اسلام اور سیاست جلد ۱

اسلام اور سیاست 8%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 39 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 38415 / ڈاؤنلوڈ: 4484
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

آٹھواں جلسہ

حکومت کے ڈھانچے کی وضاحت

۱- عنصری اور مصداقی تعریف کی اہمیت

ہم اس جلسہ میں اسلامی حکومت کے ڈھانچے اور شکل وصورت کے بارے میں بحث کریں گے، یھاں پر ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ حضرت امام خمینی کا ایک مختصر سا واقعہ بیان کریں :

انقلاب کے ابتدائی دور میں ایک بیرونی رپوٹر نے حضرت امام خمینی سے سوال کیا کہ آپ شاہ کی حکومت کوسرنگوں کرنے کے بعد کون سی حکومت تشکیل دیں گے؟ تو آپ نے فرمایا: ہم حضرت علی علیہ السلام کی طرح حکومت بنائےں گے، ظاہر ہے کہ اس خارجی خبر نگار کے لئے اسلامی حکومت کو سمجھنا مشکل تھا کیونکہ وہ اسلامی ثقافت کو سمجھنے سے قاصر تھا، اس کو سمجہانے میں گھنٹوں درکار تھے؛لیکن حضرت امام خمینی نے اس کو ایک جملہ میں قانع کنندہ جواب دیدیا، کیونکہ حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کو دشمن او ردوست سبھی جانتے ہیں اور اس کے لئے زیادہ مطالعہ اور تحقیق کی ضرورت نہیں تھی،اور ساتھ ساتھ ہماری حکومت کی بھی شناخت ہوگئی-

اس قسم کی تعریف ووضاحت ؛ یعنی اس طرح کی سادہ اور مصداقی تعریف عوام الناس کو سمجہانے کے لئے بہت بہت رہے، کیونکہ انتزاعی اور فلسفی چیزیں عوام الناس کو سمجہانے کے لئے مشکل ودشوار ہوتی ہے، کہ جس میں خارجی مصداق سے سروکار ہوتا ہے، لھٰذا خارجی نمونہ پیش کرکے کسی کو سمجہانے میں آسانی ہوتی ہے، مثال کے طور پر اگر کوئی یہ سوال کرے کہ بجلی یعنی کیا؟ تو روشن بلب کی طرف اشارہ کرکے یا دوسرے الیکٹرینک سامان کی طرف اشارہ کرکے اس کو سمجہایا جاسکتا ہے، کہ یہ سامان بجلی سے چلتے ہیں تو اس کی سمجہ میں بجلی کا مفہوم آجائے گا-

ظاہر ہے کہ اس طرح کسی چیز کی تعریف کرنا جس میں اس کی ذاتیات اور عوراض اور اس کی اصلی خصوصیت سے اجتناب کیا جاتا ہے، لیکن عملی اور اکیڈمیک اصطلاح میں اگر کسی چیز کی تعریف کی جاتی ہے تو اس کی ذاتی یا عرضی خصوصیات کو بیان کیا جاتا ہے کہ جن میں سے منطق کی مشہور تعریف ہے کہ جس میں جنس وفصل ذکر کی جاتی ہے، اس طرح کی تعریف میں پہلے ایک عام او روسیع مفہوم کو تصور کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ایک خاص مفہوم کو ذکر کیا جاتا ہے تاکہ دوسری چیزیں اس میں شامل نہ ہو-

کسی چیز کی پہچان او رتعریف کا ایک اور طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کے عناصر کو شمار کیا جاتا ہے؛ یعنی کسی ایک ماہیت کے لوازم اور خصوصیات کی تحقیق کی جاتی ہے اور ان سب کو ملاکر اس چیز کی تعریف قرار دیدی جاتی ہے، اور کوئی بھی شخص اس کی خصوصیات کو دیکہ کر فیصلہ کرلیتا ہے کہ جو چیز بھی وہ خاص خصوصیات رکھتی ہوگی وہی فلاں چیز ہوگی-

۲-اسلام اور تینوں قوتوں کے جداجدا ہونے کا نظریہ

حکومت کے وسیع پیمانے پر تعریف کرنا اور اس کی ان خصوصیات کو بیان کرنا جن کو اسلام نے بیان کیا ہے ، یا سیاست کے بارے میں اسلام کے نظریہ کو ایک جملہ میں اس طرح کھا جاسکتا ہے:کہ سیاست کے بارے میں اسلام کا نظر یہ ہے کہ سیاست اور حکومت کے تمام امور الہی اور وحی سے الھام گرفتہ ہیں ، اوریھی چیز یں حکومت اور نظام اسلامی بن جانے کی ضمانت ہوتی ہےں -

مزید وضاحت اور اسلامی حکومت کو ایک جامع شکل پیش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ (حکومتی) قوتوں کے جداجدا ہونے کے نظریہ کو بیان کیا جائے کہ جو ”حقوقی فلسفہ" میں بیان ہوتی ہیں ، ان آخری چند صدیوں میں مغربی حقوق داں فلسفی حضرات کے درمیان کافی کشمشک ہوتی آئی ہے کہ (حکومتی) قوتوں کو ایک جگہ ہونا چاہئے یا الگ الگ کہ ہر شخص یا ہر گروہ صرف ایک طاقت کا مالک ہو، اور آخر کار ”رنسانس“کے زمانے کے بعد بالخصوص ”منٹسکیو“ کے زمانے کے بعد(منٹسکیو نے اس سلسلہ میں ایک زخیم کتاب بنام ”روح القوانین“ لکھی کہ جس میں طاقتوں کے جدا ہونے پر بہت زیادہ تاکید او راصرار کیا ہے)، حقوقی فلاسفہ نے اس بات پر اجماع واتفاق کرلیا کہ حکومتی طاقتوں کو جدا جدا ہونا چاہئے اور یہ نظریہ پیش کیا کہ حکومت کی تینوں طاقتیں :

۱-”قوہ مقننہ"(قانون گذار طاقت یعنی پارلیمینٹ)

۲-”قوہ مجریہ “ (یعنی صدر مملکت یا وزیر اعظم اور”قوہ قضائیہ"(عدالتی طاقت) ڈیموکراٹک اور جمہوریت حکومتوں کی اصلی(۱) ستون سمجھے جاتے ہیں ، اور ان تینوں طاقتوں کے لئے الگ الگ دائرہ اور مستقل میدان تصور کیا جاتا ہے، اس طرح کہ ایک طاقت کو دوسری طاقت میں دخالت کرنے کا کوئی حق نھیں ،اور ہر ایک ان میں سے مستقل ہوتی ہیں ، اس نظریہ میں ہر قوت کو الگ الگ کرنے کے بعد اس کی تعریف بھی کی گئی ہے، کہ جن کو ہم یھاں پر مختصر طور پر بیان کرتے ہیں :

الف- قوہ مقننہ:

حکومت کا ایک اہم رکن قوہ مقننہ ہے کیونکہ انسان کی اجتماعی زندگی میں ہر وقت تغیر وتبدیلیاں پائی جاتی ہیں اور ہر زمانہ کے شرائط مختلف ہوتے ہیں لھٰذا ضروری ہے کچھ لوگ ان پر تبادلہ خیال اور غور وفکر کرکے مناسب قانون وضع کرتے ہیں ، اور قوہ مقننہ کی اہمیت کے پیش نظر اس کے بنائے گئے قوانین معتبر اور واجب الاجراء ہیں -

ب- قوہ قضائیہ:

قوانین کو معتبر اور رسمی ہونے کے بعد اس بات کی ضرورت ہے کہ ان کلی قوانین کو خاص موقع ومحل پر مطابقت اور لوگوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کو روشن کیا جائے-

(۱) عام اصطلاح میں کبھی کبھی ”حکومت“ تینوں طاقتوں پر استعمال ہوتا ہے ، اور کبھی کبھی حکومت صرف” قوة مجریہ" پر اطلاق ہوتا ہے ، البتہ یہ معنی خاص مواقع پر استعمال ہوتے ہیں اور اکثر اقات حکومت سے مراد وہی عام معنی ہیں جو تینوں طاقتوں پر استعمال ہوتا ہے-

نیز اختلافات اور جھگڑوں کو حل کرنے کے لئے قوہ قضائیہ کا ہونا ضروری ہے، یعنی قانون کے بننے کے بعد شہریوں کے اختلاف کی صورت میں یا گروہوں کے درمیان اختلاف یا عوام الناس اور حکومت کے درمیان اختلاف کو حل کرنے اور لوگوں کے حقوق کو پامال ہونے سے بچانے کے لئے اور قوانین کو مذکورہ موقع ومحل پر مطابقت، قضاوت او رفیصلہ کرنے کے لئے قوہ قضائیہ کا ہونا ضروری ہے، کیونکہ صرف پارلمینٹ میں قوانین پاس ہونے سے مشکل حل نہیں ہوتی، کیونکہ اختلافی صورت میں ہر ایک شخص اپنے کو حق سمجھتا ہے اور اپنے حق میں قانون کی تفسیر کرتا ہے-

ج-قوہ مجریہ:

