اسلام اور سیاست جلد ۱

اسلام اور سیاست 0%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور سیاست

مؤلف: آیة اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 34331
ڈاؤنلوڈ: 2682


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 39 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34331 / ڈاؤنلوڈ: 2682
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد 1

مؤلف:
اردو

نواں جلسہ

دینی نظام میں قوانین کامقام

۱-اسلام کے سیاسی نظریہ کے اصول

اس بات کا خیال رہے کہ اسلام کے سیاسی نظریہ اور فلسفہ کی بحث سے متعلق اصول موجود ہیں ،بعض افراد ان سب کو قبول کرتے ہیں اور کچھ لوگ صرف بعض کو قبول کرتے ہیں اور چند ایسے بھی ہیں جو ان میں سے کسی کو قبول نہیں کرتے ہیں ، لیکن اس نظریہ کو ثابت اور بیان کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اصول کوبیان کیا جائے اور اس اعتبار سے کہ ان میں سے کچھ اصول بہت واضح ہیں لھٰذا صرف اس کے اشارہ اور مختصر توضیح پر اکتفا کی جائے گی ،اور واضح بحثوں کے ذکر سے اجتناب کیا جائے گاکیونکہ واضح اور روشن بحثوں کو کسی بھی علم میں بیان نہیں کیا جاتا ،اور زیادہ تر اصولی بحث کی جائے گی تاکہ بحث کے لئے راہ ہموار ہوسکے -

الف-قانون

ہماری بحث کے عناوین اور اصول میں بیان ہوا ہے کہ معاشرہ ،قانون کا محتاج ہے جیساکہ یہ بات بیان کی جاچکی ہے ، اسلام کے سیاسی نظریہ کی دوسری اصل یہ ہے کہ قانون کو خدا کی طرف سے ہو نا چاہیئے اور جیسا کہ یہ بات بھی بیان کی جا چکی ہے کہ اس کا نفاذبھی خداہی کی طرف سے ہونا چاہئے ، قانون الہی سے مراد یہ ہے کہ یا خود خدا نے قانون بنایا ہو اور اس کو قرآن میں نازل کیا ہو یا پیغمبر اکرم اور معصوم (ء)اماموں کو قانون بنانے کی اجازت ملی ہو،تاکہ مختلف حالات میں اسی کے اعتبار سے قانون بنائیں ، اسی بنا پر قانون کی تین قسمیں ہیں :

۱-وہ قانون جس کو خدا نے بنایا ہے اور پیغمبر اور امام (ء)اس کے بنانے میں شریک نہیں ہیں -

۲-وہ قانون جس کو معصوم (ء)نے خدا کی اجازت سے بنایا ہے -

۳-وہ متغیر قوانین جن کو کچھ افراد معصوم (ء)کی اجازت سے بناتے ہیں ، یہ قوانین اسلامی معاشرے کے لئے معتبر قرار دئے گئے ہیں ،اس لئے کہ آخر کا ر ان کی بازگشت حکم خدااور اس کی اجازت کی طرف ہوتی ہے ،اس بنا پر خداوند عالم خود قانون کو بناتاہے اور خدا کے قوانین قرآن میں ذکر ہوئے ہیں لیکن قانون کا نافذکرنے والا خدانہیں ہے قانون کا نافذکرنے والا یسا شخص ہونا چاہیئے جو معاشر ے میں موجودھواور لوگ اس کو دیکھتے ہوں ،وہ لوگوں کو امر و نھی کرے اور قوانین کو نافذکرے ،پھلے مرتبہ میں پیغمبر اور امام معصوم (ء)ھیں اوردوسرے مرتبہ میں وہ افراد ہیں جن کو پیغمبریاامام معصوم (ء)کی طرف سے نفاذِقانون کی اجازت ملی ہو ،اس بناپر کچھ حضرات پیغمبراکرم یاامام معصوم (ء)کے زمانے میں اسلامی علاقوں اور صوبوں کے والی اور کارندہ کے عنوان سے اجرا ء قوانین کے لئے بھیجے جاتے تھے اور غیبت امام (ء)میں اس کام کے ذمہ د ار فقھاء اور مراجع کرام ہیں جوبطور عام نصب ہو ئے ہیں ،اور قوانین کے اجراء کے ذمہ دارہیں -

اب تک جو کچھ بیان ہو ااس حکومت کے کلیات تھے کہ جس کے دو حصہ تھے قانون گذاری اور قوانین کا نفاز، اور جیسا کہ عدالت کا محکمہ در حقیقت اجرائی محکمہ کا ایک جزھے ، انشائا،،،ہم اس کی اہمیت کی خاطر الگ سے بحث کریں گے-

۲-طبعی اور بنائے گئے قوانین کی اہیمت

یہ بات بیان جاچکی ہے کہ ہماری بحث کے اصول اورمسلمات میں سے ایک اصل یہ ہے کہ معاشرہ کیلئے قانون کاہونا ضروری ہے،اور دوسری اصل یہ ہے کہ ہماری نظر میں ایسا قانون معتبر ہے جس کا بنانے والا بلاواسطہ یابالواسطہ خداہو،اس نظریہ کے مقابلہ میں ایسے بھی لوگ ہیں جنھوں نے یہ کھا ہے کہ معاشرہ قانون کا نیازمند نہیں ہے خواہ وہ قانون خدا بنائے، خواہ دوسرے افراد، البتہ اس موجودہ دور میں اس نظریہ کے طرفدار موجود نہیں ہیں ،کیو نکہ جن حالات میں ہم زندگی بسر کرہے ہیں سب قانون کی ضرورت کا احساس کرتے ہیں اور کوئی بھی ایسا نہیں ہے جومعاشرہ کے لئے قانون کی ضرورت کامنکر ہو،اس دور میں یھاں تک کہ ایک مختصر سے دیھات کے رہنے والے بھی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہیں کہ ایسے قوانین اور دستورات ہونے چاہئیں کہ جنکی وہ پیروی کریں -

