھی تیسری قسم صحیح ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہم دین سے اتنی توقع نہیں رکھتے کہ تمام چیزوں کے بارے میں ہمیں بتائے یھاں تک کہ کھانا کھانے ، کپڑے پہننے او رمکان بنانے کا طریقہ بتائے ، کوئی بھی ایسا دعویٰ نہیں کرتا، اور یہ اس لئے ہے کہ دین نے بہت سے مسائل کے بیان کو سمجھنے کے لئے دنیاوی علوم پر چھوڑ دیا ہے۔

لیکن پھر بھی یہ مسائل کسی نہ کسی اعتبار سے دین سے متعلق ہوتے ہیں ، اور یہ اس وقت ہوگا جب یہ مسائل خود ارزش مند او رپر اہمیت قرار پائیں ۔

یعنی ان کے اندر وہ پہلو بھی کار فرما ہوں جو دین سے متعلق ہیں مثلاً کھانا کھانا دینی مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر کوئی مررہا ہے ،بھوکا ہے تو اس کو کھانا کھانا واجب ہے، تو اس صورت میں یہ مسئلہ دینی ہوجائے گا۔

۴۔انسان کے دنیاوی اعمال و کردار کی اہمیت

جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری دنیاوی زندگی آخرت کی زندگی سے ایک ربط رکھتی ہے اور ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ انسانی اعمال وکردار اس کے کمال یا پستی کے باعث ہوتے ہیں ، اور ہمارا کردار سعادت اخروی میں موثر ہوسکتا ہے تو پھر ہمارے یہ افعال واعمال پراہمیت اور باارزش ہوجاتے ہیں لھٰذا ہم اب یہ دین کو حق دیتے ہیں کہ وہ ہمارے افعال وکردار کے بارے میں قضاوت کرے یا بہ لفاظ دیگر یہ کھا جائے کہ دین ہمارے حلال وحرام افعال کو بیان کر تا ہو دین ان کو انجام دینے کی کیفیت بیان نہیں کرتا، دین تو یہ کھتا ہے کہ بعض چیزوں کا کھانا حرام او رگناہ ہے ۔

مثلاً خنزیر کا گوشت اور نشیلی چیزوں کاکھانا حرام ہے لیکن شراب کیسے بنائی جاتی ہے خیزیز کیسے پالا جاتا ہے یہ دین کا کام نہیں ہے،البتہ اسلام نے خنزیر کے گوشت کو حرام اس لئے کیا ہے کہ دینی عبادات ومسائل میں یہ مانع ہے او ردینی احکام چاہے واجب ہوں یا حرام یہ سب وجوب وحرمت مثبت او رمنفی اثرات کی بنا پر جعل ہوئے ہیں یعنی احکام کے متعلقات میں انسان کی سعادت او رآخرت پائی جاتی ہے گویا احکام ایجابی وسلبی کے ذریعہ ہمارے افعال وکردار کی اہمیت پتہ چلتی ہے ۔

بہ الفاظ دیگر اس طرح عرض کیا جائے کہ انسان کی ترقی او رتکامل کی راہ ایک نقطہ سے لامتناہی نقطے کی طرف شروع ہوتی ہے اس راہ میں جو چیز ہمارے لئے مفید ہے وہ یہ ہے کہ ہم خدا کی طرف متوجہ ہوں اور انسانی معنویت کی بلندی کا زمینہ ہموار کریں ، درجات کے اعتبار سے چاہے وہ احکام واجب ہوں یا مستحب یا اس کے بعد مباح ، اور جو راہیں انسان کو تنزل او رپستی کی طرف لے جانے والی ہیں اور انسان کو راہ کمال اور خداوندعالم سے دور کرتی ہیں ”حرام“ ہیں اس کے بعد مکروہات ہیں ۔