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ معاشرہ اپنے اہداف ومقاصد تک پہونے کے لئے قانون کا محتاج ہے، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ تمام عوام الناس تمام قوانین کی رعایت کریں ؛ کیونکہ مختلف وجھوں سے قانون کی مخالفت ہوسکتی ہے،قانون کے لئے ضرورت ہے کہ اس کے جاری ہونے کی ضمانت بھی ہو،اور یہ ضمانت اجرائی قوہ مجریہ کے ذریعہ ممکن ہے ،(کہ جس کے پاس قوانین کو جاری کرنے کے لئے باندازہ کافی وسائل ہوتے ہیں )، لھٰذا قوہ مجریہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ بنائے ہوئے قوانین پر عمل کرائے اور خلاف ورزی سے روکے، اور اسی طرح قوہ قضائیہ کے احکامات (سزا وکیفر) کو بھی جاری کرے، اور اس سلسلہ میں قوانین کو جاری کرنے اور خلاف ورزی کرنے والوں اور مجرموں کو سزا دینے کے لئے پولیس وغیرہ کا بھی سھارا لیا جاسکتا ہے-

ہم نے مختصر طور پرجمہوریتی نظام میں تینوں طاقتوں کے جدا ہونے کے نظریہ کو بیان کیا،اگرچہ ہم اس سلسلہ میں اسلام کے نظریہ کو بیان کرنے کے درپے نہیں ہیں ، لیکن اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلامی جمہوری ایران کے اساسی اور بنیادی قانون میں ان طاقتوں کو جدا ہونے کے نظریہ کو قبول کیا گیاہے،لیکن یہ تینوں طاقتیں ولایت فقیہ کی زیر نظرہوتی ہیں جس کی وجہ سے نظام اسلامی ہوجاتا ہے، چاہے اسلامی نظام میں تینوں طاقتوں کی مشروعیت اس چیز کی وجہ سے ہے کہ یہ سب کے سب الہی اور اسلامی ڈھانچہ رکھتے ہوں اور ان کا رابطہ خداوندعالم سے ہوں اور ولایت فقیہ کی وجہ سے ہی نظام الہی ہوجاتا ہے اور نظام کی مشروعیت کا ملاک ومعیاربھی یھی ولایت فقیہ ہے-

جس وقت ہم اسلام کے قوانین کی وضع اور ان کو جاری کرنے کی باتیں کرتے ہیں اور ہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ تمام قوانین اور مقررات الہی اور اسلامی ہونا چاہئے، تو ہم اس بات کو مسلم اور طے شدہ مان لیتے ہیں کہ اسلام کا خلاصہ نماز وروزہ او ردوسری عبادتوں میں نہیں ہوتا؛ بلکہ اسلام ایک کامل مجموعہ کا نام ہے کہ جس میں اجتماعی قوانین بھی شامل ہوتے ہیں -

یعنی اجتماعی قوانین کے تمام شعبے اسلام میں شامل ہوتے ہیں ، جیسے مالی مسائل، حقوق مدنی، تجارتی حقوق اور بین الاقوامی حقوق وغیرہ کہ جن کی معاشرہ کو ضرورت ہوتی ہے، لھٰذاہم یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اسلام کے قوانین اجتماعی قوانین ہیں اوراسلام حکومت کو بھی ذمہ دار بناتا ہے کہ اس کے قوانین کو معتبر جانے اور ان کو عملی جامہ پہنائے، اور اگر کوئی حکومت اسلام کے قوانین کو معتبر نہ جانے اور ان کو جاری کرانے کی فکر میں نہ رہے ، تو اسلام کی نظر میں اس حکومت کا کوئی اعتبار ا ور مشروعیت نہیں ہے-

۳- اسلام معاشرہ کو ادارہ نہیں کرسکتا (ایک شبہ)

یھاں پر ایک شبہ یہ ہوتا ہے کہ آج کل انسان کی زندگی ترقی یافتہ دور میں بڑے پیمانے پرنئے نئے قوانین کا نیاز مند ہے اور ان سب کا جواب قرآن کریم یا سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم او رکلام ائمہ معصومین علیہم السلام میں نہیں پایا جاتا، آج انسان کو اس طرح کے قوانین کی ضرورت ہے کہ جو صدر اسلام میں بالکل بھی موجود نہیں تھے تو ان کا حکم ہی کھاں سے بیان ہوا ہوگا،مثال کے طور پر فضائی اور ہوائی لائن کے مسائل کو پیش نظر رکھیں کہ کیا کوئی ہوائی جہاز کسی دوسرے ملک کی فضا میں بغیر اس ملک کی اجازت کے گذرسکتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ اس طرح کے قوانین قرآن یا حدیث رسول یا کلام ائمہ معصومین علیہم السلام میں نہیں ہیں کیونکہ اس زمانے میں ہوائی جہاز کا تصور ہی نہیں تھا تاکہ یہ مسئلہ پیش آتا کہ ہوائی جہاز دوسرے ملک کی فضا سے گذر سکتا ہے یا نھیں -

اسی طرح ٹرافک اور ڈرائیورنگ کے مسائل ، اس وقت میں بس یاگاڑی کا وجود ہی نہیں تھا کہ اس کے قوانین بیان ہوتے ، اسی طرح دوسرے قوانین کہ جن کی انسان کو اس وقت ضرورت ہے مثلاً دریا اور سواحل کے قوانین، اور اس طرح کے دوسرے قوانین کہ جن کے بارے میں ابھی تک خاص قوانین نہیں بنائے گئے اورضرورت ہے اس بات کی کہ حقوق داں اور قانون گذار حضرات اس سلسلہ میں بڑے غور وفکر سے ان کے لئے قوانین بنائیں -

لھٰذا ان چیزوں کے پیش نظر قرآن اور حدیث میں ذکرکئے گئے قوانین انسان کی ضرورتوں کو پورا نھیں کرسکتے،تو پھر کس طرح یہ کھا جاسکتا ہے کہ معاشرہ میں اسلامی قوانین نافذ ہونا چاہئے جبکہ بعض چیزوں کے بارے میں اسلام کوئی قانون ہی نہیں رکھتا،!

لھٰذا انسان کے لئے ایسے قوانین کی واضح ضرورت ایک طرف،اور اسلام میں ایسے قوانین موجود نہ ہونا دوسری طرف، تو اس موقع پر کیا کیا جائے؟ او رایسے موقع پر ہم کس طرح اسلامی قوانین پر پابند ہوں ؟اب تک جو ذکر ہوا یہ ان لوگوں کا نظریہ تھا جو اسلام کو نہیں مانتے اور یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلامی قوانین معاشرہ کو چلانے کےلئے کافی نہیں ہیں ؛ اور ان کی جگہ بشریت کے بنائے ہوئے قوانین کی طرف رجوع کیا جائے، اعتراض کرنے والوں نے موضوع مشکل اور پیچیدہ کرنے کے لئے اس اعتراض کو مختلف طریقوں سے پیش کیا ہے او رلوگوں نے اپنے مختلف خواہشات کی بنا پر اس سلسلہ میں مختلف بیان دیا ہے-

لیکن ان سب کا ہدف او رمقصد اسلامی حکومت کو کمزور اور متزلزل کرنے کے لئے ہے کہ اسلام معاشر ہ کو ادارہ نہیں کرسکتا، لھٰذا اسلامی انقلاب اور اسلامی حکومت کی باتیں کرنا اور ان پر اصرار اور تاکید کرنا بے فائدہ ہے، لھٰذا حکومت کو اسلامی ہونے کے نظریہ کو اپنے ذہن سے نکال دینا چاہئے کیونکہ یہ کام ہونے والا نہیں ہے،افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض اسلامی انقلاب کے طرفدار اور اسلام کے معتقد افراد بھی اس شبہ کے تحت تاثیر واقع ہوتے جارہے ہیں ، لھٰذا ضروری ہے کہ اس اعتراض کا مناسب اور محکم جواب دیا جائے تاکہ اسلام کے قوانین پر پابند رہیں اور جن مسائل میں معاشرہ کی ضرورت کے تحت اسلام میں قوانین کو نہ پائےں تو اس کے راہ حل کو پہچان لیں -

۴-قوانین کی مختلف اقسام اور متغیر قوانین ہونے کی ضرورت

مذکورہ اعتراض کے جواب میں اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ ”قانون“کے ایک وسیع اور عام معنی ہیں اور ”تکوینی“ قوانین بھی اس میں شامل ہوتے ہیں ؛ مثلاً فیزیک اور شیمی کے قوانین اور قانون لاوازہ ، جاذبہ نیوٹن اور نسبیت انیشٹین، اس طرح کے قوانین (کہ جو تکویناً موجود ہیں اور واقعیت بھی رکھتے ہیں ) دانشمندوں کے ذریعہ کشف ہوتے ہیں اور بنائے جانے والے نہیں ہیں ، اور یہ قوانین ثابت اور طبیعی و واقعی چیزوں سے مربوط ہیں ، اور حقوقی اور سیاسی مسائل سے ان کا کوئی ربط نہیں ہے، اسی طرح عقلی قوانین؛ مثلاً منطقی اور فلسفی قوانین اور میتہ میٹھک کے مسائل سے ہماری بحث نہیں ہے، بلکہ ہماری بحث ان قوانین سے ہے کہ جو قابل وضع ہیں جن کو اصطلاح میں ”اعتباری قوانین“ کھا جاتا ہے، ان قوانین کا اعتبار اور ان کا جاری کرنا اس صورت میں صحیح ہے کہ کوئی معتبر مرکز ان کو وضع کرے، اور قوانین کی تین قسمیں ہیں :

الف- قانون اساسی

قانون اساسی (بنیادی قوانین) ان قوانین کو کھتے ہیں کہ معمولاً ثابت اور ہر ملک کی ثقافت کے اعتبار سے بنائے جاتے ہیں ، یہ قوانین نسبتاً ثابت (غیر قابل تبدیل) ہوتے ہیں اور ایک طولانی مدت تک جاری رہتے ہیں ، یہ روز مرہ والے قوانین نہیں ہوتے او رانہیں کو معاشرہ کو ادارہ کرنے کی اصل سمجہا جاتا ہے،یہ قوانین ثابت ہونے اورپیہم تبدیلی نہ ہونے کی وجہ سے کلّی اور محدود ہوتے ہیں ؛ اسی وجہ سے ہر ملک کے اساسی اور بنیادی قوانین چند اہم اور بنیادی اصولوں کو شامل ہوتے ہیں -