لیکن گذشتہ زمانے میں زندگی بسرکرنے کا طر یقہ بہت سا دہ تھا کچھ لوگ اس بات کے قائل تھے کہ ہمیں قوانین بنانے کی ضرورت کوئی ضرورت نھیں ھے ،ان کی نگاہ میں عقل خود بخودفطری قوانین کو پہچان کرایک طرح کے فطری قوانین سے ٓاگاہ ہوجاتی ہے اور پھر اسے اس کی ضرورت نھیں رہتی کہ کوئی قانون بنائے گویا قدیم زمانہ میں فطری حقوق اور فطری قوانین کانظریہ انسانی معاشرہ میں اس شکل میں بیان ہواکہ جب لوگ یہ کھا کرتے تھے کہ کس قانون پر عمل کریں ؟ تو جواب دیا جاتا تھا کہ اپنے اندر نگاہ کر و یا اس دنیا پر نظر ڈالو تاکہ تمھیں پتہ چلے کہ کون سا حکم اور قانون وہاں پر حکم فرما ہے وہی قانون اپنے معاشرے میں نافذہو گا -

جیساکہ آپ نے ملاحظہ فرمایایھاں تک کہ فطری قانون کے نظریہ کی بناپر بھی قانون کی ضرورت ایک مسلم بات ہے اور یقینی طور پر اس طولانی تاریخ میں ایسے مفکرین کا وجود نہیں ملتا جو یہ دعوی ٰکریں کہ انسان کسی طرح کے قانون کا یھاں تک کہ قانون فطری کا بھی محتاج نہیں ہے اور اس سلسلے فلسفی حضرات کے یھاں جو بھی بحث پائی جاتی ہیں وہ اس بنا پر رہی ہیں کہ کیا قوانین عقلی ، فطری اور قوانین الہی سے مراد وہی قوانین ہیں جن کو تمام انسان اپنی عقل سے درک کرتے ہیں اور وہی معاشرے کے لئے کافی ہیں یا خاص طور پرجو قوانین بنائے گئے ہیں اس کے بھی ہم محتاج ہیں ،اور جیسا کہ ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ اگر گذشتہ زمانہ میں فطری قوانین یا عقلی قوانین یا مستقلات عقلیہ اپنی مختلف تفسیروں اور تعبیروں کے ساتھ کہ جن کے بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ہے معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کافی ہیں ،تو بغیر کسی شک وتردیدکے ،ہمارے زمانے کے حالات کے پیش نظریہ فریضہ قابل قبول نہیں ہے ،یھاں تک کہ بیان وتوضیح کے لائق بھی نہیں ہے-

آج ہر فرد اپنے گردو پیش مشاہدہ کرنے سے یہ سمجہ جاتا ہے کہ ہر روز اپنے دقیق اندرونی ،بیرونی اور بین الاقوامی روابط میں سیکڑوں اجتماعی اور بین الاقوامی قوانین کا نیازمند ہے انہیں میں سے ایک معاشرہی اور اندرونی ملک کے قوانین اور دستورات میں ٹریفک اور ٹریفک سے متعلق قوانین ہیں -

یہ حقیقت ہے کہ اگر اس زمانے میں قانون نہ ہوں تو ہر شہر اور علاقہ کے ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کا نظام کیا ہوگا ؟ اگر گاڑیوں کی رفتار ، اور انکے چلنے کی سمت(دائیں سمت چلیں یا بائیں سمت )یا ٹریفک کے دوسرے قوانین نہ بنائے جائیں تو کتنے حادثات رونما ہوں گے؟ دنیا کے کس علاقہ میں ایسا گروہ مل سکتا ہے جو بغیرقانون کے ایک ساتھ ایک جگہ پر زندگی گزارتے ہوں ،اور ان کے درمیان خطرات اور حادثات رونمانہ ہوتے ہوں ،یہ بات صحیح ہے کہ تمام ممالک میں ٹریفک کا قانون ایک جیسا نہیں ہواکرتا ہے مثال کے طور پر کچھ ممالک جیسے انگلینڈ،جاپان وغیرہ میں گاڑیاں بائیں سمت سے چلتی ہیں اور کچھ ممالک میں (جن میں سے ایک ایران بھی ہے)گاڑیاں دائیں سمت چلتی ہیں ، بہر حال قانون بنایا جاتا ہے ،اور انسان اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ رہتا ہے وہ یہ جانتا ہے کہ کس سمت حرکت کرناچائیے،مذکور ہ مثال معاشرہ میں قانون کی ضرورت کا ایک نمونہ ہے، اور بے شک یہ ضرورت دوسرے مسائل از جملہ خاندانی اور بین الاقوامی حقوق میں بھی پڑتی ہے اور اس کا احساس ہو تاہے-

بین الاقوامی قانون بنانے کی ضرورت کا ایک نمونہ د ریائے خزر سے متعلق مسائل ہیں جواب بھی اس کے حاشیہ نشین ممالک کے درمیان اس سے بھرہ مندھونے کے طریقہ میں اختلاف نظر آتا ہے ،فطری طور پر یہ قبول نہیں کیا جا سکتا کہ ہر شخص جس طرح سے چاہے دریا کے نیچے موجود تیل اور منابع اور دوسری ذخائر سے فائدہ اٹھائے اور تیل ،گیس اور دوسری چیزوں کے نکالنے میں کوئی قانون نہ ہو ،بلکہ ایسے قوانین بنائے جانے چاہئےں جو یہ معین کرےں کہ فلاں ملک کس حد تک دریاء کی گھرائی، موجود ہ ذخائر سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ،جو مشکلات اس وقت پڑوسی ممالک کے لئے کھڑی ہیں وہ اس وجہ ہے سے ہیں کہ کوئی معین قانون موجود نہیں ہے ،اور سب دریا کے ذخائر کے بارے میں ایک عادلانہ تقسیم کے لئے قوانین اور دستورات کی ضرورت کا احساس کرتے میں لھٰذابشر کی ضرورت کے پیش نظر قوانین و دستورات کی ضرورت پڑ تی ہے،اور جیسا کہ کمیٹیاں اور موافقت نامہ اور دریا اور ساحل سے متعلق قوانین (فضاء،کنویں وغیرہ )چند صدی قبل موجود نہیں تھے ،کیونکہ بشر کو اس کی ضرورت نہیں تھی ، پھر افراد ،گروہوں ،قوموں اور ملکوں کے درمیان ٹکراو اور اختلاف کی وجہ سے اس طرح کے قوانین کی ضرورت محسوس ہوئی-