نتیجہ یہ نکلا کہ دین یہ نہیں کھتا کہ کون سا کھانا کھائیں کس طرح کھانا بنائیں کس طرح مکان بنائیں بلکہ دین اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ مکان غصبی جگہ پر نہ بنایا جائے یا مکان کو اس طرح نہ بنائیں کہ جس سے دوسروں کے گھروں کی بے پردگی ہوتی ہو، دین یہ کھتا ہے کہ حلال پیسہ سے مکان بنائیں سود کے پیسہ سے مکان نہ بنائیں ، درحقیت مکان کی اہمیت او راس کی کیفیت کو بیان کرتا ہے اسی طرح دین یہ کھتا ہے کہ ہمارا کھانا ایسا ہو جس سے ہماری ظاہری اور معنوی رُشد وترقی ہو او روہ غذا ئیں جو حرام ہیں یا ”الکحل“ نشہ آور چیزوں سے پرہیز کریں جو خود ہمارے لئے ضرررساں اورنقصان دہ ہیں ۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :

( یَا ا یُّها الَّذِیْنَ ءَ امَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالا نْصَابُ وَ الا زْلاَمُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْه لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ إِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطَانُ ا نْ یُوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِیْ الخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدُّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰه ) (۴)

”اے ایمان دارو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے تو بس ناپاک (برے) شیطانی کام ہیں تو تم لوگ اس سے بچے رہں تاکہ تم فلاح پاؤ، شیطان کی تو بس یھی تمنا ہے کہ شراب او رجوے کے بدولت تم میں باہم عداوت ودشمنی ڈلوادے اور خدا کی یاد سے باز رکھے“

نتیجہ یہ نکلا کہ دین کی حلال اور حرام کردہ چیزیں انسانی کردار کو بیان کرنے والی ہیں ،یعنی ان کے ذریعہ معلوم ہوجاتا ہے کہ انسانی کردار مثبت پہلو رکھتا ہے یا منفی، اور کیا یہ چیز ہماری سعادت او رکامیابی میں موثر ہیں ؟ اور کیا یہ چیزیں خدا تک پہونچنے کے لئے راہ ہموار کرتی ہیں ؟ یا یہ چیزیں انسان کو بدبختی اور ھلاکت کی وادی میں پہونچادیتی ہیں ؟ خلاصہ یہ کہ دین، دنیاوی کردار کے ماورای اس کردار پر توجہ کرتا ہے کہ جس کے ذریعہ انسان جنتی یا جھنمی ہوتا ہے۔

۵۔انسان کے کردار کی اہمیت کو سمجھنے میں عقلی طاقت کی شعائیں

ہمارے افعال وکردار کی اہمیت ایجاب وسلب کے لحاظ سے (یعنی ہمارے افعال ورفتارو کردار کے لئے ارزش کا اثبات کرنا یا سلب کرنا) کبھی اتنا واضح وروشن ہوتا ہے کہ جس کو عقل بخوبی سمجھ لیتی ہے اور شارع مقدس کی طرف سے تعبدی بیان کی ضرورت نہیں بلکہ عقل خودھی خداوندعالم کے حکم کو مشخص کرلیتی ہے۔

اسی وجہ سے فقھاء کرام مستقلات عقلیہ میں فرماتے ہیں : بعض مسائل میں عقل مستقل طور پر فیصلہ کرلیتی ہے اور افعال واعمال کے حُسن وقبح (اچھائی ،برائی) کو معین کرلیتی ہے اور ہم عقل کے ذریعہ سمجھ لیتے ہیں کہ خداوندعالم کا ارادہ فلاں کام کے انجام دینے یا ترک کرنے سے متعلق ہے، ہم عقل کے ذریعہ یہ پتا لگالیتے ہیں کہ خداوندعالم اس کام سے راضی ہے یا نہیں ، ہم سبھی کی عقل اس بات کو سمجھتی ہے کہ کسی یتیم کا مال کھا نابرا ہے،

اور اس سلسلے میں شارع مقدس کی طرف تعبدی بیان آنا ضروری نہیں ہے ، عقل کی تشخیص کے بعد قرآن وحدیث میں بھی اس بارے میں تعبدی بیان آنایہ حکم عقل کی تاکید کے لئے ہے، لیکن اکثر مقامات پر ہماری عقل ہمارے افعال واعمال ورفتار و کردار کی اہمیت اور پھر ان افعال کی ہماری شقاوت وسعادت میں تاثیر کی مقدار کو درک کرنے سے قاصر ہے ، اس طرح کہ ہم اپنے اعمال کے وجوب وحرمت اور استحباب وکراہت کو عقل کے ذریعہ پہچانیں ، لھٰذا ایسے مقامات پر دین کو دخالت کرنے کا حق ہے چنانچہ اس وقت دین کو ہمارے اعمال وافعال کے انجام دینے کے احکام بیان کرناہوں گے۔