لھٰذا جزئی اور وہ وقتی قوانین کہ جن کی ضرورت بھی زیادہ ہے لیکن زمان ومکان کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں ، ان کو قانون اساسی میں رکھا جائے،اور قانون اساسی میں کلّی قوانین او رثابت قوانین پر ہی اکتفاء کی جائے اور اس میں جزئی قوانین کو بیان کرنے سے پرہیز کیا جائے، مگر وہ جزئی اور محدود قوانین کہ جو اہم ہیں او ران کا ذکر ہونا ضروری ہو-

ب- پارلیمینٹ کے بنائے گئے قوانین

قوانین کی دوسری قسم وہ ہے کہ جن کو پارلیمینٹ میں بنایا جاتا ہے ، اگرچہ بعض مملکوں میں پارلیمینٹ کے علاوہ ”مجلس سنا“بھی بنائی جاتی ہے یا اس کو کوئی دوسرا عنوان دیدیا جاتا ہے، اور اس کے قوانین بھی پارلیمینٹ کے قوانین کی طرح معتبر مانے جاتے ہیں ،ہمارے ملک میں بھی پارلیمینٹ کے علاوہ ایک ”مجلس شورای نگھبان“ ہوتی ہے کہ جو دوسرے ممالک میں مجلس سنا یا قانون اساسی کورٹ کی طرح ہے جس میں کچھ فقھاء اور حقوق داں حضرات شامل ہیں ، مجلس شورای نگھبان اسلامی پارلیمینٹ کے بنائے گئےقوانین کو قانون اساسی اور قوانین شرعی سے تطبیق کرتے ہیں ، اور اگر وہ قوانین قانون اساسی اور قانون شرعی سے موافق نہ ہوں تو ان کو لوٹا دیتے ہیں تاکہ ان پر نظرثانی کی جاسکے-

ج- انجمنِ حکومت کے بنائے گئے قوانین

ھر ملک میں پارلیمینٹ کے بنائے گئے قوانین کے علاوہ دوسرے مرکزوں کے ذریعہ بھی قوانین بنائے جاتے ہیں اور وہ بھی لازم الاجراء ہوتے ہیں ،جس کا نمونہ انجمن حکومت (ھیئت دولت) کے بناکے ہوئے قوانین ہیں ،قانون اساسی نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ حکومتی انجمن خاص موقعوں پر قانون بنائے، اسی طرح صدر مملکت بھی خاص موقعوں پر اپنے مرضی کے مطابق تصمیم گیری کرے، اور یہ حکومتی انجمن اور صدر مملکت کے بنائے ہوئے قوانین پارلیمینٹ میں نہیں جاتے بلکہ خود ہی قانونی اور لازم الاجراء ہوتے ہیں ،اور اسی طرح وہ قانون دستاویز اور بخش نامے جو کسی وزیر کے ذریعہ بعض اداروں اور دوسرے مرکزوں کو دئے جاتے ہیں ،اور ان کو بھی ایک طرح کا قانون کھا جاتا ہے اور حکومت ان کو بھی جاری کرنے کی ضامن ہوتی ہے،لھٰذا ہمارے ملک اور اسی طرح دوسرے بعض ملکوں میں تین طریقہ کے قانون ہوتے ہیں :

۱-قانون اساسی-

۲-پارلیمینٹ کے بنائے ہوئے قوانین-

۳-حکومتی انجمن یا صدر مملکت کے بنائے ہوئے قانون او راسی طرح ان مرکزوں کے قوانین جن کو قانون نے ہی اجازت دی ہو-

اور ظاہر ہے کہ دنیا کے کسی بھی گوشہ میں کسی بھی زمانہ میں ممکن نہیں ہے کہ تمام قوانین ومقررات کو ایک جگہ اور ایک ہی زمانہ میں بنالیا جائے، چونکہ وضع شدہ قوانین اور اجرائی آئین نامے زمان ومکان کے بدلنے کے لحاظ سے ضرورت ہے کہ قانون تبدیل ہوں یا ان پر تجدید نظر ہو، مثلا پارلیمینٹ آج کوئی قانون بناتا ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ کل حالات بدل جائیں اور اس قانون کو بدلنے اور ان میں تجدید نظر کرنے کی ضرورت پیش آجائے، اسی طرح اجرائی مقررات اور قوانین بھی حالات کے لحاظ سے قابل تبدیل ہیں اوران پر نظر ثانی ہوتی رہتی ہے-

اسی طرح جب کوئی حکومت بدلتی ہے تو ایک محدود دائرے میں رہ کر کچھ قوانین کو بدل سکتی ہے، البتہ وہ لوگ جو معاشرہ کی بھبودی چاہتے ہیں ان کی ہمیشہ کوشش یھی ہوتی ہے کہ قوانین کو اس طرح دقت اور غور وفکر کرنے کے بعد بنایا جائے کہ معاشرہ کے لئے بہت مناسب ہوں او راس میں کم سے کم خامیاں ہوں ، ظاہر ہے کہ جب ہم یہ کھتے ہیں کہ قوانین کو اسلامی ہونا چاہئے تو اس سے ہماری مراد یہ نہیں ہوتی کہ تمام قوانین چاہے قانون اساسی ہوں یا پارلیمینٹ کے بنائے ہوئے قوانین، سب کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے-

۵-قوانین کا اسلامی ہونے کا مطلب

قوانین اور مقررات کے اسلامی ہونے اور ان کے معنی کی وضاحت کے بارے میں ، عمومی قوانین کے اوپر نظر کرنا مفید ہے ،نمونہ کے طور پر قوہ مجریہ یا ہیئت حکومت اسی دائرے میں رہ کر قوانین کو بناسکتی ہے کہ جن میں پارلیمینٹ نے اجازت دی ہو، یعنی ان کے دائرہ وسیع نہیں ہے، دوسرے الفاظ یوں عرض کیا جائے کہ ان کے اختیارات کی حد، قانون اساسی اور قانون پارلیمینٹ معین ومحدود کرتے ہیں ، او راجرائی قوانین بھی اسی کے تحت ہونا چاہئے، یعنی یہ قانون ان کلّی احکامات کے مصادیق ہیں کہ جو قانون اساسی اور پارلیمینٹ کے قانون میں پاس ہوچکے ہیں ، لھٰذا یہ قانون پہلے قانون اساسی اور قانون پارلیمینٹ میں بیان ہوتے ہیں ،اس کے بعد ہیئت حکومت یا دوسرے صاحب منصب حضرات خاص موارد میں ان کلیات کے مصادیق کو قانون کی شکل میں تنظیم کرتے ہیں -

خلاصہ یہ کہ یہ قانون صرف ان کے دل خواہ نہیں ہوتے بلکہ قانون اساسی اور قانون پارلیمینٹ کے موافق ہوتے ہیں ،اور پارلیمینٹ کے قانون بھی شورای نگھبان کے تائید شدہ ہونے چاہئے اور اسی صورت میں یہ قانون معتبر ہوتے ہیں اور ان کے جاری ہونے کی ضمانت ہوتی ہے، لھٰذا ان قوانین کا معتبر ہونا اور لازم الاجراء ہونا اس چیز پر موقوف ہے کہ وہ پارلیمینٹ کے قوانین کے موافق ہوں ، اور پارلیمینٹ کے قوانین کے معتبر ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ قانون اساسی کے موافق ہوں ،اور قانون اساسی کے معتبر ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ خداوندعالم کے تشریعی ارادہ کے تابع ہوں ، اس ترتیب کے لحاظ سے یہ قوانین ایک دوسرے کے تابع ہوتے ہیں او ران کے معتبر ہونے میں اس طرح کا لحاظ ضروری ہے کہ یہ تمام قوانین، اسلام اور خداوندعالم کے تشریعی ارادہ پر ختم ہوتے ہوں ؛ نہ یہ کہ تمام قوانین اور مقررات اور آئین نامے اور پارلیمینٹ کے قوانین سب کے سب قرآن مجید اور احادیث شریف میں موجود ہوں -

اگر خدا وندعالم نے پیغمبر اکرم (ص) کو اتنا اختیار عنایت کیا کہ خاص موارد میں خاص قانون بناسکتے ہیں ، اور چونکہ اس قانون میں خداوندعالم کی اجازت اور اس کا ارادہ شامل ہے ،معتبر اور لازم الاجراء ہے، رسول اکرم (ص)کی اطاعت او ران کی پیروی خدا وندعالم کے حکم سے واجب ہے اور اسی حکم خدا کے زیر سایہ پیغمبر اکرم کا بنایا ہوا قانون بھی معتبر ہے، اور ہم مسلمانوں پر ان کی اطاعت او رپیروی واجب ہے؛ ورنہ اگر ہم خدا کے حکم سے صرف نظر کرلیں تو پیغمبر کے دستورات خودبخود واجب نہیں رہ جاتے-