اس بات کو پیش ِنظر رکھتے ہوئے کہ قانون ہر شخص اور معاشرہ کے دائرئہ حقوق کو معین کرتاہے ،قرآن مجید اس اصول کی طرف کہ معاشرہی زندگی قانون کی محتاج ہے خاص توجہ دلائی ہے ،البتہ شایانِ ذکر ہے کہ قانون کا وجود عام طور پرسماجی زندگی سے مخصوص ہے بلکہ اگر ایک فرد بھی زندگی گذارنا چاہتا ہے تو وہ کمال تک پہونچنے میں قانون کا محتاج ہے، البتہ فردی زندگی کے لئے اخلاقی قوانین ،کا فی ہو تے ہیں لیکن جس وقت اجتماعی مسائل میں لوگوں کے حقوق میں ٹکراؤپیداہوجاتاہے تو نتیجہ میں اختلافات وجود میں آتے ہیں اورکبھی کبھی دیکھنے میں آتاہے کہ اگر کسی نے حد سے زیادہ نھر کے پانی سے فائدہ اٹھالیاتو آپس میں لڑائی جھگڑے ہوجاتے ہیں ا ور ایسی صورت میں اجتماعی قوانین بنانے کی ضرورت واضح ہوجاتی ہے-

لھٰذا،یہ بات بالکل واضح اور روشن ہے کہ معاشرہ قانون کا محتاج ہے ، اور ہر عقل مند انسان یہ جانتاہے کہ بغیر قانون کے اجتماعی زندگی،انسان کا آرام وسکون اوراس سے بڑہ کر معنوی سعادت خطرے میں پڑجاتی ہے ،جو مثالیں ہم نے عرض کی ہیں ان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس طرح کے مقامات کے لئے کافی نہیں ہےں ، اور ہم قوانین کے محتاج ہیں اس لئے کہ عقل ،عدل وانصاف کا حکم دیتی ہے ، لیکن ایسی حکمت عملی اپنانے کے لئے جو عدل وانصاف قائم کرے ایک دوسرے قانون کے محتاج ہیں مثال کے طور پر عقل یہ حکم دیتی ہے کہ دریائے خزرکے ذخائر کو پڑوسی ممالک میں عادلانہ طور پر تقسیم ہونا چاہیئے ، تواس وقت یہ مسئلہ پیش آئے گاکہ عادلانہ تقسیم کسے کھتے ہیں ؟کیا عادلانہ تقسیم اس کو کھتے ہیں کہ جس ملک کا رقبہ زیادہ ہو وہ ذخائر سے زیادہ فائدہ اٹھائے ،یا جس ملک کے پاس دریا کا ساحلی حصہ زیادہ ہو یا ساحل نشین کی تعدادزیادہ ہو وہ دریا سے زیادہ فائدہ اٹھائے -قانون سازکے مرکزکو اس طرح کے سوالات کا جواب دینا چاہیئے ،اسکے علاوہ دوسرے تمام مقامات کے لئے بھی قانون سازکا ہو نا ضروری ہے ،دیکھنایہ ہے کہ قانو ن ساز کون ہو؟

ب -قوانین کا مرضی الہی اوردین کے مطابق ہونا ضروری ہے

اسلام کا دعویٰ ہے کہ قوانین کو خدانے بنایا اور پیغمبر اکرم کے ذریعہ لوگوں پر نازل کیاہے لھٰذا پہلی اصل کو قبول کرنے کے بعد قانون کی ضرورت ہے دوسری اصل یہ ہے کہ دین کو قانون ساز کے مرکز کے عنوان سے قبول کریں ،اس مرحلہ میں اسلامی حکومت میں ایسے لوگوں کا ہونا ممکن ہے جودین کو نہ مانتے ہوں چہ جائیکہ ایک شخص غیر اسلامی حکومت میں دین کو قبول کرتا ہو ،اگر کوئی یہ کھے کہ مجھے خداکے وجود میں شک ہے لھٰذامیں دین اور اس کے قوانین کو قبول نہیں کرتا ہوں تو پہلے مرحلہ میں آپ اس کے لئے یہ نھیں ثابت کرسکتے کہ قانون خداکو بنانا چاہیئے ،اور بنیادی طور پر جو شخص خدا کو نہیں مانتا ہے وہ قانون الہی کو بھی نہیں مانتا ہے ، پہلے فلسفی اور کلامی بحثوں سے خداکے وجود کو ثابت کرنا ہوگا، پھر کلامی اعتبار سے یہ بات ثابت کرنی ہوگی کہ پیغمبراور دین کا بھی وجود ہے -

بعد کے مراحل میں یہ بات بیان کی جائے گی کہ وہ قانون معتبر ہے جس کو خدا نے خود بنایا ہو یا خدا کے کسی وسیلہ کے ذریعہ بناہو ،اس سے پہلے ہم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ممکن ہے کوئی خدا، دین اور نبوت کو قبول کرتا ہو لیکن وہ اس بات کا معتقد نہ ہو کہ سماجی قانون خداکو بناناچاہیئے ،اس کی نظر میں انسان کو خدا کی حمددوثنا، عبادت اور اس سے رازنیاز کرنا چاہیئے مسجدوں اور عبادتگاہوں میں آمد ورفت رکھنا چاہیئے، لیکن انسان کی سماجی زندگی خداسے متعلق نہیں کہ جس کے لئے خداقانون بنائے ،اس سے قبل کی بحثوں میں ہم نے عرض کیا تھا کہ اس طرح کا نظریہ اسلام کی روسے صحیح نہیں ہے دین اسلام اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ کو ئی یہ کھے کہ اصل دین یعنی قرآن ، احادیث پیغمبراسلام، متواتر روایات اور پیغمبرو ائمہ علیہم السلام کی سیرت کو تسلیم کرتاہو ں لیکن ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلام کے سماجی قوانین سے میرا کوئی سرو کار نہیں ہے ؟