۶۔دین کے حدود

جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے کہ وہ چیزیں جو ہماری ہمیشگی سعادت یا شقاوت میں موثر ہیں صر ف ان مسائل میں منحصر نہیں جو براہ راست خداوندعالم سے مربوط ہیں ، بلکہ دین ، عبادی مسائل کے علاوہ دنیاوی امور میں بھی حق دخالت رکھتا ہے اسی وجہ سے دین نے بعض کھانے پینے والی چیزوں کو حلال یا حرام ہونے کو بھی بیا ن کیا ہے۔

اور جب ہم دینی احکامات کو ملاحظہ کرتے ہیں تو اس نتیجہ پرپہونچتے ہیں کہ دینی حدود انفرادی مسائل میں محدود نہیں ہیں بلکہ اجتماعی مسائل مثلاً گھریلو مسائل، شادی، طلاق اور تجارت وغیرہ جیسے مسائل کو بھی شامل ہیں ، اور ان مسائل کا حلال وحرام ہونا ان کی اہمیت کو بیان کرتا ہے، درحقیقت دین ان امور کی حقیقت کو بیان کرکے ان کی حرکت کی جھت وسمت معین کرا ہے اور نشان دھی کررہا ہے کہ ان کے ذریعہ کس طرح سے خداوند عالم کی سمت انسان حرکت کرسکتا ہے اور کون سے امور شطان کی طرف مایل ہونے کے اسباب فراہم کرتے ہیں ۔

علم بعض چیزوں کے بیان کرنے سے قاصر ہے علم صرف یہ بیان کرتاہے کہ کس چیز کو بنانے کے لئے کن چیزوں کو کس مقدار میں ہونا ضروری ہے اورفیزیکی او ر شیمیائی چیزوں کو بیان کرتا ہے لیکن یہ بیان نہیں کرتا کہ ان چیزوں کو کس طرح استعمال کیا جائے تاکہ انسان حقیقی اور واقعی کمال اور سعادت تک پہونچ سکے، ایسے مقامات پر دین کو قضاوت او رفیصلہ کرنا ہوتا ہے لھٰذا جس طرح ہمارے اعمال ہماری سعادت وبدبختی میں موثر ہوتے ہیں اسی طرح سیاسی واجتماعی امور میں ہمارے اعمال ہماری سعادت یا بدبختی میں موثر ہوتے ہیں ، صرف یھی نہیں بلکہ اس حصے میں اور زیادہ موثر ہوتے ہیں ۔

اب رہی ہماری اصل گفتگو یعنی ”اجتماعی امور“ کیا یہ کھا جاسکتا ہے کہ معاشرہ اور ملت کا چلانا ہماری سعادت یا بدبختی میں کوئی اثر نہیں رکھتا؟، اوراس معاشرہ کے افراد جس طرح بھی چاہیں معاشرہ کے ادارے کے لئے جس کو چنیں ،مختار ہیں او ران مسائل میں دین کوئی دخالت نہیں رکھتا؟ کون ہے جو نھیں جانتا کہ معاشرہ میں عدالت او رانصاف کی رعایت سے انسان کی سعادت او رکامیابی ہے اور عدالت وانصاف سے کام لینا ایک بہت مہم اور مثبت پہلو رکھتا ہے اس سلسلہ میں اگر کوئی آیت یا حدیث نہ ہوتی تب بھی ہماری عقل اس بات کو سمجھتی ہے کہ عدالت وانصاف کی رعایت کرنے سے انسانی کمال اور سرفرازی میں شایان شان تاثیر رکھتی ہے ،جوحضرات ان مسائل کو سمجھنے کے لئے عقل کو کافی نہیں سمجھتے،وہ قرآن واحادیث کی طرف رجوع کریں ، البتہ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ سیاسی واجتماعی امور کے بہت سے مسائل کی اہمیت کو عقل سےسمجھ سکتے ہیں ، لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جو بھی عقل سمجھیں وہ دین کے دائرے سے خارج ہے۔

جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ جو چیز مرضی خدا کو کشف کرتی ہے اور جو چیز خدا کی حکمت اور اس کے ارادہ کو بیان کرتی ہے اور ہم کو آگاہ کرتی ہے کہ خدا کی مرضی کیا ہے اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ اس امر کو کس راستہ کے ذریعہ کشف کریں ،بلکہ مہم یہ ہے کہ ہم خداوندعالم کے ارادہ تشریعی کو کشف کریں ، چاہے یہ کشف قرآن وسنت کے ذریعہ ہو یا عقل کے ذریعھ، کیونکہ یہ تینوں دلیلیں خدا کے احکام او ردینی قوانین کو کشف کرتی ہیں اسی وجہ سے عقل کو احکام الہی کے منابع میں شمار کیا جاتا ہے اور فقھاء کرام نے عقل کو احکام شرعی کے اثبات کرنے والی دلیلوں میں شمار کیا ہے،چنانچہ شرعی مسائل کو ثابت کرنے کے لئے عقل سے بھی تمسک کرتے ہیں ، لھٰذا ایسا نھیں ھے کہ عقل ا ور شرع کے درمیان کوئی حد موجود ہو کہ کچھ چیزیں عقل سے مربوط ہوں اور کچھ چیزیں شرع سے، بلکہ عقل ایسا چراغ ہے کہ جس کی روشنی میں خدا کی مرضی اور اس کے ارادہ کو تلاش کیا جاسکتا ہے،لھٰذا جو چیز اس طرح عقل کے ذریعہ کشف ہوگی وہ دینی ہے ۔

۷۔دین اور حکومت میں رابطہ

جو کچھ ہم نے اجتماعی اورسیاسی امور کے بارے میں دین کی دخالت کے سلسلے میں عرض کیا اس پر توجہ رکھتے ہوئے اور مختلف قسم کی حکومتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جواب تک اس دنیا میں وجود پاچکی ہیں خصوصاً وہ حکومتیں جو اسلام کے نام سے یا اسلامی زمانے میں دوسرے ناموں سے جانی جاتی تھیں ، یہ نہیں کھا جاسکتا کہ اسلام ان کے بارے میں مثبت یا منفی نظریہ نہیں رکھتا؟، اگر ہم معاویہ اور یزید کی فاسد اور ظالم حکومت کا حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی عدالت وانصاف ور حکومت سے مقابلہ کریں تو کیا یہ کھا جاسکتا ہے کہ اسلام ان دونوں حکومتوں کو ایک نگاہ سے دیکھتا ہے اور حضرت علی علیہ السلام اور معاویہ کی حکومت میں کوئی فرق نہیں ہے؟

کیا یہ کھا جاسکتا ہے کہ ہر انسان آزاد ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق اپنی حکومت کے طریقہ کار کو اپنائے؟! اور اس میں دین کی کوئی دخالت نہ ہو، اور انسانی کردار اور اس کی سعادت یا بدبختی میں کوئی دخالت نہیں رکھتا، یعنی کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ نہ حضرت علی علیہ السلام کی حکومت انسان کی آخرت میں کوئی تاثیر رکھتی ہے اور نہ ہی معاویہ کا کردار انسان کی آخرت میں کوئی اثر رکھتا ہے؟! کیونکہ حکومت کا طریقہ کار دنیا اور سیاست سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا دین سے کوئی رابطہ نہیں ہے! کیا کوئی عقلمند انسان ان باتوں کو قبول کرسکتا ہے؟ کیا یہ کھا جاسکتا ہے کہ دین کی نظر میں یہ دونوں حکومتیں (حضرت علی علیہ السلام اور معاویہ کی حکومت) مساوی وبرابر ہیں ؟ اور دین ان میں سے کسی ایک کی مدح یا مذمت نہیں کرتا؟ حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی اور حکومتی جیسے مسائل میں دین کی دخالت ضروری ہے، دین کو چاہئے کہ حکومت کے لئے مناسب ڈھانچہ پیش کرے ، دین کو بیان کرنا چاہئے کہ حاکم وقت اپنی حکومت کے آغاز ہی سے کمزور اور غریب لوگوں کی فکر میں رہے نہ کہ اپنی حکومت کو مضبوط بنانے کے چکر میں لگا رہے؟!