لھٰذا وہ قوانین جو براہ راست خداوندعالم کی طرف سے ہوں اور قرآن مجید میں صاف صاف بیان ہوے ہوں پہلا درجہ رکھتے ہیں اور خود بخود معتبر ہیں ، اس کے بعد خدا کے حکم سے رسول اکرم کے بنائے ہوئے قوانین دوسرے درجہ میں قرار پاتے ہیں ، او رآپ کے بنائے ہوئے قوانین خدا کے حکم کی وجہ سے معتبر ہیں ، اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام کے بنائے ہوئے قوانین او راحکامات خدا کے حکم کی وجہ سے معتبر ہیں ؛کیونکہ خدا او رپیغمبر نے ائمہ (ء) کی اطاعت کو واجب کیا ہے -

اب اگر ہم اپنے کو حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے زمانہ میں کسی اسلامی منطقہ میں فرض کریں بے شک آپ کی اطاعت کو اپنے اوپر واجب جانتے،مثلاً آپ مالک اشتر کو اس شہر کا والی بناکر بھیجتے او ریہ فرماتے کہ ان کے احکامات اور دستورات کے اوپر عمل کریں اور ان کی نافرمانی نہ کریں اور جس نے ان کی اطاعت کی میری اطاعت کی ؛ اگرچہ مالک اشتر کے احکامات کا بذات خود کوئی اعتبار نہیں ہے اور وہ بھی دوسروں کی طرح ہوتے، لیکن چونکہ امام کا حکم ہواہے لھٰذا اس صورت میں ان کی طاعت واجب اور ان کے احکامات لازم الاجراء ہیں ، کیونکہ یہ امام معصوم کی طرف سے مقام ولایت پر فائزھیں اور خدا اور پیغمبر کی طرف سے منصوب ہوئے ہیں لھٰذا ان کی اطاعت واجب مانی جاتی ہے، جب کہ امام معصوم کی طرف سے منصوب شدہ والی اور حاکم کے دستور او رفرمان تیسرے درجہ میں حساب ہوتے ہیں ، مثال کے طور پر اگر اسلامی پارلیمینٹ نے کسی صاحب منصب کو یہ اختیار دیدے کہ وہ کسی چیز کے بارے میں کوئی دستور العمل بنائے ،اورچونکہ اس کے اس کام کا اختیار دیا گیا ہے لھٰذا اس کے بنائے ہوئے قوانین لازم الاجراء ہیں ،اسی طرح قوانین پارلیمینٹ بھی قانون اساسی کی وجہ سے معتبر ہے اور اس کے بنائے ہوئے قوانین قانون اساسی کی وجہ سے معتبر ہوتے ہیں -

لیکن دوسرے ممالک میں قانون اساسی کا اعتبار لوگوں کے ووٹ اور رائے گیری پر ہوتا ہے، لیکن ہم قانون اساسی کا مقام اس سے بڑہ کر بلند مانتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قانون اساسی کا اعتبار خدا کی اجازت پرمنحصر ہوتا ہو کہ پیغمبر یا امام معصوم یا کوئی شخص مالک اشتر کی طرح اس قانون اساسی کی تائید کرے، اس وجہ سے قانون کا اعتبار خدا ، رسول اور ائمہ علیہم السلام کے کلام کی وجہ سے ہے اور اس کے بعد اس شخص کی وجہ سے ہوتا ہے کہ جو امام معصوم کی طرف سے معین ہو،اور یھی اسلام کا فلسفہ اور تھیوری ہے، امام معصوم (ء) کی غیبت کے زمانہ میں چونکہ ولی فقیہ عمومی اعتبار سے امام علیہ السلام کی طرف سے منصوب ہے تو اس کی ولایت امام معصوم (ء) کی طرف سے تائید شدہ اور معتبر ہے، اور ولی فقیہ کی تائید سے قانون اساسی معتبر ہوتا ہے، اور اس کے علاوہ قانون اساسی بذات خود معتبر نہ ہوگا، اور اس پر سوالیہ نشان باقی ہے کہ اس کا اعتبار کھاں سے ہے اور کس حد تک یہ معتبر ہے، اور کن لوگوں کو حق ہے کہ وہ قانون اساسی کو بدل سکیں ،وہ قومیں جو اقلیت میں ہےں اور انھوں نے قانون اساسی کے بارے میں ووٹ نہیں دیا ہے کس وجہ سے یہ لوگ اس قانون اساسی کی پیروی کریں اور اسی طرح کے دوسرے بہت سے سوالات، لیکن اگرہمارا نظریہ یہ ہو کہ قانون اس صورت میں معتبر ہوگا جب امام معصوم کی طرف سے معین شدہ شخص اس کی تائید کردے ، تو پھر کسی سوال کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی-

۶-اسلامی حکومت میں قانون گذاری کا مسئلہ

اب تک یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ قانون گذاری کے سلسلہ میں اسلامی حکومت کی تھیوری ، یہ ہے کہ قانون کا اعتبار خداوندعالم کی طرف سے ہے اور اس کے بعد جس کو خداوندعالم یہ اجازت دیدے، مثلاً پیغمبر اسلام تو پھر ان کا کلام بھی معتبر ہے اور اسی طرح پیغمبر جس کو منصوب کردیں ہمارے لئے معتبر ہیں جیسے حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کو منصوب فرمایا لھٰذا ان کا کلام ہمارے لئے معتبر ہوا، اور اسی طرح اگر امام معصوم کسی کو عمومی یا خصوصی طور پر منصوب کردیں تو اس کا کلام بھی ہمارے لئے معتبر ہے،وہ فرمان اور احکامات کہ جودرجات عالیہ سے صادر ہوتے ہیں الہی اور اسلامی ہیں کیونکہ خداوندعالم کی طرف سے تائید شدہ ہیں ، البتہ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ اسلامی حکومت میں کبھی کبھی یہ تائید چندواسطوں کے ذریعہ انجام پاتی ہے ، ولی فقیہ کے لئے امام معصوم کی تائید ہوتی ہے اور امام معصوم علیہ السلام کے وارادہ واختیار کی تائید پیغمبر اکرم کی تائید سے ہوتی ہے اور آخر میں پیغمبر اکرم ہیں کہ جن کا اعتبار قرآن کریم کے صاف صاف بیان سے ہوتا ہے، جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے:

( یَا ا یُّها الَّذِیْنَ ا طِیْعُوا اللّٰه وَا طِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَ ا وْلِی الا مْرِ مِنْکُمْ ) (۱)

”اے ایماندارو خدا کی اطاعت کرواور رسول کی اور جو تم میں سے اولی الامر ہو ان کی اطاعت کرو“

اسی طرح یہ آیت بھی:

( اَلنَّبِیُّ ا وْلیٰ بِالْمُومِنِیْنَ مِنْ ا نْفُسِهمْ ) (۲)

”نبی تو مومنین سے خود ان کی جانوں سے بھی بڑہ کر حق رکھتے ہیں “

بے شک مذکورہ رابطہ اسلام کے وضع شدہ اصول کے اعتبار سے ان لوگوں کے لئے مکمل طورپر قابل قبول ہے کہ جو خدا، پیغمبر اور امام معصوم کا اعتقاد رکھتے ہوں ، اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہم اس مسئلہ کو سادہ زبان میں ان لوگوں کے لئے بیان کریں کہ جو نہ خدا کو مانتے ہیں اور نہ ہی رسول خدا کو،اور امام معصوم کی حقانیت میں شک کرتے ہوں ، ان کے لئے ایک دوسرے طریقہ سے بحث ہونا چاہئے: سب سے پہلے اسلام کے بنیادی اصول کو بیان کریں اور اس کے بعد دوسرے مسائل کے بارے میں بحث کریں جیسے حکومت وسیاست کے مسائل، البتہ ممکن ہے کہ اس بحث کو آزاد طریقہ سے بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ اس طرح کی قانون گذاری بہت ر اور معاشرہ کے لئے مفید تر ہوسکتی ہے یا قانون گذاری کے دوسرے طریقے کہ جو رائج ہیں -

۷-اسلامی حکومت میں قانون کے جاری کرنے والوں کو منصوب کرنا

اسلام کی سیاسی تھیوری میں قانون کو خدا کی طرف سے ہونے کے ساتھ ساتھ ، ولایت کے زیر نظر قوانین اور مقررات اگر خدا، رسول خدا، امام معصوم اور ن کے خاص یا عام جانشینوں کی تائید حاصل ہو تو وہ قوانین معتبر ہوجاتے ہیں ،اس کے ساتھ ساتھ قوانین کا اجراء کرنے والا بھی خدا وندعالم کی طرف سے معین ہو، (البتہ قوہ قضائی بھی قوہ مجریہ سے مربوط ہوتی ہے ، لیکن اس کی خاص اہمیت کی خاطراور اس وجہ سے کہ اختلاف وغیرہ کو حل کرنے کا ایک بہت رین مرکز شمار ہو ،اور قوانین کو جاری کرنے سے پہلے ان کے مصادیق پر منطبق کرے، اس کے لئے مستقل مقام اور خاص شرائط معین کئے گئے ہیں )

جس وقت پیغمبر یا امام معصوم حاضر ہوں تو وہ خود قانون کے جاری کرنے کے ذمہ دار ہیں یا یہ حضرات کسی کو اپنی طرف سے منصوب کریں کہ قانون کو جاری کرنے کا ذمہ دار ہو؛ جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے جناب مالک اشتر کومصر کا والی وحاکم منصوب کیاتاکہ وہاں جاکر قوانین کا نفاذ کرے، لیکن امام علیہ السلام کی غیبت میں کہ جب عوام الناس امام تک نہیں پہونچ سکتی،قانون کے نفاذ کی ذمہ داری اس شخص کی ہے کہ جس کو امام نے بطور عام منصوب کیا ہو، اور یہ وہی ولایت فقیہ ہے کہ ہم جس کے بارے میں بعد میں گفتگو کریں گے ،(انشاء اللہ)

یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اسلام کی سیاسی تھیوری اور اسلام کے حکومتی ڈھانچے میں جس طرح قانون کو خدا کی طرف سے ہونا چاہئے(یعنی قانون یا قرآن مجید میں موجود ہو یا احادیث پیغمبر میں موجود ہو کہ جس کا اعتبار بھی خدا کی طرف سے ہے یا امام معصوم کی طرف سے کہ جن کا اعتبار پیغمبر اکرم کی وجہ سے ہے، یا اس شخص کی طرف سے ہو کہ جس کو خدا یارسول یا امام نے قانون گذاری کی اجازت دی ہو، ) یعنی اسی طرح قانون کا نافذ کرنے والا بھی خدا وندعالم کی طرف منسوب ہو ، اور وہ خداوندعالم کی طرف سے خاص یا عام طور پر معین کیا گیا ہو-

اسی طرح قوہ قضائیہ بھی خداوند عالم کی طرف منسوب ہو یعنی قاضی یا تو براہ راست خدا وندعالم کی طرف سے معین ہو یا غیر مستقیم طور پر معین ہو ،اور اگر قاضی کسی بھی طرح خداوندعالم سے نسبت نہ رکھتا ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے -

قرآن مجید میں حضرت داؤد علیہ السلام کو براہ راست قضاوت کے لئے منسوب کرنے کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے :

( یَا دَاوُدُ إنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَةً فِیْ الا رْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحِقِّ، ) (۳)

”(ہم نے فرمایا) اے داؤد ہم نے تم کو زمین پر (اپنا)نائب قرار دیا تو تم لوگوں کے درمیان بالکل ٹھیک فیصلہ کیا کرو“

پیغمبر اکرم کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

( لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا ا رَاکَ اللّٰه، ) (۴)

”جس طرح خدا نے تمھاری ہدایت کی ہے اسی طرح لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو“

اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

( فلََا وَرَبِّکَ لَایُومِنُونَ حَتیّٰ یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهمْ ) (۵)

”پس (اے رسول) تمھارے پروردگار کی قسم اس وقت تک یہ لوگ سچے مومن نہیں ہوں گے جب تک اپنے باہمی جھگڑوں میں تم کو اپنا حاکم (نہ) بنائیں “

نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کی سیاسی تھیوری ،حکومت ،سیاست اور معاشرہ کی مدیریت اورتمام کے تمام امور خداوند عالم کے تشریعی ارادہ پر ختم ہوتے ہوں -

حوالہ

۱ سورہ نساء آیت ۵۹-

.۲ سورہ احزاب آیت۶

.۳ سورہ ص آیت ۲۶

.۴ سورہ نساء آیت ۱۰۵

۵۔ سورہ نساء آیت ۶۵

چھٹا جلسہ

اسلام میں آزادی(۲)

۱-تاریخ انسان میں تحویل و تحول کی بنا پر ایک شبہ

یہ شبہ انسانی تاریخ، تمدن اور کلچر کے تحول و تبدل نیز اجتماعی نظام میں تغییر و تبدیلی کی بنا پر ہوتا ہے، اور یہ طے شدہ بات ہے کہ انسانی اجتماعی زندگی مختلف مرحلوں سے گذری ہے، اور ایک زمانہ میں ”غلامی“ کا مسئلہ رائج تھا، اور انسانی کی ترقی اسی میں سمجھی جاتی تھی کہ کمزور اور ناتوان لوگ دوسروں کی غلامی کریں ، اور ان کی ہر ممکن خدمتگذاری کرتے رہیں ، ظاہر سی بات ہے کہ اس زمانے میں انسان و خدا جیسا غلام اور آقاکے درمیان ہوتا تھا، کیونکہ اس زمانے میں یہ رائج تھا کہ بعض طاقتور لوگ مولا اور آقا اور بعض کمزور لوگ ان کے بندے اور غلام بن کر رہیں ، اور انسانوں کے درمیاں رابطہ بھی عبد اور آقا کے لحاظ سے سمجہا جاتا تھا، اس بنا پر جس طرح ضعیف اور کمزور لوگ عبد اور بندے اور ذلیل و پست سمجھے جاتے تھے، اس طرح لوگ خدا کے عبد اور بندے سمجھے جاتے تھے، اور خداوند ان کا مولا و آقا، آج جب بندگی اور غلامی کا دور ختم ہو چکا ہے، لھٰذا اس وقت کا قیاس اور معیار اس زمانے میں نہیں لانا چاہئیے-

آج انسان کسی بھی زبردستی کو قبول نہیں کرتا، اور اپنے کو آقا سمجھتا ہے نہ کہ بندھ، لھٰذا ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ہم بندہ ہیں اور خدا مولا، آج ہم خود کو اللہ کا خلیفہ مانیں ، اور جو خداکا جانشین ہو اس کو بندگی کا احساس کیسا، گویا خداوند عالم سے خدائی ختم ہو چکی ہے اور یہ حضرت اس کی مسند پر بیٹھے ہوئے ہیں ، اور جو چاہیں کریں جس طرح کوئی حاکم کسی کو اپنا قائم مقام بنائے تو وہ اس کے تمام اختیارات کا مالک بن جاتا ہے، اور اس کے کام کے کام ہوتے ہیں اور ان کے درمیان حاکم و فرمانبردار کا رابطہ نہیں ہے، اور قائم مقام کے کاموں کی کوئی باز پرس نہیں ہونا چاہیے-

اس زمانہ میں جبکہ ماڈرن اور جدید تمدن کا دور دورا ہے، اور ہماری زندگی ایک بلند مرتبہ پر پہونچ چکی ہے تو ہم بندگی اور غلامی کی زندگی کے احکام (اطاعت و فرمانبرداری) کو قبول نہیں کر سکتے، اور آقا و مولیٰ کے پیچھے پیچھے گھومتے رہیں ، تکلیف اور اطاعت کا زمانہ پیچھے رہ گیا ہے، اور اگر قرآن میں تکالیف اور دوسرے فرمان موجود ہیں تو وہ غلامی کے زمانے کے ہیں ، کیونکہ جس وقت رسول اکرم مبعوث ہو ئے، غلامی کا زمانہ تھا، اور اسلام کا پہلا دور، خدا ورسول اور لوگوں کے درمیان رابطہ کیلئے مناسب تھا-

کبھی یہ کھا جاتا ہے کہ انسان تکلیف کا طالب نہیں ہے، لیکن حقوق کا طالب ہے اور اس کے ذہن میں کبھی یہ نہیں آتا کہ اس پر کوئی فریضہ اور ذمہ داری ہے، تاکہ ان کو انجام دے سکے، انسان کو چاہئیے کہ وہ خدااور دوسروں سے اپنے حقوق کو حاصل کرے-

خلاصہ یہ کہ جو لوگ پیغمبر، آئمہ اور ان کے جانشینوں کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں یہ چودہ صدی پہلے کسی اجتماعی زندگی کا تھا، جبکہ آج کی اجتماعی زندگی بالکل بدل چکی ہے، اور فرائض اور ذمہ داری کی کوئی بات نہیں کرتا بلکہ انسانی حقوق کی باتیں ہوتی ہیں ، انسان کو یہ سمجہانا ضروری ہے کہ تجھے یہ حق ہے کہ جس طرح بھی چاہے زندگی کرے، تجھے اپنی مرضی کے مطابق کپڑے پہننے کا حق ہے، اور جس طرح بھی چاہے اجتماعی زندگی کو بسر کرےْ-

۲-ہمارا جواب

ہم مذکورہ اعتراض کا جواب ”تکوینی“ اور ”تشریعی“ لحاظ سے پیش کرتے ہیں ، کیونکہ ہمارے سامنے دو مقام ہیں : تکوینی مقام، تشریعی مقام، بعبارت دیگر مقام واقعیت اور ”ھست ھا“(ھے) اور دوسرے مقام تکلیف ”بایدھا“ (ھونا چاہیے) یعنی عالم واقعیات ، اور عالم ارزشھا (قیمت اور اہمیت) (اگرچہ مذکورہ الفاظ کے ایک ہی معنی ہیں ، البتہ مختلف لوگوں کو سمجہانے کیلئے مختلف الفاظ ہیں ) اب ہمیں یھاں دیکھنا ہے کہ تکوینی لحاظ سے ہماری خدا سے کیا نسبت ہے، کیونکہ اگر کوئی خدا کو مانتا ہی نہ ہو، تو اس کی نظر میں خدا سے کوئی نسبت بے فائدہ ہے-