۳-دین کی ضروری باتوں کو قبول کرنا لازمی ہے

افکار وعقائد کے مجموعہ میں کچھ ثابت اور یقینی اجزاء ہو تے ہیں جن کو اصطلاح میں -ضروریات کھا جاتا ہے اور جوشخص بھی اس مجموعہ سے واقف ہے چاہے اس کو مانے یا نہ مانے، یہ جانتا ہے کہ وہ مجموعہ ان ثابت اجزاء پر مشتمل ہے دوسرے لفظوں میں ممکن ہے ہر مجموعہ کے سیکڑوں ممبر ہوں ، لیکن اس کا ایک معیار ہو نا چاہئے ،تاکہ وہ دوسرے مجموعوں سے الگ ہو سکے ، اس بنا پر اگر کسی نے دین کو ایک مجموعہ کی حیثیت سے قبول کیاہے تو اسے یہ قبول کر نا ہوگا،کہ یہ مجموعہ مستقل، دائمی اور یقینی ممبر رکھتا ہے تاکہ تمام مجموعہ سے الگ پہچانا جائے ، لیکن افسوس ! کچھ افراد کھتے ہیں کہ ہم اسلام کو قبول کرتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں تسلیم کرتے کہ اسلام ثابت اصول رکھتاہے اور تمام اشیاء کو مختلف تفسیروں اور مختلف تعبیروں کے قابل جانتا ہے ، وہ لوگ کھتے ہیں کہ ہم اسلام کے مخالف نہیں ہیں لیکن اسلام قبول کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ سب نماز پڑھیں ، وہ نمازکا عقیدہ رکھیں اور بعض افراد پڑھنے کے بھی عادی ہیں لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ جو شخص مسلمان ہے وہ ضرور نماز پڑھے اور نماز کو اسلام کے ثابت ارکان سمجھے !

روزہ کے سلسلے میں اور اسی طرح دوسرے تمام اجتماعی احکام کے بارے میں معتقد ہیں کہ پیغمبر اکرم، ائمہ معصومین علیہم السلام اور تمام مسلمان اس پرعمل کرتے ہیں لیکن یہ تسلیم نہیں کرتے کہ اسلام کا دار ومدار اسی روزہ ہی پر ہے، اگر یہ نہ ہو ں تو اسلام باقی نہیں رہے گا ، یھاں پر ایک سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اسلام کن بنیادوں پر قائم ہے کہ وہ اگر نہ ہوں تو اسلام باقی نہیں رہے گا ؟کیا آپ یہ تسلیم کر تے ہیں کہ اسلام میں تو حید ایک اصل ہے کہ اگر کو ئی اس کو قبول نہ کرے تو مسلمان نہیں ہے ؟

تو آپ جواب میں کیا کھتے ہیں کہ ہماری فہم کے مطابق اسلام سے یہ مفہوم سمجھنا صحیح ہے ممکن ہے کہ دوسرا شخص اسلام سے ایک دوسرا مفہوم سمجھتا ہو ،لھٰذا ہم یہ کھہ سکتے ہیں کہ اسلام سے صرف ہمارا سمجھنا صحیح ہے ممکن ہے دوسرا شخص اسلام سے یہ سمجھے کہ خداایک ہے یا چند خدا ہیں یا دین اسلام میں خداکا وجود بالکل ہے نہیں ، -اورہم ایسی دلیل پیش نہیں کر تے جو یہ ثابت کرے کہ ہم جو اسلام سمجھے ہیں وہ سب سے زیادہ صحیح ہے ! اگر ہم یہ دعویٰ کریں کہ ہم نے جو کچھ سمجہا ہے وہ بالکل صحیح ہے اور کسی کو دوسری تفسیر کرنے کا حق نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ ہم یہ کھہ سکتے ہیں کہ ہماری سمجہ ہماری نظر میں بہت ر ہے تو ایسا دوسرں کے بارے میں بھی صحیح ہے-

بے شک ایسے افراد صرف دھوکہ بازی اور چال بازی کا قصہ رکھتے ہیں ورنہ کسی علم اور علمی مرکزمیں دو مجموعہ کہ جن کے ممبران آپس میں شریک ہیں ان کو ایک دوسرے سے جدانہیں کیا جاسکتا ہے دومجموعوں کو ایک دوسرے سے اس وقت جدا کیا جاسکتا ہے جب ان دونوں کے ممبران مختلف ہوں یا کم سے کم ان میں سے کچھ کے درمیان فرق موجود ہو ورنہ دونوں مجموعے میں سے کوئی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکے گا ، ہمیشہ دو قسم کے مجموعہ میں فرق ہونا چاہئے تا کہ ایک مجموعہ کو دوسرے سے جدا کیا جاسکے ،اگران میں سے ایک مجموعہ کے تمام ممبران دوسرے مجموعہ کی جگہ قائم مقام ہوسکتے ہوں ، مثلااس مجموعہ کا (الف) ممبر دوسرے مجموعہ کے (الف) ممبر کی جگہ آئے اور اسی طرح اس مجموعہ کا(ب) کا ممبر دوسرے مجموعہ کے (ب)ممبر کی جگہ آئے تو اس وقت ایک دوسرے کومستقل سمجھنا درست نہ ہوگا -

اگر کوئی مجموعہ دین اسلام کے عنوان سے پہچانا گیا ہو اس میں دوسرے دین کے مقابلہ میں کوئی خوبی ہونا چاہئیے تاکہ اس سے الگ پہچانا جائے ، یعنی اس میں ایسے ثابت اصول ہونے چاہئیں جن پر اسلام استوار ہے اور ایسی صورت میں اگر ایسے اصول جیسے توحید،نبوت، معادیا نمازوعبادت کے اصول کے معتقد ہوں اور اسی کے ساتھ ان سب کو قابل تبدیل سمجھیں اور ان کے بارے میں مختلف تفسیریں بیان کریں تو ہم کسی بھی ثا بت رکن کو ثابت نہیں کرسکتے اور نہ ہی یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ یہ اصول اسلام کی ایک اصل ہے-

لھٰذا اگرہم یہ کھیں کہ اسلام کے نام پر کوئی معین مجموعہ موجود نہیں ہے،توایسی شکل میں ہم کس چیز سے دفاع کریں ؟کس طرح سے لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں ، اگر ہم ان کو مسلمان ہونے کا طریقہ نہ بتائیں اور ان سے یہ کھیں کہ اسلام کوجس انداز سے اور جس طرح سے سمجھے ہوویسے ہی اس پر عمل کرواوراسلام سے اپنی فہم وادراک کے مطابق عمل کرو!اگرتم اس نتیجہ پر پہونچے کہ نماز پڑھو، تو نماز پڑھو ،اور اگر تم اس نتیجہ تک پھو نچے کہ نماز نہیں پڑھنا چاہیے تو نماز نہ پڑھو،تم آزاد ہو، اور اپنی فہم کے مطابق عمل کرو! ،تو اسلام سے اسطرح کا ادراک،مسیحیت یا دوسرے مذاہب کے ادراک سے کیا فرق رکھتا ہے؟ پھر کیوں لوگوں کو اسلام کی طرح دعوت دیں !اگر یہ طے ہے کہ ہر شخص اپنے فہم وادراک کے مطابق عمل کرے اور کوئی اصول،اور ثابت کلیہ موجود نہ ہو تو ہم صرف لفظی طور سے لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دے رہے ہیں ،اس فکر کی بنیاد پر پھر یہ فرق باقی نہیں رہ جاتا کہ ہم لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دے رہے ہیں یا مسیحیت کی طرف یا اصلاًبے دےنی کی طرف دعوت دے رہے ہیں !