نتیجہ یہ نکلا کہ دین میں بالخصوص دین اسلام میں سیاسی واجتماعی مسائل کی ایک بڑی اہمیت ہے اور ان کو دین کے دائرہ سے خارج نہیں کیا جاسکتا، اور اس بات کا اعتقاد صحیح نہیں کہ ان سیاسی اور اجتماعی مسائل کا انسان کی شقاوت اور سعادت میں نھیں اگرانسان کا آخرت، حساب وکتاب اور ثواب وعذاب پراعتقاد ہے تو کیا یہ کھا جاسکتا ہے کہ معاویہ اور یزید کی حکومت وہ تاثیر نہیں رکھتی! اگرچہ بعض اہل سنت برادران ، معاویہ کے مسئلہ کو ابھی تک حل نہیں کرسکے ہیں ،لیکن تاریخ میں ایسے بہت سے ظالم وجابر افرادگذرے ہیں جنھوں نے تاریخ کے اوراق کو سیاہ کرکے رکھا ہے، کیا یہ کھا جاسکتا ہے کہ ان ظالم وجابر لوگوں کی حکومت، عدالت وانصاف ور افراد کی حکومت کے برابر ہیں ؟ اسی زمانہ کو لے لیجئے جس میں ہم زندگی گذاررہے ہیں ، کیا وہ حکومتیں جو عورتوں اور بچوں کو جن کو ہر مذہب وملت میں بے گناہ مانا جاتا ہے ان کے سروگردن میں جدائی کریں ، ان پر بم گرائیں اور ان کو زندہ درگور کریں ، ان حکومتوں کے برابر ہوسکتی ہیں کہ جن کی تمام تر کوشش کمزور او رمظلوم لوگوں کی نجات کے لئے ہوتی ہیں ؟ کیایہ دونوں حکومتیں جنت میں جاسکتی ہیں ؟ لھٰذا کس طرح سیاسی واجتماعی مسائل کو دین سے خارج مانا جاسکتا ہے؟ اگر یہ طے ہے کہ دین اسلام حلال وحرام ، ثواب وعذاب اور دوسرے دینی مسائل میں اپنی خاص نظر رکھتا ہو توبدرجہ اولیٰ سیاسی واجتماعی مسائل وہ واضح وروشن مسائل ہیں کہ جن میں دین کا نظریہ ضروری ہے۔

پس نتیجہ یہ نکلا کہ وہ نظریہ جس میں دینی مسائل کو دنیاوی مسائل سے الگ کیا جاتا ہے او ردینی مسائل کو صرف خدا اورآخرت سے مخصوص کیا جاتا ہے، اور ان کو دنیاوی دائرہ سے خارج مانا جاتا ہے(یعنی انسان کے بعض امور،دانشمندوں اور سیاسی لوگوں پر چھوڑدئے گئے ہیں اور بعض امور، دینی علماء کرام پر چھوڑ دئے گئے ہیں ) یہ نظریہ بالکل غلط اور باطل ہے اور کسی بھی طریقہ سے اسلامی نظریہ سے سازگار اور موافق نہیں ہے، اسلام انسان کیلئے جس زندگی کے بارے میں نظریہ رکھتا ہے اور اسلام جس طرز زندگی کو پیش کرتا ہے اور ہمیں اس کی طرف دعوت دیتا ہے اس (گذشتہ)نظریہ سے ہم اہنگ وموافق نہیں ہے۔

چھوڑئے ان لوگوں کو جو اس طرح کا نظریہ رکھتے ہیں یہ لوگ نہ خدا پر اعتقاد رکھتے ہیں او رنہ ہی قیامت پر، ان کی یہ باتیں صرف اور صرف اس وجہ سے ہوتی ہیں تاکہ علماء دین کو اس میدان سے باہر نکال دیں ، لیکن ہم کو ان کے ذاتی عقیدہ سے کوئی مطلب نہیں ہماری عرض تو صرف یہ ہے کہ دنیاوی مسائل کو دینی مسائل سے جدا کرنے کا نظریہ اور دنیاوی مسائل کو دینی حدود سے خارج کرنے کا نتیجہ اسلام کے انکار کاسبب بنتا ہے او راس کے علاوہ کوئی دوسرا نتیجہ نہیں رکھتا، اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ انسان کا کوئی بھی عمل ایسا نہیں ہے جو ہماری سعادت یا بدبختی میں موثر نہ ہو، لھٰذا ہمیں قبول کرنا پڑے گا کہ ہماری تمام زندگی میں دین اپنا نظریہ دے سکتا ہے اور اس کی اہمیت کو بیان کرسکتا ہے۔جیسا کہ حضرت رسول اکرم(ص) نے فرمایا ہے:

”مامن شی یقرّبکم الی الجنة ویباعدکم عن النار الاّٰ وقدامرتکم بہ ومامن شی یقربکم من النار ویباعدکم من الجنّة الاّٰ وقدنھیتکم عنہ“(۵)

”نھیں ہے کوئی ایسی چیز کہ جو تمھیں جنت سے قریب کرے اور جھنم سے دور کرے مگر یہ کہ میں نے تم کو اس کے کرنے کا حکم دیا ہے او رنھیں ہے کوئی ایسی چیز کہ جو تمھیں جھنم سے قریب اور جنت سے دور کرے مگر یہ کہ میں نے تم کو اس سے منع کیا ہے“

اسلامی نظریہ کے مطابق سعادت کے معنی جنتی ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں اور بدبختی کے معنی جھنمی ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے:

( فَا مَّا الَّذِیْنَ شَقُوا فَفِی النَّارِ وَا مَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّةِ ) (۶)

” تو جو لوگ بدبخت ہیں وہ دوزخ میں ہوں گے اور جو لوگ نیک بخت ہیں وہ تو بھشت میں ہوں گے “

۸۔دین کی جامعیت

پیغمبر اکرم کے فرمان کے مطابق ایک دوسرا نظریہ بھی باطل ہوجاتا ہے ، وہ یہ ہے کہاگر کوئی یہ کھے: ٹھیک ہے کہ دین حلال وحرام کو بیان کرسکتا ہے لیکن زندگی کے بعض امور کو خود پیغمبر اکرم نے بیان کردیا ہے اور بعض دوسرے امور کو لوگوں پر چھوڑدیا ہے بعض وہ چیزیں جو آنحضرت کے زمانے سے متعلق تھیں وہ بیان کردیں اور باقی چیزوں کو ہم لوگوں پر چھوڑدیا تاکہ زمان ومکان کے لحاظ سے ہم خود طے کرلیں کہ کون چیزیں حلال ہیں اور کون چیزیں حرام۔

کیونکہ اس نظریہ کا نتیجہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم نے سعادت تک پہونچنے والی تمام چیزوں کو بیان نہیں فرمایا جبکہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ نہیں ہے کوئی ایسی چیز کہ جس کے ذریعہ تمھاری سعادت کی ضامن ہو مگر یہ کہ میں نے اس کو بیان کردیا، البتہ آنحضرت کے فرمان کے یہ معنی نہیں کہ آپ نے تمام چیزوں کی جزئیات بھی بیان کردیں ، بلکہ آپ نے کلّی چیزوں کو بیان کیا ہے تاکہ آئندہ زمانے میں ائمہ (ع) اور مجتھدین جو ایسی صلاحیت رکھتے ہیں کہ جزئی احکام ،اور حلال وحرام کو کلی عناوین پر منطبق او رمرتب کرکے ان کے احکام کو معلوم کرلیں ، او ران کو عناوین اولیہ یا عناوین ثانویہ یا حکومتی احکام کے عنوان سے لوگوں کے سامنے پیش کریں ، بے شک مصادیق کی تشخیص او رجزئی احکام، انہیں کلی احکام پر منطبق ہیں کہ جو قرآن ،سنت اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث میں ذکر ہوئے ہیں جن کو اصطلاحاً فتویٰ کھا جاتا ہے۔

حوالہ

((۱)بحارالانوار ج ۳۲ص ۳۵۴

(۲)بحارالانوار ج ۷۰ ص ۲۲۵

(۳)سوہ نساء آیت ۱۰

(۴)سورہ مائدہ آیت ۹۰،۹۱-

(۵)بحارالانوار ج ۷۰ص۹۶

(۶)سورہ ہود آیت ۱۰۶،۱۰۸