لیکن اگر کوئی شخص خدا پر اعتقاد رکھتا ہو یا کم سے کم یہ قبول کرتا ہو کہ اس کا پیدا کیا ہوا ہے، اور خدا کی خالقیت کو قبول کرتا ہے (خدا کو ماننے کا یہ سب سے کم درجہ ہے) اور اپنے کو خدا کی مخلوق جانتا ہو، البتہ خدا کی خالقیت پر اعتقاد رکھنے سے انسان موحد (خدا کو ایک مانے والا) نہیں بنتا، لھٰذا خدا کی تکوینی اور تشریعی ربوبیت کا قائل ہونا ضروری ہے، توحید در خالقیت کی بنا پر کسی کا یہ کہنا کہ وہ خدا کا بندہ اور اس کا مملوک نہیں ہے خود اس کے خداوند عالم کی خالقیت کے اعتقاد سے ٹکراتا ہے، توحید کا پہلا قدم اپنے کو خدا کی مخلوق تسلیم کرنا ہے، اور ہمارا وجود خدا کا عطا کردہ ہے، اور یہ وہی عبودیت ہے، عبد یعنی مملوک، دوسری کی ملکیت ہونا، لھٰذا اگر کوئی اپنے کو مسلمان اور خدا کا معتقد کھلاتا ہے ، لیکن اپنے کو خدا کی عبودیت اور مملوکیت نہیں مانتا، گویا اس کی گفتگو میں واضح تناقض ہے، کیونکہ خدا پر اعتقاد ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ ہم خود کو اس کی مخلوق، عبد اور مملوک سمجھیں ، اس وجہ سے تمام مسلمان اپنی بہت رین عبادت نماز میں کھتے ہیں ”اشھد انّ محمدًا عبد ہ و رسولہ" اور یہ بات مسلّم ہے کہ انسان کیلئے سب بہت رین عظمت اور مقام خدا کا بندہ ہونا ہے، اس وجہ سے خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:

( سُبْحَانَ الَّذِی ا سْریٰ بِعَبْدِه مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْا قْصا- ) (۱)

”وہ خدا (ھر عیب سے) پاک وپاکیزہ ہے جس نے اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام (خانہ کعبھ) سے مسجد اقصیٰ(آسمانی مسجد) تک کی سیر کرائی“

جی ھاں ! خدا کی بندگی اور اس کی عبودیت کی اہمیت کے پیش نظر قرآن میں اس خوبصورت لفظ ”عبد“ اور اس کے دوسرے مشتقات کو استعمال کیا گیا ہے، اور انسان کیلئے بہت رین اور بلند درجہ کو ”عبودیت“ شمار کیا گیا ہے:

( یَا ا یَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ اِرْجِعِی اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرْضِیَّةً فَادْخُلِی فِی عِبَادِی ) (۲)

”اور کچھ لوگوں سے کھے گا) اے اطمنان پانی والی جان اپنے پر وردگار کی طرف پلٹ آتو اس سے خوش ہے وہ تجہ سے راضی ہے تو میرے (خاص بندوں میں شامل ہوجا“

تشریعی لحاظ سے دوسرا جواب

دوسرا جواب تشریعی لحاظ سے یہ ہے کہ انسان کا آزاد ہونا اور قانون ذمہ داری قبول کرنا آپس میں سازگار نہیں ہے کہ جس کا نتیجہ وحشت ، ظلم و بربریت اور عسرد حرج ہے، اور یہ نتیجہ نکالنا کہ انسان آزاد ہے جس طرح چاہے عمل کر سکتا ہے، اگرچہ اس نے اس قانون کو ووٹ دیا ہو لیکن اس پر عمل کرنے سے انکار کرے،ایسا تو جنگل میں بھی نہیں ہوتا کیونکہ وہاں پر بھی حیوانوں کے عمل کرنے کے لئے خاص قوانین ہوتے ہیں -

لھٰذا جب ہم تمدن اور مدنیت کا دم بھرتے ہیں تو ہمیں قبول کرنا پڑے گا کہ مدنیت کا سب سے پہلا رکن یہ ہے کہ انسان قوانین پر عمل کرنے کا ذمہ دار ہے، اور ذمہ داری اور مسئولیت کو قبول نہ کرنے سے نہ صرف یہ کہ تمدن جدید کا ادعا نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اپنے کو وحشی گری کی سب سے نیچی کھائی میں غلطاں پائیں گے-

دوسرے الفاظ میں یوں بیان کیا جائے کہ انسان کی فصل مقوم عقل ہے، اور عقل کا حکم یہ ہے کہ انسان ذمہ داری کو قبول کرے، اور خدا امور کو انجام دینے کا مکلف سمجھے اور بعض چیزوں سے پرہیز کرے، لھٰذا اگر کوئی محلہ اور سڑک پر اپنی مرضی کے مطابق کپڑے پہنے یا لوگوں کے سامنے برہنہ آئے اور جو بھی منہ میں آئے وہ کھتا پھرے، تو اس صورت میں کیا کوئی اس کو عاقل تصور کر سکتا ہے؟ یا اس کو وحشی اور دیوانہ کھا جائے گا؟ اور اگر کوئی اس سے سوال کرے کہ تم ایسے کام کیوں کرتے ہو؟ اب اگر اس کے جواب میں کھے کہ میں چونکہ آزاد ہوں اور آزادی مقوم انسان ہے،لھٰذا میں اپنی مرضی کے مطابق جو چاہوں کروں ، توکیا کوئی انسان اس کی ان باتوں کو قبول کر سکتا ہے؟

لھٰذا چونکہ انسان کی فصل مقوم عقل ہے، اور اس کا عقلی لازمہ یہ ہے کہ انسانی ذمہ داری اور قانون کو قبول کرے، کیونکہ اگر قانون نہ ہو تو مدنیت نہیں ہو سکتی، اور اگر مسئولیت اور ذمہ داری نہ ہو تو انسانیت بھی نہیں آسکتی، انسان کے آزاد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان تکویناً انتخاب کی قدرت رکھتا ہے، نہ کہ تشریعاً قانون اور الزام آور اور امکانات کو قبول نہ کرے، اور اپنی اجتماعی زندگی میں کسی حد وحدود کا قائل نہ ہو، پس نتیجہ یہ نکلا کہ انسان کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ دین کی ولایت آزادی کے مخالف ہے کیونکہ انسان کی فصل مقوم آزادی ہے جس سے انسان کا خدا کا جانشین ہونا لازم آتا ہے-!

۳-گذشتہ اعتراض، ایک دوسرے لحاظ سے

بعض لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ انسان کی زندگی میں مختلف طریقوں سے ترقی اور پیشرفت ہوتی ہے، اور جیسا کہ انسانی جدید تمدن میں نئے طریقہ کی نظریات اور تفکرات پیدا ہوئے ہیں ،ایسی صورت میں دین کو انسانی حقوق بیان کرنے چاہییں ، نہ یہ کہ دین تکالیف اور الزام آور احکامات بیان کرے،گذشتہ زمانے میں چونکہ غلامی ، بردگی اور ظلم و جور کا زمانہ تھا اور جو بھی ذمہ داری اور مسئولیت ان کو دی جاتی تھی وہ اس کو قبول کرتے تھے، لیکن آج وہ زمانہ نہیں ہے آج ہر انسان اپنے کوآقا سمجھتا ہے، آج انسان ذمہ داری کو قبول نہیں کرتا بلکہ اپنے حقوق لینا چاہتا ہے-

در حقیقت آج کا ماڈرن زمانہ ہمارے اور گذشتہ (غلامی اور بردگی کو قبول کرنے والے) لوگوں میں ایک بہت بڑی دیوار ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ آج ماڈرن انسان نے گذشتہ زمانے کی طرح ذمہ داری کو قبول کرنے کو بند کر دیا ہے، اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا ہے، آج تکالیف اور ذمہ داری کو قبول کرنے کی باتیں کرنا ماضی کی طرف پلٹتا ہے، آج کے اس زمانے نے جس میں حقوق بشر کا نعرہ لگایا جاتا ہے، ڈیموکراسی کی برکت سے انسان کو استشار اور غلامی کی قید و بند سے آزاد کر دیا ہے، آج کا دور وہ دور ہے کہ جس میں جو ادایان تکالیف اور ذمہ داری کی باتیں کرتے ہیں ان کو بالائے طاق رکہ دیا جائے، اور حقوق بشر کا نعرہ لگانے والے دین کو تلاش کیا جاتا ہے-

اعتراض کرنے والے اپنے ہدف اور مقصد تک پہونچنے کیلئے نیز سماج بالخصوص جوانوں کو اپنے طرف جذب کرنے کیلئے ایسی باتیں کرتے ہیں اور مختلف طریقوں کا سھارا لیتے ہیں اور اپنی باتوں کو خوبصورت و دلنشیں انداز اور مختلف طریقوں سے جاشنی لگا کر پیش کرتے ہیں ، لیکن ہم ان بے ڈھنگے سوالوں کا صحیح انداز میں جواب پیش کرتے ہیں -

۴-ہمارا جواب

معترض کا مطلق طور پر یہ کہنا کہ آج کا انسان اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا ہے، تکالیف و ذمہ داری کا مطالبہ نہیں کرتا، یہ بات بیھودہ اور باطل ہے جیسا کہ فلاسفۂ حقوق بھی کھتے ہین! انسان اس وقت کسی چیز کا مستحق نہیں ہوتا جب تک وہ دوسروں کیلئے کوئی کام انجام نہ دےے، مثال کے طورپر اگر شہری حضرات کو صاف و سالم ہوا میں رہنے کا حق ہے تو دوسرے لوگوں پر ذمہ داری ہے کہ وہ ہوا کو آلودہ اور خراب نہ کریں ، پر دوشن نہ پھیلائیں ، اس طرح اگر کسی کو اپنے مال میں تصرف کا حق ہے تو دوسروں پر ذمہ داری ہے کہ اس کے مال میں دست درازی نہ کریں ، ورنہ اپنے مال سے کوئی بھی بھرہ مند نہیں ہوسکتا، لھٰذا اگر اس کےلئے کوئی حق ثابت ہوتا ہے تو وہ اس کے بدلہ کوئی کام انجام دے، اگر کسی کو یہ حق ہے کہ وہ سماج کی تیار کردہ چیزوں کو استعمال کرے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی کسی طریقہ سے سماج کی خدمت کرے، اور مسئولیت و ذمہ داری کو قبول کرے، اور دوسروں پر بار نہ بنے،لھٰذا حق اور تکلیف ایک دوسرے کے لازم وملزوم ہیں ، لھٰذا یہ کہنا کہ انسان صرف حقوق کا طالب ہو، اور تکالیف کو قبول نہ کرتا ہو،یہ بات قابل قبول نہیں ہے-