۴-اسلام،اصول اور ثابت معرفتیں

کسی شخص کا یہ کہنا دھوکہ بازی اور نفاق ہے کہ میں اسلام کو قبول کرتا ہوں لیکن اسلام سے ایک ثابت مفہوم کو درک نہیں کرتا ، اس کے تمام اصول قابل تبدیل ہیں اور مختلف تفسیریں ہیں ،ایسی صورت میں اسلام سے وہی بات سمجھنا ممکن ہے جو مسیحیت سے سمجھی جاتی ہے تو ان دونوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا اور ایک مسلمان اور مسیحی میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا،مثلاہر ایک بلنڈ نگ مستحکم اجزاء سے بنتی ہے جیسے ستون، دیوار اور چھت وغیرہ، اور پھر ایک مدت کے بعد ویرانہ میں تبدیل ہوجاتی ہے یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ بلنڈنگ -کے اجزاء مستحکم نہیں ہیں ،یہ نہیں کھہ سکتے کہ ایک بلنڈنگ میں ستون ،دیوار اور چھت ہےں تو بلنڈنگ ہے اور اگر نہیں ہےں تب بھی بلڈنگ ہے ،اگر زمین ،ھوا اوردریا میں ہو تب بھی بلڈنگ اور اسمیں کسی طرح کی خصوصیت اور مستحکم وثابت اجزا ء موجود نہیں ہوتے ہیں ،اسی طرح اسلام بھی ثابت اور معین اجزاء سے وجود میں آتا ہے اور اگر اسلام میں ثابت اور کلی اصول نہ ہوں تو ہم یہ نہیں کھہ سکتے کہ یہ مجموعہ ہے اور وہ اسی طرح کامجموعہ ہے-

اس بنا پر اگر کوئی اسلام کو قبول کرے تو اسے چاہئے کہ اِس مجموعہ سے ایک حصہ کو ثابت اجزاء کے عنوان سے قبول کرے البتہ ممکن ہے کہ اس مجموعہ کا ایک حصہ مشکوک بھی ہو ،یا ایسا کھلاہوا مجموعہ ہو کہ جس میں کچھ اجزاء کم وزیاد ہو سکتے ہوں ،لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک مجموعہ میں کسی طرح کے ثابت اجزاء نہیں پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ایک مشخص مجموعہ کے عنوان سے باقی رہے -

اسلام کے بنیادی اور کلی عناصر کو دوست ودشمن سب جانتے ہیں توحید،نبوت اور معاد کے علاوہ اسلام میں دوسرے بھی سیاسی امور ہیں جو سب جانتے ہیں حد ہے کہ منکرین خدابھی اس سے واقف ہیں ،نمونہ کے طور پر نمازاور حج کو اسلام کے اصلی عناصر کا جزء سمجہا جاتاہے دنیاکے تمام افراد یہ جانتے ہیں کہ مسلمان مخصو ص دنوں میں حج کرتے ہیں ،ایسی صورت میں کیا کو ئی یہ کھہ سکتا ہے کہ جس اسلام کو میں نے سمجہا ہے اس میں حج نہیں ہے ، سبھی یہ جانتے ہیں کہ اسلام میں نماز ہے اب اگر کو ئی یہ کھے کہ میں اسلام کو قبول کرتاہوں لیکن اسلام سے جو میں سمجہا ہوں اس کی بنیاد پر نماز ،اسلام میں نہیں ہے تو ایسا شخص یا اسلام کو نہیں سمجہا، یا جھوٹے طریقہ سے اپنے کو مسلمان کھلواتا ہے جبکہ منافق یا دھوکہ بازھے، اور یہ اس لئے کرتا ہے کہ اپنے کو مسلمان بتاکر ایک مسلمان کی خصو صیت سے محروم نہ کرے، اور اسے اسلامی معاشرہ سے نکالانہ جائے، ورنہ نماز،روزہ اور حج اس مجموعہ کے ثابت ارکان میں سے ہیں ، اور مسلماً تمام مسلمانوں کے نزدیک دن کے ضروری مسائل کا جزء ہیں -

اگر کوئی اسلام سے واقف ہوتو کیا وہ یہ کھہ سکتاہے کہ اسلام میں چوری سے روکنے کے لئے سزاکا قانون نھیں ھے جب کہ قرآن نے آیت:

( اَلسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ- ) (۱)

میں اس مسئلہ کی صراحت کی ہے ، اسی طرح دوسرے تمام مقامات پر بھی قرآن کی صریح نص موجود ہے

لھٰذا اسلام کے ضروری احکام ثابت کر دیئے گئے ہیں اور اب ہمارے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہم پھر سے انہیں سمجھیں اور ایک ایک کو ثابت کریں ، اس بناپر اگر یہ ثابت ہو گیا کہ اسلام جس کی بنیاد قرآن پر ہے وہ خدا کی جانب سے آیا ہے اور حق ہے تو یہ قبول کر یں کہ جو کچھ بھی قرآن میں ہے وہ حق ہے اور قرآن ایک طرح کے محکم ، قطعی اور ضروری امور پر مشتمل ، البتہ کچھ آیتوں کی مختلف تفسیریں ہونا ممکن ہےں ،لیکن ایک آیت سے صرف دو مختلف تفسیروں کا وجود اس بات کی غمازی نہیں کرتا کہ قرآن سے کسی ثابت اور قطعی امور کا استنباط نہیں ہو سکتااور ہر شخص جو چاہے اس سے درک کرے-