توجہ رکھنا چاہیے کہ الٰھی اور غیر الٰھی تمام دانشمندان اور فلاسفۂ حقوق نے کلی طور پر ذمہ داری اور مسئولیت کی نفی نہیں کی ہے، بلکہ تکالیف اور ذمہ داری پر یقین رکھتے ہیں ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ معترض کی تکلیف سے مراد الٰھی تکلیف ہے، جس کا نچوڑ یہ ہے کہ خداوند عالم کو ہم پر تکلیف و ذمہ داری نہیں کرنا چاہیے، ورنہ تو ان کی نظر میں حق کے مقابلہ میں تکلیف ہونے سے گریز نا ممکن ہے کیونکہ تکالیف کو تمام عقلا ء اور دانشمندوں نے قبول کیا ہے ہماری بات کی تائید یہ ہے کہ خود انھوں نے صاف صاف کھا ہے کہ عبد اور مولیٰ کے درمیان رابطہ اور مولیٰ کی طرف سے حکم صادر ہونا اور اس کی اطاعت کا ضروری ہونا غلامی اور بردگی کلچر کے مناسب ہے-

۵- خدا کی نافرمانی تاریخ کی نظر میں

صرف آج کا ماڈرن انسان ہی خدا کی اطاعت اور تکالیف سے فرار اختیار نہیں کرتا بلکہ تاریخ میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جنھوں نے شیطانی وسوسوں کی خاطر خدا کی نافرمانی اور قانون شکنی کی ہے، یہ کہنا کھ:

انسان حقوق کا طالب ہے تکالیف کا نھیں ، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ شروع ہی میں حضرت آدم (ء)کے فرزند قابیل نے خدا کی معصیت کی اور کھلے عام تکالیف اور الٰھی قوانین سے سرپیچی کی، اور قانون شکنی کرتے ہوئے اپنے بھائی ھابیل کو قتل کرڈالا-

( وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَا ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَاناً فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهما وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْا خَرِ قَالَ لَا قْتُلَنَّکَ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰه مِنَ الْمُتَّقِیْنَ - - - - ) (۳)

"(اے رسول) تم ان لوگوں سے آدم کے دو بیٹوں (ھابیل وقابیل) کا سچا واقعہ بیان کردوکہ جب ان ددنوں نے خدا کی بارگاہ میں نذر پیش کی تو ان میں سے ایک (ھابیل) کی (نذر تو) قبول ہوآئی اور دوسرے (قابیل) کی (نذر) نہ قبول ہوئی تو (مارے حسد کے ھابیل سے) کھنے لگا میں تجھے ضرورمار ڈالوں گا، اس نے جو اب دیا کہ (بھائی اس میں اپنا کیا بس ہے) خدا تو صرف پرہیزگاروں کی (نذر) قبول کرتا ہے “

قرآن مجید میں پیغمبروں کے واقعات اس بات کی حکایت کرتے ہیں کہ اکثر لوگوں نے اپنے زمانے کے بنی کو جھٹلایا، اور نہ صرف یہ کہ ان کی بات پر لبیک نہیں کھا بلکہ ان پر تھمت و بہت ان لگاتے تھے اور ان کا مسخرہ کرتے تھے، یھاں تک کہ ان کو قتل بھی کردیتے تھے، یا ان کو شہر بدر کر دیتے تھے اگر کوئی بنی ان کیلئے مفید باتیں بیان کرتا تھا، مثلاً قرآن کے مطابق لوگوں کو کم فروشی سے روکتا تھا،جیسے قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

( لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ ا شْیَائَهمْ - - ) (۴)

”اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو“ ان کے جواب میں کھتے تھے:

( قَالُوا یَا شُعَیْبُ ا صَلَاتُکَ تَا مُرُکَ اَنْ نَتْرُکَ مَا یَعْبُدُ ءَ ابَائُنَا اَوْ اَنْ نَفْعَلَ فِیْ ا مْوَالِنَا مانَشَاءُ - - - - ) (۵)

”وہ لوگ کھنے لگے اے شعیب کیا تمھاری نماز (جسے تم پڑھا کرتے ہو) تمھیں یہ سکھاتی ہے کہ جن (بتوں ) کی پرستش ہمارے دادا کرتے آئے ہیں انہیں ہم چھوڑ بیٹھیں ،یا ہم اپنے مالوں میں جو کچھ چاہیں کر بیٹھیں “

ممکن ہے اس موقع پر کوئی کھے کہ تاریخ میں انبیا و اولیا الھی کے مقابلے کی وجہ بت پرستی، شرک اور شیطان کی پیروی تھی اور ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ انسان کسی بھی معبود کی اطاعت کی طوق اپنی گردن سے نکال دے، اور بتوں اور شیطان کی پیروی بھی نہ کرے، لیکن یہ کہنا بھی اولیا الٰھی کی نظر میں باطل اور مردود ہے،کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وحی الٰھی کے مطابق انسان ایسے راستہ پر پہونچ جاتا ہے کہ یا خدا کی اطاعت کرے یا طاغوت (شیطان) کی اطاعت کرے، اور وہ کسی کی بھی اطاعت نہ کرے اس کے لئے محال، اور اگرکوئی یہ نعرہ لگائے کہ میں کسی کا بندہ اور غلام نہیں ہوں ، در حقیقت ایسا شخص طاغوت اور اپنی ہوائے نفس کا غلام ہوتاہے اس وجہ سے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( اَللَّه وَلِیُّ الَّذِیْنَ ءَ امَنُوا یُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلٰی النُّورِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا ا وْلِیَاوهُمُ الطَّاغُوتَ یُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ اِلٰی الظُّلُمَاتِ— ) (۶)

”خدا ان لوگوں کا سرپرست ہے جو ایمان لاچکے کہ انہیں (گمراہی کی) تاریکیوں سے نکال کر (ھدایت کی) روشنی میں لاتا ہے اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے سرپرست شیطان ہیں کہ ان کو (ایمان کی) روشنی سے نکال کر (کفر کی) تارکیوں میں ڈال دیتے ہیں “

دوسری جگہ خداوند عالم ارشاد فرماتاہے:

( ا لَمْ ا عْهدْ اِلَیْکُمْ یَا بَنِی آدَمَ اَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّیْطَانَ اِنَّه لَکُمْ عَدُوٌّ مُبِیْنٌ ، وَاَنِ اعْبُدُونِی هٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِیمٌ-- ) -(۷)

”اے آدم کی اولاد کیا میں نے تمھارے پاس یہ حکم نہیں بھیجا کتھا کہ (خبردار)شیطان کی پرستش نہ کرنا وہ یقینی طور پر تمھارا کھلم کھلا دشمن ہے اور یہ کہ (دیکھو) صرف میری عبادت کرنا یھی (نجات کی) سیدھی راہ ہے “

اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر شیطان کی عبادت چھوڑ ی جائے تو پھر کسی دوسرے کی عبادت اور اطاعت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کو چاہیے کہ خدا کی عبادت کرے، جس طرح کہ کلمہ میں ”لاالٰہ" کے بعد ”الااللہ" ہے-

اس بنا پر جن لوگوں نے وحی پر توجہ کی اور خواب غفلت سے بیدار ہوئے وہ اس نتیجہ پر پہونچے کہ اس خدا کی عبادت کریں جو ان کا خالق اور حقیقی مالک ہے، اور جس کے ھاتہ میں ان کی زندگی، موت، جوانی، پیری،اور صحت و سلامتی ہے،اس کی بندگی باعث افتخار ہے، اس کی تکالیف حکمت و رحمت کے سرچشمہ سے صادر ہوتی ہےں ،اور ان پر عمل کرنا انسان کیلئے کمال اور سعادت کا باعث ہے-

نتیجہ یہ نکلا کہ تکالیف اور مسئولیت کو قبول نہ کرنا حیوانی درندگی صفت اور شیطانی پیروری کی وجہ سے ہے، کہ جو ہمیشہ تاریخ میں موجود ہے اور آج کے ماڈرن زمانے سے ہی مخصوص نہیں ہے، درحقیقت یہ ماڈرن انسان ہے کہ جس نے مدنیت سے کنارہ کشی اختیارکر لی ہے، اور جاہلیت و وحشیگری کے زمانے کی طرف پلٹ گیا ہے، اور گزشتہ زمانہ کی طرف پلٹ رہا ہے، وگرنہ انبیاء کی تربیت شدہ افراد نے حیوانیت اور وحشیگری سے کنارہ کشی کر لی ہے اور لا قانونیت سے نکل کر قانون، تکالیف اور مسئولیت کو قبول کر کے صحیح معنوں میں مدنیت کو قبول کرچکاہے-

لھٰذا بعض لوگ کس طرح یہ کھہ سکتے ہیں کہ ماڈرن زمانہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ انسان کسی بھی ذمہ داری کو قبول نہ کرے! یہ تمدن ہے یا وحشیگری؟ تمدن و محدویت، قانون اور مسئولیت قبول کرنے میں ہے ورنہ وحشیگری سے کوئی فرق نہ ہوگا-