اگر کوئی شخص عربی زبان سے واقف ہے اورقرآن کی طرف مراجعہ کرے تو وہ قرآن سے ایک ایسے مطلب کو درک کرسکتا ہے کہ جو انسان کے مختلف ادراکات سے کوئی ربط نہ رکھتا ہو،اور نہ ہی اس کا گذشتہ افکار و مسلمات سے کوئی رابطہ ہو ، اور نہ ہی ہمارے ان قوانین کے تابع ہو جن کو ہم علوم سے درک کرتے ہیں مثلاًقرآن کی ایک آیةھے جو ہمیں نماز کا حکم دیتی ہے یا ایک ایسی آیت ہے جو چور کے ھاتہ کاٹنے کا حکم دیتی ہے وہ شخص جو کسی زمانے میں عناصرچھار گانہ ، ساتوں آسمان کا معتقد تھاآیت سے وہی سمجہ رہا تھاجو آج” انیشٹن“ کی نسبت کی تھیوری کے بعد سمجہ رہاہے اوراستنباط کر رہا ہے اور یہ نہیں کھاجا سکتا کہ آج انیشٹن کی نسبت کی تھیوری پائی جارہی ہے لھٰذاآیت کے معنی بدل گئے ،ممکن ہے کہ ایسی آیت ہو جس کے کلمات لغات میں تبدیل اور دوسرے علمی مسائل سے مربوط ہوں ،لیکن کچھ مطالب ایسے ہیں جن کا سمجھنا دوسرے مختلف علوم سے مربوط نہیں ہے اور فطری طور سے ان میں تبدیلی کا شبہ بھی نہیں پایاجاتا-

۵-قرآن کریم کے ثابت اور قطعی احکام ومفاہیم

ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ اسلام میں ایک طرح کے ضروری احکام موجود ہیں جو کہ ثابت ہیں خواہ کوئی مسلمان ہو نہ ہو یہ جانتاہے کہ اسلام میں کچھ ضروری مسائل ہیں ،اسی طریقہ سے ایک طرح کے قطعی مفاہیم قرآن سے بھی استنباط ہوتے ہیں چاہے کوئی قرآن کو قبول کرے یانہ کرے ،وہ قرآن سے ان مطالب کو درک کرتاہے اور ان مطالب کا سمجھنا عربی سے واقفیت پر موقوف ہے ، اس کے مسلمان ہونے پرنھیں ، ہماری گفتگوان چیزوں کے بارے میں ہے جو کسی اعتبار سے قابل تغییرنھیں ہیں اور نظریات کے اختلاف اور ادراک کے اختلاف کے باوجود اس کے معنی اور مفہوم اپنی جگہ پر ثابت اور قطعی اور قابل اعتراض ہیں مثلاًجملہ( ا قِیْمُوْا الصَّلاٰةَ- ) (۲)

کے معنی نمازکے واجب ہونے کے ہیں اور جملہ( کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامَ- ) (۳) کے معنی روزہ کے واجب ہونے کے ہیں ،چاہے جیسی علمی تھیوریاں ایجاد ہوں اور اس میں تجدید نظر ہو لیکن قرآن کے فہم و ادراک میں تبدیلی نہیں آئے گی اس کے احکام اپنی جگہ پر مسلم ہیں ، جس وقت ہم دین کی ضروری مسائل کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں ان کو یقینی ،مستحکم ناقابل تبدیل سمجھتے ہیں کیونکہ ان کو اسلام کے اصلی اور قطعی منابع یعنی قرآن اور احادیث سے حاصل کیاگیا ہے اور جو لوگ ضروریات دین کے منکر ہیں اور لمبی چوڑی باتیں کرتے ہیں کہ اسلام سے مستحکم اور یقینی اصول نہیں سمجہاجاسکتا،تویا تووہ مسئلہ میں شبہ کے شکار اور جاہل ہیں یا تعصب کرتے ہیں اوراسلام پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ،بلکہ مسلمانوں سے کھیلتے ہیں -

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کی سیاسی حکمت عملی ثابت اصول اور ضروریات میں سے ایک یہ ہے کہ قانون خداکی طرف سے بنے اور جو لوگ قانون الھی ٰکے منکرہو گئے ہیں در اصل وہ ضروریات دین کے منکرہیں جس طریقہ سے قرآن کریم سے نمازپڑھنے کے وجوب کو سمجہاجاتاہے،زناکار مرد اورزناکار عورت کا حکم سمجہاجاتاہے اور جتنی صراحت کے ساتھ قرآن میں نمازو روزہ کا حکم ثابت ہے اتنی ہی صراحت کے ساتھ پیغمبرکی اطاعت بھی واجب ہے اور شریعت اسلام میں پیغمبر کے مقام کو ”مفترض الطاعة“کے عنوان سے پہچاناگیاہے - خداوندعالم اس بارے میں فرماتاہے:

( یَاا یُّهَا الَّذِیْنَ ءَ امَنُوْا ا طِیْعُوْا اللّٰه وَا طِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَا وْلِی الا مْرِ مِنْکُمْ- ) (۴)

”اے ایماندارو! خدا کی اطاعت کرو اوراس کے رسول کی اور جو تم میں سے اولی الامر ہوں “

اسی طرح ارشاد ہوتاہے:

( وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلَ فَخَذُوْا وَمَانَهاکُمْ عَنْه فَانْتَهوْا ) (۵)

”ھاں جو تم کو رسول دے دیں وہ لے لیا کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو“

جب تک مندرجہ بالا آیات کے مطالب کو تسلیم نہ کیا جائے جن میں اسلام کے ضروری احکام بیان ہوئے ہیں ورنہ اس وقت تک اسلام کو تسلیم نہیں کیا جاسکتااورایسی شکل میں انسان کا ان لوگوں میں شمار کیا ہوگاجن کے قول کی خداوندعالم یوں حکایت کررہا ہے :

( وَیَقُوْلُوْنَ نُومِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ- ) (۶)

”اور کھتے ہیں کہ ہم بعض (پیغمبروں ) پر ایمان لائے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں “

اور اسی کے بعد خدا ان کے بارے میں یہ بھی فرماتاہے:

( ا وْلَئِکَ هُمُ الکَافِرُوْنَ حَقّاً- ) (۷)