لھٰذا جو لوگ قانون، تکالیف اور مسئولیت کا انکار کرتے ہیں وہ لوگ مدیریت اور وحشیگری کے قدیم زمانے کی طرف پلٹنا چاہتے ہیں اور یہ طے ہے کہ کوئی شخص اس نظریہ کے تحت، مقدس اور خلیفہ اللہ نہیں ہوسکتا، جس سے وہ ہمارے لئے نمونہ عمل قرار پاسکے، (اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ مدنیت اور قانون کی طرف مائل ہونا جیسا کہ ہمارے سماج میں رواج پیدا کر چکا ہے، اس کا مطلب مدنیت اور قانون مندی کے کمال پر پہونچتاہے تاکہ کسی بھی جگہ قانون کی خلاف ورزی نہ کی جائے،اور نہ ہی یہ کوئی نیا حادثہ ہوا ہے اورنہ ہی ہمارا سماج انقلاب کے بعد ۱۹ سال تک وحشیگری کا شکار تھا اور آج مدنیت کی طرف مائل ہواہے، بلکہ ہمارا یہ انقلاب مدنیت اور اسلامی تمدن پر استوار ہے، اور انقلاب کے اصل اہداف میں سے ہے کہ تمام مقامات پر الٰھی قوانین کی رعایت کی جائے-)

۶-خدا کی اطاعت اور آزادی

انبیاء علیہم السلام لوگوں کو خداپرستی کی دعوت دیتے تھے اور طاغوت کی پیروی سے روکتے تھے اس سلسلے میں خداوند عالم فرماتا ہے:

( وَلَقَدْ بَعَثْنَافِی کُلِّ اُمَّةٍ رَسُولًا ا نِ اعْبُدُوا اللَّه وَاجْتَنِبُو الطَّاغُوتَ ) (۸)

”اور ہم نے تو ہر امت میں ایک (نہ ایک) رسول اس بات کے لئے ضرور بھیجا کہ لوگو خدا کی عبادت کرواور بتوں (کی عبادت) سے بچے رہو“

اس چیز کے پیش نظر یہ بات قبول نہیں کی ہے کہ اسلام نے انسان کو اپنے علاوہ یھاں تک کہ خدا کی اطاعت سے بھی منع کردیاہے، اور یہ طے ہے کہ جو مذہب ہم کو خدا کی اطاعت کی دعوت نہ دے وہ باطل ہے اور جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا کہ انبیا علیہم السلام کا مقصد خدا کی مطلق طورپر اطاعت کرنے کی دعوت دیتا ہے، ہماری موت و حیات اسی سے وابستہ ہے

( اِنَّا لِلَّه وَ اِنَّا اِلَیْه رَاجِعُوْنَ- ) (۹)

”ہم تو خدا ہی کے ہیں او رہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں “

ہم خدا کی طرف سے ہیں اور خدا کی طرف پلٹ کر جانا ہے- اب جبکہ ہم نے خداوند عالم کو اپنا مالک حقیقی مان لیاتو پھر کس طرح یہ بات قبول کی جا سکتی ہے کہ خدا کو ہمیں حکم دینے اور فرمان صادر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، کیا مالکیت اس کے علاوہ ہے کہ مالک جس طرح بھی چاہے اپنی چیز میں تعریف کرے؟ لھٰذا یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ کوئی یہ کھے کہ ہم نے اسلام تو قبول کر لیا ہے لیکن ہم خدا کی بندگی کے قید و بند سے آزاد ہیں ، کیونکہ اس طرح کی مطلق آزادی نہ صرف یہ کہ اسلام قبول نہیں کرتا، بلکہ اس کو تو عقل بھی قبول نہیں کرتی-

اسلام آزادی کا نعرہ لگاتا ہے لیکن غیر خدا اور طاغوت کی عبادت و اطاعت سے آزادی و رہائی کا نعرہ لگاتا ہے، خداوند عالم کی اطاعت سے آزادی کا نعرہ نہیں لگاتا، اگرچہ انسان آزاد و مختار پیدا کیا گیا ہے، لیکن تشریعاً و قانوناً خدا کی اطاعت پر مکلف ہے یعنی ہم اپنے ارادہ و اختیار سے خدا کی اطاعت کریں ، اور یہ طے ہے کہ خلقت کے اعتبار سے میں ہر مخلوق پر بندگی اور عبودیت کی مھر لگی ہوئی ہے، تکوینی طور پر کوئی بھی مخلوق خدا کی بندگی کے لیبل سے خالی نہیں ہے اور ہر موجود کی پستی اس کی عین بندگی ہے:

( تُسَبِّحُ لَه السَّمَاوَاتِ السَّبْعُ وَالْا رْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّ وَاِنْ مِنْ شَیْ ءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِه وَلٰ-کِنْ لَا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ ) (۱۰)

”ساتوں آسمان اور زمین اور جو لوگ ان میں (سب ) اس کی تسبیح کرتے ہیں اور (سارے جہان) میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کے (حمد وثنا) کی تسبیح نہ کرتی ہو مگر تم لوگ ان کی تسبیح نہیں سمجھتے“

اس طرح خداوند عالم دوسرے موجودات کی عبادت اور بندگی کے بارے میں فرماتاہے:

( اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللَّه یُسَبِّحُ لَه مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْا رْضَ وَالطَّیْرُ صَافَّاتٍ کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَه وَ تَسْبِیْحَه-- ) (۱۱) -

”(اے شخص ) کیا تو نے اتنابھی نہیں دیکھا کہ جتنی مخلوقات سارے آسمان اور زمین میں ہیں اور پرندے پر پھیلائے (غرض سب ) اسی کی طرح تسبیح کیا کرتے ہیں ، سب کے سب اپنی نماز اور اپنی تسبیح کا طریقہ خوب جانتے ہیں “

لیکن چونکہ انسان صاحبِ عقل و خرد ہے، مختار و آزاد خلق کیا گیا ہے، اگرچہ خداوند عالم نے ہدایت و گمراہی کے راستے دکھا دئیے ہیں لیکن اپنے لئے راستہ کے انتخاب میں آزاد ہے جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:

( اِنَّا هَدَیْنَاه السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِراً وَ اِمَّا کَفُوراً-- ) -(۱۲)

”خواہ شکر گذار ہو خواہ ناشکر ا “

لھٰذا انسان کو اپنے ہدفِ خلقت کو مدنظر رکہ کر اور اس کو سوچ سمجہ کر خدا کی اطاعت و بندگی میں مشغول رہنا چاہئے، اور خداوند عالم کا تشریعی قانون بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ شیطان اور غیر خدا کی اطاعت میں قدم بڑھائے، بلکہ انسان کو خدا کی اطاعت اور الٰھی تکالیف کو انجام دےنا چاہئے ، کیونکہ خداوند عالم نے اسی مقصد کے تحت اس کو پیدا کیا ہے:

( وَمَا خَلَقْتُ الجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ-- ) (۱۳)

”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اسی غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں “

اور چونکہ خداوند عالم کی عبادت نظام خلقت و ھستی کے ہمنوا ہے اور خداوند عالم کی تکالیف کو انجام دینا اور الٰھی وظیفہ و مسئولیت پر عمل کرنا نیز اس خالق کا شکر ادا کرنا خود ایک مھربانی ہے کہ جو ہم کو حیات و زندگی عطا کرتا ہے اور اس کی عنایت اور لطف و کرم سے ہم کو صحت و سلامتی اور دوسری بہت سی نعمتیں عطا کی گئی ہیں جیسا کہ خداوند عالم حضرت ابراہیم علیہم السلام کی زبانی فرماتا ہے:

( اَلَّذِی خَلَقَنِی فَهُوَ یَهْدِیْنِ، وَالَّذِی هُوَ یُطْعِمُنِی وَیُسْقِیْن، وَاِذَا مَرَضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ، وَالَّذِی یُمِیْتُنِی ثُمَّ یُحْیِیْنِ- ) -(۱۴)

”جس نے مجھے پیدا کیا (وہی میرا دوست ہے) پھر وہی میری ہدایت کرتا اور وہ شخص جو مجھے (کھانا) کھلاتا ہے او رمجھے (پانی) پلاتا ہے اور جب بیمار پڑتا ہوں تو وہی مجھے شفا عنایت فرماتا ہے اور وہ شخص جو مجھے ما ڈالے گا اس کے بعد(پھر) مجھے زندہ کرے گا“

کس طرح خدا کی اطاعت سے انکار کیا جا سکتا ہے، اور کیا واقعاً یہ حق وانصاف سے بعید نہیں ہے کہ ہم یہ کھیں کہ اب ماڈرن انسان تکالیف و اطاعت کا تابع نہیں ہے، اور اپنے حقوق کا طالب ہے؟

کیا اسلام اس فلسفہ کو قبول کر سکتا ہے؟ واقعا ً ایسے نظریہ کااسلامی ہونا تو دور کی بات،یہ تو عقل اور انسانیت سے بھی خالی ہے-

حوالہ

(۱)سورہ اسراء آیت۱

(۲)سورہ فجر آیت۲۷،۲۹

(۳)سورہ مائدہ آیت ۲۷

(۴)سورہ ہود آیت ۸۵

(۵)سورہ ہودآیت۸۷

(۶)سورہ بقرہ آیت۲۲۵۷

(۷)سورہ یٰس آیت۶۰،۶۱

(۸)سورہ نحل آیت۳۶

(۹)سورہ بقرہ آیت۱۵۶

(۱۰)سورہ اسراء آیت۴۴

(۱۱)سورہ نورآیت۴۱

(۱۲)سورہ انسان آیت۳

(۱۳)سورہ ذاریات آیت۵۶

(۱۴)سورہ شعراء آیت۷۸-۸۱


7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24