”یھی لوگ حقیقتاً کافر ہیں “

لھٰذا جو شخص اسلام کا معتقد ہے اس کو ایک سرے سے اس کے تمام قوانین اور احکام کو مانناچاہیئے ،اور یہ عقیدہ رکھنا چاہئے کہ اسلام کے تمام ضروری احکام علمی تبدیلیوں کے تابع نھیں ہیں کہ جو علمی نظریات یا نئی علمی تھیوریوں کی وجہ سے ان میں تبدیلی رونما ہوجائے ایسی شکل میں جو نمازسے مربوط آیت کو حق سمجھتا ہے اور چوری سے متعلق آیت کو حق جانتا ہے اگر چہ اسے قرآن میں متشابہ اور محمل آیات ملتی ہیں ، جن کو وہ اسلام کے متغیرقانون کی حیثیت سے پاتاہے ،لیکن یہ یقین رکھتاہے کہ قرآن اور اسلام میں ایسے مستحکم اور یقینی اصول موجود ہیں جو دوسرے تمام متغیراصول سے الگ پہچانے جاتے ہیں -

۶-اسلام مختلف تعبیربیں رکھتا ہے-

(ایک اعتراض اور اس کا جواب)

یہ بات تواضح ہے کہ کچھ آیات سے مختلف طرح کے مطالب سمجھے جاتے ہیں اور مختلف طرح کی تفسیریں بیان کی جاتی ہیں اور اسلام کے کچھ احکام میں اختلاف نظرپایا جاتاہے جواس بات کا باعث نہیں بنتاکہ اسلام کے سارے قوانین مشتبہ اور اختلافی ہیں ،اسلام میں ایسے ھزاروں قطعی احکام موجود ہیں جن کے بارے میں تمام اسلامی فرقوں کا اتفاق نظرپایا جاتاہے لیکن فرعی اور بہت مختصر احکام میں شیعہ اور سنی حضرات کے درمیان اختلاف پائے جاتے ہیں ، اور فقہ کے ایک عظیم حصہ میں فریقین کے یھاں اختلاف نظر نہیں پایاجاتاہے اسی طرح سے شیعہ فرقے کے کچھ احکام میں فقھا کے درمیان فتوؤں میں اختلاف کا ہو نا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ تمام احکام میں اختلاف پایاجاتاہے،جس طرح ایک مخصوص بیمار کے بارے میں دو ڈاکٹر وں کی تجویز کا الگ الگ ہونا اور دونوں کے نسخوں کا فائدہ بھی ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ علمِ ڈاکٹر ی میں پائیدار اور استوار قوانین نہیں پائے جاتے ہیں -

اسی بناپر اسلام میں ایک طرح کے قطعی اور یقینی احکام موجود ہیں جس میں کسی طرح کا شک وشبہ نھیں پایاجاتاہے ،اور بعض مقامات پر اختلاف نظر کا ہو ناہمیں اس بات کا سبق نہیں دیتا کہ ہم مسلّم احکام نہیں رکھتے اور اس بھانہ سے ہم اسلام سے الگ ہو جائیں ،اس کے باوجود آج جب اسلام کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے تو قلبی مریض اور قرآن کے ارشادکے مطابق:( اَلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ- ) (۸)

”پس جن لوگوں کے دل میں کجی ہے“

کھتے ہیں کہ کونسا اسلام ؟وہ اسلام جس کو شیعہ بتاتے ہیں یا وہ اسلام جس کو سنی بتاتے ہیں ؟یا وہ جس کو فقھاء بتاتے ہیں یا وہ جس کو دانشورحضرات بتاتے ہیں ؟اس کے باوجود کہ ہم اعتقادات ،اخلاقیات ، فردی احکام ،سماجی ا حکام،تجارت کے قوانین اور بین الاقوامی قوانین میں ایک طرح سے ثابت حقوق اور ھزاروں متفق علیہ قوانین رکھتے ہیں ، تو پھر کیوں وہ لوگ بجائے اس کے کہ یقینی اور مسلم قوانین کو اپنائیں اختلافات اور افتراقات کو اپنائے ہوئے ہیں ؟اور جب ان سے یہ کھا جاتاہے ہماری یونیورسٹیوں کو اسلامی ہو نا چا ھئے توکیوں روحی بیمار اور کج فکر لوگ پوچھتے ہیں کہ کون اسلام ؟اس کا جواب یہ ہے کہ وہی اسلام جو یہ کھتاہے کہ دوسروں کے حقوق کو پامال نہیں کرنا چاہیئے ،عدالت کو قائم کر نا چاہیئے کیا ان چیزوں میں اختلاف پایا جاتاہے؟

اگر آپ انہیں یقینی اور متفق علیہ قوانین کو جن کے بارے میں فریقین میں اختلاف نہیں ہے یونیورسٹیوں میں اپنائیں تو آپ نھایت خوش ہونگے،یہ فطری بات ہے کہ جب وہ لوگ نہیں چاہتے کہ اسلام کے مطابق عمل کریں تو بھانہ تلاش کرتے ہیں کہ کس نے کھا ہے کہ فقھاء کا اسلام نافذکیا جائے اور روشن فکروں کا اسلام نافذ نہ کیا جائے ؟

۷-اسلام انسان کی تمام ضرورتوں کو پوراکرتاہے

اس بات کو ثابت کرنے کے بعد کہ اسلام میں قوانین اور سماجی احکام موجود ہیں مختلف طرح کے سوالات اور شکوک پیدا ہوتے ہیں انہیں میں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ بات عقلاًممکن ہے کہ انسان کی تمام ضروریات مختلف زمانے میں ایک مجموعہ میں بیان کردی گئی ہوں ؟دوسری بات یہ کہ کیاوہ اسلام جس کا منبع قرآن اور معتبر روایات ہیں اس کے اندر اتنی صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ تما م چیزوں کو ، جس کی انسان کومختلف زمانوں اور صدیوں میں ضرورت پڑتی ہے اپنے اندر رکھتاہو،مذکورہ سوال کے دو حصے ہیں ایک ثبوتی حصہ دوسراثباتی اور دونوں جھتیں یعنی ثبوتی اور ثباتی قابلِ بحث وتحقیق ہیں ،البتہ یہ یقین رکھنا چاہیئے کہ اعتراض قابلِ غور وفکر ہے ،اور آغاز بحث میں اس کا جواب آسانی سے نہیں دیا جاسکتا اور توجیہ نہیں کی جاسکتی ، لیکن ان توضیحات کے مدنظر جو اس سے قبل ہم نے دی ہے اس کا جواب اتنا مشکل اور دشوار نہیں ہے-

الف :سوال کے ثبوتی پہلوکی تحقیق

ثبوتی نقطہ نظرسے اس اعتراض کہ کس طرح سے قوانین کا مجموعہ ،انسان کی زندگی کے تمام مراحل میں اس کی ضرورتوں کا جواب گو ہوسکتا ہے ،اس کا جواب یہ ہے کہ قطعی طورپر انسانوں کے اندر صلاحیت نہیں پائی جاتی کہ وہ انسان کے لئے مختلف صدیوں اور زمانوں قانون کا ایک کامل مجموعہ میں بنائے ،اس لئے کہ اس بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کہ بشر اپنی محدود ذہنیت اور ناقص معلومات کے ذریعہ یہ صلاحیت نہیں رکھتاہے کہ وہ انسان زندگی کے تمام گوشوں اور تمام حالات سے بحث کرے اور ہر ایک کے لئے مناسب قانون بنائے-

لیکن اس ذات کےلئے جس نے بشر کو پیدا کیا ہے جو تمام ماکان ومایکون کے حالات سے واقف ہے جس کی نظر ماضی ،حال اور مستقبل پر یکسان ہیں ھزاروں سال قبل وبعد کی اشیاء کو واضح انداز میں دیکھتا ہے اس کے قانون کے مجموعہ کی توضیح اور تشریح ممکن اور میسر ہے، لھٰذایہ نہیں کھا جا سکتا کہ انسان کی اس طولانی تاریخ میں تمام انسانوں کے لئے قوانین کا ایک کامل مجموعہ جو انسان کی زندگی کے تمام مراحل پر مشتمل ہو ممکن نہیں ہے ،اس لئے جو گذشتہ اور آئندہ کی چیزوں کی خبر رکھنے والااور انسانی وجود کے تمام پہلوؤں کی خبر رکھنے والا ہو، وہ اس طرح کے قوانین کو بناسکتا ہے-

ب:-سوال کے اثباتی پہلو

اعتراض کے اثباتی پہلو یعنی جس چیز کو تم خدا کی طرف منسوب کرتے ہو اور وہ قرآن اور متواترروایات میں بیان ہوئی ہے ،خاص طور سے اگر ہم صرف ان مسلمات اور یقینی قوانین کو اپنائیں ،تو کس طرح ہر زمانہ میں محدود قانون بشر کی تمام ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم ہر چیز کے بارے میں خاص قانون پیش کریں جس میں اس جگہ اور اس زمانہ کے تمام شرائط کا لحاظ کیا گیا ہو اور اس وجہ سے کہ قانون کے نیازمند مسائل محدود نہیں ہیں اور اس کی رغبت بے انتھاء ہے اور اس کے مقابلہ میں ہماری ادراک ،فہم ، ذہن اور سمجھنے کی صلاحیت محدود ہے لھٰذا ہم تمام مسائل کو ایک خاص اور معین شکل اور مکمل طریقہ سے حاصل اور معیں نہیں کرسکتے لیکن یہ کھا جاسکتا ہے کہ بے شمار مسائل کے بے شمار دستہ نہیں ہیں ،اِن مسائل میں ہر مجموعہ ایک کلی عنوان رکھتا ہو اور اس عنوان کا ایک خاص حکم ہو ،لھٰذا کلی حکم ثابت اور محدود ہے اور ان کے مصادیق بے شمار ہیں ا ور ان میں تغیّر وتبدّل ہوتا رہتا ہے -

ممکن ہے کہ کسی ایک زمانہ میں کوئی ایک مصداق کسی ایک حکم کو شامل ہور دوسرے زمانہ یادوسرے حالات میں ایک دوسرے عنوان کے تحت قرار پائے اور بدل جائے ،لھٰذا موضوعات میں مختلف اور بے شمار تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں ،لیکن لا محدود اورکلی عناوین ثابت رہتے ہیں ،یہ حقیقت ہے کہ انسان کی زندگی کے حالات مختلف ہیں اور ہر روز حالات بڑھتے رہتے ہیں ،اور زمانہ کی ترقی اور اجتماعی زندگی کے ساتھ ساتھ نئے مسائل بھی پیداہوتے رہتے ہیں کہ جن کے بارے میں خاص قوانین کی ضرورت ہوتی رہتی ہے ،تاکہ انسانی ضرورت پوری ہو سکے ،البتہ ان متغیر قوانین کو خاص معیار کی ضرورت ہے کہ اگر انسان ان ثابت اور کلی معیار کو پہچان لے اور اس کی اجازت سے کہ جس نے کلی قوانین کو نازل کیا ہے اور لوگوں تک ان قوانین کے کلی معیار کو پھچنواناہے تو پھر کسی بھی خاص مقام کے لئے قانون بناسکتا ہے -

ہماری اس بات کا کہ (قوم و ملت میں اسلام کے قوانین نافذ ہونے چاہئے) مطلب یہ ہے کہ صرف وہی قوانین نہیں ہیں جو براہ راست خدا کی طرف سے نازل ہوتے ہیں بلکہ پیغمبر وامام معصوم (ء)اور وہ حضرات کہ جو ان قوانین کی حقیقت سے آگاہ ہیں اور ان کے معیار کو بخوبی جانتے ہیں اور کلی قواعد اور تزاحم کی صورت میں کسی ایک کی حجیت کو تشخیص دے سکتے ہیں ان کے مصادیق اور قوانین کلی کی حاکمیت اور اہمیت کو معین کر سکتے ہیں اور بدون شک یہ کام الہی قوانین کی بنیاد پر قائم ہے-

حوالہ

(۱)سورہ مائدہ آیت ۳۸

(۲) سورہ بقرہ آیت ۴۳

(۳)سورہ بقرہ آیت ۱۸۳

(۴)سورہ حشر آیت ۷

(۵)سورہ نساء آیت ۵۹

(۶) سورہ نساءآیت ۱۵۰

(۷) سورہ نساء آیت۱۵۱

(۸) سورہ آل عمران آیت ۷